نومبر ۲۰۲۵

فہرست مضامین

انسانی ترقی کا نازک ڈھانچا

ڈاکٹر طاہر کامران | نومبر ۲۰۲۵ | تہذیب و تمدن

Responsive image Responsive image

تہذیب کے پھیلائو کا اندازہ اس کی سلطنت کی وسعت، اس کی تعمیر کردہ یادگاروں کی بلندی یا اس میں ٹکنالوجی کی ترقی سے نہیں ہوتا، بلکہ یہ اس کی ایسی صلاحیت کی پرکھ سے ہوتا ہے کہ وہ اپنے معاشرے کے اندر اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن کو کیسے پروان چڑھاتی ہے۔ نوربرٹ ایلیاس کے نظریے کے مطابق، تہذیبی عمل خود پر قابو، ہمدردی اور سفارت کاری کے اندرونی جذب کا ایک تدریجی عمل ہے ۔یہ وہ اخلاقی ذرائع ہیں جو جارحیت کو دباتے ہیں اور انسانی بقائے باہمی کو ایک مشترکہ اخلاقی کوشش میں بدل دیتے ہیں۔ 

تاریخی طور پر، فلسفیوں نے امن کو ایک غیر فعال حالت کے طور پر نہیں، بلکہ عقل اور اخلاقی ارتقاء کی سب سے اعلیٰ شکل کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ ایمانوئل کانٹ نے اپنی کتاب دائمی امن (۱۷۹۵ء) میں آزاد ریاستوں کے ایک اتحاد کا تصور پیش کیا، جو فتح کے بجائے قانون سے بندھا ہو، یہ استدلال کرتے ہوئے کہ اصلی تہذیب اسی وقت اُبھرتی ہے، جب ’عقل غلبے کے جذبات پر غالب آتی ہے‘۔ ٹوئن بی نے اپنی کتاب تاریخ کا مطالعہ میں بھی یہی بات کہی: تہذیبیں اخلاقی تخلیقی صلاحیت سے عروج پاتی ہیں اور جب وہ عسکریت پسندی کے آگے ہتھیار ڈال دیتی ہیں تو زوال پذیر ہوتی ہیں۔ 

یہ سبق لازوال ہے کہ جارحیت، خواہ اسے تحفظ کے نام پر کتنا ہی جواز دیا جائے، آخرکار انھی نظریات کو کھوکھلا کر دیتی ہے جو تہذیب کو برقرار رکھتے ہیں۔ نوبیل انعام یافتہ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے خبردار کیا تھا، ’’جنگیں پُرامن مستقبل کو تراشنے کا ناقص ذریعہ ہیں‘‘۔ اور: ’’کسی قوم یا خطّے کا استحکام اس کی فوجوں کی طاقت پر نہیں، بلکہ اس کے اخلاقی تخیل کی قوت پر منحصر ہے‘‘۔ 

تہذیب کے لیے اندرونی اور بیرونی امن دونوں ضروری ہیں، اسی طرح اندرونی ہم آہنگی اور بیرونی سفارت کاری بھی۔ امن کا اندرونی پہلو انصاف، مساوات اور اس یقین دہانی پر منحصر ہے کہ شہری خوف یا جبر کے بغیر زندگی گزار سکیں۔ سچا انصاف صرف قانون کی حکمرانی کے تحت ممکن ہے، جب کوئی فرد، کوئی حکمران اور کوئی ادارہ قانون سے بالاتر نہ ہو۔ قانون کی حکمرانی وہ غیر مرئی ڈھانچا ہے جس پر انسانی وقار کی عمارت استوار ہوتی ہے، اور جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ قانون کے سامنے سب برابر اور جواب دہ ہیں۔ تاریخ بار بار دکھاتی ہے کہ جہاں قانون طاقت کے آگے جھکتا ہے، وہاں امن، ظلم میں بدل جاتا ہے۔ 

اس اخلاقی ڈھانچے کے لیے انسانی حقوق کی شناخت بھی اسی قدر ضروری ہے۔ یہ حقوق وہ مراعات نہیں جو ریاست عطا کرتی ہے، بلکہ انسانیت کے ناقابلِ تنسیخ اوصاف ہیں۔ آزادانہ سوچنے، کھل کر بولنے اور بغیر خوف کے اختلاف کرنے کا حق تہذیب یافتہ نظام کی جان ہے۔ وہ معاشرہ جو فکر اور اظہار کی آزادی کو دباتا ہے، وہ تہذیب کے ضمیر کو رفتہ رفتہ قتل کر دیتا ہے۔ بدقسمتی سے، ایک ایسی دنیا میں جہاں آمرانہ پاپولزم تیزی سے غالب آ رہا ہے، یہ آزادی خطرے میں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے لوگوں کی قیادت میں دنیا نے پریس، فکری اختلاف اور تکثیریت کے خلاف عدم برداشت اور دشمنی میں اضافہ دیکھا ہے۔ ان آزادیوں کا زوال نہ صرف جمہوریت کو کمزور کرتا ہے بلکہ پُرامن بقائے باہمی کے جذبے کو بھی زہر آلود کرتا ہے، کیونکہ جہاں فکر زنجیروں میں جکڑی ہو اور خوف گفتگو پر حاوی ہو، وہاں مکالمہ پنپ نہیں سکتا۔ 

بیرونی طور پر، امن سفارت کاری کا تقاضا کرتا ہے، نہ کہ جبر اور غلبے کا۔ نیلسن منڈیلا، جن کی زندگی مصالحت کی گواہی ہے، نے ایک بار کہا تھا، ’’اگر آپ اپنے دشمن سے امن قائم کرنا چاہتے ہیں، تو آپ کو اپنے دشمن کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا، پھر وہ آپ کا شراکت دار بن جاتا ہے‘‘۔ یہ فلسفہ عملیت پسندی پر مبنی ہے اور تہذیبی ترقی کا راستہ ! 

جدید دنیا، اپنی تمام تکنیکی ترقی کے باوجود، اس تہذیبی وعدے کو پورا نہیں کر سکی۔ بیسویں اور اکیسویں صدی عسکریت پسندی اور طاقت کی دھونس سے داغ دار چلی آرہی ہیں۔ نوبیل انعام یافتہ کوفی عنان نے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ ’’ہم نے بیرونی خلا کو فتح کیا ہوگا، لیکن اندرونی خلا کو پُرنہیں کیا۔ ہم نے اپنی دنیا کو محفوظ بنانے کے لیے بہت کچھ کیا، مگر پھر بھی ہم خود سے محفوظ نہیں ہیں‘‘۔ جنگ، اکثر مسخ شدہ قوم پرستی یا نظریاتی خوف کے ذریعے جواز کے طور پر پیش کی جاتی ہے، اورحب الوطنی کے رُوپ میں پیش کی جاتی ہے، حالانکہ یہ اس اخلاقی ڈھانچے کو توڑتی ہے جو معاشروں کو جوڑتا ہے۔ 

جنوبی ایشیا میں یہ تضاد کہیں زیادہ واضح ہے، جہاں تاریخی شکایات اور سیاسی ہیرا پھیری نے بار بار امن کی راہ میں روڑے اٹکائے ہیں۔ پاکستان کا تجربہ ایک سبق آموز حقیقت پیش کرتا ہے۔ فوجی حکمرانوں ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کا تعلق مہم جوئی سے رہا ہے۔ مکالمے اور مصالحت کو نظرانداز کرنے والی سویلین حکومتیں تصادم کی راہ پر چلنے کے سبب ناکام ہوئیں۔ 

یہ نمونہ واضح ہے: جب جمہوری عمل دبائے جاتے ہیں، جنگجوئی کی آواز بلند ہوتی ہے، جب جمہوریت سانس لیتی ہے، تو سفارت کاری پنپتی ہے۔ برٹرینڈ رسل نے کہا تھا: ’’جنگ یہ طے نہیں کرتی کہ کون صحیح ہے، صرف یہ کہ کون باقی بچتا ہے‘‘۔ ایک ریاست کی سلامتی اس کی حملہ کرنے کی صلاحیت میں نہیں، بلکہ تنازعات کو مذاکرات، ہمدردی اور قانون کے ذریعے حل کرنے کی صلاحیت میں ہے۔ اس لحاظ سے، قانون کی حکمرانی نہ صرف اندرونی ضرورت ہے بلکہ ایک بیرونی حکمت عملی بھی ہے، یہ قوموں میں تحمل اور تنازعات کے پُرامن حل کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ 

پاکستان اور افغانستان کے درمیان المناک تعلق اس نکتے کو واضح طور پر بیان کرتا ہے۔ مشترکہ مذہب، ثقافت اور جغرافیہ کے باوجود، دونوں ممالک قربت کو شراکت داری میں بدلنے میں ناکام رہے ہیں۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کی شمولیت کی ابتدائی مخالفت، جو ڈیورنڈ لائن کے غیر حل شدہ مسئلے پر مبنی تھی، نے عدم اعتماد کے بیج بوئے جو کبھی مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہوئے۔ اس کے بعد کے عشروں میں مداخلت اور الزام تراشی کے تذکرے گردش میں چلے آرہے ہیں۔ ۱۹۸۰ء کے عشرے میں سوویت یونین کی افغانستان میں بھرپور مداخلت کے جواب میں جہاد اور اس میں پاکستان کی شمولیت، اور نائن الیون کے بعد سرحد پار عسکریت پسندی کے الزامات تک، پھر حالیہ  فوجی آپریشنز، فضائی حملوں اور جوابی کارروائیوں نے دشمنیوں کو مزید گہرا کیا ہے۔ 

ایسی محاذ آرائیاں دونوں ممالک کے مفادات میں نہیں ہیں۔ یہ سرحدی شہریوں کو غریب بناتی ہیں، نظم و نسق کو غیر مستحکم کرتی ہیں اور اس ’خواب و خیال‘ کو برقرار رکھتی ہیں کہ ’طاقت ہی سفارت کاری کا متبادل ہو سکتی ہے‘۔ حالانکہ تاریخ کا سبق اس کے برعکس ہے: ہر پائیدار امن، یورپ کی جنگ کے بعد کی مصالحت سے لے کر جنوبی افریقہ کے نسل پرستی سے جمہوریت کی طرف منتقلی تک مذاکرات کے ذریعے ہی ابھرا ہے، نہ کہ جبر کے ذریعے۔ پاکستان اور افغانستان کے لیے آگے کا راستہ مکالمے، اعتماد سازی اور ادارہ جاتی تعاون میں مضمر ہے، نہ کہ طاقت کے مظاہرے میں۔ 

فلسفی رین ہولڈ نیبور نے اس تضاد کو اخلاقی درستی کے ساتھ یوں بیان کیا: ’’انسان کی انصاف کی صلاحیت جمہوریت کو ممکن بناتی ہے، لیکن انسان کا ناانصافی کا رجحان جمہوریت کو ضروری بناتا ہے‘‘۔ یہی بات قوموں کے لیے بھی سچ ہے۔ ان کی ہمدردی کی صلاحیت امن کو ممکن بناتی ہے، لیکن ان کا غلبے کی طرف میلان امن کو نازک بناتا ہے۔ تہذیب کو برقرار رکھنے کے لیے، قوموں کو وہ اخلاقی نظم و ضبط پیدا کرنا ہوگا جو تباہی پر مکالمے، جبر پر قائل کرنے اور انتقام پر انصاف کو ترجیح دے۔ 

بالآخر، امن اور تہذیب لازم و ملزوم ہیں۔ ایک کے بغیر دوسرا پروان چڑھ نہیں سکتا۔ مؤرخ ول ڈیورانٹ نے تاریخ کے سبق میں درست کہا تھا، ’’تہذیب ایک ندی ہے جس کے کنارے ہیں۔ ندی کبھی کبھار خون سے بھر جاتی ہے، لیکن کنارے تہذیب ہیں اور ان کے بغیر ندی جلد خشک ہوجائے گی‘‘۔ یہ کنارے انصاف سے بنتے ہیں، جمہوریت سے سہارا پاتے ہیں، قانون کی حکمرانی سے مضبوط ہوتے ہیں اور اخلاقی جرأت سے تقویت پاتے ہیں۔ 

اگر انسانیت کو ایک اور صدی کے تنازعات سے بچنا ہے، تو اسے ہتھیاروں میں نہیں بلکہ مکالمے کے اداروں میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی، دیواروں میں نہیں، بلکہ پل بنانے میں اور جبر میں نہیں بلکہ رضامندی میں۔ ایک مضبوط جمہوریت جو انصاف، قانون کے سامنے سب کی برابری اور ایک آزاد نظام عدل پر مبنی ہو امن کی سب سے یقینی ضمانت ہے۔ صرف جہاں پر فکر اور اظہار کی آزادی محفوظ ہو، جہاں انسانی حقوق کی عزّت کی جاتی ہو، اور جہاں طاقت عوام کے سامنے جواب دہ ہو، تہذیب یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ اس نے وحشت پر فتح حاصل کی۔ کیونکہ جب انصاف غالب آتا ہے، قانون حکمرانی کرتا ہے، اور ضمیر آزاد ہوتا ہے، تب امن تہذیب کا محض خواب نہیں رہتا، یہ اس کی روشن حقیقت بن جاتا ہے۔(انگریزی سے ترجمہ: س م خ)