نومبر ۲۰۲۵

فہرست مضامین

ازبکستان میں چند روز

ڈاکٹر شہزاد اقبال شام | نومبر ۲۰۲۵ | مشاہدات

Responsive image Responsive image

تاشقند، سمرقند اور بخارا سے اگر کچھ لوگ واقف نہ ہوں تو بخارا کے محدثِ بے مثل امام بخاری رحمہ اللہ کو تو یقینا جانتے ہوں گے۔ یہ تینوں شہر ازبکستان میں واقع ہیں۔ معروف فاتح جنگجو امیر تیمور بھی اسی ملک کے شہر سمرقند میں پیدا ہوا تھا۔ اس ملک نے علم و تحقیق، تدریس و تفسیر اور حدیث و فقہ پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ مغلیہ سلطنت کا بانی ظہیر الدین بابر اسی ملک کے شہر فرغانہ کا باشندہ تھا۔ 

ترکستانی ممالک پر اشتراکی روسی سلطنت (سوویت یونین:USSR) کا قبضہ ہوا تو لٹے پٹے مہاجروں میں سے ایک مہاجر قاری یوسف نےکہوٹہ میں پناہ لے کر وہاں چنبہ محلہ میں پھولوں بھری مسجد تعمیر کی۔ ان قاری صاحب سے ناظرہ قرآن پڑھنے کی مجھے سعادت حاصل ہوئی۔ اُردو ڈائجسٹ کے ۱۹۶۹ء کے شماروں میں معروف ازبک عالم دین اعظم ہاشمی کی داستانِ ہجرت چھپتی رہی۔ ان کے دوبیٹوں میں سے ایک ریڈیو پاکستان کی ازبک عالمی سروس چلاتے تھے۔ دوسرے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ماڈرن لینگویجز میں ازبک زبان کے استاد تھے، ان سے بھی قریبی رابطہ رہا۔ 

سوویت یونین کی تحلیل پر ۲۹ دسمبر ۱۹۹۱ء کو یہ ملک آزاد ہوا، تو پاکستان نے اس سے سفارتی تعلقات قائم کر لیے۔ ان ایام میں ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ دعوۃ اکیڈمی، انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ اسی سال وہ نو آزاد ترکستانی ممالک سے چالیس کے لگ بھگ علما کو چندہفتوں کی تربیت کے لیے لائے۔ ڈاکٹر غازی خاموشی سے کام کرتے اور یہی تلقین کرتے کہ کام کی اشاعت ضروری ہو تو کرو، ورنہ خود نمائی کے لیے وہ کام کبھی نہ کرو جس سے مقصد کو نقصان پہنچے۔ انھوں نے ہمارے سامنے سعودی حکومت سے ازبک زبان میں قرآن مجید کے نسخے منگوا کر ازبک مذہبی بورڈ کے حوالے کیے۔  

ماضی کے نو آزاد ازبکستان اور پاکستان کے تعلقات 

آج کا ازبکستان سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ماضی کا ازبکستان بھی سامنے رہے، ورنہ ماضی اور حال میں ربط نہیں ملے گا اور مستقبل پر نظر ڈالنا آسان نہیں ہوگا۔ سوویت یونین تحلیل ہوا تو ترکستانی اور متعدد مشرقی یورپی ممالک آزاد ہو گئے۔ یہ ملک آزاد تو ہو گئے تھے لیکن ان کی ہیئت حاکمہ ماضی ہی کے ریاستی کارندوں اور سوویت فکر پر کھڑی تھی۔ لہٰذا، ان ریاستوں سے ہمارے سرکاری تعلقات کا قیام بڑی احتیاط کا متقاضی تھا۔ پاکستان نے ازبکستان سے بھی فوراً سفارتی تعلقات قائم کیے، جس سے فضائی روابط بھی جڑ گئے۔ تب کے ہمارے اخوانی صدر بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی ڈاکٹر حسین حامد حسان اور ڈاکٹر غازی رحمہم اللہ نے بھی بڑھ چڑھ کر ان ترکستانی ممالک سے قریبی تعلقات قائم کر لیے تھے۔ ازبک اہل علم، حکام اور بالخصوص صدر قازقستان نور سلطان نذر بائیوف سے ان دونوں کے قریبی تعلقات تھے۔ 

نو آزاد ازبکستان پر بھی مطلقًا اشتراکی فکر کی چھاپ تھی۔ مختصر سی لیکن توانا مسلم فکر کا دائرہ نہایت محدود تھا۔ لوگوں کا رہن سہن غالب حد تک مغربی تہذیب کے اشتراکی پنجے میں تھا۔ ادھر حکام نے تمام مقبوضہ مسلم ممالک میں آبادی کی ترتیب چند عشروں میں کلیتاً بدل ڈالی تھی۔ بخارا میں کچھ یہودی صدیوں سے آباد تھے، لیکن سوویت حکام نے سفید فاموں، لامذہب روسیوں، مسیحیوں کے ساتھ یہاں گورے ’اشکنازی یہودی‘ بھی آباد کر دیے۔ چنانچہ نو آزاد سوویت ازبکستان آج کے مستحکم مسلم ازبکستان سے مختلف تھا۔ 

سوویت پنجرے میں پیدا شدہ حبس سے ۷۰ سال بعد لوگوں کو ذرا سی آزادی ملی تو وہ بالکل آزاد ہوگئے۔نئے حاکم چونکہ اشتراکی فکر ہی کے لوگ تھے۔ اس لیے شراب خانوں، رقص گاہوں اور ساز و آواز کی دنیا ویسی ہی آباد رہی۔ چنانچہ اس ’آزادی‘ کے بعد بہت سی روسی نژاد ازبک آوارہ خواتین دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی آنے جانے لگیں۔ ساتھ ہی آوارہ افراد کی آمد و رفت بھی ازبکستان میں شروع ہو گئی۔ لیکن الحمدللہ متوازی خطوط پر بہت کچھ اس کے برعکس بھی ہو رہا تھا۔  

ازبک زبان کا رسم الخط اور پاکستان  

ازبک زبان بولنے والی آبادی کا اصل حصہ ازبکستان میں، قابل ذکر حصہ افغانستان میں، اور معمولی سا حصہ دیگر پڑوسی ممالک میں آباد ہے۔ سوویت قبضے سے قبل یہ زبان عربی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی۔ افغان ازبک اپنی یہ زبان صدیوں سے (اور اب بھی) عربی رسم الخط میں لکھتے چلے آ رہے ہیں۔ سنکیانگ میں آباد چینی ازبک یہ زبان عربی اور ’سیریلک‘ (Cyrillic) دونوں میں لکھتے ہیں۔ رسم الخط کا یہ مسئلہ ازبکستان کی آزادی کے بعد اٹھا، کیونکہ اشتراکی قابضین نے ازبک زبان کا عربی رسم الخط ترکیہ کے مصطفیٰ کمال پاشا کی طرح بدل کر ’سیریلک‘ کر دیا تھا۔ آزادی ملنے پر اس مسئلے نے طاقت کے ساتھ سر اٹھایا۔  

 علمی سطح پر ازبک حکام اور دانشوروں سے ڈاکٹر حسان اور ڈاکٹر محمود احمد غازی کے روابط مضبوط بنیادوں پر قائم ہو گئے اور حکومت پاکستان کی سرپرستی ان پر مستزاد تھی۔ ان متعدد عوامل نے مل کر اپنا وزن ان ازبک حکام کے پلڑے میں ڈالا جو ’سیریلک‘ رسم الخط ترک کر کے اصل عربی، نسخ رسم الخط بحال کرنا چاہتے تھے۔ حکومت پاکستان اور ڈاکٹر غازی نے ازبک حکام سے اس مقصد کے لیے مطلوبہ وسائل اور علمی معاونت فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ دعوۃ اکیڈمی نے فوراً بذریعہ ہوائی جہاز ایک پرنٹنگ پریس ازبک حکومت کو تحفتاً دے دیا۔ مزید یہ کہ اکیڈمی نے اسلامی تعلیمات پر مبنی تقریباً تین درجن اسلامی کتب کا ترجمہ فوراً روسی زبان میں کرایا اور ان کے تمام ایڈیشن ازبکستان بھیج دیے۔ لیکن پھر وہ ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ 

ڈاکٹر غازی مرحوم سے دفتر کے علاوہ سفر میں، حضر میں، اذان سحر میں بھی میل جول رہا۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم بہت کچھ آزردگی سے اور دل گرفتہ ہو کر بھی سنایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ کچھ یوں فرمایا: ’’سب امور بخوبی چل رہے تھے۔ معاملات ہماری گرفت میں تھے۔ ہماری کوشش تھی کہ ازبک اپنی خواہش کے مطابق یہ فیصلہ کریں کہ اپنی زبان کا ’سیریلک‘ رسم الخط بدل کر سابقہ عربی نسخ بحال کر دیں۔ یہ کام ہونے کو تھا۔لیکن یہی وہ ایام تھے کہ جب ہمارے وزیراعظم اور صدر مقتدرہ کے اشارے پر لڑ رہے تھے۔ ایک ڈکٹیشن نہ لینے پر مصر تھا تو دوسرا اسے نکالنے پر کمر بستہ تھا۔ دونوں کو مستعفی ہونا پڑا، جس سے خارجہ امور اتنے بے ربط ہوئے کہ مارکیٹ کا بڑا حصہ انڈیا لے اڑا۔ رسم الخط جیسا علمی مسئلہ نئی وزیراعظم اور صدر غلام اسحاق خان کے جانشین صدر کے سر سے بہت اوپر کی چیز تھی۔ میدان خالی ملا تو مصطفیٰ کمال پاشا کا ترکیہ اپنا ترک سیریلک رسم الخط اٹھائے آ دھمکا‘‘۔ 

آج حال یہ ہے کہ پرانے ازبک یہ زبان سیریلک (روسی) رسم الخط میں لکھتے ہیں۔ نئی نسل لاطینی اور سیریلک (ترکی و روسی) دونوں پر انحصار کرتی ہے۔ سرکاری طور پر لاطینی رسم الخط اختیار کرنے کا فیصلہ نہیں ہوا، لیکن ہو جائے گا۔ یہ البتہ طے ہے کہ عربی رسم الخط کی (فی الحال) یہاں جگہ نہیں ہے۔  

 تاشقند پر ایک طائرانہ نظر 

۲۳ تا ۲۷ ستمبر ۲۰۲۵ء کو ’تاشقند انٹرنیشنل آربیٹریشن سینٹر‘ (TIAC) نے تاشقند میں ’بذریعہ ثالث مقدمات کے حل پر‘ پانچ روزہ بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی۔ متعدد ممالک کے وفود نے شرکت کی۔ پاکستان سے معروف لا فرم ’صمدانی، قریشی اینڈ اقلال‘ کے چیف بیرسٹر فرخ کریم قریشی اور مجھے شرکت کا موقع ملا۔ قانون کے طلبہ اور نو آموز وکیلوں پر مبنی ہماری آٹھ رکنی ٹیم بھی ہمارے ساتھ تھی۔ کسی ملک میں محض سات روزہ قیام سے حتمی رائے نہیں دی جا سکتی۔ پس اس تحریر کو ازبکستانی سیاست سے خالی ہمارے مشاہدات کا بیان سمجھ لیجیے۔ اس میں ماضی و حال کے ازبکستان کا موازنہ بھی ہے۔ جس کی گرافی ترتیب (graphic order) سے مستقبل کی منظر کشی کر لی جائے تو یہ کام غیر مفید نہیں ہوگا۔  

مدیر تکبیر محمد صلاح الدین مرحوم کے الفاظ کی یاد آتی ہے: ’’اشتراکیت کے جبر و استبداد اور مذہب دشمنی اپنی جگہ جن سے قطع نظر یہ ماننا پڑتا ہے کہ سوویت قابضین نے مسلم ترکستانی ممالک میں بھی وہی بنیادی مدنی ڈھانچا تعمیر کیا جو ماسکو اور لینن گراڈ میں تھا۔ شرح خواندگی تمام ترکستان میں ۱۰۰ فی صد ہے‘‘۔  

ہم نے تقریباً پورا تاشقند گھوم پھر کر دیکھا، پورے شہر کی عمارتوں، سڑکوں، ٹریفک، طرزِ زندگی اور لباس سے ہمیں معمولی سی معاشرتی اونچ نیچ کے آثار دکھائی نہیں دیئے۔ صفائی کا معیار مثالی ہے۔ 

پیزا والوں کے سوا کوئی ایک موٹر سائیکل سوار نظر نہیں آیا۔ نہایت منظم و مرتب ٹریفک اور بدنظمی سے پاک اس شہر میں بسوں، میٹرو اور ٹرین کا وہ منضبط نظام دیکھا کہ کم ہی آبادی کو کار جیسی انفرادی سواری کی ضرورت پیش آتی ہے اور مکھی، مچھر کا نشان نہیں دیکھا۔اسی طرح تتلی، کبوتر، فاختہ، چڑیا، کوّا یا پرندہ نام کی کوئی شے بھی نہیں دیکھی۔ لائسنس یافتہ دکانوں پر شراب کھلے عام بکتی ہے۔ 

دوسری طرف نمازِ جمعہ میں نمازی اتنے ملے کہ کہیں اور کبھی نہیں دیکھے۔ ازبک مسلمان خطیب کی تقریر شوق سے سنتے دیکھے۔ حنفی انداز پر ہماری ان کی نماز جمعہ میں یہ فرق دیکھا کہ پہلی اذان ایک بجے جس کے بعد سنتیں پڑھنے کا وقت دیا جاتا ہے۔ فوراً بعد دوسری اذان اور ساتھ ہی خطبہ جمعہ ہوتا ہے۔ تعجب اس پر ہوا کہ لوگ بارہ بجے سے آنا شروع کرتے ہیں اور ایک بجے تک خطیب کی تقریر شوق سے سنتے ہیں۔ مسجدیں نہایت باوقار، صاف اور سلیقہ مندی کا نمونہ ہیں۔ خطیب کا رتبہ پروقار اور باتمکنت ہے۔ نمازیوں سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ شہر تاشقند میں ایسی ۲۵تا ۳۵مساجد ہیں۔ نمازی اتنے کہ سڑک، فٹ پاتھ، گیراج وغیرہ جہاں جگہ ملے اپنی جائے نماز بچھا لیتے ہیں۔ سلام پھیر کر ہماری ہی طرح ہفتہ بھر کے مرحومین اور بیماروں کے لیے دعا کی جاتی ہے مگر عجلت میں کسی کو نکلتے نہیں دیکھا۔ دعا کے بعد البتہ لوگ نکلنے لگتے ہیں۔ 

تاشقند کی روز مرہ شہری زندگی 

 ہوٹل کا کمرہ لینے کے لیے عورت مرد کا مشترکہ کمرہ لینے پر نکاح کا ثبوت دینا ہوتا ہے۔ میں نے تاشقند جا کر چار منزلہ اور سوئمنگ پول والے وسیع ہوٹل میں کمرہ لیا اور ازبک معاشرت کا مشاہدہ کیا۔ روزانہ صبح ناشتے پر گھنٹہ بھر کے مشاہدے کے دوران اوسط دو تین کنبے بچوں سمیت ضرور نظر آتے رہے جن کے لیے الگ فیملی ہال تھا۔ مجموعی طور پر ہمیں تاشقند میں ۴۰/۴۵ فی صد وہ خواتین نظر آئیں جو نقاب، کالے برقعے، یا حجاب کی کسی مقامی شکل یا اسکارف استعمال کر رہی تھیں۔ باقی وہ خواتین دیکھیں جو مغربی لباس کی کسی شکل میں تھیں۔ کوئی ایک خاتون نہیں دیکھی جس نے شانے، کمر یا ٹانگیں بے پردہ رکھی ہوں۔ جوڑے تو بکثرت دیکھے لیکن ہم دونوں نے ایک جوڑا نہیں دیکھا جو بانہوں میں بانہیں ڈالے ہو، یا باہم ہاتھ پکڑے ہو۔ گلے لگنا، چہلیں کرنا، جھوم اور لہرا کر چلنا تو بہت دُور کی بات ہے۔ مرد و زن دونوں کو پتلون اور ٹی شرٹ پہنے دیکھا۔ لیکن کسی کے لباس یا چال میں معمولی سی رکاکت، سوقیانہ انداز، چھچھورا پن یا وہ اتھلا رنگ نہیں دیکھا، جو مغربی دنیا میں اور ہمارے یہاں عام ہے۔ مختصراً یہ کہ ہم نے مغربی دنیا کے برعکس مقامی اور مغربی دونوں ملبوسات میں وقار، تمکنت اور شائستگی ہی پائی۔ 

 ازبکستان اور ترکستانی ممالک میں  قدر مشترک 

مجھے ماضی میں بھی بیرون ملک ترکستانی و روسی مسلمانوں سے ملنے کا موقع ملتا رہا۔ یکساں سوویت طرز تعلیم کے باعث میں نے ان سب کو ایک جیسا پایا۔ حکومتی تعلقات سے قطع نظر پاکستان کے حق میں داغستان کے ایک مسلمان کو اٹھارہ سال قبل اور ازبک مسلمانوں کو حالیہ سفر میں ایک ہی زبان بولتے پایا۔ مثلاً ایک ازبک دوست کو میں نے ہیجانی انداز میں تین مختلف اوقات میں یہ کہتے سنا: ’’تاشقند کی فلاں فلاں کثیر منزلہ عمارتوں میں چینی کمپنیاں آچکی ہیں اور مزید آرہی ہیں، معلوم نہیں پاکستان کیوں بیدار نہیں ہوتا؟‘‘ مقامی مسلمانوں سے اسلامی تعلیمات اور شعائر کی ترقی یا تنزل پر بھی گفتگو ہوئی۔ اکثر سے یہ تاثر ملا کہ کئی کام بخوبی ہو رہے ہیں۔ امریکی اصطلاح کا ’سیاسی اسلام‘ ہمیں نہیں ملا۔ فی الحال وہاں ثقافتی سطح پر اسلام کے آثار نمایاں ہیں۔ ہر ازبک کو  اور ریاست کو بحیثیت کُل اپنے ثقافتی اور مذہبی ورثے پر بے پناہ فخر ہے۔  

چنانچہ اسلامی شعائر سے محبت اور دینی فکر کا دائرہ بتدریج پھیل رہا ہے اور ایک دوسرے کو چھیڑے اور تنقید کیے بغیر آگے بڑھ رہا ہے۔ مقامی لوگوں سے تبادلۂ خیال اور مطالعے کے بعد میرا تاثر یہ ہے کہ آزادی کے بعد کا ازبکستان اور دیگر ترکستانی ممالک اب روسی آباد کاروں (یہودیوں، مسیحوں اور لا مذہبوں) سے بتدریج خالی ہو رہے ہیں اور یہ عمل پاکستان سے مماثل ہے۔ تقسیم کے وقت پاکستان میں پارسی، اینگلو انڈین اور یہودی کثیر یا معتد بہ تعداد میں تھے۔ لیکن آج عام لوگوں کو اینگلو انڈین کا مفہوم تک پتا نہیں اور ملک میں ایک یہودی باقی نہیں رہا۔ پارسیوں کی بڑی تعداد بھی بلادِ غیر میں جا بسی ہے۔ 

 ازبکستان اسی فطری عمل سے گزر رہا ہے۔ لا مذہب سفید فام، روسی اور یہودی آباد کار ملک چھوڑ رہے ہیں۔ یہ یہودی آباد کار ۳۵ برسوں میں ۹۵ ہزار سے گھٹ کر ۱۰ ہزار رہ گئے ہیں۔ ازبکوں کا قیمتی اثاثہ بلا تفریق مسلک و مذہب عدم تعرض ہے۔ یعنی کوئی نہ چھیڑے تو تعرض نہ کرو، کام سے کام رکھو۔ ہر ازبک دوسرے کو چھیڑے بغیر کام سے کام رکھتا ہے۔ اس مفید رویے کی طاقت سے دین فطرت بتدریج پیش قدمی کرتا نظر آرہا ہے۔ یکساں نظام تعلیم اور متعدد دیگر عوامل کے باعث میں بقیہ نو آزاد سوویت مقبوضات کو ازبکستان پر قیاس کر کے سب کے لیے یہی نتیجہ نکالتا ہوں۔ 

پاک ازبک و ترکستانی ممالک کے تعلقات 

ملک اور قبائل، اپنے ماضی میں کبھی لا تعلق نہیں رہے، اور آج تو ہر ملک کا داخلی فیصلہ کسی کو بغیر بتائے ظاہر ہو کر رہتا ہے۔ ازبک رسم الخط بدلنے کے فیصلے نے تمام ترکستانی ممالک تک کو متاثر کیا۔ جہاں تک باہمی میل جول کا تعلق ہے تو بنیادی اسلامی عقائد ہر ملک میں متفق علیہ ہیں۔ لیکن جزئیات ہر ملک اور ہر بستی کی اپنی ہوا کرتی ہیں۔ ازبکستان میں فی الوقت جو اسلام پیش قدمی کر رہا ہے، اسے ہمارے کسی سہارے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن مطلب یہ نہیں کہ پاکستان ان ممالک سے ہر معاملے میں لا تعلق ہوجائے۔ 

دونوں ملکوں کے حکومتی تعلقات کو مختلف طریقوں پر وسعت دینا لازم ہے۔ سینئر ریاستی حکام، چیمبرز آف کامرس کے افراد، یونی ورسٹی اساتذہ، سپریم کورٹ کے وکلا اور سینئر صحافیوں کے لیے دونوں ملک اگر بدون ویزا آمد و رفت کو فروغ دیں تو یہ دونوں کے حق میں مفید ہے۔ باہمی تجارت میں اضافہ تعلقات کی کلید ہے۔ لیکن ان سب امور سے قبل ہمارے پڑوسی افغان حکام کے لیے جدید ریاستی انداز کار کی تفہیم بڑی ضروری ہے۔ دونوں ملک مل کر اوّلاً افغان مسئلے کا کوئی پائیدار حل تلاش کریں۔ غور کیجیے کہ پاکستان، ایران، تاجکستان، قازقستان ازبکستان اور ترکمانستان جیسے آسودہ حال ممالک کے سمندر میں افغانستان افلاس کا ایک جزیرہ نظر آتا ہے۔ یہی وہ ملک ہے جس کا جغرافیہ جنوبی ایشیا تا مشرقی یورپ تک کے تمام ممالک کو متاثر کرتا ہے۔ سوویت مداخلت سے قبل پاکستان کے لوگ براستہ افغانستان یورپ اور برطانیہ تک جاتے آتے تھے۔ آج، جب کہ نوآزاد ترکستانی ممالک کے راستے کھل چکے ہیں تو وہاں بھی رسائی ممکن ہے۔ لیکن افغانستان کے داخلی حالات اور اس کی خارجہ پالیسی اس آمد و رفت کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ 

خالی الذہن عام سیاحوں کو ازبکستان مغربی رنگ میں نظر آتا ہے، وجہ ظاہر ہے۔ بلاشبہ وہاں شراب، رقص گاہوں اور ساز و آواز کو مکمل مغربی انداز کی آزادی حاصل ہے، لیکن رفتہ رفتہ سوویت ماضی کا تسلسل دم توڑ رہا ہے۔ مسجد کے علاوہ کسی دکان، پارک یا کھلے عام کسی کو نماز ادا کرتے نہیں دیکھا۔ یہ ازبک زندگی کا پہلا دائرہ ہے۔ بقول ازبک دوستوں کے یہ دائرہ خود بخود اور روز بروز سکڑتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف کسی مسجد میں جائیں تو اسی مغربی لباس میں ملبوس جوانوں کو دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ اسی شہر میں رات کو جام لنڈھائے جاتے ہیں۔ الحمدللہ یہ دائرہ پھیل رہا ہے۔ 

ان شاء اللہ ، مستقبل قریب میں یا قدرے بعید کہہ لیجیے، تمام ترکستانی ممالک، ترکیہ، روس، پاکستان اور ایران مل کر ایک مضبوط اسلامی بلاک بنائیں گے۔ اس فہرست میں روس کو دیکھ کر تعجب نہ کیجیے۔ سرکاری طور پر روس میں ۱۵ فی صد مسلمان بتائے جاتے ہیں۔ لیکن آزاد ذرائع یہ تناسب ۲۰،۲۲ فی صد تک بتاتے ہیں۔ جو بھی ہو، اس پر سبھی محققین متفق ہیں کہ ۲۰۵۰ء تک روسی مسلمان آبادی کا ایک تہائی ہو جائیں گے۔ بعض مغربی جرائد نے بطور پھپتی ماسکو کو مستقبل کا ’ماسکو آباد‘ قرار دے رکھا ہے۔  

روس کی غالب مسلم آبادی ترکستانی اور داغستانی خطوں میں ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی اسلامی قدریں لیے تعلیم، روزگار، تجارت اور ملازمتوں میں بتدریج آگے آرہے ہیں۔ چنانچہ آج اگر روس اور پاکستان کی قربت میں اضافہ اور انڈیا سے روس کے تعلقات میں فاصلہ پیدا ہوتا جارہا ہے تو تعجب نہ کیجیے۔ اس کی ایک وجہ روس میں مسلم فکر کا بڑھتا ہوا عمل دخل بھی ہے۔ لیکن آج کا موضوع ازبکستان تھا جس پر چند معروضات پیش کی گئی ہیں۔