خلافت ِ راشدہؓ کا زوال جن حالات میں اور جن اسباب سے ہوا، ان کے نتائج میں سے ایک اہم نتیجہ یہ بھی تھا کہ اُمت مسلمہ کے اندر مذہبی اختلافات رُونما ہوگئے۔ پھر ان اختلافات کو جس چیز نے جمنے اور مستقل فرقوں کی بنیاد بننے کا موقع دے دیا، وہ بھی اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ نظامِ خلافت اپنی اصلی شکل پر قائم نہ رہا تھا، کیونکہ ملوکیت کے نظام میں کوئی ایسا بااختیار اور معتمدعلیہ ادارہ موجود نہ تھا، جو اختلافات کے پیدا ہوجانے کی صورت میں اُن کو بروقت، صحیح طریقے سے حل کر دیتا۔
ابتدا اس فتنے کی بھی بظاہر کچھ بہت زیادہ خطرناک نہ تھی۔ صرف ایک شورش تھی جو بعض سیاسی اورانتظامی شکایات کی بنا پر سیّدنا عثمانؓ کے خلاف ان کے آخری دور میں اُٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ اُس کی پشت پر نہ کوئی نظریہ اور فلسفہ تھا، نہ کوئی مذہبی عقیدہ۔ مگر جب اس کے نتیجے میں آنجناب کی شہادت واقع ہوگئی، اور حضرت علیؓ کے عہد ِخلافت میں نزاعات کے طوفان نے ایک زبردست خانہ جنگی کی صورت اختیار کرلی، اورجنگ ِ جمل، جنگ ِ صفّین، قضیہ تحکیم اور جنگ ِ نہروان کے واقعات پے درپے پیش آتے چلے گئے، تو ذہنوں میں یہ سوالات اُبھرنے اور جگہ جگہ موضوعِ بحث بننے لگے۔ ان سوالات کے نتیجے میں چندقطعی اور واضح نظریات پیدا ہوئے جو اپنی اصل کے لحاظ سے خالص سیاسی تھے، مگر بعد میں ہر نظریے کے حامی گروہ کو بتدریج اپنا موقف مضبوط کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ دینیاتی بنیادیں فراہم کرنی پڑیں اور اس طرح یہ سیاسی فرقے رفتہ رفتہ مذہبی فرقوں میں تبدیل ہوتے چلے گئے....[ان] اختلافات نے مسلمانوں کی وحدتِ ملّی کو سخت خطرے میں مبتلا کردیا۔ اختلافی بحثیں گھر گھر چل پڑیں۔ہربحث میں سے نئے نئے سیاسی، دینیاتی اور فلسفیانہ مسائل نکلتے رہے۔ ہرنئے مسئلے کے اُٹھنے پر فرقے اور فرقوں کے اندر مزید چھوٹے چھوٹے فرقے بننے لگے۔ اور ان فرقوں کے اندر باہمی تعصبات ہی نہیں ہوئے بلکہ جھگڑوں اور فسادات تک نوبت پہنچ گئی۔ (’مسلمانوں میں مذہبی اختلافات کی ابتداء‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، نومبر ۱۹۶۵ء، جلد۶۴، عدد۳، ص۳۸-۳۹)