نومبر ۲۰۲۵

فہرست مضامین

فلسطینیوں کی لاشوں کی غزہ واپسی

لورینزو ٹونڈو، سیحام تانتیش | نومبر ۲۰۲۵ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

بے حُرمتی کا شکار فلسطینی لاشیں ’تشدد‘ کے عقوبت خانے سے منسلک! 

دنیا کہاں ہے؟ ہمارے تمام قیدی تشدد زدہ، ٹوٹی ہڈیوں اور کچلے اعضاء کے ساتھ واپس آئے، ایک فلسطینی مقتول کی والدہ۔ 

غزہ کی وزارتِ صحت کے حکام نے دی گارڈین کو بتایا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے واپس کی گئی کم از کم ۱۳۵ مسخ شدہ فلسطینی قیدیوں کی لاشیں اسرائیل کے ایک ایسے بدنام زمانہ حراستی مرکز میں رکھی گئی تھیں، جو پہلے ہی تشدد اور حراست میں ہلاکتوں کے الزامات کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے۔ 

وزارتِ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر منیر البُرش اور خان یونس کے ناصر ہسپتال کے ترجمان نے بتایا کہ ہر لاش کے تھیلے کے اندر ایک دستاویز موجود تھی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام لاشیں ’سدی تیمن‘ (Sde Teiman) نامی فوجی اڈے سے آئی ہیں، جو نیگیو صحرا میں واقع ہے۔ 

دی گارڈین کی جانب سے گذشتہ سال شائع کی گئی تصاویر اور عینی شہادتوں کے مطابق، فلسطینی قیدیوں کو وہاں پنجرے نما خیموں میں رکھا گیا تھا، آنکھوں پر پٹیاں باندھی گئیں، ہاتھ پاؤں زنجیروں سے جکڑے گئے، ہسپتال کے بستروں سے باندھ دیا گیا اور ڈائپر پہننے پر مجبور کیا گیا۔ 

ڈاکٹر البُرش کے مطابق:’’لاشوں کے تھیلوں میں موجود ٹیگ عبرانی زبان میں تھے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ باقیات سدی تیمن میں رکھی گئی تھیں۔ کچھ کے بارے میں تو ڈی این اے ٹیسٹ کے ریکارڈ بھی وہاں کے تھے‘‘۔ 

گذشتہ سال اسرائیلی فوج نے سدی تیمن میں حراست میں ۳۶ قیدیوں کی ہلاکتوں کی تفتیش شروع کی تھی جو ابھی جاری ہے۔ 

امریکی ثالثی میں ہونے والے غزہ کے جنگ بندی معاہدے کے تحت، حماس نے جنگ کے دوران مرنے والے چند اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشیں واپس کیں، جب کہ اسرائیل نے اب تک ۱۵۰ فلسطینیوں کی لاشیں واپس کی ہیں، جو ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد قید میں مارے گئے تھے۔ 

دی گارڈین کو دکھائی گئی فلسطینی لاشوں کی کچھ تصاویر [تشدد] کی خوفناک نوعیت کی وجہ سے شائع نہیں کی جاسکتیں۔ ان میں کئی مقتولین کی آنکھوں پر پٹی اور ہاتھ پیچھے بندھے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک تصویر میں ایک شخص کی گردن کے گرد رسی بندھی نظر آتی ہے۔ 

خان یونس کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ’’لاشیں دیکھنے سے واضح ہے کہ اسرائیل نے کئی فلسطینیوں کے خلاف قتل، فوری پھانسیاں اور منظم تشدد کے اقدامات کیے ہیں‘‘۔ ان شواہد میں شامل ہے کہ متعدد لاشوں پر نزدیکی فائرنگ کے نشانات اور ٹینکوں کے نیچے کچلے جانے کے آثار پائے گئے ہیں‘‘۔ 

ایاد برہوم، ناصر میڈیکل کمپلیکس کے انتظامی ڈائریکٹر، نے کہا کہ لاشوں پر نام نہیں بلکہ صرف کوڈ درج تھے اور شناختی عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ 

اگرچہ کئی شواہد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ان میں سے بیش تر فلسطینی قیدیوں کو قتل کیا گیا ہے، مگر یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ انھیں کہاں مارا گیا؟ سدی تیمن ایک ایسا مقام ہے جہاں غزہ سے لائی گئی لاشیں رکھی جاتی ہیں، لیکن یہ ایک قید خانہ بھی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنان مطالبہ کر رہے ہیں کہ یہ جاننے کے لیے تفتیش کی جائے کہ آیا ان میں سے کتنے افراد وہیں مارے گئے تھے؟ 

محمود اسماعیل شباط، عمر ۳۴ سال، شمالی غزہ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کی لاش پر گردن میں پھانسی کے نشانات اور ٹینک کے نیچے کچلے جانے کے آثار پائے گئے۔ اس کے بھائی رامی شباط نے اسے سر کی پرانی سرجری کے نشان سے پہچانا اور کہا:’’سب سے زیادہ دکھ یہ تھا کہ اس کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور جسم پر واضح تشدد کے نشانات تھے‘‘۔ 

اس کی والدہ نے کہا:’’دنیا کہاں ہے؟ ہمارے تمام قیدی تشدد زدہ ، ٹوٹی ہڈیوں اور کچلے جسموں کے ساتھ واپس آئے ہیں‘‘۔ 

کئی فلسطینی ڈاکٹروں کے مطابق: بہت سی لاشوں پر پٹیاں اور بندھے ہوئے ہاتھ اس بات کا اشارہ ہیں کہ انھیں سدی تیمن میں تشدد کے بعد قتل کیا گیا جہاں اسرائیلی میڈیا اور قیدخانے کے محافظوں کی شہادتوں کے مطابق، غزہ کے تقریباً ۱۵۰۰ فلسطینیوں کی لاشیں رکھی ہوئی ہیں‘‘۔ 

ایک گواہ نے دی گارڈین کو بتایا:’’میں نے دیکھا کہ غزہ سے ایک زخمی قیدی لایا گیا جس کے سینے میں گولی لگی تھی، آنکھوں پر پٹی، ہاتھ بندھے ہوئے، اور وہ بے لباس تھا۔ ایک اور مریض، جس کی ٹانگ پر گولی لگی تھی، بالکل اسی حالت میں پہنچا‘‘۔ 

دوسرے گواہ نے بتایا:’’ تمام مریض بستروں سے ہتھکڑیوں سے بندھے، بے لباس اور ڈائپر پہنے ہوئے، آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی حالت میں تھے۔ان میں سے کئی کو غزہ کے ہسپتالوں سے گرفتار کیا گیا تھا جب وہ علاج کروا رہے تھے۔ ان کے زخم گل سڑ گئے تھے، وہ درد سے کراہ رہے تھے‘‘۔ 

اس کے مطابق: ’’اسرائیلی فوج کے پاس ان فلسطینی قیدیوں کے حماس کے رکن ہونے کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔ بعض تو بار بار پوچھتے تھے کہ انھیں کیوں گرفتار کیا گیا ہے؟ ایک قیدی کا ہاتھ ہتھکڑی کے زخموں کے باعث گل گیا جسے کاٹنا پڑا‘‘۔ 

شادی ابو سیدو، فلسطینی صحافی (فلسطین ٹوڈے) نے بتایا: ’’مجھے ۱۸ مارچ ۲۰۲۴ء کو الشفاع ہسپتال سے اسرائیلی فوج نے گرفتار کیا اور ۲۰ ماہ بعد رہا کیا ‘‘۔انھوں نے بتایا:’’مجھے ۱۰گھنٹے تک سردی میں بالکل ننگا رکھا گیا۔ پھر سدی تیمن منتقل کیا گیا، جہاں میں ۱۰۰ دن تک  آنکھوں پر پٹی اور ہتھکڑیوں میں قید رہا۔بہت سے قیدی مر گئے، کئی پاگل ہو گئے، کچھ کے اعضا کاٹ دیے گئے، ان پر جنسی و جسمانی تشدد کیا گیا۔ انھوں نے کتوں کو ہم پر چھوڑ دیا جو پیشاب کرتے تھے۔ میں نے پوچھا کہ مجھے کیوں گرفتار کیا گیا ہے، تو انھوں نے کہا: ’’ہم نے تمام صحافیوں کو ماردیا، وہ ایک بار مرے۔ لیکن تم یہاں مرے بغیر سو بار مرو گے‘‘۔ 

نجی عباس، فزیشنز فار ہیومن رائٹس اسرائیل (PHR) کے قیدیوں کے شعبے کے ڈائریکٹر نے کہا:’’تشدد اور بدسلوکی کے جو آثار اسرائیل کی جانب سے واپس کی گئی فلسطینی لاشوں پر پائے گئے ہیں، وہ ہولناک ہیں مگر حیران کن نہیں۔یہ اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں جو ہماری تنظیم نے گذشتہ دو برسوں میں بار بار بتائی ہے، خصوصاً سدی تیمن کیمپ میں جہاں فلسطینیوں کو منظم تشدد اور قتل و غارت کا سامنا رہا‘‘۔ 

’فزیشن فار ہیومن رائٹس‘ کے مطابق: اسرائیلی حراست میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد، تشدد اور طبّی غفلت سے اموات کے مصدقہ شواہد پیش کرتی ہے۔ اور اب واپس کی گئی لاشوں کے معائنے، سب اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ آزاد بین الاقوامی تحقیق فوری طور پر شروع کی جائے، تاکہ اسرائیل میں ذمہ داروں کا احتساب کیا جا سکے‘‘۔ 

دی گارڈین نے لاشوں کی تصاویر ایک اسرائیلی ڈاکٹر کو دکھائیں جنھوں نے سدی تیمن کے فیلڈ ہسپتال میں قیدیوں کے علاج کے حالات دیکھے تھے۔ انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا:’’ایک تصویر میں نظر آتا ہے کہ آدمی کے ہاتھ ممکنہ طور پر زپ ٹائیز سے بندھے تھے۔ بازوؤں اور ہاتھوں کے رنگ میں فرق ظاہر کرتا ہے کہ سخت بندش کی وجہ سے خون کی روانی رُک گئی تھی۔ یہ شخص زخمی حالت میں قید میں ہلاک ہو سکتا ہے یا گرفتاری کے بعد تشدد سے جان دی ہوگی‘‘۔ 

ڈاکٹر مورس ٹڈبال بنز، اقوام متحدہ کے فرانزک ماہر، نے کہا:’’ضرورت ہے کہ آزاد اور غیر جانب دار فرانزک ماہرین کی مدد سے ان لاشوں کا معائنہ اور شناخت کی جائے‘‘۔ 

جب اسرائیلی فوج سے تشدد کے الزامات پر پوچھا گیا تو انھوں نے کہا:’’ اسرائیل کے محکمہ جیل خانہ سے تفتیش کا کہا گیا ہے‘‘۔ مگر اسرائیلی محکمہ جیل نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ جب کہ اسرائیلی فوج کا موقف رہا کہ وہ قیدیوں کے ساتھ ’’مناسب اور احتیاط سے برتاؤ کرتی ہے‘‘ اور یہ کہ ’’بدسلوکی کے کسی بھی الزام کی تحقیقات کی جاتی ہیں، اور مناسب صورتوں میں فوجی پولیس مقدمات کھولتی ہے‘‘۔ 

اقوام متحدہ کے مطابق:’’ ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد ۷۵ سے زیادہ فلسطینی قیدی اسرائیلی جیلوں میں مارے جا چکے ہیں‘‘۔(روزنامہ گارڈین، لندن، ۲۱؍اکتوبر ۲۰۲۵ء)