رسائل و مسائل


کیا اللہ اور رسولؐ کا کوئی ارشاد بے عملی کا باعث بن سکتا ہے؟

سوال : میں ایک طالب علم اور دینی ذوق رکھنے والا مسلمان ہوں، مگر کچھ عرصے سے ایک عجیب اُلجھن پیدا ہوگئی ہے جو حل ہونے نہیں پاتی۔ متعدد اہلِ علم سے رجوع کیا مگر   تسلی نہ ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا قرآن اور کتب ِ حدیث میں اس قسم کی آیات و روایات آئی ہیں، جن سے نماز، روزہ اور دیگر اعمالِ صالحہ کی اہمیت کم ہوجاتی ہے، مثلاً مسلم اور ترمذی وغیرہ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یومِ عاشورا کا روزہ گذشتہ سال کے گناہوں کا کفّارہ ہے۔ عشرۂ ذی الحجہ کے روزوں کے بارے میں احادیث ہیں کہ ہر روزے کا ثواب سال بھر کے روزوں کے برابر ہے۔ حضرت ابوقتادہؓ کی روایت ہے کہ اس سے دو سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ یومِ عرفہ کے روزے کا ثواب بھی اتنا ہی مذکور ہے۔ اگر واقعی یوں ہی ہے، تو پھر کیا اس سے گناہوں پر آزادی کا ثبوت نہیں مل رہا؟ اس کے بعد نماز، روزہ کرنے اور گناہوں سے بچنے کی کیا ضرورت رہی؟ حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ جس نے لا الٰہ الا اللہ کہہ دیا، وہ جنت میں داخل ہوگیا۔ مشکوٰۃ میں نمازِ تسبیح کے فضائل بیان ہوئے ہیں کہ اس سے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔  ابوداؤد اور  مسنداحمد میں بیان کیا گیا ہے کہ چاشت کی نماز سے ساری زندگی کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ مشکوٰۃ میں ہے  کہ ’’اس کے بعد گناہوں سے کون بچے گا اور نیکی کی تکلیف اُٹھائے گا؟‘‘ سورئہ رحمن میں فرمایا: وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنّٰتٰنِ،کیا جو شخص رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے، مگرکوئی اچھا عمل نہ کرے اُسے دو جنتیں یا دو باغ مل جائیں گے؟ سورئہ حم السجدہ میں آیا ہے کہ ’’جو لوگ کہہ دیں کہ ہمارا رب اللہ ہے، پھر اس پر جم جائیں، اُنھیں فرشتے جنت کی بشارت دیتے ہیں۔ اس طرح کی بہت سی آیات و روایات ہیں جو آپ کی نظر میں ہوں گی۔ اس سے جو غلط فہمی اور ابہام پیدا ہوسکتا ہے، اُس کا سدِّباب کیسے ہوسکتا ہے اور جو اعتراضات و اشکالات سامنے آتے ہیں اُن کا کیا جواب دیا جائے گا؟

جواب:آپ کے سوال کا جواب دینے کے لیے خاصی طویل بحث کی ضرورت ہے۔ سرِدست مختصر جواب دیا جا رہا ہے۔ خدا کرے کہ موجب ِ تشفی ہو۔

آپ نے قرآن و حدیث کا مطالعہ کرتے ہوئے جو نقطۂ نظر اختیار کیا ہے اُس میں بنیادی غلطی یہ ہے کہ آپ نے اپنے سامنے صرف ایک پہلو اور رُخ رکھا ہے اور صرف اُن آیات و احادیث کو مرکز توجہ بنا لیا ہے جن میں   بعض اعمالِ حسنہ کے نتائج بیان کیے گئے ہیں اور اُن نصوص کتاب و سنت سے بالکل نظر ہٹالی ہے جن میں اعمالِ سیئہ کے نتائج بھی بیان کیے گئے ہیں۔ ایک مومن کا صحیح مقام بین الخوف والرجاء (اُمید و بیم کے درمیان) ہے۔ جو شخص شارع کے ان دونوں قسم کے ارشادات میں سے صرف ایک ہی پر اپنی نگاہ جمالے گا، وہ لازماً یا تو خوش فہمی یا پھر مایوسی کا شکار ہوجائے گا۔ اسی طرح جو شخص ان دوگونہ نصوص کو آپس میں ٹکرانے اور ان میں تضاد تلاش کرنے کی کوشش کرے گا اُس کے حصے میں بھی گمراہی و حیرانی کے ماسوا کچھ نہیں آئے گا۔

مزیدبرآں اس سلسلے میں اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کی صحیح تاویل معلوم کرنے اور حقیقت ِ نفس الامری تک پہنچنے کے لیے بعض ایسے کلّیات و مسلّمات اوراُصولِ اوّلیہ جو قرآن و حدیث ہی میں مذکور ہیں یا اُن سے ماخوذ ہیں اور جن پر علماے سلف کا اتفاق ہے، وہ بھی نظر سے اوجھل نہیں ہونے چاہییں، مثلاً فرائض کا اجروثواب بہرحال نوافل سے زیادہ ہے۔ فرائض و مکتوبات کی نیابت اور تلافی و تدارک نوافل سے ممکن نہیں ہے اور ترکِ فرائض کی صورت میں تطوّعات عنداللہ قبول نہیں ہوسکتے۔ جو شخص فرض نماز کا تارک ہے، اُس کے نوافل کس کام کے ہیں؟ جو زکوٰۃ یا عشر ادا نہیں کرتا، اُس کے نفلی صدقات و خیرات کیا معنی رکھتے ہیں؟ جو شخص فرض روزے کی طاقت رکھنے کے باوجود اُس کا تارک ہے، اُس کا عاشورہ، ذوالحجہ یا عرفہ کا روزہ سال بھر کے گناہ توکیا معاف کرائے گا، خود ہی ہبائً منثورًا بن کر ہوا میں اُڑ جائے گا۔ جس شخص کو صلوٰۃِ مفروضہ کی ادائی نصیب نہیں ہوتی، اُس کی صلوٰۃ التسبیح دوسرے کبائر و صغائر تو کیا معاف کرائے گی، اُسے ترکِ نماز کے جرمِ کبیرہ سے بھی بری الذمہ نہیں کراسکے گی۔ ترکِ صلوٰۃ اور ترکِ زکوٰۃ پر دنیا و آخرت میں جو شدید و عیدیں مذکور ہیں، وہ کسی سے مخفی نہیں ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض نماز کے تارکین کو گھروں سمیت جلادینے کا ارادہ ظاہر فرمایا۔ زکوٰۃ نہ دینے والوں کے لیے قرآن و حدیث میں عذابِ جہنم کی وعید ہے اور دنیا میں صحابہ کرامؓ نے اُن کے خلاف مرتدین کی طرح قتال بالسیف کیا ہے۔ کیا اس کے بعد بھی اس امر میں کوئی شک باقی رہ جاتا ہے کہ نفلی عبادات تارکینِ فرائض کے لیے کفّارہ نہیں بن سکتیں اور نوافل و تطوّعات کے لیے جو بشارتیں وارد ہیں اُن کے مستحق وہی مسلمان ہیں جو اوامر و فرائض کی پابندی حتی الوسع کرتے ہیں۔ ان ارشادات کا یہ مقصود و مدّعا ہرگز نہ تھا کہ لوگ ان پر بھروسا کر کے فرائض سے تغافل و تساہل برتیں اور منکرات و نواہی کے ارتکاب پر جری ہوجائیں۔ صحابہ کرامؓ جو اِن فرمودات کے اوّلین مخاطب تھے اُن میں ہمیں کوئی مثال ایسی نہیں ملتی کہ اُنھوں نے ایسی بشارتیں سن کر اُن پر غلط تکیہ کیا ہو جس سے اوامر ونواہی کی پابندی میں ڈھیل پیدا ہوئی ہو۔

اعمال کی جزا و سزا کے معاملے میں ایک اُصول کتاب و سنت میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ تمام اچھے اور بُرے اعمال کا بحیثیت مجموعی موازنہ و محاسبہ اللہ کے ہاں ہوگا۔ جس کا اچھے اور وزنی اعمال کے لحاظ سے پلڑا بھاری ہوگیا وہ جنت کا مستحق ہوگا اور جس مسلمان کے اچھے اعمال وزن میں ہلکے ثابت ہوئے وہ دوزخ کا مستحق ہوگا۔ اس کے بعد اللہ چاہے تو ایسے مومن کو معاف کردے اور چاہے تو معاف کرنے سے پہلے اُسے سزا بھگتنے کے لیے دوزخ میں بھیج دے۔ پھر وہاں اعمال کی ظاہری شکل و صورت کو نہیں، بلکہ باطنی جذبے اور نیت کو دیکھا جائے گا۔ صحیح احادیث میں وارد ہے کہ بعض عبادت گزاروں اور روزے داروں کو سواے رات جاگنے اور بھوک پیاس کے کچھ نہیں ملتا۔ یہاں فرض یا نفل نماز اور روزے کی تخصیص بھی مذکورنہیں جس سے معلوم ہوا کہ بعض موانع ایسے ہیں جن کی موجودگی میں فرض نماز اور روزہ بھی رد ہوسکتا ہے تابنو افل چہ رسد۔کوئی شخص عبادات و صدقاتِ نافلہ اگر اس غرض کے لیے انجام دے کہ اُسے فرائض میں چھوٹ اور کبائر کی آزادی مل جائے، تو ایسے اعمال نہ صرف مردود ہوں گے، بلکہ ایسے زعمِ باطل پر عنداللہ مواخذہ ہوگا۔

اس کے علاوہ کتاب و سنت میں بہت سے ایسے ہلاکت خیز اعمال گنوائے گئے ہیں جو بہت سارے دوسرے اعمال کو بھی ضائع اور حبط کردیتے ہیں۔ ریاکاری کو شرکِ اصغر کہا گیا ہے، جس سے مالی انفاق، قتال اور دوسرے اچھے اعمال بے کار ہوجاتے ہیں۔ خیانت و غلول سے جہاد اور شہادت کا اجر مارا جاتا ہے اور اُن کا مرتکب اُلٹا دوزخ میں جاتا ہے۔

ایک حدیث میں آیا ہے کہ : ’’قیامت کے روز ایک شخص بہت اچھے اعمال کے ساتھ پیش ہوگا، مگر اس کے ساتھ اُس نے حقوق العباد کو تلف کیا ہوگا، کسی کا مال چھینا ہوگا، کسی کو گالی دی ہوگی یا دوسری طرح خلقِ خدا کو نشانۂ ستم بنایا ہوگا ، تو اُس شخص کی ساری نیکیاں ان مظلوموں میں بانٹ دی جائیں گی اور مظلوموں کی بُرائیاں اُس ظالم کے سر پر لاد کر جہنم میں دھکیل دیا جائے گا‘‘۔

ایسی بے شمار وعیدات کیوں آپ کی نظر سے اوجھل ہوگئی ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر فرمایا ہے کہ میری شفاعت اہلِ کبائر کے لیے ہے تو اُس سے یہ کیسے لازم آگیا کہ ہرمرتکبِ کبیرہ مستحقِ شفاعت ہوگا اور بلامواخذہ بخشا جائے گا؟ اللہ کے ہاں جس کے لیے اذن ہوگا، اُسی کے حق میں شفاعت ہوگی۔ بہت سے اہلِ ایمان کا بھی ایک مرتبہ دوزخ میں داخل کیا جانا احادیث ِ صحیحہ میں مذکور ہے۔اُن لوگوں کے لیے یا تو شفاعت نہ ہوگی یا پھر سزا پانے کے بعد ہوگی۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جھوٹی گواہی دینے والا میری شفاعت سے محروم ہوگا۔ بعض مجرمین کے متعلق فرمایا کہ میں اُن کے خلاف مدعی بن کر مخاصمت کروں گا۔ غوروعبرت کا مقام ہے کہ خود آنحضوؐر، شافعِ محشرؐ جس کے خلاف صاحب ِ دعویٰ ہوں گے اُس کا شفیع کون ہوسکتا ہے اور وہ مواخذہ سے کیسے بچ سکتا ہے؟

مَیں آخر میں ایک عام فہم تمثیل پر جواب کو ختم کرتا ہوں۔ فرض کیجیے کہ ایک طبیب حاذق اپنے ایک نسخے میں قوت وتوانائی کے لیے بعض مفید اور مجرب ادویہ و اجزا کے نام لکھ دیتا ہے۔ پھر اپنی ایک مجلس میں بعض غذائوں کے نفع بخش اثرات اور حفظانِ صحت کے بعض اصول بیان کرتا ہے اور کسی دوسری مجلس میں بعض زہریلی اشیا اور سمّیات کا بھی ذکر کردیتا ہے کہ اُن کے کھانے سے انسان بیماری یا موت کا شکار ہوجاتا ہے۔ اب یہ ساری باتیں اپنی اپنی جگہ پر درست اور برمحل ہیں، لیکن کوئی نادان اگر کرتا یہ ہے کہ مقوّیات کے ساتھ سمّیات کو بھی نوشِ جان کرلیتا ہے اور اس کے بعد تنومند ہونے کے بجاے مرض الموت میں مبتلا ہوجاتا ہے، تو کیا یہ کہا جائے گا کہ طبیب حاذق نہ تھا یا اُس کی کچھ باتیں صحیح اور کچھ غلط تھیں؟ اس سلسلے میں بہتر ہوگا کہ مولانا مودودیؒ کی کتاب تفہیمات حصہ اوّل کا وہ مضمون بھی پڑھ لیں جس کا عنوان ہے: ’’کیا نجات کے لیے کلمۂ طیبہ کافی ہے؟‘‘

اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات اپنی جگہ پر اٹل اور برحق ہے، مگر مشکل یہ ہے کہ آج مسلمان صرف آسانیوں اور رخصتوں کے طالب اور سستی نجات کے خواہاں بن کر رہ گئے ہیں۔ جس طرح اہلِ کتاب کہتے ہیں کہ: سَیُغْفَرُلنا (توقع ہے کہ ہم بخشے جائیں گے)، اسی طرح مسلمان بھی یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہر بے عملی، بلکہ بدعملی کے باوجود وہ بلامواخذہ سیدھے جنت میں جاداخل ہوں گے، ترکِ اوامر اور ارتکابِ معاصی پر اُن سے پُرسش کا سرے سے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، مگر یہ ایک مہلک غلط فہمی بلکہ گمراہی ہے جو اُن کی اپنی کج رَوی اور کج فہمی کی پیداوار ہے۔   اللہ اور اُس کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بَری ہیں۔ جو شخص دنیا میں دعواے ایمان کرتا ہے، ہم تو بلاشبہہ اُسے مسلمان کہیں گے کیونکہ یہاں ظاہر احوال ہی پر سارے احکام مرتب ہوتے ہیں، مگر اللہ تعالیٰ جس کا علم ظاہروباطن دونوں پر حاوی ہے اُس کے ہاں ہر زبانی دعویٰ تسلیم کیے جانے کے قابل نہیں ہوسکتا۔ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ یوں کیوں فرماتا:

وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ o (البقرہ ۲:۸) اور لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور یومِ آخرت پر حالانکہ وہ مومن نہیں۔

اللہ سے دُعا ہے کہ وہ ہرمسلمان کو کتاب و سنت کے ہر قول کے استماع اور بطریق احسن اتباع کی توفیق بخشے، آمین!(جسٹس ملک غلام علی)۔ (رسائل و مسائل، حصہ ششم، ص ۳۸۰-۳۸۶)

سوال :  سیاسی لیڈروں کی پالیسی پر جب تنقید کی جاتی ہے تو ان کو بُرا بھلا بھی کہہ دیا جاتا ہے ۔کیا یہ تنقید غیبت شمار ہوتی ہے؟

جواب: سیاسی لیڈروں پر تنقید اسی حد تک رہنی چاہیے جس حد تک تنقید کی ضرورت ہے۔ ان کی بُرائیاں جو واقعی ہوں، ان سے عوام کو بچانے کے لیے، ان بُرائیوں کو پوری تفصیل سے بیان کرنا چاہیے اور کوشش کرنا چاہیے کہ ان بُرائیوں کو ایسے انداز سے بیان کیا جائے کہ عوام سمجھ جائیں اور ایسے لیڈروں کی پیروی اور ساتھ دینے سے اجتناب کریں۔ حقیقت کو واضح کردینا ضروری ہے تاکہ اتمامِ حجت ہوجائے، ورنہ جہاں ان کے لیڈر مجرم ہوں گے وہاں وہ بھی ان کے جرم میں شریک   شمار ہوں گے۔ دنیا میں اس قسم کے لیڈروں کے پیروکار قیامت میں پچھتائیں گے اور تمنا کریں گے کہ کاش! دنیا میں ایک مرتبہ واپسی کا موقع ملے تاکہ ہم ان سے اعلانِ براء ت کرسکیں۔ (ملاحظہ ہو البقرہ ۲: ۱۶۶، احزاب ۳۳:۶۷-۶۸، الصّٰفات ۳۷:۲۲ - ۴۰)

مفکرِ اسلام مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ سورئہ حجرات، آیت ۱۲ کی تفسیر کے ذیل میں فرماتے ہیں:’’ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ان نظیروں سے استفادہ کرکے فقہا اور محدثین نے یہ قاعدہ اخذ کیا ہے کہ ’’غیبت صرف اس صورت میں جائز ہے، جب کہ ایک صحیح (یعنی شرعاً صحیح) غرض کے لیے اس کی ضرورت ہو اور وہ ضرورت اس کے بغیر پوری نہ ہوسکتی ہو‘‘۔ پھر اسی قاعدے پر     بنا رکھتے ہوئے علما نے غیبت کی حسب ذیل صورتیں جائز قرار دی ہیں:

۱- ظالم کے خلاف مظلوم کی شکایت ہراس شخص کے سامنے جس سے وہ یہ توقع رکھتا ہو کہ  وہ ظلم کورفع کرنے کے لیے کچھ کرسکتا ہے۔

۲- اصلاح کی نیت سے کسی شخص یا گروہ کی بُرائیوں کا ذکر ایسے لوگوں کے سامنے جن سے یہ اُمید ہو کہ وہ ان بُرائیوں کو دُور کرنے کے لیے کچھ کرسکیں گے۔

۳- استفتا کی غرض سے کسی مفتی کے سامنے صورتِ واقعہ بیان کرنا جس میں کسی شخص کے کسی غلط فعل کا ذکر آجائے۔

۴- لوگوں کو کسی شخص یا اشخاص کے شر سے خبردار کرنا تاکہ وہ اس کے نقصان سے بچ سکیں، مثلاً راویوں، گواہوں اور مصنفین کی کمزوریاں بیان کرنا بالاتفاق جائز ہی نہیں واجب ہے کیونکہ اس کے بغیر شریعت کو غلط روایتوں کی اشاعت سے، عدالتوں کو بے انصافی سے اور عوام یا طالبانِ علم کو گمراہیوں سے بچانا ممکن نہیں ہے، یا مثلاً کوئی شخص کسی سے شادی بیاہ کا رشتہ کرنا چاہتا ہو یا کسی کے پڑوس میں مکان لینا چاہتا ہو یا کسی سے شرکت کا معاملہ کرنا چاہتا ہو یا کسی کو اپنی امانت سونپنا چاہتا ہو اور آپ سے مشورہ لے تو آپ کے لیے واجب ہے کہ اس کا عیب و صواب اسے بتا دیں تاکہ نا واقفیت میں وہ دھوکا نہ کھا جائے۔

۵- ایسے لوگوں کے خلاف علی الاعلان آوازبلندکرنا اور اُن کی بُرائیوں پر تنقید کرنا جو  فسق و فجور پھیلا رہے ہوں، یا بدعات اور دیگر بُرائیوں کی اشاعت کر رہے ہوں، یا خلقِ خدا کو  بے دینی اور ظلم و جَور کے فتنوں میں مبتلا کررہے ہوں۔

۶- جو لوگ کسی بُرے لقب سے اس قدر مشہور ہوچکے ہوں کہ وہ اس لقب کے سوا کسی  اور لقب سے پہچانے نہ جاسکتے ہوں، ان کے وہ لقب استعمال کرنا بغرض تعریف نہ کہ بغرضِ تنقیص‘‘۔(تفہیم القرآن،ج ۵،ص ۹۲-۹۳)

اس تشریحی نوٹ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ لادین لوگوں اور پارٹیوں کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے ان کے نقائص کو واضح کرنا غیبت نہیں ہے۔ البتہ شریعت لادین لوگوں یا کسی بھی گروہ کے نقائص کو واضح کرنے اور ان پر تنقید کرنے کے لیے ایسی زبان استعمال کرنے کی تلقین کرتی ہے جو اخلاقی حدود کے اندر ہو، سب و شتم اور لعن طعن سے پاک ہو۔(مولانا عبدالمالک)


حقوق العباد کی تلافی

س :  حقوق العباد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حقوق اللہ تو خدا چاہے بخش دے لیکن حقوق العباد اگر ادا نہیں کیے گئے تو ان کو متعلقہ شخص ہی سے بخشوانا ہوگا ورنہ بخشے نہیں جائیں گے۔ میری نند میرے پاس رہتی تھی۔ اس کے انتقال کے بعد احساس ہوتا ہے کہ میں نے اس کی مطلوبہ خدمت نہ کی۔ کھانا کپڑے کا خیال رکھا لیکن اب مجھے لگتا ہے کمی رہی اور پشیمانی ہوتی ہے۔ اس کی بخشش اور درجات کی بلندی کی دعا بھی کرتی ہوں۔ تلافی کے لیے کیا کروں؟

ج: حقوق العباد کے بارے میں اصولی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں معاف نہیں کریں گے جب تک کہ حق دار خود معاف نہ کردے یا حق دار کو اس کا حق ادا نہ کردیا جائے۔ بے شک نند کی خدمت، جب کہ وہ خدمت کی محتاج ہو ،ہر اس قرابت دار پر ہے جو اس کی خدمت کرسکے۔ آپ نے اپنی حد تک جو خدمت کی ہے، کھانا اور لباس کی حد تک خیال رکھا ہے اور باقی حاجات میں حق ادا   نہ کرسکنے کا جو احساس ہے، وہ قابلِ قدر ہے۔ اس کی تلافی کی ایک صورت تو یہی ہے جو آپ کر رہی ہیں، یعنی مرحومہ کے لیے دعا۔ دوسری صورت یہ بھی ہے کہ آپ اس کی طرف سے کچھ مال صدقہ کریں۔ نند کے ایسے عزیز جو مدد کے محتاج ہوں ان کی مدد بھی اسی کی مدد شمار ہوگی۔ آپ ایسا کر کے اپنے دل کو مطمئن کرسکتی ہیں۔(مولانا عبدالمالک)


موبائل سے تصویر کی شرعی حیثیت

س :  تصویر کے متعلق وضاحت درکار ہے۔ یہ تو معلوم ہے کہ جہاں کتا اور شوقیہ تصویر رکھی ہو وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔ آج کل موبائل فون سے تصویریں کھینچی جاتی ہیں۔ کمپیوٹر میں محفوظ کی جاتی ہیں۔ اس کی کوئی ضرورت تو نہیں ہوتی سواے یہ کہ انھیں دیکھ کر ان لمحات کو یاد کیا جاتا ہے۔ کیا یہ بھی تصویر کے زمرے میں آتا ہے؟   اس طرح ہم بے معنی کام کر کے رحمت کے فرشتوں کو بھگانے کے مرتکب ہورہے ہوں۔

ج: ’تصویر‘ موبائل اور کمپیوٹر میں اس وقت تک نظر نہیں آتی جب تک موبائل کو اس کے دیکھنے کے لیے آن نہ کیا جائے۔اسی طرح کمپیوٹر میں تصویر مستور ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں تصویر رحمت کے فرشتوں کے گھروں میں داخلے میں رکاوٹ نہیں ہے۔ البتہ موبائل اور کمپیوٹر سے کاغذ پر اُتار کر اسے گھروں کی زیب و زینت بنانا درست نہیں ہے۔کتا گھر کی چوکیداری، شکار اور کھیتوں اور مویشیوں کے لیے رکھنا جائز ہے۔ ان جائز صورتوں میں رحمت کے فرشتے گھر میں داخل ہوسکتے ہیں۔ شوقیہ اور بلاحاجت و ضرورت کتا رکھنا منع ہے اور ایسے کتے رحمت کے فرشتوں کے داخلے میں رکاوٹ ہیں۔(مولانا عبدالمالک)

 

سوال: دعوتِ دین اور سیاسی و انتخابی جدوجہد دو بالکل مختلف میدانِ کار ہیں جو بالکل مختلف افراد کار، دعوت و پیغام، اسلوب اور طریقۂ کار کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس ضمن میں درج ذیل پہلو غور طلب ہیں:

۱- جب ایک دینی جماعت عوام کو دعوتِ دین دیتی ہے تو وہ سچائی، نیکی، عملِ صالح اور آخرت کی دعوت دیتی ہے اور اس میں وہ عوام کی پسند وناپسند کو سامنے نہیں رکھتی، جب کہ ایک سیاسی جماعت کو اپنے پیغام یا دعوت میں عوام کی پسندو ناپسند کو سامنے رکھنا پڑتا ہے۔

۲- دینی جماعت جب عوام کو حق اور عملِ صالح کی دعوت دیتی ہے تو عوام کے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ کل ہم سے یہ کوئی مطالبہ نہیں کریں گے، جب کہ سیاسی جماعت کا معاملہ ایک سودے بازی (bargaining) یا کچھ لو اور دو (give & take) والا ہوتا ہے کہ عوام آج ہمیں ووٹ دیں، کل ہم ان کے مسائل حل کریں گے۔

۳-دینی جماعت سے عوام کو کوئی توقعات نہیں ہوتیں، جب کہ سیاسی جماعتوں سے عوام توقعات وابستہ کرتے ہیں۔

۴- دینی جماعت کو نتائج کی پروا نہیں ہوتی، چاہے لوگ اس کی دعوت قبول کریں یا نہ کریں، جب کہ سیاسی جماعت کی کامیابی اور ناکامی کو ووٹوں اور نشستوں کی تعداد سے پرکھا جاتا ہے۔

۵- دینی جماعت کا کارکن نیکی و حق کا کھلم کھلا نمونہ ہوتا ہے جو ہر جگہ اپنے نظریات کی تبلیغ کرتا ہے۔ وہ اپنے قائد یا کارناموں کی بات نہیں کرتا، جب کہ سیاسی جماعت کا کارکن عوام کی سوچ اور مسائل کو سامنے رکھ کر بات کرتا ہے۔ اپنی قیادت اور پارٹی کے کارنامے گنواتا ہے، عوام کو سہانے خواب دکھاتا اور ووٹ کا مطالبہ کرتا ہے۔

۶- دینی جماعت کا کارکن تشہیر یا پروپیگنڈے پر بہت کم توجہ دیتا ہے، جب کہ ایک سیاسی جماعت کی سرگرمیوں میں تشہیر و پروپیگنڈے کی بہت اہمیت ہے اور ان کا مقصد حصولِ اقتدار ہے۔

یہ وہ ابہام (confusion) ہے جو مجھے اُوپر سے نیچے تک ہرجگہ نظر آتا ہے۔ ہم نے کام تو بہت بڑا اُٹھا لیا ہے___ دعوتِ دین ، سیاسی جدوجہد، رفاہی کام، بین الاقوامی معاملات___ لیکن ہرمیدان کی وسعت اور جزئیات کا پوری طرح اِدراک نہیں کرپائے۔ خیال رہے کہ کامیابی کے لیے صرف اخلاص کافی نہیں بلکہ واضح حکمت عملی بھی درکار ہے۔

جواب: ان سوالات سے یہ اطمینان ہوتا ہے کہ تحریک سے وابستہ ساتھیوں میں سوچنے سمجھنے اور تجزیہ کرنے کی غیرمعمولی صلاحیت ہے۔ تنقیدی ذہن کے ساتھ سوچنا ہی تحریک کو زندہ رکھتا ہے۔ اسی بناپر حدیث نبویؐ میں اختلاف راے کو رحمت قرار دیا، اور قرآنِ کریم نے اس پہلو کو  ایک زیادہ جامع اصطلاح، یعنی شوریٰ سے تعبیر کرتے ہوئے حکم دیا کہ اپنے تمام اُمور میں مشاورت کرو۔ ظاہر ہے مشاورت اسی وقت ہوگی جب ایک سے زیادہ آرا سامنے آئیں اور ہرتجویز پر غور کرنے کے بعد جب کسی ایک راے پر اتفاق یا اجماع ہوجائے توپھر عزم اور توکل کا سہارا لیا جائے۔

 سوالات کی ترتیب کے لحاظ سے چند قابلِ غور پہلو تحریر کیے جارہے ہیں۔

یہ طے کرنے کے لیے کہ کیا دعوتِ دین کی جدوجہد اور سیاسی اور انتخابی جدوجہد دو مختلف میدان ہیں، ہمیں قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ قرآن کریم میں انبیاے کرام ؑ اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے حوالے سے یہ بات وضاحت سے بیان کی گئی ہے کہ حضرت سلیمان ؑ، حضرت دائود ؑاور حضرت یوسف ؑنے، جن اُمور کو ہم آج سیاست اور گورننس سے تعبیر کرتے ہیں، نہ صرف اپنی دعوت کا لازمی جزو سمجھا بلکہ عملاً نظامِ حکمرانی کی اصلاح کا فریضہ انجام دیا:

قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِ ج اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ  o وَ کَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ ج یَتَبَوَّاُ مِنْھَا حَیْثُ یَشَآئُ ط (یوسف ۱۲:۵۵-۵۶) یوسف ؑ نے کہا:ملک کے خزانے میرے سپرد کیجیے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں۔ اس طرح ہم نے اُس سرزمین میں یوسف ؑ کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ وہ مختار تھا کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے۔

گویا حضرت یوسف ؑ کا دائرۂ اختیار محض مالیات تک محدود نہ تھا بلکہ آپ تمام اُمور مملکت پر اختیار رکھتے تھے اور جہاں جہاں عزیزِ مصر کا اثر تھا وہاں وہاں آپ کا حکم چلتا تھا۔

 حضرت موسٰی ؑ کے تذکرے میں بھی ملتا ہے: ’’یاد کرو جب موسٰی ؑ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی اس نعمت کا خیال کرو جو اس نے تمھیں عطا کی تھی۔ اس نے تم میں نبی پیدا کیے، تم کو فرماں روا بنایا، اور تم کو وہ کچھ دیا جو دنیا میں کسی کو نہ دیا تھا‘‘۔(المائدہ ۵:۲۰)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے مکی دور میں جو دعا رب کریم نے آپؐ کو     تعلیم فرمائی وہ محض مشرکین کے شر سے محفوظ رکھنے کی نہیں تھی بلکہ اقتدار کے ذریعے اقامت دین کی دُعا تھی۔’’اور دعا کرو کہ پروردگار مجھ کو جہاں کہیں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا، اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال، اور اپنی طرف سے ایک اقتدار [سُلْطَانًا] کو میرا مددگار بنادے‘‘۔(بنی اسرائیل ۱۷:۸۰)

ان قرآنی آیات پر غور کیا جائے تو انبیاے کرام کے مشن میں دعوتی تسلسل، دعوتی ہمہ گیریت اور خود مقصد ِ نبوت میں اسلامی اقتدار کا قیام بالکل واضح نظر آتا ہے۔ اگر مکہ مکرمہ میں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتِ دین، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی ہوتی تو مشرکینِ مکہ کو اس پر معاندانہ اور مخالفانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر انھوں نے حرمِ مکہ میں تین سو سے اُوپر خدائوں کو جگہ دے رکھی تھی تو ان میں ایک کے اضافے سے قیامت نہیں آجاتی۔ اس لیے مسئلہ ایک نئے  خدا کے اقرار کا ہی نہ تھا بلکہ توحید یا اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو ماننے کا مطلب ہی یہ تھا کہ زندگی کے تمام معاملات کو اللہ کی بندگی میں لے آیا جائے ا ورتمام خدائوں کو یک قلم منسوخ کردیا جائے۔   آخرانگریز کے دورِ غلامی میں مسلمان برعظیم پاک و ہند سے حج کے لیے بھی جاتے تھے، مسجدیں بھی آباد تھیں اور صاحب ِ نصاب حضرات زکوٰۃ بھی دیتے تھے اور بھلائی کی تلقین بھی کی جاتی تھی۔ مکہ مکرمہ میں اصل مسئلہ یہی تھا کہ اگر توحید کو قبول کرلیا جاتا تو پھر سود کا بت، قبائلی فخر کا بت،  تبرجات الجاہلیہ پر مبنی ثقافت و معاشرت، ہرشعبۂ زندگی کو اللہ کی بندگی میں آنا پڑتا۔ توحید کو ماننے کا پہلا تقاضا ہی یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ دیگر ارباب کو زندگی سے خارج کیا جائے اور معیشت ہو یا سیاست، عبادت ہو یا ثقافتی سرگرمی، ہرہرکام کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع کردیا جائے۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ مسجد میں اللہ کی حاکمیت ہو اور پارلیمان میں، عدلیہ میں، معاشی منڈی میں کوئی دوسرا اسلوب ، طریقہ اور اصول کارفرما ہو۔ مسجد میں سجدہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو کیا جائے اور تجارت میں مالی مفاد کو خدا بنا لیا جائے اور جب ایک شخص پارلیمنٹ میں ہو تو ہوا کا رُخ دیکھ کر بات کرے! اس لیے دعوت کا میدان اور سیاسی میدان دو الگ چیزیں نہیں ہوسکتے۔ دونوں کا مقصد  اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کو اس زمین پر قائم کرنا ہے۔

جو سوال اُٹھایا گیا ہے یہ اس سے قبل بھی بہت سے ذہنوں کو پریشان کرتا رہا ہے، چنانچہ فکری اور معاشرتی اصلاح پہلے یا سیاسی انقلاب پہلے پر سیدمودودیؒ کا جامع تبصرہ یہ ہے: ’’بلاشبہہ سیاسی انقلاب سے پہلے ایک تمدنی، اجتماعی اور اخلاقی انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی اسلامی انقلاب کا فطری طریقہ ہے۔ اور بلاشبہہ یہ بات بھی درست ہے کہ اسلام کے احکام و قوانین صرف اُوپر سے ہی مسلط نہیں کیے جاسکتے بلکہ اندر سے ان کے اتباع کا دلی جذبہ بھی پیدا کیا جاتا ہے۔ لیکن اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ پاکستان کے قیام کی شکل میں سیاسی انقلاب رُونما ہوچکا ہے۔ اب یہ سوال چھیڑنا بالکل بے کار ہے کہ معاشرتی انقلاب پہلے برپا کرنا چاہیے اور سیاسی انقلاب بعد میں۔ اب تو سوال یہ پیدا ہوگیا ہے کہ جب تک قوم میں ذہنی انقلاب واقع نہ ہو اس وقت تک آیا ہم سیاسی اختیارات کو کافرانہ اصولوں کے مطابق استعمال کرتے رہیں یا ان اختیارات کو بھی اسلامی اصولوں کے مطابق کام میں لائیں۔ سیاسی اقتدار کا کوئی نہ کوئی مصرف اور مقصد بہرحال ہمیں متعین کرنا پڑے گا۔ حکومت کی مشینری کو اخلاقی انقلاب رُونما ہونے تک معطل بہرحال نہیں کیا جاسکتا… حکومت کی طاقت نہ صرف بجاے خود ایک بڑا ذریعۂ اصلاح ہے، بلکہ وہ ساری اصلاحی تدابیر کو زیادہ مؤثر، نتیجہ خیز اور ہمہ گیر بنانے کا بھی ذریعہ ہے۔ آخر اس حماقت اور جہالت کا ارتکاب ہم کیوں کریں کہ ایک طرف انفرادی حیثیت سے ہم اسلام کے سماجی انقلاب کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کریں اور دوسری طرف حکومت کے سارے ذرائع، اخلاق کے بگاڑنے اور فسق و فجور پھیلانے میں لگے رہیں‘‘۔(رسائل و مسائل، چہارم، ص۱۷۹-۱۸۸)

تبدیلیِ نظام اور قیامِ عدل کے لیے ایک طریقۂ کار تو یہ ہوسکتا ہے کہ موجودہ نظام کی خامیوں کے پیش نظر اس سے اپنے آپ کو الگ کر کے تعمیر کردار پر توجہ دی جائے اور جب ایک طویل عمل کے نتیجے میں ایسے افراد تیار ہوجائیں تو پھر سیاسی تبدیلی کی طرف توجہ دی جائے۔ دوسری شکل یہ ہوسکتی ہے کہ کسی عسکری قوت کے ذریعے پورے نظام کو درہم برہم کر کے نئے سرے سے نظام کو صالح بنیادوں پر قائم کیا جائے۔ ایک تیسری شکل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جس طرح آپ ایک ایسا مکان خریدیں جس کی چھت ٹپک رہی ہو، دروازے بوسیدہ ہوں، بجلی کا نظام صحیح کام نہ کر رہا ہو توبجاے پورے مکان کو منہدم کر کے نئے سرے سے مکان تعمیر کرنے کے آپ ترجیحات کا تعین کریں اور مکان کی خرابیوں کو دُور کرتے جائیں۔ انسانی معاشرہ اور میکانکی معاشرہ میں یہی فرق ہے۔ اس میں بیک وقت دعوتِ نماز اور دعوتِ قیامِ عدل پر عمل کیے بغیر اصلاح نہیں ہوسکتی۔

دوسری بات جو قابلِ غور ہے وہ یہ کہ کیا ’دینی جماعت‘ تو عملِ صالح کی دعوت دے اور سیاسی جماعت عوام کے دل جیتنے کے لیے سیاسی حربے استعمال کر کے اقتدار حاصل کرلے۔ کیا یہ دوعملی اسلام کا مقصود و مطلوب ہے؟ کیا قرآن کریم اور سنت ِ رسولؐ یا خلفاے راشدین کی سیاسی زندگی سے اس کی کوئی مثال ملتی ہے؟ بات بڑی آسان اور واضح ہے۔ اسلام جس سیاسی نظام کا قیام چاہتا ہے، اس کی بنیاد تقویٰ، اللہ تعالیٰ کے احکامات کے نفاذ، شفافیت، عدم مداہنت، اصول پرستی، حق کے اظہار، عدل کے قیام، امانت، اہلیت اور احتساب پر ہے۔ اسلام میں صرف سیاست یا صرف دین کا کوئی تصور، نہ قرآن میں پایا جاتا ہے نہ سنت ِ رسولؐ ، نہ خلفاے راشدین کی مثال میں۔ خلفاے راشدین نے اقتدار کو دین کے قیام اور استحکام کے لیے استعمال کیا۔ یہی وہ دعوت ہے جو تحریک اسلامی کی قیادت خصوصاً مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے شعوری طور پر پیش کی۔

یہ بات بھی محلِ نظر ہے کہ ’دینی جماعتوں‘ کی کامیابی یا ناکامی کا معیار نشستوں کی تعداد ہے۔ کیا حضرت نوحؑ کی طویل دعوتی جدوجہد اور حضرت موسٰیؑ کے اپنی قوم کو دعوت دینے کے نتیجے میں ساری قوم یا اس کی اکثریت آپ کے ساتھ آگئی تھی؟ کیا یہ ان حضرات علیہم الصلوٰۃ کی ناکامی تھی؟ حقیقت یہ ہے کہ پارلیمان میں نشستوں کی تعداد نظریاتی جماعتوں کی کامیابی یا ناکامی کا   حتمی پیمانہ نہیں ہوسکتی۔ ان کی کامیابی کا پیمانہ خلوصِ نیت کے ساتھ اپنی مقدور بھر کوشش اور ربِ کریم پر اعتماد و توکّل ہے۔ ترکی میں اب سے ۲۰سال قبل وہاں کی اسلامی تحریک نے ۱۰ فی صد سے بھی کم نشستیں حاصل کیں لیکن اگلے انتخابات میں اس میں اضافہ ہوا، اور آخرکار تیسرے انتخاب میں وہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ ہمارے ہاں انتخاب کا نظام، انتخابات میں قوت کا استعمال اور نفاذِ تحریکِ اسلامی کی حکمت عملی کا بروقت بننا اور صحیح روح کے ساتھ اس کا نفاذ، یہ اور دیگر تنظیمی اور مالی وجوہات مل کر نتائج پر اثرانداز ہوتی ہیں۔

یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ خود سیاسی سرگرمی تحریک کے نقطۂ نظر سے ایک دعوتی سرگرمی ہے جس میں کارکن اور قیادت عوام کے سامنے اپنی دعوت اور مسائل کا اسلامی حل پیش کرتے ہیں۔ اس عمل میں معمولی سی کوتاہی نتائج کو متاثر کرسکتی ہے۔ دوسری جماعتیں جو خالص سیاسی مقاصد کے لیے وجود میں آتی ہیں، ان کی کامیابی کا سبب تنہا ان کا ’نظریہ‘ نہیں ہوتا بلکہ اکثر وہ غیراخلاقی ذرائع ہوتے ہیں جن کا استعمال تحریکِ اسلامی کے لیے ناممکنات میں سے ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ غیراخلاقی ذرائع سے کامیابی سے افضل چیز اپنے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے کسی نشست کا کھو دینا ہے، تو بے جا نہ ہوگا، بلکہ اصولی سیاست کے فروغ کا ناگزیر تقاضا ہے۔

یہ بات غیر اسلامی سیاست میں تو ممکن ہے کہ کچھ لو اور دو کے ذریعے ووٹ لے لیے جائیں لیکن اسلامی تحریک کی اخلاقیات اس کی اجازت نہیں دیتی۔ اگر زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا کہ دینی جماعت سے عوام کوئی توقعات نہیں رکھتے، مشاہدے سے مطابقت نہیں رکھتا۔ پاکستان کی تین مسلکی جماعتیں اپنے واضح مسلکی پس منظر کے باوجود عوام کی نگاہ میں ان کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور اسی بنا پر انھیں ووٹ ملتے ہیں۔جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جسے مسلکی جماعت نہیں کہا جاسکتا۔ اس کی رکنیت کے لیے کسی کا دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث یا جعفری ہونا شرط نہیں ہے۔ ہرمسلمان جو اس کے دستور سے اتفاق رکھتا ہو اس میں شامل ہوسکتا ہے، جب کہ جو جماعتیں مذہبی کہلاتی ہیں ان کے نام ہی اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ وہ دراصل مسلکی جماعتیں ہیں۔ اس کے باوجود سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں لوگ انھیں ان کے مسلک سے وابستگی کے باوجود ووٹ توقعات کے پیش نظر ہی دیتے ہیں۔

یہ بات درست ہے کہ تحریکِ اسلامی کی سیاسی جدوجد کا بنیادی مقصد اپنی دعوت کا پہنچانا ہے۔ اس لیے وہ نتائج سے بے پروا ہوکر اللہ کی رضا کے لیے کام کرتی ہے۔ اس جدوجہد میں اگر رب کریم اپنے فضل اور نصرت سے اسے کامیاب کردے تو یہ اس کا انعام ہے۔

تحریکِ اسلامی کے کارکن کسی کو جتائے بغیر خلوص سے معاشرتی اصلاح کے کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔ لوگ خود مخلص اور مطلبی افراد میں امتیاز کرسکتے ہیں۔ پروپیگنڈا اور تشہیر کے مقابلے میں تحریک تحدیث ِنعمت کی تعلیم دیتی ہے، ناگزیر تشہیر کی اپنی جگہ اہمیت ہے۔ تاہم قیادت اور کارکن دونوں سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ نفس کے شیطان سے ہمہ وقت چوکنے رہیں اور باہمی احتساب کے ذریعے ایک دوسرے کو نصیحت بھی کرتے رہیں۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ تحریک کو الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے مذاکروں میں اور سوشل میڈیا پر زیادہ سرگرمی کے ساتھ اپنے موقف کو پیش کرنا چاہیے ۔ یہ بات بھی درست ہے کہ حصولِ مقصد کے لیے حکمت عملی بہت واضح ہونی چاہیے۔ اگر ماضی میں اس پہلو سے کوئی کمی رہی ہے تو اسے اب دُور کیا جانا چاہیے۔

دعوتِ دین، عوامی مقبولیت اور حصولِ اقتدار میں نہ کوئی تضاد ہے اور نہ کوئی شرعی قباحت جیساکہ حضرت سلیمان ؑ کی زبان سے قرآن کریم میں یہ الفاظ ملتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انھیں ایسی سلطنت کی توفیق دے جس کی کوئی مثال نہ پائی جاتی ہو۔ پھر تحریکِ اسلامی جس کا مقصد معاشرہ، معیشت اور اقتدار کو اللہ تعالیٰ کی بندگی میں لانا ہے، وہ اس کے حصول کے لیے جدوجہد کیوں نہیں کرسکتی۔ اس جدوجہد اور انبیا ؑ کے دعوت و طریق کار میں تضاد کہاں پایا جاتا ہے۔

دعوتِ دین اور سیاسی جدوجہد دو الگ دائرے نہ قرآن کریم میں ہیں، نہ سنت ِ رسولؐ میں اور، نہ سنت خلفاے راشدین میں۔ اس لیے تحریک ِ اسلامی بھی اس فرق کو تسلیم نہیں کرتی۔ معاشرتی اصلاح کے لیے تمام ذرائع کا استعمال شریعت کی رُو سے فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ درست ہے کہ جو جماعتیں اپنے آپ کو خالص سیاسی جماعت کہتی ہیں وہ دین کو اپنا ذاتی معاملہ سمجھتی ہیں،   اس لیے صرف سیاست کرنے میں لگی رہتی ہیں۔تحریکِ اسلامی اس لحاظ سے ایک ’خالص سیاسی جماعت‘ نہ کبھی تھی نہ کبھی ہوسکتی ہے۔ اس کی دعوت ہمہ گیر ہے۔ یہ زندگی کو خانوں میں نہیں بانٹتی اور یہ کلیسا اور ریاست کی تفریق کو رد کرتی ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

سوال : سرکاری اہل کاروں کو جو نذرانے اور ہدیے اور تحفے ان کی طلب اور جبرواِکراہ کے بغیر کاروباری لوگ اپنی خوشی سے دیتے ہیں، انھیں ملازمت پیشہ حضرات بالعموم جائز سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ رشوت کی تعریف میں نہیں آتا۔ اس لیے یہ حلال ہونا چاہیے۔ اسی طرح سرکاری ملازموں کے تصرف میں جو سرکاری مال ہوتا ہے اسے بھی اپنی ذاتی ضرورتوں میں استعمال کرنا یہ لوگ جائز سمجھتے ہیں۔ میں اپنے حلقۂ ملاقات میں اس گروہ کے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں مگر میری باتوں سے ان کا اطمینان نہیں ہوتا۔

جواب:ایک شخص یا اشخاص سے دوسرے شخص یا اشخاص کی طرف مال کی ملکیت منتقل ہونے کی جائز صورتیں صرف چار ہیں۔ ایک یہ کہ ہبہ یا عطیہ ہو برضا و رغبت۔دوسرے یہ کہ خریدوفروخت ہو، آپ کی رضامندی سے۔ تیسرے یہ کہ خدمت کا معاوضہ ہو، باہمی قرارداد سے۔ چوتھے یہ کہ میراث ہو، جو ازروے قانون ایک کو دوسرے سے پہنچے۔ ان کے ماسوا جتنی صورتیں انتقالِ ملکیت کی ہیں، سب حرام ہیں۔ اب دیکھنا چاہیے کہ جو روپیہ ایک افسر یا اہل کار کسی صاحب ِ غرض سے لیتا ہے، یا جو استفادہ وہ اس مال سے کرتا ہے جو دراصل پبلک کا مال ہے اور پبلک کاموں کے لیے اس کے تصرف میں دیا جاتا ہے، اس کی حیثیت کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ وہ خریدوفروخت اور میراث کی تعریف میں تو آتا نہیں۔ پھر کیا وہ ہبہ یا عطیہ ہے؟ اس کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک سوال کا جواب کافی ہے۔ کیا یہ ہبہ یا عطیہ ایک اہل کار کو اس صورت میں بھی ملتا،  جب کہ وہ اس منصب پر نہ ہوتا، یا پنشن پر الگ ہوچکا ہوتا۔ اگر نہیں تو یہ عطیہ یا ہبہ نہیں ہے کیونکہ  یہ اس کے منصب کی وجہ سے اس کے پاس آرہا ہے نہ کہ کسی ذاتی تعلق یا محبت یا ہمدردی کی بناپر۔ اب کیا یہ ان خدمات کا معاوضہ ہے جو ایک اہل کار اپنے منصب کے سلسلے میں انجام دیتاہے؟ ظاہر ہے کہ یہ درحقیقت معاوضہ بھی نہیں ہے۔ معاوضہ تو صرف وہ تنخواہ اور الائونس ہیں جو ملازم ہونے کی حیثیت سے آدمی کو ملتے ہیں۔ ان کے ماسوا جو کچھ اہل کار اپنے فرائضِ منصبی ادا کرنے کے سلسلے میں حاصل کرتا ہے وہ یا تو خیانت ہے جو پبلک فنڈ میں سے کی جاتی ہے۔ یا ناجائز خدمات کا معاوضہ ہے جو شرائط ملازمت کے خلاف عمل کرنے کے بدلے میں آدمی کو ملتا ہے۔ یا جائز خدمات کا ناجائز معاوضہ ہے کیوںکہ شرائط ملازمت کے حدود میں رہتے ہوئے کام کرنے کا معاوضہ تو بشکل تنخواہ آدمی پہلے ہی لے چکا ہے، اس پر بھی مزید معاوضہ حاصل کرنا صریح طور پر حرام خوری ہے۔

یہ تو تھی اصولی بحث۔ اب دیکھیے کہ اس معاملے میں شرعی احکام کیا ہیں:

 ابوحمید الساعدی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سرکاری ملازمین جو ہدیے وصول کرتے ہیں یہ خیانت ہے۔(مسند احمد)

ان ہی ابوحمید کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن اللتبیہ نامی ایک شخص کو قبیلہ ازد پر عامل بنا کر بھیجا۔ جب وہ وہاں سے سرکاری مال لے کر پلٹا تو بیت المال میں داخل کرتے وقت اس نے کہا کہ یہ تو ہے سرکاری مال، اور یہ ہدیہ ہے جو مجھے دیا گیا ہے ۔ اس پر حضوؐر نے ایک خطبہ دیا اور اس میں حمدوثنا کے بعد فرمایا: ’’میں تم میں سے ایک شخص کو اس حکومت کے کام میں جو اللہ نے میرے سپرد کی ہے عامل بناکر بھیجتا ہوں تو وہ آکر مجھ سے کہتاہے کہ یہ تو ہے سرکاری مال اور یہ ہدیہ ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔ اگر یہ سچ ہے کہ لوگ خود ہدیے دیتے ہیں تو کیوں نہ وہ اپنے ابا اور اپنی اماں کے گھر بیٹھا رہا کہ اس کے ہدیے اسے وہیں پہنچتے رہتے؟(بخاری، مسلم ، ابوداؤد)

 بُریدہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو ہم کسی سرکاری خدمت پر مقرر کریں اور اسے اس کام کی تنخواہ دیں، وہ اگر اس تنخواہ کے بعد اور کچھ وصول کرے تو یہ خیانت ہے۔(ابوداؤد)

ردیفع بن ثابت انصاری کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ یہ حرکت نہ کرے کہ مسلمان کے فَے (یعنی پبلک کے مال) میں سے ایک جانور کی سواری لیتا رہے اور جب وہ بیکار ہوجائے تو اسے پھر سرکاری اصطبل میں داخل کردے۔ اور جو شخص اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتا ہو اس کا یہ کام بھی نہیں ہے کہ مسلمانوں کے فَے میں سے ایک کپڑا برتے اور جب وہ پرانا ہوجائے تو اسے واپس کردے۔

عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے والے اور لینے والے دونوں پر لعنت فرمائی۔(ابوداؤد)

عدی بن عمیرۃ الکندی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! جو شخص ہماری حکومت میں کسی خدمت پر مقرر کیا گیا اور اس نے ایک دھاگہ یا اس سے بھی حقیر تر کوئی چیز چھپاکر استعمال کی، تو یہ خیانت ہے جس کا بوجھ اُٹھائے ہوئے وہ قیامت کے روز حاضر ہوگا۔(ابوداؤد)

یہ ہیں اس مسئلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات، اور یہ اپنے مدعا میں اتنے واضح ہیں کہ ان پر کسی تشریح و توضیح کے اضافے کی ضرورت نہیں۔ جو لوگ اپنی حرام خوری کے لیے طرح طرح کے حیلے اور بہانے پیش کرتے ہیں اور اسے اپنی زبانی چال بازیوں کے ذریعے سے حلال بنانے کی کوشش کرتے ہیں، آپ ان سے کہیے کہ اگر حرام کھاتے ہو تو کم از کم اسے حرام تو سمجھو، شاید کبھی اللہ اس سے بچنے کی توفیق دے دے۔ لیکن اگر حرام کو حلال بنا کر کھایا تو تمھارے ضمیر مُردہ ہوجائیںگے، پھر کبھی حرام سے بچنے کی خواہش دل میں پیدا ہی نہ ہوسکے گی۔ اور جب خدا کے ہاں حساب دینے کھڑے ہوگے تو تم کو معلوم ہوجائے گا کہ حقیقت تمھارے بدلنے سے نہیں بدل سکتی۔ حرام حرام ہی ہے خواہ تم اسے حلال بنانے کی کتنی ہی کوشش کرو۔

پھر لوگوں سے کہیے کہ خدا اور آخرت اور حساب اور جزا و سزا، یہ سب تمھارے نزدیک محض افسانہ ہی افسانہ ہے، تب تو حلال و حرام کی بحث فضول ہے۔ جانوروں کی طرح جس کھیت میں ہریالی نظر آئے اس میں گھس جائو، اور جائز و ناجائز کی بحث کے بغیر کھائو جتنا کھایا جاسکے۔لیکن اگر تمھیں یقین ہے کہ اُوپر کوئی خدا بھی ہے، اور کبھی اس کے سامنے جاکر حساب بھی دینا ہے، تو ذرا اس بات پر بھی غور کرلو کہ آخر یہ حرام کی کمائی کس کے لیے کرتے ہو؟ کیا اپنے جسم و جان کی پرورش کے لیے؟ مگر یہ جسم و جان تو اس خدمت پر تمھارے احسان مند نہ ہوں گے بلکہ تمھارے خلاف خدا کے ہاں اُلٹا استغاثہ کریں گے کہ تو نے ہمیں اس ظالم کی امانت میں دیا تھا اور اس نے ہمیں حرام کھلاکھلا کر پرورش کیا۔ پھر کیا بیوی بچوں کے لیے کرتے ہو؟ مگر یہ بھی قیامت کے روز تمھارے دشمن ہوںگے، اور تم پر اُلٹا الزام رکھیں گے کہ یہ ظالم خود بھی بگڑا اور ہمیں بھی بگاڑ دیا۔ پھر آخر یہ عذابِ الٰہی کے خطرے میں اپنے آپ کو کس لیے ڈال رہے ہو؟ کون ہے جو اس ناجائز خدمت پر تمھارا احسان مند ہوگا؟ کس سے اس بے جا سعی پر صلے کی توقع رکھتے ہو؟ وہ غیرالٰہی نظامِ حکومت جس کے ایک جز کی حیثیت سے آپ لوگ کام کر رہے ہیں، بجاے خود ناپاک ہے۔ اس کی حیثیت بالکل خنزیر کے نظامِ جسمانی کی سی ہے جس کی بوٹی بوٹی اور رگ رگ میں حرام سرایت کیے ہوئے ہے۔ اس کے کل پرزے بن کر آپ لوگ پہلے ہی گناہِ عظیم میں مبتلا ہیں۔ اب اس پر خیانت اور رشوت اور باطل طریقوں کے ارتکاب کا اضافہ کر کے اپنے آپ کو کیوں مزید خطرے میں ڈالتے ہو؟ کیا کبھی موت آنی ہی نہیں ہے؟ یا مرنے کے بعد کوئی جاے پناہ تجویز کر رکھی ہے جہاں خدا کی پکڑ سے بچ جانے کی اُمید ہے؟ (سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، رسائل و مسائل، اوّل،ص ۷۸-۸۲)


کمپیوٹر پروگرام کا مفت استعمال

س : کمپیوٹر میں جن پروگراموں پر کام کیا جاتا ہے وہ عموماً چوری شدہ ہوتے ہیں اور مفت میں دستیاب ہیں۔ یہ چوری شدہ پروگرام نیٹ پر بھی دستیاب ہیں اور کھلے عام  سی ڈی میں بھی جن کی قیمت نہ ہونے کے برابر ہے، جب کہ جن افراد یا کمپنیوں نے یہ پروگرام بنائے ہوتے ہیں ان کا ان پر بہت وقت اور پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ مغربی ممالک میں ان کی اچھی خاصی قیمت وصول کی جاتی ہے اور وہاں کے لوگ چوری شدہ پروگراموں کو استعمال کرنے کو غیراخلاقی حرکت تصور کرتے ہیں۔ ان پروگراموں کے بغیر کسی کمپیوٹر پر کوئی کام نہیں ہوسکتا، لہٰذا ان کا استعمال ضروری ہے مگر ان کی قیمت بہت زیادہ ہے اور سب لوگ اتنی استطاعت نہیں رکھتے کہ ان کو خرید سکیں اور کمپنیوں اور بڑے اداروں کے لیے تو ان کے لائسنس بہت ہی مہنگے ہیں۔کیا یہ چوری میں شمار ہوگا؟

ج:چوری شرعاً اس چیز کی شمار ہوتی ہے جو کسی ایسی جگہ میں محفوظ ہو جس تک دوسرے آدمی کی رسائی نہ ہو۔ کمرے کا تالا یا بکس کا تالا توڑ کر اس میں سے چیز نکالی جائے۔ چونکہ چوری شدہ پروگرام بقول آپ کے نیٹ پر بھی دستیاب ہیں اور کھلے عام ان کی سی ڈیز بھی دستیاب ہیں     اس لیے اس کے روکنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس لیے یہ چوری شمار نہ ہوگی۔ جن لوگوں نے یہ پروگرام تیار کیے ہیں اور وہ اس کی قیمت وصول کرنا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ انھیں اپنے بس میں رکھیں کہ وہ جسے دینا چاہیں دیں اور جس سے روکنا چاہیں روکیں۔ اس کے بعد اگر کوئی شخص ان پروگراموں کو کسی طرح سے بلاقیمت و بلااجازت لے گا تو وہ چور شمار ہوگا۔ اگر کمپیوٹر پروگرام تیار کرنے والے چاہتے ہوں کہ لوگ ان کی اجازت سے یہ پروگرام چلائیں اور اس کی قیمت بھی دیں تو اخلاقاً لوگوں کو ان سے اجازت بھی لینا چاہیے اور قیمت بھی ادا کرنا چاہیے، کیونکہ موجودہ دور میں کاپی رائٹ کے تحت ان کا یہ حق بنتا ہے۔(مولانا عبدالمالک)


اعانت ِجماعت کی، زکوٰۃ سے ادایگی

س : ہمارے کچھ ساتھیوں کا کہنا ہے کہ اعانت ِ جماعت، زکوٰۃ کی مَد سے ادا کی جاسکتی ہے، جب کہ کچھ کا موقف ہے کہ زکوٰۃ کے آٹھ مخصوص مصارف ہیں جنھیں سورئہ توبہ میں بیان کردیا گیا ہے اور اعانت ِ جماعت ان مصارف میں نہیں آتی۔ لہٰذا زکوٰۃ کی مَد سے اعانت ادا نہیں کی جاسکتی۔ براہِ مہربانی وضاحت فرما دیں۔

ج:جماعت اسلامی دین کی سربلندی کے لیے سرگرمِ عمل ہے اور دین کی سربلندی کے لیے کام کرنے والی جماعت مجاہد فی سبیل اللہ ہے جو زکوٰۃ کا مصرف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے جو آٹھ مصارف بیان کیے ہیں، ان میں ایک مصرف جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ لہٰذا جماعت کی اعانت میں زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ اس میں کسی قسم کا  تردّد نہیں کرنا چاہیے۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)

سوال : سیاسی انقلاب پہلے یا سماجی انقلاب؟

ہمارے ملک میں یہ احساس عام ہے کہ اسلام کے اصول و احکام پسندیدہ اور مستحسن تو ہیں مگر بحالاتِ موجودہ قابلِ عمل نہیں ہیں۔ عوام و خواص میں اسلام سے جذباتی وابستگی تو ضرور ہے لیکن اسلام کا صحیح فہم اور آمادگیِ عمل بہت کم ہے۔ اسلام  جس ذہنی و عملی انضباط کا مطالبہ کرتا ہے اسے دیکھ کر یہ خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر   اسلامی قوانین کو نافذ کردیا گیا تو کہیں اس کے خلاف شدید ردعمل نہ رُونما ہوجائے۔ سیاسی انقلاب سے پہلے سماجی انقلاب ضروری ہے اور اصلاح کاجذبہ اُوپر سے اور باہر سے پیدا کرنے کے بجاے اندر سے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ صورتِ حال پیدا ہونے سے پہلے کیا اسلامی ریاست کا مطالبہ قبل از وقت نہیں ہے؟

جواب :

اس مسئلے کی اگر پوری وضاحت کی جائے تو اس کے لیے بڑے تفصیلی جواب کی ضرورت ہے۔ لیکن مختصر جواب یہ ہے کہ بلاشبہہ سیاسی انقلاب سے پہلے ایک تمدنی، اجتماعی اور اخلاقی انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی اسلامی انقلاب کا فطری طریقہ ہے۔ اور بلاشبہہ یہ بات بھی درست ہے کہ اسلام کے احکام و قوانین صرف اُوپر سے ہی مسلط نہیں کیے جاسکتے بلکہ اندر سے ان کے اتباع کا دلی جذبہ بھی پیدا کیا جاتا ہے لیکن اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ پاکستان کے قیام کی شکل میں سیاسی انقلاب رُونما ہوچکا ہے۔ اب یہ سوال چھیڑنا بالکل بے کار ہے کہ معاشرتی انقلاب پہلے برپا کرنا چاہیے اور سیاسی انقلاب بعد میں۔ اب تو سوال یہ پیدا ہوگیا ہے کہ جب تک قوم میں مذہبی انقلاب واقع نہ ہو اس وقت تک آیا ہم سیاسی اختیارات کو کافرانہ اصولوں کے مطابق کام میں لائیں۔ سیاسی اقتدار کا کوئی نہ کوئی مصرف اور مقصد بہرحال ہمیں متعین کرنا پڑے گا۔ حکومت کی مشینری کو اخلاقی انقلاب رُونما ہونے تک معطل بہرحال نہیں کیا جاسکتا۔ ایک قوم جو خدا اور اس کے رسولؐ کی حاکمیت اور بالادستی پر ایمان رکھتی ہو،اجتماعی اور قومی زندگی کی باگیں اس کے اپنے ہاتھ میں ہوں، اپنا نظامِ حیات وہ خود تعمیر کرنے کے قابل ہو اور کوئی دوسری کافرانہ طاقت اس پر کوئی کافرانہ نظام مسلط کرنے والی نہ ہو، تو کیا اس قوم کے افراد کے لیے یہ جائز اور درست ہوسکتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو اخلاقی وعظ و نصیحت تو کرتے رہیں گے مگر اپنی ہیئت ِ حاکمہ کو غیراسلامی اصولوں کے مطابق کام کرنے کے لیے چھوڑ دیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اس صورت ِ حال کو گوارا کرلیں، تو گو ہم انفرادی ارتداد کے مرتکب نہ ہوں، اجتماعی اور قومی حیثیت سے ہم ضرور ارتداد کے مرتکب ہوں گے۔

پھر اس معاملے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر آپ اجتماعی و اخلاقی انقلاب لانا چاہتے ہیں تو آپ کو غور کرنا پڑے گا کہ اس انقلاب کے ذرائع و وسائل کیا کیا ہوسکتے ہیں۔ ظاہرہے کہ ان ذرائع میں تعلیم و تربیت، معاشرتی اصلاح، ذہنی اصلاح اور اسی قسم کی بہت سی چیزیں شامل ہیں۔ انھی کے ساتھ ساتھ حکومت کے قانونی اور سیاسی ذرائع و وسائل بھی ہیں۔ حکومت کی طاقت نہ صرف بجاے خود ایک بڑا ذریعۂ اصلاح ہے بلکہ وہ ساری اصلاحی تدابیر کو زیادہ مؤثر،  نتیجہ خیز اور ہمہ گیر بنانے کا بھی ذریعہ ہے۔ اب آخر کیا وجہ ہے کہ اخلاقی انقلاب لانے کے لیے حکومت کے وسائل کو بھی استعمال نہ کیا جائے۔ہمارے ووٹوں اور ہمارے ادا کردہ ٹیکسوں اور مالیوں کے بل پر ہی تو حکومت کا سارا نظام چل رہا ہے۔ آخر اس حماقت اور جہالت کا ارتکاب   ہم کیوں کریں کہ ایک طرف انفرادی حیثیت سے ہم اسلام کے سماجی انقلاب کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کریں اور دوسری طرف حکومت کے سارے ذرائع اخلاق کے بگاڑنے اور فسق و فجور پھیلانے میںلگے رہیں۔(سیّد مودودی، رسائل و مسائل، چہارم، ص ۱۷۹-۱۸۸)


سوال : اسلام اور جمہوریت

جمہوریت کو آج کل ایک بہترین نظام قرار دیا جاتا ہے۔ اسلامی نظامِ سیاست کے بارے میں بھی یہی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ بہت بڑی حد تک جمہوری اصولوں پر مبنی ہے۔ مگر میری نگاہ میں جمہوریت کے بعض نقائص ایسے ہیں جن کے متعلق میں یہ معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ اسلام انھیں کس طرح دُور کرسکتا ہے۔ وہ نقائص درج ذیل ہیں:

  1.  دوسرے سیاسی نظاموں کی طرح جمہوریت میں بھی عملاً آخرکار اقتدار جمہور کے ہاتھوں سے چھن کر اور چند افراد میں مرتکز ہوکر جنگ زرگری کی صورت اختیار کرلیتا ہے اور امرا کی حکومت (Plutocracy) یا ایک محدود طبقے کی حکومت (Oligarchy) کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کا کیا حل ممکن ہے؟
  2. عوام کے متنوع اور متضاد مفادات کی بیک وقت رعایت ملحوظ رکھنا نفسیاتی طور پر ایک بڑا مشکل کام ہے۔ جمہوریت اس عوامی ذمہ داری سے کس شکل میں عہدہ برآ ہوسکتی ہے؟
  3. عوام کی اکثریت جاہل، سادہ لوح، بے حس اور شخصیت پرست ہے اور خودغرض عناصر انھیں برابر گمراہ کرتے رہتے ہیں۔ ان حالات میں نیابتی اور جمہوری ادارات کے لیے کامیابی سے کام کرنا بڑا دشوار ہے۔
  4. عوام کی تائید سے جو انتخابی اور نمایندہ مجالس وجود میں آتی ہیں، ان کے ارکان کی تعداد اچھی خاصی ہوتی ہے اوران کے مابین باہمی بحث و مشاورت اور آخری فیصلہ کرنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔

آپ رہنمائی فرمائیں کہ آپ کے خیال میں اسلام اپنے جمہوری ادارات میں ان خرابیوں کو راہ پانے سے کیسے روکے گا؟

جواب :

آپ نے جمہوریت کے بارے میں جو تنقید کی ہے اس کے تمام نکات اپنی جگہ درست ہیں، لیکن اس مسئلے میں آخری راے قائم کرنے سے پہلے چند اور نکات کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔

اوّلین سوال یہ ہے کہ انسانی معاملات کو چلانے کے لیے اصولاً کون سا طریقہ صحیح ہے؟ آیا یہ کہ وہ معاملات جن لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں،ان کی مرضی سے سربراہِ کار مقرر کیے جائیں اور وہ ان کے مشورے اور رضامندی سے معاملات چلائیں اور جب تک ان کا اعتماد سربراہ کاروں کو حاصل رہے اسی وقت تک وہ سربراہِ کار رہیں؟یا یہ کہ کوئی شخص یا گروہ خود سربراہِ کار بن بیٹھے اور اپنی مرضی سے معاملات چلائے اور اس کے تقرر اور علیحدگی اور کارپردازی میں سے کسی چیز میں بھی ان لوگوں کی مرضی و راے کا کوئی دخل نہ ہو جن کے معاملات وہ چلا رہا ہو؟ اگر ان میں سے پہلی صورت ہی صحیح اور مبنی برانصاف ہے تو ہمارے لیے دوسری صورت کی طرف جانے کا راستہ پہلے ہی قدم پر بند ہوجانا چاہیے، اور ساری بحث اس پر ہونی چاہیے کہ پہلی صورت کو عمل میں لانے کا زیادہ سے زیادہ بہتر طریقہ کیا ہے۔

دوسری بات جو نگاہ میں رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ جمہوریت کے اصول کو عمل میں لانے کی جو بے شمارشکلیں مختلف زمانوں میں اختیار کی گئی ہیں یا تجویز کی گئی ہیں،ان کی تفصیلات سے قطع نظر کرکے انھیں صرف اس لحاظ سے جانچا اور پرکھا جائے کہ جمہوریت کے اصول اور مقصد کو پورا کرنے میں وہ کہاں تک کامیاب ہوتی ہیں، تو کوتاہی کے بنیادی اسباب صرف تین ہی پائے جاتے ہیں۔

  1. اوّل یہ کہ ’جمہور‘ کو مختارِ مطلق اور حاکمِ مطلق (sovereign) فرض کرلیا گیا او ر اس بناپر جمہوریت کو مطلق العنان بنانے کی کوشش کی گئی۔حالانکہ جب بجاے خود انسان ہی اس کائنات میں مختارِ مطلق نہیں ہے تو انسانوں پر مشتمل کوئی جمہور کیسے حاکمیت کا اہل ہوسکتا ہے۔ اسی بناپر  مطلق العنان جمہوریت قائم کرنے کی کوشش آخرکار جس چیز پر ختم ہوتی رہی ہے وہ جمہور پر چند آدمیوں کی عملی حاکمیت ہے۔ اسلام پہلے ہی قدم پر اس کا صحیح علاج کردیتاہے۔ وہ جمہوریت کو ایک ایسے بنیادی قانون کا پابند بناتا ہے جو کائنات کے اصل حاکم (sovereign) نے مقرر کیا ہے۔ اس قانون کی پابندی جمہور اور اس کے سربراہ کاروں کو لازماً کرنی پڑتی ہے اور اس بنا پر وہ مطلق العنانی سرے سے پیدا ہی نہیں ہونے پاتی جو بالآخر جمہوریت کی ناکامی کا اصل سبب بنتی ہے۔
  2. دوم یہ کہ کوئی جمہوریت اس وقت تک نہیں چل سکتی جب تک عوام میں اس کا بوجھ سہارنے کے لائق شعور اور مناسب اخلاق نہ ہوں۔ اسلام اسی لیے عام مسلمانوں کی فرداً فرداً تعلیم اور اخلاقی تربیت پر زور دیتا ہے۔ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ ایک ایک فرد مسلمان میں ایمان اور احساسِ ذمہ داری اور اسلام کے بنیادی احکام کا اور ان کی پابندی کا ارادہ پیدا ہو۔ یہ چیز جتنی کم ہوگی جمہوریت کی کامیابی کے امکانات کم ہوں گے، اور یہ جتنی زیادہ ہوگی امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔
  3. سوم یہ کہ جمہوریت کے کامیابی کے ساتھ چلنے کا انحصار ایک بیدار مضبوط راے عام پر ہے اور اس طرح کی راے عام اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب معاشرہ اچھے افراد پر مشتمل ہو۔ ان افراد کو صالح بنیادوں پر ایک اجتماعی نظام میں منسلک کیا گیا ہو اور اس اجتماعی نظام میں اتنی طاقت موجود ہو کہ برائی اور بُرے اس میں نہ پھل پھول سکیں اور نیکی اور نیک لوگ ہی اس میں اُبھر سکیں۔ اسلام نے اس کے لیے بھی ہم کو تمام ضروری ہدایات دے دی ہیں۔

اگر مندرجہ بالا تینوں اسباب فراہم ہوجائیں تو جمہوریت پر عمل درآمد کی مشینری خواہ کسی طرح کی بنائی جائے، وہ کامیابی کے ساتھ چل سکتی ہے۔ اور اس مشینری میں کسی جگہ کوئی قباحت محسوس ہو تو اس کی اصلاح کرکے بہتر مشینری بھی بنائی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد اصلاح و ارتقا کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ جمہوریت کو تجربے کا موقع ملے۔ تجربات سے بتدریج ایک ناقص مشینری بہتر اور کامل تر بنتی چلی جائے گی۔ (ایضاً، ص ۲۷۹-۲۸۳)


سوال : متبنٰی کی ولدیت کی شرعی حیثیت

سورئہ احزاب آیت نمبر۵ کے حوالے سے قرآن و سنت کی روشنی میں درج ذیل سوالوں کے جواب مطلوب ہیں:

  1. کیا کسی گود لیے گئے یا متبنّٰی کو کسی بھی صورت میں اپنے حقیقی باپ کے سوا کسی اور کی ولدیت سے پکارا یا لکھا جاسکتا ہے؟
  2. اگر نادانستگی یا غلطی سے بچے کے پیدایشی سرٹیفیکیٹ، شناختی کارڈ، اسناد اور نکاح نامے میں ولدیت حقیقی باپ کے بجاے پالنے والے یا گود لینے والے کی لکھ دی گئی ہو تو کیا اس میں تبدیلی ضروری ہے؟
  3.  ایسے غلط اندراج جس میں ولدیت حقیقی باپ کی بجاے گود لینے والے کی تحریر ہو اگر اس کو تبدیل نہ کیا جائے تو شرعاً یہ کس درجے کا جرم ہوگا؟
  4. اختصار کے ساتھ اس حکم کی حکمت بھی بیان فرما دیں تو شکرگزار ہوں گا۔
  5. جن بچوں کے لیے یہ فتویٰ درکار ہے وہ اب بالغ ہوچکے ہیں۔ پاکستان میں زیرتعلیم ہیں، جب کہ اُن کے تمام کاغذات میں لے پالک والد کا نام لکھا ہوا ہے۔  اب اگر اُن کے تمام کاغذات میں نام تبدیل کرایا جائے گا تو یہ مسئلہ پیدا ہوگا کہ پہلے اُن کے لے پالک والدکا نام کیوں لکھا گیاتھا؟ وہ قانونی گرفت میں آسکتے ہیں کیوں کہ اُن کے لے پالک والد سعودی عرب میں ملازم ہیں جہاں ان کے خلاف دھوکادہی کا مقدمہ ہوسکتا ہے۔

جواب :

  1. کسی گود لیے یا متبنّٰی کو کسی بھی صورت میں اپنے باپ کے سوا کسی اور کی ولدیت سے نہیں پکارا جاسکتا اور نہ لکھا ہی جاسکتا ہے۔
  2. اگر نادانستگی یا غلطی سے بچے کے پیدایشی سرٹیفیکیٹ، شناختی کارڈ ، اسناد اور نکاح نامے میں ولدیت حقیقی باپ کے بجاے لے پالک کی لکھ دی گئی ہو تو اس میں تبدیلی ضروری ہے۔
  3. ایسے غلط اندراج جس میں ولدیت حقیقی باپ کے بجاے گود لینے والے کی تحریر کی گئی ہو اگر اسے تبدیل نہ کیا گیا تو قرآنِ پاک کے صریح حکم کی خلاف ورزی اور دورِ جاہلیت کی روایت اور رسم و رواج پر عمل ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا واضح حکم ہے: اُدْعُوْھُمْ لِاٰبَآئِھِمْ(احزاب ۳۳:۵) ’’انھیں اپنے باپوں کے نام کے ساتھ پکارو‘‘۔ اگر کاغذات میں اپنے حقیقی باپ کے بجاے گود لینے والے یا متبنّٰی بنانے والے کا نام لکھا گیا ہے تو وہ اس حکم کی صراحتاً خلاف ورزی ہے۔ یہ شرعاً اس درجے کا حکم ہے جس درجے کا حکم نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کے حکم کی خلاف ورزی کے لیے ہے۔
  4.  بچے اگرچہ بالغ ہوچکے ہوں پھر بھی ولدیت کی تبدیلی لازم ہے۔ رہی یہ بات کہ اس میں حکمت کیا ہے تو حکمت نسب کی حفاظت ہے اور وراثت وغیرہ کے احکام پر عمل درآمد ہے۔ اگر تبدیلی نہ کی گئی تو کل ان لوگوں کی اولاد کا دادا وہ بن جائے گا جس کو کاغذات میں والد لکھا گیا ہے اور اس کی اولاد کے ساتھ ان لوگوں کی اولاد کا نکاح ناجائز ہوجائے گا جو حکمِ شرعی کو تبدیل کردینا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی حکمتیں ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ بہتر جانتے ہیں۔ تبدیلی کے لیے جو مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہو، اس کا سامنا کیا جائے۔ان شاء اللہ شریعت پر عمل کرنے کے نتیجے میں نفع ہوگا، نقصان نہیں ہوگا۔ دل سے حقیقی باپ کے نام کے اندراج کا عزم کرلیں۔ پھر اس کے لیے دعا کرتے رہیں اور تدبیر بھی سوچتے رہیں، مثلاً لے پالک والد، ملازمت سے ریٹائر ہوجائیں تو قانونی گرفت میں آنے کا اندیشہ نہ رہے گا۔ اُس وقت تبدیلی کرا لی جائے۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)

     

سوال : شوت اور اضطرار

  1. حالت ِ اضطرارکیا ہے؟ کیا اضطرار کے بھی حالات اور ماحول کے لحاظ سے مختلف درجات ہیں؟
  2. موجودہ حالات اور موجودہ ماحول میں کیا مسلمانوں کے لیے کسی صورت میں بھی رشوت جائز ہوسکتی ہے؟
  3. اس سوال کا جواب دیتے ہوئے رشوت کی ایک جامع تعریف بھی بیان کردیجیے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ کس قسم کے معاملات رشوت کی تعریف میں آتے ہیں۔

جواب :

  1. اضطرار یہ ہے کہ آدمی کو شریعت کی مقرر کی ہوئی حدود سے کسی حد پر قائم رہنے میں ناقابلِ برداشت نقصان یا تکلیف لاحق ہو۔ اس معاملہ میں آدمی اور آدمی کی قوتِ برداشت کے درمیان بھی فرق ہے اور حالات اور ماحول کے لحاظ سے بھی بہت کچھ فرق ہوسکتا ہے۔ اسی لیے اس امر کا فیصلہ کرنا کہ کون شخص کس وقت کن حالات میں مضطر ہے، خود اس شخص کا کام ہے جو اس حالت میں مبتلا ہو۔ اسے خود ہی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اور آخرت کی جواب دہی کا احساس کرتے ہوئے یہ راے قائم کرنی چاہیے کہ آیا وہ واقعی اس درجہ مجبور ہوگیا ہے کہ خدا کی کوئی حد توڑے؟
  2. موجودہ حالات ہوں یا کسی اور قسم کے حالات، رشوت لینا تو بہرحال حرام ہے، البتہ رشوت دینا صرف اس صورت میں بربناے اضطرار جائز ہوسکتا ہے، جب کہ کسی شخص کو کسی ظالم سے اپنا جائز حق حاصل نہ ہو رہا ہو اور اس حق کو چھوڑ دینا اس کو ناقابلِ برداشت نقصان پہنچاتا ہو اور اُوپر کوئی بااختیار حاکم بھی ایسا نہ ہو جس سے شکایت کرکے اپنا حق وصول کرنا ممکن ہو۔
  3. رشوت کی تعریف یہ ہے کہ ’’جو شخص کسی خدمت کا معاوضہ پاتا ہو وہ اسی خدمت کے سلسلے میں ان لوگوں سے کسی نوعیت کا فائدہ حاصل کرے جن کے لیے یا جن کے ساتھ اس خدمت سے تعلق رکھنے والے معاملات انجام دینے کے لیے وہ مامور ہو قطع نظر اس سے کہ وہ لوگ برضاو رغبت اسے وہ فائدہ پہنچائیں یا مجبوراً۔ جو عہدے دار یا سرکاری ملازمین تحفے تحائف کو اس تعریف سے خارج ٹھیرانے کی کوشش کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ ہروہ تحفہ ناجائز ہے جو کسی شخص کو ہرگز نہ ملتا اگر وہ اس منصب پر نہ ہوتا۔ البتہ جو تحفے آدمی کو خالص شخصی روابط کی بنا پر ملیں، خواہ وہ اس منصب پر ہو یا نہ ہو، وہ بلاشبہہ جائز ہیں۔ (سید ابوالاعلیٰ مودودی، رسائل و مسائل ، دوم، ص ۱۷۹-۱۸۰)

سوال : توبہ اور کفارہ

میں نے ایسے ماحول میں پرورش پائی ہے جہاں اُٹھنے بیٹھنے کے آداب سے لے کر زندگی کے بڑے مسائل تک ہربات میں شریعت کی پابندی ہوتی رہی ہے اور میں اب کالج میں تعلیم پارہا ہوں۔ ماحول کی اس اچانک تبدیلی سے میں عجیب کش مکش میں مبتلا ہوگیا ہوں۔ بعض غیراسلامی حرکات مجھ سے سرزد ہوگئی ہیں۔ جب کبھی ایسی کوئی حرکت ہوئی، ضمیر نے ملامت کی اور اللہ سے عفو کا طالب ہوا، مگر پھر بُرے اثرات ڈالنے والوں کے اصرار اور شیطانی غلبے سے اسی حرکت کا مرتکب ہوگیا۔ اس طرح بار بار توبہ کرکے اسے توڑچکا ہوں۔ اب اگرچہ اپنی حد تک میں نے اپنی اصلاح کرلی ہے اور بظاہر توقع نہیں کہ میں پھر اس گناہ میں مبتلا ہوں گا، لیکن یہ خیال بار بار ستاتا ہے کہ کیا میرے وہ گناہ معاف ہوجائیں گے جو میں نے توبہ توڑ توڑ کر کیے ہیں؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ توبہ توڑنے کا کفارہ کیا ہے؟ اور یہ کہ توبہ شکنی کا علاج کیا ہے؟

جواب :

گناہ کا علاج توبہ و اصلاح ہے۔ توبہ کر کے آدمی خواہ کتنی ہی بار توڑ دے، اسے پھر توبہ کرنی چاہیے اور نئے سرے سے اصلاح کی کوشش شروع کردینی چاہیے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی کسی پہاڑی راستے پر چلتے ہوئے بار بار پھسل جائے۔ ظاہر ہے کہ اس کے اپنی  منزلِ مقصود پر پہنچنے کی صورت یہی ہے کہ وہ خواہ کتنی ہی بار پھسلے، ہر بار اسے گر کر پھر اُٹھنے اور چڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔جو شخص پھسل کر نہ اُٹھے اور ہمت ہار کر وہیں پڑارہ جائے جہاں وہ گرگیا ہے وہ کبھی منزلِ مقصود پر نہیں پہنچ سکتا۔ اسی طرح اخلاقی بلندی پر چڑھنے والا بھی اگر ہرلغزش پر سنبھل جائے اور راہِ راست پر ثابت قدم رہنے کی کوشش جاری رکھے، تو اللہ تعالیٰ اس کی لغزشوں پر گرفت نہ فرمائے گا اور اس کو فائز المرام ہونے سے محروم نہ رکھے گا۔ البتہ گناہ کر کے جو لوگ   گناہ گاری کے مقام پر پڑے ہی رہ جائیں وہ ضرور بُرا انجام دیکھیں گے۔

آپ کے قلب میں اپنی لغزشوں پر ندامت و شرمساری کا احساس تو ضرور رہنا چاہیے، اور عمربھر اپنے رب سے معافی بھی ضرور مانگتے رہنا چاہیے، لیکن یہ شرمساری کبھی آپ کو اپنے رب کی رحمت سے مایوس نہ کرنے پائے۔ کیونکہ اس طرح کی مایوسی اللہ تعالیٰ سے بدگمانی ہے، اور اس میں یہ بھی خطرہ ہے کہ جب آدمی کو سزا سے بچنے کی اُمیدنہ رہے گی تو شیطان اسے دھوکا دے کر بآسانی گناہوں کے چکر میں پھانس دے گا۔

توبہ کو مضبوط بنانے اور توبہ شکنی سے بچنے کے لیے ایک کارگر نسخہ یہ ہے کہ آدمی نفل نماز، نفل روزے اور صدقات نافلہ سے مدد لے۔ یہ چیزیں گناہوں کا کفارہ بھی بنتی ہیں، اللہ کی رحمت کو انسان کی طرف متوجہ بھی کرتی ہیں، اور انسان کے نفس کو اتنا طاقت ور بھی بنادیتی ہیں کہ وہ بُرے میلانات کا زیادہ اچھی طرح مقابلہ کرسکتا ہے۔

اگر توبہ کے ساتھ آدمی نے قسم بھی کھائی ہو اور پھر اسے توڑ دیا ہو تو اس کا کفارہ واجب ہے، یعنی ۱۰ مسکینوں کو کھانا کھلانا یا کپڑے پہنانا، اور اس کی استطاعت نہ ہو تو تین دن کے روزے رکھنا۔ (ایضاً، ص ۳۰۲-۳۰۴)


سوال : خیانت اور ازالے کی صورت

اگر کوئی شخص اپنے سرکاری یا نجی ادارۂ معاش میں وقت کی پابندی نہ کرتا ہو، مقررہ وقت شروع ہوجانے کے بعد تاخیر سے آتا ہو اور وقت ختم ہونے سے قبل ہی چلاجاتا ہو۔ کئی کئی روز حاضر ہی نہ ہوتا ہو اور پھر جب آتا ہو تو گذشتہ دنوں کی بھی حاضری لگا دیتا ہو۔ دفتری اوقات ذاتی کاموں پر صرف کرتا ہو۔ بسااوقات شہر سے باہر بغیر رخصت لیے جاتا ہو اور بعد میں ان ایام کی حاضری بھی لگادیتا ہو اور ان اوقات یا ایام میں کام نہ کرکے بھی مشاہرہ لیتا ہو تو کیا وہ خیانت کا مرتکب نہیں ہوتا؟

جواب : 

ایک آدمی سرکاری یا نجی ادارے میں ملازم ہو تو جو وقت کام کے لیے مقرر ہے وہ پورا وقت اس کام کے لیے دینا ضروری ہے اور مشاہرے کے لیے جو ضابطہ ہے اس کے مطابق مشاہرہ وصول کرنا ضروری ہے۔ اگر وقت کی کمی سے ضابطے کے مطابق مشاہرہ کٹتا ہو تو مشاہرہ کٹوا کر باقی رقم بطور مشاہرہ لی جائے۔ اسی طرح جس دن غیرحاضری ہو اس دن کی حاضری لگانا بھی خیانت اور جھوٹ ہے، اور جھوٹ کے بارے میں ہر ایک کو معلوم ہے کہ گناہِ کبیرہ ہے۔ اسی طرح ملازمت کے اوقات میں نجی کام کرنا بھی جائز نہیں ہے بلکہ خیانت اور جھوٹ ہے ۔ غرضیکہ آدمی صرف وہ کام کرسکتا ہے جس کا ادارے کو پتا چلے تو ادارے کے نزدیک وہ کام جائز اور معیوب اور قابلِ اعتراض نہ ہو۔

مولانا مفتی محمد شفیع اپنی تفسیر معارف القرآن میں فرماتے ہیں: ’’ایمان والوں کا ’پانچواں وصف‘ امانت کا حق ادا کرنا۔ وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رٰعُوْنَo (المعارج ۷۰:۳۲)۔ لفظ امانت کے لغوی معنی ہر اس چیز کو شامل ہیں جس کی ذمہ داری کسی شخص نے اُٹھائی ہو اور اس پر اعتماد و بھروسا کیا گیا ہو۔ اس کی قسمیں چونکہ بے شمار ہیں اسی لیے باوجود مصدر ہونے کے اس کو بصیغہ جمع لایا گیا ہے تاکہ امانت کی سب قسموں کو شامل ہوجائے خواہ وہ حقوق اللہ سے متعلق ہوں یا حقوق العباد سے۔ حقوق اللہ سے متعلق امانات تمام شرعی فرائض و واجبات کا ادا کرنا اور تمام محرمات و مکروہات سے پرہیز کرنا ہے، اور حقوق العباد سے متعلق امانات میں مالی امانت کا داخل ہونا تو معروف ہے کہ کسی شخص کے پاس اپنا کوئی مال امانت کے طور پر رکھ دیا ہو،   یہ اس کی امانت ہے۔ اس کی حفاظت اس کے واپس کرنے تک اس کی ذمہ داری ہے۔ اس کے علاوہ کسی نے کوئی راز کی بات کسی سے کہی وہ بھی اس کی امانت ہے۔ بغیر اذنِ شرعی کے کسی کا راز ظاہر کرنا امانت میں خیانت ہے۔

مزدور ملازم کو جو کام سپرد کیا گیا اس کے لیے جتنا وقت خرچ کرنا باہم طے ہوگیا اس کو اسی کام میں لگانا امانت ہے۔ کام کی چوری یا وقت کی چوری خیانت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ امانت کی حفاظت اور اس کا حق ادا کرنا بڑا جامع لفظ ہے۔ سب مذکورہ تفصیلات اس میں داخل ہیں‘‘ (سورئہ مومنون، آیت ۸)۔

کوئی شخص وہ کچھ کرتا ہو جو آپ نے لکھا ہے، وہ امانت کی شرائط پر پورا نہیں اُترتا۔ البتہ اگر ادارہ جس میں یہ صاحب کام کرتے ہوں اس کی اپنی مِلک ہو تو پھر اسے اختیار ہے کہ ادارے سے مشاہرہ لے یا نہ لے ، تھوڑا لے یا زیادہ لے۔ ادارے کے نگران یا مالک نے جو اپنے لیے طے کیا ہو اس پر عمل درآمد کرسکتا ہے۔ اگر ادارہ سرکاری ہے یا نجی یا کسی دوسرے کا، تو پھر ضروری ہوگا کہ ضابطے کے مطابق عمل شروع کرے، اور سابقہ طرزِعمل سے توبہ کرے اور ادارے سے جو ناجائز مفاد اُٹھایا ہو اسے ادارے کو واپس کرے۔ (مولانا عبدالمالک)


سوال : حج کے ساتھ ساتھ کاروبار کرنا

ایک شخص ہر سال حج کرنے کا عادی ہے اور اس سے اس کا مقصد چیزیں خریدنا اور انھیں منافع پر بیچنا ہوتا ہے۔ کیا اس کا حج مقبول ہے؟

جواب :

اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو حج کی اجازت دیتے ہوئے اس کی حکمت یہ بیان فرمائی  کہ: وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْکَ رِجَالًا وَّ عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ o لِّیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لَھُمْ (الحج ۲۲:۲۷-۲۸) ’’اور لوگوں کو حج کے لیے اذنِ عام دے دو کہ وہ تمھارے پاس ہر دُوردراز مقام سے پیدل اُونٹوں پر سوار آجائیں تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں ان کے لیے رکھے گئے ہیں‘‘۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ    اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلاً مِّنْ رَّبِّکُمْ ط (البقرہ ۲:۱۹۸) ’’اور اگر حج کے ساتھ ساتھ تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جائو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں‘‘۔

حج کرنے والا مختلف قسم کے دینی و دنیاوی منافع کا مشاہدہ کرتا ہے اور حج کے موسم میں تجارت اور حلال کمائی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔اس آیت کے سبب نزول کے متعلق امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ نے حضرت ابن عباسؓ سے حدیث روایت کی ہے کہ انھوں نے فرمایا: ’’لوگ حج کے پہلے دنوں میں عرفہ اور میدانِ عرفہ کے قریب ذی المجاز کے مقام پر خریدوفروخت کرتے تھے درآں حالیکہ وہ احرام میں ہوتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ لہٰذا حج کے موسم میں حلال کمانے میں کوئی مضائقہ نہیں، یعنی اس سے نہ حج فاسد ہوتا اور   نہ اس کا ثواب ہی ضائع ہوتا ہے۔

لہٰذا جو لوگ حج کرنے کے ساتھ ساتھ تجارتی لین دین بھی کرتے ہیں ان کے حج درست ہیں اورفاسد نہیں ہوتے۔ ان پر دوبارہ حج کرنا لازم نہیں آتا ہے، ان کا فریضہ بھی ادا ہوجاتا ہے۔ جہاں تک ثواب کا تعلق ہے تو بظاہر تو یہی ہے کہ اللہ انھیں اس سے محروم نہیں کرے گا لیکن اس کے باوجود اس حدیث کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ: ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہرشخص کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی‘‘۔  چنانچہ اگرسفر حج کے لیے تھا اور وہاں پہنچ کر تجارت بھی کرلی تو حج کا ثواب زیادہ ہوگا، اور اگر سفر تجارت کے لیے تھا اور وہاں پہنچ کر حج بھی کرلیا تو حج کا ثواب کم ہوگا۔ جب ایک نیک کام میں نیتیں زیادہ ہوجائیں تو ممکن ہے کہ ثواب اس نیت سے وابستہ ہو جو سب سے زیادہ قوی ہو۔ باقی ہر چیز سے پہلے اور بعد سارے اختیارات اللہ کے پاس ہیں۔ وہ پاک ہے، سینوں کے راز تک جاننے والا ہے۔(شیخ سعد الدسوقی، ترجمہ: حاجی محمد)


 

سوال : قربانی سے متعلق متفرق سوالات

گھر کے ہر ہر فرد کی طرف سے ایک ایک قربانی ضروری ہے یا ایک قربانی تمام گھر والوں کی طرف سے کافی ہے؟ قربانی کرنا زیادہ افضل ہے یا قربانی کے پیسے  صدقہ کردینا؟

جواب:

قربانی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مؤکدہ ہے۔ نبی اکرمؐ نے اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے دو تندرست مینڈھے ذبح کیے تھے اور فرمایا تھاکہ: ’’اے اللہ! یہ میری طرف سے میرے گھر والوں کی طرف سے اور میری اُمت میں سے جن لوگوں نے قربانی نہیں کی ان لوگوں کی طرف سے ہے‘‘....

رہا یہ مسئلہ کہ قربانی زیادہ افضل ہے یا قربانی کے روپے کو صدقہ کرنا، تو میری راے یہ ہے کہ بلاشبہہ قربانی کرنا زیادہ افضل ہے۔ اس لیے کہ قربانی ایک عبادت ہے جس کا مقصد حضرت ابراہیم ؑ کی سنت کو برقرار اور زندہ رکھنا ہے۔ یہ عبادت ہمیشہ اس عظیم الشان واقعے کی یاد دلاتی رہتی ہے جب ابراہیم ؑ اپنے جگر کے ٹکڑے کو اپنے رب کے حکم کی تعمیل میں اسی کی بارگاہ میں قربان کرنے چلے تھے۔ اپنے رب سے محبت کی یہ ایسی مثال ہے جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے پیارے بندے کو اس کا یہ صلہ دیا کہ اس کے اس فعل کو قیامت تک کے لیے یادگار بنادیا۔ ہر قوم اپنے اہم دن مثلاً آزادی کا دن یا جنگ میں فتح کا دن وغیرہ کی یاد تازہ رکھنے کے لیے ہر سال اس کا جشن مناتی ہے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ قربانی کر کے اس عظیم الشان واقعے کی یاد تازہ رکھیں۔ اس لیے قربانی کرنا قربانی کی قیمت کو صدقہ کرنے کے مقابلے میں زیادہ افضل اور احسن ہے۔

البتہ اگر قربانی کسی میت کی طرف سے کی جارہی ہے تو میری راے یہ ہے کہ اگر قربانی کسی ایسے علاقے میں کی جائے جہاں لوگوں کو گوشت کی زیادہ ضرورت ہے تو وہاں قربانی کرنا زیادہ افضل ہے، اور اگر قربانی کسی ایسے علاقے میں کی جائے جہاں پہلے سے کافی گوشت موجود ہو اور لوگوں کو پیسوں کی زیادہ ضرورت ہو تو وہاں قربانی کی قیمت کو صدقہ کرنا زیادہ افضل ہے۔

گھر کے تمام افراد کی طرف سے صرف ایک قربانی کا جانور کافی ہے۔ کیوں کہ نبی اکرمؐ نے جب قربانی کی تو فرمایا کہ اے اللہ! یہ محمدؐ اور اس کے گھروالوں کی طرف سے ہے۔ ابوایوب انصاریؓ فرماتے ہیں کہ حضوؐر کے زمانے میں ہم میں سے ہرشخص اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے صرف ایک بکری ذبح کرتا تھا۔ لیکن اس کے بعد لوگوں نے فخرومباہات کے لیے زیادہ قربانیاں کرنی شروع کردیں جیساکہ تم دیکھ رہے ہو۔(ڈاکٹر یوسف قرضاوی، فتاویٰ یوسف قرضاوی، ص ۱۹۴-۱۹۶)

سوال : بچپن کا حج

کیا سنِ بلوغ سے قبل حج کرنے سے فرض حج ادا ہوجائے گا؟ اس سن میں اگر کسی نے حج کیا اور اس کے بعد گناہ کی زندگی گزاری تو کیا اس کا حج باطل ہوجائے گا اور اسے دوبارہ حج کرنا ہوگا؟

جواب :

سنِ بلوغ سے قبل حج کرنے سے حج کی فرضیت ساقط نہیں ہوتی۔ حج کی فرضیت اسی وقت ساقط ہوتی ہے جب اسے سنِ بلوغ کے بعد ادا کیا جائے۔

حج کی ادایگی کے بعد بھی کوئی شخص بُرے کاموں میں ملوث رہا تو اس سے اس کا حج باطل نہیں ہوگا کیوں کہ بُرے کاموں کی وجہ سے اچھے اور نیک اعمال رائیگاں نہیں ہوتے، البتہ ان کے ثواب میں کمی ضرور ہوجاتی ہے۔ قیامت کے دن ہر شخص کے سامنے اس کے چھوٹے بڑے، اچھے اور بُرے سارے اعمال پیش کیے جائیں گے اور انھی اعمال کی بنیاد پر اس کا حساب کتاب ہوگا۔ فرمانِ الٰہی ہے: فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ o وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ o (الزلزال۹۹: ۷-۸) ’’ جوکوئی ذرہ برابر نیکی کرے گا وہ اس کو دیکھ لے گا اور جو کوئی ذرہ برابر بدی کرے وہ اس کو دیکھ لے گا‘‘۔

بہرحال، بندۂ مومن سے یہی اُمید کی جاتی ہے کہ حج کا اثر اس کے اعمال میں ظاہر ہو۔ اپنی گذشتہ زندگی میں جن بُرے کاموں میں وہ ملوث رہا، ان سے سچی توبہ کرے اور آیندہ زندگی اللہ کی اطاعت میں گزارنے کا پکا ارادہ کرے اور اس کے لیے پوری کوشش کرے۔ اللہ سے اپنے رشتے کو مضبوط تر کرے اور یہی وہ حج مبرور ہے جس کا صلہ جنت ہے۔

اگر صاحب ِ سوال نے سنِ بلوغ سے پہلے حج کیا ہے تو انھیں اب دوبارہ حج کرنا چاہیے تاکہ فرضیت ادا ہوسکے، البتہ پہلے حج کا ثواب انھیں ضرور ملے گا۔ (ایضاً،ص ۱۸۳)

سوال : بقرعید کے چاند کے بعد بال یا ناخن کٹوانا

کیا بقرعید کا چاند دیکھنے کے بعد اس شخص کے لیے ناخن یا بال کٹواناجائز ہے جو قربانی کرنا چاہتا ہو؟

جواب :

حنبلی مسلک کے مطابق قربانی کرنے والے شخص کے لیے چاند دیکھنے کے بعد بال یا ناخن کٹوانا جائز نہیں ہے، کیوں کہ حجاج کرام احرام کی حالت میں یہ چیزیں نہیں کٹواتے۔ اس لیے اس کیفیت کو زندہ رکھنے کے لیے قربانی کرنے والے کو بھی یہ چیزیں نہیں کٹوانی چاہییں۔ البتہ راجح قول یہ ہے کہ ایسا کرنا صرف مکروہ ہے۔ اگر کسی نے ناخن کٹوایا یا بال بنوا لیے تو اس پر کوئی فدیہ نہیں ہے۔ اسے چاہیے کہ اللہ سے مغفرت طلب کرے اور بس۔ اگر کسی شخص کو زیادہ دن تک ناخن یا بال چھوڑنے سے تکلیف ہوتی ہو اور اس نے یہ چیزیں کٹوا لیں تو کوئی حرج کی بات نہیں۔ (ایضاً، ص ۱۹۶-۱۹۷)

سوال:اقامت ِدین کے لیے مسجد کو زکوٰۃ ؟

’رسائل و مسائل‘ میں ’اقامت ِ دین کے لیے مسجد کو زکوٰۃ دینا‘ (جولائی ۲۰۱۴ء) عنوان کے تحت جواب مبہم ہے۔

  1.  مسجد تو اقامت ِ نماز اور اجتماعات دروسِ حدیث و قرآن ہی کے لیے ہوتی ہے۔ کیا نماز کا قیام اقامت ِ دین میں شامل نہیں؟
  2. اقامت ِ دین اور فی سبیل اللہ میں کیا فرق ہے؟ اگر اقامت ِ دین کے لیے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے تو اس کے وہ کون سے اُمور ہیں جو فی سبیل اللہ کی مد میں نہیں آتے؟
  3.  مسجد کے کن اخراجات میں زکوٰۃ استعمال کی جاسکتی ہے؟

جواب:

  1. اقامت ِ دین کے دو معنی ہیں: ایک معنی کے لحاظ سے وہ زکوٰۃ کا مصرف نہیں ہے اور دوسرے معنی کے لحاظ سے وہ زکوٰۃ کا مصرف ہے۔ اقامت ِ دین کا ایک معنی ٰدین کے احکام پر عمل کرنا ہے۔ اس لحاظ سے جو نیکی بھی انسان کرے وہ اقامت ِ دین ہے۔ مسجد بنانا، نماز پڑھنا اور نماز کا قیام، روزہ رکھنا، ہسپتال بنانا، بیماروں کی بیمارپُرسی کرنا، جنازہ پڑھنا، جنازہ گاہ بنانا، ماں با پ کی خدمت کرنا، قرابت داروں کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آنا، بیوی بچوں کے کھانے پینے، لباس اور دیگر ضروریات کا بہتر انتظام کرنا، یہ سب کام اقامت ِ دین کے تحت آتے ہیں۔ اسی طرح اگر عدالتیں شریعت کے مطابق فیصلے کریں، زانی کو کوڑے لگائیں، چور کا ہاتھ کاٹیں، ڈاکو کو سزا دیں وغیرہ ، یہ تمام کام بھی اقامت ِ دین ہیں۔
  2. اقامت ِ دین کے دوسرے معنی اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ نظام کو دوسرے نظاموں پر غالب کرنے کے لیے دعوت و تبلیغ اور تلوار اور نیزے کے ذریعے جدوجہد کرنا ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے اقامت ِ دین زکوٰۃ کا مصرف ہے جسے قرآنِ پاک میں ’فی سبیل اللہ‘ کہا گیا ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے فی سبیل اللہ میں صرف دینی تعلیم و تبلیغ، دینی مدارس، دین کے لیے اشاعت اور دینی لٹریچر اور جہاد و قتال اس کا مصداق اور زکوٰۃ کا مصرف ہیں۔ بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوگئی ہے کہ وہ ہرخیر کے کام کو زکوٰۃ کا مصرف قرار دیتے ہیں لیکن یہ غلط ہے۔ اگر ہرخیر کا کام زکوٰۃ کا مصرف ہوتا تو پھر آٹھ مصارف کو الگ الگ بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ سیدھے سادے الفاظ میں کہہ دیا جاتا کہ نیکی کے کاموں میں زکوٰۃ و صدقات خرچ کریں لیکن ایسا نہیں کہا گیا۔ اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ فی سبیل اللہ اپنے ایک مخصوص معنی کے لحاظ سے زکوٰۃ کا مصرف ہے۔
  3. درسِ قرآن اور درسِ حدیث، دعوت دین اور اشاعت دین کا ذریعہ ہیں، لہٰذا یہ زکوٰۃ کا مصرف ہیں۔ لیکن مسجد کی تعمیر، مسجد کی ضروریات، امام مسجد اور خادم مسجد کی تنخواہ زکوٰۃ سے نہیں دی جاسکتی۔ وہ دیگر عطیات سے جمع کر کے دی جائے۔ (مولانا عبدالمالک)

سوال : ملٹی لیول مارکیٹنگ کمپنی کا منافع

میں ایک ایسی کمپنی سے وابستہ ہوا ہوں جو کہ دنیا کے بہت سے ممالک میں کام کررہی ہے۔ یہ کمپنی مختلف اشیا فروخت کرتی ہے۔ مجھے ۳۵ہزارروپے کی خریداری کرنا ہے۔ اس خریداری پر میں ۳ سٹار (Three Star) بن جائوں گا۔ اس کے بعد مزید تین افراد کو خریدار بنائوں گا۔ وہ افراد جیسے جیسے مزید افراد کو ممبر بناتے جائیں گے میرا گریڈ بڑھتا جائے گا۔ یوں مجھے بھی منافع ملتا رہے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے ۳سٹار، ۴سٹار وغیرہ افراد کو بھی حصہ ملے گا۔ دیا گیا منافع فی صد کے حساب سے مقرر ہوتا ہے، جیسے سیونگ اکائونٹ پر فی صد منافع ملتا ہے۔ اس طرح کا منافع سود ہے یا نہیں؟ نیز یہ منافع حلال ہے یا حرام؟

جواب :

مذکورہ بالا کمپنی کے علاوہ بھی کئی کمپنیاں اس طرح کا کاروبار کرتی ہیں اور اپنی اشیا (products) کو فروخت کرتی ہیں۔ بعض کمپنیوں کی فروخت کنندہ اشیا میں ایسی اشیا بھی شامل ہوتی ہیں کہ جن کی خریدار کو ضرورت نہیں ہوتی۔ کمپنی سے وابستہ ہونے والا شخص محض مستقبل کے منافع کے لالچ میں یہ خریداری کرتا چلا جاتا ہے، جو کہ سراسر فضول خرچی اور تعیش کے زمرے میں آتا ہے، جب کہ شریعت بلاضرورت اشیا کی خرید اور استعمال کو منع کرتی ہے۔ نیز بلاضرورت اشیا کی خریدو استعمال کو اسراف اور تبذیر قرار دیتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَّ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا ج اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَo (الاعراف ۷:۳۱) ’’اور کھائو پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ اس طرح کے کاروبار میں پہلی قباحت تو اسراف اور تبذیر کا پایا جانا ہے۔

اس معاملے میں دوسری قباحت خود لالچ کو اختیار کرنا اور دوسروں کو لالچ میں مبتلا کرنا ہے، یعنی اس کے نتیجے میں آپ کو منافع ملے گا۔ تیسری قباحت یہ ہے کہ آپ کس چیز کا کاروبار کر رہے ہیں؟ آپ نے تو کوئی سرمایہ کاری نہیں کی، نہ شراکت اور نہ مضاربت، اور نہ یہ اُجرت (اجارہ اشخاص) ہی کا معاملہ ہے، تو منافع کس چیز کا؟ چوتھی قباحت اس معاملے میں یہ ہے کہ نئے ممبر بنانے میں جو محنت اور جدوجہد دوسرے اشخاص نے کی ہے اس میں آپ کا حق کہاں سے آگیا؟ پانچویں قباحت یہ کہ سیونگ اکائونٹ میں تو ایک شخص اپنی رقم بچت کی صورت میں رکھ کر اس پر سود حاصل کرتا ہے (جو کہ حرام ہے)، جب کہ یہاں تو رقم بھی جمع نہیں کروائی گئی اور آپ ایک مخصوص رقم (final profit) لینے لگ گئے۔ مذکورہ بالا وجوہات کی بناپر یہ معاملہ شرعی لحاظ سے درست نہیں ہے اور مسلمانوں کو اس سے اپنا دامن بچانا چاہیے، واللّٰہ اعلم بالصواب۔(ڈاکٹر میاں محمد اکرم)

___________________________________________________________________

تصحیح: ۱-مکتبہ تعمیر انسانیت، لاہور ۔ فون: ۳۷۲۳۷۵۰۰- ۳۷۳۱۰۵۳۰-۰۴۲ 

 ۲-ماہنامہ سوچنے کی باتیں، لاہور۔ مدیر: انوار احمد، درست فون: ۳۷۱۵۸۷۵۲-۰۴۲

سوال: زکوٰۃ اور نیت کی تبدیلی

 کسی شخص نے کوئی عمارت فروخت کرنے کی خاطر بنوائی، لیکن برسوں بعد بھی وہ فروخت نہ ہوسکی۔ کیا اب اس کے لیے جائز ہے کہ فروخت کرنے کی نیت تبدیل کرکے اسے کرایے پر اُٹھا دے؟ ایسی صورت میں اس کی زکوٰۃ کس طرح ادا کی جائے گی، کیونکہ پہلے تو یہ عمارت فروخت کی خاطر بنائی گئی تھی لیکن اب کرایے پر اُٹھا دی گئی ہے؟

جواب:

  جب تک اس کی نیت یہ تھی کہ اسے عمارت فروخت کرنی ہے، اس وقت تک اس عمارت کو عروض التجارۃ (مالِ تجارت)سمجھ کر اسے اس کی قیمت کا اندازہ کر کے اس پر زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔ لیکن جب اس نے اپنی نیت تبدیل کرلی اس وقت سے زکوٰۃ اس عمارت کی قیمت پر نہیں بلکہ اس کے کرایے پر ادا کرنی ہوگی۔ رہا یہ مسئلہ کہ وہ اپنی نیت تبدیل کرسکتا ہے یا کہ نہیں؟ تو یہ اس کا شرعی حق ہے کہ ضرورت پڑنے پر جب چاہے اپنی نیت تبدیل کرسکتا ہے۔ (ڈاکٹر یوسف القرضاوی، فتاویٰ یوسف القرضاوی، ترجمہ: سید زاہد اصغر فلاحی، دارالنوادر، لاہور ،ص ۱۳۸)

سوال: پٹے پر حاصل زمین پر زکوٰۃ

 بعض لوگ لیز، یعنی پٹے پر حکومت سے زمین حاصل کرتے ہیں، پھر تجارت کی غرض سے اس زمین پر آفس یا گودام وغیرہ بنالیتے ہیں۔ کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ لیز کی مدت ختم ہونے کے بعد وہ زمین حکومت کو واپس کرنی پڑتی ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اتنی ہی یا اس سے کم مدت کے لیے دوبارہ زمین لیز پر مل جاتی ہے۔ کیا اس زمین پر زکوٰۃ واجب ہے؟

جواب:

لیزپر حاصل کی ہوئی زمین پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے، کیونکہ یہ زمین دراصل حکومت کی ملکیت ہے نہ کہ زمین حاصل کرنے والے کی۔ زکوٰۃ اس چیز پر ادا کی جاتی ہے، جو اپنی ملکیت میں ہو۔ رہی وہ عمارت یا آفس جو اس زمین پر بنائی جاتی ہے تو اس پر بھی زکوٰۃ نہیں ہے کیوں کہ آفس یا عمارت عروض التجارۃ (مالِ تجارت) نہیں ہے۔زکوٰۃ اس مالِ تجارت سے ادا کی جائے گی جو اس آفس یا عمارت میں فروخت کرنے کی غرض سے رکھا جاتا ہے۔(ڈاکٹر یوسف قرضاوی، ایضاً، ص ۱۳۹)

سوال: رویت ہلال کا فرق اور اعتکاف

صوبہ خیبرپختونخوا کے بعض علاقوں میں پاکستان کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں رمضان المبارک ایک دن پہلے شروع ہوتا ہے۔ جب ہمارے ہاں رمضان کی ۲۰تاریخ ہوتی ہے تو پنجاب میں ۱۹رمضان ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاں کا کوئی آدمی پنجاب میں اعتکاف کے لیے بیٹھنا چاہے تو وہ اپنے ۲۰رمضان کے حساب سے بیٹھے یا پھر ایک دن بعد پنجاب کے ۲۰رمضان کے حساب سے۔ اسی طرح کا مسئلہ اعتکاف کے اختتام پر بھی پیش آتا ہے۔ اسی بنا پر ہمارے ہاں بعض لوگ یہاں کے ۲۰رمضان کے مطابق وہاں اعتکاف کے لیے بیٹھ جاتے ہیں اور پھر یہاں کے ۲۹ یا ۳۰رمضان کو اعتکاف ختم کر کے واپس آتے ہیں حالانکہ وہاں اعتکاف ابھی ختم نہیں ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو پنجاب ہی کے حساب کے مطابق اعتکاف شروع کرتے ہیں اور ختم کرتے ہیں۔ تحقیق طلب مسئلہ یہ ہے کہ صحیح طرزِعمل کیا ہے؟

جواب:

خیبرپختونخوا یا بلوچستان اور کسی دوسرے پاکستانی علاقے کو پاکستان میں قائم رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کو اپنانا چاہیے۔ حکومت کا یہ کام شریعت کے مطابق ہے کہ اس نے رویت ہلال کے لیے کمیٹی قائم کی ہے اور اس کا ایک سربراہ مقرر کیاہے۔ وہ کمیٹی ہر ماہ رویت ہلال کے لیے اجلاس بھی کرتی ہے اور چاند کو دیکھنے کا اہتمام بھی کرتی ہے۔ اس کی یہ کوشش قابلِ قدر ہے، لہٰذا اس کے فیصلے کے مطابق چلنا چاہیے۔

اگر اعتکاف کسی ایسے علاقے میں ہو جہاں کی بیسویں رمضان خیبرپختونخوا کے بعد ہو، خیبرپختونخوا میں اس دن جب لاہور، راولپنڈی، مری میں بیس ہو ، ۲۱رمضان ہو تو اعتکاف میں جہاں اعتکاف کرے گا اسی جگہ کا اعتبار ہوگا۔ اگرچہ اس نے ایک دن پہلے روزہ رکھا ہو ۔ اسی طرح اعتکاف سے نکلنا بھی اس جگہ کے اعتبار سے ہوگا جہاں اعتکاف میں بیٹھا ہے۔ جب وہاں کے لوگ حکومت کی رویت ہلال کمیٹی کے مطابق چاند کا اعلان ہونے پر اعتکاف سے نکلیں تو و ہ بھی نکلے اگرچہ اس علاقے میں لوگ ایک دن پہلے اعتکاف سے اُٹھ چکے ہوں اور ایک دن پہلے عید کرچکے ہوں۔واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)

سوال: اقامت ِ دین کے لیے مسجد کو زکوٰۃ دینا

زکوٰۃ کے مصارف میں سے ایک اقامت ِ دین ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر مسجد اقامت ِ دین کا فریضہ اداکرنے کے لیے قائم کی گئی ہو تو کیا وہاں زکوٰۃ دی جاسکتی ہے؟

جواب:

وہ مسجد جو اقامت ِدین کی غرض سے قائم کی گئی ہو اسے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ خیال رہے کہ اس زکوٰۃ کو مسجد کے مصارف میں خرچ نہیں کیا جاسکتا صرف اقامت ِ دین کے اُمور میں صرف کیا جاسکتا ہے جو فی سبیل اللہ کی مد میں آتے ہیں، یا دیگر مصارف پر جو سورئہ توبہ میں بیان کیے گئے ہیں۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)

سوال: غیرمسلموں سے مالی تعاون کا حصول

  1. مسلمانوں کا کوئی گروہ اگر خدمت ِ خلق میں مصروف ہو اور کوئی غیرمسلم  اس میں عملی، مالی یا کسی اور صورت میں تعاون کرنا چاہے، تو اس کے لیے کیاشرعی حکم ہے؟
  2. زیرتعمیر مسجد میں اگر کوئی غیرمسلم علانیہ قابلِ ذکر تعاون کرنا چاہے تو خادمین مسجد ، اہلِ محلہ کے لیے کیا حکم ہے؟ مندرجہ بالا حالات میں اگر نیت میں فتور نظر آرہا ہو، اور مقصد اور نیت دونوں میں خلوص نظر آرہا ہو، ہر دو صورتوں میں لائحہ عمل کیا ہوگا؟
  3. کیا اسلامی ریاست اپنے غیرمسلم ممالک سے اچھے پڑوس اور بہتر تعلقات کے علاوہ عوام کی فلاح و بہبود، تعلیم، سائنس، ٹکنالوجی اور جنگی سازوسامان میں تعاون لے سکتی ہے، اگر غیرمسلم ریاست کی نیت میں بظاہر فتور نظر نہ آتا ہو؟
  4. اگر مسلمان کہیں جہاد کے لیے اُٹھیں اور غیرمعاہد غیرمسلموں کا کوئی گروہ اپنے اسٹرے ٹیجک مفاد، اپنی حفاظت، مجاہدین کے رعب، مسلمان اکثریت یا کسی بھی وجہ سے، مجاہدین کی عسکری، عملی، مالی یا لاجسٹک مدد کرنا چاہے، تو کیا مسلمان مجاہدین کو  ان کا تعاون حاصل کرنا چاہیے؟

جواب:

  1. مسلمانوں کا وہ گروہ جو خدمت ِ خلق میں مصروف ہو اگر غیرمسلم اس میں مالی تعاون کرنا چاہیں بشرطیکہ اپنے مفادات کو، جو مسلمانوں کے مفادات سے ٹکراتے ہوں، حاصل کرنا ان کے پیش نظر نہ ہو، تومالی تعاون لے سکتے ہیں، جیسے کہ دارالکفر کے مسلمان وہاں کی حکومت سے مالی اعانت لے سکتے ہیں۔ اسی طرح ان کے عوام سے بھی مشروط مالی تعاون لیا جاسکتا ہے۔
  2. محلے کی زیرتعمیر مسجد میں اگر کوئی غیرمسلم علانیہ قابلِ ذکر تعاون کرنا چاہے اور مسجد کے معاملات میں دخل اندازی کا خطرہ نہ ہو، تو مالی تعاون لیا جاسکتا ہے اور اگر دخل اندازی کا خطرہ ہو تو پھر تعاون نہ لیا جائے۔مندرجہ بالا تمام صورتوں میں نیت میں فتور ہو تو پھر تعاون نہ لیا جائے اور اگر نیت میں خلوص نظر آتا ہو تو تعاون لیا اور دیا جاسکتا ہے۔
  3. غیرمسلم ریاست سے اگر تعاون لیا جائے تو مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ جائز ہے۔
  4. اگر کوئی غیرمسلم، غیرمعاہد گروہ اپنے حالات اور مفاد اور مسلمانوں کے رعب اور اکثریت کے سبب مسلمان مجاہدین کے ساتھ تعاون کرنا چاہے، تو ایسی صورت میں، جب کہ مجاہدین مجبور نہ ہوں، ان کا تعاون نہ لیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَا نَسْتَعِیْنُ بِمُشْرِکٍ  ’’ہم مشرک سے مدد نہیں لیتے‘‘۔واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)

_______________

سوال : 

موجودہ دور میں مردوں کی دوسری شادی (پہلی بیوی کی موجودگی میں) کے معاملے میں مَیں نے جتنا غور کیا ہے تو یوں لگتا ہے کہ اگرچہ شریعت نے مرد کو یہ اختیار دیا ہے لیکن عملاً یہ اختیار پہلی بیوی کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اگر میاں بیوی کے درمیان بہت اچھی ذہنی ہم آہنگی بھی ہو، اور خوش گوار ازدواجی زندگی گزار رہے ہوں، اس کے باوجود شوہر یا تو اپنی فطری خواہش کی وجہ سے دوسری شادی کرنا چاہتا ہو، یا پھر کسی ایسی بے سہارا خاتون کو سہارا دینے کے لیے کرنا چاہتا ہو جو کہ خود بھی ایک دین دار اور خوفِ خدا رکھنے والی خاتون ہو، مگر پہلی بیوی اس بات کو پسند نہ کرے اور ایسے میں مرد بیوی کی ناراضی اورگھر میں ناچاقی کے ڈر سے اپنے ارادے سے باز رہے، تو کیا بیوی گناہ گار ہوگی کہ اس نے اللہ کے عطا کردہ اختیار کو استعمال کرنے سے روک دیا؟

اس معاملے میں دوسری رکاوٹ ہمارا معیارِزندگی ہے۔ عورتیں اپنے شوہروں سے مطالبہ کرتی ہیں کہ بالکل علیحدہ گھر کا انتظام کریں مگر ہماری ضروریات اور لوازمات اس قدر    بڑھ چکے ہیں کہ آج کے ا س مہنگائی کے دور میں عملاً یہ ممکن نہیں رہا۔ بہت ہی کم لوگ ہیں جو اس کا بار اُٹھا سکتے ہیں۔ اگر دونوں بیویوں کو ایک ہی گھر میں رکھا جائے تو کیا   یہ اسلامی معاشرت کا ایک اچھا نمونہ کہلانے کے قابل ہوگا یا اس کے برخلاف؟

میں اپنی بات کو عمومیت سے ہٹا کر خاص اپنے معاملے کو آپ کے سامنے بیان کرنا چاہتی ہوں۔ میری عمر ۳۶سال ہے، شادی کو ۱۱سال ہوئے ہیں اور چھے بچے ہیں۔ دعوتِ دین کی جدوجہد سے وابستہ ہونے کی حیثیت سے مَیں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا ہے کہ ہم خواتین کا اصل کام یہ ہے کہ ہم عملاً اسلامی معاشرت کو اپنے گھروں میں زندہ کریں۔ کیونکہ خواتین کا اصل میدان تہذیبی اور معاشرتی میدان ہے۔

پھر میں نے یہ سوچا کہ اسلام تو دینِ فطرت ہے۔ تعددِ ازدواج مرد کی فطرت سے  قریب تر ہوگااس لیے اس کی اجازت دی گئی ہے۔ پھر شریعت میں انفرادی مصلحت پر اجتماعی مصلحت کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس اجازت کی بدولت معاشرے کی بہت سی  بے سہارا خواتین کے حقوق کا تحفظ ممکن بنایا گیا ہے۔ دوسری طرف پہلی بیوی کے لیے یہ بات اگر اتنی ناگوار ہے تو شاید قصور شریعت کا نہیں بلکہ ہمارے اپنے مزاج کا ہے۔ شریعت کے احکام تو فطرت پر ہیں مگر ہمارا نفس شاید فطرت کے خلاف استوار ہوچکا ہے۔

میرے قریبی حلقے میں بعض ایسی خواتین ہیں جو یا تو بیوہ ہوگئیں یا انھیں طلاق دے دی گئی ہے۔ بہت سوچ بچار اور بارہا استخارے کے بعد میں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ اپنے شوہر کی دوسری شادی مکمل رضامندی کے ساتھ کرا دوں۔ میرے شوہر نے بھی میرے اُوپر چھوڑاہے کہ آپ راضی ہوں تو میں دوسری شادی کروں گا۔ عقلی طور پر بہت سے دلائل میں اس فیصلے کے حق میں جمع کرچکی ہوں مگر جذباتی طور پر تمام دوسری عورتوں کی طرح میں بھی اسے ایک نہایت مشکل مرحلہ سمجھتی ہوں۔ اگر میں اپنے شوہر کو اس سے روک دوں یا خوش دلی سے آمادہ نہ ہوں، تو پوری زندگی مجھے یہ احساس رہے گا کہ میں شریعت کی مصلحتوں کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوں۔

بہت سوچ کر مَیں نے ایک باعلم اور عمر رسیدہ تحریکی خاتون سے مشورہ کیا جنھوں نے میری راے کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ: یہ تو تم خود اپنے آپ کو آزمایش میں ڈال رہی ہو۔ اللہ کو یہ مطلوب ہرگز نہیں ہے کہ بندہ خود کو مشکل میں ڈالے اور نہ تو یہ کوئی عزیمت کا راستہ ہے، نہ کسی متروک اسلامی روایت کا احیا ہی ہے۔ بالکل غلط سوچ ہے تمھاری۔ جب مرد تمھارا شوہر اس ضمن میں زبردستی نہیں کر رہا تو اپنی زندگی میں تلخی نہ بھرو۔

اس بات پر میں مطمئن نہ ہوسکی۔ ایک طرف اپنی اس بہن کے بارے میں سوچتی ہوں جو بے سہارا ہے اور وہ حدیث ذہن میں آتی ہے کہ اسلامی معاشرے کی ہر اینٹ دوسری کو تقویت دیتی ہے۔ دوسری طرف مجھے معلوم ہے کہ میرے شوہر کی بھی خواہش ہے لیکن وہ مجھے ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ تیسری طرف یہ بھی دیکھتی ہوں کہ میرے شوہر کو اللہ تعالیٰ نے معاملہ فہمی، وسعت ظرف اور عدل جیسی خوبیاں عطا کی ہیں۔ پھر جب کسی قدر اپنے دل کی تنگی کو رکاوٹ بنتا محسوس کرتی ہوں تو اپنے فہم کے مطابق مجھے یہی  سمجھ میں آتا ہے کہ مجھے بہرحال اس راستے کو اختیار کرنا چاہیے کیونکہ شاید یہی عزیمت ہے اور دوسری صورت میں، مَیں رخصت کو اختیار کروں گی۔ عزیمت کو اختیار کرنے کے لیے مجھے اپنی کمزوریوں کو دُور کرنا چاہیے اور اللہ پر توکّل کرنا چاہیے۔

جواب :

یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اس گئے گزرے دور میں بھی تحریکِ اسلامی سے وابستہ خواتین کو ایسے حساس معاملات میں جن میں خود ان کے جذبات اور حقوق متاثر ہوتے ہوں، اپنی ذات سے بلند ہوکر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول اور رب کریم کی نافرمانی سے بچنے کی خواہش انھیں زیادہ عزیز ہے۔ اللہ تعالیٰ تحریکِ اسلامی سے وابستہ اور دیگر خواتین کو بھی اپنی ذاتی پسند، سہولت اور خواہش سے بلند ہوکر قرآن وسنت پر عمل کرنے کی توفیق دے، آمین!

سوال :

میں تین اہم پہلو غور طلب ہیں: اوّل اسلام کے معاشرتی اور عائلی نظام میں بنیادی اکائی یک زوجگی کی ہے یا تعدُّد کی اور اس حوالے سے سنت مطہرہ سے کیا اصول و ہدایت ملتی ہے؟ دوم: اسلامی معاشرے میں بیوہ اور مطلقہ خواتین کا مسئلہ کس طرح حل کیا جائے؟ سوم: یہ کہ اگر ایک شادی شدہ شخص جو اپنی بیوی سے مطمئن ہو، اللہ نے اسے اولاد بھی دی ہو ، ذہنی اور فکری سکون بھی اسے حاصل ہو لیکن وہ مزید نکاح کا خواہاں ہو، تو کیا اس کا قرآن کی دی ہوئی ’اجازت‘ کا استعمال کرنا اس کا اپنے ساتھ، اپنی بیوی اور اولاد کے ساتھ عدل کا رویہ ہوگا؟

جواب :

ضمنی طور پر یہ پہلو بھی غور کا مطالبہ کرتا ہے کہ اگر ایک شخص نکاح ثانی کا خواہاں ہو اور اس کے پاس مالی وسائل نہ ہوں یا موجود ہوں تو کیا محض وسائل کی موجودگی اسے ایک ’شرعی‘ اجازت کو استعمال کی اجازت دیتی ہے، یا اُس کے مقابلے میں وہ افراد جو ابھی تک شادی شدہ نہ ہوں انھیں ترجیحی بنیاد پر ایسی خواتین کو اپنانا چاہیے؟

قرآنِ کریم نے ایک عمومی اصول جو تمام اہلِ ایمان کے لیے بیان فرمایا ہے وہ اپنی بساط سے زیادہ بوجھ کا نہ اُٹھانا ہے۔ حضرت عمرو بن عاصؓ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: اے عبداللہ! کیا میں نے یہ ٹھیک سنا ہے کہ تم مستقل روزے رکھتے ہو اور رات بھر کھڑے ہوکر عبادت کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں یارسولؐ اللہ۔ آپ ؐ نے فرمایا: اچھا اب ایسا مت کیا کرو، روزہ رکھو بھی اور نہ بھی رکھو اور راتوں کو کھڑے ہوکر عبادت بھی کیا کرو اور سویا بھی کرو کیونکہ تمھارے جسم کا بھی تم پر حق ہے اور تمھاری آنکھوں کا بھی تم پر ایک حق ہے اور تمھاری بیوی کا بھی تم پر ایک حق ہے۔ تمھارے پاس ملاقات کے لیے آنے والوں کا بھی تم پر ایک حق ہے‘‘۔(متفق علیہ)

ظاہر ہے تقویٰ اور اللہ تعالیٰ کی بندگی اختیار کرنے میں جتنا اضافہ کیا جائے، وہ ایک فرد کے اپنے نقطۂ نظر سے مطلوب و محبوب چیز ہوگی، لیکن ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ نہ کوئی تقویٰ کا حامل ہوسکتا ہے اور نہ تقویٰ کی صحیح تعلیم دینے والا۔ آپؐ ایک فرد اور اس کے متعلقات کے حقوق میں جس توازن و اعتدال کا حکم دے رہے ہیں وہ محض روزے تک محدود نہیں ہوگا۔ اس متفق علیہ حدیث پر قیاس کرتے ہوئے پہلی بات تو یہ یاد رکھنے کی ہے کہ رمضان کا روزہ فرض ہے لیکن نفلی روزہ، فرض کا مقام حاصل نہیں کرسکتا۔ قرآن و سنت کی روشنی میں غیرشادی شدہ شخص کا نکاح کرنا ایمان کی تکمیل کا ذریعہ اور سنت ِ رسولؐ کی اتباع ہے۔ فقہی طور پر اگر ایک غیرشادی شدہ شخص اس سنت کا انکار کرتا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی روشنی میں وہ آپؐ کی اُمت سے خارج ہوسکتا ہے، لیکن جو اس فرض کو ادا کر کے صاحب ِ اولاد اور صاحب ِ سکون ہو، اس کا دوسری یا تیسری شادی کرنا نہ واجب ہے اور نہ اللہ کے ہاں جواب دہی کا باعث۔ جس نے اس واجب پر عمل کرلیا، اس کے لیے دوسری شادی وجوب میں شامل نہیں ہوگی اور نتیجتاً دوسرے نکاح کے نہ کرنے سے نہ وہ کسی معصیت کا ارتکاب کرے گا، نہ کسی حق کو پامال کرے گا بلکہ وہ اپنے، اپنی بیوی اور اپنی اولاد کے حقوق کے صحیح طور پر ادا کرنے کی اولیت (priority) کو برقرار رکھ کر زیادہ اجر کا مستحق ہوگا۔

مزید یہ کہ قرآن کے اصول لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا ط  (البقرہ۲:۲۸۶) کی وضاحت اُوپر درج کی گئی حدیث سے جس طرح ہوتی ہے اس کی روشنی میں اس معاملے پر  غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اصل مسئلہ محض شوہر کی خواہش کا نہیں ہے بلکہ شوہر پر واجب اُن حقوق کا ہے، جن کی اوّلیت ایک ایسے کام کے کرنے سے جو اس پر واجب نہیں ہے متاثر ہوتی ہے اور اس مصلحت کی بناپر اس کا خود کو یہ سمجھاکر مطمئن کرنا کہ وہ دوسری شادی اجتماعی مفاد کی بنا پر کرلے، درست نہیں ہوگا۔ ہاں، اس صورتِ حال میں وہ افراد جو ابھی تک شادی شدہ نہیں ہیں ان پر فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ ایسی نیک اور صالح خواتین کو اپنے عقد میں لیں جو بیوہ یا مطلقہ ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا عقد حضرت خدیجہؓ سے ہوا جو بیوہ تھیں اور تمام زندگی آپؐ کی نگاہ میں انتہائی محترم اور محبوب شخصیت رہیں اور ان کی حیاتِ مبارکہ میں آپ نے اِس اجازت پر غور نہیں فرمایا۔

اس پس منظر میں سوال کے پہلے پہلو پر غور کیا جائے تو یوں نظر آتا ہے کہ سورئہ نساء میں چار کی حد تک اجازت کا سیاق و سباق عموم کا نہیں بلکہ حالت ِ اضطرار سے قریب تر ہے۔ چنانچہ  اصلاً زور اسی بات پر ہے کہ ایک کے ساتھ نکاح ہو اور اس کے ساتھ عدل کا رویہ اختیار کیا جائے۔ یہ عدل محض مادی معاملات میں نہیں کیا جاسکتا۔ اس میں نفسیاتی، دینی اور روحانی تعلق کے ساتھ تمام معاشرتی پہلوئوں سے عدل شامل ہے۔ اسی بناپر فرمایا گیا کہ اگر ایسا عدل کرسکو تو دوسرے نکاح کا خیال کرو ورنہ ایک ہی پر، اپنی تمام خواہش کے باوجود قانع رہو۔

اگر دیکھا جائے تو ایک شوہر کو پہلے نکاح سے حاصل ہونے والے فوائد میں جہاں فطری تسکین شامل ہے، وہاں نفسیاتی اور دینی طور پر جو تعلق استوار ہوجاتا ہے وہ یکساں اہمیت کا حامل ہے۔ باہمی اعتماد، قلب و نظر کا سکون، مادی پیمانوں سے ناپا نہیں جاسکتا۔ اسی لیے اس رشتے کو قرآنِ کریم نے اللہ تعالیٰ کی ایک آیت قرار دیا ہے۔ دوسری شادی اس قیمتی فطری تعلق کو بگاڑنے کا ایک ممکنہ ذریعہ بن سکتی ہے۔ اس لیے اس سے قطع نظر کہ پہلی بیوی دوسری شادی کی شکل میں   خوش ہوتی ہے یا ناراض، عائلی زندگی کے اسلامی مقاصد دوسری شادی سے ٹکراتے ہیں۔

دوسرا اہم پہلو مطلقہ یا بیوہ صالح مسلم خواتین کے معاشرتی مقام کا ہے۔ بعض علاقوں میں دیگر مذاہب کے زیراثر مسلمانوں میں بھی یہ تصور عام ہوگیا کہ بیوہ کی عظمت تمام زندگی اپنے شوہر سے وفاداری کے طور پر شادی نہ کرنے میں ہے۔ یہ ایک خالص غیراسلامی تصور ہے۔ اسلام اس تصور کو رد کرتا ہے اور یہ سنت ِ رسولؐ سے ثابت ہے۔ اسی بناپر سیّداحمد شہیدؒ نے اپنے بھائی کی بیوہ سے نکاح کرکے اس غیراسلامی تصور کی اصلاح کرنا اپنا فرض سمجھا۔ اس لیے بیوہ کا عقد ثانی کرنا یا مطلقہ کا عقد ثانی کرنا اسلام کے معاشرتی نظام کے مقاصد سے پوری مطابقت رکھتا ہے۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو شخص پہلے سے شادی شدہ ہو وہی ایسی خواتین کا سہارا بنے بلکہ اسلام کا مدعا یہ نظر آتا ہے کہ معاشرے کے جو افراد غیرشادی شدہ ہوں انھیں اس طرف متوجہ کیا جائے اور اس طرح کے رشتوں کی ہمت افزائی کی جائے۔

جیساکہ آغاز میں عرض کیا گیا تعدد ازدواج کی یہ تعبیر کہ ایک سے زائد شادی کرنا مرد کی فطرت سے قریب ہے، ایک قیاس اور تعبیر کا معاملہ ہے۔ شریعت کا مدعا ایسا نظر نہیں آتا۔ کسی کام کی اجازت ایک استثنا بھی ہوسکتی ہے اور عموم بھی۔سورئہ نساء کی آیت پر غور کیا جائے تو اس اجازت میں عموم نہیں پایا جاتا بلکہ استثنائی اور اضطراری کیفیت کی طرف رجحان نظر آتا ہے تاکہ ہر دور میں بدلتے حالات میں قرآنی قانون سازی پر یکساں عمل کیا جاسکے۔ آپ نے جو صورت حال تحریر فرمائی ہے اس میں محض ’خواہش‘معقول بنیاد نہیں بن سکتی بلکہ اگر ایسی ’خواہش‘ ہے تو موجودہ بیوی سے ہی اس کا پورا کرنا دین کا مدعا ہے۔

یہ بات بھی واضح ہونی چاہیے کہ عائلی زندگی بجاے خود ایک اجتماعی عمل ہے۔ اس لیے انفرادی اور اجتماعی مصلحت کے فلسفے کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ بے سہارا خواتین کے عقد کے لیے انفرادی اور اجتماعی کوشش لازماً کرنی چاہیے لیکن جیساکہ اُوپر عرض کیا گیاایک مسئلے کے حل کرنے کی غرض سے ایک خاندان کے نظام کو، اس کے سکون کو اور بیوی اور اولاد کے حقوق کو نہ ثانوی حیثیت دی جاسکتی ہے اور نہ نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔کسی شادی شدہ خاتون کا وقتی طور پر یہ سمجھنا کہ وہ اپنے جذبات کو تھوڑی بہت محنت سے اور اسے ’عزیمت‘ سمجھتے ہوئے بخوشی گھر کے معاملات میں شراکت گوارا کرلے گی، اپنے آپ کو محض خوش فہمی میں رکھنا ہے۔ رہا استخارے کا معاملہ تو استخارہ ان تمام معاملات میں کرنا سنت ہے جہاں بظاہر ایک معقول حل نظر نہ آرہا ہو لیکن جن معاملات میں عقل اور تجربہ، دونوں ایک معاملے میں متفق ہوں وہاں استخارہ غیرضروری ہے۔

گھروں میں اسلامی طرزِ معاشرت کی جیتی جاگتی تصویر کے لیے شوہر کا دوسری شادی کرنا نہ شرطِ اوّل ہے نہ شرطِ ثانی۔ البتہ بے سہارا خواتین کے عقد کے لیے کوشش ایک دینی فریضہ ہے۔ کیا آج ہمارے معاشرے میں ایسے بے شمار افراد موجود نہیں ہیں، جو بڑی عمر تک وسائل نہ ہونے کی بناپر شادی مؤخر کرتے رہتے ہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ جو صاحب اس مسئلے کے حل کے لیے    دل چسپی رکھتے ہیں وہ ایک ایسے مرد کو وہ تمام وسائل فراہم کردیں جو اس کو نکاح کرنے کے لیے درکار ہوں اور اس طرح وہ بے سہارا خاتون اور وسائل کی کمی کے سبب شادی سے محروم رہنے والا ایک مسلمان، دونوں کی ضرورت پوری ہوجائے۔

اپنے آپ کو جان بوجھ کر آزمایش میں ڈالنا دین کا مدعا ہے نہ عقل کا مطالبہ۔ اس کے باوجود ایک باشعور مسلم خاتون کا بے سہارا مسلم خواتین کی مدد کے لیے اپنی خاندانی زندگی کو آزمایش سے دوچار کرنا ایک قابلِ قدر جذبہ تو ہے لیکن اسے شریعت کا مطالبہ تصور کرنا درست نہیں۔

اصولی بات یہ ہے کہ اسلام نے دوسری شادی کی نہ ترغیب دی ہے اور نہ مخالفت کی ہے اور نہ واضح حوصلہ شکنی کی ہے۔ بس اس کا دروازہ کھلا رکھا ہے تاکہ حقیقی ضرورت کی صورت میں استفادے کا موقع موجود رہے۔ فیصلہ فرد کو اپنے ضمیر اور دینی اور خاندانی زندگی کے استحکام کے مصالح کو سامنے رکھ کر کرنے کا اختیار دیا ہے۔ البتہ یہ انتباہ واضح الفاظ میں کردیا ہے کہ انصاف ہرصورت میں شرطِ لازم ہے۔ ایسے نازک اُمور کو جذبات یا عزیمت اور گناہ کے تخیلاتی احساسات کے تحت طے کرنا شریعت اور عقل دونوں کے اعتبار سے محلِ نظر ہے۔ البتہ جو اجتماعی مسئلہ اس سوال کا باعث بناہے، وہ اپنی جگہ اہم ہے اور اس کا حل فرد اور معاشرے کی اخلاقی اصلاح اور تربیت ہی میں مضمر ہے،واللّٰہ اعلم بالصواب۔(ڈاکٹر انیس احمد)

_______________

ھم نے آج تراویح میں کیا پڑہا؟ اُردو اور سندھی زبان میں تراویح کے دوران  روزانہ پڑھے جانے والے قرآن کریم کے حصے کا خلاصہ اور قرآنی و مسنون دعائیں  مع آسان ترجمہ مفت تقسیم کی جارہی ہیں۔ خواتین و حضرات عام ڈاک کے لیے 15روپے اور ارجنٹ میل سروس کے لیے 55روپے کے ڈاک ٹکٹ درج ذیل پتے پر روانہ کریں:

ڈاکٹر ممتاز عمر، T-473، کورنگی نمبر 2، کراچی-74900

سوال : تھوڑی بہت بے ایمانی کے لیے چھوٹ کی گنجایش؟

ایمان داری مجھ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ روپے وغیرہ کا لالچ نہیں ہے، لیکن میرے دفتر میں میرے ساتھیوں نے تھوڑی بہت بے ایمانی کر کے کافی دولت اکٹھا کرلی ہے، جب کہ میں اپنے اہل و عیال کے لیے دو وقت کی روٹی کا بھی مشکل ہی سے انتظام کرپاتا ہوں۔ کیا موقع و محل سے تھوڑی بہت بے ایمانی کے لیے چھوٹ کی گنجایش ہے کہ اللہ تو معاف کرنے والا ہے۔ میں بہت ہی تذبذب میں ہوں۔ میری اُلجھن کو دُور فرمائیں۔

جواب:

دین میں ایمان داری کو غیرمعمولی اہمیت دی گئی ہے۔ اس کا تاکیدی حکم بیان  کیا گیا ہے اور اس کا التزام کرنے والوں کی تعریف و توصیف کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:  اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا لا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط (النساء۴:۵۸) ’’اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘‘۔

سورۃ المومنون (آیات ۱-۱۱) اور سورۃ المعارج (آیات ۲۲-۳۵) میں جہاں اہلِ ایمان کے بہت سے اوصاف بیان کیے گئے ہیں، وہیں ان کے اس وصف کو بھی نمایاں کیا گیا ہے: وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رٰعُوْن (المومنون۲۳:۸، المعارج۷۰: ۳۲) ’’جو اپنی امانتوں کی حفاظت اور اپنے عہد کا پاس کرتے ہیں‘‘۔ اس کے بالمقابل جو لوگ عہد و امانت کی پابندی نہیں کرتے ان کے دین و ایمان کی نفی کی گئی ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبوں میں یہ جملے اکثر پڑھا کرتے تھے: لَا اِیْمَانَ لِمَنْ لَّا اَمَانَۃَ لَہٗ ، وَلَا دِیْنَ لِمَنْ لَّا عَھْدَ لَہٗ (مسند احمد،ج ۳/۱۳۵، ۱۵۴، ۲۱۰) ’’جس شخص میں امانت داری نہ ہو اس کا ایمان معتبر نہیں، اور جو شخص عہد کا پابند نہ ہو اس کے دین کا کوئی اعتبار نہیں‘‘۔

’امانت داری‘ کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ کسی شخص کے پاس کوئی رقم بطور حفاظت رکھوائی جائے تو وہ اس میں خرد برد نہ کرے، بلکہ اس کا بہت وسیع مفہوم ہے۔ کوئی راز کی بات بتائی جائے اور اس کو افشا کرنے سے منع کیا جائے تو وہ امانت ہے۔ کوئی ذمہ داری دی جائے تو وہ امانت ہے۔ آدمی کہیں ملازم ہو تو ملازمت سے متعلق کام امانت ہے۔ کچھ خدمات اس سے متعلق ہوں تو ان کی صحیح طریقے سے انجام دہی امانت ہے۔ انسان کی صلاحیت اور وقت اس کے پاس اللہ کی امانت ہیں۔ کسی طرح کے مالی معاملات اس سے متعلق ہوں تو ان کا صحیح ریکارڈ رکھنا امانت ہے۔

دین کا صحیح تصور یہ ہے کہ زندگی کا ہرلمحہ اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی میں اور اس کے حکموں کے مطابق گزرے۔ نمازیں پڑھنا، روزے رکھنا، زکوٰۃ دینا اور حج کرنا ہی عبادت نہیں ہے، بلکہ خالص دنیاوی کام بھی اگر اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات کے مطابق انجام دیے جائیں تو وہ بھی عبادت ہیں۔ لوگ سمجھتے تھے کہ صدقہ صرف اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کو کہتے ہیں۔ اللہ کے رسولؐ نے اپنے ارشادات میں متعدد ایسے کاموں کو بھی صدقہ شمار کرایا جنھیں مطلق دنیاوی کام سمجھا جاتا تھا   اور جن میں اجروثواب ہونے کا کسی کے ذہن میں بھی خیال نہ آتا تھا۔ ایک موقعے پر آپؐ نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو متعدد باتوں کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

وَ اِنَّکَ مَھْمَا اَنْفَقْتَ مِنْ نَفَقَۃٍ فَاِنَّھَا صَدَقَۃٌ حَتّٰی اللُّقْمَۃَ تَرْفَعُھَا اِلٰی فِییِّ امْرَاْتِکَ -(بخاری، کتاب الوصایا، حدیث: ۲۷۴۲) تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے وہ تمھارے لیے صدقہ ہے، یہاں تک وہ لقمہ بھی جسے تم اُٹھا کر اپنی بیوی کو دو گے۔

وَلَسْتَ تُنْفِقُ نَفَقَۃً تَبْتَغِیْ بِھَا وَجْہَ اللّٰہِ  اِلَّا اُجِرْتَ بِھَا حَتَّی اللُّقْمَۃَ تَجْعَلُھَا فِی فِییِّ امْرَاْتِکَ - (مسلم،کتاب الوصیۃ، حدیث: ۴۲۰۹) تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے ، اگر اس سے تمھارا مقصود اللہ کی رضاجوئی ہے تو اس پر اجر کے مستحق ہوگے، حتیٰ کہ اس لقمے پر بھی تمھیں اجر ملے گا جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو گے۔

آپ نے لکھا ہے کہ ایمان داری کے ساتھ ملازمت سے آپ کو جو کچھ ملتا ہے اس سے آپ کے اہل و عیال کے لیے دو وقت کی روٹی کا بھی مشکل سے انتظام ہوپاتا ہے، جب کہ   آپ کے دفتر کے ساتھیوں نے تھوڑی بہت بے ایمانی کرکے کافی دولت اکٹھی کرلی ہے۔ کیا یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ بے ایمانی کے ذریعے اکٹھی کی گئی اپنے ساتھیوں کی دولت کو آپ رشک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں، حالانکہ انھوں نے اپنے لیے دولت نہیں بلکہ آگ کے انگارے اکٹھے کیے ہیں۔ کیا جہنم کی آگ کے انگارے رشک کرنے کی چیز ہیں!

اس موقعے پر قارون کا حوالہ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے ، جس کا تذکرہ قرآن نے بہت مؤثر اور عبرت انگیز اسلوب میں کیا ہے۔ اس نے بیان کیا ہے کہ قارون حضرت موسٰی ؑ کی قوم، یعنی بنی اسرائیل میں سے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے مال و دولت کے اتنے خزانے دے رکھے تھے کہ ان کی کنجیاں ہی طاقت ور آدمیوں کی ایک جماعت مشکل سے اُٹھا سکتی تھی۔ اس کی عیش و عشرت اور ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر جو لوگ دنیاوی زندگی کے طالب تھے وہ کہنے لگے: ’’کاش! ہمیں بھی وہی کچھ ملتا جو قارون کو دیا گیا ہے۔ یہ تو بڑے نصیبے والا ہے‘‘۔ مگر جب اللہ تعالیٰ نے اسے اس کی دولت کے ساتھ زمین میں دھنسا دیا تو وہی لوگ جو کل اس کی منزلت کی تمنا کر رہے تھے، کہنے لگے: ’’افسوس ہم بھول گئے تھے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کا رزق چاہتا ہے کشادہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے، نپا تُلا دیتا ہے‘‘ (ملاحظہ کیجیے سورئہ قصص ۲۸:۷۶-۸۲)۔ دوسروں کا مال و دولت دیکھ کر    اہلِ ایمان کا کیا رویہ ہونا چاہیے، اسے بھی قرآن نے قارون کے مذکورہ واقعے کے ضمن میں بیان کیا ہے۔ قارون کے ٹھاٹھ دیکھ کر جب کچھ لوگوں نے اس پر رشک کا اظہار کیا تو ’’جو لوگ علم رکھنے والے تھے وہ کہنے لگے: افسوس تمھارے حال پر، اللہ کا ثواب بہتر ہے اس شخص کے لیے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے اور یہ دولت نہیں ملتی مگر صبر کرنے والوں کو‘‘۔ (القصص ۲۸:۸۰)

ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ ’’ایمان داری مجھ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، روپے وغیرہ کا لالچ نہیں ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اس خوبی میں مزید اضافہ کرے، لیکن دوسری طرف آپ یہ بھی دریافت کرتے ہیں کہ ’’کیاموقع و محل سے تھوڑی بے ایمانی کی جاسکتی ہے؟‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو بے ایمانی کی شناعت ، دنیاوی اور اُخروی دونوں اعتبار سے اس کا جرم ہونا، اور روزِقیامت اس کی سزا کی ہولناکی کا احساس نہیں ہے۔ غلاظت غلاظت ہے، خواہ زیادہ ہو یا کم۔  میٹھے اور لذیذ مشروب کے ایک گلاس میں پیشاب کا ایک قطرہ ڈال دیا جائے تو کیا کوئی سلیم الطبع انسان اسے پینا گوارا کرے گا؟ جس طرح بے ایمانی کرکے حاصل کیے گئے لاکھوں کروڑوں روپے حرام ہیں، اسی طرح ایک پیسہ بھی حرام ہے۔

آپ کو فکر ہے کہ ایمان داری کے پیسے سے اہل و عیال کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام مشکل سے ہوپاتا ہے، اس لیے تھوڑی بے ایمانی سے کچھ اور رقم حاصل کر کے، ان کے لیے آسایش فراہم کردی جائے۔ یہ بہت بڑی نادانی ہے کہ آدمی دوسروں کی دنیا بنانے کے لیے اپنی عاقبت خراب کرلے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا:مِنْ شَرِّ النَّاسِ مَنْزِلَۃً عِنْدَ اللّٰہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَبْدٌ اَذْھَبَ آخِرَتَہٗ بِدُنْیَا غَیْرِہٖ (سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، حدیث ۳۹۶۶، اسے ابن ابی شیبہ نے بھی اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔ علامہ البانی نے اسے ضعیف، لیکن علامہ بوصیری نے حسن قرار دیا ہے) ’’قیامت کے دن بارگاہِ الٰہی میں بدترین درجہ اس شخص کا ہوگا جو دوسرے کی دنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت برباد کردے‘‘۔

دنیا میں تمام انسان آزمایش کی حالت میں ہیں۔ کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ مال و دولت دے کر آزما رہا ہے اور کچھ لوگوں کو اس سے محروم کرکے۔ سب امتحان گاہ میں ہیں۔ کچھ کے ہاتھ میں حساب (Mathematics) کا پرچہ دیا گیا ہے اور کچھ کے ہاتھ میں ادب (Literature) کا۔ بڑا نادان ہوگا وہ شخص جو اپنا پرچہ حل کرنے کے بجاے دوسرے کے پرچے میں تاک جھانک کرتا رہے، یا لٹریچر کے پرچے میں ریاضی کے کیلکولیشن کرنے لگے۔ (ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی، زندگی کے عام فقہی مسائل، دوم،ص ۱۵۲-۱۵۵)

سوال : انٹرنیٹ پر کاروبار کی نوعیت؟

 آج کل انٹرنیٹ پر www.debitpay.org کے ذریعے ایک کاروبار کیا جاتا ہے۔ اس طریقے میں ایک شخص ۴ہزار سے ۵۰ہزار روپے تک کا معاملہ (package) کرسکتا ہے اور پیکج لینے والا ایک مخصوص رقم کمپنی کو ادا کر کے ایک مخصوص تعداد (۳۰تا ۳۰۰؍اشتہارات) انٹرنیٹ پر دیکھنے کا پابند ہوتا ہے۔ ان اشتہارات کے دیکھنے کے بدلے پیکج لینے والے شخص کے اکائونٹ میں ایک تا ۱۵ڈالر کی رقم جمع ہوجاتی ہے۔ مقررہ تعداد میں اشتہارات ۲۴گھنٹے میں دیکھنے لازم ہیں۔ بصورتِ دیگر وہ رقم نہیں ملے گی۔ یہ اسکیم تین سال کے لیے ہے۔ جو اشتہارات دیکھنالازم ہیں ان میں مختلف اقسام کی اشیا کے اشتہارات شامل ہیں، جب کہ ان اشتہارات میں خواتین کے مخصوص لباس کے اشتہارات بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اگر مذکورہ شخص مزید لوگوں کو    ممبر بنوائے گا تو اس کے بدلے میں بھی ایک خاص رقم اس شخص کو ملے گی۔ مزیدبرآں اگر متعلقہ شخص اشتہار دیکھے بغیر next کا بٹن دباتا جائے تو یہ بھی ممکن ہے۔ اس نوعیت کے کاروبار کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب :

یہ معاملہ یا اسی طرح کے دوسرے معاملات شرعی نقطۂ نظر سے درست نہیں ہیں۔ کیونکہ مذکورہ بالا معاملے میں کئی قسم کی قباحتیں موجود ہیں، مثلاً ایک شخص ایک مخصوص رقم ۴ہزار تا ۵۰ہزار روپے تک دے کر کمپنی کے ساتھ معاملہ کرتاہے، جب کہ کمپنی اس رقم کو کس قسم کے کاروبار میں لگاتی ہے یہ بات نامعلوم ہے۔ ممکن ہے کہ کاروبار سود پر مبنی ہو، شراب سے متعلقہ ہو، کسی دیگر غیرشرعی نوعیت کا ہو۔ دوسرے، اگر یہ شراکت یا مضاربت کا معاملہ ہو تو شراکت یا مضاربت چند شرائط کے ساتھ مخصوص ہے، جس میں کاروبار کی نوعیت و مدت، منافع کی تقسیم کی شرح، نقصان کی ذمہ داری وغیرہ شامل ہیں، جب کہ مذکورہ کاروبار میں اس طرح کی کوئی صورت شامل نہیں ہے۔ تیسرے، پیکج لینے والا شخص اشتہارات کی ایک مخصوص تعداد دیکھنے کا پابند ہے۔ جہاں تک اشتہارات کا تعلق ہے جو اشتہارات آج کل انٹرنیٹ پر اور دیگر میڈیا پر دکھائے جارہے ہیں ان میں نامحرم عورتوں کو نازیبا لباس بلکہ بے لباسی کی صورت میں دکھایا جا رہا ہے، جو کہ آنکھوں کا زنا قرار دیا گیا ہے۔ ا س طرح ان اشتہارات کا دیکھنا بھی غیرشرعی حرکات کے زمرے میں آتا ہے۔ مزیدبرآں ان اشتہارات پر وقت صرف کرنا وقت کا ضیاع بھی اور لغویات میں بھی شمار ہوتا ہے، جب کہ انسان قیامت کے روز ’’اپنی عمر کہاں گزاری‘‘کا جواب دینے کا بھی پابند ہے اور عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ o (المومنون ۲۳:۳) کے حکم کا بھی پابند ہے، یعنی لغویات سے دُور رہتا ہے۔

 اسی طرح دیگر افراد کو ممبرشپ لے کر دنیا میں ایک بُرائی کو فروغ دینا اور منکرات میں ان کو مشغول کردینے کے زمرے میں آتا ہے اور جتنے لوگ اس کاروبار میں شریک ہوتے جائیں گے، ان کا وبال بھی پہلے شخص اور درجہ بہ درجہ دیگر اشخاص پر آتاجائے گا۔ یہ بات ارشاد باری تعالیٰ وَمَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً یَّکُنْ لَّہٗ کِفْلٌ مِّنْھَا ط  (النساء ۴:۸۵) ’’اور جو بُرائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا‘‘ کے مصداق ہے۔ اس لیے ایسے تمام افراد جو اس قسم کے کاروبار میں ملوث ہیں انھیں اس سے نہ صرف الگ ہوجانا چاہیے بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی اس کی تلقین کرنی چاہیے۔(ڈاکٹر میاں محمد اکرم)

سوال:

حدیث نبویؐ ہے کہ بھلی بات کہو یا خاموش رہو، تو کیا اس حدیث کی روشنی میں زیادہ بولنا حرام ہے؟

جواب:

حضوؐر نے بے شمار حدیثوں میں زبان کی تباہ کاریوں سے خبردار کیا ہے۔ ان میں ایک حدیث یہ بھی ہے: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الاٰخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْراً اَوْ لِیَصْمُتْ (بخاری، مسلم)’’جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے، تو اسے چاہیے کہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے‘‘۔ ایک دوسری حدیث ہے: رَحِمَ اللّٰہُ اِمْرَئً ا  قَالَ خَیْرًا فَغَنِمَ اَوْ سَکَتَ فَسَلِمَ، ’’اللہ کی رحمت ہو اس شخص پر جس نے بھلی بات کہی اور اجرونعمت کا حق دار ہوا یا خاموش رہا تو محفوظ رہا‘‘۔

بلاشبہہ زیادہ بولنا اور بے وجہ بولتے رہنا انسان کے لیے باعث ِ تباہی اور گناہوں کا سبب ہے۔ امام غزالیؒ نے ان گناہوں کی تعداد ۲۰ بتائی ہے، جو زبان کے غلط استعمال سے سرزد ہوتے ہیں۔ شیخ عبدالغنی نابلسیؒ نے اس تعداد کو ۷۲تک پہنچا دیا ہے۔ ان میں سے اکثر گناہِ کبیرہ کے  قبیل سے ہیں، مثلاً جھوٹ، غیبت، چغلی، جھوٹی گواہی، جھوٹی قسم، لوگوں کی عزت کے بارے میں کلام کرنا اور دوسروں کا مذاق اُڑانا وغیرہ وغیرہ۔

اس لیے بہتر یہی ہے کہ انسان حتی المقدور خاموشی کا راستہ اختیار کرے تاکہ ان گناہوں سے محفوظ رہے۔ خاموش رہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے ہونٹوں کو سی لے اور زبان پر تالا ڈال لے، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو اس بات کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنی زبان کو کسی بھلی اور معروف بات کے لیے کھولے ورنہ اسے بند رکھے۔

جو لوگ زیادہ بولتے ہیں ان سے اکثر خطائیں سرزد ہوجاتی ہیں اور ان خطائوں کے سبب وہ لوگوں میں مذاق اور استہزاء کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ اسی لیے بندئہ مومن جب بھی کوئی بات کرے اسے اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ خدا کے فرشتے اس کی ہربات نوٹ کر رہے ہیں۔ اللہ فرماتا ہے: مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌo(قٓ۵۰:۱۸)، ’’کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضرباش نگراں موجود نہ ہو‘‘۔(علامہ یوسف القرضاوی، فتاویٰ یوسف القرضاوی، ص ۵۹-۶۰)

سوال: دوسرے شخص کی طرف سے عمرہ کرنا

جو لوگ حج کے لیے جاتے ہیں وہ وہاں اپنے اعزہ کی طرف سے عمرے کرتے ہیں۔ کیا صرف انتقال کرجانے والے اعزہ کی طرف سے عمرہ کیا جاسکتا ہے یا زندوں کی طرف سے بھی عمرہ کرنے کی اجازت ہے؟

جواب:

  فقہاے کرام نے فی الجملہ دوسرے کی طرف سے عمرہ کرنے کو جائز قرار دیا ہے، اس لیے کہ عمرہ حج کی طرح بدنی عبادت ہونے کے ساتھ مالی عبادت بھی ہے اور شریعت میں مالی عبادات کی دوسرے کی جانب سے انجام دہی کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ البتہ اس کی تفصیلات میں ان کے درمیان اختلاف ہے۔

حنفیہ کہتے ہیں کہ کسی دوسرے شخص کی طرف سے عمرہ کرنا اس وقت صحیح ہوگا جب وہ ایسا کرنے کو کہے۔ مالکیہ کے نزدیک دوسرے کی طرف سے عمرہ مکروہ ہے، لیکن اگر کرلیا جائے تو ادا ہوجائے گا۔ شوافع کہتے ہیں کہ دوسرے کی طرف سے عمرہ کرنا اس وقت صحیح ہے جب اُس شخص پر عمرہ واجب رہا ہو اور اس کی ادائی سے قبل اس کا انتقال ہوگیا ہو، یا نفلی عمرہ، وہ خود نہ کرسکتا ہو۔  حنابلہ کہتے ہیں کہ کسی میت کی طرف سے عمرہ کیا جاسکتا ہے، البتہ کسی زندہ شخص کی طرف سے عمرہ اس وقت صحیح ہوگا جب اس نے ایسا کرنے کو کہا ہو۔(ملاحظہ ہو: الموسوعۃ الفقہیۃ، کویت، ۳۰/۲۲۸-۲۳۹)۔ (ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

سوال: غیرمسلموں کی زکوٰۃ یا چرم قربانی کی رقوم سے امداد

جماعت اسلامی /الخدمت کے تحت ہم مختلف مواقع پر غیرمسلموں (عیسائی، ہندو برادری) کے ساتھ تعاون کرتے رہتے ہیں۔ خاص طور پر کرسمس کے موقع پر یہ کام کیا جاتا ہے۔ راشن وغیرہ کی تقسیم کی جاتی ہے۔ عموماً ہمارے پاس راشن کی مد میں زکوٰۃ/ چرم قربانی کے ذریعے رقم آتی ہے۔ آپ سے درج ذیل اُمور میں رہنمائی درکار ہے:

۱- کیا زکوٰۃ سے غیرمسلموں کے ساتھ راشن کی صورت میںتعاون کیا جاسکتا ہے؟

۲- کیا چرم قربانی کی آمدنی سے راشن کی صورت میں تعاون کیا جاسکتا ہے؟

۳- کیا زکوٰۃ/چرم قربانی کی آمدنی سے کسی بھی صورت میں غیرمسلموں کے ساتھ تعاون نہیں کیا جاسکتا؟

۴- کیا تالیف ِ قلب میں مسلمانوں کے ساتھ بھی حُسنِ سلوک کیا جاسکتا ہے؟

۵- تالیف ِ قلب کے سلسلے میں حضرت عمرؓ کے فرمان کے بعد اب کیا صورت ہے؟

جواب :

  غیرمسلم اقلیتوں کے ساتھ صدقات، عطیات اور چرم ہاے قربانی کی رقوم سے تعاون کیا جاسکتا ہے لیکن زکوٰۃ کی رقم سے ان کی مالی اعانت نہیں کی جاسکتی۔ تالیف ِقلب نو مسلموں کے ساتھ ہوتا تھا۔ اب بھی ان کے ساتھ تعاون کیا جاسکتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے ایسے نومسلموں کے ساتھ بیت المال سے مالی تعاون ختم کیا تھا جو مال دار ہوتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسلامی حکومت ان کے ساتھ مالی تعاون اس لیے کرتی تھی کہ وہ حکومت کے ساتھ محبت کریں اور اپنے سابقہ دین والوں کی مدد کے بجاے اسلامی حکومت کی مدد کریں۔ لیکن جب اسلامی حکومت مضبوط ہوگئی اور ایسے نومسلموں کے تعاون کی ضرورت نہ رہی تو تالیف ِ قلب کی یہ مَد ختم کردی گئی۔ یہ تالیف ِ قلب زکوٰۃ کی رقوم سے نہ ہوتی تھیبلکہ خمس جو  مالِ غنیمت کا ایک حصہ ہے،سے ہوتی تھی۔ اب بھی اگر ایسا دور آجائے کہ اسلامی حکومت کو نومسلموں کی تالیف ِ قلب کی ضرورت ہو تو اسے بحال کیا جائے گا۔ حضرت عمرؓ نے عارضی طور پر عدم ضرورت کی وجہ سے اسے ختم کیا تھا۔ زکوٰۃ سے نومسلم فقرا کی امداد ہروقت کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح مختلف مواقع پر غیرمسلم فقرا کو ہدیے اور تحفے چرم ہاے قربانی کی رقوم سے دیے جاسکتے ہیں لیکن بہتر یہ ہے کہ اس کے لیے الگ سے مخصوص فنڈ ہو جو عطیات سے جمع کیا جائے۔واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)

سوال: ذاتی ہدیے یا تحریکی اثاثے کا تعین؟

ہمارے شہر میں جماعت اسلامی کے ایک ذمہ دار کے بقول ان کے ایک عزیز دوست نے جماعت اسلامی کی جملہ منصبی ذمہ داریوں کی ادایگی کے لیے انھیں گاڑی تحفتاً دی ہے۔ تاہم، ہمارے بعض ساتھیوں کی راے ہے کہ مذکورہ ذمہ دارفرد کو یہ گاڑی جماعت اسلامی کے نام منتقل کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں کہ گاڑی موجودہ حالت میں وہ استعمال کریں یا جماعت اسے اپنے اثاثہ جات میں شامل کرے؟

جواب:

سب سے پہلے تو اُن صاحب سے معلوم کیا جائے کہ جنھوں نے وہ سواری، جماعت اسلامی کی جملہ ذمہ داریوں کی ادایگی کے لیے ہدیہ کی ہے۔ آیا انھوں نے ذمہ دار کو ذاتی حیثیت میں انھی کی ذات کے لیے سواری ہدیہ کی ہے یا جماعت میں صاحب ِ نظم ہونے کی حیثیت میں جماعت کے لیے ہدیہ کی ہے، تاکہ مذکورہ ذمہ دار فرد اس کے ذریعے تحریکی کام آسانی سے کرسکیں۔

اگر ہدیہ کرنے والے دوست رحلت کر گئے ہوں تو پھر جماعت اسلامی کے ذمہ دار خود فیصلہ کریں کہ ان کے دوست نے انھیں کس حیثیت میں ہدیہ کی ہے۔اس حوالے سے یہ بہرحال پیش نظر رکھنا ہوگا کہ وہ صاحب ِ خیر، مذکورہ فرد کو جماعت اسلامی کی منصبی ذمہ داری ملنے سے پہلے بھی اگر وقتاً فوقتاً کوئی چیز بطور ہدیہ دیتے رہتے تھے تو پھر اس صورت میں وہ گاڑی بھی ہدیہ شمار ہوگی۔ نیز جماعت کی منصبی ذمہ داری ملنے کے بعد اس تصریح کے ساتھ ہدیہ کی ہو کہ یہ اسی طرح کا ہدیہ ہے جس طرح کا ہدیہ اس سے پہلے ان کی ذات کے لیے وہ صاحب کرتے تھے۔

اگر دوست کی طرف سے اس سے پہلے ذاتی حیثیت میں ہدیہ دینے کا معمول نہ تھا اور تصریح بھی نہیں ہے کہ یہ ہدیہ ذاتی حیثیت میں ان کی ذات کے لیے بطور مِلک ہدیہ کیا گیا ہے،   تو پھر یہ جماعت اسلامی ہی کے لیے ہدیہ شمار ہوگا اور اسے جماعت کا اثاثہ شمار کر کے جماعت کے اثاثوں میں شامل کیا جائے گا۔درمختار میں ہے : ویجوز للامام والمفتی والواعظ قبول الھدیۃ لانہ یھدی الی العالم لعلمہ (ج۸، ص ۵۸)’’ مسلمانوں کے امام، پیشوا، مفتی اور واعظ کے لیے ہدیہ قبول کرنا جائز ہے، کیونکہ اسے اس کے علم و فضل کی وجہ سے ہدیہ کیا جاتا ہے‘‘۔ گویا جب اسے اس تصریح کے ساتھ دیا جائے گا کہ یہ ہدیہ اس کی ذات کے لیے ہے تو پھر وہ اپنے لیے لے سکتا ہے۔(مولانا عبدالمالک)