تحریکِ آزادی کشمیر کی لہو میں ڈوبی زخم زخم داستان اور اقوامِ متحدہ کے قبرستان میں دفن قراردادوں کے ساتھ، کیا عالمی ضمیر بھی انڈین سفارتکاری خرید چکی ہے؟ انڈیا کی فلمی مکاری اور عالمی میڈیا کی مجرمانہ خاموشی کے پردے میں کشمیر کی سچائی کو کیسے دفن کیا گیا؟ تہاڑ جیل کی زنجیروں سے بلند حریت کی صدائیں، شہیدسیّد علی گیلانیؒ، یاسین ملک اور قافلۂ قربانی کی داستان کشمیر سے جڑی نسل کُشی جسے دنیا تماشا سمجھ بیٹھی۔مگر یہ صرف زمینی تنازعہ نہیں، انسانیت کا جنازہ ہے۔ ہماری خاموشی اور کشمیریوں کا ماتم ہے۔ یوم آزادی پر ہر مظلوم کشمیری پوچھتا ہے: میرا جشن کب ہو گا؟
رات کے پچھلے پہر کا سناٹا ہر طرف چھایا ہوا تھا۔ برف کی تہہ سے ڈھکی وادی میں کہیں دور اذان کی صدا کسی مقفل مسجد کی ٹوٹی ہوئی چھت سے ٹکرا کر واپس لوٹ آتی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے صدیوں سے اذان ہو رہی ہو، مگر کوئی دروازہ کھلنے کا نام نہ لے۔ دریائے جہلم کا پانی خاموشی سے بہہ رہا تھا، جیسے اس کے سینے میں ہزاروں لاشیں دفن ہوں، اور ہر موج کوئی بے نشان جنازہ ہو۔
ایسے جان لیوا سناٹے میں ایک بوڑھی ماں، اپنی چادر میں لپٹا ہوا خون میں لت پت قرآن تھامے بیٹھی تھی۔ کبھی اس پر بوسہ دیتی، کبھی روتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھتی اور پھر وہی سوال دُہراتی، جو برسوں سے ہر کشمیری کے لبوں پر ہے: ’’کیا ہمارے سجدے ادھورے ہی رہیں گے؟ اور کیا پاکستان صرف ایک نعرہ تھا؟‘‘
چند قدم دُور، ایک چھوٹا بچہ ملبے میں وہ گڑیا تلاش کر رہا تھا، جو اُس کی بہن کی آخری نشانی تھی، جو پچھلے ہفتے ایک بھارتی فوجی کی فائرنگ سے شہید ہو گئی تھی۔ بچہ بار بار مٹی ہٹاتا، آنکھیں مَلتا۔ اس کی بے زبانی میں یہ سوال کلبلا رہا تھا: ’’جب پاکستان آزاد ہوا تھا، تو کیا کشمیر کا بھی وعدہ کیا گیا تھا؟‘‘
یہ سوال محض معصوم بچوں کے نہیں رہے۔ یہ سوال اب قبریں بھی پوچھتی ہیں، پتّے اور ہوائیں بھی۔ یہ وہ سوالات ہیں جو ’بیس کیمپ‘ کے ایوانوں تک تو پہنچتے ہیں، مگر وہاں ان کی گونج نعروں، حکومت کے حامی اور حکومت کے مخالف لوگوں کی تقریروں اور ہوٹلوں کی میزوں کے نیچے دفن ہو جاتی ہے۔ یہاں وادی میں آزادی کے چراغ خون سے جلتے ہیں، مگر وہاں کرسی کے چراغ سیاست سے۔ یہاں کشمیر لہو میں نہا رہا ہے، اور وہاں ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ کا نعرہ اگلے الیکشن کے پوسٹر پر چھپ رہا ہے۔ اور اس المیے کا سب سے کربناک پہلو یہ ہے کہ یہ افسانہ نہیں، بلکہ یہ حقیقت ہے۔ ایک ایسی حقیقت جس نے ہزاروں زندگیاں نگل لی ہیں، سیکڑوں خواب روند ڈالے ہیں، لاکھوں بین، صدائیں، اذیتیں، صبر، اور سوالات پیدا کیے ہیں ، مگر جن کے جواب ابھی تک نہ اقوامِ متحدہ نے دیے، نہ مسلم دُنیا کی قیادتوں نے، اور نہ ’بیس کیمپ‘ نے۔
وادی کی گلیوں میں قدم رکھتے ہوئے تہاڑ جیل کی کوٹھریوں سے آتی سسکیاں سناؤں گا، اُن کانفرنس ہالوں کا حساب لوں گا جہاں کشمیر صرف ایک سائیڈ ایشو سمجھا گیا، اور اُن چہروں سے پردہ اُٹھاؤں گا جنھوں نے ’بیس کیمپ‘ کو اقتدار اور کرسی نشینی کے ’ریس کیمپ‘ میں بدل دیا۔ اس تحریر میں روشنائی کی جگہ وہ سرخ خون بہتا ہے جو عشروں سے وادیٔ کشمیر کے چشموں، دریاؤں، گلیوں، گھاٹیوں اور ماؤں کی آنکھوں سے بہتا چلا آیا ہے۔ یہ ایک تاریخی فردِ جرم ہے، جو نہ صرف انڈیا کے ظالم نظام پر عائد ہوتی ہے، بلکہ ان سب پر بھی جو اس ظلم کو صرف بیانات میں لپیٹ کر، تعزیتوں میں چھپا کر، اور سفارتی ملفوظات میں گم کر کے اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو گئے۔ وادیٔ کشمیر اس وقت بھی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ بھارتی قابض افواج کے بوٹوں تلے نہ صرف آزادی کچلی جا رہی ہے بلکہ انسانیت کا منہ چڑایا جا رہا ہے۔ ہر صبح بندوقوں کی آواز سے آنکھ کھلتی ہے اور ہررات کسی جنازے کی آہ و بکا کے بعد چپ ہوتی ہے۔
۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو انڈیا نے وہ گھنائونا جرم کیا جس نے کشمیریوں سے ان کی شناخت، ان کی حیثیت، ان کا جغرافیہ اور ان کی آئینی پہچان چھین لی۔ وہ خطہ جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق متنازع ہے، یک طرفہ طور پر انڈیا میں ضم کرنے کی جسارت کی گئی۔ مگر یہ محض آئینی یا قانونی حملہ نہ تھا، یہ کشمیریوں کے وجود پر وار تھا، ان کے خوابوں، تاریخ، عقیدے اور تشخص پر خنجر کاوار۔ قابض انڈین افواج کی موجودگی صرف فوجی چوکیوں تک محدود نہیں، اب وہ کشمیریوں کی سوچ، سانس، نیند، اور حتیٰ کہ ان کے سجدوں میں بھی گھس چکی ہے۔ ہزاروں نوجوانوں کو لاپتہ کردیا گیا، اجتماعی قبریں اب کسی افسانے کا حصہ نہیں بلکہ زمین کے کربناک سچ بن چکی ہیں۔ پیلٹ گنز کے ذریعے آنکھوں سے بینائی چھینی گئی، مگر انڈیا یہ نہیں جانتا کہ جس قوم کے دل میں بینائی ہو، اس کی آنکھیں چھین لینے سے آزادی کا خواب ختم نہیں ہوتا۔ وہ مائیں جو اپنے بچوں کی لاشیں دفناتی ہیں، ان کے ہاتھ میں صرف کفن نہیں بلکہ ایک سوال ہوتا ہے: ’ہم کب آزاد ہوں گے؟‘ حُریت قائدین کی جدوجہد انسانی تاریخ کے ان ابواب میں لکھی جائے گی، جہاں قربانی کو روشن حرف مانا جاتا ہے۔
سیّد علی گیلانیؒ کی نصف صدی پر محیط جدوجہد، ان کی تنہائی میں گزری جوانی، جیلوں میں گزاری عمر، اور سب کچھ کھو دینے کے باوجود آزادی کے بیانیے سے وابستگی، ان کی زندگی کا ہر لمحہ کشمیری غیرت کا استعارہ ہے۔ ان کی موت بھی انڈیا کے ظلم کی نشان دہی ہے، ان کا جنازہ بھی قید میں ہوا، ان کی قبر بھی پہرہ داروں کی نگرانی میں بنی۔ یاسین ملک، جس نے اس تحریک کے لیے سب کچھ قربان کیا، آج تہاڑ جیل کی دیواروں کے پیچھے عمر قید کاٹ رہا ہے۔ اس کی خاموش چیخیں سننے والاکوئی نہیں، اور نہ ’بیس کیمپ‘ کے ایوانوں میں اس کے حق میں کوئی آواز بلند ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا۔
’بیس کیمپ‘، یعنی آزاد کشمیر، وہ خطہ جو تحریک آزادیٔ کشمیر کا مرکز ہونا چاہیے تھا، آج محض اقتدار کے کھیل کا میدان بن چکا ہے۔ حکمران طبقات نے اس خطے کو ’ریس کیمپ‘ میں تبدیل کر دیا ہے۔ آزاد کشمیر میں وہ قیادت ہونی چاہیے تھی، جو یہاں سے عالمی سطح پر کشمیر کا مقدمہ لڑتی، مگر وہ اقتدار کے ایوانوں میں ذاتی مفادات کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ جلسے، جلوس، بیانات، تعزیتی قراردادیں، بس اتنا ہی کردار ہے اس ’بیس کیمپ‘ کا۔ نہ کوئی طویل مدتی پالیسی، نہ کوئی انسٹی ٹیوشنل فریم ورک، نہ میڈیا پر تسلسل سے کشمیر کا مقدمہ، اور نہ عالمی اداروں میں مربوط سفارتی جدوجہد۔ یہ تلخ حقیقت تاریخ کے اوراق پر سیاہ ترین لفظوں میں لکھی جائے گی کہ جس خطے کو اقوامِ متحدہ نے باقاعدہ ’تحریکِ آزادیٔ کشمیر کا بیس کیمپ‘ قرار دیا، وہ خطہ وقت کے ساتھ محض اقتدار کا ’ریس کیمپ‘ بن کر رہ گیا۔ وہ خطہ جہاں سے مظلوم کشمیریوں کے حق میں ناقوس بجنا تھا، وہاں صرف اقتدار کی گھنٹیاں بجتی رہیں۔ جس چبوترے پر شہیدوں کے نام کندہ ہونے تھے، وہاں رنگ برنگے پارٹی جھنڈوں اور گمراہ کن چہروں کی تصویروں سے لتھڑے بینروں نے ڈیرے ڈال لیے۔ آزاد کشمیر کی قیادت، چاہے وہ وزیراعظم ہو، اپوزیشن لیڈر ہو، وزرا یا ممبران اسمبلی ہوں، سب کے سب ایک مشترکہ ناکامی کا استعارہ بن چکے ہیں۔
وہ ناکامیاں کیا ہیں؟ ان کی انتخابی دوڑ اور سیاسی ترجیحات میں آزادی کا نام تک نہیں ہوتا۔ ان کے انتخابی منشور میں آزادی کشمیر ایک رسمی سطر کے طور پر شامل کی جاتی ہے، جس کے پیچھے کوئی حکمتِ عملی، کوئی سفارتی ڈھانچا، کوئی روڈ میپ نہیں ہوتا۔ یہاں امیدوار کشمیر کا نام لے کر ووٹ لیتے ہیں، اور جیت کر صرف مظفرآباد یا اسلام آباد تک محدود ہو جاتے ہیں۔ سفارتی سطح پر مکمل نالائقی کس سے ڈھکی چھپی ہے؟ ۷۸ سال گزر گئے، ’بیس کیمپ‘ کی قیادت عالمی سطح پر ایک بھی مستقل لابنگ گروپ قائم نہ کر سکی، جو انڈیا کے مظالم کو اقوامِ عالم کے سامنے رکھ سکے۔ کوئی کشمیر ڈیسک، کوئی تھنک ٹینک، کوئی ریسرچ ادارہ، کوئی مضبوط میڈیا سیل تک نہ بنایا جا سکا۔ اس خاموشی نے قاتل انڈیا کو بولنے کا موقع دیا اور ہمیں دنیا بھر میں تماشائی بنا دیا۔
اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر خاموشی سب سے بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اگرچہ قراردادیں موجود ہیں، لیکن آج تک آزاد کشمیر کا کوئی رہنما اقوامِ متحدہ کے دروازے پر مستقل موجودگی کے لیے مقام نہ بنا سکا۔ وہ ریاست جو حقِ خودارادیت کے لیے علامتی قیادت بن سکتی تھی، ایک ضلعی طرز کی بلدیاتی حکومت میں تبدیل ہو گئی۔ بے مقصد اور نام نہاد پُرتعیش کشمیر کانفرنسیں تو عروج پر ہیں، ہر سال مختلف ہوٹلوں اور کانفرنس ہالوں میں کشمیر کانفرنسوں کے نام پر فوٹو سیشن ہوتے ہیں۔ اسٹیج پر نعرے، لنچ پر دعوے، مگر عملی نتیجہ صفر۔ وہی مقبوضہ کشمیر، وہی شہادتیں، وہی آہیں! آج تک آزاد کشمیر کے قائدین مکمل طور پر ، پوری دُنیا کے سامنے انڈین شاطرانہ بیانیے کا توڑ نہیں کر سکے۔
انڈیا، سوشل میڈیا، قومی و عالمی میڈیا، فلم، تھنک ٹینک اور سفارت کاری کے ذریعے کشمیر پر اپنے بیانیے کو مضبوط کرتا رہا، اور ’بیس کیمپ‘ میں ایک بھی ایسا ادارہ نہ بن سکا جو اس زہریلے پراپیگنڈے کا مؤثر جواب دے سکتا ہو۔ اکثر تاریخی موقعوں پر مجرمانہ خاموشی تو روایت بنتی جارہی ہے۔ جب ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو انڈیا نے انڈین آئین کی دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵-اے میں ترمیم کرکے کشمیر کی نام نہاد آئینی طور پر خصوصی حیثیت (Special Status) کو ختم کیا، تو ’بیس کیمپ‘ نے صرف ایک دن کا احتجاج کیا ، وہ بھی سیاسی تقاریر، کالی پٹیاں اور مشروط غصے کے ساتھ۔ اس کے بعد وہی اقتدار کی رسہ کشی، وہی وزارتوں کی تقسیم، وہی مفادات کی سیاست۔ تحریکِ حُریت کے نام کا صرف جذباتی استعمال بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان قربانیوں کو پالیسی میں نہیں ڈھالاگیا، بلکہ جذباتی استحصال کے ذریعے انھیں ووٹ بینک بنایا گیا۔ جو قیادت اقوامِ متحدہ کی قراردادیں پڑھنے کی زحمت تک نہ کرے، وہ کس حق سے کشمیر کا نام لے سکتی ہے؟ جو حکمران اپنی وزارت کی کرسی بچانے کے لیے ’بیس کیمپ‘ کو خاموش رکھیں، وہ کیونکر کشمیریوں کے خون کے وارث ہو سکتے ہیں؟ جن کے پاس سفارتی، میڈیا، تھنک ٹینک، قانونی، انسانی حقوق کا کوئی عملی ادارہ نہ ہو، وہ کشمیر کو آزاد کرانے کا سفارتی خواب کس منہ سے دیکھتے ہیں؟
حکمرانوں کے ضمیر زندہ ہوں تو یقینا شہیدوں کی لاشوں سے بہنے والا خون اُن کے خوابوں میں آئے گا، مگر یہ توقع ہی غلط ہے ان ’بندگانِ وزارت‘ سے۔
دوسری طرف انڈیا نے اپنی چالاکی اور سفارت کاری کو بخوبی استعمال کیا۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مسلسل نظر انداز کیا۔ انڈیا نے امریکا، اسرائیل، فرانس اور کئی مغربی ممالک سے دفاعی اور معاشی تعلقات کو اتنا مضبوط کر لیا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ ان کے لیے محض ایک اخباری بیان کا معاملہ بن کر رہ گیا ہے۔ پھر مغرب کو تجارت کا لالچ دیا، میڈیا کو کنٹرول کیا، اور عالمی بیانیے کو اپنی مرضی سے موڑنے میں کامیابی حاصل کی۔ پاکستان کی طرف سے کوششیں ضرور ہوئیں مگر غیر منظم، وقتی اور ردعمل پر مبنی۔ اقوام متحدہ میں تقریریں کی گئیں، مگر پالیسی سازی اور عالمی سطح پر مقدمہ لڑنے کی سنجیدہ کوششیں نہیں ہوئیں۔ مسئلہ کشمیر پر کوئی ایسا تھنک ٹینک فعال نہیں ہو سکا جو جدید سفارت کاری، ڈیجیٹل میڈیا، اور انسانی حقوق کے عالمی قوانین کی روشنی میں یہ مقدمہ تیار کرتا۔ ہمارا میڈیا بھی وقتی جوش دکھاتا ہے، مگر مسلسل بیانیہ نہیں اپناتا۔
ہم نے مظلوم مقبوضہ وادی کے کشمیریوں کے ساتھ جذباتی وابستگی ضرور رکھی، مگر عملی میدان میں ہم بار بار پیچھے ہٹے۔ ہماری اپنی بے عملی نے عالمی ضمیر کو بے حس اور کشمیر کو تنہا کر دیا۔ کشمیر کا المیہ صرف انڈیا کے ہاتھوں لہو لہان نہیں ہوا، بلکہ ہماری غفلت کی وجہ سے پیداہونے والی عالمی طاقتوں کی مجرمانہ خاموشی نے بھی اس سرزمین پر خون کی ندیاں بہانے میں برابر کا کردار ادا کیا ہے۔ یہ وہی دنیا ہے جو یوکرین میں انسانی حقوق کے خلاف چیخ اٹھتی ہے، لیکن کشمیر میں جب پوری بستی کو جلایا جاتا ہے، لڑکیوں کی چوٹیاں کاٹ دی جاتی ہیں، عصمت دری کی جاتی ہے اور بچوں کی آنکھوں میں چھرّے مارے جاتے ہیں، تو دنیا کی زبانیں گنگ، آنکھیں اندھی اور دل مُردہ رہتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ، جیسا ادارہ جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد انسانیت کی فلاح کے لیے بنایا گیا تھا، آج کشمیر کے معاملے میں بس قراردادوں کا قبرستان بن چکا ہے۔۱۹۴۸ء کی قراردادیں، ۱۹۵۱ء، ۱۹۵۷ء اور ۱۹۶۵ء کی قرار دادیں، سب اس بات کا اقرار کرتی ہیں کہ کشمیریوں کو استصوابِ رائے (Plebiscite) کا حق حاصل ہے، اور انڈیا کو یہ حق دینا ہوگا۔ مگر کیا کبھی اقوامِ متحدہ اس پر عمل درآمد کروانے کے لیے تیار ہوگی؟ نہیں۔ وجہ کیا ہے؟ وجہ صرف ایک ہے: انڈین معاشی قوت، سفارتی لابنگ اور بڑی طاقتوں کی مفاداتی مجبوری۔
انڈیا نے ۱۹۹۰ء کے عشرے سے ایک ہمہ جہت پالیسی اپنائی۔ اس نے سب سے پہلے اسلامی تحریک کو نام نہاد ’دہشت گردی‘ سے جوڑنے کی کوشش کی اور حُریت کی خالص اور عوامی تحریک کو ’دہشت گردی‘ کا لبادہ پہنا دیا۔ دنیا کے سامنے یہ بیانیہ پیش کیا کہ ’کشمیر میں جاری مزاحمت پاکستان کی سرحد سے پار مداخلت کا نتیجہ ہے، حالانکہ زمینی حقائق اس کے برعکس تھے۔ اس کے بعد انڈیا نے سفارتی لابنگ میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی۔ امریکا، برطانیہ، فرانس، یورپی یونین، اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) میں مستقل لابنگ گروپ بنائے۔ صحافیوں، تجزیہ کاروں، تھنک ٹینک اسکالرز کو خرید کر انڈین موقف دنیا کے ہر فورم پر پیش کیا۔ یوں ایک زہریلے بیانیے کو مہذب الفاظ میں لپیٹ کر دنیا کے سامنے رکھ دیا گیا۔
اس کے بعد انڈیا نے فلموں، میڈیا اور ثقافت کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو متاثر کیا۔ بالی وُڈ کے ذریعے کشمیر کو ایک حساس مگر ’داخلی معاملہ‘ ثابت کیا گیا۔حیدر، شنکارا، ہمّت والا، اوڑی دی سرجیکل سٹرائیک ، فنا ، مشن کشمیر سمیت درجنوں بالی وڈ فلموں کے ذریعے انڈین فوج کو ’ہیرو‘ اور کشمیری مزاحمت کو ’دہشت گردی‘ کے طور پر پیش کیا اور ایک پوری نسل کو ذہنی طور پر کنفیوز اور گمراہ کر دیا۔
۵۷ مسلم ممالک پر مشتمل اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی)نے کشمیر پر درجنوں قراردادیں اور بیانات تو جاری کیے، لیکن کیا کبھی کسی عرب ریاست نے انڈیا سے سفارتی تعلقات منقطع کیے؟ کیا کسی مسلم ریاست نے انڈیا کے ساتھ تجارتی معاہدے ختم کیے؟ ہرگز نہیں۔ تیل، تجارت اور بھارت کی مارکیٹ نے ان کے مفادات کو خرید کر مسلم احساس کو ختم کردیا۔
یورپی یونین، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، اور دیگر ادارے متعدد بار رپورٹس جاری کر چکے ہیں۔ ان رپورٹس میں پیلٹ گنز، اجتماعی قبروں، ماورائے عدالت قتل، اور آزادیٔ اظہار کی بندش پر تشویش ظاہر کی گئی، لیکن کیا کسی یورپی ملک نے انڈیا پر سفارتی یا تجارتی پابندی لگائی؟ کیا انڈیا کو کبھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سزا ملی؟ نہیں۔ یہ سب ادارے صرف زبانی جمع خرچ میں مصروف ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہزاروں نوجوان شہید ہو گئے، سیکڑوں معصوم لڑکیوں کی عصمت دری ہوئی، پیلٹ گنز سے بچوں کی آنکھیں ضائع ہوئیں، اجتماعی قبریں بنیں، آٹھ لاکھ سے زائد بھارتی فوجی ہر گلی، ہر چوک، ہر مسجد میں زہر اگلتے رہے، تہاڑ جیل میں کشمیری قیادت قید رہی، اور اقوامِ متحدہ کی قراردادیں کتابوں میں دفن ہوتی رہیں۔ نمازِ جمعہ پر پابندی لگ گئی، مساجد پر قفل ڈال دیے گئے، قرآن مجید کے نسخے نذر آتش کیے گئے، اور اب سب سے بڑھ کر، کشمیریوں کی نسل کشی (Genocide) کی ایک منظم مہم شروع ہو چکی ہے، جسے اگر دنیا نے نہ روکا تو وہ دن دُور نہیں جب کشمیر دوسرا روانڈا، دوسرا بوسنیا اور دوسرا غزہ بن جائے گا۔
اب وقت آ چکا ہے کہ محض تقاریر اور قراردادوں سے آگے بڑھا جائے۔ ’بیس کیمپ‘ کو حقیقی معنوں میں ’بیس کیمپ‘ بنایا جائے۔ حقائق پر مبنی ایک مضبوط بیانیہ تشکیل دیا جائے اور کشمیر پر اس بیانیے کو ماڈیولز کی صورت میں ہر ادارے میں پیش کیا جائے۔ نوجوانوں کو عالمی میڈیا پر اس کشمیری بیانیے کو بیان کرنے کی تربیت دی جائے۔ سفارت خانوں کو مخصوص اہداف دیے جائیں، اور عالمی عدالتوں میں مقدمات داخل کیے جائیں۔
یوم آزادی کشمیریوں کے لیے ہر سال مزید زخم لے کر آتا ہے۔ ۷۸ سال سے وہ ایک ایسے وعدے کی تکمیل کا انتظار کر رہے ہیں جو ان کے ساتھ پاکستان نے کیا تھا ، کہ ہم تمھیں تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ کشمیری شہید ہو رہے ہیں، اور ’بیس کیمپ‘ میں جشن ہو رہے ہیں۔ یہ تحریر سوال ہے ان تمام ذمہ داروں سے جنھوں نے ’بیس کیمپ‘ کو ایک مضبوط ادارہ بنانے کے بجائے اسے سیاست کی شکار گاہ بنا دیا۔ کشمیر پکار رہا ہے: ’’ہم نے لہو دیا، تم نے کیا کیا؟‘‘اب بھی وقت ہے، ’بیس کیمپ‘ کو ’ریس کیمپ‘ سے آزاد کیا جائے۔ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے ہمیں کشمیر کے ۷۸ سالہ دکھ، قربانیاں، آنسو، جنازے، اجتماعی قبریں، بند گلیاں، تہاڑ کی سلاخیں، اور جلتی بستیوں کے حقائق پر مبنی مضبوط بیانیہ تشکیل دینے، عزم، حکمت، اور جہد مسلسل کی ضرورت ہے۔ یہی تحریک کی بقا ہے، یہی کشمیریوں کے خون کا کفّارہ بھی ہے۔
آزاد فضاؤں میں آزادی کا جشن منانے والو! ذرا سوچو! یومِ آزادی جب ہر سال پاکستان اور ’بیس کیمپ‘ میں ملّی نغموں، سبز پرچموں، آتش بازیوں، ترانوں اور جشن کی صورت میں آتا ہے، تو کشمیر کی وادی میں یہ دن ایک کرب میں ڈوبی شام کی مانند گزر جاتا ہے۔ وہاں نہ چراغ جلتے ہیں، نہ پرچم لہراتے ہیں، نہ نغمے گونجتے ہیں، بلکہ ہر گھر میں ایک شہید کی تصویر، ہر گلی میں ایک ماں کی چیخ، اور ہر بچی کے آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں، جن کی بینائی چھرّوں نے چھین لی۔
ذرا سوچو! کشمیر کی لہو رنگ وادی کو کب وہی آزادی نصیب ہوگی جو تمھیں نصیب ہے؟