نومبر ۲۰۲۵

فہرست مضامین

پاک افغان جنگ اور انڈیا کا کردار؟

ڈاکٹر محمد اقبال خلیل | نومبر ۲۰۲۵ | پاکستانیات

Responsive image Responsive image

یہ دو سال پہلے کی بات ہے، ۵ سے ۸ مئی ۲۰۲۳ء کے دوران پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں افغانستان کے امارت اسلامی کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کا دوسرا باقاعدہ دورہ ہوا تھا۔اس دوران سہ فریقی مذاکرات بھی منعقد ہوئے،جن میں چین ،پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی۔ افغان وزیر خارجہ کا یہ پانچ روزہ دورہ اس لحاظ سے اہم تھاکہ اقوام متحدہ نے اس کی رسمی طور پر منظوری دی تھی۔اس لحاظ سے یہ ایک اہم سفارتی پیش رفت تھی۔ 

امیر خان متقی نے اپنے دورے میں دیگر اہم شخصیات سے بھی ملاقاتیں کیں، جن میں پاکستانی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر سے ان کی ملاقات بہت اہم رہی۔ ’تحریک طالبان پاکستان‘ (TTP) کی پاکستان میں بڑھتی ہوئی تخریبی کارروائیوں کو افغانستان میں قائم مراکز سے جوڑا جاتا ہے۔ ان افسوس ناک واقعات اور حملوں کے نتیجے میں افواج پاکستان،پولیس کے جوانوں اور عوام کا مسلسل جانی و مالی نقصان ہو رہا ہے۔ اس دورے میں پاکستانی حکام نے امارت اسلامی افغانستان سے اس کی روک تھام کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔اس بارے میں افغان وزیر خارجہ نے چیف آف آرمی اسٹاف سے جو مذاکرات کیے، اس کی تفصیلات تو معلوم نہیں ہو سکیں البتہ ان کا یہ بیان سامنے آیا، جس میں انھوں نے کہا تھا، ’’امارت اسلامی نے حکومت پاکستان کے مطالبے پر ٹی ٹی پی کی قیادت کو مذاکرات کے لیے آمادہ کیا اور آئندہ بھی اس مسئلے کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے‘‘۔ 

موجودہ سال یہ دورہ پھر متوقع تھا اور امیر خان متقی کو ماسکو میں کانفرنس سے پہلے یا بعد میں پاکستان اور انڈیا دونوں ملکوں کا دورہ کرنا تھا لیکن چونکہ ان کا نام اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ اس فہرست میں شامل ہے جن پر فضائی سفر کی پابندی ہے، اس لیے ان ممالک کو اس پر اس پابندی کے خاتمے کے لیےدرخواست دینی تھی۔ پاکستان کی درخواست منظور نہ ہو سکی اس لیے وہ یہاں نہ آئے اورروس کی مددسےانڈیا جانے کی اجازت مل گئی اور وہ نئی دہلی چلے گئے۔ اس دوران ۷؍اکتوبر کو پاکستان کے قبائلی علاقے اور کزئی میں تخریب کاری کا خونیں واقعہ ہوا، جس میں گیارہ فوجی افسروں اوراہل کاروں کی شہادت ہوئی۔ پاکستان نے ۱۰؍ اکتوبر کو جوابی کارروائی کرتے ہوئے کابل اور پکتیامیں ٹی ٹی پی کے ممکنہ عسکری مراکز پر فضائی حملے کیے، جن میں ٹی ٹی پی کے اہم افراد کی ہلاکتوں کا دعویٰ کیا گیا۔ اس وقت افغان وزیر خارجہ دہلی میں موجود تھے اور وہیں سے انھوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاکستانی حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور جوابی کارروائی کا اعلان کیا۔ چنانچہ ۱۳؍ اکتوبر کو افغان فورسز نے پاک افغان سرحد کے ساتھ مختلف مقامات پر پاکستانی چیک پوسٹوں پر حملے کیے،جن کے جواب میں پاکستانی مسلح افواج نے افغان ٹھکانوں پر حملے کیے۔ اس طرح دونوں طرف سے شہادتوں، ہلاکتوں اور عسکری پوسٹوں پر قبضوں کے دعوے کیے گئے اور ثبوت کے طور پر ویڈیو فوٹیج بھی دکھائی گئیں۔ 

۱۲؍ اکتوبر کو پاکستانی عسکری تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر)کے ڈائریکٹر جنرل جنرل احمد شریف نے بھی پشاور میں ایک اہم پریس کانفرنس کی، جس میں انھوں نے افغانستان کے حوالے سے پاکستان کا سرکاری موقف پیش کیا۔ یادرہے پاکستان کے وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار ہیں، جو نائب وزیراعظم بھی ہیں لیکن افغانستان کے حوالے سے زیادہ بیانات وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف ہی کے میڈیا کی زینت بن رہے ہیں۔ جنرل احمد شریف نے ٹی ٹی پی کی تمام تخریبی کارروائیوں کا ذمہ دار امارت اسلامیہ افغانستان کو قرار دیتے ہوئے پاکستان کی جانب سے سخت کارروائیوں کے عزم کا اظہار کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے خود پاکستان ہی کی سابقہ سیاسی اور عسکری قیادت سمیت انڈیا کو بھی اس افسوس ناک صورتِ حال کا ذمے دار قرار دیا ۔اس پریس بریفنگ میں انھوں نے پاکستان میں گذشتہ ۱۰ برسوں میں ہونے والے تخریب کاری کے واقعات، جانی نقصانات اور پاک فوج کی جوابی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے تخریب کاروں کے اعداد و شمار بھی پیش کیے، جن میں کافی تعداد میں افغان شہری بھی شامل ہیں۔ 

پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگی صورتِ حال اور انسانی جانوں کے ضیا ع کو محسوس کرتے ہوئے کئی دوست ممالک جن میں ایران، قطر ،سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات، ترکی اور چین شامل ہیں، انھوں نے دونوں اطراف کی قیادت سےحملے روکنے کی اپیل کی۔ جس کے نتیجے میں ۱۶؍اکتوبر کو سیز فائر کا اعلان ہو گیا اور دوحہ، قطر میں دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا آغاز بھی ہوا ۔ اس سیز فائر کے ۴۸ گھنٹے مکمل ہونے کے بعد اس میں توسیع کر دی گئی اور اعلان ہوا کہ مذاکراتی عمل مکمل ہونے تک یہ پابندی جاری رہے گی۔ البتہ اس دوران پاکستانی وزیر دفاع کے جارحانہ بیانات کا سلسلہ جاری رہا اور سوشل میڈیا پر بھی پاکستان کی مقتدر حلقوں میں شامل شخصیات افغان حکومت کے خلاف سخت تبصرے کرتے رہے، جن میں مولانا طاہر اشرفی صاحب بھی شامل ہیں۔ یہ موصوف گذشتہ اَدوار حکومت میں بھی سرکاری وسائل کا بھرپور استعمال کرتے رہے ہیں، جب کہ افغان وزیر دفاع ملا محمد یعقوب کاایک انٹرویو سوشل میڈیا پرچلا، جس میں انھوں نے پاکستان کے فضائی حملوں پر افسوس کااظہار کیا ۔افغان سوشل میڈیا پر پاکستانی فضائی حملے سے ہلاک ہونے والوں کی نماز جنازہ دکھائی گئی جس میں مقامی نوجوان کرکٹرزشامل تھے۔ 

برادر مسلم پڑوسی ملک افغانستان کے حوالے سے پاکستان کا سرکاری موقف یہ ہے کہ ’’پاکستان نے گذشتہ اَدوار میں افغان قوم و ملت پر جو احسانات کیے تھے، وہ اس کا بدلہ چکانے کے بجائے انڈیا کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف مسلح جارحیت کا مظاہرہ کر رہا ہے، اور پراکسی وار میں ملوث ہے، جس کا علاج یہ ہے کہ طاقت کا بھرپور استعمال کر کے اس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا جائے‘‘۔  

چونکہ اس سال ماہ مئی میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قیادت میں پاکستانی افواج نے اپنے دیرینہ دشمن انڈیا کے خلاف چار روزہ مختصر جنگ میں ایک تاریخی فتح حاصل کی تھی، جس کی باز گشت پوری دنیا میں سنائی دی اور اس کے بعد دنیا کی واحد سوپر پاور امریکا نے پاکستانی وزیراعظم شہبازشریف اور پاکستانی آرمی چیف کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہوئے اپنے ہمراہ رکھا ہے۔ اس لیے پاکستانی قیادت کے خیال میں دیگر پڑوسی ممالک بشمول افغانستان کو اس کا لحاظ کرنا چاہیے اور پاکستانی مطالبات کو درست تصور کرتے ہوئے اس کو پورا کرنا چاہیے۔ اس طرح ڈپلومیسی کی جگہ طاقت کے استعمال کی یہ پالیسی، افغانستان کے تناظر میں کتنی کامیاب ہوتی ہے اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا، لیکن اس حکمت عملی پر ملک کے اندر سے سوالات اٹھنا شروع ہو چکے ہیں ۔ 

مولانا فضل الرحمٰن صاحب صدر جمعیت علمائے اسلام پاکستان نے جنرل احمد شریف کے بیان پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے اور فوجی حکمت عملی پر مبنی راستے کا انتخاب یکسرمسترد کر دیا ۔ اسی طرح جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن صاحب نے بھی جنگ کے بجائے مذاکرات کا راستہ تجویز کیا ۔ سابق وزیراعظم جناب عمران خان نے اڈیالہ جیل سے اپنے بیان میں پیش کش کی ہے کہ اگر ان کو پیرول پر رہا کیا جائے تو وہ افغانستان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کرسکتے ہیں۔ 

گذشتہ دنوں جماعت اسلامی کا ایک اعلیٰ سطحی وفدجناب پروفیسر محمد ابراہیم خان کی قیادت میں افغانستان گیا تھا جہاں انھوں نےامارت اسلامی افغانستان کے وزیر خارجہ، وزیر داخلہ، وزیراُمور مہاجرین اور وزیر تجارت سے ملاقاتیں کی تھیں، جس میں اس موضوع پر بھی تفصیل سے گفتگو ہوئی اور پاکستان میں ٹی ٹی پی کی بڑھتی ہوئی تخریبی سرگرمیوں اور جانی و مالی نقصانات کے تدارک کے لیےامارت اسلامی کے ممکنہ کردار پر تجاویز پیش کیں۔  

ان ملاقاتوں میں افغان وزیروں کا موقف یہ تھا کہ ’’ہم کسی بھی پاکستان مخالف تحریک کا حصہ نہیں بن سکتے۔ پاکستان ہمارے لیے دوسرے گھر کی حیثیت رکھتا ہے۔ البتہ ٹی ٹی پی کے وابستگان کو لگام دینے کے لیے ہم ایک طویل المعیاد منصوبے پر عمل کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے کئی اقدامات کا ذکر کیا، جس کا علم پاکستانی حکام کو بھی ہے۔ انھوں نے امید ظاہرکی کہ ’’آئندہ ایک،دوبرسوں میں یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ پہلے مرحلے میں ہماری پوری کوشش ہے کہ کوئی بھی افغان شہری جہاد میں شرکت کی نیت سے پاکستان نہ جائے کہ امیر المومنین مُلّاہیبت اللہ اخوندزادہ کی یہ ہدایت ہے۔ گذشتہ عرصے میں کئی سوافغان شہریوں کو اس جرم میں قید بھی کیا گیا ہے‘‘۔ 

افغان قائدین کی بات یقینا اپنی جگہ درست ہوگی، لیکن پاکستان میں ٹی ٹی پی کی بڑھتی ہوئی دہشت گردانہ سرگرمیوں اور پاکستانی شہریوں، پاک افواج اور پولیس کے اہل کاروں کی مسلسل شہادتوں نے پورے ملک میں شدید غم و غصے کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ چونکہ اس وقت ملک کی قیادت اور پالیسی سازی میں فوج کا کردار بہت زیادہ مرکزیت کا حامل ہے، اس لیے انھوں نے معاملات نمٹانے میں طاقت کا مظاہرہ ضروری سمجھا۔ اب، جب کہ صورتِ حال میں بہتری آگئی ہے اور دوست ممالک کی مدد سے دونوں ممالک کے درمیان پہلے فائر بندی اور پھر  صلح نامے پر قطر کے دارالحکومت دوحہ میں دستخط بھی ہوگئے ہیں، جہاں پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف اور افغان وزیر دفاع مُلّا یعقوب جوافغان طالبان تحریک کے بانی مُلّا محمد عمر [۱۹۶۰ء- ۲۰۱۳ء] کے صاحبزادے ہیں ،نے اپنے ممالک کی نمائندگی کی۔معاہدے کی تقریب میں ترک وزیر اور قطرانٹیلی جنس چیف عبد اللہ بن محمد الخلیفہ کی موجودگی میں ہاتھ بھی ملا لیے ہیں۔ امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات معمول پر آ جائیں گے اور جنگی صورتِ حال ختم ہوجائےگی۔ اس وقت بھی طورخم ،چمن اور دیگر دو ملکی راہداریوں پر ہزاروں مال بردار گاڑیاں اور لوگ راستے کھلنے کے انتظار میں کھڑے ہیں۔ اسی طرح باہمی تجارت میں تاجروں کو سخت نقصان کا سامنا ہے۔اس معاہدے کی تفصیلات اورعمل درآمد کا میکنزم ۲۵؍اکتوبرکوترکی میں طے کرنے پر اتفاق ہوا۔ 

 پاک افغان قضیہ میں انڈیا کا کردار 

حسب معمول اس دوران پاکستان کے مقتدر حلقوں اور سوشل میڈیا میں اس پورے معاملے میں انڈیا کے کردار کا ذکر ہوتا رہا ہے۔ افغانستان اور انڈیا کے پاکستان مخالف اتحاد اور مشترکہ ایجنڈےکی با ت ہوئی۔ یہ حقیقت ہم پر واضح رہنی چاہیے کہ مختلف گذشتہ ا َدوار میں انڈیا نے افغانستان کی حکومتوں میں گہرا اثر و نفوذ پیدا کیا تھا ۔روسی مداخلت کے دوران انڈیا ان چند آزاد ممالک میں شامل تھا، جس نے ببرک کارمل کی روسی کٹھ پتلی حکومت (دسمبر ۱۹۷۹ء-اپریل ۱۹۸۶ء) اور ڈاکٹر محمد نجیب اللہ کی حکومت (مئی ۱۹۸۶ء-اپریل ۱۹۹۲ء)، حامدکرزئی کی حکومت (جون ۲۰۰۲ء-ستمبر ۲۰۱۴ء) کو تسلیم کیا تھا۔ اس کے بعد اشرف غنی کے دور (ستمبر۲۰۱۴ء- اگست ۲۰۲۱ء) میں امریکی سرپرستی میں انڈیا نے افغانستان میں بھاری سرمایہ کاری کی، جس کی مالیت دو بلین ڈالر سے تجاوز کرگئی تھی۔ اسی دوران انڈین سفارت خانہ اور قونصل خانے پاکستان مخالف سرگرمیوں کی آماجگاہ بن گئے تھے اور ٹی ٹی پی کے علاوہ بلوچ علیحدگی پسند اور دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی کی جاتی رہی۔ اس دور میں انڈیا، تحریک طالبان افغانستان کو اپنا بڑا دشمن تصور کرتا تھا۔دوسری طرف طالبان، انڈین منصوبوں کو نشانہ بناتے تھے اور جہاد کشمیر کی حمایت کرتے تھے۔ اس لیے جب ۱۵؍ اگست ۲۰۲۱ء کو کابل میں امارت اسلامی کی حکومت بحال ہوئی تو انڈیا نے اس کو اپنی شکست سمجھتے ہوئے نہ صرف اپنا سفارت خانہ اور قونصل خانے بند کردیئے، بلکہ ایئر انڈیا کی پروازیں بھی بند کرد یں اور انڈین سرمایہ کار بھی اپنا کاروبار سمیٹ کر واپس چلے گئے۔ 

 یہی وہ وقت تھا جب پاکستان نے طالبان کی آمد کو اپنی کامیاب حکمت عملی کا نتیجہ قرار دیااور ان سے بہت سی توقعات وابستہ کر لیں ۔گذشتہ تین برسوں میں جب پاک افغان تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوا، تواس کو بھانپتے ہوئے انڈین سفارت کاروں نے دوبارہ موجودہ افغان حکومت سے اپنے تعلقات استوار کیے، جس پر پاکستان میں رائے عامہ نے تشویش کا اظہار کرنا شروع کردیا۔ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے موجودہ دورہ انڈیا کے وقت اور پاکستان مخالف پریس کانفرنس نے افغانستان اور انڈیا کے تعلقات میں ایک ایسا عروج پیدا کیا، جس کی توقع خود انڈین حکمت کاروں کو بھی نہیں تھی۔ 

یہ سوال پیدا ہوا کہ امیر خان متقی نے دہلی میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کیوں کیا؟ یہ تو نہیں معلوم لیکن بہر کیف یہ ایک غیر دانش مندانہ اقدام تھا ۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان شدید تلخی کے اس دور میں افغان حکومت کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔یہ کام کابل میں موجود کوئی بھی اہم شخصیت کر سکتی تھی۔ افغان وزیر دفاع کوئی ایسا بیان دے سکتے تھے، جو انھوں نے دیا بھی، مگر دہلی میں بیٹھ کرپاکستان مخالف بیانات دینا سخت تلخی اور پاکستان میں عوامی سطح پر ردعمل کا سبب بنا۔ 

 پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے لیے لازم ملزوم ہیں۔تعلقات میں بحالی دونوں کی ضرورت ہے۔دونوںممالک کے مفادات مشترکہ ہیں ۔ انڈیا، پاکستان کی جگہ نہیں لے سکتا، جس کی سرحد افغانستان کے ساتھ نہیں ملتی ۔یہ بات انڈین تجزیہ کاروں نے بھی کہی اور وہ خود بھی طالبان پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ پاک افغان تعلقات میں بگاڑاور تناؤ پر خوشی کے شادیانے تو بجا رہے ہیں، لیکن اس حقیقت سے واقف ہیں کہ بہر صورت انڈیا، پاکستان کے مقابلے میں افغانستان کی مدد کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ 

پاکستان کے سماجی رابطوں پر اس وقت افغان مخالف موقف میں ایک اہم نکتے کے طور پر جوحضرات ’افغان، انڈین گٹھ جوڑ‘ کو پیش کررہےہیں، ان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر وہ کسی بھی درجے میں پاک افغان تعلقات کو سدھارنا چاہتے ہیں تو اس طرزِعمل اور طرزِبیان کوترک کر دیں۔ افغانستان میں پاکستان کے حق میں موجود حلقہ اس کو پسند نہیں کرتا۔ وہ پاک افغان تعلقات کے شاخسانے میں انڈین کردار کا تذکرہ قبول نہیں کرتا ۔خود میں نے بیسیوں بار افغانستان کا سفر کیا ہے اور افغان عوام کی ایک بڑی تعداد پاکستان سے تعلق کو دینی، تاریخی، لسانی اور جغرافیائی بنیادوں پر ضروری اور لازمی تصور کرتی ہے اور اس پس منظر میں انڈیا کہیں فٹ نہیں ہوتا ۔ 

۱۹۸۳ء سے افغانستان میں پیش آنے والے حالات، واقعات اور تغیرات سے واقفیت رکھتا ہوں۔اس بارے میں میری یہ معروضات ہیں: 

افغانستان قبائلی معاشرت پر مشتمل ایک مسلم ملک ہے، جوگذشتہ۵۰ برس میں نظریاتی و تہذیبی کش مکش کا مرکز رہا ہے۔اس دوران وہاں بہت ساری حکومتیں بنتی اور گرتی رہی ہیں۔لیکن کم ازکم تین بار افغانستان میں اسلامی نظام کی حامی قوتیں برسراقتدارآئی ہیں۔ ۱۹۹۲ء میں مجاہدین کی حکومت اور ۱۹۹۶ء میں طالبان حکومت اور۲۰۲۱ء میں دوبارہ امارت اسلامی کی صورت میں افغان طالبان کی حکومتوں کا قیام آج کی دنیا میں انوکھا تجربہ رہا ہے۔ پہلی بار جہاد افغانستان کے طویل دور کے بعد قائم مجاہدین کی حکومت کو تنظیموں اور حزبوں کی آپس کی لڑائی کروا کر ختم کیا گیا۔ دوسری بار طالبان حکومت کو ختم کرنے کے لیے ۲۰۰۱ء کے آخر میں القاعدہ اوراسامہ بن لادن کو بہانہ بنا کر امریکا اور ناٹو افواج افغانستان پرچڑھ دوڑیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب تیسری بار قائم اس حکومت کو ختم کرنے کے لیے، کیا پاکستان کی جنگی مشینری کو استعمال کیا جائے گا؟ 

 یہ سوال پاکستان افغانستان دونوں ممالک کے پالیسی سازوں کے لیے بھی اور اُمت مسلمہ کا درد رکھنے والے دانش وروں اور تجزیہ نگاروں کے لیے بھی غوروفکر کا چیلنج پیش کرتاہے۔ دُوربیٹھے ممالک چاہے وہ امریکا ہو یا انڈیا، پاکستان اور افغانستان میں جنگ وجدل سے انھیں کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو، مگر دونفع ضرور ملیں گے: پہلا یہ کہ دونوں ملک، تعمیروترقی کے کام ٹھپ کرکے باہم لڑیںگے اور اسلحے کی کھپت کا بازار گرم ہوگا۔ دوسرا یہ کہ خربوزہ چھری پر گرے یا چھری خربوزے پر، نقصان تو خربوزے کا ہوگا، یعنی افغان مسلمان مارا جائے یا پاکستانی مسلمان مارا جائے، اُن کی بلا سے___ نقصان تو مسلمان کا ہوگا!