یہاں پر ہم ان پہلوئوں اور رویوں کو مختصر الفاظ میں زیر بحث لائیں گے، جو مسلم اُمت کے مختلف طبقوں اور معاشروں میں دینی امور کی نسبت سے پائے جاتے ہیں:
اگر ہم اپنی زندگی پر غور کریں اور مادی، معنوی، فکری، معاشی، معاشرتی، سیاسی یعنی ہر پہلو سے اس پر نظر ڈالیںتو معلوم ہوگا کہ ہمارے ہاں ترجیحات کا توازن بری طرح الٹ پلٹ ہوچکا ہے۔ تقریباً تمام مسلم ملکوں میں ایک عجیب طرح کی افراط وتفریط ہے۔ فن وتفریح کو تعلیم وتعلم پر ترجیح دی جاتی ہے۔ نوجوانوںکی سرگرمیوں میں جسمانی ورزشوں کو عقل وفکر اور روحانی تربیت پر مقدم رکھا جاتا ہے۔ گویا کہ نوجوانوں کی تربیت کا ایک ہی مطلب ہے کہ ان کو جسمانی ورزش کرائی جائے۔ کیا ’انسان‘ صرف جسم کا نام ہے یا جسم اور عقل کے مجموعے کو ’انسان‘ کہتے ہیں؟
کاش! یہ لوگ تفریح کی ان قسموں کا اہتمام کرتے، جن سے عوام زیادہ بڑے پیمانے پر استفادہ کر سکتے۔ مگر ان کی ساری توجہ کھیل کے مقابلوں کی طرف ہوتی ہے، خاص طور پر فٹ بال [اور کرکٹ]، جس میں چند کھلاڑی کھیلتے ہیں اور باقی کروڑوں محض تماشائی!
معاشرے میں عزّت و شہرت عالموں، ادیبوں، سائنس دانوں اور اہلِ دین ودانش کو نہیں بلکہ اداکاروں، گلوکاروں اور کھلاڑیوں کو حاصل ہے۔ اخبارات، ٹی وی اور ریڈیو کے مذاکروں کا موضوع بحث یہی لوگ ہوتے ہیں۔ میڈیا پر ان کے کھیلوںاور’ کارناموں‘ کی خبریں نشر ہوتی ہیں، خواہ وہ کتنی ہی غیراہم کیوں نہ ہوں۔ دوسرے لوگ [جوکوئی فائدے کا کا م کرتے ہیں] ان کا کسی پر سایہ بھی نہیں پڑنے دیا جاتابلکہ وہ فراموش کر دیے جاتے ہیں۔
اگر کوئی ’ادا کار‘ فوت ہوجائے تو تہلکہ مچ جاتاہے اور اُس کی تعریف وتوصیف کے دریا بہادیتے ہیں، مگر کوئی عالم، ادیب، یا کوئی بڑا ماہرِ فن وفات پا جائے تو کسی کو خبر تک نہیں ہوتی۔ معاشی پہلو سے دیکھاجائے تو کھیل کود اور اداکاری کو فروغ دینے، اور حکمرانوں کی ذاتی حفاظت کے لیے تو بڑی بڑی رقمیں خرچ کی جاتی ہیں لیکن تعلیمی اور فلاحی ادارے، ہسپتال اورشفاخانے اور دعوتِ دین کی تحریکیں فنڈز کا رونا روتی رہتی ہیں۔ وہ جب اپنی ترقی اور عصری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کوئی مطالبہ کرتی ہیں تو ان سے معذرت کر دی جاتی ہے اور بہانے بناکر ان سے جان چھڑا لی جاتی ہے۔ آدمی حیران ہوجاتاہے کہ اُدھر سخاوت کے دریا بہائے جاتے ہیں اور اِدھرایک گھونٹ کی بخیلی۔
یہ خرابی صرف عوام یا سیکولر طبقے میں نہیں در آئی، بلکہ خود مذہبی طبقہ بھی طرح طرح کی بے اعتدالیوں کا شکارہے۔ ان میں بھی معاملات کے درست فہم اور دین کے صحیح علم کی کمی پائی جاتی ہے۔ صحیح علم تو وہی ہوتاہے جو آدمی کے سامنے اہم اور کم اہم کو واضح کردے اوراس کے ذریعے معلوم ہوسکے کہ صحیح کیاہے اور غلط کیا، قابلِ قبول کیاہے اور قابلِ رَد کیا؟ وہ اسے بتاسکے کہ کون سی چیز ’سنت‘ ہے اور کون سی ’بدعت‘؟ اِسی طرح وہ شریعت کے مطابق ہرچیز کی اصل قدروقیمت کی پہچان کرائے۔
ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ علم کی روشنی اور معاملات کی سمجھ سے محروم لوگ، مختلف امور کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے۔ چنانچہ وہ یا تو افراط سے کام لیتے ہیں یا تفریط کا شکارہوجاتے ہیں۔ ہم نے کئی بار دیکھا ہے کہ ایسے لوگ اپنے اخلاص کے باوجود زیادہ اہم اور زیادہ افضل سے غفلت برتتے اور کم افضل پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں۔
میں نے بہت سے نیک طبع مسلمانوں کو دیکھاہے کہ وہ کسی ایسے شہر میں مسجد کے لیے عطیہ دیتے ہیں، جہاں پہلے سے بہت سی مسجدیں موجود ہوتی ہیں اور اس پر پانچ دس لاکھ ڈالر یا اس سے بھی زیادہ رقم خرچ کرڈالتے ہیں۔مگر جب ان سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ آپ اس سے آدھی یا چوتھائی کے برابر رقم دعوتِ اسلام کی اشاعت میں، کفر والحاد کا مقابلہ کرنے میں یا اسلامی نظام کے نفاذکی خاطر جاری کوششوں میں، یا اس طرح کے دوسرے عظیم مقاصد میں خرچ کریں جن کے لیے بعض اوقات اہل افراد تو دستیاب ہوتے ہیں، مگر وسائل کی کمی ہوتی ہے، تو آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ وہ آپ کو کوئی مثبت جواب نہیں دیںگے۔ وہ اینٹوں اورپتھروں کی عمارتیں تعمیر کرتے ہیں، مگر انسانوں کی تعمیر ان کی نظر میں فضول کام ہے۔
ہرسال حج کے دنوں میں صاحبِ ثروت مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اس بات پر بضد ہوتی ہے کہ وہ نفلی حج کریں گے، اور بہت سے لوگ رمضان کے مہینے میں عمرہ کرنا بھی اپنے اوپر لازم سمجھتے ہیں، اور کبھی کبھی اپنے خرچ پر دوست احباب کوبھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ مگر ان سے جب آپ کہتے ہیں کہ وہ یہ سالانہ اخراجات فلسطین میں یہودیوں کے مقابلے کے لیے، ہرذی گوونیا میں سربوں کے مقابلے کے لیے، یا انڈونیشیا، بنگلہ دیش یادوسرے ایشیائی اور افریقی ممالک میں عیسائی مبلغین کا مقابلہ کرنے کے لیے دے دیں، یا کوئی دعوتی اور تحریکی مرکز قائم کرنے کے لیے یا ایسے داعیوں کی تیاری کے لیے خرچ کریں، جو اس میں تخصص حاصل کرکے اپنے آپ کو اسی کام کے لیے وقف کریں، یا بلند پایہ تحقیق، تصنیف، تالیف، ترجمے یا دینی کتابوں کی اشاعت کا کوئی ادارہ قائم کرنے کے لیے عطیہ کردیں، تو سر جھٹک دیتے ہیں۔ یہ ہے لوگوں کی حالت!
دوسری طرف قرآن سے یہ بات وضاحت کے ساتھ ثابت ہے کہ جہاد سے متعلقہ اعمال اُن اعمال سے افضل ہیں، جو حج سے متعلق ہیں:
کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد ِحرام کی مجاوری کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر ٹھیرالیاہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روزِ آخر پر اور جس نے جاںفشانی کی اللہ کی راہ میں؟ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا۔ اللہ کے نزدیک تو انھی لوگوں کا درجہ بڑاہے جو ایمان لائے اور جنھوں نے اس کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جان ومال سے جہاد کیا۔ وہی کامیاب ہیں۔ ان کا ربّ انھیں اپنی رحمت اور خوش نودی اور ایسی جنتوں کی بشارت دیتاہے جہاں ان کے لیے پائے دار عیش کے سامان ہیں۔ (التوبۃ ۹: ۱۹-۲۱)
۹۰ کے عشرے میںجب بوسنیا میں آزادی کی جدوجہد جاری تھی، ہمارے دوست اور معروف اسلامی اسکالر استاذفہمی ہویدی نے وضاحت کے ساتھ مسلمانوں سے یہ بات کہی تھی کہ ’بوسنیا کی آزادی فریضۂ حج پر مقد م ہے‘۔ جن لوگوں نے یہ مقالہ پڑھا، ان میں سے بہت سے لوگوں نے مجھ سے پوچھا: ’’یہ بات شرعی اور فقہی نقطۂ نظر سے کس حد تک درست ہے؟‘‘ میں نے ان حضرات کو کہا: ’’استاد ہویدی کی بات بالکل درست ہے اور فقہی لحاظ سے قابلِ اعتبار بھی ہے۔ شرعی طور پر یہ بات متعین ہے کہ جو فرائض فوری طور پر مطلوب ہوں، ان کو ایسے فرائض پر مقدم کیاجائے گا جن میں تاخیر کی گنجایش ہوتی ہے، اور فریضۂ حج میں تاخیر کی گنجایش موجود ہے۔ بعض ائمہ کے نزدیک یہ واجب عندالتراخی ہے، یعنی اس میں ڈھیل ہوسکتی ہے۔ بوسنیا کے مسلمانوں کو جس موت، بھوک وافلاس، امراض، سردی اور اجتماعی ہلاکت کا سامنا ہے، انھیں اس سے بچانا، ایک فوری فریضہ ہے، جسے بروقت انجام دینے کی ضرورت ہے اوراس میں نہ تاخیر کی گنجایش ہے اور نہ ’تراخی‘ یعنی ’ڈھیل‘ کی۔ کیوں کہ یہ فریضۂ وقت ہے اور ساری اُمت پر آج کا اہم ترین واجب ہے‘‘۔
جولوگ ہرسال نفل حج ادا کرتے ہیں ان کی تعداد یقیناً بہت زیادہ ہوتی ہے___اسی طرح خصوصاً رمضان کے دنوں میں عمرہ کرنے والوں کی بڑی تعداد۔ کاش! وہ اپنے حج اور عمرے کی قربانی دیںاور یہ اخراجات اللہ کی راہ میں دے دیں۔ یعنی اپنے مال کو اپنے ان مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو نجات دلانے کے لیے خرچ کریں، جو مادی اور معنوی ہلاکت سے دوچارہیں، جنھیں بے انتہا ظلم وجبرکا سامنا ہے۔ ان کا دشمن ان کی جان ومال اور عزت کے درپے ہے، اور چاہتاہے کہ دُنیا سے ان کا نام ونشان مٹ جائے۔
ایک بار میں انڈونیشیا گیا تو میں نے وہاں دیکھا کہ عیسائی مشنری بڑے پیمانے پر اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ ان کے بالمقابل تعلیمی، طبی اور اجتماعی ادارے قائم کرنے کی کتنی شدید ضرورت ہے۔ چنانچہ میں نے ان نیک طبع بھائیوں سے کہا: ’’اس سال آپ حج کا ارادہ ترک کردیںاور اس پر اُٹھنے والے اخراجات انڈونیشیا میں عیسائیت کے جواب میں خرچ کریں۔ اگر ایک سو افراد ہوں اور ایک فرد کا خرچہ دس ہزار روپیہ ہو تو اس کا کُل ۱۰ لاکھ روپیہ بنتاہے۔ اس رقم سے ایک بہت بڑے منصوبے کا آغاز کیاجاسکتا ہے۔ اگر ہم نے اس طرح کے کسی منصوبے کا آغاز کیا اور اس کی تشہیر کی تو دوسرے لوگ بھی ہماری تقلید کریںگے اور ان کے کام میں ہمیں بھی ثواب ملے گا‘‘۔ مگر ان دوستوں نے کہا: ’’جب بھی ذوالحجہ کا مہینہ آتاہے، تو ہم اپنے دل میں حج کا ایسا جذبہ محسوس کرتے ہیں، جس کا ہم کسی دوسری چیز سے مقابلہ نہیں کرسکتے۔ جب وہاں حاضر ہوتے ہیں تو ہمیں بڑی خوشی ہوتی ہے‘‘۔
اگر فہم صحیح ہوتا اور مسلمانوں کے ہاں ترجیحات کے مسئلے کی اہمیت ہوتی تو یقیناً وہ اس سے زیادہ خوشی، سعادت اور روحانیت اس وقت محسوس کرتے، جب وہ اپنے حج وعمرے کے اخراجات کو کسی اسلامی منصوبے کا آغاز کرنے، یتیموں کی کفالت کرنے، بھوکوں کو کھانا کھلانے، ملک بدر لوگوں کو پناہ دینے، مریضوں کا علاج کرنے، اَن پڑھوں کو تعلیم دینے اور بے روزگاروں کو روزگار فراہم کرنے میں صرف کردیتے۔
ایسے بہت سے نوجوان دیکھے ہیں، جو یونی ورسٹی کے میڈیکل، ایگری کلچر، انجینئرنگ، یاایجوکیشن کے شعبے میں یا دوسرے نظری یا سائنسی شعبوں میں اچھا بھلا پڑھتے اور دوسروں سے آگے تھے۔زیادہ عرصہ نہ گزرا ہوگا کہ انھوں نے اپنے اپنے شعبے کو یہ کہتے ہوئے خیرباد کہا کہ ’’ہم تو دعوت و تبلیغ کے لیے فارغ ہوںگے‘‘۔ لیکن اگر وہ اپنے تخصص کے شعبےہی میں کام کرتے، جو ایک فرض کفایہ تھا، تو وہ اچھی نیت سے اپنے کام کو پوری مہارت کے ساتھ انجام دیتے ہوئے اور اس میں حدود اللہ کی پابندی کرتے ہوئے اسے عبادت اور جہاد میں تبدیل کرسکتے تھے۔
اگر ہرمسلمان اجتماعی، تمدنی اور معاشرتی زندگی میں اپنے پیشے کو چھوڑ دے تو پھر اُمت کی ضروریات کون پوری کرے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب منصب نبوت عطا ہوا تو صحابہ کرامؓ مختلف پیشوں سے وابستہ تھے۔ آپ ؐنے ان میں سے کسی سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ اپنے پیشے کو چھوڑ کر اپنے آپ کو دعوت کے لیے فارغ کرلے۔ ہجرت سے پہلے بھی اور ہجرت کے بعد بھی یہی طریقہ رہا کہ سارے لوگ اپنے اپنے پیشے سے وابستہ رہے۔ مگر جب جہاد کا موقع آتا اور انھیں جہاد کے لیے بلایا جاتا تو سارے لوگ، خواہ ہلکے ہوتے یا بوجھل، میدانِ جہاد کی طرف نکل پڑتے اور اپنی جان ومال اللہ کی راہ میں قربان کردیتے تھے۔
امام غزالیؒ نے اپنے دور میں یہ بات ناپسند کی کہ اکثر طالب علم فقہ اور اس طرح کے دوسرے علوم کی طرف متوجہ ہوتے تھے، اور دوسری طرف مسلم ممالک میں کسی یہودی یا عیسائی طبیب کے علاوہ کوئی معالج نہ ہوتاتھا۔ وہ انھی سے اپنے مردوں اور عورتوں کا علاج کراتے تھے اور اپنے پردوں کو انھی کے سامنے کھولتے تھے۔ وہ انھی سے ایسے امور بھی معلوم کرتے تھے، جن کا تعلق شرعی احکام کے ساتھ ہوتاتھا۔
اسی طرح میں نے کچھ لوگوں کو دیکھاہے کہ وہ روزانہ ایسے معرکے گرم کرتے ہیں، جن کا مقصد جزئی یا اختلافی مسائل پر مناظرے کرنا ہوتاہے۔ وہ اس بنیادی اور اصولی بات کو بھول جاتے ہیں کہ ہمارا بڑا معرکہ ایسے دشمن کے ساتھ ہے جسے اسلام سے نفرت ہے،وہ اس کو کمزور کرنے اور نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔
یہاں تک کہ امریکا، کینیڈا اور دوسرے یورپی ممالک میں رہایش پذیر مسلمانوں میں بھی ہم نے ایسے لوگ دیکھے ہیں، جن کے ہاں سب سے اہم مسئلہ جو پوچھنے کے لیے رہ گیاہے وہ یہ ہے کہ گھڑی دائیں ہاتھ میں باندھی جائے یا بائیں ہاتھ میں، کوٹ پتلون کے مقابلے میں سفیدکرتاقمیص پہننافرض ہے یاسنت، اور عورتوں کا مسجد میں جانا جائز ہے یا ناجائز؟ اسی طرح کھانے کے لیے میز کرسی استعمال کرنا اور چھری کانٹے سے کھانا کیا کفار کی مشابہت ہے یانہیں؟
یہ اور اس طرح کے بے شمار مسائل ہیں جو ہمارے بہت سارے اوقات کو کھاجاتے ہیں، لوگوں کو گروہوں میں تقسیم کردیتے ہیں، دلوں کو ٹکرے ٹکڑے کردیتے ہیںاور اس سے بہت سی محنتیں اور صلاحیتیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ کیوںکہ یہ ایسی کوشش ہے جس کا کوئی ہدف نہیں اور یہ ایسا ’نام نہاد جہاد‘ ہے، جو دشمن کے خلاف نہیں بلکہ اپنوں کے خلاف کیا جا رہا ہے۔
میں نے بہت سے نوجوانوں کو دیکھاہے جو اپنے ماں باپ کے ساتھ اور اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ اس لیے سختی سے پیش آتے ہیں کہ وہ گناہ گار ہیں اور دین سے منحرف ہیں۔ وہ نوجوان یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیاہے خواہ وہ مشرک ہی ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ میرے ساتھ کسی ایسے کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ مانو۔ البتہ دُنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرتے رہو۔ (لقمان ۳۱:۱۵)
اس طرح والدین کی طرف سے اس پُرزور دباؤ کے باوجود ___ جسے قرآن نے مجاہدہ علی الشرک کہاہے ___ اللہ تعالیٰ حکم دیتاہے کہ ان کے ساتھ معروف کے ساتھ پیش آیاجائے:
میرا شکر کرو اور اپنے والدین کاشکر بھی بجالاؤ، میری ہی طرف تجھے پلٹ کر آنا ہے۔(لقمان۳۱:۱۴)
اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کررہا ہے۔(النساء۴:۱)
انحطاط کے دور میں مسلمان جن بُری عادات کا شکار ہوئے اور اب تک چلے آرہے ہیں، ان میں سے چندعادات یہ ہیں:
۱- انھوں نے ایسے فرائضِ کفایہ کو بڑی حد تک چھوڑ دیاہے جن کا تعلق بحیثیت ِمجموعی پوری اُمت کے ساتھ تھا،مثلاً سائنسی، صنعتی اور عسکری برتری، جو اُمت کو اپنے اختیارات کا مالک بناتی ہے اور اسے صرف دعوؤں اور باتوں کی حد تک نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں دُنیا کی قیادت عطا کرتی ہے۔ مثلاً فقہی مسائل میں اجتہاد اور احکامِ شریعت کا استنباط، دعوتِ اسلامی کی نشرواشاعت، شوریٰ کے حکمِ ربانی کو بیعت او رآزادانہ اختیارات کی بنیادپرقائم کرنا، ظالم اور دین سے منحرف بلکہ دین دشمن حکمران کے خلاف جہاد کرنا وغیرہ۔
۲- انھوں نے ایسے امور کو بھی چھوڑدیاہے جوفرضِ عین کے درجے میں ہیں، یااگر چھوڑا نہیں تو کم از کم انھیں وہ مقام نہیں دیا جو اِن کو دیا جانا چاہیے تھا۔ جیسے امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا فریضہ، جسے قرآن نے اہلِ ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے نماز اور زکوٰۃ سے بھی زیادہ اہمیت دی ہے:’’مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کاحکم دیتے ہیں اور بُرائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں‘‘۔(التوبۃ۹:۷۱)
اس فریضے کو اُمت مسلمہ کے بہترین اُمت ہونے کا سب سے پہلا سبب قرار دیاگیاہے: ’’اب دُنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت او راصلاح کے لیے میدان میں لایا گیاہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ (اٰل عمرٰن۳:۱۱۰)
۳- مسلمانوں نے بعض ارکانِ اسلام کو بعض دوسرے ارکان پر زیادہ اہمیت دی ہے، مثلاً نماز کے مقابلے میں روزے کو زیادہ اہمیت دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان میں دن کے وقت مسلمان بہت کم کھاتے ہوئے نظر آتے ہیں، خاص طور پر دیہی علاقوں میں۔ اسی طرح خواتین، نماز میں غفلت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں جنھوںنے عمر بھر میں ایک مرتبہ بھی اللہ کے سامنے رکوع اور سجدہ کرنے کی زحمت نہیں کی ہوگی۔ بعض لوگ نماز کا تو بہت اہتمام کرتے ہیں، مگر زکوٰۃ کے معاملے میں کوتاہی برتتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ۲۸ مقامات پر ان دونوں کا ایک ساتھ ذکر کیاہے۔ یہاں تک کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں: ’’ہمیں نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم دیا گیاہے اور جو شخص زکوٰۃ نہیں دیتا اس کی نماز مقبول ہی نہیں‘‘۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایاتھا: وَاللّٰہِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَیْنَ الصَّلَاۃِ وَالزَّکَاۃِ ’’خدا کی قسم ! میں ان لوگوں کے خلاف ضرور لڑوںگا، جو نماز ا ورزکوٰۃ کے درمیان فرق روا رکھتے ہیں‘‘۔
صحابہ کرامؓ، مانعینِ زکوٰۃ کے خلاف جہادپراسی طرح متفق تھے جس طرح وہ نبوت کے جھوٹے دعوے داروںاور مرتدین کے خلاف متفق تھے۔ اس طرح گویا اسلامی حکومت روئے زمین کی پہلی حکومت تھی، جس نے غریبوں کے حقوق کی جنگ لڑی۔
۴- بہت سے دین دار لوگ ذکرو اذکاراور تسبیحات و اورادکا بے حد اہتمام کرتے ہیں، مگر ان کے ہاں بعض فرائض کے بارے یہ اہتمام نظر نہیں آتا، خصوصاً معاشرتی فرائض جیسے والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک، رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی، پڑوسی کے ساتھ احسان، کمزوروں پر رحم کرنا، یتیموں اور مسکینوں کا خیال رکھنا، منکر کو روکنا اور اجتماعی وسیاسی ظلم وجبر کے خلاف جہاد کرنا۔
۵- بعض اوقات انفرادی عبادات ،جیسے نماز اور ذکر وغیرہ کی بڑی پابندی کی جاتی ہے، مگر اجتماعی فرض عبادات، جن کا فائدہ دوسروں کو بھی پہنچتاہے، ان کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی، جیسے جہاد ، علم، اصلاح بین الناس،نیکی اور بھلائی کے کاموں میں تعاون، صبر اور رحم کی تلقین، عدل وانصاف اور شوریٰ کے قیام کی دعوت، عمومی انسانی حقوق کی پاسداری اور خاص طورپر کمزور انسانوں کا خیال رکھنا۔
۶- بہت سے لوگ ’فروع‘ [ضمنی مسائل]کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں اور ’اصول‘ [بنیادی مسائل] کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ امام راغب کا قول ہے: مَنْ ضَیَّعَ الْأُصُوْلَ حُرِمَ الْوُصُوْلَ ’جس نے بنیاد کو چھوڑدیا وہ منزل پر نہیں پہنچ سکتا‘۔ مطلب یہ کہ اُنھوں نے عقیدۂ توحید، ایمان باللہ اور اخلاص فی الدین سے غفلت برتی ہے۔
۷- اسی طرح جن مسائل کے درمیان توازن میں خلل پیدا ہواہے، اُن میں سے ایک یہ ہے کہ بہت سے لوگ مکروہات اور مشتبہ امور کے خلاف برسرپیکار ہیں، مگر انھوں نے کھلی حرام اشیاء کے بارے میں اتنی سرگرمی نہیں دکھائی، نہ ان واجبات کو قائم کرنے کا کوئی خاص اہتمام کیاہے، جنھیں لوگوں نے چھوڑ دیاہے۔ اسی طرح بعض لوگ ان اُمور پر اپنی زیادہ قوتیں صرف کرتے ہیں، جن کے حلال و حرام ہونے میں اختلاف پایاجاتاہے، مگر ان چیزوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے جن کی حُرمت قطعی اور یقینی ہے۔ دوسری طرف کچھ لوگ ایسے ہیں جنھوں نے اسی طرح کے اختلافی مسائل کو زندگی موت کا مسئلہ بنادیا ہے۔ جیسے تصویر، موسیقی، چہرے کاپردہ اور اس طرح کے دوسرے مسائل۔ دوسری طرف وہ بڑی فیصلہ کن لڑائیوں سے غافل ہیں جن کا تعلق اُمت کے وجود، اس کے انجام، اور دُنیا کے نقشے پر اس کی بقا کے ساتھ ہے۔
۸- اسی طرح کے مسائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض لوگ صغیرہ گناہوں کو ختم کرنے کے لیے توایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں، مگر تباہ کُن کبیرہ گناہوں کو نظرانداز کرتے ہیں، خواہ وہ دینی لحاظ سے ہلاکت میں ڈالنے والے ہوں، یامعاشرتی اورسیاسی طور پر ہلاکت سے دوچار کرنے والے ہوں۔
یہ ایک بہت بڑی بیماری ہے کہ بڑی چیز یا مسئلے کو چھوٹا بنا کرپیش کیاجاتاہے اور چھوٹی چیز یا مسئلے کو بڑا کرنے کا رجحان پروان چڑھایا جاتا ہے۔ رائی کو پہاڑ بنالیا جاتاہے اور ایک اہم ترین معاملے کو بالکل نظرانداز کر دیا جاتاہے۔ پہلے کو آخر پر رکھاجاتاہے اورآخری کو پہلے درجے پر لایا جاتاہے۔ اختلافی مسائل کے لیے میدانِ جنگ گرم کیاجاتا ہے۔ یہ ساری باتیں آج کے دور میں اُمت ِمسلمہ کو اس ضرورت کا احساس دلاتی، بلکہ شدت کے ساتھ اس بات کا محتاج بناتی ہیں کہ وہ چیزوں کی ترجیح کے مسئلے کو سمجھے، تاکہ وہ اس کی روشنی میں اپنے طریق کار کا نئے سرے سے جائزہ لے، اس کے بارے میںگفت وشنید کرے، افہام وتفہیم کرے اورہرایک اپنی بات سامنے رکھے۔ اس کے نتیجے میں، دلوں کو اطمینان ہوگا، بصیرت کو روشنی ملے گی اور اس کے بعد اُمت کے ارادے عملِ خیر اور خیرالعمل کی طرف متوجہ ہوںگے۔(جاری)