رسائل و مسائل


سوال:

مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کو جن مسائل کا سامنا ہے، اُن میں سے ایک وراثت کا مسئلہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: لَا یَرِثُ الْمُسْلِمُ الْکَافِرَ وَلَا الْکَافِرُ الْمُسْلِمَ کے مطابق کافر مسلمان کا وارث نہیں بن سکتا اور مسلمان کافر کا وارث نہیں بن سکتا۔ جمہورفقہا، ائمہ اربعہ کا بھی یہی موقف ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹریوسف القرضاوی کے فتویٰ کی روشنی میں چند سوالات پیش خدمت ہیں:

۱- کیا یہ حدیث موؤل قرار دی جاسکتی ہے کہ اس میں لفظ کافر کی تاویل کی جاسکے؟

۲- کیا کفار کی طرف سے وراثت کو وصیت مانا جاسکتا ہے؟ کیونکہ کافر کی وصیت مسلمان کے لیے اور مسلمان کی وصیت غیرحربی کے لیے جائز ہے۔

۳- کیا وراثت کے ایسے مال کو غیرمسلم ممالک کے بنکوں سے حاصل ہونے والے سود کی مانند قرار دیا جاسکتا ہے؟ کیونکہ فقہا اِس سود کو ان کے بنکوں میں چھوڑ دینے کے بجاے اسے لے کر خیرکے کاموں میں استعمال کو زیادہ ضروری قرار دیتے ہیں۔

جواب: 

اسلام عدل و انصاف کا جامع نظام ہے۔ اس کا کوئی حکم کارخیر کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ لَا یَرِثُ الْمُسْلِمُ الْکَافِرَ وَلَا الْکَافِرُ الْمُسْلِمَ کا معنی یہ ہے کہ مسلمان کافر سے اور کافر مسلمان سے وراثت قانوناً  طلب نہیں کرسکتا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ مسلمان اپنے کافر قرابت دار کو اور کافر اپنے مسلمان قرابت دار کو اپنی وراثت میں سے حصہ نہیں دے سکتا بلکہ اس کے جواز کے لیے تو قرآن پاک میں مستقل حکم آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَ کُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَکَ خَیْرَ نِ الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ ج  حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَo (البقرہ ۲:۱۸۰) ’’تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ اپنے پیچھے مال چھوڑ رہا ہو، تو والدین اور رشتہ داروں کے لیے معروف طریقے سے وصیت کرے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر‘‘۔تقویٰ کا تقاضا ہے کہ وصیت کی جائے۔ مفسرین نے اس آیت میں والدین اور قرابت داروں سے وہ قرابت دار مراد لیے ہیں جو کافر ہوں اور بلاوصیت وراثت کے حق دار نہ ہوں۔ایسے ورثا کے لیے وصیت کے ذریعے مال پہنچانے کا حکم ہے۔

علامہ قرطبی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’ابن المنذر کہتے ہیں: تمام اہلِ علم جن کی بات محفوظ کی جاتی ہے اسی بات پر ان کا اجماع ہے کہ وصیت ان والدین کے لیے اور قرابت داروں کے لیے جو وارث نہیں ہیں، جائز ہے۔ ابن عباس، حسن بصری اور قتادہ فرماتے ہیں: آیت عام ہے اور ایک زمانے تک اس پر عمل بھی جاری رہا ہے اوران لوگوں کے حق میں جن کو       آیۃ الفرائض سے وراثت مل گئی ہے، آیت وصیت کا حصہ ان ورثا کے حق میں منسوخ ہوگیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آیت الفرائض نے ورثا کے حق میں آیت کو منسوخ نہیں کیا بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: ’’یقینا اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے۔ اس لیے وارث کے بارے میں کوئی وصیت نہیں ہے۔ اس روایت کو حضرت ابوامامۃ نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی میں اس کا ذکر کیا ہے اور اس حدیث کے بارے میں فرمایا ہے: یہ حدیث حسن اور صحیح ہے۔ پس آیت وصیۃ کا ورثا کے بارے میں منسوخ ہونا روایت میراث سے نہیں بلکہ اس ثابت شدہ حدیث سے ہے۔ علما کے اقوال میں سے زیادہ صحیح قول یہی ہے‘‘۔(تفسیر قرطبی، ص ۲۶۲-۲۶۳)

پس واضح ہوگیا کہ غیرمسلم والدین اور قرابت داروں کے بارے میں وصیت کا حکم قرآنِ پاک کی مذکورہ آیت سے ثابت ہے اور یہ آیت چاہے عام ہو، وارث غیروارث دونوں کو شامل ہو۔  اس کے بعد آیت فرائض سے ورثا کے حق میں یہ آیت منسوخ ہوچکی ہو، چاہے غیرمسلم والدین اور قرابت داروں کے ساتھ خاص ہو۔ دونوں صورتوں میں اس بات پر تو اجماع ہے کہ غیرمسلم والدین اور قرابت دار وصیت کے مستحق ہیں اور مسلمان وارث وصیت کے مستحق نہیں ہیں۔ آیت میراث ان کا استحقاق ختم کرتی ہو یا حدیث، بہرحال مسلمان ورثا وصیت کے مستحق نہیں ہیں اور غیرمسلم والدین اور قرابت دار وصیت کے مستحق ہیں (ملاحظہ ہو، تفسیرقرطبی، ج۲، ص ۲۶۵)۔ اس لیے یورپ میں رہنے والے مسلمان اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ وہ اپنے غیرمسلم قرابت داروں کے ترکے میں سے حصہ لیں، جب کہ وہاں کے قوانین میں اس بات کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہے کہ مسلمان اپنے غیرمسلم والدین کے ترکے میں سے حصہ لے۔ اور اگر والدین سارا مال اس کے نام کردیں تو پھر وہ سارا مال بھی لے سکتا ہے۔ اسی طرح مسلمان اپنے غیرمسلم والدین کے لیے بھی اپنے مال میں سے ایک تہائی مال تک کی وصیت کرسکتا ہے۔ البتہ ورثا میں سے جو محتاج ہوں ان کے بارے میں بھی وصیت کو نافذ کیا جائے گا اگر باقی وارث راضی ہوں۔

او اجاز ذٰلک الکافۃ اذا اجازہا الورثۃ، ’’اہلِ ظواہر کے علاوہ تمام فقہا نے وارث کے بارے میں وصیت کو جائز قرار دیا ہے، جب کہ ورثا نے اس کی اجازت دے دی ہو‘‘۔ دیارِ کفر میں رہنے والے مسلمان اپنے غیرمسلم والدین کی وراثت میں سے ضرور حصہ لیں۔

حدیث کی جو تشریح کی گئی ہے اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ حدیث موؤل (جس کی تاویل کی جاسکے) نہیں ہے بلکہ اپنے ظاہر پر ہے اور مسلمان کے کافر کے وارث نہ ہونے اور کافر کے مسلمان کے وارث نہ ہونے کا معنیٰ یہ ہے کہ:

۱-  قانوناً اور زبردستی کوئی کسی سے وراثت حاصل نہیں کرسکتا لیکن اگر باہمی رضامندی سے ایسا ہو تو جائز ہے۔

۲- کفار کی طرف سے وراثت کو وصیت کے حکم میں داخل کیا جاسکتا ہے جیساکہ پوری تفصیل بیان کردی گئی ہے۔

۳- غیرمسلم ممالک کے بنکوں سے جو سود لیا جاتا ہے اسے اس نظریے سے لے لینا چاہیے کہ اگر نہ لیا گیا تو بنک اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرے گا یا غیرمسلم کو دے گا تو وہ اسے  ذاتی یا خلافِ اسلام کاموں میں استعمال کرے گا۔علامہ یوسف قرضاوی نے غیرمسلم ممالک میں مسلمان ہونے والے اشخاص کے لیے غیرمسلم ورثا کے ترکے سے حصہ لینے کو جائز قرار دیا ہے۔ اسی طرح مکان بنانے کی خاطر سودی قرضہ لینے کی اجازت دی ہے اور ’سود‘ کو مذکورہ بالا نظریے سے لینے کی اجازت دی ہے تو ہم بھی ان کی تائید کرتے ہیں۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)

گذشتہ گناہوں سے معافی

سوال: شرک و کفر کو چھوڑ کر ایک مسلم نافرمان بلکہ باغی (مراد احکاماتِ الٰہی پر عمل نہ کرنے والے) کے لیے اپنے گذشتہ جملہ گناہوں سے معافی کی کیا صورت ہے؟

جواب :عظیم سے عظیم گناہ سے معافی کی یقینی صورت ، سچی توبہ ہے مگر توبہ صرف توبہ کے الفاظ دہرانے کا نام نہیں ہے، بلکہ توبہ تو درحقیقت وہی ہے جو دل کی گہرائی اور کامل شعور کے ساتھ کی جائے اور ایک بار توبہ کرنے کے بعد اس پر قائم رہنے کی اپنی سی کوشش کی جائے۔

توبہ کے چار اجزا ہیں: 

  • گناہ سے باز رہنے کا عزمِ مصمم
  • اپنے کیے پر ندامت
  • آیندہ اصلاح کی پیہم کوشش
  • اگر کسی بندے کا کوئی حق ہو تو اس کے حق کی ادایگی کی جائے۔

مومن کے لیے کسی وقت بھی مایوسی کی کوئی گنجایش نہیں۔ جب بھی انسان کو احساس ہو، وہ توبہ میں تاخیر نہ کرے۔ اگر اس نے ۹۹قتل کیے ہوں تو بھی خداوندعالم معاف فرما سکتا ہے، بشرطیکہ انسان سچے دل سے توبہ کرے لیکن گناہ کرتے رہنا کہ آخر میں توبہ کرلوں گا، غیرمومنانہ طرزِفکر ہے۔ احساس کے بعد ایک لمحہ بھی ضائع کرنے کی گنجایش نہیں ہے۔ اس لیے کہ اگلے لمحے کی ضمانت نہیں ہے کہ وہ زندگی کا لمحہ ہوگا یا موت کا۔ قرآن کی اس آیت کو بار بار پڑھیے، اور توبہ کی کیفیت پیدا کیجیے:

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط اِِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط اِِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ o(الزمر ۳۹:۵۳) اے میرے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے اللہ کی رحمت سے ہرگز مایوس   نہ ہونا۔ بے شک اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو معاف فرما دے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بہت زیادہ معاف فرمانے والا اور بہت ہی زیادہ مہربانی فرمانے والا ہے۔

توبہ کو واقعی توبہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کی زندگی میں تین پسندیدہ اعمال کا ظہور ہو:انابت: یعنی اللہ کی طرف رجوع، جس کا اظہار انسان کے قول و عمل اور شب و روز کی سرگرمیوں سے ہو۔ اسلام: یعنی اطاعت اور فرماں برداری کی زندگی گزارنے کا اہتمام ہو۔  اتباعِ قرآن:قرآن کے اوامر ونواہی پر عمل کا شوق اور التزام ہو۔ (محمد یوسف اصلاحی، مسائل اور اُن کا حل،ص ۴۳-۴۴)

کیا دینی کتب کی تقسیم قرضِ حسن ہے؟

س: قلمی و زبانی اشاعت ِدین میں اپنی سی سعی و کاوش کے علاوہ مالی طور پر کتب خرید کر دینا کیا اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کے زمرے میں آتا ہے؟ یا راہِ حق میں جہاد کرنے کی تعریف میں؟ صراحت مطلوب ہے۔

ج:دین کی اشاعت و تبلیغ،اور دین کی اقامت و غلبے کی کوششوں میں اپنی بساط بھر مومن جو ذہنی، فکری، جسمانی، مالی کوشش و کاوش بھی کر ے گا، وہ راہِ حق میں بلاشبہہ جہاد ہی ہے۔ قلم سے بھی جہاد ہوتا ہے اور جان کھپاکر اور جان دے کر بھی جہاد ہوتا ہے۔

اس وقت، جب کہ ہر طرف باطل کا غلبہ ہے، خدا کا دین مغلوب ہے، لوگ دین سے ناواقف بھی ہیں اور دین کے خلاف ہرطرح کی فکری اور عملی مخالف کوششیں بھی ہورہی ہیں۔ ایسے حالات میں جس بندے کو جو پونجی میسر ہے، خواہ وہ مال ہو یا صلاحیتیں، زبان کی طاقت ہو یا قلم کی، بندہ جس طرح بھی دین کی اشاعت و اقامت میں لگے گا ان شاء اللہ وہ سب کچھ جہاد میں شمار ہوگا۔ دین کا تعارف کرانے، اور دین کو لوگوں میں مقبول بنانے اور اسلام کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے جو شخص اپنا مال خرچ کرکے دینی کتب خرید کر تقسیم کرے اور لوگوں تک پہنچائے وہ یقینا خداوندعالم کو قرض حسن دے رہا ہے۔ اور اس دور میں یہ بہترین قرضِ حسن ہے، جس پر    اللہ سے اچھی اُمیدیں وابستہ کرنا چاہییں۔ خداوندعالم ہم سب کو اپنی جان اور مال سے اپنی راہ میں جدوجہد کرنے کی توفیق بخشے، آمین!

دورِحاضر کتابوں کا دور ہے۔ کتابوں کے ذریعے دعوت و تبلیغ اور خدا کے دین کی اقامت کے جو مواقع آج پیدا ہوگئے ہیں، اس سے پہلے کبھی نہیں تھے۔ طباعت اور اشاعت کی جو سہولتیں اور ذرائع اس وقت میسر ہیں، ان سے فائدہ اُٹھانا اور ان میں دین کی اشاعت اور دین کی اقامت کی خاطر اپنا دل پسند مال لگانا یقینا اللہ کو قرضِ حسن دینا بھی ہے اور جہاد بالمال بھی، اور یقینا اس مہم میں شرکت کی سعادت پر اللہ سے اجروصلے کی توقع رکھنا بجا ہے۔ (محمد یوسف اصلاحی، مسائل اور اُن کا حل،ص ۳۲۲-۳۲۳)

 

جایداد کی خریدوفروخت اور زکوٰۃ کے متفرق مسائل

سوال: آج کل پلاٹوں یا مکانات کا کاروبار یا خرید وفروخت مختلف مقاصد کے لیے عروج پر ہے۔ لوگ اپنی سرمایہ کاری کے لیے پلاٹ یا مکان تجارت کی غرض سے خریدتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب رقم کی ضرورت ہوگی یا بھائو بڑھے گا تو پلاٹ یا مکان فروخت کردیں گے۔ اس طرح بروقت رقم مہیا ہوجائے گی۔

عام طور پر پلاٹ خریدنے کے کئی مقاصد ہوسکتے ہیں:

  • سرمایہ کاری (استشمار) کے لیے پلاٹ یا مکان خریدنا، یہ عامل ۹۰ فی صد تک ہوسکتا ہے۔
  • اپنا مکان بنانے کے لیے پلاٹ خریدنا، اپنی صغیر اولاد کی تعلیم و شادی و دیگر تقریبات کے لیے پلاٹ خریدنا۔
  • عوامی رفاہی (چیریٹیبل) مقاصد کے لیے پلاٹ خریدنا، جیسے ہسپتال، سکول، مدرسہ، مسجد، مسافرخانہ، فراہمی آب، یتیم خانے یا معذور افراد کے لیے پلاٹ یا مکان خریدنا۔ 
  • کسی دینی یا سیاسی و سماجی جماعت کی معاونت کے لیے مکان یا پلاٹ خریدنا۔
  • ناجائز کاموں جیسے فلم انڈسٹری ، شراب خانہ، جواخانہ وغیرہ کے لیے پلاٹ یا مکان خریدنا۔یہ خریدفروخت لاکھوں سے کروڑوں روپے تک ہوتی ہے۔ آپ سے استفسار ہے کہ: ۱-کیا زمین فروخت کرتے وقت اس زمین پر زکوٰۃ لازم ہوتی ہے، یعنی کُل سرمایے پر یا منافع پر؟

۲- زکوٰۃ بروقت ادا کردہ رقم پر ہوگی یا موجودہ مارکیٹ ریٹ پر ہوگی؟

۳- رقم کی ادایگی کئی قسطوں اورسالوں تک چلتی رہتی ہے۔ اس صورت میں زکوٰۃ صرف ادا کردہ رقم پر ہوگی یا بیع میں طے شدہ رقم پر ہوگی؟

۴- لوگ ادایگی زکوٰۃ سے بچنے کے لیے مختلف حیلے کرتے ہیں، جیسے کسی کے پاس چاندی اور سونے کے زیور ہیں تو ان میں سے ایک چیز اپنے صغیر بیٹے کے نام پر کردی اور دوسری اہلیہ کے نام پر رہنے دی۔ کیا اس شخص سے زکوٰۃ ساقط ہوجائے گی؟

۵- کسی کے پاس غیرملکی کرنسی ہے تو اس کی زکوٰۃ کیسے اور کس صورت میں ادا ہوگی؟

۶- بعض لوگ مکان خرید کر، پھر کرایے پر دیتے ہیں۔ کیا اس خرید کی ہوئی کُل پونجی پر یا کرایے کے لیے دی ہوئی رقم پر زکوٰۃ ہوگی؟

۷- پلاٹ یا پراپرٹی خریدنے کے وقت جو رقم طے ہوتی ہے اسے عام طور پر قرض سمجھا جاتا ہے۔ کیا اس مکان یا پلاٹ کی کُل رقم سے وہ قرض منہا کیا جائے گا یا جو رقم ادا کی گئی ہے صرف اس پر زکوٰۃ ہوگی؟

جواب: مال دار کو اللہ تعالیٰ نے جو مال دیا ہے اس میں زکوٰۃ کا مال بھی شامل ہوتا ہے، جو اللہ تعالیٰ فقرا اور مساکین اور مستحقین زکوٰۃ کو براہِ راست دینے کے بجاے مال داروں کے ذریعے دیتا ہے۔اس سے مال داروں کا امتحان مقصود ہے کہ وہ اللہ کا حق ادا کرتے ہیں یا نہیں۔ حق داروں کو حق ادا کرنے والوں کو آخرت میں اجر عطا فرماتے ہیں اور دنیا میں فقرا و مساکین اور مستحقینِ زکوٰۃ کا محبوب بناتے ہیں۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو اپنا محبوب بھی بناتے ہیں اور اہلِ ایمان اور خلقِ خدا کا بھی محبوب بنا دیتے ہیں، اور جو شخص مالِ زکوٰۃ ادا نہ کرے گا اور مستحقین کا حق ہڑپ کرے گا وہ دنیا اور آخرت دونوں میں ذلیل و خوار ہوگا۔ زکوٰۃ ادا کرنے سے مال پاک و صاف ہوتا ہے، زکوٰۃ دینے والے کے ایمان میں اضافہ اور برکت اور زندگی میں تزکیہ پیدا ہوتا ہے اور زکوٰۃ ادا نہ کرنے والے کا مال ناپاک اور اس کے اندر بخل کی بیماری پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ مال کی محبت میں اللہ اور اس کے رسولؐ اور دین کی محبت سے محروم ہوجاتا ہے اور پیسے گننے اور گن گن کر جمع کرنے میں مشغول رہتا ہے۔ پریشانی اور غم کی زندگی بسر کرتا ہے اور نیکیوں سے محروم رہتا ہے۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کو قابلِ رشک قرار دیا ہے۔ ایک وہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو، پھر اسے نیکی کے کاموں میں صرف کرنے پر لگا دیا ہو، اور دوسرا وہ جسے قرآن و سنت کا علم دیا ہو اوروہ اس پر عمل کرتا ہو اور اس کی تعلیم دیتا ہو (بخاری)۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا: سخی اللہ کے قریب ہے، جنت کے قریب ہے، لوگوں کے قریب ہے، دوزخ سے دُور ہے، بخیل اللہ سے دُور ہے، جنت سے دُور ہے، لوگوں سے دُور ہے، آگ کے قریب ہے(ترمذی)۔ نیز فرمایا: دو خصلتیں مومن میں جمع نہیں ہوتیں: بخل اور بدخلقی(ترمذی)۔ایک اور روایت میں ہے : جنت میں چغل خور، فسادی اور بخیل اور احسان جتانے والے داخل نہ ہوں گے۔(ترمذی)

اس طرح زکوٰۃ نہ دینے والے کا مال قیامت کے روز اس پر وبال ہوگا۔ سوناچاندی اس کے گلے میں ہار بناکر سانپ کی شکل میں ڈالا جائے گا۔ وہ اسے دونوں باچھوں سے کاٹے گا اور کہے گا: انا مالک انا کنزک’’میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں‘‘۔ گائے، اُونٹ، بیل،بھینسا اور بکرے اور دنبوں کی زکوٰۃ نہ دی تو وہ اس کی گردن پر سوار ہوں گے اور اسے پائوں تلے روندیں گے۔ اگر کوئی شخص اپنے پلاٹوں کی زکوٰۃ نہ دے گا تو وہ پلاٹ اس کی گردن کا ہار بنیں گے اور وہ ان میں نیچے تک دھنستا چلا جائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کسی کی زمین بالشت بھر بھی غصب کرے گا، سات زمینیں اس کی گردن کا طوق بنا دی جائیں گی۔ جو شخص پلاٹ کی زکوٰۃ نہیں دیتا وہ فقیر کے حصے کو غصب کرتا ہے تو یہ حصہ اس کی گردن کا طوق ہوگا اور اس کے ساتھ سات زمینیں اس کی گردن کا طوق بنیں گی۔ تب یہ کس قدر گھاٹے کا کام ہے، لہٰذا حیلوں بہانوں سے زکوٰۃ سے جان چھڑانا منافقانہ طرزِعمل ہے۔ اس سے جس قدر جلد ی توبہ کی جائے اسی قدر بہتر ہے۔

اب سوالات کے ترتیب وار جواب درج ہیں:

۱- جو پلاٹ سرمایہ کاری کے لیے خریدا جائے، خریدنے سے پہلے اس رقم کی زکوٰۃ ادا نہ کی ہو تو اس کی زکوٰۃ ادا کی جائے۔ پھر جب تک وہ فروخت نہیں ہوتا اس وقت تک سال بہ سال اس کی مارکیٹ ریٹ کے مطابق قیمت لگاکر اس کی زکوٰۃ ادا کی جائے۔ کیونکہ یہ مالِ تجارت ہے اور مالِ تجارت کی زکوٰۃ اسی طرح ادا کی جاتی ہے۔

۲- ذاتی مکان بنانے کے لیے پلاٹ خریدا جائے یا اپنی اولاد کے مکان کے لیے خریدا جائے تو ایسی صورت میں اس پر زکوٰۃ نہیں ہے کیونکہ یہ مالِ تجارت نہیں ہے۔

۳- کسی رفاہی کام کے لیے پلاٹ خریدا جائے، جیسے ہسپتال، اسکول، مدرسہ، مسجد، مسافرخانہ، فراہمی آب، یتیم خانہ یا معذور افراد کے لیے پلاٹ یا مکان خریدا جائے تو اس پر بھی زکوٰۃ نہیں ہے کیونکہ پلاٹ یا مکان تجارتی مقاصد کے لیے نہیں ہے۔

۴- زمین جو تجارتی مقاصد کے لیے ہو جب فروخت کی جائے تو اس وقت اس پر زکوٰۃ قیمت ِفروخت پر ہوگی صرف منافع پر نہیں۔ اسی طرح سال بہ سال اس کی قیمت لگاکر ہرسال اس کی زکوٰۃ ادا کی جائے گی جیسے کہ اس سے پہلے سوال نمبر ایک کے جواب میں بھی ذکر کیا گیا ہے۔

۵- زکوٰۃ منافع پر نہیں اس پوری قیمت پر ہوگی جو موجودہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق ہو۔

۶- جب سودا ہوجاتا ہے تو پلاٹ یا مکان خریدار کے قبضے میں آجاتا ہے۔ زکوٰۃ ادا کرتے وقت مارکیٹ ریٹ کے مطابق رقم لگائی جائے گی اور جتنی رقم کی ادایگی باقی ہے وہ خریدار کے ذمے قرض ہے۔ اس کی کُل رقم سے منہا کر کے باقی رقم کی زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔

۷- سقوطِ زکوٰۃ کے لیے حیلہ کیا جائے۔ سونے اور چاندی کے زیور میں کوئی بیٹے اور کوئی بیوی کے نام کردیا جائے۔ اگر حقیقتاً ملکیت تبدیل کردی اور دوبارہ اپنی ملک میں لانا پیش نظر نہیں ہے تو پھر زکوٰۃ ساقط ہوجائے گی۔ اگر محض دکھاوے کے لیے ایسا کیا گیا ہے، ملکیت تبدیل کرنا  پیش نظر نہیں ہے تو پھر دنیا والوں کے نزدیک بے شک زکوٰۃ ساقط ہوجائے مگر عنداللہ زکوٰۃ ساقط نہ ہوگی اور زکوٰۃ ادا نہ کرنے کی وعید ایسے شخص کو بھی اپنی گرفت میں لے لے گی۔

۸- غیرملکی کرنسی کی زکوٰۃ غیرملکی کرنسی کی صورت میں بھی دی جاسکتی ہے کہ اس کا اڑھائی فی صد زکوٰۃ میں دے دے یا اس کی پاکستانی کرنسی میں مارکیٹ ریٹ لگاکر پاکستانی روپیہ میں اڑھائی فی صد زکوٰۃ دے دی جائے۔

۹- مکان خرید کر کرایے پر دیا جائے تو اس پر زکوٰۃ نہیں ہے بلکہ کرایے سے جو آمدن ہوتی ہے، سال بعد اسے نقد رقم جو آدمی کے پاس ہو اس میں شامل کر کے تمام رقم کی زکوٰۃ ادا کرنا ہوگی۔ کرایے کا مکان ذریعۂ پیداوار ہے اور ذرائع پیداوار پر زکوٰۃ نہیں ہے اِلا یہ کہ مالِ تجارت کے طور پر رکھا گیا ہو۔

۱۰- پراپرٹی خریدتے وقت جو رقم طے ہوئی ہے اس کے عوض خریدار پلاٹ کا مالک ہوگیا۔ اگر وہ پلاٹ کاروبار کے لیے ہے تو اس پورے پلاٹ کی مارکیٹ ریٹ کی قیمت پرزکوٰۃ عائد ہوگی اور جو رقم خریدار کے ذمے باقی ہے وہ اس میں سے منہا کردی جائے گی۔واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)

محرم کے بغیر حج

سوال: کیا عورت حج یاعمرہ ادا کرنے کے لیے گروپ کی شکل میں نامحرم کے ساتھ جاسکتی ہے، جب کہ شوہر یا باپ کی طرف سے اجازت ہو؟ قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب: عورت عورتوں کی جماعت کے ساتھ گروپ کی شکل میں حج پر نہیں جاسکتی۔ اس لیے کہ محرم کے بغیر اس پر حج فرض نہیں ہے۔ رَے کی ایک خاتون نے ابراہیم نخعیؒ کی طرف خط لکھا کہ میں مال دار ہوں، مجھ پر حج فرض ہے اور میں نے حج نہیں کیا لیکن میرا محرم کوئی نہیں جو حج میں میرے ساتھ جائے۔ اس پر انھوں نے جواب دیا: تو ان لوگوں میں سے نہیں ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ شریف تک پہنچنے کی توفیق دی ہو، اس لیے تجھ پر حج فرض نہیں ہے۔

امام ابوحنیفہؒ، امام احمدؒ اور امام اسحاقؒ، حسن بصریؒ اور ابراہیم نخعیؒ کے نزدیک محرم یا شوہر کا ہونا شرطِ استطاعت ہے۔ البتہ امام شافعیؒ کے نزدیک عورتوں کی جماعت میسر ہو تو خاتون حج پر جاسکتی ہے۔ بعض دیگر فقہا کے نزدیک ایسی صورت میں جب راستے میں امن ہو اور عورتوں کی  جان و مال اور عزت و آبرو کو خطرہ نہ ہو تو عورت تنہا بھی حج کرسکتی ہے۔ وہ اس کے لیے اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ ایک زمانہ آئے گا کہ ایک عورت حیرۃ سے تنہا سفر کرکے آئے گی اور حج کرے گی اور اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا(بخاری)۔ازواجِ مطہراتؓ نے حضرت عمرؓ کے زمانے میں حضرت عثمانؓ اور عبدالرحمن بن عوفؓ کی حفاطت میں حج کیا۔ حضرت عمرؓ نے دونوںکو ان کی حفاظت کی خاطر بھیجا تھا۔ (بخاری)

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بغیر محرم کے بھی حج ہوسکتا ہے لیکن راجح بات یہی ہے کہ    پیش گوئی اور ازواجِ مطہراتؓ کا جلیل القدر صحابہ کی حفاظت میں حج کرنا، استثنائی حالات ہیں۔ عام حالات میں نہ امن ہے نہ اس طرح کی حفاظت، جس طرح کی حفاظت ازواجِ مطہراتؓ کو حاصل تھی۔ اس لیے محرم کے بغیر حج کرنا صریح احادیث کی خلاف ورزی ہے۔ حکومت پاکستان اور سعودیہ دونوں کے ہاں محرم کا ہونا شرط ہے، لہٰذا جب تک دونوں حکومتوں کے قوانین میں تبدیلی نہیں ہوتی اور محرم کی شرط ختم نہیں ہوتی، اس وقت تک اس شرط کی پابندی ضروری ہے۔ شوہر یا باپ کی اجازت محرم کی شرط کو ساقط نہیں کرسکتی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اسلامی احکام پر صحیح معنٰی میں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔ واللّٰہ اعلم !(مولانا عبدالمالک)

زکوٰۃ کی اجتماعی ادایگی:چند عملی مسائل

س: دستور جماعت اسلامی کی رُو سے ارکانِ جماعت اپنی زکوٰۃ جماعت کے بیت المال میں جمع کرانے کے پابند ہیں۔ اس حوالے سے چند باتوں کی وضاحت کی ضرورت ہے تاکہ شرحِ صدر کے ساتھ اس امر کی پابندی کی جاسکے :

۱- قرآنِ مجید نے زکوٰۃ کی ادایگی کے لیے آٹھ مدات کا ذکر کیا ہے۔ ان مدات میں ترجیح کے اعتبار سے ایک ترتیب کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔ جماعت کے بیت المال میں زکوٰۃ جمع کرانے سے اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ ساری کی ساری زکوٰۃ یا اس کا ایک بڑا حصہ ’فی سبیل اللہ‘کی مد میں استعمال ہو۔ اس طرح امکان ہے کہ اجتماعی نظام کے ذریعے زکوٰۃ کی ادایگی تو کرلی جائے، لیکن مدات میں ترجیحی ترتیب کو برقرار نہ رکھا جاسکے؟

۲- بعض مقامات پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نظم جماعت کے پاس تمام زکوٰۃ جمع کرانے کے بعد آپ اپنے جاننے والے فقرا و مساکین کو ادایگی کے کے لیے، پھر نظم سے لے کر انھیں دے دیں۔ لیکن اس طرح وقت اور رابطوں کے ایک طویل سلسلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ یوں ایک آسان کام مشکل بن جاتا ہے۔ کیا یہ قرین حکمت ہے؟

۳- نظم جماعت اس امر کا اہتمام کرتا ہے کہ زکوٰۃ اور عمومی اعانت کا حساب الگ الگ رکھے، لیکن بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اجتماعی فنڈ سے پروگرامات کے شرکا کی تواضع بھی کی جاتی ہے، یا ہینڈبلز اور دعوت نامے چھپوائے جاتے ہیں، جن میں سے کچھ دعوت ناموں کے بچ جانے اور استعمال نہ ہونے کا بھی امکان ہوتا ہے۔ اس صورت میں کیا زکوٰۃ ادا ہوجائے گی؟

ج: زکوٰۃ کی مدات قرآنِ پاک میں مقرر ہیں، ان میں کمی بیشی ممکن نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کو جو زکوٰۃ دی جاتی ہے، وہ اسے ان ہی مدات میںصرف کرتی ہے، صرف دعوت کے کاموں میں صرف نہیں کرتی۔

فقرا اور مساکین کو زکوٰۃ دینا مقصود ہو تو اس کی خاطر آپ کو حاجت نہیں کہ فقرا کا حصہ خود ادا کریں، البتہ عزیز و اقارب میں سے کوئی زکوٰۃ کا مستحق ہو اور آپ براہِ راست اسے زکوٰۃ دینا چاہیں تو مقامی اور ضلعی نظم کے علم میں لاکر ایسا کرسکتے ہیں۔ ایسی صورت میں زکوٰۃ نظم جماعت کو دے کر واپس لینے کی حاجت پیش نہیں آتی۔

اصولاً اور عملاً زکوٰۃ کی مد سے حاصل ہونے والی رقم اور اعانت کے ذریعے ملنے والی رقم کو الگ الگ رکھا جاتا ہے، لیکن اگر کہیںا یسا نہیں ہو رہا تو وہاں پر فوراً اس کا اہتمام ہونا چاہیے۔  زکوٰۃ کی رقم کے ایک حصے سے ایسی چیزیں چھپوائی جاسکتی ہیں جو لوگوں میں دعوت کی اشاعت کے لیے ہوں۔ پروگراموں کی اشاعت کے لیے ہینڈبل وغیرہ اگر چھاپے جائیں تو اس میں احتیاط ملحوظ رکھی جائے کہ اتنے ہی شائع کیے جائیں جن کی ضرورت ہو اور پھر انھیں پوری احتیاط سے لوگوں تک پہنچایا جائے، دفتروں میں پڑے نہ رہیں۔

یہ بات بطورِ خاص ذہن میں رکھیں کہ زکوٰۃ کی جن آٹھ مدات کا ذکر قرآن پاک میں کیا گیا ہے ان میں کمی بیشی تو نہیں کی جاسکتی لیکن ضروری نہیں ہے کہ زکوٰۃ ان تمام مدات میں دی جائے، بلکہ ان آٹھ مدات میں سے کسی ایک مد میں بھی تمام زکوٰۃ دی جاسکتی ہے، مثلاً کسی وقت آپ اپنی زکوٰۃ صرف فقرا کودے دیں، یا کسی وقت کسی مقروض کو دے دیں اور کسی وقت جہاد فی سبیل اللہ میں دے دیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَ اِنْ تُخْفُوْھَا وَ تُؤْتُوْھَا الْفُقَرَآئَ فَھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ (البقرہ۲:۲۷۱) ’’اگر تم صدقہ خفیہ طریقہ سے دو اور وہ صدقات فقرا کو دو تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے‘‘۔ اس آیت میں فقرا کو زکوٰۃ دینے کو زیادہ بہتر فرمایا ہے۔ فقرا زکوٰۃ کی آٹھ مدات میں سے ایک مد ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی یہی رہا ہے کہ بعض اوقات آپ نے ایک مد میں زکوٰۃ دے دی، اور بعض اوقت دوسری مد میں، مثلاً ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صدقہ (زکوٰۃ) کا مال آیا تو آپؐ نے مؤلفۃ القلوب (نومسلم کی تالیف قلب کے لیے )دے دیا۔ پھر دوسری مرتبہ   آیا تو آپؐ نے مقروضوں کو دے دیا۔ (ملاحظہ ہو تفسیر روح المعانی، جلد۱۰، ص ۱۲۴-۱۲۵، الجامع لاحکام القرآن، جلد۸، ص ۹۵، زادالمیسر، جلد۳،ص ۴۵۹)

اس لیے اگر کوئی شخص اپنی ساری زکوٰۃ فی سبیل اللہ کی مد میں دے دیتا ہے تو اس کی زکوٰۃ ادا ہوگئی۔ اسی طرح اگر جماعت کو زکوٰۃ دی جائے اور جماعت اسے فی سبیل اللہ، یعنی دعوت کے مختلف کاموں میں خرچ کردے تو زکوٰۃ ادا ہوگئی۔ ہاں، اگر کسی شخص نے اپنی زکوٰۃ کے لیے کوئی خاص مد تجویز کی، تو اسے اسی مد میں صرف کیا جائے گا۔ جہاد فی سبیل اللہ کے کارکنوں کی ضیافت، کھانا اور دوسری ضروریات زکوٰۃ کی مد سے کی جاسکتی ہیں۔ جس طرح جہاد فی سبیل اللہ میں جہاد کرنے والوں پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کی جائے گی۔ ان کے لیے اسلحہ، گھوڑے اور کھانے پینے کی چیزیں خریدی جائیں گی۔ اسی طرح دعوت کا کام کرنے والوں کے لیے سواری کا انتظام کیا جائے گا اور ہینڈبل اور دعوت نامے شائع کر کے دیے جائیں گے۔ یہ سب زکوٰۃ کا مصرف اور جہاد فی سبیل اللہ میں داخل ہے۔

مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں: ’’یہاں فی سبیل اللہ سے مراد جہاد فی سبیل اللہ ہے، یعنی وہ جدوجہد جس سے مقصود نظامِ کفر کو مٹانا اور اس کی جگہ نظامِ اسلامی کو قائم کرنا ہو۔ اس جدوجہد میں جو لوگ کام کریں ان کو سفرخرچ کے لیے، سواری کے لیے آلات و اسلحہ اور سروسامان کی فراہمی کے لیے زکوٰۃ سے مدد دی جاسکتی ہے، خواہ وہ بجاے خود کھاتے پیتے لوگ ہوں اور اپنی ذاتی ضروریات کے لیے ان کو مدد کی ضرورت نہ ہو۔ اسی طرح جو لوگ رضاکارانہ اپنی تمام خدمات اور اپنا تمام وقت عارضی طور پر یا مستقل طور پر اس کام کے لیے دے دیں تو ان کی ضروریات پورا کرنے کے لیے بھی زکوٰۃ سے وقتی یا استمراری رعایتیں دی جاسکتی ہیں‘‘(تفہیم القرآن، جلد۲، حاشیہ ۶۷، تفسیر آیت۶۰، ص ۲۰۸)۔ واللّٰہ اعلم !(مولانا عبدالمالک)

خدا اور قیاسات

سوال: کچھ عرصہ ہوا، ایک دوست کے ساتھ میری بحث ہوئی۔ سوال یہ تھا کہ خدا ہے یا نہیں؟ اور ہے تو وہ کہاں سے آیا؟ ہم دونوں اس معاملے میں علم نہیں رکھتے تھے، لیکن پھر بھی میں سوال کے پہلے جزو کی حد تک اپنے مخاطب کو مطمئن کرنے میں کامیاب ہوگیا، لیکن دوسرے جز کا کوئی جواب مجھ سے بن نہیں آیا۔ چنانچہ اب یہ سوال خود مجھے پریشان کر رہا ہے۔ایک موقع پر میری نظر سے یہ بات گزری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ سوال کیا گیا تھا، اور آپؐ نے اس کے جواب میں فرمایا تھا کہ کچھ باتیں انسان کے سوچنے اور سمجھنے سے باہر ہوتی ہیں ، اور یہ سوال بھی انھی میں شامل ہے۔میں بہت کوشش کرتا ہوں کہ آنحضرتؐ کے اس فرمودہ سے اطمینان حاصل کروں، لیکن کامیابی نہیں ہوتی۔ براہِ کرم آپ میری مدد فرمائیں۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ انسان کو صحیح معنوں میں انسان بننے کے لیے کن اصولوں پر چلنا چاہیے؟

جواب: آپ کے ذہن کو جس سوال نے پریشان کر رکھا ہے، اس کا حل تو کسی طرح ممکن نہیں ہے، البتہ آپ کی پریشانی کا حل ضرور ممکن ہے۔ اور اس کی صورت یہ ہے کہ آپ اس قسم کے مسائل پر سوچنے کی تکلیف اُٹھانے سے پہلے اپنے علم کے حدود (limitations) کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ جب آپ یہ جان لیں گے کہ انسان کیا کچھ جان سکتا ہے اور کیا کچھ نہیں جان سکتا تو پھر آپ    خواہ مخواہ ایسے امور کو جاننے کی کوشش میں نہ پڑیں گے جن کو جاننا آپ کے بس میں نہیں ہے۔ خدا کی ہستی کے متعلق زیادہ سے زیادہ جو کچھ آدمی کے امکان میں ہے وہ صرف اس قدر ہے کہ آثارِکائنات پر غور کر کے ایک نتیجہ اخذ کرسکے کہ خدا ہے، اور اس کے کام شہادت دیتے ہیں کہ اس کے اندر یہ اور یہ صفات ہونی چاہییں۔ یہ نتیجہ بھی ’علم‘ کی نوعیت نہیں رکھتا، بلکہ صرف ایک عقلی قیاس اور گمان غالب کی نوعیت رکھتا ہے۔ اس قیاس اور گمان کو جو چیز پختہ کرتی ہے وہ یقین اور ایمان ہے۔ لیکن کوئی ذریعہ ہمارے پاس ایسا نہیں ہے جو اس کو ’علم‘ کی حد تک پہنچا سکے۔

 اب آپ خود سوچ لیجیے کہ جب خدا کی ہستی کے بارے میں بھی ہم یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ ہم کو اس کے ہونے کا ’علم‘ حاصل ہے تو آخر اس کی حقیقت کا تفصیلی علم کیوں کر ممکن ہے۔ خدا کی ذات تو خیر بہت بلندوبرتر ہے، ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ ’زندگی‘ کی حقیقت اور اس کی اصل (origin) کیا ہے۔ یہ توانائی (energy) جس کے متعلق ہمارے سائنس دان کہتے ہیں کہ اسی نے مادہ کی شکل اختیار کی ہے اور اس سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے، اس کی حقیقت ہمیں معلوم نہیں، اور نہ ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ کہاں سے آئی اور کس طرح اس نے مادے کی گوناگوں شکلیں اختیار کیں۔ اس قسم کے معاملات میں ’کیوں‘ اور ’کیسے‘ کے سوالات پر غور کرنا اپنے ذہن کو اس کام کی تکلیف دینا ہے جن کے انجام دینے کی طاقت اور ذرائع اس کو حاصل ہی نہیں ہیں۔ اس لیے یہ غوروفکر نہ پہلے کبھی انسان کو کسی نتیجے پر پہنچا سکا ہے نہ اب آپ کو پہنچا سکتا ہے۔ اس کا حاصل بجز حیرانی کے اور کچھ نہیں۔ اس کے بجاے اپنے ذہن کو ان سوالات پر مرکوز کیجیے جن کا آپ کی زندگی سے تعلق ہے اور جن کا حل ممکن ہے۔ یہ سوال تو بے شک ہماری زندگی سے تعلق رکھتا ہے کہ خدا ہے یا نہیں، اور ہے تو اس کی صفات کیا ہیں، اور اس کے ساتھ ہمار ے تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ اس معاملے میں کوئی نہ کوئی راے اختیار کرنا ضروری ہے۔کیونکہ بغیر اس کے ہم خود اپنی زندگی کی راہ متعین نہیں کرسکتے۔ اور اس معاملے میں ایک راے قائم کرنے کے لیے کافی ذرائع بھی ہمیں حاصل ہیں۔ لیکن یہ سوال کہ ’’خدا کہاں سے آیا‘‘ نہ ہماری زندگی کے مسائل سے کوئی تعلق رکھتا ہے اور نہ   اس کے متعلق کسی نتیجے پر پہنچنے کے ذرائع ہم کو حاصل ہیں۔

آپ کا دوسرا سوال کہ ’’انسان کو انسان بننے کے لیے کن اصولوں پر چلنا چاہیے‘‘ ایسا نہیں ہے کہ اس کا جواب ایک خط میں دیا جاسکے۔ میں اپنی کتابوں میں اس کے مختلف پہلوئوں پر مفصل لکھ چکا ہوں۔ آپ ان کو ملاحظہ فرمائیں۔ مثلاً اس کے لیے میرے مضامین سلامتی کا راستہ، اسلام اور جاہلیت، اسلام کا اخلاقی نقطۂ نظر اور دین حق کا مطالعہ مفید رہے گا۔ نیز رسالہ دینیات سے بھی آپ کو اس معاملے میں کافی رہنمائی حاصل ہوگی۔ (سیدابوالاعلیٰ مودودی، رسائل و مسائل، دوم، ص ۲۷۳-۲۷۴)

شادی کی عمر اور اسلام

س: اسلام میں بچیوں کی بروقت شادی کی کیا اہمیت ہے اور اس کا کیا حکم ہے؟ میری ایک سہیلی جس کی عمر ۲۸سال ہوچکی ہے لیکن اس کے والدین اس کی شادی کے بارے میں سنجیدہ نہیں دکھائی دیتے۔ ان کا کہنا ہے کہ شادی سنت ہے، خواہ اسے اپنایا جائے یا نہ اپنایا جائے، یہ فرض نہیں ہے۔ کبھی یہ کہتے ہیں کہ اچھا رشتہ نہیں ملتا۔ جب کوئی اچھا رشتہ ملتا ہے تو کہتے ہیں کہ ان کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے کہ وہ شادی کرسکیں، حالانکہ اس کے والد وفاقی حکومت کے گریڈ۱۸ کے ملازم ہیں۔ وہ مختلف اوقات میں مختلف بے بنیاد جواز پیش کرتے ہیں۔ دوسری طرف وہ اپنے آپ کو اچھا مسلمان بھی سمجھتے ہیں کہ وہ پانچ وقت نماز ادا کرتے ہیں، قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے ہیں اور حرام سے بچتے ہیں۔ براہِ مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں مفصل جواب دیجیے، نیز یہ بھی واضح کریں کہ آیا شادی جیسے مذہبی فریضے کی ادایگی کے لیے پیسہ لازمی عنصر ہے؟

ج:  آپ نے اپنے سوال میں ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے ایک اہم اور سنجیدہ مسئلے کی طرف متوجہ کیاہے۔ بعض اوقات لڑکیاں خود یہ رویہ اختیار کرتی ہیں کہ ابھی شادی کی جلدی ہی کیا ہے، بہت عمر پڑی ہے۔ پہلے تعلیم مکمل کی جائے، پھر ملازمت کی جائے اور جب کوئی مناسب رشتہ آئے تو اس پر بھی غور کرلیا جائے۔ ایسے ہی بعض والدین عاقبت نااندیشی اور بعض مادیت کے زیراثر یہ انتظار کرتے ہیں کہ کسی زیادہ مال دار فرد کی طرف سے رشتے کی پہل ہو تو اس پر غور کریں۔ ایک تیسرا زیادہ خطرناک تصور جو مغربی تہذیب اور ہندوازم کے ساتھ طویل عرصے کے تعامل (interaction) کے نتیجے میں بعض حضرات کے ذہنوں میں اُبھر آیا ہے وہ بجاے خود شادی اور خاندانی زندگی کی اہمیت کو محسوس نہ کرنا اور تجرد کی زندگی گزارنے میں کوئی حرج محسوس نہ کرنے کا ہے۔

جہاں تک قرآن و سنت کا تعلق ہے، قرآن کریم نے بہت واضح الفاظ میں حکم دیا ہے کہ:  وَاَنکِحُوْا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِِمَآئِکُمْ ط اِِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَآئَ یُغْنِہِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ o(النور ۲۴:۳۲)،’’تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں، اور تمھارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں ان سے نکاح کردو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے گا، اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے‘‘۔

اس آیت مبارکہ میں دو انتہائی اہم اصول تعلیم کیے گئے ہیں۔ اوّلاً یہ حکم کہ مجرد افراد مرد ہوں یا عورت، ان کا نکاح کردیا جائے، کیونکہ نکاح ایک ایسا حصار ہے جو نہ صرف ایک فرد کو بلکہ پورے معاشرے کو بُرائی سے محفوظ رکھنے کا سب سے زیادہ مؤثر ذریعہ ہے۔ پھر یہ بات فرمائی گئی کہ نہ صرف مجرد افراد بلکہ اگر لونڈی غلام بھی شادی کی عمر کے ہوں تو ان کا بھی نکاح کردیا جائے۔ اس سلسلے میں مال کی کمی اور وسائل کا نہ ہونا بنیاد نہ بنائی جائے۔ چنانچہ فرمایا: اگر وہ تنگ دست ہوں گے تو ہم انھیں غنی کردیں گے۔ قرآن کریم نے اپنے اس حکم کے ذریعے ان تمام معاشی دلائل کو   رد کردیا ہے جن کی بناپر لوگ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی کو مؤخر کرتے رہتے ہیں۔

رہا سوال شادی کی فرضیت کا تو اُوپر درج کی گئی آیت مبارکہ سے بڑھ کر فرضیت کا حکم اور کون سا ہوسکتا ہے۔ اسی پہلو کو خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث صحیح میں یوں فرمایا گیا کہ ’’نکاح میری سنت ہے‘‘ اور دوسری حدیث میں فرمایا گیا: ’’نکاح میری سنت ہے، اور جس نے نکاح پسند نہ کیا وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔ اس حدیث نے اصولی طور پر یہ بات طے کردی کہ اگر ایک شخص نکاح کا انکار کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت سے اپنے عمل کی بناپر خارج کرلیتا ہے۔ ہاں، ایک فرد مسلسل کوشش کر رہا ہو اور باوجود کوشش کے نکاح نہ کرپائے تو اس پر کوئی گرفت نہیں۔

یہاں یہ سمجھ لیجیے کہ قرآن ہو یا سنت ِ رسولؐ دونوں کا نام شریعت ہے، ان میں فرق نہیں کیا جاسکتا۔ نکاح کے معاملے میں دونوں کے واضح احکام ہیں۔ اس لیے جان بوجھ کر اور محض مزید بہتر کا غیرمتعین انتظار کرنے کی بنا پر نکاح نہ کرنا شریعت کے منافی ہے۔ والدین کو بھی اور ان کی اولاد کو بھی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی سے بچانے کے لیے جب شادی کی عمر ہوجائے تو تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ شادی ایک دینی فریضہ ہے اور اس کو بلاعذر شرعی مؤخر کرنا اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی کھلی خلاف ورزی ہے۔(ڈاکٹر انیس احمد)

نفلی حج اور عمرہ

س: میرے پاس کچھ زمین ہے۔ کچھ زمین مَیں نے بچوں کی تعلیم کے لیے فروخت کردی ہے اور باقی فروخت کر کے حج کرنا چاہتا ہوں۔ پنشن میں میری گزراوقات ہوجاتی ہے۔ میری اہلیہ کا اصرار ہے کہ وہ بھی حج پر ساتھ جائیں گی، جب کہ اتنی رقم نہیں ہے کہ انھیں ساتھ لے کر جائوں لیکن وہ بضد ہیں۔ میری رہنمائی فرمادیں۔

ج:  آپ پر حج فرض نہیں ہے اور عمرہ تو نفلی عبادت ہے۔ اس لیے آپ اپنی زمین فروخت کر کے حج یا عمرہ پر جانے کا پروگرام ترک کردیں۔ نفلی عبادات جو بآسانی اپنے گھر پر رہ کرکرسکتے ہیں کریں اور دعوتِ دین کا کام پورے جذبے اور شوق سے کریں اور اس میں اگر کچھ خرچ کرسکتے ہوں تو کریں۔ حسب ِ استطاعت لٹریچر خرید کر عوام میں تقسیم کریں کہ یہ کام تو فرض ہے۔ فرض کو   ادا کرنا زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس کے بعد اگر اللہ تعالیٰ اتنے وسائل عطا فرما دیں کہ آپ اپنی بیوی کے ساتھ عمرہ کرسکیں تو پھر عمرہ کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہوگی۔ اس طرح آپ عمرہ بھی کرلیںگے اور اپنی بیوی کی خواہش کو بھی پورا کردیں گے۔(مولانا عبدالمالک)

مخلوط مجالس میں باپردہ شرکت؟

س: خاندان کے ایسے اجتماع میں شرکت کے بارے میں کیا حکم ہے جو مخلوط ہو اور مردوخواتین بآسانی مل جل رہے ہوں؟ کچھ لوگوں کی راے ہے کہ ہم صلۂ رحمی کے جذبے سے جاتے ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ ہم باپردہ ہوتے ہیں، لہٰذا ہم دوسروں کے ذمہ دار نہیں۔ کیا گناہ پر مبنی یہ مجلس اللہ کے حکم کا مذاق اُڑانے کے مترادف نہیں ؟

ج:  ایسی مجلس میں جو مخلوط ہو ، مردو زن بآسانی مل سکتے ہوں، جانے سے احتراز کرنا چاہیے۔ محض اتنی بات وجۂ جواز نہیں ہوسکتی کہ آپ باپردہ ہوں۔ دوسرے بے پردہ لوگ مجلس میں ہوں اور آپ ان پر نکیر نہ کریں تو آپ باپردہ ہونے کے باوجود بے پردہ لوگوں کے گناہ میں شریک ہوں گی۔ اس لیے یا تو وہاں مناسب اور معقول انداز سے مجلس کو فحاشی اور عریانی سے پاک کرنے میں کردار ادا کریں ورنہ جانے سے معذرت کرلیں، اور دعوت دینے والے پر واضح کردیں کہ مجلس میں شرعی آداب کی خلاف ورزی کی جارہی ہے، اس لیے میں شرکت سے معذور ہوں۔ (مولانا عبدالمالک)

ربانیت اور اس کا حصول

سوال: میں چاہتا ہوں کہ جنت میں جائوں ، اپنے نفس سے مجاہدہ کرنا چاہتا ہوں، شیطان اور خواہشاتِ نفس سے دُور ہونا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے قیامت کے دن ’ربانی بندہ‘ کا خطاب دے، میں اپنے مسلمان بھائیوں سے محبت کرنا چاہتا ہوں، اور یہ چاہتا ہوں کہ میرا ایمان مسلسل بڑھتا رہے۔ بتائیں میں کیا کروں؟

جواب:  آپ نے جو سوالات کیے ہیں، وہ فطرتِ سلیمہ کے غماز ہیں۔ یہ عظیم تمنائیں ہیں جو پختہ ایمان سے ہی پوری ہوسکتی ہیں۔ حضرت سفیان ثوریؒ کا قول ہے کہ ایمان محض خواہشات اور چند رسومات کا نام نہیں، بلکہ ایمان تو وہ ہے جو دل میں بیٹھ جائے اور عمل سے اس کی تصدیق ہو۔ عربی کا مقولہ ہے کہ جو بلندیوں کا طالب ہوتا ہے، اسے راتیں جاگ کر گزارنا پڑتی ہیں۔   حضرت فضیل بن عیاضؒ کہتے ہیں: ’’تمھارے دل ایمان کی حلاوت اس وقت تک نہیں پاسکتے  جب تک تم دنیا سے بے رغبتی اختیار نہیں کرلیتے‘‘۔ مزید کہتے ہیں: ’’اگر تمھیں قیام اللیل (رات کو   اُٹھ کر عبادت کرنے) اور دن کو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں تو پھر جان لو کہ تم بھلائیوں سے محروم ہو‘‘۔ سچے مومن کا دل دہکتے انگارے کی طرح ہوتا ہے۔ اس لیے آپؐ نے فرمایا: تمھارے دل میں ایمان پرانا ہوجاتا ہے جیسے کپڑا پرانا ہوتا ہے، تم اللہ سے سوال کرتے رہو کہ وہ تمھارے دلوں میں ایمان کو تازہ کرتا رہے۔ (مستدرک، معجم الطبرانی)

مومن کے دل کو بعض اوقات معصیت کے بادل گہنا دیتے ہیں، اور اس کے نور کو ڈھانپ دیتے ہیں جس سے وہ اندھیرے اور وحشت میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ اگر بندے نے اپنے ایمان میں اضافہ کرنے کی کوشش کی اور اللہ سے مدد طلب کی تو یہ کالے بادل چھٹ جاتے ہیں اور دل کا نور پھرسے بحال ہوجاتا ہے۔ لہٰذا رہ رہ کر ایمان کی طرف واپسی ضروری ہے۔ اگر آپ ایمان کی طرف لوٹ آئے اور اس کے تقاضے پورے کردیے تو آپ کی یہ تمنائیں پوری ہوسکتی ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اصول ہمیشہ مدنظر رہے جس سے آپ ایمان کے ہونے یا نہ ہونے کا خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔

امام ابن جوزی کہتے ہیں: ’’اے وہ کہ دروازے سے دھتکارے گئے ہو، اور جسے دوستوں کی ملاقات سے محروم کیا گیا ہے۔ اگر تم چاہتے ہو کہ بادشاہ کے ہاں اپنی قدرومنزلت کا اندازہ لگاسکو تو یہ دیکھ لو کہ اس نے تمھیں کن کاموں میں لگا دیا ہے، اور تم سے کون سے کام لے رہا ہے؟ کتنے ہی بادشاہ کے دَر پر کھڑے ہیں، مگر اندر جانے کی صرف ان کو اجازت ملتی ہے جنھیں بادشاہ چاہتا ہے۔ ہر دل تقرب حاصل کرنے کے قابل نہیں، ہرسینے کے اندر محبت نہیں، ہرنسیم نسیمِ سحر نہیں‘‘۔

اگر بندہ یہ جاننا چاہے کہ اللہ کے ہاں اس کی کیا قدرومنزلت ہے تو اسے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ اللہ کے احکامات کی بجاآوری کس حد تک کر رہا ہے، اس کے اوقات کیسے گزررہے ہیں، اس کے مشاغل کیا ہیں۔ اگر وہ دین کی دعوت اور لوگوں کو جہنم کی آگ سے بچانے میں لگا ہوا ہے، جنت کے حصول، کمزوروں اور ناداروں کی مدد اور دیگر نیک کاموں میں اس کی صلاحیتیں لگ رہی ہیں، تو اسے بشارت ہو کہ اسے بادشاہ کا تقرب حاصل ہے۔ اس لیے کہ اللہ بھلائی کی اس کو توفیق دیتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ لیکن اگر وہ دعوتِ دین کے کام سے دُور ہے، بھلائی کے کاموں سے محروم ہے، محض دنیا کمانے میں لگا ہوا ہے، قیل و قال اور باتیں زیادہ مگر عمل کچھ نہیں، یا اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے لگا ہوا ہے، تو اسے جان لینا چاہیے کہ وہ اللہ سے دُور ہے، جنت سے قریب کرنے والے اعمال سے محروم ہے: مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَۃَ عَجَّلْنَالَہٗ فِیْھَا مَا نَشَآئُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَہٗ جَھَنَّمَ  (بنی اسرائیل ۱۷:۱۸) ’’جوکوئی (اس دنیا میں) جلدی حاصل ہونے والے فائدوں کا خواہش مند ہو، اسے یہیں ہم دے دیتے ہیں جو کچھ بھی جسے دینا چاہیں، پھر اس کے مقسوم میں جہنم لکھ دیتے ہیں جسے وہ تاپے گا، ملامت زدہ اور رحمت سے محروم ہوکر‘‘۔

اگر تم چاہتے ہو کہ بھلائی اور نیکی کے تمام کاموں میں تم سبقت حاصل کرتے رہو، ربانی بندہ، والدین کا فرماں بردار اور جنت کے طالب بنو، تو یہ کام کرو:

  •  ایمان کو اپنے اندر بیدار رکھو۔ ایمان ہی سے ایک مومن دنیا اور آخرت کی بھلائیاں حاصل کرسکتا ہے۔ ایمان کی بیداری اور تجدید کے بے شمار ذرائع ہیں اپنے آقا کی طرف سچے دل سے رُخ کرلو، اللہ ہی کو اپنا بڑا مقصد بنا لو۔ ہمیشہ بلندیوں کی طرف پرواز جاری رکھو، اللہ کی خوشنودی اور جنت کے حصول کے لیے تگ و دو اور جدوجہد کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لو۔l تاریخِ اسلام کے روشن کرداروں، صحابہ و تابعین اور دیگر سلف صالحین کی سیرتوں کو مشعل راہ بنا لو۔ نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرو۔ اطاعت کی راہ اختیار کرنے اور گناہوں سے بچنے کا یہ بہترین ذریعہ ہے۔ نیک اعمال کثرت سے کرو، اس سے تمھیں دنیا و آخرت میں سچی راحت ملے گی۔  قیام اللیل اور سحر کے وقت دُعا کو معمول بنا لو۔ تلاوتِ قرآن سے کوئی دن خالی نہ جانے دو، اور قرآن پر غوروفکر کی عادت ڈالو۔ دعوتِ دین کا کام کرو اور دین کی نشرواشاعت میں حتی الوسع حصہ ڈالو۔

سمجھ لو کہ آدمی ’ربانی بندہ‘ تبھی بن سکتا ہے جب وہ ہرحال میں رب العالمین کا ہوکر رہے۔ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (الانعام ۶:۱۶۲)  ’’کہو، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘۔ ربانیت تبھی حاصل ہوسکتی ہے جب عبادت کے وسیع مفہوم کے ساتھ اللہ سبحانہ کی عبادت کی جائے۔ زندگی اور موت بلکہ تمام حرکات و سکنات اللہ کے احکام کے تابع کردی جائیں۔ بولیں تو اللہ کی مرضی کے مطابق، کوئی کام کریں تو اللہ کی مرضی کے مطابق، ان اقوال و اعمال کے پیچھے ارادہ اور ہدف و مقصد اللہ کی ذات بن جائے۔ صرف یہ نہ ہو کہ بعض مخصوص اذکار و اوراد پڑھ لیں یا کبھی کبھار تھوڑی سی رقم اداکریں یا چند دن روزہ رکھ لیں۔  جس طرح زندگی کے شعبے لامحدود ہیں اور ہمارے تعلقات اور سرگرمیاں لامحدود ہیں، اسی طرح ہرجگہ جہاں آپ ہوں اور ہرلمحہ جو آپ کو میسر ہو، اس میں اپنے مالک کی خوشنودی حاصل کرنے کے راستے تلاش کریں۔ اس فکر میں رہیں کہ جو کچھ  وہ چاہتا ہے، کر گزریں۔ اس طرح آپ ’ربانی بندہ‘ بن سکتے ہیں۔(ڈاکٹرعبدالحی ابڑو)

نکاح کے ساتھ اضافی شرائط کی قید

س:  میاں بیوی میں جھگڑا ہوگیا ۔ بیوی اپنے میکے چلی گئی۔ میکے والوں نے کڑی تحریری شرائط کے بغیر بیوی کو سسرال بھیجنے سے انکار کردیا۔ ایک معاہدے پر فریقین اور ثالثان نے دستخط کیے، اس کی اہم شرائط درج ذیل ہیں: ۱- اگر شوہر نے دوسری شادی کی یا پہلے سے کی ہوئی دوسری شادی ثابت ہوئی تو شوہر پہلی بیوی کو ۱۰ لاکھ روپے ادا کرے گا۔ ۲- شوہر نان نفقہ کے علاوہ بیوی کو ۱۰ہزار روپے ماہانہ بطورِ جیب خرچ     ادا کرے گا۔۳- دوسری شادی کی صورت میں اپنا رہایشی مکان پہلی بیوی کے نام کردے گا۔۴- بیوی اور اس کے بچوں کے لیے علیحدہ کار اور ڈرائیور کا بندوبست کرے گا۔ ۵-بیوی کے لیے صرف یہ نصیحت درج کی گئی کہ وہ عائلی زندگی کے بابت شرعی احکامات کو پورا کرنے کی کوشش کرے گی۔

سوال یہ ہے کہ (ا) اللہ کا دین مرد کو قوام قرار دیتا ہے۔ کیا عائلی تنازعات کو حل کرنے کے لیے مذکورہ بالا شرائط منوانے سے دین کی بنیادی ترتیب درست رہ سکتی ہے؟ (ب)اسلام میں بیک وقت مرد کو چار بیویاں رکھنے کی اجازت ہے اور صرف ایک شرط باہم انصاف کرنے کی عائد کرتا ہے۔ کیا مذکورہ معاہدے میں شوہر کو دوسری شادی کرنے پر جس طرح مالی پابندی میں جکڑا گیا ہے، جائز ہے؟ کیا عدالت نبویؐ کا کوئی فیصلہ ملتا ہے کہ نبی کریمؐ نے کسی عائلی تنازعے میں مرد کو مالی شرائط میں جکڑا ہو؟ 

ج: جب ایک آدمی ایک شرط کو اپنی مرضی سے قبول کرلے اور اس کا وعدہ کرے تو اس کا پورا کرنا اس پر لازم ہوجاتا ہے۔ شوہر کو ان شرائط کے بارے میں اس وقت سوچنا چاہیے تھا جب معاہدہ ہورہا تھا۔ شوہر کے ہمدرد جن کو اب ان شرائط پر اعتراض ہے، انھیں بھی اس وقت سوچنا چاہیے تھا جب یہ شرائط پیش کی جارہی تھیں۔ اگر اس وقت ان شرائط کو قبول نہ کرنے پر متوجہ نہ کیا تو اب شرائط کو پورا کرنے دیا جائے۔ اخلاقاً شوہر پر ان شرائط کو پورا کرنے کی پابندی ہے۔ البتہ شرعی عدالت میں مقدمہ کیا جائے، تو عدالت صرف نصیحت کرے گی۔ ان شرائط کی خلاف ورزی پر  تنسیخ نکاح کی ڈگری جاری نہ کرے گی۔ اس لیے کہ نکاح منعقد کرتے وقت یہ شرائط نہیں لگائی گئی تھیں، یہ بعد میں لگائی گئی ہیں اور وہ بھی لڑکی کے ماں باپ کی طرف سے لگائی گئی ہیں۔ اگر لڑکی شوہر کے ساتھ رہنے کے لیے تیار ہے، تب ان شرائط کا کیا جواز ہے۔ یہ شرائط تو ماں باپ نے اپنی اَنا کی تسکین کے لیے لگائی ہیں۔ بنابریں شوہر قانوناً ان شرائط کا پابند نہیں ہے لیکن باہمی نبھائو تو قانون نہیں کراتا، باہمی رضا مندی سے ہوتا ہے۔ اس لیے اگر بیوی ان شرائط کو لوجہ اللہ واپس   لے لے تو اس کے لیے جائز بلکہ مستحسن ہے۔ کوشش کی جائے کہ یہ رشتہ نہ ٹوٹے اور حتی الامکان ایک دوسرے کی رعایت کریں تاکہ زندگی خوش گوار گزرے۔ دوسری شادی بیوی کو اطلاع دے کر کی جائے تاکہ پہلی بیوی ناراض ہوکر ماں باپ کے گھر نہ بیٹھ جائے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ شرط جو تمام شرطوں سے زیادہ پورا کیے جانے کی مستحق ہے، نکاح کی شرط ہے جس سے تم فرج کو حلال کرتے ہو‘‘(متفق علیہ)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وعدہ پورا کرنے کی اس قدر تاکید کی ہے کہ وعدے کی خلاف ورزی کو نفاق قرار دیاہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب ایسی صورت حال پیش کی جاتی تھی کہ عورت شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی اور شوہر کے ساتھ رہنا اس کے لیے گراں ہوتا تو آپؐ شوہر کو مہر واپس دلا کر طلاق دلوا دیتے تھے۔ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضرت ثابت بن قیسؓ کی بیوی آپؐ کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ میں ثابتؓ کے اخلاق اور دین پر کوئی اعتراض نہیں کرتی لیکن میرے لیے ایک بیوی کی حیثیت سے اس کے ساتھ خوش دلی کے ساتھ رہنا ممکن نہیں ہے۔ میں کراہت کے ساتھ بیوی بن کر رہنے کو کفر (ناشکری)سمجھتی ہوں۔ اس پر آپؐ نے حضرت ثابت بن قیسؓ کو پوچھے بغیر فرمایا: کیا تو اسے اس کا باغ جو اس نے تجھے مہر میں دیا ہے واپس کرتی ہے؟ نبیؐ نے یہ بات اس لیے پوچھی کہ آپؐ سمجھ گئے کہ خاتون سچی مسلمان ہے، اسلام اور ایمان کے تقاضوں کو سمجھتی ہے اور اسے بزورِ رشتۂ نکاح میں باندھے رکھنا مناسب نہیں ہے۔ تب آپؐ نے حضرت ثابت بن قیسؓ کو بلایا اور ان سے فرمایا کہ اسے طلاق دے دو۔ چنانچہ انھوں نے طلاق دے دی۔ (بخاری)

آپؐ نے ایسا اس لیے کیا کہ اسلام ایسا معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے جس میں معاشرے کی پہلی اکائی اطمینان اور سکون اور پیارو محبت کی زندگی پر مبنی ہو تاکہ اقامت ِ دین کے لیے جدوجہد دل جمعی اور کسی پریشانی کے بغیر کی جاسکے۔ اگر ایک آدمی اپنے گھر میں پریشان ہوگا تو وہ کفار اور منافقین سے کیسے جہاد کرسکے گا۔ صحابہ کرامؓ نے جس جذبے اور جوش اور اطمینان سے جہاد کیا اور قربانیاں دیں، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے گھروں کے لیے فکرمند نہ تھے۔ ان کی بیویاں ان کے گھروں، ان کی اولاد اور ان کی امانتوں کی پوری طرح محافظ تھیں۔ آج اسی قسم کے معاشرے کی ضرورت ہے۔ جب محبت ہوتی ہے تو عسرت کی زندگی بھی قبول ہوتی ہے۔ شرائط مقرر کرنا اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ فریقین کو بزور باندھ کر رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ثالثوں کو چاہیے کہ وہ مذکورہ جوڑے کو محبت کے رشتے میں باندھنے کی کوشش کریں اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان میں محبت ہے تو لڑکی کے والدین کو چاہیے کہ جس طرح نکاح سے پہلے شرطیں نہیں لگائیں، اب بھی شرائط کو واپس لے لیں۔ لڑکی کو چاہیے کہ والدین کو شرطیں واپس لینے کی درخواست کرے۔ اگر میاں بیوی راضی ہیں، محبت سے رہنے کے لیے تیار ہیں تو پھر شرطوں کو مسئلہ نہ بنائیں۔ بنیادی بات باہمی رضامندی اور محبت ہے، اس پر توجہ دی جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی روح کے مطابق رشتوں کو استوار کرنے اور قائم رکھنے کی صلاحیت اور جذبے سے نوازے، آمین۔(مولانا عبدالمالک)

نیکی کے عمل کے دوران ریاکاری

سوال: کیا انسان کو ایسے عمل پر اجروثواب ملتا ہے جو ریاکاری اور دکھاوے کی نیت سے شروع کیا گیا مگر دورانِ عمل نیت تبدیل ہوکر خالص اللہ کے لیے ہوگئی؟ مثال کے   طور پر میں نے تلاوتِ قرآن ختم کی اور میرے اندر ریاکاری کا جذبہ پیدا ہوگیا۔    اگر میں اس سوچ کو دُور کرنے کی کوشش کروں اور اللہ کی عظمت کا خیال اپنے دل میں پیدا کروں، تو کیا مجھے اس تلاوت کا اجر ملے گا یا ریاکاری کی وجہ سے وہ ضائع ہوجائے گا، اگرچہ ریاکاری کا یہ جذبہ عمل کرنے کے بعد ہی پیدا ہوا؟

جواب:  عبادت میں ریاکاری اور دکھلاوے کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ عبادت یا نیکی کا کوئی کام کرنے کے پیچھے بنیادی طور پر لوگوں کو دکھلاوے کا جذبہ ہی ہو، جیسے کوئی نمود و نمایش کے لیے نماز پڑھتا ہو تاکہ لوگ اس کی تعریف کریں۔ اس سے وہ نیکی اور عبادت رائیگاں چلی جاتی ہے۔

دوسرے یہ کہ پہلے خالص اللہ کے لیے عبادت شروع کی ہو مگر بعد میں عبادت کرنے کے دوران میں دکھلاوے کا جذبہ شامل ہوجائے، تو اس کی دو شکلیں ہوسکتی ہیں۔ پہلی شکل یہ کہ اس نیکی اور عبادت کے دو الگ الگ حصے ہوں۔ اس صورت میں یہ پہلا حصہ درست ہوگا اور دوسرا باطل۔ جیسے ایک شخص کچھ رقم صدقہ و خیرات کرنا چاہتا تھا۔ کچھ رقم اس نے خالص جذبے سے صدقہ کی۔ پھر باقی رقم میں اس کے اندر ریاکاری کا خیال پیدا ہوا توپہلی رقم کا صدقہ درست اور ان شاء اللہ مقبول ہوگا، جب کہ دوسری کا باطل۔ اس لیے کہ اخلاص میں ریا کی آمیزش ہوگئی۔

دوسری شکل یہ کہ عبادت کے دونوں حصے ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح جڑے ہوئے ہوں کہ ان کو الگ نہ کیا جاسکتا ہو۔ اس صورت میں بھی دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ انسان ریاکاری کے جذبے کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرے اور اسے ٹکنے نہ دے، اسے ناپسند کرے، تو ایسی صورت میں اس کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ نے میری اُمت سے نفسانی وسوسوں اور خیالات کو معاف کر دیا ہے جب تک وہ ان پر عمل نہ کرنے لگیں یا اُنھیں اپنانے نہ لگیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس دکھلاوے کے جذبے کو قبول کرلے اور اس کا مقابلہ نہ کرے تو اس صورت میں وہ پوری عبادت باطل اور رائیگاں ہوکر رہ جائے گی۔ جیسے ایک آدمی نے نماز کا آغاز اللہ کے لیے سچی نیت سے کیا مگر دوسری رکعت میں اس کے دل میں ریاکاری کا جذبہ پیدا ہوگیا، اس سے اس کی وہ پوری نماز ضائع ہوجائے گی۔

ریاکاری اور دکھلاوے کی تیسری صورت یہ ہے کہ وہ عبادت ختم کرنے کے بعد پیدا ہو۔ اس کا عبادت پر کوئی اثر نہیں ہوتا، عبادت درست رہتی ہے۔ یہ بات بھی ریاکاری اور دکھلاوے میں نہیں آتی کہ کسی کی عبادت کا لوگوں کو علم ہو تو اسے خوشی محسوس ہو، اس لیے کہ یہ چیز عبادت ادا کرنے کے بعد پیدا ہوگی۔اس طرح یہ بات بھی ریاکاری کے زمرے میں نہیں آتی کہ آدمی کو نیکی اور عبادت کا کوئی کام کرنے سے خوشی ہو، اس لیے کہ یہ بات تو اس کے ایمان کی نشانی ہے۔  حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جس کو نیکی کرکے خوشی ہو اور گناہ کرکے رنج ہو، تو ایسا شخص مومن ہے۔ اس بارے میں آپؐ سے پوچھا گیا: اگر کسی کی عبادت اور نیکی کے بارے میں لوگوں کو    علم ہوجائے تو اسے خوشی ہو، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا: یہ مومن کو ملنے والی نقد بشارت ہے۔ (ڈاکٹرعبدالحی ابڑو)

روحانی امراض کا علاج

س: دل کو روحانی امراض، جیسے حسد،بُغض و کینہ، تکبر، ریاکاری وغیرہ سے پاک کرنے کے لیے مجاہدہ کرنا زیادہ بہتر ہے یا نماز، روزے اور اس طرح کی دیگر نیکیوں والے ظاہری نفلی اعمال ادا کرنے میں لگ جانا، جب کہ دل کے روحانی امراض اسی طرح دل کو گھیرے رہیں؟

ج:  امام ابن تیمیہ کہتے ہیں: ظاہری اعمال اس وقت تک درست اور قابلِ قبول نہ ہوں گے جب تک دل کا عمل درمیان میں نہ آئے، اس لیے کہ دل بادشاہ ہے اور اعضا اس کے سپاہ اور لشکر۔ اگر بادشاہ بگڑا ہوا ہو تو سپاہ بھی بگڑے ہوں گے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’آگاہ رہو، جسم میں ایک ٹکڑا ہے۔ اگر یہ تندرست ہو تو پورا بدن تندرست ہوگا اور اگر یہ بگڑا ہوا ہو تو پورا بدن بگڑا ہوگا، اور یہ ٹکڑا دل ہے‘‘۔ دل کے اعمال بدن اور اس کے اعضا کے اعمال پر اثرانداز ہوکر رہتے ہیں، جس کو باطن کا عمل کہا جاتا ہے، بعض اوقات وہ زیادہ ضروری ہوتا ہے جیسے حسد اور تکبر کا ترک کرنا۔ یہ باطن کا عمل نفل روزوں وغیرہ سے زیادہ ضروری ہے۔ بعض اوقات ظاہری عمل زیادہ مؤثر ہوتا ہے، جیسے قیام اللیل اور تہجد نماز کے لیے اُٹھنا۔ گویا باطن اور ظاہر کے اعمال ایک دوسرے کے لیے مددگار ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر نماز بے حیائی اور بُرے کاموں سے روکتی ہے اور خشوع و خضوع اور انکساری پیدا کرتی ہے۔

امام ابن تیمیہ کی بات سے یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ باطن کی اصلاح اور ظاہر کی اصلاح کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی جاسکتی ہے۔ چنانچہ انسان اگر ظاہر کی عبادات ادا کرتا ہے، اور ان سے اس کا مقصد اللہ کی رضا کا حصول ہے، تو یقینا یہ اس کے باطن پر اثرانداز ہوکر رہتی ہیں۔ اس کی ایک مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں ملاحظہ ہو، فرمایا: کیا میں تمھیں وہ بات نہ بتائوں جس سے دل کا کینہ اور حسد جاتا رہے اور وہ ہے ہر ماہ تین دن کے روزے۔ (نسائی)

دل کے امراض کا ایک اچھا علاج یہ بھی ہے کہ بندہ ان آیات و احادیث پر غوروفکر کرتا رہے جن میں یہ امراض رکھنے والے شخص کے لیے وعیدیں آئی ہیں۔ جیسے ارشاد نبویؐ ہے: ’’جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا‘‘ (مسلم)۔حدیث میں جہنم کی زبانی کہا گیا ہے کہ ’’متکبر لوگ میرا ایندھن بنیں گے‘‘۔ نیز ارشاد نبویؐ ہے: ’’قیامت کے دن دنیا میں تکبر کرنے والے لوگ انسانوں کی شکل میں چیونٹیاں بنا کر اُٹھائے جائیں گے‘‘۔ نیز فرمایا: ’’حسد اور بُغض و کینہ انسان کی دین داری کو مونڈ دیتا ہے‘‘۔

دل کے امراض کے بارے میں یہ اور اس طرح کی جو دیگر وعیدیں آئی ہیں، ان پر اگر کوئی غوروفکر کرے گا تو وہ لازماً اپنے دل کو ان سے پاک کرنے کی کوشش کرے گا، مجاہدہ کرے گا اور اس سلسلے میں ظاہری عبادات سے بھی مدد لے گا اور اللہ سے دُعا کرتا رہے گا کہ وہ اس کے دل کو حسد اور بُغض سے پاک کردے (ولا تجعل فی قلوبنا غلًّا للذین آمنوا) تو وہ روحانی و باطنی امراض پر بالآخر قابو پالے گا۔(ڈاکٹرعبدالحی ابڑو)

قضا روزوں کی ادایگی: چند فقہی پہلو

س: ۱-رمضان کے کچھ روزے کسی شرعی عذر کی بنا پر قضا ہوگئے۔ کیا شوال کے چھے مسنون روزے رکھنے سے پہلے رمضان کے قضا روزوں کی ادایگی کی جائے یا قضا روزوں کو مؤخر کر کے پہلے شوال کے روزے رکھ لیے جائیں؟

اگر کوئی شخص یہ نیت کرے کہ شوال میں قضا روزے ادا کر رہا ہوں اور ماہِ شوال کے مسنون روزوں کا ثواب بھی مل جائے گا۔ کیا ایسا کرنا درست ہے؟کچھ علما کا یہ خیال ہے کہ چونکہ عبادات میں نیت بہت ضروری ہے، اس لیے فرض عبادت کو نفل عبادت سے ملایا نہیں جاسکتا، مثلاً دو رکعت فرض نماز میں فرض ہی کی نیت کی جائے گی، نفل کی نہیں۔ اسی طرح اگر فرض حج ادا کر رہے ہیں تو وہ فرض حج ہے، نفلی حج نہیں ہوسکتا۔  کیا روزے کا معاملہ بھی اسی طرح ہے؟

۲-اگر کسی شرعی عذر کے باعث کسی خاتون کے ذمے کئی ماہ کے روزے ہوں اور ان کی ادایگی کے لیے کوشاں بھی ہو، لیکن وہ شوال اور ذوالحجہ کے نفلی روزوںکا ثواب بھی لینا چاہے تو اس کے لیے کیا حکم ہوگا؟رمضان کے قضا روزے اگر تسلسل کے ساتھ رکھنا مشکل ہو، اور کوئی خاتون یہ معمول بنالے کہ وہ ہر پیر اور جمعرات کو روزہ رکھ کر اپنے ذمے فرض روزوں کو ادا کرے گی، تو کیا ان دو دنوں کی نسبت سے اس کو سنت پر عمل کا ثواب بھی ملے گا؟

ج:  آپ کے سوالات کے مختصر جوابات حسب ذیل ہیں:

۱-شرعی عذر کی بنا پر ماہِ رمضان کے جو روزے چھوٹ گئے ہوں، ان کی فوری قضا لازم نہیں، اگرچہ مستحسن یہی ہے کہ جلد رکھ کر اس فرض سے سبکدوشی حاصل کرلی جائے، کیونکہ انسان کو زندگی کے اگلے لمحے کا کچھ پتا نہیں۔ پھر یہ کہ نیکیوں کے حصول میں پہل کرنے اور عجلت سے کام لینے کا حکم دیا گیا ہے (فاستبقوا الخیرات)۔ لیکن اگر کسی وجہ سے یہ روزے فوری نہ رکھے جاسکیں تو تاخیر سے گناہ لازم نہیں آتا۔ اس لیے قضا روزے رکھنے سے پہلے دیگر نفلی روزے (جیسے شوال کے چھے روزے وغیرہ) بھی رکھے جاسکتے ہیں۔ صحیحین (بخاری و مسلم) میں حضرت عائشہؓ کا یہ قول ملتا ہے کہ میرے ذمے رمضان کے قضا روزے ہوتے تھے اور میں وہ شعبان ہی میں رکھ پاتی تھی، حالانکہ قرین قیاس یہ ہے کہ آپ سال کے دوران میں دیگر نفلی روزے بھی رکھتی تھیں۔ حافظ ابن حجر اس روایت کی شرح میں کہتے ہیں: اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کسی مجبوری اور عذر کی بنا پر یا اس کے بغیر بھی آیندہ رمضان تک روزوں کی قضا کو مؤخر کیا جاسکتا ہے (فتح الباری، ج۴، ص ۲۳۹، حدیث ۱۹۵۰)۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے عالمی ترجمان القرآن، جولائی ۲۰۱۲ء)

۲- اصل تو یہ ہے کہ عبادات کو الگ الگ ادا کیا جائے، لیکن اگر ایک عمل سے دو طرح کی عبادات کی ادایگی کی بیک وقت نیت کی جائے، تو اس بارے میں فقہا کی راے مختلف ہے۔ حنفی فقہا کے ہاں ایک ہی عمل میں فرض اور نفل عبادت کو جمع نہیں کیا جاسکتا، البتہ دو نفل عبادات کی نیت ایک عمل میں کی جاسکتی ہے، جیسے اگر کسی نے دو رکعت نماز تحیۃ المسجد اور ساتھ ہی فجر کی سنت کی نیت سے پڑھا ہے تو دونوں ادا ہوجائیں گی۔ شافعی فقہا کے نزدیک فرض نماز اور تحیۃ المسجد ایک ہی نیت سے ایک ہی عمل میں ادا کی جاسکتی ہیں۔ اس کی تفصیل میں وہ کہتے ہیں کہ اگر ایک عبادت مقصود بالذات نہ ہو تو اسے دوسری عبادت کے ضمن میں ادا کیا اور دونوں کو ایک ہی عمل میں جمع کیا جاسکتا ہے،  جیسے مذکورہ مثال میں تحیۃ المسجد مقصود بالذات نہیں، بلکہ اصل مقصد اس وقت اور مقام کو نماز کے عمل سے معمور کرنا ہے۔ اس لیے وہ دوسری مقصود بالذات عبادت کے ضمن میں ادا کی جاسکتی ہے۔ لیکن اگر دونوں عبادتیں اور اعمال مقصود بالذات قسم کے ہوں تو انھیں ایک ہی عمل میں جمع نہیں کیا جاسکتا۔ (الموسوعۃ الفقیھۃ، کویت ، ج۱۲، ص ۲۴، ج۴۲، ص ۹۱، بحوالہ متعدد کتب حنفیہ و شافعیہ)

ہمارے نزدیک، اگر ان اقوال کو سامنے رکھا جائے تو پیر اور جمعرات، نیز شوال کے  چھے روزوں کی بھی یہی صورت بنتی ہے کہ وہ (بقول شافعیہ) مقصود بالذات کی قبیل سے نہیں بلکہ مقصد ان ایام اور اوقات کو روزے سے آباد کرنا ہے۔ اس لیے اگر قضا روزے انھی دنوں میں رکھے جائیں تو اُمید ہے کہ قضا روزوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ ضمنی طور پر پیر اور جمعرات اور شوال کے روزوں کی فضیلت بھی ان شاء اللہ حاصل ہوجائے گی۔ اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کی شانِ کریمی و فیاضی سے یہی اُمید رکھنی چاہیے۔ وہ اپنے بندے کے ساتھ اس کی نیت و ارادے، تڑپ اور لگن کے مطابق برتائو کرتا ہے۔(ڈاکٹرعبدالحی ابڑو)

گذشتہ برسوں کی زکوٰۃ اور دورانِ سفر قضا نماز کی ادایگی

س: ۱- ایک خاتون کچھ زیورات کی گذشتہ تین برس کی زکوٰۃ ادا کرنا چاہتی ہیں۔ کیا وہ تینوں سالوں کی زکوٰۃ کا حساب موجودہ مارکیٹ کے نرخ کے مطابق کریں گی یا گذشتہ دوسالوں کے لیے اُس وقت کے نرخ معلوم کر کے زکوٰۃ ادا کریں گی؟

۲-دورانِ سفر کسی شخص کی نماز قضا ہوگئی۔ طویل سفر کے باعث نماز قصر تھی۔ منزل پر پہنچ جانے کے بعد وہ اس نماز کی قضا قصر پڑھے گا یا پوری نماز پڑھی جائے گی؟

ج:  ۱- سونے چاندی اور ان کے زیورات کی جن کی برسوں کی زکوٰۃ ادا نہیں کی جاسکی اور  اب ادا کرنے کا ارادہ ہے، تو اُس وقت کا نرخ معلوم کر کے اس کے لحاظ سے ادایگی کی جائے، موجودہ نرخ کے مطابق نہیں۔ اس لیے کہ ان برسوں کی زکوٰۃ تب واجب ہوئی تھی، نہ کہ آج۔

۲- دورانِ سفر جو نماز رہ گئی، منزل پر پہنچ جانے کے بعد اس کی قضا بھی قصر ہی ہوگی، پوری نماز نہیں پڑھی جائے گی۔ جس طرح اگر اپنے شہر میں مقیم ہونے کے دوران میں جو نماز قضا ہوجائے، اگر دورانِ سفر اس کی قضا پڑھی جائے تو وہ پوری پڑھنی ہوتی ہے۔(ڈاکٹر عبدالحی ابڑو)

 

روحانیت اور اس کے مدارج

سوال: عموماً کہا جاتا ہے کہ فی زمانہ مادیت کا غلبہ ہے روحانیت نہیں رہی۔ سوال یہ ہے کہ: روحانیت کیا ہے

  • الہامی کتابوں اور صحیفوں میں اس کا ذکر کہاں آتا ہے
  • روح اور روحانیت میں کیا تعلق ہے
  • روحانیت کے مظاہر اور مدارج کیا ہیں
  • سالک، مجذوب، ولی، قطب، ابدال کون ہوتے ہیں اور ان کی کیا پہچان ہے
  • کیا ہرکلمہ گو روحانیت کا مکلف ہے اور اس کی آخرت میں پُرسش ہوگی
  • کیا سابقون الاولون میں یہی لوگ شمار ہوں گے
  • کیا روحانیت اور جہاد فی سبیل اللہ میں کوئی تعلق ہے
  • کیا ایک عام کلمہ گو جو عبادات کے تقاضے پورے کر رہا ہو روحانیت کا حامل ہوتا ہے؟

جواب: روحانیت،ایمان اور نورِ ایمان کا نام ہے۔ جب ایمان قوی ہوجاتا ہے تو پھر اعمال اسی طرح صادر ہوتے ہیں جس طرح زیرزمین پانی جوش مارتا ہے تو چشمہ پھوٹ پڑتا ہے اور پھر جاری و ساری ہوجاتا ہے۔ یہ مضمون قرآنِ پاک میں بھی پوری تفصیل سے بیان ہوا ہے اور احادیث میں اس کے لیے ایک مستقل کتاب ہے جسے کتاب الایمان کہا جاتا ہے۔ انسان روح اور جسم کا مرکب ہے۔ روح کی غذا ایمان ہے اور جسم کی غذا عمل ہے۔ ایمان کی وجہ سے روح میں روحانیت ہوتی ہے اور عمل کی وجہ سے جسم اسلام کا مظہر ہوتا ہے۔

اس مسئلے کو حدیث جبریل ؑ میں اچھی طرح واضح کیا گیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان عقیدے کا نام ہے اور اسلام عمل کا نام ہے، اور احسان یہ ہے کہ اللہ کی عبادت اس طرح کی جائے گویا انسان اللہ کو دیکھ رہا ہے، اور اگر یہ کیفیت اپنے اُوپر طاری نہیں کرسکتا تو پھر یہ کیفیت تو ایک حقیقت ہے کہ اللہ انسان کو دیکھ رہا ہے، لہٰذا اس کیفیت کو اپنے اُوپر طاری کرے۔ جب آدمی پر  ان کیفیتوں میں سے کوئی کیفیت طاری ہوجاتی ہے تو اسے ایمان اور اسلام کا کمال کہا جاتا ہے اور اس وقت آدمی جو عبادت کرتا ہے اس میں اعلیٰ درجے کا خشوع اور خضوع اور اخلاص ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے عمل بھی کامل درجے کا ہوتا ہے۔ نماز پڑھے گا تو وہ عام نماز نہ ہوگی بلکہ وہ مومن کی معراج ہوگی، اور روزہ ہوگا تو عام روزہ نہ ہوگا بلکہ تزکیۂ نفس کا اُونچا مرتبہ ہوگا، علیٰ ہذا القیاس۔  حج، زکوٰۃ، معاشرت، معیشت، سیاست، تمدن، حکومت ہر چیز قربِ الٰہی کی بلند ترین چوٹی ہوگی۔

اس کے بعد ترتیب کے ساتھ آپ کے سوالوں کا جواب عرض ہے:

۱- روحانیت ایمان کے بغیر نہیں ہوتی اور ایمان ہی روحانیت کی اساس ہے، اور عرفِ شرع میں روحانیت سے مراد یہ ہے کہ آدمی علم کے اس مرتبے پر فائز ہو جو ایمان کی شکل میں ڈھل جاتا ہے اور پھر وہ قوتِ متحرکہ بن کر زندگی کی گاڑی کو چلاتا ہے۔ وہ قربِ الٰہی کی منازل طے کرنے میں مصروف ہوتا ہے، دن ہو یا رات، سفر ہو یا حضر، خلوت ہو یا جلوت، اس کی سیر جاری رہتی ہے۔ اسے سالک کہا جاتا ہے اور اس کی رفتار کو سلوک کہا جاتا ہے۔ وہ جلوت میں ہوکر بھی خلوت میں ہوتاہے۔ وہ ہرلحظہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔

۲- روح اور روحانیت میں تعلق یہ ہے کہ روحِ بدن کے لیے زندگی ہے، جب کہ روحانیت روح کے لیے قوتِ محرکہ ہے۔ روحانیت نہ ہو، یعنی ایمان نہ ہو، تو پھر روح بدن کے لیے زندگی کا باعث تو ہے لیکن یہ زندگی ایک حیوان کی سی زندگی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سمجھتے سوچتے نہیں۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں‘‘۔(اعراف ۷:۱۷۹)

۳- اگر کوئی شخص فرائض، واجبات، سنن و مستحبات کا پابند ہے، منکرات سے بچتا ہے، نیکی اس کی طبیعت میں رچی بسی ہے، نیکی کرکے اسے مسرت اور بُرائی کر کے تکلیف ہوتی ہے تو اس میں روحانیت ہے۔ یہ وصف جس قدر زیادہ ہوگا اس قدر اس میں روحانیت ہوگی۔ حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ ایمان کیا ہے؟ اس پر آپؐ نے فرمایا:  ’’جب تجھے تیری نیکی خوش کردے اور تیری بُرائی تجھے تکلیف دے، غمگین کردے تو تومومن ہے۔ انھوں نے سوال کیا: یارسولؐ اللہ! گناہ کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: جب ایک چیز کے بارے میں تیرے دل میں خلجان ہو کہ یہ صحیح ہے یا غلط تو اسے چھوڑ دے‘‘ (رواہ احمد، مشکوٰۃ، کتاب الایمان)۔ گناہ سے بچنے کا آپؐ نے آسان نسخہ بتلادیا کہ صرف ایسے کام کو کرو جس کے جائز ہونے کا یقین ہو اور جس کے جواز میں تردد ہو تو اسے چھوڑ دو۔ گناہ سے بچ جائو گے اور نیکیاں ہی نیکیاں سمیٹتے رہو گے۔

۵- سالک سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے احکام کی پیروی میں رواں دواں ہے اور آپ کے اسوئہ حسنہ اور سنت کے مطابق دن رات بسر کر رہا ہے، اور بدعات سے مکمل طور پر اجتناب کر رہا ہے۔ مجذوب وہ ہے جو اللہ تعالیٰ، اس کے رسولؐ، اس کے دین کے عشق میں ڈوبا ہوا ہے۔ ولی وہ ہے جو ایمان و عملِ صالح اور تقویٰ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی دوستی کے مقام پر فائز ہوگیا ہے۔ سورئہ یونس میں ولی کی یوں تعریف کی گئی ہے: الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ کَانُوْا یَتَّقُوْنَ(یونس ۱۰:۶۳) ’’یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کیے ہوئے ہیں‘‘۔ قطب اور ابدال صوفیا کی اصطلاح ہیں۔ ان سے مراد یہ ہے کہ آدمی ولایت کے مقام پر ایسا فائز ہو کہ ایمان والوں کی ہدایت اور راہ نمائی کا مرکز و محور اور مرجع بن چکا ہو۔ ابدال کے بھی یہی معنی ہیں کہ ایک علاقہ اور ملک اس کی راہ نمائی اور تربیت پر جمع ہوچکا ہو۔ امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، حسن بصری، فضیل بن عیاض، سعید بن جبیر، شیخ عبدالقادر جیلانی، سیدعلی ہجویری، معین الدین چشتی، شاہ ولی اللہ، شاہ عبدالعزیز، شاہ اسماعیل شہید، شاہ عبدالقادر، سید احمدشہید،  حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا رشیداحمد گنگوہی، مولانا علامہ انورشاہ کاشمیری اور پھر عصرِحاضر میں مفکرِاسلام مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی اور امام حسن البنا شہید، روحانیت، ولایت اور اس کے مقامات پر فائز ہوکر مرجعِ خلائق اور مرجعِ ہدایت بن گئے۔

۶- ہرکلمہ گو ایمان اور عملِ صالح کا مکلف ہے اور اسی لیے وہ روحانیت کا مکلف ہے۔

۷- جہاد فی سبیل اللہ روحانیت کی بلند ترین چوٹی ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’جہاد فی سبیل اللہ، ایمان اور اسلام کی بلند ترین چوٹی ہے‘‘۔ آخرت میں فرائض ، واجبات اور اس کے سنن کے متعلق سوال ہوگا کہ یہی روحانیت کے مدارج ہیں (مشکوٰۃ، کتاب الایمان)۔ ایک عام آدمی جس کے پاس دین کا صحیح تصور ہو، عقیدۂ توحید پر قائم ہو اور فرائض، واجبات اور سنن ادا کرتا ہو، وہ روحانیت کی منزل پر فائز ہے، جیساکہ سورئہ یونس کی آیت سے واضح ہے۔ (مولانا عبدالمالک)

اسلام میں جمہوریت کی حیثیت

سوال: یہ کہا جاتا ہے کہ جمہوریت سرے سے اسلام میں تھی ہی نہیں؟

جواب: یہ بات غلط ہے کہ جمہوریت اسلام میں سرے سے ہے ہی نہیں۔ سورئہ شوریٰ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَاَمْرُھُمْ شُوریٰ بَیْنَھُمْ(ان کے معاملات باہمی مشورے سے  طے پاتے ہیں)۔ ظاہر ہے کہ خلافت و امارت، جو مسلمانوں کا اہم ترین معاملہ ہے، اُس پر بھی یہی اُصول لاگو ہوگا کہ خلیفہ مسلمانوں کی راے عام کے مطابق منتخب ہو اور مشورے سے حکومت کرے، لیکن عام رائج الوقت جمہوریت اور اسلام کی جمہوریت میں یہ فرق ہے کہ مغربی جمہوریت میں تو باشندوں کی مجرد اکثریت ہرشے کو جائزوناجائز اور واجب و ممنوع قرار دے سکتی ہے، مگر اسلام میں مسلمانوں کی اکثریت خدا اور رسولؐ کے حرام کردہ اُمور کو حلال اور حلال کردہ اُمور کو حرام نہیں کرسکتی۔ مثال کے طور پر مسلمانوں کی اکثریت اگر چاہے بھی تو وہ کسی قادیانی، کسی عیسائی بلکہ  کسی فاسق و فاجر کو بھی اپنا امیر نہیں بناسکتی۔ اگر بنا لے تو اسلام کی نظر میں یہ امارت جائز نہ ہوگی۔ (ملک غلام علی، رسائل و مسائل، ہفتم بحوالہ ترجمان القرآن، مارچ ۱۹۷۷ء، ص ۱۱۸-۱۲۰)

اسلام اور سیاست

س:  خود کو ’روشن خیال‘ تصور کرنے والے بعض مسلم مفکرین نے ایک نئی اصطلاح ایجاد کی ہے جسے وہ ’سیاسی اسلام‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک سیاسی اسلام سے مراد ان لوگوں کا اسلام ہے، جو دین میں سیاست کو شامل قرار دیتے ہیں اور دینی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں بھی شامل رہتے ہیں۔ دراصل ان لوگوں نے یہ نئی اصطلاح ان لوگوں پر تنقید کرنے کے لیے ایجاد کی ہے، جو اسلام کو مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے تسلیم کرتے ہیں۔ کیا واقعی اسلام کا سیاست سے کوئی رشتہ نہیں ہے؟

ج: بڑے افسوس کی بات ہے کہ مسلم دانش وروں میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو اسلام کے دشمنوں کے خطوط پر سوچتے ہیں اور انھی کی پالیسیوں کو نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اسلام کو عملی زندگی سے بے دخل کرنے کے لیے انھوں نے کبھی اسے نجی زندگی تک محدود کردیا، تو کبھی اس کی صورت مسخ کرنے کے لیے اس کے مختلف ماڈل بناڈالے اور اسے مختلف نام عطا کردیے، مثلاً سیاسی اسلام، اقتصادی اسلام، روشن خیال اسلام، رجعت پسند اسلام، ہندستانی طرز کا اسلام، عربی طرز کا اسلام، ترکی طرز کا اسلام اور نہ جانے اسلام کے کون کون سے ماڈل انھوں نے وضع کر رکھے ہیں۔ حالانکہ اسلام ایک ہی ہے اور یہ وہ اسلام ہے جو قرآن و سنت میں پایا جاتا ہے، اور جسے حضوؐر، آپؐ کے صحابہ کرامؓ اور سلف صالحین نے اپنے عملی نمونوں سے پیش کیا ہے۔

قرآن و حدیث کی تعلیمات اور آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ کے عملی نمونوں پر غور کرنے کے بعد پورے وثوق کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اسلام سے سیاست کو بے دخل نہیں کیا جاسکتا۔ سیاست سے بے دخل ہونے کے بعد اسلام اسلام نہیں رہ سکتا۔ کوئی دوسرا ہی دین بن جائے گا، کیوں کہ:

۱- اسلامی شریعت کے بہت سارے واضح احکام عین سیاست سے متعلق ہیں۔ اسلام محض روحانی عقیدہ یا چند دینی رسم و رواج کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ عقیدہ بھی ہے اور عبادت بھی اور تمام دنیوی معاملات کو بہ حُسن و خوبی برتنے کا ایک بہترین نظام بھی۔ یہ دنیوی مسائل خواہ سیاسی ہوں یا معاشرتی اور اقتصادی یا ان کا تعلق معاملات سے ہو۔ یہ مسائل چاہے حالت امن سے تعلق    رکھتے ہوں یا حالت ِ جنگ سے، ان تمام اُمور میں دین اسلام کے واضح قواعد و اصول ہیں۔ ان اُصول و قواعد سے رُوگردانی اور غیروں کے نظامِ حیات کی پیروی دراصل اس خالق کائنات سے بغاوت ہے، جس نے انسانوں کی بھلائی کے لیے یہ اصول و قواعد وضع کیے ہوں اور جن کی حقانیت کا زبانی دعویٰ کیا جاتا ہے۔

غور کیا جائے تو عقیدۂ توحید محض ایک روحانی عقیدہ ہی نہیں ہے بلکہ ایک انقلابی سیاسی نعرہ بھی ہے، جو انسان کو مساوات، آزادی اور اخوت و محبت کی دعوت دیتا ہے۔ انسان کو انسان کی بندگی سے نکال کر خالق کائنات کی بندگی میں لے جانا چاہتا ہے تاکہ کوئی بندہ مطلق العنان حاکم بن کر دوسرے بندوں کے سیاسی اور سماجی حقوق نہ چھین لے۔ یہی وجہ ہے کہ حضوؐر جب بادشاہوں کے نام خطوط ارسال کرتے اور انھیں اسلام کی دعوت دیتے تو آخر میں یہ آیت کریمہ ضرور نقل کرتے تھے:

قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍ م بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ط فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَo(اٰل عمرٰن ۳:۶۴)، اے اہلِ کتاب! آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے، یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے۔ اس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ   منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو، ہم تو مسلم (صرف خدا کی بندگی و اطاعت کرنے والے) ہیں۔

۲- خود کو سیاسی مسائل سے الگ تھلگ کرکے کوئی مسلمان مکمل مسلمان نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر ہرمسلمان پر اس بات کی ذمہ داری عائد کی ہے کہ وہ امربالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کے اس حکم کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ہرمسلم شخص معاشرے کی جملہ برائیوں کے خاتمے کے لیے جدوجہد کرے اور بھلی باتوں کو عام کرنے کے لیے سرگرم رہے۔ حضوؐر نے سب سے افضل جہاد اس عمل کو قرار دیا ہے کہ ظالم و جابر حکمران کے رُوبرو حق بات کہی جائے۔ اَفْضَلُ الْجِھَادِ کَلِمَۃُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ (ترمذی) ’’سب سے افضل جہاد ظالم حکمرانوں کے سامنے حق بات کہنا ہے‘‘۔

اسلام اس بات کا حکم دیتا ہے کہ معاشرے میں کمزور اور مظلوم انسانوں کی مدد کی جائے، اور ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کی جائے۔ اللہ کا فرمان ہے:

وَ مَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآئِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُھَاج (النساء ۴:۷۵)، آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں۔

اللہ ان لوگوں کے لیے سخت نفرت کا اظہار کرتا ہے جو ظلم سہتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں اور کم از کم اتنا بھی نہیں کرتے کہ ظلم کی بستی سے ہجرت کرجائیں:

اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِھِمْ قَالُوْا فِیْمَ کُنْتُمْ ط قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِط قَالُوْٓا اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُھَاجِرُوْا فِیْھَا ط فَاُولٰٓئِکَ مَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ ط وَ سَآئَ تْ مَصِیْرًاo(النساء ۴:۹۷)، جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کر رہے تھے ان کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور و مجبور تھے۔ فرشتوں نے کہا، کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور یہ بڑا ہی بُرا ٹھکانا ہے۔

اللہ لعنت بھیجتا ہے ایسے لوگوں پر جو معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں پر خاموشی اختیار کیے رہتے ہیں اور انھیں دُور کرنے کی ذرہ برابر فکر نہیں کرتے۔ اللہ فرماتا ہے:

لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْم بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ط ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَo کَانُوْا لَا یَتَنَاھَوْنَ عَنْ مُّنْکَرٍ فَعَلُوْہُط لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنo(المائدہ ۵:۷۸-۷۹)، بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ان پر دائود ؑ اور عیسٰی ؑ ابن مریمؑ کی زبان سے لعنت کی گئی کیوں کہ  وہ سرکش ہوگئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے تھے، انھوں نے ایک دوسرے کو بُرے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا، بُرا طرزِعمل تھا جو انھوں نے اختیار کیا۔

اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ بُرائیاں صرف چوری، شراب اور زنا وغیرہ کا نام ہے تو یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ بُرائی یہ بھی ہے کہ معصوم اور بے گناہ افراد کو جیلوں میں ڈال دیا جائے اور ان پر سختی کی جائے۔ بُرائی یہ بھی ہے کہ الیکشن کے موقع پر ووٹوں کی دھاندلی کی جائے۔ بُرائی یہ بھی ہے کہ ووٹ ڈالنے سے پرہیز کیا جائے۔ بُرائی یہ بھی ہے کہ عوام کے پیسوں پر ناجائز قبضہ کرلیا جائے، جیساکہ آج کل کے سیاسی لیڈران کرتے ہیں، اور بُرائی یہ بھی ہے کہ اس مالی غبن پر خاموش رہا جائے اور اس کے خلاف آواز نہ اُٹھائی جائے۔ بُرائی یہ بھی ہے کہ سیاسی معاملات میں دل چسپی نہ لے کر سیاست اور حکومت کی مکمل باگ ڈور ظالموں اور کافروں کے ہاتھوں میں دے دی جائے۔ یہ اور اس طرح کی بے شمار بُرائیاں ہیں جن کا تعلق سیاسی اُمور سے ہے اور ناممکن ہے کہ کوئی  غیرت مند دین دار اور مسلمان ان بُرائیوں پر خاموش رہے اور کچھ نہ کرے۔ حضوؐر کا فرمان ہے:

اِذَا رَأیْتَ اُمَّتِی تَھْابُ اَنْ تَقُوْلَ لِلظَّالِمِ یَاظَالِمُ فَقَدْ تُوُدِّعَ مِنْھُمْ (مسنداحمد) جب تم میری اُمت کو دیکھو کہ ظالم کو ظالم کہنے سے ڈر رہی ہو تو پھر اسے الوداع کہہ دو (یعنی ایسی اُمت کا خاتمہ قریب ہے)۔

بلاشبہہ یہ ایمان کا تقاضا ہے کہ مومن شخص معاشرے اور ملک میں پھیلی ہوئی بُرائیوں کو دُور کرنے کے لیے جدوجہد کرے، خواہ یہ بُرائیاں سماجی ہوں یا ثقافتی یا سیاسی۔ ناممکن ہے کہ کوئی شخص مومن ہونے کا دعویٰ کرے اور ان بُرائیوں کو پھلتا پھولتادیکھے اور مطمئن رہے۔ حضوؐر کا فرمان ہے:

مَنْ رَأی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ [مسلم] تم میں سے جو شخص بُرائی دیکھے تو چاہیے کہ اپنی قوت و طاقت سے اُسے دُور کرے۔ ایسا نہیں کرسکتا تو اپنی زبان سے دُور کرے۔ ایسا بھی نہیں کرسکتا تو اپنے دل سے دُور کرے (یعنی دل میں اُسے بُرا سمجھے) اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔

عین ممکن ہے کہ اکیلا شخص بُرائیوں کے اس طوفان کا مقابلہ نہ کرسکے خاص کر، جب کہ ملک کے سیاست دان اور ارباب حل و عقد ہی ان بُرائیوں میں ملوث ہوں۔ اس صورت حال میں صحیح طریقۂ کار یہ ہوگا کہ بہت سارے افراد مل کر اجتماعی طور پر ان بُرائیوںکا مقابلہ کریں۔ یہ اجتماعی کوشش کسی آزاد تنظیم یا کسی سیاسی پارٹی کی بنیاد ڈال کر بھی کی جاسکتی ہے۔ بلاشبہہ یہ سارے کام سیاسی کام ہیں اور مذکورہ حدیث کے مطابق ایمان کا عین تقاضا ہیں۔

آج کے جمہوری دور میں معاشرے میں پھیلتی ہوئی بُرائیوں کے خلاف مزاحمت کرنا یا حکومت کی غلط پالیسیوں پر تنقید کرنا اور ان کے خلاف آواز بلند کرنا کسی بھی شخص کا جمہوری حق تصور کیا جاتا ہے، جب کہ دین اسلام اس حق کو صرف حق ہی نہیں بلکہ واجب قرار دیتا ہے۔ اس فریضے کی ادایگی کے لیے ضروری ہے کہ مومن اپنے ملک کے سماجی اور سیاسی حالات سے مکمل اور مستقل باخبر رہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کے مسائل میں دل چسپی لے اور ان مسائل کے حل کے لیے ہمہ تن کوشاں رہے۔ ذرا حضوؐر کے اس فرمان پر غور کریں:  مَنْ لَّمْ یَھْتَمَّ بِأَمْرِ الْمُسْلِمِیْنَ فَلَیْسَ مِنْھُمْ،’’جو شخص مسلمانوں کے معاملات میں دل چسپی نہیں لیتا اور ان کی فکر نہیں کرتا وہ مسلمانوں میں سے نہیں ہے‘‘۔

حضوؐر نے اس شخص کی موت کو جہالت کی موت قرار دیا ہے، جو سیاست سے کنارہ کش ہوجائے اور کسی قائد یا حکمران کی تائید و حمایت کے لیے کمربستہ نہ رہے۔ حضوؐر کا فرمان ہے: مَنْ مَاتَ وَلَیْسَ فِی عُنُقِہٖ بَیْعَۃٌ  لِاِمَامٍ مَاتَ مَیْتَۃَ جَاھِلِیَّۃٍ (مسلم)، ’’جوشخص اس حالت میں وفات پائے کہ اس کی گردن میں کسی قائد کی بیعت نہ ہو (یعنی وہ کسی قائد کا حامی نہ ہو) تو وہ جہالت کی موت مرتا ہے‘‘۔

اس حدیث کی روشنی میں یہ بات بآسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ سیاسی معاملات میں کسی ایسے حکمران، قائد یا لیڈر کی حمایت و نصرت ضروری ہے، جو مسلمانوں کے معاملات میں دل چسپی لیتا ہو، انھیں حل کرنے کے لیے کوشاں رہتا ہو، اور دین اسلام کے غلبے کے لیے فکرمند رہتا ہو۔ یہ نری جہالت و گم راہی ہے کہ انسان اپنے اِردگرد رُونما ہونے والے سیاسی اور سماجی معاملات سے بے خبر ہوکر زندگی گزارے اور اسی حالت میں مرجائے۔

جو لوگ اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ دین کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ کہ دین کو سیاست سے الگ کر کے رکھنا چاہیے، وہ دراصل قرآن و حدیث کی صریح اور واضح تعلیمات سے بے خبر ہیں۔ اگر وہ مذکورہ قرانی آیات و احادیث پر غور کریں گے تو انھیں معلوم ہوگا کہ دین سے سیاست کو الگ کرنا جہالت و گم راہی ہے، بلکہ سیاسی مسائل سے بے خبر رہنا اور سیاسی بُرائیوں کو دُور کرنے کے لیے کوئی کوشش نہ کرنا اُمت مسلمہ کے حق میں گناہ ہے۔

دین کا سیاست سے اس قدر گہرا تعلق ہے کہ عین نماز کی حالت میں قرآن کی ان آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے، جن میں سیاسی مسائل سے بحث کی گئی ہے، مثلاً وہ آیتیں جن میں مسلم دشمن حکمرانوں کی تائید و نصرت کی ممانعت ہے یا جن میں دنیوی معاملات کو اللہ کے قوانین کے مطابق حل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے یا جن میں جنگوں کا تذکرہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح عین نماز کی حالت میں دعاے قنوت پڑھی جاتی ہے۔ یہ دعاے قنوت اس وقت پڑھی جاتی ہے، جب مسلمانوں پر کسی قسم کی دنیوی یا آسمانی مصیبت نازل ہوتی ہے، مثلاً جنگ کی حالت ہو یا مسلمانوں پر کسی قسم کا سیاسی عذاب مسلط ہوجائے یا قحط اور زلزلہ جیسی ناگہانی آفتیں ہوں۔ اس دعا میں ان مسائل کا تذکرہ کرکے ان سے عافیت کی دعا کی جاتی ہے۔

اس پوری تفصیل اور وضاحت کے بعد بھی اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ دین کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے تو یہ سراسر، ہٹ دھرمی ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ دین کو سیاست سے الگ کرنے کی باتیں کرتے ہیں۔ وقت پڑنے پر یہی لوگ دین کا سہارا لے کر دین دار اور اسلام پسند لوگوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرتے ہیں، مثلاً مصر کے حکمرانوں نے جب الاخوان المسلمون کے خلاف انتقامی کارروائی کرنی چاہی اور یہ وہ لوگ تھے جو دین اور سیاست کو الگ الگ شے تصور کرتے تھے، ان لوگوں نے بعض گمراہ قسم کے علما کا سہارا لیا اور ان سے اخوانیوں کے خلاف کارروائی کے لیے فتوے حاصل کیے۔ انھی علما سے اس بات کے فتوے حاصل کیے گئے کہ اسرائیل سے مصالحت جائز ہے۔

علمی اعتبار سے سیاست ایک ایسا موضوع ہے جس کی خاص اہمیت ہے، کیوں کہ یہ موضوع ملک و ملّت کی ذمہ داریوں کو بہ حُسن و خوبی نبھانے سے تعلق رکھتا ہے۔ علما نے سیاست کی یوں تعریف کی ہے کہ سیاست ان تدابیر کا نام ہے، جو معاشرے میں فلاح و بہبود لاتی ہے اور   ظلم و فساد کو دُور کرتی ہیں۔

علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ عدل و انصاف پر مبنی سیاست اسلامی شریعت کے خلاف نہیں ہوسکتی، بلکہ یہ عین اسلامی شریعت کا جز ہے۔ اسے ہم سیاست کا نام اس لیے دیتے ہیں کہ لوگوں میں یہی نام رائج ہے، ورنہ اس کے لیے عدلِ الٰہی کا نام زیادہ موزوں ہے۔ امام غزالیؒ کہتے ہیں کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے اور دنیا کے بغیر دین مکمل نہیں ہوسکتا۔ دین ایک بنیاد ہے اور حکمران اس بنیاد کا محافظ ہوتا ہے۔ اسی لیے عادل حکمرانوں کو رسولؐ کا نائب کہا جاتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ  حضوؐر مبلغ اور داعی ہونے کے ساتھ ساتھ زبردست سیاسی انسان بھی تھے اور یہی حال خلفاے راشدین کا تھا۔ ان سب کی سیاست عدل و انصاف پر مبنی اور فلاح و بہبود کی خاطر تھی۔ بُرا ہو ان سیاست دانوں کا جو جھوٹ، دھوکا، خیانت اور مکروفریب کے ذریعے سے اپنی سیاست کو چمکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لفظ سیاست انھی کے گندے اعمال کا شکار ہوکر عوام الناس میں بدنام ہوکر رہ گیا ہے، اور سیاست ایک گندی شے تصورکی جانے لگی ہے۔

سیاست سے عوام الناس کی اس نفرت کو دیکھتے ہوئے مسلم دشمن عناصر کو بڑا اچھا موقع ہاتھ آگیا کہ انھوں نے ان مسلم تنظیموں کو جو مکمل دین کی طرف دعوت دیتی ہیں، انھیں سیاسی قرار دے دیا تاکہ عوام الناس ان سے بدک جائیں۔ اب تو یہ عام سی بات ہوگئی ہے کہ کسی دین دار شخص کو بدنام کرنے اور اس کی اہمیت و منزلت ختم کرنے کے لیے یہ کہنا کافی ہوتا ہے کہ یہ شخص سیاست کے چکر میں پڑ گیا ہے۔

اگر اسلام دشمنی کی یہی رفتار رہی تو وہ دن دُور نہیں جب ہمارا قرآن پڑھنا، مسجد میں جاکر باجماعت نماز ادا کرنا بلکہ اسلام پر چلنا سب کچھ سیاست سے تعبیر کیا جانے لگے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس دن کے آنے سے پہلے ہم ہوش کے ناخن لیں۔ (ڈاکٹر یوسف قرضاوی، فتاویٰ، ترجمہ: سید زاہد اصغر فلاحی، ناشر: دارالنوادر، اُردو بازار، لاہور، ص ۲۳۷-۲۴۴)

 

لادینیت کے دور میں معاشرتی تعلقات و رسوم کی حیثیت

سوال: ۱-سیکولرزم کے غلبے میں دنیا سمٹ کر رہ گئی ہے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں  خدا اور خدا کے قانون کو نہیں مانتے اور آہستہ آہستہ کسی بھی مذہب کو نہ ماننے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ فیشن، خوراک، چیزوں کے برانڈ، ہر چیز ہی اب ایک کلچر کی صورت اختیار کرگئی ہے۔ مسلمانوں نے بھی بالخصوص جو ملک سے باہر رہتے ہیں، اس کلچر کو اختیار کررکھا ہے (حرام کے عنصر کو نکال کر)۔ چونکہ اس کلچر کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے زیراستعمال چیزوں میں ہم بھی وہی برانڈ استعمال کرتے ہیں جو یہاں (بیرونِ ملک) لوگ کر رہے ہوتے ہیں، اور پردے ہی میں سہی مگر فیشن کے مطابق کپڑے پہنتے ہیں۔ اسلام میں دوسرے مذاہب اور اقوام کی مشابہت اور نقالی سے منع کیا گیا ہے۔ کیا ہمارا عصرِحاضر کے مطابق (حرام و حلال کا خیال رکھتے ہوئے) اس طرزِزندگی کو اختیار کرنا جائز ہے؟

۲- سالگرہ کو لوگ کسی قوم کی نقالی کے بجاے گلوبل کلچر کا حصہ سمجھتے ہیں، اور ساتھ میں یہ بھی کہتے ہیں کہ ہماری نیت کسی قوم کی تقلید کی نہیں بلکہ بس اپنے بچے کی خوشی یا محض  مل جل کر بیٹھنا ہے۔ ایسی صورت میں اگر کوئی سالگرہ کی دعوت پر بلائے تو کیا مجھ پر اُس کا یہ حق ہے کہ میں سنت کے مطابق اِس کی دعوت کو قبول کروں یا بھلے طریقے سے معذرت کی جاسکتی ہے؟علما سالگرہ کو بدعت قرار دیتے ہیں۔ یہ بدعت کس طرح ہے؟ کوئی بھی شخص سالگرہ کی تقریب دینی رسم سمجھ کر تو نہیں کرتا ہے۔ میں ذاتی طور پر  اسے مناسب نہیں سمجھتی اور مجھے لگتا ہے کہ اس سے خواہ مخواہ دوستوں اور رشتہ داروں پر سماجی دبائو آجاتا ہے لیکن پھر بھی لوگ بلاتے ہیں۔ اس معاملے میں کس قدر سخت رویے کی گنجایش ہے۔

۳-عورتوں کے بال کٹوانے پر رہنمائی فرمایئے؟ برعظیم پاک و ہند کے علما اس کو درست نہیں سمجھتے لیکن دوسری طرف شیخ عبدالعزیز بن بازؒ کا اس کے جواز میں فتویٰ موجود ہے۔ براہ مہربانی رہنمائی فرمایئے کہ اگر کوئی عورت شرعی پردہ کرتی ہو لیکن صرف اپنی یا اپنے شوہر کی خوشی کے لیے اپنے بالوں کو کٹوائے تو کیا یہ جائز ہوگا یا دوسروں پر بُرے اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے؟

بالوں کو رنگوانے کے متعلق بھی وضاحت فرما دیجیے کہ آیا صرف اپنے یا شوہر کے شوق کی خاطر بالوں کو رنگوایا یا بلیچ کروایا جاسکتا ہے، جب کہ عورت شرعی پردے کا خیال رکھتی ہو؟ کیا ہم کسی ایسی کارکن یا داعی کے محاسبے کا حق رکھتے ہیں؟

۴- مغرب میں جن جوتوں میں چمڑے کا استعمال ہوتا ہے بالعموم وہ خنزیر کی کھال   کے ہوتے ہیں اور شرعی اعتبار سے ایسے جوتوں کا استعمال حرام قرار دیا گیا ہے۔ اس صورت حال میں اچھے جوتوں کی خریداری بہت مشکل ہوجاتی ہے، بالخصوص ملک سے باہر رہتے ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ کوئی کتنا اس بات کا مکلف ہے کہ وہ خریداری سے پہلے اس بات کی تحقیق کرے کہ اس میں کون سا چمڑا استعمال کیا گیا ہے؟

جواب: آپ کے سوالات پڑھ کر اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ لادینیت کے دور میں بھی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی عنایت سے ایسے افراد دنیا کے ہرگوشے میں پھیلے ہوئے ہیں جنھیں معاشرتی معاملات میں حلال و حرام کی فکر ہے اور جو عصرِحاضر میں تمام مشکلات و مصائب کے باوجود اپنے رب کو خوش کرنے اور صرف اس کی رضا کے حصول کے لیے اپنے رہن سہن اور رسومات کو شریعت کے مطابق دیکھنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسی نیک روحوں میں مزید اضافہ فرمائے اور دنیا میں جہاں کہیں بھی ایسے صالح افراد پائے جاتے ہیں انھیں اسلام کی صحیح تصویر عملاً پیش کرنے کی توفیق دے،آمین!

سوالات میں جہاں تک نظری طور پر بعض معامات کے درست یا نادرست ہونے کا تعلق ہے، اس میں یہ بات سامنے رکھیے کہ اسلام تمام انسانوں اور تمام ادوار کے لیے آیا ہے۔ اس لیے  یہ لباس، غذا اور معاشرتی تعلقات کے عالم گیر اصول دیتا ہے۔ یہ کسی مقامی ثقافت، رسوم و رواج اور عرف کا غلام نہیں ہے۔ رسومات ہوں یا کسی دور کا کوئی طرزِعمل، ان سب کو قرآن و سنت کے ابدی اصولوں پر جانچ کر دیکھنا ہوگا کہ وہ کہاں تک ان اصولوں سے مطابقت رکھتے ہیں۔

اسلامی کلچر عربی یاعجمی روایات کا نام نہیں ہے۔ اسلام کا مقصد عربوں اور عجمیوں دونوں کو مسلمان بنانا ہے۔ مسلمانوں کو عرب یا عجمی بنانا نہیں ہے۔ وہ تمام طریقے جو جاہلیت کے تھے اور جو ان کی پہچان تھے اور جسے عربیت [عروبہ] کہا جاتا تھا، ان کو خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پائوں تلے روندا اور صرف کلمۃ اللہ کے اعلیٰ ہونے کا اعلان اپنے آخری خطبے میں (حج کے موقع پر) فرما کر اسلامی ثقافت ، فکر اور کلچر کی بنیاد توحیدِ خالص پر قائم فرمائی۔ قرآن کریم نے تبرجات الجاہلیہ کو رد کرتے ہوئے ہر اس عمل کو رد کیا جو اللہ اور رسولؐ کی معصیت کی طرف لے جانے والا ہو۔

یہ بات درست نہیں ہے کہ کلچر سیکولر ہو یا مغربی یا مشرقی، اس کا تعلق مذہب کے ساتھ نہیں ہے۔ کلچر یا ثقافت دراصل دینی عقائد و تعلیمات کا ایک عکس ہوتا ہے۔ اس لیے جو لوگ شرک پر یقین رکھتے ہیں، ان کا کلچر مشرکانہ ہوگا، اور جو توحید کو مانتے ہیں ان کا کلچر توحیدی ہوگا (یہ مضمون الگ تفصیلی بحث کا مستحق ہے۔ اس لیے ہم اسے نامکمل چھوڑتے ہوئے اصل سوال کی طرف آتے ہیں)۔

  • مخصوص برانڈ کا استعمال: اگر کسی برانڈ کی شے میں غیر برانڈ کی شے کے مقابلے میں زیادہ منفعت ہے اور جو قیمت آپ ادا کریں اس کے بدلے آپ کی ضرورت زیادہ بہتر طور پر پوری ہورہی ہے تو اس میں شریعت کو کیا اعتراض ہوگا؟ ہاں، اگر مقصود یہ ہے جب کوئی مرد دوسرے مرد سے مصافحہ کرنے والا ہو تو اس کی قمیص کے کف پر لکھے ہوئے برانڈ کو دیکھ کر     وہ سمجھ لے کہ اس کی قمیص فلاں برانڈ کی ہے، اور جب آپ قلم سے لکھنا چاہیں تو دیکھنے والے کو معلوم ہوجائے کہ یہ قلم کتنا قیمتی ہے، تو کیا ایسا کرنا کسی بھی اخلاقی ضابطے کے مطابق درست ہوسکتا ہے؟ شریعت کسی غیرعقلی زبردستی کا نام نہیں ہے بلکہ اس کے تمام اصول عقل، شرافت اور اخلاق پر مبنی ہیں اور یہ اخلاق اور اصول الہامی ہیں، انسانوں کے ساختہ پرداختہ نہیں ہیں۔

مخصوص برانڈ کی چیز کے استعمال میں مشابہت کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا کیونکہ کوئی بھی برانڈ کسی خاص طبقے کی اجارہ داری یا پہچان نہیں ہے۔ ایک یہودی ہو یا دہریہ، یا ایک مخلص مومن، جو بھی اس کی مطلوبہ قیمت ادا کرے گا وہ اسے استعمال کرسکتا ہے۔ اس لیے اسے مشابہت سے  خلط ملط کرنا درست نہیں ہوگا۔ ہاں، اگر کوئی شے ایک خاص فرقہ یا مذہبی گروہ سے وابستہ ہے اور اسے استعمال کیا جائے تو مشابہت کی تعریف میں آئے گا، مثلاً صلیب یا چھے کونوں والے تارے کا استعمال۔

  •  سالگرہ میں شرکت: اگر کسی بچے کی سالگرہ کے لیے آپ نے کیک، موم بتیوںیا غباروں وغیرہ کا اہتمام نہیں کیا اور نہ سارے گھر والوں سے مل کر بے سرے یا انتہائی سریلے انداز میں ’سالگرہ مبارک ہو‘ گایا ہو، بلکہ بچے کو یہ بات سمجھائی کہ اب آپ کی عمر سات سال ہورہی ہے اس لیے اب آپ ذمہ داری کے احساس کے ساتھ نمازوں کا اہتمام کریں اور جب ایک ماہ تک ایسا کریں گے تو ہم سب باہر جاکر آپ کی پسند کا کھانا آپ کو کھلائیں گے یا فلاں چیز پکوا کر ساتھ مل کر کھائیں گے، تو اس میں شریعت کے کون سے اصول کی خلاف ورزی ہے؟ ہاں، جوطریقہ ہمارے ہاں رائج ہے کہ بڑے چھوٹے نوک دار ٹوپی پہن کر اپنی شکل کو مضحکہ خیز بنا کر ، گاکر ’سالگرہ مبارک‘ کہیں، وہ عقل، شریعت یا بُردباری سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا ہے۔

جہاں تک کسی ایسی تقریب میں جانے کا تعلق ہے جہاں فواحش و منکرات [ناچ گانا، عریانی، حرام مشروب کا استعمال] کیا جارہا ہو، تو واضح ہے ایسا کرنا اسلام کے منافی ہے، لیکن اگر کسی سالگرہ کی تقریب میں آپ کو مدعو کیا گیا اور آپ شرکت سے انکار کریں تو  قطع رحمی ہوگی۔ اگر یہ بھی معلوم ہو کہ وہاں ناچ گانا یا شراب کا استعمال نہیں ہورہا، تو صلہ رحمی کے پیش نظر وہاں جاکر نصیحت کی بات پہنچانا اور گفتگو میں اس طرف متوجہ کرنا کہ اس قسم کی تقاریب میں اسراف نہ ہو، غیرمسلموں کی نقل نہ کی جائے، وہ چیزیں نہ ہوں جن سے دوسروں کی نقالی ثابت ہوتی ہو ، ایک دعوتی عمل کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ دین کے حوالے سے یہ بات سمجھ لیجیے کہ یہ مثبت اور تعمیری فکر کی تعلیم دیتا ہے محض منہیات کا نام نہیں ہے۔ جن باتوں سے منع کیا گیا ہے وہ محدود ہیں جن کو کرنے کی طرف اُبھارا گیا ہے وہ لاتعداد ہیں۔ یہ بھی ہے کہ راستے میں چلتے ہوئے ایک کانٹا یا پتھر جو لوگوں کو تکلیف پہنچاسکتا ہے اسے دُور کردیا جائے۔ اگر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم عکاظ کے میلے میں جاکر دعوتِ اسلامی پیش فرماتے ہیں تو کسی ایسی تقریب میں، وہ سالگرہ کی ہو یا نکاح کی جس میں فحاشی و عریانی اور منکرات کا امکان بظاہر نہ ہو،جانا شریعت کے منافی کیسے ہوسکتا ہے۔

سالگرہ کے بارے میں آپ کی ذاتی راے کا پورا احترام کرتے ہوئے آپ کا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ چاہے ذاتی طور پر نہ آپ سالگرہ منائیں نہ اسے درست سمجھیں، لیکن اگر ایسے موقع کو آپ دعوت کے لیے استعمال کرسکتی ہیں تو کیا ایسے موقع کو ضائع کرنا شریعت کا مقصود ہے؟

بال کـٹوانا اور رنگوانـا: بال کٹوانے پر اگر شیخ عبدالعزیز بن باز مرحوم نے اور    شیخ یوسف القرضاوی نے فتویٰ دیا ہے تو میری معلومات کی حد تک اس کی واضح دلیل اس اصول میں ہے جس میں ایک بڑی بُرائی سے بچنے کے لیے کم تر کا اختیار کرنا مصلحت دینی ہے ۔ اگر ایک شوہر اور اس کی بیوی یہ سمجھتے ہیں کہ بیوی کے بال ترشے ہوئے ہوں تو ذاتی پسند و ناپسند سے قطع نظر اسے ممنوع نہیں کہا جاسکتا۔ جس بات کی ممانعت ہے وہ بالوں میں بال جوڑنے کی ہے بالوں کو کاٹنے کی نہیں۔

دوسری جانب یہ بات کہ اس طرح مرد اور عورت کا تشخص ختم ہوجاتا ہے اس وقت قوی ہے جب ایک مسلمان خاتون بال کٹوا کر سر کھول کر بازاروں میں پھر رہی ہو۔ اگر ایک بیوی اپنے شوہر کی خواہش کی بناپر بال تراش کر [وہ جس طرح کے بھی ہوں] اس کے سامنے آتی ہے اور جب باہر جاتی ہے تو اس کا سر اور تمام جسم ڈھکا ہوا ہے تو اس میں معاشرے کو کیا خطرہ ہے؟ کیا وہ معاشرے میں مشابہت کی تشہیر کر رہی ہے؟ ہاں، اگر کوئی عورت بال کٹوا کر سر کھول کر سب کے سامنے پھرتی ہے تو مشابہت سے زیادہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی شریعت کی مخالفت ہے جس کا مطالبہ یہ ہے کہ وہ حجاب، یعنی سر ڈھانک کر باہر نکلے۔ شرعی پردے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث نے قیامت تک کے لیے متعین کردیا جس میں آپؐ سیدہ عائشہؓ کو ہدایت فرماتے ہیں کہ جب ایک مسلمان بچی بالغ ہوجائے تو چہرے اور ہاتھ کے سوا تمام جسم ڈھکا ہوا ہو۔ اس میں بالوں کی سیٹنگ کہیں آس پاس نہیں آتی کیونکہ جب سر مکمل طور پر ڈھک گیا تو حجاب کے اندر بال لمبے ہوں یا چھوٹے، اس سے کسی کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔

بال رنگوانے کے بارے میں یہ بات حدیث سے ثابت ہے کہ مہندی یا حنا کے استعمال کی کوئی ممانعت نہیں کی گئی۔ اس پر قیاس کرتے ہوئے اگر ایک خاتون اپنے بالوں کو اس لیے رنگین کرتی ہے کہ اس کا شوہر اسے پسند کرتا ہے تو اس کی مثال وہی ہے جو اس سے قبل بالوں کی تراش کے بارے میں عرض کی گئی۔ آپ نے یہاں بھی شرعی پردے کا ذکر کیا ہے۔ جب تک ایک خاتون چہرے اور ہاتھ کے سوا تمام جسم ڈھانکے ہوئے ہے، وہ بہت سے کام اس وقت تک کرسکتی ہے جب تک اس کام کی ممانعت ثابت نہ ہوجائے۔ شریعت کا اصول ہے اصلاً ہرفعل مباح ہے جب تک اس کی حُرمت ثابت نہ ہو۔یہاں پر یاد رکھیے اسلام میں حلال و حرام واضح ہیں لیکن بعض چیزیں انسان کی فطرت کا مطالبہ ہیں۔ ایک خاتون کی خوب صورتی کے اجزا میں اس کے بالوں کا لمبا ہونا مسلم دنیا میں ہی نہیں، قدیم ترین تہذیبوں کا حصہ رہا ہے لیکن اس بنا پر شدت کے ساتھ ایک موقف اختیار کرلینا بھی دین کی حکمت، مصلحت اور بصیرت سے مطابقت نہیں رکھتا۔

جہاں تک تعلق محاسبے کا ہے وہ تو کسی بھی ایسے موضوع پر کیا جاسکتا ہے جو آپ کے نزدیک معاشرتی یا تحریکی حقوق سے تعلق رکھتا ہو۔ اگر جس کا محاسبہ کیا جا رہا ہے وہ آپ کو اپنے جواب سے مطمئن کردے کہ آپ کا احتساب غلط تھا، تو آپ کو کشادگیِ قلب کے ساتھ اپنی غلطی کو مان لینا چاہیے۔ احتساب جب تک کیا جاتا رہے گا اُمت مسلمہ ان شاء اللہ صراط مستقیم پر رہے گی۔

  • حرام جانور کی کہال کی اشیا کا استعمال:کسی حرام جانور کی کھال کے استعمال اور وہ بھی خصوصاً جوتوں یا دیگر صنعتی استعمالات میں، یہ بات سامنے رکھیے کہ قرآن کریم نے ان کے گوشت کو حرام قرار دیا ہے نہ کہ ان کے صنعتی استعمال کو۔اگر ایک گائے کسی مرض کی بنا پر مرجاتی ہے تو کیا اس کا گوشت ہم اس لیے کھاسکتے ہیں کہ گائے حلال جانوروں میں شمار ہوتی ہے؟ ایک مُردہ گائے کا گوشت اگر حرام ہے تو اس کی کھال کیا حلال ہوجائے گی؟ ہاں، حدیث سے ثابت ہے کہ ایک مُردہ کھال کو جو چیز حلال کرتی ہے وہ اس کی دباغت ہے، یعنی اس کا ایک ایسے عمل سے گزارنا جس میں اس کی صفائی ستھرائی کی جاتی ہے۔نفرت اور اس کے حرام ہونے کے باوجود   اس کی کھال کا وہ استعمال جس سے شریعت نے منع نہ کیا ہو، اس پر حکم لگانا مناسب نہ ہوگا۔ ہاں، اگر اکراہ کی بنا پر اسے استعمال نہ کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ اکراہ کی بنا پر کیکڑے کو جو پانی میں پائی جانے والی غذا کی تعریف میں آنے کی بنا پر حلال ہے، استعمال نہ کرنا، شریعت کے کسی اصول کو نقصان نہیں پہنچاتا۔ واللّٰہ اعلم بالصواب (ڈاکٹر انیس احمد)

ماں کا بچوں سے امتیازی رویہ

سوال: والدین کو کسی ایک بچے کی طرف میلان رکھتے ہوئے باقی بچوں کے حقوق کی   حق تلفی نہیں کرنی چاہیے۔ ان کے ساتھ یکساں سلوک کرنا چاہیے کیونکہ سب بچوں کو والدین سے یکساں نسبت ہوتی ہے۔ لیکن اگر کوئی ماں ان باتوں سے قطع نظر کسی خاص بچے کی طرف میلان رکھے،ہرمعاملے میں اس کو فوقیت دے اور دیگر اولاد کی حق تلفی کرے تو یہ غیرعادلانہ رویہ ہوگا۔ماں کا اپنے بچوں سے امتیازی رویہ اور کسی ایک بچے سے کیا گیا ترجیحی سلوک بچوں میں حسد، انتقام اور رقابت کے جذبات بھی پیدا کرتے ہیں اور محبت کے بجاے نفرت جنم لیتی ہے۔ اس صورتِ حال میں اگر باقی اولاد فساد کے خدشے سے احتجاج بھی نہ کرسکے تو پھر تنائو کی کیفیت سے بچنے اور گھریلو نظام کو منتشر ہونے سے بچانے کے لیے کیا کیا جائے، جب کہ ماں کا احترام اپنی جگہ مقدم ہے؟

جواب: قرآن پاک میں والدین کے بارے میں ارشاد فرمایا: اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُھُمَآ اَوْ کِلٰھُمَا فَلَا تَقُلْ لَّھُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْھَرْ ھُمَا وَ قُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًاo   (بنی اسرائیل ۱۷:۲۳) ’’اگر تیرے پاس ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پہنچے یا دونوں تو ان کو اُف تک نہ کہو اور ان کو جھڑکو بھی نہیں اور ان کے ساتھ عزت سے بات کرو‘‘۔ اس آیت میں    ماں باپ کے بڑھاپے کا اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ بڑھاپے میں مزاج میں سختی آجاتی ہے۔   بعض اوقات بلاوجہ بھی ماں باپ ناراض ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورت میں فرمایا کہ پھر بھی انھیں اُف تک نہ کہو۔ ماں کا کسی ایک بیٹے کی طرف میلان ہو اور وہ اس پر اعتماد کرے اور دوسروں پر    اسے ترجیح دے ایسا کرنا درست نہیں ہے۔ ماں کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن اگر وہ پھر بھی ایسا کرتی ہے تو بچوں کو صبر کرنا چاہیے۔ ماں نے جوان کے لیے تکلیف برداشت کی ہے، جب وہ اس کے پیٹ میں تھے اور جب وہ اس کی گود میں تھے، اور کم از کم سات سال تک خدمت کی، جب کہ وہ خود اپنی کوئی خدمت کرنے کے قابل نہ تھے، لہٰذا ماں کے احسان کا بدلہ نہیں چکایا جاسکتا۔ بچے اگر عمربھر والدین کی خدمت کرتے رہیں تب بھی ماں باپ کی خدمت کا حق ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ ماں باپ کی نافرمانی کو گناہِ کبیرہ قرار دیا گیا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ آدمی ذلیل و خوار ہو ، وہ رسوا ہو۔ عرض کیا گیا: یارسولؐ اللہ! کون؟ آپؐ نے فرمایا: وہ بدنصیب جو ماں باپ کو یا دونوں میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پائے، پھر ان کی خدمت اور ان کا دل خوش کرکے جنت حاصل نہ کرے۔

بعض اوقات اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کے حق کو اپنے حق سے بھی مقدم رکھا ہے۔ نبیؐ نے جہاد کے مقابلے میں ماں باپ کی خدمت کو ترجیح دی ہے۔ ایک آدمی یمن سے ہجرت کر کے مدینہ آیا۔ آپؐ نے اس سے پوچھا: کہ یمن میں تمھارا کوئی ہے؟ اس نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میرے ماں باپ ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: کیا انھوں نے تمھیں اجازت دی ہے؟ اس نے عرض کیا: نہیں۔ آپؐ نے فرمایا: واپس جائو اور ان سے اجازت مانگو۔ اگر تمھیں اجازت دے دیں تو آئو اور جہاد میں لگ جائو، اور اگر وہ اجازت نہ دیں تو ان کی خدمت اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے رہو۔ (ابوداؤد)

اس لیے آپ ماں سے نرمی اور ادب کے ساتھ اپنا حق مانگتے رہیں۔ اگر وہ حق ادا کرے تو بہتر ورنہ صبر سے کام لیں۔ آپ کے بھائی کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے۔ اس کے ساتھ حسد نہ کریں۔ بلاوجہ بھائی کے ساتھ حسد کرنا برادران یوسف ؑکی سیرت ہے۔وہ حضرت یوسف ؑ سے حسد کرتے تھے کہ حضرت یعقوب ؑ یوسف علیہ السلام سے زیادہ محبت رکھتے تھے۔ قرآن پاک میں ان کے اس قول کو نقل کیا گیا ہے کہ انھوں نے کہا: لَیُوْسُفُ وَ اَخُوْہُ اَحَبُّ اِلٰٓی اَبِیْنَا مِنَّا وَ نَحْنُ عُصْبَۃٌ(یوسف ۱۲:۸) ’’یوسف اور اس کا بھائی ہمارے باپ کو ہمارے مقابلے میں زیادہ محبوب ہیں حالانکہ ہم ایک مضبوط جماعت ہیں‘‘۔ اگرچہ برادرانِ یوسف ؑ کو اپنے باپ حضرت یعقوب ؑ سے یہ شکایت نہ تھی کہ وہ ان کے کسی حق کو تلف کر رہے ہیں۔ حضرت یعقوب ؑ کھلانے پلانے، لباس اور پوشاک اور عطیات میں مساوات کرتے تھے اور اسلام کا یہی حکم ہے کہ ماں باپ کو چاہیے کہ اولاد میں مساوات رکھیں، جانب داری نہ کریں۔ آپ کی والدہ میں بھائی کی طرف داری کی کمزوری پائی جاتی ہے۔ آپ ایک کام یہ کریں کہ اسے برداشت کریں۔ دوسرا یہ کہ والدہ کے لیے دعا کریں کہ وہ طرف داری نہ کریں۔ تیسرا کام یہ کہ اللہ رب العزت جو خزانوں کا مالک ہے اور ہمارا اور ہمارے ماں باپ کا رب ہے اور ماں باپ کے پاس تھوڑا بہت جو بھی ہے وہ اللہ کا دیا ہوا ہے، ماں باپ تو فقیر ہیں اور محتاج ہیں اور اللہ غنی ہے۔ آپ اللہ سے مانگیں۔ اللہ اپنے خزانوں سے آپ کو اتنا کچھ دے دے گا جس کا تصور آپ اور آپ کی والدہ نہیں کرسکتیں۔ اللہ سے تعلق بڑھائیں، اس کی عبادت میں لگ جائیں۔ اقامت دین کے لیے جدوجہد کریں ، اسلامی تحریک کا ساتھ دیں، ملک و ملّت کی خدمت کریں۔ والدہ کی بھی خدمت کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے دلوں کو بھی ٹھیک کردے گا اور تمام مسائل اور مشکلات کو بھی حل کردے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی بندگی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یاربنا کریم، واللّٰہ اعلم بالصواب۔ (مولانا عبدالمالک)

حقوق العباد اور مزاج کا اختلاف

سوال: اسلام میں حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی بھی بہت اہمیت ہے اور  ہم مسلسل قرآن و حدیث میں اس کے حوالے سے احکامات پڑھتے رہتے ہیں۔ اس پر عمل نہ کرنے والوں کے لیے سخت وعیدیں بھی ہیں، بالخصوص صلہ رحمی، یعنی خاندان اور    رشتہ داروں کے حوالے سے۔ اس ضمن میں چند عملی پہلو ہیں جو پریشان کن ہیں۔ آپ سے گزارش ہے کہ ان کا تسلی بخش جواب قرآن و حدیث کی روشنی میں دیں اور رہنمائی فرمائیں:

۱- اگر حقوق العباد سے مراد ہر ایک کو خوش کرنا ہے تو عملاً یہ بہت مشکل کام ہے۔ تمام کوشش کے باوجود بھی کچھ رشتے دار ایسے ہوتے ہیں کہ کسی نہ کسی بات پر آپ سے ناراض ہی رہتے ہیں یا ناراضی کا بہانہ ڈھونڈتے ہیں اور جھگڑا کرنے پر تُلے رہتے ہیں۔ اگر کسی بات پر خاموش رہا جائے تو ’گھُنے‘ اور جواب دیا جائے تو ’زبان دراز‘ سمجھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بڑے بہن بھائیوں کے ساتھ کس طرح کا رویہ اختیار کرنا چاہیے، جب کہ وہ ہمارے معاملات میں بھی اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کروانا چاہتے ہوں؟

۲-’خاندان‘ کو معاشرتی اکائی سمجھا جاتا ہے۔ اس خاندان سے مراد نکاح کے بعد  میاں بیوی سے بننے والا خاندان ہے یا وسیع پیمانے پر مشترکہ خاندانی نظام؟ نیز  مشترکہ خاندانی نظام کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

۳- اسلام میں ایک فرد کی پرائیویسی کا کیا تصور ہے؟

۴- اسلام میں مزاج کے اختلاف کی گنجایش ہے اور ہم سیرتِ صحابہؓ میں دیکھتے ہیں کہ مختلف مزاجوں کے افراد کس طرح سے ایک ہی چھتری کے نیچے جمع ہوگئے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی مزاج کے اختلاف کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہو تو کوئی کتنا مکلف ہے کہ اپنے اخلاص کو ثابت کرنے کے لیے صفائیاں پیش کرے یا بس چپ کر کے   اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کردے؟

جواب:  بلاشبہہ حقوق العباد کی اہمیت ہے اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شرک کو چھوڑتے ہوئے بقیہ تمام بے احتیاطیوں کو اللہ سبحانہٗ تعالیٰ اپنے حوالے سے معاف فرما سکتا ہے ، لیکن حقوق العباد کا تعلق چونکہ اس کے بندوں سے ہے اس لیے اپنے بندوں کا آقا و مالک ہونے کے باوجود وہ ان کے پامال کیے جانے کو اپنے دائرۂ اختیار سے خود خارج فرماتا ہے۔

حقوق العباد سے مراد وہ تمام حق ہیں جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں، مثلاً جان، مال، عزت، شہرت کے تحفظ کا حق، کسی کے مال کو بغیر اس کی اجازت کے تصرف میں لانا، کسی کو اس کی موجودگی یا غیرموجودگی میں تضحیک کا نشانہ اس طرح بنانا کہ وہ اوروں کی نگاہ میں کم تر ہوجائے یا خود اسے اس سے تکلیف پہنچے۔ اس عمومی تعریف سے آگے بڑھتے ہوئے آپ نے خود جو تعریف  متعین کی ہے وہ قابلِ غور ہے، یعنی ’’ہر ایک کو خوش کرنا‘‘۔ میری راے میں یہ کہنا درست نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اور دوسروں کو راضی کرنے میں بنیادوں کو قرآن و حدیث نے واضح کردیا ہے، یعنی اللہ کی نافرمانی ہونے کی شکل میں کسی مخلوق کی فرماں برداری نہیں ہوگی۔ اگر شوہر، باپ، بھائی، ماں، بہن یا دیگر قریبی رشتہ داروں کو خوش کرنے میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام و ہدایات کی خلاف ورزی ہو تو ایسا کرنا جائز نہیں۔ ہاں، اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کے دائرے میں رہتے ہوئے ماں باپ کو شوہر کو یا بیوی کو خوش دیکھنے کے لیے کوئی کام کرنا عین شریعت کی پیروی ہے۔ یہاں یہ بات بھی سامنے رہے کہ جہاں تک ’خوش‘ کرنے کا تعلق ہے اسلام میں اس بات کی کوئی گنجایش نہیں ہے کہ خاتون تو ہر وقت شوہر، بھائی، ماں باپ کو خوش کرنے میں   جان ہلکان کرتی رہے اور شوہر صرف ’خوش‘ ہوتا رہے۔ یہ عمل دونوں پر یکساں طور پر واقع ہوگا کیونکہ قرآن کریم نے دو ٹوک فیصلہ کردیا ہے کہ وَ لَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌ ط وَ اللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ (البقرہ ۲:۲۲۸) ،یعنی ’’عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں‘‘۔ یہ ایک معاشرتی نفسیاتی بھول ہے کہ عورت تو مرد کو ’خوش‘ کرنے کی پابند ہو لیکن مرد تمام حقوق سے آزاد!

اس جملۂ معترضہ سے قطع نظر یہ بات درست ہے کہ اسلام خاندان کو ایک بنیادی  معاشرتی و تہذیبی اکائی قرار دیتا ہے۔ اگر اس اکائی کو خارج کردیا جائے تو معاشرہ اور تہذیب دونوں کی عمارت زمین بوس ہوجاتی ہے۔ مزید یہ بات بھی درست ہے کہ اسلام وسیع تر خاندان کو ایک اسلامی خاندان قرار دیتا ہے:

لَیْسَ عَلَی الْاَعْمٰی حَرَجٌ وَّلاَ عَلَی الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلاَ عَلَی الْمَرِیْضِ حَرَجٌ وَّلاَ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَنْ تَاْکُلُوْا مِنْم بُیُوتِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اٰبَآئِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اُمَّہٰتِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اِِخْوَانِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَخَوٰتِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَعْمَامِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ عَمّٰتِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَخْوَالِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ خٰلٰتِکُمْ اَوْ مَا مَلَکْتُمْ مَّفَاتِحَہٗٓ اَوْ صَدِیقِکُمْ ط لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْکُلُوْا جَمِیْعًا اَوْ اَشْتَاتًا ط فَاِِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ تَحِیَّۃً مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً ط کَذٰلِکَ یُبَـیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ o (النور ۲۴:۶۱) کوئی حرج نہیں اگر کوئی اندھا، یا لنگڑا، یا مریض (کسی کے گھر سے کھا لے) اور نہ تمھارے اُوپر اِس میں کوئی مضائقہ ہے کہ اپنے گھروں سے کھائو یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے، یا اپنی ماں نانی کے گھروں سے، یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے، یا اپنی بہنوں کے گھروں سے، یا اپنے چچائوں کے گھروں سے، یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے، یا اپنے مامووں کے گھروں سے، یا اپنی خالائوں کے گھروں سے، یا اُن گھروں سے جن کی کنجیاں تمھاری سپردگی میں ہوں، یا اپنے دوستوں کے گھروں سے۔ اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ تم لوگ مل کر کھائو یا الگ الگ۔ البتہ جب گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو، دُعاے خیر، اللہ کی طرف سے مقرر فرمائی ہوئی، بڑی بابرکت اور پاکیزہ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ تمھارے سامنے آیات بیان کرتا ہے،  توقع ہے کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو گے۔

قرآن کریم جگہ جگہ رشتہ داروں کے حقوق کی ادایگی کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ چنانچہ  سورئہ نحل میں فرمایا: ’’اللہ عدل اور احسان اور صلۂ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی و بے حیائی اور     ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو (۱۶:۹۰)۔ اسی طرح     رشتہ داروں کی طرف سے بدسلوکی اور ایسے رویے کی بنا پر جو ایک فرد کو ناگوار ہو، قطع تعلق کرنا یا   ان کے حقوق سے ہاتھ روک لینے کو قرآن کریم نے صاف طور پر منع فرمایا ہے:

وَلاَ یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُّؤْتُوْٓا اُولِی الْقُرْبٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَالْمُہٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا ط اَلاَ تُحِبُّونَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ ط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o (النور ۲۴:۲۲) ، تم میں سے جو لوگ صاحب ِ فضل اور صاحب ِ مقدرت ہیں وہ اِس بات کی قسم نہ کھابیٹھیں کہ اپنے رشتہ دار، مسکین اور مہاجر فی سبیل اللہ لوگوں کی مدد نہ کریں گے، اُنھیں معاف کردینا چاہیے اور درگزر کرنا چاہیے۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمھیں معاف کرے، اور اللہ کی صفت یہ ہے کہ وہ غفور اور رحیم ہے۔

سورئہ بقرہ میں قرابت کو توڑنے پر وعید آئی ہے: ’’جو اللہ کے اقرار کو مضبوط کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جس چیز (رشتہ قرابت) کے جوڑے رکھنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اس کو توڑتے ہیں اور زمین میں خرابی کرتے ہیں، وہی لوگ نقصان اُٹھانے والے ہیں‘‘۔ (البقرہ ۲:۲۷)

مندرجہ بالا قرآنی آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اولاً خاندان اور خاندانی حقوق، یعنی مل جل کر کھانا کھانا، گھر میں داخل ہونا، ربط و تعلق کو برقرار رکھنا یہی خاندان کا مقصود ہے۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ سب لوگ ایک چھت کے نیچے ہی رہیں بلکہ باپوں بھائیوں وغیرہ کے تذکرے سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ان کے گھر الگ الگ ہوسکتے ہیں۔ ورنہ باپوں کے گھر، بھائی کے گھر، وغیرہ کا تذکرہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یہ بات بھی سمجھا دی گئی کہ جو رشتے اللہ تعالیٰ نے مقرر کردیے ہیں، ان کو قطع کرنا اللہ کی حدود کا پامال کرنا ہے۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام کا تصورِ خاندان یہ نظر آتا ہے کہ اگر ایک شخص اپنے والدین کے گھر میں رہتا ہے، تو اسے اپنی بیوی کو اُس آزادی سے محروم کرنے کا حق نہ ہوگا جو    اللہ نے اسے دی ہے، یعنی اپنے شوہر اور بچوں کے سامنے ساتر اور اچھے لباس میں آنا، گھر میں ایسی تنہائی کا پایا جانا جہاں میاں بیوی بلاکسی روک ٹوک کے جس طرح چاہیں ایک دوسرے کے ساتھ بے تکلفی سے پیش آسکیں۔

اسلام کا پرائیویسی کا تصور قرآن کریم نے واضح کردیا ہے، یعنی وہ اوقات جن میں گھر کے بچے ہوں یا ملازم، وہ بغیر اجازت اندر نہیں آسکتے۔ ایسے ہی شوہر اور بیوی کی آپس کی گفتگو میں بعض ایسے امور ہیں جو صرف بیوی یا شوہر کے علم میں ہوں اور کسی اور کو اس کا علم نہ ہو۔ حضور نبی کریمؐ کا ایک اُم المومنینؓ سے کسی بات کا ذکر کرنا اور ان کا اسے دوسری تک پہنچانا قرآن کریم سے ثابت ہے کہ اس کی اجازت نہیں۔ یہ بات کی امانت کی تعریف میں بھی آتا ہے۔

بڑے بھائی بہن ہوں یا چھوٹے، ہر ایک کے لیے اصول ایک ہے کہ اللہ کی نافرمانی میں ان میں سے کسی کی اطاعت نہیں۔ ہاں، اس دائرے میں رہتے ہوئے اگر انھیں کوئی تحفہ دینا، یا کوئی اچھی بات، کوئی نصیحت،کوئی بھلائی کا عمل کیا تو یہ مطلوب و مرغوب ہے۔ ان کی مرضی کے مطابق کوئی فیصلہ کرنا جو عدل، حق اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے منافی ہو، کسی بھی شکل میں نہیں کیا جاسکتا۔ انھیں سمجھانا اور یہ بتلانا کہ اس طرح کے فیصلے میں آپ کا اور خود ان کا خسارہ ہے، آپ پر فرض ہے۔

مزاجوں کا فرق ایک فطری بات ہے اور یہ اُمہات المومنینؓ اور صحابہ کرام رضوان اللہ  علیہ اجمعین سب میں پایا جاتا ہے۔ آخر ایک اُم المومنینؓ کو لمبے ہاتھ والی کیوں کہا گیا، ایک صحابی کو حیا میں دوسروں سے زیادہ کیوں سمجھا گیا۔ کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ دوسروں میں حیا نہیں تھی؟ قطعاً نہیں۔ حیا تو ایمان کا بڑا حصہ ہے۔ اس لیے حضرت عثمانؓ کے مزاج اور دیگر صحابہؓ کے مزاج میں فرق تھا، ورنہ ہرصحابی حیا کا مجسمہ تھا۔

اس فطری فرق کا مطلب یہ ہوا کہ جب قرآن یہ کہتا ہے کہ اہلِ ایمان کو کاظمین الغیظ اور رحما بینھم ہونا چاہیے تو وہ ان مزاجوں کے اختلاف کی بنا پر ہی یہ بات کہتا ہے ،اور چاہتا ہے کہ اس فطری اختلاف کے باوجود ان کا مجموعی طرزِعمل وہی ہو جو عالمِ انسانیت کے لیے بھیجے گئے، کامل ترین اسوئہ حسنہ رکھنے والے انسانؐ کا تھا۔ چونکہ آئیڈیل اور نمونہ آپؐ کی ذات ہے، اس لیے مزاجوں کے فرق کے باوجود جب ایک مومن یا مومنہ دوسروں کو مسکراتے چہرے سے دیکھے، دوسرے کی غلطی پر عفو و درگزر کرے، دوسرے کی جانب سے تکلیف پہنچنے پر کشادگی ٔ قلب کے ساتھ اس کے حقوق کو پورا کرے، اور صرف اس لیے ایسا کرے کہ اس سے رب خوش ہوگا، تو پھر ایسے فرد کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مغفرت، کامیابی اور آخرت میں اعلیٰ مقامات کا وعدہ فرمایا ہے۔

وہ مشہور حدیث سامنے رکھیے جس میں آپؐ فرماتے ہیں: ’’وہ شخص جو بدلے میں رشتہ داروں کا لحاظ کرتا ہے، وہ مکمل درجے کی صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے‘‘۔ (بخاری، عن ابن عمرؓ)۔ گویا   اگر کسی کی بھلائی کے بدلے میں ہم نے بھلائی کردی تو یہ صلہ رحمی نہیں۔ صلہ رحمی تو وہ ہے کہ ایک طرف سے تکالیف ہورہی ہوں اور دوسری جانب سے عنایات و لطف و کرم کا معاملہ ہو۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! میرے کچھ رشتہ دار ہیں جن کے حقوق مَیں ادا کرتا ہوں اور وہ میرے حقوق  ادا نہیں کرتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ حُسنِ سلوک کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ حلم و بُردباری سے پیش آتا ہوں اور وہ جہالت برتتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اگر تو ایسا ہی ہے جیسا تو کہتا ہے تو گویا تو ان کے چہروں پر سیاہی پھیر رہا ہے۔ اللہ ان کے مقابلے میں ہمیشہ تیرا مددگار رہے گا جب تک تو اس حالت پر قائم رہے گا‘‘۔ (مسلم)

اس حدیث اور حضرت ابوبکرؓ کے سیدہ عائشہؓ پر بہتان لگانے والے رشتہ دار کے طرزِعمل سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ اسلام قطع رحمی کو پسند نہیں کرتا، اور صلہ رحمی کا مطلب ہی یہ ہے کہ جو آپ کے حقوق ادا نہ کرے آپ اُس کے حقوق میں کمی نہ کریں۔ (ڈاکٹر انیس احمد)