۸ جولائی ۲۰۲۵ءکو، انڈین چیف آف ڈیفنس اسٹاف انیل چوہان نے نئی دہلی میں ’آبزرور ریسرچ فاونڈیشن‘ میں تقریر کرتے ہوئے چین، پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تزویراتی مفادات کے بڑھتے ہوئے اتحاد پر تشویش کا اظہار کیا۔ انھوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر یہ سہ فریقی اتحاد زور پکڑتا ہے تو انڈیا کی سلامتی کے لیے اس میں سنگین نتائج ہو سکتے ہیں اور یہ علاقائی طاقت کے توازن کو متاثر کر سکتا ہے‘‘۔
اس تبصرے کے تناظر میں چین کے صوبے یونان کے دارالحکومت کنمنگ سے گردش کرنے والی ایک تصویر سامنے آئی، جس میں تینوں ممالک کے سفارت کاروں کو علاقائی اقتصادی تعاون کی غرض سے منعقدہ پہلی سہ فریقی بات چیت کے دوران ملاقات کرتے دکھایا گیا۔ اگرچہ اس ملاقات کو باضابطہ طور پر محض سفارتی مصروفیت کے طور پر پیش کیا گیا، لیکن اس تصویر نے انڈیا کی تزویراتی صورتِ حال میں ہلچل مچا دی۔
بنگلہ دیش، جو اس معاملے کی حساسیت سے واضح طور پر آگاہ ہے، اس نے بیانیہ کو قابو کرنے کے لیے تیزی سے اقدامات کیے۔ ڈھاکہ کی عبوری حکومت کے مشیر اُمورِخارجہ توحید حسین نے کسی بلاک میں یا کسی مخالفانہ اتحاد میں شامل ہونے کے کسی بھی ارادے سے انکار کیا۔ ڈھاکہ نے دُہرایا کہ اس کی خارجہ پالیسی غیر جانبدار اور خودمختاری پر مبنی ہے۔
ان یقین دہانیوں کے باوجود، انڈیا کی تزویراتی ترجیحات تبدیل ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ نئی دہلی میں اب یہ خیال گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر محمد یونس کی عبوری قیادت میں بنگلہ دیش اپنی خارجہ پالیسی کو نئی بنیادوں پر ترتیب دے رہا ہے، جو سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کے دور میں اختیار کردہ خارجہ پالیسی سے واضح طور پر مختلف ہے۔ حسینہ واجد کے دور میں، انڈیا اور بنگلہ دیش نے غیرمعمولی گرم جوش تعلقات استوار کیے تھے، جن کی خصوصیات گہرے سکیورٹی تعاون، سرحد پار رابطہ منصوبوں اور مشترکہ علاقائی مقاصد تھے۔ ڈھاکہ نے انڈیا مخالف باغیوں کے خلاف سخت کارروائی کی۔ انڈیا کو بنگلہ دیشی سرزمین کے ذریعے سات مشرقی انڈین ریاستوں تک ٹرانزٹ کے ذریعے رسائی دی گئی، اور عمومی طور پر نئی دہلی کی تزویراتی ترجیحات کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کیا۔
جنرل چوہان نے ایک وسیع اور پریشان کن رجحان کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی: بیرونی طاقتیں – خاص طور پر چین – بحر ہند کے خطے میں اقتصادی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔ سری لنکا اور پاکستان جیسے ممالک کے چینی سرمایہ کاری اور امداد کے تابع ہونے سے یہ تشویش بڑھ رہی ہے کہ بیجنگ نرم طاقت کے ذریعے انڈیا کو منظم طریقے سے گھیر رہا ہے۔
تاہم، بنگلہ دیش کا معاملہ کچھ منفرد ہے۔ اس کی معیشت، اگرچہ دباؤ میں ہے، مگر نسبتاً مستحکم ہے، اور ڈھاکہ نظریاتی ہم آہنگی کے بجائے عملی، مفاد پر مبنی سفارت کاری پر زور دیتا ہے۔ کنمنگ اجلاس، علامتی طور پر اہم اجلاس اور سہ فریقی ڈھانچے کی تشکیل کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے۔ یہ شکل رابطہ کاری کا ایک نیا پہلو متعارف کراتی ہے جو غیر متوقع طریقوں سے ترقی کر سکتی ہے۔
تاریخ کی گونج کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں، چین اور پاکستان نے ایک مضبوط تزویراتی محور برقرار رکھا تھا جو مشرقی پاکستان – جو اَب بنگلہ دیش ہے – کو خاموشی سے شامل کرتا تھا۔ یہ ترتیب ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کی آزادی کے ساتھ ختم ہوئی۔ تاہم، آج کل، لطیف اشارے بتاتے ہیں کہ اس تزویراتی سہ فریقی اتحاد کا کچھ حصہ دوبارہ اُبھر رہا ہے، اور وہ بھی ایک زیادہ پیچیدہ جیو پولیٹیکل میدان میں۔
بیجنگ کے لیے، پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں کے ساتھ تعلقات کو گہرا کرنا جنوبی ایشیا اور بحر ہند کے خطے میں اپنا اثر و رسوخ مستحکم کرنے کے وسیع تر مقصد کے لیے اہم ترین قدم ہے۔ اسلام آباد کے لیے، یہ پیش قدمی سفارتی تحفظ اور تزویراتی فائدہ فراہم کرتی ہے۔ ڈھاکہ کے لیے، یہ تعلق ایک مؤثر حکمت عملی پر مبنی ہے۔ خاص طور پر اُس وقت، جب کہ نئی دہلی کے ساتھ اس کے مستحکم تعلقات میں تیزی سے اُبھرتی ہوئی غیریقینی صورتِ حال دکھائی دیتی ہے۔
بنگلہ دیش کا محتاط رویہ بھی غیر مستحکم ملکی سیاست سے متاثر ہے۔ جولائی ۲۰۲۴ء کے احتجاج اور ۵؍اگست ۲۰۲۴ء کو عبوری انتظامیہ کے قیام کے بعد سے، اندرونی یکجہتی میں ایک انداز سے رخنہ پڑا ہے۔ پولرائزیشن دوبارہ ابھر رہی ہے، اور ۲۰۲۶ء کے اوائل میں قومی انتخابات کے قریب آنے کے ساتھ، حکومت کی ترجیح استحکام ہے، نہ کہ کوئی دُور رس حکمت عملی۔ اس ماحول میں خارجہ پالیسی ردعمل پر مبنی ہے – نہ کہ تبدیلی پر۔
ڈھاکہ کسی بھی سمت میں زیادہ جھکاؤ کے خطرات کو سمجھتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ تاریخی ناراضیاں سیاسی طور پر حساس ہیں، جب کہ چین پر زیادہ انحصار مغرب، خاص طور پر امریکا کے ساتھ اہم تجارتی اور سفارتی تعلقات کو دباؤ میں ڈال سکتا ہے، جہاں جمہوری پسپائی اور انسانی حقوق پر تشویش بڑھ گئی ہے۔
اس تناظر میں، کوئی واضح تزویراتی قدم کسی شدید ردعمل کو دعوت دے سکتا ہے۔ کنمنگ اجلاس بنیادی طور پر اقتصادی نوعیت کا تھا – جس میں تجارت، رابطہ کاری، بنیادی ڈھانچے اور ثقافتی تعاون پر بات ہوئی۔ تاہم، جب چین اور پاکستان نے مشترکہ ورکنگ گروپ کے ذریعے سہ فریقی تعاون کو ادارہ جاتی شکل دینے کی تجویز پیش کی، تو بنگلہ دیش نے اس سے سفارتی تناظر میں گریز کیا۔
ڈھاکہ کی خارجہ پالیسی طویل عرصے سے اس اصول پر مبنی رہی ہے کہ تمام بڑی طاقتوں کے ساتھ کھلے رابطوں کو برقرار رکھا جائے اور بلاک سیاست کے جال سے بچاجائے۔ تاہم، اس کے باوجود گذشتہ پندرہ برسوں میں بنگلہ دیش خاصا انڈیا کے زیراثر ہی رہا ہے۔
انڈیا کے حوالے سے بنگلہ دیش کے اقدامات کی تشریح کے لیے باریک بینی کی ضرورت ہے، جب کہ ڈھاکہ اپنے بین الاقوامی شراکت داریوں کو وسعت دے رہا ہے۔۲۰۰۰ء اور ۲۰۱۰ء کے عشروں کے دوران، شیخ حسینہ کی عوامی لیگ نے بھارتی انٹیلی جنس اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے ساتھ قریبی رابطہ کاری کے ساتھ، باغی خطرات کو دبانے میں اہم کردار ادا کیا۔تاہم، مجوزہ سہ فریقی ورکنگ گروپ سے بنگلہ دیش کے پیچھے ہٹنے کے باوجود انڈیا چین اور پاکستان دونوں کے ساتھ بنگلہ دیش کے تعلقات کے حوالے سے شدید دباؤ کا شکار ہے۔