۷؍ اکتوبر ۲۰۲۴ء کو غزہ میں جنگ کا ایک سال ہوا۔ اسرائیل بین الاقوامی عدالت انصاف سے نسل کشی کا مرتکب قرار دیا گیا،لیکن وہ اپنے مددگاروں اور فوجی طاقت کے نشے میں ایسا بدمست ہے کہ اخلاق، قانون ، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں ، بین الاقوامی سطح پر اس کے خلاف ہونے والے تاریخ کے سب سے بڑے اور مسلسل مظاہروں کی پروا کیے بغیر غزہ میں مسلمانوں پر ناقابلِ بیان مظالم اور نسل کشی کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ ۱۶؍ اکتوبر ۲۰۲۴ءکو غزہ کی صورتِ حال پر برطانیہ کی درخواست پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا گیا۔ یہ غزہ پر ایک سال میں سلامتی کونسل کا ۴۷واں اجلاس تھا۔اقوام متحدہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی مسئلے پرایک سال میں اتنے اجلاس ہوئے، لیکن اسرائیل نے کونسل کی تمام قراردادوں کی پروا کیے بغیر غزہ میں قتل عام جاری رکھا ہوا ہے، جس کی واحد وجہ امریکا کی پشت پناہی ہے۔
اسرائیلی اخبار کے ۴ستمبر ۲۰۲۴ء کے شمارے میں شمالی غزہ کے بارے میں اسرائیل کے ایک منصوبے ’جرنیلوں کا پلان‘ کا باقاعدہ اعلان کیا گیا ہے، جس میں کھل کر کہا گیا کہ میجر جنرل (ریٹائرڈ) گیورا ایلانڈ کی قیادت میں تیارکردہ منصوبے کے مطابق شمال کے پورے علاقے، یعنی پورےغزہ شہر کو ایک مکمل محصور فوجی علاقے میں تبدیل کیا جائے گا اور شمالی غزہ کی پوری آبادی کو ایک ہفتے کے اندر یہ علاقہ فوری طور پرچھوڑنے کا حکم دیا جائے گا۔ اس منصوبے میں کہا گیا ہے: ’’ اکتوبر، نومبر، یا دسمبر ۲۰۲۴ء یا شاید ابتدائی ۲۰۲۵ء میں اسرائیلی فوج شمالی غزہ میں اس نئی کارروائی کا آغاز کرے گی (یعنی آپریشن کلین اَپ)۔ مکمل محاصرہ سے پہلے پانی، خوراک، اور ایندھن کی تمام فراہمی بند کردی جائےگی ، یہاں تک کہ جو لوگ یہاں پر رہ جائیں وہ ہتھیار ڈال دیں یا بھوک سے مرجائیں‘‘۔
اسرائیل کی قومی سلامتی کے وزیر ایتامار بن گویر، وزیر خزانہ بیزل ایل اسموٹریچ اور دیگر نسل پرست وزراء کھل کر اِس کا اعلان کر چکے ہیں اور بااثر اسرائیلیوں نے بھی فوج سے شمالی غزہ میں مکمل نسل کشی کرنے کی اپیل کی ہے۔ پروفیسر اُزی رابی نے جو تل ابیب یونی ورسٹی کے ایک سینئر محقق ہیں، ۱۵ ستمبر کو ایک ریڈیو انٹرویو میں اس پر تفصیل سے بات کی۔ اور اگست میں، Ynet کی ایک رپورٹ کے مطابق، حکومت کے وزراء نے پہلے ہی نیتن یاہو پر شمالی غزہ کے رہائشیوں کا’صفایا‘ کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا تھا۔
یہ سطور لکھتے وقت اس منصوبے پر عمل شروع ہوچکا ہے۔ ۶؍ اکتوبر سے شمالی غزہ کا مکمل محاصرہ کرکے وہاں بلاتخصیص قتل و غارت اور نسل کشی کا سلسلہ تیز تر کردیا گیا ہے اور بچوں، خواتین، اور نہتے شہریوں کو بے دریغ قتل کیا جارہا ہے۔
اس ساری صورت حال کے تین پہلو اہم ہیں، جس کا مختصراً ذکر کیا جاتا ہے:
عرب سینٹر برائے واشنگٹن ڈی سی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے: ’’مئی تک گرائے جانے والے۴۵ہزار بموں میں تقریباً ۹ سے ۱۴ فی صد بم نہیں پھٹے۔ اقوام متحدہ کی مائن ایکشن سروس (UNMAS) نے اندازہ لگایا: ’’ان دھماکا خیز باقیات کو صاف کرنے میں کم از کم ۱۴ سال لگیں گے۔ اس کے علاوہ اسرائیل نے سفید فاسفورس کو بھی بطور ہتھیار استعمال کیا ہے، جو بین الاقوامی انسانی قوانین کے تحت ممنوع ہے ‘‘۔
دنیا کی ’مہذب‘ اور مغرب زدہ طبقوں کے مطابق ’رول ماڈل‘ اقوام اپنی ’تہذیب ‘کا غزہ میں عملی اظہار اور برملا اعلان کر چکی ہیں، جس میں تہذیب کا نام ونشان بھی نظر نہیں آتا۔ بقول پروفیسر انور مسعود:
آج تمھاری خوں خواری پر حیرت ہے حیوانوں کو
تم تو کل تہذیب سکھانے نکلے تھے انسانوں کو
یہ بھی کیسا شوق ہے تم کو شہروں کی بربادی کا
جگہ جگہ آباد کیا ہے تم نے قبرستانوں کو
ہنستے بستے قریے تم نے شعلوں میں کفنائے ہیں
ریت میں دفن کیا ہے تم نے کتنے نخلستانوں کو
زنداں زنداں بھیڑ لگائی بے تقصیر اسیروں کی
مقتل میں تبدیل کیا ہے تم نے پھر زندانوں کو
کتنے ہی معصوم سروں سے تم نے چھاؤں چھینی ہے
کتنادکھ پہنچایا تم نے ننھی ننھی جانوں کو
اتنے بھی سفاک منافق دنیا نے کب دیکھے تھے
کتوں کا منہ چومنے والے قتل کریں انسانوں کو
ظلم وستم کی خونی شب کا منظر بجھنے والا ہے
اِک عنوان فراہم ہوگا عبرت کے افسانوں کو
باطل کا بے ہنگم غوغا کوئی دم کا مہماں ہے
کوئی شور دبا نہیں سکتا، مست الست اذانوں کو
سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِہٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِيَہٗ مِنْ اٰيٰتِنَا۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ۱ (بنی اسرائیل ۱۷:۱)
پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد ِ حرام سے دُور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اُس نے برکت دی ہے تاکہ اُسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا۔
یہاں یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ سے براہِ راست معراج پر لے جانے کے بجائے پہلے مسجد اقصٰی لے جایا گیا۔
آج مسلمانوں کی حالت حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث کے مصداق ہے جس میں فرمایا گیا:’’ قریب ہے کہ (گمراہ) قومیں تمھارے خلاف (لڑنے کے لیے) دوسری قوموں کو بلائیں جس طرح کھانے والے کھانے کے برتن کی طرف ایک دوسرے کو بلاتے ہیں ‘‘۔
کسی نے عرض کیا: اس روز ہماری تعداد کم ہونے کی وجہ سے ایسا ہوگا؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ نہیں ، بلکہ اس روز تم زیادہ ہو گے، لیکن تم سیلاب کی جھاگ کی طرح ہو گے، اللہ تمھارے دشمنوں کے دلوں سے تمھاری ہیبت نکال دے گا اور تمھارے دلوں میں وہن ڈال دے گا۔‘‘کسی نے عرض کیا: اللہ کے رسولؐ! وہن کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا:’’ دنیا سے محبت اور موت سے نفرت۔(ابوداؤد)
غزہ،فلسطین کےموجودہ حالات میں وقت کے تعین کے علی الرغم مسلم حکومتوں اور عوام کو قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی ذمہ داری کا نہ صرف علم ہونا چاہیے بلکہ اسے پورا کرنے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہیے: سورۃ النساء (آیت ۷۵) میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بےبس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کر دے۔
اس آیت کے اندر کفار کے نرغے میں آئے تمام مظلوم مسلمانوں کے بارے میں آزاد مسلم حکومتوں اور عوام کوسخت تاکیدی حکم دیا گیا ہے جس کی رُوسے ان پر مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی نہ صرف اخلاقی و مالی بلکہ ہر قسم کی مادی مدد بھی فرض ہے۔
اس وقت عالم کفر کی کئی مغربی حکومتیں فلسطین کے مسلمانوں کے خلاف اکٹھی ہو گئی ہیں، لیکن قرآن کی ان واضح ہدایات کے باوجود مسلم ممالک کی حکومتیں آپس میں بٹی ہوئی ہیں بلکہ بعض تو دَرپردہ اسرائیل کے ساتھ ملی ہوئی لگتی ہیں۔ مسلم حکمرانوں کی شرمناک بے حسی اور خاموشی انسانیت اور مسلمانوں کےماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہے، لگتا ہے وہ اصحاب الاخدود کی طرح اس گروہ کا حصہ ہیں جو آگ میں جلنے والے مومنوں کا تماشا دیکھ رہے تھے۔
دوسری طرف کچھ مسلمان اپنے حال میں مست صرف دعاؤں ، چلّوں ، ذکر کی محفلوں اور خانقاہوں اور مدرسوں کی خدمت کو جہاد کا نعم البدل سمجھ بیٹھے ہیں۔ ربّ ذوالجلال فرماتا ہے:
کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجدِ حرام کی مجاوری کرنے کو اُس شخص کے کام کے برابر ٹھیرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روزِ آخر پر اور جس نے جانفشانی کی اللہ کی راہ میں ؟ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا۔(التوبہ ۹: ۱۹)
سورۂ توبہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
اللہ کے ہاں تو انھی لوگوں کا درجہ بڑا ہے جو ایمان لائے اور جنھوں نے اس کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جان و مال سے جہاد کیا، وہی کامیاب ہیں۔ اُن کا رب انھیں اپنی رحمت اور خوشنودی اور ایسی جنتوں کی بشارت دیتا ہے جہاں ان کے لیے پائیدار عیش کے سامان ہیں۔(التوبہ ۹:۲۰-۲۱)
سورئہ توبہ ہی میں اس راستے کی رکاوٹوں کا ذکر بھی کردیا گیا ہے:
اے نبیؐ، کہہ دو کہ اگر تمھارے باپ ،اور تمھارے بیٹے، اور تمھارے بھائی، اور تمھاری بیویاں، اور تمھارے عزیز و اقارب، اور تمھارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور تمھارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑجانے کا تم کو خوف ہے، اور تمھارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا‘۔(التوبہ ۹:۲۴)
قرآن و سنت کے یہ احکام کسی زمانے، علاقے یا قوم تک محدود نہیں ہیں، بلکہ دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم ہورہاہو تو سب مسلمانوں پر ان کی مدد کرنا فرض ہوجاتاہے۔ یہی امت مسلمہ کا تصور ہے۔
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ باہمی محبت اور رحم وشفقت میں تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں۔ جب انسان کے کسی عضو میں تکلیف ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے جسم کے تمام اعضا بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتے ہیں‘‘۔ (صحیح مسلم)
حدیث کا مطلب واضح ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان ایک جسم کے مانند ہیں اور جسم کے ایک حصے میں درد ہو تو سارا جسم درد کی وجہ سے بیتاب ہوتا ہے اور درد دُور کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔کیا ہمارا رویہ غزہ /فلسطینی بھائیوں کے بارے میں ایسا ہی ہے؟
ہمیں اپنی استطاعت کے مطابق حتی الوسع غزہ کے مسلمانوں کی ہر ممکن مدد کرنی چاہیے، بحیثیت مسلمان یہ ہماری انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے۔ زکوٰۃ اور صدقہ کا اس سے بہتر استعمال اور کیا ہوسکتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ قسم کھاکر ارشاد فرمایا: ’’صدقہ سے مال میں کمی ہرگز نہیں ہوتی‘‘۔ ہمیں آگے بڑھ کر اس جہاد میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ حضرت انسؓ سے مروی ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’ مشرکین سے جہاد کرو ، اپنے مالوں سے ، اپنے ہاتھوں سے اور اپنی زبانوں سے‘‘۔(ابو داؤد)
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں دعا کی اہمیت بھی نہیں بھولنا چاہیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دعا مومن کا ہتھیار ہے‘‘۔حضرت عمرؓ سے روایت ہے ’’دعا ان حوادث ومصائب میں بھی کارآمد اور نفع مند ہوتی ہے جو نازل ہوچکے ہیں اور ان میں بھی جو ابھی نازل نہیں ہوئے، لہٰذا اے اللہ کے بندو! دعا کا اہتمام کیا کرو‘‘ (مشکوٰۃ )۔ اس لیے دعا بھی کریں اور اپنی استطاعت کے مطابق جتنا ہوسکے ہرقسم کا تعاون بھی کریں۔ دُعا اور دوا مل جائیں تو اللہ کی نصرت آتی ہے۔
l عملی اقدامات : ان حالات میں بنیادی ذمہ داری تو مسلم حکمرانوں کی ہے کہ وہ اخلاقی امداد اور اقوام متحدہ سمیت ہرفورم پر فلسطینیوں کے حق اور اسرائیل کے خلاف آواز اُٹھانے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں سے مادی تعاون بھی کریں، تاکہ وہ صہیونیوں کے مسلسل ظلم کا جواب دے سکیں۔ آئیڈیل طریقہ تو یہی تھا کہ سب مسلم ممالک مل کر اس حکمت عملی پر کام کرتے اورعملی اقدام کرتے۔
البتہ ہر مسلمان کو انفرادی طور اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ، جو اس کے بس میں ہو وہ کر گزرے۔ کم ازکم درج ذیل کام ضرور کریں:
میں ’پین برطانیہ‘ اور جیوری کے اراکین کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ مجھے اس سال ’پین پنٹر‘ ایوارڈ کا حق دار قرار دیا گیا۔ اپنی گفتگو کا آغاز اس ’مینارۂ جرأت‘ کے نام سے کروں گی، جن کے ساتھ میں نے اپنا ایوارڈ بانٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔ علاء احمد عبدالفتح [پ:نومبر ۱۹۸۱ء]اس ایوارڈ میں میرے شریک ہیں۔ ہم پُرامید تھے اور دُعاکر رہے تھے کہ آپ اس سال ستمبر میں آزاد ہوں گے، لیکن مصر کی حکومت نے آخرکار یہی فیصلہ کیا کہ آپ اتنے ’شان دار‘ مصنّف اور ایسے ’خطرناک‘ مفکر ہیں کہ آپ کو آزاد کرنے کا خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا۔ لیکن آپ آج اس ہال میں ہمارے ساتھ ہیں اور آپ یہاں پر موجود لوگوں میں سب سے اہم ہیں۔ آپ نے جیل خانے سے لکھ بھیجا ہے کہ ’’میرے الفاظ اثر کھو چکے ہیں، لیکن میں لکھ رہا ہوں ۔اگرچہ سننے والے چند ہی ہیں اور میں بول رہا ہوں ‘‘۔
آپ سب جو یہاں آئے ہیں، آپ سب کو میرا سلام اور ان کو بھی جو حاضرین کو تو شاید نظر نہ آئیں، لیکن میری نظریں انھیں بالکل ایسے ہی دیکھ رہی ہیں، جیسے یہاں پر موجود لوگوں کو۔ میرا اشارہ ہندستانی جیلوں میں قید میرے دوستوں اور ساتھیوں کی طرف ہے، جن میں وکیل بھی ہیں، اور اساتذہ بھی، طلبہ بھی ہیں اور صحافی بھی۔ میں عمر خالد، گل فشاں فاطمہ، خالد سیفی، شرحبیل امام، رونا ولسن، سریندرا گیڈلنگ، مہیش راوت کی بات کر رہی ہوں۔ خرم پرویز میرے دوست! میں تم سے مخاطب ہوں۔ تم انتہائی خوب صورت لوگوں میں سے ایک ہو، لیکن جیل کی دیواروں نے تمھیں تین سال سے اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ عرفان مہراج میں تمھیں بھی یاد کر رہی ہوں اور ان ہزاروں خاک نشینوں کو بھی جو کشمیر یا ملک بھر [انڈیا] کی جیلوں میں قید، متاعِ حیات لٹا رہے ہیں۔
جب پین برطانیہ کی مہتمم اور پنٹر جیوری کی رکن، رُتھ بورتھویک نے اس اعزاز سے متعلق پہلی بار مجھ سے بات کی تو انھوں نے لکھا تھا کہ ’پنٹر پرائز‘ (Pinter Prize)ایسے مصنّفین کو دیا جاتا ہے جو ’’اٹل سچائی، غیرمتزلزل (unflinching)اور فکری عزم کے ساتھ ہماری زندگی اور معاشرے کی اصل حقیقتوں‘‘ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ بات ہرلڈ پنٹر نے نوبیل انعام کے حصول کے وقت تقریر میں کہی تھی۔
’غیر متزلزل‘ کے لفظ نے مجھے سوچ میں ڈال دیا کیوں کہ میں خود ہمیشہ متزلزل رہتی ہوں۔ میں ان دو الفاظ، متزلزل اور غیر متزلزل پر کچھ مزید بات کرنا چاہوں گی۔اس لفظ کی شاید سب سے بہتر وضاحت ہیرلڈ پنٹر نے ہی کی تھی:
میں ۱۹۸۰ء کے عشرے میں لندن کے امریکی سفارت خانے میں موجود تھا۔ امریکی کانگریس، ریاست نکاراگوا کے خلاف سرگرم مسلح باغیوں ‘کونٹراز‘ (Contras) کو مزید رقم کی فراہمی کے متعلق فیصلہ کرنے والی تھی۔ میں نکاراگوا کے نمائندہ وفد میں شامل تھا، لیکن ہمارے وفد کا اہم ترین حصہ ایک پادری جان میٹکاف تھے۔ امریکی کمیٹی کے سربراہ ریمنڈ سیٹز (Raymond Seitz) تھے (جو اس وقت نائب سفیر تھے، اور بعد میں سفیر بنے)۔پادری میٹکاف نے کہا،’جناب میں شمالی نکاراگوا کے ایک مذہبی حلقے کا منتظم ہوں۔ وہاں اہل علاقہ نے مل کر ایک مدرسہ، شفاخانہ اور پنچایت گھر تعمیر کیا تھا۔ ہم امن وسکون کے ساتھ رہتے آئے ہیں، لیکن کچھ مہینے پہلے باغیوں نے حملہ کر کے مدرسہ، شفاخانہ اور پنچایت گھر سمیت ہر شے تباہ کر دی۔ انھوں نے نرسوں اور استانیوں کی آبروریزی کی اور ڈاکٹروں کو انتہائی دردناک طریقے سے ذبح کردیا۔ ان کا رویہ بالکل وحشیانہ تھا۔ آپ براہ مہربانی امریکی انتظامیہ سے درخواست کریں کہ وہ ان دہشت گردوں کی حمایت سے پیچھے ہٹ جائے۔
ریمنڈ سیٹز ایک سلجھے ہوئے آدمی کے طور پر جانے جاتے تھے۔ سفارتی حلقوں میں ان کی بڑی عزّت تھی۔ انھوں نے یہ بات سنی، کچھ دیر خاموش رہے اور پھر گہری آواز میں بولے: ’پادری صاحب! آج میں آپ کو کچھ بتاتا ہوں۔ معصوم لوگ ہمیشہ سے جنگ کا ایندھن بنتے آئے ہیں۔‘ برف جیسی منجمد خاموشی کے ساتھ، ہم ان کی طرف دیکھتے رہے لیکن سفیر صاحب ذرا بھی ’متزلزل‘ نہ ہوئے۔
یاد رہے [۴۰ ویں] امریکی صدر رونالڈ ریگن [م:۲۰۰۴ء] ان باغیوں کو’اخلاقی طور پر امریکی بانیانِ قوم کے ہم پلّہ‘ قرار دے چکے تھے اور یہ اصطلاح انھیں خاصی پسند تھی۔ انھوں نے افغان مجاہدین کے لیے بھی یہی اصطلاح استعمال کی تھی، جو پھر طالبان بن گئے۔ یہی طالبان امریکی قبضے کے خلاف بیس سالہ جنگ لڑنے کے بعد آج افغانستان میں حکمران ہیں۔ ان سے پہلے ایک جنگ ویت نام کی بھی تھی، جہاں پر وہی ’غیر متزلزل‘ امریکی نظریہ کارفرما تھا، جس کے تحت سپاہیوں کو کھلی اجازت تھی کہ ’ہر متحرک شے کو قتل کردو‘۔
اگر آپ ویت نام میں امریکی جنگ کے اہداف سے متعلق ’پینٹاگون پیپرز‘ اور دیگر دستاویزات کا مطالعہ کریں تو آپ کو نسل کشی سے متعلق کئی مباحث میں یہ ’غیر متزلزل‘ عزم نظر آئے گا۔ ’لوگوں کو سیدھا سیدھا قتل کر دیا جائے یا انھیں آہستہ آہستہ بھوک پیاس سے سسکا سسکا کر مارا جائے؟ دیکھنے میں زیادہ اچھا کیا لگے گا؟ پینٹاگون میں موجود مینڈرینوں کا مسئلہ یہ تھا کہ ان کے بقول امریکی جو ’زندگی، خوش حالی، دولت اور طاقت ‘کے خواہش مند ہیں، ان کے برعکس ایشیائی لوگ ’بڑے پُرسکون طریقے سے املاک کی تباہی اور جانی نقصان کو قبول کر لیتے ہیں‘۔ جس کی وجہ سے امریکی مجبور ہوجاتے ہیں کہ ’اپنے اسٹرے ٹیجک اہداف کو منطقی انجام یعنی نسل کشی تک پہنچا سکیں‘۔
آج اتنے سال گزرنے کے بعد ہم دیکھ رہے ہیں کہ سال بھر سے ہمارے سامنے ایک اور نسل کشی (Genocide) جاری ہے۔ امریکا اور اسرائیل نسلی عصبیت کی بنیاد پر قائم نوآبادیاتی قبضے کو بچانے کے لیے غزہ اور لبنان میں اپنی ’غیر متزلزل‘ نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہیں، جو ٹیلی ویژن پر براہِ راست دکھائی جا رہی ہے۔ اب تک سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ۴۲ہزار لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں، جن میں سے اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ ان میں ابھی وہ شامل نہیں، جن کی چیخیں کسی عمارت، محلے، بلکہ پورے شہر کے ملبے تلے دبی رہ گئیں اور جن کی باقیات کو ابھی ملبہ کھود کر نکالنا اور لاشوں کی گنتی میں شمار کرنا باقی ہے۔ ’آکسفام‘ (Oxfam)کی حالیہ تحقیق کے مطابق گذشتہ بیس برس کی کسی بھی جنگ کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ بچے غزہ میں مارے جا چکے ہیں۔
نازی جرمنی کے ہاتھوں یورپی یہودیوں کی نسل کشی کے وقت لاتعلق رہنے والے امریکا و یورپ نے اپنے جذبۂ جرم کی تسکین کے لیے ایک اور نسل کشی کا میدان سجا دیا ہے۔
تاریخ میں نسل کشی کی مرتکب ہونے والی ہر ریاست کی طرح اسرائیلی صہیونیوں نے بھی، جو خود کو اللہ کے چنیدہ لوگ سمجھتے ہیں، فلسطینیوں کے قتل عام اور ان کی زمینوں پر قبضے سے پہلے ان کو انسانی مرتبے سے گرانے کی کوشش کی:
چنانچہ ان ’دو ٹانگوں والے درندوں‘، ’ٹڈیوں‘، ’کتوں‘ اور ’عدم موجود لوگوں‘ کو قتل کرنے، کونوں کھدروں میں دھکیلنے اور ان کی ’نسل کشی‘ کے بعد ایک نیا ملک قائم کیا گیا: اسرائیل۔ خوشی سے نعرے لگائے گئے کہ ’بے وطن قوم کو بے آباد وطن مل گیا۔‘امریکا و یورپ نے ایٹمی ہتھیاروں سے لیس اسرائیلی ریاست کو مشرق وسطیٰ کی دولت اور وسائل پر قبضے کے لیے اپنی چھاؤنی کے طورپر استعمال کیا۔ اسے کہتے ہیں ’مفادات کا حسین امتزاج!‘
چنانچہ، ہر جرم کے باوجود، اس نئی ریاست کی ’غیر متزلزل‘ اور ’بے جھجک‘ مدد کی گئی، اسے مسلح کیا گیا اور اس کی جیبیں بھری گئیں، اس کے نازنخرے اٹھائے گئے اور سراہا گیا۔ یہ ریاست اس بگڑے ہوئے بچّے کی طرح پروان چڑھائی گئی، جو امیر گھر میں پیدا ہو اور والدین اس کے ہرظلم و زیادتی پر فخر سے مسکراتے رہیں۔ چنانچہ آج اگر اسرائیلی، فلسطینیوں کی نسل کشی پر کھلے عام فخر کرتے دکھائی دیتے ہیں، تو حیرت کیسی؟(’پینٹاگون پیپرز‘ کو کم از کم خفیہ رکھا گیا تھا۔ یاد رہے کہ انھیں چُرا کر شائع کیا گیا)۔ اگر اسرائیلی سپاہی تہذیب کے تمام تقاضے فراموش کر چکے ہیں تو کیسا تعجب؟
کیا یہ کوئی اَنہونی بات ہے کہ آج خواتین کو قتل یا بےگھر کرنے کے بعد ان کے زیریں جامے پہن کر گھٹیا وڈیوز سوشل میڈیا پر ڈالی جا رہی ہیں اور اسرائیلی فوجی، اپنے ہاتھوں مرتے ہوئے فلسطینیوں، زخمی بچوں اور آبروریزی و گھنائونےتشدد کا شکار ہونے والے قیدیوںکی نقلیں اُتارتے دکھائی دیتے ہیں؟آپ کو ایسی وڈیوز بھی مل جائیں گی کہ اسرائیلی فوجی سگریٹ کا دھواں اُڑاتے یا موسیقی کی دھنوں پر ناچتے ہوئے عمارتوں کو بارود سے اڑاتے چلے جاتے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں؟
اسرائیل اور اس کے اتحادیوں اور مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق:’یہ جواب ہے ۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کو حماس کے اسرائیل پر حملے، اسرائیلی شہریوں کا قتل اور اغوا کا‘۔
اب یہ گفتگو کا وہ حصہ ہے جہاں مجھ سے توقع کی جائے گی کہ میں اپنی حفاظت کے پیش نظر، اپنی غیر جانب داری اور دانش وَرانہ صلاحیتوں کو ثابت کرنے کے لیے فریقین کو برابر ثابت کروں۔اپنی اخلاقی غیر جانب داری ثابت کرنے کے لیے اب مجھے حماس اور غزہ کی دیگر مسلح تنظیموں، لبنان اور حزب اللہ کی مذمت کرنی ہو گی کہ انھوں نے شہریوں کو قتل و اغوا کیا۔ پھر مجھے غزہ کے شہریوں کو بھی ڈانٹنا پڑے گا کہ وہ حماس کے حملے پر خوش کیوں ہوئے؟ یہ سب کرنے کے بعد ہر شے آسان ہو جاتی ہے۔ چھوڑیں جی دفعہ کریں، جب سب ایک جیسے ہیں تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟
لیکن میں اس مذمتی کھیل کا حصہ نہیں بنوں گی۔ میرا نقطۂ نظر بڑا واضح ہے۔ مظلوم خود پر ہونے والے ظلم کے خلاف مزاحمت کیسے کرے اور اس کا اتحادی کون ہو، یہ فیصلہ کرنا میرا کام نہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے ۲۰۲۳ میں دورۂ اسرائیل کے دوران اسرائیلی وزیراعظم اور جنگی کابینہ سے ملاقات کرتے ہوئے کہا تھا: ’صہیونی ہونے کے لیے یہودی ہونا ضروری نہیں۔ میں بھی صہیونی ہوں‘۔
صدر بائیڈن کے برخلاف جو خود کو ‘غیر یہودی صہیونی‘ سمجھتے ہیں اور بالکل ’غیر متزلزل‘ طریقے سے جنگی جرائم کے لیے اسرائیل کو ہتھیار اور پیسہ فراہم کر رہے ہیں، اُنھیں دیکھتے ہوئے میں خود کو کسی ایسے خول میں محدود نہیں کروں گی، جس میں میرے لکھے ہوئے الفاظ نہ سما سکیں۔ میں وہی ہوں جو میں لکھتی ہوں اور وہی لکھتی ہوں، جو سو چتی اور دیکھتی ہوں۔
مجھے اس حقیقت کا پوری طرح احساس ہے کہ بطور ایک مصنف، بطور ایک غیر مسلم اور بطور ایک خاتون، میرا حماس، حزب اللہ یا ایرانی حکومت کے زیر اثر زندہ رہنا بہت مشکل یا شاید ناممکن ہو۔ لیکن فی الوقت یہ ہمارا موضوع ہی نہیں ہے۔ ہمیں اس تاریخ اور سیاق و سباق کو سمجھنا ہوگا، جس کے تحت یہ گروہ وجود میں آئے۔ فی الوقت اہم بات یہی ہے کہ یہ سب ایک نسل کشی کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔ ہمیں خود سے یہ پوچھنا چاہیے کہ آیا کوئی لبرل اور سیکولر فوج، نسل کشی کے اس بدمست ہاتھی کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے؟ کیونکہ جب دنیا کی تمام طاقتیں ایک قوم کے خلاف ہوں تو وہ اپنے دفاع کے لیے خدا سے رجوع نہ کرے تو کیا کرے؟
مجھے معلوم ہے کہ ایرانی حکومت اور ’حزب اللہ‘ کے بہت سے ناقدین ان کے اپنے ملکوں میںبھی موجود ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ بہت سے جیلوں میں اس سے بھی برے حالات کا سامنا کر رہے ہوں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ حماس کے کچھ اقدامات جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں، مثلاً ۷؍اکتوبر کو عام شہریوں کا قتل و اغوا لیکن پھر بھی اس کا موازنہ اس سب سے نہیں کیا جاسکتا، جو اسرائیل اور امریکا غزہ، مغربی کنارے اور اب لبنان میں کر رہے ہیں۔ فلسطینی زمینوں پر اسرائیلی قبضہ اور فلسطینیوں کی غلامی ۷؍اکتوبر سمیت اس سارے فساد کی جڑ ہے۔ یاد رکھیے، اس مسئلے کا آغاز ۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کو نہیں ہوا۔
میں یہاں اِس ہال میں موجود تمام سامعین سے یہ سوال پوچھتی ہوں کہ ہم میں سے کتنے اس ذلت آمیز زندگی کو قبول کرنے پر رضامند ہوں گے، جو فلسطینی کئی عشروں سے گزار رہے ہیں؟ کون سے پُرامن راستے ہیں، جو فلسطینیوں اور ان کی قیادتوں نے نہیں آزمائے؟ گھٹنوں کے بل گر کر مٹی چاٹنے کے علاوہ کون سا سمجھوتہ ہے، جو انھوں نے قبول نہیں کیا؟
آگاہ رہیے اور جان لیجیے کہ اسرائیل اپنے دفاع کی کوئی جنگ نہیں لڑ رہا ہے، بلکہ اسرائیل جارحیت مسلط کرنے کی لڑائی لڑ رہا ہے تا کہ مزید فلسطینی زمینوں پر قبضہ کر سکے، اپنی نسلی عصبیت کے نظام کو مزید مضبوط کر سکے، فلسطینی عوام اور خطے پر اپنی گرفت مضبوط تر کر سکے۔
۷؍ اکتوبر سے جاری جنگ میں ہزاروں لوگوں کو جان سے ماردینے کے ساتھ ساتھ اسرائیل، غزہ کی اکثریتی آبادی کو کئی دفعہ دربدر کر چکا ہے۔ اس نے ان کے ہسپتالوں پر حملے کیے ہیں۔ ڈاکٹروں، امدادی کارکنوں اور صحافیوں کو جان بوجھ کر نشانہ بناتے ہوئے قتل کیا ہے۔ ایک پوری قوم کو بھوکوں مارا جا رہا ہے کہ ان کی تاریخ ہی مٹ جائے۔ دنیا کی امیر ترین اور طاقت ور ترین حکومتیں اور ان کے ذرائع ابلاغ اخلاقی و مادی سطح پر پوری طرح ان سارے مظالم میں شامل ہیں۔ ان میں میرا وطن ہندستان بھی شامل ہے، جو اسرائیل کو ہتھیار اور ہزاروں کارکن فراہم کرتا ہے۔
یہ سب ممالک اسرائیل کے ساتھ یک جان دو قالب ہوچکے ہیں۔ گذشتہ صرف ایک سال میں امریکا اسرائیل کو۱۷ء۹ بلین ڈالر کی فوجی امداد بھیج چکا ہے۔ چنانچہ اب مناسب ہے کہ امریکی اس جھوٹ کا لبادہ اتار دیں کہ وہ ’ثالث ہیں‘، ’جنگ کے مخالف ہیں‘ ،یا جیسا کہ انتہائی بائیں بازو کا حصہ سمجھی جانے والی الیکسینڈرا اوکاسیو کورٹیز کا کہنا ہے کہ ’ہم جنگ بندی کے لیے سر توڑ کوششیں کررہے ہیں‘۔ مَیں برملا کہوں گی کہ جو فریق بذاتِ خود نسل کشی میں شامل ہو، وہ ہرگز ثالث نہیں ہوسکتا۔
دنیا کی ساری طاقت، سارا پیسہ، سارے ہتھیار اور سارا پروپیگنڈا مل کر بھی اس زخم کو چھپا نہیں سکتے، جسے ہم فلسطین کہتے ہیں۔ اس زخم سے تمام انسانیت کا خون رِس رہا ہے۔
سلامتی کونسل میں رائے شماری کے مطابق جو ممالک اسرائیلی نسل کشی کو ممکن بنا رہے ہیں، ان کی اکثریتی آبادی اس کے خلاف ہے۔ ہم نے ان ممالک میں مسلسل لاکھوں احتجاج کرنے والوں کے مظاہرے دیکھے ہیں۔ ان میں نوجوان یہودیوں کی وہ اکثریت بھی شامل ہوتی ہے، جو اسرائیل کی سرپرستی کے لیے گھڑا جانے والا جھوٹ سن سن کر اور کسی کے ہاتھوں استعمال ہوہو کر تنگ آ چکی ہے۔ کیا کبھی کسی نے سوچا تھا کہ ایک دن جرمن پولیس، یہودیوں پر ہی ’یہوددشمنی‘ کا الزام لگاکر انھیں صہیونیت اور اسرائیل کے خلاف مظاہرے میں گرفتار کرے گی؟ کس نے سوچا تھا کہ امریکی حکومت، اسرائیل کی خدمت میں یہاں تک چلی جائے گی کہ اسے آزادیٔ اظہار کے اپنے بنیادی اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلسطین پسند نعروں پر پابندی لگانا پڑے؟ کچھ استثنائی صورتوں کے علاوہ ساری مغربی دنیا کے اخلاقی اصول آج باقی دنیا کے لیے ایک خوفناک لطیفہ بن چکے ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے جب دنیا کے سامنے ’دریا سے سمندر تک اسرائیل‘ کا وہ نقشہ لہرایا، جس میں فلسطین سرے سے موجود ہی نہیں، تو دنیا ان کے آگے بچھی دیکھی گئی ہے کہ کیسا بابصیرت آدمی ہے جو یہودیوں کے قومی وطن کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔
دوسری طرف جب فلسطینی یا ان کے اتحادی ’نہر سے بحر تک‘ کا نعرہ لگاتے ہیں تو انھیں الزام دیا جاتا ہے کہ وہ کھلے عام یہودیوں کی نسل کشی کا اعلان کر رہے ہیں۔
کیا واقعی ایسا ہے؟ یا انھیں اپنا خبث باطن دوسروں میں دکھائی دے رہا ہے؟ یہ کیسی ذہنیت ہے، جو تنوع برداشت نہیں کر سکتی؟ جو ایک ملک میں دوسروں کے ساتھ برابری کی سطح پر مساوی حقوق کےساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں؟ کیا ساری دنیا اسی طرح رہتی ہے؟ یہ وہ ذہنیت ہے جو قبول نہیں کرسکتی کہ فلسطینی بھی جنوبی افریقہ ، ہندستان اور نوآبادیاتی چنگل سے آزاد ہونے والے دوسرے ممالک کی طرح آزاد زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ ایسے ممالک کی طرح جو متنوع آبادی کے حامل ہیں، چاہے کئی بنیادی مسائل سے دوچار ہوں، لیکن آزاد ہیں۔ جب جنوبی افریقہ کے باشندے اپنا مشہور نعرہ ’عوام زندہ باد‘ لگایا کرتے تھے تو کیا وہ گورے لوگوں کی نسل کشی کا اعلان کر رہے تھے؟ ہر گز نہیں۔ وہ نسلی عصبیت پر مبنی حکومتی نظام کا خاتمہ چاہتے تھے اور آج یہی مطالبہ فلسطینیوں کا ہے۔
جو جنگ اب شروع ہوئی ہے، یہ بہت تکلیف دہ ہوگی۔ لیکن اس کا خاتمہ اسرائیل میں نسلی عصبیت کے خاتمے کے ساتھ ہوگا۔ یہودیوں سمیت سب کے لیے، پوری دنیا پہلے سے زیادہ محفوظ ہو گی اور دنیا میں انصاف ہوگا۔ ہمارے دلوں سے آخرکار یہ کانٹا نکل جائے گا۔
اگر امریکی حکومت، اسرائیلی حمایت سے دست بردار ہو جائے تو آج ہی یہ جنگ ختم ہوجائے گی۔ ابھی اسی لمحے سب قتل و غارت گری بند ہو جائے گی۔ اسرائیلی مغوی اور فلسطینی قیدی آزاد ہوں گے۔ حماس اور دیگر فلسطینی نمائندوں کے ساتھ جو مذاکرات جنگ کے بعد ہونے ہیں، وہ ابھی ہوسکتے ہیں اور یوں لاکھوں لوگوں کو تکلیف اور تباہی سے بچایا جا سکتا ہے۔ کیسی دردناک بات ہے کہ کچھ لوگوں کے لیے یہ امکان ہی ناقابلِ تصوّر ہے کہ انھیں اس پر ہنسی آئے گی!
علاء عبدالفتح! اختتام پر میں پھر تمھاری طرف آؤں گی۔ میں تمھاری کتاب تم ابھی ہارے نہیں (Not Yet Been Defeated)کا ذکر کروں گی، جو تم نے جیل میں لکھی ہے۔ ہار اور جیت کے معنی سے متعلق ایسے خوب صورت الفاظ میں نے اور کہیں نہیں پڑھے، نہ میں نے کسی اور کو یوں مایوسی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھا ہے۔ میں نے کم ہی ایسا کام دیکھا ہے جس میں ایک شہری اپنی ریاست، اپنے جرنیلوں، اور(قاہرہ کے التحریر) چوک کے ان نعروں سے اس قدر واضح انداز میں الگ کھڑا نظر آتا ہے:
مرکز میں کھڑے ہونا بغاوت ہے کیونکہ مرکز کی جگہ صرف جرنیل کے لیے ہے۔
مرکز بغاوت کی جگہ ہے اور میں کبھی باغی نہیں رہا۔
وہ ہمیںکناروں کی طرف دھکیل کر خوش ہیں، لیکن وہ نہیں جانتے کہ ہم مرکز سے ہٹے نہیں، بس کچھ دیر کے لیے کھو گئے تھے۔
ووٹوں کے ڈبے، محل سرا، وزارتیں، قید خانے یہاں تک کہ قبریں بھی اتنی کشادہ نہیں ہیں کہ ان میں ہمارے خواب سما سکیں۔
ہم نے کبھی مرکز میں ہونا نہیں چاہا کیونکہ یہ اپنے خوابوں سے منہ موڑنے والوں کی جگہ ہے۔ یہاں تک کہ وہ چوک بھی ہمارے لیے کافی نہیں تھا۔ اس لیے ہم نے انقلاب کی جنگ اس سے ہٹ کر لڑی اور ہمارے اکثر ہیرو منظر سے باہر رہے۔
غزہ اور لبنان کی جنگ ایک علاقائی جنگ میں تبدیل ہونے کو ہے اور اس کے ہیرو بھی منظر سے باہر ہیں۔ لیکن وہ لڑ رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایک دن ’دریا سے سمندر تک، فلسطین آزاد ہو گا‘ (From the River to the Sea - Palestine will be Free)اور یہ ہوکر رہے گا۔
اپنی نظریں گھڑیوں پر نہیں، کیلنڈر پر رکھیں۔ کیونکہ اپنی آزادی کے لیے لڑنے والے عوام، یہاں پر میں جرنیلوں کی بات نہیں کر رہی، بلکہ عوام کی کر رہی ہوں اور عوام اسی طرح اپنے وقت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ (The Wire، ۱۱؍اکتوبر ۲۰۲۴ء)
_______________
’پین انگلینڈ‘ (PEN England) نے ۱۰؍اکتوبر ۲۰۲۴ء کو ’پین پنٹرایوارڈ‘ مشترکہ طور پرممتاز دانش ور اور مصنّفہ اروندھتی رائے اور مصری نژاد برطانوی مصنّف علاء احمد عبدالفتح کو دیا۔ اروندھتی رائے نے ایوارڈ کی ساری رقم ’فلسطینی چلڈرن ریلیف فنڈ‘ کو عطیہ کی۔ ترجمہ: اطہر رسول حیدر
اخبار ڈی کلاسیفائیڈ کی جمع کردہ معلومات کے مطابق برطانیہ خفیہ طور پر اسرائیلی فوج کو نفسیاتی جنگ کے حربے سکھا رہا ہے۔ حال ہی میں افشاء ہونے والی متعدد دستاویزات کے مطابق برطانوی فوج کی ’۷۷ویں بریگیڈ‘ اس سلسلے میں اسرائیلی فوج کے ساتھ حکمت عملی اور تدابیر کے متعلق مشاورت کرتی آرہی ہے۔
یاد رہے ۷۷ویں بریگیڈ ’معلومات کے اس دورمیں‘ سوشل میڈیا اور نفسیاتی جنگ کے دیگر پہلوؤں میں مہارت رکھتی ہے۔ یہ بریگیڈ اپنی کارروائیوں کے لیے ’نفسیاتی جنگ کے غیرمہلک طریقوں‘ مثلاً سائبر حملوں، منفی پروپیگنڈے اور آن لائن آپریشنوں پر انحصار کرتی ہے۔
غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے دفاع میں اپنی ابلاغی مہم کے دوران، اسرائیل خود بھی جعلی اور تحریف شدہ ویڈیوز اور جعلی اکاؤنٹس کا سہارالیتا آرہا ہے۔
اس سلسلے میں ۲۰۱۸ء سے ۲۰۱۹ء کے دوران ہرمیٹیج، برکشائر میں واقع’ ۷۷ویں بریگیڈ‘ کے دفاتر میں دو بار معلومات کا تبادلہ ہوا۔ یہ دستاویزات Anonymous for Justice نامی گروپ نے اسرائیلی فوج کے اکاؤنٹ ہیک کر کے حاصل کی ہیں۔ اس کے بعد یہ تمام دستاویزات من و عن Distributed Denial of Secretsمیں شائع ہوئیں۔
اگرچہ کچھ دستاویزات خفیہ معاملات سے بھی تعلق رکھتی ہیں، لیکن ان کے مندرجات بہرحال عوامی مفاد کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، اس لیے ذرائع ابلاغ میں ان کو شائع کرنا ضروری ہے۔ اسرائیل اس وقت بین الاقوامی عدالتوں میں ’نسل کشی‘ (Genocide)کے الزامات کا سامنا کر رہا ہے، جب کہ برطانوی وزارتِ دفاع حقِ معلومات کے قانون یا پارلیمان میں پوچھے جانے والے سوالوں کے جواب میں اسرائیل کو دی جانے والی فوجی امداد کے متعلق کچھ بھی بتانے سے انکاری ہے۔
جوائنٹ سروسز کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کے اعزازی رکن پروفیسر پال راجرز کے مطابق: ’’یہ انتہائی اہم پیش رفت ہے، جو برطانوی اور اسرائیلی عسکری کمان کے درمیان اعلیٰ سطحی تعلقات سے پردہ اٹھاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ عمومی طور پر عسکری شعبے میں شفافیت پر بھی زور دیتی ہے‘‘۔
برطانوی وزارتِ دفاع کے ترجمان کا کہنا تھا: ’ہم اسٹاف کی سطح پر باقاعدگی سے دنیا بھر کے دفاعی اداروں کے ساتھ نان آپریشنل اشتراکِ عمل کرتے رہتے ہیں۔ ایسے تمام منصوبے ضابطے کے تحت تکمیل پاتے ہیں اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی پابندی کی جاتی ہے‘‘۔
تاہم، نفسیاتی جنگ کے متعلق اسرائیل کے ساتھ حالیہ تعاون کے متعلق پوچھنے پر محکمہ دفاع نے کسی وضاحت سے انکار کر دیا۔
اس خفیہ تعاون کے رازکو افشا کرنے والی ایک ای میل کے مطابق اس کا مقصد ’’اسرائیلی فوج ’جے تھری‘ ڈائریکٹوریٹ کے شعبہ ابلاغی مہمات کے ارکان کو ایسی مہمات کی منصوبہ بندی، انتظام اور انھیں پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے درکار مہارت سے روشناس کروانا تھا‘‘۔
اس کے بعد برطانوی فوج کے ایک میجر نے اسرائیلی وفد کے لیے دو دن کا پروگرام ترتیب دیا، جو وزارتِ دفاع کے ہیڈکوارٹر اور ’۷۷ویں بریگیڈ‘ کے دفاتر واقع برکشائر میں منعقد کیا جانا تھا۔
اس پروگرام کے تحت اسرائیل یا برطانیہ کے کسی خفیہ مقام پر ’اسٹرے ٹیجک ابلاغی مہمات کا انتظام‘ اور ’اسرائیلی ابلاغی حکمت عملی اور اس کا ڈھانچا‘ کے موضوع پر تفصیلات کا تبادلہ کیا جانا تھا۔
لندن میں اسرائیلی سفارت خانہ بھی اس معاملے میں ان کا ہم خیال تھا اور چاہتا تھا: ’’منصوبے کی تشکیلِ نو کے لیے منصوبہ بندی کی جائے‘‘۔جون تک برطانوی وزارت دفاع اور ۷۷ویں بریگیڈ کا یہ اسرائیلی دورہ گذشتہ خطوط پر دوبارہ ترتیب دیا جا چکا تھا کیونکہ، سال [۲۰۱۸ء] میں یہ دورہ منسوخ کرنا پڑا تھا‘۔چنانچہ ۱۰ اور ۱۱ جولائی کو اسرائیلی وفدنے ایک دن برکشائر میں ’۷۷ویں بریگیڈ‘ کے ساتھ، جب کہ اگلا دن وزارت دفاع کے ساتھ گزارا، اور اسرائیلی فوج کو ابلاغی مہمات کی منصوبہ بندی اور انتظام کرتے ہوئے انھیں پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی مہارت سے روشناس کروایا گیا۔
تل ابیب میں برطانوی سفارت خانے کی جانب سے جاری کردہ درخواست کے مطابق یہ دورہ ۲۸ مارچ سے ۴؍ اپریل ۲۰۲۰ء کے درمیان ہونا تھا، لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے درپیش سفری پابندیوں کے باعث اسے منسوخ کر دیا گیا۔ برطانوی سفارت خانے کی درخواست کے مطابق گفت و شنید کا موضوع ’ابلاغی مہمات کی استعداد پیدا کرنا‘ تھا اور اسے خفیہ قرار دیا گیا تھا۔
’فلسطین ایکشن‘ تنظیم کی شریک بانی ہدیٰ اموری نے ڈی کلاسیفائیڈ کو بتایا: ’’اسرائیلی ریاست، فلسطینیوں کو قتل کرنے، تشدد کا نشانہ بنانے اور ان کی زمینوں پر قبضہ کرنے کے لیے اکثر نفسیاتی جنگ اور پروپیگنڈا کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہے‘‘۔ان کے مطابق افشاء ہونے والی دستاویزات یہ ثابت کرتی ہیں کہ: ’’برطانیہ فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم میں شریک ہے‘‘۔
۷اکتوبر کو اسرائیل پر ’حماس‘ کے حملے کے بعد، انڈین میڈیا اور صہیونیوں کی رائے عامہ نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی زبردست حمایت کی تھی۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تل ابیب اور نئی دہلی دونوں فلسطینی اور کشمیری علاقوں پر قبضے اور الحاق کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ۲۰۱۴ء سے انڈین وزیراعظم نریندر مودی، مقبوضہ کشمیر میں جن پالیسیوں پر عمل پیرا ہے، وہ مشرقی یروشلم، مغربی کنارے اور غزہ میں اسرائیل کی اختیار کردہ پالیسیوں سے مختلف نہیں ہیں۔ قابلِ اعتماد ذرائع کی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ انڈیا، غزہ پر اسرائیل کی جنگ کی حمایت کے ساتھ ساتھ غیر قانونی طور پر ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔ اسی طرح غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کی حمایت میں انڈین ہاتھ ملوث ہے، خاص طور پر ہندوتوا حامیوں کے ذریعے۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ مودی حکومت کے دور میں انڈیا، فلسطین کے مسئلے پر اپنے قدیم اور روایتی موقف سے پیچھے ہٹ گیا ہے، بلکہ انڈیا نے اسرائیل کے ساتھ گہرے مشترکہ تعلقات استوار کرلیے ہیں، خاص طور پر غزہ میں جاری تنازعے کے تناظر میں۔ حالیہ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ انڈیا، اسرائیل کو ہتھیار فراہم کر رہا ہے اور وہ غزہ میں فوجی آپریشن میں شریک ہے۔ ۱۵ مئی کو ہسپانوی ساحل پر کارگو بحری جہاز ’بورکم‘ (Borkum) سے متعلق کیس اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ انڈین ہتھیاروں کی کھیپ اسرائیل کو بھیجی گئی تھی۔ فلسطینی قبضے کے خلاف سولیڈیریٹی نیٹ ورک کی جانب سے کی گئی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ ’بورکم‘ میں ۲۰ٹن راکٹ انجن، ۱۲ء۵ ٹن دھماکا خیز مواد، ۳۳۰۰پاؤنڈ دھماکا خیز مادہ اور توپوں کے لیے، ۱۶۳۰پونڈ چارجر اور توپ کے گولوں کے لیے دھماکا خیز مواد تھا۔ پھر ۶ جون کو اسرائیل نے غزہ میں اقوام متحدہ کے پناہ گزین کیمپ پر بمباری کی۔ ’قدس نیوز نیٹ ورک‘ نے اسرائیلی جنگی طیاروں کی طرف سے گرائے گئے میزائل کی باقیات کی ویڈیو جاری کی ہیں، جن کے مطابق ایک لیبل پر واضح طور پر لکھا تھا:’میڈ اِن انڈیا‘۔
اس کے علاوہ، کچھ تصاویر میں دکھایا گیا ہے کہ سیکڑوں انڈین فوجی یا شہری، اسرائیل میں فلسطینی عوام کے قتل عام کے حق میں مظاہرے میں حصہ لے رہے ہیں۔ اسرائیل کے لیے انڈیا کی غیرمنصفانہ حمایت سے پیداشدہ لعن طعن کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے، نئی دہلی نے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین (UNRWA) کے ذریعے غزہ کو علامتی امداد کی ترسیل بھی کی ہے۔ اگرچہ مودی کی حکومت اور حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا اسرائیل کی طرف اسٹرے ٹیجک جھکاؤ ساری دُنیا پر واضح ہے۔ انڈین وزیر خارجہ جے شنکر نے اپنی حکومت پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے:’’انڈیا وہی کرے گا، جو اس کے مفاد میں ہوگا‘‘۔
انڈین ملٹری انٹیلی جنس اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات کے ساتھ ساتھ اسرائیلی نسل کشی کی کارروائیوں کی حمایت بھی کررہی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد جس میں ’غزہ میں فوری اور پائیدار جنگ بندی‘ کا مطالبہ کیا گیا تھا، انڈیا نے حمایت نہیں کی۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکومت اس سال فلسطینی مزدوروں کی جگہ ۸۰ ہزار غیر ملکی ملازمین کو مستقل طور پر بھرتی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جن کی اکثریت انڈیا سے آئے گی۔ ’امریکا،بھارت،اسرائیل گٹھ جوڑ‘ اقوام متحدہ کے نقطۂ نظر کو مسترد کرتا ہے، جو غزہ کی جنگ کے دوران مشرق وسطیٰ کے نازک حالات میں انسانی ہمدردی، ترقی اور امن کی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی پر عمل درآمد اور مالی تعاون پر مبنی ہے۔
مزید برآں، ’ہندوتوا، صہیونی اتحاد‘ کی گھن گرج کو دیکھنا ہو تو انڈیا کی فوجی حمایت زیادہ تر غزہ میں جنگ کے دوران انڈین نیوز چینلوں پر نشر ہونے والے تبصروں سے ظاہر ہوتی ہے۔ ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر انڈیا اسرائیل ٹرینڈ شروع کیا گیا اور صہیونی حکومت کے ساتھ اپنی غیرمعذرت خواہانہ یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے فلسطین کی حمایت کرنے والوں کے لیے بازاری اور گھٹیا زبان استعمال کی گئی۔ پھر کمال ڈھٹائی سے جعلی ویڈیوز اور مسخ شدہ تصاویر اور پرانی خبریں تک جاری کی گئیں۔ اس طرح انڈیا، جعل سازی اور غلط معلومات کا مرکز بن گیا، جس نے اسرائیل کو غزہ کی جنگ کا اصل ہدف قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح چند انڈین شہروں میں اسرائیل کی حمایت میں جلوس بھی نکالے گئے جہاں ’اسرائیل زندہ باد‘ کے ساتھ ساتھ ’جے شری رام‘ جیسے ’ہندوتوا‘ جیسے قوم پرست نعرے بھی لگائے گئے۔
اسرائیل کے بارے میں انڈیا کی اختیار کردہ پالیسی، دُہرے انڈین کردار کے بارے میں سوالات اُٹھاتی ہے: ایک طرف علامتی امداد فراہم کرنے اور دوسری طرف غزہ میں اسرائیل کے ساتھ نسل کشی میں بامعنی شریک کار کے طور پر۔ اس کے ساتھ حیرت کی بات ہے کہ مرکزی دھارے کا بھارتی میڈیا غزہ تنازعہ میں انڈین کردار کے بارے میں واضح طور پر خاموش ہے۔ تاہم، انڈین میڈیا کھلے عام ایسے کلپس نشر کرتا آرہا ہے جو غزہ میں جاری ’صہیونی،بھارتی،امریکی گٹھ جوڑ‘ کے بارے میں تاثر پیدا کرتا ہے۔ لیکن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق فلسطینیوں اور کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی قانون کی رٹ کے خلاف یہ مکروہ گٹھ جوڑ زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ برطانیہ کی طرف سے اسرائیل کو غیر قانونی ہتھیاروں کی فراہمی کے ردعمل کے طور پر، برطانوی دفتر خارجہ کے ایک سفارت کار نے یہ مانتے ہوئے استعفا دے دیا ہے کہ ’اس طرح برطانوی حکومت جنگی جرائم میں ملوث ہوسکتی ہے‘۔
چوتھے جنیوا کنونشن کے مطابق مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی پر اسرائیلی قبضہ کسی بھی قانونی حیثیت سے درست نہیں ہے۔ اسی طرح طاقت کے زور پر یا انڈین قانون سازی کے ذریعے جموں و کشمیر پر بھارت کا قبضہ بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔ اس لحاظ سے، تل ابیب اور نئی دہلی دونوں نے ’بین الاقوامی انسانی قانون‘ (IHL) کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں۔ فلسطین کے بارے میں انڈیا کی پالیسی میں واضح تبدیلی اور غزہ کی جنگ میں اسرائیل کی بے جا حمایت، اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل کے غزہ جنگی شراکت دار کے طور پر، انڈیا کا مقصد کشمیر پر یک طرفہ طور پر قبضے کو مضبوط بنانا ہے۔ یوں اپنے اسٹرے ٹیجک مفادات کے لیے نئی دہلی جنگی جرائم میں ملوث چلی آرہی ہے۔
۱۹۹۵ء میں جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات منعقد کروانے کے لیے بھارت کو شدید عالمی دباؤ کا سامنا تھا۔وزیر اعظم نرسمہا راؤ کی حکومت، کانگریس کی ہم نوا ’نیشنل کانفرنس‘ کی معاونت کے لیے تیار نہیں تھی۔ نئی دہلی میں اس بات پر بھی غصہ تھا کہ ۱۹۸۹ میں فاروق عبداللہ نے وزارت اعلیٰ کے منصب سے استعفا دیا اور بھارت مخالف قوتوں کا سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے کے بجائے لندن جا کر بس گئے تھے۔
ان انتخابات کو معتبر بنانے کے لیے معروف کشمیری رہنما شبیر احمد شاہ پر ڈورے ڈالے جارہے تھے۔ وہ ابھی حُریت کانفرنس میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ نئی دہلی میں خفیہ ایجنسیوں کا ایک اور دھڑا، جس کی قیادت اس وقت کے سیکرٹری داخلہ ایس پدمانا بھیا کر رہے تھے، انھوں نے حکومت نواز بندوق برداروں پر مشتمل ایک پارٹی ’عوامی لیگ‘ کے نام سے میدان میں اتاردی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ خود ساختہ منتخب حکومت کی باگ ڈور، وہ تائب بندوق برداروں کے کمانڈر محمدیوسف المعروف ککہ پرے کے حوالے کردیں گے۔ اس گروپ نے ان دنوں چند برسوں میں ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑے تھے، لوگ کسی طرح ان سے چھٹکارا پانا چاہ رہے تھے۔
اگلے سال یعنی ۱۹۹۶ء میں لوک سبھا کے انتخابات ہوئے، تو نیشنل کانفرنس نے ان کا بائیکاٹ کیا ہوا تھا۔ ان انتخابات میں کانگریس کی زیر قیادت نرسہما راؤ کی حکومت کا تختہ اُلٹ گیا اور جنتا دل حکومت وزیر اعظم دیو گوڑا کی قیادت میں برسر اقتدار آگئی۔ انھوں نے خفیہ ایجنسیوں کی ایما پر اپنے دست ِراست سی ایم ابراہیم کو لندن بھیج کر فاروق عبداللہ کو اسمبلی انتخابات میں شرکت پر آمادہ کروالیا۔ ان کو یقین دہانی کروائی گئی، کہ اسمبلی میں ان کو واضح اکثریت حاصل کرنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوگی، اور وہ زیادہ خود مختاری کی قراردار منظور کرواکے نئی دہلی بھیج دیں، جس کو پارلیمنٹ سے پاس کروایا جائے گا۔ سی ایم ابراہیم اکثر غیر رسمی گفتگو میں ان انتخابات کا کریڈٹ لیتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے فاروق عبداللہ کو بتایا تھا کہ اگروہ انتخابات میں شرکت نہیں کرتے، تو ان کے پاس متبادل موجود ہیں۔ اس طرح ان کی پارٹی کا نام و نشان مٹ جائے گا۔
ان انتخابات میں گو کہ زیادہ عوامی شرکت نہیں تھی۔ کئی جگہوں سے لوگوں کو فوج اور نیم فوجی دستوں نے زبردستی ووٹ ڈالنے کے لیے نکلنے پر مجبور کردیا۔ مگر جو بھی پولنگ بوتھ تک گیا، اس کی اولین ترجیح یہی تھی کہ ککہ پرے کی عوامی لیگ یا اس کے بندوق برداروں کے دستوں کو ہروا کر کسی ایسی انتظامیہ کو بر سرِ اقتدار لایا جائے، جس کے زیر سایہ وہ چند سانسیں لے سکیں۔
نیشنل کانفرنس نے ان انتخابات میں ۸۷ رکنی ایوان میں ۵۷ نشستیں جیت کرکے قطعی اکثریت حاصل کرلی۔ انتخابات کے بعد فاروق عبداللہ کو بتایا گیا کہ اسمبلی میں ۱۹۵۳ء سے قبل کی سیاسی پوزیشن بحال کرنے کی قرارداد یا بل پیش کرنے سے قبل ایک کمیٹی بنائی جائے، جو اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لے گی۔ مگر جب تک کمیٹی کی رپورٹ آتی، تب تک جنتا دل حکومت کا تختہ اُلٹ چکا تھا اور اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں بی جے پی اقتدار میں آچکی تھی ، جس نے جولائی ۲۰۰۰ء میں جموں و کشمیر اسمبلی میں واضح اکثریت سے پاس کی ہوئی قرار داد کو مسترد کردیا۔
فاروق عبداللہ جنھوں نے انتخابات میں شرکت اور بھارت کو عالمی دباؤ سے بچانے کے لیے اس شرط پر آلہ کار بننے پر رضامندی ظاہر کی تھی، کہ نئی دہلی ۱۹۵۳ء کی پہلے والی پوزیشن بحال کرے گی، یہ تلخ گھونٹ پی لیا اور اقتدار میں رہنے کو ترجیح دی۔ عمر عبداللہ واجپائی کی وزارتی کونسل میں جونئیر وزیر بن گئے اور انھوں نے بھی وزارت سے استعفا دینا گوارا نہیں کیا۔
لگتا ہے کہ کشمیر میں تاریخ کا پہیہ گھوم پھر کر وہیں پہنچ جاتا ہے۔ اُس وقت سرکاری بندوق برداروں کے بجائے لیفٹنٹ گورنر کی انتظامیہ، سرکاری ایجنسیوں اور ہندو قوم پرستوں نے عوام کا ناطقہ بند کررکھا تھا۔ پچھلے پانچ برسوں سے کشمیر میں گھٹن کا ماحول تھا۔ اس لیے حالیہ اسمبلی انتخابات میں عوام کی ایک بڑی تعداد نے ووٹ ڈالے، تاکہ عوامی نمائندوں پر مبنی ایک حکومت بن سکے اور سانس لینے کا موقع فراہم ہو۔
ان انتخابات میں ۱۹۹۶ء ہی کی طرح نیشنل کانفرنس کو برتری حاصل ہوئی۔ ۹۰سیٹوں میں سے ۴۲ پر نیشنل کانفرنس نے جیت درج کی اور اس کی اتحادی کانگریس کو چھ سیٹوں پر سبقت حاصل ہوئی۔ وادیٔ کشمیر کی ۴۷ میں سے نیشنل کانفرنس کو ۳۵ سیٹیں حاصل ہوئیں اور جموں کی ۴۳سیٹوں میں سات سیٹوں پر کامیابی ملی۔ ہندو اکثریتی جموں میں بی جے پی نے ۲۹نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ جیری مینڈرنگ کے ذریعے اس علاقے میں ہندو سیٹوں کی تعداد ۲۴ سے بڑھاکر ۳۱ کردی گئی تھی۔ اس طرح مسلم سیٹوں کو ۱۲ سے گھٹا کر ۹ کر دیا گیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ کانگریس، ہندو بیلٹ میں بی جے پی کو ٹکر دے گی۔ مگر اس نے انتہائی حد تک مایوس کن کارکردگی کا مظاہر ہ کیا۔ کانگریس کی چھ سیٹیں بھی مسلم بیلٹ سے ہی آئی ہیں۔ ان میں پانچ وادیٔ کشمیر سے اور ایک جموں کے راجوری خطے سے ہے۔ راہول گاندھی نے وادیٔ کشمیر کے سوپور قصبہ میں جاکر وہاں نیشنل کانفرنس کے خلاف مہم چلائی، اور جس کانگریسی اُمیدوار کے حق میں مہم چلائی، وہ تیسرے نمبر پر آیا۔
جس طرح سے کانگریس نے جموں خطے میں بی جے پی کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا تھا، اس سے لگتا تھا کہ شاید ان میں کوئی ملی بھگت ہے۔ انتخابی مہم کے دوران خود عمر عبداللہ کو کہنا پڑا کہ کانگریس جموں کی ہندو بیلٹ پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے وادیٔ کشمیر اور جموں کی مسلم بیلٹ میں ووٹوں کو تقسیم کرنے کا کام کررہی ہے۔
وادیٔ کشمیر میں ووٹروں نے یقینی بنایا کہ آزاد اُمیدواروں کی بہتات کی وجہ سے ووٹ تقسیم نہ ہوں۔ اس لیے انجینئر رشید ( عوامی اتحاد پارٹی) اور جماعت اسلامی فیکٹر کا بھی نتائج پر بہت کم اثر ہوا ۔ انجینئر رشید نے پارلیمانی انتخابات میں جو جلوہ دکھایا، وہ اسمبلی انتخابات میں مفقود تھا۔ اس کی بڑی وجہ تھی کہ اس نے انتہائی نالائق اُمیدواروں کو میدان میں اتارا۔ شاید ضمانت پر رہائی کے بعد ان کو اُمیدواروں کے انتخاب کے لیے نہایت کم وقت ملا۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، جس نے ۲۰۱۵ء میں بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت بنائی تھی، وادیٔ کشمیر میں شکست کھا گئی ہے، اور تین نشستوں تک محدود ہوگئی۔جس پارٹی کے اُمیدوار پر تھوڑا بھی شک گزرا کہ اس کے تعلقات نئی دہلی یا بی جے پی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، کو شکست ہوئی۔
بی جے پی نے تین سیٹیں یعنی بھدروا، ڈوڈاویسٹ اور کشتواڑ وادیٔ چناب سے جیتیں۔ اس علاقے میں کانگریس اور نیشنل کانفرنس دونوں نے اُمیدوار کھڑے کر دیئے تھےاور ووٹوں کی تقسیم کا فائدہ بی جے پی کو ملا۔ بی جے پی کو سب سے بڑا جھٹکا راجوری-پونچھ کی پیر پنجال پٹی میں لگا۔ جہاں اس نے آٹھ میں سے ایک ہی سیٹ جیتی ہے۔ یہ سیٹ بھی اس لیے ممکن ہوسکی کہ جیری مینڈرنگ کے ذریعے انتخابات سے قبل کالاکوٹ کو سندر بنی سے ملاکر بی جے پی کے لیے اس سیٹ کو ہموار کرادیا گیا تھا۔ پیر پنجال کے دیگر حصوں یعنی نوشہرہ، راجوری، درہال، تھانا منڈی، پونچھ،حویلی، مینڈھر اور سورنکوٹ میں بی جے پی کی دال گل نہ سکی۔ اس خطے میں پہاڑی نسل کے لوگوں کو شیڈولڈ ٹرائب کا درجہ دینے کی وجہ سے ان کے لیڈروں کو لگتا تھا کہ یہ خطہ اب ان کی جیب میں ہے۔ وزیر داخلہ امیت شا نے اس خطے کے کئی دورے کیے۔ تاہم، کوئی بھی اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کر سکتا کہ بی جے پی نے کچھ ایسے حلقوں میں اپنی موجودگی ثابت کی ہے جہاں وہ دوسرے نمبر پر رہی ہے یا ۱۰۰۰ سے زیادہ ووٹ حاصل کر چکی ہے۔
گریز میں اس کی کارکردگی قابل ذکر ہے، جہاں اس کے اُمیدوار فقیر محمد نے ۷۲۴۶ ووٹ حاصل کیے،جب کہ نیشنل کانفرنس کے نذیر احمد خان نے ۸۳۷۸ ووٹ حاصل کیے۔بی جے پی سرینگر کے حبہ کدل میں بھی دوسرے نمبر پر رہی لیکن بڑے فرق سے ہار گئی۔
۱۹۹۶ء میں نیشنل کانفرنس نے زیادہ سے زیادہ خود مختاری کے نام پر اور چند سانسیں لینے کے عوض بھاری اکثریت حاصل کی تھی۔ اس بار بھی عوام کو امید ہے کہ شاید آکسیجن کی بحالی ہو۔ فرق یہ ہے کہ اس بار نیشنل کانفرنس خود مختاری کے بجائے ریاستی درجہ کی بحالی کے وعدے کو لے کر میدان میں اُتری ہے اور اس میں کس قدر اس کو کامیابی حاصل ہوتی ہے، وقت ہی بتائے گا۔ ویسے نیشنل کانفرنس کا جیتنا دونوں یعنی کشمیری عوام اور نئی دہلی کےلیے ایک طرح سے فائدے والی صورت حال ہے۔ کشمیری عوام آبادیاتی ساخت کی تبدیلی کے حوالے سے اور نچلی سطح پر غیرریاستی افسران کی آمد سے پریشان تھے۔ یہ مسئلہ حل ہونے کا امکان ہے۔ اگر نیشنل کانفرنس کا کوئی کارنامہ ہے، تو یہی ہے۔ ۱۹۷۵ء میں شیخ عبداللہ کے اقتدار میں آنے کے بعد کسی حد تک انتظامیہ میں کشمیریوں کا عمل دخل بڑھا کر ان کو اقتدار کی راہداریوں تک رسائی فراہم کرا دی گئی تھی، جو اَب معدوم ہو چکی ہے۔
نئی دہلی کو اطمینان ہے کہ نیشنل کانفرنس ریڈ لائنز کراس کرنے کی روادار نہیں ہوگی۔ اس کے لیڈران بس ایک حد تک ہی نئی دہلی کو چیلنج کرتے ہیں۔ جو لیڈران اپنی اسمبلی کی خود مختاری کی قرارداد کو مرکزی کابینہ کے ذریعے مسترد ہونے پر بھی خون کے گھونٹ پی سکتے ہیں، تو وہ اقتدار برقرار رکھنے کے لیے کچھ بھی برداشت کر سکتے ہیں۔
اسی طرح عمر عبداللہ کے پاس سیاسی قیدیوں کی رہائی اور سابقہ حکومتوں کے دوران نافذ کیے گئے جابرانہ قوانین کی منسوخی کے لیے بھارتی حکومت پر دباؤ ڈالنے کا نادر موقع ہے۔ مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کے حصول کے لیے پاکستان اور کشمیری عوام کے ساتھ بات چیت کی وکالت کے لیے بھی وہ ایک سازگار فضا اور دباؤ ڈال سکتے ہیں۔
اس حکومت پر لیفٹنٹ گورنر کی خاصی گرفت ہوگی، وہ کس طرح اس سے نبرد آزما ہو سکتے ہیں، وہ ان کی سنجیدگی ظاہر کرے گی۔ تمام متعلقہ فریقوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ دیرپا امن اور انصاف کے حصول کے لیے کشمیری عوام کی آواز کو سنا جائے اور اس کا احترام کیا جائے۔ یہ عمر عبداللہ کا اصل امتحان ہوگا۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں، اور تاریخ کے اس نازک موڑ پر عوام کی رہنمائی کرتے ہیں، تو یہ کارنامہ تصور ہوگا، ورنہ اس پارٹی کے گناہ اس قدر ہیں، جو شاید ہی ووٹوں سے دُھل سکیں۔
جمہوریت اِک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
برطانوی جمہوری طرزِ حکومت میں اکثر یتی آبا دی کے نمائندوں کو حکومت سازی کا حق دیا گیا ہے۔ جن ممالک میں اکثریتی رائے کے برعکس ’ملاوٹی جمہوریت‘ کا نظام نافذ ہے، وہاں اقلیتوں کی آبادی مسلسل دبائو میں رہتی ہے، اور اکثریتی آبادی ہی قیادت کرتی ہے۔
ہندوستان میں بھی اکثریتی سسٹم کے تحت انتخابات منعقد کرائے جاتے ہیں اور حکومت سازی کی جاتی ہے۔ مگر انڈیا میں جمہوریت کی یہ دیوی جموں و کشمیر کی سرحد کو پار نہیں کر پاتی؟ فی الوقت جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات میں اَن گنت اقدامات کے ذریعے یہ یقینی بنایا گیا ہے کہ ان انتخابات میں علامہ اقبال کے مذکورہ بالا شعر کی تفسیر پر عمل ہو اور بندوں کو گننے کے بجائے تولا جائے۔ پلڑے میں مسلم آبادی کو ہلکا رکھنے کے پورے سامان کیے گئے ہیں، تاکہ ان انتخابات کے ذریعے وجود میں آنے والی اسمبلی خطے کی اکثریتی آبادی کی نمائندگی نہ کرسکے۔
اس کی واحد وجہ یہی ہے کہ یہاں کی اکثریتی آباد ی مسلمان ہے۔ ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق جموں و کشمیر میں مسلم آبادی ۶۸ء۳ فی صد اور ہندوؤں کی ۲۸ء۲ فی صد ہے۔مگر ۲۰۲۲ء کے حد بندی کمیشن نے مسلم اکثریتی وادیٔ کشمیر جہاں ریاست کی ۵۶ء۱۵ فی صد آبادی رہتی ہے، کے حصے میں اسمبلی کی ۴۷ نشستیں اورہندو اکثریتی جموں کی ۴۳ء۸۵فی صد آبادی کو ۴۳ نشستیں دے دیں۔
یہ حد بندی تو خود ہی ووٹروں کی مساوات کے بنیادی جمہوری اصول کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔ریاست کے سابق وزیر خزانہ حسیب درابو کا کہنا ہے کہ ’’وادیٔ کشمیر کا ایک ووٹر جموں خطے کے ۰ء۸ ووٹروں کے برابر کر دیا گیا ہے۔ یہ انتخابی عصبیت نہیں تو کیا ہے؟‘‘
پھر جموں ڈویژن کے ہندو بیلٹ کی سیٹوں کی تعداد ۲۵ سے بڑھا کر ۳۱ کر دی گئی، تاکہ اقلیتی آبادی کی نمائندگی میں مزید اضافہ ہو۔اگر یہ جمہوریت ہے، تو یہ فارمولا ملک کے دیگر علاقوں میں بھی لاگو کرنا چاہیے، تاکہ جمہوری اداروں میں وہاں کی اقلیتوں کو بھی متناسب نمائندگی مل سکے۔
اس ۹۰ رکنی اسمبلی میں اب ۲۸ فی صد ہندو آبادی کو ۳۴ء۴۴فی صد نشستیں حاصل ہوجائیں گی۔جموں ڈویژن میں اگرچہ ہندو اکثریت میں ہیں، مگر مسلمانوں کی آبادی بھی ۳۴ء۲۱ فی صد ہے۔غیرمنصفانہ حد بندی کے ذریعے اس علاقے کے مسلم اکثریتی حلقوں کو ۱۲ سے کم کرکے اب ۹کر دیا گیا ہے۔ اسمبلی میں اس خطے کی مسلم نمائندگی ۴۳ فی صد سے کم ہو کر ۳۹ فی صد ہوجائے گی۔پچھلی اسمبلی میں جموں کی کل ۳۷ سیٹوں میں سے ۱۲ مسلم اکثریتی نشستیں تھیں۔
جموں میں، نئے ہندو اکثریتی حلقے بنائے گئے، جیسے کہ پاڈر جس کی آبادی صرف ۵۰ہزار ہے، اسمبلی کا ایک حلقہ ہے، جب کہ اس سے تین گنا زیادہ مسلم علاقوں، جیسے پونچھ ضلع میں سورنکوٹ، کو اسمبلی میں جگہ نہیں دی گئی ہے۔ جموں کے پونچھ اور راجوری کے مسلم اکثریتی اضلاع کو کشمیر کے اننت ناگ کے لوک سبھا حلقہ میں شامل کیا گیا ہے۔ادھم پور حلقہ کا ایک گاؤں جاکھایان، جہاں دلت آبادی ۹۲ء۸ فی صد ہے، بی جے پی کے لیے درد سر بنا ہوا تھا، جہاں اس کے اُمیدوار کو ووٹ نہیں ملتے تھے۔ اسے اب سزا کے بطور چینانی کے ساتھ ملایا گیا ہے۔
۲۰۱۴ء میں راجوری سے بی جے پی کا امیدوار ۲ء۸۶ فی صد کے فرق سے ہار گیا تھا۔ راجوری میں مسلمان ۷۰ فی صد اور ہندو ۲۸ فی صد ہیں۔ کمیشن کی جانبداری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس سیٹ سے سوہنا تحصیل کو الگ کرکے تھانہ منڈی میں شامل کیا گیا۔ سوہنا میں ۹۱ فی صد مسلمان آبادی تھی، جس کی وجہ سے راجوری کی سیٹ بی جے پی کے لیے نکالنا مشکل ہوتا تھا۔ جموں پارلیمانی حلقے کے راجوری اور پونچھ، جو مسلم اکثریتی علاقے ہیں، اکثر بی جے پی کے امیدوار کے لیے ٹیڑھی کھیر ثابت ہوتے تھے۔
انتخابات کے بعد گورنر منوج سنہا نے پانچ اراکین کو نامزد کرنا ہے، جس سے اسمبلی اراکین کی تعداد ۹۰ سے بڑھ کر ۹۵ ہو جائے گی۔ یہ اراکین دو خواتین، دوکشمیری پنڈت اور ایک رکن ۱۹۴۷ء میں پاکستان سے آنے والوں میں سے ہوگا۔ گویا یہ بھی ہندو ہی ہوں گے۔ نامزد ممبران ہوتے ہوئے بھی ان کو ووٹنگ کا حق حاصل ہوگا۔ اس طرح ایک مخصوص کمیونٹی کو غیر متناسب طور پر فائدہ پہنچانے اور اکثریتی آبادی کو بے اختیار اور لاچار بنانے کی واضح کوششیں کی گئی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ۹۵ رکنی اسمبلی میں اقلیتی آبادی کو ۳۹ نشستیں مل سکتی ہیں، جب کہ ان کاجائز حق ۲۹نشستوں کا بنتا ہے۔
چونکہ مسلم آبادی کے ہی نمائندے کے وزیر اعلیٰ بننے کے امکانات ہیں، اس لیے گورنر کو قبل از انتخاب ہی مزید اختیارات دیے گئے، تاکہ منتخب حکومت برسرِاقتدار آتی بھی ہے، تو وہ لاچار اور بے بس ہو۔ اس حکم نامہ کی رُو سے پولیس، بیوروکریسی، اٹارنی جنرل اور پراسیکیوٹر کی خدمات پر لیفٹیننٹ گورنرکا کنٹرول ہوگا۔تقرریوں اور تقرر سے متعلق تمام امور کے لیے لیفٹیننٹ گورنر کی منظوری لینی ہوگی اور اس کے فیصلوں پر وزراء کی کونسل نظرثانی نہیں کر سکے گی۔
لیفٹیننٹ گورنر کے نمائندے کو کابینہ کے تمام اجلاسوں میں شرکت کا پابند بنایا گیا ہے۔ یہاں تک کہ وزراء کی طے شدہ میٹنگوں کے ایجنڈے کو کم از کم دو دن پہلے گورنر کے دفتر میں جمع کرانا ہوگا۔یعنی وزراء اپنی مرضی سے کسی سے مل بھی نہیں سکیں گے۔
ہندو بیلٹ میں نقصان کے اندیشہ کے پیش نظر اب بی جے پی کی نگاہیں، جموں کی مسلم بیلٹ یعنی راجوری اور پونچھ پرلگی ہوئی ہیں۔ حال ہی میں پہاڑی بولنے والی آبادی کو شیڈیولڈ ٹرائب کا درجہ دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ان کے لیے اعلیٰ تعلیمی اداروں اور نوکریوں میں نشستیں مخصوص ہوجائیں گی۔ مگر اس سے گوجر،بکروال برادری جو ’مشمولہ قبائل فہرست‘ ہونے کا فائدہ اٹھاتے تھے، ناراض ہو گئے ہیں۔
جس طرح نیشنل کانفرنس نے اکیلے انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا ہے، اس نے کشمیر کو گرداب سے نکالنے کے اس کے عزم پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ وقت تھا کہ کشمیر کی سبھی پارٹیاں چاہے وہ نیشنل کانفرنس ہو یا پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی یا کوئی اور، ایک ساتھ انتخابی میدان میں اُترتیں۔مگر نیشنل کانفرنس کے مغرور لیڈروں نے ہمیشہ ہی نازک مرحلوں پر غلط فیصلے کیے ہیں، یہ فیصلہ بھی اسی زمرے میں تاریخ میں گنا جائے گا۔
عوامی اتحاد پارٹی کے لیڈر انجینئر شیخ عبدالرشید نے نیشنل کانفرنس اور سجاد غنی لون کی پیپلزکانفرنس کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ انجینئر رشید کی جماعت عوامی اتحاد پارٹی قیدیوں کی رہائی، مسئلہ کشمیر کا حل، پاکستان کے ساتھ بات چیت اور انڈین آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ کی بحالی کاوعدہ کرکے عوام کو لبھا رہی ہے۔ وہ ’ظلم کا بدلہ ووٹ سے‘ اور ’یہ ملک ہمارا ہے، اس کا فیصلہ ہم کریں گے‘ وغیرہ کے نعرے بلند کررہے ہیں۔
بی بی سی کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق عمر عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی جیسی روایتی جماعتوں کی مہم کے مقابلے میں انجینئر رشید کی مہم کو نہ صرف زمینی سطح پر بھاری عوامی تائید حاصل رہی ہے بلکہ سوشل میڈیا پر بھی اُن ہی کی باتیں وائرل ہوئی ہیں۔ کیونکہ ان کے انتخابی نعروں میں ’ظلم، قید و بند، اظہار رائے پر قدغن، ناانصافی اور مسئلہ کشمیر کے حل‘ کی گونج سنائی دے رہی ہے، جو کشمیری طویل عرصے بعد سن رہے ہیں۔
انجینئر رشید نے حیران کن طور پر جماعت اسلامی کے ساتھ انتخابی اتحاد کر لیا۔ جو گو کہ غیرقانونی تنظیم ہے، مگر اس کے چند اراکین بطور آزاد امیدوار میدان میں ہیں۔ جماعت اسلامی نے آخری بار ۱۹۸۷ء میں الیکشن لڑا تھا، اور عسکری جدوجہد شروع ہوتے ہی انتخابات کا بائیکاٹ کرتی آرہی ہے۔حیرت کی بات ہے کہ عمر عبد اللہ سمیت روایتی پارٹیوں نے انجینئر رشید کو بی جے پی کی پراکسی قرار دیا ہے، جو ان کے ووٹ کاٹنے کی سعی کر رہا ہے۔ مگر سوال ہے کہ آخر عمر عبداللہ نے ۲۰۱۹ء میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بحال کرنے کے لیے بنائے گئے اتحاد سے کیوں کنارہ کشی کی؟ اور پھر جو ایجنڈا لےکر انجینئر رشید میدان میں آئے ہیں، اس کو اپنانے میں عمر عبداللہ کو کیا چیز روک رہی ہے؟
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا انتخابات کے بعد کشمیر میں خصوصاً پچھلے پانچ سال سے چھائی سیاسی گھٹن کو کم کیا جاسکتا ہے؟ کیا عام کشمیری کو اس گھٹن سے نجات ملے گی، یا پھر یہ چند سانسیں لینے کی ہی آزادی ہوگی؟
’خوراک کے حق‘ سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ مائیکل فخری نے اپنی حالیہ رپورٹ میں اسرائیل کو قصوروار ٹھہرایا ہے کہ اس کی جانب سے بھوک اور قحط کو فلسطینیوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے، تا کہ ان کو مٹا کر فلسطینی زمین پر قبضہ کیا جاسکے‘‘۔ یہ دستاویز ثابت کرتی ہے کہ صہیونی ریاست، فلسطینیوں کی نسل کشی پر کمربستہ ہے اور عالمی استعماری طاقتیں اس جرم میں اسرائیل کی پوری طرح پشت پناہ ہیں، جس کی مثال دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا نے نہیں دیکھی۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی جانے والی اس ہوش ربا رپورٹ کے مطابق: ’’اسرائیل کی جانب سے یہ سوچی سمجھی مہم چلائی جا رہی ہے کہ غزہ کی ۲۳لاکھ آبادی اور مغربی کنارے میں آباد فلسطینیوں کو بھوکا پیاسا رکھ کر قتل کر دیا جائے‘‘ ۔
مائیکل فخری کے مطابق: ’’اسرائیل نے غزہ کے ہر شہری کو بھوکوں مارنے کا اپنا منصوبہ چھپانے کی کوشش بھی نہیں کی۔ سب کے سامنے اس منصوبے پر عملدرآمد ہوا اور پورے غزہ میں قحط کی سی صورت حال پیدا کی گئی۔ جغرافیائی طور پر قحط کے پھیلاؤ اور اسرائیلی ذمہ داروں کے بیانات کو ملا کر دیکھا جائے تو اسرائیلی عزائم بالکل واضح ہو جاتے ہیں۔ سب سے پہلے پورے غزہ کا محاصرہ کیا گیا جس نے یہاں تمام فلسطینیوں کو کمزور کیا۔ اس کے بعد شمال کے لوگوں پر قحط مسلط کیا گیا تا کہ انھیں نقصان پہنچایا جائے، جان سے مار دیا جائے یا جنوب کی طرف نقل مکانی پر مجبور کردیا جائے۔ نتیجتاً جنوب میں جو مہاجر کیمپ بنے وہاں لوگوں کو بھوکا رکھ کر یا بمباری کے ذریعے قتل کیا گیا‘‘۔
فخری کا کہنا تھا کہ ’’غزہ میں جتنے لوگ بھوک ، غذائی قلت اور بیماری سے مر رہے ہیں اتنے گولہ بارود سے بھی نہیں مر رہے۔‘‘ اس بیان کی تائید جولائی میں ’دی لینسٹ‘ (The Lancet) میں مطبوعہ اعداد وشمار سے بھی ہوتی ہے، جس کے مطابق اسرائیلی حملے میں اب تک ایک لاکھ ۸۶ ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ یہ تعداد فلسطینی اعداد و شمار یعنی ۴۱ہزار سے کہیں زیادہ ہے۔
نازی جرمنی کے ہاتھوں یورپی یہودیوں کی نسل کشی کے ردعمل میں ۱۹۴۸ء کے منظور شدہ کنونشن برائے انسداد نسل کشی کا حوالہ دیتے ہوئے یہ رپورٹ کہتی ہے:’’نمائندہ خصوصی اس بات کو واضح کرنا چاہتا ہے کہ کس طرح اسرائیل نے قحط کو فلسطینی شہریوں کی کلّی یا جزوی تباہی کے لیے استعمال کیا ہے۔اول، انھیں سنگین جسمانی اور ذہنی ایذاء پہنچا کر۔دوئم، فلسطینیوں کے لیے سوچےسمجھے طریقے سے ایسے حالاتِ زندگی پیدا کر کے جو بالآخر ان کی مکمل یا جزوی تباہی کا باعث بنیں گے‘‘۔
اس رپورٹ میں شریکِ جرم قوتوں کا ذکر ہے: ’’بیرونی ریاستیں اور کمپنیاں عمومی طور پر قحط مسلط کرنے والوں کا ساتھ دیتی ہیں۔ مثلاً یہ بیرونی استعماری ریاستیں اور کمپنیاں نہ صرف غزہ میں قحط اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے اسرائیل کو غیر قانونی طور پر اسلحہ فراہم کر رہی ہیں بلکہ فلسطین میں پانی اور خوراک کے نظام کی تباہی اور فلسطینی زمینوں پر اسرائیلی قبضے میں یہ کمپنیاں معاونت کر رہی ہیں‘‘۔
ان جنگی جرائم کے لیے امریکا اور اس کے یورپی اتحادی ممالک کی سیاسی قیادت کو بھی نیتن یاہو کے ساتھ کٹہرے میں کھڑا کرنا ضروری ہے۔ فخری کے مطابق: ’’۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء سے پہلے غزہ کی تقریباً آدھی آبادی غذائی قلت کا شکار تھی اور ۸۰ فی صد سے زیادہ لوگوں کا گزارہ بیرونی امداد پر تھا۔ اس افلاس میں اسرائیلی محاصرے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔اسرائیل کی جانب سے باربار دیے جانے والے غیر انسانی بیانات اور غزہ کی مکمل تباہی کی خواہش نے یہاں قحط مسلط کرنے کی اسرائیلی کوششوں پر مشتمل فردِ جرم میں درکار دونوں شرائط یعنی ’جرم کی نیت‘ اور ’جرم کا ارتکاب‘ پوری کر دی ہیں۔ چنانچہ کنونشن برائے انسداد نسل کشی ۱۹۴۸ء کے مطابق دیگر ریاستیں انسانیت کے خلاف اس جرم کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں‘‘۔
تاہم، واشنگٹن اور اس کے یورپی اتحادی نہ صرف ذمہ داری سے مفرور ہیں بلکہ انھوں نے اسرائیل کو مہلک ہتھیاروں کی فراہمی مزید تیز رکھی۔ اندرون ملک اس نسل کشی کی مخالفت اور استعماری قوتوں کی شمولیت کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو ریاستی سطح پر جبر کا نشانہ بنایا گیا اور ہر طرح سے ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی۔
امریکی اور یورپی، فخری کی رپورٹ پر دم بخود ہیں۔ ہر طرف پھیلی بھوک، مہلک بیماریوں اور علاج معالجے کی ناپید سہولیات کا ذکر اگر ہوتا بھی ہے تو یوں کہ فلسطینیوں کو یہ عظیم بحران اس لیے درپیش ہے کہ اسرائیل، حماس کے خلاف ’اپنے دفاع‘ کی جنگ لڑرہا ہے۔
یہ رپورٹ اس لغو موقف کو بھی رَد کرتی ہے :’’آج دنیا میں انسانی آبادی کی ضرورت سے ڈیڑھ گنا زیادہ خوراک پیدا ہوتی ہے، لیکن پھر بھی قحط، غذائی قلت اور بھوک میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بھوک اور قحط کبھی خوراک کی قلت سے جنم نہیں لیتے، بلکہ خوراک تک رسائی میں رکاوٹ بننے والے عوامل ان کا سبب بنتے ہیں۔ اکثر قحط جنگ، معاشی اُتار یا خشک سالی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ لیکن یہ تمام عوامل دراصل ظلم اور ناانصافی پر مبنی سماجی نظام سے جنم لیتے ہیں۔ چنانچہ طاقت کے ارتکاز اور غذائی نظام میں احتسابی عمل کی غیر موجودگی سے قحط کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ چنانچہ قحط کو ہمیشہ ایک خود غرضی پر مبنی سیاسی مسئلہ سمجھنا چاہیے۔
اسرائیل اور استعماری اتحادیوں کی جانب سے غزہ میں قحط کا باعث بننے والے ’اقدامات‘ دوسری جنگ عظیم میں نازیوں کے جرائم سے مشابہ ہیں جن میں باقاعدہ منصوبے کے تحت جرمنوں کے لیے سوویت شہریوں سے خوراک چھینی جاتی تھی، تا کہ بڑی تعداد میں سوویت آبادی کو ختم کرکے مشرق میں اپنے لیے وہ زمین حاصل کی جا سکے، جو جرمن قوم کی ’ترقی‘ کے لیے ضروری ہے۔ نازی جنگ کا نشانہ بننے والے۲کروڑ ۷۰ لاکھ سوویت شہریوں کی ہلاکت میں اس منصوبے کا بھی بڑا حصہ ہے۔
آٹھ عشروں بعد صہیونی ’عظیم اسرائیل‘ کے لیے غزہ میں فلسطینیوں کے ساتھ یہی سلوک کررہے ہیں۔ استعماری قوتیں اس قتل عام میں شریک ہیں۔ واشنگٹن، برلن، پیرس اور لندن کی جانب سے اپنے معاشی اور جیو اسٹرے ٹیجک مفادات کے تحفظ کے لیے مسلط کی جانے والی اس جنگ میں غزہ صرف ایک محاذ کا نام ہے۔ یہ ممالک اس جنگ میں ’مقصد‘ پانے کے لیے کسی بھی حد تک گرنے کو تیار ہیں۔
اگر آپ بوسنیا کو نہیں سمجھتے تو آپ غزہ کو بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اس لیے مسلمان پہلے بوسنیا کو سمجھیں، تاکہ غزہ کو سمجھ سکیں۔ لہٰذا غزہ کو اچھی طرح سے سمجھنے کے لیے مکمل مضمون پڑھیں۔
غزہ اور فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر حیران نہ ہوں۔ بوسنیا کے مسلمانوں کے خلاف سربوں نے جو تباہی کی جنگ چھیڑی، اس میں ۳۰۰ ہزار مسلمان شہید ہوئے۔ ۶۰ ہزار عورتوں اور بچیوں کی عصمت دری کی گئی۔ ڈیڑھ لاکھ لاوارث ہوئے ۔ کیا ہم اس المیے کا کبھی ذکر کرتے ہیںیا ہم بھول گئے ہیں… یا آپ اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے!! سی این این کی کرسٹیانا امان پور بوسنیا کی سالگرہ پر تبصرہ کرتی ہیں:
مسلمانوں کا قتل عام، محاصرہ اور فاقہ کشی مگر یورپ نے مداخلت کرنے سے انکار کر دیا۔ ہولوکاسٹ تقریباً چار سال تک جاری رہا، جس کے دوران سربوں نے ۸۰۰سے زائد مساجد کو مسمار کر دیا، جن میں سے کچھ سولھویں صدی عیسوی کی تعمیرشدہ تھیں۔ سربوں نے سرائیوو کی تاریخی لائبریری کو جلا دیا۔ اقوام متحدہ نے مداخلت کی اور اسلامی شہروں جیسے کہ گورجدا، سریبرینیکا، زیبا کے داخلی راستوں پر دو دروازے لگا دیے، لیکن وہ محاصرے اور آگ کی زد میں تھے۔ سربوں نے ہزاروں مسلمانوں کو حراستی کیمپوں میں ڈالا، ان پر تشدد کیا، انھیں بھوکا مارا، یہاں تک کہ وہ ہڈیوں کا ڈھانچا اور بہت سی بیماریوں کا شکار ہوکر رہ گئے۔ جب سربیا کے ایک رہنما نے پوچھا: 'کیوں یہ ظلم کرتے ہو؟ تو اس نے جواب میں کہا: وہ سور کا گوشت نہیں کھاتے۔ برطانوی اخبار دی گارڈین نے بوسنیا کے قتل عام کے دنوں میں ایک پورے صفحے کا نقشہ شائع کیا۔ جس میں عصمت دری کے مقامات دکھائے گئے تھے۔
مسلمان خواتین کے ساتھ سربوں نے ۱۷ بڑے کیمپوں میں جو کچھ کیا، اس کے ذکر سے قلم لرزتا ہے۔ _سربوں نے چھوٹی چھوٹی بچیوں تک کی عصمت دری کی۔ دی گارڈین نے ایک بچی کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی جس کا عنوان تھا: ’’وہ بچی جس کا قصور یہ ہے کہ وہ مسلمان ہے‘‘۔ قصائی ملادک نے زیبا کے مسلمانوں کے لیڈر کو میٹنگ میں بلایا۔ اس نے اسے سگریٹ دیا، اس کے ساتھ تھوڑا ہنسا، پھر اس پر جھپٹا اور اسے ذبح کر دیا۔ لیکن سب سے مشہور جرم تو سریبرینیکا کا محاصرہ تھا۔ عالمی فوج کے سپاہی سربوں کے ساتھ جشن منا رہے تھے، رقص کر رہے تھے۔ کچھ مسلمان ان کے ساتھ مل کر کھانے کے لیے سودے بازی کر رہے تھے۔ _سربوں نے سریبرینیکا کا محاصرہ کر لیا۔ دو سال تک گولہ باری ایک لمحے کے لیے بھی نہیں رُکی۔ _سرب، اس قصبے میں پہنچنے والی امداد کا ایک اہم حصہ اُڑا رہے تھے۔ پھر مغرب نے اسے بھیڑیوں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا: سریبرینیکا کی حفاظت کرنے والی ڈچ بٹالین نے سازش کی۔ سربوں نے مسلمانوں پر دباؤ ڈالا کہ وہ حفاظت کے بدلے اپنے ہتھیار پھینک دیں۔مسلمان تھکن اور اذیت کے بعد دم توڑ رہے تھے۔
سربوں نے سریبرینیکا پر حملہ کیا، مردوں کو ان کی عورتوں سے الگ کر دیا۔ ۱۲۰۰ مرداور جوان الگ کیے، ان سب کو مار ڈالا۔ _سرب ایک مسلمان مرد کے اوپر کھڑا تھا اور اس کے چہرے پر سوراخ کر رہا تھا (نیوز ویک کی رپورٹ سے)۔ جہاں تک خواتین کا تعلق ہے، ان کی عزّت پر حملہ کیا گیا اور کچھ کو جلاکر ہلاک کر دیا گیا۔ یہ قتل عام سریبرینیکا میں کئی دن تک جاری رہا۔ یہ جولائی ۱۹۹۵ء کا آخر تھا۔ یہ ہمارے بھائیوں کے خاتمے کی جنگ کا آخری باب تھا۔ ایک ماں نے سرب کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا، وہ اس سے التجا کرتی ہے کہ اس کے بچے کو ذبح نہ کرے ، اور اس نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا ، اور پھر اس کی آنکھوں کے سامنے اس بچّے کی گردن کاٹ ڈالی۔ قتل عام ہرجگہ ہم دیکھ سکتے تھے۔ سریبرینیکا کے ذبح خانے کے بعد قصاب راڈووان کاراڈزک شہر کو فتح کرتا اور اعلان کرتا ہوا شہر میں داخل ہوا: ’’سریبرینیکا ہمیشہ سے سربیا رہا ہے اور اب واپس آگیا ہے‘‘۔ پھر سرب ہتھیاروں سے مسلح، مسلمان عورتوں کی عصمت دری کر رہے تھے۔ انھوں نے ان کو ۹ماہ تک بند رکھا جب تک کہ وہ ناجائز بچوں کو جنم نہ دے لیں۔ ایک سرب نے ایک مغربی اخبار کو بتایا: ’’ہم چاہتے ہیں کہ مسلمان خواتین سربیا کے بچوں (سربیائی بچوں) کو جنم دیں۔ یاد رکھیں بوسنیا، سرائیوو، بنجا لوکا، سریبرینیکا اور بلقان کو ہم نہیں بھولیں گے۔
بوسنیا میں قتل عام کے دوران، ایک فرانسیسی اخبار نے لکھا: بوسنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی تفصیلات سے یہ بات واضح ہے کہ صرف مسلمانوں کی ثقافت خوب صورت اور مہذب ہے۔ پرانے آرتھوڈوکس (بطرس غالی) کے عہدے، جو اس وقت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل تھے، انھوں نے کھل کر اپنے ساتھی سربوں کا ساتھ دیا۔ یہاں پر یہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ سرب مذہبی اسکالر ایک قدم آگے بڑھ کر مساجد کے اماموں، دانشوروں، تاجروں کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ وہ کہتے تھے: انھیں باندھ کر ذبح کر کے پھینک دیں گے۔ انھیں دریا میں ڈال دیں گے۔ اگر سرب کسی قصبے میں داخل ہوتے تو اس کی مسجد کو گرانا شروع کر دیتے۔
ایک برطانوی اخبار نے بوسنیا میں مسلمانوں کی نسل کشی کو اس جملے کے ساتھ بیان کیا: ’’بیسویں صدی میں یہ جنگ قرون وسطیٰ کے انداز میں چھیڑی گئی ہے..! میں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہم اس ظلم کو بھول نہ جائیں، اور آنے والی نسلوں کو بھی یاد دلاتے رہیں۔ یہ پیغام ان لوگوں کے لیے ہے جو مغربی تہذیب اور جعلی انسانی حقوق سے مرعوب ہیں۔ تاریخ کی کہانیاں بچوں کو سونے کے لیے نہیں سنائی جاتیں، بلکہ یہ جگانے کے لیے سنائی جاتی ہیں۔
بھارتی فوج کے ایک سابق سربراہ جنرل سندر راجن پدمانابھن نے ۲۰۰۴ء میں دہلی میں اپنے ایک ناول کا اجراء کیا تھا۔ یہ ناولWritiing on the Wall پاکستان کے ساتھ ایک خیالی جنگ پر مبنی ہے، جس میں فوجیوں اور ٹینکوں کے بجائے سائنس دانوں کے ذریعے مصنوعی ذہانت اور پوشیدہ ہتھیاروں کا استعمال کرکے مواصلاتی نظام میں خلل ڈال کر بھارت یہ جنگ جیت جاتا ہے۔ ناول کے اجرا ء کے وقت ان سے پوچھا گیا کہ ’’کیا اس طرح کے ہتھیار وجود میں آچکے ہیں‘‘؟ تو انھوں نے وضاحت کی کہ’’ یہ مصنف کا تخیل ہے، اس کو فوج کی تیاریوں کے ساتھ نہ جوڑا جائے‘‘۔
اسرائیلی سائنس دانوں کا ایک وفد ایک بار دہلی میں تھا، جہاں سفارت خانے نے چند صحافیوں کے ساتھ ان کی نشست رکھی تھی۔ بات چیت کے دوران وفد میں شامل ان میں ایک سائنس دان نے کہا کہ ’’جب بھی مارکیٹ میں کوئی سائنس فکشن آتا ہے، تو ان کا محکمہ اس کو نہایت سنجیدگی کے ساتھ لیتا ہے اور معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کیا مصنف کے تخیل کو حقیقت میں ڈھالا جاسکتا ہے؟‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ’’سائنس دانوں کو سائنس فکشن لکھنے والے مصنّفین رچرڈ مورگن، السٹر ری نالڈس، (جن کے ناولوں کا مرکزی مو ضوع تھیوریٹیکل فزکس ہوتا ہے) اور اَن گنت دیگر مصنّفین کی نگارشات کو پڑھنے کی نہ صرف ترغیب دی جاتی ہے، بلکہ یہ بھی رپورٹ کرنا پڑتا ہے کہ کیا اس کو عملی رُوپ دیا جاسکتا ہے؟‘‘ یعنی ان اسرائیلی سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ ’’ہم جاسوسی تھرلرز کو بھی سنجیدگی سے لیتے ہیں‘‘۔
جنرل پدمانابھن کا تخیل اور اسرائیلی سائنس دانوں کے یہ دعوے اس وقت واقعی حقیقت میںتبدیل ہو گئے، جب لبنا ن کے طول و عرض سے خبریںآنا شروع ہوئیں کہ حزب اللہ کے مواصلاتی آلات ’پیجر‘ اور پھر بعد میں ’واکی ٹاکی‘ میں پے در پے دھماکے ہو رہے ہیں، جن سے پچاس کے قریب افراد ہلاک اور تقریباً ۳ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ موبائل نیٹ ورک کے استعمال کو ترک کرتے ہوئے حزب اللہ نے پیجر نیٹ ورک کو محفوظ مواصلاتی ذریعہ سمجھا تھا، کیونکہ ان کو ہیک کرنے کا کم خطرہ رہتا ہے مگر یہ پیجر خود ہی بم بن گئے ۔
حال ہی میں، حزب اللہ کو پیجرز کی ایک نئی کھیپ موصول ہوئی تھی۔خبروں کے مطابق اسرائیلی ایجنٹو ں نے سمندری جہاز کے ذریعے جانے والی پیجرز کی کھیپ تک رسائی حاصل کی تھی اور بیٹری کے ساتھ ہی اس میں چند گرام بارود رکھ کر ان کو دوبارہ بالکل اسی طرح پیک کر کے ان کو اپنے نیٹ ورک کے ساتھ جوڑ دیا تھا۔ مگر ایک روز قبل حزب اللہ سے وابستہ کسی جنگجو کو دو پیجرز پر شک ہو گیا تھا، کہ ان کی پیکنگ کھولی گئی ہے۔ اس سے قبل کہ یہ تنظیم ان پیجرز پر مزید تحقیق کرکے ان کو کوڑے دان میں پھینک دیتی، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہونے آپریشن کی منظوری دے دی۔
فی الحال حزب اللہ کا محفوظ مواصلاتی نظام، جو حملوں کو مربوط کرنے اور جنگجوؤں کو متحرک کرنے کے لیے ضروری تھا، اس کی کمزوری بن گیا ہے جس کا اسرائیل نے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے۔ وہ نہ صرف بیروت بلکہ ملک کے دیگر علاقوں میں بمباری کر رہا ہے۔۲۴ستمبر کی دوپہر تک ۵۸۰ ؍افراد لبنان میں شہید ہوچکے ہیں، جن میں ۷۰ بچّے بھی شامل ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حزب اللہ جو کبھی نظم و ضبط اور ناقابل تسخیر کے طور پر دیکھی جاتی تھی، اسے ڈیجیٹل اشیا کے ذریعے ہی غیر محفوظ بنایا گیا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ میزائلوں اور جدید اسلحہ سے لیس انتہائی محفوظ فوج کو ڈیجیٹل دور میں ایک تباہ کن خطرے میں ڈالا جاسکتا ہے۔
اسرائیل کا یہ حملہ اس بات کی واضح مثال ہے کہ مستقبل کی جنگیں صرف بموں اور گولیوں سے نہیں بلکہ ڈیٹا، الگورتھم اور سائبر حکمت عملی سے لڑی جا سکتی ہیں۔ماہرین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ حملہ ۲۱ویں صدی میں جنگ کے حوالے سے ایک اہم لمحہ ہے۔سائبر حملے اکثر پوشیدہ ہوتے ہیں، جس میں کوئی نشان، کوئی ملبہ اورگولہ بارود نہیں چھوڑا جاتا ہے۔یہ حملے مواصلاتی نیٹ ورکس، پاور گرڈز، مالیاتی اداروں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اس سے یہ بھی سنگین اندازہ ہوتا ہے کہ ڈیجیٹل دور میں کس طرح روز مرہ استعمال کے آلات ہتھیار بن کر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلا سکتے ہیں۔
اسرائیل کے نیشنل سائبر ڈائریکٹوریٹ کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹرجنرل ریفیل فرانکو کے مطابق حزب اللہ کو اس شاک سے نکلنے میں کافی وقت لگے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اب ان کے جنگجو ہرپیجر اور موبائل فون کو شک کی نظر سے دیکھیں گے۔ اسرائیل نے فون اور دیگر آلات کو ہیک کرنے کی ٹکنالوجی کی خاطر خاصی سرمایہ کاری کی ہے۔ یعنی آپ کے گھر پر روبوٹک جھاڑو کو بھی ہیک کرکے اس کو آپ کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔ فرانکو کا کہنا ہے کہ: ’’اسرائیلی خفیہ تنظیم موساد نے حز ب اللہ کی سپلائی چین کا پتہ لگا لیا تھا کہ یہ پیجرز کسی شیل کمپنی سے خریدے گئے ہیں۔ ہم نے ہنگری میں بی اے سی کنسلٹنگ کا پتہ لگایا تھا جس نے ان پیجر ز کو سپلائی کرنے کا ٹھیکہ لیا تھا۔ ایران جلد ہی حزب اللہ کو جدید مواصلاتی آلات بھیجے گا،مگر اس نئے نظام کو فعال ہونے میں مہینوں نہیں تو ہفتوں لگیں گے‘‘۔ اس لیے پچھلے چند دنوں میں اسرائیل نے لبنان پر شدید بمباری کی ہے۔
اس سائبر وار سے قطع نظر ماضی میں بھی اسرائیلی ایجنٹوں نے ایسے کئی غیر روایتی حملوں سے مخالفین کو ٹھکانے لگایا ہے۔ اسرائیل کی ایجنسی شن بیٹ نے ۱۹۹۶ء میں غزہ میں حماس کے رکن یحییٰ عیاش کو مارنے کے لیے خفیہ طور پر دھماکا خیز مواد سے لیس موبائل فون ان کے پاس پہنچایا۔ جب فون ان تک پہنچ گیا تو انھی کی آواز پر اس کو ریموٹ سے دھماکا کرکے اُڑا دیا گیا۔
یاد رہے ۱۹۹۷ء میں حماس کے لیڈر خالد مشعل کو قتل کرنے کے لیے موساد کے دو خفیہ ایجنٹوں نے ان کی گردن پر زہر چھڑکا تھا، مگر یہ منصوبہ ناکام ہوگیا اور یہ دونوں ایجنٹ پکڑے گئے۔ حماس کو ہتھیارفراہم کرنے والے محمود المبحوح ۲۰۱۰ء میں دبئی کے ہوٹل کے کمرے میں مُردہ پائے گئے تھے۔ اماراتی حکام نے ابتدائی طور پر اسے قدرتی موت قرار دیا تھا ، مگر بعد کی تحقیقات میں موساد کی ایک ہٹ ٹیم کی سی سی ٹی وی فوٹیج سے پردہ فاش ہوا۔۲۰۱۰ء اور ۲۰۲۰ء کے درمیان، تقریباً نصف درجن ایرانی جوہری سائنس دان پُراسرار انداز سے ہلاک یا زخمی ہوئے۔ایران کے چیف جوہری سائنس دان محسن فخر زادہ کو ۲۰۲۰ء میں تہران کے مضافات میں ایک قافلے میں گاڑی چلاتے ہوئے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ کچھ ایرانی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے سیٹلائٹ سے کنٹرول کرنے والی سنائپر رائفل کا استعمال کیا۔ ایسا ہی عمل اسماعیل ہنیہ کے ساتھ برتا گیا۔
بنگلہ دیش میں ۵؍اگست کے ’طلبہ انقلاب‘ نے بنگلہ دیش پاکستان تعلقات کے معاملے کو دونوں ممالک کے درمیان بلندی پر پہنچا دیا ہے۔ یہ انقلاب اپنی نظریاتی، ملّی اور قومی بنیادوں پر بنگلہ دیش، پاکستان اور اُمت مسلمہ کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے۔ صرف پندرہ روز کے اندر اندر پورے بنگلہ دیش کے طول و عرض میں زبردست بیداری اور مزاحمت کے بہائو کا مشاہدہ کیا جائے، تو یہ حقیقت بہت نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے کہ یہ واقعہ خطے میں ہندوستانی بگٹٹ تسلط پسندی کو چیلنج کرنے کا عوامی اظہار ہے، جس کے پیچھے پڑھی لکھی نوجوان نسل پُرعزم کھڑی ہے۔
تاریخی اُمور کے ساتھ ساتھ یہاں پر چند اہم حالیہ واقعات و معاملات پیش ہیں:
ڈاکٹر شفیق الرحمان نے کہا: عوامی لیگ کی باقیات کی جانب سے واویلا ایک بے معنی اور فضول حرکت ہے۔ شیخ حسینہ نے ۱۵ برس کی فسطائی حکمرانی میں ملک، قوم، اداروں اور اپنی پارٹی عوامی لیگ کو برباد کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک سے فرار کے بعد ان کی پارٹی میں کوئی شخص ایسا نظر نہیں آتا جو پارٹی کو سنبھال سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوامی لیگ سرے سے کوئی سیاسی پارٹی نہیں ہے بلکہ مفاد پرستوں کا ایک ٹولہ ہے، جس کا جمہوریت اور انسانی حقوق کے احترام سے کوئی دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کے سرکردہ اور بزرگ رہنمائوں کو جھوٹے مقدموں میں ملوث کرکے، انصاف کا خون کیا گیا، پھانسیاں دی گئیں، کئی رہنمائوں کو قید کے دوران موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا، درجنوں کو لاپتا کردیا گیا اور ہزاروں کو قید رکھا گیا ہے۔ پھر غصے میں آکر جماعت پر کئی پابندیاں بھی عائد کردیں۔ بنگلہ دیش کے غیرت مند شہری، جماعت اسلامی کا احترام کرتے ہیں۔ ۱۵برس کے مسلسل جبر کے باوجود شیخ حسینہ حکومت، جماعت اسلامی کو تباہ نہیں کرسکی، جس پر ہم اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت پر اس مالک و خالق کے حضور سجدئہ شکر ادا کرتے ہیں۔(ایضاً)
ڈاکٹر شفیق الرحمان نے کہا: ’’عوامی لیگ کی انسانیت کش حکمرانی کے دوران اختلاف کرنے والے دانش وروں، وکیلوں اساتذہ اور صحافیوں کو غائب، قید اور قتل کرنے سے بھی اجتناب نہیں برتا گیا۔ افسوس کہ وکلا کے ایک طبقے نے عدل کے قتل میں قاتل حکومت کا مسلسل ساتھ دیا۔ حکومتی آلہ کاروں نے سارا پیسہ بیرونِ ملک اسمگل کیا اور اپنی بداعمالیوں کی سزا سے بچنے کے لیے لیگ کے لُوٹ مار کرنے والے ملک سے بھاگ گئے ہیں اور بھاگ رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس تحریک کے دوران شہید ہونے والے تمام نوجوان اور شہری قوم کے ہیرو ہیں۔ انھیں قوم ہی کی نسبت سے یاد رکھنا، خدمات کا اعتراف کرنا اور ان کے پسماندگان کی مدد کرنا ہوگی‘‘۔(ایضاً)
۲۲ستمبر کو بنگلہ دیش کے مشہور انگریزی روزنامہ ڈیلی اسٹار ،ڈھاکا نے، جو ایک آزاد خیال، سیکولر اور جماعت اسلامی کا مخالف اخبار ہے، اس نے ووٹرز کے سروے پر مبنی دل چسپ اعداد و شمار شائع کیے ہیں، جن کے مطابق: ’’عام طور پر یہی سمجھا جارہا تھا کہ فسطائی عوامی لیگ حکومت کے خاتمے کے بعد بیگم خالدہ ضیاء کی زیرقیادت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) بھاری اکثریت سے حکومت سنبھال لے گی، مگر حقائق کے مطابق شاید کرسیاں بدل گئی ہیں۔ ۲۹؍اگست سے ۸ستمبر۲۰۲۴ء کے درمیان رائے عامہ کے جائزے سے ووٹروں کے رجحان کا اندازہ سامنے آیا ہے: ۴۶ء۴۴ فی صد حصہ ’فیلڈ سے ۵۱۱۵؍ افراد کے سائنٹفک (sample) سروے پر مبنی ہے۔ ۳۴ فی صد نے کہا کہ آیندہ ’’رائے دہی کے لیے ہم غیریقینی صورتِ حال کا شکار ہیں کہ کس کو ووٹ دیں؟‘‘ جب کہ ۱۰ فی صد نے کہا کہ ’’ہم طلبہ کی قیادت میں سیاسی پارٹی کو ووٹ دیں گے‘‘۔ مگر جب بنگلہ دیش کے تمام ۶۴ اضلاع میں ’آن لائن‘ ۳۵۸۱؍ افراد پر مشتمل سائنٹفک سیمپل سروے کیا گیا تو اُن میں سے ۳۵ فی صد نے کہا: ’’ہم طلبہ کی زیرقیادت پارٹی کو ووٹ دیں گے‘‘ اور ۱۱فی صد نے کہا: ’’ہم فیصلہ نہیں کرسکے کہ کسے ووٹ دیں گے؟‘‘ یاد رہے ابھی تک طلبہ کی زیر قیادت یا اس سوچ کی نمایندہ سیاسی جماعت وجود میں نہیں آئی۔ اس طرح ’فیلڈ سروے‘ کے ۴۴ فی صد اور ’آن لائن‘ کے ۴۶ فی صد ووٹر غیرفیصلہ کن پوزیشن میں ہیں، جب ان سے پوچھا گیا: ’’آپ غیرفیصلہ کن کیوں ہیں؟‘‘ توزیادہ تر نے کہا: ’’ہم ممکنہ اُمیدواروں سے ناواقف ہیں، اور محض پارٹی نشان کو ووٹ نہیں دینا چاہتے‘‘۔
اس سروے کا دل چسپ پہلو ۱۹۹۷ء سے ۲۰۱۲ءکے درمیان پیدا ہونے والی ’زیڈ پود‘ اور اُن سے قبل پیدا ہونے والی ’بزرگ نسل‘ کا طبعی رجحان ہے۔ ’آن لائن‘ سروے میں ’زیڈ پود‘ کے ۳۷ فی صد نے، اور ’بزرگ نسل‘ نے ۳۰ فی صد تعداد میں طلبہ کی سیاسی پارٹی کی حمایت کی۔ دوسری طرف ’آن لائن‘ سروے کے مطابق:۱۹۵۵ء سے ۱۹۶۴ء کے درمیان پیدا ہونے والوں نے ۱۷ فی صد ، ۱۹۸۱ء سے ۱۹۹۶ء کے درمیان پیدا ہونے والوں نے ۲۴ فی صد اور ’زیڈ پود‘کے ۲۷ فی صد ووٹروں نے کہا کہ ’’ہم جماعت اسلامی کو ووٹ دیں گے‘‘۔ ان نتائج کو دیکھ کر ہر کوئی حیران ہے کہ بالکل نوخیز ’زیڈ پود‘ میں جماعت اسلامی کی اتنی پذیرائی کیونکر سامنے آرہی ہے؟ خواتین آبادی کا ۵۱ فی صد ہیں، ان کی آراء دیکھیں تو ان کی بڑی تعداد تاحال ’غیرفیصلہ کن‘ ہے، یا پھر طلبہ کی طرف جھکائو رکھتی ہے۔ دوسرا یہ کہ خواتین میں جماعت کی مقبولیت کا گراف کم تر ہے۔ ’فیلڈ سروے‘ میں خالدہ ضیاء پارٹی کو ۲۱ فی صد ووٹ ملے، جب کہ جماعت اسلامی کو ۱۴ فی صد۔ مگر ’آن لائن‘ سروے کے مطابق خالدہ ضیاء پارٹی کو ۱۰ فی صد اور جماعت اسلامی کو ۲۵ فی صد ووٹ ملے۔ بی این پی ’فیلڈ سروے‘ میں تمام ڈویژنوں میں آگے ہے، لیکن ’آن لائن‘ سروے میں تمام ڈویژنوں میں جماعت اسلامی آگے ہے۔ دونوں سروے میں بی این پی کو ’زیڈ پود‘ کے برعکس ’بزرگ نسل‘ میں برتری حاصل ہے، مگر نئی نسل میں اس کی مقبولیت کم ہے۔ عوامی لیگ کی پوزیشن یہ ہے کہ ’فیلڈ سروے‘ میں عوامی لیگ کو صرف ۵ فی صد اور ’آن لائن‘ میں ۱۰ فی صد ووٹروں کی حمایت حاصل ہوسکی ہے۔ عوامی لیگی حلقے جماعت اسلامی کی مقبولیت پر سخت بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔
تاریخ کے اوراق دیکھیں تو خطۂ بنگال سے جڑے چار بڑے موڑ سامنے آتے ہیں، جن کا تعلق پاکستان سے ہے: lپہلا یہ کہ ۱۹۰۵ء میں تقسیم بنگال ہوئی۔ اسے مسلم اکثریتی علاقے کو مذہبی پہچان کی بنیاد پر الگ وجود تسلیم کیا گیا (تاہم، ۱۹۱۱ء کو یہ تقسیم ہندوئوں کے دبائو سے واپس ہوگئی، مگر اس نے تقسیم کا نظریہ پیش کر دیا)۔ l دوسرا یہ کہ دسمبر ۱۹۰۶ء کو ڈھاکہ میں کُل مسلم لیگ قائم ہوئی، جس نے تحریک پاکستان کی قیادت کی۔ lتیسرا یہ کہ ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کی ’قرارداد لاہور‘ کو پیش کرنے کا اعزاز بنگال ہی کے رہنما اے کے فضل الحق (م: ۱۹۶۲ء)کو حاصل ہوا، lاور چوتھا یہ کہ ۶ تا ۹؍اپریل ۱۹۴۶ء کو ہونے والے مسلم لیگ لیجس لیچرز کنونشن دہلی میں، جو قائداعظم کی صدارت میں منعقد ہوا، وہاں پر بنگال ہی سے تعلق رکھنے والے حسین شہید سہروردی (م:۱۹۶۳ء) نے قرارداد پیش کی، جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔ اس میں لکھا ہے: ’قراردادِ لاہور‘ میں پاس کردہ لفظ ’states‘کو ’state‘ میں تبدیل کیا جاتا ہے۔
لفظ ’ریاستوں‘ کو ’ریاست‘ کر نا دُور اندیشی پر مبنی حکمت ِ کار تھی کیونکہ ہندوستان نے مسلم آبادی کے اس علاقے کو تین اطراف سے گھیر رکھا ہے۔ بالکل وہی صورتِ حال آج بھی برقرار ہے۔ انڈیا نے بنگلہ دیش میں ایک انتہائی بھارت نواز انتظامیہ قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی، لیکن حالیہ انقلاب سے بھارتی مذموم عزائم کو منہ کی کھانا پڑی ہے۔ بنگلہ دیش میں انقلابی قوتیں سفارتی حمایت کے لیے پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہیں، اور پاکستان اس انقلاب کو محفوظ بنانے اور جنوبی ایشیا میں انڈیا کی بالادستی اور دھونس کو کم کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ پاکستان اس انقلاب کی حمایت کے لیے یہ اقدامات کر سکتا ہے:
۱- پاکستان ’اسلامی کانفرنس تنظیم‘ (OIC) اور دیگر بین الاقوامی حکومتی پلیٹ فارموں کے ذریعے انقلاب کی حمایت کے لیے سابق سفارت کاروں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے۔
۲- یہ کمیٹی سارک (SAARC) کی تنظیم نو کے لیے بنگلہ دیش کی مدد کرے۔ یاد رہے کہ مالدیپ، نیپال اور سری لنکا،ہندوستان کے تسلط پسندانہ عزائم سے پریشان ہیں۔
۳- پاکستانی سیاست دانوں اور این جی اوز کو انقلاب کی حمایت کرنے پر اُبھارا جائے۔
۴- یہ کمیٹی بنگلہ دیشی صحافیوں اور میڈیا کے افراد سے باقاعدہ پیشہ ورانہ سطح پر معاونت لے، تاکہ پاکستانی عوام بنگلہ دیش میں تازہ ترین پیش رفت سے آگاہ ہوسکیں۔
۵- پاکستان، بنگلہ دیشی دانش وروں، صحافیوں، مصنّفوں، پروفیسروں اور اساتذہ اور طلبہ کو پاکستان آنے کی دعوت دے اور اسی مقصد کے لیے پاکستانی صحافیوں کو بنگلہ دیش بھیجے۔
۶- پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی و تحقیقی اداروں میں بنگلہ دیشی طلبہ اور تعلیمی عملے کے لیے اسی طرح کے تبادلے کے پروگرام تیار کیے جائیں۔
۷- پاکستانی تعلیمی اداروں کو بنگلہ دیشی طلبہ کے لیے اسکالرشپ پیش کرنے پر اُبھارا جائے۔
۸- سیاسی، معاشی، ثقافتی اور کھیلوں کے میدان میں وسعت لانے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر معاہدے کیے اور عمل درآمد کی صورت بنانی چاہیے۔
۹- بنگلہ دیش چیمبرز آف کامرس اور ڈھاکہ و چٹاگانگ کے ایوان ہائے صنعت و تجارت کے قائدین کو پاکستان آنے اور باہم سرمایہ کاری کی سہولت دی جانی چاہیے۔
۱۰- کراچی یونی ورسٹی اور پنجاب یونی ورسٹی میں بنگلہ زبان و ادب کے شعبے کھولے جائیں۔
۱۱- دونوں ملکوں میں ویزا کی نرمی پیدا کی جائے اور اشیاء کی ترسیل اور وصولی کے تیزرفتار نظام کو عملی شکل دی جائے۔ (مجوزہ سفارتی کمیٹی مزید اقدامات تجویز کرسکتی ہے)۔
بنگلہ دیش کے عوام کی اس اُمنگ کے جواب میں ،جو بھارتی تسلط سے چھٹکارا پانے کے لیے وہ ظاہر کرچکے ہیں، مثبت جواب دینا چاہیے۔ ہمیں خوف کی فضا سے باہر آنا چاہیے اور تاریخ کے اس موقعے کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے۔بنگالی نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں نے سروں پر کفن باندھ کر اس انقلاب کے دوران ہندوستان کو بنگلہ دیش سے باہر نکالنے کے لیے ایک ہزار سے زیادہ جانوں کی قربانی دی ہے۔ ہمیں اس کا پاس و لحاظ رکھنا چاہیے۔
ہندوستانی میڈیا، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS) اور خفیہ ایجنسیاں یہ موقف پھیلانے کی سرتوڑ کوشش کر رہی ہیں کہ ’’بنگلہ دیشی مسلمان انتہا پسندوں نے کچھ بین الاقوامی قوتو ںکے ساتھ مل کر ہندوستان کو بنگلہ دیش سے اُکھاڑ پھینکنے کی بڑی ’سازش‘ کی ہے‘‘۔ انھیں اس بات پر یقین ہی نہیں آرہا کہ غیرمعروف سے طالب علموں کی قیادت میں ایک ’مقامی کوٹہ تحریک‘ ایسا بلاخیز سیلاب بھی بن سکتی ہے، جو اُن کی گماشتہ ڈکٹیٹر اور اس کے حمایتی ہندوستان کو نشانہ بنا سکتی ہے۔ وہ اس بات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کر رہے کہ ہندو نسل پرست بھارتی دھونس نے بنگلہ دیش کی نئی نسل میں مسلم قومیت کی شناخت اور دفاع کے جذبے کو پروان چڑھایا ہے۔
انڈیا کی رہنمائی اور قیادت میں حسینہ واجد حکومت نے پاکستان کے خلاف شدید نفرت کی فصل کاشت کرنے کی خاطر ایک باقاعدہ وزارت قائم کی، جس نے پندرہ برس تک تعلیم، میڈیا اور صحافت میں پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈے کی انتہائوں کو چھوا، لیکن وہ سب مذموم پروپیگنڈا دھرے کا دھرا رہ گیا۔ انقلاب کے بعد ۶ستمبر ۲۰۲۴ء کو قائداعظمؒ کی برسی کے موقعے پر ڈھاکہ نیشنل پریس کلب میں بھرپور پروگرام ہوا۔ طلبہ تحریک کے مرکزی رہنما ناہید الاسلام کے اس جملےنے تاریخ کے ۵۴برس پلٹا کر ۱۹۷۱ء سے پہلے کے مشرقی پاکستان سے جوڑ دیا کہ ’’اگر پاکستان نہ بنتا تو آج بنگلہ دیش بھی وجود میں نہ آتا‘‘۔یہ چیز ایک مقبول رہنما کی زبان سے عام لوگوں کو حقیقت کا فہم دینے میں مددگار بنی ہے۔
تاریخ کا یہ عجیب معاملہ ہے کہ ایک طرف تو بنگلہ دیش کی حکومتوں نے پاکستان کے بارے میں جھوٹے، خودساختہ بلکہ بیہودہ موقف کو نئی نسل کے ذہنوں میں اُنڈیلا، تو دوسری طرف پاکستان میں حکام نے مشرقی پاکستان اور بنگالیوں کے ساتھ اپنی چوبیس سالہ رفاقت کو فراموش کرنے، بنگال کے سرفروشوں کے ساتھ وابستگی کی پوری تاریخ کو مٹانے کی دانستہ اور جاہلانہ کوششیں کیں۔
۱۹۷۱ء میں تقسیمِ پاکستان کے المیے نے خود پاکستانی حکومتوں اور اداروں کے شعور کی دُنیا کو بُری طرح عدم توازن کی نذر کر دیا۔ تاہم، پاکستان کے جوہری پروگرام کی کامیابی نے پاکستان کو مستقبل میں ممکنہ جارحیت سے بچانے میں مدد دی ہے۔ بنگالی دانش ور، پاکستان کی تقلید اور پاکستان کے ساتھ تعاون کی ضرورت کے بارے میں بڑی اُمید کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کو اپنی ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے بھرپور طریقے سے قدم آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
اس صورت حال کا نہایت خطرناک پہلو یہ ہے کہ انڈیا کی حکومت اور خفیہ ایجنسیاں بنگلہ دیش میں مسلسل بدامنی کو ہوا دے رہی ہیں۔ حالات و واقعات سے ظاہر ہے کہ خود ہندوئوں کی املاک پر متعدد حملوں اور عوامی لیگیوں کے چند مقامات پر ہجومی قتل کے پیچھے بھی انڈیا کی یہ حکمت عملی کارفرما ہے کہ اس طرح عبوری حکومت بدنام ہو اور عوامی لیگ ہمدردی حاصل کرسکے۔ ان چیزوں پر میڈیا کو بہت محتاط رویہ اپنانا چاہیے۔
ماضی میں اسرائیل نے ہمیشہ مختصر اور فیصلہ کن جنگیں اسرائیل میں نہیں بلکہ اپنے اردگرد محصور عرب سرزمین پر لڑی ہیں۔ آخری بار ۱۹۷۳ء کی جنگ میں عرب اتحادی فوج کو شکست دینے کے بعد سے، اسرائیل نے کبھی اپنے خلاف مؤثر عرب اتحاد کی تشکیل کی اجازت نہیں دی۔ نتیجہ یہ کہ اسے کبھی مشترکہ عرب اتحاد کی طاقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، جس سے اسے متعدد محاذوں پر جنگ کا خطرہ ہو۔
۱۹۷۳ءمیں عرب اتحادی فوج کو شکست دینے کے کئی عشروں بعد، اسرائیل آج نہ صرف غیر ریاستی عناصر اور گروہوں سے بلکہ ’مزاحمت کا محور‘ (حماس) سے نبرد آزما ہے۔ اس بار اسرائیل ایک طویل جنگ لڑ رہا ہے جس کا کوئی خاتمہ نظر نہیں آتا۔ غزہ میں یہ زمینی اور فضائی کارروائیاں کررہا ہے، اور لبنان میں حزب اللہ کی طرف سے شمالی سرحد پر لاحق خطرہ بھی جنگ میں ڈھل چکا ہے۔ مغربی کنارے کی کارروائیاں بھی اسرائیلی فوجیوں کو وہاں اُلجھاتی رہتی ہیں۔بیرونی طور پر شام سے آنے والے پراکسی گروپوں کا خطرہ اور ایران کے ہوائی حملوں یا یمن سے حوثیوں کی طرف سے بحیرۂ احمر میں فوجی کارروائیوں نے اسرائیل اور اس کی حلیف خلیجی ریاستوں کے مفادات سمیت اس جنگ کو بہت پیچیدہ بنادیا ہے۔
یہ پہلی بار ہے کہ اسرائیل نے اپنی سرزمین کے اندر جنگ شروع کی ہے۔ پھر وہ مختصر اور فیصلہ کن نہیں بلکہ ایک طویل جنگ لڑ رہا ہے، اور اسے متعدد خطرات کا سامنا ہے۔ اسے ایسے سیکورٹی مخمصے کا سامنا ۱۹۷۳ء میں عرب اتحاد کے خلاف جنگ کے بعد سے نہیں ہوا تھا۔
اس جنگ کی مہلک خامیاں سیاسی اور قانونی دائرے میں ہیں۔ اسرائیل جتنا زیادہ طویل فوجی جدوجہد میں اُلجھتا جائے گا، اس کے سیاسی اور قانونی مسائل میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ واضح سیاسی ہدف کے بغیر، کوئی بھی عسکری حکمت عملی اپنی اہمیت کھودیتی ہے۔ بلاشبہہ جنگ ایک سیاسی عمل ہے۔ چونکہ طاقت کا استعمال سیاسی ہے، اس لیے اسرائیلی سیاست دانوں کو جس چیز پر غورکرنے کی ضرورت ہے، وہ صرف ذرائع نہیں بلکہ انجام بھی ہے۔ غزہ کی جنگ میں سیاست کس طرح اپنا کردار ادا کر رہی ہے؟ کیا اسرائیل کی سیاسی حکمت عملی صرف غزہ میں حماس کو شکست دینے تک محدود ہے؟ کیا فوجی جبر کی یہ حکمت عملی عالمی اثرات پیدا نہیں کر رہی؟ کیا غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائی پوری دنیا کو نقصان نہیں پہنچا رہی، جیسا کہ عالم گیریت کی دنیا میں تمام ریاستوں کی معیشتیں ایک دوسرے پر منحصر ہیں؟
اس جنگ میں اسرائیلی حکمت عملی سے پوری دنیا کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ابھی تک ایسا لگتا ہے کہ سیاسی مقصد صرف حماس کی عسکری قوت کا خاتمہ اور پناہ گزینوں کی واپسی نہیں ہے، بلکہ ایک وسیع تر ایجنڈے پر عمل کرنا ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ دنیا اس جنگ کے لیے اسرائیل کے حقیقی مقاصد کے بارے میں اندازہ لگانے میں ناکام ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ اسرائیل کا یہ رویہ خطے میں وسیع تر تنازعے کا باعث بن سکتا ہے۔ اسرائیل کا اندازہ ہے کہ حماس کے ۳۰ ہزار جنگجو ہیں اور اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے ان میں سے تقریباً ۱۸ ہزار کو مار دیا ہے۔ اس میں جو بات واضح نہیں کی گئی وہ یہ ہے کہ حماس نے اس اسرائیلی ظلم و سفاکیت کے خلاف لڑنے کے لیے مزید کتنے لوگوں کو بھرتی کیا ہے؟ سیاسی طور پر اسرائیل کو عالمی تنہائی کا سامنا ہے اور قانونی طور پر اس کے اقدامات کو عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں چیلنج کیا گیا ہے، جس نے وزیراعظم نیتن یاہو کو جنگی مجرم قرار دیا ہے۔ دنیا نے غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے جواز کو چیلنج کیا ہے اور اسرائیلی مسلح افواج کے پاؤں کے نیچے سے قانونی جواز کا قالین کھینچ لیا ہے۔ جنگ کو ختم کرنے کے واضح سیاسی ہدف کے بغیر اسرائیل اپنی معیشت، معاشرے، فوج اور سب سے بڑھ کر ایک قومی ریاست کے طور پر اپنی ساکھ کی بھاری قیمت چکا رہا ہے۔
غزہ میں اسرائیل کی جنگ کے بارے میں سیکیورٹی کے بڑھتے ہوئے کچھ مفروضوں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے:
حماس کی جگہ فلسطینی حکومت کا قیام، لبنان میں حزب اللہ کے خطرے سے نمٹنا، ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنا، اور یمن میں حوثیوں کے خطرے سے نمٹنا___ وہ تمام چیلنجز ہیں، جن کا اسرائیل کو اس کثیر محاذ جنگ میں سامنا ہے۔
۱۳ جولائی ۲۰۲۴ء سے شروع ہونے والی طلبہ تحریک کی لہر نے اتحاد، جرأت، عزم، قربانی اور ثابت قدمی سے بنگلہ نسل پرستی کے اُس بُت کو پاش پاش کردیا، جس کی تعمیر کے لیے جھوٹ، تشدد اور عالمی استعمار نے شکنجہ کَس رکھا تھا۔ اس تحریک کا ہراوّل دستہ طلبہ تھے، اور اُن میں طالبات سبقت لے گئیں۔ بہت سی طالبات پولیس کی گولیوں اور عوامی لیگی غنڈوں کے تشدد کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔
یاد رہے ۱۹۷۲ء میں حسینہ واجد کے والد مجیب الرحمان نے بھی جماعت اسلامی پر پابندی عائد کی تھی، جو ۱۹۷۶ء تک برقرار رہی۔ اسی روایت پر عمل کرتے ہوئے عوامی لیگ نے ۲۰۱۳ء میں جماعت پر ہرقسم کے الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی لگائی، اور اب بدحواس ہوکر یکم اگست کو بنگلہ دیشی ڈکٹیٹر نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش، اور اسلامی جمعیت طلبہ [اسلامی چھاترو شبر] پر پابندی عائد کردی۔ اس سے قبل ۱۳جولائی سے جماعت اور جمعیت کے کارکنوں کو گھروں سے اُٹھانے، تشدد کا نشانہ بنانے، ’انسانی باڑوں‘میں پھینکنے، اور ان کے گھروں کو روندنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا۔ ۱۴جولائی کی رات یعنی ۲۴گھنٹوں میں ان دو تنظیموں کے اٹھارہ سو کارکنوں کو آزاد زندگی سے محروم کردیا گیا تھا، اور اگلے صرف بیس روز کے دوران جماعت اور جمعیت کے دس ہزار سے زائد کارکنوں کو قید اور ۲لاکھ کو جعلی مقدمات میں نامزد کیا گیا۔ عوامی لیگی غنڈے اور پولیس اہل کار دندناتے ہوئے آتے اور گھر میں بچوں، عورتوں کو گالیاں بکتے ہوئے، ان کے جوانوں کو پکڑ کر لے جاتے۔
دوسری طرف ہاسٹلوں، کلاس روموں، کالجوں، اسکولوں اور یونی ورسٹیوں میں انقلابی شعلے جوالا بن چکے تھے۔ اُن میں بڑی تعداد ان نوخیز نوجوانوں کی تھی، جنھوں نے اکیسویں صدی میں آنکھ کھولی تھی، مگر چاروں طرف اندھیر نگری دیکھی تھی، جس کی چوپٹ رانی خون کی پیاسی اور کرپشن کی دیوی تھی، جس کی آنکھوں سے نفرت کے شعلے لپکتے تھے اور زبان سے نفرت کے کانٹے جھڑتے تھے۔ یہ وہ نوجوان تھے، جنھیں پرائمری کے قاعدے سے لے کر بی ایس تک صرف ایک بات پڑھائی، سنائی اور ذہن میں بٹھائی گئی تھی کہ ’’پاکستان دُنیا کا بدترین ملک ہے اور جماعت دُنیا کی ناپسندیدہ ترین پارٹی ہے‘‘۔ اس کے باوجود احتجاج کرتے ان نوجوانوں نے جماعت اسلامی کی رفاقت کو خوش آمدید کہا۔ ان لاکھوں طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد پارٹی عصبیتوں سے بالاتر، اور اپنی قوم کے مستقبل کو محفوظ بنانے کی اُمنگ سے وابستہ تھی۔ بلاشبہہ ان احتجاجی انقلابیوں میں اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن پوری قوت کے ساتھ شامل تھے،مگر نوجوانوں کا یہ اُبھار جمعیت کے پھیلائو سے کہیں زیادہ وسعت رکھتا تھا۔
جوان جذبوں کے سیلاب کی طرح اُمڈتی اور بپھری اس تحریک کی میدانِ عمل میں موجود قیادت کے کوئی گہرے تنظیمی آثار حکومت کو نظر نہیں آرہے تھے، اس لیے حسینہ حکومت نے اس پورے اُبھار کو جمعیت کی ذمہ داری قرار دے کر، منفی پروپیگنڈے کا ایک گھنائونا طوفان اُٹھادیا۔ ان کا خیال تھا کہ طوفان تھم جائے، تو چُن چُن کر جماعت کے حامیوں کو نشانہ بنانے کا جواز فراہم کیا جائے گا۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ انڈیا سے ’را‘ اور برہمنی نسل پرست ’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ (RSS) کی پشت پناہی میں چلنے والے سوشل میڈیا اکائونٹس اور ویڈیو چینلوں نے بھی اپنی توپوں کا رُخ جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کی طرف موڑ دیا کہ ’’یہ ایک جمہوری حکومت کو گرانا اور بنگلہ دیش کی قومی ترقی کو دفن کرنا چاہتے ہیں‘‘۔مگر زمینی حقائق بالکل مختلف تصویر پیش کررہے تھے۔ جن کے مطابق یہ تحریک ہر گھر کی تحریک تھی اور ہر پڑھے لکھے طلبہ و طالبات کی تحریک تھی، جنھوں نے آمریت، لاقانونیت اور بدعنوانی کے سوا کچھ اور اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھا ہی نہیں تھا۔
ظلم بڑھتا گیا۔ روزانہ شہروں اورقصبوں میں مظاہرین کی لاشیں گرائی جاتی رہیں۔ حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق بیس روز میں اٹھارہ سو افراد کو قتل کردیا گیا، جب کہ مظاہرین اس سے کہیں زیادہ جانوں کے ضائع ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ اس بات سے اندازہ لگایا جائے کہ ۴؍اگست کو صرف ایک روز میں ڈھاکہ کے ۱۳۴ طلبہ و طالبات کو پولیس، عوامی لیگیوں اور کچھ بنگلہ دیشی فوجیوں نے گولیوں سے اُڑا دیا۔ یہ خونیں رات ابھی ڈھلی نہیں تھی کہ پُرعزم طلبہ قیادت نے اعلان کردیا: ’’کچھ بھی ہو، ہم ۵؍اگست کو وزیراعظم ہائوس کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دیں گے‘‘۔
فجر کے بعد، کرفیو کو توڑتے ہوئے ہزاروں طلبہ و طالبات مارچ کرتے ہوئے اپنے ہدف کی طرف چل پڑے۔ بنگلہ دیشی نوجوان فوجی افسروں نے اپنی ہائی کمان کے سامنے مظاہرین طلبہ پر گولی چلانے سے معذوری کا اظہار کردیا اور پولیس میدان چھوڑ کر بھاگ گئی۔ نہتے طلبہ و طالبات اپنی جان کی حفاظت سے بے پروا، رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے، منزل کی طرف گامزن تھے کہ بنگلہ دیشی فوج کے سربراہ جنرل وقارالزماں نے طوفان کا موڈ دیکھ لیا۔ دن کے ساڑھے بارہ بجے حسینہ واجد سے کہا: ’’ایک ڈیڑھ گھنٹے میں چیزیں سمیٹیں اور انڈیا چلی جائیں۔ ہیلی کاپٹر لے جانے کے لیے تیار ہے۔ اگر آپ نہ گئیں تو میں آپ کی اور اپنی جان کی ضمانت نہیں دے سکتا‘‘۔حسینہ واجد نے تکرار کی اور دھمکی کی زبان استعمال کی، مگر آرمی چیف نے رشتہ داری کا واسطہ دے کر کہا: ’’اس وقت میں آپ کے ساتھ اس سے بہتر احسان اور سلوک کا کوئی دوسرا رویہ اختیار نہیں کرسکتا‘‘۔ اور پھر وہ روتی پیٹتی اپنے اصلی وطن انڈیا چلی گئی___ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔
تقریباً ایک گھنٹے کے بعد ہزاروں طلبہ نے وزیراعظم ہائوس میں داخل ہوکر اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ دوسری طرف شیخ مجیب الرحمٰن کے ’تاریخی‘ گھر ۳۲- دھان مندی [بنگ بندھو میموریل میوزیم] کو جلاکر راکھ کردیا۔ سڑکوں پر مجیب کے سارے دیوقامت مجسمے توڑ دیئے، دیواروں پر لگی مجیب اور اس کی بیٹی کی تصویریں نوچ ڈالیں اور عمارتوں پر چُنی باپ، بیٹی کی افتتاحی تختیاں اُکھاڑ کر کوڑے دانوں میں پھینک دیں۔
اسی طرح مارچ ۲۰۱۰ء میں انڈین حکومت کی خطیر رقم سے قائم ’اندرا گاندھی کلچرل سنٹر‘ (IGCC) ڈھاکہ کو بھی مظاہرین نے انڈیا کی مسلسل مداخلت اور عوامی لیگ کی سرپرستی کے خلاف نفرت کا اظہار کرتے ہوئے نذرِ آتش کردیا۔ اس سنٹر میں موسیقی، یوگا اور کتھک رقص کی تربیت دی جاتی تھی۔ ڈھاکہ میں یہی مشہور تھا کہ ’’یہ دراصل انڈین جاسوسوں اور ’را‘ کا مرکز ہے، جہاں بداخلاقی، بے دینی اور ملک دشمنی کی تعلیم دی جاتی ہے‘‘۔
حسینہ واجد کے جانے کے دوگھنٹے بعد فوجی سربراہ جنرل وقارالزمان نے عبوری حکومت کے لیے ایک فہرست سوشل میڈیا پر چلوائی۔ چند منٹ ہی گزرے تھے کہ اس فہرست کو طلبہ قیادت نے ہوا میں اُچھال دیا اور کہا: ’’حکومت وہی بنے گی، جو ہم کہیں گے۔ ہم فوجی حکومت اور فوجی مداخلت سے چلنے والی حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے‘‘۔ ساتھ ہی نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر محمدیونس کا نام عبوری حکومت کے لیے تجویز کردیا۔اسی دوران، انڈیا کے استحصالی رویے اور فاشسٹ حکومت کی مسلسل پشت پناہی کے سبب عوام میں انڈیا کے خلاف نفرت کا لاوا اُبل رہا تھا، اور بعض جگہ لوگ مندروں کی طرف جانے لگے۔ ملک میں ہیجانی کیفیت عروج پر تھی، مگر اس کے باوجود جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ بنگلہ دیش کی قیادت نے کمال درجے تدبر کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ ’’فوراً مندروں اور ہندو آبادیوں کی حفاظت کے لیے میدان میں آئیں، ساری رات پہرا دیں اور مظاہرین کو باز رکھنے کی بھرپور کوشش کریں‘‘۔ اس حکمت عملی کا خاطرخواہ فائدہ ہوا۔ مگر عوامی لیگ اور انڈین میڈیا اس حقیقت کو جان بوجھ کر نظرانداز کرکے جماعت، جمعیت کو پروپیگنڈے کا نشانہ بناتا چلا آرہا ہے۔
یہ ۵؍اگست ہی کی شام تھی کہ وہی جماعت اسلامی، جس پر حسینہ واجد نے بنگلہ دیشی فوجی سربراہ کی مشاورت سے پابندی عائد کی تھی، اسی جماعت کے سربراہ ڈاکٹر شفیق الرحمان صاحب کو یہی فوجی سربراہ فون کر رہے تھے کہ ’’ملک کے مستقبل کو بہتر بنانے اور امن و امان برقرار رکھنے کے لیے آپ مشورہ دیں‘‘۔ گویا کہ اب کی بار پابندی کا یہ دورانیہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے چار روز میں ریزہ ریزہ ہوکر رہ گیا۔ تاہم، ۲۸؍اگست تک جماعت اور جمعیت پر پابندی کے خاتمے کا باضابطہ اعلان ہوا۔
ڈاکٹر محمد یونس آئے، حکومت بنی، جماعت اسلامی نے کوئی وزارت نہیں لی اور حکومت کے قیام کی تائید کی۔ اس بات پر فوج کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے ایک عذاب سے جان چھڑانے کے لیے درست راستہ اختیار کیا ہے۔نئی نسل کی تحسین کہ اس نے ثابت قدمی سے قوم کو بدعنوان اور فاشسٹ ٹولے سے آزادی دلائی اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدئہ شکر بجا لائے کہ اُس نے خون کے دریا سے قوم کو پار نکالا ہے۔
نئی حکومت نے دو روز بعد، جماعت اسلامی کے ان تمام دفتروں کی سیلیں توڑ دینے کی ہدایت کی، جنھیں گیارہ برس پہلے حسینہ حکومت نے بند کر رکھا تھا۔ یہ خبر سن کر کارکن خوشی سے جہاں موجود تھے، وہیں اللہ کی بارگاہ میں سجدے میں گرگئے۔ پانچ روز گزرنے کے بعد عوامی لیگی کارکنوں اور نام نہاد ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ میں جماعت اسلامی کے برگزیدہ رہنمائوں کو پھانسیاں سنانے والے ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کو طلبہ نے نشانے پر رکھا، تو ۱۰؍اگست کی دوپہر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت چھ ججوں نے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔ یہ سب بدنام اور معروف بدعنوان لوگوں کا ٹولہ تھا۔
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں کوئی بھی پارٹی یہ نہیں چاہتی کہ فوراً الیکشن ہوں، بلکہ عوامی لیگ نے جو تباہی مچا رکھی ہے، اسے درست کرکے چھ ماہ سے ایک سال کے اندر الیکشن پر اتفاق ہے۔ گندگی کا جو بازار گرم ہے، اس کی صرف ایک مثال دیکھیے:
’بنگلہ دیش اسلامی بنک‘جسے جماعت اسلامی کے رفقا نے ۱۹۸۰ء سے مسلسل بڑی محنت سے قائم کیا تھا، اور جس کی نیک نامی نے اسے بنگلہ دیش کا سب سے بڑا بنک بنا دیا تھا۔ عوامی لیگی حکومت نے جماعت اسلامی کے دوسرے تعلیمی اور ادویہ سازی کے اداروں پر قبضہ جمانے کے ساتھ اس بنک کو بھی قبضے میں لے لیا۔ جبری طور پر عملے اور بورڈ کے ممبروں سے دستخط کرائے، اس کی املاک اور جمع شدہ رقوم ہتھیالیں۔ ایک منظورِنظر ’عالم گروپ‘ کو اس کا انتظامی قبضہ دے دیا۔ ۱۹؍اگست کو عبوری حکومت نے حسینہ واجد کے مقرر کردہ اسلامی بنک کے بورڈ کو توڑدیا اور نیا عارضی بورڈ مقرر کیا۔ ۲۰؍اگست کو معلوم ہوا کہ بنک کے ۷۵ہزار کروڑ ٹکے [یعنی ۱۵۰کھرب پاکستانی روپے] قرضوں، بے نامی منصوبوں اور مختلف ناموں سے نکلوائے اور ہڑپ کر لیے گئے ہیں۔ اس ایک خبر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مزید کتنے معاشی قتل ہوئے ہوں گے اور بدعنوانی کے کتنے ہمالہ تعمیر ہوئے ہوں گے۔ یہ ’’ایک سیکولر، ایک روشن خیال، ایک ترقی پسند، ایک عوام دوست‘‘ حکومت کی سیاہ کاری کی شرمناک تصویر ہے۔ صفحات کی قلت کے سبب ہم نے بہت سی دیگر معاشی غداریوں کی داستانیں یہاں نہیں چھیڑیں، جو ثبوتوں کے ساتھ بنگلہ دیش کے اخبارات میں روزانہ کی بنیاد پر قارئین کو لرزا دیتی ہیں۔
۱۹؍اگست کو بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے امیر ڈاکٹر شفیق الرحمان صاحب نے بنگلہ دیش ہندو کمیونٹی کے سربراہوں سے ملاقات کی اور ان کے مرکز ’کافرل مندر‘ کا دورہ کیا۔ وہاں پوجاکمیٹی اور مندرکمیٹی کے صدر بابو تاپیندرا نارائن کے مشاورتی اجلاس میں شرکت کی۔ ان کے ہمراہ ڈھاکہ جماعت کے امیر محمد سلیم الدین بھی تھے۔
ڈاکٹر شفیق الرحمٰن نے کہا: ’’بنگلہ دیش میں رہنے والے تمام لوگ برابر کے شہری ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اکثریت اور اقلیت کی بحث کو ختم کیا جائے۔ ہماری پہلی پہچان انسان ہونا ہے۔ ہماری دوسری پہچان ہمارا ملک بنگلہ دیش ہے، جہاں ہم پیدا ہوئے، اور ہماری تیسری پہچان ہماری مذہبی و فکری وابستگی ہے۔ اس ملک کے تمام شہری اپنے مذہب، کلچر اور حقوق کو آزادی سے بروئے کار لانے کا حق رکھتے اور ایک دوسرے کے احترام کی ذمہ داری اُٹھاتے ہیں۔ مَیں پُرامید ہوں کہ ہماری نئی نسل یہ ذمہ داری اُٹھائے گی اور اس ذمہ داری کو خوش اسلوبی سے نبھائے گی۔ اس طرح مستقبل کا بنگلہ دیش، پارٹی یا گروہی عصبیت پر نہیں بلکہ معیار، صلاحیت اور میرٹ پر کھڑا ہوگا، اور معیار پر ہی چلایا جائے گا۔ میں بنگلہ دیش کے تمام شہریوں، سماجی طبقوں اور مذہبی برادریوں سے دردمندانہ اپیل کرتا ہوں کہ ہم ایک دوسرے کو آدم علیہ السلام کی اولاد کی طرح دوستوں اور بھائیوں کی طرح قبول کریں، ایک دوسرے کی عزّت ، آبرو اور جان کا احترام کریں۔ تشدد، نفرت، جھوٹے پروپیگنڈے اور جبر کی جڑ کاٹ کر رکھ دیں۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ اور اگر اس کے باوجود کوئی فرد ایسی کسی بدنمائی کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے جرم کا تعلق اسلام اور اسلامی تہذیب سے نہیں ہے، بلکہ اُس فرد سے ہے اور وہ فرد اس کے لیے قانون، قوم اور اللہ کے سامنے جواب دہ ہے۔ اسلام، انسانی جان و مال اور عزّت و آبرو کے احترام کا درس دیتا ہے۔ اسلام انسانوں کو حیوانیت اور خود غرضی کے بجائے انسانیت اور ہمدردی کا پیغام دیتا ہے۔ یہی پیغام لے کر میں آپ کے پاس آیا ہوں‘‘۔ (روزنامہ سنگرام، ڈھاکہ، ۱۹؍اگست ۲۰۲۴ء)
یہ تو ہوا اس منظرنامے کا ایک پہلو۔
اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ بنگلہ دیش کا یہ انقلاب فی الحقیقت دو قومی نظریے کی ایک طاقت ور بازگشت ہے۔ وہی دو قومی نظریہ، جسے سرزمین بنگال کے مسلمانوں کی قیادتوں نے انیسویں صدی میں ’فرائضی تحریک‘ اور تیتومیر شہید کی صورت میں اُٹھایا، جس کی تصویرکشی ۱۹۰۵ء میں تقسیم بنگال نے کی اور جسے ۱۹۰۶ء میں کُل ہند مسلم لیگ کے قیام نے سیدھی شاہراہ پر ڈالا۔ ۱۹۴۷ء میں قیامِ پاکستان کے بعد مغربی پاکستان کے حکمرانوں کی حماقتوں اور مشرقی پاکستان سے بنگالی قوم پرست لیڈروں کے جھوٹے پروپیگنڈے نے نفرت کی آگ کا ایسا الائو بھڑکایا کہ دسمبر ۱۹۷۱ء میں پاکستان دوحصوں میں تقسیم ہوگیا۔ تب انڈین وزیراعظم اندرا گاندھی نے کہا تھا: ’’دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے‘‘۔ موجودہ انقلاب نے یہ پیغام دیا ہے کہ ’’دو قومی نظریہ زندہ ہے، توانا ہے اور اپنا دفاع کرنا جانتا ہے‘‘۔
دوسرا یہ کہ نئی نسل اور عام شہری جبر اور فسطائیت پر مبنی آمریت کو کسی صورت قبول نہیں کرتے۔ اس مقصد کے حصول اور آزادی کے لیے وہ اپنے معاشی مستقبل اور اپنی جان کی بازی تک لگادینے سے دریغ نہیں کرتے۔یہ درس ہے آئندہ حکمرانوں کے لیے بھی اور یہی درس ہے ہمسایہ ملک کے نسل پرست برہمنوں کے لیے بھی۔
تیسری چیز یہ ہے کہ اس زلزلہ فگن تحریک کے جھٹکے ابھی تک بنگلہ دیش کے مختلف حصوں میں مسلسل محسوس کیے جارہے ہیں، تاہم حالات گرفت میں ہیں۔ مثال کے طور پر۲۴؍اگست کو ’انصار فورس‘ نے ہنگامہ کھڑا کردیا۔ یہ حکومت کی مسلح ملیشیا ہے، جس میں بڑی تعداد ’طلب کرنے پر‘ ڈیوٹی پر آتی ہے‘۔ انھوں نے اپنی نوکریاں پکّی کرنے کے لیے مظاہرہ کیا، جسے روکنے کے لیے طلبہ نے کوشش کی تو تصادم ہوگیا۔ بعدازاں ۲۵؍اگست کو طلبہ اور فوج نے یہ مزاحمت ختم کردی۔ اسی طرح ڈھاکہ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر اور اسی یونیورسٹی کے دس اہم تعلیمی اور انتظامی سربراہو ں نے اپنے کیے کرائے پر شرمندگی محسوس کرتے ہوئے استعفے دے دیے ہیں۔ مختلف انتظامی شعبہ جات کے بدعنوان منتظم افراد ملک سے بھاگنے کی کوشش میں گرفتار ہوچکے ہیں۔ گویا کہ حالات کے پُرسکون ہونے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔
چوتھی بات یہ ہے کہ عبوری حکومت کے مشیر اعلیٰ ڈاکٹر محمد یونس نے بجا طور پر نشان دہی کرتے ہوئے کہا ہے: ’’جب تک حسینہ واجد حکومت میں رہی، ہم ایک مقبوضہ ملک ہی رہے۔ ایک قابض قوت، ڈکٹیٹر اور بے رحم جرنیل کی طرح اس نے ہرچیز کو اپنے شکنجے میں کَس رکھا تھا۔ مگر آج بنگلہ دیش کا ہرشہری آزادی محسوس کر رہا ہے اور پوری قوم اس آزادی کے تحفظ کے لیے پُرعزم ہے‘‘۔