اخبار اُمت


تحریک ِ آزادیٔ کشمیر کا ’بیس کیمپ‘ یا اقتدار کا ’ریس کیمپ‘؟ 

تحریکِ آزادی کشمیر کی لہو میں ڈوبی زخم زخم داستان اور اقوامِ متحدہ کے قبرستان میں دفن قراردادوں کے ساتھ، کیا عالمی ضمیر بھی انڈین سفارتکاری خرید چکی ہے؟ انڈیا کی فلمی مکاری اور عالمی میڈیا کی مجرمانہ خاموشی کے پردے میں کشمیر کی سچائی کو کیسے دفن کیا گیا؟ تہاڑ جیل کی زنجیروں سے بلند حریت کی صدائیں، شہیدسیّد علی گیلانیؒ، یاسین ملک اور قافلۂ قربانی کی داستان کشمیر سے جڑی نسل کُشی جسے دنیا تماشا سمجھ بیٹھی۔مگر یہ صرف زمینی تنازعہ نہیں، انسانیت کا جنازہ ہے۔ ہماری خاموشی اور کشمیریوں کا ماتم ہے۔ یوم آزادی پر ہر مظلوم کشمیری پوچھتا ہے: میرا جشن کب ہو گا؟  

رات کے پچھلے پہر کا سناٹا ہر طرف چھایا ہوا تھا۔ برف کی تہہ سے ڈھکی وادی میں کہیں دور اذان کی صدا کسی مقفل مسجد کی ٹوٹی ہوئی چھت سے ٹکرا کر واپس لوٹ آتی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے صدیوں سے اذان ہو رہی ہو، مگر کوئی دروازہ کھلنے کا نام نہ لے۔ دریائے جہلم کا پانی خاموشی سے بہہ رہا تھا، جیسے اس کے سینے میں ہزاروں لاشیں دفن ہوں، اور ہر موج کوئی بے نشان جنازہ ہو۔  

ایسے جان لیوا سناٹے میں ایک بوڑھی ماں، اپنی چادر میں لپٹا ہوا خون میں لت پت قرآن تھامے بیٹھی تھی۔ کبھی اس پر بوسہ دیتی، کبھی روتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھتی اور پھر وہی سوال دُہراتی، جو برسوں سے ہر کشمیری کے لبوں پر ہے: ’’کیا ہمارے سجدے ادھورے ہی رہیں گے؟ اور کیا پاکستان صرف ایک نعرہ تھا؟‘‘ 

چند قدم دُور، ایک چھوٹا بچہ ملبے میں وہ گڑیا تلاش کر رہا تھا، جو اُس کی بہن کی آخری نشانی تھی، جو پچھلے ہفتے ایک بھارتی فوجی کی فائرنگ سے شہید ہو گئی تھی۔ بچہ بار بار مٹی ہٹاتا، آنکھیں مَلتا۔ اس کی بے زبانی میں یہ سوال کلبلا رہا تھا: ’’جب پاکستان آزاد ہوا تھا، تو کیا کشمیر کا بھی وعدہ کیا گیا تھا؟‘‘ 

یہ سوال محض معصوم بچوں کے نہیں رہے۔ یہ سوال اب قبریں بھی پوچھتی ہیں، پتّے اور ہوائیں بھی۔ یہ وہ سوالات ہیں جو ’بیس کیمپ‘ کے ایوانوں تک تو پہنچتے ہیں، مگر وہاں ان کی گونج نعروں، حکومت کے حامی اور حکومت کے مخالف لوگوں کی تقریروں اور ہوٹلوں کی میزوں کے نیچے دفن ہو جاتی ہے۔ یہاں وادی میں آزادی کے چراغ خون سے جلتے ہیں، مگر وہاں کرسی کے چراغ سیاست سے۔ یہاں کشمیر لہو میں نہا رہا ہے، اور وہاں ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ کا نعرہ اگلے الیکشن کے پوسٹر پر چھپ رہا ہے۔ اور اس المیے کا سب سے کربناک پہلو یہ ہے کہ یہ افسانہ نہیں، بلکہ یہ حقیقت ہے۔ ایک ایسی حقیقت جس نے ہزاروں زندگیاں نگل لی ہیں، سیکڑوں خواب روند ڈالے ہیں، لاکھوں بین، صدائیں، اذیتیں، صبر، اور سوالات پیدا کیے ہیں ، مگر جن کے جواب ابھی تک نہ اقوامِ متحدہ نے دیے، نہ مسلم دُنیا کی قیادتوں نے، اور نہ ’بیس کیمپ‘ نے۔  

وادی کی گلیوں میں قدم رکھتے ہوئے تہاڑ جیل کی کوٹھریوں سے آتی سسکیاں سناؤں گا، اُن کانفرنس ہالوں کا حساب لوں گا جہاں کشمیر صرف ایک سائیڈ ایشو سمجھا گیا، اور اُن چہروں سے پردہ اُٹھاؤں گا جنھوں نے ’بیس کیمپ‘ کو اقتدار اور کرسی نشینی کے ’ریس کیمپ‘ میں بدل دیا۔ اس تحریر میں روشنائی کی جگہ وہ سرخ خون بہتا ہے جو عشروں سے وادیٔ کشمیر کے چشموں، دریاؤں، گلیوں، گھاٹیوں اور ماؤں کی آنکھوں سے بہتا چلا آیا ہے۔ یہ ایک تاریخی فردِ جرم ہے، جو نہ صرف انڈیا کے ظالم نظام پر عائد ہوتی ہے، بلکہ ان سب پر بھی جو اس ظلم کو صرف بیانات میں لپیٹ کر، تعزیتوں میں چھپا کر، اور سفارتی ملفوظات میں گم کر کے اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو گئے۔ وادیٔ کشمیر اس وقت بھی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ بھارتی قابض افواج کے بوٹوں تلے نہ صرف آزادی کچلی جا رہی ہے بلکہ انسانیت کا منہ چڑایا جا رہا ہے۔ ہر صبح بندوقوں کی آواز سے آنکھ کھلتی ہے اور ہررات کسی جنازے کی آہ و بکا کے بعد چپ ہوتی ہے۔  

۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو انڈیا نے وہ گھنائونا جرم کیا جس نے کشمیریوں سے ان کی شناخت، ان کی حیثیت، ان کا جغرافیہ اور ان کی آئینی پہچان چھین لی۔ وہ خطہ جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق متنازع ہے، یک طرفہ طور پر انڈیا میں ضم کرنے کی جسارت کی گئی۔ مگر یہ محض آئینی یا قانونی حملہ نہ تھا، یہ کشمیریوں کے وجود پر وار تھا، ان کے خوابوں، تاریخ، عقیدے اور تشخص پر خنجر کاوار۔ قابض انڈین افواج کی موجودگی صرف فوجی چوکیوں تک محدود نہیں، اب وہ کشمیریوں کی سوچ، سانس، نیند، اور حتیٰ کہ ان کے سجدوں میں بھی گھس چکی ہے۔ ہزاروں نوجوانوں کو لاپتہ کردیا گیا، اجتماعی قبریں اب کسی افسانے کا حصہ نہیں بلکہ زمین کے کربناک سچ بن چکی ہیں۔ پیلٹ گنز کے ذریعے آنکھوں سے بینائی چھینی گئی، مگر انڈیا یہ نہیں جانتا کہ جس قوم کے دل میں بینائی ہو، اس کی آنکھیں چھین لینے سے آزادی کا خواب ختم نہیں ہوتا۔ وہ مائیں جو اپنے بچوں کی لاشیں دفناتی ہیں، ان کے ہاتھ میں صرف کفن نہیں بلکہ ایک سوال ہوتا ہے: ’ہم کب آزاد ہوں گے؟‘ حُریت قائدین کی جدوجہد انسانی تاریخ کے ان ابواب میں لکھی جائے گی، جہاں قربانی کو روشن حرف مانا جاتا ہے۔  

سیّد علی گیلانیؒ کی نصف صدی پر محیط جدوجہد، ان کی تنہائی میں گزری جوانی، جیلوں میں گزاری عمر، اور سب کچھ کھو دینے کے باوجود آزادی کے بیانیے سے وابستگی، ان کی زندگی کا ہر لمحہ کشمیری غیرت کا استعارہ ہے۔ ان کی موت بھی انڈیا کے ظلم کی نشان دہی ہے، ان کا جنازہ بھی قید میں ہوا، ان کی قبر بھی پہرہ داروں کی نگرانی میں بنی۔ یاسین ملک، جس نے اس تحریک کے لیے سب کچھ قربان کیا، آج تہاڑ جیل کی دیواروں کے پیچھے عمر قید کاٹ رہا ہے۔ اس کی خاموش چیخیں سننے والاکوئی نہیں، اور نہ ’بیس کیمپ‘ کے ایوانوں میں اس کے حق میں کوئی آواز بلند ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا۔  

’بیس کیمپ‘، یعنی آزاد کشمیر، وہ خطہ جو تحریک آزادیٔ کشمیر کا مرکز ہونا چاہیے تھا، آج محض اقتدار کے کھیل کا میدان بن چکا ہے۔ حکمران طبقات نے اس خطے کو ’ریس کیمپ‘ میں تبدیل کر دیا ہے۔ آزاد کشمیر میں وہ قیادت ہونی چاہیے تھی، جو یہاں سے عالمی سطح پر کشمیر کا مقدمہ لڑتی، مگر وہ اقتدار کے ایوانوں میں ذاتی مفادات کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ جلسے، جلوس، بیانات، تعزیتی قراردادیں، بس اتنا ہی کردار ہے اس ’بیس کیمپ‘ کا۔ نہ کوئی طویل مدتی پالیسی، نہ کوئی انسٹی ٹیوشنل فریم ورک، نہ میڈیا پر تسلسل سے کشمیر کا مقدمہ، اور نہ عالمی اداروں میں مربوط سفارتی جدوجہد۔ یہ تلخ حقیقت تاریخ کے اوراق پر سیاہ ترین لفظوں میں لکھی جائے گی کہ جس خطے کو اقوامِ متحدہ نے باقاعدہ ’تحریکِ آزادیٔ کشمیر کا بیس کیمپ‘ قرار دیا، وہ خطہ وقت کے ساتھ محض اقتدار کا ’ریس کیمپ‘ بن کر رہ گیا۔ وہ خطہ جہاں سے مظلوم کشمیریوں کے حق میں ناقوس بجنا تھا، وہاں صرف اقتدار کی گھنٹیاں بجتی رہیں۔ جس چبوترے پر شہیدوں کے نام کندہ ہونے تھے، وہاں رنگ برنگے پارٹی جھنڈوں اور گمراہ کن چہروں کی تصویروں سے لتھڑے بینروں نے ڈیرے ڈال لیے۔ آزاد کشمیر کی قیادت، چاہے وہ وزیراعظم ہو، اپوزیشن لیڈر ہو، وزرا یا ممبران اسمبلی ہوں، سب کے سب ایک مشترکہ ناکامی کا استعارہ بن چکے ہیں۔ 

وہ ناکامیاں کیا ہیں؟ ان کی انتخابی دوڑ اور سیاسی ترجیحات میں آزادی کا نام تک نہیں ہوتا۔ ان کے انتخابی منشور میں آزادی کشمیر ایک رسمی سطر کے طور پر شامل کی جاتی ہے، جس کے پیچھے کوئی حکمتِ عملی، کوئی سفارتی ڈھانچا، کوئی روڈ میپ نہیں ہوتا۔ یہاں امیدوار کشمیر کا نام لے کر ووٹ لیتے ہیں، اور جیت کر صرف مظفرآباد یا اسلام آباد تک محدود ہو جاتے ہیں۔ سفارتی سطح پر مکمل نالائقی کس سے ڈھکی چھپی ہے؟ ۷۸ سال گزر گئے، ’بیس کیمپ‘ کی قیادت عالمی سطح پر ایک بھی مستقل لابنگ گروپ قائم نہ کر سکی، جو انڈیا کے مظالم کو اقوامِ عالم کے سامنے رکھ سکے۔ کوئی کشمیر ڈیسک، کوئی تھنک ٹینک، کوئی ریسرچ ادارہ، کوئی مضبوط میڈیا سیل تک نہ بنایا جا سکا۔ اس خاموشی نے قاتل انڈیا کو بولنے کا موقع دیا اور ہمیں دنیا بھر میں تماشائی بنا دیا۔  

اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر خاموشی سب سے بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اگرچہ قراردادیں موجود ہیں، لیکن آج تک آزاد کشمیر کا کوئی رہنما اقوامِ متحدہ کے دروازے پر مستقل موجودگی کے لیے مقام نہ بنا سکا۔ وہ ریاست جو حقِ خودارادیت کے لیے علامتی قیادت بن سکتی تھی، ایک ضلعی طرز کی بلدیاتی حکومت میں تبدیل ہو گئی۔ بے مقصد اور نام نہاد پُرتعیش کشمیر کانفرنسیں تو عروج پر ہیں، ہر سال مختلف ہوٹلوں اور کانفرنس ہالوں میں کشمیر کانفرنسوں کے نام پر فوٹو سیشن ہوتے ہیں۔ اسٹیج پر نعرے، لنچ پر دعوے، مگر عملی نتیجہ صفر۔ وہی مقبوضہ کشمیر، وہی شہادتیں، وہی آہیں! آج تک آزاد کشمیر کے قائدین مکمل طور پر ، پوری دُنیا کے سامنے انڈین شاطرانہ بیانیے کا توڑ نہیں کر سکے۔ 

انڈیا، سوشل میڈیا، قومی و عالمی میڈیا، فلم، تھنک ٹینک اور سفارت کاری کے ذریعے کشمیر پر اپنے بیانیے کو مضبوط کرتا رہا، اور ’بیس کیمپ‘ میں ایک بھی ایسا ادارہ نہ بن سکا جو اس زہریلے پراپیگنڈے کا مؤثر جواب دے سکتا ہو۔ اکثر تاریخی موقعوں پر مجرمانہ خاموشی تو روایت بنتی جارہی ہے۔ جب ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو انڈیا نے انڈین آئین کی دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵-اے میں ترمیم کرکے کشمیر کی نام نہاد آئینی طور پر خصوصی حیثیت (Special Status) کو ختم کیا، تو ’بیس کیمپ‘ نے صرف ایک دن کا احتجاج کیا ، وہ بھی سیاسی تقاریر، کالی پٹیاں اور مشروط غصے کے ساتھ۔ اس کے بعد وہی اقتدار کی رسہ کشی، وہی وزارتوں کی تقسیم، وہی مفادات کی سیاست۔ تحریکِ حُریت کے نام کا صرف جذباتی استعمال بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان قربانیوں کو پالیسی میں نہیں ڈھالاگیا، بلکہ جذباتی استحصال کے ذریعے انھیں ووٹ بینک بنایا گیا۔ جو قیادت اقوامِ متحدہ کی قراردادیں پڑھنے کی زحمت تک نہ کرے، وہ کس حق سے کشمیر کا نام لے سکتی ہے؟ جو حکمران اپنی وزارت کی کرسی بچانے کے لیے ’بیس کیمپ‘ کو خاموش رکھیں، وہ کیونکر کشمیریوں کے خون کے وارث ہو سکتے ہیں؟ جن کے پاس سفارتی، میڈیا، تھنک ٹینک، قانونی، انسانی حقوق کا کوئی عملی ادارہ نہ ہو، وہ کشمیر کو آزاد کرانے کا سفارتی خواب کس منہ سے دیکھتے ہیں؟  

حکمرانوں کے ضمیر زندہ ہوں تو یقینا شہیدوں کی لاشوں سے بہنے والا خون اُن کے خوابوں میں آئے گا، مگر یہ توقع ہی غلط ہے ان ’بندگانِ وزارت‘ سے۔ 

دوسری طرف انڈیا نے اپنی چالاکی اور سفارت کاری کو بخوبی استعمال کیا۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مسلسل نظر انداز کیا۔ انڈیا نے امریکا، اسرائیل، فرانس اور کئی مغربی ممالک سے دفاعی اور معاشی تعلقات کو اتنا مضبوط کر لیا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ ان کے لیے محض ایک اخباری بیان کا معاملہ بن کر رہ گیا ہے۔ پھر مغرب کو تجارت کا لالچ دیا، میڈیا کو کنٹرول کیا، اور عالمی بیانیے کو اپنی مرضی سے موڑنے میں کامیابی حاصل کی۔ پاکستان کی طرف سے کوششیں ضرور ہوئیں مگر غیر منظم، وقتی اور ردعمل پر مبنی۔ اقوام متحدہ میں تقریریں کی گئیں، مگر پالیسی سازی اور عالمی سطح پر مقدمہ لڑنے کی سنجیدہ کوششیں نہیں ہوئیں۔ مسئلہ کشمیر پر کوئی ایسا تھنک ٹینک فعال نہیں ہو سکا جو جدید سفارت کاری، ڈیجیٹل میڈیا، اور انسانی حقوق کے عالمی قوانین کی روشنی میں یہ مقدمہ تیار کرتا۔ ہمارا میڈیا بھی وقتی جوش دکھاتا ہے، مگر مسلسل بیانیہ نہیں اپناتا۔  

ہم نے مظلوم مقبوضہ وادی کے کشمیریوں کے ساتھ جذباتی وابستگی ضرور رکھی، مگر عملی میدان میں ہم بار بار پیچھے ہٹے۔ ہماری اپنی بے عملی نے عالمی ضمیر کو بے حس اور کشمیر کو تنہا کر دیا۔ کشمیر کا المیہ صرف انڈیا کے ہاتھوں لہو لہان نہیں ہوا، بلکہ ہماری غفلت کی وجہ سے پیداہونے والی عالمی طاقتوں کی مجرمانہ خاموشی نے بھی اس سرزمین پر خون کی ندیاں بہانے میں برابر کا کردار ادا کیا ہے۔ یہ وہی دنیا ہے جو یوکرین میں انسانی حقوق کے خلاف چیخ اٹھتی ہے، لیکن کشمیر میں جب پوری بستی کو جلایا جاتا ہے، لڑکیوں کی چوٹیاں کاٹ دی جاتی ہیں، عصمت دری کی جاتی ہے اور بچوں کی آنکھوں میں چھرّے مارے جاتے ہیں، تو دنیا کی زبانیں گنگ، آنکھیں اندھی اور دل مُردہ رہتے ہیں۔  

اقوامِ متحدہ، جیسا ادارہ جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد انسانیت کی فلاح کے لیے بنایا گیا تھا، آج کشمیر کے معاملے میں بس قراردادوں کا قبرستان بن چکا ہے۔۱۹۴۸ء کی قراردادیں، ۱۹۵۱ء، ۱۹۵۷ء اور ۱۹۶۵ء کی قرار دادیں، سب اس بات کا اقرار کرتی ہیں کہ کشمیریوں کو استصوابِ رائے (Plebiscite) کا حق حاصل ہے، اور انڈیا کو یہ حق دینا ہوگا۔ مگر کیا کبھی اقوامِ متحدہ اس پر عمل درآمد کروانے کے لیے تیار ہوگی؟ نہیں۔ وجہ کیا ہے؟ وجہ صرف ایک ہے: انڈین معاشی قوت، سفارتی لابنگ اور بڑی طاقتوں کی مفاداتی مجبوری۔  

انڈیا نے ۱۹۹۰ء کے عشرے سے ایک ہمہ جہت پالیسی اپنائی۔ اس نے سب سے پہلے اسلامی تحریک کو نام نہاد ’دہشت گردی‘ سے جوڑنے کی کوشش کی اور حُریت کی خالص اور عوامی تحریک کو ’دہشت گردی‘ کا لبادہ پہنا دیا۔ دنیا کے سامنے یہ بیانیہ پیش کیا کہ ’کشمیر میں جاری مزاحمت پاکستان کی سرحد سے پار مداخلت کا نتیجہ ہے، حالانکہ زمینی حقائق اس کے برعکس تھے۔ اس کے بعد انڈیا نے سفارتی لابنگ میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی۔ امریکا، برطانیہ، فرانس، یورپی یونین، اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) میں مستقل لابنگ گروپ بنائے۔ صحافیوں، تجزیہ کاروں، تھنک ٹینک اسکالرز کو خرید کر انڈین موقف دنیا کے ہر فورم پر پیش کیا۔ یوں ایک زہریلے بیانیے کو مہذب الفاظ میں لپیٹ کر دنیا کے سامنے رکھ دیا گیا۔  

اس کے بعد انڈیا نے فلموں، میڈیا اور ثقافت کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو متاثر کیا۔ بالی وُڈ کے ذریعے کشمیر کو ایک حساس مگر ’داخلی معاملہ‘ ثابت کیا گیا۔حیدر، شنکارا، ہمّت والا، اوڑی دی سرجیکل سٹرائیک ، فنا ، مشن کشمیر سمیت درجنوں بالی وڈ فلموں کے ذریعے انڈین فوج کو ’ہیرو‘ اور کشمیری مزاحمت کو ’دہشت گردی‘ کے طور پر پیش کیا اور ایک پوری نسل کو ذہنی طور پر کنفیوز اور گمراہ کر دیا۔  

۵۷ مسلم ممالک پر مشتمل اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی)نے کشمیر پر درجنوں قراردادیں اور بیانات تو جاری کیے، لیکن کیا کبھی کسی عرب ریاست نے انڈیا سے سفارتی تعلقات منقطع کیے؟ کیا کسی مسلم ریاست نے انڈیا کے ساتھ تجارتی معاہدے ختم کیے؟ ہرگز نہیں۔ تیل، تجارت اور بھارت کی مارکیٹ نے ان کے مفادات کو خرید کر مسلم احساس کو ختم کردیا۔  

یورپی یونین، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، اور دیگر ادارے متعدد بار رپورٹس جاری کر چکے ہیں۔ ان رپورٹس میں پیلٹ گنز، اجتماعی قبروں، ماورائے عدالت قتل، اور آزادیٔ اظہار کی بندش پر تشویش ظاہر کی گئی، لیکن کیا کسی یورپی ملک نے انڈیا پر سفارتی یا تجارتی پابندی لگائی؟ کیا انڈیا کو کبھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سزا ملی؟ نہیں۔ یہ سب ادارے صرف زبانی جمع خرچ میں مصروف ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہزاروں نوجوان شہید ہو گئے، سیکڑوں معصوم لڑکیوں کی عصمت دری ہوئی، پیلٹ گنز سے بچوں کی آنکھیں ضائع ہوئیں، اجتماعی قبریں بنیں، آٹھ لاکھ سے زائد بھارتی فوجی ہر گلی، ہر چوک، ہر مسجد میں زہر اگلتے رہے، تہاڑ جیل میں کشمیری قیادت قید رہی، اور اقوامِ متحدہ کی قراردادیں کتابوں میں دفن ہوتی رہیں۔ نمازِ جمعہ پر پابندی لگ گئی، مساجد پر قفل ڈال دیے گئے، قرآن مجید کے نسخے نذر آتش کیے گئے، اور اب سب سے بڑھ کر، کشمیریوں کی نسل کشی (Genocide) کی ایک منظم مہم شروع ہو چکی ہے، جسے اگر دنیا نے نہ روکا تو وہ دن دُور نہیں جب کشمیر دوسرا روانڈا، دوسرا بوسنیا اور دوسرا غزہ بن جائے گا۔  

اب وقت آ چکا ہے کہ محض تقاریر اور قراردادوں سے آگے بڑھا جائے۔ ’بیس کیمپ‘ کو حقیقی معنوں میں ’بیس کیمپ‘ بنایا جائے۔ حقائق پر مبنی ایک مضبوط بیانیہ تشکیل دیا جائے اور کشمیر پر اس بیانیے کو ماڈیولز کی صورت میں ہر ادارے میں پیش کیا جائے۔ نوجوانوں کو عالمی میڈیا پر اس کشمیری بیانیے کو بیان کرنے کی تربیت دی جائے۔ سفارت خانوں کو مخصوص اہداف دیے جائیں، اور عالمی عدالتوں میں مقدمات داخل کیے جائیں۔  

یوم آزادی کشمیریوں کے لیے ہر سال مزید زخم لے کر آتا ہے۔ ۷۸ سال سے وہ ایک ایسے وعدے کی تکمیل کا انتظار کر رہے ہیں جو ان کے ساتھ پاکستان نے کیا تھا ، کہ ہم تمھیں تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ کشمیری شہید ہو رہے ہیں، اور ’بیس کیمپ‘ میں جشن ہو رہے ہیں۔ یہ تحریر سوال ہے ان تمام ذمہ داروں سے جنھوں نے ’بیس کیمپ‘ کو ایک مضبوط ادارہ بنانے کے بجائے اسے سیاست کی شکار گاہ بنا دیا۔ کشمیر پکار رہا ہے: ’’ہم نے لہو دیا، تم نے کیا کیا؟‘‘اب بھی وقت ہے، ’بیس کیمپ‘ کو ’ریس کیمپ‘ سے آزاد کیا جائے۔ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے ہمیں کشمیر کے ۷۸ سالہ دکھ، قربانیاں، آنسو، جنازے، اجتماعی قبریں، بند گلیاں، تہاڑ کی سلاخیں، اور جلتی بستیوں کے حقائق پر مبنی مضبوط بیانیہ تشکیل دینے، عزم، حکمت، اور جہد مسلسل کی ضرورت ہے۔ یہی تحریک کی بقا ہے، یہی کشمیریوں کے خون کا کفّارہ بھی ہے۔  

آزاد فضاؤں میں آزادی کا جشن منانے والو! ذرا سوچو! یومِ آزادی جب ہر سال پاکستان اور ’بیس کیمپ‘ میں ملّی نغموں، سبز پرچموں، آتش بازیوں، ترانوں اور جشن کی صورت میں آتا ہے، تو کشمیر کی وادی میں یہ دن ایک کرب میں ڈوبی شام کی مانند گزر جاتا ہے۔ وہاں نہ چراغ جلتے ہیں، نہ پرچم لہراتے ہیں، نہ نغمے گونجتے ہیں، بلکہ ہر گھر میں ایک شہید کی تصویر، ہر گلی میں ایک ماں کی چیخ، اور ہر بچی کے آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں، جن کی بینائی چھرّوں نے چھین لی۔  

ذرا سوچو! کشمیر کی لہو رنگ وادی کو کب وہی آزادی نصیب ہوگی جو تمھیں نصیب ہے؟  

۸ جولائی ۲۰۲۵ءکو، انڈین چیف آف ڈیفنس اسٹاف انیل چوہان نے نئی دہلی میں ’آبزرور ریسرچ فاونڈیشن‘ میں تقریر کرتے ہوئے چین، پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تزویراتی مفادات کے بڑھتے ہوئے اتحاد پر تشویش کا اظہار کیا۔ انھوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر یہ سہ فریقی اتحاد زور پکڑتا ہے تو انڈیا کی سلامتی کے لیے اس میں سنگین نتائج ہو سکتے ہیں اور یہ علاقائی طاقت کے توازن کو متاثر کر سکتا ہے‘‘۔ 

اس تبصرے کے تناظر میں چین کے صوبے یونان کے دارالحکومت کنمنگ سے گردش کرنے والی ایک تصویر سامنے آئی، جس میں تینوں ممالک کے سفارت کاروں کو علاقائی اقتصادی تعاون کی غرض سے منعقدہ پہلی سہ فریقی بات چیت کے دوران ملاقات کرتے دکھایا گیا۔ اگرچہ اس ملاقات کو باضابطہ طور پر محض سفارتی مصروفیت کے طور پر پیش کیا گیا، لیکن اس تصویر نے انڈیا کی تزویراتی صورتِ حال میں ہلچل مچا دی۔ 

بنگلہ دیش، جو اس معاملے کی حساسیت سے واضح طور پر آگاہ ہے، اس نے بیانیہ کو قابو کرنے کے لیے تیزی سے اقدامات کیے۔ ڈھاکہ کی عبوری حکومت کے مشیر اُمورِخارجہ توحید حسین نے کسی بلاک میں یا کسی مخالفانہ اتحاد میں شامل ہونے کے کسی بھی ارادے سے انکار کیا۔ ڈھاکہ نے دُہرایا کہ اس کی خارجہ پالیسی غیر جانبدار اور خودمختاری پر مبنی ہے۔ 

ان یقین دہانیوں کے باوجود، انڈیا کی تزویراتی ترجیحات تبدیل ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ نئی دہلی میں اب یہ خیال گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر محمد یونس کی عبوری قیادت میں بنگلہ دیش اپنی خارجہ پالیسی کو نئی بنیادوں پر ترتیب دے رہا ہے، جو سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کے دور میں اختیار کردہ خارجہ پالیسی سے واضح طور پر مختلف ہے۔ حسینہ واجد کے دور میں، انڈیا اور بنگلہ دیش نے غیرمعمولی گرم جوش تعلقات استوار کیے تھے، جن کی خصوصیات گہرے سکیورٹی تعاون، سرحد پار رابطہ منصوبوں اور مشترکہ علاقائی مقاصد تھے۔ ڈھاکہ نے انڈیا مخالف باغیوں کے خلاف سخت کارروائی کی۔ انڈیا کو بنگلہ دیشی سرزمین کے ذریعے سات مشرقی انڈین ریاستوں تک ٹرانزٹ کے ذریعے رسائی دی گئی، اور عمومی طور پر نئی دہلی کی تزویراتی ترجیحات کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کیا۔ 

جنرل چوہان نے ایک وسیع اور پریشان کن رجحان کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی: بیرونی طاقتیں – خاص طور پر چین – بحر ہند کے خطے میں اقتصادی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔ سری لنکا اور پاکستان جیسے ممالک کے چینی سرمایہ کاری اور امداد کے تابع ہونے سے یہ تشویش بڑھ رہی ہے کہ بیجنگ نرم طاقت کے ذریعے انڈیا کو منظم طریقے سے گھیر رہا ہے۔ 

تاہم، بنگلہ دیش کا معاملہ کچھ منفرد ہے۔ اس کی معیشت، اگرچہ دباؤ میں ہے، مگر نسبتاً مستحکم ہے، اور ڈھاکہ نظریاتی ہم آہنگی کے بجائے عملی، مفاد پر مبنی سفارت کاری پر زور دیتا ہے۔ کنمنگ اجلاس، علامتی طور پر اہم اجلاس اور سہ فریقی ڈھانچے کی تشکیل کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے۔ یہ شکل رابطہ کاری کا ایک نیا پہلو متعارف کراتی ہے جو غیر متوقع طریقوں سے ترقی کر سکتی ہے۔ 

تاریخ کی گونج کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں، چین اور پاکستان نے ایک مضبوط تزویراتی محور برقرار رکھا تھا جو مشرقی پاکستان – جو اَب بنگلہ دیش ہے – کو خاموشی سے شامل کرتا تھا۔ یہ ترتیب ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کی آزادی کے ساتھ ختم ہوئی۔ تاہم، آج کل، لطیف اشارے بتاتے ہیں کہ اس تزویراتی سہ فریقی اتحاد کا کچھ حصہ دوبارہ اُبھر رہا ہے، اور وہ بھی ایک زیادہ پیچیدہ جیو پولیٹیکل میدان میں۔ 

بیجنگ کے لیے، پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں کے ساتھ تعلقات کو گہرا کرنا جنوبی ایشیا اور بحر ہند کے خطے میں اپنا اثر و رسوخ مستحکم کرنے کے وسیع تر مقصد کے لیے اہم ترین قدم ہے۔ اسلام آباد کے لیے، یہ پیش قدمی سفارتی تحفظ اور تزویراتی فائدہ فراہم کرتی ہے۔ ڈھاکہ کے لیے، یہ تعلق ایک مؤثر حکمت عملی پر مبنی ہے۔ خاص طور پر اُس وقت، جب کہ نئی دہلی کے ساتھ اس کے مستحکم تعلقات میں تیزی سے اُبھرتی ہوئی غیریقینی صورتِ حال دکھائی دیتی ہے۔ 

بنگلہ دیش کا محتاط رویہ بھی غیر مستحکم ملکی سیاست سے متاثر ہے۔ جولائی ۲۰۲۴ء کے احتجاج اور ۵؍اگست ۲۰۲۴ء کو عبوری انتظامیہ کے قیام کے بعد سے، اندرونی یکجہتی میں ایک انداز سے رخنہ پڑا ہے۔ پولرائزیشن دوبارہ ابھر رہی ہے، اور ۲۰۲۶ء کے اوائل میں قومی انتخابات کے قریب آنے کے ساتھ، حکومت کی ترجیح استحکام ہے، نہ کہ کوئی دُور رس حکمت عملی۔ اس ماحول میں خارجہ پالیسی ردعمل پر مبنی ہے – نہ کہ تبدیلی پر۔ 

ڈھاکہ کسی بھی سمت میں زیادہ جھکاؤ کے خطرات کو سمجھتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ تاریخی ناراضیاں سیاسی طور پر حساس ہیں، جب کہ چین پر زیادہ انحصار مغرب، خاص طور پر امریکا کے ساتھ اہم تجارتی اور سفارتی تعلقات کو دباؤ میں ڈال سکتا ہے، جہاں جمہوری پسپائی اور انسانی حقوق پر تشویش بڑھ گئی ہے۔ 

اس تناظر میں، کوئی واضح تزویراتی قدم کسی شدید ردعمل کو دعوت دے سکتا ہے۔ کنمنگ اجلاس بنیادی طور پر اقتصادی نوعیت کا تھا – جس میں تجارت، رابطہ کاری، بنیادی ڈھانچے اور ثقافتی تعاون پر بات ہوئی۔ تاہم، جب چین اور پاکستان نے مشترکہ ورکنگ گروپ کے ذریعے سہ فریقی تعاون کو ادارہ جاتی شکل دینے کی تجویز پیش کی، تو بنگلہ دیش نے اس سے سفارتی تناظر میں گریز کیا۔ 

ڈھاکہ کی خارجہ پالیسی طویل عرصے سے اس اصول پر مبنی رہی ہے کہ تمام بڑی طاقتوں کے ساتھ کھلے رابطوں کو برقرار رکھا جائے اور بلاک سیاست کے جال سے بچاجائے۔ تاہم، اس کے باوجود گذشتہ پندرہ برسوں میں بنگلہ دیش خاصا انڈیا کے زیراثر ہی رہا ہے۔ 

انڈیا کے حوالے سے بنگلہ دیش کے اقدامات کی تشریح کے لیے باریک بینی کی ضرورت ہے، جب کہ ڈھاکہ اپنے بین الاقوامی شراکت داریوں کو وسعت دے رہا ہے۔۲۰۰۰ء اور ۲۰۱۰ء کے عشروں کے دوران، شیخ حسینہ کی عوامی لیگ نے بھارتی انٹیلی جنس اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے ساتھ قریبی رابطہ کاری کے ساتھ، باغی خطرات کو دبانے میں اہم کردار ادا کیا۔تاہم، مجوزہ سہ فریقی ورکنگ گروپ سے بنگلہ دیش کے پیچھے ہٹنے کے باوجود انڈیا چین اور پاکستان دونوں کے ساتھ بنگلہ دیش کے تعلقات کے حوالے سے شدید دباؤ کا شکار ہے۔  

بیسویں صدی کے اوائل میں متحدہ ہندوستان میں مرحوم احمد شاہ پطرس بخاری اپنے ایک طنزیہ مضمون ’مرید پور کا پیر‘ میں رقم طراز ہیں کہ جس شہر میں وہ مقیم تھے، وہیں کانگریس نے اپنا سالانہ اجلاس منعقد کرنے کی ٹھان لی اور جب ایسا جلسہ بغل میں ہو رہا ہو، تو کون متقی وہاں جانے سے گریز کرے گا۔ یہی صورت حال کم و بیش حال ہی میں مجھے پیش آئی۔ معلوم ہوا کہ ترکیہ کے عروس البلاد استنبول میں ۵۷ ؍اراکین پر مشتمل ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC)کے وزرائے خارجہ کا اکاون واں اجلاس منعقد ہو نے والا ہے۔ اب ترکیہ میں مقیم کون صحافی اس موقعے کو ضائع ہونے دیتا۔ ایک تو خطے کی صورت حال ’ایران- اسرائیل جنگ‘، غزہ کی قتل گاہ کا المیہ، دوسرا اس کانفرنس کے دوران افریقی ملک برکینا فاسو کے وفد سے ملاقات کی طلب تھی، جس کے صدر ابراہیم ترورے نے استعماری طاقتوں کے خلاف افریقی ممالک کو متحد کرنے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔  

ترکیہ کے شہر استنبول کی داد دینی پڑے گی کہ شہر میں ستاون وزرائے خارجہ اور ان کے وفود کی موجودگی کے باوجود نہ کہیں ٹریفک میں خلل تھا اور نہ معمولات زندگی میں کوئی رخنہ۔ کانفرنس بلڈنگ تک معلوم ہی نہیں پڑا کہ شہر میں اتنی بڑی تعداد میں وی وی آئی پییز جمع ہیں ۔ کوئی سڑک بند، نہ پولیس کے دستے نظر آرہے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک یا دو غیر ملکی سربراہان کی آمد پر بھی نئی دہلی میں تو کئی اہم شاہرائیں بند ہو جاتی ہیں جن سے کئی کئی کلومیٹر دُور تک ٹریفک جام لگتا تھا۔ اسلام آباد میں پچھلے سال ’شنگھائی تعاون تنظیم‘ کے اجلاس کے موقع پر تو پورا شہر ہی بند کردیا گیا تھا۔ حتیٰ کہ شہرکے نواح میں کانفرنس ہال سےبہت دُور شادی ہالوں تک کو بند رکھنے کی ہدایت دی گئی تھی۔  

 کانفرنس کے استقبالیہ پر معلوم ہوا کہ میرا نام فہرست میں موجود ہی نہیں تھا۔ وجہ بتانے کےلیے کوئی موجود نہیں تھا۔ دو گھنٹہ منت سماجت کرنے اور یہ دہائی دینے کے بعد کہ میں انقرہ سے بس اسی کانفرنس کو کور کرنے کےلیے چلا ہوں اور ہوٹل میں مقیم ہوں، تو اسکارٹ کرکےمجھے پریس گیلری میں لے جایا گیا، جو اسٹیج سے کافی دور اوپر کی منزل میں تھی۔ بتایا گیا کہ صرف افتتاحی سیشن ہی پریس کےلیے اوپن ہے۔ترک افسران بار بار معذرت کا اظہار کررہے تھے کہ رجسٹریشن کے باوجود او آئی سی کے سیکرٹریٹ کے اجازت نامے کی فہرست میں میرا نام کیوں نہیں تھا؟ معلوم ہوا کہ میرا بھارتی پاسپورٹ اور شہریت دیکھ کر آو آئی سی سیکرٹریٹ نے میرا نام فہرست میں شامل نہیں کیا تھا۔ ان کو ہدایت تھی کہ بھارتی اور اسرائیلی صحافیوں کو اس کانفرنس تک رسائی نہیں دینی ہے۔ 

 افتتاحی سیشن سے ترک صدر رجب طیب ایردوان نے خطاب کیا۔ اس کے بعد صحافیوں کو دوسری بلڈنگ میں میڈیا سینٹر لے جایا اور بتایا گیا کہ اب کانفرنس کی جائے وقو ع تک ان کی رسائی بند ہے۔ یہ ایک نئی روایت ہے۔ پچھلے تیس برسوں سے سارک سربراہ یا وزرائے خارجہ کانفرنس، ناوابستہ ممالک کا اجلاس،برکس، شنگھائی تعاون تنظیم، افریقہ چوٹی اجلاس یا اقوام متحدہ کی ماحولیات سے متعلق وغیرہ ایسی اَن گنت کانفرنسیں کور کرنے کا موقع ملا ہے۔ ان میں ایک یا دو سیشن آن ریکارڈ میڈیا کےلیے کھول دیئے جاتےتھے، مگر پھر صحافی وہیں بلڈنگ کے آس پاس یا لابی وغیر میں ہی گھومتے پھرتے تھے، اور مہمان بھی ناشتے، لنچ کے وقت ان سے مل لیتے تھے۔ اس طرح جب صحافیوں کا کانفرنس کے مندوبین کے ساتھ ملنا جلنا ہوتا تھا، تو خبرو ں کے حصول کے علاوہ ان کے شعور اور عالمی امور کی سوجھ بوجھ میں اضافہ ہوتا تھا اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت بھی پیدا ہوتی تھی۔  

صحافیوں کےلیے یہ اب ایک سنجیدہ معاملہ بن چکا ہے۔پوری دنیا میں مسند ِحکومت پر فائز افراد کو لگتا ہے کہ اب ان کو میڈیا کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ سوشل میڈیا نے ان کی رسائی عوام تک براہِ راست کر دی ہے۔ اس لیے میڈیا کو اب رسمی یا غیر رسمی رسائی دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس صورتِ حال میں صحافیوں کی موجودہ نسل کو علمی مہارت یا تجزیہ کاری کا تجربہ حاصل ہو تو کیسے ہو؟ خود صحافیوں نے بھی اس خرابی میں اضافہ کیا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کے آنے سے بس مائیک اور کیمرہ رپورٹروں کو کسی مندوب کے آگے کرکے بریکنگ نیوز لانی ہوتی ہے۔ اس پر خاصے جھگڑے بھی ہوتے تھے، اسی وجہ سے رسائی بند کر دی گئی ہے۔ انفارمیشن حاصل کرنے کےلیے ایک غیر رسمی بریفنگ اور انٹر ایکشن کا ہونا ضروری ہے، جو بعد میں مضامین یا اداریوں میں جھلکتا ہے۔ ورنہ وہی حال ہوگا، جس کا مظاہرہ حال کی ’انڈیا-پاکستان جنگ‘ میں انڈین میڈیا خاص طور پر ٹی وی چینل کر چکے ہیں۔  

کانفرنس کے پہلے روز کے اختتام کے فوراً بعد ہی امریکا نے ایران پر حملہ کرکے اس کی نوعیت ہی بدل دی۔ اگلے روز ایرانی وزیر خارجہ نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور اپنا دورہ ادھورا چھوڑ کر صلاح و مشورہ کےلیے ماسکو چلے گئے۔ چونکہ شام کی جنگ میں ایران نے روس کی خاصی مدد کی تھی اور مشرق وسطیٰ میں ایک عرصے کے بعد روس کو قدم جمانے اور بحری اڈہ قائم کرنے میں مدد کی تھی، اس لیے ایران کو اُمید تھی کہ روس اس احسان کا کچھ بدلہ تو ضرور چکائے گا۔  

اس کانفرنس کے دوران احساس ہوا کہ پاکستان اور سعودی عرب ایک مدت تک مسلم ممالک کی قیادت پر فائز رہے تھے،کئی عشرے قبل ایک بڑی تبدیلی یہ رونما ہوئی کہ مسلم ممالک کی سربراہی آہستہ آہستہ پاکستان اور سعودی عرب کے ہاتھوں سے نکل کر ترکیہ اور ایران کے پاس چلی گئی۔ جب سے او آئی سی کا قیام عمل میں آیا، تب سے ہی پاکستان میں وزارت خارجہ کی نکیل چونکہ ذولفقار علی بھٹو سے لے کر شاہ محمود قریشی بشمول صاحب زادہ یعقوب خان وغیر جیسے زیرک اور انگریزی جاننے والے افراد کے ہاتھوں میں ہوتی تھی، اس لیے کانفرنس کا ایجنڈا اور اعلامیہ اکثر وہی ڈرافٹ کرتے تھے۔ سعودی عرب میں اس تنظیم کا سیکرٹریٹ تھا اور مالی طور پر سب سے زیادہ بار وہی اٹھاتا تھا۔ اس لیے ان دو ملکوں کا رُتبہ اسلامی تنظیم میں وہی تھا، جو اقوام متحدہ میں امریکا اور سوویت یونین کا ہوتا تھا۔ مگر تین عشرے قبل آہستہ آہستہ پاکستان اس تنظیم کےلیے غیر متعلق ہوتا گیا اور یہ منصب ترکیہ کے پاس آتا گیا، جو اس دوران خاصا فعال ہو گیا تھا۔ اس کے ساتھ ایردوان کی حکومت آنے کے بعد یہ رول زیادہ بڑھ گیا۔ 

 سعودی عرب خود قیادت کے منصب سے پیچھے ہٹتا گیا، جس کا خاطر خواہ فائدہ قطر، متحدہ عرب امارات، ملایشیا اور ایران کو حاصل ہوا۔ نظریاتی وجوہ کی بناکر ایران کا رول محدود رہا مگر اس نے لیڈرشپ حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ موجودہ حالات میں خاص طور پر انڈیا کے ساتھ محدود جنگ میں ہارڈ پاور کا استعمال کرکے پاکستان کے لیے قیادت کا منصب پھر استوار ہو رہا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ جنگ کی وجہ سے ایران کا کردار بھی بڑھ گیا ہے۔ اس کانفرنس میں محسوس ہوا کہ سعودی عرب قیادت کے منصب کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ عرب ممالک میں قطر اور افریقی ممالک میں برکینا فاسو اس بار بہت ہی سرگرم تھے۔  

کانفرنس کے دوسرے دن جب خاصی تگ و دو کے بعد اعلامیہ جاری ہوا، تو مایوس کن بات یہ تھی، کہ اس میں ایران پر اسرائیل کے حملوں کا تو ذکر تھا، مگر امریکا کا کہیں نام شامل نہیں تھا۔ ۵۷ ممالک میں کوئی بھی امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی ناراضی مول نہیں لینا چاہتا تھا۔ پاکستان کی افواج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر، صدر ٹرمپ کے ساتھ اپنی ملاقات کے بعد ایردوان کو بریف کرنے پہنچ گئے تھے اور انھوں نے بھی افتتاحی سیشن میں شرکت کی۔  

ایک اہم انکشاف یہ تھا کہ مسلم دنیا میں اب یہ سوچ پنپ رہی ہے کہ طاقت اب صرف سیاست اور احتجاج میں نہیں، بلکہ تعلیم، ابلاغ اور ادارہ جاتی صلاحیت میں بھی پنہاں ہے۔ اس کانفرنس میں استنبول میں ہی ایک ’میڈیا فورم‘ کے قیام کی منظوری دی گئی۔ اس کا خاکہ ایک عشرہ قبل دیا گیا تھا، مگر ابھی اس کا قیام باقی تھا۔ بتایا گیا کہ اسلامو فوبیا کے خلاف یہ ایک مؤثر فورم کا کام کرے گا اور مسلم دنیا کےلیے بیانیہ وضع کرنے کا بھی کام کرے گا۔  

 ایک ایسے عہد میں جب تاثرات کی جنگ سفارتی میدانوں سے پہلے ڈیجیٹل دنیا میں لڑی جاتی ہے، مسلم دنیا کے لیے اپنی کہانی خود سنانا — بغیر مسخ، تعصب یا بیرونی مفروضات کے — نہ صرف ثقافتی ضرورت ہے بلکہ ایک سیاسی ہتھیار بھی ہے۔فورم کے تحت تربیتی پروگراموں کا آغاز، کردار کشی پر فوری ردعمل کے نظام، اور عوامی نشریاتی اداروں و میڈیا ایجنسیوں کے درمیان ہم آہنگی کا فروغ متوقع ہے۔ ایسے وقت میں جب ایک وائرل کلپ یا جھوٹی خبر بین الاقوامی پالیسی کو کمزور کرسکتی ہے یا نفرت انگیزی کو ہوا دے سکتی ہے، تو یہ پہل علامتی نہیں بلکہ ایک تزویراتی ضرورت بن چکی ہے۔ 

اسلاموفوبیا سے نمٹنے کی حکمت عملی کے طور پر سفارش کی گئی کہ اشتعال انگیز تقاریر کو قابلِ سزا جرم بنانا اور مذہبی تعصب کے خلاف تعلیمی إصلاحات کرنا اور اقوام متحدہ کی شراکت سے ایسا عالمی نظام تشکیل دینا، جو مذہبی امتیاز کی تفتیش اور نگرانی کرکے اس پر فوری کارروائی کرے۔ جس بھی ملک سے کوئی شہری اس ادارہ کے پاس مذہبی امتیاز کی شکایت کرے، تو اس کا فوری ازالہ کیا جائے۔  

اگر یہ اقدامات عملی شکل اختیار کر لیں تو یہ بین الاقوامی قانون میں مذہبی رواداری سے متعلق اسلامی دنیا کا پہلا بامعنی کردار ہو گا۔ عشروں سے مسلم ممالک تعصب اور نفرت کی نشاندہی کرتے رہے ہیں، اب وہ ان کا تدارک پیش کر رہے ہیں، یہ — ایک ایسی پیش رفت ہے جسے مغربی ممالک نظرانداز نہیں کر سکیں گے۔ 

اعلامیہ میں جہاں برما کے روہنگیا مسلمانوں کا تذکرہ کیا گیا تھا، وہاں اس میں چین کے شین جیانگ یا چینی ترکستان کے اویغور آبادی کا تذکرہ نہیں تھا۔ چونکہ یہ اجلاس ہی استنبول میں منعقد ہورہا تھا، جہاں جلاوطن ایغور آبادی اچھی خاصی ہے، تو ان کا ذکر نہ کرنا نوٹ کیا گیا۔ معلوم ہوا کہ پچھلے اعلامیوں میں جب ایغور آبادی کا تذکرہ ہوتا تھا تو چین اس پر ناراض ہوتا تھا۔ 

 چند برس قبل چین نے اس کا توڑ یہ نکالا کہ جدہ میں او آئی سی سیکرٹریٹ کےلیے ایک خصوصی سفیر کا تقرر کیا۔ جس کی وجہ سے اس کو اسلامی تنظیم کے اندر رسائی حاصل ہوگئی اور اس نے تنظیم کو پیش کش کی کہ وہ ہر سال مسلم ممالک کے وفد کو شین جیانگ کا دورہ کرنے کی اجازت دیں گے اور اگر وہاں عوام کی فلاح و بہبود کےلیے ان کو کوئی سفارش کرنی ہو، تو براہِ راست اسلامی تنظیم میں متعین چینی سفیر کو کیا کریں۔ اس کے بعد سے اعلامیہ میں ایغور آبادی کا ذکر آنا بند ہوگیا۔  

اسی کانفرنس کے دوران او آئی سی سیکرٹریٹ نے چین کی وزارتِ تعلیم کے ساتھ ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے۔ جس کا مقصد وظائف، تعلیمی تبادلے اور مشترکہ تحقیق کے ذریعے انسانی وسائل کی ترقی ہے۔ جہاں او آئی سی عشروں سے مغربی اداروں سے منسلک رہی ہے، وہاں یہ شراکت ایک نئی جہت کی طرف اشارہ ہے۔ یوں — ترقی کے ایسے ماڈلز تیار کئے جائیں گے جو مغربی امداد کی شرائط سے آزاد ہوں گے۔ او آئی سی ممالک کے لیے یہ ایک قیمتی موقع ہے کہ وہ اپنی نوجوان نسل کو تعلیم، سائنس اور تحقیق کے میدان میں مغربی انحصار سے باہر نکلنے کے راستے فراہم کرے۔ چینی سفیر چانگ ہوا نے اس معاہدے کو مسلم دُنیا کے ساتھ تعلقات میں ’اہم سنگِ میل‘ قرار دیا اور تعلیم، سائنس و ٹکنالوجی، اور دیگر مشترکہ شعبوں میں مزید تعاون کے عزم کا اظہار کیا۔ 

مسلم دنیا میں اعلیٰ تعلیم، سائنسی تحقیق، علمی تبادلہ اور ادارہ جاتی تعاون کو فروغ دینے کے لیے ایک اسٹرے ٹیجک فریم ورک قائم کرنے کا بھی اعلان کیا گیا۔جس میں بیس سے زائد جمہوریہ ترکیہ کے اعلیٰ تعلیمی ادارے شامل ہوںگے۔ اس کے ذریعے مشترکہ تحقیق، تربیتی پروگرام، اور رکن ممالک کی جامعات کے درمیان نیٹ ورکنگ کو تقویت ملے گی۔ 

اسی طرح او آئی سی مرکز برائے پولیس تعاون کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ جس میں ابتدا میں ترکیہ ، قطر، موریتانیا، گنی بساؤ، گیمبیا اور لیبیا وغیرہ شامل ہوں گے۔ یہ مرکز ایک رضاکارانہ ماہر ادارے کے طور پر تربیت، انٹیلی جنس شیئرنگ اور سرحد پار تعاون کو فروغ دے گا۔ دہشت گردی، سائبر جرائم اور انتہا پسندی جیسے چیلنجوں کے لیے مشترکہ ردعمل کی ضرورت ہے۔ اس مرکز کو وسعت دی جائے تو مسلم ممالک مغربی سیکیورٹی سانچوں اور ٹکنالوجی پر انحصار کم کر سکتے ہیں۔  

صدر ایردوان نے افتتاحی خطاب میں کہا کہ ’’مسلم دنیا کو صرف ردعمل دینے والا نہیں، بلکہ راہ نمائی فراہم کرنے کا کردار ادا کرنا ہو گا۔ اس قیادت کا اندازہ تقریروں یا پریس ریلیز سے نہیں، بلکہ اُن اداروں، مراکز اور معاہدوں کے عملی اطلاق سے ہو گا جن کا اعلان کیا جائے گا‘‘۔ 

استنبول کا یہ اجلاس ردعمل پر مبنی نہیں بلکہ بھرپور اقدامات کی طرف گامزن ہونے کی نوید سناتا ہے۔ تاہم، اعلامیے کافی نہیں، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی بین الحکومتی تنظیم اپنی آبادیاتی قوت کو ادارہ جاتی طاقت میں تبدیل کرے۔ 

ایران پر اسرائیل کے حملے کے حوالے سے وزرائے خارجہ نے ایک کھلے مینڈیٹ والے رابطہ گروپ کے قیام پر اتفاق کیا، جو دنیا کی بڑی طاقتوں سے رابطہ قائم کر کے کشیدگی میں کمی، اور اسرائیلی جارحیت کے احتساب کے لیے اقدامات کرے گا۔ وزرائے خارجہ نے ان کوششوں کی مذمت کی جو اسرائیلی حکام کی جانب سے القدس الشریف کی تہذیبی شناخت کو مسخ کرنے اور مسجد اقصیٰ کی قانونی و تاریخی حیثیت بدلنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔اعلامیے میں اردن کی حکومت کی کوششوں کو سراہا گیا، جو یروشلم میں اسلامی و مسیحی مقدس مقامات کی متولی ہے۔ بیت المال القدس ایجنسی اور القدس کمیٹی کے کردار کی بھی تعریف کی گئی۔ او آئی سی نے یونیسکو کی ان قراردادوں کا خیرمقدم کیا جن میں مسجد اقصیٰ کو اسلامی عبادت گاہ قرار دیا گیا اور اردن کی انتظامی بالادستی کو تسلیم کیا گیا‘‘۔ 

ایردوان نے کہا کہ ’’اسلامی تنظیم کے رکن ممالک کو صرف اپنے ہی مسائل کا حل نہیں نکالنا، بلکہ پوری دنیا کے مظلوموں کی آواز بھی بننا ہے۔ مسلم اقلیتیں، او آئی سی اور باقی دنیا کے درمیان ایک پل کا کام کرتی ہیں‘‘۔ ان کا اشارہ مغربی اور دیگر ممالک میں مسلم اقلیت کی طرف تھا، جو ایک پُل کا کام کرسکتے ہیں اور ان ممالک میں تنظیم کےلیے ایک اثاثہ ہیں۔ ان خدمات کے بدلے میں ان کے مفادات کا بھی خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔  

انھوں نے فلسطینی دھڑوں کے مابین اختلافات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’یہ ہمارے لیے تکلیف دہ ہے کہ پوری اسلامی دنیا فلسطین کی حمایت میں متحد ہے مگر ہمارے بھائی آپس میں تقسیم کا شکار ہیں۔استنبول سے لے کر القدس تک، ترکوں سے لے کر کردوں تک، سنیوں سے لے کر شیعوں تک — ہمارا قبلہ ایک ہے، تو ہمارا مقصد اور مقدر بھی مشترک ہے‘‘۔  

او آئی سی نے اقوامِ متحدہ میں مشترکہ سفارتی اقدام شروع کرنے کا فیصلہ کیا، جس کا مقصد اسرائیل کے خفیہ جوہری پروگرا م کو دنیا کے سامنے کھولنے اور اس کو جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ یہ فیصلہ ایک بند کمرہ اجلاس میں کیا گیا، جو ایران کی درخواست پر منعقد ہوا۔  

ایردوان نے مغربی طاقتوں پر دوہرے معیار برتنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا: ’’ایران جیسے این پی ٹی پر دستخط کنندہ ممالک پر دباؤ ڈالنے والے یہ کیسے نظرانداز کر سکتے ہیں کہ اسرائیل نہ صرف اس معاہدے سے باہر ہے، بلکہ معائنے کو بھی رد کرتا ہے؟ ‘‘ 

لگتا ہے کہ استنبول میں منعقدہ یہ اجلاس صرف تقاریر یا قراردادوں تک محدود نہیں رہا۔ اس نے اُمت ِ مسلمہ کے لیے ایک نیا راستہ متعین کیا ہے، جو جوہری توازن کی بحالی، مظلوموں کے دفاع، اور عالمی انصاف کے قیام پر مبنی ہے۔ آنے والے دن اس بات کا امتحان ہوں گے کہ اسلامی تعاون تنظیم صرف آواز بلند کرے گی یا اپنے کسی اعلان پرعمل بھی کرے گی؟ 

کشمیر کی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے، مگر بعض چہرے تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کے لیے ثبت ہو جاتے ہیں۔ برہان مظفر وانی شہید انھی چہروں میں سے ایک ہے، جس نے کم عمری میں برہمنی تسلط کے خلاف بندوق اٹھا کر قابض انڈین فوجیوں کو چیلنج کیا، اور اپنی شہادت سے تحریکِ آزادی کو ایک نئے مرحلے میں داخل کر دیا۔ اس جدوجہد کا فکری محور وہی تھا، جو قائدِ حریت سیّد علی گیلانی پوری زندگی دہراتے رہے:’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے!‘ 

برہان وانی ۱۹۹۴ء میں ڈاڈہ سرہ ترال کے ایک علمی اور باوقار گھرانے میں پیدا ہوا۔ ان کے والد مظفراحمد وانی اسکول پرنسپل، والدہ پوسٹ گریجویٹ، اور دادا ریاستی محکمۂ منصوبہ بندی میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے پر فائض رہے۔ پورے علاقے میں اس خاندان کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، مگر غلامی کے سائے میں باعزّت خاندان بھی محفوظ نہ رہے۔۹۰ کے عشرے میں انڈین فوجیوں کے ہاتھوں بُرہان وانی کی نظروں کے سامنے نعیم اور عادل جیسے قریبی رشتہ دار بھی شہید کر دیے گئے۔ گھر پر بار بار چھاپے، بے جا تلاشی، اور توہین آمیز رویہ ان کے لیے روز کا معمول بن چکا تھا۔ 

انھی سخت اور پرآشوب حالات میں برہان وانی نے پرورش پائی۔ وہ اسکول جاتا، مگر چاروں طرف انڈین فوجیوں اور ریاستی پولیس فورس کے مظالم اپنی آنکھوں سے دیکھتا رہا۔ ۲۰۱۰ء میں جب اس نے اپنے بھائی کو بھارتی اہلکاروں کے ہاتھوں لہولہان اور بے ہوش ہوتے دیکھا، تو اس کے اندر حُریت کی اُمنگ بھڑک اٹھی۔ غلامی کے خلاف جذبات نے فیصلہ کن شکل اختیار کرلی، اور وہ مجاہدینِ آزادی کی صفوں میں شامل ہو گیا۔’شیر کی ایک دن کی زندگی‘ کا فلسفہ اس کے لیے فقط قول نہیں، زندگی کا نصب العین بن گیا۔ 

محض ۱۵ برس کی عمر میں اس نے ’حزب المجاہدین‘ میں شمولیت اختیار کی، جس کی قیادت سیّدصلاح الدین کر رہے تھے۔ برہان وانی کی وابستگی صرف عسکری نہ تھی، بلکہ فکری طور پر وہ سیّد علی گیلانیؒ کو اپنا امام مان چکا تھا۔ وہ امام گیلانی کی ’ایمانی استقامت‘ اور صلاح الدین کی ’عسکری قیادت‘ کا عملی امتزاج بن گیا۔ 

برہان وانی نے بندوق کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کو مزاحمت کا محاذ بنایا۔ اس کی ویڈیوز، تصاویر، اور بیانات نے انڈین پراپیگنڈے کو شکست دی، اور حُریت پسندی کی ایک نئی علامت تراشی___ —ایمان، جوانی، سادگی، اور نظریاتی پیکر۔ اس نے فرضی نام یا خفیہ شناخت کے بجائے اپنا اصل نام اپنایا۔ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پولیس اہلکاروں سے ہتھیار چھین کر، انھی ہتھیاروں کو قابض فورسز کے خلاف استعمال کرنے کا ہنر سیکھا۔ 

سوشل میڈیا ٹیم کی تنظیم سازی، حکمتِ عملی اور ابلاغ میں اس کی قائدانہ صلاحیتیں نمایاں ہوئیں، اور جلد ہی حزب المجاہدین کی قیادت اس کے سپرد کردی گئی۔ اس نے نوجوانوں میں نئی روح پھونکی اور حزب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا۔ درجنوں نہیں، سیکڑوں نوجوان اس کی دعوت پر حزب میں شامل ہوئے، اور جو لوگ عسکریت کے خاتمے کی باتیں کر رہے تھے، وہ خاموش ہوگئے۔ نائب امیر حزب، سیف اللہ خالد کے مطابق، شہادت سے بیس دن قبل برہان وانی نے یہ پیغام دیا تھا: ’’کشمیری قوم نہ جھکے گی، نہ بکے گی۔ ان شاء اللہ ضرور آزادی حاصل کرکے رہے گی‘‘۔اس نے کہا تھا کہ ’’جو بھی صلاحیتیں اللہ نے دی ہیں، ان سے حق ادا کرنے کی کوشش کریں‘‘،اور اس نے اپنی شہادت کی دعا بھی انھی الفاظ میں کی تھی۔ 

۸جولائی ۲۰۱۶ء کو جب برہان مظفر وانی کی شہادت کی خبر پھیلی، تو وادی میں زلزلہ آ گیا۔ بھارت نے اُس کی مقبولیت کو ختم کرنے اور تحریکِ آزادی کو دبانے کے لیے ظلم کی انتہا کر دی۔ 

۲۰۰ سے زائد شہادتیں، ۱۵ ہزار سے زیادہ زخمی، اور ۲۰ ہزار سے زائد گرفتاریاں کیں،  —جن میں طالب علم، ائمہ، اور سیاسی کارکن شامل تھے۔ مظاہرین کو کچلنے کے لیے پیلٹ گنز کو استعمال کیا گیا، جس کے نتیجے میں ۱۵۰۰ سے زائد نوجوان مستقل طور پر بینائی سے محروم ہوگئے۔ اُسی روز امام سیّد علی گیلانیؒ نے فرمایا:’’برہان شہید ایک نظریہ ہے، اور نظریات کو گولی سے نہیں مارا جاسکتا‘‘۔واقعی، برہان وانی کی شہادت کے بعد ہزاروں نوجوانوں نے تحریک میں شمولیت اختیار کی۔ سید صلاح الدین نے کہا تھا:’’بھارت نے ایک برہان کو شہید کیا ہے، لیکن ہزاروں برہان پیدا ہو گئے ہیں‘‘۔یہ بات محض دعویٰ نہ رہی؛ سبزار بٹؒ، ریاض نائیکو ؒ، ڈاکٹر منان وانیؒ، اور پروفیسر رفیعؒ بٹ سبھی کسی نہ کسی شکل میں برہان وانی شہید سے متاثر تھے۔ 

۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو بھارتی حکومت نے آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵-اے کی منسوخی کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر کا آئینی تشخص ختم کر دیا۔ لاکھوں فوجی پہلے ہی موجود تھے، مزید ۸۰ہزار سے زائد تعینات کر دیے گئے۔ ہزاروں رہنما، کارکن، صحافی گرفتار یا نظربند ہوئے۔ سیّد علی گیلانیؒ کو نظربند رکھا گیا، حتیٰ کہ وہ اسی حالت میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ 

UAPA جیسے قوانین کے ذریعے صحافت کو جکڑا گیا، دفاتر پر چھاپے، صحافیوں پر مقدمات، اخبارات کی بندش، اور ڈومیسائل قانون کے ذریعے آبادیاتی تبدیلی کی مذموم کوشش کی گئی۔ 

اب سوال یہ ہے:کیا برہان وانی شہید صرف ماضی کی ایک یاد ہے؟کیا کشمیری عوام نے ظلم کے آگے ہتھیار ڈال دیے ہیں؟جواب واضح ہے: نہیں۔بھارت لاکھ جبر کرے، برہان وانی شہید آج بھی کشمیری قوم کے اجتماعی شعور میں زندہ ہے۔تحریکِ آزادی آج بھی جاری ہے۔گرچہ عسکری مزاحمت کا انداز بدل چکا ہے، مگر جذبہ، ایقان اور مزاحمتی روح پہلے سے زیادہ توانا ہے۔ برہان وانی شہید اُس تحریک کا مظہر تھا جس کی فکری بنیادیں شہید علی گیلانیؒ نے رکھی تھیں، اور جو آج بھی ہر ظلم کے خلاف آواز بن کر ابھرتی ہے۔برہان وانی شہید فقط ایک مزاحمت کار نہ تھا، بلکہ وہ ہرکشمیری کے خواب کا استعارہ بن چکا ہے۔ایک ایسا خواب جو نسل در نسل دلوں میں جاگتا ہے، بستی بستی گونجتا ہے۔ 

برہان وانی شہید چلا گیا، مگر اس کی شہادت تحریکِ مزاحمت کا ایسا باب بن گئی ہے جو ہرکشمیری نوجوان کے دل کی آواز ہے، ہر ماں کی دعا میں شامل ہے، اور ہر ظلم کے جواب میں نعرہ بن کر ابھرتا ہے: ’’برہان! تیرا خون رنگ لائے گا!‘‘ 

سات عشروں سے زیادہ عرصہ گزر چکا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے مظلوم لوگ، انڈیا کے بے رحم تسلط تلے زندگی گزار رہے ہیں۔اُن کے چاروں طرف دہشت، بارود، گولی، بے حُرمتی، پھانسی، جیل، تذلیل اور انسانی زندگی کی بے توقیری روز کا معمول ہے۔اقوام متحدہ نے ۱۹۴۸ء سے ان کا خود ارادیت کا حق تسلیم کیا ہے ۔ لیکن نہ ویٹو کلب نے اپنے فیصلے کو نافذ کرایا اور نہ انڈیا نے عالمی برادری کے فیصلے کو کسی احترام کے قابل سمجھا۔ نتیجہ یہ کہ اس جبر کے خلاف جدوجہد میں، ۱۹۸۹ء سے اب تک تقریباً ایک لاکھ کشمیری شہید ہو چکے ہیں، ہزاروں کو جبری طور پر غائب کیا گیا،  حراست میں رکھا، یا بھارتی فورسز کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ 

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد ۴۷ (۱۹۴۸ء) — غیر جانب دارانہ رائے شماری کا مطالبہ کرتی ہے — ، اسے ایک طرف پھینکتے ہوئے، انڈیا نے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی اور کشمیری آواز کو دبانے کا عمل جاری رکھا۔ اسی دوران ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو ایک سنگین موڑ لیا، جب وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارتی حکومت نے اپنے آئین کے آرٹیکل ۳۷۰، اور ۳۵-اے کو منسوخ کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی۔ اس اقدام کے نتیجے میں فوجی لاک ڈاؤن، بڑے پیمانے پر گرفتاریاں، کرفیو اور طویل مواصلاتی بلیک آؤٹ ہوا۔ 

آج ۹ لاکھ سے زائد بھارتی فوجی، خطے میں دندنا رہے ہیں۔ اس طرح کشمیر دنیا کا سب سے زیادہ فوج زدہ علاقہ بن چکا ہے۔ ۲۰۱۹ء کے مذکورہ بالا کریک ڈاؤن کے بعد، ۱۳ ہزار سے زائد نوجوان کشمیریوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA) اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ (UAPA) جیسے سخت وحشیانہ قوانین کے تحت حراست میں لیا گیا، جو بغیر مقدمہ چلائے حراست کی اجازت دیتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی ۵۵۰ دن سے زائد عرصے تک بندش نے مواصلات، تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور مقامی معیشت کو مفلوج کر دیا۔ 

ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن سمیت بین الاقوامی انسانی حقوق کے نگران اداروں نے انڈیا کے اقدامات کی مذمت کی ہے۔ ۲۰۱۹ء کے OHCHR رپورٹ میں وسیع پیمانے پر بدسلوکیوں کی تفصیل دی گئی،جن میں من مانی گرفتاریاں، تشدد، اور چھرّے والی بندوقوں کا استعمال، جس کے نتیجے میں ایک ہزار سے زائد شہریوں، جن میں زیادہ تر نابالغ تھے، مستقل اندھے ہو گئے۔ 

ان خدشات میں اضافہ کرتے ہوئے، انڈیا نے ۲۰۱۹ء سے غیر مقامی افراد کو لاکھوں ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کیے ہیں ۔ یہ ایک ایسا قدم ہے جو خطے کی مسلم اکثریتی حیثیت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ ایسی آبادیاتی انجینئرنگ، چوتھے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہے، جو مقبوضہ علاقوں کی آبادی کی ساخت میں تبدیلی کی ممانعت کرتا ہے۔ 

اپریل ۲۰۲۵ء میں، پہلگام میں تشدد کے افسوس ناک واقعے کو بھارتی حکومت نے پاکستان کے خلاف دشمنی بڑھانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ تاہم، پاکستان کے مضبوط سفارتی اور فوجی ردعمل نے اب تک مزید تصادم کو روکا ہے۔ اس کے باوجود، ’ہندوتوا‘ قوم پرستی کی شاہراہ پر چلنے والی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ہٹ دھرمی پر مبنی اسٹرے ٹیجک جرم کرنے کے لیے تیار دکھائی دیتی ہے، جو کشمیر کے اس تنازعے کے طے شدہ قانونی حل کے بجائے موت اور خون کی طرف دُنیا کو دھکیل سکتا ہے۔ 

انڈیا اور پاکستان دونوں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ممالک ہیں۔ کشمیر پر ایک بھی غلط قدم تباہ کن علاقائی یا عالمی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ عالمی برادری اب خاموش تماشائی بننے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ یہ ضروری ہے کہ اقوام متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم (OIC)، یورپی یونین، اور عالمی طاقتیں فیصلہ کن مداخلت کریں تاکہ طویل عرصے سے موجود ’اقوام متحدہ سکیورٹی کونسل‘ (UNSC) کی قراردادوں پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ 

کشمیر صرف ایک علاقائی تنازعہ نہیں ہے، یہ عالمی برادری کی بے حسی کا جرم اور انڈیا کی علاقائی غنڈا گردی کا زندہ ثبوت ہے۔ یہ انسانی حقوق، انصاف اور وقار کا سوال ہے۔ اگر دنیا نے اس تنازع سے نظریں پھیرنا جاری رکھا تو اس کے نتائج جنوبی ایشیا سے کہیں آگے جا سکتے ہیں، — جو بین الاقوامی امن و سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے: کیا دنیا تباہی کو روکنے کے لیے اٹھے گی — یا اسی طرح خاموشی سے شریکِ جرم رہے گی؟ 

دُنیا بھر میں امن کو برباد کرنے اور انسانوں کے قتل عام میں دلچسپی رکھنے والی ریاست امریکا نے انڈیا کی درخواست پر، وہ جنگ جو انڈیا نے شروع کی تھی، اور اب خوفناک تباہی کا عنوان بن رہی تھی، رکوا دی۔درحقیقت اس پیش رفت کا دوسرا پہلو، امریکا کی جانب سے اپنے ایشیائی ’پولیس مین‘ ملک کو سبکی اور ذلّت سے بچانا بھی تھا۔ اسی مرحلے پر مختلف سطحوں پہ یہ نظریہ زور پکڑنے لگا کہ ’امریکی ثالثی‘ سے مسئلہ کشمیر حل کرا لیا جائے۔ 

ہمارے نزدیک ’امریکی ثالثی‘ کا آپشن اختیار کرنے سے کشمیر تنازعہ کے حل میں کئی ممکنہ تباہ کن نقصانات کشمیریوں اور پاکستانیوں کے لیے اُمڈ آئیں گے، خاص طور پر جب اسے سلامتی کونسل کی قراردادوں سے ہٹ کر دیکھا جائے گا۔ ذیل میں چند اہم نکات پیش ہیں: 

  • حقِ خود ارادیت کا موقف کمزور ہونا:سلامتی کونسل کی قرارداد ۴۷ (۱۹۴۸ء) کشمیریوں کے لیے آزادانہ رائے شماری کے ذریعے حقِ خود ارادیت کی واضح ضمانت دیتی ہے۔ ’امریکی ثالثی‘ اس اصول سے ہٹ کر دوطرفہ مذاکرات یا ایک مدت تک تنازع کو ’منجمد ‘ رکھنے جیسے حل پیش کر سکتی ہے، جو کشمیریوں کے بنیادی مطالبے کو نظرانداز کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ امریکی مفادات اکثر جغرافیائی سیاست اور طاقت کے توازن پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس لیے امریکا، کشمیریوں کی اُمنگوں کے بجائے بھارت کی علاقائی بالادستی کو ترجیح دے سکتا ہے بلکہ یقینی طور پر ایسا ہی ہوگا (یاد رہے ۱۹۶۲ء میں چین انڈیا تصادم میں مسئلہ کشمیر کے زمینی حل کے تاریخی امکان کو امریکی شاطرانہ ڈپلومیسی نے رُوبہ عمل نہ آنے دیا، اور پھر پاکستان کے ہاتھ باندھ کر مسئلہ کشمیر کو سردخانے میں دھکیل دیا)۔ 
  • انڈیا کی پوزیشن مضبوط ہونا:امریکا اور انڈیا کے درمیان اسٹرے ٹیجک شراکت داری (خاص طور پر انڈوپیسفک حکمت عملی اور چین کے مقابلے میں) انڈیا کو ’امریکی ثالثی‘ میں ایک مضبوط پوزیشن دے سکتی ہے۔ اس سے انڈیا کے غیر قانونی اقدامات، جیسے آرٹیکل ۳۵-اے اور ۳۷۰ کی منسوخی، پر عالمی تنقید کم ہو سکتی ہے۔ نام نہاد ’امریکی ثالثی ‘انڈیا کے ’داخلی معاملہ‘ کے بیانیے کو تقویت دے سکتی ہے، جس سے کشمیر کی بین الاقوامی حیثیت کمزور پڑے گی۔ 
  • پاکستان کی سفارتی پوزیشن کا کمزور ہونا:پاکستان نے ہمیشہ کشمیر تنازعہ کو اقوام متحدہ کے فریم ورک کے تحت حل کرنے پر زور دیا ہے۔ ’امریکی ثالثی ‘اس فریم ورک کو نظرانداز کر کے بلکہ توڑ پھوڑ کر پاکستان کی تاریخی سفارتی کوششوں کو کمزور کردے گی۔ 

امریکا کی جانب سے غیر جانب دار(نیوٹرل) ثالث ثابت ہونا ، تاریخ کا ایک عجوبہ ہوسکتا ہے۔ درحقیقت وہ یقینا پاکستان ہی پر دبائو ڈالے گا کہ پاکستان اپنی اصولی اپوزیشن سے پیچھے ہٹے، بلکہ پسپا ہو۔ انڈیا کے ساتھ اس کے گہرے معاشی اور فوجی تعلقات پاکستان کے لیے غیر منصفانہ نتائج کا باعث بنیں گے۔  

  • کشمیریوں پر انسانی حقوق کے اثرات:’امریکی ثالثی ‘سیاسی سودے بازی پر مرکوز ہو سکتی ہے، جو کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں (جیسے من مانی حراستیں، ریاستی تشدد وغیرہ ) کو پس پشت ڈال دے گی۔جس سے کشمیر میں فوجی قبضے کو معمول کی کارروائی کے طور پر قبول کرنے پر اہل کشمیر اور پاکستان کو مجبور کیا جاسکتا ہے، بجائے اس کے کہ اس ظلم کو ختم کیا جائے۔ 
  • علاقائی عدم استحکام کا خطرہ:بظاہر تمام اعشاریے یہی بتاتے ہیں کہ ’امریکی ثالثی‘، انڈیا کے حق میں جھکاؤ رکھے گی، تو اس سے پاکستان میں عدم اطمینان بڑھتے ہوئے دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی کو بڑھا سکتا ہے۔ یک طرفہ امریکی کردار کو دیکھ کر چین اور روس بھی تنازعہ میں شامل ہو سکتے ہیں۔ اس طرح کشمیر عالمی طاقتوں کی پراکسی جنگ کا میدان بن سکتا ہے۔ 
  • کشمیری عوام کی آواز کا دبنا:اقوام متحدہ کی قراردادوں میں کشمیری عوام کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے، لیکن ’امریکی ثالثی‘ میں انڈیا اور پاکستان ہی کو حکومتی سطح پر مذاکرات کو ترجیح دی جائے گی، جس سے کشمیری عوام اور ان کے نمائندوں (جیسے حریت کانفرنس) کی آواز نظرانداز ہوسکتی ہے۔ ’امریکی ثالثی‘ تاریخی طور پر (جیسے اسرائیل-فلسطین مذاکرات میں) کمزور فریق کی نمائندگی کو کم بلکہ برباد کرتی ہے، جو آخرکار کشمیریوں کے لیے نقصان دہ ہو گا۔ 

تجاویز 

اقوام متحدہ کے فریم ورک پر قائم رہتے ہوئے پاکستان اور کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل کے لیے زور دینا چاہیے، کیونکہ یہ بین الاقوامی قانون کے تحت ایک تسلیم شدہ حل ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ’امریکی ثالثی‘ پر انحصار کرنے یا اسے اپنے ہاتھ کاٹ کر دینے کے بجائے، ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) اور دیگر غیر جانب دار فورمز (جیسے یورپی یونین) کو متحرک کرکے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کے لیے دبائو بڑھایا جائے۔ 

کشمیریوں اور پاکستانیوں کو عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کے اداروں (جیسے ایمنسٹی انٹرنیشنل) کے ذریعے اپنی آواز بلند کرنی چاہیے تاکہ کسی بھی یک طرفہ ثالثی کو چیلنج کیا جاسکے (حالات و واقعات نے ثابت کیا ہے کہ امریکا، ثالثی جیسے ’ڈرامے‘ میں ظالم فریق کا طرف دار ہی ہوتا ہے، اور مظلوم کو مزید کچلنے کے لیے شیرہوتا ہے، غزہ کا منظر آنکھوں کے سامنے رہے)۔ 

’امریکی ثالثی‘ سے کشمیریوں کا حقِ خود ارادیت، پاکستان کی سفارتی پوزیشن، اور خطے میں استحکام، خطرے میں پڑجائیں گے۔ یہ سفارتی عیاشی بھارت کے اقدامات کو جائز قرار دینے اور کشمیری عوام کی آواز کو دبانے کا باعث بن جائے گی۔ انڈیا بظاہر لیت و لعل سے کام لے کر، آخرکار ’امریکی ثالثی‘ پر آمادہ ہوجائے گا، کیونکہ انڈیا کو معلوم ہے کہ یہ ثالث، فی الحقیقت اس کا فرنٹ مین ہی ہے۔ اس کے برعکس، اقوام متحدہ کے فریم ورک کے تحت عالمی برادری کی شمولیت زیادہ منصفانہ اور پائیدار حل فراہم کر سکتی ہے۔ 

اسی طرح سفارتی پسپائی اختیار کرتے ہوئے، انڈیا اپنی دوسری دفاعی لائن ’خودمختار کشمیر‘  یا ’تیسرے آپشن‘ کا دائو بھی کھیلنے سے نہیں چُوکے گا۔ اس جال میں پھنسنے سے بچنے کے لیے کشمیری قیادت، پاکستانی سیاسی و فوجی مقتدرہ اور رائے عامہ کو ہوشیار و بیدار رہنا ہوگا۔ گذشتہ ڈیڑھ دوسو سال کی تاریخ نے ایک بات تو بار بار ثابت کی ہے: ’’مسلمان، مذاکرات کی میز پر دھوکے میں آتا ہے اور مار بھی کھاتا ہے‘‘۔ 

مئی ۲۰۲۵ء کے پہلے بارہ دنوں میں دنیا نے انڈین دہشت گردی کی ایک ایسی خون آشامی کا مشاہدہ کیا، جو ریاستی حکمت عملی کی آڑ میں چھپی ہوئی تھی۔ ۲۲؍اپریل کو پہلگام (مقبوضہ کشمیر) میں ہونے والے ایک مہلک حملے میں ۲۶ ؍انڈین ہندو،مسلم سیاح ہلاک ہوئے۔ کسی گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہ کی، کوئی تفتیش نہ کی گئی اور نہ کوئی ثبوت منظر عام پر آیا۔ مگر نئی دہلی نے، حقائق کی عدم موجودگی کے باوجود، الم ناک و اقعے کے صرف آدھ گھنٹے کے اندر اندر اپنی مرضی کا بیانیہ تشکیل دے ڈالا۔ اتنی عجلت میں تمام مرحلوں کا طے کر ڈالنا ریاستی ڈرامے کے خالقوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا، کہ انھیں نہ سچائی مطلوب تھی اور نہ ضروری ہی تھی۔ صرف ایک چیز اہم تھی کہ برق رفتاری سے — کشیدگی کی طرف بڑھتے ہوئے، تشدد پر تیار کردہ اپنے عوام کی نفسیاتی تسکین کا سامان کیا جائے۔ 

۷ مئی کی رات، انڈیا کے جنگی طیارے لائن آف کنٹرول پار کر کے پاکستان کے اندر مبینہ شدت پسند ٹھکانوں پر بمباری کر چکے تھے۔ اس کارروائی کا نام ہی ’سندور‘ تھا، یعنی وہ سرخ سفوف جو ہندو عورتیں اپنے شادی شدہ ہونے کی علامت کے طور پر لگاتی ہیں۔ — یہ اپنی جگہ خود ایک علامتی اعلان بھی تھا۔ یہ محض فوجی کارروائی نہ تھی، بلکہ مذہبی علامتوں میں لپٹی سیاسی نمائش تھی___ زعفرانی قوم پرستی اور فضائی بالادستی کا ایک دکھاوا بھرا امتزاج۔ یہ بدلہ نہ تھا، بلکہ رسم تھی۔ یہ حکمت عملی نہ تھی، بلکہ ایک خونیں تماشا تھا۔ یہ قومی دفاع نہ تھا، بلکہ یہ زعفرانی تھیٹر تھا۔ 

اس پوری کارروائی کی منطق سکیورٹی نہیں تھی، بلکہ بہکانا تھا۔ اصل ہدف رائے دہندہ تھے۔ جنگی جہاز، انتخابی مہم کے ہتھیار تھے، مقتولین کو انتقام کے رقص میں شریک کر لیا گیا اور آگے بڑھ کر  بہاولپور، مظفرآباد، مریدکے میں ایک ایک مسجد کو بھی نشانہ بنایا۔جہاں قریب رہنے والوں، گھروں کے بچّے اور عورتیں بھی جاں بحق ہوئیں۔ حیرت کی بات ہے کہ اس انڈین حملے پر عالمی ردِعمل غصے کا نہیں تھا — بلکہ بےحسی کا تھا۔ ایسا ردعمل، جو ہر نئے ظلم کے ساتھ مزید مکروہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ کیونکہ آج کی ظالم جیوپولیٹیکل دنیا میں کس کا خون اہم ہے اور کس کا اہم نہیں، یہ ظلم کی شدت سے نہیں بلکہ گروہی یا نسلی وابستگی سے طے ہوتا ہے۔ 

  • جنگ، نظریاتی خونیں تماشا: ہم اس دور میں جی رہے ہیں، جہاں جنگ لڑی نہیں جاتی — بلکہ ترتیب دی جاتی ہے۔ ہر متعددی ’بم‘ کو سوشل میڈیا پر ’وائرل‘ کرنے کے لیے مرتب اور ایڈٹ کیا جاتا ہے۔ ہر حملے کے ساتھ ہیش ٹیگ ہوتا ہے۔ ہرلاش کو ایک فلٹر سے گزارنا لازم ہے —۔  کیا وہ قابلِ افسوس ہے یا نہیں؟ کیا وہ ’اسٹرےٹیجک‘ ہے یا نہیں؟ پہلگام میں جب سیاح قتل ہوئے، نئی دہلی نے انصاف کا راستہ اختیار نہیں کیا، اس نے اپنی مرضی کا مذموم منظرنامہ چنا۔ نہ کوئی عدالتی تحقیق ہوئی اور نہ فرانزک تجزیہ ہوا۔ صرف ایک بےساختہ اداکاری ہوئی —، اور جنگ بطور تماشا اور ظلم بطور الگورتھم۔ 

بہاولپور ،مظفرآباد اور مریدکے میں مسجد پر حملہ کوئی حادثہ نہ تھا، وہ ایک پیغام تھا۔ وہ مودی کی جانب سے نیتن یاہو کے خون آلود اسکرپٹ کی تکرار تھی۔ اسرائیل میں فلسطینیوں کا منظم قتلِ عام ’اپنے خودار دفاع‘ کے نام پر بیچا جا رہا ہے۔ انڈیا میں کشمیری جانوں کی تباہی کو ’انسدادِ دہشت گردی‘ کا لیبل دیا جاتا ہے۔ دونوں جگہ، شہریوں کا دُکھ جھٹلایا جاتا ہے یا پھر لازمی قرار دیا جاتا ہے۔ مزاحمت کو جرم بنادیا جاتا ہے، اور ماتم کو بغاوت سمجھا جاتا ہے۔ یہ محض فوجی حکمت عملی نہیں، — یہ ایک خونیں نظریاتی تھیٹر ہے۔ 

  • ’صہیونیت ‘ اور ’ہندوتوا‘ کی مماثلت:کشمیر میں جو کچھ ہوا، وہ انڈیا کی انفرادی کوشش نہیں تھی بلکہ یہ ایک نوآبادیاتی شیطانی اور فرعونی عمل کی تکرار ہے۔ یہ ’صہیونیت‘ کے ظالمانہ باب کو ’ہندوتوا‘ کی موجودہ خواہش کے لیے اپنانے کا اعلان اور عمل ہے۔ نیتن یاہو کی غزہ میں جاری نسل کشی — اسپتالوں، اسکولوں، پناہ گزین کیمپوں کی تباہی، — ایک بے لگام بدمعاش ریاستی طاقت کے وحشیانہ مظاہرے کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ مودی نے اس ریاستی بدمعاشی کو دیکھا، اس سے متاثر ہوا، اس سے سیکھا اور اس پر عمل کرنے کے لیے چل پڑا۔ 

یہ مشابہتیں محض اتفاقیہ نہیں — بلکہ باقاعدہ طریق کار کا حصہ ہیں۔ نیتن یاہو کا مستقل جنگ جاری رکھنے کا نظریہ، مصنوعی ذہانت کے ذریعے ہدفی قتل، مغربی تہذیبی درندگی، اور صلیبی جوش و تعصب کا وحشیانہ استعمال، — یہ سب نئی دہلی میں صرف سراہا ہی نہیں جا رہا، بلکہ عملی طور پر اپنایا بھی جا رہا ہے۔ انڈیا اب اسرائیلی نگرانی (Survillence)کا سافٹ ویئر، ڈرون، حتیٰ کہ مخصوص ’جنگی اخلاقیات‘ درآمد کر رہا ہے۔ 

نیتن یاہو اپنے تشدد کو ’یہودی بقا‘ کی زبان میں چھپاتا ہے، جب کہ مودی اسے ’ہندو مظلومیت‘ کے نام پر تقدیس عطا کرتا ہے۔ دونوں اپنے افسانوی اور خیالی ماضی کے صدموں کو حال کے مظالم کا جواز بناتے ہیں۔ دونوں خوف کے ذریعے حکومت کرتے ہیں، دونوں اپنے دشمن تخلیق کرتے ہیں، اور دونوں مذہب کو نجی عقیدہ نہیں، بلکہ اژدہا بنا کر استعمال کرتے ہیں۔ صہیونیت اور ’ہندوتوا‘ نہ صرف سانجھے طریقے استعمال کرتے ہیں — بلکہ ایک کائناتی تصور بھی بانٹتے ہیں۔ اسرائیل میں بالادستی مقدس ہے، اور فتح نجات، پھر ’قبضے سے جلاوطن تک‘ غزہ جس اذیت سے گزر رہا ہے، کشمیر تو اس برہمی نسل پرست عقیدے کو مدتوں سے جانتا ہے، انیسویں صدی سے تو مسلسل ۔ 

لیکن اب، قبضہ ایک اور بھیانک رُوپ اختیار کر چکا ہے — یعنی ’جلا ڈالو‘۔ ۲۰۱۹ء میں جب آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵-اے  کو منسوخ کیا گیا، تو یہ کوئی حکومتی اقدام نہ تھا — بلکہ ایک آئینی چال میں لپٹی ہوئی، دُنیا سے بغاوت تھی۔ اُس دن سے، مقبوضہ کشمیر اجتماعی سزا کی تجربہ گاہ بن چکا ہے: اجتماعی گرفتاریاں، مواصلاتی بلیک آؤٹ، ماورائے عدالت قتل۔ جس میں ہر مظاہرہ بغاوت قرار پاتا ہے، ہر کشمیری مشتبہ، باغی اور گردن زدنی ٹھیرتا ہے۔ 

یہ محض جبر نہیں، — یہ بنیادی ڈھانچے کی تباہی ہے۔ اسرائیلی ڈرونز جو خان یونس پر منڈلاتے تھے، وہ اب کپواڑہ پر بھی منڈلاتے ہیں۔ تل ابیب میں تیار کردہ چہرہ شناس سافٹ ویئر اب سری نگر میں متحرک ہے۔ مصنوعی ذہانت پر مبنی نگرانی، حیاتیاتی ڈیٹا کی شناخت، اور پیش گوئی پر مبنی پولیس گردی، — جو کبھی فلسطینیوں پر آزمائی گئی تھی، اب انڈین ریاست کے ہتھیار بن چکی ہے۔ یہ محض فوجی ہم آہنگی نہیں، بلکہ بے حساب ظلم کی عالمی توسیع ہے۔ نسل کشی (Genocide)اب ایک برانڈ بن چکی ہے، جس کے فرنچائز ہر سمت کھل رہے ہیں۔ اس بارے کسی کو  غلط فہمی نہ ہو، یہ ایک عریاں نسل کشی ہے۔ ایسی نسل کشی جو ہمیشہ گیس چیمبر یا اجتماعی قبروں سے شروع نہیں ہوتی۔ بعض اوقات یہ نسل کشی خاموش بیوروکریسی، معیشت کے گلا گھونٹنے، اور الگورتھمی نقاب میں مسلط کی جاتی ہے۔ ایک قوم کو صرف جغرافیہ سے نہیں، بلکہ یادداشت سے بھی مٹا دیا جاتا ہے۔ 

  • ظلم کا ’معمول‘ بن جانا:نیتن یاہو اور مودی دونوں یہ بات خوب سمجھتے ہیں کہ اکیسویں صدی میں ظلم کو چھپانے کی ضرورت نہیں، — صرف از سر نو پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ مظلوموں کو بدنام کر دو، اور اُن کے دُکھ کو نئے کوڈ میں لکھ دو۔ غزہ کے تمام مسلمان ’حماس کے ہمدرد‘ بتائے جاتے ہیں۔ سارے کشمیری ’دہشت گردوں کے ہمسائے‘ ٹھیرائے جاتے ہیں۔ ایک بار یہ لیبل لگ جائے، تو جواز خود بخود پیدا ہو جاتا ہے اور دس مزید حملوں کا ’نظریہ‘ بن جاتا ہے۔ 

امریکا و مغرب، جو برسوں سے اسرائیل کی بے لگام درندگی کے شریکِ کار رہے ہیں، انڈیا کو ایک منافع بخش شراکت دار کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اسرائیل، امریکی ہتھیاروں سے شہریوں کا قتلِ عام کرتا ہے اور انڈیا یہی کام اسرائیلی ٹکنالوجی سے کرتا ہے۔ ادھر انسانی حقوق کی زبان کو بے اثر کردیا گیا ہے۔ — وہ محض ’تحمل‘ اور’مذاکرات‘ جیسی مبہم اپیلوں تک محدود ہو چکی ہے۔ واشنگٹن، لندن، جنیوا اور پیرس میں تجارتی معاہدے جنگی جرائم سے زیادہ اہم ہو چکے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ جنگی مجرم ’مصلح‘ دکھائی دیتے ہیں۔ نسل پرست قاتل، جمہوریت پر لیکچر دیتے ہیں۔ میڈیا خونریزی کو بریکنگ نیوز بنا کر پیش کرتا ہے، تاریخ، اخلاق، اور انجام کی ارتھی اُٹھائے مہاشوں کا ہجوم!یہ صرف اخلاقی انحطاط نہیں — یہ بازاری منطق ہے۔ یعنی قتل، اگر ’درست انداز‘ میں پیش کیا جائے، تو منافع بخش چال ہے۔ 

  • تصادم، پھر جواب:لیکن اس بار پاکستان نے صرف زخم نہیں سہے۔ ۸ مئی کو اسلام آباد نے راجوری اور سانبہ میں انڈین فوجی تنصیبات پر درست جوابی حملے کیے۔ یہ صرف بیان بازی نہ تھی — بلکہ سوچا سمجھا پیغام تھا۔ یہ ایک وارننگ تھی کہ اگر مہم جوئی بڑھی، تو اس کے تباہ کن نتائج ہوں گے۔ یہ میدانِ جنگ میں ایک سفارت کاری تھی، — آواز کی رفتار سے تیز سفارت کاری۔ 

اب جنوبی ایشیا ایک خطرناک کنارے پر کھڑا ہے۔ دو ایٹمی ریاستیں، ایک ایسی قیادت کے ہاتھوں یرغمال ہیں، جو مذہبی اور قومی نسل پرستی کے خواب میں مدہوش ہے۔ ایک غلطی، ایک غلط اندازہ، اور پورا برصغیر پاک و ہند راکھ ہو سکتا ہے۔ یہ کوئی ڈراوا نہیں، — یہ ریاضی کا ایک سیدھا جواب ہے۔ علاقہ جوہری تاب کاری میں بھڑکنے اور قیادت بھڑنے کی دہلیز پر ہے۔ اور دنیا، حسبِ معمول، اپنی ہی دُنیا میں گم۔مودی اور نیتن یاہو جو کچھ کھیل رہے ہیں، وہ صرف اپنے دشمنوں کی تقدیر سے نہیں —، ہم سب کی تقدیر سے کھیل رہے ہیں۔ 

  • ’ہسبارہ‘ اور ’ہندوتوا‘ ایک زہریلا امتزاج:اسرائیل اسے ’ہسبارہ‘ کہتا ہے، یعنی — ریاستی جھوٹ، پردہ پوشی اور انکار کا نظام۔ انڈیا اس سے بھی آگے بڑھ چکا ہے۔ مودی کے انڈیا میں سچ جرم بن چکا ہے، صحافت غداری ہے، حقیقت کی جانچ اشتعال انگیزی ہے اور اختلاف رائے ملک دشمنی ہے۔ جو میڈیا مہم کے طور پر شروع ہوا تھا، وہ اب ریاستی نگرانی میں بدل چکا ہے۔ 

مودی کے انڈیا میں افسانہ قانون بن چکا ہے، اور قانون محض افسانہ۔ نیوز اینکر خبریں نہیں دیتے، نعرے لگاتے، چیختے اور چنگھاڑتے ہیں۔ مؤرخین تشریح نہیں کرتے، — وہ نشانے باندھتے ہیں۔ یونی ورسٹیاں علم کی جگہ نہیں فکری غلامی کے کارخانے بن چکی ہیں۔ ’ہندوتوا‘ کوئی قدامت پسند نظریہ نہیں، — یہ نسلی برتری کا وحشیانہ مذہب ہے۔ یہ ایک ایسا ہندو ریاستی خواب دیکھنا ہے جو مسلمان، عیسائی، دلت، اور اختلاف رائے، سب کو آلودگی قرار دے کر ان کے خاتمے اور کچلنے کا پیغام دیتا ہے۔ ’ہندوتوا‘ کا منصوبہ، صہیونیت کی طرح، صرف تابع داری نہیں چاہتا — بلکہ خاتمہ۔ اسے صرف غلبہ نہیں چاہیے — بلکہ یکسانیت چاہیے۔ انڈیا اور اسرائیل دونوں میں ریاست اب ادارہ نہیں — مذہبی قربانی کی مقتل گاہ بن چکی ہے۔ 

  • جب ماتم مزاحمت ہوجائـے:غزہ میں بچّے منہدم کنکریٹ کے نیچے دفن ہو رہے ہیں، اور نیتن یاہو فوجی اڈوں کے دورے پر کیمروں کے سامنے مسکرا رہا ہے۔ بہاولپور، مظفرآباد، مریدکے میں بچّے مسجد میں شہید ہوتے ہیں، اور انڈین اینکر اسے ’سرجیکل کامیابی‘ قرار دیتے ہیں۔ کشمیر میں مائیں اپنے بیٹوں کا ماتم کرتی ہیں، جنھیں ’دہشت گرد‘ قرار دے کر لاشیں واپس نہیں کی جاتیں۔ یہ خون آلود واقعاتی یکسانیت حادثاتی نہیں بلکہ پالیسی ہے۔ شہری محض چھوٹے موٹے نقصان سے گھائل نہیں — بلکہ خاتمے کا نشانہ ہیں۔ ماتم خود ایک مزاحمت بن چکا ہے۔ یہ بغاوت ایک ایسی ریاست کے خلاف کھڑی ہے جو صرف خاموشی چاہتی ہے۔یہ جنگ نہیں، نسلی تطہیر ہے، ہیش ٹیگ کے ساتھ۔ یہ ایک ’غیر مطلوب قوم‘ کی رسمِ قتل ہے — مذہبی حوالے سے ’جائز‘ اور عالمی طاقتوں کے ذریعے مالی امداد یافتہ۔  
  • یہ مشق نہیں ___ یہ حقیقت ہـے:غزہ اور کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ عالمی نظام سے انحراف نہیں — بلکہ اسی کا لازمی نتیجہ ہے۔ مودی صرف نیتن یاہو کو دیکھ نہیں رہا، — وہ اسے پڑھ رہا ہے، نقالی کر رہا ہے، اور اس کے ہتھیاروں کو نکھار رہا ہے۔ نیتن یاہو صرف فلسطینیوں کو قتل نہیں کر رہا — وہ ظالموں کی نئی عالمی نسل کی تربیت کر رہا ہے۔ یہ ’نیتن مودی‘ صرف اتحاد نہیں، بلکہ ایک نظریہ ہے: مذہبی علامتوں اور سمارٹ بموں کے ساتھ جدید فسطائیت کا۔ 

اور جب دنیا خوفناک تباہی کے کنارے پہنچ چکی تھی، ۱۰ مئی کو ایک جنگ بندی کا اعلان ہوا۔ انڈیا اور پاکستان نے مزید کشیدگی روکنے پر اتفاق کیا۔ تب میدان میں داخل ہوا ڈونلڈ ٹرمپ، خود ساختہ ’امن کا پیغامبر‘۔ جس نے فوراً یہ کریڈٹ لیا کہ ’اس نے برصغیر کو پُرسکون کر دیا‘۔ دو جوہری ممالک کی قسمت ایک کھوکھلے لیڈر کے کریڈٹ شو کی نذر ہو جائے، یہ ایک مضحکہ خیز اور شرمناک منظر ہے۔مگر دھوکا نہیں کھانا چاہیے، کیونکہ یہ جنگ بندی کسی امن کی تمہید نہیں۔ — یہ محض وقفہ ہے۔ غزہ میں اب بھی شعلے بھڑک رہے ہیں۔ کشمیر میں اب بھی نگرانی کے ٹاور غرا رہے ہیں۔ اور جو نظریہ اس قتل گاہ کو چلارہا ہے، وہ اب بھی پھیل رہا ہے تیزرفتار — کینسر کی طرح۔ 

  • اسٹیج جل رہا ہـے:تاریخ اُن لوگوں کے ساتھ نرمی نہیں برتے گی: جنھوں نے یہ سب دیکھ کر کچھ نہ کیا، اُن سفیروں کے ساتھ جنھوں نے کھوکھلے بیانات دیے، اُن میڈیا اداروں کے ساتھ جنھوں نے جھوٹ کو دہرایا، اور اُن شہریوں کے ساتھ جنھوں نے صرف اس لیے منہ پھیر لیا کہ لاشیں ’سفید فام‘ نہ تھیں۔ 

یہ ان سب کے لیے پکار ہے، جو انصاف کا دعویٰ کرتے ہیں۔ وقت گزر چکا ہے۔ مظلوم محض علامتیں نہیں، — وہ بیٹے، بیٹیاں، خاندان اور مستقبل ہیں۔ غزہ اور کشمیر میدانِ جنگ نہیں، نسل پرست — جرم کے منظرنامے ہیں۔ اور اگر اس پر کھل کر، بے خوف ہو کر، اکٹھے ہو کر آواز نہ اٹھائی — تو ہم تماشائی نہیں رہیں گے —، ہم شریکِ جرم بن جائیں گے۔اگلا باب بلوچستان، کراچی، سری نگر، یا رفح میں کھل سکتا ہے۔ 

سوال اب یہ نہیں کہ ہم عمل کریں گے یا نہیں، — بلکہ یہ ہے کہ کیا ہم میں اتنی اخلاقی ہمت ہے کہ ہم تباہی کے اس انجن کو روک سکیں؟ اس سے پہلے کہ یہ ہمیں بھی کچل کر چلا جائے۔ کیونکہ یہ کھیل کا اختتام نہیں۔ — یہ وہ لمحہ ہے جب ناظرین فیصلہ کرتے ہیں:کیا وہ کھڑے ہوکر اپنے آپ کو بچائیں گے؟ یا جلتے اسٹیج کے ساتھ جل جائیں گے؟ 

جب انڈیا اور پاکستان اپنی فوجی کامیابیوں کے تذکرے کرتے ہیں تو ان نعرئہ ہائے تحسین  میں کشمیریوں کو سسکنے کے لیے غم کی وادی میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ 

’اوڑی‘ انڈین زیر انتظام کشمیر میں — ۸ مئی کی رات صنم بشیر کے لیے اُلجھے ہوئے منظرنامے کی متحرک تصویر کے طور پر آتی ہے۔ اس کا خاندان تین گاڑیوں میں سوار تھا۔ اس کے بقول: ’’سڑک بہت تاریک تھی، اور گولہ باری کی آواز کانوں کے پردے پھاڑنے والی تھی۔یہ قیامت کی گھڑی لگ رہی تھی‘‘۔ ۲۰سالہ صنم اپنے چارسالہ کزن منیب، اپنی خالہ اور اپنی ماں نرگس بیگم کے ساتھ پچھلی سیٹ پر دبکی ہوئی تھی۔ صنم کو یاد نہیں کہ گاڑی کی چھت کو کس چیز نے چیر ڈالا، لیکن وہ اپنی خالہ کی تیز چیخ یا اپنی ماں کے گلے سے نکلنے والے گرم خون کو نہیں بھول سکتیں۔ جب وہ ہسپتال پہنچے تو نرگس بیگم کی موت و اقع ہو چکی تھی۔ 

انڈیا اور پاکستان کے درمیان چار دن کی لڑائی میں جموں و کشمیر کے بھارتی زیر انتظام علاقے میں کم از کم ۲۷؍ افراد جان سے گئے، جن میں گیارہ سالہ جڑواں بچے بھی شامل تھے، اور ۵۰سے زائد زخمی ہوئے۔ اچانک ہونے والی یہ لڑائی اس خطے میں کئی عشروں میں سب سے بدترین لڑائی تھی۔ جیسا کہ پچھلے تنازعات میں ہوا، شہریوں ہی کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ جنگ بندی کے بعد، ہم نے لائن آف کنٹرول سے ۱۵کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر واقع دیہات کا دورہ کیا۔ — یہ وہ غیر رسمی سرحد ہے جو پہاڑوں اور دریاؤں کے پار گزرتی ہے، اور کشمیر کو دوحصوں میں تقسیم کرتی ہے۔  

گذشتہ ماہ کئی برسوں کی نسبتاً خاموشی اس وقت ٹوٹ گئی جب مبینہ طور پر سیاحتی شہر پہلگام کے قریب ۲۶ شہریوں کو گولی مار دی گئی، اور نئی دہلی حکومت نے فوراً کہہ دیا کہ اس حملے کے ذمہ داران کے پاکستان سے روابط تھے۔اسلام آباد نے ایسی کسی بھی شمولیت و سرپرستی سے انکار کیا اور غیرجانب دارانہ تحقیقات کے لیے تعاون کی پیش کش کی۔ خطۂ کشمیر کے لوگوں نے مابعد واقعات کے خوف سے سانس روک لی۔انڈیا نے ۷ مئی کی رات پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے اور خود پاکستان کے چند شہروں پر جوابی حملہ کیا۔ پھر اگلے روز پاکستان کے اندر دُور تک پچاس سے زیادہ حملے کیے، جس میں کم از کم ۲۶؍ افراد جاں بحق ہوئے۔ اگلی تین راتوں تک، ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پڑوسی ممالک جنگ کے اور قریب ہوتے گئے۔ — فوجی اہداف پر حملوں کا تبادلہ کرتے ہوئے اور ایک دوسرے کے شہروں میں ڈرونز کی پروازیں بھیجتے رہے۔ ۱۰ مئی کو امریکی ثالثی سے ہونے والی جنگ بندی کے بعد، دونوں ممالک نے اپنی فوجی کامیابیوں کے دعوے کیے، اور اپنے اپنے نقصانات کو کم کر کے پیش کیا۔ 

لائن آف کنٹرول کے ساتھ، جہاں خاندان طویل عرصے سے تنازع کے سائے میں رہتے ہیں، پاکستانی گولہ باری شدید ترین تھی۔ ادھر پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں بھی ایسی ہی رپورٹس تھیں، جہاں بھارتی فائرنگ سے کم از کم ۱۶؍افراد جاں بحق ہوئے۔ اوڑی اور اس کے آس پاس ۴۵۰ سے زائد گھر یا دکانیں تباہ ہوئیں، اور کم از کم ایک تہائی آبادی اپنے گھروں سےنکل جانے پر مجبور ہوئی۔ جنگ بندی کے بعد، لوگ اپنی زندگیوں کے جمع شدہ ملبے کو ٹھکانے لگانے کے لیے واپس لوٹ رہے تھے۔اگرچہ بھارتی فوج نے پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کو بڑھانے پر اتفاق کیا ہے، لیکن ان علاقوں میں سول آبادی اور رہائشی اب بھی خوفزدہ ہیں۔  

راجروانی کے گاؤں میں نرگس بیگم کے گھر پر، ان کے پیاروں کو اب بھی صدمہ ہے:’’اگر حکومت نے بنکر [پختہ مورچے] بنائے ہوتے یا صبح ہمیں انخلا کے لیے کہا ہوتا، تو وہ آج ہمارے ساتھ ہوتیں‘‘،ان کے ۲۷ سالہ بیٹے ثاقب بشیر خان نے کہا۔آٹھ افراد کے اس خاندان نے ہمیشہ غربت کا سامنا کیا۔ نرگس بیگم اسکول میں کھانا تیار کر کے ماہانہ ۱۲ ڈالر کماتی تھیں، ان کے شوہر ایک دہاڑی دار مزدور ہیں، جنھیں مستقل کام نہیں ملتا۔ نرگس بیگم کے رشتہ داروں کو مقامی حکومت نے موت کے بدلے ۷ہزار ڈالر معاوضہ دیا ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ ’’ہمارا نقصان کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔ حکومت غریبوں کو زندہ رہنے کی سہولت دینے سے پہلو بچاتی ہے‘‘۔ان کی بھابھی حفیظہ بیگم نے کہا، ’’لیکن اب جب وہ مر چکی ہیں، تو حکومت پیسے دے رہی ہے۔ اب اس دولت کا کیا فائدہ؟‘‘ 

قریبی گاؤں باندی میں، محمد انور شیخ مدد کے انتظار میں ہیں: ’’پہلے بھی فائرنگ ہوتی تھی، لیکن ہمارے گھروں پر کبھی اس طرح گولے نہیں برسے تھے‘‘، ۴۰سالہ شیخ نے کہا، جن کا سادہ تین کمروں کا گھر ایک بھارتی فوجی کیمپ کے قریب ہے۔ ایک گولے نے ان کے مرکزی کمرے کو چیر دیا، کھڑکیاں توڑ دیں، ٹیلی ویژن کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا اور دیوار پر گہرے گڑھے چھوڑ دیے۔ ان کے بیٹے کی نوٹ بک ٹکڑوں میں بکھر چکی تھی۔شیخ انور نے بتایا: ’’انڈین فوجی تین دن پہلے گولوں کے ٹکڑے جمع کرنے آئے تھے اور کہا تھا ہم آپ کی مالی مدد کریں گے۔ جب لڑائی شروع ہوئی تو میں نے اپنی بیوی اور چھ بچوں کو ڈیڑھ گھنٹے کی دوری پر ایک امدادی کیمپ میں بھیج دیا تھا۔ ہم ہررات، اپنے چند پڑوسیوں کے ساتھ ایک عارضی مورچے میں دبک کر پڑے رہتے تھے، جو ہمیں صرف جزوی تحفظ فراہم کرتا تھا۔ مگر ۹ مئی کی صبح سویرے، فائرنگ اور تیز گولہ باری ہو گئی‘‘، شیخ نے کہا۔ 

شیخ کے گھر سے آگے، ایک تنگ ندی کے کنارے سرسبز پہاڑیوں میں واقع لگاما گاؤں ہے۔ ۶۳ سالہ محمد شفیع پٹھان کی جائیداد پر اخروٹ اور ناشپاتی کے کھڑے درخت لہلہا رہے ہیں، لیکن ان کا گھر رہنے کے قابل نہیں رہا۔ یہ ریٹائرڈ فوجی ۹ مئی کی رات کو اپنی بیوی، بیٹے اور تین پوتے پوتیوں کے ساتھ اس وقت جان بچانے کے لیے بھاگا، جب وادی میں دھماکوں کی گونج سنائی دی۔ اگلی صبح سویرے، پولیس نے فون پر شفیع کو بتایا کہ اس کا گھر تباہ ہو گیا ہے۔ یہ سن کر وہ گھر آیا تو ٹین کی چھت اُڑ چکی تھی اور کنکریٹ کا ایک بڑا ٹکڑا ایک جانب پڑا ہوا تھا۔ چاول کے ڈرم راکھ سے ڈھکے ہوئے تھے اور بارود کی بہت تیز بدبُو تھی۔ 

’’ایک بھی چیز نہیں بچی، سب برباد‘‘، پٹھان نے کمبل، کھلونوں، کپڑوں اور چمچوں کے بکھرے ہوئے ڈھیر پر سے گزرتے ہوئے کہا۔ سرحد کے ساتھ زندگی کبھی آسان نہیں ہوتی۔ غربت عام ہے اور تنازعے کا سایہ ہمیشہ سانس کی طرح ساتھ رہتا ہے۔ شہری روزانہ بار بار چیک پوسٹوں پر تلاشی دینے کے لیے انڈین فوج کا سامنا کرتے ہیں، جن کے مسلح قافلے باقاعدگی سے گزرتے اور جگہ جگہ ہیں۔ 

مئی ۲۰۲۵ء کی انڈوپاک لڑائی نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے: ’’کشمیر ایک فلیش پوائنٹ ہے اور اس میں پورے جنوبی ایشیا کو ایک بڑی جنگ میں دھکیلنے کی بھرپور صلاحیت ہے‘‘، سری نگر میں مقیم سیاسی تجزیہ کار شیخ شوکت حسین نے یہ بات کہی۔ حسین نے کہا۔ ’’کشمیری، ایسی صورتِ حال میں پھنسے ہیں جو ان کے کنٹرول سے باہر ہے، اور یہی سب سے زیادہ تکلیف اٹھاتے ہیں۔ بڑی عالمی طاقتوں کا کام ہے کہ وہ کشیدگی کو مستقل طور پر کم کرنے میں مدد کریں‘‘، انھوں نے کہا۔ 

سری نگر میں نئے کافی شاپس اور ہوٹل کھلے ہوئے ہیں، جو نئی دہلی کی جانب سے سیاحتی صنعت کو بحال کرنے کی کئی سالہ کوشش کا حصہ ہے۔ لیکن پاکستان کے بے مثال ڈرون حملوں کے نتیجے میں سری نگر پر ایک اُداسی چھائی ہوئی ہے۔ڈل جھیل پر — جو عظیم الشان پہاڑی چوٹیوں سے گھری ہوئی ہے —، کشتی بان گپ شپ لگا رہے تھے یا مچھلی پکڑ رہے تھے، مگر کوئی بھی چیز سیر کے لیے راغب کرنے والی نہیں تھی۔ سیاح غائب ہوچکے تھے۔ 

سری نگر کے مرکزی لال چوک میں، ۲۱ سالہ مسکان، اپنے بھائی کے ساتھ تصاویر لے رہا تھا۔ انھوں نے کہا:’’پہلگام حملے سے کشمیریوں کو تکلیف پہنچی، لیکن اس کے بعد بھارتی سیکیورٹی کریک ڈاؤن اور انڈیا کے طول و عرض میں زیرتعلیم کشمیری طلبہ پر حملوں کی خبروں نے انھیں اور بھی زیادہ صدمے سے دوچار کیا‘‘۔ انھوں نے کہا:’’ ہمارے لیے اور سیاحوں کے لیے کوئی خوف کی فضا نہیں ہونی چاہیے‘‘۔ 

اوڑی، جو چند دن پہلے تک ایک ویران شہر تھا، دکاندار واپس آ گئے تھے، انڈے، سکارف اور پلاسٹک کا سامان بیچ رہے تھے۔ ساتھ ہی ایک سرکاری دفتر کے احاطے میں پختہ مورچہ بنایا جا رہا ہے۔ لیکن کچھ مقامات پر آنا جانا اب بھی ممنوعہ ہے۔ ایک چیک پوسٹ پر، بھارتی فوجیوں نے ہم کو اسلام آباد گاؤں جانے سے روک دیا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے بھاری نقصان پہنچا ہے۔ تازہ ترین تنازع نے سب کچھ بدل دیا۔ ریٹائرڈ فوجی شفیع پٹھان نے کہا: ’’ہماری کیا زندگی ہے کہ ہم نہ سکون سے جی سکتے ہیں، اور نہ سکون سے مر سکتے ہیں‘‘۔ [ترجمہ: س م خ] 

منگل، ۲۷ مئی ۲۰۲۵ء کی صبح چیف جسٹس سید رفعت احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ آف بنگلہ دیش کے سات رکنی فل بنچ نے یہ فیصلہ سناتے ہوئے اے ٹی ایم اظہرالاسلام کی رہائی کا حکم دیا۔ واضح رہے کہ چیف جسٹس سید رفعت احمد کی سربراہی میں قائم سات رکنی بنچ نے ۸ مئی کو فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ۲۷ مئی کو فیصلہ سنانے کی تاریخ مقرر کی تھی۔اس سے قبل، ۲۲ ؍اپریل کو اظہرالاسلام کی جانب سے دائر اپیل کی سماعت کے لیے عدالت نے ۶ مئی کی تاریخ مقرر کی تھی۔ مقررہ دن سماعت کا آغاز ہوا اور اظہرالاسلام کے وکیل نے دلائل دیے۔ جس کے بعد  عدالت نے ۸ مئی کو مزید سماعت کی، اور فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے ۲۷ مئی کی تاریخ متعین کی گئی۔ 

اپیل کنندہ کی جانب سے وکیل محمد منیر نے دلائل دیے، جب کہ ان کے ساتھ سید محمد ریحان الدین بھی موجود تھے۔ ریاست کی طرف سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اے آر حق اور پراسیکیوٹر غازی ایم ایچ تمیم نے دلائل پیش کیے۔ 

یاد رہے کہ ۳۰دسمبر ۲۰۱۴ء کو حسینہ واجد حکومت کی جانب سے قائم کردہ نام نہاد ’بین الاقوامی جرائم ٹریبونل‘ (ICT)نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے مرکزی سیکرٹری جنرل اے ٹی ایم اظہرالاسلام کو ’۱۹۷۱ء کی جنگِ آزادی کے دوران انسانیت کے خلاف جرائم‘ کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنائی تھی۔ اس فیصلے کے خلاف انھوں نے ۲۸ جنوری ۲۰۱۵ء کو سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔بعد ازاں، ۳۱ ؍اکتوبر ۲۰۱۹ء کوبنگلہ دیش سپریم کورٹ نے ان کی سزائے موت برقرار رکھی، اور ۱۵مارچ ۲۰۲۰ء کو اس فیصلے کی باقاعدہ تفصیلی کاپی بھی جاری کر دی گئی، جس کے بعد اظہرالاسلام نے ۱۹ جولائی ۲۰۲۰ء کو نظرثانی کی درخواست دائر کی تھی۔ بعدازاں وہ مسلسل جیل میں قید رہے اور حسینہ واجد کی حکمرانی کے دوران ہروقت اُن پر سزائے موت کے باقاعدہ عمل درآمد کا خطرہ موجود رہا۔ مگر مشیت ِ خداوندی کے تحت، وقت گزرتا گیا، حتیٰ کہ اگست ۲۰۲۴ء میں سیاسی حالات تبدیل ہوئے اور ۲۶ فروری ۲۰۲۵ءکو سپریم کورٹ نے ان کی اپیل کو سماعت کے لیے منظور کرکے فریقین کو دو ہفتوں کے اندر سمری جمع کرانے کا حکم دیا۔ سمری جمع ہونے کے بعد اپیل پر یہ سماعت ہوئی، اور فیصلہ سنایا گیا ہے۔  

بنگلہ دیش سپریم کورٹ کے مشاہدات  

۱- سپریم کورٹ نے کہا کہ انسانیت کے خلاف جرائم سے متعلق مقدمات میں ماضی میں دیے گئے فیصلوں کے ذریعے نہ صرف بنگلہ دیش بلکہ پورے برصغیر کی فوجداری عدالتی نظام کی بنیادی ساخت کو بدل کر رکھ دیا گیا تھا، جو کہ ایک سنگین اور ناقابلِ معافی جرم تھا۔ 

۲- سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ جناب اے ٹی ایم اظہرالاسلام کو سزا دیتے وقت ان کے خلاف پیش کیے گئے شواہد اور ثبوتوں کی منصفانہ جانچ کیے بغیر ہی سزائے موت سنادی گئی تھی۔ 

۳- سپریم کورٹ نے اسے ’تاریخ میں سچائی کے ساتھ ایک سنگین مذاق‘ (travesty of truth) قرار دیا، یعنی انصاف کے نام پر کھلم کھلا ناانصافی۔ 

۴-   عدالت کا کہنا تھا کہ زیرسماعت مقدمے میں جو شواہد اور ثبوت پیش کیے گئے ہیں، ماضی میں ان کی اپیل پر عدالت نے درست اور دیانتدارانہ جائزہ لینے میں ناکامی کا مظاہرہ کیا۔ 

یہ امرواقعہ ہے کہ یہ فیصلہ نہ صرف ایک انفرادی مقدمے میں انصاف کی بحالی ہے بلکہ یہ بنگلہ دیش میں خصوصاً عوامی لیگی فسطائی حکومت کے دورِ حکمرانی میں عدالتی نظام میں ماضی کی سنگین لغزشوں، گناہوں اور جرائم کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ 

تشکر کے اس موقعے پر ڈاکٹر شفیق الرحمان، امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے کہا: ’’آج بنگلہ دیش کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ کے فل بنچ نے ہماری نظرثانی کی درخواست کی سماعت کے بعد فیصلہ سنایا ہے۔ اس فیصلے میں ہمارے قابلِ احترام مظلوم لیڈر اور ہمارے پیارے بھائی اے ٹی ایم اظہر الاسلام کو اپنے خلاف لگائے گئے تمام الزامات سے بری کر دیا گیا ہے۔ کتنے صدمے کی بات ہے کہ اس طرح کی جعلی فیصلہ سازی سے ہمارے نہایت عظیم ساتھیوں اور ملّت و قوم کے راہ نمائوں کو پھانسیاں دے کر ہم سے جدا کردیا گیا۔اگر وہ رہنما جو ہماری قوم کے سرتاج ہیں، قومی بحران کے اس لمحے میں زندہ ہوتے تو اپنی دانش مندی، دُور اندیشی اور تجربے سے اس قوم کو راستہ دکھا سکتے تھے۔ کینگرو کورٹ نے انھیں ایک ایک کر کے مار دیا۔ آج دنیا میں کوئی بھی انھیں ہمارے پاس واپس نہیں لا سکتا۔ لیکن اللہ کے دین کے لیے ان کی قربانی اور خدمات ہمیشہ باقی رہیں گی‘‘۔ 

یاد رہے ان مقدمات کو نمٹانے میں لامحدود دھوکا دہی اور جعل سازی کا سہارا لیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس سریندرکمار سنہا نے ستمبر ۲۰۱۸ء میں اپنی کتاب A Broken Dream: Rule of Law, Human Rights & Democracy میں اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے کس طرح جھوٹ کا سہارا لیا۔ اس وقت کی عدلیہ اور حکومت نے مشترکہ طور پر ایک منصوبہ بنایا کہ منظم طریقے سے جماعت کے ان مرکزی رہنماؤں کو قتل کیا جائے۔عدالتی ڈرامے کے ذریعے پھانسی پانے والا اللہ کی عدالت میں چلاگیا ہے۔ ان ظالموں نے اسی پر بس نہ کیا، بلکہ ان کے لواحقین اور گھروالوں کو بھی وحشیانہ طریقے سے مارا پیٹا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ عبدالقادر مُلّا کو جس رات پھانسی دی گئی، اسی رات ان کے گھر پر حملہ کیا، ان کے اہل خانہ کو ہراساں اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انھیں جنازے میں شرکت کی اجازت دینے کے بجائے دھکے دیتے اور تشدد کرتے ہوئے جیل میں ڈال دیا گیا۔ یوں پھانسیاں پانے والے تمام خاندانوں کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیا گیا۔ 

قتل کاری کے اس عدالتی عمل کے دوران ’اسکائپ اسکینڈل‘ کو دیکھ کر پوری دنیا نے مذمت کی۔ ان مقدموں کے دوران دو ٹارچر سیل بنائے گئے: ایک کا نام ’سیف ہوم‘ تھا، اور دوسرے کا نام ’سیف ہاؤس‘ تھا۔ ’سیف ہوم‘ میں متاثرہ رہنماؤں کو ہراساں کیا گیا۔ ہائی کورٹ کی ہدایت پر انھیں ’سیف گھر‘ میں رکھا گیا اور کئی دنوں تک تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جماعت کے کارکنوں نے اسے خاموشی سے برداشت کیا۔ احتجاج کی کوشش کی، مگر سیاسی غنڈوں کے حملوں کا انھیں سامنا کرنا پڑا۔ 

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں اور مختلف رفاہی تنظیموں نے ان مقدموں کی مذمت کی۔ لیکن حکمرانوں اور ان کے پروردہ ججوں نے اس سے کوئی سبق نہیں لیا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر منصفانہ مقدمات کی کارروائی چلی تو وہ قتل کی اجازت نہیں دے گی، مگر یہ بات کسی نے نہیں سنی۔ 

ڈاکٹر شفیق الرحمٰن نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا:’’ ہمیں اپنے ملک سے محبت ہے۔ ہمارے پیارے لیڈر بھی اس ملک سے محبت کرتے تھے۔ اسی محبت کی وجہ سے انھوں نے ملک کی بہتری کے لیے جدوجہد کی۔ وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ بنگلہ دیش میں صحت مند سیاست کا فروغ چاہتے تھے۔ نہ صرف انھوں نے سڑکوں پہ سیاسی جدوجہد کی بلکہ حکومت کا حصہ بننے کے بعد بھی انھوں نے حکومتی انتظام کو بہتر بنانے کی مثالی کوششیں کیں۔ پوری قوم گواہ ہے، دووزیروں نے مثالی انداز سے تین وزارتیں چلائیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی خصوصی مدد فرمائی۔ انھوں نے پوری ایمانداری اور مستعدی سے اپنے فرائض سرانجام دیئے۔ انھوں نے بنگلہ دیش کے عوام کے لیے روشن وصیت نامہ چھوڑا ہے اور شان دار مثال قائم کی ہے‘‘۔  

جب ہم ماضی میں دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ سارے بنگلہ دیش اور پوری دُنیا کے سامنے عوامی لیگی خصوصی عدالت میں کیس نمٹاتے ہوئے ان خاندانوں کی طرف سے کسی سے کوئی گواہی نہیں لی جن کے نام لے لے کر قتل کے مقدمے چل رہے تھے۔ بلکہ ایسے مقدمے کی بنیاد بننے والے ایک مقتول کا بھائی گواہی دینے آیا تو سادہ لباس پولیس نے عدالت کے احاطے میں اس فرد کو وکیل کی گاڑی سے کھینچ کر اغوا کرلیا، تشدد کا نشانہ بنایا اور انڈیا کی سرزمین پر چھوڑ دیا گیا۔ وہ مذہباً ہندو اور عملاً سچّی گواہی دینے کی غرض سے عدالت پہنچنے کی کوشش میں طویل عرصہ جیل میں رہنے کے بعد وطن واپس آیا ہے۔ یہ گواہ علامہ دلاور حسین سعیدی کے حق میں گواہی دینے کے لیے آیا تھا۔ 

اظہر الاسلام کی موجودہ اپیل کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے حکومتی وکیل سے کہا کہ ’’مطیع الرحمان نظامی کو ایک دن یا ایک منٹ بھی سزا دینے کی گنجائش نہیں تھی، مگر انھیں سزائے موت دی گئی۔ ان عدالتوں نے جماعت اسلامی کے لیڈروں پر ظلم کیا ہے۔ فیصلے پر عمل درآمد سے پہلے ہی سازشیں رچائی گئیں‘‘۔  

جماعت کے پھانسی پانے اور جیلوں میں انتقال فرمانے والے قائدین سب کے سب ثابت قدم تھے۔ وہ اپنے ایمان میں مضبوط تھے، وہ حق پر قائم تھے۔ اس لیے وہ اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرتے ہوئے پھانسی کے تختے پر کھڑے ہوگئے، یا جیل میں سسکتے رہے، لیکن ظلم کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ انھوں نے یہ سکھایا ہے کہ اگر ایک باوقار قوم سچائی پر ڈٹی رہتی ہے تو پھانسی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ موت توصرف ایک بار آنی ہے، مگر وہ موت ذلت آمیز موت نہیں بلکہ بہادری کی موت ہونی چاہیے۔ ان کی شہادت اور موت بہادری کی موت تھی۔  

ڈاکٹر شفیق الرحمان نے کہا: ’’ان مقدمات کو چلاتے ہوئے بین الاقوامی روایتی قانون کی پاسداری نہیں کی گئی اور ساتھ ہی ملکی قانون کی بھی پاسداری نہیں کی گئی۔ جو ثبوت قانون کے تحت موجود تھے ان پر بالکل عمل نہیں کیا گیا۔ حکمران طبقے کے لیے آئین کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا، قانون کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ جن کے کہنے پر عدالت کی کارروائی چلی، انھی کی مرضی قانون تھا، انھی کی مرضی کا فیصلہ تھا۔ چاہے وہ قانونی ہو یا غیر قانونی۔ اس طرح جماعت اسلامی کو نشانہ بنایا گیا‘‘۔ 

معین الدین چودھری جنھیں انھی کینگرو عدالتوں نے سزائے موت سنائی تھی، ان کے مقدمے پر برطانوی سپریم کورٹ نے گذشتہ برس فیصلہ دیتے ہوئے لکھا تھا: ’’بنگلہ دیش کے جنگی جرائم کے مقدمات انصاف کے نام پر ایک سنگین مذاق ہیں۔ یہ فیصلے نہیں، یہ انصاف کی نسل کشی ہے۔ ان میں انصاف کا قتل عام کیا گیا ہے‘‘۔ انھوں نے ’کلنگ آف دی جسٹس‘ نہیں کہا۔ کیونکہ اگر یہ ایک ہی کیس ہوتا تو وہ کہتے کہ یہ قتل ہے، لیکن یہاں تو ایک سے زیادہ کیس تھے۔ اسی لیے برطانوی سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ ’انصاف کی نسل کشی‘ ہے۔ لیکن اُس وقت کی بنگلہ دیشی عدالت نے ایسا نہیں لکھا تھا۔ تاہم، بنگلہ دیشی عدالت نے ۲۷مئی کو اپنے فیصلے کے ذریعے یہ بات دُہرائی ہے جو برطانوی سپریم کورٹ نے متعین کی تھی۔ 

جماعت اسلامی کے شہید قائدین میں: سابق امیر پروفیسر غلام اعظم، سابق نائب امیر ابوالکلام محمد یوسف، سابق امیر شہید مولانا مطیع الرحمان نظامی، سابق سیکرٹری جنرل شہید علی احسن محمد مجاہد، سابق اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل شہید قمر الزمان، سابق رکن مرکزی مجلس شوریٰ میرقاسم علی، سابق اسسٹنٹ سیکرٹری شہید عبدالقادر مُلّا، نائب امیردلاور حسین سعیدی، سابق نائب امیر سابق ایم پی مولانا عبدالسبحان رحمہ اللہ، سابق رکن مرکزی مجلس شوریٰ عبدالخالق رحمۃ اللہ علیہ، جنھیں ناحق قتل کیا گیا۔ وہ دنیا سے تو مٹ گئے ہیں، لیکن اہل حق کے دلوں سے نہیں نکل سکتے۔ اہل باطل نے اس قیادت کو انصاف کی نسل کشی کے ذریعے ختم کر کے ملک اور جماعت کو قیادت سے محروم کرنے اور عوام کو اندھیروں میں دھکیلنے کی ظالمانہ کوشش کی ہے، مگر ۲۷مئی کے فیصلے سے ثابت ہوتا ہے کہ سچ کو دبایا نہیں جا سکتا۔ سچائی بادلوں کو چیر کر روشنی کی چمک لاتی ہے اور وہ سچ آج دُنیا پہ ظاہر ہے۔ 

بنگلہ دیش میں ’جولائی انقلاب‘ رَدِ فسطائیت کا ایک تاریخی اور قومی یکجہتی کا موقع لے کر  آیا تھا۔ ہزاروں نوجوان طلبہ و طالبات اور عوام کے لہو سے ہم فسطائیت اور بھارتی تسلط کے مشترکہ طوقِ غلامی سے اپنی مادرِ وطن کو نجات دلانے میں کامیاب ہوئے۔ عوام کو یہ توقع تھی کہ پروفیسر ڈاکٹر محمد یونس کی قیادت میں فسطائیت مخالف تمام عناصر پر مشتمل ایک قومی حکومت تشکیل دی جائے گی، جو آئندہ انتخابات تک ریاست کا نظم و نسق سنبھالے گی۔ 

بدقسمتی یہ ہوئی کہ گذشتہ سال ۸؍ اگست کو نہ تو کوئی قومی حکومت بنی، نہ کوئی حقیقی انقلابی حکومت وجود پاسکی۔ اس کے بجائے، نام نہاد سول سوسائٹی کے نمائندوں پر مشتمل ایک عبوری حکومت قائم کی گئی، مگر وہ مطلوبہ وسیع تر سیاسی اتحاد تشکیل دینے میں ناکام رہی۔ حکومت کی تشکیل کے آغاز ہی میں مخصوص ’این جی اوز‘ اور ’سول سوسائٹی‘ کی بالادستی کے تاثر کو ایک بااثر مشیر نے غیرملکیوں سے گفتگو میں خوشی سے اس طرح بیان کیا: ’’’سول سوسائٹی‘ کے نصف درجن نمائندے حکومت میں جگہ پاچکے ہیں‘‘۔ یہ بات مجھے انھی غیرملکیوں نے بتائی۔ ذرا ماضی میں جائیں تو قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ۲۰۰۷ء میں اسی ’سول سوسائٹی‘ کے اخبار کے ایک مشہور مدیر نے اُس وقت کے اطلاعاتی مشیر مینال حسین کو برملا ڈانٹ کر یہ کہا تھا کہ ’’یہ حکومت [یعنی حسینہ واجد] ہم نے بنائی ہے‘‘۔ اس طرح یہ گروہ ہر دورِ حکومت میں اثر و رسوخ اور اپنی گرفت قائم رکھتا آیا ہے۔ حال ہی میں، یہی مدیر انقلاب کے چندماہ بعد ڈاکٹر یونس پر سخت تنقید کرنے لگے ہیں۔ 

ہم نے دیکھا کہ حکومت بننے کے بعد، بیرونِ ملک مقیم تمام ’سمارٹ‘ بنگلہ دیشیوں کو مشیر، خصوصی معاون، مشیروں کے مشیر وغیرہ مختلف عہدوں پر فائز کیا جا رہا ہے۔ ہم ان اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باصلاحیت بنگلہ دیشیوں کا تذکرہ سن کر خوش ضرور ہوئے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہ ملک میں غیرمعروف ہیں اور یہاں کے ماحول میں کام کرنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ 

چنانچہ، حکومت بننے کے ۹ ماہ بعد بھی نہ تو کوئی اصلاحات نافذ ہو سکیں، اور نہ اصلاحات کے کسی سیاسی اتفاقِ رائے کے آثار نظر آتے ہیں۔ میرے لیے باعث تشویش یہ ہے کہ موجودہ حکومت کئی طرح کی اصلاحی تجاویز کو بغیر کسی نتیجے پر پہنچائے، درمیان میں چھوڑ کر اور کسی مشترکہ مثبت اور دُوررس اثرات کے حامل سیاسی نظامِ کار کو متعارف و نافذ کرائے بغیر ہی رخصت ہوجائے گی۔ مزید ستم یہ کہ صرف ۹ ماہ کے اندر اندر حکومت کو درجنوں مطالبات کے ذریعے سڑکوں پر ہنگاموں کی صورت میں بے حال کرنے کی کوششیں تسلسل کے ساتھ سامنے آئیں۔ حکومت کے مینڈیٹ پر جب بار بار سوالات اٹھائے گئے، تو غیر تجربہ کار مشیروں کا گروہ ان کا معقول جواب دینے سے قاصر رہا۔ 

دوسری طرف، انقلاب کی گرمی ٹھنڈی ہونے سے قبل ہی، عوامی لیگ سے ہٹ کر بنگلہ دیش کی دو بڑی سیاسی جماعتوںبنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی)اور جماعت اسلامی کے درمیان بیانات کی جنگ چھڑ چکی تھی۔ جماعت اسلامی، جو سترہ سالہ وحشیانہ عوامی لیگی اور بائیں بازو کے جبر سے اچانک نجات پانے میں کامیاب ہوئی۔ وہ کئی پہلوئوں سے اپنی حقیقی عوامی تائید اور تنظیمی قوت کی نسبت سے زیادہ خوداعتماد نظر آئی۔ ملک کے بدلے ہوئے سیاسی منظرنامے میں جماعت اسلامی کی قربانیوں اور عزم و حوصلے کے احترام کے باوجود بہرحال، رائے دہندگان کی ووٹوں کی صورت میں تائید و حمایت پورے ملک میں اس درجہ منظم انداز سے پھیلی ہوئی نہیں ہے۔ جن علاقوں میں جماعت کی انتخابی طاقت موجود ہے، اس کی بنیاد پر مستقبل قریب میں جماعت کے لیے اقتدار کا حصول ممکن نظر نہیں آتا۔ تاہم، جماعت اسلامی ایک معقول تعداد کے ساتھ پارلیمان میں جا کر اپوزیشن کا بڑا مؤثر مقام ضرور حاصل کر سکتی ہے۔ 

’جولائی انقلاب‘ کے بعد پیدا ہونے والی اس کش مکش میں، جلد اقتدار میں آنے کی خواہش مند اور عوامی حمایت و تنظیمی طاقت میں بہت برتر بی این پی کی جانب سے صورتِ حال اس وقت کش مکش میں تبدیل ہوگئی، جب شہروں میں جماعت اسلامی کے بڑے بڑے جلسے ہوئے تو بی این پی جماعت اسلامی پر غضبناک ہو گئی۔ حسینہ کے فرار کے کچھ ہی دنوں بعد، بی این پی اور جماعت اسلامی کے اختلافات کھل کر سامنے آنے لگے۔ 

درحقیقت ۲۰۱۴ء کے بعد ہی سے بی این پی اور جماعت کے مابین دوریاں پیدا ہو چکی تھیں۔ پھر ۲۰۱۸ء کے ضمنی کے الیکشن میں فاصلے مزید بڑھ گئے۔ جن بی این پی رہنماؤں کو نظرانداز کرکے یہ نشستیں جماعت کو دی گئی تھیں، وہ ناراض بھی ہوئے۔ تب سے دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی حریف بن گئی ہیں۔ ۲۰۲۲ء میں بی این پی نے باضابطہ طور پر ۲۰جماعتی اتحاد توڑ دیا، جس کے بعد صاف ظاہر ہو گیا کہ مستقبل میں یہ دونوں جماعتیں شدید سیاسی حریف بن کر ابھریں گی۔ 

موجودہ حالات میں، بی این پی اور جماعت کے درمیان تنائو یا تصادم کی فضا عوامی لیگ کے تلخ تجربے سے بھی زیادہ تلخ نتائج سامنے لاسکتی ہے۔ جس کی ایک بڑی وجہ حالیہ دنوں میں بی این پی سے بائیں بازو کی بڑے پیمانے پر قربت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ 

وہ بھارت نواز بائیں بازو کے عناصر جو عوامی لیگ کے کاندھوں پر سوار ہوکر سترہ سال اقتدار میں رہے، اور اختلاف رائے کو کچلتے رہے، بھارت کا اسلام مخالف بیانیہ بھی پھیلاتے رہے، اور فسطائیت کے دامے درمے مددگار بنے رہے، انھوں نے جماعت اسلامی اور بی این پی کے باہمی تصادم سے پیدا ہونے والے خلا سے فوراً اور بھرپور فائدہ اٹھایا۔ یہ عوام سے کٹے ہوئے بائیں بازو کے سیاستدان ہر دور میں کسی نہ کسی بڑی جماعت کی چھتری تلے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے رہے ہیں۔ 

فسطائیت مخالف قوتوں کی ناپختہ یکجہتی اور بی این پی کے بائیں بازو کی طرف جھکاؤ نے ان عناصر کو بی این پی میں داخل ہونے کی کھلی راہ فراہم کر دی۔ وہی میڈیا گروہ، جو برسوں سے ضیاء خاندان اور بی این پی کے خلاف مہم چلاتے رہے، اب جب انھیں بی این پی اقتدار کے قریب نظر آئی تو انھوں نے روایتی موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے موقف بدل لیا۔ دوسری جانب بی این پی کی قیادت نے بھی موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماضی کی تمام تلخ یادیں بھلا کر انھیں خوش آمدید کہا۔ اقتدار کی سیاست غالباً ہمیشہ مفاد پرستانہ ہی ہوتی ہے۔ 

اب بی این پی کی صفوں میں عوامی لیگ کی بھارت نوازی کو نشانہ بنانے کے بجائے اُن اسلامی حلقوں کو جنھیں وہ ’اسلامسٹ‘ کہتے ہیں، انھی کو اصل چیلنج اور نشانہ بنایا جارہا ہے۔ 

بی این پی اور جماعت اسلامی سے باہر نوجوان طلبہ اور عوام پر مشتمل ایک تیسری سیاسی قوت کے اُبھرنے کی اُمید ضرور پیدا ہوئی ہے، مگر سرِدست وہ صحیح معنوں میں سیاسی میدان میں جڑ نہیں پکڑ سکی۔ 

۷۰کے عشرے میں جنرل ضیاء الرحمٰن نے چین نواز بائیں بازو اور اسلام پسندوں کو ملا کر بی این پی کی بنیاد رکھی تھی۔ وہ جماعت آج بھی ملک کی ایک بڑی قوت ہے، مگر اندرونی نظریاتی کش مکش ختم نہیں ہو سکی۔ اقتدار میں شراکت کی خواہش نے سب کو ایک چھت کے نیچے اکٹھا تو رکھا، لیکن بائیں بازو اور اسلام دوست قوتوں کی مسلسل نظریاتی جنگ چلی آرہی ہے۔ ایک عشرے سے بی این پی میں بھارت نواز اور بائیں بازو کی بڑھتی ہوئی موجودگی نے جماعت کے لیے اجنبیت پیدا کردی ہے۔ 

اب بی این پی میں ان افراد کو خوش دلی سے خوش آمدید کہا جا رہا ہے، جو پہلے عوامی لیگ کا حصہ تھے۔ یہ موقع پرستی بی این پی کے نظریاتی انحراف کی افسوس ناک علامت ہے۔ 

طلبہ کی نئی جماعت ’نیشنل سٹیزن پارٹی‘ (NCP) میں بھی ستّر کی دہائی کی بی این پی کی طرح بائیں بازو اور اسلام دوست عناصر کا امتزاج موجود ہے، جس سے نظریاتی تقسیم واضح ہو رہی ہے۔ قیادت کے تقریباً تمام افراد ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، جس سے قیادت کی چپقلش بھی ناگزیر ہو گئی ہے۔ این سی پی کے علاوہ ’جولائی انقلاب‘ کے طالب علم رہنماؤں کے کئی پلیٹ فارم وجود میں آچکے ہیں۔ اگر ان میں وحدت پیدا نہ ہو سکی، تو بی این پی اور جماعت کے علاوہ تیسری جماعت کے وجود پذیر ہونے میں مزید مدت لگے گی۔ 

اب سوال یہ ہے کہ عوامی لیگ کی سیاست کا مستقبل کیا ہے؟ 

اگرچہ بحیثیت جماعت عوامی لیگ کی واپسی فی الحال ممکن نظر نہیں آتی، مگر ان کے کم از کم ۲۰فی صد وفادار حمایتی ملک میں موجود ہیں۔ دوسری جانب بی این پی نے ان سب کے لیے دروازے کھول دیئے ہیں۔ این سی پی قیادت کا بھی ایک طبقہ عوامی لیگ کے ۱۹۷۱ء سے متعلق بیانیے کے قریب تر موقف پیش کر رہا ہے، تاکہ عوامی لیگ کے حامیوں کو اپنی طرف مائل کر سکے۔ 

میرا اندازہ ہے کہ عوامی لیگ کے کارکنان اور حامی، موجودہ حالات میں اپنی سلامتی کے لیے، واضح طور پر اقتدار کے قریب پہنچتی بی این پی کا رُخ کریں گے۔ چونکہ بھارت بھی بظاہر بی این پی کو قابلِ اعتماد سمجھنے لگا ہے، اس لیے عوامی لیگ نوازوں کی بی این پی میں شمولیت پر کوئی رکاوٹ باقی نہیں۔ 

حال ہی میں بی این پی نے، ڈاکٹر یونس حکومت کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر، سیاسی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوسری جانب، بنگلہ دیش کے فوجی سربراہ جنرل وقار الزماں کی اس تقریر نے حکومت کو کمزور کر دیا ہے، جس میں انھوں نے آرمی ہیڈ کوارٹر میں افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’عبوری حکومت جلداَز جلد انتخابات کرائے، فوجی معاملات میں مداخلت بند کرے اور رخائن راہداری کے بارے میں معاملات سے فوج کو باخبر رکھے‘‘۔ اہم سوال یہ ہے کہ ایک حاضر سروس فوجی سربراہ کو حکومت کے متعلق ایسے بیانات دینے کا اختیار کیسے حاصل ہے ؟ 

ان حالات میں، عبوری حکومت ایک ’لنگڑی بطخ‘ بن چکی ہے۔ تاہم، اگر موجودہ حکومت کسی حادثاتی یا سازشی عمل کے نتیجے میں رخصت ہو جاتی ہے، تو انڈیا کی منصوبہ بندی کامیاب ہو جائے گی۔ افسوس کہ جو سیاسی جماعتیں اس حکومت کو بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، وہ لازمی طور پر اس خطرے کو نظر انداز کر رہی ہیں۔صرف دو ماہ قبل، عیدالفطر کے روز قومی عیدگاہ میں لوگوں کا پُرجوش خیرمقدم دیکھ کر ڈاکٹر یونس کو بنگلہ دیش کا مقبول ترین رہنما تصور کیا جا رہا تھا، مگر آج وہ بی این پی کی جزوی تنظیمی طاقت کے سامنے غیر متوقع حد تک بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔ 

جولائی کے انقلاب نے اگرچہ شیخ حسینہ واجد کی فاشسٹ حکومت کو اقتدار سے محروم کر دیا تھا، مگر افسوس کہ اس کے بعد کی عبوری حکومت، بنگلہ دیش کو انڈیا کی آکٹوپس گرفت سے آزاد کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ ۲۰۰۷ء سے ۲۰۲۴ء تک، ۱۷ برسوں میں ریاست کے ہر شعبے میں انڈین ایجنٹوں کی جو دراندازی ہوئی ہے، انھیں شناخت کر کے بے دخل کرنے کے لیے کوئی مؤثر اور مربوط اقدام نہیں کیا گیا۔ 

چھ سالہ جلاوطنی کے بعد وطن واپس آ کر میں نے پروفیسر یونس صاحب سے بارہا کہا: ’’یا تو واقعی حکومت کریں، ورنہ کنارہ کش ہوجائیں‘‘۔ مگر سیاست سے ناواقفیت کے باعث شاید وہ میری بات کا مفہوم نہ سمجھ سکے۔ وہ، ان کے مشیر اور طلبہ رہنما ایک خودپسندانہ ’کمفرٹ زون‘ میں داخل ہوگئے۔ انھوں نے باہر کے خیرخواہوں کی بات سننے کی ضرورت محسوس نہ کی۔اس حکومت کی ناکامی، سیاست دانوں کی ناعاقبت اندیشی، اور اقتدار کی شدید خواہش نے انڈیا کو ایک بار پھر بنگلہ دیش کی سیاست میں داخل ہونے کا موقع دے دیا ہے۔یوں دکھائی دیتا ہے کہ نامکمل ’جولائی انقلاب‘ کو مکمل کرنے کے لیے قوم کو ایک بار پھر جدوجہد کی تیاری کرنا ہوگی۔  

تیونس میں خصوصی ’فوجداری عدالت‘ نے جمعہ کی شب، صدر قیس سعید کے درجنوں سیاسی مخالفین کو ۱۳ سے ۶۶سال کی سزائیں سنادیں۔ سزا پانے والوں میں جناب راشد الغنوشی (رئیس تحریک نہضت)، عصام الشابی (سیکرٹری جنرل جمہوری پارٹی)، نجیب الشابی (اپوزیشن اتحاد جبھۃ الخلاص کے رہنما)، غازی الشواشی (سابق سیکرٹری جنرل ڈیموکریٹک موومنٹ) اور اپوزیشن کے ایک اور معروف رہنما جوہر مبارک سمیت تیونس کی نمایاں ترین سیاسی، صحافتی اور قانونی حلقوں سے وابستہ ۴۰ شخصیات شامل ہیں۔ 

ان سیاسی قیدیوں پر جو دو سال سے زائد عرصے سے حراست میں ہیں، حددرجہ سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں، جن میں ریاستی سلامتی کے خلاف سازش ، ملکی و غیرملکی عناصر سے خفیہ روابط، صدرقیس سعید کا تختہ اُلٹنے کی کوشش، اور دہشت گرد گروہ تشکیل دینا شامل ہیں۔ ان سبھی سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات کی کارروائی آن لائن چلائی گئی۔ ساری عدالتی کارروائی عدل و انصاف کے ادنیٰ سے ادنیٰ تقاضوں سے یکسر خالی اور ’قانونِ انسداد دہشت گردی‘ اور ’فوجداری قانون‘ کے تحت سخت ترین ماحول میں انجام پائی، جس پر دُنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں اور قانون پسند حلقوں نے شدید تنقید کی ہے۔ 

۸۳برس کے جناب راشدالغنو شی گذشتہ دو برس سے جیل میں قید ہیں۔ یاد رہے، اس سے ہٹ کر ایک نام نہاد مقدمے میں انھیں پہلے ہی ۲۲برس قید کی سزا سنائی جاچکی ہے۔ 

اپوزیشن رہنمائوں پر یہ مقدمہ دوخفیہ مخبروں کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے، جن کا نام آج تک دُنیا کے سامنے نہیں آسکا۔ اس سے پہلے ۲۰۲۳ء میں صدرقیس سعید بیان دے چکے ہیں: ’’جو جج قیدیوں کو بری کریں گے، وہ بھی شریک جرم سمجھے جائیں گے‘‘۔ 

جناب راشدالغنوشی عرب اور اسلامی دُنیا کے نمایاںترین مفکرین اور سیاست دانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انھوں نے ۱۹۷۰ء کے عشرے میں حزب النہضۃ  (تحریک ِ نہضت) کی بنیاد رکھی۔ سابق صدر حبیب بورقیبہ کے دور میں انھیں قید کیا گیا، اور پھر زین العابدین بن علی کے اقتدار میں جلاوطن کردیا گیا۔۲۰۱۱ء میں ’تیونسی انقلاب‘ کے بعد، وہ جلاوطنی ترک کرکے لندن سے واپس تیونس آئے، اور ان کی سیاسی جماعت نے آئین ساز اسمبلی کے انتخابات میں اکثریت حاصل کی، جس کے نتیجے میں انھوں نے عبوری دور کے خدوخال متعین کرنے میں فعال حصہ لیا۔ 

بعدازاں انھوں نے دیگر سیاسی قوتوں کے ساتھ مفاہمت کی حکمت عملی اپنائی، جس کا نتیجہ مرحوم صدر باجی قائدالسبسی کے ساتھ اتحاد کی صورت میں سامنے آیا۔ یہ دور انقلاب کے بعد کے اَدوار میں سب سے زیادہ مستحکم دور شمار ہوتا ہے۔ الغنوشی، ’مسلم جمہوریت‘ کا تصور کو پیش کرنے والے اوّلین اسلامی مفکرین میں سے ہیں۔ 

راشدالغنوشی ۲۰۱۹ء سے تیونس کی پارلیمنٹ کے اسپیکر کے منصب پر فائز رہے، اور ۲۵جولائی ۲۰۲۱ء کو جس وقت صدر قیس سعید نے پارلیمنٹ کو معطل کیا، تو الغنوشی نے بطور اسپیکر اسمبلی صدر کے اس اقدام کی کھل کر مذمت کی اور اس صدارتی اقدام کو دستوری اختیار اور ۲۰۱۴ء کے آئین کے خلاف بغاوت قرار دیا۔ 

صدر قیس سعید نے ۲۵جولائی۲۰۲۱ء کو وزیراعظم ہشام مشیشی کی حکومت کو برطرف کر دیا، پارلیمنٹ اور اعلیٰ عدلیہ کو تحلیل کر دیا اور ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے وسیع تر اختیارات کے ساتھ ملک کا کنٹرول خود سنبھال لیا۔ بعدازاں صدر قیس سعید نے تیونس میں ایک نیا آئین نافذ کیا، جس کے تحت مزید اختیارات سمیٹ لیے۔ ۲۰۲۴ء کے صدارتی انتخابات میں رائے دہندگان نے ملکی تاریخ کے کم ترین شرح سے ووٹ ڈالے تھے ، جس کی بنیاد پر خود کو دوبارہ صدر منتخب قرار دے دیا۔ 

غزہ پر ڈیڑھ سال کی مسلسل بمباری اور قتل عام کے باوجود قاتل ہاتھوں میں رحم کے آثار ہیں اور نہ مظلوم لیکن پرعزم مزاحمت کاروں کے پائے استقلال میں کوئی جنبش۔ ایک طرف تیر کی برسات ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی، تو دوسری جانب دل و جان کی قربانی میں کوئی تعطل نظر نہیں آرہا۔ پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کردینے والے بموں کے مقابلے میں اہل غزہ صرف نہتے ہی نہیں بلکہ بھوکے پیاسے بھی ہیں اور جبر اور صبر کا ایسا ٹکراؤ تاریخ نے اس سے پہلے شاید ہی کبھی دیکھا ہو۔ تمام تر جبر اور سفاکیت کے باوجود زخموں سے چور اہل غزہ کی مزاحمت بھی جاری ہے۔

ہنگری سے امریکا کی طرف سفر کے دوران اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے خصوصی طیارے میں صحافیوں سے کہا: ’’دہشت گردوں ' کی کمر توڑ دی گئی ہے‘‘۔ اللہ کی شان کہ ۶؍ اپریل کی صبح جب نیتن یاہو نے یہ شیخی بگھاری اُدھر مزاحمت کاروں نے عین اسی وقت دس راکٹ اشدود کے بحری اڈے اور عثقلان عسکری کالونی کی طرف داغ دیے۔ پانچ کو امریکی ساختہ آئرن ڈوم نے فضا ہی میں غیر مؤثر کردیا، لیکن حفاظتی نظام کو پچھاڑتے ہوئے ہدف تک پہنچنے والے راکٹوں سے کئی جگہ آگ بھڑک اُٹھی۔

بمباری اور قتل عام کے ساتھ اپریل ۲۰۲۵ء کے ابتدائی دس دنوں سے اہل غزہ کو نقل مکانی کے عذاب کا سامنا کرنے کا آغاز ہوا۔ ہرروز انتباہ جاری ہوتا ہے کہ ’’اگلے تین گھنٹوں میں فلاں علاقے پر خوفناک فوجی کارروائی ہونے والی ہے، وہاں سے نکل جائو‘‘۔بے خانماں لوگ میلوں پیدل سفر کرکے دوسرے مقامات پر پہنچ کر خیمے گاڑہی رہے ہوتے ہیں کہ نئی نقل مکانی کا حکم جاری ہوجاتا ہے۔ اہل غزہ عیدالفطر کی شب سے مسلسل سفر میں ہیں۔اب تھکن کا یہ عالم ہے کہ ۶؍اپریل کو جب الشجاعیہ محلہ خالی کرانے کا حکم آیا تو نڈھال لوگوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ: ’’اب کوئی ہجرت نہیں ہوگی ہم سے‘‘۔ پھر مزاحمت کاروں نے عربی، انگریزی اور عبرانی میں پیغام جاری کردیا کہ ’’بہت سے اسرائیلی قیدی الشجاعیہ میں رکھے گئے ہیں جن کو یہاں سے نہیں ہٹایا جائے گا اور اگر بزور قوت قیدی چھڑانے کی کو شش کی گئی تو اس کے نتیجے میں اسرائیلیوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے‘‘۔ اسرائیلی عوام کے نام پیغام میں ترجمان نے مزید کہا کہ ’’اگر نیتن یاہو حکومت کو اپنے قیدیوں کی فکر ہوتی تو وہ جنوری میں ہونے والے معاہدے کی پاسداری کرتا اور جنگ دوبارہ نہ چھیڑتا اور یہ قیدی اس وقت اپنے عزیزوں کے درمیان ہوتے۔ اب غزہ میں کوئی جگہ محفوظ نہیں۔ اگر اسرائیلی قیدی بھی بمباری سے ہلاک ہوجائیں تو ہم سے شکوہ نہ کرنا‘‘۔

مزاحمت کاروں کے اس اعلان کے بعد قیدیوں کے لواحقین نے تل ابیب میں فوجی ہیڈکوارٹر پر زبردست مظاہرہ کیا۔ لوگ نعرے لگارہے تھے:’’تمھاری جنگ کی قیمت، ہمارے پیاروں کی زندگی‘‘۔ مظاہرین نے فوج کے سربراہ جنرل ایال ضمیر سے ملاقات کی۔سخت مشتعل لوگوں نے مطالبہ کیا کہ فوج، جنگجو نیتن یاہو کا تختہ الٹ دے۔جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے لیے تل ابیب میں مظاہرہ روز کا معمول ہے، لیکن مغربی دنیا کی غیر مشروط سرپرستی کی بنا پر نیتن یاہو کسی کی کچھ سننے کو تیار نہیں۔ تین اپریل کو امریکی سینیٹ نے اسرائیل کو اسلحے پر پابندی کی قرارداد جس بُری طرح مسترد کی، اس نے اسرائیل کے جنگجو حکمرانوں کو مزید ’دلیر‘ کردیا ہے۔

امریکی وزیرخارجہ ہردوسرے روز نیتن یاہو کو فون کرکے امریکی حمایت کا اعادہ کرتے رہتے ہیں۔مزید فوجی امداد کی ضمانت لینے نیتن یاہو ۶؍ اپریل کو بنفس نفیس امریکا پہنچا۔ درحقیقت اس چوٹی ملاقات میں ’ٹرمپ غزہ‘ منصوبے کو آخری شکل دی گئی۔اسی دوران اسرائیلی وزیرخارجہ گدون سعر نے ابوظہبی میں وزیرخارجہ شیخ عبداللہ بن زید النہیان سے ملاقات کی۔ اماراتی وزارت خارجہ کے مطابق دونوں رہنماوں نے غزہ امن پر بات چیت کی، لیکن آزاد صحافتی ذرائع بتارہے ہیں کہ اصل گفتگو ایران پرحملے کی صورت میں ایرانیوں کی جوابی کارروائی سے متحدہ عرب امارات کو محفوظ رکھنے کے لیے امریکی و اسرائیلی اقدامات اور فلسطینیوں کے انخلا کے بعد مجوزہ 'ٹرمپ غزہ منصوبے کی تعمیر میں امارات کے کردارپر ہوئی۔

تحقیقات کے بعد اقوام متحدہ نے اس بات کی تصدیق کردی کہ ۲۳ مارچ ۲۰۲۵ء کو غزہ میں پانچ ایمبولینسوں، ایک فائر انجن اور اقوام متحدہ کی گاڑی کو اسرائیلی ڈرون نے شناخت کے بعد نشانہ بنایا۔ اس واقعے میں ۱۵ وردی پوش امدادی کارکن جان بحق ہوئے تھے۔ نیویارک ٹائمز نے وہ تصویر بھی شائع کردی جو خود اسرائیلی ڈرون نے حملے سے پہلے لی تھی، جس میں ایمبولنسیں صاف دکھائی دے رہی ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارے UNRWA کا کہنا ہے کہ غزہ میں بمباری سے ہرروز ۱۰۰ بچے جاں بحق یا شدید زخمی ہورہے ہیں اور اسرائیل نے دو تہائی غزہ کو No Go ایریابنادیاہے۔اسرائیلی وزیراعظم نے بہت فخر سے کہا کہ ’’اسرائیلی فوج نے فلاڈیلفی راہداری کے متوازی ایک اور راہداری بناکر ر فح کے گرد گھیراؤ مکمل کرلیاہے اور اب مزاحمت کاروں کے لیے ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں‘‘۔ہتھیار ڈالنے کی اسرائیلی خواہش تو شاید پوری نہ ہو، لیکن لگتاہے کہ خون کی ہولی غزہ کے آخری بچے کے قتل تک جاری رہے گی۔ گذشتہ ہفتے ہلال احمر غزہ کے سربراہ نے اپنے پیغام میں کہا:’’ غزہ پر مسلسل آگ برس رہی ہے، پانی کی آخری بوند بھی ختم ہوچکی، ہر طرف موت نظر آرہی ہے‘‘۔ ' اسی کے ساتھ غزہ کے ڈائریکٹر صحت ڈاکٹر منیر البرش کا پیغام بھی نشر ہوا: ’’غزہ آخری سانس لے رہا ہے، دنیا کا بہت انتظار کیا ۔خدا حافظ‘‘۔

اسرائیلی فوج بمباری کے لیے بنکر بسٹر بم استعمال کررہی ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے  کہ یہ بم پہاڑی علاقوں میں چٹانوں سے تراشے مورچوں کو تباہ کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور شہری علاقوں میں اس کے استعمال پر پابندی ہے، لیکن امریکا اور اسرائیل دنیا کے کسی ضابطے اور قانون کو خاطر میں نہیں لاتے۔ امریکا نے کنکریٹ کو چیر دینے والے یہ بم افغانستان میں بے دریغ استعمال کیے تھے۔ روایتی بم کسی سخت سطح سے ٹکراتے ہی پھٹ جاتے ہیں،جب کہ بنکر بسٹر بم عمارت کی چھت چیرکر دس انچ زمین کے اندر گھس کر پھٹتے ہیں جس کی وجہ سے عمارت کا ملبہ اور وہاں موجود  لوگ فوارے کی طرح فضا میں بلند ہوجاتے ہیں۔ مرکزی غزہ پر بمباری کے جو بصری تراشے اسرائیلی فوج نے جاری کیے ہیں، اس میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح گردو غبار اور دھوئیں کے ساتھ بچوں کے لاشے کئی سو فٹ اُوپر فضامیں اُچھلے اور نیچے گر کر پاش پاش ہو گئے۔

غزہ کے ساتھ غربِ اردن میں بھی معاشرتی تطہیر کی مہم زور شور سے جاری ہے۔ عید کے دن اسرائیلی فوج نے جنین کے مضافاتی علاقے برقین اور وسطی غرب اردن کے شہر سلفیت پر حملہ کیا۔ اس دوران بمباری، ڈرون حملے اور ٹینکوں کے بھرپور استعمال نے دونوں قصبات کو کھنڈر بنادیا۔ بمباری اور فائرنگ سے درجنوں افرادجاں بحق ہوئے، زندہ بچ جانے والوں اور زخمیوں کو اردنی سرحد کی طرف دھکیل دیاگیا۔۶؍ اپریل کو غربِ اردن کے شہر ترمسعيّا پر فوجی سرپرستی میں قابضین (Settlers)نے حملہ کیا۔گھر، دکانیں اور گاڑیوں کو آگ لگادی۔ اندھادھندفائرنگ سے امریکی شہریت کا حامل ایک ۱۴سالہ بچہ عمر محمد ربیع جاں بحق ہوگیا۔ ٹرمپ انتظامیہ کا دہرا معیار ملاحظہ فرمائیں کہ حماس کی قید میں اسرائیل شہری عیدن الیگزنڈر کی رہائی کے لیے ساری ٹرمپ حکومت سرگرم ہے لیکن اس امریکی بچے کے بہیمانہ قتل پر کسی کو کچھ تشویش نہیں، حتیٰ کے CNN نے اس واقعے پر امریکی حکومت کے ردعمل کے لیے جب وزارت خارجہ وائٹ ہائوس کو برقی خطوط بھیجے تو وہ ای میل مکتوب الیہ نے متن پڑھے بغیر ہی حذف کردی۔امریکا کے بعد جرمنی میں بھی غزہ نسل کشی کی مذمت کرنے والوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہے۔

  • نسل کشی پر ردعمل:نسل کشی میں معاونت کرنے والے اداروں کے تعاقب میں بھی کمی نہیں آئی۔۴؍ اپریل کو مائیکروسوفٹ نے مصنوعی ذہانت یا AIمیں کام کے آغاز کی ۵۰ ویں سالگرہ منائی۔اس موقعے پر ادارے کے صدر دفتر واقع ریاست واشنگٹن میں تقریب ہوئی، جہاں ادارے کے بانی بل گیٹس اور سربراہ اسٹیو بالمر بھی موجود تھے۔ جیسے ہی شعبہ AIکے سربراہ مصطفےٰ سلیمان تقریر کرنے کھڑے ہوئے، مراکشی نژاد لڑکی ابتہال ابواسد ’غزہ نسل کشی بند کرو‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے اسٹیج کی طرف بڑھی۔ حفاظتی عملے نے اسے دبوچ لیا، لیکن وہ چیخ چیخ کر کہتی رہی:’شرم کرو سلیمان! تمھاری AIکے مدد سے اسرائیلی فوج بچوں کا خون کررہی ہے۔ مائیکروسوفٹ ، بمباری، ڈرون حملوں اور اہل غزہ میں پھوٹ ڈالنے کی غرض سے اسرائیل کے لیے AI کے خصوصی پروگرام (Applications) ترتیب دے رہی ہے۔ تم اندھے ہو اس لیے فرزند ِ شام ہونے کے باوجود تمھیں اپنے ہاتھوں پر عورتوں اور بچوں سمیت ۵۰ ہزار فلسطینیوں کا لہو نظر نہیں آرہا‘‘۔جب ابتہال کو محافظین نے ہال سے نکال دیا توایک ہندوستانی لڑکی وانیا اگروال کھڑی ہوگئی اور غزہ نسل کشی کے خلاف نعرے لگائے۔ اسے بھی باہر نکال دیا گیا اوردوسرے دن ان دونوں ملازمین کو مائیکروسوفٹ کی طرف سے برطرف کردیا گیا۔

اس حوالے سے برصغیر کی خواتین کا جرأت مندانہ کردار ابلاغ عامہ پر چھایا رہا۔کچھ عرصہ پہلے پاکستان کی معروف آرکیٹیکٹ محترمہ یاسمین لاری نے ایک لاکھ ڈالر کا اسرائیلی ایوارڈ یہ کہہ کر ٹھکرادیا کہ ' اسرائیلی ادارے سے انعام وصول کرکے میں فلسطینیوں کے زخموں پر نمک نہیں چھڑک سکتی۔ یکم اپریل کو بنگلہ دیش کی لڑکی امامہ فاطمہ نے امریکا کے International Women of Courage  انعام کو ٹھوکر ماردی۔ امامہ کو ایوارڈ وصول کرنے کے لیے امریکا آنے کی دعوت خاتونِ اول ملانیا ٹرمپ اور وزیرخاجہ مارکو روبیو نے دی تھی۔ اپنے جواب میں امامہ نے لکھا:’’ فلسطینی عوام طویل عرصے سے اپنے بنیادی انسانی حقوق بشمول زمین کے حق سے محروم ہیں۔ فلسطین کی جدوجہد آزادی کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے میں اس ایوارڈ کو مسترد کر رہی ہوں‘‘۔

غزہ کے طول و عرض پر بمباری اور بحروبر سے شدید گولہ باری کے ساتھ اسرائیل اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے مصر کی ثالثی میں مزاحمت کاروں ' سے براہ راست مذاکرات بھی کررہاہے۔ جمعہ ۱۱؍ اپریل کو شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر ایک سینئر اسرائیلی اہلکار نے KAN نیوز ایجنسی کو بتایا:’’ نیتن یاہو، آٹھ قیدیوں اور آٹھ لاشوں کے عوض کئی سو فلسطینی رہا کرنے پر تیارہے۔اس دوران پائیدار امن مذاکرات کے لیے ۴۰ سے ۷۰دن حملے بند رہیں گے، جب کہ مزاحمت کار شہری علاقوں اور ر فح سے اسرائیلی فوج کی واپسی اور انسانی امداد کے راستے میں حائل تمام رکاوٹیں ختم کرنے کے مطالبے پرقائم ہیں‘‘۔

گفتگو کے مثبت اشاروں سے پھوٹنے والی امید کی کرن ۱۴؍ اپریل کو اس وقت ختم ہو گئی جب مزاحمت کاروں کے ترجمان سمیع ابوظہری نے الجزیرہ ٹیلی ویژن پر اس بات کی تصدیق کی کہ ’’اسرائیلی تجاویز کا متن ہمیں موصول ہوچکا ہے، جس کے مطابق دوسرے مرحلے کے مذاکرات شروع ہونے سے پہلے مزاحمت کاروں کو غیرمسلح ہونا ہوگا اور ہم یہ مطالبہ کروڑوں بار مسترد کرتے ہیں۔لیکن اگر اسرائیل امن معاہدہ کرکے غزہ سے اپنی فوج واپس بلالے تو اس کے سارے کے سارے قیدی بیک وقت رہا کردیے جائیں گے‘‘۔

ہفتہ ۱۲؍ اپریل کو جہاں امن مذاکرات کے لیے اعلیٰ سطحی وفد قاہرہ روانہ ہوا، وہیں اسرائیلی طیاروں نے سارے غزہ پر عربی زبان میں وزیردفاع اسرائیل کاٹز کے آخری انتباہ پر مبنی پمفلٹ گرائے۔ ٹائمز آف اسرائیل میں اس پمفلٹ کا جو متن شائع ہواہے، اس کے مطابق: ’’اسرائیلی فوج نے فلاڈیلفی راہداری کے شمال مغرب میں موراگ راہداری پر اپنا قبضہ مکمل کرلیا ہے۔ شمال میں بیت حنون کا علاقہ بھی اب اسرائیلی فوج کا سکیورٹی زون ہے۔ اہل غزہ کے لیے یہ جنگ ختم کرنے کا آخری موقع ہے‘‘۔

  • جنگ بندی تحریک: تاہم، معاملہ اتنا سادہ نہیں جیسا فاضل وزیردفاع بیان کررہے ہیں۔ اس طویل خونریزی نے جہاں غزہ اور اہلِ غزہ کو برباد کردیا، وہیں اسرائیلی فوج میں بھی تھکن بلکہ جھنجھلاہٹ کے آثار بہت واضح ہیں۔ اس سے پہلے ۱۹۶۷ء کی جنگ میں مصر، شام، اردن، عراق اور لبنان کے ساڑھے چار لاکھ سپاہی، ۸۰۰طیارے اور ۲۵۰۰ سے زیادہ ٹینک صرف چھ دن ثابت قدم رہ سکے۔چھ روزہ جنگ میں اسرائیل کے کل ۹۰۰ سپاہی ہلاک ہوئے۔چھ سال بعد ۱۹۷۳ء کی ’جنگ رمضان‘ (جنگ یوم کپر) صرف ۲۳ دن جاری رہی۔ اس جنگ میں مصر اور شام کو الجزائر، عراق، لیبیا اور تیونس کے علاوہ شمالی کوریا اور کیوبا کی مدد بھی حاصل تھی۔ ’جنگ رمضان‘ میں اسرائیل کے ۲۸۰۰فوجی مارے گئے،جب کہ حالیہ خونریزی ۵۶۰ دنوں سے جاری ہے، جس میں ۴۰ ہزار مزاحمت کاروں کے مقابلے پر اسرائیل نے محفوظ (Reserve)سپاہیوں سمیت اپنے لاکھوں فوجی جھونک رکھے ہیں۔

۹؍اپریل کو اسرائیل فضائیہ کے ایک ہزار سے زیادہ ریزرو افسران نے چیف آف ائر اسٹاف میجر جنرل تومر بار کو ایک خط لکھاجس کی نقول اسرائیلی اخبارات کو جاری کی گئیں۔ خط میں کہا گیا ہے: ’’شہری آبادی پر وحشیانہ بمباری مسئلے کا حل نہیں۔ قیدیوں کی آزادی کو لڑائی پر ترجیح ملنی چاہیے‘‘۔ اس خط پر نیتن یاہو کو سخت غصہ آگیا اور وزیردفاع کے نام ایک مکتوب میں کہا کہ :’’اس حرکت سے فوج میں بددلی اور قیادت پر عدم اعتماد پیدا ہوگا، لہٰذا ان سرکش بزدلوں کو فوراً برطرف کردیا جائے‘‘۔ یاد رہے کہ اسرائیل میں فوجی ملازمت ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ختم نہیں ہوتی اور مناسب صحت کے حامل افراد کو محفوظ یا ریزرو دستے کا حصہ بنالیا جاتاہے۔ اس وقت غزہ میں پونے دولاکھ فعال سپاہ کے شانہ بشانہ ۳لاکھ محفوظ سپاہی لڑائی میں شریک ہیں، جوایک ماہ محاذ پر گزار کر ۳۰ دن آرام کرتے ہیں۔

ابھی ان اسرائیلی باغیوں کی گوشمالی کا کام شروع ہی ہوا تھا کہ اسرائیلی بحریہ کے ۱۵۰سے زیادہ ریٹائرڈ افسران نے وزیردفاع کے نام ایسا ہی ایک خط لکھ مارا۔ بحریہ کے افسران نے  غزہ خونریزی فوراً بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے تحریر کیا کہ ’’بے مقصد جنگ سے اسرائیل کو مالی و جانی نقصان اور عالمی سطح پر بدنامی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔ جنگ دوبارہ شروع کرکے وزیراعظم نے ۵۹؍اسرائیلی قیدیوں کی زندگی خطرے میں ڈال دی ہے‘‘۔ شام کو میڈیکل کور کے سیکڑوں افسران نے اسی مضمون کا پیغام اپنی قیادت کو بھجوادیا۔ عبرانی چینل ۱۲ کے مطابق اسرائیلی بکتر بند دستے کے سیکڑوں اہلکاروں نے بھی فوج کے سربراہ کے نام خط میں کہا ہے:’’غزہ میں جاری لڑائی اسرائیل کے دفاع کے لیے نہیں بلکہ سیاسی مفادات کی تکمیل کے لیے لڑی جا رہی ہے‘‘۔

جمعہ ۱۱؍ اپریل کو فوج کے انتہائی اہم ۸۲۰۰؍انٹیلی جنس یونٹ کے ۲۵۰ ایجنٹوں کی طرف سے لکھے جانے والے خط نے اسرائیلی قیادت کو مزید پریشان کردیا۔جدید ترین ٹکنالوجی سے مزین ۱۸ سے ۲۱ سال کے ۵ہزار نوخیز جوانوں پر مشتمل اس یونٹ کو اسرائیلی فوج کا دل ودماغ اور اصل قوت سمجھا جاتا ہے۔ اپنے خط میں ان افسران نے کہا کہ طویل اور بے مقصد جنگ نے اسرائیلی فوج کو تھکادیا ہے اور لڑائی سے ہمارے قیدیوں کے لیے خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔ خط میں جنگ ختم کرکے سفارتی کوششوں کے ذریعے قیدیوں کی رہائی یقینی بنانے پر زور دیا گیا ہے۔یونٹ ۸۲۰۰ کے خط پر وزیراعظم نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ہمارے دشمنوں کے حوصلے بلند ہورہے ہیں۔

اس سے قبل ۱۴ فروری کو موساد کے سابق سربراہوں اور سیکڑوں سابق ایجنٹوں نے بھی جنگ بندی تحریک میں شمولیت اختیار کی اور وزیراعظم کے نام کھلے خط میں انھوں نے قیدیوں کی رہائی کی خاطر فوری امن معاہدے کا مطالبہ کردیا: ’’لڑائی دوبارہ شروع کرکے نیتن یاہو نے اسرائیلی قیدیوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دی ہیں‘‘۔ اس خط پر موساد کے سابق سربراہ دانیال جاسم، ابراہیم حلوی اور تامر پاردو کے علاوہ۲۵۰سابق افسران کے دستخط ہیں۔

  • امریکا میں انتقامی کارروائیاں:غزہ نسل کشی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف انتقامی کارروائی میں بھی شدت پیدا کی گئی ہے۔ امریکی وزیرتعلیم لنڈامک ماہون (Linda McMahon) نے یونی ورسٹیوں کے سربراہوں کو دھمکی دی ہے کہ وفاق کی مدد چاہیے تو غزہ نسل کشی کے خلاف تحریک پر پابندی لگائو۔ تاہم دھمکیوں اور گرفتاریوں کے باوجود کسی نہ کسی سطح پر طلبہ کا احتجاج جاری ہے۔

امریکی یونی ورسٹیوں میں غزہ نسل کشی کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو کچل دینے کاسلسلہ جاری ہے۔ جمعہ ۱۱؍ اپریل کو غزہ نسل کشی کے خلاف کولمبیا یونی و رسٹی میں طلبہ تحریک کے قائد محمود خلیل کی امریکا بدری کا فیصلہ سنادیا گیا۔محمود کے خلاف کسی پُرتشدد واقعے میں شرکت اور دہشت گردی میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیاگیا۔ گرین کارڈ ہولڈر محمود خلیل کے خلاف فردِ جرم، وزیرخارجہ مارکو روبیو کی دوصفحاتی یادداشت پر مشتمل ہے، جس پر تاریخ بھی درج نہیں ہے۔ میمو میں وزیرخارجہ نےتحریر کیاکہ ' ۷ مارچ کو انھیں ہوم لینڈ سیکیورٹی ڈیپارٹمنٹ سے خلیل کے بارے میں معلومات ملی تھیں کہ خلیل کے امریکا میں قیام سے سام دشمنی کا مقابلہ کرنے کی امریکی خارجہ پالیسی کے مقصد کو نقصان پہنچے گا۔یہود مخالف مظاہروں کے فروغ کا سبب بن سکتا ہے۔ لوزیانہ کی امیگریش جج جیمی کومنز نے اپنے مختصر فیصلے میں لکھا: ’’میرے پاس مارکو روبیو کے خدشات پر سوال اٹھانے کا کوئی اختیار نہیں‘‘۔ فیصلہ سننے کے بعد محمود خلیل نے جج صاحبہ کو مخاطب کرکے کہا: ’’یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ حکومت نے مجھے اس عدالت میں بھیجا ہے، جو میرے خاندان سے ایک ہزار میل دُور ہے‘‘۔ جواں سال محمود خلیل ۸مارچ سے نظر بند ہے۔پیر ۱۴دسمبر کو کولمبیا یونی ورسٹی کے ایک اور طالب علم محسن مہدوی کو ریاست ورمونٹ (Vermont) سے اس وقت گرفتار کرلیا گیا، جب وہ شہریت کے لیے انٹرویو دینے آیا تھا۔ دوسری طرف غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہروں کو روکنے میں ناکامی پر صدر ٹرمپ نے کورنیل یونی ورسٹی کی ایک ارب اور نارتھ ویسٹرن یونی ورسٹی کے لیے ۷۹کروڑ ڈالر کی وفاقی گرانٹ معطل کردی ہے۔

اس کے باوجود عرب ممالک کا تل ابیب سے تعاون جاری ہے۔ اپریل کے مہینے میں اسرائیل کے ساتھ مشترکہ فضائی مشقوں میں قطر اور متحدہ امارات نے شرکت کی۔ خلیج یونان پر ہونے والی اس مشق میں امریکا، انڈیا ، فرانس، اٹلی اور پولینڈ شریک ِ کار تھے، اور غزہ میں اسی طرح شہیدوں کے بے گوروکفن لاشے پڑے رہے۔ جھلستی دُھوپ میں اہل غزہ کو گھروں سے نکال کر جبری طور پر بکھیرا جاتا رہا۔

آج صبح ایک صحافی دوست نے فون کیا۔ ان کی کال کا مقصد حال ہی میں نافذ کیے گئے ’وقف (ترمیمی) ایکٹ ۲۰۲۵‘ پر حقائق کو جاننا تھا۔ واضح رہے کہ مسلمانوں سے متعلق ’وقف ایکٹ ۱۹۹۵/۲۰۱۳‘ میں ترمیم کو حکومتِ ہند نے ’لوک سبھا‘ (ایوانِ زیریں)اور ’راجیہ سبھا‘ (ایوانِ بالا) سے منظور کروا کر صدرِ ہند کے دستخط کے بعد باضابطہ طور پر نافذ کر دیا ہے۔ وقف کے قانون میں کی گئی یہ تبدیلی ملک بھر میں بحث و مباحثے کا موضوع بنی ہوئی ہے، اور مختلف مقامات پر اس کے خلاف احتجاج بھی جاری ہیں۔صحافی دوست کا  ایک اہم سوال تھا: ’’ترکیہ اور سعودی عرب میں  ’وقف‘ ریاست کے ماتحت ہے، تو پھر یہاں ہندستان کے مسلمانوں کو اس پہ اعتراض کیوں ہے؟‘‘ یہ ایک ایسا سوال ہے، جسے عوام کے ذہنوں میں ڈالنے کا کام خود حکومتِ ہند نے کیا ہے۔

جب سے ہندستان میں مسلمانوں کے خلاف ’لینڈ جہاد‘ (Land Jihad) کا من گھڑت پروپیگنڈا زور پکڑنے لگا، اسی وقت ترکیہ اور دیگر مسلم ممالک کا نام لے کر یہ تاثر پھیلایا گیا کہ ان ممالک میں وقف کا کوئی باقاعدہ نظام موجود نہیں ہے۔ ۸؍ اگست ۲۰۲۴ء کو جب ’وقف (ترمیمی) بل‘ لوک سبھا میں پیش کیا گیا، تو حکومت ہند نے اس بل کے حوالے سے ایک وضاحتی بیان سوال و جواب کی شکل میں جاری کیا۔ اس بیان میں ایک سوال یہ بھی تھا:’’کیا تمام مسلم ممالک کے پاس وقف جائیدادیں ہیں؟‘‘جس کے جواب میں کہا گیا: ’’نہیں، تمام مسلم ممالک کے پاس وقف جائیدادیں نہیں ہیں۔ ترکیہ، لیبیا، مصر، سوڈان، لبنان، شام، اردن، تیونس اور عراق میں وقف نہیں ہے۔ تاہم، بھارت میں نہ صرف وقف بورڈز سب سے بڑے شہری اراضی کے مالک ہیں بلکہ ان کے پاس ایک ایسا قانون بھی ہے جو انھیں قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے‘‘۔

پھر ۲؍ اپریل ۲۰۲۵ءکو جب ’لوک سبھا‘ میں وقف (ترمیمی) بل پر بحث ہو رہی تھی، تو بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمنٹ، سمبیت پاترا اور نشی کانت دوبے نے اپنی تقریروں میں دعویٰ کیا کہ کئی اسلامی ممالک جیسے ترکیہ، لیبیا، مصر، سوڈان، لبنان، شام، اردن، تیونس اور عراق میں وقف کا تو کوئی نظام موجود ہی نہیں ہے۔ مگر اگلے ہی روز، یعنی ۳؍ اپریل ۲۰۲۵ءکو راجیہ سبھا میں بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے کہا: ’’ترکیہ میں تمام وقف املاک کو بہتر انتظام اور شفافیت کے لیے ریاست کے کنٹرول میں لے لیا گیا۔ یہ کب کیا گیا؟ ۱۹۲۴ء میں، یعنی ۱۰۰ سال پہلے‘‘۔

جے پی نڈا اس بات سے واقف نہیں ہوں گے کہ ترکیہ میں وقف کا نظام خلافتِ عثمانیہ سے بڑی مضبوطی سے قائم ہو چکا تھا۔ اور آج تو حقیقت یہ ہے کہ ترکیہ میں وقف محض ایک خیراتی ادارہ نہیں، بلکہ ایک مؤثر اقتصادی ایجنسی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ادارہ نہ صرف سماجی بہبود کا علَم بردار ہے، بلکہ ملک کی معاشی ترقی اور مجموعی خوش حالی سے بھی گہرا تعلق رکھتا ہے۔

 یہاں یہ جاننا بھی اہم ہے کہ جب ہندستان کی تقسیم نہیں ہوئی تھی، تب ہندوستان میں ترکیہ اور دیگر مسلم ممالک کی طرز پر اوقاف کی ایک وزارت یا محکمہ قائم کیے جانے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ دی ٹائمز آف انڈیا میں ۱۷جولائی ۱۹۲۸ء کو شائع ایک خبر کے مطابق، شملہ میں ستمبر کے اجلاس کے دوران قانون ساز اسمبلی میں غیر سرکاری قراردادوں کے لیے مختلف موضوعات پر قراردادوں کے نوٹس دیے گئے تھے۔ ان ہی نوٹس میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کے ایک رکن سرعبدالحلیم خان غزنوی (۱۸۷۶ء-۱۹۵۳ء) کا بھی تھا۔ اخبار لکھتا ہے: ’’مسٹر اے- ایچ- غزنوی، جنھوں نے پہلے ہی مسلمانوں کے اوقاف ایکٹ میں ترمیم کے لیے ایک بل پیش کرنے کی اجازت طلب کرنے کے ارادے کا اظہار کیا ہے، ایک قرارداد بھی رکھتے ہیں جس میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ ’اوقاف کے انتظامات کی جانچ پڑتال کے لیےسرکاری و غیر سرکاری افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے، تاکہ ہندوستان میں ترکی اور دیگر مسلم ممالک کی طرز پر اوقاف کی ایک وزارت یا محکمہ قائم کیا جا سکے‘۔ ۱۹نومبر ۱۹۲۹ء کے ٹائمز آف انڈیا کے مطابق: ’’مسٹر غزنوی نے قانون ساز اسمبلی میں وقف کا یہ مسئلہ پھرسے اٹھایا‘‘… ایک اور سوال کے ذریعے وہ [مسٹر اے- ایچ- غزنوی] مطالبہ کرتے ہیں کہ ’’حکام اور غیر سرکاری افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے، جو ہندستان میں اوقاف کے انتظامات کی جانچ کرے، تاکہ ترکی اور دیگر مسلم ممالک کی طرح ایک ’محکمہ برائے مذہبی اوقاف‘ قائم کیا جاسکے۔ یاد رہے کہ جناب غزنوی اسی مقصد کے لیے اسمبلی میں ایک بل پہلے ہی پیش کر چکے ہیں‘‘۔

بہرحال، ترکیہ میں وقف مینجمنٹ کے لیے ایک پورا سسٹم موجو دہے۔ سرکاری ادارہ  Vakıflar Genel Müdürlüğü یعنی General Directorate of Foundations ترکیہ کے وقف کی دیکھ بھال کرتا ہے۔  یہاں ایک خاص بات یہ ہے کہ ’’ترکیہ میں کوئی بھی فرد اپنا نجی وقف قائم کر سکتا ہے اور اس میں حکومت کا کوئی دخل نہیں ہوتا‘‘۔ یہ بات ابھی گذشتہ دنوں ہی میرے ایک ترکش دوست نے بتائی ہے۔ یاد رہے کہ ترکی زبان میں ’وقف‘ کو Vakif لکھا جاتا ہے اور انگریزی میں اسے ’فاؤنڈیشن‘ کہا جاتا ہے۔

ترکیہ میں ’وقف‘ کے نظام کی تاریخ

ترکیہ، خلافت عثمانیہ کے جانشین ملک کے طور پر، ’وقف‘ کے میدان میں ایک گہری اور بھرپور وراثت کا حامل ہے۔ خلافت عثمانیہ کے قیام کے وقت سے ہی، وقف کو روایتی طور پر ان کے نگہبانوں کے ذریعے ہی سنبھالا جاتا تھا۔ عام طور پر، نگہبان وہ لوگ ہوتے تھے جو ’اوقاف‘ کے بانی ہوتے تھے اور ان کی وفات کے بعد، ان کے بچے اور نسلیں ان کے منتظمین بن جاتے تھے۔

صباح الدین یونی ورسٹی استنبول کے اوزان مراشلی کے مطابق، ان نجی طور پر قائم کردہ اوقاف کے علاوہ، ایسے irsādī اوقاف بھی موجود تھے جو سلاطین نے ریاستی بجٹ سے مختص رقم کے طور پر وقف کیے تھے۔ یہ ریاستی سرپرستی میں قائم اوقاف اعلیٰ عہدے داروں، جیسے صدرِ اعظم اور شیخ الاسلام (اعلیٰ مذہبی اتھارٹی)، کی نگرانی میں تھے۔اس کے بعد اوقاف کا انتظام ۱۸۲۶ء میں مرکزی حکومت کے تحت آ گیا، جب کہ مکہ اور مدینہ کی دو مقدس مساجد سے متعلق وقف کی ایک خصوصی وزارت قائم کی گئی، جسے ’وزارتِ اوقافِ شاہی‘ (Evkâf-ı Hümâyun Nezâreti) کہا گیا۔ یہ عثمانی تاریخ میں ایک اعلیٰ بورڈ تشکیل دینے کی پہلی کوشش تھی، جو اسی طرح کے مقاصد کے لیے وقف کیے گئے تھے۔ بعد میں، اس وزارت کے دائرۂ کار کو بڑھا کر ان اوقاف تک پھیلایا گیا، جو سلاطین، ان کے اہلِ خانہ اور پاشاؤں نے قائم کیے تھے۔ ڈاکٹر اوزان مراشلی نےسال ۲۰۲۲ء میں ترکیہ میں وقف کا معاشی نظام  عنوان پر پی ایچ ڈی ڈگری حاصل کی ہے۔

غورطلب رہے کہ irsādī وقف وہ وقف ہے، جو حکومت کے ذریعے قائم کیے گئے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ حکومت کے مخصوص آمدنی کے ذرائع کو مخصوص فلاحی مقاصد کے لیے مختص کیا گیا ہے، بجائے اس کے کہ یہ ایک جائز وقف ہو، جو کسی فرد یا انجمن کے ذریعے قائم کیا جائے۔ ترکیہ میں اس نوعیت کے وقف کی معروف مثالوں میں سوشل ایڈ اینڈ سولیڈیریٹی وقف، ترک ماحولیاتی تحفظ وقف اور ترک معارف فاؤنڈیشن شامل ہیں۔ ۲۰۱۸ء میں ترکیہ میں ۱۰۰۲ (ایک ہزار دو) سوشل ایڈ اینڈ سولیڈیریٹی وقف موجود تھے، جن کی ہر ضلع میں کم از کم ایک شاخ موجودہے۔ ان کا بنیادی مقصد غریبوں اور ضرورت مندوں کو براہ راست مالی و مادی امداد فراہم کرنا ہے، تاکہ ان کی خوراک، رہائش، تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور دیگر ضروریات پوری کی جا سکیں۔

۲ مئی ۱۹۲۰ء کو وقف کے انتظامی معاملات کو ترکیہ کی پہلی ’گرینڈ نیشنل اسمبلی‘ نے وزرا کے انتخاب کا ایک قانون منظور کیا، جس کے تحت ’وزارتِ شریعت و اوقاف‘ (Şeriye ve Evkaf Vekâleti) قائم کی گئی جس نے پرانی ’وزارتِ اوقافِ شاہی‘ کی جگہ لے لی۔ حالانکہ اس دورکے ابتدائی حصے میں پرانی ’وزارتِ اوقافِ شاہی‘ بھی فعال تھی، خاص طور پر استنبول کے علاقے میں۔ ۳مارچ ۱۹۲۴ء کو وزارتِ شریعت و اوقاف کو ختم کر دیا گیا۔ اس کے بعد وزیر اعظم کے ماتحت ایک نیا ادارہ،’ڈائریکٹوریٹ جنرل آف وقف‘قائم کیا گیا۔

مرات چیزاکچا نے اپنے ریسرچ پیپر From Destruction to Restoration: Islamic Waqf in Türkiye and Malaysia میں لکھا ہے: ’’۱۹۶۷ء کے نئے وقف قانون  نے ترکیہ میں وقف کے نظام کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا، کیونکہ ’صرف اوقاف کے جائیداد کے حقوق کی دوبارہ ضمانت نہیں دی گئی، بلکہ وقف اور کمپنیوں کے روابط کو بھی مضبوط کیا گیا‘‘۔

ڈاکٹر مراشلی اپنے پی ایچ ڈی کے تھیسس میں لکھتے ہیں:’’ ترکیہ میں سب سے حالیہ وقف قانون ۲۰۰۸ء میں متعارف کرایا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت تمام حکومتی اداروں کو پابند کیا گیا کہ وہ قبضے میں لی گئی وقف جائیدادیں اصل اوقاف کو واپس کریں۔ اس حوالے سے، صرف استنبول میں، ۷۷ اہم وقف جائیدادیں اس قانون کے تحت واپس کی گئیں، جن میں سلیمانیہ مسجد، فاتح مسجد، سلطان احمد مسجد (بلیو مسجد)، آیاصوفیہ مسجد، حرکۃِ شریف مسجد، ایوپ سلطان مسجد، یینی مسجد، بیشکتاش ووڈافون پارک اسٹیڈیم (جزوی)، شیشلی اطفال ہسپتال، عدیلہ سلطان محل، معمار سنان گوزل سنات یونی ورسٹی، گالاتا ٹاور، مسالہ بازار، اور گرینڈ بازار شامل ہیں۔

ایک اور اہم پیش رفت جوترکیہ کے ’ ڈائریکٹوریٹ جنرل آف فاؤنڈیشنز ‘ نے شروع کی،  وہ ہے پرانی وقف جائیدادوں کی بحالی۔ جس کے تحت سال ۲۰۱۸ء کے آخر تک تقریباً ۵ہزار۲سو۵۰ وقف املاک کو بحال کیا گیا۔ یہ بحالی ’بحال کرو، چلاؤ، منتقل کرو‘ یا ’تعمیر کرو، کرایہ پر دو/چلاؤ، منتقل کرو‘ جیسے طریقوں پر کی گئی۔

آج ترکیہ میں وقف کی پانچ مختلف اقسام ہیں، جو کہ ’مضبوط‘ (mazbūt) وقف، نئے وقف، ’ملحق‘ (mülhak) وقف، اقلیتی وقف اور ’ارسادی‘ (irsādī) وقف ہیں۔ اگست ۲۰۱۹ء تک ترکیہ میں ۵۲ہزار مضبوط (mazbūt) وقف، ۵ہزار۲سو۶۸  نئے وقف — جو ۱۹۲۶ء کے بعد قائم ہوئے ہیں، ۲۵۶ ملحق (mülhak) وقف، اور غیر مسلم اقلیتی کمیونٹیز کے ۱۶۷ وقف موجود تھے۔

یہ بھی واضح رہے کہ ’مضبوط (mazbūt) وقف‘ وہ وقف ہیں، جن کا انتظام اور نمائندگی ڈائریکٹوریٹ جنرل آف فاؤنڈیشنز (DGF) کے ذریعے کیا جاتا ہے، کیونکہ ان کا کوئی منتظم نہیں تھا جب سے انھیں ریاست کے ہاتھوں منتقل کیا گیا تھا۔ ان کی آمدنی کا اہم ذریعہ ان جائیدادوں سے کرائے کی آمدنی ہے، اوریہ آمدنی ان مقاصد کے لیے، جو ان کے وقف ناموں (waqfiyah) میں درج ہیں، جیسے کہ قرآن کی تلاوت، غریبوں، محتاجوں اور مسافروں کو خوراک فراہم کرنا، ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کے طلبہ کو وظائف دینا، یتیموں اور معذوروں کو ماہانہ وظیفے دینا، تعلیمی، صحت کی دیکھ بھال اور سماجی امداد کے ادارے اور سہولتیں قائم کرنا، عوام کے لیے سوپ کچن چلانا، اور غریب اور محتاج غیر ملکی مریضوں کا علاج کروانا وغیرہ پر خرچ کیا جاتا ہے۔ ’ملحق (mülhak) وقف‘ سلطنت عثمانیہ کے ان اوقاف کو کہا جاتا ہے، جو ۱۹۲۶ء سے قبل قائم ہوئے تھے اور آج بھی ان کے بانیوں کی نسلوں کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں۔

اگست ۲۰۱۹ء تک، ترکیہ میں ۵ہزار ۲سو ۶۸ نئے وقف قائم ہوئے ہیں، جو ۱۹۲۶ء کے بعد بنائے گئے ہیں۔ اسی نئے وقف کے تحت فی الحال، ترکیہ میں ۷۳ وقف یونی ورسٹیاں اور چار پیشہ ورانہ اعلیٰ تعلیم کے اسکول ہیں، جن میں ۸ لاکھ ۲۸  ہزار ۶ سو طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ کچھ وقف اسلامی تعلیم کے لیے بھی قائم کیے گئے ہیں، جب کہ کئی دوسرے وقف ہیں جنھوں نے پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کے ساتھ ساتھ پری اسکول کے ادارے بھی قائم کیے ہیں، جن کا ترک معیشت پر قابلِ ذکر اثر ہے۔ کچھ وقف ایسے بھی ہیں جو ثانوی اور تیسری سطح کی تعلیم میں کامیاب طلبہ کو وظائف دیتے ہیں۔ کئی وقف ایسے قائم کیے گئے ہیں جو تعلیم کی حمایت اور حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ اساتذہ کے لیے آگاہی اور پیشہ ورانہ تربیت فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ترکیہ کے معاصر وقف نظام کی ایک اہم اور جدید ترین شکل ’وقف کمپنیوں‘ کی صورت میں سامنے آئی ہے، جو نہ صرف فلاحی مقاصد کے لیے قائم کی جاتی ہیں بلکہ معاشی قدر بھی پیدا کرتی ہیں، اور یوں وقف کی روایت کو ایک نئے انداز میں آگے بڑھاتی ہیں۔

اقلیتی (کمیونٹی) یعنی غیرمسلموں کے ’وقف‘ ترکیہ کی سرحدوں میں بسنے والی غیر مسلم برادریوں نے ترک جمہوریہ کے قیام سے قبل قائم کیے تھے۔ آج کے دور میں، ترکیہ میں کل ۱۶۷ اقلیتی اوقاف رجسٹر ہیں، جو رومن آرتھوڈوکس، آرمینیائی آرتھوڈوکس، کیتھولک، اور یہودی برادریوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ اوقاف چرچوں، خانقاہوں، یا اسکولوں کے لیے وقف ہیں۔ انھیں ’جماعت وقف‘ (Cemaat Vakıfları) بھی کہا جاتا ہے۔

ڈائریکٹوریٹ جنرل آف فاؤنڈیشنز (DGF) کی ویب سائٹ کے مطابق، وہ اوقاف جن کے مرکزی دفاتر بیرونِ ملک واقع ہیں اور جن کی ترکیہ میں شاخیں یا نمائندہ دفاتر موجود ہیں (یعنی غیر ملکی اوقاف)، وہ بین الاقوامی سطح پر تعاون کو مفید سمجھنے کی صورت میں، باہمی اصول (ریسپروسٹی) کے تحت، وزارتِ خارجہ اور بوقتِ ضرورت دیگر متعلقہ اداروں کی رائے لینے کے بعد، وزارتِ داخلہ کی اجازت سے ترکیہ میں سرگرمیوں، شراکت، شاخ یا نمائندہ دفاتر کے قیام، اعلیٰ ادارے (فیڈریشن وغیرہ) کے قیام، پہلے سے قائم اعلیٰ اداروں میں شمولیت یا پہلے سے قائم اوقاف کے ساتھ تعاون کرسکتے ہیں۔

اس کے علاوہ، بیرونِ ملک قائم اوقاف کی ترکیہ میں شاخیں یا نمائندہ دفاتر کھولنے اور یہاں سرگرمیاں یا شراکت داری قائم کرنے کے لیے اجازت دینے کے معاملات پر انجمنوں سے متعلق قوانین کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس دائرہ کار میں، غیر ملکی اوقاف سے متعلق تمام اُمور و کارروائیاں ’سول سوسائٹی سے تعلقات کی جنرل ڈائریکٹوریٹ ‘ کے ذریعے طے قوانین کے تحت انجام دی جاتی ہیں۔

ترکیہ میں نقد وقف کے ذریعے قائم کردہ وقف بینک

ترکیہ میں ’نقد وقف‘ (Cash Waqf) کا ایک منظم اور مضبوط نظام بھی موجود ہے، جسے ابتدائی طور پر شہریوں کو جائیداد اور دیگر مقامی ٹیکسوں کی ادائیگی میں مدد فراہم کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ ان اوقاف کے ذریعے عوام سے فنڈز جمع کیے جاتے تھے، اور ٹیکس ریلیف کے علاوہ ان فنڈز کو مقامی سطح پر مختلف سماجی اور کمیونٹی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔

ڈاکٹر اوزان مراشلی کے مطابق، ۱۹۵۴ء میں ’ڈیموکریٹ پارٹی‘ کے دورِ حکومت میں نقد اوقاف کے سرمائے کو استعمال کرتے ہوئے وقف بینک (Vakıf Bank) قائم کیا گیا تھا۔ آج ’وقف بینک‘ ،ترکیہ کے ہر شہر میں اپنی خدمات فراہم کر رہا ہے، اور اثاثوں کے حجم کے لحاظ سے ملک کا دوسرا سب سے بڑا بینک شمار ہوتا ہے۔ وقف بینک کے علاوہ ترکیہ میں ایک اور بینک ’وقف پارٹی سپیشن بینک‘ (Vakıf Katılım Bank) بھی موجود ہے، جو ایک شراکت داری (اسلامی) بینک کے طور پر کام کرتا ہے، جس سے وقف کے ورثے اور اس کے ترکیہ کے جدید مالیاتی نظام میں کردار کو مزید وسعت ملتی ہے۔

آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ ترکیہ میں ایک اور ’ایش بینک‘ (İş Bankası) بھی وقف بینک کی حیثیت رکھتا ہے، جو ہندستانی مسلمانوں کی طرف سے ۱۹۲۲ء میں بھیجے گئے عطیات کی مدد سے قائم کیا گیا تھا۔میرے پاس موجود تاریخی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ میرے آبائی شہر چمپارن (بہار) کے لوگ بھی عطیہ دہندگان میں شامل تھے۔ مصطفےٰ کمال پاشا نے اس فنڈ کو جنگ کے بعد ملک کے زخموں پر مرہم رکھنے کے ساتھ ساتھ اسی فنڈ کی بنیاد پر ’ایش بینک‘ قائم کیا۔

انقرہ میں وقف میوزیم کا  آنکھوں دیکھا حال

ترکیہ کے دارالحکومت انقرہ کی ’ملکہ خاتون مسجد‘ کے بائیں جانب ’وقف ورکس میوزیم‘ ہے۔ اس میوزیم کے اندر جاکر معلوم ہوا کہ یہ میوزیم ۲۰۰۹ء میں یورپی میوزیم فورم کی جانب سے نامزد کیا گیا۔اندر داخل ہوتے ہی سب سے پہلے ترکیہ کے وقف نظام سے متعلق کئی اہم کتابوں، مخطوطات  اور وقف پر نکلنے والے میگزین کا دیدار ہوتا ہے، جسے پڑھ کر ترکیہ کے وقف کے نظام کو کافی بہتر طریقے سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اگرچہ ان میں زیادہ تر مواد ترکی زبان میں ہے، تاہم یہ وقف کے نظام پر گہری بصیرت فراہم کرتا ہے۔ جیسے جیسے آپ اندر کی جانب بڑھتے ہیں، میوزیم میں قالین، دری، قدیم گھڑیاں، تاریخی برتن، خطاطی کے فن پارے اور نایاب مخطوطات سمیت مختلف نادر اشیاء کی نمائش کی گئی ہے۔

اسی میوزیم میں مولانا جلال‌الدین رومی کی مثنوی، جسے ۱۲۷۲ ہجری میں درویش مہمت فہمی [محمد فہمی]نے فارسی میں لکھا تھا، موجود ہے۔ اس میوزیم میں آکر ہی پتہ چلا کہ ۱۶ویں صدی سے لے کر ۲۰ویں صدی کی پہلی سہ ماہی تک، مسلمانوں کے نزدیک سب سے مقدس مقام خانہ کعبہ کا غلاف ہر سال بلاانقطاع سلطنتِ عثمانیہ سے مکہ مکرمہ بھیجا جاتا تھا۔ اس موقع پر ترکیہ میں ایک عظیم الشان تقریب ’سُرّہ-ہمایوں‘ کے نام سے منعقد کی جاتی تھی۔ ابتدا میں غلافِ کعبہ، جسے 'ستارہ ' بھی کہا جاتا ہے، مصر میں تیار کیا جاتا تھا۔ تاہم، سلطان احمد اول کے دورِ حکومت میں اس کی تیاری سلطنتِ عثمانیہ کو منتقل کر دی گئی، جہاں یہ استنبول کے شاہی محل کے زیرِ نگرانی تیار ہوتا اور پھر سُرّہ عَلائی (وہ فوجی دستہ جو عثمانیوں کی جانب سے جمع کردہ امداد کعبہ لے جاتا تھا) کے ذریعے خانہ کعبہ تک پہنچایا جاتا۔

یہ اندازہ کیا جاتا ہے کہ اٹھارھویں صدی کے کعبہ کے دو غلاف، جو نیوشہرلی داماد ابراہیم پاشا، جو ایک مشہور وزیر اعظم تھے، نے نیوشہر میں بنائی گئی قُرشُنلو مسجد کو حج کے بعد وقف کیے تھے۔ یہ دونوں غلاف ۲۰۰۳ء میں نیوشہر کی قُرشُنلو مسجد سے چوری کر لیے گئے تھے اور جنرل ڈائریکٹوریٹ آف فائونڈیشنز نے اس کی اطلاع ملکی اداروں، تنظیموں اور دیگر ممالک کو دی۔ جب ان غلافوں کو لندن میں ایک قدیم اشیاء کے تاجر فرانسسکا گیلوے کو فروخت کرنے کی کوشش کی گئی، تو تاجر نے ’ٹوپ کاپی محل‘ کے میوزیم سے ان اشیاء کے بارے میں رائے مانگی۔ میوزیم کی ڈائریکٹریٹ نے فاؤنڈیشنز جنرل ڈائریکٹوریٹ کو مطلع کیا اور اس موضوع پر تحقیقات کے بعد ۲۴ فروری ۲۰۰۴ء کو ترک سفارت خانے نے یہ تاریخی کعبہ کے غلاف فاؤنڈیشنز جنرل ڈائریکٹوریٹ کو واپس کردیے۔ اب یہ دونوں غلاف اسی میوزیم میں محفوظ ہیں۔

میوزیم میں موجود خوب صورت قالینوں اور دریوں کو دیکھ کر میں حیران ہوا کہ ان کا وقف سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ دریافت پر معلوم ہوا کہ ماضی میں جنازوں کے دوران میت کے تابوت پر قالین بچھانا عام رواج تھا، اور تدفین کے بعد اہلِ خانہ یہ قالین بطورِ صدقہ مسجد کو وقف یا عطیہ کردیتے تھے۔ یہ قالین، جو نہ صرف نفیس ڈیزائن کے حامل ہوتے بلکہ جذباتی اور تاریخی اہمیت بھی رکھتے تھے، اب اس میوزیم میں محفوظ اور نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ، سیکڑوں قالین مزید بھی محفوظ ہیں جو فی الحال نمائش کا حصہ نہیں ہیں۔اس میوزیم کا بنیادی مقصد ان لوگوں کی یادگاروں کو محفوظ رکھنا اور پیش کرنا ہے، جنھوں نے وقف کی تہذیب کو پروان چڑھایا۔ اس کے ذریعے نئی نسلوں کو وقف کی عظمت، اس کی معاشرتی اہمیت اور اس کے دیرپا اثرات سے روشناس کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

سعودی عرب میں وقف  کا نظام

سعودی عرب میں بھی وقف مینجمنٹ کا ایک بہترین نظام موجود ہے۔ یہاں کی ’جنرل اتھارٹی برائے اوقاف‘ (GAA) وقف املاک کی دیکھ بھال اور ترقی کی نگرانی کرتی ہے، تاکہ انھیں اقتصادی اور سماجی ترقی کے اہداف کے ساتھ ہم آہنگ کیا جا سکے، اور ساتھ ہی واقف کی نیت و ارادے کو بھی محفوظ رکھا جا سکے۔ اس کے علاوہ یہاں وزارت حج و اوقاف اور وقف کی اعلیٰ کونسل بھی موجود ہے۔ 

سعودی عرب نے وقف کے نظام کو بہت سنجیدگی سے منظم کیا ہے۔ ۱۹۶۶ء میں سعودی عرب نے اس مقصد سے وقف محکمہ قائم کیا۔ بنیادی طور پر، وقف کا یہ محکمہ مختلف وقف سے متعلقہ امور کو سنبھالنے کا ذمہ دار ہے، جیسے کہ وقف املاک کی منصوبہ بندی اور ترقی، منظور شدہ وقف پروگراموں کا فروغ، وقف کی آمدنی کو مستحق افراد میں تقسیم کرنا۔

یہ بات پیش نظر رہے کہ سعودی عرب نے وقف کی نگرانی اور ترقی کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے ہیں، جن میں ’وزارت حج و اوقاف‘ کا قیام بھی شامل ہے۔ یہ وزارت وقف کو ’واقف‘ کی شرائط کے مطابق فروغ دینے اور نافذ کرنے کی ذمہ دار ہے۔ اسی کے ساتھ، وقف پالیسی کی نگرانی کے لیے حکومت نے ایک ’وقف اعلیٰ کونسل‘ قائم کی، جس کی صدارت وزیر حج و اوقاف کرتے ہیں۔ اس کونسل کے ارکان میں وزارت انصاف کے اسلامی قانون کے ماہرین، وزارت معیشت و خزانہ کے نمائندے، محکمہ نوادرات کا ڈائریکٹر، اور تین افراد اہل دانش اور صحافیوں میں سے شامل کیے گئے ہیں۔ یہ کونسل وقف کی ترقی سے حاصل شدہ آمدنی کے استعمال اور ’واقف‘ کی شرائط کے مطابق وقف کے فروغ کے اقدامات کے تعین کا اختیار رکھتی ہے۔

سعودی عرب میں وقف کی مختلف اقسام موجود ہیں، جیسے ہوٹل، زمینیں، رہائشی عمارتیں، دکانیں، باغات، اور عبادت گاہیں۔ ان میں سے کچھ ’اوقاف‘ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جسے مقدس و محترم شہروں کے لیے مخصوص کیے گئے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، وقف سے حاصل ہونے والے تمام فوائد کا مقصد ان دونوں مقدس شہروں کی ترقی ہے، جیسے رہائشی مکانات کی تعمیر، مسجد الحرام اور مسجد نبویؐ کے گرد ہوٹلوں کی تعمیر، اور دیگر سہولیات جو حجاج کرام اور عمرہ زائرین کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ عوام براہِ راست ان وقف املاک سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں، جنھیں حکومت نے منظم کیا ہے، یہاں تک کہ بیرون ملک سے آنے والے حجاج کرام بھی ان سہولیات سے مستفید ہوتے ہیں اور مکہ و مدینہ میں جاری ترقی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق۲۰۲۰ء تک، وہ وقف املاک جو جنرل اتھارٹی آف اوقاف (GAA) کے تحت منظم کی جا رہی تھیں، ان کی مجموعی مالیت ۶۳؍ ارب امریکی ڈالر تھی۔

سعودی عرب میں وقف کا ایک منظم اور مؤثر نظام موجود ہے، جس کا ہندوستان میں رائج وقف نظام سے کوئی تقابل نہیں کیا جا سکتا۔ ویسے بھی، سعودی عرب میں جمہوریت کا نظام نہیں ہے، جب کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے۔ اس لیے انڈین حکمرانوں کی یہ ساری منطق بے معنی اور غیرحقیقی اور مضحکہ خیز ہے کہ ’’ترکیہ و سعودیہ میں بھی تو وقف ریاست کے کنٹرول میں ہے‘‘۔ ہم نے دونوں ممالک میں اوقاف کی نوعیت اور عملی صورت بیان کردی ہے جن کا نام لے کر پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔