ہندستان اور مسلمانوں کا تعلق اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ خود اسلام۔ اسلام کے ظہور سے پہلے ہی عربوں کے ہند سے تجارتی تعلقات قائم تھے، جس کے بعد تاریخِ اسلام کے دوسرے دور میں مسلم فاتحین نے اس سرزمین کا رُخ کیا۔ تیسرے دور میں دہلی سلطنت کا قیام عمل میں آیا اور اس کے بعد مغلیہ سلطنت نے ہندستان میں قدم جمائے۔ اس طویل عرصے میں مسلمانوں نے ہند کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ انھی اَدوار میں التمش، شیر شاہ سوری اور علاء الدین خلجی جیسے مدبر اور باصلاحیت حکمران پیدا ہوئے، جنھوں نے نہ صرف انتظامی اصلاحات کیں بلکہ ہند کی تعمیرو ترقی میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اگر علاء الدین خلجی نہ ہوتا تو منگول، ہندستان کے ساتھ بھی وہی سلوک کرتے جو انھوں نے بغداد اور مسلم دنیا کے دیگر شہروں کے ساتھ کیا تھا۔ علاء الدین خلجی کے عہد میں عام آدمی کی زندگی جتنی آسان تھی، شاید تاریخِ ہند میں کبھی نہ رہی ہو۔ اس کے سخت مگر مؤثر اقدامات کی بدولت اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بے حد کم تھیں اور افراطِ زر مکمل طور پر قابو میں تھا۔
بعد کے دور میں مغلوں نے ہند کو ایک مضبوط مرکزی حکومت، منظم نظم و نسق، شاندار فنِ تعمیر، خوش حال معیشت اور ایک متنوع مگر مربوط تہذیب عطا کی۔ ان کے دور میں زمین کی پیمائش، مالیاتی اصلاحات، اور ٹیکس کے منصفانہ نظام نے زراعت اور تجارت کو فروغ دیا۔ عظیم الشان فنِ تعمیر نے فن اور ثقافت کو نئی بلندی پر پہنچایا۔ فارسی زبان، ادب، مصوری، موسیقی، اور لباس میں جو امتزاج پیدا ہوا، اس نے ایک ہم آہنگ تہذیب کی بنیاد رکھی۔ مغل عہد میں ہند عالمی تجارت کا مرکز تھا اور دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں شمار ہوتا تھا۔ان کےدور میں ہند کا جی ڈی پی ۲۴ فی صد تک تھا۔
اورنگ زیب عالم گیر کی آنکھیں بند ہوتے ہی اس عروج کا زوال شروع ہوگیا۔ اورنگ زیب کا انتقال ۱۷۰۷ء میں ہوا، اور وہ آخری دیوار گر گئی جس نے مغلوں کے زوال کو روک رکھا تھا۔اس کے جانے کے ساتھ ہی برصغیر میں طوائف الملوکی کا دور شروع ہو گیا۔ ایک طرف دُور دراز کے صوبے مرکز سے آزاد ہونے لگے، اور دوسری طرف خود صوبے داروں کے درمیان تخت نشینی کے لیے خون ریز لڑائیاں شروع ہو گئیں۔ اس کے ساتھ ہی ملک کے مختلف حصوں میں مرہٹے، راجپوت اور جاٹ اُٹھ کھڑے ہوئے، جنھوں نے ملک میں افراتفری اور بدامنی پھیلا دی۔ اس داخلی خلفشار نے دہلی کی مرکزی حکومت کا باقی ماندہ رعب و دبدبہ بھی ختم کر دیا۔لیکن جس واقعے نے بھارت میں مسلمانوں کی عظیم تاریخ پر گویا حرفِ آخر ثبت کیا، وہ ۱۸۵۷ء کا سانحہ تھا، — جسے انگریزی تاریخ نویسی کے زیراثر تحریروں میں ’غدر‘ کہا گیا اور بھارت میں ’پہلی جنگ ِ آزادی‘۔ ۱۸۵۷ء صرف ایک ہندسہ نہیں ، بلکہ ایک تہذیب، ایک تمدن، اور ایک قوم کے لٹ جانے کی داستان کا عنوان ہے۔
انگریزوں نے اس انقلاب کو تو بمشکل کچلا، لیکن اس کے بعد ظلم و ستم کا جو طوفان برپا ہوا، وہ انسانی تاریخ کے سیاہ ترین ابواب میں شامل ہے۔ گلی گلی خون بہایا گیا، کوچہ کوچہ لاشوں سے بھر گیا۔ لاکھوں بے گناہ انسان گولیوں کا نشانہ بنے، ہزاروں پھانسی کے رسّوں پر لٹکائے گئے۔ شہزادوں کے سر قلم کر کے ان کے بوڑھے والدین کے قدموں میں پھینکے گئے، اور عزّت و حمیت کو ننگی تلوار سے ذبح کیا گیا۔انگریزوں کی درندگی اور خباثت نے روحِ ہند کو مجروح کردیا۔جب ۱۸۵۷ء کی بغاوت شروع ہوئی تو ہندو اور مسلمان دونوں نے اس میں بڑی تعداد میں حصہ لیا۔ یہ کسی ایک قوم کی بغاوت نہ تھی، لیکن مسلمانوں میں انگریزوں کے خلاف چند تاریخی اور نظریاتی وجوہ پر مبنیشدید مخالفت پائی جاتی تھی۔ ان میں سے بہت سے افراد حضرت شاہ ولیؒ اللہ کے فلسفے سے متاثر تھے اور انگریزی حکومت کے تحت ہندستان کو ’دارالحرب‘ سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک بیرونی حکمرانوں کے خلاف جہاد نہ صرف ایک قومی ضرورت تھی بلکہ مذہبی فریضہ بھی تھا۔
اسی بنا پر انگریز حکومت، مسلمانوں کو ہندوؤں کی نسبت زیادہ خطرناک تصور کرتی تھی اور جوشیلے مسلمانوں سے انھیں زیادہ خوف محسوس ہوتا تھا۔ چنانچہ مسلمانوں پر نہایت سخت ظلم و ستم ڈھائے گئے۔ جھجر، بلاب گڑھ، فرخ نگر اور فرخ آباد کے نوابوں کو پھانسی دے دی گئی یا جلا وطن کر دیا گیا۔ مسلمانوں کے گھروں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔ مسلمانوں کی جائیدادیں بڑے پیمانے پر ضبط کی گئیں۔ دہلی پر دوبارہ قبضے کے کچھ ہی عرصے بعد ہندوؤں کو واپس آنے کی اجازت دے دی گئی، لیکن مسلمانوں کو اس کی اجازت نہ دی گئی۔ دہلی ڈویژن میں ہر مسلمان پر اس کی جائیداد کے چوتھائی حصے کے برابر جرمانہ عائد کیا گیا، جب کہ ہندوؤں پر محض دس فی صد کا جرمانہ لگایا گیا۔ برطانوی حکام کے غصے کا اصل نشانہ مسلمان ہی تھے۔ کیپٹن رابرٹ نے لکھا:’’ان بدمعاش مسلمانوں کو دکھا دو کہ خدا کے فضل سے انگریز ہمیشہ ہندستان کے مالک رہیں گے‘‘۔
مسلمانوں کی مصیبتیں بے پناہ تھیں۔ معصوم اور مجرم دونوں ہی یکساں طور پر انتقامی کارروائیوں کا شکار بنے۔ حتیٰ کہ سرسید احمد خان جیسے وفادار کے خاندان کو بھی مصیبتوں اور اموات کی صورت میں بھاری قیمت چکانی پڑی۔ اُس دور کے خوف و ہراس کی عکاسی غالب کے خطوط میں بخوبی موجود ہے۔
غالب ۱۸۵۷ء کے المیے کے چشم دید گواہ تھے۔ دہلی کی بربادی، انگریزوں کا ظلم اور مسلمانوں کا قتل عام، سب کچھ انھوں نے خود دیکھا۔ اس کیفیت کو انھوں نے ایک قطعے میں بیان کیا ہے:
بس کہ فعال مایرید ہے آج
ہر سلح شور انگلستاں کا
گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے
زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا
چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا
شہر دہلی کا ذرّہ ذرّہ خاک
تشنۂ خوں ہے ہر مسلماں کا
کوئی واں سے نہ آ سکے یاں تک
آدمی واں نہ جا سکے یاں کا
یہ اشعار اس عہد کی دل دہلا دینے والی تصویر پیش کرتے ہیں۔ وہ شاعر جو کبھی انگریزوں کی مدح کرتا تھا، اب انھی کے مظالم پر اشکبار ہے۔ غالب کا یہ قطعہ محض جذباتی اظہار نہیں بلکہ ایک تہذیب کی موت کا مرثیہ ہے اور قابض قوت کی بے رحمی اور بہیمانہ انتقام کی عکاسی ہے۔ ان اشعار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ۱۸۵۷ء کی ناکامی نے غالب کو اندر سے توڑ پھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ ان کے نزدیک اس ناکامی نے صرف ایک بغاوت کو نہیں دبایا بلکہ ایک پوری تہذیب، ثقافت، اور طرزِ زندگی کو مٹادیا۔ بستیوں کی ویرانی، شہروں کی بربادی، اور انسانوں کی بے وطنی —یہ سب کچھ غالب نے سہا، دیکھا، اور شاعری میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا۔
مولانا غلام رسول مہر اپنی کتاب ’۱۸۵۷ء‘ میں پھانسی کے عمل کو بتاتے ہوئے لکھتے ہیں :
کوتوالی اور ترپولیے کے درمیان چاندنی چوک میں جو حوض تھا اس کے تین طرف پھانسیاں کھڑی کی گئی تھیں ۔ ان میں ایک دفعہ دس بارہ آدمیوں کو پھانسی لگ سکتی تھی۔ جس روز پھانسی پانے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ، ایک گروہ کو پھانسیوں پر چڑھا دیا جاتا، باقی لوگ کھڑے ہوئے دیکھتے رہتے کہ ان کے خاتمے کے بعد ہماری باری آئے گی اور یہ مقام انگریزوں کی خاص سیرگاہ بن گیا تھا۔ پاس کے ایک موقع شناس دکان دار نے اپنی دکان کے سامنے کرسیاں رکھ دیں کہ انگریز بیٹھیں گے تو خوش بھی ہو جائیں گے اور کچھ [بخشیش]دے بھی جائیں گے۔ چنانچہ انگریز افسر آتے، کرسیوں پر بیٹھتے، سگریٹ سلگاتے، پھانسی پر چڑھنے والوں کی جان کنی کا تماشا دیکھتے اور چند پیسے دکا ن دار کو دے جاتے۔ مظلوم بے دم ہو جاتے تو ان کی نعشیں ایک بیل گاڑی میں ایک دوسرے کے اوپر ڈال دی جاتیں تاکہ نئے مظلوموں کے گلے میں پھندا ڈالا جائے ۔
۱۸۵۷ء ہندستان کی سیاسی اور ثقافتی تاریخ کا ایک اہم موڑ تھا، جب پرانی اور نئی دنیائیں آپس میں مل رہی تھیں، یا پھر جدید اور قدیم کا ٹکراؤ ہورہا تھا ۔اس دور کو دیکھ کر ہم ماضی کی جھلک بھی پا سکتے ہیں اور مستقبل کا اندازہ بھی لگا سکتے ہیں۔ پرانا سماجی نظام تلپٹ ہوگیا اور نئے حالات نے صرف سوچ بدلنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ زندگی کے اصول اور انداز بھی بدل دیے۔ حقیقت میں، ۱۸۵۷ء میں صرف ایک حکومت کا خاتمہ نہیں ہوا، بلکہ وہ سارا تہذیبی ورثہ بھی تباہ ہو گیا جو صدیوں سے لوگوں کے دلوں اور فنی آثار میں زندہ تھا۔دہلی، جو صدیوں تک علم و فن اور تہذیب کا مرکز رہی، وہ برباد ہوئی۔ الطاف حسین حالی دہلی کا ماتم کرتے ہوئے پکار اُٹھتے ہیں:
تذکرہ دہلیٔ مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ
نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگز
چپے چپے پہ ہیں یاں گوہر یکتا تہہ خاک
دفن ہوگا نہ کہیں اتنا خزانہ ہرگز
مٹ گئے تیرے مٹانے کے نشاں بھی اب تو
اے فلک اس سے زیادہ نہ مٹانا ہرگز
یہ بات واضح طور پر ثابت ہے کہ انگریز ۱۸۵۷ء سے پہلے ہی مسلمانوں سے دشمنی رکھتے تھے۔ رابرٹ کلائیو نے ۳۰ دسمبر ۱۷۵۸ء کو لارنس سیلیون کے نام اپنے خط میں مسلمانوں کے بارے میں لکھا تھا:’’یہ کوتاہ عقل اور بدطینت مسلمان، جذبۂ احسان مندی سے یکسر خالی ہیں۔ ان کے ہاں ایک ایسا سیاسی طریقہ رائج ہے جو روئے زمین پر کہیں اور نہیں پایا جاتا — کہ جو چاہو کر گزرو، مگر طاقت کے زور سے نہیں بلکہ مکر و فریب کے ذریعے‘‘۔
ہنری مارٹن لکھتا ہے ’’ : فطرتِ انسانی جب اپنی اسفل ترین شکل میں نمودار ہونا چاہتی ہے تو ایک مسلمان کا رُوپ دھار لیتی ہے‘‘۔
مسلم بیزاری کا یہ رجحان ۱۸۴۲ء میں اُس وقت نقطۂ عروج پر پہنچ گیا، جب لارڈ ایلن برو گورنر جنرل بنا۔ ایلن برو جہاں ہندوؤں کے لیے نرم گوشہ رکھتا تھا، وہیں مسلمانوں سے شدید نفرت کرتا تھا۔ سومنات کے مندر کے دروازوں کی تعمیر کرتے ہوئے وہ ہندو راجاؤں کو مخاطب کرکے کہہ رہا تھا ’’ آج آخرکار آٹھ سو سالہ پرانی بے عزتی کا بدلہ لے لیا گیا ‘‘ پوری تقریر سنیے تو حدسے زیادہ جذباتی ڈرامے سے بھری ہوئی۔موجودہ دور کا ’ہندوتوا‘راگ لگتی ہے۔
یہ دشمنی ۱۸۵۷ء سے بھی پہلے سے چلی آرہی تھی لیکن اس کے بعد انگریزوں نے یہ طے کیا کہ مسلمانوں کو معاشی اور سماجی سطح پر تباہ ہی کردیا جائے ۔ اس لیے جب انگریزی افواج نے مسلمانوں کے خون سے اپنے انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرلیا اورہند براہِ راست برطانوی تاج کے زیرِنگیں آگیا تو ’ایسٹ انڈیا کمپنی‘ کا پردہ ہٹا اور برطانوی حکومت نے حکمرانی کی لگامیں اپنے ہاتھ میں لے لیں، تب ملکہ وکٹوریہ نے عام معافی کا اعلان کیا ۔اس معافی کے بعد وہ گھناؤنا کھیل شروع ہوا، جس میں طے ہوا کہ مسلمانوں کو اس حد تک ختم کر دیا جائے کہ دوبارہ کبھی نہ اُٹھ پائیں۔ان مسلمانوں کو، جو کبھی اس ملک کے حاکم اور تہذیب کے معمار تھے، بے دست و پا کر دینا، ان کے وقار اور اثر کو مٹادینا، اور ہر اس نشانی کو ختم کر دینا جو ان کے ماضی کو لوٹانے کا حوصلہ دے سکتی تھی۔ انگریزوں نے اس مقصد کو پانے کے لیے ہر حربہ آزمایا۔ مسلمانوں کو معاشی اور تعلیمی طور پر پس ماندہ کرنے کی باضابطہ کوشش کی گئی۔
لندن کے ایک اخبار میں رسل لکھتا ہے:’’ہمیں مسلمانوں کے ساتھ جو دشمنی ہے وہ اس کش مکش کے مقابلے میں زیادہ شدید ہے جو ہم شیو اور وشنو کے پرستاروں [ہندوئوں] کے ساتھ رکھتے ہیں۔ مسلمان ہماری حکومت کے لیے زیادہ خطرناک ہیں … اگر ه بیک جنبش محمد کی حدیثوں اور معبدوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے میں کامیاب ہو جائیں، تو یہ بات عیسائی مذہب اور برطانوی حکومت دونوں کے لیے نیک فال ثابت ہوگی ‘‘ ۔
برطانوی عہدے داروں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اس قدر شدت اختیار کر چکی تھی کہ کئی عہدےدار اس خیال کی پر زور حمایت کرنے لگے تھے کہ دہلی کی جامع مسجد کو منہدم کر دیا جائے تاکہ اُن پر یہ بات واضح ہو جائے کہ ہندستان میں ان کا وقار کس حد تک مجروح ہوچکا ہے۔ ایک گورنر جنرل نے ، تو یہ تجویز بھی پیش کر دی تھی کہ ’’آگرے کے تاج محل کو منہدم کر دیا جائے اور سنگ مرمر کی سلوں کو فروخت کر دیا جائے ‘‘۔
ہندپر اپنا تسلط قائم رکھنے اور اس کو مزید مضبوط بنانے کے لیے انگریزوں نے یہ اصول اپنا لیا تھا کہ مسلمانوں کو ہمیشہ پیروں تلے دبا کر رکھا جائے۔ ۱۸۵۷ء کی بغاوت نے ان کے اس بدگمانی پر مبنی نظریے کو گویا درست ثابت کردیا۔ اب ہر شورش، ہر بدامنی، اور ہر بگاڑ کی ذمہ داری بلاتردّد مسلمانوں کے سر ڈال دی جاتی۔انگریز عہدے دار مسلمانوں کو کسی بھی انتظامی منصب پر دیکھ کر بیزاری محسوس کرتے، حقارت آمیز لہجے میں گفتگو کرتے اور تمسخر کا نشانہ بناتے۔ یہ رویہ محض نفسیاتی دشمنی کا نہیں بلکہ سوچی سمجھی سیاسی حکمتِ عملی کا حصہ تھا۔ اس کے برعکس ہندوؤں کے ساتھ ان کا سلوک بالکل مختلف تھا۔ —وہ انھیں خوشی سے انتظامی مناصب پر فائز کرتے، اور وہ اپنے انگریز افسران کے لیے مکمل فرماںبرداری کا مظاہرہ کرتے۔ اس تعاون اور اطاعت کے صلے میں ہندو طبقہ بتدریج انتظامی ڈھانچے میں جڑیں مضبوط کرتا گیا، جب کہ مسلمان، جو کبھی سلطنت کے ستون تھے، اب ایوانِ اقتدار کے دروازے پر اجنبیوں کی طرح کھڑے تھے۔
۱۸۵۷ءکی جنگِ آزادی کے بعد ہندستانی مسلمانوں کی صورتِ حال نہ صرف سیاسی بلکہ معاشی، سماجی اور تعلیمی میدان میں بھی شدید ابتری کا شکار ہوئی۔
۱- معاشی بدحالی :۱۸۵۷ءکی شکست نے مسلمانوں کی تلوار تو پہلے ہی توڑ دی تھی، اب انگریز نے ان کے ہاتھ سے روٹی بھی چھین لی۔ وہ تہذیب جو کبھی زمین پر زرخیزی اور بازاروں کی رونق سے پہچانی جاتی تھی، دیکھتے ہی دیکھتے فاقہ کشی اور مفلسی کی تصویر بن گئی۔
۲- زمین اور جاگیروں کی ضبطی:سب سے پہلے ان کے قدموں تلے سے زمین کھینچ لی گئی۔ جو خاندان صدیوں سے کھیتوں کے وارث اور جاگیروں کے مالک تھے، وہ ایک حکم نامے سے بے زمین ہو گئے۔ یہ زمینیں یا تو انگریزوں کے وفاداروں میں تقسیم ہوئیں یا نیلامی میں غیر مسلم سرمایہ داروں کے ہاتھ میں چلی گئیں۔ یوں مسلم تہذیب کی معاشی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔
۳- تجارت اور ہنر پر ضرب:مسلمان صنعت کار اور ہنرمند، جو قالین بافی سے لے کر اسلحہ سازی تک اپنی مہارت کا سکہ جمانے والے تھے، برطانوی تجارتی پالیسی کے نشانے پر آگئے۔ مقامی صنعتوں پر بھاری ٹیکس لگے، خام مال سستے داموں برطانیہ بھیجا جانے لگا اور وہاں کا تیار شدہ مال واپس لا کر مہنگے داموں بیچا گیا۔ بازاروں میں مقامی دستکاری کی جگہ یورپی سامان چھاگیا۔ جن ہاتھوں میں کبھی فن کی خوشبو تھی، وہاں اب فاقہ اور بیکاری کی دھول جم گئی۔
۴- سودی کاروبار کا شکنجہ:ہندو بنیے اور انگریز افسران ایک دوسرے کے حلیف بن گئے۔ قرض کے نام پر مسلمانوں پر ایسا جال ڈالا گیا جس سے نکلنا ممکن نہ تھا۔ بھاری سود، کاغذی کارروائی اور قانونی فریب کاریوں نے زمین داروں اور تاجروں کو اپنی زمین اور دکانیں گروی رکھنے پر مجبور کر دیا۔ کل کے خوشحال تاجر آج قرض خواہوں کے در پر کھڑے ذلیل و خوار نظر آتے تھے۔
۵- ملازمتوں کے دروازے بند: انگریز کے نزدیک مسلمان نہ وفادار تھے، نہ قابلِ اعتماد۔ اس لیے سرکاری ملازمتوں کے دروازے ان پر بند کر دیے گئے۔ ادنیٰ درجے کی نوکری بھی انھیں دینا گوارا نہ کیا گیا۔ یوں متوسط طبقہ بے روزگار ہو کر غربت کی دلدل میں اتر گیا اور نچلا طبقہ محنت مزدوری یا دستِ سوال دراز کرنے پر مجبور ہوگیا۔
یہ محض ایک طبقے کی غربت نہیں تھی، بلکہ ایک پوری قوم کے وقار، خودداری اور عزتِ نفس کو روندنے کا منظم منصوبہ تھا۔پیری اینڈرسن لکھتا ہے:’’ غدر کے بعد ، (برٹش )راج میں میدان تیزی سے مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکلنا شروع ہوگیا۔ اب وہ اس علاقے کے مالک نہیں رہ گئے تھے جہاں کبھی ان کی حکومت چلتی تھی۔ سپاہیوں کی حیثیت سے ان پہ اعتبار نہیں کیا گیا۔ تجارت کا انھیں کوئی تجربہ نہیں تھا۔ ان کا اپنا انتظامی ڈھانچا فارسی زبان میں تھا، جب کہ انگریزی تعلیم سے وہ دُور تھے۔ ایک صدی کے بعد یہ واضح ہوگیا کہ وہ ہندوؤں سے گورنمنٹ جاب، انڈسٹری اور دوسرے پیشوں میں کتنے پیچھے رہ گئے‘‘۔
The Cambridge Economic History of India Volume 2 میں اس پوری تبدیلی کے عمل کو بیان کیا گیا ہے۔ ذیل میں صرف کا اس خلاصہ دیا جارہا ہے:
برطانوی دور میں ہندستان کی معیشت میں نمایاں تبدیلیاں آئیں۔ بنیے، مارواڑی اور دیگر ہندو تاجر برادریاں مالیاتی واسطے اور قرض دہندہ و تاجر کی حیثیت سے نمایاں طور پر اُبھریں۔ لیکن مقابلے میں مسلم تاجروں اور زمین داروں کی حیثیت زوال پذیر ہوگئی۔
مشرقی صوبوں جیسے بنگال، بہار اور اڑیسہ میں یورپی کمپنیوں کی خرید و فروخت میں بنیے، مارواڑی، اور دیگر دلال اہم کردار ادا کرتے تھے۔ وہ کسانوں یا پیداواریوں کو پیشگی ادائیگی کرتے اور کمپنیوں سے منافع کماتے۔ یہی طبقہ دیہی قرض دہندگان کے طور پر بھی معروف تھا، جو سود پر قرض دے کر زمین اور پیداوار پر بالواسطہ اثرانداز ہوتا۔
برطانوی مالیاتی و زرعی پالیسیوں نے سودخوروں کو طاقت ور بنایا، جن میں بنیے بھی شامل تھے۔ جیسے ہوشنگ آباد، بندیل کھنڈ اور جھانسی میں ان کا کردار استحصالی رہا، جہاں بعض اوقات وہ غلہ روک کر قحط جیسی صورتِ حال پیدا کر دیتے۔ ان کے سودی نظام کی بدولت کئی کسان زمین سے محروم ہو گئے، اور قرضوں کے بوجھ تلے دبے رہے۔ ہندو سرمایہ داروں نے برطانوی نظام کے ساتھ خود کو کامیابی سے ہم آہنگ کیا اور تجارت، قرض، اور زمین کے ذریعے سرمایہ اور اثر و رسوخ اکٹھا کیا۔ یوں وہ برطانوی معیشت کے بنیادی ستونوں میں شامل ہوگئے۔
اس کے برعکس، مسلمانوں کی معاشی حیثیت میں زوال آیا۔ برطانوی قبضے اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی اجارہ داری نے مسلمانوں کو بین الاقوامی تجارت سے بے دخل کر دیا۔ اٹھارھویں صدی کے وسط تک مسلمان تاجر خلیج، افریقہ اور ایشیائی منڈیوں میں سرگرم تھے، لیکن ایسٹ انڈیا کمپنی کے تجارتی غلبے اور امتیازی سلوک نے ان کی سرگرمیوں کو محدود کر دیا۔ کورومنڈل، بنگال اور جنوبی ہند کے اندرونِ ملک تجارت پر بھی مسلمانوں کا غلبہ تھا، جو آہستہ آہستہ ختم ہونے لگا۔ ساتھ ہی، مسلم زمیندار اور اشرافیہ بھی متاثر ہوئے۔ مستقل بندوبست جیسی برطانوی زمین داری پالیسیوں نے پرانے مسلم جاگیردار طبقے کو کمزور کیا، اور ان میں سے کئی اپنی زمینیں کھو بیٹھے یا زمینداری سے باہر ہو گئے۔
مجموعی طور پر، برطانوی دور میں ہندو تاجر برادریوں، خاص طور پر بنیوں اور مارواڑیوں نے تجارت، مالیات اور زمین داری کے ذریعے نمایاں ترقی کی اور طاقت ور طبقہ بن کر اُبھرے، جب کہ مسلم تاجر، زمیندار اور اشرافیہ اپنی سابقہ برتری کھو بیٹھے اور معاشی طور پر کمزور ہو گئے۔ یہ تبدیلی ہندستان کی سماجی-معاشی ساخت میں ایک گہرا فرق پیدا کرنے والی تھی۔