سوال : ایک حدیث کا مفہوم سمجھنے میں دشواری ہورہی ہے ۔ براہِ کرم اس کی وضاحت فرمادیں: اِنْ یَعِشْ ہٰذَا لَا یُدْرِکْہُ الْہَرَمُ حَتّٰی تَقُوْمَ عَلَیْکُمْ سَاعَتُکُمْ ’’اگر یہ شخص زندہ رہا تو اس کے بوڑھا ہونے سے پہلے تم پر تمھاری قیامت برپا ہوجائے گی‘‘۔
جواب: بخاری اور مسلم میں یہ حدیث ام المومنین حضرت عائشہؓ سے مروی ہے ۔ وہ فر ما تی ہیں:نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بدّو حاضر ہوتے تھے اور وہ آپؐ سے سوال کرتے تھے کہ قیامت کب آئے گی ؟ تو آپؐ ان میں سب سے کم عمرشخص کی طرف دیکھتے تھے اور فرماتے تھے: ’’اگر یہ شخص زندہ رہا تو اس کے بوڑھا ہونے سے پہلے تم پر تمھاری قیامت برپا ہوجائے گی‘‘۔(بخاری، کتاب الرقاق، باب سکرات الموت ۶۵۱۱ ، مسلم:۲۹۵۲)
قیامت کب آئے گی ؟ اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ۔ اس نے یہ علم اپنے کسی بندے ، حتی کہ مقرب فرشتوں اور پیغمبروں کوبھی نہیں بخشا ہے ۔ اس لیے دانش مندی کا تقاضا ہے کہ ہرشخص یہ فکر کرے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جوزندگی عطا کی ہے اورجومہلت عمل دی ہے ، اس میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمالے۔ موت آتے ہی اعمال کا رجسٹر بند ہوجائے گا ۔ اس وقت تک اس نے اچھے یا بُرے جواعمال کیے ہوں گے ان کے مطابق اسے جزا یا سزا دی جائے گی ۔ اسی بات کو بعض احادیث میں اس انداز سے کہا گیا ہے کہ ہر شخص کی موت ہوتے ہی اس کی قیامت برپا ہوجاتی ہے۔
اس روایت کی سندمیں بعض کمزور راوی ہیں۔ اس لیے سند کے اعتبار سے محدثین نے اسے ضعیف یا موضوع قرار دیا ہے، لیکن معنیٰ کے اعتبار سے یہ صحیح ہے ۔ اس کا ثبوت حضرت عائشہؓ سے مروی یہ حدیث ہے جس کی تشریح چاہی گئی ہے ۔ اس مضمون کی متعدد احادیث امام مسلم ؒ نے روایت کی ہیں ۔ حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: قیامت کب آئے گی ؟ اس مجلس میں انصار کا ایک بچہ بیٹھا ہوا تھا۔ آپؐ نے اس کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: اس بچے کے بوڑھا ہونے سے پہلے قیامت آجائے گی‘‘ (۲۹۵۳)۔دوسری روایت میں حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ وہ بچہ ازدشنوء ہ قبیلے (یمن )سے تعلق رکھتا تھا اور میرا ہم عمر تھا۔ (اس وقت حضرت انسؓ کی عمر ۱۶،۱۷سال تھی)(۲۹۵۳)۔ایک اور روایت میں اس بچے کو حضرت مغیرہ بن شعبہؓکا غلام بتایا گیا ہے (۲۹۵۳)۔ امام نووی ؒ نے شرح مسلم میں قاضی عیاض کا یہ قول نقل کیا ہے:یہ تمام روایات پہلی روایت کے معنیٰ میں ہیں ۔ اس میں ساعۃ (قیامت) سے مراد موت ہے ۔ (شرح مسلم للنووی، دارالکتب العلمیۃ بیروت ،۱۹۹۵ئ، ج۹، جز ۱۸،ص ۷۱)
ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے :’’(قیامت ِ) صغریٰ سے مراد انسان کی موت ہے ۔ گویا ہرانسان کی قیامت اس کی موت سے شروع ہوجاتی ہے (فتح الباری بشرح صحیح البخاری)۔ انھوںنے شارحِ بخاری کرمانی کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب حکیمانہ اسلوب پر دلالت کرتا ہے ، یعنی قیامت ِ کبریٰ کب آئے گی؟ یہ سوال نہ کرو ، اس لیے کہ اس کا علم اللہ کے سوا کسی کونہیں ہے ، بلکہ یہ جاننے کی کوشش کرو کہ تمھارا زمانہ کب ختم ہوجائے گا ۔ تمھارے لیے بہتر یہ ہے کہ نیک اعمال کرلو، اس سے پہلے کہ تمھارے لیے اس کی مہلت ختم ہوجائے، کیوںکہ کسی شخص کونہیں معلوم کہ کون دوسروں سے پہلے اس دنیا سے رخصت ہوجائے گا ۔ (فتح الباری) (ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)
س : میرا ایک لڑکا اورایک لڑکی ہے ۔ میں نے لڑکی کا نکاح اپنے ایک دوست کے لڑکے سے کرنے کا ارادہ کیا۔ پہلے تو انھوںنے آمادگی ظاہر نہیںکی، لیکن پھر اس شرط پرتیار ہوگئے کہ ان کی لڑکی کا نکاح میں اپنے لڑکے سے کردوں ۔ اس سلسلے میں مَیں نے اپنے بعضـ دوستوں سے مشورہ کیا توایک صاحب نے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی شادیوں سے منع فرمایا ہے ۔ براہِ کرم وضاحت فرمائیں کہ کیا ایسی شادی اسلامی شریعت کی رُو سے جائز نہیں ہے؟
ج: عہد ِ جاہلیت میں نکاح کا ایک طریقہ یہ رائج تھا کہ آدمی دوسرے سے کہتا تھا:تم اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح مجھ سے کردو ، میں اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح تم سے کردوںگا اور دونوں کا مہر معاف ہوجائے گا۔ اسے نکاحِ شغار کہاجاتا تھا ۔ اللہ کے رسولؐ نے اس طریقۂ نکاح سے منع فرمایا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع کیا ہے‘‘۔دوسری روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : ’’اسلام میں شغار جائز نہیں ہے ‘‘۔ بعضـ روایات میں شغار کا مطلب بھی بتایا گیا ہے:’’شغار یہ ہے کہ آدمی اپنی بیٹی سے دوسرے آدمی کا نکاح (اس شرط پر )کردے کہ دوسرا اپنی بیٹی سے اس کا نکاح کردے اوران میں سے کسی کے ذمے اپنی بیوی کا مہر نہ ہو‘‘۔
یہ حدیث بخاری (۵۱۱۲، ۶۹۶۰)مسلم (۱۴۱۵)کے علاوہ ابوداؤد، ترمذی، نسائی ، ابن ماجہ، احمد، بیہقی اور دیگر کتبِ حدیث میں مروی ہے ۔ محدثین کے نزدیک شغار کی یہ تشریح حضرت ابن عمرؓ کے آزاد کردہ غلام نافع نے کی ہے ۔علامہ شوکانی نے نکاح شغار کی دو علّتیں قرار دی ہیں:ایک یہ کہ اس میں ہر لڑکی کوحقِ مہر سے محروم کردیا جاتا ہے ۔ دوسری یہ کہ اس میں ہر نکاح دوسرے نکاح سے مشروط اوراس پر موقوف ہوتا ہے ۔ (نیل الاوطار)
اگراس طریقۂ نکاح میں دونوں لڑکیوں کا مہر تو مقرر کیا گیا ہو، لیکن دونوں نکاح ایک دوسرے سے مشروط اورمعلّق ہوں توبھی وہ ناجائز ہوں گے۔روایات میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے بیٹے عباس نے عبدالرحمن بن الحکم کی لڑکی سے اورعبدالرحمن نے عباس بن عبداللہ کی لڑکی سے نکاح کیا اور دونوں لڑکیوں کا مہر بھی مقرر کیا گیا ، لیکن حضرت معاویہ ؓ کواس نکاح کی خبر پہنچی توانھوں نے مدینہ کے گورنر حضرت مروانؒ کولکھا کہ اس نکاح کوفسخ کردیا جائے ، اس لیے کہ یہ وہی نکاحِ شغار ہے ، جس سے اللہ کے رسول ؐنے منع فرمایا ہے ۔(ابوداؤد: ۲۰۷۵)
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے نکاح شغار کی تین صورتیں بتائی ہیں اورتینوں کو ناجائز قرار دیا ہے۔ایک یہ کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو اس شرط پر اپنی لڑکی دے کہ وہ اس کوبدلے میں اپنی لڑکی دے گا اوران میں سے ہر ایک لڑکی دوسری لڑکی کا مہر قرار پائے ۔دوسرے یہ کہ شرط تووہی ادلے بدلے کی ہو، مگر دونوں کے برابر مہر(مثلاً ۵۰،۵۰ ہزار روپیہ )مقرر کیے جائیں اورمحض فرضی طورپر فریقین میں ان مساوی رقموں کا تبادلہ کیا جائے اوردونوں لڑکیوں کوعملاً ایک پیسہ بھی نہ ملے ۔ تیسرے یہ کہ ادلے بدلے کا معاملہ فریقین میں صرف زبانی طور پر ہی طے نہ ہو ، بلکہ ایک لڑکی کے نکاح میں دوسری لڑکی کا نکاح شرط کے طور پر شامل ہو۔(رسائل ومسائل،دوم، ص۲۰۲)
بدلے کی شادیوں میں عموماً تلخی اورناخوش گوار ی کا اندیشہ رہتا ہے اوردونوں خاندانوں پر خانہ بربادی کی تلوار ہمیشہ لٹکتی رہتی ہے ۔ اگرایک خاندان میں شوہر نے جایا بے جابیوی کی پٹائی کردی یا دونوں کے درمیان تعلق میں خوش گواری باقی نہیں رہی یا اس نے طلاق دے دی تو دوسرے خاندان میں لڑکے پر اس کے والدین یا دوسرے رشتے دار دباو ڈالیں گے کہ وہ بھی لازماً وہی طرزِعمل اپنی بیوی کے ساتھ اختیار کرے۔ تاہم، اگر دونوں رشتوں کی مستقل حیثیت ہو، دونوں لڑکیوں کا مہر طے کیا جائے اوران کوادا کیا جائے اورایک رشتہ کسی بھی حیثیت میں دوسرے رشتے کو متاثر کرنے والا نہ ہو تو ایسے رشتوں میں کوئی حرج نہیں ہے۔(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)
س : ایک صاحب نے مجھے ۵۰ ہزار روپے یہ کہہ کر دیے کہ اسے ضرورت مندوں میں تقسیم کردوں۔ ہوایہ کہ مجھے کچھ روپیوں کی بہت سخت ضرورت پیش آگئی۔ چنانچہ میں نے اس میں سے ۲۰ہزار روپے استعمال کرلیے اور سوچاکہ جب میرے پاس پیسوں کاانتظام ہوجائے گا تو اس رقم کو بھی ضرورت مندوں میں تقسیم کردوں گا۔ ذاتی استعمال کے لیے میں نے ان صاحب سے اجازت حاصل نہیں کی، بلکہ ان کو بتائے بغیر بطور قرض اسے استعمال کرلیا۔ کیامیرے لیے ایسا کرنے کی گنجایش تھی یا میں نے غلط کیا؟
ج:آدمی اپنا مال ضرورت مندوں میں خود بھی تقسیم کرسکتاہے اور کسی دوسرے کو بھی یہ ذمہ داری دے سکتاہے ۔ جو شخص یہ ذمہ داری قبول کرلے اسے پوری امانت و دیانت کے ساتھ اسے انجام دینا چاہیے۔ جس شخص کو مذکورہ مال تقسیم کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے ، اس کے پاس یہ مال امانت ہے۔ اس کے مالک کی اجازت کے بغیر اس میں ادنیٰ سا تصرف بھی اس کے لیے جائز نہیں ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ صاحبِ مال نے جن کاموں میں خرچ کرنے یا جن افراد کو دینے کی صراحت کی ہو، انھی میں مال خرچ کیاجائے۔ ذمہ داری لینے والے کو اپنے طورپر فیصلہ کرنے اور مدّات میں تبدیلی کرنے کاحق نہیں ہے ۔
اسی طرح اگر وہ ذمہ دار اس مال کومستحقین تک پہنچانے میں ٹال مٹول سے کام لے یا بلاوجہ تاخیر کرے تو یہ بھی خیانت ہے۔ وہ مال کا کچھ حصہ اپنے ذاتی کام میں استعمال کرلے، پھر کچھ عرصے کے بعد اس کے پاس مال آجائے تو اسے بھی ضرورت مندوں میںتقسیم کردے۔ اس صورت میں وہ مال میںخیانت کرنے کامرتکب تو نہ ہوگا، لیکن بغیر صاحب ِ مال کی اجازت کے ، مستحقین تک اس کے پہنچانے میں تاخیر کرنے کا قصور وار ہوگا۔ اس لیے ایسا کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اب اگر ایسی کوتاہی ہوگئی ہے تواستغفار اور آیندہ احتیاط کا عہد کرنا چاہیے۔(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)
سوال: میری شادی کو ۲۲برس کاعرصہ گزر چکا ہے۔ میں کافی عرصے سے ملازمت سے وابستہ ہوں، جب کہ میرے شوہر کو ملازمت ملنے میں بہت سال لگے۔ اس کے باوجود میرے شوہر نے میری تنخواہ اپنے ہاتھ میں رکھی اور اس سے اپنے نام پر جایداد خریدتے گئے کہ: ’’یہ سب کچھ تمھارا ہی تو ہے۔‘‘ مزاج کے اعتبار سے سخت مزاج، غصیلے اور بات بات پر بھڑک اٹھنے والی طبیعت کے مالک ہیں، اس لیے خوف کے مارے مجھے بار بار خاموشی اختیار کرنا پڑتی ہے۔بچوں کے ساتھ بھی بہت سخت رویہ ہے اور انھیں بری طرح پیٹتے ہیں۔ جب نوکری مل گئی تو ان کی جارحیت میں اور بھی زیادہ اضافہ ہو گیا۔ میرے وسائل سے حاصل کردہ جایداد کروڑوں میں پہنچ گئی ہے تو وہ اب مجھے آنکھیں دکھانے لگے ہیں۔ گالیاں دیتے ہیں، مارپیٹ بھی کرتے ہیں، اور طلاق کی برملا دھمکیاں دیتے ہیں۔ میں یہ سب کچھ اس وجہ سے برداشت کرتی رہی ہوں کہ اگر میرا خاوند ناراض ہو گیا تو میری عبادت قبول نہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ناراض ہو جائے گا۔ ظلم اور بچوں پر تشدد صرف اسی ڈر سے برداشت کیا ہے۔ یہ خیال بھی آیا کہ اس رویے سے تنگ آکر خودکشی کر لوں۔
سوال یہ ہے کہ کسی مذہبی اسکالر نے یہ کیوں نہیں بتایا کہ بیوی کے ساتھ بدسلوکی کرنے والا شوہر اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہوگا۔ ہمیشہ عورت ہی کو کیوں ڈرایا جاتا ہے؟ سوچتی ہوں کاش! میرا باپ مجھے پیدا ہوتے ہی دفن کر دیتا تو شوہر کے اتنے ظلم سہنے سے تو بہتر ہوتا!
جواب:اسلام کے خاندانی نظام میں سربراہ خاندان کو سربراہ ہونے کی وجہ سے ایک درجہ فضیلت دی گئی ہے۔ اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَائِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ ط (النسائ۴:۳۴)’’مرد عورتوں پر قوام ہیںاس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔‘‘اس آیت مبارکہ میں فضیلت مطلق نہیں ہے بلکہ مشروط ہے اور سربراہی کے منصب سے براہ راست متعلق ہے۔ اگر شوہر مطلقاً افضل ہوتا تو قرآن کریم یہ بات نہ کہتا کہ وَلہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہَنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (البقرہ۲:۲۲۸)، یعنی عورتوں کے حقوق مردوں کے ذمے ایسے ہی واجب ہیں جیسے مردوں کے حقوق عورتوں کے ذمے ہیں ۔حقوق میں مساوات کا واضح مفہوم یہی ہے کہ ایک کو دوسرے پر مستقلاً فوقیت حاصل نہیں ہے۔ ایک بیوی علم، تقویٰ، حسن اور مال میں شوہر سے افضل ہو سکتی ہے، لیکن اس فضیلت کے باوجود مرد کی قوامیت برقرار رہے گی کیوںکہ وہ گھر کی ذمہ داری کی بناپر تمام حقوق میں مساوات کے باوجود ایک درجہ فوقیت رکھتا ہے۔
مسلم معاشروں میں غیر مسلم رسوم و رواج سے متاثر ہونے کی بناپر ایسی بہت سی باتیں صدیوں سے شامل ہو گئی ہیں جن کو ختم کرنے کے لیے اسلام آیا تھا۔ قوام،قیام، قیم عربی زبان میں اس فرد کے لیے استعمال ہوتا ہے جسے کسی نظام یا ادارے کا سربراہ اور منتظم بنا دیا گیا ہو۔ مرد کو خاندان میں یہ مقام معروف وجوہات کی بنا پر دیا گیا ہے کہ وہ گھر کے افراد کے لیے نفقہ اور تحفظ کا ذمہ دار ہے۔ یہ کیسے ہوتا کہ مردبیوی اور بچوں کی حفاظت ، غذا، لباس، مکان، صحت کے لیے ذمہ دار بھی ہوتا اور اسے گھر میں کوئی اختیار بھی نہ دیا جاتا۔ اس لیے عدل کا تقاضا تھا کہ مرد کو ایک درجہ اختیار ہو اور گھر کے انتظامی معاملات مشاورت کے بعد اس کی سربراہی میں طے پائیں۔ البقرہ میں اس پہلو کو یہ ہدایت دے کر واضح کر دیا گیا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْہَمَا وَ تَشَاوُرٍ (البقرہ ۲:۲۳۳) ’’لیکن اگر فریقین باہمی رضا مندی اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو ایسا کرنے میں مضائقہ نہیں‘‘۔ یہاں بھی یہ بات صاف نظر آرہی ہے کہ بیوی کا مشورہ شامل کرنے کے بعد کوئی فیصلہ ہو۔ مطلق العنانی، لامحدود اختیارات اور آمریت کو اسلام نے کسی معاملے میں بھی پسند نہیں کیا ہے۔ خلیفۂ وقت بھی مشاورت کا پابند ہے۔ اس سے آزاد نہیں ہے۔
قرآن کریم اور سنت مطہرہ نے گھر کے نظام کو عدل اور توازن و اعتدال کے ساتھ چلانے کے لیے شوہر اور بیوی کو یکساں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے پر متوجہ کیا ہے۔ اس لیے نام نہاد مردانگی کے نام پر دھونس اور چودھراہٹ اسلام کی تعلیم کا حصہ نہیں ہے۔ یہاں پر بھلائی میں تعاون اور ہر برائی میں عدم تعاون کا اصول کارفرما ہے۔ اسلام میں فضیلت اس خاوند کے لیے ہے جو خدا سے ڈر کر معاملات کرتا ہو۔ جہاں تک شوہر کے حقوق کا تعلق ہے، وہ ایسے شوہر کے حقوق ہیں جو عادل ہو، ظلم نہ کرتا ہو۔ظالم شوہر کو خدا کے ہاں اپنے رویے کی بنا پر جواب دہی کا سامنا کرنا ہوگا۔
آپ نے جس مسئلے کی طرف توجہ دلائی ہے، وہ اس لحاظ سے غیر معمولی طور پر اہم ہے کہ اسلام میں نظامِ خاندان کا تحفظ دین کے مقاصد کے حصول کے لیے ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس لیے ہر وہ کوشش جو خاندان کو یکجا اور مربوط رکھ سکے، اسے کرنا ایک فریضہ ہے۔ اسلام میں طلاق یا خلع دونوں کی گنجایش رکھی گئی ہے۔ تاہم، اس سے پہلے خود ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر اصلاح کی کوشش، اور اگر انفرادی کوشش کامیاب نہ ہو تو دونوں جانب سے ایک ایک قریبی رشتہ دار بطور ’حکم‘ کے بیٹھ کر معاملے کا جائزہ لے، مصالحت کی کوشش کرے اور دیانت داری کے ساتھ بغیر کسی جانب داری کے خاندان کے حق میں جو بہتر ہو وہ فیصلہ کرے۔ یہ فیصلہ شوہر اور بیوی دونوں کو ماننا لازم ہوگا۔
آپ کے شوہر کا زبان اور ہاتھ کا غلط استعمال کرنا انتہائی افسوس ناک فعل ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں ہدایت دے اور آپ کے صبر و استقامت پر آپ کو اعلیٰ اجر دے۔ جب تک آپ کے شوہر بے روزگار تھے، آپ کا ملازمت کرنا اور گھر کے اخراجات اٹھانا ایک صدقہ ہے اور اس کا احساس شوہر کو لازماً ہونا چاہیے۔ اگر شوہر کو یہ احساس نہیں ہے تو کم از کم اللہ سبحانہ تعالیٰ، جو ہر بات سے باخبر ہے، وہ ان شاء اللہ آپ کو اس کا عظیم اجر دے گا۔ زندگی محض اس دنیا میں نہیں ہے، اصل زندگی تو آخرت کی ہے اور جس کی زندگی وہاں کامیاب ہو گئی، وہی اصل میں کامیاب ہے۔ شوہر کو ملازمت ملنے کے بعد آپ کا اور بچوں کا خرچ خود اٹھانا چاہیے تھا اور ان کے والدین و اقربا کا یہ فرض تھا کہ انھیں اس طرف بار بار متوجہ کرتے۔ شرعاً وہ تمام دولت جو آپ نے ملازمت کرکے حاصل کی اور شوہر نے اپنے نام سے جایداد وغیرہ کے لیے استعمال کی، آپ کی ملکیت ہے۔ آپ کو پورا اختیار ہے کہ اسے آپ خوشی سے جس کو چاہیں دیں۔ شوہر شرعاً اس پر قابض نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ بغیر کسی دبائو کے اپنی خوشی سے شوہر کو دے دیں تو اس کے لیے آپ کو پورا اختیار ہے۔
آپ کے شوہر کا طرز عمل کسی بھی پہلو سے مناسب نہیں۔ انھیں تو آپ کا احسان مند ہونا چاہیے کہ آپ نے ان کی ذمہ داریوں کو رضاکارانہ طور پر پورا کیا۔ ہمارے معاشرے میں بہت سی ایسی باتیں رواج پا گئی ہیں جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ مرد کی ہر معاملے میں فوقیت اس میں سے ایک ہے۔ آپ نے آج تک جس صبرو تحمل کے ساتھ اپنے فرائض سے زیادہ حق ادا کیا ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا بہترین اجر ضرور دے گا۔ مشکلات اور شوہر کے غلط رویے سے تنگ آکر خودکشی کا تصور کرنا اسلام کی تعلیمات میں حرا م ہے اور یقینا اللہ سے محبت کرنے والی مسلمان بیوی کے لیے اس غلط کام کے بارے میں سوچنا بھی درست نہیں۔ ہاں، اسلام نے لازماً آپ کو خلع کا حق دیا ہے لیکن افضل یہی ہے کہ خاندان کے بڑے آپ کے شوہر کو سمجھائیںکہ ان کی سختی اور خصوصاً ہاتھ کا استعمال سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے منافی ہے۔ اگر وہ آخرت میں کامیابی چاہتے ہیں تو انھیں اپنے اس خلاف سنت طرز عمل کو بدلنا ہوگا۔ نبی کریمؐ کا رویہ اپنے گھر والوں سے انتہائی احترام و محبت کا تھا۔ آپ نے کبھی اپنے خادم پر بھی ہاتھ نہیں اٹھایا، حتی کہ خادم کو سخت سست بھی نہیں کہا۔ شوہر کا اپنی بیوی کے لیے سخت زبان استعمال کرنا ، غصے کا اظہار کرنا اسلام کی بنیادی تعلیمات کے منافی ہے۔
بچوں کے مستقبل کے پیش نظر آپ جو عظیم قربانی دے رہی ہیں اللہ تعالیٰ یقینا اس پر آپ کو بہترین اجر دیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں کے قلب تبدیل کر سکتے ہیں۔ وہ علیم و خبیر ہے اور ان شا ء اللہ آپ کے شوہر کے دل کو تبدیل کرے گا۔ جہاں تک ممکن ہو، گھر کے بزرگوں کو درمیان میں لا کر اصلاح کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو گھر کا سکون اور امن دے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
س: محکمہ تعلیم حکومت ِ پنجاب نے یہ پالیسی اختیار کی ہے کہ اسکولوں کی سطح پر جن اساتذہ کا رزلٹ مطلوبہ معیار سے کم ہوگا، انھیں سزا دی جائے گی اس سزا سے بچنے کے لیے اکثر و بیش تر اساتذہ یہ طریقے اختیار کر رہے ہیں:
۱- امتحان میں ہر ذریعے سے بھرپور نقل کروائی جاتی ہے۔۲- پیپرز جن جن سنٹرز پر چیکنگ کے لیے جاتے ہیں وہاں رابطہ کر کے اپنے نتائج ٹھیک کرا لیے جاتے ہیں۔ ۳-سائنس کے عملی امتحانات میں ممتحن کی خدمت کر کے مرضی کے فرضی نمبر لگوا لیے جاتے ہیں۔ ۴- اس سب کچھ کے باوجود اگر رزلٹ پھر بھی خراب آئے تو محض اپنے بچائو کی خاطر تعلیمی دفاتر میں رشوت اور اثرورسوخ سے اپنا نام لسٹ سے نکلوا کر سزا سے بچ جاتے ہیں۔
درج بالا اُمور میں جو اخراجات بطور رشوت کیے جاتے ہیں، سفارش کرائی جاتی ہے اوردیگر ناجائز ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں کیا وہ جائز ہیں؟ جب کہ بعض عالم فاضل، امام اور خطیب اساتذہ کرام فرماتے ہیں کہ یہ کوئی دینی مسئلہ نہیں بلکہ حکومت کا بنایا ہوا ایک قانون ہے۔ اس پر عمل پیرا ہونا فرض نہیں۔ لہٰذا اپنی سروس اور عزت کو حکومتی عتاب اور سزائوں سے بچانے کے لیے یہ تمام اعمال بالکل درست اور جائز ہیں۔ ہم تو نیکی کا کام کر رہے ہیں کہ بچوں کو نقل لگوا کر ہی سہی کسی طرح تو پاس کروا کے نوکریوں کے قابل بنارہے ہیں۔ براہِ کرم اس معاملے کی قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔
ج: ناجائز کام ناجائز ہے۔ وہ کسی مصلحت سے جائز نہیں ہوسکتا خصوصاً جب مصلحت بھی ناجائز ہو۔ امتحان اس لیے لیا جاتا ہے کہ طالب علم کی قابلیت کا پتا چلایا جائے۔ اس لیے اگر طالب علم فیل ہو تو اسے پاس کرنا ناجائز ہے۔ اگر تھوڑے نمبروں سے پاس ہو تو زیادہ نمبر دینا امانت و دیانت کے خلاف ہے۔ نیز نتیجہ شہادت ہے اور جھوٹی شہادت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی ناپسند فرمایا۔ آپ نے فرمایا: اَلَا الشَّہَادَۃُ الزّور،خبردار جھوٹی گواہی سے بچو۔ جو علما و خطبا اسے ایک دنیاوی کام قرار دے کر اسے جائز قرار دے رہے ہیں،وہ نام نہاد علما و خطبا ہیں، ان کا علم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انھیں تدریس اور امامت و خطابت کے منصب سے معزول کر دینا لازم ہے۔ جھوٹا اور بددیانت شخص منصب امامت کا مستحق نہیں ہے۔ عام طو ر پر تو عوام جھوٹ بولنے والوں کو علما نہیں سمجھتے اور انھیں امام نہیں بناتے۔ پتا نہیں آپ کے علاقے میں ایسا کیوں ہوگیا ہے۔ مفتیانِ کرام نے امتحان کے نتیجے اور سند کو شہادت قرار دیا ہے اور غلط نتیجہ اور سند کو جھوٹی گواہی قرار دیا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِذَا وُسِّدَ الْاَمْرُ اِلٰی غَیْرِ اَھْلِہٖ فَانْتَظِرِالسَّاعَۃَ (بخاری) ’’جب کام نااہل کے سپرد کیا جائے تو قیامت کا انتظار کرو‘‘۔
سرٹیفیکیٹ کسی نااہل کو دیا جائے تو حالات بگڑ جائیں گے، جس طرح قربِ قیامت میں حالات بگڑیں گے اسی طرح کے حالات ہوجائیں گے۔ آج اسی وجہ سے حالات خراب ہیں۔ واللّٰہ اعلم۔(مولانا عبد المالک)
س : مولانامحمد یوسف اصلاحی نے حضرت عائشہ صدیقہؓ سے منسوب ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے ’رسائل و مسائل‘ (جنوری ۲۰۱۶ئ) کے تحت بعنوان ’خاوند کے مال میں بیوی کا حصہ‘ لکھا ہے کہ بیوی بعض حالات میں شوہر کا مال اس کی لاعلمی میں بھی خرچ کرسکتی ہے اور اس خرچ کی اسے شوہر کو تفصیل بتانا بھی ضروری نہیں ہے۔ نہ اسے چوری کہا جائے گا۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے میں ’معروف‘ کی شرط لگائی ہے۔ معروف کی شرط پوری ہونے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ بیوی شوہر کو دلیل سے یا محبت سے یا بچوں کا واسطہ دے کر اسے خرچ دینے پر قائل کر کے اسے کہے کہ وہ اس کے مال سے بوقت ِ ضرورت بغیر بتائے کچھ لے لیا کرے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مال میں سے اس کی غیر موجودگی میں کچھ لینے کے بعد اُسے بتائے ورنہ اس کا فعل سرقہ ہی شمار ہوگا۔ لہٰذا یہ استنباط صحیح نہیں ہے۔
ج:حضرت عائشہؓ کی حدیث سے مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب نے جو مسئلہ مستنبط کیا ہے وہ درست ہے۔ ایک بخیل اور کنجوس شوہر سے اپنا حق لینا اس کے علم کے بغیر بھی جائز ہے جب کہ وہ معروف کی حد میں ہو۔ اگر شوہر کے مال میں سے کوئی بڑی رقم یا بڑی چیز ہوجس کا عرف میں بغیر اجازت لینا صحیح نہ ہو تو اسے شوہر کی اجازت سے لیا جائے گا۔ کوئی بیوی بغیر اجازت ایسا کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ حضرت ابوسفیان کی بیوی ہندہ نے روز مرہ خرچ کے بارے میں سوال کیا تھا۔ اس کا جواب دوسری بیویوں کے لیے بھی وہی ہے بشرطیکہ شوہر روز مرہ کا خرچ بھی خوش دلی سے دینے کے لیے تیار نہ ہو۔
احادیث سے شارح حدیث نے جو مسائل مستنبط کیے ہوں، پہلے ایک آدمی کو ان کا علم حاصل کرنا چاہیے اس کے بعد مزید استنباط کا سوچنا چاہیے۔ شوہر جو کمائی کرتا ہے اس میں بیوی اور بچوں کا بھی حصہ ہوتا ہے۔ اگر وہ خوش دلی سے نہ دینا چاہے تو بیوی اپنا اور اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کا حق زبردستی بھی لے سکتی ہے اور شوہر کے علم میں لائے بغیر بھی لے سکتی ہے۔ (مولانا عبد المالک)
سوال: اکثر لوگ عورتوں کے گھر سے باہر نکلنے (دین کی خاطر) کے خلاف اس واقعے کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ ’’حضرت عائشہؓ نے جنگ ِ جمل میں شرکت کی تھی‘‘۔ درحقیقت یہ سازش کا نتیجہ تھا۔ سازشیوں نے حضرت علیؓ اور حضرت عائشہؓ کے مابین معاہدہ واپسی و صلح کی سن گن لیتے ہی وہ صورتِ حال پیدا کی، کہ نتیجتاً جنگ میں مسلمانوں کا دونوں اطراف سے کافی نقصان ہوا تھا۔ حضرت عائشہؓ اگر قتلِ عثمانؓ کے قصاص کا مطالبہ نہ کرتیں اور جنگ کا علَم بلند کرکے گھر سے نہ نکلتیں تو دنیا میں ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے کی روایت قائم نہ ہوتی، جو اس عزم و ہمت کی پیکر خاتون نے اپنے عمل سے قائم کر دی۔ اس کے باوجود وہ اس اقدام کو یاد کر کے کیوں روتی اور نادم ہوتی تھیں؟ کیا یہ قدم اُٹھانا اور قصاص کا مطالبہ کرنا غلط فیصلہ تھا؟ حضرت عائشہؓ جیسی عالمہ و فقیہہ سے کیا یہ اُمید کی جاسکتی تھی کہ وہ ایک ایسا قدم اُٹھا بیٹھیں جس کی ضرورت اس وقت نہیں تھی؟
جواب:بعض مسائل ایسے ہوتے ہیں جو بڑے بڑے علما کو چکرا دیتے ہیں۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت اتنا بڑا حادثہ تھا کہ بقول حضرت عبداللہ بن عمرؓ، اس شہادت پر اُحد پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہوجاتا تو کم تھا۔ جن باغیوں (خوارج) نے انھیں شہید کیا تھا، وہ بہت منظم اور بہت طاقت ور تھے اور انھیں کسی بھی مقدس جگہ، مقدس وقت اور مقدس شخصیت کی پروا نہ تھی۔ اس لیے کہ ان کا مشن خلافت ِ راشدہ کے نظام کو درہم برہم کرنا تھا۔ اس کے مقابلے میں حضرت عثمانؓ کسی ایسے اقدام سے دُور رہنا چاہتے تھے جس سے مدینہ اور اہلِ مدینہ کی حُرمت پامال ہو اور باغیوں میں سے کوئی فرد قتل ہوجائے۔ اسی طرح حضرت علیؓ اور دوسری ہستیاں بھی کسی قسم کی فوج کشی کے قائل نہ تھیں۔ نتیجتاً باغیوں نے حضرت عثمانؓ کو شہید کر دیا۔
اس شہادت نے نہ صرف حضرت عائشہؓ، حضرت معاویہؓ بلکہ حضرت علیؓ اور تمام صحابہ کرام ؓکو غم زدہ کر دیا۔ سب کی دلی خواہش تھی کہ حضرت عثمانؓ کا قصاص لیا جائے، لیکن خوارج حضرت علیؓ کی فوج میں شامل ہوگئے اور ابھی تک منظم اور طاقت ور تھے۔ حضرت عائشہؓ اور حضرت معاویہؓ حضرت علیؓ سے خونِ عثمانؓ کے قصاص کا مطالبہ کر رہے تھے اور حضرت علیؓ بجا طور پر اپنی خلافت کو مضبوط کرکے قصاص لینا چاہتے تھے اور فوری طور پر اس قابل نہ تھے کہ باغیوں سے قصاص لے سکیں۔ دونوں کا اس معاملے میں بنیادی اختلاف نہ تھا بلکہ وقت کے تعین میں اختلاف تھا۔ جہاں تک حضرت عائشہؓ کی پریشانی کا تعلق ہے تو اس کا سبب ان کا تقویٰ اور پرہیزگاری ہے۔ اس طرح کے پیچیدہ مسائل میں حضرت عائشہؓ اور تمام صحابہؓ اور صحابیاتؓ کا مزاج یہ ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر ایک فیصلہ کرتے ہیں اور اس پر عمل بھی کر گزرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ان پر اللہ تعالیٰ کی خشیت کا اس قدر غلبہ ہوتا ہے کہ اپنے صحیح اقدام پر بھی پریشان ہوتے ہیں اور استغفار کرتے ہیں۔ حضرت عائشہؓ غلبۂ خشیت کی وجہ سے سمجھتی تھیں کہ وہ وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ (اَحزاب ۳۳:۳۳)’’اور تم اپنے گھروں میں ٹکی رہو‘‘ کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ہیں، حالاںکہ انھوں نے اس حکم کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی تھی۔
ضرورت اور حاجت کے موقع پر خاتون باہر نکل سکتی ہے اور جنگ میں بھی جاسکتی ہے۔ حضرت عائشہؓ غزوئہ اُحد میں بھی آپؐکے ساتھ تھیں۔ وہ غزوئہ مریسیع جسے غزوئہ بنی المصطلق بھی کہا جاتا ہے، میں بھی آپؐ کے ساتھ تھیں اور رات کو پڑائو کے وقت ہار گم ہوجانے کے سبب لشکر سے پیچھے رہ گئی تھیں۔ بعد میں صفوان بن المعطلؓ اپنے اُونت پر انھیں سوار کر کے لائے تھے۔ صفوان نے حضرت عائشہؓ سے نہ سلام کیا نہ کلام، بلکہ اُونٹ بٹھایا تو وہ اس پر سوار ہوگئیں اور پھر وہ اپنے اُونٹ کی باگ پکڑے لے کر آئے تھے۔ اس کے سبب عبداللہ بن ابی نے ان پر تہمت لگائی اور بعض مخلص صحابہ کو دھوکے اور چالاکی سے اپنے ساتھ ملالیا۔ اس بہتان کو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے کلام سے رد کیا۔ جب آیت وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ نازل ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بذریعہ وحی یہ حکم بھی نازل ہوا تھا: قد اذن لکن ان تخرجین لحاجتکن ’’تمھیں اجازت دی گئی ہے کہ تم اپنی حاجت اور ضرورت کے لیے باہر نکلو‘‘(بخاری، کتاب التفسیر، سورئہ احزاب، الجزئ۱۹، ص۷۰۷)۔ اس لیے ان کی پریشانی اس سبب سے نہیں تھی کہ ان کا نکلنا جائز نہ تھا بلکہ غلبۂ خشیت کی وجہ سے تھا اور جو کچھ ہوا اس پر ندامت کا اظہار تھا۔
جہاں تک باہمی جنگ اور اختلاف کا تعلق ہے تو وہ ختم ہوگیا تھا لیکن سازشیوں نے اسے ناکام بنا دیا۔ جہاں تک مسئلے کا تعلق ہے تو وہ واضح ہے۔ غزوات میں خواتین گئی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دُعا کروا کر آپؐ کی اجازت سے، آپؐ کے دور میں، آپؐ کے ساتھ اور آپؐ کے وصال کے بعد بھی گئی ہیں، جیساکہ اُم حرام بنت ملحان جو حضرت عبادہ بن صامت کی بیوی تھیں غزوۃ الروم میں گئیں اور واپسی پر جب شام کے ساحل پر اُترنے کے بعد اپنی اُونٹنی پر سوار ہوئیں تو اُونٹنی نے انھیں گرا دیا اور ان کی گردن ٹوٹ گئی جس کے نتیجے میں وہ شہید ہوگئیں۔ فقہا نے کہا ہے کہ اس طرح کے اختلافی مسائل اورجنگوں کے بارے میں بلاضرورت بحث نہ کی جائے۔ جن اکابر نے بحث کی ہے انھوں نے احتیاط کے ساتھ بعض مسائل کی تشریح کی خاطر بحث کی ہے، بلاوجہ ایک فریق کی حمایت اور دوسرے کی مخالفت ان کے پیش نظر نہ تھی۔ جو لوگ صحابہ کرامؓ اور ازواجِ مطہراتؓ پر طعن و تشنیع کے لیے بحث کریں، کسی کی مدح اور کسی کی مذمت کریں، وہ مجرم ہیں۔ ایسے لوگ شرعاً تعزیری سزا کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں راہِ راست پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!(مولانا عبدالمالک)
س : میرا ایک بیٹااور دوبیٹیاں ہیں ۔سب کی شادی ہوگئی ہے ۔ میں ملازمت کے سلسلے میں گھر سے باہر رہتا ہوں ۔ گھر میں میری اہلیہ، بیٹے اوربہو کے ساتھ رہتی ہیں۔ میر ا گھر دو منزلوں پر مشتمل ہے۔ البتہ گھر میں داخل ہونے کا مرکزی دروازہ ایک ہی ہے۔ مزاجی اختلافات کی وجہ سے میری اہلیہ اوربہو میں ہم آہنگی نہیں ہے ۔ اس بنا پر بہو اور اس کے میکے والوں کا پُراصرار مطالبہ ہے کہ اسے سسرالی گھر سے دور الگ سے رہایش فراہم کی جائے ۔ وہ ساس کے ساتھ نہیں رہ سکتی ۔ الگ سکونت کا مطالبہ لڑکی کا شرعی حق ہے۔
براہِ کرم وـضاحت فرمائیں کہ کیا ایسا گھر، جو والدین اوربیٹے بہوپر مشتمل ہو، غیر اسلامی مشترکہ خاندان کی تعریف میں آتا ہے ؟ اگر ساس بالائی منزل پر رہنے والے بیٹے بہو کے معاملات میں دخل اندازی نہ کرے ، پھر بھی بہو کی جانب سے علیحدہ سکونت کا مطالبہ کرنا شرعی اعتبار سے درست ہے ؟
ج: نکاح کے بعد لڑکی اپنے ماں باپ، بھائی بہنوں کوچھوڑ کر نئے گھر میں منتقل ہوتی ہے تو اسے شوہر کے ساتھ ساس سُسر، نندوں اوردیوروں کی شکل میں دوسرے رشتے دار مل جاتے ہیں۔ لڑکی اگر انھیں ماں باپ، بھائی بہن کی حیثیت دے اوروہ لوگ بھی اس کے ساتھ پیار محبت کا معاملہ رکھیں تو گھر میں خوشی ومحبت کی بہار آجاتی ہے۔ تاہم، اگر رشتوں کی پاس داری نہ کی جائے، ایک دوسرے کے حقوق کا خیال نہ رکھا جائے اوربدگمانیاں پر وان چڑھنے لگیں تو گھر جہنم کدہ بن جاتا ہے۔
دلہن کا حق ہے کہ اسے ایسی رہایش فراہم کی جائے، جس میں اس کی نجی زندگی (پرائیویسی) متاثر نہ ہو۔ اس کی مملوکہ چیزیں اس کی ملکیت میں ہوں اوران میں آزادانہ تصرف کا اسے حق حاصل ہو ۔یہ چیز مشترکہ مکان کا ایک حصہ مخصوص کرکے بھی حاصل ہوسکتی ہے ۔ اس کے لیے شوہر کے آبائی مکان سے دُور الگ سے رہایش فراہم کرنے پر اصرار نہ دلہن کی طرف سے درست ہے، نہ دلہن کے ماں باپ کی طرف سے مناسب ہے۔
ساس سسر کی خدمت قانونی طور پر دلہن کے ذمے نہیں ہے ، لیکن اخلاقی طور پر پسندیدہ ضرور ہے ۔ وہ شوہر کے ماں باپ ہیں۔ وہ ان کی خدمت کرے گی توشوہر کوخوشی ہوگی۔ کیا نیک بیوی اپنے شوہر کوخوش رکھنا نہیں چاہے گی ؟ بہر حال اگر مزاجی اختلاف کی وجہ سے دلہن شوہر کے ماں باپ کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی تواسے مجبور نہیں کیا جاسکتا ۔
آپ نے جوصورت لکھی ہے کہ شوہر کے آبائی مکان کی بالائی منزل علیحدہ بلاک کی حیثیت رکھتی ہے ، صرف باب الداخلہ ایک ہی ہے۔ اس صورت میں اگر دلہن الگ رہنے پر بضد ہے توبالائی منزل اس کے لیے خاص کردینے سے اس کا قانونی حق پورا ہوجاتا ہے ۔ اس کی طرف سے یا اس کے والدین کی طرف سے الگ رہایش فراہم کرنے کا مطالبہ درست نہیں ہے ۔ ہمیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے اوررشتوں کوپامال کرنے سے متعلق جووعیدیں قرآن و حد یث میں آئی ہیں انھیں پیش نظر رکھنا چاہیے۔(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)
س: میرے لڑکے کی عمر۲۵ سال ہے ۔ میں اب اس کا نکاح کردینا چاہتا ہوں ۔ لیکن اس کا اصرار ہے کہ میں اپنی تعلیم مکمل ہوجانے اور کہیں ملازمت حاصل کرلینے کے بعد ہی نکاح کروںگا۔ میر ا اندازہ ہے کہ ابھی اس کے برسرِ روز گار ہونے میں کم از کم چار پانچ سال اورلگ جائیں گے۔ اس بنا پر میں اُلجھن کاشکار ہوں۔ براہِ کرم میری راہ نمائی فرمائیں ۔ میری سوچ درست ہے یا میرے لڑکے کی بات میں وزن ہے؟
ج: اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ لڑکی یا لڑکے کی بلوغت کے بعد ان کے نکاح میں زیادہ تاخیر نہ کی جائے ۔ ہر انسان میں جنسی جذبہ ودیعت کیا گیا ہے ۔ اسلام نہ اس کوکچلنے اوردبانے کا قائل ہے نہ اس کی تسکین کے لیے کھلی چھوٹ دینے کا روادار ہے ،بلکہ وہ اس کو نکاح کے ذریعے پابند کرنا چاہتا ہے ۔ جنسی جذبہ اتنا طاقت و ر ہوتا ہے کہ اگر انسان کواس کی تسکین کے جائز ذرائع میسر نہ ہوں توناجائز ذرائع اختیار کرنے میں اسے کوئی باک نہیں ہوتا۔ اس لیے اگر بچوں کا نکاح وقت پر نہ کیا جائے توان کے فتنے میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ برابر قائم رہتاہے ۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
جب تمھارے پاس کسی ایسے شخص کی جانب سے نکاح کا پیغام آئے جس کی دین داری اوراخلاق پر تم کواطمینان ہوتو اس سے نکاح کردو ۔ اگر ایسا نہیں کروگے توروے زمین میں فتنہ اوربڑے پیمانے پر فساد برپا ہوجائے گا ۔(ترمذی، ابن ماجہ)
یعنی کوئی ایسا شخص جودین داری اوراخلاق کے معاملے میں قابل قبول ہو، اگر اس کے پیغامِ نکاح کوتم قبول نہ کروگے اورحسب ونسب، حسن وجمال اورمال ودولت کی رغبت رکھوگے تو بڑے پیمانے پر فساد برپا ہوجائے گا۔ اس لیے کہ ایسا کرنے سے بہت سی لڑکیاں بغیر شوہر وں کے اوربہت سے لڑکے بغیر بیویو ں کے زندگی گزاریں گے ،زنا عام ہوجائے گا، سرپرستوں کی عزت ووقار پر دھبہ لگ جائے گا، ہرطرف فتنہ وفساد پھیل جائے گا۔ نسب پامال ہوگا اور صلاح وتقویٰ اور عفت وعصمت میں کمی آجائے گی ۔
اس حدیث کا خطاب بہ ظاہر لڑکیوں کے سرپرستوں سے ہے ، لیکن حقیقت میں اس کے مخاطب لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کے سرپرست ہیں ۔ نہ لڑکی کا سرپرست اس وجہ سے اس کے رشتے میں تاخیر کرے کہ جب صاحب ِ حیثیت ، مال دار اوربرسرِ روزگار لڑکا ملے گا تبھی رشتہ کریں گے ، چاہے کتنی ہی تاخیر کیوں نہ ہوجائے،اور نہ لڑکے کا سرپرست اس وقت تک اس کا نکاح ٹالتا رہے جب تک اسے کوئی اچھی اوراونچی ملازمت نہ مل جائے۔
تاہم، اس معاملے میں دوسرا پہلو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے ۔ بیوی کے نان نفقہ کی ذمے داری اصلاً شوہر پر ہے ۔مروّج مشترکہ خاندانی نظام شرعی طور پر پسندیدہ نہیں ہے ۔ اس لیے لڑکے کی شادی سے قبل بہتر ہے کہ وہ اتنا کچھ کمانے لگے کہ اپنی بیوی کے ضروری مصارف برداشت کرسکے ۔ عموماً والد ین جذبات سے مغلوب ہوکر اپنے لڑکوں کی جلد از جلد شادی کردینا چاہتے ہیں ، لیکن اس پہلو کی طرف ان کی توجہ نہیں ہوتی ۔ چنانچہ بعد میں وہ مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ اس لیے دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ اس معاملے میں دونوں پہلوئوں کو سامنے رکھ کر کوئی فیصلہ کیا جائے۔(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)
س : قرآن میں اللہ تعالیٰ نے قتل اولاد سے منع فرمایا ہے (انعام۶:۱۵۱)۔اس آیت سے یہ بات تو واضح ہے کہ زندہ اولاد کا قتل حرام ہے ، جیسے عرب عہد جاہلیت میں لڑکیوں کوزندہ زمین میں گاڑ دیتے تھے۔ آج اسقاطِ حمل کے طریقے کو بھی اس آیت کے زمرے میں لایا جاسکتا ہے۔ تاہم، جب یہ کہا جاتا ہے کہ ایک عورت کا آپریشن کراکے توالد وتناسل بند کردینا بھی حرام ہے تویہ بات سمجھ سے بالا تر ہوجاتی ہے ۔ اس لیے کہ اس آیت میں اس فعل کے حرام ہونے کی گنجایش کہاں سے نکلتی ہے ؟
عزل کی متبادل صورتیں ، جوآج کل رائج ہیں اور جن سے دو بچوں کے درمیان وقفہ رکھا جاتا ہے ، اہلِ علم ان میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے اوراسے مطلقاً جائز مانتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک شخص ان صورتوں کواختیار کرکے اس وقفے کوکتنی مدت تک دراز کرسکتا ہے ، حتیٰ کہ اپنی بیوی کی موت تک ، توپھر اس کی ایک شکل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آپریشن کرواکے عورت کو ما ں بننے کے قابل ہی نہ رہنے دیا جائے۔ قتل اولاد کی ممانعت کا اطلاق حاملہ عورت کے جنین پر توہوسکتا ہے ، لیکن اس نطفے پر کیسے ہوسکتا ہے جس سے ابھی حمل کا استقرار ہی نہیں ہوا ہے ۔ وجود کے بغیر قتل اولاد کا اطلاق کیسے ممکن ہے؟
دوسری دلیل اس سلسلے میں یہ بیان کی جاتی ہے کہ قرآ ن نے اللہ تعالیٰ کی ساخت میں تبدیلی کرنے کے فعل کوشیطان کا فعل قرار دیا ہے (النسائ۴:۱۱۹)۔مولانا مودودی نے اس آیت کی تشریح میں اس فعل کوحرام قرار دیا ہے ۔ (تفہیم القرآن ، جلد اول ، سورہ نساء ، حاشیہ:۱۴۸)۔ اس سے اگر انسان کے کسی عضو کی تبدیلی یا معطلی کومراد لیا جائے توپھر اس زمرے میں توبہت سے کام آجائیں گے ، مثلاً مصنوعی آنکھ لگوانا ، ایک شخص کا گردہ یا آنکھ کا عطیہ کرنا، ہاتھ یا پیر کاٹنا وغیرہ، لیکن ان کی حرمت کا کوئی بھی قابلِ ذکر فقیہ قائل نہیں ہے۔ جب انھیں گوارا کرلیا گیا(بہ ضرور ت ہی سہی ) تو پیدایشِ اولاد کو مستقل روکنے کو کیوں نہیں گوارا کیا جاسکتا؟
میں کثرتِ اولاد کا مخالف نہیں ہوں ، لیکن مسلم معاشرے میں کثرتِ اولاد سے بہت زیادہ پیچیدگیا ں پیدا ہورہی ہیں۔جس کا اثر نہ صرف خواتین کی صحت پر ، بلکہ بچوں کی صحت پر بھی پڑتا ہے ، معاشی مسائل جو پیدا ہوتے ہیں ،و ہ الگ ہیں۔ اس مسئلے کوصرف یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ اللہ رازق ہے ۔ توکل علی اللہ کی یہ عجیب و غریب مثال دیکھنے میں آتی ہے کہ آمدنی کوبڑھانے کے لیے توکوئی جدوجہد نہیں کی جاتی، بس اتنا کہہ کر خود کو متوکل باور کرلیاجاتا ہے ۔ اولاد کی تعلیم وتربیت سے مجرمانہ غفلت اس پر مستزاد ہے ۔ پھر جیسے ہی ان کی عمر ۱۰، ۱۲ برس کی ہوجاتی ہے انھیں محنت مزدوری کے لیے بھیج دیتے ہیں۔ یہ صورتِ حال ہوسکتا ہے ، بڑے شہروں میں نہ ہو ، لیکن دیہات اورچھوٹے شہروں کی پس ماندہ بستیوں میں عام ہے ۔ تعلیم یافتہ طبقہ یا تو مانع حمل ذرائع استعمال کرکے توازن قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے ، یا پھر حرمت سے واقفیت کے علی الرغم عورتوں کا آپریشن کرواکے اولاد کا سلسلہ بند کردیتا ہے ۔
ج : عہدِ جاہلیت میں لوگ فقر وفاقہ کے ڈر سے اپنی اولاد کوقتل کردیتے تھے ۔ خاص طور سے وہ لڑکیوں کوبوجھ سمجھتے تھے ۔ اس لیے بـعـض قبائل میں یہ رسم جاری تھی کہ ان کی پیدایش کے بعد وہ انھیں زندہ در گور کردیتے تھے ۔ قرآن نے اس مذموم فعل کی شناعت بیان کی اوراس سے سختی سے روکا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ خَشْـیَۃَ اِمْلَاقٍ ط نَحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَاِیَّاکُمْ ط اِنَّ قَتْلَہُمْ کَانَ خِطْاً کَبِیْرًاo (بنی اسرائیل۱۷:۳۱) اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ ہم انھیں بھی رزق دیں گے اور تمھیں بھی۔ درحقیقت ان کا قتل ایک بڑی خطا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں تخلیق کا ایک نظام جاری وساری کیا ہے ۔ اسی طرح انسان ہو یاکائنات کی دیگر مخلوقات میں سے کوئی مخلوق، دنیا میں زندہ رہنے کے لیے اسے جس رزق کی ـضرورت ہو تی ہے اس کا ذمہ بھی اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے :
وَمَا مِنْ دَآ بَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُہَا (ھود۱۱:۶) زمین میں چلنے والا کوئی جان دار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو۔
کوئی شخص تخلیق او ر رزق کے معاملات کواپنے قبضے میں کرنا چاہے ، چنانچہ کسی بچے کے پیدا ہونے کے بعد اسے زندہ رہنے کا حق نہ دے اوراسے قتل کردے ، یا رحم مادر میں کسی جنین کو پرورش پاتا ہوا جان کر اس کا اسقاط کروادے ، یا ایسی کوئی تدبیر اختیار کرے جس سے توالد وتناسل کا سلسلہ ہی یک لخت موقوف ہوجائے ، تینوں صورتوں میں حقیقت اورانجام کار کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے ۔ اسی وجہ سے اسلامی شریعت میں جہاں قتلِ اولاد اوراسقاطِ جنین حرام ہیں ، وہیں دائمی طور پر توالد وتناسل کوموقوف کرنے کی تدابیر اختیار کرنے کوبھی حرام قرار دیا گیا ہے ۔ یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ مانع حمل تدابیر اختیار کرنے پر قتل اولاد کا اطلاق نہیں ہوسکتا ، اس لیے کہ کسی کواس کے وجود کے بغیر کیسے قتل کیا جاسکتا ہے ، لیکن اسے اس عمل کی عدم حرمت کی دلیل نہیں بنایا جاسکتا ۔
عہدِ نبویؐ میں بچہ پیدا نہ ہونے دینے کی دو صورتیں رائج تھیں: ایک خصی کروالینا ، دوسرے عزل کرنا ۔ اول الذکر کے نتیجے میں قوتِ مردمی ختم ہوجاتی تھی اور آیندہ استقرار حمل کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی تھی ۔ حدیث میں ہے کہ بعض صحابہؓ پر راہبانہ تصور کا غلبہ ہوا اورانھوں نے اللہ کے رسولؐ سے خصی کروا لینے کی اجازت مانگی توآپؐ نے سختی سے ایسا کرنے سے منع کیا اور ان کے سامنے اپنا اسوہ پیش کیا (بخاری:۲۲۲۹، مسلم:۱۴۳۸)۔عز ل کا مقصود بھی یہی تھا کہ استقرارِ حمل نہ ہوسکے۔ اس کے بارے میں اللہ کے رسولؐ کے مختلف ارشادات ملتے ہیں ۔ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے اسے نا پسند کیا ہے اوراسے الوأد الخفی (زندہ در گور کرنے جیسی، لیکن اس کے مقابلے میں ہلکی صورت )قراردیا ہے (مسلم:۱۴۴۲)۔ یہ بھی فرمایا ہے کہ جس بچے کی پیدایش اللہ تعالیٰ نے مقدر کررکھی ہو ، اس تدبیر کے ذریعے اسے روکا نہیں جاسکتا (بخاری: ۲۲۲۹، مسلم:۱۴۳۸)۔ لیکن بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نا پسند کرنے کے باوجود آپؐ نے اس کی اجازت دی ہے (بخاری:۲۵۴۲، مسلم:۱۴۳۸)۔ اس تفصیل سے کم از کم اتنا ضرور ثابت ہوتا ہے کہ مردیا عورت کا آپریشن کرواکے توالد کاسلسلہ بالکلیہ موقوف کردینا جائز نہیں ، البتہ عارضی اور وقتی تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں۔
مولانا مودودیؒ نے سورۂ نساء کی آیت فَلَیُغَـیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِ ط(یعنی شیطان کے بہکاوے میں آکر وہ خدائی ساخت میں رد و بدل کریں گے)کی تشریح میں ضبط ولادت کو بھی شامل کیا ہے ۔ سوال میں مولانا کا حوالہ دیا گیا ہے ، لیکن ان کی پوری بات نقل نہیں کی گئی ہے اوران کی بحث کوصرف انسان کے کسی عضو کی تبدیلی یا معطلی تک محدود کردیا گیا ہے۔ مولانا کی پوری عبارت سامنے ہو توغلط فہمی نہیںہوگی ۔ انھوں نے لکھا ہے:
در اصل اس جگہ جس ردّ وبدل کوشیطانی فعل قرار دیا گیا ہے ، وہ یہ ہے کہ انسان کسی چیز سے وہ کام لے جس کے لیے خدانے اسے پیدا نہیں کیا ہے اورکسی چیز سے وہ کام نہ لے جس کے لیے خدا نے اسے پیدا کیا ہے ۔ بہ الفاظ دیگر، وہ تمام افعال جوانسان اپنی اور اشیا کی فطرت کے خلاف کرتا ہے اوروہ تمام صورتیں جووہ منشاے فطرت سے گریز کے لیے اختیار کرتا ہے ، اس آیت کی رو سے شیطان کی گم راہ کن تحریکات کا نتیجہ ہیں۔(تفہیم القرآن ، اول ، ص ۳۹۹)
اس ضمن میں مولانا مودودی نے بہ طور مثال عمل قوم لوط ، ضبطِ ولادت، رہبانیت ، برہم چرج، مردوں اور عورتوں کوبانجھ بنانا، مردوں کوخواجہ سرا بنانا وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے ۔
سوال کے آخر میں مسلم معاشرے میں کثرتِ اولاد کے جومسائل اور پیچیدگیاں بیان کی گئی ہیں، وہ حقیقت ہیں ۔ انھیں حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ مسلمانوں کو تعلیم ، صحت اور معاش کے میدان میں اوپر اٹھانے اور ترقی دینے کی ہر تدبیر اورکوشش قابل قدر اور لائق ستایش ہے ، لیکن اس کا حل یہ ہرگز نہیںکہ مسلمانوں کوکم سے کم بچے پیدا کرنے کا مشورہ دیا جائے۔ کچھ عشروں قبل جن ملکوں میں خاندانی منصوبہ بندی کوریاستی پالیسی بنایاگیاتھا اوراپنے شہریوں کوایک بچہ یا دو بچے پیدا کرنے کا پابند کیا گیاتھا، بالآخر ان کو معاشرتی مسائل کے پیش نظر اپنی غلطی کا احساس ہوا اوروہ قانون تبدیل کرکے شہریوں کوزیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی ترغیب دینے پر مجبور ہوئے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ منع حمل کی تدابیر اختیار کرنا کسی بھی حال میں جائز نہیں ہے ۔ کوئی عورت کسی مرض کی وجہ سے استقرار حمل کی متحمل نہیں ہے، یا اس کی صحت اس کی اجازت نہ دیتی ہو،یا اور کوئی معقول اورناگزیر سبب ہو تومنع حمل کی تدابیر اختیار کرنے کی اسلام نے اجازت دی ہے۔ تاہم، اس چیزکوعام حالات میں جائز قرار دیا جاسکتا ہے نہ اسے ریاستی پالیسی بنانے کی اجازت دی جاسکتی ہے ۔(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)
سوال : اتفاقاً نمازِ مغرب میں امام صاحب سے سہواً قعدۂ اولیٰ ترک ہوگیا اور وہ سیدھے قیام میں چلے گئے۔ پھر کسی مقتدی کے سبحان اللہ کہنے پر وہ قیام سے قعدۂ اولیٰ کی طرف لوٹ گئے۔ نماز کے بعد بعضوں نے کہا کہ بغیر لوٹے سجدئہ سہو سے نماز کی تکمیل ہوجاتی ہے، مگر بعض حضرات نے نماز کو قطعی طور پر فاسد بتایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نماز دوبارہ پڑھی گئی۔ اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ:
۱- قعدۂ اولیٰ سہواً ترک کر کے اگر امام سیدھا کھڑا ہوجائے اس کے بعد اسے خود یاد آجائے یا مقتدی تنبیہہ کرے تو اس کو کیا کرنا چاہیے؟
۲- نبی ؐسے نماز میں کن مواقع پر سہو ہوا ہے اور ان مواقع پر آپؐ نے کیا عمل فرمایا ہے؟
۳- اگر امام سیدھا کھڑا ہوجانے کے بعد پھر بیٹھ جائے تو کیا اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے اور اس کو دُہرانا ضروری ہے؟
جواب: ۱-کوئی شخص تنہا نماز پڑھ رہا ہو یا کسی جماعت کا امام ہو، دونوں صورتوں میں اگر وہ قعدۂ اولیٰ سہواً ترک کرکے سیدھاکھڑا ہوجائے تو اب اس کو بیٹھنا نہیں چاہیے بلکہ قعدۂ اخیرہ کے بعد سجدئہ سہو کر کے نماز پوری کرلینی چاہیے۔ یہی طریقہ سنت کے مطابق ہے جس کی تفصیل سوال نمبر۲ کے جواب میں آرہی ہے۔ ہاں، اگر وہ پوری طرح کھڑا نہ ہوا ہو اور اسی اثنا میں اسے خود یاد آجائے یا مقتدی تنبیہہ کرے تو بیٹھ جانا چاہیے۔ اس صورت میں سجدئہ سہو کی ضرورت نہیں ہے۔
۲- نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے چارمواقع پر نماز میں سہو ہوا ہے:
پہلا موقع: عبداللہ بن بحینہؓ سے روایت ہے کہ ایک بار ظہر کی نماز میں آپؐ سے قعدۂ اولیٰ سہواً ترک ہوگیا اور آپؐ تیسری رکعت میں کھڑے ہوگئے۔ جب پوری نماز پڑھ چکے تو سہو کے دو سجدے کر کے اس کمی کی تلافی فرما دی۔ علامہ ابن قیم نے زادالمعاد میں لکھا ہے کہ اس حدیث کے بعض طرق میں یہ بات بھی ہے کہ جب آپؐ کھڑے ہوگئے تو مقتدی صحابہؓ نے سبحان اللہ کہہ کر یاد دلایا، لیکن حضوؐر نہ بیٹھے بلکہ اشارے سے فرمایا کہ تم بھی کھڑے ہوجائو ۔ اس کی تاکید مزید دو روایتوں سے ہوتی ہے۔ مسند اور ترمذی میں ہے کہ ایک بار حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے نماز پڑھائی اور قعدۂ اولیٰ ترک ہوگیا۔ مقتدیوں نے سبحان اللہ کہہ کر ان کو متنبہ کیا تو انھوں نے اشارے سے کہا کہ تم لوگ بھی کھڑے ہوجائو۔ نماز پوری کر کے انھوں نے سہو کے دو سجدے کیے اور کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک بار اسی طرح عمل فرمایا تھا۔ دوسری روایت بیہقی کی ہے: ایک بار حضرت عقبہ بن عامر جہنیؓ کے ساتھ بھی یہی واقعہ پیش آیا اور مقتدیوں نے سبحان اللہ کہہ کر تنبیہہ کی لیکن انھوں نے نماز جاری رکھی اور آخر میں سجدئہ سہو کے بعد جب فارغ ہوئے تو کہا: ’’تمھاری تسبیح (سبحان اللہ) میں نے سنی تھی۔ تم چاہتے تھے کہ میں بیٹھ جائوں لیکن سنت وہی ہے جو میں نے کیا۔
دوسرا موقع: ایک بار عصر کی نماز میں آپؐ نے دو رکعتوں کے بعد ہی سلام پھیر دیا۔ پھر حضرت ذوالیدینؓ کے توجہ دلانے پر آپؐ نے باقی دو رکعتیں ادا فرمائیں اور سجدئہ سہو کیا۔
تیسرا موقع: حضرت عمران بن حصینؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک بار آپؐ نے عصر کی نماز میں تین رکعتوں کے بعد سلام پھیر دیا۔ پھر توجہ دلانے پر ایک رکعت ادا کر کے سجدئہ سہو کیا۔
چوتھا موقع: حضرت عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک بار آپؐ نے پانچ رکعتیں پڑھ لیں، پھر توجہ دلانے پر سہو کے دو سجدے کیے۔
یہی چار مواقع ہیں جن میں حضوؐر سے نماز میں سہو ہوا ہے۔ میں نے ان صحیح احادیث کی تفصیلات چھوڑ کر مختصراً اصل بات یہاں لکھ دی ہے۔
۳- تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ سیدھا کھڑا ہوکر بیٹھ جانے سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ سجدئہ سہو کرلینے سے مکمل ہوجاتی ہے۔ فقہ حنفی کا صحیح قول یہی ہے اور جمہور فقہا کا مسلک بھی یہی ہے۔ فقہاے احناف کی ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے لیکن اس قول کی کوئی تشفی بخش دلیل نہیں ہے۔ تیسری رکعت میں کھڑے ہونے کے بعد پھر بیٹھ جانا خلافِ سنت ضرور ہے لیکن اس سے نماز فاسد و باطل ہوجانے کی کوئی وجہ نہیں۔ (مولانا سیّد احمد عروج قادری، احکام و مسائل، اوّل، ص ۲۰۶-۲۰۷)
س : زندگی کی مصروفیات میں مجھے اِدھر اُدھر سفر کرنے کی نوبت اکثر آتی رہتی ہے۔ میں کار، ریل گاڑی، بس اور ہوائی جہاز میں فرض نمازیں ادا کرتا رہتا ہوں۔ میرے چند دوستوں کو اس پر اعتراض ہے۔ چنانچہ میرے ایک دوست نے مجھے ایک خط لکھا ہے اور انھوں نے چند احادیث اپنے موقف کی تائید میں تحریر کی ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ فرض نمازیں سواری پر ادا نہیں کی جاسکتیں۔ انھوں نے اپنی تائید میں یہ بھی لکھا ہے کہ میں نے کسی عالم دین کو دورانِ سفر گاڑی میں چلتے ہوئے فرض نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا ہے اور نہ کسی سے سنا ہے۔ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے، سواری پر نماز فرض بھی ادا کی جاسکتی ہے۔ آپ اس کے بارے میں اپنی تحقیق سے مطلع کریں۔
ج:احادیث میں صرف جانور، یعنی اُونٹ پر نوافل اور وتر ادا کرنے کی صراحت ملتی ہے۔ آپ کے دوست نے وہی حدیثیں آپ کو لکھی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور پر کبھی کوئی فرض نمازادا نہیں کی۔ فقہ کی کتابوں میں کشتی پر نماز فرض ادا کرنے کی تفصیلات بکثرت موجود ہیں۔ ائمہ مذاہب اربعہ کے زمانے میں موجودہ دور کی جدید سواریاں موجود نہ تھیں۔ اس لیے فقہ کی قدیم کتابوں میں ان کے بارے میں کوئی جزئیہ نہیں مل سکتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے۔
آپ کے دوست نے چلتی ہوئی ریل گاڑی میں کسی عالم کو فرض نماز ادا کرتے ہوئے نہیں دیکھا، لیکن میں نے بہت سے علما کو چلتی ہوئی گاڑی میں فرض نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ چلتی ہوئی ریل گاڑی میں نماز کی ایک شکل تو یہ ہوتی ہے کہ پوری نماز کھڑے ہوکر رکوع و سجود کے ساتھ ادا کی جائے۔ اس کو ناجائز کہنے کی کوئی وجہ ہی نہیں ہے۔ اگر کھڑے ہوکر رکوع و سجود کے ساتھ نماز ادا کرسکتا ہو تو اسے بیٹھ کر نماز ادا نہیں کرنی چاہیے۔لیکن اگر ایسا نہ ہو اور نماز قضا ہو رہی ہو تو اس کو ریل گاڑی میں بیٹھ کر فرض نماز ادا کرلینی چاہیے۔ کسی نماز کے قضا ہوجانے اور اس کا وقت نکل جانے کا عذر سب سے بڑا عذر ہے۔ دوسرے تمام اعذار کا اعتبار اسی وقت کیا جاسکتا ہے جب نماز کے قضا ہوجانے کا اندیشہ ہو، ورنہ کوئی عذر، عذر نہیں ہے۔
فقہاے احناف کے نزدیک جانورپر بلاعذر فرض نماز ادا کرنا جائز نہیں ہے اور عذر کے ساتھ جائز ہے۔ فقہ کی کتابوں میں ان اعذار کی ایک فہرست دی گئی ہے جن کی بنا پر فرض نماز جانور کی پیٹھ پر ادا کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک عذر یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر جانور سرکش ہو اور سوار اس سے اُتر کر کسی کی مدد کے بغیر دوبارہ اس پر سوار نہ ہوسکتا ہو اور کوئی مددگار موجود نہ ہو تو وہ فرض نماز جانور پر ہی ادا کرسکتا ہے۔ یہ عذر اسی وقت عذر بنے گا جب اس وقت کی نماز قضا ہوجانے کا اندیشہ ہو۔ اور وقت کے اندر منزل پر پہنچ کر نماز پڑھی جاسکتی ہو تو وہ عذر، عذر ہی نہیں۔
وَکَیْفِیَّۃُ الصَّلٰوۃِ عَلٰی الدَّآبَّۃِ اَنْ یُّصَلِّیَ بِالْاِیْمَائِ (فتاویٰ عالم گیری، ج۱) جانور پر نماز ادا کرنے کی کیفیت یہ ہے کہ سوار اشارے سے نماز ادا کرے گا۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک پانی پر چلتی ہوئی کشتی میں بلاعذر بیٹھ کر نماز ادا کرنا بھی جائز ہے لیکن امام ابویوسف اور امام محمد کے مسلک میں کشتی میں بلاعذر بیٹھ کر نماز ادا کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر عذر ہو تو بالاتفاق جائز ہے۔ مثال کے طور پر اگر کھڑے ہوکر نماز پڑھنے میں دورانِ سر کی شکایت پیدا ہوتی ہو تو بیٹھ کر نماز پڑھی جاسکتی ہے:
اَجْمَعُوا عَلٰی اَنَّہٗ لَوْ کَانَ بِحَالٍ یَدُوْرُ رَاْسُہٗ لَوْ قَامَ تَجُوْزُ الصَّلٰوۃُ فِیْھَا قَاعِدًا کَذَا فِی الْخَلَاصَۃ (فتاویٰ عالم گیری، ج۱) اس پر اتفاق ہے کہ کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کی صورت میں دورانِ سر ہوتا ہو تو کشتی میں بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز ہے۔
الجامع الصغیر جو امام محمد کی تصنیف اور فقہ حنفی کی مستند ترین کتاب ہے، اس میں لکھا ہے:
رَجُلٌ فِی السَّفِیْنَۃِ قَاعِدًا مِنْ غَیْرِ عِلَّۃٍ اَجزَاہٗ وَالْقِیَامُ اَفْضَلُ وَقَالَ اَبُویُوْسفَ وَمُحَمَّد رَحِمَھُمَا اللّٰہُ لَا یُجْزِیْہِ اِلَّا مِنْ عُذْرٍ،کسی شخص نے کشتی میں بغیر کسی عذر کے بیٹھ کر نماز پڑھی تو یہ اس کے لیے کافی ہے اور قیام افضل ہے۔ ابویوسف و محمد رحمہما اللہ نے کہا کہ یہ اس کے لیے کافی نہ ہوگا الا یہ کہ کوئی عذر ہو۔
کشتی میں اگر قبلہ رُو ہوکر نماز پڑھی جاسکتی ہو تو استقبال قبلہ ضروری ہے۔ لیکن اگر استقبالِ قبلہ سے عاجز ہو تو جدھر رُخ کر کے نماز پڑھنے پر قادر ہو اُدھر ہی رُخ کر کے نماز ادا کرے گا:
وَ اِنْ عَجِزَ عَنْ اِسْتِقْبَالِھَا صَلَّی اِلٰی جِھَۃِ قُدْرَتِہٖ (الفقہ علی المذاہب الاربعہ) اگروہ استقبال قبلہ سے عاجز ہو تو جس سمت پر قدرت ہو اُدھر ہی رُخ کر کے نماز پڑھے گا۔
اسی طرح اگر رکوع و سجود پر قدرت ہو تو اس کے بغیر نماز جائز نہ ہوگی۔ اشارے سے نماز اس وقت جائز ہوگی جب رکوع و سجود پر قدرت نہ ہو:
وَلَوْ صَلَّی فِیْھَا بِالْاِیْمَائِ وَھُوَ قَادِرٌ عَلَی الرُکُوعِ وَالسُّجُودِ لَا یُجْزِیْہِ فِی قَوْلِھِمْ جَمِیْعًا (فتاویٰ عالم گیری، ج۱) اگر رکوع و سجود پر قدرت کے باوجود کسی نے کشتی میں اشارے سے نماز پڑھی تو بالاتفاق یہ اس کے لیے کافی نہ ہوگا۔
وَیَسْقُطُ عَنْہُ السُّجُوْدُ اَیْضًا اِذَا عَجِزَ عَنْہٗ (الفقہ علی المذاھب الاربعہ) اور سجدہ کرنا بھی ساقط ہوجائے گا اگر وہ اس سے عاجز ہو۔
فقہ کے یہی وہ مسائل ہیں جن پر قیاس کر کے موجودہ دور کی جدید سواریوں پر فرض نماز کے مسائل مستنبط کیے گئے ہیں۔ جب چلتی ہوئی کشتی پر مختلف حالتوں میں کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر یا اشارے سے فرض نماز ادا کرنا جائز ہے تو چلتی ہوئی ریل گاڑی پر بدرجہ اولیٰ جائز ہونا چاہیے، کیوں کہ کشتی پانی پر چلتی ہے اور ریل زمین پر۔ موجودہ دور کے فقہا نے اسی قیاس پر ہوائی جہاز میں فرض نماز ادا کرنے کو بھی جائز قرار دیا ہے:
وَمِثْلُ السَّفِیْنَۃ اَلقُطُرُ البُخَارِیَّۃُ الْبَرِّیَۃُ وَالطَّائِرَاتُ الْجَوَّیَۃُ (الفقہ علی المذاھب الاربعہ) کشتی ہی کے مثل، ریل گاڑیاں، ہوائی جہاز، اور اس طرح کی دوسری سواریاں ہیں۔
اشارے کے ساتھ نماز ادا کرنے کی صورت و کیفیت یہ ہے کہ بیٹھ کر ہر رکعت میں وہ سب کچھ پڑھنا ہے جو نماز میں پڑھا جاتا ہے اور پھر دونوں طرف سلام پھیرنا ہے۔ البتہ رکوع میں کچھ جھک جانا چاہیے اور سجدے میں اپنی پیشانی کسی چیز پر رکھے بغیر، رکوع کے مقابلے میں کچھ زیادہ جھک جائے۔ (سید احمد عروج قادری، احکام و مسائل، اوّل، ص ۱۸۷-۱۹۰)
س : ہمارے یہاں نمازِ جنازہ پڑھنے کے مسئلے پر اختلاف پیدا ہوگیا ہے۔ بعض لوگ کہتے تھے کہ غائبانہ نمازِ جنازہ مسنون ہے اور بعض کہتے تھے کہ جائز نہیں ہے۔ مہربانی کرکے وضاحت کر دیجیے؟
ج:غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھنے کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کا مسلک یہ ہے کہ نمازِ جنازہ غائبانہ نہیں پڑھنی چاہیے۔ امام شافعیؒ اور دوسرے ائمہ کے نزدیک نمازِ جنازہ غائبانہ پڑھی جاسکتی ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی (جو مسلمان ہوگئے تھے) کا انتقال ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ہوئی تو آپؐ نے ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی تھی۔ امام شافعیؒ اور دوسرے لوگ اسی حدیث کو اپنی دلیل میں پیش کرتے ہیں۔
حنفی فقہا اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ حضوؐر کی خصوصیت تھی اور بادشاہ حبشہ کی بھی خصوصیت تھی۔ حضوؐر نے غائبانہ نمازِ جنازہ کا نہ کوئی حکم دیا ہے اور نہ خود بادشاہ نجاشی کے علاوہ کسی اور کی نمازِ جنازہ غائبانہ پڑھی ہے۔ حالانکہ متعدد صحابہ کرامؓ نے دوسرے مقام پر وفات پائی تھی لیکن حضوؐر نے ان کی نمازِ جنازہ غائبانہ نہیں پڑھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ کوئی عام حکم نہیں ہے۔ ایک بات یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ جس وقت بادشاہِ حبشہ کا انتقال ہوا تھا اس وقت وہاں اسلامی طریقے پر نمازِ جنازہ ادا کرنے والے لوگ موجود نہ تھے۔ اس لیے حضوؐر نے غائبانہ ان کی نمازِ جنازہ پڑھی ہوگی۔ لیکن یہ کوئی لڑنے جھگڑنے کی بات نہیں ہے۔ اگر کچھ لوگ کسی کی نمازِ جنازہ غائبانہ پڑھنی چاہتے ہوں تو رکاوٹ ڈالنا صحیح نہیںہے۔ البتہ جس شخص کا یہ خیال ہوکہ غائبانہ نمازِ جنازہ نہیں پڑھنا چاہیے وہ اس میں شریک نہ ہو۔(سیّد احمد عروج قادری، احکام و مسائل، ص ۲۴۵)
س : کچھ لوگ سختی کے بغیر بُرائی سے باز نہیں آتے تو ایسے لوگوں کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہیے؟
ج: کچھ لوگ سختی کے بغیر باز نہیں آتے لیکن ایسی سختی جو مصلحت کے خلاف ہو، یا جس کا نتیجہ اس سے بھی بُرا نکلتا ہو تو وہ جائز نہیں ہے، کیونکہ واجب یہ ہے کہ حکمت و دانش کو اختیار کیا جائے۔ سختی، یعنی مارنا، ادب سکھانا اور قید کرنا تو حکمرانوں کا کام ہے۔ عام لوگوں کا فرض یہ ہے کہ وہ حق کو بیان کردیں اور بُرے کاموں کی تردید کردیں، باقی رہا بُرائی کو ہاتھ سے مٹانا تو یہ حکمرانوں کا منصب ہے۔ یہ ان پر فرض ہے کہ وہ بقدر استطاعت بُرائی کو ختم کریں کیونکہ وہ اس کے ذمہ دار ہیں۔
اگر انسان اپنے ہاتھ سے اس بُرائی کو مٹانا چاہے جو وہ دیکھے تو اس سے ایسی خرابی پیدا ہوسکتی ہے، جو اس بُرائی سے بھی بڑھ کر ہو، لہٰذا اس معاملے میں حکمت و دانش سے کام لینا چاہیے۔ آپ بُرائی کو اپنے ہاتھ سے اپنے گھر میں تو مٹا سکتے ہیں لیکن اگر اس بُرائی کو بازار میں اپنے ہاتھ سے روکنے کی کوشش کریں تو ہوسکتا ہے کہ اس کا نتیجہ اس بُرائی سے بھی زیادہ بُرا ثابت ہو۔ اس صورت میں آپ کے لیے واجب یہ ہے کہ بات اس شخص تک پہنچا دیں، جسے بازار میں اپنے ہاتھ سے بُرائی ختم کر دینے کی قدرت حاصل ہو۔(محمد بن صالح عثیمین، فتاویٰ اسلامیہ، چہارم، ص۳۱۰-۳۱۱)
س : جناب کی ان بعض نوجوانوں کے بارے میں کیا راے ہے، جن کا شیوہ ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ بعض علما پر تنقید کرتے، لوگوں کو ان سے متنفر کرتے اور ان سے الگ تھلگ رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں؟ کیا یہ عمل شرعی طور پر درست ہے؟
ج:میری راے میں ایسا کرنا حرام ہے کیونکہ کسی انسان کے لیے جب یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کی غیبت کرے خواہ وہ عالم نہ بھی ہو، تو یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے ان مسلمان بھائیوں کی غیبت کرے جو علما ہیں۔ لہٰذا ہر مسلمان کے لیے یہ واجب ہے کہ وہ اپنی زبان کو اپنے مسلمان بھائیوں کی غیبت سے روکے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ ز اِِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا ط اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ ط وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط اِِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌo (الحجرات ۴۹:۱۲) اے اہلِ ایمان! بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے (تو غیبت نہ کرو) اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔
اس مصیبت میں مبتلا انسان کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب وہ کسی عالم کو تنقید کا نشانہ بنائے گا تو وہ گویا اس عالم کی حق باتوں کی تردید کا بھی سبب بنے گا ،تو حق کی تردید اور اس کی عدم قبولیت کا گناہ بھی اس کے ذمہ ہوگا، کیونکہ ایک عالم پر تنقید ایک شخص پر تنقید نہیں بلکہ یہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی میراث پر تنقید ہے۔
علماے کرام انبیاے کرام علیہم السلام کے وارث ہیں۔ لہٰذا جب علما پر طعن و تشنیع کی جائے تو لوگ اس علم پر بھی اعتماد نہیں کریں گے، جو ان کے پاس ہے حالانکہ وہ علم تو رسولؐ اللہ کی میراث ہے اور اس طرح وہ گویا شریعت کی کسی بھی ایسی چیز کو قابلِ اعتماد نہیں سمجھیں گے جس کو یہ عالم بیان کرتا ہو، جسے طعن و تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہو۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہرعالم معصوم ہے، بلکہ ہر انسان خطا کا پتلا ہے۔ اگر آپ زَعم میں کسی عالم کو غلطی پر دیکھیں تو اس سے ملیں اور تبادلۂ خیال کریں۔اگر یہ بات واضح ہوجائے کہ اس عالم کا موقف حق پر مبنی ہے، تو آپ پر واجب ہے کہ اس کی اتباع کریں۔ اگر یہ واضح نہ ہو کہ اس کا موقف حق پر مبنی ہے لیکن اس کی بات کی بھی گنجایش ہو تو آپ کے لیے واجب ہے کہ رُک جائیں، اور اگر اس کی بات کی کوئی گنجایش ہی نہ ہو تو پھر اس کی بات کو قبول کرنے سے اجتناب کریں کیونکہ غلطی کو برقرار رکھنا جائز نہیں ہے لیکن آپ اس پر جرح نہ کریں، خصوصاً، جب کہ وہ عالم حُسنِ نیت میں معروف ہو۔ اگر ہم حُسنِ نیت میں معروف علما پر مسائل فقہ میں کسی غلطی کی وجہ سے جرح کرنے لگیں گے تو ہم بڑے بڑے علما پر جرح کربیٹھیں گے، لہٰذا واجب وہی ہے، جو میں نے ذکر کر دیا ہے۔ اگر آپ کسی عالم کی کوئی غلطی محسوس کریں اور گفتگو اور افہام و تفہیم سے واضح ہوجائے کہ ان کا موقف درست ہے تو آپ کو ان کی بات مان لینی چاہیے اور اگر آپ کا موقف درست ثابت ہو تو پھر اُنھیں آپ کی بات تسلیم کرلینی چاہیے، اور اگر بات واضح نہ ہو اور اختلاف کی گنجایش موجود ہو تو پھر آپ ان کو نظرانداز کر دیں کہ وہ اپنی بات کہتے رہیں اور آپ اپنی بات کہتے رہیں۔
اختلاف صرف اسی زمانے میں نہیں ہے بلکہ اختلاف تو حضرات صحابہ کرامؓ کے زمانے سے آج تک چلا آرہا ہے۔ اگر غلطی واضح ہونے کے بعد بھی کوئی عالم اپنی ہی بات پر اصرار کرے تو آپ کے لیے واجب ہے کہ آپ غلطی کو واضح کریں اور اس سے الگ ہوجائیں مگر توہین و تذلیل اور ارادئہ انتقام کی بنیاد پر نہیں۔ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اس اختلافی مسئلے کے سوا دیگر مسائل میں وہ حق بات کہتا ہو۔
بہرحال میں اپنے بھائیوں کو اس مصیبت اور اس بیماری سے بچنے کی تلقین کرتا ہوں اور میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اور انھیں ہر اس چیز سے شفا عطا فرمائے جو ہمارے لیے دین و دنیا کے اعتبار سے باعث ِ عار اور موجب ِ نقصان ہو۔(محمد بن صالح عثیمین، فتاویٰ اسلامیہ، چہارم، ص۳۱۰-۳۱۱)
سوال : خدا کے فضل سے جماعت اسلامی اور اس کی برادر تنظیمات کافی عرصہ سے اسلام کی خدمت کر رہی ہیں، لیکن محسوس ہوتا ہے کہ تحریک سے وابستگان کی بڑی تعداد ابھی تک اپنے گھروں پر خصوصی توجہ نہیں دے پائی۔ بیش تر گھر ایسے ہیں، جن میں مرد تو تحریک کا کام انجام دے رہے ہیں، لیکن خواتین بالکل ناواقف ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
جواب:آپ ایک خاتون ہیں مگرآپ کے سوال سے یہ مترشح ہو رہا ہے کہ آپ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ جن مردوں نے دعوت و تحریک کو سمجھ لیا ہے اور وہ یہ مبارک جدوجہد کر بھی رہے ہیں، مگر اپنی خواتین کو دعوت و تحریک کی طرف متوجہ نہیں کر رہے ہیں، اور آپ کے نزدیک یہ مردوں کی ایک کوتاہی ہے۔ بے شک مرد قوام ہیں، گھر کے سربراہ ہیں۔ انھیں یہ ذمہ داری سنجیدگی کے ساتھ پوری کرنی چاہیے۔ صرف اس لیے نہیں کہ اگر انھوں نے گھر کی طرف توجہ نہ کی تو وہ دعوت و تحریک کا کام یکسوئی کے ساتھ نہ کرسکیں گے، اور گھر ہی ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جائے گا، بلکہ اس سے کہیں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ قرآن نے بہت واضح اور دوٹوک انداز میں اہلِ ایمان کی یہ ذمہ داری بتائی ہے کہ وہ گھر والوں کو دین کی تعلیم دیں، دین کی تربیت دیں تاکہ وہ کل جہنم کی آگ سے بچ جائیں۔ قرآنِ کریم کا ارشاد ہے:
ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْھَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلاَظٌ شِدَادٌ لّاَیَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَo(التحریم۶۶: ۶) اے ایمان والو! بچائو اپنی جانوں کو اور اپنے گھروالوں کو جہنم کی آگ سے جس کاایندھن انسان اور پتھر ہیں، جس پر تندخو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہیں، جو ہرگز سرتابی نہیں کرتے، اس حکم سے جو اللہ نے انھیں دیا ہے اور وہی کرتے ہیں جس کا ان کو حکم دیا جاتا ہے۔
اس واضح حکم کا صاف اور صریح مطلب یہ ہے کہ مرد جس کو اللہ نے عائلی زندگی کا سردھرا اور قوّام بنایا ہے دوسری ذمہ داریوں کی طرح اس کی ایک اہم ذمہ داری یہ بھی ہے کہ اس کی نگرانی میں گھر کے جو لوگ دیے گئے ہیں وہ ان کی تعلیم و تربیت کا ایسا بندوبست کرے کہ وہ خدا کے مخلص بندے بن کر رہیں، اور اسلام کے خادم بن کر جئیں، اور کل حشر کے میدان میں وہ جہنم سے نجات پانے والے صالحین میں شامل ہوں۔
مگر میں آپ سے ایک دوسری بات بھی عرض کرتا ہوں ، وہ یہ کہ اگر مرد غافل اور لاپروا ہو تو یاد رکھیں عورتوں کا دین مردوں کے ذمّے نہیں ہے، نہ مرد عورت کی ذمہ داریوں کا جواب وہ ہوگا۔ دین جس طرح مردوں کا ہے ٹھیک اسی طرح عورتوں کا بھی ہے۔ اگر عورتوں کو خدا نے شعور دیا ہے تو وہ خود توجہ کریں۔ اگر مرد اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں غفلت برت رہے ہیں تو خود خواتین آگے بڑھ کر دعوت و تحریک کو سمجھیں اور اللہ کی عائد کردہ دینی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔ مردوں کی غفلت اور لاپروائی کو بہانہ نہ بنائیں، بلکہ جہاں مرد دین سے غافل ہوں، عورتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ انھیں متوجہ کریں اور راہِ راست پر لانے کے لیے دل سوزی، حکمت اور تسلسل کے ساتھ کوشش کریں۔
ایک مثالی گھر یا خاندان وہ ہے، جہاں مہرومحبت ہو، سلیقہ اور تہذیب ہو ، خوش گوار تعلقات ہوں، باہم تعاون ہو___ مگر یہ سب کچھ اسلام کی روشنی اور دین دارانہ ماحول میں ہو اور پورا گھر اسلام کی نمایندگی کرنے والا ہو۔ اس نمایندگی میں بلاشبہہ سربراہی کا مقام مرد کو حاصل ہے، لیکن اس سے انکار کی کیا گنجایش کہ عورت کا رول بھی اس میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک خاتون ہونے کی حیثیت سے آپ اس طرح سوچیں کہ بلاشبہہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ گھر والوں پر توجہ دیں لیکن اسی پر تکیہ کیے بیٹھے رہنا اور اپنی ذمہ داری محسوس نہ کرنا، کسی طرح صحیح نہیں۔ ایک خاتون کو بھی دین کی طرف اسی طرح بطور خود توجہ کرنی چاہیے جس طرح ایک مرد سے توقع کی جاتی ہے۔ مرد اگر توجہ نہیں کرتاہے، تو اس کی شکایت کرنے یا اس کی غفلت پر اظہار رنج و افسوس کرنے سے اپنے فرض کی تلافی نہیں ہوسکتی۔ ایسی صورت حال میں تو عورت کی ذمہ داری دُہری ہوجاتی ہے کہ قوّام کے حصے کا کام بھی کسی نہ کسی طرح اسے انجام دینا ہے۔ قوّام کی غفلت اور لاپروائی نے اس کی ذمہ داری میں اضافہ کردیا ہے اور ایسے گھرانے میں عورت کو اور زیادہ دل سوزی، توجہ اور لگن کے ساتھ دینی فرائض انجام دے کر قوّام کو بھی دینی فرائض کی طرف متوجہ کرنا ہے۔(مولانا محمد یوسف اصلاحی، مسائل اور ان کا حل، ص ۳۲۸-۳۳۰)
س : گھر کے خرچ میں سے (جو کھلا خرچ ہو) بیوی بغیر شوہر کی اجازت کے پیسے یا تحائف اپنے رشتہ داروں، ملنے والوں یا نوکروں کو دے سکتی ہے یا نہیں؟
ج:معروف یہ ہے کہ گھر کے خرچ کے لیے شوہر جو کچھ بیوی کو دیتا ہے اس میں غریبوں پر صدقہ و خیرات، پڑوسیوں کا لینا دینا اور عزیزوں، رشتے داروں کے تحفے تحائف سب شامل ہوتے ہیں۔ رشتہ دار آپ کے ہوں وہ بھی شوہر کے رشتے دار ہیں اور شوہر کے رشتہ دار ہیں تو وہ بھی آپ کے رشتے دار ہیں۔ ان رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی ضروری ہے اور صلہ رحمی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ان کو تحفے تحائف بھی دیے جائیں۔ ان کی دوسری ضرورتیں بھی پیش نظر رکھی جائیں اور ان کے ساتھ ممکنہ حُسنِ سلوک کیا جائے۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ سے ایک حدیث اس مسئلے کی وضاحت میں منقول ہے۔ ’’حضرت عائشہ صدیقہؓ کا بیان ہے کہ سفیان کی بیوی ہند نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ابوسفیان ایک کنجوس آدمی ہیں۔ وہ مجھے اتنا خرچ نہیں دیتے جس سے میری اور میری اولاد کی ضرورتیں پوری ہوسکیں۔ ہاں، یہ کہ میں خود ہی اس کی لاعلمی میں اس کے مال سے کچھ لے لوں۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جتنے سے تمھاری اور تمھاری اولاد کی ضرورتیں پوری ہوسکیں، اتنا معروف کے مطابق لے لو‘‘۔(ریاض الصالحین)
مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوی بعض حالات میں شوہر کا مال اس کی لاعلمی میں بھی خرچ کرسکتی ہے اور اس خرچ کی اسے شوہر کو تفصیل بتانا بھی ضروری نہیں، اور نہ اس کوچوری کہا جائے گا۔ اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شوہر بیوی کو اس کی ضرورت کے مطابق خرچ کے لیے دے۔ کسی کو تحفہ تحائف دینا، یا رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا بیوی کی ضرورت بھی ہے اور فعل معروف بھی،اس لیے بیوی کا خرچ کرنا کسی طرح بے جا نہیں کہا جاسکتا۔
البتہ بیوی کے لیے یہ کسی طرح مستحسن نہیں ہوگا کہ وہ شوہر کے مال کو اللّے تللّے اُڑائے یا فضول خرچی کرے، اور شوہر کے مالی حالات سے بے نیاز ہوکر اپنی ضرورتیں پھیلائے اور محض دوسروں کی دیکھا دیکھی وقت اور مال خریداری کی نذر کرے۔ (مولانا محمد یوسف اصلاحی، ایضاً، ص ۲۵۰-۲۵۱)
س : بعض لوگ مسجد کے اندر جنازہ رکھ کر نمازِ جنازہ پڑھنے کو ناجائز کہتے ہیں اور اس پر اصرار کرتے ہیں۔ شرعی نقطۂ نظر واضح کر دیجیے۔
ج: مسجد کے اندر جنازہ رکھ کر نماز جنازہ ادا کرنا جائز ہے۔ نمازِ جنازہ ادا ہوجاتی ہے۔ اس مسئلے میں بھی فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ حنفی مسلک یہ ہے کہ مسجد کے اندر جنازہ رکھ کر نمازِ جنازہ نہ پڑھی جائے۔ امام ترمذی [م:۸۹۲ئ] نے امام شافعی [م:۸۲۰ئ]کا یہ قول نقل کیا ہے کہ امام مالک کا مسلک بھی یہی تھا کہ میت پر مسجد کے اندر نماز نہ پڑھی جائے لیکن خود امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ مسجد کے اندر نمازِجنازہ ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس مسئلے میں چونکہ حدیثیں مختلف ہیں، اس لیے فقہا کے مسلکوں میں بھی اختلاف ہے۔ بعض ائمہ اس حدیث کو ترجیح دیتے ہیں جس میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے اندر نمازِ جنازہ پڑھی ہے، اور فقہ حنفی میں اُن حدیثوں کو ترجیح دی گئی ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد کے اندر نمازِ جنازہ پڑھنے سے اس کا ثواب کم ہوجاتا ہے۔ لیکن فقہا کے درمیان یہ اختلاف جواز و عدم جواز کا نہیں ہے بلکہ کراہت کا ہے۔ یعنی بعض ائمہ کے نزدیک بلاکراہت جائز ہے اور بعض کے نزدیک کراہت کے ساتھ جائز ہے۔(مولانا سیّد احمد عروج قادریؒ، احکام و مسائل، دوم،ص ۲۴۶)
س : مرتے وقت انسان اپنے ہوش و حواس کھودیتا ہے۔ نزعی کیفیت کہہ لیجیے یا دوسری کوئی حالت، ایسے وقت شیطان جو گھات میں ہمہ وقت ہے، اپنی گم راہی کا جال پھینکتا ہے۔ ایک مسلمان سلامتیِ ایمان کے ساتھ مرتے دم دنیا سے رخصت ہو، اس کے لیے بے خطا تدبیر کیا ہے؟
ج:اگر انسان ہوش و حواس کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچا رہے اور اطاعت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سرگرم رہے، کلمۂ طیبہ کا ورد رکھے اور خدا کی توحید کا واضح شعور رکھے، تو پھر اللہ کی ذات سے توقع یہی ہے کہ وہ حالت ِ نزع میں خصوصی حفاظت فرمائے گا اور اپنے لیے ایسے مخلص اور مطیع بندے پر شیطان کا دائو دنیا سے رخصت ہوتے وقت ہرگز نہ چلنے دے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ اگر یہ اہتمام بھی ہو کہ جب یہ کیفیت طاری ہوتی محسوس ہو تو اس وقت سورئہ یٰسین کی تلاوت اور اس کا ترجمہ پڑھا یا سنایا جائے تو ان شاء اللہ اور زیادہ حفاظت کی توقع ہے۔ یہ بظاہر غیرممکن ہے کہ جو بندہ زندگی میں اللہ اوررسولؐ کا مخلص، وفادار اور اطاعت کیش رہا، جسے اللہ کی توحید کا پورا شعور رہا اور توحید خالص پر ایمان رکھتا ہو، رسولؐ پر ایمان اور آپؐ سے سچی اطاعت و پیروی کا تعلق رکھتا رہا، کسی ایسے بندے کو نزع کے وقت خالقِ کائنات یوں ہی چھوڑ دے کہ شیطان اس پر اپنا جال پھیلائے، نہیںبلکہ خدا اپنے ایسے بندے کی حفاظت ضرور فرمائے گا۔(مولانا محمد یوسف اصلاحی،مسائل اور ان کا حل،ص ۳۶۲)
س : حدیث نبویؐ ہے کہ :بھلی بات کہو یا خاموش رہو، تو کیا اس حدیث کی روشنی میں زیادہ بولنا حرام ہے؟
ج:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شمار حدیثوں میں زبان کی تباہ کاریوں سے خبردار کیا ہے۔ ان میں ایک حدیث یہ بھی ہے:
مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا اَوْ لِیَصْمُتْ، جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے۔
رَحِمَ اللّٰہُ اَمْرَئً ا قَالَ خَیْرًا فَغَنِمَ أَوْ سَکَتَ فَسَلِمَ ، اللہ کی رحمت ہو اس شخص پر، جس نے بھلی بات کہی اور اجرونعمت کا حق دار ہوا یا خاموش رہا تو محفوظ رہا۔
بلاشبہہ زیادہ بولنا اور بے وجہ بولتے رہنا انسان کے لیے تباہی کا باعث اور گناہوں کا سبب ہے۔ امام غزالیؒ [م: ۱۸ دسمبر ۱۱۱۱ئ]نے ان گناہوں کی تعداد ۲۰ بتائی ہے، جو زبان کے غلط استعمال سے سرزد ہوتے ہیں۔ شیخ عبدالغنی النابلسیؒ [م: ۵مارچ ۱۷۳۱ئ]نے اس تعداد کو ۷۲ تک پہنچا دیا ہے۔ ان میں سے اکثر گناہِ کبیرہ کے زُمرے سے ہیں، مثلاً جھوٹ، غیبت، چغلی، جھوٹی گواہی، جھوٹی قسم، لوگوں کی عزت کے بارے میں کلام کرنا اور دوسروں کا مذاق اُڑانا وغیرہ وغیرہ۔
اس لیے بہتر یہی ہے کہ انسان حتی المقدور خاموشی کا راستہ اختیار کرے تاکہ ان گناہوں سے محفوظ رہے۔ خاموش رہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے ہونٹوں کو سی لے اور زبان پر تالا ڈال لے، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو اس بات کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنی زبان کو کسی بھلی اور معروف بات کے لیے کھولے ورنہ اسے بند رکھے۔
جو لوگ زیادہ بولتے ہیں ان سے اکثر خطائیںسرزد ہوجاتی ہیں اور ان خطائوں کے سبب وہ لوگوں میں مذاق اور استہزا کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ اسی لیے بندئہ مومن جب بھی کوئی بات کرے اسے اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ خدا کے فرشتے اس کی ہر بات نوٹ کر رہے ہیں۔ اللہ فرماتا ہے:
مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌo (قٓ ۵۰:۱۸) کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضرباش نگران موجود نہ ہو۔
(ڈاکٹر یوسف قرضاوی، فتاویٰ یوسف القرضاوی، ص ۵۹-۶۰)
سوال : دو مقولے ہیں جنھیں ہم عام طور پر لوگوں کی زبانوں سے سنتے ہیں اور وہ دونوں مقولے ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ پہلا مقولہ یہ ہے کہ ’جلدبازی شیطان کا کام ہے‘ اور دوسرا یہ کہ ’سب سے بھلی نیکی وہ ہے، جو جلد کرلی جائے‘۔ کیا یہ دونوں مقولے حدیث نبویؐ ہیں؟ اگرہیں تو ان دونوں کے درمیان مطابقت کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ اگر حدیث نہیں ہیں تو ان میں صحیح کون سا ہے؟
جواب: پہلا مقولہ تو ایک حدیث نبویؐ کا جزو ہے۔ پوری حدیث یوں ہے:
اَلْأَنَاۃُ مِنَ اللّٰہِ وَالْعُجْلَۃُ مِنَ الشَّیْطَانِ، ٹھیر ٹھیر کر عمدگی سے کام کرنا اللہ کی صفت ہے اور جلدبازی شیطان کی صفت ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جلدبازی کو ہر زمانے میں اور ہرقوم نے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے۔ اس کے برعکس ٹھیر ٹھیرکر خوش اسلوبی کے ساتھ کام نمٹانے کی تعریف ہر زمانے کے ذی شعور لوگوں نے کی ہے۔ اس مفہوم کا حامل ایک مشہور مقولہ ہے:
فِی التَّأَنِیّ اَلسَّلَامَۃَ وَفِی الْعُجْلَۃِ اَلنِّدَامَۃَ، سوچ بچار کر ٹھیر ٹھیر کر کام کرنے میں سلامتی ہے اور جلدبازی میں ندامت ہے۔
ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ جلدبازی کو شیطان کی طرف منسوب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جلدبازی میں جو فیصلہ کیا جاتا ہے اس میں ہلکا پن، غصہ اور طیش شامل ہوتا ہے جو بندے کو وقار، بُردباری اور ثابت قدمی سے دُور کرتا ہے۔ چنانچہ اس کے نتائج اکثر و بیش تر بُرے ہی ہوتے ہیں۔
ایک حدیث نبویؐ ہے:یُسْتَجَابُ لِلْعَبْدِ مَا لَمْ یَسْتَعْجِلْ،’’بندے کی دعا قبول ہوتی ہے، اگر وہ جلدی نہ مچائے‘‘۔
رہا دوسرا مقولہ تو وہ کوئی حدیث نہیں ہے۔ البتہ حضرت عباسؓ سے اسی مفہوم کا قول مروی ہے، آپؓ نے فرمایا کہ: لَا یُتَمَّمُ الْمَعْرُوْفُ اِلَّا بِتَعْجِیْلِہٖ،’’بھلا کام اُسی وقت پورا ہوتا ہے جب اسے جلداز جلد کرلیا جائے‘‘۔
اس قول میں بھلائی کے کام کو جلد کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں جلدی کرنا اور اس کی طرف تیزی سے لپکنا ایک پسندیدہ اور قابلِ تعریف صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ایسے لوگوں کی تعریف فرمائی ہے:
اُوْلٰٓئِکَ یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَھُمْ لَھَا سٰبِقُوْنَo (المومنون ۲۳:۶۱) یہ لوگ بھلائیوں میں جلدی کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَاتِ (البقرہ ۲:۱۴۸) بھلائیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جائو۔
چنانچہ یہ دوسرا مقولہ اپنے معنی و مفہوم کے اعتبار سے بالکل درست ہے۔ اگرچہ یہ حدیث نہیں ہے اور اس مقولے اور مذکورہ حدیث کے درمیان معنی و مفہوم کے اعتبار سے کوئی تناقض بھی نہیں ہے کہ مطابقت کی ضرورت ہو۔
علماے کرام نے ٹھیر ٹھیر کر کام کرنے کو قابلِ تعریف اور جلدبازی کو قابلِ مذمت تین شرطوں کے ساتھ ٹھیرایا ہے:
۱- پہلی شرط یہ ہے کہ وہ کام جس کا کرنا مقصود ہو، اگر اطاعت ِ الٰہی اور بھلائی اور نیکی کے دائرے میں آتا ہے، تو اس میں سبقت لے جانے کی کوشش کرنا اور اس میں جلدبازی کرنا، نہ صرف قابلِ تعریف ہے بلکہ یہی مطلوب و مقصود ہے۔ نبی اکرمؐ نے حضرت علیؓ کو ہدایت کی تھی کہ: ’’اے علیؓ! تم تین چیزوں میں کبھی تاخیر نہ کرنا۔ نماز جب اس کا وقت ہوجائے، جنازہ جب سامنے لاکر رکھ دیا جائے اور کنواری لڑکی کا نکاح جب اس کا بَر مل جائے‘‘۔
مشہور عالمِ دین ابوالعیناء کو کسی نے جلدبازی سے منع کیا تو آپؒ نے جواب دیا کہ اگر ایسی ہی بات ہے تو حضرت موسٰی ؑ کبھی اللہ سے یہ نہ کہتے کہ:وَعَجِلْتُ اِلَیْکَ رَبِّ لِتَرْضٰی o (طٰہٰ ۲۰:۸۴) ’’اور اے رب، میں تیرے پاس جلدی چلا آیا تاکہ تو راضی ہوجائے‘‘۔
۲- وہ جلدبازی قابلِ مذمت ہے ، جو بغیر غوروفکر اور تدبر کے ہو۔ کسی کام میں غوروفکر اور مشورہ کرلینے کے بعد اس میں ٹال مٹول سے کام لینا کوئی تعریف کی بات نہیں۔ یہ تو سُستی اور کاہلی کی علامت ہے۔ قرآن فرماتا ہے:
وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ ج فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۵۹) اور دین کے کام میں ان کو بھی شریکِ مشورہ رکھو۔ پھر جب تمھارا عزم کسی راے پر مستحکم ہوجائے تو اللہ پر بھروسا کرو۔
۳- ٹھیر ٹھیر کر کام کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ انسان اتنی تاخیر کردے کہ مقصد ہی فوت ہوجائے یا مطلوبہ کام کا وقت ہی نکل جائے ۔ اس لیے کہ وقت نکل جانے کے بعد کفِ افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔ (ڈاکٹر یوسف قرضاوی، فتاویٰ یوسف القرضاوی، ترجمہ: سید زاہد اصغر فلاحی، اوّل، ص۵۵-۶۰، دسمبر ۱۹۹۸ئ)
س : ایک صحیح حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ ہر دن جب سورج طلوع ہوتا ہے تو دو فرشتے اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! اپنی راہ میں خرچ کرنے والوں کو برکت و فضل عطا فرما اور بخل کرنے والوں کو بربادی۔ لیکن حقیقت ِ حال یہ ہے کہ اس دنیوی زندگی میں عملی طور پر بہت سے ایسے افراد ملیں گے، جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں لیکن پھر بھی ان کی تنگ دامانی نہیں جاتی اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بخل سے کام لیتے ہیں اور دادِ عیش دے رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
ج:آپ نے جس حدیث کا مفہوم پیش کیا، وہ ایک صحیح حدیث کا مفہوم ہے اور بخاری و مسلم میں اس طرح موجود ہے: حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر دن جب شروع ہوتا ہے تو دوفرشے نازل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک دعا کرتا ہے: اے اللہ! خرچ کرنے والے کو برکت عطا فرما، اور دوسرا بددعا کرتا ہے کہ اے اللہ! بخیل کے حصے میں بربادی رکھ دے۔
اسی مفہوم میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں۔ قرآن میں بھی متعدد آیات اسی مفہوم کو پیش کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَھُوَ یُخْلِفُہٗ ج (السبا ۳۴:۳۹) ’’جو کچھ تم خرچ کر دیتے ہو اس کی جگہ وہی تم کو اور دیتا ہے‘‘۔
سوال کرنے والے کو اس حدیث کو سمجھنے میں جو غلط فہمی ہوئی ہے، وہ یہ کہ انھوں نے برکت اور بربادی کو مال ودولت کی حد تک محدود کر دیا ہے، جب کہ برکت کا مفہوم محض مال و دولت میں اضافہ اور بربادی کا مفہوم محض مال و دولت میں خسارہ نہیں ہے بلکہ اس کا مفہوم اس سے وسیع تر ہے۔ برکت کی بے شمار صورتیں ہوسکتی ہیں۔ برکت کبھی صحت و تن درستی کی شکل میں ملتی ہے تو کبھی نیک اولاد کی شکل میں۔ کبھی مال و دولت کی فراوانی کی صورت میں برکت ہوتی ہے تو کبھی محض معنوی برکت عطا ہوتی ہے، مثلاً ہدایت کی توفیق، سکونِ قلب اور لوگوں میں عزت و مقبولیت وغیرہ وغیرہ۔ ان سب پر مستزاد وہ اجر ہے، جو اللہ نے ان کے لیے آخرت میں تیار کر رکھا ہے۔ برکت کو محض دولت کے چند نوٹوں میں محصور کرلینا ایک زبردست غلط فہمی ہے۔ اس لیے کہ سبھی جانتے ہیں: ’’ذہنی سکون سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں‘‘۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَ بِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ھُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَo (یونس ۱۰:۵۸) ’’کہو کہ یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنھیں لوگ سمیٹ رہے ہیں‘‘۔
اسی طرح ’بربادی‘ کا مفہوم محض مال و دولت میں خسارہ نہیں ہے۔ بربادی کبھی بیماری کی صورت میں آسکتی ہے تو کبھی غیرصالح اولاد کی صورت میں۔ کبھی لوگوں میں نفرت کی صورت میں اور کبھی ذہنی خلفشار کی صورت میں۔کبھی انسان کو ایسی بے چینی اور خلش لاحق ہوجاتی ہے، جو ہزار نعمت کے باوجود مستقلاً اسے اندر ہی اندر گھلائے جاتی ہے۔ ان سب پر مستزاد وہ عذاب ہے جو اللہ نے اس کے لیے آخرت میں تیار کر رکھا ہے۔( ایضاً، ص ۵۷-۵۹)
سوال: میں مشترکہ خاندان میں رہتا ہوں اور شادی کو دو سال ہوچکے ہیں۔ میری بیوی اور گھر کی دیگر خواتین کے درمیان کسی نہ کسی بات پر اَن بن ہوتی رہتی ہے، جس پر میری بیوی مجھ سے الگ رہایش کا مطالبہ کرتی ہے۔ میں یہ انتظام کرنے کی معاشی حیثیت نہیں رکھتا۔البتہ کرایے کے مکان میں رہ سکتا ہوں، مگر میری والدہ اس کے لیے راضی نہیں ہیں۔ راہ نمائی فرمائیں، میں کیا کروں؟
جواب: ہمارے ملک میں مشترکہ خاندانی نظام کی جو صورت رائج ہے، اس میں بڑے مفاسد پائے جاتے ہیں۔ نئی نویلی دلہن سے خادمائوں جیسا برتائو کیاجاتا ہے۔ سُسر، ساس، نند، دیور اور خاندان کے دیگر افراد کی خدمت کرنا اور ان کی چھوٹی بڑی ضرورتیں پوری کرنا اس کی ذمے داری سمجھی جاتی ہے اور اس معاملے میں اگر اس سے کچھ تھوڑی سی بھی کوتاہی سرزد ہوجائے تو اس کو طعنے دیے جانے لگتے ہیں۔ اَزدواجی زندگی کی خلوت (privacy)بھی متاثر ہوتی ہے۔
بیوی کی ذمے داری اصلاً صرف شوہر کی خدمت ہے، البتہ خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ وہ اچھا برتائو کرے گی، ان کے ساتھ محبت سے پیش آئے گی اور ان سے خوش گوار تعلقات رکھے گی، تو ان کی جانب سے بھی اسے محبت ملے گی اور خاندان کے تمام افراد باہم شیروشکر ہوکر رہیں گے۔اِسی طرح اگر بیوی کا معاملہ دیگر افرادِ خاندان سے درست نہ ہوگا، یا وہ لوگ اس کے ساتھ اپنائیت کا مظاہرہ نہیں کریں گے، تو پھر ان کے درمیان اَن بن رہے گی اور گھر میں کشیدگی کی فضا قائم رہے گی۔
اگر مشترکہ خاندان میں کئی جوڑے رہتے ہوں تو کوشش کرنی چاہیے کہ ہر جوڑے کی پرائیویسی قائم رہے۔ وہ روزمرہ کے کاموں کو آپس میں اس طرح تقسیم کرلیں کہ کسی کے لیے شکایت کا موقع نہ رہے، باہمی معاملات میں محبت اور ایثار کی روش کو اپنائیں، چھوٹی موٹی شکایتوں کو نظرانداز کریں۔ لیکن اگر ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے ان میں اَن بَن رہتی ہو، ایک دوسرے سے شکایت میں اضافہ ہورہا ہو، یہاں تک کہ لڑائی جھگڑے کی نوبت آجاتی ہو تو بیوی کو الگ رہایش فراہم کرنا شوہر کی ذمے داری ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ الگ سے مکان خرید کر بیوی کو دے، بلکہ معاشی تنگی کی صورت میں وہ اسے کرایے کا مکان فراہم کرسکتا ہے۔ مشترکہ خاندان میں رہتے ہوئے اہلِ خانہ باہم لڑتے جھگڑتے رہیں اور تنائو اور کشیدگی کے ساتھ زندگی گزاریں، اس سے بہتر ہے کہ وہ الگ الگ رہیں اور ان کے باہمی تعلقات خوش گوار رہیں۔(مولانا محمد رضی الاسلام ندوی)
س: ہمارے یہاں ایک صاحب نے اذان کے آخری کلمہ لاالٰہ الااللہ کے بعد مائک ہی پر دھیمی آواز میں محمد رسول اللہ کہا۔ اس پر میں نے انھیں سخت الفاظ میں ٹوکا اور کہا کہ اگر یہ اضافہ مقصود ہوتا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی یہ اضافہ کردیتے۔ جب آپؐ نے اضافہ نہیں کیا ہے تواب ہمیں بھی ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ جواب میں ان صاحب نے کہاکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار نماز پڑھارہے تھے۔ رکوع سے اٹھتے ہوئے جب آپؐ نے سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ فرمایا تو ایک صحابی نے رَبَّنَالَکَ الحَمد کے ساتھ حَمْداً کَثِیراً طَیّباً مُبَارَکاً فِیْہِ کہا۔ اس اضافے پر آپؐ نے نکیر کرنے کے بجاے ان کی تعریف کی۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ کوئی ایسا اضافہ، جو دین کی بنیادی تعلیمات سے مطابقت رکھتا ہو، غلط نہیں ہے۔ براہِ کرم وضاحت فرمائیں۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟
ج:دین کی جزئیات ہمیں جس طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی ہیں، اسی طرح ان پر عمل مطلوب و مقصود ہے۔ ان میںکسی طرح کی کمی بیشی ہمارے لیے روا نہیں ہے، مثلاً کوئی شخص فجر کی فرض نماز دورکعت کے بجاے چار رکعت پڑھنے لگے، یا فرض روزوں میں اضافہ کرلے تو اس کا یہ عمل دین میںبدعت قرار پائے گا اور قابل رد ہوگا۔ البتہ جو اضافے عہدنبویؐ میں صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کیے اور آپؐ نے ان کی تائید وتصویب فرمائی وہ سنت قرار پائے اور دین کا جز بن گئے۔ مثلاً ایک موقعے پر حضرت بلالؓ نے فجر کی اذان میں الصَّلاَۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوم کا اضافہ کردیا تو آپؐ نے اسے پسند فرمایا۔ چنانچہ اس کے بعد یہ اضافہ بھی اذان میں شامل ہوگیا (ابن ماجہ، ۷۱۶)۔چوں کہ اذان کا خاتمہ لاالہ الااللہ پر ہوتا ہے، اس پر محمد رسول اللہ کا اضافہ نہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کیا اور نہ کسی صحابی نے کیا، جس کی آپؐ نے تصویب کی ہو، اس لیے اب کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ دین کے نام پر خودساختہ اضافہ کرتا پھرے۔(مولانا محمد رضی الاسلام ندوی)
س: میں سرکاری بسوں کی ورک شاپ میں کاری گر کی حیثیت سے کام کرتا ہوں۔ ہربس کو چیک کرنا اور چھوٹی بڑی خرابی کو دُور کرنا میری ذمہ داری ہے۔ شام کے وقت ڈپو میں آنے والی بسوں کا ہجوم ایک دم بڑھ جاتا ہے۔ اگر میں تھوڑی دیر کے لیے بھی وہاں سے ہٹ جائوں تو بس ڈرائیور اور کنڈیکٹر ہنگامہ کھڑا کردیتے ہیں اور افسران کی ڈانٹ ڈپٹ الگ۔ اس بنا پر میری عصر اور مغرب کی نمازیں اکثر و بیش تر قضا ہوجاتی ہیں۔ اور پھر اتنا وقت بھی نہیں نکال سکتا کہ ڈیزل اور پٹرول سے لتھڑے کپڑے بدل کر، صاف کپڑے پہنوں اور نماز ادا کروں، اور پھر واپس کام پر آکر دوبارہ ایمان داری سے ڈیوٹی انجام دے سکوں۔ اس طرح نمازیں قضا ہونے سے میں سخت الجھن میں ہوں۔ دفتر میں کسی دوسرے شعبے میں تبدیلی کی کوشش بھی کی ہے لیکن ممکن نہ ہوسکا۔ بعض احباب ملازمت ترک کر دینے کا مشورہ دیتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ بیوی بچوں کی کفالت فرض ہے، لہٰذا انھیں پریشانی میں مبتلا کرنا مناسب نہیں۔ یاد رہے کہ میں نے باقاعدہ انجینیرنگ کی ڈگری لے رکھی ہے، مگر بے روزگاری اور معاشی تنگ دستی کے ہاتھوں مجبور ہوکر یہ معمولی نوکری کر رہا ہوں۔مجھے مشورہ دیجیے کہ میں کیا کروں؟
ج: عام حالات میں پنج وقتہ نمازوں کی ادایگی ان کے اوقات میں ضروری ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی کا حکم دیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا o(النساء ۴:۱۰۳) نماز درحقیقت ایسا فرض ہے جو پابندیِ وقت کے ساتھ اہلِ ایمان پر لازم کیا گیا ہے۔
متعدد صحابہ کرامؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازوں کو ہمیشہ ان کے اوقات میں ادا کرنے کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں: ’’میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز اس کے وقت کے علاوہ (کسی دوسرے وقت) میں پڑھی ہو۔ سواے دو نمازوں کے‘‘۔(بخاری، کتاب الحج ۱۶۸۲)
تاہم، عذر کی صورت میں بعض نمازیں اکٹھی پڑھی جاسکتی ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ظہروعصر کو ایک ساتھ پڑھ لیا جائے اور مغرب و عشاء کو ایک ساتھ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حجۃ الوداع کے دوران اسی طریقے سے مذکورہ نمازوں کو جمع کر کے پڑھنا ثابت ہے۔ علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: ’’نمازوں کے اوقات عام لوگوں کے لیے پانچ اور اہلِ عذر کے لیے تین ہیں‘‘۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ (ھود ۱۱:۱۱۴) ’’نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر‘‘۔
اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ(بنی اسرائیل ۱۷:۷۸)’’نماز قائم کرو زوالِ آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک اور فجر کے قرآن کا بھی التزام کرو‘‘۔ اس آیت میں ’دلوک‘ میں ظہروعصر اور ’غسق‘ میں مغرب و عشاء شامل ہیں۔ ’’اسی اصول کو اختیار کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہروعصر اور مغرب و عشاء کی نمازوں کو جمع فرمایا تھا‘‘۔(فتاویٰ ابن تیمیہؒ، ۲۴-۲۵)
احناف کے نزدیک جمع بین الصلاتین (دو نمازوں کو اکٹھی پڑھنا) جائز نہیں ہے۔ ہاں، ان کو جمع کرنے کی ظاہری صورت اختیار کی جاسکتی ہے، یعنی ایک نماز اس کے آخر وقت میں اور دوسری نماز اس کے اول وقت میں پڑھی جائے۔ لیکن دیگر فقہا اس کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک جمع تقویم اور جمع تاخیر دونوں صورتیں اختیار کی جاسکتی ہیں۔ دوسری نماز کو مقدم کرکے پہلی نماز کے ساتھ پڑھ لیا جائے، یا پہلی نماز کو مؤخر کر کے دوسری نماز کے ساتھ پڑھا جائے۔
عذر میں حالت ِ سفر،مرض، طوفانی بارش، خوف یا کوئی اور وجہ بھی ہوسکتی ہے۔ احادیث میں ان عذروں کا ذکر آیا ہے، بلکہ حضرت ابن عباسؓ سے مروی ایک صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعے پر مدینہ میں رہتے ہوئے ظہروعصر کی نمازیں اور مغرب و عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھیں، جب کہ اس وقت نہ کسی خوف کا موقع تھا، نہ بارش ہوئی تھی (دوسری روایت میں ہے کہ اس وقت نہ کسی خوف کا موقع تھا نہ آپ حالت ِ سفر میں تھے)۔ حضرت ابن عباسؓ کے شاگرد نے ان سے دریافت کیا: پھر آں حضرتؐ نے ایسا کیوں کیا تھا؟ انھوں نے جواب دیا: آپؐ نے ایسا اس لیے کیا تھا، تاکہ آپؐ کی اُمت کا کوئی فرد مشقت میں نہ پڑے‘‘۔ (مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین، باب الجمع بین الصلاتین فی السفر)
حالت ِ سفر میں کسی عذر کی بنا پر جمع بین الصلاتین کی اجازت دینے والے فقہا (مثلاً مالکیہ میں سے اشہبؒ، شوافع میں سے ابن المنذرؒ اور ابن سیرینؒ و ابن شبرمہؒ وغیرہ) ساتھ ہی یہ بھی صراحت کرتے ہیں کہ اسے عادت نہ بنا لیا جائے، یعنی کسی شدید عذر کی بنا پر ہی جمع کیا جائے، ورنہ ہر نماز کو اس کے وقت ہی میں ادا کیا جائے۔ (نووی، المجموع شرح المہذب، طبع جدہ، ۴؍۲۶۴، ابن قدامہ، المغنی، طبع ریاض ۱۹۸۱ئ، ۲؍۲۷۸، الموسوعۃ الفقیہۃ، کویت، ۱۵؍۲۹۲)
آپ نے اپنی جو مخصوص صورت بیان کی ہے اس کا شمار عذر میں ہوسکتا ہے لیکن کوشش کیجیے کہ وہ زیادہ دنوں تک باقی نہ رہے۔ اپنے افسران سے کہیے کہ وہ آپ کی علمی قابلیت اور خدمات کو دیکھتے ہوئے آپ کو پروموشن دیں، یا کوئی دوسرا کام لیں، جس میں آپ کی ایسی شدید مصروفیت باقی نہ رہے۔ ورک شاپ میں آپ سے متعلق جو کام ہے، اس کی انجام دہی کے لیے آپ کے علاوہ دوسرے افراد بھی ہوں گے۔ آخر آپ کی بیماری یا رخصت کے دنوں میں ورکشاپ میں تالا نہ لگ جاتا ہوگا اور بسیں چلنی بند نہ ہوجاتی ہوں گی۔ ان افراد سے تعاون لیجیے۔ ان کے بعض کام آپ کردیجیے تاکہ وہ آپ کے کچھ کام اپنے ذمے لے کر آپ کو نمازوں کی ادایگی کے لیے مہلت دے دیا کریں۔ دین میں نماز کی اہمیت اور اس کے مقام سے آپ بہ خوبی واقف ہیں، اس لیے کوشش کیجیے کہ حتی الامکان آپ کی تمام نمازیں وقت پر ادا ہوں۔(مولانا محمد رضی الاسلام ندوی)
س: ’روضۂ رسولؐ کے سامنے‘ (عالمی ترجمان القرآن، ستمبر ۲۰۱۵ئ) میں سلام پیش کرنے کا جو طریقہ لکھا گیا ہے اس سے تو بریلوی حضرات اذان سے قبل جو صلوٰۃ و سلام پڑھتے ہیں وہ ٹھیک معلوم ہوتا ہے؟ وضاحت فرما دیں۔
ج: روضۂ رسولؐ پر سلام پیش کرنے کا طریقہ وہی ہے جو نبی اکرمؐ نے اہلِ ایمان پر قبرستان میں سلام پیش کرنے کا طریقہ بیان فرمایا ہے۔ سنن ابن ماجہ میں باب ما یقال اذا دخل المقابر، کہ جب قبرستان میں آدمی جائے توکیا کہا جائے؟ عنوان کے تحت امام ابن ماجہ نے حضرت عائشہؓ کی روایت نقل کی ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسولؐ اللہ کو گم پایا تو دیکھتی ہوں کہ آپ بقیع میں ہیں اور فرماتے ہیں: سلام ہو تم پر اے وہ لوگو جو ایمان والوں کے گھر میں ہو۔ اس روایت کے مطابق خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبرستان والوں کو خطاب کر کے سلام پیش کیا ہے۔ لہٰذا نبی اکرمؐ کے روضے پر آپؐ کو خطاب کر کے الصلٰوۃ والسلام علیک یارسول اللّٰہ، کہنا کیسے ناجائز ہوسکتا ہے۔ اگر کوئی الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اللّٰہ کے الفاظ میں درود شریف پڑھتا ہے تو وہ بھی درود شریف ہی پڑھتا ہے، البتہ رسولؐ اللہ کو حاضر وناظر سمجھنا صحیح نہیں ہے۔
’روضۂ رسولؐ کے سامنے‘ (ستمبر۲۰۱۵ئ) میں پروفیسر ظفرحجازی صاحب نے جو صلوٰۃ و سلام ذکر کیا ہے وہ اس سے زیادہ نہیں ہے کہ نبی اکرمؐ کو رسول اللہ کے جملے کے ساتھ مخاطب کیا گیا ہے جو خود نبی اکرمؐ سے ثابت ہے۔ یہ نہیں کہا گیا کہ مساجد میں لائوڈاسپیکر پر الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللّٰہ پڑھا جائے تو ایسا کرنا ٹھیک ہوگا۔ آپ نے جو سمجھا ہے وہ درست نہیں سمجھا ہے۔
مزاروں پر مسلمان جہالت کی بنا پر جو کچھ کرتے ہیں اس کی اصلاح کی ضرورت مسلّم ہے اور علماے کرام اور مصلحین اس سلسلے میں لوگوں پر شرک اور کفر کے فتوے لگانے کے بجاے، تذکیر کا ذریعہ اختیار کرتے ہیں۔ آپ بھی حکمت کے ساتھ اصلاح کی کوشش کریں، فتوے لگانے سے پرہیز کریں۔( مولانا عبدالمالک)
سوال:کیا طوافِ کعبہ اور سعی بین الصفا والمروہ کے لیے وضو ضروری ہے؟ اگر ہاں تو جس شخص کا وضو اس دوران ٹوٹ جائے وہ کیا کرے؟ کیاوضو کے بعد طواف یا سعی کو وہ ازسرِنو دہرائے گا یا جتنا کرچکا ہے اس کے آگے مکمل کرے گا؟
جواب:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
الطَّوَافُ حَوْلَ الْبَیْتِ مَثْلُ الصَّلَاۃِ اِلَّا اَنَّکُمْ تَتَکَلَّمُوْنَ فِیْہِ (ترمذی، کتاب الحج، باب ماجاء فی الکلام فی الطواف، ۹۶۰، دارمی: ۲؍۴۴، ابن خزیمہ: ۲۷۳۹) خانہ کعبہ کے گرد طواف نماز کی طرح ہے۔ سوائے اس کے کہ اس میں بات چیت کی اجازت ہے۔
اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، پھر بیت اللہ کا طواف کیا۔ (بخاری، کتاب الحج، باب الطواف علی الوضوئ:۱۶۴۱،۱۶۴۲، مسلم: ۱۲۳۵)
حجۃ الوداع کے دوران حضرت عائشہؓ کو حیض آگیا۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اب کیا کریں؟ آپؐ نے فرمایا:
اِفْعَلِیْ مَا یَفْعَلُ الْحَاجُّ غَیْرَ اَنْ لَّا تَطُوْفِیْ بِالْبَیْتِ حَتّٰی تَطْہُرِیْ (بخاری: ۱۶۵۰، مسلم: ۱۲۱۱) ہروہ کام کرو جو حاجی کرتا ہے۔ بس بیت اللہ کا طواف نہ کرو، جب تک پاک نہ ہوجائو۔
مذکورہ احادیث کی بنا پر ائمہ وفقہا طواف کے لیے وضو کو ضروری قرار دیتے ہیں، لیکن اس کے حکم کے بارے میں ان کے درمیان اختلاف ہے۔ مالکیہ، شوافع اور حنابلہ وضو کو طواف کے لیے شرط قرار دیتے ہیں ، یعنی ان کے نزدیک بغیر وضو کے طواف نہیں ہوگا۔ احناف کے نزدیک طواف کے لیے وضو واجب ہے، یعنی اگر کوئی شخص بغیر وضو کے طواف کرلے تو اس کا طواف تو ہوجائے گا ، لیکن واجب چھوٹ جانے کی وجہ سے یاتو وہ باوضو ہوکر طواف دہرائے گا یا بہ طور کفارہ ایک جانور قربان کرے۔
اگر دورانِ طواف کسی شخص کا وضو ٹوٹ جائے تو احناف اور شوافع کے نزدیک وہ جاکر وضو کرے اور جتنے چکر باقی رہ گئے ہیں انھیں پورا کرلے۔ازسرنو طواف کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ امام مالکؒ سے اس سلسلے میں دونوں طرح کے اقوال مروی ہیں۔ حنابلہ کے نزدیک اگر اس نے جان بوجھ کر وضو توڑا ہے تو دوبارہ وضو کرکے ازسرنو طواف کرے اور اگر بے اختیار وضو ٹوٹ گیا ہے تو اس سلسلے میں دونوں طرح کے اقوال ہیں۔
کوئی شخص، چاہے حج کرے یا عمرہ، اسے طواف کے ساتھ صفا ومروہ کے درمیان سعی بھی کرنی ہوتی ہے۔ اس لیے علما نے لکھا ہے کہ طواف کے ساتھ سعی بھی باوضو ہوکر کرنا چاہیے، لیکن اوپر مذکور حدیث میں صرف طواف کے ضمن میں پاکی کی صراحت ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بغیر طہارت کے سعی کی جاسکتی ہے(دیکھیے: الموسوعۃ الفقہیہ ،کویت: ۲۷؍۱۳۰-۱۳۲)۔ (ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)
س : ایک سوال کے جواب میں آپ نے لکھا ہے کہ عام حالات میں حلال جانوروں کو ذبح کرکے ان کا گوشت کھایا جاسکتا ہے اور بہ طور صدقہ اسے تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پھر اس سے یہ استنباط کیا ہے کہ کسی مناسبت سے ، مثلاً مرض سے شفایابی پر جانور ذبح کرکے اس کا گوشت صدقہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات صحیح نہیں معلوم ہوتی۔
جانور ذبح کرکے اسے کھانے یا ذبح شدہ جانور کے گوشت کو بطور صدقہ تقسیم کرنے میں کوئی کلام نہیں، البتہ سوال یہ ہے کہ کسی مناسبت سے جانور کو بطور تقرب یا بغرض ثواب ذبح کرنا درست ہے یا نہیں؟ جیسا کہ یہ عام رواج بنتا جارہا ہے کہ کوئی شخص کسی جان لیوا حادثے سے بچ گیا تو اس کے بعد تقرب کی نیت سے وہ جانور ذبح کرتا ہے اور خون بہانے کو کارـثواب سمجھتا ہے اور اسے جان کی حفاظت کا بدلہ قرار دیتا ہے۔
جہاں تک مجھے معلوم ہے کہ بغرضِ ثواب جانور ذبح کرنا صرف دو موقعوں پر ثابت ہے۔ ایک عید قرباں میں ، دوسرے عقیقہ میں۔ الاّ یہ کہ دیگر اعمال صالحہ کی طرح کوئی شخص جانور ذبح کرنے کی نذر مان لے تو بحیثیت نذر درست ہے ، کیونکہ کسی بھی عمل صالح کو بشکل نذر اپنے ذمے لازم کرنا اور اسے ادا کرنا کتاب وسنت سے ثابت ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور موقع پر بطور تقرب جانور ذبح کرنا ثابت نہیں ہے اور تعبدی امور میں قیاس درست نہیں۔
ج:حلال جانوروں کا گوشت کھانا اور کھلانا عام حالات میں ، بغیر کسی مناسبت کے، جائز ہے۔ اسی طرح کسی مناسبت سے بھی اس کا جواز ہے۔ مثلاً کوئی شخص کسی مرض سے شفا پاجائے تو بہ طور شکرانہ وہ جانور ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کرسکتا ہے۔ فقہاے کرام نے اسے جائز قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں متعدد فتاویٰ موجود ہیں۔
شیخ محمد صالح المنجد عالم اسلام کے مشہور فقیہ اور مفتی ہیں۔ انٹرنیٹ پر Islamqa کے نام سے موجود سائٹ پر ان کے فتاویٰ موجود ہیں۔ فتویٰ نمبر۱۰۷۵۴۹ کے مطابق ایک شخص نے یہ سوال کیا تھا: میرا چچازاد ایک حادثے میں زخمی ہوگیا ہے اور ڈاکٹروں کے مطابق اس کے بچنے کی ۵۰فی صد امید ہے۔ ہمیں کسی نے نصیحت کی کہ ایک بکری اللہ کے لیے ذبح کردو، تو کیا ہمارے لیے ایسا کرنا جائز ہوگا؟
اس کا انھوں نے یہ جواب دیا: ’’اگر اللہ کے لیے ذبح کرنے کے بعد اس گوشت کے کچھ حصے کو فقرا اور مساکین میں تقسیم کرنا مقصود ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: دَاوُوْا مَرْضَاکُمْ بِالصَّدَقَۃِ (اپنے مریضوں کا علاج صدقہ سے کرو)۔ ابودائود نے اسے مراسیل میں ذکر کیا ہے اور طبرانی اور بیہقی وغیرہ نے اسے متعدد صحابہ کرامؓ سے روایت کیا ہے۔ اس کی تمام تر اسانید ضعیف ہیں، جب کہ البانی ؒ نے اسے ترمذی (۷۴۴) میں حسن لغیرہ قرار دیا ہے۔ آگے انھوں نے دو فتاویٰ بھی نقل کیے ہیں۔
دائمی کمیٹی براے فتویٰ کے علماے کرام سے پوچھا گیا کہ حدیث: دَاوُوْا مَرْضَاکُمْ بِالصَّدَقَۃِ (اپنے مریضوں کا علاج صدقہ سے کرو) کا مطلب سمجھا دیں، جسے بیہقی نے السنن الکبریٰ (۳؍۳۸۲)میں بیان کیا ہے، لیکن اکثر محدثین کرام مریض کا علاج جانور کو ذبح کرنے کے حوالے سے اسے ضعیف قرار دیتے ہیں ، تو کیا مریض سے مصیبت ٹالنے کے لیے ایسا کرنا درست ہے یا نہیں؟
اس سوال کا انھوں نے یہ جواب دیا:’’مذکورہ حدیث درست نہیں ہے، لیکن مریض کی جانب سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے اور شفایابی کی اُمید رکھتے ہوئے صدقہ کرنے میں کوئی حرج نہیں، اس لیے کہ صدقے کی فضیلت میں بہت سے دلائل موجود ہیں اور صدقے سے گناہ مٹا دیے جاتے ہیں اور بری موت سے انسان دور ہوجاتا ہے‘‘۔ (فتاویٰ اللجنۃ الملدائمۃ۲۴؍۴۴۱)
شیخ ابن جبرینؒ کہتے ہیں: ’’صدقہ مفید اور سودمند علاج ہے۔ اس کے باعث بیماریوں سے شفا ملتی ہے اور مرض کی شدت میں کمی بھی واقع ہوتی ہے۔ اس بات کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کہ ’’صدقہ گناہوں کو ایسے مٹادیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے‘‘سے ہوتی ہے۔ اسے احمد( ۳؍۳۹۹) نے روایت کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ مرض گناہوں کی وجہ سے سزا کے طور پر لوگوں کو لاحق ہوجاتے ہوں، تو جیسے ہی مریض کے ورثا اس کی جانب سے صدقہ کریں تو اس کے باعث اس کا گناہ دھل جاتا ہے اور بیماری جاتی رہتی ہے، یا پھر صدقہ کرنے کی وجہ سے نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں، جس سے دل کو سکون اور راحت حاصل ہوتی ہے اور اس سے مرض کی شدت میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔(الفتاویٰ الشرعیۃ فی المسائل الطبیۃ، جلد۲، سوال نمبر۱۵)
آخر میں شیخ المنجد نے لکھا ہے: ’’چنانچہ اللہ کے لیے ذبح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس قربانی کا مقصد مریض کی جانب سے شفا کی امید کرتے ہوئے صدقہ کرنا ہے، جس سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے شفا دے گا‘‘۔
ہندستان کے مشہور فقیہ اور مفتی مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سے دریافت کیا گیا:اگر کوئی شخص بیمار پڑا تو اس کے گھر والے اس کے اچھے ہونے کے بعد جان کی زکوٰۃ میں بکرا ذبح کرتے ہیں۔ یہ گوشت گھر والے کھاسکتے ہیں یا نہیں؟
انھوں نے جواب دیا: ’’اگر صحت مند ہونے سے پہلے نذر مانی ہو کہ صحت حاصل ہونے پر میں بکرا ذبح کروں گا تو یہ نذر کی قربانی ہے۔ یہ ان لوگوںکو کھلایا جاسکتا ہے جن کو نذر ماننے والا زکوٰۃ دے سکتا ہو۔ اور اگر پہلے سے نذر نہیں مانی تھی، بلکہ صحت مند ہونے کے بعد اظہار مسرت کے لیے قربانی کی تو یہ شکرانہ کی قربانی ہے۔ اس کا گوشت خود بھی کھاسکتا ہے اور دوسرے اہل تعلق کو بھی کھلایا جاسکتا ہے۔ (کتاب الفتاویٰ، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند، ۲۰۰۵ئ، فتویٰ نمبر۱۳۰۶)
پاکستان کی مشہور درس گاہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ، بنوری ٹائون، کراچی کے مفتی مولانا محمد انعام الحق قاسمی نے لکھا ہے: ’’مریض کی صحت کی نیت سے خالص اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لیے کوئی جانور ذبح کرنا جائز ہے، البتہ زندہ جانور کا صدقہ کردینا زیادہ بہتر ہے‘‘۔(قربانی کے مسائل کا انسائی کلو پیڈیا، بیت العمار کراچی، ص ۹۶)
خلاصہ یہ کہ کوئی شخص کسی جان لیوا حادثے سے بچ جائے یا کسی موذی مرض سے شفا پاجائے تو اس کے بعد اس کا کسی جانور کا خون بہانے کو کارِ ثواب سمجھنا اور اسے جان کی حفاظت کا بدلہ قرار دینا تو غلط ہے، لیکن بطور شکرانہ زندہ جانور کو صدقہ کرنا یا اسے ذبح کرکے اس کا گوشت صدقہ کرنا دونوں صورتیں درست ہیں۔(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)
فائل کرپٹٹڈ ہے
سوال : میں ایک دینی مرکز کے کیمپس میں واقع مسجد میں پنج وقتہ نماز ادا کرتا ہوں۔ جہاں باہر سے مہمان تشریف لاتے ہیں۔ ان میں سے بعض حضرات جمع بین الصلوٰتین کی نیت سے ظہر کی جماعت سے فارغ ہوتے ہی عصر کی نماز اور مغرب کی جماعت سے فارغ ہوتے ہی عشاء کی نمازباجماعت پڑھنے لگتے ہیں۔ چنانچہ ان کے لیے یہ جاننا مشکل ہوتا ہے کہ کون سی نماز پڑھی جارہی ہے۔ ’جمع بین الصلوٰتین‘ کے تحت ظہر یا عصر یا عشاء کی نماز پڑھی جارہی ہے یا مغرب یا عشاء کی دوسری جماعت ہو رہی ہے؟ عام لوگ ظہر یا مغرب کی دوسری جماعت سمجھ کر اس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس سلسلے میں درج ذیل سوالات جواب طلب ہیں:
۱- جب عام نمازیوں کو غلط فہمی کا اندیشہ رہتا ہو تو اس طرح مسجد کے اندر ’جمع بین الصلوٰتین‘ کہاں تک درست ہے؟
۲- جو لوگ ظہر یا مغرب کی نیت سے عصر یا عشاء کی جماعت میں شامل ہوتے ہیں، ان کی نماز ہوگی یا نہیں؟ کیوں کہ امام اور مقتدی دونوں کی نیت الگ الگ ہوگئی۔
۳- اگر مسجد میں اذان یا جماعت کے متعینہ وقت سے پہلے باجماعت نماز ادا کی جائے تو درست ہے یا نہیں؟
جواب:مسجد میں وقت ِ ضرورت دوسری جماعت کی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ ہیئت تبدیل کردی جائے، یعنی پہلی جماعت مسجد کے جس حصے میں ہوتی ہے، اس سے ہٹ کر کسی اور جگہ دوسری جماعت کی جائے۔ اگر مسجد میں کچھ مسافر موجود ہوں اور وہ جمع بین الصلوٰتین کی غرض سے دوسری نماز جماعت سے ادا کرنا چاہیں تو وہ بھی ایسا کرسکتے ہیں۔
اصل سوال یہ ہے کہ اگر کچھ مسافر مسجد میں باجماعت عصر یا عشاء کی نماز پڑھ رہے ہوں اور کوئی شخص اسے ظہر یا مغرب کی نماز سمجھ کر جماعت میں شامل ہوجائے تو اس کی نماز ہوگی یا نہیں؟ بہ الفاظ دیگر اگر امام اور مقتدی کی نیتیں الگ الگ ہوجائیں، امام نے کسی نماز کی نیت کی ہو اور مقتدی کی نیت کسی اور نماز کی ہو تو مقتدی کی نماز درست ہوگی یا نہیں؟
اس سلسلے میں احناف، مالکیہ اور حنابلہ کا مسلک یہ ہے کہ نماز کی نیت کے معاملے میں امام اور مقتدی کا اتحاد ضروری ہے۔ اگر امام عصر کی نماز پڑھا رہا ہے اور مقتدی کی نیت نمازِ ظہر کی ہے یا امام عشاء کی نماز پڑھا رہا ہے اور مقتدی کی نیت نمازِ مغرب کی ہے تو مقتدی کی نماز درست نہ ہوگی۔ ان کا استدلال اس حدیث ِ نبویؐ سے ہے:
اِنَّمَا جُعِلَ الْاِمَامُ لِیُؤتَمَّ بِہٖ فَلَا تَخْتَلِفُوْا عَلَیْہِ (بخاری، کتاب الاذان) امام اسی لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔ اس لیے اس سے اختلاف نہ کرو۔
البتہ شوافع کہتے ہیں کہ نماز کی صحت کے لیے امام اور مقتدی دونوں کی نمازوں کا ایک ہی ہونا ضروری نہیں ہے۔ نماز کے ظاہری افعال میں یکسانیت ہو تو مقتدی کی نماز درست ہوگی، خواہ اس کی نیت کسی نماز کی ہو اور امام کوئی اور نماز پڑھا رہا ہو۔(الموسوعۃ الفقیہ، کویت، ۶/۲۲-۲۳، ۳۳)
کسی نماز کا وقت ہوجائے، لیکن ابھی اس کی اذان یا جماعت نہیں ہوئی ہے، کچھ لوگ ہیں جنھیں کسی ضرورت سے فوراً سفر پر نکلنا ہے، وہ مسجد میں اپنی جماعت کرسکتے ہیں۔ البتہ ان کے لیے مناسب ہے کہ مسجد کے جس حصے میں جماعت ہوتی ہے، اس سے ہٹ کر کسی اور جگہ اپنی جماعت کرلیں۔(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)
س: نماز میں بھول جائیں تو سجدۂ سہو لازم ہوجاتا ہے۔ اگر معمولی سی بھول ہو، مثلاً چار یا تین رکعتوں کے فرض میں دوسری رکعت کی التحیات کے بعد تیسری رکعت کے لیے اُٹھ کھڑے ہونا چاہیے۔ نمازی بھول کر درود شریف شروع کردیتا ہے مگر دوچار الفاظ (اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی…) کے بعد ازخود متنبہ ہوکر اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اسی طرح چار فرض کی تیسری اور چوتھی رکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد رکوع میں جانا ہوتا ہے۔ نمازی بھول کر آیاتِ قرآنی پڑھنا شروع کردیتا ہے (قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ…) فوراً متنبہ ہوجاتا ہے اور رکوع میں چلا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کی چھوٹی موٹی بھول چوک پر بھی سجدئہ سہو لازم ہے؟
ج: جب فرض اور واجب کی تاخیر ہوجائے یا واجب رہ جائے اور یہ تاخیر اتنی ہو کہ اس وقت میں کوئی رکن ادا کیا جاسکتا ہو تو پھر سجدۂ سہو واجب ہوتا ہے۔ قعدہ اول میں جب ایک نمازی تشہد کے قعدہ میں بیٹھ کر تشہد پڑھ لیتا ہے تو اسے فوراً تیسری رکعت کے لیے اُٹھنا چاہیے۔ اگر وہ تشہد سے فارغ ہونے کے بعد اتنی دیر بیٹھ گیا کہ اس میں اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ پڑھا جاسکتا ہو تو پھر سجدئہ سہو واجب ہوگیا کیوںکہ درود شریف کے مذکورہ حروف اتنے ہیں کہ ان سے رکن ادا ہوسکتا ہے، مثلاً رکوع یا سجدہ اتنی مقدار میں تسبیحات سے ادا ہوسکتا ہے۔
۲- تیسری اور چوتھی رکعت میں فاتحہ کے بعد سورہ کا پڑھنا جائز ہے۔ لہٰذا تیسری یا چوتھی رکعت میں فاتحہ کے بعد کوئی سورہ پڑھ لی تو اس سے سجدئہ سہو واجب نہیں ہوتا۔ اسی طرح سورہ کے چند الفاظ پڑھ لیے تب بھی سجدئہ سہو واجب نہیں ہوتا۔(مولانا عبدالمالک)
س : ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ پیٹ کے تین حصے کیے جائیں: ایک کھانے کے لیے، دوسرا پینے کے لیے، تیسرا خالی رکھا جائے۔ آج کل ڈاکٹرز حضرات کھانا کھانے کے ساتھ پانی پینے کو مضر گردانتے ہیں اور اس سے منع کرتے ہیں، جب کہ اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ کھانا کھانے کے بعد پانی کے لیے جگہ خالی رکھی جائے۔ براہِ کرم وضاحت فرما دیں؟
ج:مقداد بن معدی کربؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَامَلأَ آدَمِیٌّ وِعَائً شَرًّا مِّنْ بَطْنٍ ، بِحَسْبِ ابْنِ آدَمَ اُکَیْلَاتٌ یُقِمْنَ صُلْبَہ، فَاِنْ کَانَ لَا مَحَالَۃَ فَثُلُثٌ لِطَعَامِہٖ وَثُلُثٌ لِشَرَابِہٖ وَثُلُثٌ لِنَفَسِہٖ (ترمذی: ۲۳۸۰، ابن ماجہ: ۳۳۴۹، صحیح ابن حبان: ۵۲۱۳) کسی آدمی نے پیٹ سے برابر تن نہیں بھرا۔ ابن آدم کے لیے اپنی پیٹھ سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے کافی ہیں۔ اگر وہ لازماً زیادہ کھانا ہی چاہے تو (پیٹ کے تین حصے کرلے) ایک تہائی کھانے کے لیے، ایک تہائی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس کے لیے)۔
علامہ البانیؒ نے اس حدیث کی تخریج اپنی کتاب ارواء الغلیل میں کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔ اس حدیث میں بڑی حکمت کی بات بتائی گئی ہے۔ اس میں شکم پُری سے روکا گیا ہے۔ سروے رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آج کل پیٹ کی جتنی بیماریاں پائی جاتی ہیں ان میں سے زیادہ تر بسیارخوری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ دعوتوں اور تقریبات کو جانے دیجیے، لوگ روزمرہ کے معمولات میں کھانے کا اس قدر اہتمام کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے، وہ کھانے ہی کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ اس حدیث سے یہ تعلیم ملتی ہے کہ آدمی کھانے کے لیے زندہ نہ رہے، بلکہ زندہ رہنے کے لیے کھائے۔
کھانے کے دوران یا اس سے فارغ ہوتے ہی فوراً پانی پینا طبی اعتبار سے درست نہیں ہے۔ معدے سے ایسے افرازات (secretions) خارج ہوتے ہیں جو ہضمِ غذا میں معاون ہوتے ہیں۔ کھانا معدے میں پہنچتا ہے تو وہ افرازات اس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کھانا درست طریقے سے جلد ہضم ہوتا ہے۔ کھانے کے دوران یا اس کے فوراً بعد پانی پی لینے سے ان افرازات کی تاثیر کم یا ختم ہوجاتی ہے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ کھانے سے فراغت کے نصف گھنٹے کے بعد پانی پیا جائے۔
مذکورہ بالا حدیث میں کھانے کے بعد فوراً پانی پینے کا حکم نہیں دیا گیا ہے، بلکہ اس میں صرف یہ بات کہی گئی ہے کہ آدمی اپنے پیٹ کو کھانے سے مکمل نہ بھرلے، بلکہ کچھ گنجایش پانی کے لیے بھی رکھے۔ اب اگر کوئی شخص کھانے سے فارغ ہونے کے کچھ دیر بعد پانی پیے تو اس سے حدیث کی مخالفت نہ ہوگی، بلکہ طبی اعتبار سے یہ بہتر ہوگا۔(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)
رسائل و مسائل یہ فائل کرپٹڈ ہے
سوال : روایت ہے کہ حضرت ابوایوب انصاریؓ جب دنیا سے رخصت ہونے لگے تو فرمایا کہ میں نے ایک بات اب تک تم سے چھپا رکھی تھی۔ اب آخر وقت میں پیش کر رہا ہوں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا تھا کہ اگر تم سب لوگ ملائکہ کی طرح بے گناہ ہوجائو اور تم سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اور مخلوق پیدا کردے گا جو گناہ کر کے توبہ کریں گے۔(مسلم)
اس حدیث کی وضاحت کے سلسلے میں ایک کھٹک سی ذہن میں پیدا ہوتی ہے۔ کیا اس سے مراد یہ ہے کہ گناہ کیا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ معاف کردے ورنہ وہ کوئی دوسری مخلوق پیدا کردے گا؟ نیز اس کی صحت کے بارے میں بھی واضح کردیجیے۔
جواب:آپ نے جس حدیث کا حوالہ دیا ہے وہ مسلم، کتاب التوبہ باب سقوط الذنوب بالاستغفار والتوبہ میں دو سندوں کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔ الفاظ یہ ہیں: لَوْلَا اَنَّکُمْ تُذْنِبُوْنَ لَخَلَقَ اللّٰہُ خَلْقًا یُذْنِبُوْنَ لِیَغْفِرَلَھُمْ۔ دوسری حدیث کے الفاظ یہ ہیں: لَوْ اَنَّکُمْ لَمْ تَکُنْ لَکُمْ ذُنُوْبٌ یَغْفِرُاللّٰہُ لَکُمْ لَجَائَ اللّٰہُ بِقَوْمٍ لَہُمْ ذُنُوْبٌ یَغْفِرُھَا لَھُمْ۔ حضرت ابوایوب انصاریؓ کی اس روایت کے بعد حضرت ابوہریرہؓ کی ایک روایت بھی مسلم میں نقل ہوئی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: وَالَّذِیْ نَفْسِی بِیَدِہٖ لَوْلَمْ تُذْنِبُوْا لَذَھَبَ اللّٰہُ بِکُمْ وَلَجَائَ بِقَوْمٍ یُذْنِبُوْنَ فَیَسْتَغْفِرُوْنَ اللّٰہَ فَیَغْفِرُلَہُمْ۔تینوں احادیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر تم گناہ نہ کرو یا تمھارے گناہ نہ ہوں تو اللہ دوسری ایسی قوم لے آئے گا یا ایسی مخلوق پیدا کردے گا جن کے گناہ ہوں گے اور وہ بخشش مانگیں گے تو اللہ ان کے گناہ معاف کردے گا۔
یہ حدیث سنداً تو بالکل صحیح حدیث ہے۔ اس لیے کہ مسلم ان کتابوں میں شامل ہے جو صحیح احادیث ہی پر مشتمل ہوتی ہیں۔ لیکن اس کا صحیح مفہوم سمجھنے کے لیے آپ پہلے تین باتوں کو اپنے ذہن میں رکھیں تاکہ اُلجھن اور کھٹک کا ازالہ ہوجائے۔
۱- پہلی بات یہ ہے کہ کسی حدیث و آیت کی تشریح و تفسیر کے لیے اسی موضوع سے متعلق دوسری آیات و احادیث کو سامنے رکھنا چاہیے۔
۲- دوسری بات یہ ہے کہ بعض آیات و احادیث کا اسلوبِ بیان قانونی ہوتا ہے جس میں محدود و مخصوص الفاظ میں شریعت کے قانون اور ضابطے کی وضاحت مقصود ہوتی ہے، اور بعض آیات و احادیث کا اسلوب خطیبانہ اور واعظانہ ہوتا ہے جس میں اصل حکم بیان کرنا مقصود نہیں ہوتا بلکہ ترغیب و ترہیب اصل مقصد ہوتا ہے۔ اس نوع کے واعظانہ، خطیبانہ اور ترغیبی یا ترہیبی کلام میں الفاظ کا لغوی مفہوم مراد نہیں ہوتا بلکہ جذبات کو اُبھارنا اور عمل پر آمادہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اس قسم کے الفاظ میں مبالغہ اور فرضی قسم کی مثالیں بھی بیان ہوتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معلمِ قانون بھی تھے اور واعظ بھی۔ اس لیے آپؐ کے کلام میں دونوں پہلو جلوہ گر ہوتے ہیں۔ سخن فہمی کا ذوقِ سلیم رکھنے والا شخص موقع و محل کی مناسبت سے اور دوسری احادیث کی روشنی میں رسولؐ اللہ کا منشا معلوم کرسکتا ہے۔
۳- تیسری بات یہ ہے کہ خلافت ِ ارضی کا منصب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو نہیں دیا بلکہ انسان کو دیا ہے۔ فرشتوں کے اندر گناہ کی سرے سے قوت ہی نہیں ہے۔ اگر ان کو زمین کی خلافت دی جاتی تو اللہ کی قہاریت، جباریت، عفو، تواب اور غفار کی صفات کا ظہور نہیں ہوسکتا تھا۔ انسان کے اندر شر کی قوت بھی رکھی گئی ہے۔ اس کا نفس امارہ بالسوء بھی ہے اور لوامہ یامطمئنہ بھی ہے۔ انسان کبھی عالمِ بالا اور ملکیت کی جانب متوجہ ہوتا ہے اور کبھی عالم سفلی اور بہیمیت کی جانب متوجہ ہوجاتا ہے۔ انسان کامل، یعنی نبی ؑ سے چونکہ اصلاح اور دعوت و ارشاد کا کام لیا جاتا ہے، اس لیے بشر ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ اس کو گناہوں اور بُرائیوں سے محفوظ و معصوم رکھتا ہے۔ لیکن باقی انسان اپنے اعمال کے اعتبار سے رحمت و مغفرت کا مظہر بھی ہوتے ہیں اور قہروغضب کا مظہر بھی ہوتے ہیں۔ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ۔
پہلے نمبر پر بیان کردہ قاعدے کی روشنی میں جب ہم اس حدیث پر غور کرتے ہیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اس حدیث کا مقصد گناہوں پر آمادہ کرنا نہیں ہے بلکہ توبہ و استغفار کی ترغیب دلانا ہی اصل مقصد ہے اور مایوسی کے احساس کا ازالہ کرنا پیش نظر ہے۔ اس لیے کہ متعدد آیات و احادیث میں اللہ و رسولؐ کی نافرمانی سے اور گناہوں کے ارتکاب سے روکا گیا ہے اور گناہ کا ارتکاب کرنے والوں کو عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ انسانی و بشری کمزوریوں کی بناپر گناہوں کا صدور تو ہوتا رہے گا، اور اگر ان کو توبہ و استغفار کی فضیلت و اہمیت نہ بتائی جائے تو وہ مایوسی کا شکار ہوکر مزید گناہ کریں گے۔ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط اِِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط (اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجائو، یقینا اللہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔ الزمر ۳۹:۵۳) کا بھی یہی مفہوم ہے کہ اگرچہ اللہ کی رحمت و مغفرت کے بھروسے پر گناہوں کا ارتکاب کرنا حماقت و بغاوت ہے لیکن گناہ سرزد ہوجانے کے بعد اللہ کی اس رحمت و مغفرت سے مایوس ہو جانا بھی حماقت و جہالت ہی کی ایک قسم ہے۔
یہی بات زیربحث حدیث میں بیان ہوئی ہے کہ مغفرت و رحمت اللہ کی صفت ہے۔ اس کا ظہور ہوکر رہے گا۔ اگر بالفرض تمھارے گناہ سرے سے موجود ہی نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ کوئی دوسری مخلوق پیدا کرے گا جو گناہ کرنے کے بعد مایوس نہیں ہوگی بلکہ توبہ و استغفار کرے گی۔ لہٰذا تم سے بھی اگر کوئی گناہ صادر ہوجائے تو مایوس ہونے کے بجاے توبہ واستغفار کے حکم پر عمل کرو۔ نہ صرف یہ کہ توبہ واستغفار سے تمھارے گناہ معاف ہوجائیں گے بلکہ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِھِمْ حَسَنٰتٍ ط (ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا۔ الفرقان ۲۵:۷۰) سے معلوم ہوتا ہے کہ مزید حسنات و درجات سے بھی نوازے جائو گے۔
دوسرے قاعدے کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ زیربحث حدیث میں اسلوبِ کلام خطیبانہ اور واعظانہ ہے۔ اور مقصد یہ نہیں ہے کہ تم گناہ کرو تاکہ اللہ تعالیٰ مغفرت کرے بلکہ مقصد یہ ہے کہ چونکہ تم سے گناہ صادر ہوتے ہیں اس لیے توبہ و استغفار کرو تاکہ اللہ تعالیٰ معاف کردے۔ گناہ کے صدور کی خبر دے کر توبہ کا حکم دیا گیا ہے۔ گناہ کا حکم دے کر توبہ کا حکم نہیں دیا گیا۔
تیسرے قاعدے کی رُو سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی خلافت انسانوں کے لیے ہے جو رحمت کا مظہر بھی ہیں اور غضب کا مظہر بھی۔ حدیث میں یہ نہیں کہا گیا کہ میں دوسری مخلوق پیدا کرتا ہوں بلکہ یوں کہا گیا ہے کہ اگر تم گناہ نہ کرتے تو میں دوسری مخلوق پیدا کردیتا لیکن چونکہ تم گناہ کرتے ہو تو صفت ِ غفاریت کے ظہور کے لیے دوسری مخلوق پیدا کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔
حاصل بحث یہ ہے کہ انسان گناہ کرتے رہیں گے لیکن اللہ بھی مغفرت فرماتے رہیں گے بشرطیکہ انسان توبہ و استغفار کرتا رہے۔ اس لیے مایوس نہیں ہونا چاہیے(مولانا گوہر رحمٰن)۔ (تفہیم المسائل، حصہ اوّل،ص ۳۹-۴۳)
س : میری خالہ کافی عرصے کے بعد امریکا سے اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ آئی ہیں۔ ان کی بیٹیاں جینز پہنتی ہیں، لیکن جب وہ گھر سے باہر نکلتی ہیں تو سارے کپڑے چادر سے چھپاکر نکلتی ہیں۔ میں نے بہت دفعہ اپنی کزن کو جینز پہننے سے منع کیا لیکن وہ کہتی ہیں کہ جینز پہننا کوئی گناہ نہیں ہے، نہ یہ مردوں کی مشابہت ہے اور نہ کافروں کی۔ وہ یہ جواز پیش کرتی ہیں کہ آج پوری دنیا میں عورتیں پینٹ پہن رہی ہیں۔ امریکا میں بھی مسلم عورتیں پہنتی ہیں۔ ایران، سعودی عرب، دبئی، ترکی اور خود پاکستان میں بھی عورتیں جینز پہنتی ہیں۔ اب یہ لباس مسلمانوں میں بھی رواج پاچکا ہے۔ کافروں کی مشابہت یہ جب ہوتا جب اسے صرف کافر ہی پہنتے۔ اگر پینٹ چست نہ ہو، ڈھیلی ڈھالی ہو، قمیص پینٹ کے اندر نہ ہو بلکہ باہر ہو، ڈھیلی ڈھالی ہو اور کم از کم رانوں تک ہو اور ستر نمایاں نہ ہو تو پینٹ جائز ہے۔ دوسرے، یہ بات کہ یہ مردوں کی نقل ہے، تو یہ بھی ٹھیک نہیں ہے کیونکہ ہمارے ہاں جس طرح عورتوں اور مردوں کی شلواریں ایک جیسی ہوتی ہیں، اسی طرح سب جگہ پر پینٹ بھی مردوں اور عورتوں کی ایک جیسی ہیں۔ اگر کوئی لڑکی پینٹ کوٹ پہنے یا مردانہ قمیص شلوار پہنے، یا کوئی خاص مردوں کا لباس پہنے تو وہ مردوں کی نقل ہوگا، اور اسی طرح کوئی عورت خاص کافر عورتوں کا لباس پہنے تو وہ کافروں سے مشابہت ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت فرما دیں۔
ج:لباس کے بارے میں اصولی ہدایات سورئہ اعراف، آیت ۲۶، ۲۷، ۲۸،۳۱، ۳۲ میں دی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک اصولی ہدایت یہ ہے کہ لباس تقویٰ کا ہو۔ مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ لباس التقوٰی کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:’’انسان کے لیے لباس کا صرف ذریعۂ سترپوشی اور وسیلۂ زینت و حفاظت ہونا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ فی الحقیقت اس معاملے میں جس بھلائی تک انسان کو پہنچنا چاہیے، وہ یہ ہے کہ اس کا لباس تقویٰ کا لباس ہو۔ یعنی پوری طرح ساتر بھی ہو، زینت میں بھی حد سے بڑھا ہوا یا آدمی کی حیثیت سے گرا ہوا نہ ہو، فخروغرور اور تکبر و ریا کی شان لیے ہوئے بھی نہ ہو اور پھر ان ذہنی امراض کی نمایندگی بھی نہ کرتا ہو جن کی بناپر مرد زنانہ پن اختیار کرتے ہیں، عورتیں مردانہ پن کی نمایش کرنے لگتی ہیں اور ایک قوم دوسری قوم کے مشابہ بننے کی کوشش کرکے خود اپنی ذلت کا اشتہار بن جاتی ہے‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۲،ص ۲۰)
ایک قوم کا دوسری قوم کے مشابہ بننے سے یہی مراد نہیں ہے کہ ان کے شعار کو اپنائے بلکہ ان کے طور طریقوں، وضع قطع، تراش خراش کو اپنانا بھی ان کے مشابہ بننا ہے۔ پھر دوسری قوموں کے ساتھ مشابہت کے علاوہ مسلمانوں میں ایسے لوگ اور ایسے طبقات جو دوسروں کی تہذیب و روایات کو اپنائے ہوئے ہوں، ان کے رہن سہن، ان کے لباس کو پہنتے ہوں، ان کے ساتھ بھی مشابہت نہ ہو، بلکہ صلحا اور متقین جو اسلامی تہذیب و اقتدار کو سینے سے لگائے ہوئے ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام اور سلف صالحین، مردوں اور عورتوں کے لباس کی یاد تازہ کرتے ہوں، ان کی پیروی اور نقالی کرنے والے ہوں۔ ان کے ساتھ مشابہت کرنے والے اہلِ تقویٰ اور اسلامی اقدار و روایات کو اپنانے والوں کی شکل اختیار کریں گے تو اللہ تعالیٰ ظاہر کا اثر باطن پر بھی ڈال دے گا۔ تواضع اور انکساری کا لباس آدمی میں تواضع اور انکساری پیدا کرتا ہے اور تکبر و غرور کا لباس آدمی میں تکبر و غرور پیدا کرتا ہے۔
مولانا مفتی محمد شفیعؒ اس موضوع پر اس آیت کی تفسیر لکھتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ’’لباسِ تقویٰ کے لفظ سے اس طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ ظاہری لباس کے ذریعے سترپوشی اور زینت و تجمل سب کا اصل مقصد تقویٰ اور خوفِ خدا ہے جس کا ظہور اس کے لباس میں بھی اسی طرح ہونا چاہیے کہ اس میں پوری سترپوشی ہو، کہ قابلِ شرم اعضا کا پورا پردہ ہو، وہ ننگے بھی نہ رہیں، اور لباس بدن پر ایسا چست بھی نہ ہو جس میں یہ اعضا مثل ننگے کے نظر آئیں۔ نیز اس لباس میں فخروغرور کا انداز بھی نہ ہو بلکہ تواضع کے آثار ہوں، اسراف بے جا بھی نہ ہو، ضرورت کے موافق کپڑا استعمال کیا جائے۔ عورتوں کے لیے مردانہ اور مردوں کے لیے زنانہ لباس بھی نہ ہو، جو اللہ کے نزدیک مبغوض و مکروہ ہے۔ لباس میں کسی دوسری قوم کی نقالی بھی نہ ہو جو اپنی قوم و ملّت سے غداری اور اعراض کی علامت ہے۔ اس کے ساتھ اخلاق و اعمال کی درستی بھی ہو، جو لباس کا اصل مقصد ہے۔(معارف القرآن، ج۳،ص ۵۳۶)
آپ نے جیز کی جو صورت تحریر کی ہے، وہ بے شک وہی ہو جو آپ نے لکھی ہے کہ ساتر ہو، اس میں مردوں کے ساتھ مشابہت نہ ہو، لیکن یہ ہمارے معاشرے کی نہیں، بلکہ مغربی معاشرے کی ایجاد اور مغرب کا لباس ہے۔ آپ تو بے شک اسے اس طرح استعمال کریں گی جو ساتر ہوگی، لیکن اپنی اصل کے اعتبار سے تو یہ ساتر نہیں ہے بلکہ اصل میں یہ مغربی لباس کی نقالی ہے۔ اس کے بجاے آپ اسلامیت اور پاکستانیت کو پھیلائیں، پاک و ہند کے دینی گھرانوں کو پیش نظر رکھیں۔ آپ پاکستان اور عالمِ اسلام کی صالحات کی پیروی کریں۔ اس سے دینی اور اسلامی ذہنیت نشوونما پائے گی، آخرت کی فکر پیدا ہوگی اور نیک خواتین کی طرح آپ میں بھی نیکی کا جذبہ پیدا ہوگا۔
نیک لوگوں کا لباس نیکی اور بُرے لوگوں کا لباس بُرائی کی ذہنیت پیدا کرتا ہے۔ انسان کا لباس، انسان کی صحبت تو آدمی پر اثرانداز ہوتی ہی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بکریوں والوں میں مسکنت اور تواضع پائی جاتی ہے اور فخروغرور اُونٹوں کی دُموں کو پکڑ کر چلنے والوں میں پایا جاتا ہے۔ لباس دراصل ذہنی طور پر اہلِ لباس کی صحبت ہے اور اس پر وہی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو صحبت پر مرتب ہوتے ہیں۔ اس لیے خواتین کو جینز کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
آپ کی کزن نے ایران، سعودی عرب اور پاکستان کے جن اُونچے گھرانوں کی خواتین کا حوالہ دیا ہے کہ وہ بھی پینٹ پہنتی ہیں، تو اس بارے میں عرض ہے کہ یہ وہ خواتین ہیں جو مغربی تہذیب کی نقالی کرتی ہیں۔ اس لیے آپ ان سے کہہ دیجیے کہ ان کی نقالی کو چھوڑ دیجیے۔ ان کے بجاے دنیا کے اسلامی گھرانوں کی خواتین کو اپنے لیے نمونہ بنائیں جو مغربی تہذیب سے متاثر اور اس کی دل دادہ نہیں۔ وہ مغربی تہذیب کو باعث ِ عزت و فخر سمجھنے کے بجاے اسلامی تہذیب و روایات کی قدر کرتی ہیں اور اس میں شرف و وقار سمجھتی ہیں۔ (مولانا عبدالمالک)