نومبر ۲۰۲۵

فہرست مضامین

احیائے دین و ملّت اور علامہ اقبالؒ

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی | نومبر ۲۰۲۵ | اقبالیات

Responsive image Responsive image

انبیائے کرام ؑ کی تمام تر جدوجہد کی منتہائے مراد یہ تھی کہ بنی نوع انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اسلامی بنیادوں پر استوار کیا جائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد بھی یہی تھا کہ روئے زمین پر اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ (الشورٰی ۴۲:۱۳)’ تاکید کے ساتھ قائم کرو، اس دین کو‘۔ چنانچہ آں حضوؐر کے برپا کردہ فکری اور ذہنی انقلاب کے ذریعے جاہلی معاشرے کی کایاپلٹ گئی۔ اسلام بساطِ عالم پر ایک غیرمعمولی قوت بن کر اُبھرا اور مشرق و مغرب کے باطل پرستوں کے لیے ایک چیلنج بن گیا۔ 

مگر خلفائے راشدینؓ کے بعد مال و دولت کی فراوانی اور سلطنت و اختیار کی وسعت سے جاہلیت کی روح پھر سے بیدار ہونے لگی۔ نظمِ مملکت شاہانہ اور غیراسلامی بنیادوں پر استوار ہونا شروع ہوا۔ اس مرحلے پر مصلحین اُمت کو اصلاحِ احوال کی فکر دامن گیر ہوئی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ وہ پہلے شخص ہیں، جنھوں نے حقیقی معنوں میں احیائے اسلام کی سنجیدہ کوشش کی۔ 

آپ کے بعد امام احمد بن حنبل، امام غزالی، مجدد الف ثانی، اورنگ زیب عالم گیر، شاہ ولی اللہ، سیّداحمد شہید، شاہ اسماعیل شہید اور متعدد دیگر اکابر کی مختلف النوع تجدیدی کاوشیں، تاریخ تجدید و احیائے دین کا ایک روشن باب ہیں۔ بیسویں صدی میں اسلامی نشاتِ ثانیہ کے لیے جن اکابر نے تگ و دو کی، اُن میں علامہ اقبال کا نام بہت نمایاں ہے۔ 

علامہ اقبال کے اسلامی اور دینی مزاج کی تشکیل میں اُن کے آباواجداد کے متصوفانہ رجحانات، والدین کی دین داری، گھر کا اخلاقی ماحول اور علامہ سیدمیرحسن کی تعلیم و تربیت اور فیضانِ نظر کے علاوہ دو باتوں کو بنیادی دخل ہے___ اوّل: قرآنِ حکیم سے اُن کا گہرا شغف۔ دوم:آں حضوؐر کی ذاتِ گرامی سے والہانہ عقیدت۔ احیائے اسلام کے لیے علّامہ اقبال نے جو مختلف النوع کوششیں کیں، وہ انھی بنیادوں پر تشکیل پانے والے اُن کے دینی مزاج کا حصہ تھیں۔ 

جب علامہ اقبال نے شعور کی آنکھ کھولی تو اس وقت پورا عالمِ اسلام نہایت پیچیدہ مسائل کے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا۔ فکری اور سیاسی، دونوں اعتبار سے مغربی استعمار اس پر حاوی ہو چکا تھا۔ غلامی کے نتیجے میں مسلم معاشرہ جمود، تعصب اور تنگ نظری کا شکار تھا۔زوال پذیری کے ردِّعمل میں جو آوازیں بلند ہوئیں، اُن میں سب سے توانا اور بلند آہنگ آواز علامہ اقبال کی تھی جنھوں نے غلامی کی زنجیریں توڑنے کی تلقین کی۔مقصود یہ تھا کہ غلامی سے نجات‘ احیائے اسلام کی تمہید بن سکے۔ 

تجدید و احیائے اسلام کی یہ تمنا بالکل ابتدائی زمانے ہی سے اُن کے ہاں موجود تھی اور یہ کبھی سرد نہیں ہوئی، بلکہ عمرکے ساتھ اس جذبے کی حرارت و شدت میں اضافہ ہوتا گیا۔ تجدید و احیائے دین کے لیے اقبال کی کاوشیں، ان کی طویل زندگی میں مختلف شکلوں میں اور کئی سطحوں پر سامنے آتی رہیں۔ ان کی اُردو فارسی شاعری، ان کی تمام نثری تحریریں، ان کا پورا نظامِ فکروفلسفہ، اُن کے جملہ تصورات و نظریات (مثلاً: ’خودی‘، ’بے خودی‘، ’فقر‘، ’عشق‘، ’مردِ مومن‘، ’عقل‘ وغیرہ) احیائے اسلام کے لیے اُن کی مساعی کے ساتھ بہت گہرے طور پر مربوط ہیں۔ 

اسلام کی سربلندی کے لیے اُن کے بے تاب جذبوں اور مضطرب تمنائوں کا راز اس امر میں پوشیدہ ہے کہ انھیں اسلام کی حقانیت کے ساتھ، اسلام کے روشن مستقبل پر بھی کامل یقین تھا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں، عالمِ اسلام ایک مایوس کن منظر پیش کر رہا تھا۔ ان حالات میں اقبال کی طرف سے غلبۂ اسلام کی یہ نوید سامنے آئی: 

آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش 
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی 

اس قدر ہوگی ترنم آفریں بادِ بہار 
نکہتِ خوابیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی 

پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغامِ سجود 
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی 

شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے 
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے 

اُس وقت یہ نوید ایک خواب معلوم ہوتی تھی یا محض ایک شاعرانہ تعلّی--- مگر اقبال کو ایک عالم گیر اسلامی انقلاب پر کامل یقین تھا، جس کا واشگاف اظہار انھوں نے نثر میں بھی کئی جگہ کیا ہے، مثلاً: ’’اسلام ایک عالم گیر سلطنت کا یقینا منتظر ہے، جو نسلی امتیازات سے بالاتر ہوگی اور جس میں شخصی اور مطلق العنان بادشاہتوں اور سرمایہ داریوں کی گنجایش نہ ہوگی۔ دنیا کا تجربہ خود ایسی سلطنت پیدا کر دے گا۔ غیرمسلموں کی نگاہ میں شاید یہ محض خواب ہو، لیکن مسلمانوں کا یہ ایمان ہے‘‘۔ (گفتارِ اقبال،مرتبہ: ڈاکٹر رفیق افضل، پنجاب یونی ورسٹی، لاہور، طبع دوم، نومبر۱۹۷۷ء، ص ۱۷۸) 

ایک اور موقعے پر فرمایا: اس وقت جو قوتیں دنیا میں کارفرما ہیں، اُن میں سے اکثر اسلام کے خلاف کام کررہی ہیں، لیکن لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ کے دعوے پر میرا ایمان ہے کہ انجام کار اسلام کی قوتیں کامیاب اور فائز ہوں گی‘‘۔ (گفتارِ اقبال، ص۱۹) 

تجدید و احیائے دین کے لیے علامہ اقبال کے مجموعی کام کو تین دائروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ۱- فرد کی تعمیر سیرت ۲- فکری اور علمی کاوشیں ۳- پاکستان کا تصور اور اس کے لیے عملی جدوجہد۔ 

فرد کی تعمیرِسیرت 

علامہ اقبال نے تاریخِ عالم کے مطالعے سے بجا طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جب تک فرد اپنے اخلاق و اطوار اور سیرت و کردار میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرتا، معاشرے میں کسی بڑے انقلاب کی توقع عبث ہے۔ اقبال کے الفاظ میں: ’’دنیا میں کسی قوم کی اصلاح نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس قوم کے افراد اپنی ذاتی اصلاح کی طرف توجہ نہ کریں‘‘۔(مقالاتِ اقبال،سیّد عبدالواحد معینی، ص ۹۰) 

اور: ’’کردار ہی وہ غیرمرئی قوت ہے جس سے قوموں کے مقدر متعین ہوتے ہیں‘‘۔ (شذراتِ فکراقبال، (مترجم) ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی، طبع اوّل، ۱۹۷۳، ص۱۲۴) 

مسلمان مجموعی اعتبار سے اخلاقی انحطاط کا شکار تھے۔ انھیں اس پستی سے نکالنے کے لیے اقبال ان کی اخلاقی تربیت کی طرف متوجہ ہوئے۔ ان کا خیال تھا کہ اخلاقی تربیت کے لیے: ’’سب سے زیادہ اہم فرض یہ ہے کہ آئندہ نسل کو دہریانہ مادیت کے چنگل سے محفوظ کریں___ [اس لیے] مذہب بے حد ضروری  ہے‘‘۔(گفتارِ اقبال، ص۲۵۵) 

اور مذہب کی مضبوط گرفت ہی ہمیں بھٹکنے اور گمراہ ہونے سے بچاسکتی ہے۔ اگر: ’’یہ گرفت ڈھیلی پڑی تو ہم کہیں کے نہ رہیں گے۔ شاید ہمارا انجام وہی ہو جو یہودیوں کا ہوا‘‘۔ (شذراتِ فکراقبال، ص۸۵) 

 اقبال کے نزدیک انسانی کردار کی تعمیر میں قرآن حکیم اساسی حیثیت رکھتا ہے: 

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں 
اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار 

ایک بار چند نوجوانوں سے مخاطب ہو کرکہا: ’’یاد رکھو، مسلمانوں کے لیے جائے پناہ صرف قرآنِ کریم ہے___ میں اس گھرکو صدہزار تحسین کے قابل سمجھتا ہوں، جس گھرسے علی الصبح تلاوتِ قرآن مجید کی آواز آئے‘‘ [مگر اس کے ساتھ ہی یہ نصیحت بھی کی]: قرآن مجید کا صرف مطالعہ ہی نہ کیا کرو بلکہ اس کو سمجھنے کی کوشش کرو‘‘۔(گفتارِ اقبال، ص ۲۱۳) 

قرآنی تعلیمات کے حوالے سے اقبال نے افراد اُمت کو ارکانِ خمسہ کی پابندی (ملفوظاتِ  اقبال،(مرتبہ) محمود نظامی، لوہاری گیٹ، لاہور، طبع اوّل، ص۳۹)، اور فرائض کے ساتھ نوافل، شب بیداری، اور تہجد کے اہتمام کی طرف متوجہ کیا۔(اقبال نامہ، (مجموعہ مکاتیبِ اقبال)، مرتبہ: شیخ عطاءاللہ، ناشر:شیخ محمد اشرف، تاجر کتب ،کشمیری بازار، لاہور، طبع اول، ۱۹۵۱ء، ص۱۹۳) 

 یہ اہتمام مسلمان کے اندر اخلاقِ فاضلہ کا سبب بنتا ہے۔ 

علامہ اقبال، قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق آں حضورؐ کے اُسوئہ حسنہ کو بھی پیشِ نظر رکھنے کی تاکید کرتے ہیں۔ اسوئہ حسنہ میں کلمۂ حق کے اعلان کو ایک نمایاں اور روشن باب کی حیثیت حاصل ہے۔ اقبال کے نزدیک ایک حقیقی مسلمان کلمۂ حق کا اعلان و اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا، مگر سچائی کا اظہار خوداعتمادی کی بنا پر ہی ممکن ہے۔ فلسفۂ خودی کا پس منظر یہی ہے۔ 

اقبال کے فلسفۂ خودی کی تشکیل میں ’عشق‘ اور ’فقر‘ کو اہم عناصر کی حیثیت حاصل ہے۔ ’جذبۂ عشق‘ ایک غیرمعمولی قوت اور ’فقر‘ کی لازوال دولت بھی عشق سے کم اہم نہیں۔ جس قوم کو یہ دونوںقوتیں حاصل ہو جائیں، دنیا کی کوئی طاقت اس قوم کا راستہ نہیں روک سکتی: 

خوار جہاں میں کبھی ہو نہیں سکتی وہ قوم 
عشق ہو جس کا جسور‘ فقر ہو جس کا غیور 

اقبال، احیائے اسلام کے لیے جس انقلاب کے داعی ہیں، اُسے برپا کرنے کے لیے خودی، فقر اور عشق سے متصف ہونا ضروری ہے۔ فرد کے اندر یہ صفات پیدا ہو جائیں تو وہ ’مردِمومن‘ کا روپ اختیار کرلیتا ہے اور اس جدوجہد میں مردِ مومن کا کردار بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ 

اُمت مسلمہ کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو احساس ہوتا ہے کہ ضعف ِاسلام کا بہت بڑا سبب اُمت کے اندر فروعی مسائل پر شدید اختلافات، اوراس بنیاد پر باہمی دشمنیاں اور مجموعی طور پر انتشار و افتراق کی افسوس ناک صورتِ حال رہی ہے۔ علامہ اقبال، غیر اسلامی اور عجمی تصوف کو خاص طور پر خرابیِ احوال کا ذمہ دار گردانتے ہیں۔ ان کے خیال میں عجمی تصوف نے’’مسلمانوں کے زوال میں ایک اہم عنصر کے طور پر کام کیا ہے‘‘۔(اقبال نامہ، ج ۱،ص ۷۸) 

علمائے سوء اور نام نہاد مدعیانِ تصوف کے متعلق وہ بہت شدید جذبات رکھتے تھے۔ 

دوسرا طبقہ جس سے اقبال بطور خاص مخاطب ہوئے، نوجوانوں کا طبقہ تھا۔ اقبال کی نظر میں احیائے اسلام کی تحریک میں کامیابی کا انحصار بڑی حد تک نوجوان طبقے پر ہے۔ خود آںحضوؐر کی دعوت پر لبیک کہنے والوں میں اوّلیت کا شرف بھی نوجوان طبقے کو حاصل ہوا۔ اقبال، مسلم نوجوانوں کو تن آسانی اور عیش پسندی کے بجائے جفاکشی اور سخت کوشی کی تلقین کرتے ہیں: 

محبت مجھے ان جوانوں سے ہے 
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند 

اس طرح احیائے اسلام کے سلسلے میں اوّلین سطح پر اقبال نے فرد کی انفرادی اصلاح اوراس کی تعمیرسیرت پر زور دیا اور پھر معاشرے کے دو اہم طبقوں‘یعنی علما و صوفیہ اورنوجوانوں کو متوجہ کیا کہ وہ آگے بڑھ کر اسلامی نشات ثانیہ کی تحریک میں اپنا مثبت اور مؤثر کردار ادا کریں۔ 

فکری اور علمی کاوشیں 

مسلمان، انگریزوں کی سیاسی غلامی کے ساتھ، ذہنی اور فکری اعتبار سے بھی مغرب سے مغلوب ہو چکے تھے۔ اس مغلوبیت کی تین صورتیں تھیں: اوّل: نیشنلزم کا سراب ۔ دوم: دین و دنیا کی دوئی۔ سوم: مغربی تہذیب سے ایک مجموعی مرعوبیت۔ علامہ محمد اقبال نے ان تینوں تصورات پر کاری ضرب لگائی۔ 

اپنے فکری سفر کے آغاز میں اقبال خود بھی قوم پرست تھے مگر یورپ کو قریب سے دیکھنے پر انھیں نیشنلزم کے کھوکھلے پن کا احساس ہوا۔ وہ بتاتے ہیں کہ قیامِ یورپ نے ان کے خیالات میں عظیم انقلاب پیدا کر دیا تھا۔ اقبال کے الفاظ ہیں: ’’حقیقت یہ ہے کہ یورپ کی آب و ہوا نے مجھے مسلمان کر دیا‘‘۔(انوارِ اقبال، اقبال اکادمی، کراچی،طبع اوّل،۱۹۶۷ء، ص ۱۷۶) 

 وہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کے اندر قوم پرستی کے ’فرنگی نظریۂ وطنیت‘ کی اشاعت کا مقصد ’’اسلام کی وحدتِ دینی کو پارہ پارہ کرنا ہے‘‘۔(حرفِ اقبال، المنار اکادمی، لاہور، ۱۹۴۵ء، ص۲۲۲) 

 اسی بنا پر عرب قوم پرستی کا فتنہ پروان چڑھا اور سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھرگیا۔ علامہ نے مغربی تصورِ قومیت کو ایک ’’روحانی بیماری‘‘ قرار دیتے ہوئے، اس کے خلاف عمربھرجہاد کیا۔ اقبال کے نزدیک انسانی اشتراک کا سب سے قوی رابطہ اور ان کے درمیان سب سے زیادہ مضبوط رشتہ کلمۂ توحید کا ہے۔ اسی بنیاد پر انھوں نے تصورِ ملت کی بازیافت کی: 

اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر 
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ 

اسی تصورِ ملّت نے آگے چل کر علامہ کے ہاں اتحادِ عالم اسلامی کی شکل اختیار کی:  ع 

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے 

مسلمانوں کے فکری و ذہنی انحطاط کا دوسرا نمایاں پہلو اُن کا محدود تصورِ دین تھا۔ شہنشاہیت نے اہل مذہب کو مساجد تک محدود کر دیا اور سیاست کی باگ ڈور خود سنبھال لی۔ دین و سیاست میں بُعد پیدا ہو گیا۔ اقبال کے نزدیک: ’’ازروئے شریعت محمدیہؐ مذہب و سیاست میں کوئی تفریق و تمیز نہیں‘‘۔(مقالاتِ اقبال، ص ۱۳۰) 

انھوں نے دین و سیاست کی علیحدگی پر سخت تنقید کی کیونکہ اس کا نتیجہ ہمیشہ خوں ریزی و چنگیزی اور عالم گیر تباہی کی شکل میں نکلتا ہے۔ 

درحقیقت احیائے اسلام کی تحریک میں کسی طرح کی پیش رفت اس کے بغیر ممکن ہی نہ تھی کہ دین و سیاست میں دوئی کی نفی کرکے، دین کا حقیقی اور (سیاست، تمدّن، معیشت، تعلیم، عمرانیات، قانون، غرض زندگی کے تمام شعبوں پر محیط) جامع تصور نہ پیش کیا جاتا۔ 

تجدید و احیائے دین کی راہ میں تیسری بڑی رکاوٹ مغرب سے ذہنی مرعوبیت تھی۔ علامہ اقبال مغرب اور مغربیت کا بذاتِ خود مشاہدہ کر چکے تھے۔ اس لیے انھوں نے نہایت واشگاف الفاظ میں اس کے کھوکھلے پن کو بے نقاب کیا: 

یورپ میں بہت روشنیِ علم و ہنر ہے 
حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظلمات 

فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب 
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف 

خطبات میں ایک جگہ کہتے ہیں: ’’یورپ سے بڑھ کر، آج انسان کے اخلاقی ارتقا میں بڑی رکاوٹ اور کوئی نہیں‘‘۔ (تشکیلِ جدید الہیاتِ اسلامیہ، ڈاکٹر محمد اقبال، ترجمہ: نذیر نیازی، لاہور، ۱۹۵۸ء، ص ۲۷۶) 

یہاں اس امر کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ فکرِمغرب کے جو ثمرات،سوشلزم اور نام نہاد جمہوریت اور سرمایہ داری کی شکل میںدنیا کے سامنے رونما ہوئے تھے، اقبال نے ان سب کو باطل اور بہرطور ناقابلِ قبول ٹھیرایا تھا۔ مغربی جمہوریت کو انھوں نے رد کر دیا، جس کی بنیاد مادر پدر آزادی ہے، کیونکہ: 

گریز از طرزِ جمہوری غلامِ پختہ کارے شو 
کہ از مغزِ دو صد خر فکرِ انسانی نمے آید 

(طرزِ جمہوری سے گریز کر، کسی مرد پختہ کار کا دامن پکڑ، کیونکہ دو سو گدھے مل کر بھی ایک انسان کی طرح نہیں سوچ سکتے۔) 

خیال رہے کہ سوشلزم اور اشتراکیت کے بارے میں اقبال کے خیالات میں ایک ارتقا ملتا ہے۔ پہلے پہل انھوں نے ۱۹۱۷ء کے روسی انقلاب کو سراہا کیونکہ وہ مظلوموں کا حامی بن کر سامنے آیا تھا، مگر بہت جلد اس کا اصل چہرہ بے نقاب ہو گیا۔ چنانچہ انھوں نے اس سے براء ت کا اعلان کرتے ہوئے تاریخ کی مادی تعبیر کو سراسر غلط قرار دیا۔(اقبال نامہ،ج ۱، ص۳۱۹) 

علامہ اقبال کا یکم جنوری ۱۹۳۸ء کا ریڈیائی پیغام،مغربی فکر اور سیاست پر ایک جامع تبصرے کی حیثیت رکھتا ہے۔ فی الحقیقت انھوں نے جس طرح مغربی تہذیب اور فکروفلسفے پر تنقید کی، ہماری فکری تاریخ میں ان سے پہلے ایسی کوئی مثال نہیں ملتی اور یہ اُن کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ ان کی اس جرأت مندانہ تنقید کے نتیجے میں تعلیم یافتہ مسلمانوں میں مغرب سے مرعوبیت ختم ہونے لگی اور احیائے اسلام کے لیے فضا سازگار ہو گئی۔ 

علامہ اقبال کو اس امر کا بھی شدید احساس تھا کہ ہمارے علما ’اجتہاد‘ کی اہمیت سے غافل ہو چکے ہیں۔ فکری سطح پر علامہ اقبال کی ایک مثبت عطا یہ بھی ہے کہ انھوں نے عصرحاضر میں ’اجتہاد‘ کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کیا۔ ان کے انگریزی خطبات میں چھٹا خطبہ الاجتہاد فی الاسلام کے موضوع پر ہے۔ اس سلسلے میں ایک بار فرمایا: آج اسلام کی سب سے بڑی ضرورت فقہ کی جدید تدوین ہے، جس میں زندگی کے ان سیکڑوں ہزاروں مسائل کا صحیح اسلامی حل پیش کیا گیا ہو، جن کو دنیا کے موجودہ قومی اور بین الاقوامی سیاسی، معاشی اور سماجی احوال و ظروف نے پیدا کر دیا ہے۔ (حیاتِ انور، (مرتبہ) سید محمد ازہر شاہ قیصر، شاہ منزل، دیوبند، ۱۹۵۵ء، ص ۱۶۵) 

’اجتہاد‘ پر یہ زور مسلم علما کے اندر صدیوں کے فقہی جمود کے خلاف ایک ردِّعمل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ردِّعمل کا ایک مثبت پہلو، اقبال کا یہ احساس ہے کہ عصرِحاضر کے تقاضوں اور مسائل کی روشنی میں اسلامی فقہ کی ازسرنو ترتیب و تشکیل کی ضرورت ہے۔ 

ابتدا میں اقبال نے خود اس طرح کے کام کا آغاز کیا(اقبال نامہ، ج ۱، ص۳۲۰)۔ لیکن پھر یہ نازک ذمّہ داری کسی روشن دماغ عالم کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا۔غالباً اسی خیال کے پیشِ نظر انھوں نے مختلف اوقات میں مولانا شبلی نعمانی، سیدانورشاہ کاشمیری اور سید سلیمان ندوی کو پنجاب منتقل ہونے کی دعوت دی مگر کامیابی نہ ہوئی۔ پٹھان کوٹ کا ادارہ دارالاسلام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ عبدالمجید سالک کے خیال میں اس ادارے کی غایت یہ تھی کہ دینی و دنیاوی علوم کے ماہرین ’’ایک گوشے میں بیٹھ کر، علامہ کے نصب العین کے مطابق، اسلام، تاریخِ اسلام، تمدنِ اسلام، ثقافت ِ اسلامی اور شرعِ اسلام کے متعلق ایسی کتابیں لکھیں جو آج کل کی دنیائے فکر میں انقلاب پیدا کر دیں‘‘۔(ذکرِاقبال، بزم اقبال، لاہور، ۱۹۹۳ء، ص۲۱۲-۲۱۳) 

علامہ اقبال ہی کے ایما اور مشورے پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، ۱۹۳۸ء کے اوائل میں حیدرآباد، دکن سے ہجرت کر کے جمال پور (پٹھان کوٹ) آگئے تھے۔ علامہ کا ارادہ تھا کہ وہ بھی ہر سال چند ماہ کے لیے وہاں آکر قیام کیا کریں گے، مگر افسوس کہ وہ جلد ہی خالقِ حقیقی سے جاملے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس ادارے نے قابلِ قدر خدمات انجام دیں، اور اس نے آگے چل کر تجدید و احیائے دین کے لیے ایک عملی تحریک کی صورت اختیار کی۔ 

اسلامی ریاست (پاکستان) کا تصور 

ہندستان میں ایک علیحدہ اسلامی ریاست (جسے بعد میں پاکستان کا نام دیا گیا) کا تصور اور اس کے حصول و قیام کے لیے عملی کوششیں، احیائے اسلام کے لیے اقبال کی مساعی میں آخری سنگ ِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ انھوں نے مغرب کے نظریۂ قوم پرستی کو ردّ کر کے اسلام کے تصورِ ملّت کو اُجاگر کیا۔ ہندستانی سیاست سے ان کی دل چسپی اسی حوالے سے تھی۔ اس سلسلے میں اقبال کی خواہش تھی کہ اوّل: ہندستان آزاد ہو۔ دوم: یہاں اسلامی حکومت قائم ہو۔ 

ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات ہونے کی حیثیت سے،اسلام ہمیشہ اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ اسے زندگی کے تمام شعبوں میں نافذ و رائج کیا جائے۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور أَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ  کا مفہوم بھی یہی ہے مگر سیاسی قوت کے بغیر اقامت ِ دین ممکن نہیں۔ اقبال کا یہ معروف شعر اسی نکتے کی شعری تفسیر ہے: 

رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم 
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد 

اقبال کے خیال میں باطل کی بیخ کنی بھی قوت ہی سے ممکن ہے: 

تازہ پھر دانشِ حاضر نے کیا سحرِقدیم 
گزر اس عہد میں ممکن نہیں بے چوبِ کلیم 

یہاں اُن کا یہ قول لائق توجہ ہے: ’’مسلمانوں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا حکم دیا گیا ہے [لیکن] بغیرطاقت کے امرونہی کیسے ممکن ہے؟ اگر مسلمان امرونہی کے فرائض ادا کرنا چاہتے ہیں تو اُن کے بازوئوں میں طاقت ہونا ضروری ہے‘‘۔(نقوش، اقبال نمبر، (مرتبہ: محمد طفیل) اوّل، ۱۹۷۷ء، ص ۴۰۷) 

برطانوی سامراج کی غلامی میں فوری طور پر قوت و طاقت اور اقتدار کا حصول آسان نہ تھا۔ اقبال نے مسلمانوں کے اندر سیاسی شعور کی بیداری پر پوری توجہ مرکوز کی۔ آزادیِ ہند سے متعلق کوئی معاملہ ہو یا مسلمانوں کا کوئی ملّی مسئلہ، وہ برابر کوشاں رہے کہ مسلمان مستقبل کے منظرنامے میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہو جائیں۔ سیاسی سطح پر اقبال نے ہمیشہ مسلمانوں کی علیحدہ قومیت پر زور دیا اور مخلوط انتخاب کی مخالفت کی۔ 

مسلمانوںکے ملّی تشخص کی خاطر جداگانہ اصولِ انتخاب پر اقبال کا اصرار،آگے چل کر ایک علیحدہ مسلم مملکت کے تصور کی شکل میں سامنے آیا۔ اقبال کا خیال تھا کہ انگریز کے رخصت ہونے کے بعد، اصولِ جمہوریت کے تحت ہندستان کا اقتدار ہندوئوں کو منتقل ہو جائے گا اور اکھنڈ بھارت میں مسلمانوں کی مشکلات بڑھ جائیں گی۔ اس لیے انھوں نے دسمبر ۱۹۳۰ء میں ہندستانی مسلمانوں کے لیے ایک الگ مملکت کا تصور پیش کیا۔(دیکھیے:علامہ محمد اقبال کا خطبۂ الٰہ آباد) 

جس موقعے پر اقبال نے ایک ’منظم اسلامی ریاست‘ کا تصور پیش کیا‘ مسلمان شدید انتشار اور مایوسی کا شکار تھے۔ محمد علی جناح ہندستانی سیاسیات سے بددل ہو کر لندن جا بسے تھے اور مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت بقول سیّد نوراحمد: ’’مسلم لیگ کا پلیٹ فارم طفلانہ حرکتوں کا میدان بن گیا تھا‘‘۔(مارشل لا سے مارشل لا تک، سید نور احمد، ص۱۴۱) 

 اس مایوس کن صورت حال میں اقبال کی پیش کردہ اسلامی ریاست کی تجویز، مسلمانوں کے لیے ایک بڑا سہارا ثابت ہوئی۔ 

مسلمانوں کے مسائل سے ان کی دل چسپی اور ان کے مستقبل کے بارے میں فکرمندی، قائداعظم کے نام ان کے خطوط سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔ یہ خطوط، اسلامی نشاتِ ثانیہ کے لیے اقبال کے ولولوں، اُمنگوں اور مضطرب جذبوں کا خوب صورت اظہار ہیں۔ اقبال تو ۲۱؍اپریل ۱۹۳۸ء کو اپنے ربّ سے جا ملے، مگر ۱۹۴۰ء کی قراردادِ پاکستان کے سات سال بعد، ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان، دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کی حیثیت سے، کرئہ ارض پر نمودار ہوا۔ 

بلاشبہ پاکستان کا قیام اسلامی نشاتِ ثانیہ کی جدوجہد میں ایک اہم پیش رفت کی حیثیت رکھتا ہے مگر علامہ اقبال کے خوابوں کی حقیقی تعبیر اُس وقت سامنے آئے گی، جب پاکستان میں اسلامی قانون اور شریعت ِ محمدیہؐ کا مکمل اور نتیجہ خیز نفاذ ہوگا اور پاکستان، دنیا میں اسلام کے احیا اورمسلمانوں کی سربلندی کی علامت بن جائے گا۔ 

احیائے اسلام کے لیے علامہ اقبال کی اس جدوجہد میں اسلام اور ملّت ِ اسلامیہ کے لیے ان کے انتہائی خلوص، دردمندی اور دل سوزی کے جذبات بہت نمایاں ہیں۔ اُن کا یہ شعر اسی کیفیت کا آئینہ دار ہے: 

اسی کش مکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں 
کبھی سوز و سازِ رومی، کبھی پیچ و تابِ رازی 

پھر اپنی ساری مساعی میں حبِ رسولؐ، اقبال کے لیے سب سے بڑا source of inspiration رہا۔آں حضوؐر کی ذات اور آپؐ کا اسوۂ حسنہ کارزارِ حیات میں اقبال کے لیے روحانی تائید کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ایک صاحب نے علامہ سے ذکر کیا کہ انھوں نے خواب میں حضورؐ رسالت مآب کو جلالی رنگ میں یا سپاہیانہ لباس میں دیکھا ہے ۔ اس پر علامہ نے انھیں لکھا: ’’میرے خیال میں یہ علامت احیائے اسلام کی ہے‘‘۔(انوارِ اقبال، ص۲۱۶) 

تجدید و احیائے دین کے لیے اقبال کی اس ساری تگ و دو اور جدوجہد کا مقصد بھی سنت ِ رسولؐ کی پیروی ہے۔ اقبال کے نزدیک، ایک مسلمان کی جملہ مساعی کا محور یہی ہونا چاہیے: 

بمصطفےٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست 
اگر بہ او نہ رسیدی‘ تمام بولہبی ست 

اُن کے خیال میں آں حضوؐر کی ذاتِ گرامی سے تعلق خاطر، نہ صرف دنیا بلکہ آخرت میں بھی مومن کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ احیائے اسلام اور تجدید و احیائے دین کے لیے کی جانے والی کوششوں اور کاوشوں کا منتہائے مقصود یہ تھا کہ مسلمانوں کے قلوب حبِ رسولؐ کی سچائی، روشنی اور حرارت سے منور ہوکر جگمگا اُٹھیں: 

کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں 
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں 

تجدید و احیائے دین کے لیے علامہ اقبال کے ایمان افروز مشن کی داستان، اقبال کے نام لیوائوں اور عقیدت مندوں کے لیے ایک مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ انھوں نے نشاتِ ثانیہ کے لیے عمربھر جو کاوشیں کیں، ابھی ان کی تکمیل ہونا باقی ہے۔ علامہ اقبال کا یہ شعر دنیا بھر کے مسلمانوں کو اُن کا فرض یاد دلا رہا ہے: 

وقتِ فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے 
نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے