کتاب نما


اَلْوَلَاء وَلْبَرَاء فِی الْاِسْلَام  [اسلام میں دوستی اور دشمنی کا تصور]۔ تالیف: محمد بن سعید القحطانی ، ترجمہ: ابو احمد فرحان الٰہی۔ ناشر: تحریک تعمیر ملت،بی-۴۸، غلہ منڈی، بہاول پور ۔

شیخ محمد سعید القحطانی کی یہ تالیف ایسے زمانے میں منظر عام پر آئی ہے ،جب مسلم دنیا اندرونی اور بیرونی خطرات و خلفشار کا شکار ہے، اور ہر باشعور فرد کے ذہن میں سولات اٹھ رہے ہیں کہ اگر دو مسلمان گروہ آپس میں لڑ رہے ہوں تو کیا کیا جائے ؟اگر کوئی مسلم ملک کسی ایسے ملک کا حلیف بن جائے جو اسلام دشمنی کے لیے معروف ہے تو اس کا حکم کیا ہو گا؟مسلمان کس کو دوست اور کس کو دشمن تصور کریں،محبت اور نفرت کی بنیاد کیا ہو ؟

فصل اول میں عقیدۂ توحید اور علامہ ابن القیمؒنے کفر کی اقسام سے جو بحث کی ہے، اس کا تذکرہ ہے۔فصل ثانی میں اللہ کے دوستوں اور شیطان کے دوستوں کے درمیان فطری عداوت کا بیان ہے ۔فصل ثالث میں اس تقسیم پر اہل سنت کا عقیدہ، اور فصل الرابع میں انبیاے کرام ؑکے  اسوۂ حسنہ کے تناظر میں موضوع کا جائزہ لیا گیا ہے ۔فصل الخامس اور فصل السادس میں مکہ اور مدینہ کے تناظر میں اللہ کے دوست اور دشمنوں کا تذکرہ ہے ۔بعد کے مضامین میں غیر مسلموں کے ساتھ مسلمانوں کا رویہ ،دارلحرب کے احکام اور پھر دور حاضر میں مسلمانوں کے تعلقات پرگفتگو کی گئی ہے۔ مغربی سازشوں کاتذکرہ ہے اور بعض ان مسلمان مفکرین پر تنقید ہے جنھوںنے مغرب سے مرعوبیت کا اظہار کیا۔ آخر میں امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے باہمی اخوت پر زور دیتے ہوئے  اسلام دشمن عناصر کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے ایک ایسے معاشرے کے قیام پرمتوجہ کیا گیا ہے، جو اسلام کے دورِ اول کی یاد تازہ کرد ے ۔

بعض مقامات پر مفہوم الجھ گیا ہے، مثلاً: ص۵۹ پر خوارج کے حوالے سے درج ہے: ’’اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوارج کو قتل کرنے کا حکم صادر فرمایا:تم انھیں جہاں پائو قتل کر ڈالو۔اگر وہ مجھے مل جائیں تو میں قوم عاد کی طرح ان کو قتل کروں گا‘‘۔ تاریخی طور پر خوارج کا ظہور حضرت علی ؓ کے دور میں ہوا۔اگر حدیث میں اس کا تذکرہ بطور کسی پیش گوئی یا علامت کے  طور پر ہے تو ضروری ہے کہ سیاق وسباق بیان کرنے کے بعد حدیث کے الفاظ نقل کیے جائیں ۔ یہ ایک اہم دعوتی مسئلہ ہے۔ایمان کا تقاضا ہے کہ شرک کے ساتھ مکمل دشمنی اور براء ت کا اظہار ہو، لیکن مشرک کو دائرۂ اسلام میں لانے کے لیے اس سے رابطہ ، تبادلۂ خیال اور اپنے اعلیٰ اخلاقی طرزِعمل سے اسے اسلام سے قریب لانا قرآن و سنت کا مطالبہ ہے۔

مصنف نے اس معاملے میں قدرے عدم توازن کا اظہار کیا ہے ۔ص ۱۶۶ پر کہا گیا ہے: ’’الثالث! جس سے مکمل عداوت وبُغض رکھا جائے گا، یعنی جوشخص جو اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں ،رسولوں اور یوم آخرت کا کفر کرتا ہو۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے اسما و صفات میں اہل اسلام کے سوا کسی اور راستے پر چلتے ہوئے الحاد کا شکار ہوجائے، یا اہل بدعت اور خواہش پرستوں کے مسلک پر چل پڑے، یا دس نواقضِ اسلام میں سے کسی ایک کا مرتکب ہو ،تو ان تمام صورتوں میں یہ شخص دائرۂ اسلام سے خارج متصور ہو گا ۔اس کے ساتھ من جملہ بُغض رکھنا واجب ہو جائے گاـ‘‘۔

جس قطعیت کے ساتھ کتاب میں بعض موضوعات پر اظہار ِ خیال کیا گیا ہے ،اس پر دعوتی نقطۂ نظر سے نظرثانی کی ضرورت ہے ۔شرک اور بدعت سے نفرت تقاضاے ایمان ہے، لیکن مشرک اور بدعتی کو حکمت و نرمی کے ساتھ قرآن کریم کے بتائے ہوئے طریقے اور سنت کو سامنے رکھتے ہوئے دین سے قریب لانا اور ہدایت سے روشناس کرانا ایک فریضہ ہے ۔ فرعون سے زیادہ باغی اور کون ہوسکتا ہے، اس کے پاس حضرت موسٰی ؑاور حضرت ہارون ؑ کو بھیجتے وقت جو ہدایت کی گئی وہ جامع دستورِ دعوت ہے :  فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنًا(طٰہٰ ۲۰:۴۴) ’’اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا‘‘۔

عصر حاضر میں دعوت کاا بلاغ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہم شرک والحاد سے مکمل بے تعلقی کے ساتھ مشرکین و ملحدین اور گمراہ افراد تک اپنی دعوت قول و عمل کے ساتھ لے کر پہنچیں، اور اپنی حکمت عملی سے انھیں جہنم سے کھینچ کر جنت کی طرف لانے میں کامیاب ہوں۔(ڈاکٹر انیس احمد)


پاکستان میری محبت،ڈاکٹر صفدر محمود۔ ناشر: سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۵- شاہراہِ پاکستان (لوئر مال)، لاہور۔ صفحات: ۴۶۸۔ قیمت: ۹۹۵روپے۔

ڈاکٹر صفدر محمود دیباچے میں لکھتے ہیں: ’’پاکستان، قائداعظم، تحریکِ پاکستان، علامہ اقبال اور پاکستان کی تاریخ میری پہلی اور سچی محبتیں ہیں، اور میں زندگی بھر ان محبتوں سے وفا کرنے کی کوششیں کرتا رہا‘‘۔ ۱۴۹مضامین (جن میں سے بعض نسبتاً مختصر ہیں یا کالم) پر مشتمل ڈاکٹر صاحب موصوف کا یہ مجموعہ،ان کی مذکورہ بالا کوششوں کا ثمر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ موضوعات: ’’میرے قلب ِ ذہن کے نہایت قریب‘‘ تھے۔ کتاب کی جملہ تحریروں کو چھے حصوں(قائداعظم، علامہ اقبال، سقوطِ مشرقی پاکستان، مشاہیر، قیامِ پاکستان، متفرقات) میں تقسیم کر کے پیش کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ قائداعظم پر ۵۱ تحریروں پر مشتمل ہے اور سب سے طویل۔ گذشتہ ماہ انھی صفحات میں ہم نے ڈاکٹر صفدر محمود کی کتاب اقبال، جناح اور پاکستان کا مطالعہ پیش کیا تھا۔ اس کتاب کا بنیادی اور بڑا موضوع بھی قائداعظم علیہ رحمۃ تھے۔ تیسرا حصہ ’سقوطِ مشرقی پاکستان‘ ۱۵ تحریروں پر مشتمل ہے۔ اس موضوع پر کئی برس پہلے وہ ایک پوری کتاب (پاکستان کیسے ٹوٹا؟) لکھ چکے ہیں۔ مشاہیر کو انھوں نے ایک پاکستانی اور مسلمان کی حیثیت سے دیکھا ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود ایک ماہر اور زیرک مؤرخ اور دانش ور ہیں، جن کے خلوص اور راست فکری میں دو رائیں نہیں ہوسکتیں۔ چنانچہ انھوں نے اپنوں کی خوبیوں کے ساتھ ان کی کمزوریوں کی نشان دہی بھی کی ہے اور غیروں کی خرابیوں کے ساتھ ان کی خوبیوں کا ذکر بھی کیا ہے، یعنی مثبت اور منفی دونوں پہلو بڑے مہذب اور معتدل انداز سے پیش کیے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ان مضامین میں آپ کو ’’تحقیق اور غوروفکر کی روشنی بھی ملے گی اور بعض ایسے حقائق کی جھلک بھی، جن کی طرف عام طور پر توجہ نہیں دی جاتی‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے جن موضوعات کے ساتھ علمی زندگی بسر کی ہے، ان کے بارے میں نئے نکات و حقائق کا انکشاف اُنھیں ہی روا ہے۔ ان مضامین سے خود ڈاکٹر صفدرمحمود کے ذاتی احوال، اور تحقیق و تفتیش کے لیے  افتادِ طبع کا بھی خاصی حد تک اندازہ ہوتا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


روشن آبگینے، مرتبہ: روبینہ فرید۔ ملنے کے پتے: اکیڈمی بک سنٹر، ڈی-۳۵، بلاک۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ فون: ۳۶۸۰۹۲۰۱، مکتبہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔صفحات: ۳۴۴۔ قیمت: ۴۰۰ر وپے

ـاس کتاب کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ آج دین کے کارِعظیم سے وابستہ خواتین یہ سبق حاصل کریں کہ جذبے کو جنوں کیسے بنایا جاتا ہے؟ رکاوٹوں کے درمیان راستہ کیسے تلاش کیا جاتا ہے؟ نصب العین کو مقصد بنا کر اوقات کی تقسیم کس طرح کی جاتی ہے ؟

کتاب میں جماعت اسلامی کی ۲۲ خواتین ارکان کے حالات اس طرح بیان کیے گئے ہیں کہ قاری یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اللہ کی طرف سے دی گئی ہدایت کے بعد یہ جماعت اسلامی کے نظام تربیت اور اجتماعی ماحول کی برکت ہی سے ممکن ہو سکا، کہ یہ خواتین اس کارِعظیم کے لیے اس لگن کے ساتھ مصروفِ کار رہیں۔ ڈاکٹر رخسانہ جبیں کے بقول: ’’ اگرچہ وقت کے یہی ۲۴گھنٹے ان خواتین کے پاس بھی تھے، جو ہمارے پاس ہیں لیکن وہ ان کا بہترین استعمال کر کے ہم سب کے لیے رول ماڈل بن گئیں‘‘ ۔ ایک کتاب میں سبھی محسن خواتین کا ذکر نہیں ہوسکتا، اس لیے بہت سے اہم نام رہ بھی گئے ہیں، ان شاء اللہ آیندہ مجموعوں میں آجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ آج کی خواتین کارکنوں اور قائدات کو ان اچھے نمونوں پر عمل کرنے اور زندگیاں ان کی طرح گزارنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!  (عارفہ اقبال)

Reflections on the Socio-Political Economy [سماجی، سیاسی معیشت پر تناظرات]، مؤلفین: ارشداحمد بیگ، خرم خاں۔ ناشر: رفاہ سینٹر آف اسلامک بزنس،    رفاہ انٹرنیشنل یونی ورسٹی، اسلام آباد۔ فون: ۵۱۲۵۱۶۲-۰۵۱۔ صفحات: ۱۲۵۔ قیمت: درج نہیں۔

زراعت کے بعد صنعت و تجارت ہی انسان کا قدیم ترین پیشہ ہے لیکن پچھلی دو صدیوں میں تجارت اور خاص طور پر بین الاقوامی تجارت اور کاروبار کو جو فروغ ہوا، اس سے ساری دنیا ایک عالمی منڈی میں تبدیل ہوگئی ہے۔ تجارت اور کاروبار اب وسیع علم کی شکل اختیار کرچکے ہیں، اور ساری دنیا میں ایسے معتبر ادارے قائم ہوچکے ہیں، جہاں ان علوم کی تعلیم و تدریس نہایت اعلیٰ پیمانے پر کی جارہی ہے۔ پاکستان میں اس طرح کا پہلا بڑا ادارہ،امریکی امداد سے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی میں قائم ہوا تھا۔ اب اس طرح کے کئی ادارے سارے ملک میں قائم ہیں۔ لیکن زندگی کے اور دوسرے شعبوں کی طرح اس میدان میں بھی غیرمذہبی/لادینی اور خالص کاروباری انداز میں تعلیم و تدریس کا اہتمام ہے۔ تقریباً ساری نصابی کتابیں مغرب کے سرمایہ دارانہ اور ’خالصتاً‘ تاجرانہ انداز پر تحریر کردہ اور درآمد شدہ ہیں یا اُن کا چربہ ہیں۔ اس سلسلے میں کچھ استثنائی مثالیں، ہندستان میں شائع شدہ کتابوں کی ہیں، تاہم ہمارے طلبہ کا سارا تحصیل علم کا عمل (orientation) مغرب کے سرمایہ دارانہ، لوٹ کھسوٹ کے نظام کی تعلیم و تدریس ہی کا ہے۔ ہماری جامعات اور ’مدارسِ تجارت‘ منڈی کی معیشت کے لیے ایسے کرایے کے سپاہی تیار کر رہے ہیں، جو اس غیرمنصفانہ نظام کے چلانے میں اہلِ دولت کے رفیقِ کار ہیں۔

پیش نظر کتاب اس استحصالی حبس کے موسم میں ایک تازہ اور خوش گوار جھونکا محسوس ہوتی ہے۔ مرتبین جو رفاہ یونی ورسٹی اسلام آباد کے شعبۂ تحقیق سے وابستہ ہیں، اپنی اس کوشش کو   ’اسلام کے اخلاقی تناظر میں ایک ابتدائی مکالمہ‘قرار دیتے ہیں۔ لیکن اصل میں یہ اپنے موضوع پر ایک بنیادی حوالے کی دستاویز ہے۔

کتاب ۱۰؍اکائیوں (units) اور ایک ضمیمے پر مشتمل ہے۔ ان ابواب میں ’اسلام کا تصورِ مال اور رزق‘، ’دولت کا استعمال اور صَرف‘ ، ’وسائل: کیا وسائل فی الواقع محدود ہیں؟‘ تین بڑے نظام ہاے معیشت: سرمایہ داری، اشتراکیت اور اسلام، آبادی اور اس کی تحدید کے مسائل، دولت اور وسائل معاش کی تقسیم، کفالت، صدقہ، خیرات اور فیاضی، نیز زکوٰۃ کی اہمیت، دولت کی گردش کے لیے اِن اداروں کی اہمیت، احتیاج، ضرورت اور خواہش کے ذہنی محرکات، اسراف و تبذیر کی ممانعت اور ایک متوازن زندگی کی ضرورت و اہمیت، زمین اور اس کی تقسیم، زرعی اور صنعتی معاشی مراکز، وسائلِ دولت: زمین، سمندر، شمسی اور ہوائی توانائی، معدنی توانائی کے ذخائر: تیل، کوئلہ اور ان کا استعمال زیربحث لائے گئے ہیں۔ کاروبار اور ’کاروباری شخصیت‘ میں ہمارے لیے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ پاک بہترین نمونہ ہے۔ اس ضمن میں جائز و ناجائز، مطلوب اور غیرمطلوب، نیز سرمایہ کاری کے طریقوں، مضاربہ، مرابحہ، مشارکہ اور ر ٰبواور ’تجارتی سود‘ پر بحث کی گئی ہے۔ آخر میں فکروعمل کی ایک نئی تمثال (paradigm) پر گفتگو کی گئی ہے ، جس میں دنیا اور آخرت، مادہ اور پُرتکلف اور پُرتعیش زندگی، منافع اندوزی اور کفایت، برکت اور فلاح زیربحث ہیں۔ کتاب کے پیش لفظ میں پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد ، وائس چانسلر، رفاہ انٹرنیشنل یونی ورسٹی اسلام آباد نے بالکل درست کہا ہے کہ ’’اسلامی معاشیات، بنیادی طور پر ایک اخلاقی سیاسی معیشت ہے، جس میں سماجی جواب دہی کے تصور پر زور دیا گیا ہے‘‘۔

ضمیمے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ربوٰ (سود) سے متعلق ارشادات جمع کر دیے گئے ہیں۔ یہ اساتذہ کے لیے بھی راہ نمائی کا ایک قیمتی وسیلہ ثابت ہوگی، اور اسلامی نظامِ معیشت کے حوالے سے ایک وقیع دستاویز ہوگی۔

کتاب نہایت خوب صورت، نفیس طباعت کے ساتھ طبع ہوئی ہے۔ یہ نہ صرف کاروبار اور معاشیات کے ہر ادارے اور طالب علم کی ضرورت کو پورا کرتی ہے، بلکہ ہر دینی اسلامی مدرسے کو معلم اور طالب علم کو بھی اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر اس کا اُردو ترجمہ بھی شائع ہوجائے۔(پروفیسر عبدالقدیر سلیم)


حیاتِ رسولؐ اُمّی، خالد مسعود۔ ناشر: فاران فائونڈیشن، علق پریس بلڈنگ بالمقابل پی ٹی وی اسٹیشن، ۱۹-اے ، ایبٹ روڈ، لاہور۔ فون: ۳۶۳۰۳۲۴۴-۰۴۲۔ صفحات: ۵۹۸۔ قیمت: ۷۰۰ روپے۔

زیرنظر کتاب میں حضور اکرمؐ کی حیاتِ مبارکہ کے تمام واقعات تفصیلاً زیربحث نہیں آئے، البتہ بعض اُمور کے متعلق مصنف نے اپنا نقطۂ نظر واضح کیا ہے اور اپنی آرا محکم دلائل سے پیش کی ہیں۔ کتاب کے ۵۰؍ابواب میں سیرت النبیؐ کے متعدد پہلوئوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ چند عنوانات یہ ہیں: نظامِ نبوت و رسالت، نبی موعود کی آمد، قریش کی پریشانی اور مسلمانوں پر سختی، رسولؐ اللہ کی شخصیت پر [مشرکین کے] اعتراضات، ہجرت، حق و باطل کے درمیان پہلا معرکہ، قریش کی نئی مہم، اہلِ ایمان کی کردارکشی کی کوششیں، فتح مکہ، ختم نبوت اور جمع و تدوین قرآن، رسولؐ کے فرائض اور رسولؐ اللہ کے حقوق۔

قرآنِ مجید کو سیرت النبیؐ کے اصل ماخذ و مصدر کی حیثیت حاصل ہے۔ مصنف نے اسی خیال کے پیش نظر قرآن و سنت ہی کو مرکزِ توجہ بنایا ہے۔ عام طور پر سیرت نگار مصنّفین نے اپنی اپنی کتاب میں کسی نہ کسی خاص پہلو کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ زیرنظر کتاب میں حضور اکرمؐ کو اللہ کے رسولؐ کی حیثیت سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہی حیثیت حضور اکرمؐ کو دیگر کامیاب مصلحین، عظیم سپہ سالاروں اور داعیوں سے ممتاز کرتی ہے۔ رسول اللہ تعالیٰ کی حفاظت و نگرانی میں فرائض نبوت ادا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف کو جزاے خیر عطا کرے اور انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے۔ انھوں نے نہایت محبت و عقیدت سے رسول اکرمؐ کی سیرت ایک اُچھوتے انداز میں پیش کی ہے۔(ظفر حجازی)


مولانا عبدالسلام ندوی، ایک مطالعہ، پروفیسر ڈاکٹر کبیراحمد جائیسی۔ ناشر: قرطاس پرنٹرز پبلشرز ایند بک سیلرز، فلیٹ نمبر۲، پہلی منزل، عثمان پلازا، بلاک ۱۳-بی، گلشن اقبال، کراچی۔ صفحات مجلد: ۱۹۶۔ قیمت: ۲۴۰ روپے

علامہ شبلی نعمانی کے تلامیذ میں مولانا سیّد سلیمان ندوی کے بعد مولانا عبدالسلام ندوی کا نام سرفہرست ہے۔ مولانا نے اپنے استاد کی تاریخی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے مشاہیر اسلام، فلسفہ اور شعروادب کے میدان میں اعلیٰ خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر کبیراحمد جائیسی نے شگفتہ اندازِ تحریر کے ساتھ مولانا کی حیات اور کارناموں کا ایک عمومی جائزہ اس کتاب میں پیش کیا ہے۔

ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر کے بقول پاکستان میں مولانا عبدالسلام ندوی پر طبع ہونے والی یہ پہلی جامع کتاب ہے۔ڈاکٹر نگار نے علمی تحریرات کی اشاعت کے ذریعے اُردو اور پاکستان میں سنجیدہ علمی موضوعات کو متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے جس کے لیے وہ ہدیۂ تبریک کی مستحق ہیں۔

کتاب میں نقشِ حیات کے زیرعنوان مولانا کا سوانحی خاکہ تیار کیا گیا ہے اور پھر ان کی نثرنگاری خصوصاً مطبوعہ تصانیف کا تعارف شامل ہے۔ ان میں انقلابِ اُمم، سیرت عمر بن عبدالعزیز، اسوئہ صحابہؓ، اسوئہ صحابیاتؓ، شعر الہند اور فقہاے اسلام شامل ہیں۔

مولانا عبدالسلام ندوی برعظیم پاک و ہند میں علامہ شبلی کے تاریخ نگاری کے مدرسے کی  علمی روایت کی جامع نمایندگی کرتے ہیں۔ چنانچہ شعروادب، تاریخ ، فلسفہ و کلام پر جامعیت کے ساتھ ہرموضوع کا حق ادا کرتے ہیں۔ ان جیسی جامع شخصیات اب بہت کم نظر آتی ہیں۔ ڈاکٹر جائیسی کی یہ کتاب ہر علمی لائبریری کے سرمایہ میں شامل ہونی چاہیے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


خطبات مشاہیر، منبر حقانیہ سے (۱۰جلدیں)۔ ترتیب و تدوین، توضیح و حواشی: مولانا سمیع الحق۔  ناشر: جامعہ دارالعلوم، حقانیہ، اکوڑہ خٹک۔ فون: ۹۶۱۰۴۰۹-۰۳۰۰۔ قیمت: درج نہیں۔

اس طرح کے کارنامے دل کی لگن اور اللہ کی مدد کے بغیر انجام نہیں پاتے۔ خطباتِ مشاہیر جامعہ حقانیہ کی پیش کش ہے جو ۱۰ ضخیم جلدوں میں سامنے آئی ہے۔

عظیم بین الاقوامی یونی ورسٹی جامعہ حقانیہ کے منبرومحراب سے تقریباً پون صدی کے عرصے میں اساطین علم و فضل، علما و محدثین، مشائخ و اکابرینِ اُمت، دانش ور و مصنّفین اور نام وَر خطباے کرام جو خطبات دیتے رہے، مواعظ و نصائح کا علمی، فقہی، روحانی مجموعہ مرتب ہوگیا۔ یوں علم و عمل، معارف و حکم، دعوت و جہاد، حکمرانی و سیاست اور تصوف و ارشاد کا بحرِ ذخار وجود میں آیا جو    ۱۰خوب صورت جلدوں پر مشتمل ہے۔ کم سے کم ضخامت ۴۰۰ اور زیادہ سے زیادہ ۷۰۰ صفحات ہے۔ طباعت معیاری ہے۔ سفید کاغذ پر کھلی مشینی کتابت ہے۔ نظروں کو بھلی لگتی ہے، آسانی سے پڑھی جاتی ہے۔

منبرحقانیہ سے جامعہ کے قیام کے بعد سے جو کچھ سرگرمی ہوئی ہے جو خطابات کیے گئے ہیں، جو کانفرنسیں اور کسی خاص موضوع پر سیمی نار ہوا، کتابوں کی رُونمائی ہوئی ہے، اسے جمع کرنے کا شان دار کام کیا گیا ہے۔پہلی جلد میں دارالعلوم دیوبند کے ۱۰؍اساطین بشمول مولانا حسین احمد مدنی، طیب قاسمی اور انظر شاہ کشمیری، دوسری جلد میں مشاہیر عالمِ اسلام، تیسری جلد میں زعما مشائخ پاکستان، چوتھی جلد میں مولانا عبدالحق، پانچویں جلد میں مولا سمیع الحق، چھٹی اور ساتویں جلد میں اساتذہ جامعہ حقانیہ کے خطبات جمع کیے گئے ہیں۔ آٹھویں جلد میں کُل پاکستان اجتماع کی رُوداد ہے جو دینی مدارس کے نصاب و نظام اور تجاویز کے حوالے سے منعقد ہوا۔ نویں جلد میں کتب کی   رُو نمائی کی رُودادیں ہیں اور دسویں جلد میں جلسہ ہاے دستاربندی کے احوال ہیں (غلطی سے اس پر تقریبات راہ نمائی براے مطبوعات لکھ دیا گیا ہے)۔

 اس تفصیل سے بہت تھوڑا سا اندازہ ہوسکتا ہے کہ ان ۱۰کتابوں میں کیا کیا خزانے مستور ہیں۔ اگر ہر کتاب کو ایک صفحہ دیا جائے تو تبصرے کے لیے ۱۰صفحے درکار ہیں۔

کون سا دینی موضوع ہے جس پر گفتگو نہ کی گئی ہو۔ جہاد اور طالبان کے بارے میں تبصرہ ملتا ہے کہ مدرسے کے اساتذہ اور طالب علم ان کے شانہ بشانہ جہاد میں حصہ لے رہے ہیں۔ شریعت بل کے بارے میں جدوجہد کی پوری داستان مل جائے گی۔ غرض دین و سیاست کے قومی زندگی کے سارے مراحل نظر سے گزر جاتے ہیں۔سچی بات یہ ہے کہ ان ۱۰ جلدوں کی جو وسعت ہے اسے کسی تبصرے میں سمیٹنا تبصرہ نگار کے لیے ممکن نہیں۔ کن کن شخصیات کے نام آگئے ہیں،   شمار ممکن نہیں۔

یہ برعظیم کے اس دور کی علمی، دینی و سیاسی سرگرمیوں کے طالب علموں کے لیے شان دار تحفہ ہے۔دیگر علمی مراکز کے لیے ایک نمونے کا کام ہے۔ اگر اسی طرح کے مجلدات سب نمایاں مدرسے پیش کریں تو زبردست علمی سرگرمی سامنے آئے گی۔(مسلم سجاد)


وسط ایشیا کے شعلے (Setting the East Ablaze)، پیٹر ہوپ کرک، ترجمہ: توراکینہ قاضی۔ ناشر: ادبیات، رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۶۱۴۰۸-۰۴۲۔ صفحات:۳۰۴۔ قیمت (مجلد): ۲۲۵ روپے۔

’عظیم کھیل‘ (گریٹ گیم) کوئی نئی بات نہیں۔ گذشتہ صدی میں بھی یہ کھیل دوعالمی طاقتوں کے درمیان کھیلا گیا تھا (جو آج صفحۂ ہستی سے مٹ چکیں)، اور آج امریکا عالمی بالادستی کے لیے دہشت گردی کے خاتمے کی آڑ میں اسی روش پر گامزن ہے، جب کہ اُمت مسلمہ اس کا خصوصی ہدف ہے۔

گذشتہ صدی میں اس وقت کی دو عالمی طاقتوں برطانیہ اور سوویت یونین نے افغانستان کو مرکز بناتے ہوئے جس طرح سے یہ ’عظیم کھیل‘ کھیلا، زیرتبصرہ کتاب اس کے دل چسپ تجزیے پر مبنی ہے۔ بقول مترجم: ’’گذشتہ صدی اس گریٹ گیم کی کہانی ان دونوں عالمی استعماری طاقتوں کے مابین کشاکش کی ایک دل چسپ، خوں چکاں اور اسرارو تجسس سے بھرپور ایسی کہانی ہے جو قاری کو اپنے سحر میں جکڑنے کے بھرپور لوازم سے آراستہ ہے‘‘(ص۶)۔ پھر یہ کتاب گھر کی گواہی ہے۔ مصنف نے کتاب ان لوگوں کی یادداشتوں سے مرتب کی ہے جو عملاً اس ’عظیم کھیل‘ کا حصہ تھے۔

کتاب کے مطالعے سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ استعماری طاقتیں اپنے سامراجی عزائم اور مذموم مقاصد کے لیے کس طرح سے سازشوںکے جال بُنتی ہیں، ایجنٹوں کا جال بچھایا جاتا ہے، حساس اداروں اور حکمرانوں پر اثرانداز ہونے کے لیے افراد کو متعین کیا جاتا ہے اور پھر ان سے من مانے فیصلے کروائے جاتے ہیں۔ بسااوقات غلط فہمیاں پھیلا کر مختلف ممالک میں جھڑپیں کروائی جاتی ہیں اور انھیں اُلجھا دیا جاتا ہے۔ معصوم انسانوں کا بے دریغ خون بہایا جاتا ہے اور بڑے پیمانے پر بے دردی سے تباہی کا سامان کیا جاتا ہے۔ اس کھیل میں اصولوں اور نظریات کو بھی نظرانداز کردیا جاتا ہے،جیساکہ اسٹالن نے مطلب برآری کے لیے برطانیہ کا اتحادی بنتے ہوئے کیا۔ لمحوں میں ’سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جنگ‘ ’عوامی جنگ‘ اور بالآخر حب الوطنی کی عظیم جنگ کا رُوپ دھار گئی اور اشتراکیت کو پس پشت ڈال دیا گیا۔

آج امریکا افغانستان، عراق، عالمِ عرب اور بالخصوص پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ میں جھونک کر ایسا ہی کھیل کھیل رہا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے موجودہ ’عظیم کھیل‘ کی حقیقت اور اُمت مسلمہ جن سازشوں سے دوچار ہے ان کی وجوہات سامنے آجاتی ہیں، نیز سدباب کی حکمت عملی بھی۔توراکینہ قاضی صاحبہ نے عمدہ ترجمہ کر کے مفید علمی خدمت انجام دی ہے۔(امجد عباسی)

محترم شیخ محمد عمرفاروق صاحب کے آخری پارۂ عم کی درس کی ضخیم کتاب کا تازہ ایڈیشن دستیاب ہے۔ جس جگہ احباب گروپ بناکر باقاعدگی سے مطالعۂ قرآن کرتے ہوں، وہ درس کی اس کتاب کو ۵۰ روپے ڈاک ٹکٹ بھیج کر طلب کرسکتے ہیں۔  شیخ عمر فاروق ، 15-B وحدت کالونی، وحدت روڈ، لاہور۔فون: 042-37810845

ترجمان القرآن الکریم: ترجمانی و مختصر تفہیم،مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترتیب و تدوین: احمد ابوسعید۔ چنار پبلی کیشنز، سری نگر(ہند)۔ صفحات: ۱۳۲۰، ہدیہ: ۳۸۰ بھارتی روپے۔

دنیا کی شاید ہی کوئی قابلِ ذکر زبان ہو، جس میں اللہ کی آخری ہدایت کی کتاب، قرآنِ مجید کا ترجمہ نہ ہوا ہو۔ اُردو میں بھی متعدد تراجم موجود ہیں، مگر مولانا مودودی نے اس کتاب کا ترجمہ نہیں کیا، بلکہ اس کی اُردو زبان میں ’ترجمانی‘ کی اور چھے جلدوں میں اس کی ایک مبسوط تفسیر بھی لکھی۔

مولانا کی تفہیم القرآن مع مختصر حواشی ، ایک جلد میں بھی دست یاب ہے۔پیش نظر کتاب ترجمان القرآن الکریم میں احمد ابوسعید صاحب نے کوشش کی ہے کہ ہر آیت کے مقابل اس کی ترجمانی بھی پڑھی جاسکے۔ آیت بہ آیت ترجمانی کے لیے موجودہ مرتب نے مولانا مودودی کے ترجمے کو بڑی حد تک برقرار رکھتے ہوئے بعض جملوں کی ساخت میں کچھ تقدیم و تاخیر بھی کی ہے (النساء ۴:۱۶۰-۱۶۱)، لیکن عبارت و الفاظ میں کوئی تبدیلی نہیں کی، تاہم جملوں کی ساخت کی تبدیلی سے تعقید رفع ہو جاتی ہے، اور عبارت زیادہ صاف ہوجاتی ہے۔ التزام کیا گیا ہے کہ ’ترجمانی‘ کی سطر، آیت کے مقابل ہو۔ ہرصفحہ نئی آیت سے شروع ہوتا ہے۔ عربی متن والے ہرصفحے کے ذیلی حاشیے میں بعض عربی الفاظ کے اُردو معانی بھی دے دیے گئے ہیں۔ مولانا مودودی کے ترجمے کے اصل الفاظ کے ساتھ بعض جملوں کی ہیئت اس طرح تبدیل کی گئی ہے کہ عام مفہوم کو سمجھنے میں کوئی دقّت نہ ہو۔

رسم الخط میں ایک اچھی تبدیلی یہ ہے کہ اُردو میں ذاتِ الٰہی کے لیے ’اللہ‘ لکھا جاتا ہے۔ مرتب نے التزام کیا ہے کہ املا ’اللہ‘ ہو ۔ ’خدا‘ کی جگہ بھی ’اللہ‘ یا ’رب‘ کا استعمال کیا گیا ہے اور  ’خوفِ خدا‘ اور ’خدا ترسی‘ کی جگہ ’تقویٰ‘ ہی کا لفظ رکھا گیا ہے۔مرتب کہتے ہیں مولانا مودودی یقینا میری اس سعی کو پسند فرماتے، تاہم ہم مولانا مودودی کے ترجمۂ قرآنِ مجید مع مختصر حواشی، اشاعت ۱۹۷۳ء ، لاہور کے اصل نسخے کے مطابق من و عن نقل کرنے کی مقدور بھر سعی کی گئی ہے۔

پیش نظر ترجمان القرآن الکریم نہایت خوب صورت اور صاف عربی متن اور اُردو خطاطی کے ساتھ اچھے کاغذ پر خوب صورتی کے ساتھ طبع ہوا ہے جس پر مرتب اور ناشر مبارک باد کے مستحق ہیں۔(پروفیسر عبدالقدیر سلیم)


 وقت کی قدر کیجیے، علامہ یوسف القرضاوی، مترجم: مولانا عبدالحلیم فلاحی۔ ناشر: مکتبہ اسلامیہ، غزنی سٹریٹ، لاہور۔ صفحات:۱۳۵۔ قیمت:۲۲۰روپے۔

یہ الوقت فی حیاۃ مسلم کا اُردو ترجمہ ہے۔مؤلف نے وقت کی اہمیت کے حوالے سے کتاب کے مقدمے میں ایک انتہائی اہم تاریخی حقیقت بیان کی ہے: ’’دورانِ مطالعہ میں نے دیکھا کہ قرونِ اولیٰ کے مسلمان اپنے اوقات کے سلسلے میں اتنے حریص تھے کہ ان کی یہ حرص ان کے بعد کے لوگوں کی درہم و دینار کی حرص سے بڑھی ہوئی تھی۔ حرص کے سبب ان کے لیے علم نافع، عملِ صالح، جہاد اور فتح مبین کا حصول ممکن ہوا‘‘۔مزید یہ کہ ’’میں آج کی دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ رہتے ہوئے دیکھ رہا ہوں کہ وہ کس طرح سے اپنے اوقات کو ضائع کر رہے ہیں اور اپنی عمریں لُٹا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ اس سلسلے میں بے وقوفی سے گزر کر مدہوشی کی حد تک پہنچ گئے ہیں اور یہی سبب ہے کہ آج وہ قافلۂ انسانیت کے پچھلے حصے میں دھکیل دیے گئے ہیں حالانکہ ایک وہ بھی زمانہ تھا کہ اسی قافلے کی زمامِ کار ان کے ہاتھ میں تھی‘‘۔ (ص۱۰)

کتاب میں: قرآن و سنت میں وقت کی اہمیت، وقت کے بارے میں مسلمانوں کی ذمہ داری، مسلمانوں کی روزمرہ کی زندگانی کا نظام، انسان کا وقت ماضی، حال اور مستقبل کے درمیان، وقت کو برباد کرنے والی آفات سے آگاہی اور ضیاعِ وقت کے اسباب کو قرآن و حدیث کے جامع حوالوں کے ساتھ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ وقت کی قدر کرنے کے لیے ۲۴گھنٹوں کا قابلِ عمل منصوبہ سامنے آتا ہے۔ وقت کے بہتر استعمال اور تربیت کے لیے اس عمدہ کتاب کا مطالعہ انتہائی مفید ہوگا۔(شہزاد الحسن چشتی)


کم عمری کی شادی، عبدالرحمن بن سعد الشثری، ترجمہ: پروفیسر حافظ عبدالجبار۔ ناشر: مکتبہ بیت الاسلام،  رحمن مارکیٹ ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات:۲۳۸۔ قیمت:درج نہیں۔

کتاب میں کم عمری کی شادی کے حوالے سے تمام پہلوئوں سے جائزہ لیا گیا ہے: قرآن و حدیث کی روشنی میں کم عمری کی شادی، کم عمری کی شادی پر صحابہ و تابعین کا عمل اور صحابہ کرام اور علما کا اس کے جواز پر اجماع پر عمدہ گفتگو کی گئی ہے۔

کتاب پر حافظ ابتسام الٰہی ظہیر صاحب کا مقدمہ جامع تحریر ہے: ’’مخصوص طبقہ جو کم عمری کی شادی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھتا ہے اس سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد اس حد تک آزاد خیال ہیں کہ ہم جنس پرستی کو جائزقرار دیتے ہیں اور اسکولوں کی سطح پر جنسی تعلیم کی وکالت کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں‘‘۔

کچھ عرصہ قبل اسلامی نظریاتی کونسل نے کم سنی کی شادی کو جائز قرار دیا تھا، جس کے بعد سندھ اسمبلی میں کم سنی کی شادی کے خلاف قرارداد پاس کی گئی۔ قرارداد کے مطابق دلھا اور دلھن کے والدین کو ایسی شادی کرنے کی صورت میں تین سال کی سزا کا سامنا کرنا ہوگا۔ دوسری طرف  انسان حیران رہ جاتا ہے کہ بہت سے یورپی معاشروں میں کم عمری کی شادی کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ یونان، اسکاٹ لینڈ، آسٹریا، بلغاریہ، کروشیا اور چیک ری پبلک سمیت بہت سے ممالک میں لڑکی کے لیے شادی کی عمر ۱۶برس، جب کہ ڈنمارک، ایستونیا، لتھوانیا، جارجیا میں شادی کی عمر کم از کم ۱۵ برس ہے۔ اسی طرح جنوبی امریکا کے ممالک بولیویا اور یوراگائے میں شادی کی عمر کم از کم ۱۴برس ہے۔ ویٹی کن سے شائع ہونے والے کیتھولک چرچ کی معروف قانونی دستاویز کے مطابق لڑکا ۱۶برس اور لڑکی ۱۴ برس میں شادی کرسکتے ہیں۔پاکستان میں خصوصاً وکلا، قانون دان، پارلیمنٹرین کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔(شہزاد الحسن چشتی)


آہ بے تاثیر ہے…! عبداللہ طارق سہیل۔ ملنے کا پتا: کتاب سرائے، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون:۳۷۳۲۰۳۱۸-۰۴۲۔ صفحات:۴۰۸۔ قیمت: درج نہیں۔

آج کل اکثر اخباری کالموں کا علمی معیار،اتنا بلند نہیں کہ انھیں مستقل کتابوں کا حصہ بنایا جائے، لیکن عبداللہ طارق سہیل کا نام اس لحاظ سے بھی لائقِ توجہ ہے کہ یہ قلم کار صرف صحافی ہی نہیں بلکہ راست فکر، پختہ ذہن کے حامل دانش ور بھی ہیں۔ ان کی تحریریں علمی حقائق، ثقہ روایات اور معیاری تنقید و تبصرہ پر مشتمل ہوتی ہیں۔

زیرنظر کتاب، ان کے ۲۶ مارچ ۲۰۰۷ء سے ۹دسمبر ۲۰۱۱ء تک کے عرصے میں روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہونے والے کالموں پر مشتمل ہے۔ ان کالموں میں ملکی، قومی اور عالمِ اسلام کے مسائل زیربحث آئے ہیں۔ اسی طرح عالمی سطح کے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اور مشرقی ممالک کے جاگیردارانہ نظام کی تباہ کاریوں کو زیربحث لاکر اسلامی نظامِ حیات کے خدوخال واضح کیے ہیں۔

کالم نگار کو عربی، انگریزی اور اُردو ادب سے خاص لگائو ہے۔ ان کی تحریر ادب، تاریخ، سیاسیات اور عصری معلومات سے معمور ہوتی ہے۔ انھیں عوامی مسائل کے حل سے دل چسپی ہے بالخصوص غربت، بے روزگاری، جہالت اور تشدد کے واقعات ان کی توجہات کا مرکز بنتے ہیں۔ قدیم و جدید تاریخی پس منظر میں مصنف نے واقعات و حوادث کا تنقیدی تجزیہ پیش کیا ہے۔ (ظفرحجازی)


وہ جو بیچتے تھے دواے دل، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی۔ ناشر: دارالنعیم ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۴۴۴۱۸۰۵-۰۳۰۱۔ صفحات: ۶۵۶۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی بھارت کے ممتاز عالم دین ہیں۔ علمی حلقوں میں محتاجِ تعارف نہیں۔ عموماً علماے کرام ادیب نہیں ہوتے لیکن ان تحریروں میں مولانا ایک بلندپایہ ادیب کی حیثیت سے نظر آتے ہیں اور قاری علم و ادب اور دینی و ملّی خدمات سے متعلق اہم شخصیات کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے ساتھ ادب کی چاشنی سے بھی لطف اندوز ہوتا ہے اور ایک کیفیت سے گزر جاتا ہے۔ اس کتاب میں ۴۵ شخصیات کا تذکرہ ہے۔ پہلے باب: ’بہارِ نادیدہ‘ میں وہ ہیں جن کو مصنف نے دیکھا نہ سنا جیسے مولانا قاسم نانوتوی، سرسیّداحمد خاں، ڈاکٹر محمد اقبال، ابوالکلام آزاد، عبدالماجد دریابادی اور دیگر۔ دوسرے باب: ’دیدہ و شنیدہ‘ میں وہ نام وَر ہستیاں جنھیں مصنف نے دیکھا اور سنا جیسے قاری محمد طیب، ابوالحسن علی ندوی، مجاہدالاسلام قاسمی وغیرہ۔ تیسرے باب: ’مشفق اساتذہ اور محسن احباب‘ میں ڈاکٹر محمود احمد غازی کا بھی تذکرہ ہے۔ چوتھے باب میں والدین اور ایک خاندانی بزرگ کا تذکرہ ہے۔

مصنف نے وضاحت کردی ہے کہ منصوبے کے تحت فہرست بناکر نہیں لکھا گیا ہے بلکہ کسی کی وفات پر، یا اجراے کتب کے موقع پر لکھی گئی تحریریں ہیں۔ مصنف نے ہرہرشخصیت کے عنوان میں شعر دیا ہے جیسے عبدالماجد دریابادی کے لیے: ’ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے‘ ،’کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور‘، اور ڈاکٹر حمیداللہ کے لیے: ’ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیںہم___ کتاب کا مطالعہ بیسویں صدی میں پاک و ہند میں جو علمی، ادبی ، سیاسی سرگرمی رہی ہے اس سے بخوبی آگاہی دیتا ہے۔

مصنف کے اندازِ بیان کی جھلک دکھانے کے لیے علامہ اقبال کے بارے میں ابتدائی سطریں نقل ہیں:’’ یورپ دیدہ مگر کعبہ رسیدہ، دماغ فلسفی، دل صوفی، رازی کے پیچ و تاب سے بھی واقف، رومی کے سوز و گداز سے بھی آشنا، گفتار میں جوش، کردار میں ہوش، اسلوبِ شاعرانہ، طبیعت واعظانہ، شاعر مگر عارض و گیسو کے قصوں سے نفور، صوفی مگر مجاہدانہ جرأتوں سے معمور، علومِ جدیدہ کا شہسوار مگر ایمان و یقین سے سرشار، خود یورپ کے الحاد خانہ میں، دل حجاز کے خدا خانہ میں۔ اسی مجموعے کو اقبال کہا جاتا ہے  ع  خیرہ نہ کرسکا، مجھے جلوئہ دانش فرنگ / سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف‘‘۔ کتاب آپ ہاتھ میں لیں گے تو پڑھتے ہی چلے جائیں گے۔ (مسلم سجاد)


مکاتیب رفیع الدین ہاشمی بنام عبدالعزیزساحر،مرتب:ظفرحسین ظفر۔ناشر:الفتح پبلی کیشنز ۲۹۲-اے،گلی نمبراے،لین نمبر۵، گلریزہاؤسنگ سکیم۲،راولپنڈی۔ فون:۵۱۷۷۴۱۳-۰۳۲۲ صفحات:۱۸۴۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔

یہ کتاب ڈاکٹرہاشمی کے ۱۴۹ خطوط پر مشتمل ہے، جب کہ مکتوب الیہ ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر ان کے شاگرد ہیں۔ساحر صاحب ان کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کررہے تھے اورکچھ تساہل کا شکار تھے۔ مکتوب نگار نے یہ خط وقتاًفوقتاًانھیں متحرک کرنے اور تحقیقی کام کوآگے بڑھانے اورجلد سے جلد ختم کرنے کے لیے لکھے۔ کوئی خط ایک سطر پر ،کوئی دوپراورکوئی تین،چارسطروں پر مشتمل ہے۔  یوں یہ تمام خط ایجاز و اختصار کا عمدہ نمونہ ہیں۔ ان میں ایک استاد کااندازتربیت بھی جلوہ گر ہے۔خطوں کاایک اور نمایاں پہلو ڈاکٹر ہاشمی کی حِسّ لطافت بھی ہے۔ کہیں کہیں ہلکا مزاح ہے اورظرافت کے عمدہ نمونے بھی نظر آتے ہیں۔مرتب نے خطوں پرحواشی بھی لکھے ہیں جن سے عام قاری کے لیے متن کی تفہیم واضح اورروشن ہوجاتی ہے۔(قاسم محموداحمد)


تعارف کتب

o  تاجدار مدینہؐ کی شہزادیاں، سلام اللہ صدیقی۔ ناشر: ادارہ بتول، ۱۴-ایف، سیّد پلازا، ۳۰-فیروز پور روڈ، لاہور۔ فون: ۳۷۴۲۴۴۰۹-۰۴۲۔ صفحات: ۴۸۔ قیمت: ۶۰ روپے۔[نبی کریمؐ کی چار صاحب زادیوں (حضرت زینبؓ، حضرت رقیہؓ، حضرت اُمِ کلثومؓ اور حضرت فاطمہؓ) کے اس مختصر مطالعۂ سیرت میں جہاں رسول اکرمؐ کی اپنی صاحبزادیوں سے محبت، ان کی تربیت کا احوال درج ہے، وہاں صاحبزادیوں میں دین کے لیے تڑپ اور راہِ خدا میں جس طرح سے قربانیاں پیش کیں اور ظلم و جبر سہا اس کا احوال بھی ہے۔ نیز سیرتِ رسولؐ اور اسلامی معاشرت کے مختلف گوشے بھی سامنے آتے ہیں۔ تزکیہ و تربیت کے لیے ایک مفید کتاب۔]

o  خواتین کا مقام اور ذمہ داریاں ،ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ فون:۳۵۲۵۲۴۱۹-۰۴۲۔ صفحات:۵۶۔ قیمت: ۴۵ روپے۔[جماعت اسلامی کی تاسیس کے زمانے سے خواتین بھی دعوتِ دین کی جدوجہد میں برابر شریکِ کار ہیں۔ اس کتابچے میں مولانا مودودی، قاضی حسین احمد اور محترم سراج الحق کی تقاریر کے حصوں کو یک جا کر کے، خواتین کی جدوجہد کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔]

o  میرے درد کو جو زباں ملے، تالیف: آئی یوجرال۔ ملنے کا پتا: ۱۱۴-ڈی، ایف-۱، کشمیرپوائنٹ،میرپور، آزاد کشمیر۔ فون: ۵۶۳۸۷۵۰-۰۳۱۱۔ صفحات:۱۷۴۔ قیمت:۴۰۰ روپے۔[بزرگ صحافی انعام اللہ جرال (آئی یو جرال)کا یہ حاصلِ مطالعہ ہے۔ مختلف عنوانات کے تحت انسانی رویوں کی اصلاح، تزکیہ و تربیت، اطمینانِ قلب اور اصلاحِ معاشرہ کے لیے قرآن و حدیث، سیرت، تاریخ اور معروف کتب سے اقتباسات، دل چسپ واقعات اور حکایات پیش کی ہیں۔ الحاد کے رد اور مغربی تہذیب سے متاثر جدید ذہن کے شبہات کے ازالے کے لیے ڈاکٹرغلام جیلانی برق کی تحریروں سے خاص طور پر استفادہ کیا گیا ہے۔ مؤلف کے نزدیک راہِ نجات رجوع الی اللہ اور خلافت ِ راشدہ کے نظام کی بحالی میں ہے۔]

تاریخ افکار و علومِ اسلامی، علامہ راغب الطباخ (ترجمہ:افتخار احمد بلخی)۔ ناشر: اسلامک پبلی کیشنز،  منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۲۵۲۵۰۱-۰۴۲۔ صفحات (علی الترتیب) جلد اوّل: ۴۷۲، جلددوم: ۳۸۰۔ قیمت (علی الترتیب)جلد اوّل: ۴۴۰ روپے، جلد دوم: ۴۰۰روپے۔

یہ عربی کتاب الثقافۃ الاسلامیۃ کی اُردو ترجمانی ہے۔ ساڑھے آٹھ سوسے زائد صفحات پر مشتمل اس کتاب کو موضوع اور مضامین کے لحاظ سے دوجلدوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلی جلد ماقبل نبوت کی عرب تاریخ سے لے کر قرآن، علومِ قرآن اور حدیث و علومِ حدیث کے مباحث سے متعلق ہے۔ دوسری جلد فقہ، علوم و اُصولِ فقہ اور علم کلام و علم تصوف وغیرہ کی بحثوں پر مشتمل ہے۔

جلد اوّل میں عرب اور اسلام کے تاریخی، علمی اور تمدنی پس منظر پر نہایت اختصار سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ بعد ازاں قرآن مجید کے نزول، مضامین قرآن اور اس کے مقاصد، جمع و تدوینِ قرآن، قرآن کا اسلوب و اعجاز، لہجاتِ قرآن، قرآن کا رسم الخط، علمِ قرائ۔ت اور طبقاتِ قرائ، علمِ تجوید، تفسیر اور علمِ تفسیر، طبقات المفسرین اور ۳۶عربی تفاسیر کا اجمالی تعارف اس جامع انداز میں کرایا گیا ہے کہ ان تمام علوم وفنون کی نہ صرف وقعت و حیثیت اور اہمیت و ضرورت نمایاں ہوگئی ہے بلکہ ان کے حُسن و قبح بھی ظاہر ہوگئے ہیں۔ جلد اوّل کا دوسرا اہم مبحث حدیث اور علومِ حدیث ہیں۔ اس علم کے مقاصد و موضوعات اور اُسلوب و فصاحت کے تذکرے سے بات کا آغاز ہوتا ہے، اور پھر اقسام الحدیث، کتابتِ حدیث، جمع و تدوینِ حدیث اور اہم مجموعہ ہاے حدیث، روایت اور رواۃ، ائمہ و کتبِ حدیث کے طبقات، اُصولِ حدیث، صحاحِ ستہ اور اصطلاحاتِ حدیث کے مؤلفین کے تعارف پر اس بحث کا اختتام ہوتا ہے۔

جلد دوم علم الفقہ اور اس کی تدوین و اشاعت کی تاریخ کا احاطہ کرتی ہے۔ علومِ اسلامیہ کے تعارف اور ابتدائی تالیفات، علم الفقہ کے تاریخی ارتقا اور فقہی مذاہب کے وجوہِ اختلاف پر متوازن اور معلومات افزا بحث ہے۔ چاروں ائمہ فقہ کے مسلک، ان کے تلامذہ اور ان کی تالیفات کا تعارف پیش کیا گیا اور اُن کے دائرۂ اثر کو بھی زمینی حدود کے اعتبار سے متعین کیا گیا ہے۔ یہ بحث ابتدائی تاریخ اور عصرِحاضر کے ادوار کا احاطہ کرتی ہے۔ اس جلد کا دوسرا اہم مبحث علم الکلام اور تصوف ہے۔ جلد دوم کا تیسرا ہم مبحث علومِ ادبیہ کا تذکرہ ہے۔ اس میں علم النحو، علم الصرف،  علم الاشتقاق، علم البلاغت اور علم الجدل کا تعارف کرایا گیا ہے۔ چوتھا اہم مبحث علمِ تاریخ ہے جس میں تاریخ کے ارتقا میں مسلمانوں کی خدمات اور اسلام میں مبداے تاریخ اور تاریخ کے مشہور مؤلفین کے مباحث شامل ہیں۔ پانچواں اہم مبحث یونانی علوم کی اشاعت و اثرات پر ہے۔ چھٹا مبحث علومِ اسلامیہ کی نشاتِ ثانیہ ہے۔ اس مبحث میں زوالِ علوم و افکار کے بعد بیداری پر مختصر بات کرکے مختلف خطوں سوریا (شام)، تیونس (تونس)، جزائر (الجزائر)، مراکش (مغربِ اقصیٰ)، عراق، حجاز اور یمن کی علمی تاریخ، تنظیموں، کتابوں، علمی و تعلیمی اداروں، شخصیات اور علوم و معارف کے حوالے سے آگاہی دی گئی ہے۔

اسلامی علوم و معارف اور افکار و نظریات کو مصنف نے ’’اسلامی ثقافت‘‘ کے طور پر پیش کیا ہے۔ ثقافت کی تعریف اور تعین پر نہایت فکر انگیز مقدمہ اربابِ دانش و اہلِ اقتدار کی چشم کشائی کرتا ہے۔ اسلامی ثقافت کیا ہے؟ یہ بہت اہم سوال ہے۔ مصنف کے نزدیک مسلم تہذیب کے افکار وعلوم ہی اس کی ثقافت ہیں۔ اسلامی تاریخ سے یقینا یہی علوم و فنون مسلمانوں کی ثقافت ثابت ہوتے ہیں۔ دین تہذیب کی بنیاد ہوتا ہے اورتہذیب سے ثقافت جنم لیتی ہے۔ لہٰذا رقص و سرود اور گلوکاری و اداکاری کبھی مسلم تہذیب کی ثقافت نہیں رہی اور نہ ہوسکتی ہے۔ یہ کتاب اگرچہ شام کے اندر دمشق اور حلب کے لاکالجوں کے نصاب کے لیے مرتب کی گئی تھی مگر اس کی جامعیت اور مشمولات نے اسے پورے عالمِ اسلام کی ضرورت بنادیا ہے۔ علومِ اسلامیہ و عربیہ کا کوئی طالب علم یا اسکالر    اس کتاب سے مستغنی نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کے اعلیٰ سطحی نصابِ تعلیم میں اس کتاب کا مطالعہ لازمی قرار دیا جانا چاہیے جس طرح یہ شام کے لاکالجوں میں بطور نصاب شامل ہے۔

اس کتاب کی تصنیف و تالیف میں مصنف نے جس عرق ریزی سے کام لیا ہے لائقِ صدتحسین ہے۔ اُردو ترجمہ مولانا افتخار احمد بلخی نے کیا ہے، مگر سرورق اور اندرونی سرورق پر مترجم کا نام نہیں دیا گیا۔  افسوس ہے کہ موجودہ ایڈیشن میں صفحہ سازی اور پروف خوانی کی قطعاً ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ آیندہ اشاعت میں اس خامی کا بھرپور ازالہ کرنا ناشر پر واجب ہے۔ (ارشاد الرحمٰن)


علامہ اقبال اور میرحجازؐ ، ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی۔ ناشر: بزم اقبال ، ۲-کلب روڈ، لاہور۔ صفحات:۷۶۔قیمت: ۱۰۰ روپے۔

محسن انسانیتؐ کی شخصیت کا سورج، اختتام کائنات تک انسانوں کی راہ نمائی کرتارہے گا۔انسانوں کے بحر برعظیم ہند میں علامہ محمد اقبال وہ نابغۂ روزگار ہیں جو غلام ہندستان میں پیدا توضرور ہوئے مگراپنے افکار کے ذریعے انھوں نے غلامی(سیاسی اورذہنی، یعنی ہر قسم کی غلامی) سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔تخلیق ارض وسماسے لے کران کے اپنے دور تک،اگر انھوں نے کسی ہستی کی عظمت و بالادستی کوبسروچشم قبول کیاتووہ محمد کریمؐ کی ذات ستودہ صفات ہے     ؎

ایں ہمہ از لطفِ بے پایانِ تست

فکرِ ما پروردۂ احسانِ تست

(یہ سب آپؐ کے لطفِ بے پایاں کے طفیل ہے، ہماری فکر نے آپؐ کے احسان سے پرورش پائی ہے۔)

اقبال نے (موجودہ دور میں اردو زبان کے سب سے بڑے شاعر ہونے کے ناتے) قوت ِعشق سے ہر پست کو بالا کرنے اور دہر میں اسم محمدؐ سے اُجالا کرنے کا بیڑا اٹھایا۔

سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے اقبال کی عقیدت اورقلبی وابستگی کو واضح کرنے کے لیے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی زیر نظر کتاب ایک پُراثر تحریر ہے۔ ۷۰صفحات میں ۲۰ عنوانات کے تحت،متعدد واقعات اوردرجنوں اشعار کوتاریخی حوالوں سے اس طرح سمیٹ دیاگیاہے کہ قاری کے دل پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کتاب میں علامہ اقبال کی زندگی، رسول اکرمؐ سے ان کی محبت، سفرِحجاز کے عزم،حج بیت اللہ کی خواہش، روضۂ رسولؐ کی زیارت کے واقعات کو  یک جا کر دیا گیا ہے۔ علامہ کی خواہش تھی کہ حیات مستعار کاآخری زمانہ سرزمینِ حجازمیں بسر ہو، وہیں دَم نکلے اور وہیں دفن ہوں۔ علامہ کی اس آرزوکو بھی مؤلّف نے مؤثر اسلوب میں بیان کیاہے۔(محمد ایوب منیر)


سوے حرم، ڈاکٹر ظفرحسین ظفر۔ ناشر: قرطاس، فلیٹ نمبر ۱۵-اے، گلشنِ امین ٹاور، گلستانِ جوہر، بلاک۱۵، کراچی۔ فون: ۳۸۹۹۹۰۹-۰۳۲۱۔ صفحات:۱۱۱۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔

سوے حرم دیدۂ دل سے سفرِحجاز اور حرمین شریفین کی زیارت اور دید کا عکس ہے۔  مصنف نے اس مختصر سے سفرنامے میں روح پرور لمحوں کی تصویرکشی کرتے ہوئے ان اہم ترین مسائل کو چھیڑا ہے جن پر عام سفرنگار کم توجہ دیتا ہے۔ مثال کے طور پر کچھ علماے کرام کے نقطۂ نظر کے مطابق حدودِ حرم کے اندر وقف کا مسئلہ۔ اس کے علاوہ انھوں نے دکان داروں کے ان حربوں کا ذکر بھی کیا ہے جو دجل و فریب سے زائرین کو لوٹتے ہیں۔

بیانیہ انداز، مبالغے اور تصنع سے مبرا یہ سفرنامہ انسانی سوچ، فکر اور نفسیات کے اس پہلو کا آئینہ دار بھی ہے کہ کوئی انسان بڑی آزمایش سے دوچار ہو تو وہ صدمہ کہاں کہاں اُسے بے تاب کردیتا ہے۔ جواں ہمت انسان بھی کہاں کہاں سہاروں کے خواب دیکھتا ہے اور یقینا ایسے حساس انسان کی دعائوں کی تاثیر زوداثر ہوجاتی ہے۔ بے شک کوئی آزمایش اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر نہیں آتی اور گہرے اثرات بھی مرتب کرتی ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)


صحیفہ، شبلی نمبر، مدیر: افضل حق قرشی۔ ناشر: مجلس ترقی ادب، ۲-کلب روڈ، لاہور۔ فون:۹۹۲۰۰۸۵۶-۰۴۲۔ صفحات: ۷۲۰۔ قیمت: ۶۵۰ روپے۔

 ۲۰۱۴ء کو ’سالِ حالی و شبلی‘ کے طور پر منایا گیا۔ اخبارات و رسائل میں ملّت کے دونوں محسنوں پر بہت کچھ شائع ہوا۔ بعض اداروں نے حالی و شبلی سیمی نار بھی منعقد کیے۔ پاکستان کی نسبت بھارت میں تقریری اور تحریری لوازمہ زیادہ مقدار میں سامنے آیا۔ معارف کے مدیراعلیٰ ڈاکٹر اشتیاق احمد ظلّی کی دل چسپی سے دارالمصنّفین نے شبلی پر عالمی سیمی نار منعقد کیا تھا، پھر رسالے کے خاص نمبر کے علاوہ شبلی پر متعدد کتابیں بھی شائع کیں۔ مجلس ترقی ادب لاہور کے مجلّے صحیفہ کا زیرنظر شبلی نمبر اپنے موضوع پر ایک اہم دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ تقریباً ۵۰ مضامین پر مشتمل اس ضخیم اشاعت میں شبلی کے سوانح، تصانیف، شعری و نثری کاوشوں اور ان کی نقاد، شاعر، سیرت نگار، مؤرخ کی حیثیتوں پر ہمارے معروف اہلِ قلم (سرسیّد احمد خاں سے لے کر راقم الحروف تک) نے لکھا ہے۔

نئے اور پرانے منتخب مضامین کی تدوین، اشعار اور حوالوں کی اصلاح اور اقتباسات کی تصحیح کے ذیل میں ایڈیٹر کی محنت صاف نظر آتی ہے۔ مجلس ادارت (تحسین فراقی اور افضل حق قرشی) نے بھی مضامین کی شکل میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی کا مضمون خصوصیت سے علّامہ شبلی کے ایک ایرانی مداح و مترجم فخرِداعی گیلانی سے متعارف کراتا ہے۔ ہمارے علمی حلقوں میں بہت کم لوگ ان سے واقف ہوں گے۔

قرشی صاحب نے شبلی کی ۱۶ غیر مدّون تحریروں اور تقریروں پر مشتمل ’نوادرِ شبلی‘ پیش کیے ہیں۔  مختصر یہ کہ شبلی پر یہ ایک معلومات افزا اور مستند اشاعت ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


سرکاری اداروں کی اصلاح، پروفیسر ڈاکٹر عبد الوہاب۔ ناشر:ایٹلانٹس پبلی کیشنز، ایسڑن اسٹوڈیو کمپاؤنڈ، بی ۱۶ سائٹ کراچی۔فون:۳۲۵۷۸۲۷۳-۰۲۱۔ صفحات :۳۸۴۔ قیمت: ۵۸۰ روپے۔

پروفیسر ڈاکٹر عبد الوہاب پاکستان میں شعبۂ تعلیم کے حوالے سے کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ آپ قریباً ۴۵ سال درس و تدریس ، تعلیمی اداروں کے انتظامی معاملات اور مختلف نوعیت کی ذمہ داریوں پر فائز رہے، جہاں انھیں مختلف اور ہمہ گیر نوعیت کے تجربات اور مشاہدات ہوئے۔ زیر نظر کتاب انھی منفرد تجربات و مشاہدات کا نچوڑ ہے، جنھیں مصنف نے بہت خوبی سے قلم بند کیا تاکہ آیندہ آنے والے افراد کو ان تجربات سے استفادے کا موقع ملے۔

کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ (ص ۲۹ تا ۲۲۰) آئی بی اے سے حاصل شدہ مشاہدات سے متعلق ہے جہاں مصنف نے بحیثیت لیکچرار ، ڈین اور بعد ازاں ڈائرکٹر کی حیثیت سے ایک طویل عرصہ گزارا ہے ۔ حصہ اول میں معیارِ تعلیم کی بہتری ، ادارے میں نئے پروگرامات کے اجرا، نظم و ضبط کے اُمور، میرٹ کی بحالی، مالی بدعنوانیوں پر قابو پانا،دبائو کا مقابلہ اور تعلیمی ادارں میں امن و امان کے حوالے سے کیے گئے اقدامات اور نتائج پر گفتگو کی گئی ہے۔

کتاب کا دوسرا حصہ (ص ۲۳۰ تا ۳۷۷) جامعہ کراچی، جہاں مصنف شیخ الجامعہ کی حیثیت سے فائز رہے، کے مشاہدات پر مبنی ہے۔حصہ دوم میں جامعہ کراچی میں کی گئی تعلیمی و انتظامی اصلاحات، ریسرچ کی حالت زار اور جامعہ کے اثاثہ جات کی حفاظت سے متعلق اُمور زیربحث آئے ہیں۔

اس کتاب کا اصل سبق یہ ہے کہ کسی ادارے میں بگاڑ ہو اور سربراہ اصلاحِ احوال کرنا چاہے تو وہ بڑی حد تک کرسکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ وہ خود ایسے کردار کا مالک ہو کہ کوئی انگلی نہ اُٹھا سکے۔ مخالفتوں کا مقابلہ عزم و حوصلے سے کرے، اللہ کی مدد طلب کرتا رہے۔ داخلہ ٹیسٹ میں دو نمبر کم ہونے پر بیٹے کو بھی داخلہ نہ دیا۔ جعلی ڈگریوں کا منظم سلسلہ جاری تھا، اسے توڑنے میں کیا کچھ  نہ کرنا پڑا۔ جعلی بل پاس نہ کیے تو قاتلانہ حملہ ہوا۔ پوری کتاب اس طرح کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ آنکھیں کھولنے والی ہے اس لیے کہ ہم ۱۰، ۲۰، ۳۰ سال پہلے اور وہ بھی تعلیمی اداروں میں اتنے بڑے پیمانے پر بدعنوانی کی توقع نہیں کرتے۔ (عبداللّٰہ فیضی )

 


سو (۱۰۰)عظیم مسلم خواتین، مرتب : میر بابر مشتاق۔ ناشر:عثمان پبلی کیشنز ۱۷-بی،فیض آباد، ماڈل کالونی،کراچی۔ فون: ۷۴۲۰۸۰۱-۰۳۳۶۔صفحات:۴۶۰۔ قیمت: ۴۹۵ روپے۔

زیرتبصرہ کتاب میں تعمیرِمعاشرہ میں خواتین کے کردار کو زیربحث لایاگیا ہے اور معروف مسلم خواتین کے تذکرے کی صورت میں فکروعمل کے لیے راہ نمائی، نمونہ اور مثالی کردار اور ایمان افروز واقعات پیش کیے گئے ہیں، نیز ظلمت سے روشنی کا سفر کرنے والی معروف نومسلم خواتین کا تذکرہ بھی شامل کتاب ہے۔ گویا حضرت حواؑ سے نومسلم ڈاکٹر ماریہ تک، مختلف خواتین کے تذکرے سے اسے سجایا گیا ہے۔

ایک بنیادی چیز جو اس کتاب میں کھٹکتی ہے ، وہ یہ کہ نہ تو ان تحریروں کے مصنّفین کا ذکر  کیا گیا ہے اور نہ ان کتب اور مآخذ ہی کو نمایاں کیا گیا ہے۔ (حمید اللّٰہ خٹک)


یہودی سیاست (ماضی سے حال تک)، رضی الدین سیّد۔ ناشر: شرکۃ الامتیاز، رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۲۳۴۴۸۲۶-۰۳۲۲۔ صفحات:۲۴۷۔ قیمت: ۳۲۰ روپے۔

یہودی دنیا میں غلبے کے لیے ایک مدت سے سازشوں میں مصروف ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب میں ۱۴مسلم اور غیرمسلم (یہودی و عیسائی) مفکرین کی آرا کو پیش کیا گیا ہے، جن میں یہودیوں کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔

کیرن آرمسٹرانگ نے یہودیوں کی سازشوں کے نتیجے میں مختلف اَدوار میں یہودیوں کی جلاوطنی اور تباہی کا جائزہ لیا ہے۔ یہودی مصنف نارٹن میزونیسکی نے فلسطین اور اسرائیل کے تنازعے کا تفصیلی جائزہ پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ فلسطینیوں کی قتل و غارت گری کے علاوہ ان کا معاشی قتلِ عام بھی جاری ہے۔ ان کے لیے روزگار کے مواقع ختم کیے جارہے ہیں اور وہ بدترین حالات میں محنت مزدوری پر مجبور ہیں۔ فلسطینی بستیوں کو قصداً پس ماندہ رکھا جا رہا ہے اور فلسطینی پانی کے لیے کنویں کھودنے تک کے حق سے محروم ہیں۔

رکن امریکی کانگریس پال فنڈلے امریکا میں یہودی اثرو رسوخ کو بے نقاب کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کس طرح امریکی پالیسیاں یہودی مفادات کے تحت بنائی جاتی ہیں۔ عالمی نظامِ حکومت کے ایک ایسے منصوبے کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے جس کے تحت ۲۰۵۰ء تک دنیا کی آبادی کو مختلف حربوں سے گھٹا کر ایک ارب کردیا جائے گا اور پوری دنیا پر کنٹرول حاصل کرلیا جائے گا۔اس کتاب کے مطالعے سے یہودی ذہنیت اور سیاست کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے اور غیرمسلم مفکرین کی تحریریں اس پر صاد ہیں۔ (امجد عباسی)

Islam: It's Meaning and Message [اسلام:معنی اور پیغام]، مرتبہ:  پروفیسر خورشید احمد۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد۔ صفحات: ۲۸۴۔ قیمت: ۶۰۰ روپے۔

پروفیسر خورشیداحمد کی علمی خدمات اور اداروں کی تشکیل و تعمیر میں ایک منفرد مقام ہے۔ پیش نظر کتاب مغربی دنیا، خصوصاً انگریزی دان طبقے کو اسلام کی اساسی تعلیمات سے روشناس کرانے کے لیے تالیف کی گئی ہے۔ کتاب تین اجزا پر مشتمل ہے: اسلام کے بنیادی تصورات اور حکمت عملی پر پہلا مقالہ ادارے کا مرتب کردہ ہے۔ ایک طرح سے یہ اسلام کا عمومی تعارف ہے۔ اسلام کے بنیادی عقائد، اصول اور اس کی منفرد خصوصیات پر پروفیسر خورشیداحمد کا تفصیلی مقالہ ہے، جس میں وہ اسلام کے نظریۂ حیات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلام ایک سادہ، مگر عقلی اور عملی مذہب ہے، جو انسان کی پوری زندگی کے ایک متوازن تصور کی طرف رہنمائی کرتا ہے، اور فرد اور اجتماع کے درمیان ایک ہم آہنگ توازن ہے۔

علامہ محمد اسد لکھتے ہیں کہ عیسائیت کے برخلاف اسلام نے انسانی فطرت کو بنیادی طور پر خیربتلایا ہے، نہ کہ گناہ سے آلودہ۔ اسلام امیر اور غریب کو اپنی اپنی زندگی گزارنے کے مواقع کی آزادی دیتا ہے۔ عبدالرحمن عزام نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر روشنی ڈالی ہے۔

اللہ بخش بروہی نے انسانی تاریخ پر قرآنِ مجید کے گہرے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بیسویں صدی میں انسان نے جو مثالیے (Ideals) تسلیم کیے ہیں وہ سب ہی قرآنِ مجید کی تعلیمات میں واضح کردیے گئے ہیں۔ ان میں انسان کا احترام اور مساواتِ انسانی، تعلیم کی آفاقیت، حُریت، غلامی کا استیصال، خواتین کے حقوق اور اس طرح کی اساسی تعلیمات شامل ہیں۔ انھیں رسولؐ اللہ نے عملی نمونے کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کر کے بھی دکھا دیا تھا۔ بلاشبہہ آپؐ کا تشکیل دیا ہوا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ تھا۔

ٹی بی اِروِنگ ’اسلام اور سماجی ذمہ داری‘ کے ذیل میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ۱۰ سال کے عرصے میں عرب کے بدو، باہم آویزش میں مبتلا قبائل کو جوڑ کر ایک کر دیا۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات کے مطابق توحید ہی ہے جو سب انسانوں کو باہم متحد کر کے ایک کردیتی ہے۔ والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک، تمام انسانوں کے ساتھ انصاف اور احسان، غربا کے ساتھ بھی احترام کا اچھا رویّہ اور برتائو، قتلِ ناحق کی مخالفت__ یہ اسلام کی بنیادی تعلیمات ہیں۔

مصطفی احمد زرقا نے ’اسلام کے تصورِ عبادت‘ پر روشنی ڈالی ہے۔ عبادت، مخصوص مراسم کا نام نہیں، بلکہ یہ انسان کی ساری زندگی پر محیط نظام ہے۔ اسلام میں کردار کی دُرستی ہی کا نام عبادت ہے۔

سیّد قطب، اسلام کے سماجی انصاف کے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ساری کائنات اسلام کے نزدیک ایک اکائی ہے۔ انسان کی مادی اور روحانی دوئی کو وہ ایک غلط تفریق بتاتے ہیں۔ اسلام نے فرد اور اجتماع کی تمام ضروریات کو اعتدال کے ساتھ پورا کیا ہے۔

مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی کا تفصیلی مقالہ ’اسلام کا نظریۂ سیاسی‘، اللہ کی حاکمیت اور انسان کی خلافت، ریاست کے بنیادی اصول و مقاصد اور طریق حکمرانی کی وضاحت کرتا ہے۔

جمال بداوی نے اسلام میں عورت کے تصور اور اس کے حقوق کا جائزہ لیا ہے۔ محمد عمر چھاپرا اسلام کے معاشی نظام کی تفصیل بیان کرتے ہوئے معاشی انصاف ہی کو اسلامی معیشت کی اصل قرار دیتے ہیں۔ عبدالحمید صدیقی کے مقالے کا عنوان ہے: ’’اسلام نے انسانیت کو کیا دیا؟‘‘ سیّدحسین نصر عالمِ مغرب کے اسلام کو چیلنج اور محمد قطب ’جدید دنیا کے بحران اور اسلام‘ کے عنوان سے مذہب اور سائنس کے تعلق اور دورِ جدید کے انسان کو مذہب کی ضرورت کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔

یہ کتاب اس سے قبل اسلامک فائونڈیشن برطانیہ کے زیراہتمام بھی شائع ہوتی رہی ہے۔ کتاب کے آخر میں ’اسلامی کتابیات‘ کے عنوان سے بعض مصنّفین اور ان کی کتابوںکی فہرست دی گئی ہے، جو مؤلف کے خیال میں اسلام کی تفہیم کے لیے اہم ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اس کا ایک ارزاں ایڈیشن بھی شائع ہوجائے۔ نیز تمام انگریزی خواں تعلیمی اداروں میں اسلام کے اس تعارف کو پھیلا دیا جائے۔(پروفیسر عبدالقدیر سلیم)


روح الامین کی معیت میں کاروانِ نبوت، پروفیسر ڈاکٹر تسنیم احمد صدیقی۔ ناشر: مکتبہ دعوتِ حق، ایچ-۴، ارم ہائٹس، گلستانِ جوہر، بلاک ۱۳، کراچی- ۷۵۲۹۰۔ صفحات:۱۶۰۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر لکھنے والوں نے جس کمال حزم و احتیاط اور   تحقیق و تفحص سے کام لے کر اس فریضے کو انجام دیا اس کی مثال تاریخِ انسانی میں مفقود ہے۔    اس سلسلۂ ذہب میں کسی اُمتی کا نام شامل ہوجانا بڑی سعادت ہے۔

کتاب کی انفرادیت یہ ہے کہ اس میں واقعاتِ سیرت کا ربط پہلے دور میں نازل ہونے والی سورتوں سے قائم کیا گیا ہے۔ نیز سابقون الاولون رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کے کوائف بھی درج کیے گئے ہیں۔ ان تین موضوعات، یعنی سیرت، تفسیر اور تذکرۂ صحابہ کو ایک لڑی میں پرو کر صدرِاوّل کی تصویر کشی کی گئی ہے جو ایک مشکل امر ہے، کیوں کہ ہر سہ موضوعات تطویل طلب ہیں۔ ان کا ہم آہنگ ہونا آسان نہیں۔

کتاب میں دو ایک اُمور محل نظر ہیں۔ایک مصنف کا تفرُّد، دوسرا، حالاتِ حاضرہ سے تعرّضُ۔ تفرُّد کی مثال قاری کو وہاں ملتی ہے جہاں دیگر مصنّفین کی آرا سے اختلاف ہے، مثلاً قبل نبوت معاشرے کے بارے میں یہ اظہارِ خیال کیا گیا ہے: ’’تاریخ نگاروں اور شعرا نے ان لوگوں کے وحشی اور ظالم ہونے کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ قطعاً غلط اور نامناسب ہے۔ یہ چُنیدہ انسانی اجتماع تھا جو آنے والے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور اُن کے استقبال کے لیے اللہ نے تیار کیا تھا اور ہرلحاظ سے اس ذاتِ گرامی کے شایانِ شان تھا‘‘۔ اختلاف کا تقاضا تھا کہ مطعون تاریخ نگاروں کے منفی شواہد کے مقابلے میں مثبت تاریخی شواہد پیش کیے جاتے۔ یہاں ہم نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد مبارک کا حوالہ دیں گے، فرمایا: عائشہ تیرے آقا کو اللہ کی راہ میں جس قدر ستایا گیا ہے کسی نبی ؑ کو نہیں ستایا گیا (او کما قال)، جو درج بالا تحریر کے منافی ہے۔

اسی طرح دیگر تحریکی جماعتوں کے بارے میں تنقیص و تبصرہ: ’’اس بات پر ذرا غور کریں کہ آج دین کے لیے اُٹھنے والی تحریکیں، قرآن کے اس چارٹر کا کتنا خیال رکھتی ہیں کہ جب تک قریب آنے والے افراد اپنی سیرت کی تعمیر میں ان ابتدائی مطالباتِ سیرت پر پورے نہ اُتر جائیں انھیں احیائی تحریکوں میں کوئی مقام حاصل نہیں ہونا چاہیے.... اور ہرکلمہ گو کو جو چندا دے سکے اور لفاظی کرسکے اس کو دینی تحریک اپنے سر پر بٹھائے گی‘‘ وغیرہ جیسے فاصلہ کن رواں تبصرے (sweeping remarks) کی شمولیت موضوع سے مغائرت کے علاوہ دینی حکمت کے بھی منافی ہے۔اپنے موضوع کے اعتبار سے اگر کتاب کا نام ’کاروانِ نبوت‘ کے بجاے ’کاروانِ نبوی‘ ہوتا تو زیادہ مربوط ہوتا۔ (پروفیسر عنایت علی خان)


اسلام اور جدیدیت کی کش مکش، محمد ظفر اقبال۔ ناشر: ادارہ علم و دانش، مکتبہ عمرفاروق، ۵۰۱/۴۔ شاہ فیصل کالونی، کراچی۔ فون:۹۶۰۰۰۹۰-۰۳۱۴۔ صفحات: ۵۳۶۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔

کتاب کے نام کی وضاحت اس کی ضمنی سرخی سے ہوتی ہے:’’روایتی اسلامی فکر پر سیکولر اعتراضات کا تحقیقی مطالعہ‘‘۔ پاکستان ہی نہیں، مسلم دنیا میں ’اسلام اور جدیدیت‘ یا پھر درست اصطلاح استعمال کی جائے تو ’اسلام اور سیکولرزم‘ کی کش مکش کا سرا اٹھارھویں صدی عیسوی سے  جڑتا ہے، جب مغرب کی سامراجی قوتوں نے مسلم علاقوں پر جارحانہ یلغار کا سلسلہ شروع کیا۔ برعظیم پاک و ہند میں اس فکر کے ڈانڈے سرسید احمد خاں کی تحریک سے جڑتے ہیں، تاہم وہ دینی پس منظر اور وضع داری کے باعث اکثر حجاب و احتیاط کا دامن تھامنے کی کوشش بھی کرتے۔ بہرحال، اس خطۂ زمین میں نام نہاد ’جدیدیت‘ (دراصل لادینیت اور ’تشکیک‘) کے مدارالمہام نیاز فتح پوری ہی تھے۔

یہ فکر کبھی ’ملائیت‘ پر پھبتی کسنے اور شریعت کو نشانہ بنانے میں ڈھلی، اور کبھی انکار سنت اور نیاز مندیِ مغرب کے پلنے میں پروان چڑھی۔ کچھ ’دانش وروں‘ نے اِدھر اُدھر کے سہارے تلاش کرنے کے بجاے عملاً: سینٹ پال کی ڈگر یا مارٹن لوتھر کے راستے کا انتخاب کیا۔ اس شاہراہ کا زادِراہ دو لفظوں کو بنایا گیا: ’روشن خیالی‘ اور ’اجتہاد‘ ۔ ’روشن خیالی‘ توخیر اسلامی علم کلام کا حصہ نہ تھی، یہ خالص مغربی اصطلاح تھی، البتہ ’اجتہاد‘ فی الواقع دینی اصطلاح تھی۔ اب ان دو مورچوں سے فکری یلغار کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ اس فوج میں بعض بھلے لوگ بھی رضا کار بن کر شامل ہو گئے۔ چونکہ ایسے بہت سے افراد عربی سے نابلد ہونے کے سبب اسلامی الٰہیات کے متن تک براہ راست پہنچ نہ رکھتے تھے، اس لیے وہ ترجموں کی مدد سے کام چلانے لگے۔

زیر نظر کتاب درحقیقت گذشتہ ڈیڑھ سو سال میں پروان چڑھتی ایسی ہی ’جدیدیت‘ کی صدا ے بازگشت کا تجزیہ ہے۔ حوالہ اگرچہ محترم ڈاکٹر منظور احمد صاحب کی فکر و دانش ہے، جنھیں اُس ’قافلۂ خرد مندی‘ کے ایک اہم دانش ور کے طور پر شمار کیا جاتا ہے، جس میں سرسید احمد، نیاز فتح پوری، علامہ عنایت اللہ مشرقی، اسلم جیراج پوری، غلام احمد پرویز، ڈاکٹر فضل الرحمن کسی نہ کسی روپ میں جلوہ افروز رہ چکے ہیں۔ڈاکٹر صاحب کے افکار و آثار کا یہ تجزیاتی مطالعہ، ڈیڑھ سو برس پر پھیلی اسی ’خرد مندی‘ سے متعارف کراتا ہے۔ زیربحث موضوعات کا پھیلائو: قرآن کے کلامِ الٰہی ہونے میں شک و شبہہ، حجیت ِ حدیث سے انکار، اجتہاد کے پردے میں آزاد روی، سود کے مسئلے سے لے کر حدود تک میں انوکھی بلکہ خالص تجدد پسندانہ تعبیرات، سیکولرزم کی ترویج اور اس سے وابستہ دیگر اُمور پر محیط ہے۔

ظفر اقبال نے متانت، سنجیدگی، تحقیق اور احتیاط سے چیزوں کو ان کے پس منظر میں دیکھنے اور بنیادی سوال اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ اکثر ’خردمند‘ یہی کہتے ہیں : ’’ہماری بات کو درست طور پر سمجھا نہیں گیا‘‘۔ مگر اس کتاب میں پوری طرح احتیاط برتی گئی ہے کہ سیاق و سباق کو خبط نہ ہونے دیا جائے۔ بلاشبہہ یہ کتاب دین اسلام پر نام نہاد جدیدیت کی یلغار کو سمجھنے میں ایک مفید ماخذ ہے۔ تاہم، کتاب کے نام میں ’روایتی اسلامی فکر‘ درست بات نہیں ہے۔ (سلیم منصور خالد)


اکیسویں صدی کے سماجی مسائل اور اسلام، ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی۔ ناشر:   مکتبہ قاسم العلوم،رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات:۲۵۶۔ قیمت: درج نہیں۔

۲۱ویں صدی جہاں سائنسی ایجادات و اکتشافات ٹکنالوجی ، آزادی، مساوات، عدل و انصاف، بنیادی انسانی حقوق، حقوقِ نسواں جیسے تصورات کی صدی قرار پائی، وہیں اپنے جلو میں بے شمار  سماجی اور اختلافی مسائل بھی ساتھ لے کر آئی ہے۔ ان مسائل نے انسانی زندگی کو پیچیدہ بنانے ،  فتنہ و فساد، پریشان خیالی اور بے راہ روی سے دوچار کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی، جس کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا فتنہ و فساد کی آماج گاہ، اخلاق و شرافت سے عاری اور مادرپدر آزادی کے ساتھ انسان کو حیوان اور معاشرے کو حیوانی معاشرے کی صورت میں پیش کر رہی ہے۔

۲۱ویں صدی کی رنگارنگی اور بوقلمونی سے جنم لیتے مسائل تو بے شمار ہیں لیکن ان میں سے چند اہم مسائل پر معروف عالمِ دین ، محقق اور مصنف ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے قلم اُٹھایا ہے۔ زیرتبصرہ کتاب میں کُل ۱۱مضامین جن میں نکاح کے بغیر جنسی تعلق، جنسی بے راہ روی اور زناکاری، رحم مادر کا اُجرت پر حصول، ہم جنسیت کا فتنہ، مصنوعی طریقہ ہاے تولید، اسپرم بنک: تصور اور مسائل، رحمِ مادر میں بچیوں کا قتل، گھریلو تشدد، بوڑھوں کے عافیت کدے، پلاسٹک سرجری اور عام تباہی کے اسلحے کا استعمال شامل ہیں۔ ان مسائل پر تحقیقی انداز میں بحث کے ساتھ ساتھ اسلام کا نقطۂ نظر پیش کیا گیا ہے۔ اس طرح وقت کی ایک اہم ضرورت پوری کی گئی ہے۔(عمران ظہور غازی)

 


پاکستان سے بنگلہ دیش، شریف الحق دالم۔ ناشر: جمہوری پبلی کیشنز، ۲۴- ایوانِ تجارت روڈ، لاہور۔ فون: ۳۶۱۴۱۴۰-۰۴۲۔صفحات : ۵۱۶۔ قیمت مجلد: ۵۸۰روپے۔

۱۹۷۱ء میں، آخرکار متحدہ پاکستان ایک داخلی انتشار اور بھارتی جارحیت کے نتیجے میں دوٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا، مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بن گیا۔ یہ کتاب تب پاکستانی فوج کے بنگالی نژاد میجر (بعدازاں کرنل اور سفیر) کی ایک بھرپور جنگی و سیاسی رُودادِ زندگی کا باب ہے، جس میں انھوں نے کوئٹہ چھائونی سے فرارہوکر، خود اپنی پاکستانی فوج کے خلاف لڑنے کے لیے ہندستان پہنچنے کی اسکیم بنائی۔ اس ضمن میں کتاب کے حصہ اوّل اور دوم (ص ۱۹-۱۶۲) کو پڑھتے ہوئے قاری ایک ہوش ربا جاسوسی ناول کا ذائقہ چکھتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فوجی زندگی سے باہر کا پروپیگنڈا کس طرح خود فوج کے کڑے نظم و ضبط میں افسروں اور جوانوں کو بھی متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔   نسلی قوم پرستی کی تیز آنچ نے میجردالم کی حسِ عدل کو اس طرح مفلوج کیا کہ وہ مارچ ۱۹۷۱ء کے اواخر میں پاکستانی فوج کے جوابی آپریشن کی مبالغہ آمیز داستانوں پر تو آج بھی یقین رکھتے ہیں، لیکن وہ اپنی کتاب میں ایک سطر بھی ان مظلوم غیربنگالی پاکستانیوں کے لیے نہیں لکھ سکے، جنھیں   یکم مارچ سے ۲۵مارچ ۱۹۷۱ء تک عوامی لیگیوں اور خود پاکستانی مسلح افواج کے باغی بنگالیوں نے بے دریغ قتل کیا تھا، مظلوم عورتوں کی بے حُرمتی کی، لُوٹ مار مچائی اور ننگ ِ انسانیت فعل انجام دیے۔ جسے لسانی قوم پرستی کا شیطانی جنون کہا جاسکتا ہے۔

کتاب کا حصہ سوم (ص ۱۶۳-۲۵۲) قدرے مختصر ہے۔ یہ حصہ مصنف کے شعور میں پیوست دو قومی نظریے پر مبنی مسلم قومیت کے آثار نمایاں کرتا ہے، جب وہ سرزمینِ ہند پر ہندستانی مسلح افواج اور خفیہ ایجنسیوں کے اس امتیازی رویے کو دیکھنا شروع کرتے ہیں۔ دالم کو قدم قدم پر احساس ہوتا ہے کہ یہ علیحدگی، آزادی سے زیادہ بھارتی غلامی کی طرف جھکائو کے رنگ میں رنگی جارہی ہے، یا اسے بھارتی غلامی کی زنجیر میں باندھ دیا جائے گا۔

حصہ چہارم (ص ۲۵۳-۴۵۰) شریف الحق دالم جیسے فوجی آفیسر کی سیاسی حساسیت، جمہوریت و اشتراکیت کے گہرے مطالعے، تاریخ کے وسیع فہم اور روزمرہ سیاسیات کے تضادات کا ایک ایسا ریکارڈ پیش کرتا ہے کہ صاحب ِ تصنیف کی سنجیدگی اور بے لوثی کا اعتراف کیے بغیر نہیںرہا جاسکتا۔ اس مرکزی حصے میں وہ تفصیل سے بتاتے ہیں کہ شیخ مجیب کس طرح روزِ اوّل سے پوری قوم کو اپنی اور بھارتی غلامی میں لے جانے کے لیے سرگرم کار تھا، جب کہ عوامی لیگ کے غنڈا عناصر پورے ملک میں لُوٹ مار اور ظلم کا بازار گرم کیے ہوئے تھے۔ اسی طرح وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح بنگالی ہٹلر مجیب کو اقتدار سے ہٹانے کا منصوبہ ۱۵؍اگست ۱۹۷۵ء کو کامیابی سے ہم کنار ہوا۔ پانچواں حصہ (۴۵۱-۵۱۶) مجیب کے خاتمے کے بعد کی ریاستی صورت حال کے اُتارچڑھائو کو واضح کرتا ہے۔

یہ کتاب دراصل خوابوں کے بننے اور بکھرنے کی دستاویز ہے، جس میں مصنف نے بڑی روانی اور مشاقی سے تاریخ کا ایک ایسا ریکارڈ مطالعے کے لیے فراہم کردیا ہے، جو اپنے دامن میں عبرت کا درس رکھتا ہے۔ خاص طور پر پاکستان میں علیحدگی پسند عناصر کے لیے تویہ کتاب قطب نما کے مصداق ہے۔ تاہم اس کتاب کے کئی مقامات محلِ نظر ہیں، جن میں وہ سیکولرزم، اسلام، سوشلزم اور پاکستان کے موضوعات کو زیربحث لاتے ہیں۔

اس کتاب کا مطالعہ کرتے وقت یہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ اسے ایک بنگلہ دیشی قوم پرست (بنگالی قوم پرست نہیں، کیونکہ بنگلہ ’دیشی قومیت‘ بہرحال دو قومی نظریے کی شکل میں زندگی کی جنگ لڑرہی ہے) نے لکھا ہے جو پہلے پاکستانی تھا، مگر بعد میں پاکستان کے خلاف لڑا، اور اسی پس منظر ہی میں اس نے بہت سے واقعات کی تعبیر کی ہے، یا انھیں پیش کیا ہے۔ رانا اعجاز احمد نے کرنل (ریٹائرڈ) شریف الحق دالم کی کتاب Untold Facts کا بہت رواں ترجمہ کیا ہے، لیکن بنگلہ زبان سے ناواقفیت کے باعث، بنگالی الفاظ کو متعدد جگہ درست طور پر نہیں پیش کیا جاسکا، مگر اس کمی کا کتاب کے مجموعی تاثر اور تاثیر پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔ پاکستانی تاریخ کے تکلیف دہ باب کا یہ تکلیف دہ مطالعہ کئی سبق رکھتا ہے۔(سلیم منصور خالد)


ماہنامہ عفت(تعلق باللہ نمبر)، مدیرہ: سلمیٰ یاسمین نجمی۔ پتا: ۲۶۷- اسٹیٹ لائف بلڈنگ، صدر روڈ، راولپنڈی صدر۔ فون: ۸۵۵۶۶۵۲-۰۳۴۶۔ صفحات:۲۴۰۔ قیمت: ۱۱۵ روپے۔ زرسالانہ: ۴۰۰ روپے۔

تعلق باللہ پر یہ اپنی ہی نوعیت کی ایک پیش کش ہے، جس میں اس موضوع کے مختلف پہلو: اللہ کی شان ربوبیت، اس کی مخلوق سے محبت اور تعلق، ہماری اپنے خالق سے محبت کے تقاضے، اس کی ذات، اس کی صفات اور اس کے اختیارات اس طرح سامنے لائے گئے ہیں کہ قاری ایک کیفیت میں پڑھتا، اثر قبول کرتا اور اپنے اللہ سے قرب محسوس کرتا ہے۔ یہ آیات و احادیث یا احکام کو براہِ راست پیش کرنے کے بجاے باتوں ہی باتوں میں، کہانیوں اور افسانوں کے ذریعے ادب کی چاشنی کے ساتھ، عملی زندگی کے ہر سرد و گرم میں تعلق باللہ کی آبیاری کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بہترین حمدیہ کلام میں اللہ سے تعلق کا بہترین اظہار ہے۔ حکیم محمدعبداللہ نے اپنی رحلت سے ایک روز قبل جو حمد لکھی اس کے دو اشعار ہیں:

میرے دل کی ہے یہی آرزو

تیری راہ میں میرا بہے لہو

نہ یہ زخم ہو میرا رفو

تیرے دَر پر پہنچوں میں سرخ رو

بیش تر تحریریں خواتین نے لکھی ہیں۔(مسلم سجاد)


تعارف کتب

o  پاکستان اور رُوہنگیا مسلمان ، تالیف: مولانا محمد صدیق ارکانی۔ ناشر: جمعیت خالد بن ولید الخیریہ، ارکان، برما۔ فون: ۸۲۳۶۵۰۰-۰۳۲۱۔ صفحات: ۶۲۔ قیمت: درج نہیں۔ [رُوہنگیا (ارکانی) مسلمانوں پر میانمار (برما) میں ڈھائے جانے والے مظالم نے انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ مؤلف نے ارکان اور برما کے متعلق بنیادی معلومات، جدوجہد کے مراحل کے ساتھ ساتھ حالیہ مظالم کے خلاف پاکستان میں طبع شدہ مضامین اور بیانات کو یک جا کردیا ہے۔ اس طرح سے ارکان کے مسئلے سے آگہی کے لیے مفید معلومات یک جا ہوگئی ہیں۔]

o  ماں کی مامتا ، حافظ محمد ادریس۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۲۵۲۴۷۵- ۰۴۲۔ صفحات: ۴۰۔ قیمت: ۱۲۰روپے۔[قرآنی قصص میں بنی اسرائیل کا مفصل تذکرہ آتا ہے۔ حافظ محمد ادریس صاحب نے ماں کی مامتا کے عنوان سے بچوں کی تربیت کے لیے اس قصے کو دل چسپ انداز میں پیش کیا ہے۔ مختلف عنوانات کے تحت جہاں بنی اسرائیل کی نافرمانیوں اور ہٹ دھرمیوں کا تذکرہ ہے وہاں مسلمانوں کے لیے عبرت اور سبق بھی ہے۔ مسلم ہیرومہدی سوڈانی کے کردار اور جس طرح اس نے انگریزوں کا مقابلہ کیا اس کا الگ تذکرہ ہے۔ہرکہانی کے آخر میں اہم نکات ذہن نشین کرنے کے لیے مشقی سوالات بھی دیے گئے ہیں۔]

المدرسہ ۲۰۱۵ئ، ناشر:المدرسہ لٹریری اینڈ کلچرل سوسائٹی، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ، بھارت۔ صفحات ۲۰۴ (مجلاتی سائز مجلد)۔ قیمت:درج نہیں۔

یہ ایک یادگار مجلہ ہے، رنگین، دیدہ زیب، زرِ کثیر سے شائع کردہ، جس کی پیش کش دل نواز اور ترتیب و تدوین خوش کن۔ یہ چیزیں تو اور بھی جگہوں پر ہوتی ہیں، مگر اس اشاعت کی اس ثانوی خوبی کے ساتھ اصل خوبی اس کا پیغام اور اس کے مندرجات کی انفرادیت ہے۔ اس مجلے کی خوبی  یہ ہے کہ قاری، رواں دواں اسے دیکھتا اور پڑھتا چلا جاتا ہے۔ نئی نسل کے جذبات اور تعمیری اہداف سے واقفیت حاصل کرتا ہے اور مسلم دانش وروں کی تخلیقی سوچ سے متعارف ہوتا ہے۔

مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کے وائس چانسلر جنرل (سابق) ضمیرالدین شاہ کے عالی دماغ نے، دینی مدارس پر یلغار کے بجاے انھیں عمومی دھارے میں لانے کے لیے نومبر ۲۰۱۳ء میں ’’برج (Bridge:پل) کو رس‘‘ کا اجرا کیا۔ یعنی دینی اور دنیاوی تعلیم کے درمیان ربط و تعاون کی عملی، تدریسی اور تحقیقی صورتوں کی ٹھوس بنیادوں پر تشکیل۔ اس پروگرام کے تحت دینی مدارس کے طلبا و طالبات کو ایسی صلاحیت و قابلیت سے آراستہ کرنے کا اہتمام کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ دینی و علمی میدان میں کارہاے نمایاں انجام تو دیں ہی، لیکن اگر چاہیں تو میڈیکل، انجینیرنگ، انتظامیات اور سائنس کے شعبوں میں بھی داخلہ حاصل کرسکیں۔

مسلکی اور گروہی بنیاد پر دینی مدارس کی تقسیم بڑی واضح ہے۔ اس کورس کے ذریعے، زیرتعلیم طالب علموں کو اس محدود دائرے سے بلند ہوکر وسیع تر بنیادوں پر اُمت ِ مسلمہ کا رہنما بنانا پیش نظر ہے۔جس کے لیے فیکلٹی میں جملہ مکاتب ِ فکر کے فاضل علما بھی شامل ہیں۔ اس کورس کے فاضلین عملی میدان میں کس فکرونظر کے حامل ہوں گے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ لیکن اگر اس کورس کی تدریس کے دوران ’تجدد پسندی‘ ،’مداہنت روی‘ اور انکار حدیث و سنت کے سایے گہرے ہوئے، تو سمجھ لیجیے کہ خواب بکھر جائے گا۔ اللہ کرے ایسا نہ ہو۔اس ’سووینیر‘ (اُردو،انگریزی) میں بہت سے طلبا و طالبات نے کورس کی تکمیل یا زیرتعلیم ہوتے ہوئے اپنے مشاہدات کو اس طرح  بیان کیا ہے کہ ضمیرالدین شاہ صاحب کی کوششیں رنگ لاتی دکھائی دیتی ہیں۔ (سلیم منصورخالد)


آزادیِ صحافت- سب سے بڑی جنگ، احفاظ الرحمن۔ ناشر: رکتاب پبلی کیشنز،      ۴۸- جبل رحمت ٹاور، گلستانِ جوہر، کراچی۔ فون: ۲۳۹۳۱۴۳-۰۳۰۰۔ صفحات: ۵۹۰۔ قیمت: ۹۰۰ روپے۔

زیرنظر کتاب بنیادی طور پر ۷۸-۱۹۷۷ء میں، جنرل محمد ضیاء الحق کے مارشل لا کے دوران صحافت پر گزرنے والی کٹھن رات کی رُوداد ہے۔ اسی طرح تمام مکاتب ِ فکر سے متعلق صحافی کارکنوں کی جدوجہد، مشکلات، قربانیوں اور قیدوبند کی صعوبتوں کی تفصیلات ہیں۔کتاب پر سوشلسٹ گروہ کی گہری چھاپ ہے جن کا طرزِفکر یہ ہے کہ: ’پاکستان کی تاریخ کے تمام مسائل، ۱۹۷۷ء سے ۱۹۸۸ء کے دوران ہی پیدا ہوئے‘۔ اس کتاب میں بھی یہی آہنگ موجود ہے اور جماعت اسلامی کے لیے طعنہ زنی کا اہتمام بھی۔ مگر اس کے باوجود اگر کوئی ایسا مقام آیا کہ جب احفاظ الرحمن کا کوئی ممدوح راستے میں آیا تو اس کو کٹہرے میں لانے کی راہ میں مؤلف نے کوئی  ہچکچاہٹ نہیں برتی۔

مثال کے طور پر: ’بھٹو کے دور میں تعزیراتِ پاکستان میں اس قسم کی ترامیم کی گئی تھیں‘ جن کے نتیجے میں الزام لگانے والے پر ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری کے بجاے [اپنی] بے گناہی کا ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری ملزم پر ڈال دی گئی تھی۔ قانون کے نام پر اس ظالمانہ لاقانونیت کے نفاذ کے خلاف بھی [ہم نے] ملک گیر تحریک چلائی‘‘ (ص۵۱۵)۔ اسی طرح ۱۹۷۴ء میں روزنامہ مساوات میں خودپیپلزپارٹی کی جانب سے صحافی کارکنوں کے خلاف ’بھٹوگردی‘ اور اس کی قیادت کرتے ہوئے عباس اطہر کی یلغار (ص ۵۲۴-۵۳۰) کا حوالہ عبرت ناک ہے۔

اسی طرح یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۷۷ء کے مارشل لا کی فوجی عدالتیں کس انداز سے ’فراہمی عدل‘ کا اہتمام کرتیں اور کیسے خودساختہ گواہوں کے ’حلفیہ‘ بیانات پر، ملزم کو جرح و صفائی کا موقع دیے بغیر کوڑوں اور قید کی سزائیں دیتیں۔

۱۸جولائی سے ۱۲ستمبر ۱۹۷۸ء کے دوران ۲۱۸ صحافی گرفتار ہوئے (ص ۱۹۶-۲۰۸)۔ ان قیدیوں کے خطوط اور رُودادِ اسیری میں بہت سے نکات، جذبے کو مہمیز لگاتے، اور ادب و اظہار کے زاویے نمایاں، دُکھ اور عمل کی راہوں کو واشگاف کرتے ہیں۔(سلیم منصور خالد)


الایام،مدیر: ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر۔ ناشر: مجلس براے تحقیق اسلامی تاریخ و ثقافت، فلیٹ ۱۵- اے، گلشنِ امین ٹاور، گلستانِ جوہر، بلاک ۱۵، کراچی۔ فون: ۲۲۶۸۰۷۵۔ صفحات: ۳۷۹۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

الایام ایک غیر سرکاری ادارے کے تحت شائع ہوتا ہے۔ زیرنظر جنوری تا جون ۲۰۱۵ء کا شمارہ ہے۔ الایامکثیراللسانی رسالہ ہے۔ انگریزی میں دو، فارسی اور عربی میں ایک ایک مضمون شامل ہے۔ یہ مجلہ ایچ ای سی کی منظور شدہ فہرست میں شامل ہے۔

 اس میں تاریخ، حدیث، ادب، مصوری وغیرہ کے موضوعات پر وقیع مقالات شامل ہیں، مثلاً: ’صحیح بخاری کے اشکالات اور ان کے حلول‘، ’مسلمان اور فنِ مصوری‘، ’مستشرقین اور  ڈاکٹر محمد حمیداللہ‘، ’برصغیر میں قرامطہ کا سیاسی اثرورسوخ‘، ’علامہ راشدالخیری، بحیثیت تاریخ و سیرت نگار‘۔ ’پروفیسر محمد شکیل اوج مرحوم‘ پر چھے مضامین شامل ہیں، جو ان کی شخصیات اور علمی و دینی خدمات کی تفصیل پیش کرتے ہیں۔

’حضور بے حضوری‘ کے عنوان سے جناب عارف نوشاہی کے عمرے کے دوسفرنامے اپنے اندر علمی اور تحقیقی پہلو رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر نگار سجاد نے کلیم عاجز کا مختصر خاکہ پیش کیا ہے جس میں ان کے ادبی و شعری کمالات بھی سامنے آئے ہیں۔’مطبوعات جدیدہ‘ الایامکا مستقل حصہ ہے۔ محمد سہیل شفیق نے ۱۹ تازہ رسالوں اور کتابوں کا مختصر مختصر تعارف کرایا ہے، اور ’بیادِ رفتگان‘ میں زیباافتخار نے مرحومین کا مختصر تذکرہ کیا ہے۔

الایام میں موضوعات اور مضامین کا جو تنوع ہے، وہ یونی ورسٹیوں کے رسالوں میں کم ہی دیکھنے میں آتا ہے، چنانچہ اساتذہ اور تحقیق کرنے والے طلبا و طالبات کے علاوہ عام قارئین کے لیے بھی اس میں دل چسپی کا سامان موجود ہے۔ اگر آیندہ اشاعتوں میں مضامین پر مراسلات کا سلسلہ بھی شامل کیا جائے تو مفید ہوگا۔ (رفیع الدین ہاشمی)


ہم بھی وہاں موجود تھے، عبدالمجید ملک۔ ناشر: سنگ ِ میل پبلی کیشنز، لاہور۔ فون: ۳۷۲۲۰۱۰۰-۰۴۲۔ صفحات:۳۳۶۔ قیمت: ۱۲۰۰ روپے۔

 نام ور شخصیات جنھیں اہم مناصب پر فائز رہنے اور ملکی تاریخ کے اہم مراحل کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہو ان کی سرگزشت یا سوانح تاریخی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ زیرتبصرہ کتاب بھی اسی نوعیت کی ہے۔ یہ ۹۶ سالہ ریٹائرڈ جرنیل اور نام ور سیاست دان جنرل عبدالمجیدملک کی آپ بیتی ہے۔ ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولنے والے عبدالمجید فوج میں سپاہی کلرک کی حیثیت سے بھرتی ہوئے اور ترقی کرتے کرتے جرنیل بنے۔

یوں تو زیر نظر کتاب ایک فرد کی بھرپور زندگی کی کہانی ہے لیکن دیکھا جائے تو یہ تقریباً ایک صدی کی تاریخ ہے ۔صدی بھی ایسی جس میں جنگ عظیم اوّل و دوم،تحریکِ پاکستان، قیامِ پاکستان اورہجرت جیسے تاریخ ساز واقعات رُونما ہوئے۔ابتداے ملازمت میںانھیں تحریک پاکستان سے دل چسپی پیداہوئی ۔۱۹۴۸ء میں ایک ہفتے کے لیے قائداعظم کے (عارضی) اے ڈی سی بھی رہے۔ مسلم لیگ اور کانگریس کی جن نام وَر شخصیات کو انھیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، ان کا تذکرہ بھی ہے۔

مصنف کی زندگی میں اہم موڑ اس وقت آیا جب ذوالفقارعلی بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کو  پاک فوج کا سربراہ بنا دیا تو انھوں نے استعفا دے دیا۔۱۹۸۵ء کے انتخابات میںقومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوکر میدانِ سیاست میں وارد ہوئے۔

۱۹۵۸ء کے پہلے مارشل لا کے منصوبہ سازوں میں شامل تھے، تاہم بعد میں وہ مارشل لا کے ناقد رہے اورایک طویل عرصے تک فوجی حکمرانی کے مقابلے میں سیاسی قیادت کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ مصنف کے بقول سانحۂ کارگل کی تمام تر ذمہ داری جنرل پرویزمشرف اور ان کے تینوں ساتھی جرنیلوں پرعائد ہوتی ہے جنھوںنے وزیراعظم نوازشریف اور پوری سیاسی قیادت کو  اس آپریشن سے بے خبر رکھا تھا(ص ۲۴۲)۔انھوں نے جہاں پرویز مشرف کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے وہاں نوازشریف کے مختارِکل بننے کے شوق کے بھی ناقد ہیں۔ یہ کتاب اہم واقعات و حوادث اور فیصلوں کے گہرے مشاہدے کی داستان ہے۔(حمیداللّٰہ خٹک)


سوچنے کی باتیں، حافظ احسان الحق۔ ناشر: قرطاس، فلیٹ نمبر ۱۵A-، گلشن امین ٹاور، گلستانِ جوہر، بلاک ۵، کراچی۔ فون: ۳۸۹۹۹۰۹-۰۳۲۱۔ صفحات: ۹۶۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔

زندگی گزارتے ہوئے اور مطالعہ کرتے ہوئے بہت سے ایسے مسائل سامنے آتے ہیں جن کا بہ ظاہر کوئی اطمینان بخش حل نظر نہیں آتا۔ کسی صاحب ِ علم کی رہنمائی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ زیرتبصرہ ۱۰۰صفحے کی کتاب میں اسی طرح کے ۳۸ موضوعات پر اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔  محترم مؤلف نے کتاب و سنت کی روشنی میں اور جدید دور کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے جامع اور مختصر جواب دیے ہیں، جو قاری کو مطمئن کرتے ہیں۔ چند موضوعات درج کر رہا ہوں تاکہ اس مختصر کتاب کی وسعت کا اندازہ ہو: پست انسانی جذبات اور تعلیمی اداروں کی زبوں حالی، اسلام میں محبت کی شادی کا تصور، غیرمسلم فوج میں ملازمت، حبط عمل کا مطلب، اسلام اور جنسی تعلیم، عمر بڑھ سکتی ہے، انسانی کلوننگ کی شرعی حیثیت، روزہ اور ہوائی سفر، بنک کی ملازمت وغیرہ وغیرہ۔ محترم مؤلف نے اظہارِ خیال کیا ہے ، اپنی راے دی ہے، فتویٰ نہیں دیا۔ اسی لیے کتاب کا نام سوچنے کی باتیں مناسب ہے۔ (مسلم سجاد)


ماحول سے دوستی کیجیے، تسنیم جعفری۔ ناشر: اُردو سائنس بورڈ، ۲۹۹-اپرمال، لاہور۔ فون:۳۵۷۵۸۴۷۵-۰۴۲۔ صفحات:۴۴۔ قیمت: درج نہیں۔

آلودگی پوری دنیا کے لیے ایک گمبھیر مسئلے کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ ماحول سے دوستی کیجیے، اُردو سائنس بورڈ کی ’اُردو سائنس سیریز‘ کے تحت ایک ایسی کاوش ہے جس میں ایک دل چسپ کہانی کے انداز میں ماحول کی بہتری کے لیے اقدامات اُٹھانے کے لیے رہنمائی دی گئی ہے۔ چین میں کس طرح سے ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں،   ان کا بھی تذکرہ ہے، مثلاً بچوں کو بورڈنگ سکول میں پڑھایا جاتا ہے تاکہ سڑکوں پر ٹریفک کم ہو اور دھویں سے بچا جاسکے۔ اکثر لوگ ذاتی سواری کے بجاے ٹرین یا سائیکل استعمال کرتے ہیں، نیز ماحول کی بہتری کے لیے لوگ آگے بڑھ کر تعاون کرتے ہیں۔ اسی طرح صحت مند ماحول کے لیے اپنے محلے اور گردونواح کو اپنی مدد آپ کے تحت صاف ستھرا رکھنے، کوڑا کرکٹ کو جلانے کے بجاے ری سائیکل کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔

مصنفہ نے بجاطور پر توجہ دلائی ہے کہ ہمیں ماحولیاتی آلودگی کے ساتھ ساتھ معاشرتی آلودگی کا بھی سامنا ہے۔ صفائی نصف ایمان ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کے ساتھ ساتھ اچھی اقدار و روایات کو بھی پروان چڑھایا جائے اور ہر ایک اپنے اپنے دائرے میں  اس کے لیے کام کرے۔ صاف ستھرا ماحول ہی صحت مند زندگی کا ضامن ہے۔(امجد عباسی)


تعارف کتب

oتیرا کوئی شریک نہیں، محمد ارشد۔ ناشر: مثال پبلشرز، رحیم سنٹر، پریس مارکیٹ، امین پور بازار، فیصل آباد۔ صفحات: ۱۷۸۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔[زیرنظر کتاب حج کا سفرنامہ ہے۔ مصنف نے حرمین شریفین کے سفرِسعادت کے تاثرات، مشاہدات اور احساسات نہایت اختصار سے بیان کیے ہیں۔ جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا، سپردِ قلم کردیا ۔ مصنف کو بعض اُمور میں نہایت تعجب ہوا کہ حرمین شریفین میں لوگ نمازیوں کے آگے سے بے تکلف گزر جاتے ہیں (ص۲۶)۔ اُونچی آواز سے روضۂ رسولؐ پر دعائیں مانگتے ہیں۔ موبائل پر اپنے دیس میں کسی عزیز سے کہہ رہے ہوتے ہیں: ’’میں یہاں  روضۂ رسولؐ کی جالیوں کے پاس ہوں‘‘ (ص ۳۲)۔ مصنف نے دل چسپ مشاہدات قلم بند کیے ہیں۔ ]

o توہین رسالتؐ: اسباب اور سدّباب ، ڈاکٹر حبیب الرحمن۔ ناشر: ڈی بی ایف، سیرت ریسرچ سنٹر، سی-۲، ہائی لینڈ ٹریڈرز بلڈنگ، سیکنڈ فلور،فیز۲، ڈیفنس، کراچی۔ فون: ۳۵۳۹۵۹۲۸-۰۲۱۔ صفحات:۵۶۔ قیمت: درج نہیں۔[ مغرب میں توہین رسالتؐ کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر اس کے اسباب کا مختلف پہلوئوں سے جائزہ لیتے ہوئے تحفظ ناموسِ رسالتؐ کے لیے انفرادی، اجتماعی اور حکومتی سطح پر لائحہ عمل تجویز کیا گیا ہے۔ اسلام مخالف قوتیں توہین ناموسِ رسالتؐ سے جو مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں، ان کا جائزہ بھی لیا گیا ہے اور مؤثر احتجاج کے لیے مثالوں کے ذریعے تجاویز دی گئی ہیں۔ اپنے موضوع پر مفید مطالعہ ہے۔]

o مجلہ السیرۃ ، مدیراعلیٰ: ڈاکٹر حبیب الرحمن، ڈی بی ایف، سیرت ریسرچ سنٹر، سی-۲، ہائی لینڈ ٹریڈرز بلڈنگ، سیکنڈ فلور،فیز۲، ڈیفنس، کراچی۔ فون: ۳۵۳۹۵۹۲۸-۰۲۱۔ صفحات:۴۸۔ قیمت: درج نہیں۔[دلشاد بیگم فائونڈیشن (ڈی بی ایف) کے تحت سیرت ریسرچ سنٹر قائم کیا گیا ہے اور مجلہ السیرۃ کا اجرا کیا گیا ہے۔ مجلے کا مقصد: احیاے سنت اور عظمت سیرۃ النبیؐ کو علمی و تحقیقی تحریک میں بدلنا اور اصلاحِ معاشرہ ہے (اداریہ)۔ رمضان المبارک کی مناسبت سے خصوصی اشاعت پیش کی گئی ہے۔ رمضان کی اہمیت، نبی کریمؐ کے معمولات، رمضان کے تقاضے اور جدید فقہی مسائل وغیرہ زیربحث آئے ہیں۔]

o عورت کیا کچھ کرسکتی ہے؟ خدیجہ نوید عثمانی۔ ناشر: ادارہ بتول، ۱۴-ایف، سیّد پلازا، ۳۰-فیروز پور روڈ، لاہور۔ فون: ۳۷۵۸۵۴۴۹-۰۴۲۔ صفحات: ۶۴۔ قیمت: ۹۰ روپے۔[صحابیاتِ رسولؐ کا دل نشین تذکرہ اور ادبی چاشنی لیے ہوئے ایمان افروز واقعات۔ عورت کے کردار کے مختلف پہلو: ایمان کے لیے تڑپ، تلواروں کی چھائوں میں، راہِ حق میں استقامت و عزیمت کے مراحل اور نیکی میں سبقت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ان نقوش سے عمل کے لیے تحریک اور آخرت کی فکر کو تقویت ملتی ہے۔ تاہم قیمت زیادہ ہے۔]


اھم اعلان

الفرقان پارہ عَمَّ (تیسواں پارہ) جو اس سے پہلے دوچار دفعہ چھپ کر مقبول ہوچکا ہے، احباب کے اصرار پر  دیدہ زیب نیاایڈیشن شائع کیا گیا ہے۔ ان خواتین و حضرات کے لیے پیش کیا جا رہا ہے جو دعوتِ دین میں مصروف ہیں۔ خواہش مند خواتین و حضرات ۶۰روپے کے ڈاک ٹکٹ ارسال کریں۔

براے رابطہ: شیخ عمر فاروق 15-B وحدت کالونی، وحدت روڈ، لاہور ۔ فون: 042-37810845

اسلامی ریاست کی تشکیل جدید، علامہ محمداسد کے افکار کا تنقیدی مطالعہ، ڈاکٹر محمد ارشد۔ ناشر: الفیصل، اُردو بازار،لاہور۔ فون:۳۷۲۳۰۷۷۷-۰۴۲۔صفحات:۵۸۷۔قیمت: ۱۰۰۰روپے۔

پاکستان کی نظریاتی اساس اور پاکستانیوں کے اصل تشخص پر گذشتہ ۲۰برسوں میں انگریزی صحافت نے جس یکسوئی اور منصوبہ بندی کے ساتھ اس بے بنیاد تصور کو پھیلایا ہے کہ پاکستان بنانے والوں کے ذہن میں ایک سیکولر ریاست کا تصور تھا، وہ ہماری صحافتی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ صحافت کے بنیادی اصولوں میں تحقیق و تفتیش کو اہم مقام حاصل ہے اور ہرصحافی سے اُمید کی جاتی ہے کہ وہ تحقیق کرنے کے بعد ایک مصدقہ خبر نشر کرے گا لیکن اس کے برخلاف کالم نگاروں اور ’دانش وروں‘ نے قائداعظمؒ کی جو تصویر پیش کی ہے اس کا کوئی تعلق قائداعظم محمدعلی جناح کی شخصیت سے نہیں ہے۔

ڈاکٹر محمدارشد کا تحقیقی مقالہ اسلامی ریاست کی تشکیل جدید: علامہ محمداسد کے افکار کا تنقیدی جائزہ اس سلسلے میں ایک اہم معروضی علمی تحقیق ہے، جو نہ صرف علامہ محمداسد کے افکار بلکہ خود  تحریکِ پاکستان کی فکری بنیادوں اور مستقبل کے بارے میں تاریخی حقائق کا مرقع ہے۔ کتاب آٹھ ابواب پر مشتمل ہے۔ مقدمہ ایک مختصر تاریخی جائزہ پیش کرتا ہے جس میں دورِ اوّل سے عصرِجدید تک اہم سیاسی فکری رجحانات کا تذکرہ ہے۔ باب دوم علامہ محمداسد کی سوانح اور فکری تشکیل کا جائزہ لیتا ہے جس میں بعض وہ معلومات بھی شامل ہیں جو پاکستان کے قیام کے بعد پیدا ہونے والی نسلوں تک نہ نصابی کتب نے اور نہ ابلاغِ عامہ نے پہنچائی ہیں، مثلاً علامہ اسد کا علامہ اقبال اور مولانا مودودی سے براہِ راست رابطہ اور تینوں افراد کا مل کر ملت ِاسلامیہ کی فکری اصلاح کے لیے منصوبہ تیار کرنا۔ علامہ اسد کا علمی مجلہ عرفات کا صرف اس غرض سے اجرا۔ ان کا لاہور میں ادارہ تعمیرنو اور تحقیقاتِ اسلامی کے ڈائرکٹر کے طور پر تعین اور پھر نیویارک میں اقوام متحدہ میں بطور سفارت کار مقرر کیا جانا۔ ان کی ذاتی مساعی سے شاہ فیصل سے پہلی مرتبہ رابطہ اور ان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کا استوار کروانا۔ یہ وہ احسانات ہیں جن کے بارے میں آج تک نہ ابلاغِ عامہ اور نہ نظریۂ پاکستان پر لکھی جانے والی کتب اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ کیا وجہ تھی کہ ایک فرد جو نہ اس سرزمین میں پیدا ہوا ،   نہ یہاں پرورش پائی، نہ یہاں پر شادی بیاہ کر کے منسلک ہوا بلکہ صرف اور صرف اسلام کے رشتے کی بنا پر پاکستانی شہریت اور پاکستان کی سرکاری نمایندگی کے لیے منتخب کیا گیا۔

تیسرے باب میں علامہ اسد کی تصنیفات کا تذکرہ ہے اور باب چہارم میں جو مرکزی حیثیت رکھتا ہے، قیامِ پاکستان کی جدوجہد اور قیام کے بعد پاکستان کے نظریاتی تشخص میں علامہ اسد کے کردار سے بحث کی گئی ہے۔ پانچواں باب علامہ اسد کی فکر کی روشنی میں اسلامی ریاست کے مقصد، نوعیت اور ماہیت سے بحث کرتا ہے۔ چھٹے باب میں اسلامی ریاست میں غیرمسلم اور مسلم شہریوں کے حقوق اور ساتویں باب میں اسلامی ریاست میں قانون سازی کے دائرۂ کار کا تذکرہ ہے۔ اس باب میں خصوصی طور پر اجتہاد اور عصرِحاضر میں قانون سازی پر گراں قدر معلومات پائی جاتی ہیں۔ آٹھویں اور آخری باب میں علامہ اسد کی نگاہ میں اسلام اور مغرب کے تعلق اور اسلامی تہذیب کی برتری اور اسلام اور مغرب کے درمیان مکالمہ اور مفاہمت سے بحث کی گئی ہے۔

یہ مقالہ نہ صرف علامہ اسد کی حیات، فکری کارنامے اور عملی طور پر پاکستان کی تحریک میں  ان کے کردار کا جائزہ لیتا ہے بلکہ قیامِ پاکستان کے مقصد اور مستقبل کا ایک واضح نقشہ پیش کرتا ہے۔ مطالعہ پاکستان کے اساتذہ جو عموماً یورپ اور امریکا کے مصنفین کی کتب کے سہارے تحریکِ پاکستان کا کورس پڑھاتے ہیں، ان کے لیے اس کا مطالعہ ایک فریضے کی حیثیت رکھتا ہے۔

اس کتاب کو ہر پاکستانی کالج، اسکول اور یونی ورسٹی کے کتب خانے میں ایک سے زائد نسخوں کی شکل میں موجود ہونا چاہیے تاکہ جدید نسل اپنی صحیح تاریخ سے آگاہ ہوسکے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


القرآن: بحیثیت اسکول نصابی کتاب (حصہ اوّل)، مرتب: پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق منصوری۔ ناشر: اسلامی نظامت تعلیم پاکستان، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۱۷۰۱۱-۰۴۲۔ صفحات:۱۵۲۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

قرآنِ مجید، دین اسلام کا ہمارے لیے مصدرِ اوّل ہے۔ اس کو پڑھنا، سمجھنا اور اس پر عمل کرنا بھی ہماری ترجیحِ اوّل ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے اسے ایک مشکل اور طویل المیعاد علمی سرگرمی سمجھاجاتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ہم نے قرآن کو آسان بنایا ہے۔

یہ کتاب اسی احساس کے تحت ایک عملی تدریسی منصوبے کی غرض سے مرتب کی گئی ہے۔ متن وترجمۂ قرآن آمنے سامنے درج کرنے کے بعد نصابی کتب کے طریقے کے مطابق مشقیں  دی گئی ہیں، جن میں مختلف نوعیت کے سوالات ہیں۔ یہ کتاب چھٹی جماعت اور اس کی مساوی تعلیمی سطح کے طلبہ و طالبات کے لیے ہے۔ جس میں ۴۸سورتوں کا ترجمۂ قرآن شامل ہے۔ مشقوں کی تیاری اور ترتیب میں بہت محنت کی گئی ہے۔ تحریری اور زبانی امتحان کے ماڈل پیپر بھی دیے گئے ہیں۔ گویا طریقۂ تدریس کے تمام کتابی لوازمات مکمل طور پر فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

مرتب نے قرآن کو نصابی کتاب کے طور پر پیش کرنے کی قابلِ قدر سعی فرمائی ہے۔ قرآن فہمی کے حلقے اور اس طرز کے اسکول اس سے بھرپور استفادہ کرسکیں گے۔ دینی مدارس اور حفظ ِ قرآن کے مدارس کے طلبہ و طالبات اور عام لوگ گھروں میں بھی اس کتاب کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ تاہم ضرورت ہے کہ اس کو کتابت کی اغلاط سے پاک کیا جائے۔ متنِ قرآن رموزِ اوقاف کے ساتھ ہونا چاہیے۔ (ارشاد الرحمٰن)


الرسولؐ، مولانا سردار احمد قادری۔ ناشر: محمد فہد، کتاب محل، دربار مارکیٹ، لاہور۔ فون:۸۸۳۶۹۳۲-۰۳۲۱۔ صفحات: ۴۸۸۔ قیمت: ۱۴۰۰ روپے۔

زیرنظر کتاب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے جذبات سے معمور ایک ایسے   عالمِ دین کے قلم سے سامنے آئی ہے، جسے غیرمسلم کمیونٹی میں زندگی بسر کرنے کا موقع ملا ہے۔ چنانچہ انھوں نے کتاب کے ۲۰مناظر میں حضور اکرمؐ کی ولادت سے لے کر آپؐ کے وصال تک کے منتخب اہم واقعات والہانہ انداز میں بیان کردیے ہیں۔

وہ لکھتے ہیں کہ انھیں سیرت النبیؐ پر لکھنے کا عرصے سے شوق تھا۔ طالب علمی کے زمانے میں بھی ان کی خواہش تھی کہ اسباق میں سیرت النبیؐ کی کوئی کتاب شامل ہونا چاہیے۔مدارس میں سیرتِ طیبہ کو موضوع کے طور پر پڑھایا نہیں جاتا۔ صرف حدیث آخری سال میں پڑھائی جاتی ہے۔ اس پر انھیں ایک مدت سے خیال آیا کہ سیرت النبیؐ پر کتاب لکھی جائے۔ کتاب کا ایک حصہ مسجد نبویؐ میں لکھا گیا (ص ۱۶)۔کتاب کی زبان عام فہم ہے۔ کتاب کے مطالعے سے حضور اکرمؐ سے محبت و تعلق میں تازگی محسوس ہوگی۔(ظفرحجازی)


اسلامی تاریخ کی قابلِ فخر شخصیات، ناعمہ صہیب۔ ناشر: کتاب سراے، الحمدمارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔فون:۳۷۳۲۰۳۱۸-۰۴۲۔ صفحات:۴۸۰(بڑی تقطیع) ۔ قیمت:۷۰۰روپے۔

ہر انسان کا وجود اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے اور جان کا احترام بھی۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ ہرفرد کی اہمیت دوسرے فرد کے نزدیک اکثر اوقات خاص وقعت نہیں رکھتی۔ تاہم، روزِاوّل سے بعض افراد ایسے ہیں کہ جن کا وجود، اُس زمانے کے لوگوں کے ساتھ ساتھ ہرآنے والے زمانے میں بھی انسانیت کے لیے خاص وزن اور اہمیت رکھتا ہے۔ اسی بنا پر ان شخصیات کے کارنامۂ حیات کو جاننے کی طلب تازہ دم رہتی ہے۔مؤلفہ نے زیرنظر کتاب میں اسی طلب کا جواب فراہم کیا ہے اور حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ سے لے کر شیخ احمد یٰسین تک ۱۵؍افراد کا تذکرہ متوازن انداز میں پیش کیا ہے۔ ان شخصیات میں حضرت سیّداحمدشہید، بدیع الزمان نورسی، مولانا محمد الیاس، ناصرالدین البانی، ابوالحسن علی ندوی اور سیّدقطب شہید کے نام نامی بھی شامل ہیں۔

اگرچہ کتاب کے مندرجات کے بارے میں بہت کچھ بیان کیا جاسکتا ہے، لیکن محترم پروفیسر خورشیداحمد کے تحریر کردہ مقدمے کی یہ سطور تصویر کو بحسن و خوبی پیش کرتی ہیں، کتاب میں: ’’شخصیت پرستی سے دامن بچاکر، اس شخص کی حقیقی خدمات اور اثرات کو توجہ کا مرکز بنایا گیا ہے۔ پھر شخصیات کے انتخاب میں بھی تنوع ہے۔ کسی خاص علاقے یا کسی خاص شعبۂ زندگی تک اس انتخاب کو محدود نہیں رکھا گیا، بلکہ اُمت کے پورے کینوس پر نظر ڈال کر تاریخ ساز شخصیات کا [ایک] انتخاب کیا گیا ہے‘‘ (ص۲۰)۔ایسی کتب کا مطالعہ فرد میں کچھ کرنے کی اُمنگ اور اپنی زندگی کا احتساب کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔(سلیم منصور خالد)


اسلامی تصوف، سیّد احمد عروج قادری۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، کراچی۔ تقسیم کنندہ: اکیڈمی بک سنٹر، ڈی-۳۵، بلاک۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی-۳۶۳۴۹۸۴۰-۰۲۱۔ صفحات:۳۶۴۔ قیمت: درج نہیں۔

زیرنظر کتاب میں مصنف نے قرآن اور حدیث کو بنیاد بناکر تصوف کے مسئلے کی تفہیم اور ۱۸؍ابواب میں موضوع سے متعلق علمی نکات کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ ان ابواب میں خلوص، توبہ، نیت، صبر، شکر، فقر، مراقبہ، استقامت اور دُعا جیسے اہم عنوانات کے تحت قرآن و سنت ، احیا العلوم اور رسالہ قشیریہ کے حوالے سے مباحث کو فکرانگیز اور نتیجہ خیز بنایا گیا ہے۔ کتاب کے مطالعے سے تصوف کے متعلق قاری کا ذہن شکوک و شبہات سے پاک ہوجاتا ہے۔ مصنف کی یہ محنت لائق ستایش ہے کہ انھوں نے ویدانتی، یونانی اور فلسفیانہ مباحث سے گریز کرتے ہوئے تصوف کے متعلق قرآنی تعلیمات اور اسوئہ نبویؐ کی وضاحت کی ہے۔ اگرچہ بے شمار کتابیں تصوف کے حوالے سے لکھی گئی ہیں۔

قرآنِ مجید نے جن اخلاقی فضائل کے حصول اور ان پر عمل کرنے کی ترغیب دی ہے، مصنف نے انھی اخلاقی اوصاف کی اسوئہ نبویؐ کی روشنی میں تکمیل کی کوشش کو تصوف قرار دیا ہے، تاہم تصوف کوئی شرعی نام نہیں (ص ۱۷)۔ آج کل تصوف کے نام پر جس قسم کی غیراسلامی رسوم و عبادات رائج ہوگئی ہیں وہ سب گمراہی ہے اور ان سے بچنا ضروری ہے۔ پہلے یہ کتاب ہندستان میں شائع ہوئی تھی، اب یہ اُس کا ری پرنٹ ہے۔(ظفر حجازی)


نوید ِ فکر، افشاں نوید۔ ناشر: حریم ادب پاکستان۔ ملنے کا پتا:اکیڈمی بک سنٹر، ڈی-۳۵، بلاک۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ فون:۳۶۳۴۹۸۴۰-۰۲۱۔ صفحات: ۲۵۶۔قیمت: درج نہیں۔

صحافت اپنے عہد کی تصویر ہوتی ہے۔ صحافی جو کچھ دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اسے قلم بند کرتا ہے اور رہنمائی کا فریضہ انجام دیتاہے۔ نویدِفکرافشاں نوید کے کالموں کا مجموعہ ہے جو اپنے عہد کی ترجمانی کرتا ہے۔ ملک کو درپیش مسائل، معاشرتی انحطاط اور مٹتی اقدار، اسلام اور مغرب کی کش مکش، عالمی قوتوں کی سفاکیت، عورت کے حقوق اور مغرب زدہ خواتین، حقوقِ نسواں تحریک کا چیلنج،  نظریۂ پاکستان اور سیکولرفکر کے علَم بردار، حجاب کا خوف کیوں؟ اور اس کے علاوہ فرد اور معاشرے کی تربیت کے تقاضے جیسے موضوعات پر قلم اُٹھایا گیا ہے۔ ان کے کالم اختصار اور جامعیت لیے ہوئے ہیں۔

حریمِ ادب خواتین کی اصلاحی اور ادبی انجمن ہے۔ اس کے پیش نظر ادبی تخلیقی سرگرمیوں کے ذریعے معاشرے میں صحت مند مزاج کو فروغ دینا ہے۔ نویدفکر کی اشاعت سے اس نے اچھی مثال قائم کی ہے۔ تاہم کالموں کے انتخاب میں زمانی ترتیب کے بجاے اگر موضوعاتی ترتیب کو بنیاد بنایا جاتا تو زیادہ بہتر تھا اور تنوع بھی قائم رہتا۔(امجد عباسی)


اشاریہ معاصر انٹرنیشنل، مرتبین: محمد شاہد حنیف+ محمد زاہد حنیف۔ ناشر: مجلس ترقی ادب، ۲-کلب روڈ، لاہور۔ صفحات: ۲۰۰۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

تحقیق کسی بھی نوعیت کی ہو، اشاریے اور کتابیات عملی تحقیق کے بنیادی معاون کی حیثیت رکھتے ہیں جن کی مدد سے مطلوبہ مضامین یا کتابوں تک پہنچنا آسان ہوتا ہے اور تلاش و تفتیش میں تحقیق کار کا قیمتی وقت بھی ضائع نہیں ہوتا۔ علمی وادبی موضوعات پر رسائل و جرائد میں جو ذخیرہ پوشیدہ ہے، تحقیق میں اسے کام میں لانے کے لیے رسائل کے اشاریے بنائے گئے ہیں۔ زیرنظر کتاب رسالہ معاصر (کے۱۹۷۹ء سے دسمبر ۲۰۱۰ء تک کے ۲۳شماروں کا) اشاریہ ہے جس کے بانی اور مدیر اعلیٰ عطاء الحق قاسمی ہیں۔

ہرموضوع کے تحت رسالے میں شائع ہونے والے مضامین اور مکاتیب وغیرہ کے حوالوں کو مصنف وار ترتیب دیا گیا ہے۔ عنوان: ’سوانح‘ کے تحت معروف ادیبوں اور شاعروں پر مضامین (سوانح کے بجاے زیادہ تر ان کے ادبی اور شعری کارناموں پر)۔ تبصرۂ کتب اور تقریبات کی رُودادیں، مکالمات۔ آخر میں ۱۸صفحات پر مشتمل، ایک مختصر اشاریہ شامل ہے، یہ مصنف وار ہے اور یہ     اس کتاب کا سب سے کارآمد حصہ ہے۔ اشاریہ ساز برادران اس سے پہلے بھی متعدد رسائل کے اشاریے مرتب کرچکے ہیں۔ مجلس ترقی ادب کے ناظم ڈاکٹر تحسین فراقی نے بجاطور پر لکھا ہے کہ ’’یہ اشاریہ تخلیق، تنقید اور تحقیق کے نئے راستے کھولے گا‘‘۔ (رفیع الدین ہاشم)

غیرمسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق ، مولانا سیّد جلال الدین عمری،     مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،دہلی، بھارت۔ صفحات: ۳۲۰۔ قیمت: ۱۸۵ روپے (بھارتی)

محترم مولانا سیّد جلال الدین عمری کا شمار بھارت کے نام وَر علما میں ہوتا ہے۔ آپ کے قرآن و سنت کی روشنی میں عصری مسائل پر تحقیقی مقالے اور کتب نہ صرف بھارت میں بلکہ تراجم کی شکل میں یورپ ، امریکا، ترکی اور عالمِ عربی میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ اب تک ۵۰ کے لگ بھگ تصنیفات منظرعام پر آچکی ہیں۔

زیرتبصرہ کتاب غیرمسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق آپ کی تحقیقی تصنیفات میں ایک قیمتی اضافہ ہے اور موضوع پر متعلقہ مسائل کا کماحقہٗ احاطہ کرتی ہے۔ کتاب ۱۵ مباحث پر مبنی ہے اور اصولی اور عملی پہلوئوں پر مستند معلومات فراہم کرتی ہے۔ کتاب کا آغاز خاندان میں تعلقات اور عام انسانی تعلقات سے ہوتا ہے جس سے اسلام کے عمومی تصور انسانیت کی وضاحت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں غیرمسلموں کے ساتھ معاشرتی تعلقات،سماجی تعلقات، ازدواجی تعلقات اور کاروباری معاملات کا جائزہ قرآن و سنت اور فقہ کے ائمہ کی آرا کی روشنی میں لیا گیا ہے۔

عملی مسائل سے بحث کرتے ہوئے محترم مولانا نے جن پہلوئوں پر سیرحاصل بحث فرمائی ہے ان میں غیرمسلموں کو سلام کا حکم، مسجد میں غیرمسلم کا داخلہ، غیرمسلم سے تحائف کا تبادلہ، غیرمسلم کی شہادت، اور پھر اسلامی ریاست میں غیرمسلموں کے حقوق پر ایک مفصل باب باندھا ہے۔اس میں اسلامی ریاست کی خصوصیات و اصول جن میں عدل و انصاف کا قیام، مذہبی معاملات میں جبر کا نہ ہونا، اسلام کا دیگر مذاہب کے بارے میں طرزِعمل اور اہلِ کتاب کے ساتھ رویے پر بحث کی گئی ہے۔ اسلامی ریاست کے حوالے سے یہ وضاحت بھی قرآن و سنت کی روشنی میں کی گئی ہے کہ جہاد کا مقصد کسی کو مسلمان بنانا نہیں بلکہ ظلم و فساد کا دُور کرنا ہے۔

ذمیوں کے حوالے سے مستشرق اور ان سے تربیت پانے والے بے شمار مسلمان مفکرین نے بہت معذرت کے ساتھ اسلام اور ذمیوں کی بحث کی ہے۔ محترم مولانا نے بغیر کسی مداہنت کے حق کو جیساکہ وہ ہے بیان کیا ہے اور ہربات کی دلیل قرآن و سنت سے دے کر یہ واضح کیا ہے کہ ذمی دوئم درجہ کا شہری نہیں ہے۔ اس کے حقوق بھی وہی ہیں جو ایک مسلمان شہری کے ہیں۔

بین الاقوامی قانون میں ایک اہم بحث کا تعلق حالت ِ جنگ اور حالت ِ امن میں غیرمسلم اقوام کے ساتھ معاہدات و معاملات کی ہے۔ اس پر بھی تفصیلی بحث کی گئی ہے کہ معاہدوں کی حیثیت، کن حالات میں انھیں منسوخ کیا جاسکتا ہے ، اور جنگی قیدیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔

کتاب کے آخر میں بحث کو سمیٹتے ہوئے غیرمسلموں سے عدم تعلق کے احکام کا پس منظر بیان کیا گیا ہے تاکہ وہ شبہات جو قرآن و سنت کے جزوی مطالعے سے پیدا ہوسکتے ہیں انھیں اسلام کی کُلی تعلیمات اور اُس پس منظر میں دیکھا جائے جو ان کا سبب النزول ہے۔ یہ اہم باب ہے اور داعیانِ اسلام کے لیے اس کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ ان تمام رواداری کے عملی مظاہروں کے باوجود جن سے اسلامی تاریخ بھری پڑی ہے مخالفین چُن چُن کر صرف ان آیات یا احادیث کا ہی تذکرہ کرتے ہیں جن میں منکرین، مشرکین اور اہلِ کتاب کے حوالے سے یہ کہا گیا ہے کہ انھیں رازدار نہ بنائو۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مدینہ منورہ میں منافقین کی ایک جماعت بظاہر اپنے اسلام لانے کا اعلان کرنے کے باوجود، یہود اور مشرکین مکہ کے ساتھ مسلسل رابطے اور سازشوں میں مصروف تھی۔ قرآن کریم جس ہستی نے نازل فرمایا وہ العلیم اور الخبیر ہونے کی بناپر ان کی سازشوں، مکر اور چالوں سے سب سے زیادہ آگاہ تھا۔ اس لیے اسلامی دعوت کی بقا اور فروغ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اہلِ ایمان کو آگاہ کیا گیا اور ہدایت کی گئی کہ ان کے ظاہر پر اعتماد کرتے ہوئے انھیں اپنے رازوں میں شامل نہ کیا جائے۔

یہ بات ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے جس سے کوئی کافر بھی انکار نہیں کرسکتا۔ اس میں نہ کوئی کینہ ہے، نہ دشمنی، نہ چال بازی اور نہ کوئی ناانصافی۔ ایک بچہ بھی اپنے دشمن پر اعتماد نہیں کرتا۔ منافقین اور مشرکین کا کردار اسی بات کا مطالبہ کرتا تھا کہ ان کو بعض معاملات میں بالکل الگ رکھا جائے۔ یہی شکل بین الاقوامی قانون میں آج بھی پائی جاتی ہے۔

اس کتاب کی افادیت کے پیش نظر اس کا جدید انگریزی میں ترجمہ جلد آنا چاہیے اور اسے ہر معروف کتب خانے کی زینت بننا چاہیے۔(ڈاکٹر انیس احمد)


نوآبادیاتی عہد میں مسلمانانِ جنوبی ایشیا کے سیاسی افکار کی جدید تشکیل: سرسیّد احمد خاں اور اقبال، ڈاکٹر معین الدین عقیل، ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، ڈی-۳۵، بلاک۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ صفحات:۶۸۔ قیمت: درج نہیں۔

ہندستان پر انگریزوں کے غلبے کے بعد ایک طرف تو بعض شخصیات کا ردعمل سامنے آیا اور دوسری طرف مزاحمت کی متعدد تحریکیں اُٹھیں۔ افراد میں سرسیّد احمد خاں اور علامہ اقبال کا ردعمل مختلف صورتوں میں نمایاں ہوا۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل نے اپنی تازہ کتاب میں دونوں اکابر کے ردعمل کی مختلف صورتوں کو بیان کیا ہے۔

مؤلف کہتے ہیں کہ نوآبادیاتی عہد میں ہندستان میں جن تصورات نے مسلمانوں میں ایک مستحکم شعور پیدا کرنے اور مسلم ملّت کو اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے ایک مؤثر کردار ادا کیا، سرسیّد اور اقبال کے خیالات ہیں جو اُنھوں نے اہم سیاسی مراحل میں قوم کے سامنے پیش کیے۔  سرسیّد مسلمانوں میں وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے انڈین نیشنل کانگریس کے حقیقی مقاصد کو سمجھا اور واضح کیا کہ ہندو اور مسلمان ایک نہیں دو علیحدہ علیحدہ قومیں ہیں۔ انھوں نے مسلمانوں کو کانگریس سے دُور رہنے کی تلقین کی۔ پھر مسلمانوں کے تقلیدی اور فرسودہ و جامد خیالات کو حرکت و عمل سے بدلنے کی کوشش کی، اور اس کے لیے انھوں نے جدیدتعلیم کو مفید اور مؤثر خیال کیا۔

علامہ اقبال نے مغرب کو اور اس کی لائی ہوئی جدید تعلیم کو نسبتاً زیادہ عمیق نظروں سے دیکھا اور ہندستانیوں کو اس کے دُور رس اثرات سے آگاہ کیا۔ اُن کے نزدیک مسلمانوں کے اصل امراض: بے عملی، محکومی اور وطن پرستی تھے۔ حرکت، تبدیلی اور ذہنی انقلاب کے ذریعے ان امراض کو دُور کیا جاسکتا تھا۔

کتاب کے آخر میں سرسیّداحمد خاں کا وہ معروف خطبہ شامل ہے، جس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ کانگریس میں مسلمان بحیثیت قوم شامل نہیں ہیں۔ اسی طرح اقبال کا خطبۂ الٰہ آباد بھی منسلک ہے جس میں اقبال نے ایک آزاد اسلامی مملکت کے قیام کا عندیہ دیا تھا۔اس ٹھوس علمی مقالے کے آخر میں مؤلف نے ایک سو ایک تائیدی حوالے اور حواشی شامل کیے ہیں۔ مگر سرورق ساز کا فہم ناقص ہے(علامہ کو ببول کے درخت پر بٹھا دیا)۔ اسی طرح اشاریے کی کمی کھٹکتی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


شبلی کی آپ بیتی، مرتبہ : ڈاکٹر خالد ندیم۔ ناشر: کتاب سراے، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۲۰۳۱۸- صفحات: ۳۷۶۔ قیمت: درج نہیں۔

مولانا شبلی نعمانی عالم دین، شاعر، ادیب، مؤرخ، سیرت نگار اور ماہرتعلیم تھے۔ سرسیّد تحریک سے بعض پہلوئوں میں اختلاف کے باوجود مسلمانوں میں تعلیم (متوازن اور بامقصد تعلیم) کے فروغ کے لیے عمربھر کوشاں رہے۔ شبلی صدی (۱۹۱۴ئ-۲۰۱۴ئ) کے موقعے پر اُن پر کتابیں اور مضامین لکھ کر اُنھیں خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔ پاکستان میں کم اور بھارت میں زیادہ۔ دارالمصنّفین نے معارف کا خاص نمبر شائع کیا اور ایک بین الاقوامی شبلی سیمی نار بھی منعقد کیا (حکومت ِ بھارت نے اس سیمی نار کے ۱۸ پاکستانی مدعوین میں سے کسی ایک کو بھی ویزا نہیں دیا)۔ شبلی کی حیات پر موجود متعدد کتابوں میں زیرنظر کتاب ایک منفرد اضافہ ہے۔

یہ شبلی کی ایسی خودنوشت ہے جسے اُنھوں نے خود نہیں لکھا بلکہ ڈاکٹر خالد ندیم نے اُن کی تحریروں سے اقتباسات لے کر ان کی آپ بیتی مرتب کی ہے۔ یہ شبلی کی ایک صحیح، سچی اور کھری تصویر ہے۔ اس میں شبلی کے احساسات، جذبات، ولولے، عزائم،ارادے اور منصوبے نظر آتے ہیں۔ ان سب کا منتہاے مقصود ملت ِاسلامیہ اور دین اسلام کا احیا تھا۔ اندازہ ہوتا ہے کہ شبلی اپنی ملّت کے دگرگوں حالات پر کڑھتے اور اُنھیں پستی اور پس ماندگی سے نکالنے کے لیے طرح طرح کی تدبیریں سوچتے تھے۔ افسوس تو یہ ہے کہ شبلی کو ایک غیرملکی استعماری حکومت میں کام کرتے ہوئے اپنوں کی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

شبلی کی آپ بیتی پڑھتے ہوئے ہم سفرنامہ بھی پڑھتے ہیں، نام ور شخصیات پر شبلی کا تبصرہ بھی اور اُن کی شاعری سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کہیں کہیں شبلی بے اطمینانی اور پریشانی کے عالم میں تلخ ہوجاتے ہیں۔ اس دل چسپ کتاب میں وہ دردمندی اور اضطراب بہت نمایاں ہے    جس نے شبلی کو عمربھر بے چین رکھا۔ مرتب نے بڑی محنت اور فن کاری سے آپ بیتی تیار کی ہے۔  دہلی یونی ورسٹی کے ڈاکٹر عبدالحق خالدندیم کی فہم و فراست پر انھیں داد دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’آپ بیتی کے کوائف جمع کرنے میں خون دل کی کشید کرنی پڑتی ہے… یہ قلم سے کسب ِضیا کی ایک انوکھی مثال ہے… نشاطِ کار کی قابلِ قدر مثال‘‘۔ دیباچہ نگار ڈاکٹر ممتاز احمد نے لکھا ہے کہ  ’’یہ صرف شبلی کی آپ بیتی ہی نہیں بلکہ ہماری عہدساز ادبی تہذیبی تاریخ کی ایک بصیرت آموز دستاویز بھی ہے‘‘۔ طباعت و اشاعت معیاری ہے۔ آخر میں اشاریہ بھی شامل ہے۔ کتاب پاکستان اور بھارت سے بیک وقت شائع ہوئی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


نسیم حجازی کی تاریخی ناول نگاری کا تحقیقی اور تنقیدی تجزیہ، ڈاکٹر ممتازعمر۔ ناشر: انجمن ترقی اُردو، ڈی-۱۵۹، بلاک ۷، گلشن اقبال، کراچی-۷۵۳۰۰۔ صفحات: ۶۹۴۔ قیمت: ۸۰۰ روپے۔

تاریخی ناول نویسی میں جو کامیابی اور مقبولیت نسیم حجازی کو حاصل ہوئی وہ اُردو کے کسی دوسرے ناول نگار کے حصے میں نہیں آئی۔

زیرتبصرہ کتاب میں نسیم حجازی کے سات منتخب تاریخی ناولوں: داستانِ مجاہد، محمدبن قاسم، آخری چٹان، خاک اور خون، یوسف بن تاشفین، معظم علی، اور تلوار ٹوٹ گئی کا تنقیدی و تحقیقی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ان ناولوں میں مسلمانوں کے  شان دار ماضی، تاریخ کے نشیب و فراز اور عروج و زوال کے اسباب و محرکات کے ساتھ ساتھ احیاے اسلام کی جدوجہد کے لیے لازوال قربانیوں اور ایمان افروز جذبے کی خوب صورت منظرکشی کی گئی ہے جو بالخصوص نوجوانوں کو اپنی تاریخ سے شناسائی کے ساتھ عمل کے لیے اِک ولولۂ تازہ دیتی ہے۔ نسیم حجازی کے ناولوں کی وجۂ مقبولیت اور پذیرائی کا سبب بھی یہی انفرادیت ہے۔

اُردو ادب کے متعدد نقادوں کی آرا نقل کی گئی ہیں۔ ڈاکٹر عبدالمغنی کے مطابق: ’’نسیم حجازی کا طرزِ تحریر اُردو کی بہترین نثری روایات کا امین ہے جو علامہ شبلی، علامہ ابوالکلام آزاد اور مولانا مودودی کے عالمانہ مضامین میں ترقی پاکر اظہار و بیان کا مثالی معیار مقرر کرتی ہیں۔ اس طرزِ تحریر میں نفاست و شوکت اور متانت و دبازت ہے‘‘ (ص ۶۱۳)۔ ناول نگاری میں نسیم حجازی کے ادبی کام کا مقام متعین کرتے ہوئے تحریر کیا گیا ہے: ’’نسیم حجازی اس قافلے کے نہ سالار ہیں نہ آخری آدمی۔ مسلمان اپنی نشاتِ ثانیہ کے لیے ہمیشہ تاریخ کے جھروکوں میں جھانکتے رہیں گے، اور تاریخی ناول یا افسانہ نگاری کی روایت زندہ رہے گی۔ عبدالحلیم شرر نے جو بیج بویا تھا اور جس کی آبیاری نسیم حجازی نے کی تھی، وہ پودا دیگر صاحبانِ قلم کی تحریروں کی صورت میں برگ و بار لا رہا ہے اور یہ روایت آگے بڑھتی رہے گی‘‘ (ص ۶۵۴)۔نسیم حجازی کے ناولوں کے بارے میں سیّدمودودی نے فرمایا تھا: ’’میں نوجوانانِ پاکستان سے [کہوں] گا کہ وہ نسیم حجازی صاحب کے ناول ضرور پڑھیں اور اپنی سنہری تاریخ کے سبق آموز واقعات سے واقفیت حاصل کریں اور ملک و قوم کی صحیح خدمت کرنے کا جذبہ پیدا کریں‘‘ (ص ۶۴۶)۔(ظفرحجازی)


امریکا اور یورپ میں عورتوں کی حالتِ زار، مؤلف: ڈاکٹر عبدالغنی فاروق۔ ناشر: کتاب سراے، الحمد مارکیٹ غزنی سٹریٹ، اردو بازار، لاہور۔ فون:۳۷۳۲۰۳۱۸-۰۴۲۔ صفحات:۹۵۔قیمت :۱۰۰روپے۔

زیر نظر کتاب اخبارا ت کی خبروں ،رسائل وجرائد میں شائع شدہ مضامین اور مختلف سروے رپورٹوں کے اعدادو شمارپر مشتمل ایسی دستاویز ہے جس میں یورپ کا تاریک تر اندرون صاف دکھائی دیتاہے۔اس کتاب کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملازمتوں میں امتیازی سلوک، کم تنخواہیں،جنسی تشدد،جبری شادی اورگھریلو تشدد عام ہے۔ لاکھوں خواتین ہر سال جنسی تشدد کا نشانہ بنتی اور روزانہ بھوکی سوتی ہیں۔  اس کتاب میں ۲۰۰۳ء میں بی بی سی کے پیٹر گلائوڈ کا ایک سروے بھی شامل ہے  جس میں خواتین پر گھریلو تشدد کا جائزہ پیش کیا گیاہے۔اس سروے کے مطابق برطانیہ ۷۸ فی صد خواتین و حضرات نے کتے کو تشد دسے بچانے کے لیے پولس کو اطلاع دینا اپنا فرض بتایا، لیکن اپنے پڑوس میں مرد کی جانب سے اپنی بیوی یا گرل فرینڈ پرتشددکو ۴۷ فی صد افراد نے نجی معاملہ قرار دے کر عدم مداخلت کا عندیہ دیا۔

اس کتاب میں ان لوگوں کے لیے بڑا سبق ہے جو یورپ اور امریکا کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں اور جو ترقی ، خوش حالی اور روشن خیالی کے نام پر یورپ کی خاندان شکن معاشرت اور بے لگام کلچر کو ہم پر مسلط کرنے کے لیے ہلکان ہورہے ہیں۔ (حمید اللّٰہ خٹک)


جو اکثر یاد آتے ہیں، ابونثر (احمد حاطب صدیقی)۔ناشر: ایمل مطبوعات، ۱۲-دوسری منزل، مجاہد پلازا، بلیوایریا، اسلام آباد۔ فون: ۵۱۶۸۵۷۲-۰۳۲۱۔ صفحات: ۲۸۰ روپے۔ قیمت:۴۸۰روپے۔

مؤلف کے کالموں کا یہ مجموعہ مختلف شخصیات کے خاکوں پر مشتمل ہے۔ ان خاکوں میں معلومات بھی ہیں اور تاریخ بھی، نظریات بھی ہیں اور فلسفہ بھی اور ادبی اسلوب کی چاشنی بھی۔ بعض خاکے ایسے ہیں جن کو پڑھ کر بے اختیار ہنسی چھوٹ پڑتی ہے (شفیع نقی جامعی) اور بعض ایسے ہیں کہ جن کو پڑھ کر آنکھوں سے آنسو چھلک چھلک پڑتے ہیں (میجر آفتاب حسن)۔ بعض خاکے طویل ہیں اور بعض مختصر۔ کچھ معروف شخصیات کے (افتخار عارف، پروفیسر غفوراحمد، حکیم محمد سعید، مشتاق احمد یوسفی، سلیم احمد، آباد شاہ پوری، عبدالستار افغانی) اور بعض غیرمعروف (نورمحمد پاکستانی، محسن ترمذی، استاد حسن علی، محمدگل اور ایک نامعلوم شخص)۔ خاکوں کے عنوانات بھی برمحل، بے ساختہ اور خوب ہیں۔

ابونثر کے قلم سے نکلے ہوئے یہ خاکے جہاں دردِ دل، سوز و گداز اور اسلوبِ بیان کی چاشنی سے معمور ہیں،وہیں یہ گذشتہ ۴۰سالہ عہد کی تاریخ ہے۔ خاکہ نگاری کا یہ اسلوب اور انداز ہرعمر کے افراد کے لیے سامانِ ضیافت کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ کتاب خاکہ نگاری میں نئے باب کی تمہید اور ہرلائبریری میں جگہ پانے کی حق دار ہے۔(عمران ظہور غازی)


تعارف کتب

o مجلہ الحمد کراچی (سیرت نمبر) ، مدیر: ڈاکٹر محمد اظہر سعید۔ ناشر: الحمد اکیڈمی، ۱۶۵-ای، بلاک۳، پی ای سی ایچ ایس، کراچی۔ صفحات:۲۲۴۔ قیمت: ۹۰ روپے۔[الحمد کالج آف پروفیشنل ایجوکیشن کراچی کا مجلہ الحمد        سیرت النبیؐ کے موضوع پر ہے۔  اس مجلے نے اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی کے زیراہتمام سیرت النبیؐ کے موضوع پر مجلّوں کے درمیان منعقدہ مقابلہ ۲۰۱۴ء میں شرکت کر کے دوم انعام پایا۔ حمدو نعت کے بعد   کُل ۱۱مقالات شائع کیے گئے ہیں۔ یہ مقالات حکیمانہ تعلیم و تربیت اور تزکیہ نفوس سیرتِ طیبہ کی روشنی میں دعوت و تبلیغ کی حکمت وعملی ، آنحضرتؐ کا نوجوانوں کے ساتھ سلوک ، رحمۃ للعالمینؐ بحیثیت بلدیاتی منتظم وغیرہ جامع انداز میں ترتیب دیے گئے ہیں۔ رسالہ اپنے مواد اور مضامین کے اعتبار سے عمدہ پیش کش ہے۔]

o چمن زار حقائق ، مرتبہ: گوہرملسیانی۔ ناشر: دارالنوادر، الحمدمارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۸۸۹۸۶۳۹-۰۳۰۰۔ صفحات:۲۴۸۔ قیمت: درج نہیں۔[جناب گوہر ملسیانی کی نمایندہ منتخب قومی و ملّی نظموں کا یہ مجموعہ چمن زار حقائق ایک مؤثر پیش کش ہے، جو پاکستان کے نشیب و فراز، سیاسی، سماجی اور معاشی کیفیت، نظریات، تعلیماتِ قرآن اور تصوراتِ اقبال اور حکمرانوں کے غیراسلامی اقدار کی جھلک پیش کرتا ہے۔ فکرواحساس کو مہمیز دینے والے کلام کی چند نظمیں بالخصوص اُمیدطلوعِ سحر، اتحاد عالمِ اسلام، جذبات نور، حقیقت ِ وطن، رقصِ ابلیس، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے چند آنسو قابلِ ذکر ہیں۔]

o زندان سے تخت شاہی تک ، عبدالعظیم معلم ندوی۔ ناشر:معہدامام حسن البنا شہید، مکتبہ علی العلمیہ، مدینہ کالونی،بھٹکل۔صفحات:۵۶۔ قیمت: ۴۰ روپے (بھارتی)۔[یہ مختصر مگر سادہ انداز و اسلوب لیے ہوئے حضرت یوسف ؑ کے مکمل واقعے پر مشتمل قرآنی قصہ ہے۔ جس میں حضرت یوسف ؑ کی پاکیزہ زندگی کا خوب صورت نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ اچھوتے انداز میں حضرت یوسف ؑ کی زندگی بطورِ نمونہ پیش کر کے نوجوان نسل کو غوروفکر کی دعوت دی گئی ہے کہ آج کے دور میں جب بُرائی، ناشائستگی، بدتہذیبی اور عریانی و فحاشی اپنے لائولشکر کے ساتھ حملہ آور ہے، بچائو کیسے ممکن ہے۔]

o قومیں کیوں ہلاک ہوتی ہیں؟ ، مولانا سیّد جلال الدین عمری۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، ڈی-۳۹، بلاک۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ فون: ۳۶۳۴۹۸۴۰-۰۲۱۔ صفحات:۱۶۔ قیمت: درج نہیں۔[قرآنِ مجید کی روشنی میں قوموں کے زوال کے اصول، مثلاً: تکبر اور خودسر ی کی روش ، فساد فی الارض، ظلم وعدوان، فسق و فجور اور گناہوں کے ارتکاب کا تذکرہ ہے۔ مادی ترقی اور اقوامِ عالم پر بالادستی کے باوجود عقیدے اور فکر کا بگاڑ اور اخلاقی انحطاط بالآخر زوال کا سبب بنتا ہے۔ ان اصولوں کی روشنی میں مغربی اقوام کا تجزیہ بھی کیا گیا ہے۔]

o آپ کے لیے کون سا منصوبہ مناسب ہے؟ ، محمد صالح المنجد، ترجمہ: عبدالغفور مدنی۔ ناشر: منشورات، منصورہ، لاہور۔ فون:۳۵۲۵۲۲۱۱-۰۴۲۔ صفحات: ۴۸۔ قیمت: ۲۰ روپے۔[کتابچے میں بامقصد زندگی گزارنے کے لیے مختلف منصوبوں، خداداد خوابیدہ صلاحیتوں کی دریافت، منصوبوں کی کامیابی کے ضابطے اور ناکامی کے اسباب، نیز بعض کامیاب منصوبوں کا بطورِ مثال تذکرہ کیا گیا ہے۔ سلف صالحین اور نامور شخصیات کے واقعات بامقصد زندگی کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔ عالمِ عرب سے اپنے موضوع پر مفید ترجمہ سامنے آیا ہے۔ ]

Sayyidna Muhammad - The Greatest Benefactor of Mankind [سیّدنا محمدؐ، انسانیت کے محسنِ اعظمؐ]، احمد امام شفق ہاشمی۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، ڈی۳۵/۵، ایف بی ایریا، کراچی۔ صفحات:۲۲۵۔ قیمت: درج نہیں۔

ایک تازہ ترین سروے رپورٹ کے مطابق دنیا کی آبادی میں ۷۵ کروڑ افراد ایسے ہیں کہ ’محمد‘اُن کے نام کا حصہ ہے۔ آپؐ کی ذاتِ ستودہ صفات پر لکھی جانے والی کتابوں میں بھی   آئے روز اضافہ ہورہا ہے۔ حال ہی میں اسلامک ریسرچ اکیڈمی سے یہ کتاب شائع ہوئی ہے۔ مؤلف کے بقول وہ یہ کتاب ایک نئے انداز سے ضبط ِ تحریر میں لائے ہیں۔ (صxiv)

کتاب کے آغاز میں زمانہ قبل اسلام کے حالات کو بیان کیا گیا ہے۔ پھر قرآنی آیات کی روشنی میں دعوت کے پہلے دور کا جائزہ لیاگیا، اور آپؐ کی تعلیمات کو مختصراً پیش کیا گیا ہے۔ اسی طرح یہودیت، عیسائیت، بدھ مت اور ہندومت کے حوالے سے مختصر نوٹ شامل کیے گئے ہیں اور دیگر مقدس کتابوں کے حوالے سے تحریر کیا گیا ہے کہ آپؐ  کی آمد کی اطلاع اُن میں موجود ہے۔ آپؐ  کے شخصی حُسن و جمال کے حوالے سے بھی احادیث مختصراً درج ہیں۔

اسی طرح نبی علیہ السلام کے غزوات و سرایا کو تفصیلاً پیش کیا گیا ہے اور آپؐ  کے فوجی اقدامات کی توجیہہ کی گئی ہے۔ فتح مکہ کی تفصیلات ہیں اور آپؐ  نے دیگر سربراہانِ مملکت کو دین اسلام کی طرف جو دعوت دی وہ پیغامات بھی شامل ہیں۔

پروفیسر خورشیداحمد کتاب کے ابتدایئے میں لکھتے ہیں کہ وقت کا اہم ترین تقاضااخلاقی و روحانی نشاتِ ثانیہ ہے۔ انسانیت کو ہلاکت و تباہی سے بچانے اور نشاتِ ثانیہ کے لیے نبی کریمؐ کی تعلیمات کو مخلصانہ انداز میں اپنانا ہی راہِ نجات ہے۔ اس کتاب میں نبی کریمؐ کی تعلیمات اور مشن کو اختصار و جامعیت، عام فہم انداز اور مستند طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یقینا یہ کتاب عام افراد بالخصوص نوجوانوں کے لیے نبی کریمؐ کی سیرت اور پیغام کو سمجھنے میں مفید ثابت ہوگی۔

اُمت مسلمہ بحیثیت مجموعی اپنے نصب العین اور اپنے قائدانہ کردار سے غافل ہے۔ ان حالات میں ایسی مؤثر کتابوں کی اشاعت قابلِ تحسین ہے۔(محمد ایوب منیر)


Global Islamic Movement: Why and How?     [عالمی تحریکِ اسلامی: کیوں اور کس طرح؟] مرتبہ: شمیم اے صدیقی۔ ناشر: دی فورم فار اسلامک ورک، بروک لین، نیویارک، امریکا۔ صفحات:۱۱۹۔ قیمت:۹۵ئ۶ ڈالر۔

مغرب میں اسلام کی تبلیغ اور اشاعت کے لیے جو لوگ کام کر رہے ہیں ان میں شمیم صدیقی صاحب اور ان کے ساتھیوں کا ایک منفرد مقام ہے۔ ایک امریکی شہری کے ساتھ ساتھ وہ ایک صاحب ِ دل دانش ور بھی ہیں۔اس مختصر سی کتاب میں وہ نہایت وسعت ِ نظر سے یہ بتاتے ہیں کہ اسلام، جو دنیا کی بہترین اصلاحی تحریک کے طور پر نمودار ہوا تھا، کس المیے سے دوچار ہے۔ اسلام، حقیقی معنوں میں محض رسمی عبادات کامجموعہ نہیں، جیساکہ اس کے داعی اُسے پیش کر رہے ہیں، بلکہ ایک ہمہ جہتی نظامِ حیات ہے ۔ بدقسمتی سے ۵۷مسلم ممالک میں کہیں اُسے ایک عالمی سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظام کے طور پر پیش نہیں کیا جا رہا۔ جہاں کہیں اسلامی تحریکیں سر اُٹھاتی ہیں، انھیں ’بنیاد پرست‘ اور ’دہشت گرد‘ کے ناموں سے نوازا جاتا ہے اور انھیں کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پوری مسلم دنیا آج ’یورو امریکی صہیونیت‘ کی غلامی کا قلاوہ گردن میں ڈالے پڑی سورہی ہے، اور حقیقی معنوں میں ایک مثالی اسلامی ریاست کے قیام کے فریضے سے غافل ہے۔

آج کی دنیا، اپنی ساری پیش رفت کے باوجود اُسی ’جاہلیت‘ کے دور سے گزر رہی ہے جب حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی تحریک شروع کی تھی (ص ۲۷-۲۸)۔ آج مسلمان ساری دنیا میں پھیلے ہوئے، لیکن منتشر اور اپنے اصل مشن سے غافل ہیں۔ قرآنِ مجید میں مسلمانوں کو ’اُمت ِوسط‘ کہا گیا ہے ، اور شہادتِ حق ذمہ داری قرار دی گئی ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اسلام کو ایک ’دین‘ کے طور پر سمجھیں اور اس کے مطابق اس پر عمل کرنا اپنا مشن قرار دیں اور اسے محض ’پوجاپاٹ‘ کا مذہب نہ بنالیں۔ نظامِ صلوٰۃ کے ساتھ نظامِ زکوٰۃ (مالیاتی نظام) قائم کریں اور عدل و انصاف کی حکمرانی کا اسلامی نمونہ ساری دنیا کے سامنے پیش کریں۔

کتاب کے ضمیمے میں مؤلف نے بڑی عرق ریزی سے دنیا کے ۲۳۱ ملکوں کے کوائف جمع کیے ہیں اور ان میں کُل آبادی اور مسلمانوں کے تناسب کے اعداد وشمار پیش کیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آج کی دنیا میں انسانی مسائل کے حل کے لیے ایک ’عالمی اسلامی تحریک‘ کی ضرورت ہے،  جس کے لیے اس مختصر کتاب میں بنیادیں فراہم کردی گئی ہیں۔

کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر محمد رفعت نے لکھا ہے۔ سیّدمنورحسن اور ڈاکٹر کوکب صدیق کے تبصرے بھی شاملِ کتاب ہیں۔ (پروفیسر عبدالقدیرسلیم)


کتاب الزُہد، ظفراللہ خان۔ ناشر: ایمل مطبوعات، ۱۲، دوسری منزل، مجاہدپلازا، بلیوایریا،  اسلام آباد۔ فون: ۲۸۰۳۰۹۶ -۰۵۱۔ صفحات:۳۸+۱۰۲۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

یہ درست ہے کہ ہمارے علما ، حکما اور صوفیہ (صوفیہ درست ہے نہ کہ صوفیا) نے مذہبی ادب کا نہایت گراں قدر ذخیرہ فراہم کردیا ہے (حرفِ ناشر)۔ لیکن اس ذخیرے کا اسلوب، ترتیب و تدوین اور پیش کش ایسی ہے کہ اسے دیکھ کر اس کی ساری ’گراں قدری‘ختم ہوجاتی ہے۔ زیرنظر کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس میں زُہد کے موضوع پر احادیث ِ نبویؐ کو اس اندازو اسلوب، ترتیب اور خوب صورتی سے جمع کیا ہے (اور ناشر نے مصنف کی محنت کی قدر کرتے ہوئے اسے اشاعت و طباعت کے ایسے اُونچے معیار پر پیش کیا ہے کہ اُردو میں خال خال کتابیں ہی اس معیار پر چھپتی ہیں) کہ پڑھی ہوئی حدیثیں بے اختیار دوبارہ پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔ہر حدیث کے ساتھ سنددی ہے۔

مفصل دیباچے میں مؤلف نے بڑی جامعیت سے ’زہد‘ کا تعارف کرایا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بیرسٹر صاحب نے صرف حدیث ِ نبویؐ کا نہیں بلکہ صوفیہ کے فرمودات و ملفوظات کا دقّت ِ نظر سے مطالعہ کیا ہے۔ایسی کتاب جس کی ترتیب میں مرتب کی اپنی شخصیت بھی گھلی ملی نظر آتی ہو،  ایک باکمال بات ہے۔ پس یہ فقط ایک علمی (academic) کاوش ہی نہیں، وارداتِ دل کا بیان بھی ہے۔ یہ کتاب بتاتی ہے قرآن و سنت کا انسانِ مطلوب کیا ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


اسلامی فلاحی ریاست، محمد وقاص۔ ناشر: محنت پبلی کیشنز، جی ٹی روڈ، واہ کینٹ۔ فون:۳-۴۹۰۴۰۵۲-۰۵۱۔ صفحات: ۲۲۴۔ قیمت: درج نہیں۔

جملہ مذہبی اوردینی طبقوں ، گروہوں اور جماعتوں کی کاوشوں کا مقصود اسلامی ریاست اور حکومت کا قیام ہے۔ (کم از کم وہ کہتے تویہی ہیں) مگر ’اسلامی ریاست‘ ہے کیا؟ اس کے خدوخال کیا ہوں گے؟ دورِ جدید میں وہ معاصر دنیا کے ساتھ کیسے نباہ کرسکے گی؟ اس کی وضاحت کی طرف ہمارے علما نے کم ہی توجہ دی ہے۔البتہ جدید تعلیم یافتہ مسلم مصنّفین نے اس پر کچھ نہ کچھ کام کیا ہے۔ خود مولانا مودودی کی اسلامی ریاست مسلمانوں کی مطلوب ریاست کے اصول پیش کرتی ہے۔

مؤلف نے اسلامی ریاست کا فلاحی چہرہ دکھانے کی کوشش کی ہے، مگر دیگر پہلوئوں (معیشت، تعلیم، خواتین کے کردار، غیرمسلموں کی حیثیت، ذرائع ابلاغ، اُمورِ خارجہ، جہاد، بنیادی انسانی حقوق) کو بھی واضح کیاہے۔انھوں نے ان تمام مباحث پر مضبوط دلائل کے ساتھ کلام کیا ہے اور زبان نسبتاً عام فہم ہے۔

اگلی اشاعت میں مآخذ و مصادر کی فہرست بھی دے دیں تو مناسب ہوگا۔ مغرب کے  جن دانش وروں (یا مغربی عینک سے دیکھنے والے ہمارے اپنے دانش وروں) نے اسلامی ریاست کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں پھیلا رکھی ہیں، مختصراً اُن سے بھی تعرض ہوجاتا تو بہتر تھا۔ کتاب اچھے کاغذ پر معیاری طباعت کے ساتھ چھپی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


زمین ظالم ہے، مرتبہ: ڈاکٹر بشیراحمد منصور۔ ناشر: اظہار سنز، ۱۹-اُردو بازار، لاہور۔ فون:۳۷۲۳۰۱۵۰-۰۴۲۔ صفحات: ۲۳۹۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

گذشتہ ۴۰، ۴۲ برسوں میں سقوطِ ڈھاکہ کے حوالے سے ایک خاصا بڑا شعری اور ادبی ذخیرہ وجود میں آچکا ہے۔ جس میں مضامین، ناول، افسانے، ڈرامے، نظمیں وغیرہ شامل ہیں۔ زیرنظر مجموعہ اس موضوع پر ۲۲منتخب افسانوں کا مجموعہ ہے۔ لکھنے والوں میں اُردو کے چوٹی کے افسانہ نگار (انتظار حسین، مسعود مفتی، رضیہ فصیح احمد اور اے حمید وغیرہ) شامل ہیں۔ تاریخِ انسانی، سیاسی اور تہذیبی سانحات، دوعظیم جنگوں، تقسیم ہند اور فلسطین، کشمیر اور افغانستان کی جدوجہد ِ آزادی کے حوالے سے اُردو میں اچھے بُرے کئی مجموعے شائع ہوئے۔

یہ افسانے کچھ تو عین زمانۂ جنگ میں، کچھ سقوط کے زمانے میں، اور کچھ زمانۂ مابعد میں تحریر کیے گئے۔ بعض افسانہ نگاروں کے لیے مشرقی پاکستان اَن دیکھے محبوب کے مانند تھا۔ یہ اَن دیکھا محبوب دسمبر ۱۹۷۱ء میں بچھڑ گیا، اور ناراض ہوکر الگ ہوگیا تو اس المیے کی شدت ان کے افسانوں میں نظر آتی ہے۔مرتب نے اپنی تحقیق کے دوران میں سیکڑوں کتابوں اور رسائل میں بکھرے ہوئے افسانوں کا سراغ لگایا۔ پھر افسانوں کا یہ انتخاب مرتب کیا۔ ان افسانوں میں انسان کا ذہنی کرب، اس کے جذباتی رویّے، سیاسی اور معاشرتی حالات کا جبر، اور سیاست کا خود غرضانہ چہرہ سامنے آتا ہے۔

یہ سانحۂ سقوطِ مشرقی پاکستان کی ایک ایسی تصویر ہے جسے افسانوں کے فنی پیرایے میں  پیش کیا گیا ہے۔یہ بامقصد کہانیاں افسانوں کے طور پر تو د ل چسپ ہیں ہی، ان میں سبق آموزی کے بہت سے پہلو بھی موجود ہیں۔ اس طرح یہ کتاب محض ایک افسانوی مجموعہ نہیں بلکہ کسی سنجیدہ کتاب کی طرح تاریخِ پاکستان کے ایک اَلم ناک باب کو سمجھنے میں قاری کی مدد کرتی ہے۔

دیباچہ نگار ڈاکٹر معین الدین عقیل کے بقول: یہ ایک بہت نایاب، نہایت بامعنی، جامع اور معیاری انتخاب ہے۔ ڈاکٹر عقیل کا مفصل ’پیش لفظ‘ بجاے خود سقوطِ مشرقی پاکستان اور ہمارے  قومی ادب سے متعلق قیمتی معلومات پر مبنی ہے۔ طباعتی معیار اطمینان بخش ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


تعمیرسیرت و کردار۔ مصنف: انجینیرمختار فاروقی۔ ناشر: مکتبہ قرآن اکیڈمی، لالہ زار کالونی نمبر۲، ٹوبہ روڈ، جھنگ۔ صفحات:۳۲۰۔ قیمت: ۴۵۰ روپے۔

زیرنظر کتاب مصنف کے چند مضامین اور خطبات کا مجموعہ ہے۔ ان تحریروں میں انسانی سیرت و کردار کے بعض مخفی گوشوں کی تعمیر کی حکمت بیان کی گئی ہے۔ چند عنوانات: راہِ نجات، ذکراللہ، حقیقت عملِ صالح، حدود اللہ کی حفاظت، خواتین کا جہاد، تعمیرسیرت و کردار، تقرب الٰہی کا راستہ۔ انسانی معاملات میں اصلاحِ احوال کا واحد ذریعہ توبہ ہی ہے اور ایمان بالآخرت اور متعدد دیگر عنوانات کے تحت عام فہم زبان میں اظہارخیال کیا گیا ہے۔ تفہیم و تشریح کے لیے انبیا ؑکے واقعات، ان کی زندگی کی مثالیں اور نہایت گہرائی میں جاکر حضور اکرمؐ کی حیاتِ مبارکہ، آپؐ کی سیرت و کردار کی مثالیں اور آپؐ کے اسوئہ حسنہ کے نمونے بیان کیے ہیں۔ اسلوبِ بیان اتنا دل کش ہے کہ قاری لفظ بہ لفظ مصنف کے ساتھ چلتا ہے،کہیں اٹکائو، الجھائو اور ابہام سے واسطہ نہیں پڑتا۔ یوں قاری اپنی فکرونظر کو قرآنی آیات اور سنت ِ نبویؐ کی روشنی میں نکھارتا چلا جاتا ہے۔

مصنف نے اپنی تحریر کو علامہ اقبال کے اُردو اور فارسی اشعار سے مزین کیا ہے۔ یہ اشعار موقع و محل کے لحاظ سے نہایت موزوں ہیں، تاہم بعض مقامات پر ان کی صحت متاثر ہوئی ہے،  آیندہ اڈیشن میں ان کی تصیح ضروری ہے (صفحات: ۱۰۰، ۲۰۳، ۲۰۷، ۲۱۲، ۲۱۴، ۲۱۷)۔ ص ۲۵۴ پر لکھا ہے:’’ حضرت محمدؐ آسمانوں پر تشریف لے گئے… واپس آکر طائف کی بستی جیسے حالات میں پتھر کھانا… محبوب کی رضا کے لیے ہے‘‘، جب کہ اہلِ علم کے نزدیک واقعہ معراج طائف کے سفر سے پہلے ہوا تھا۔ ص۱۵۷ پر لکھا ہے کہ [سیّد سلیمان ندوی] نے ’’مدراس میں سیرت النبیؐ کے موضوع پر لیکچر محمڈن ایجوکیشن سوسائٹی میں دیے تھے‘‘،جب کہ صحیح یہ ہے کہ مدراس میں سیٹھ جمال محمد کی قائم کردہ ’مسلم ایسوسی ایشن‘ میں یہ لیکچر دیے گئے تھے۔(پروفیسر ظفر حجازی)


نقشِ دوام، جدید سائنس اور ٹکنالوجی پر مسلمانوں کے احسانات، مؤلف: انجینیر الطاف حسین اعوان۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۲۴۱۹-۰۴۲۔ صفحات (بڑی تقطیع): ۳۷۲۔ قیمت: ۱۵۰۰ روپے۔

۱۵؍ ابواب پر مشتمل اس کتاب میں سائنس اور ٹکنالوجی سے متعلق سارے ہی معروف عنوانات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ حیوانات اور نباتات سے متعلق عنوان غالباً سہواً رہ گیا ہے۔ ابواب سے متعلق رنگین تصاویر اور خاکے خوب صورت ترتیب سے شائع کیے گئے ہیں اور بڑے جاذبِ نظر ہیں۔ ہرباب میں شرح و بسط اور دلائل کے ساتھ ابتداے اسلام سے لے کر جدید دور تک سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں مسلمانوں کی قابلِ قدر سرگرمیوں کو بڑی خوب صورتی اور شواہد کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔’ علمِ کیمیا اور کیمیکل ٹکنالوجی‘ باب۵، ص ۸۷ تا ۱۰۶ کے چند حوالوں سے اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے: ’’چونکہ قرآن انسان کو مادے کی ساخت پر غور کرنے کی ترغیب دیتا ہے اس لیے مسلمانوں نے شروع دور ہی سے علمِ کیمیا پر توجہ دی۔ مدینہ منورہ میں درس و تدریس کے دوران میں حضرت جعفرصادقؒ نے چار عناصر والے ارسطو کے نظریے کا رد پیش کیا اور واضح کیا یہ چار عناصر مزید کیمیائی عناصر سے بنے ہوئے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ہوا میں ایک ایسی چیز ہے جو جلنے میں مدد دیتی ہے اور اس وجہ سے دھاتیں زنگ آلود ہوجاتی ہیں۔ یہی وہ جزو ہے جو زندہ رہنے کے لیے اشدضروری ہے اور وہ بھاری بھی ہوتی ہے (آج ہم اسے آکسیجن کے نام سے جانتے ہیں)۔ مشہور کیمیادان جابر بن حیان (۷۲۱ئ-۸۱۵ئ) نے یہ بنیادی علوم مدینہ شریف میں ہی سیکھے ۔ان کا شمار حضرت جعفرصادقؒ کے شاگردوں میں ہوتا ہے۔ مسلمانوں سے قبل کیمیا دان عموماً سونا بنانے کی ناکام کوششوں میں مصروف تھے۔ مسلمانوں میں الکندی، البیرونی، بوعلی سینا اور ابن خلدون سمیت عموماً کیمیادانوں نے اس کی مخالفت کی اور عملی کیمسٹری پر توجہ دی۔ مغربی مؤرخین گبن اور سنگر نے علمِ کیمیا کو اپنی اصلیت اور ارتقا کے اعتبار سے عربوں (مسلمانوں) کی ایجاد قرار دیا ہے‘‘۔

کتاب کے ۱۵؍ابواب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سائنس کی اختراعات اور ایجادات میں اور علم سائنس کی مختلف شاخوں کی ابتدا اور اس کی ترقی میں شروع سے آج تک مسلمان سائنس دان نے کتنا اہم کردار ادا کیا ہے۔ مسلمانوں کے ابتدائی دور کو سائنسی تاریخ لکھنے والے نہ صرف نظرانداز کرتے رہے بلکہ اس دور کو تاریک دور (Dark Ages) قرار دیتے رہے۔ حالانکہ عراق اور اندلس کی یونی ورسٹیوں سے تعلیم پاکر نکلنے والے یورپ اور مغرب کے طلبہ ہی تھے جنھوں نے اس تعلیم کے زیراثر واپس جا کر یونی ورسٹیاں قائم کیں اور ان سائنسی علوم کو رواج دیا۔

کتاب کا ’مقدمہ‘ اور ’حرفِ آخر‘ پُرمغز ابواب ہیں۔مقدمے میں مذہب اور سائنس کی بنیادوں پر جامع گفتگو کی گئی ہے اور یہ کہ دونوں کس حد تک ایک دوسرے کے معاون ہیں اوردونوں سے کس طرح فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔ ’حرفِ آخر‘ میں مسلمانوں کے سائنسی میدان میں تنزل کی وجوہات بیان ہوئی ہیں اور اس میں نشاتِ ثانیہ کے لیے کیا منصوبہ بندی کی جانا چاہیے، اس کے لیے تجاویز دی گئی ہیں۔ (پروفیسر شہزاد الحسن چشتی)


منظم، مؤثر اور مستعد مسلمان (چار میم)، تحریر و ترتیب: محمدبشیر جمعہ۔ ناشر: ٹائم مینجمنٹ کلب، دکان ۲۶۸، عبداللہ ہارون روڈ، صدر کراچی۔ تقسیم کار: آئی پی ایس بُک پراسس، مکان نمبر۱، گلی نمبر۸، ایف ۶، اسلام آباد۔ فون : ۹۳-۸۴۸۳۹۱-۰۵۱۔ صفحات: ۲۲۴۔ قیمت: ۳۵۰روپے۔

کامیاب لوگوں کی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو ان میں جو چیز نمایاں نظر آتی ہے وہ ہے وقت کا بہترین استعمال۔ یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ وقت کی تنظیم نہ ہونے کی وجہ سے زندگی انتشار کا شکار ہوجاتی ہے اور صلاحیتوں کے باوجود ناکامی و نامرادی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پچھلے ایک عرصے سے پاکستان میں اس موضوع پر مضامین اور کتابیں لکھی جارہی ہیں اور خاطرخواہ پذیرائی بھی پاتی ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب کا مرکزی موضوع وقت کی تنظیم ہی ہے۔ مؤلف نے وقت کے اسلامی تصورات قرآن و سنت ، اقوال، حکایات، ضرب الامثال اور کہیں کہیں اشعار کی مدد سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس طرح چھوٹے چھوٹے نجی معاملات سے لے کر زندگی کے بیش تر معاملات پر حاوی اس کتاب میں ہر کام کی منصوبہ بندی، بہتر طریقے سے کرنے کا طریقۂ کار اور لائحۂ عمل جائزہ فارم کے ساتھ دیا گیا ہے۔ آخر میں اللہ سے استعانت کے لیے مختلف دعائیں بھی ہیں۔

یہ وقت کی تنظیم کے لیے بلاشبہہ ایک مفید کتاب ہے ۔ کتاب کے نام میں ’چار میم‘ کے اضافے سے ایک طرف جدت پیدا کی گئی ہے اور دوسری طرف مسلمانوں کو جو وقت کی قدروقیمت سے عموماً غفلت برتتے ہیں، اس کے بہتر استعمال کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔(حمیداللّٰہ خٹک)


راوی نامہ، سرفراز سیّد۔ ناشر: قریشی برادرز پبلشرز، چوک اُردو بازار، لاہور۔ صفحات:۲۸۶۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

سرفراز سیّد بنیادی طور پر شعروادب کے آدمی ہیں، چنانچہ بطور شاعر (مشاعرہ پڑھنے)   وہ آٹھ ممالک میں جاچکے ہیں مگر ان کی عملی زندگی کوچۂ صحافت میں گزری ہے۔ بطور صحافی گذشتہ ۴۵برس سے وہ روزناموں میں مختلف ذمہ داریاںادا کرتے رہے جس میں کالم نویسی بھی شامل ہے۔ زیرنظر کتاب میں انھوں نے نسبتاً قریبی زمانے کے اپنے کالموں کا ایک انتخاب پیش کیا ہے۔   اس میں ایسے کالم شامل ہیں جن کا تعلق زیادہ تر عدلیہ سے یا موجودہ سیاسی صورتِ حال کے  نشیب و فرازسے ہے۔ اسی مناسبت سے چھے صاحبان کے انٹرویو بھی کتاب میں شامل ہیں۔

دیباچے میں انھوں نے سیاست دانوں کی ’بے عملیوں بلکہ بداعمالیوں‘ اور جمہوریت کے ساتھ فوجی جرنیلوں کے ’وحشت ناک سلوک‘ کا ذکر کیا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’سب سے زیادہ افسوس ناک کردار ہمارے بعض قانون دانوں، صحافیوں اور نام نہاد دانش وروں کا رہا ہے، جنھوں نے بھاری معاوضوں، پلاٹوں، اعلیٰ ملازمتوں اور بیرونی دوروں کے عوض اپنا علم اور ضمیر فروخت کر دیا۔ اس کے برعکس وہ عدلیہ کے مداح ہیں۔ اس لیے مشرف دور کے چھے جج صاحبان (جسٹس خلیل الرحمن رمدے، جسٹس خواجہ شریف، جسٹس ثائرعلی، جسٹس میاں محمد محبوب، جسٹس اقبال حمیدالرحمن، جسٹس چودھری محمد عارف) کے انٹرویو کتاب میں شامل کیے ہیں۔ ان جج صاحبان کی گفتگوئوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُنھوں نے جنرل مشرف کی دھونس اور لاقانونی اقدامات کو تسلیم کرنے سے انکار کرکے      مالی طور پر بھی خاصا نقصان اُٹھایا مگر اُن کی استقامت کے نتیجے میں عدلیہ کا وقار بحال اور بلند ہوا۔ سرفراز سیّدنے عدلیہ کے موضوع پر براہِ راست کچھ کالم بھی لکھے ہیں۔ انھوں نے جسٹس کارنیلیس اور جسٹس کانسٹنٹ ٹائن کو بجاطور پر خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔

’باتیںاسفندیارولی کی‘ کتاب کے مجموعی مزاج سے لگا نہیں کھاتا۔ ’بہادر آدمی‘ جو دھماکوں سے خوف زدہ ہوکر، اپنے صوبے سے بھاگ کر پریذیڈنٹ ہائوس اسلام آباد میں آچھپا، اس کے منہ سے ’حق گوئی؟‘ سبحان اللہ۔ مگر یہ نہیں بتایا کہ ۱۹۴۷ء کے تاریخی ریفرنڈم میں اس کے دادا باچاخان نے بھارت میں شامل ہونے کے حق میں ووٹ دیا اور پاکستان میں دفن ہونا بھی پسند نہیں کیا۔ اسفندیار کی باتیں کذب و نفاق کا آمیزہ ہیں۔

سرفراز سیّد کے کالموں کی اہم خوبی ان کا اختصار ہے۔ اسلوب سادہ اور انداز دوٹوک ہے۔ سیاست، قانون اور تاریخِ پاکستان کے بارے میں یہ کتاب معلومات کا ایک خزینہ ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


تجدید عہد ، مرتب: عبدالحفیظ احمد۔ ناشر: اسلامک پبلی کیشنز،منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون:۳۵۴۱۷۰۷۱-۰۴۲۔ صفحات: ۱۶۸۔ قیمت: ۸۰ روپے۔

اللہ کی بندگی اور تزکیہ و تربیت انبیا ؑ کی دعوت کا حصہ اور بنیادی فریضہ رہا ہے۔ اسلامی تحریک جو دعوت الی اللہ اور اسلامی نظامِ حکومت کے قیام کی علَم بردار ہوتی ہے، اس کے لیے بھی ناگزیر ہے کہ وہ لوگوں میں دین کا شعور عام کرے اور عمل کی ترغیب دے۔ اسی کے نتیجے میں  اسلامی انقلاب دیرپا اور مستحکم بنیادوں پر برپا ہوسکتا ہے۔ امیرجماعت اسلامی محترم سراج الحق نے اجتماع عام (۲۱-۲۳ نومبر۲۰۱۴ئ) کے اختتام پر تحریک تکمیل پاکستان کا آغاز کرتے ہوئے شرکا سے دین کے بنیادی شعائر (نماز کی ادایگی، تلاوتِ قرآن، جھوٹ اور غیبت سے اجتناب، توبہ و استغفار، والدین کی خدمت اور رزقِ حلال، دعوتی حوالے سے ایک کارکن کا ۱۰۰؍افراد کو حامی اور ووٹر بنانا) پر عمل کے لیے عہد لیا۔ مرتب کتاب نے اس عہد کی اہمیت کے پیش نظر انھی موضوعات پر مولانامودودی، خرم مراد، محمدیوسف اصلاحی، ڈاکٹر محمد علی ہاشمی، گل زادہ شیرپائو اور ڈاکٹر رخسانہ جبین کی مختلف تحریروں کو تجدید عہد کے عنوان سے مرتب کیا ہے۔(امجد عباسی)


تعارف کتب

o معارف مجلۂ تحقیق (جولائی-دسمبر۲۰۱۴ئ)، مدیر: پروفیسر ڈاکٹر محمداسحاق منصوری۔ ناشر: معارف اسلامی، ڈی ۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ فون: ۳۶۳۴۹۸۴۰-۰۲۱۔صفحات: ۱۹۷+۷۱؍انگریزی صفحات۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔[جدید مسائل پر تحقیق، افکار و نظریات کا علمی محاکمہ اور علوم و فنون کی اسلامی تشکیل وتعبیر کے فروغ کے لیے معارف مجلّۂ تحقیق ادارہ معارف اسلامی کراچی کے تحت شائع ہوتا ہے۔ موجودہ شمارے کے چند اہم مقالات:l سامراجیت وملوکیت پر اقبال کی تنقید: ایک تحقیقی مقالہ از شیراز زیدی l پاکستان میں صنعتوں کو قومیانے اور نج کاری کی پالیسی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں از سعدیہ گلزار، عاطفہ گلزار l مولانا مودودی، جاپان میں از معین الدین عقیل l رسولؐ اللہ کا نظامِ تربیت اور انسانی صلاحیتوں کا فروغ از محسنہ منیر lمزارعت کے بارے میں مولانا محمد طاسین کا نقطۂ نظر، ساجد جمیل۔انگریزی حصے میں چھے مقالات ہیں۔ نوجوان محققین کی رہنمائی بھی ادارے کا ہدف ہے، لہٰذا ’نئے محققین کے نام‘ سے اداریہ دیا گیا ہے۔ اہم موضوعات پر قلمی مذاکرہ کا سلسلہ بھی ہو تو مفید ہوگا۔]

قرآن کی کرنیں (جلداوّل تا سوم اور ہشتم) حکمت یار، مترجم: ڈاکٹر عبدالصمد۔ ملنے کا پتا: یونی ورسٹی بک ایجنسی، خیبربازار، پشاور۔ مکتبہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔فون: ۳۵۴۳۲۴۱۹-۰۴۲۔ صفحات (علی الترتیب): ۴۷۶، ۵۰۰،  ۴۱۲ اور ۶۳۶۔ قیمت فی جلد: ۵۰۰روپے۔

انجینیر گلبدین حکمت یارمعروف مجاہد اور حزبِ اسلامی افغانستان (حکمت یار گروپ) کے صدر ہیں۔ اشتراکی سامراج کو شکست دینے اور سوویت یونین کے توڑنے میں ان کا کردار بہت نمایاں رہا ہے۔ طالبان کے اقتدار کے بعد انھوں نے کش مکش سے اجتناب کیا اور ان کی توجہ مطالعے اور تصنیف وتالیف کی طرف مبذول رہی (نائن الیون کے بعد حزبِ اسلامی محدود پیمانے پر پھر سرگرمِ عمل ہوگئی)۔ ان کی گوشہ گیری کا ایک ثمر پشتو میں قرآنِ حکیم کی تفسیر ہے۔ قرآن پلوشی  جس کا اُردو ترجمہ پیش نظر ہے۔

اُردو میں تراجم و تشریحاتِ قرآن کی تعداد سیکڑوں میں ہوگی مگر پشتو میں ایسا نہیں ہے۔ چنانچہ حکمت یار صاحب نے پشتو میں قرآن کے ’دل کش اور دقیق ترجمے کی کمی کو پورا کرنے‘ کے مشکل کام کا بیڑا اُٹھایا۔ اس ’مشقت طلب کام‘ میں انھوں نے ہرلفظ کے دقیق ترجمے کے ساتھ آیات کی خوب صورت اور دل کش ادبی تراکیب کا بھی خیال رکھاہے۔ قرآنی تراکیب اور آیات کے تین تین ، چارچار متبادل ترجمے دے کر بتایا ہے کہ کون سا ترجمہ دقیق اور بہتر ہے اور کیوں؟ وہ کہتے ہیں کہ میں نے ممکنہ حد تک ہر لفظ کا نہایت ’امانت داری‘ سے ترجمہ کیا ہے۔ ترجمے کے الفاظ کی تعداد، آیت کے الفاظ کی تعداد کے برابر رکھنے کی کوشش کی ہے۔ آخر میں دی گئی فہرست کے مطابق انھوں نے عربی، فارسی اور اُردو کے تقریباً ۵۰تراجم و تشریحات اور کتب ِ لُغت سے استفادہ کیا ہے۔

اس تفسیر سے کہیں کہیں حکمت یار صاحب کے شخصی احوال کا بھی پتا چلتا ہے، مثلاً یہ کہ ۲۰سال قبل کی حفظ کردہ سورہ آلِ عمران نمازِ فجر میں تلاوت کرتے ہیں تو دورانِ تلاوت کوئی سوال ذہن میں اُبھرتا ہے اور جواب کے لیے بہت سی تفاسیر دیکھتے ہیں۔ تلاوت کے دوران میرے سامنے ہرمرتبہ ’’سورت کے نئے نئے ابعاد اور ابواب کھلتے ہیں‘‘ ( جلداوّل،ص ۲۱۶)۔ اسی طرح ان کے نظریات کا بھی علم ہوتا ہے، مثلاً جہاد کی فرضیت کے قائل ہیں مگر ان کے نزدیک یہ جہاد انفرادی نہیں ایک ’’منظم اور تربیت یافتہ حزب اور جماعت کا کام ہے‘‘ نہ کہ افراد اور چھوٹے چھوٹے گروہوں کا۔ ایک ایسے حزب کا جو تربیت یافتہ ہوکر کندن بن چکا ہو، جن کا اسلحہ ان کے ایمان کے تابع ہو، نہ کہ ان شدت پسند جذبات و احساسات کے تحت انتقام اور بدلہ لینے لگیں۔ (ایضاً، ص ۴۱۷)

اُردو ترجمہ ڈاکٹر عبدالصمد اور ان کے معاون محمد اسلام علوی کی دل چسپی وکاوش کا نتیجہ ہے۔ حکمت یار بعض مسائل پر دیگر مفسرین کا موقف بیان کرتے ہوئے کہیں ان سے اتفاق اور کہیں اختلاف کرتے ہیں۔ انھوں نے سابقہ مفسرین سے استفادہ بھی کیا ہے، مگر وہ کہیں کسی کا نام نہیں لیتے۔ اُردو ترجمے میں تو تفہیم القرآن کا اثر نمایاں محسوس ہوتا ہے۔ڈاکٹر عبدالصمد نے لکھا ہے کہ میں حکمت یار کی بعض چیزوں سے اتفاق نہیں کرتا، مثلاً اپنے موقف سے مختلف نقطۂ نظر رکھنے والوں پر سختی سے نکیر یا بعض وقتی اور علاقائی ایشو کو زیربحث لانا (جلداوّل،ص ۴) وغیرہ۔ قرآن کی کرنیں کی چار جلدیں (چہارم تا ہفتم) غالباً تاحال طبع نہیں ہوئیں۔(رفیع الدین ہاشمی)


الـتفسیر (خاص اشاعت: برصغیر کے مفسرین اور ان کی تفاسیر) کراچی، مدیراعلیٰ: ڈاکٹر محمد شکیل اوج۔ شمارہ ۲۳، جنوری تا جون ۲۰۱۴ئ۔ ناشر: مجلس التفسیر ، بی۳، اسٹاف ٹائون، یونی ورسٹی کیمپس، جامعہ کراچی۔  صفحات: ۴۵۰+۱۵۔ قیمت: ۷۰۰ روپے۔

کراچی یونی ورسٹی کے شعبۂ تاریخ اسلامی سے وابستہ، ڈاکٹر شکیل احمد اوج (یکم جنوری ۱۹۶۰ئ-۱۸ستمبر ۲۰۱۴ئ) عصری تہذیبی مسائل پر غوروفکر کرکے قلم اٹھاتے رہے ہیں۔ اس کی تفصیل قرآنِ مجید کے آٹھ منتخب تراجم، نسائیات، تعبیرات اور صاحبِ قرآن کے علاوہ ان کی ادارت میں شائع ہونے والا علمی و فکری مجلہ ششماہی التفسیر میں ملتی ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان سے منظور شدہ اس مجلے کے ۲۳شمارے منصہ شہود پر آئے ہیں۔ زیرنظر خصوصی شمارہ اُردو کے مفسرینِ قرآن اور ان کی تفاسیر سے متعلق ہے۔

 مدیر نے اس احساس کے باوجود کہ اکثر مفسرین ایک دوسرے سے جزوی یا کُلی اختلاف رکھتے ہیں، اس بات کو ترجیح دی کہ اب تک ہونے والے تمام تفسیری کام پر نظر ڈالی جا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ مَیں ان تمام حضرات کے تفسیری و تفہیمی کام کو ملت اسلامیہ کا مشترک علمی سرمایہ سمجھتا ہوں۔ مسلمانوں کو اس علمی خزانے سے بغیر کسی تعصب کے، استفادہ کرنا چاہیے کیونکہ اسی طرح قرآن فہمی کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔مَیں چاہتا ہوں کہ لوگ کلامِ الٰہی سے وابستہ ہو جائیں۔

تفاسیر کے تجزیوں کے علاوہ تفسیری مباحث سے متعلق چند مضامین بھی شامل ہیں۔ مثال کے طور پر ’مولانا احمد رضا خاں بریلوی بحیثیت مترجم قرآن‘ (محمد امین)، ’ساختیاتی لسانیات، فہم معانی کا جدید منہج اور ترجمۂ قرآن پر اس کے اثرات‘ (ڈاکٹر حافظ عبدالقیوم)، ’تفسیر قرآن میں کتب سابقہ سے اخذ و استدلال کے اسالیب‘ (محمد خبیب، ڈاکٹر محمد عبداللہ) اور ’جماعتِ احمدیہ کا تراجمِ قرآنِ مجید اور تعلیم قرآن پر کیے گئے کام کا علمی و تحقیقی جائزہ‘ (محمد عمران، ڈاکٹر عبدالرؤف ظفر)۔


یہ شمارہ تقریباً دو سو برسوں کے دَوران میں ہونے والے تفسیری کام کو سمجھنے کی ایک ناتمام کوشش ہے۔ بایں ہمہ مدیر نے اعتراف کیا ہے کہ شاہ ولی اللہ، سرسید، حمید الدین فراہی، عبیداللہ سندھی، علامہ عنایت اللہ مشرقی، عبداللہ یوسف علی، عبداللہ چکڑالوی، خواجہ احمد الدین،    مولانا اشرف علی تھانوی، ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری، مولانا امین احسن اصلاحی، علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھی، مولانا عبدالکریم اثری اور مولانا صلاح الدین یوسف وغیرہم پر مقالات شامل نہیں ہوسکے۔

مجلے کے آخر میں مفتی محمد اعظم سعیدی نے کنزالایمان (مولانا احمد رضا خاں بریلوی) پر پروفیسر ڈاکٹر مجید اللہ قادری کے تحقیقی مقالے کا جائزہ لیا ہے۔ ان کا لب و لہجہ اور اسلوب حددرجہ طنزیہ بلکہ استہزائیہ ہے۔ اگر پروفیسر قادری کا مقالہ ایسا ہی بے کار تھا تو مفتی سعیدی نے اس پر ۱۹صفحات اور اپنے کئی گھنٹے کیوں ضائع کیے؟

اوج مرحوم نے اداریے میں اہل علم کو دعوت دی تھی کہ اگر وہ اپنے کسی پسندیدہ یا کسی غیرمعروف مفسر یا مترجم کی خدماتِ جلیلہ پر لکھنے کے خواہش مند ہوں تو التفسیر کے ایک نئے نمبر کے لیے وہ ان کی تحریر کے منتظر رہیں گے لیکن صدافسوس کہ وہ یہ خواہش لیے خالق حقیقی سے جاملے۔ (خالد ندیم)


حدیث نبویؐ اور سائنسی علوم، مولانا عبدالحق ہاشمی۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، ڈی-۳۵، بلاک۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ فون: ۳۶۳۴۹۸۴۰۔ صفحات: ۳۲۵۔ قیمت: درج نہیں۔

مصنف کی یہ کتاب اسلام اور سائنس پر شائع شدہ لٹریچر میں ایک اہم اور قابلِ قدر اضافہ ہے۔ کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے، ہر باب کے ذیلی عنوانات ہیں۔ ہر حدیث ِ نبویؐ کے تحت نبویؐ حکمت یا علماے اسلام کی حکمت اور پھر انسانی تجربے و مشاہدے سے اس کی توثیق کی گئی ہے، مثلاً: باب اوّل ’حفظانِ صحت کے زریں اصول‘ کے تحت ۴۷ ذیلی عنوانات ہیں۔ ۵۸واں ذیلی عنوان ہے: ’خواتین سے مصافحے کی ممانعت اور اس کی حکمت‘ ۔ حضرت میمونہؓ بیان کرتی ہیں کہ آپؐ نے ہم سے (کچھ عورتوں سے) قرآنِ پاک کے بیان کے مطابق بیعت لی۔ پھر ہم نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ!آپ ؐ ہم سے مصافحہ کیوں نہیں فرماتے؟ آپؐ نے فرمایا: میں عورتوںسے مصافحہ نہیں کرتا‘‘۔(موطا امام مالک، حدیث ۲۸۳۵)

زیرنظر حدیث میں بعض ایسے پہلو موجود ہیں جو انسانی بدن پر ہونے والی تحقیق میں منکشف ہوئے ہیں۔ ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ انسانی جِلد کی سطح پر اَن گنت ایسے خلیات پائے جاتے ہیں جو لمس کے احساس کو دماغ تک منتقل کرتے ہیں اور دماغ اسے محفوظ کرلیتا ہے۔ یہ خلیات بالکل الیکٹرک سنسرز کی طرح کام کرتے ہیں۔ اگر چھونے کا عمل پُرلطف اور لذت سے لبریز ہو تو دماغ میں اس چھونے والے کی پوری شخصیت کا ایک تصور قائم ہوجاتا ہے اور اس کی طرف پُرکشش میلان ہونے لگتا ہے۔ اگر لمس کا یہ عمل مسلسل ہو تو دماغ پر ایک ہیجان اور تشویش سی چھا جاتی ہے جو بالآخر صنفِ مخالف سے ناروا اختلاط تک لے جاتی ہے۔ (روائع الاعجاز العلمی،ج۱،ص ۵۹-۶۰)

اس تحقیق سے خواہ کوئی اتفاق نہ کرے لیکن انسانی تجربہ و مشاہدہ بہرحال اس صورتِ حال کی توثیق کرتے ہیں اور رسولؐ اللہ کے اس احتراز کی سائنسی توجیہہ بھی سمجھ میں آجاتی ہے۔ اسی طرح حفظانِ صحت ، تشخیص امراض، مظاہر قدرت، فلکیات اور جدید ایجادات کے عنوانات کے تحت احادیث اور سائنسی علوم کو زیربحث لایا گیا ہے۔

اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ وحی خفی و جلی، یعنی حدیث و قرآن علمِ غیب، انسان کے اعمال اور مادی کائنات کی حقیقت واصلیت پر مبنی ہیں۔ سائنسی علم صرف مادی کائنات کی تشریح و توضیح، تجربات و مشاہدات پر مشتمل ہے۔ اس کے نزدیک ماوراے مادہ و سائنس کی تعبیر و تشریح کوئی قطعی حقیقت نہیں رکھتی۔ پھر آج کی بیان کردہ حقیقت کل بدل بھی سکتی ہے، لہٰذا سائنس کی تشریح وتوضیح حدودِ مادہ کے اندر تو ’علم‘ کا مقام رکھتی ہے، ورنہ نہیں۔بقول مصنف: سائنس اور وحی کے مابین یہ کوئی نزاعی تحقیق نہیں ہے بلکہ حدیث نبویؐ میں سائنسی استدلال کو واضح کرنے کی ایک ابتدائی کوشش ہے۔ اہلِ فن کے لیے صلاے عام ہے کہ وہ اس میدان میں دادِ تحقیق دیں، تصحیح و اضافہ فرمائیں اور اپنے علمی جواہرپاروں سے اصحابِ ذوق کو فیض یاب کریں۔ (شہزادالحسن چشتی)


سنوسی تحریک، ڈاکٹر سیّدخالد محمود ترمذی۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور- ۵۴۷۹۰۔فون: ۵۴۳۲۴۷۶-۰۴۲۔ صفحات:۲۹۶۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

تاریخ کے ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے ایسے مصلحین پیدا کیے جنھوں نے انتشار و افتراق میں مبتلا اور بے راہ روی کے شکار مسلمانوں کو جھنجھوڑ کر ایک دفعہ پھر قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں صراطِ مستقیم دکھایا۔ انیسویں صدی عیسوی میں جہاں برعظیم پاک و ہند میں تحریک مجاہدین کے بانی سیّداحمدشہید اور شاہ اسماعیل شہید نے اپنے خون کا نذرانہ دے کر مسلمانوں میں حریت و آزادی کی روح پھونکی، وہاں محمد بن علی السنوسی (۱۷۸۷ئ-۱۸۵۹ئ) نے سنوسی تحریک برپا کر کے عالمِ عرب میں بیداری کی لہر پیدا کردی۔

زیرنظر کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ سنوسی تحریک نظریاتی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی لحاظ سے ایک جامع اور اپنے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ایک ہمہ گیر اور عالم گیر اسلامی تحریک تھی۔ اس تحریک کا مقصد عالمِ اسلام کا مکمل روحانی ارتقا، یعنی اسلامی نظام کا نفاذ تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے سنوسی تحریک نے ’زاویوں‘ (خانقاہوں) کا نظام قائم کیا تھا۔ ہر ’زاویہ‘ بالعموم مسجد، سکول، مہمان خانہ، طلبہ کے اقامتی کمروں، مطبخ، تحریک کے وابستگان کی قیام گاہوں کے علاوہ ورکشاپ اور مویشی فارم پر مشتمل ہوتا تھا۔ تحریک کے زیراہتمام ایسے ’زاویوں‘ کی تعداد سیکڑوں میں تھی۔ ان کی خصوصیت یہ تھی کہ ذکروفکر، درس و تدریس کے ساتھ ان میں ہُنر سکھانے اورعسکری تربیت کا اہتمام بھی ہوتا تھا، تاکہ ان زاویوں کے فارغ التحصیل دعوت و تبلیغ و جہاد کے ساتھ معاشی طور پر بھی خود کفیل رہیں۔ ان زاویوں کے سربراہ ’شیخ‘ کہلاتے جو زاویے کے انتظام و انصرام کے ساتھ پورے علاقے کے مفتی، مُصلح اور جج کا کردار بھی ادا کرتے تھے۔ اس تحریک نے ایک طرف سیاسی میدان میں اطالوی، فرانسیسی اور برطانوی سامراج کا مقابلہ کیا۔ دوسری طرف مسلمانوں کے اندر پھیلی ہوئی بُرائیوں اور کمزوریوں کی اصلاح اور دین و دنیا کی دوئی ختم کرکے معاشرے میں صحیح اسلامی روح بیدار کرنے کے لیے عظیم جدوجہد کی۔

اس تحریک نے اپنے دورِ عروج میں وسیع پیمانے پر مسلمانوں کے ذہن و فکر، دل و دماغ کو متاثر کیا اور سیاسی و اجتماعی طور پر اسلامی تاریخ پر دُور رس اثرات مرتب کیے۔ یوں یہ تحریک بعد میں اُٹھنے والی اسلامی تحریکوں کے لیے ایک قابلِ تقلید نمونہ بن گئی۔ انتہائی اہم موضوع پر اس تحقیقی کتاب کے مطالعے کے بعد ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی شان دار تحریک (سنوسی تحریک) عروج کے بعد زوال کا شکار کیوں کر ہوئی؟ مصنف کو یہ تجزیہ پیش کرنا چاہیے تھا۔ مشکل اندازِ بیان اور پروف ریڈنگ کی غلطیاں قابلِ توجہ ہیں۔ (حمیداللّٰہ خٹک)


راہِ نجات، مرتبہ: پروفیسر سمیّہ طفیل۔ ملنے کے پتے:اسلامک پبلی کیشنز، منصورہ، لاہور۔فون: ۳۵۴۱۷۰۷۴-۰۴۲۔ ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۲۴۱۹-۰۴۲۔ کتاب سراے،  اُردو بازار، لاہور۔ فون:۳۷۳۲۰۳۱۸-۰۴۲۔ صفحات: ۴۵۶۔ قیمت: ۶۰۰ روپے۔

دین کا صحیح فہم حاصل ہونا باری تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے لیکن دین پر استقامت اور جذبۂ دینی میں دوام اس سے بھی عظیم الشان نعمت ہے۔ ۱۹۴۱ء میں دین کا درد رکھنے والے ۷۵؍ افراد نے قافلۂ اسلام میں شمولیت اختیار کی تھی، لیکن راستے کی دشواریوں، سختیوں اور مشکلات کی وجہ سے بہت سے لوگ تھک تھک کر رفتہ رفتہ قافلے سے بچھڑتے اور پیچھے رہتے گئے۔ معدودے چند افراد ہی کو تادمِ آخر قافلے سے قدم ملا کر چلنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ایسے صاحبانِ عزیمت میں  میاں طفیل محمد سرفہرست ہیں۔ انھوں نے اوّل روز سے کلمۃ اللہ کو بلند کرنے کا جو عہد کیا تھا،    تادمِ واپسیں اس سے سرمواِنحراف نہیں کیا۔ میاں صاحب جب جماعت اسلامی میں شامل ہو رہے تھے تو ایک شان دار کیریئر ان کا منتظر تھا، مگر انھوں نے ایک خندۂ استہزا سے اسے مسترد کر دیا، والد کی شدید ناراضی بھی قبول کرلی (بعدازاں ان کے والد میاں صاحب کے فیصلے سے بے حد خوش تھے اور وفات تک ازراہِ محبت انھی کے پاس مقیم رہے)۔

میاں صاحب کی آپ بیتی مشاہدات کئی برس پہلے پروفیسر سلیم منصور خالد کی توجہ سے    شائع ہوئی تھی۔ بعدازاں ان کی شخصیت پر دو ایک کتابیں بھی شائع ہوئیں۔ زیرنظر کتاب ان کی بیٹی کا اپنے قابلِ فخر والد کو ایک خراجِ عقیدت ہے۔ کتاب کا پورا نام ہے: اہلِ پاکستان کے لیے راہِ نجات، معمارِ جماعت اسلامی میاں طفیل محمد کی نظر میں۔

میاں صاحب کی وفات پر بہت سے تعزیتی بیانات، مضامین اور کالم چھپے تھے۔ اپنی طویل سیاسی زندگی میں انھوں نے تاریخِ پاکستان کے بعض نازک موقعوں پر حکمرانوں کی صحیح سمت میں رہنمائی کی کوشش کی۔ انھیں خطوط لکھے اور بیانات بھی جاری کیے۔ پروفیسر سمیّہ نے اس کتاب میں میاں صاحب کی ایسی تمام دستیاب تحریریں، خطوط، مصاحبے (انٹرویو) اور بیانات جمع کردیے ہیں جن سے ان کی شخصیت کی کتنی ہی جہتیں واضح ہوتی ہیں اور ان کے افکارو خیالات کی تفصیل معلوم ہوتی ہے۔ کتاب میں متعدد تصاویر بھی شامل ہیں۔مؤلفہ کے اپنے دومضامین بھی شامل ہیں۔ کتاب خوب صورت چھپی ہے۔ ترتیب و تدوین اور بہتر ہوسکتی تھی۔(رفیع الدین ہاشمی)


غزلیاتِ ثمر، ثمر حسنین۔ ناشر: نثار پریس، کراچی۔ فون: ۲۲۲۱۸۴۸-۰۳۰۵۔ صفحات:۱۰۴۔ قیمت: ۳۰۰ روپے

غزل، اُردوشاعری کی ایک توانا صنف ہے جسے کہنے کے لیے اگر گہرا مشاہدہ اور طرزِنگارش مضبوط بنیادیں نہ رکھتا ہو تو غزل کی شکل بنتی ہی نہیں۔ میر، درد اور غالب سے ہوتا ہوا غزل کا سفر موجودہ عہد تک پہنچا تو اس میں گل و بلبل کی باتوں کے ساتھ ساتھ غمِ زندگی کے بکھیڑے بیان کرنے کا سانچا بھی بنانے کی کوششیں کی گئیں، لیکن یہ کام اتنا مشکل ہے کہ اس کوشش میں بالعموم شاعری کی لطافت دم توڑ دیتی ہے۔

تاہم ثمر حسنین نے ۵۴ غزلوں پر مشتمل اپنے اس انتخاب میں جہاں رنگِ تغزل کو محفوظ رکھا ہے، وہیں غمِ ہستی اور آشوبِ عصر کو کامیابی سے ہم قدم بنایا ہے۔ ثمرحسنین کی شاعری میں اچھائی اور بُرائی کی کش مکش کا رنگ نمایاں ہے، لیکن یہ رنگ وعظ کا روپ نہیں دھارتا بلکہ آہستگی سے دل میں سچا پیغام اُتار دیتا ہے۔ اگرچہ اس تبصرے میں اشعار پیش کرنے کی گنجایش بہت کم ہے، تاہم یہ دو مصرعے مجموعی طور پر کلام کے تیور سمجھا سکتے ہیں، جیسے :’’ امیرشہر تو سب سے بڑا بھکاری ہے‘‘، اور ’’لحد پر صرف کتبہ رہ گیا‘‘۔ (سلیم منصور خالد)


تعارف کتب

oلازوال نصیحتیں ، عاصم نعمانی۔ ناشر: اسلامک پبلی کیشنز، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۱۷۰۷۴-۰۴۲۔  صفحات:۲۴۸۔ قیمت:۲۶۰ روپے۔[عاصم نعمانی (مولانا محمد سلطان) سیّدمودودی کے معاون خصوصی اور  مرکز جماعت اسلامی میں شعبہ تربیت کے ذمہ دار تھے۔ اُمت مسلمہ کے شان دار علمی ورثے سے تعمیر سیرت و کردار کے پیش نظر انھوں نے عربی مجموعے الوصایا الخالدہ کا لازوال نصیحتیں کے عنوان سے ترجمہ کیا تھا۔ اخلاقی و معاشرتی ہدایات پر مشتمل آیاتِ قرآنی اور احادیث نبویؐ کے ساتھ ساتھ خلفاے راشدین کے  خطابات و نصائح بالخصوص حضرت علیؓ کے ادب پارے اور دیگر مختصر اور جامع اقوال کو یک جا کیا گیا ہے۔ ادارے نے اس کتاب کا نیا اڈیشن اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے، نیز معیاری اسلامی کتب کے تراجم پیش کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ ذاتی تزکیہ و تربیت کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر تذکیر کے لیے مفید انتخاب ہے۔]

o قرآن کا نظا م خاندان، مولانا سیّد جلال الدین عمری۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، ڈی-۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ فون: ۳۶۳۴۹۸۴۰۔  صفحات:۲۴۔ قیمت: درج نہیں۔ [مادیت اور معاشرتی انحطاط سے خاندان کا ادارہ بھی متاثر ہورہا ہے۔ خاندان کے تحفظ اور اسلامی خطوط پر تربیت کے لیے اس کتابچے میں خاندانی نظام کے حوالے سے قرآن کی تعلیمات جامعیت اور اختصار کے ساتھ پیش کی گئی ہیں۔ حقوق و فرائض کے علاوہ ایک سے زائد شادیوں کی اجازت، تین طلاق اور قتلِ اولاد، نیز اولڈ ایج ہوم کی شرعی حیثیت جیسے مسائل بھی زیربحث آئے ہیں۔ خاندان سے متعلق اسلامی تعلیمات پر مصنف کی کئی کتب شائع ہوچکی ہیں۔]

o اختلاف، ادب اور محبت ، سیّدثمراحمد۔ ملنے کا پتا: ادارہ مطبوعات سلیمانی، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔  فون: ۳۷۳۶۱۴۰۸-۰۴۲۔ صفحات: ۳۲۔ قیمت: ۳۵ روپے۔[مذہبی اختلاف کی حقیقت و نوعیت ، اہلِ علم کی روش، اور عصرِحاضر میں مسلمانوں کا رویہ کیسا ہو__ مثالوں اور واقعات سے اختصار کے ساتھ صحیح رویے کی طرف رہنمائی کی گئی ہے۔ نیز یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اختلافِ راے اُمت کے لیے کیسے رحمت ہے۔   حاصلِ کتاب یہ ہے کہ اختلاف کو ادب اور محبت کے ساتھ کیا جائے۔ مسئلے کو سمجھنے اور عمل کی تحریک پر مبنی ایک مختصر اور مؤثر تحریر۔ مدرسین قرآن و داعیانِ دین کے لیے مفید نکات۔ حوالوں کا اہتمام مزید مطالعے کی ترغیب کا باعث ہوگا۔]

o بوڑھے بادشاہ کی کہانی ، حافظ محمد ادریس۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون:۳۵۴۳۲۴۷۶-۰۴۲۔ صفحات: ۴۸۔ قیمت: ۱۳۰ روپے۔[ڈائرکٹر ادارہ حافظ محمد ادریس کے قلم سے ’جنت کے پھول سیریز‘ کے تحت بچوں کے لیے بامقصد اور کردار سازی پر مبنی کہانیوں کی اشاعت کا آغاز   کیاگیا ہے۔ زیرتبصرہ کہانی بہادر شاہ ظفر اور دیگر پانچ کہانیوں پر مشتمل ہے۔ جنگ ِ آزادی کے لیے مسلمانوں کی قربانیاں اور انگریزوں کے مظالم کا تذکرہ ہے۔ نیز یہ کہ مسلمان کن اسباب کی بناپر زوال کا شکار ہوئے۔ کتاب کی قیمت بہت زیادہ ہے۔]

اسلام کا نظامِ قضا: مطالعات، ڈاکٹر ابراہیم سواتی۔ شائع کردہ: قرآنک عریبک فائونڈیشن،  بی-۵۵۲، کانونٹری روڈ، برمنگھم، برطانیہ۔ صفحات: ۸۳۰۔ قیمت: ۹۹ئ۱۲ پونڈ۔

قرآن کریم نے انبیا علیہم السلام کی بعثت کا ایک مقصد یہ بتایا ہے کہ وہ معاشرے میں عدل قائم کریں (الحدید ۵۷:۲۱)، اور سورئہ رحمن میں تو یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ تمام کائنات ایک میزانِ عدل پر قائم ہے (۵۵:۲)۔ اس طرح اور متعدد مقامات پر عدل و انصاف کی تلقین کی گئی ہے۔ اس لحاظ سے ڈاکٹر سواتی کی زیرتبصرہ کتاب اسلام کے نظامِ عدل کے اہم موضوع پر بڑی جامع تصنیف ہے۔ یہ علمی اور تحقیقی کتاب جو حقیقتاً ایک دائرۃ المعارف کا مقام رکھتی ہے، ان کی  تمام زندگی کی کاوش کا ماحصل ہے۔

ڈاکٹر سواتی نے ۱۹۷۲ء میں، لندن یونی ورسٹی میںاس موضوع پر اپنا تحقیقی مطالعہ پیش کیا تھا اور اس کے بعد وہ مختلف یونی ورسٹیوں میں اپنی ملازمت کے دوران اس موضوع پر تحقیق کرتے رہے اور اپنے ذاتی کتب خانے میں قیمتی اور نادر ذخیرہ بھی جمع کرتے رہے۔ اس کے نتیجے میں انھوں نے ۸۰۰ سے زائد صفحات کی ضخیم کتاب میں اسلام کے نظامِ قضا کے تمام اہم اور امتیازی پہلوئوں کا احاطہ کیا ہے۔

کتاب کا آغاز مصنف نے عہدِ جاہلیت کے نظامِ قضا سے کیا ہے اور اس امر کی عقدہ کشائی کی ہے کہ اس دور کو دورِ جاہلیت کیوں کہا جاتا ہے اور اس ضمن میں جاہلی عصبیت و حمیت اور دیگر بُرائیوں کی وضاحت کی ہے۔ دوسرے ابواب میں قرآن کے حوالے سے اس نظام پر جو تنقید کی ہے اس کا ذکر ہے۔

کتاب کے دوسرے حصے میں انبیا علیہم السلام کی بعثت کا مقصد، توحید کا اعلان اور عدل و انصاف کے نظام کا قیام زیربحث آیا ہے۔ اس ضمن میں حضرت دائود ؑ اور حضرت سلیمان ؑ کے دو مقدموں کا تذکرہ ہے۔

اس کے بعد کے ابواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین کے عدالتی نظام کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے اور پھر ادب القاضی کے حوالے سے عدالتی قوانین پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے اور پھر اس ضمن میں پولیس، قیدخانوں اور محکمہ الحسبہ کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔

کتاب کو دو حصوں اور ۱۱؍ ابواب میں ترتیب دیا گیا ہے اور تین کتابیات کی فہرست تقریباً ۳۰۰ صفحات پر مشتمل ہے جس میں ۱۸۰۰ سے زائد کتابیں شامل ہیں جو اساتذہ اور طلبا کے لیے بڑی مفید معلومات کا خزانہ ہے۔ اصل کتاب انگریزی میں ۲۰۱۲ء میں شائع ہوئی تھی جس کی علمی حلقوں میں کافی پذیرائی ہوئی تھی۔ اب اسے ڈاکٹر ضیاء الدین فلاحی نے جو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں لیکچرار ہیں بامحاورہ اور سلیس اُردو میں ترجمہ کیا ہے۔ اس کی سلاست اور روانی سے اندازہ نہیں ہوتا ہے کہ یہ ترجمہ ہے۔ کتاب اعلیٰ معیار پر اچھی کتابت اور طباعت کے ساتھ شائع کی گئی ہے۔ اُمید ہے صاحب ِ علم حضرات اور طلبا اس جامع اور مستند علمی کتاب سے استفادہ کریں گے اور برعظیم کے کتب خانوں میں یہ جگہ پائے گی۔(عبدالرشید صدیقی)


بارِشناسائی،کرامت اللہ غوری۔ ناشر: اٹلانٹس پبلی کیشنز ۳۶-اے ایسٹرن سٹوڈیوز کمپاونڈ،بی- ۱۶ سائٹ،کراچی۔صفحات:۲۱۳۔قیمت:۴۸۰روپے۔

عرب کے مشہور شاعر متنبی جس کی مدح کرتا اُسے آسمان پر اٹھاکر ماورائی مخلوق بنالیتا، اسی طرح جب کسی کی ہجوکرتا تو اسے انسانیت کے دائرے سے نکال کر اسفل السافلین بنا کردَم لیتا۔ یہی حال ہمارے اکثر قلم کاروں کا ہے ۔وہ جب بھی کسی شخصیت پر قلم اُٹھاتے ہیں تو دونوں انتہاؤں میں سے ایک پر ہوتے ہیں۔حکمرانوں،سیاست دانوں اور با اثر شخصیات کے خاکوں اور سوانح میں بالخصوص اپنے پسندیدہ اور ناپسندیدہ رنگ اہتمام سے بھرے جاتے ہیں۔ عام آدمی تک صحیح معلومات نہ پہنچنے کی وجہ سے وہ یا تو رہزن کو رہبر سمجھنے لگتا ہے یا پھر ’سب چورہیں ‘ کہتے ہوئے قومی واجتماعی معاملات سے دامن جھٹک کر الگ ہوجاتا ہے۔بارِ شناسائی اس معاملے میں ایک مختلف اور منفرد کتاب ہے۔کتاب کے مصنف کرامت اللہ غوری وزارت خارجہ کے بیوروکریٹ اورایک طویل عرصے تک مختلف ممالک میں پاکستان کے سفارت کار رہے ہیں۔خوش گوار حیرت کی بات یہ ہے کہ سفارت کاری کے ساتھ ساتھ مصنف کا قلم قبیلے کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔

وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ان کی تازہ تصنیف بارِشناسائی دراصل ان کی اُن یاداشتوں کا مجموعہ ہے جو ہمارے حکمرانوں: وزراے اعظم،صدور،کابینہ کے اراکین،کمیٹیوں کے سربراہان اوردیگر اہم شخصیات سے متعلق ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر نوازشریف اور بے نظیر تک کے حکمرانوں،نوابزادہ نصراللہ خان ،مولانا فضل الرحمٰن،حکیم محمد سعید،فیض احمد فیض اور ڈاکٹرعبدالسلام جیسی شخصیات کے تذکرے اس کتاب کا حصہ ہیں۔دل آویزاسلوب،بے لاگ تبصرے اورشخصیات کے نفسیاتی تجزیے اس کتاب کی نمایاں خصوصیات ہیں۔مصنف نے پیش لفظ میں لکھاہے: ’’میں نے توصرف وہ خاکے مرتّب کیے ہیں جو میرے مشاہدے کی آنکھ سے گزرکرمیرے ذہن کے کینوس پراپنے تاثرات چھوڑگئے ہیں۔میں نے صرف وہی لکھا ہے جو میں نے دیکھا اور محسوس کیا‘‘۔(ص ۲۶)

مصنف نے ضیاء الحق کے کردارکے دونوں پہلو بیان کرنے کے بعد ان کی عجزوانکسار، کھرے پن اور نرم خوئی کی کھل کر تعریف کی ہے، لکھتے ہیں:’’ وہ بلاشبہہ ایک انتہائی متنازع شخصیت تھے اور رہیں گے لیکن ایک حقیقت جس کا میں آج بھی بلا خوف تردید اعادہ اور توارد کر سکتا ہوں    یہ ہے کہ میں نے ۳۵برس کی سفارتی اور سرکاری ملازمت کی تمام مدت میں ضیاء الحق سے زیادہ  نرم خواور حلیم انسان نہیں دیکھا۔ کوئی بھی دیانت دار مؤرخ ان کے خلق اور اخلاق کے ضمن میں میرے بیان کی تردیدنہیں کرسکے گا‘‘۔ (ص۷۲)

ذوالفقار علی بھٹو کے غرور و تکبر ،سخت گیری اور درشت مزاجی کے واقعات بیان کرنے کے بعد لکھا ہے کہ: ’’بھٹوصاحب کا سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا کہ وہ اپنے مزاج اور اپنی اَنا پرست نفسیات سے اپنی موروثی وڈیرہ ذہنیت کو کبھی جدا نہیں کرسکے۔‘‘ (ص۲۸)

مصنف نے بے نظیر کی ذہانت ،فطانت اور معاملہ فہمی کے ساتھ ساتھ وزیروں مشیروں کے انتخاب میں ان کی قوتِ فیصلہ اور اصابتِ راے کی ناکامی، نواز شریف کے حُسنِ سلوک اور کھانے پینے کے حد سے بڑھے ہوئے شوق،محمد خان جونیجو کی سادہ لوحی اور برتری کے گھمنڈ میں مبتلا پرویزمشرف کی آمریت کے واقعات تفصیل سے بیان کیے ہیں۔علاوہ ازیں اس کتا ب میں مال و دولت کے پجاری،پروٹوکول کے بھوکے،شہرت کے طلب گار،سیاحت اور شاپنگ کے شوقین نااہل اور کارِسرکار سے بے نیاز وزیروں اور مشیروں کے چہروں سے بھی نقاب کشائی کی گئی ہے۔

دیکھا جائے تو زیر نظر کتاب میں کوئی بھی بات ایسی نہیں جو ہمیں پہلے سے معلوم نہ ہو لیکن اس کے باوجود اس کی اہمیت یہ ہے کہ یہ ہر قسم کے تعصب سے بالا تر ایک معتبرچشم دید گواہ کی شہادت ہے۔آخر میں مصنف نے وطن عزیز کے زبوں حالی کی درست تشخیص کرتے ہوئے ہماری سیاست اور سیاسی کلچرمیں جاگیرداروں اور وڈیروں کے تسلط کو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ طبقہ جسے صرف اور صرف اپنے مفاد سے محبت ہے اور اپنی غرض ہی ان کو عزیز ہے، ملک چاہے جائے بھاڑ میں، جونک کی طرح ہمارے سیاسی نظام سے چمٹاہواہے اور اس کا خون چُوس رہاہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ ہمارے ہاں روزافزوں جہالت اور تعلیم کی کمی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کا شمار معدودے چندممالک میں ہوتا ہے جہاں ان پڑھ لوگوں کی شرح ہر سال بڑھ رہی ہے۔ جس تیزی سے ہماری آبادی میں اضافہ ہورہاہے، ملک میں تعلیم وتدریس کی سہولتیں اس رفتارکاساتھ نہیں دے رہی ہیں۔ (ص۱۸۱)

وہ لکھتے ہیں کہ: ’’ملک کی سیاست اور سیاسی عمل پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے ہرفوجی آمر نے جاگیرداروں اور وڈیروں کوشریک اقتدارکیاتھا، اس لیے کہ اقتدارکے بھوکے یہ جاگیرداراپنی قیمت لگوانے میں کسی اخلاقی ضابطے یااصول کے اسیرنہیں ہوتے۔ جو ان کی مانگ پوری کردے اور انھیں لوٹ مارکرنے کے لیے اپنی سرپرستی فراہم کردے، وہ اس کے ساتھ شریک بھی ہوجاتے ہیں اور اس کے ہاتھ بھی مضبوط کرنے کے لیے کوشاں ہوجاتے ہیں‘‘۔ (ص۱۸۲)

مزید لکھتے ہیں کہ: ’’عوامی انقلاب کی فتح کے بعد ماؤنے سب سے پہلا کام یہ کیاکہ جاگیرداروں اور زمین داروں کا قلع قمع کردیا۔ اسی طرح امام خمینی نے بھی ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعدان شاہ پرستوں اور استحصال پسندوں کو تہہ تیغ کردیاجنھوں نے ایران کے غریب عوام کا جینا دوبھرکررکھاتھا‘‘۔ وہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل جاگیرداری اور وڈیرہ شاہی کے خاتمے میں سمجھتے ہیں۔اس بات کو اگر اس کتاب کا حاصل کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ خالصتاًپاکستان سے متعلق اور پاکستانیوں کے لیے لکھی ہوئی اس کتاب کا پہلا ایڈیشن پاکستان کے بجاے بھارت(دہلی) سے شائع ہوا تھا۔(حمیداللّٰہ خٹک)


الایام (علمی و تحقیقی جریدہ، جولائی تا دسمبر ۲۰۱۴ئ)، مدیرہ: ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر۔ ناشر: مجلس براے تحقیق اسلامی تاریخ و ثقافت، فلیٹ نمبر۱۵-اے، گلشنِ امین ٹاور، گلستانِ جوہر، بلاک ۱۵، کراچی۔ صفحات: ۳۱۴۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

ایچ ای سی سے منظورشدہ جریدے الایام کا تازہ شمارہ تحقیقی وتنقیدی مقالوں، مفصل اور مختصر تبصروں اوررفتگان کے تذکرے پر مشتمل ہے۔ الطاف حسین حالی کے صدسالہ یومِ ولادت کی مناسبت سے چار اُردو مضمون اور ایک انگریزی مقالہ شامل ہے۔ ایچ ای سی کے رسالوں میں اب بھرتی کی چیزیں بھی چھپنے لگی ہیں۔ الایام نے اس کا خیال رکھا ہے، چنانچہ زیرنظر مضامین و مقالات سارے ہی عمدہ اور معیاری ہیں۔

عمومی خیال کے مطابق مسدس حالی مسلم قوم کی داستانِ زوال و انحطاط اور اس پر ایک پُرتاثیر مرثیہ ہے۔ پروفیسر منیرواسطی نے بشدّت اس کی تردید کی ہے۔ انھوں نے متعدد معروف ناقدینِ ادب کے حوالے دیتے ہوئے اصرار کیا ہے کہ مسدس زوال و انحطاط کی داستان نہیں، تجدید واحیا اور نشاتِ ثانیہ کا راستہ ہے، غیرملکی غلبہ اس راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور یہ طویل نظم مسلم تشخص پر زور دیتی ہے اور اس سے قدرتی طور پر ایک علیحدہ مسلمان ریاست کے قیام کی راہ ہموار ہوتی ہے۔

خالد ندیم نے ’شبلی و حالی: تعلقات کا ازسرِنو جائزہ‘ میں بہ دلائل تردید کی ہے کہ شبلی اور حالی کے درمیان کسی طرح کی ’معاصرانہ چشمک‘ تھی۔ ’’ثابت ہوجاتا ے کہ دونوں بزرگوں کے درمیان احترام کا رشتہ زندگی بھر قائم رہا‘‘۔ (ص ۲۱۱)

’بیاد رفتگان‘ میں مارچ ۲۰۱۴ء کے بعد سے ۲۳؍اکتوبر ۲۰۱۴ء تک (کے درمیان دنیاے فانی سے کوچ کرنے والی ۱۴ شخصیات کا مختصر تعارف شامل ہے۔ ہمارے علم کے مطابق اس عرصے میں فوت ہونے والی دو شخصیات محمد قطب (م: ۴؍اپریل ۲۰۱۴ء ، جدہ) اور ڈاکٹر ذوالفقار علی ملک (۸؍اگست ۲۰۱۴ئ، لاہور) کا تذکرہ رہ گیا۔ شاہد حنائی کا تفصیلی مکتوب عبرت ناک ہے اور سبق آموز بھی۔ہمارا خیال ہے علمی مقالات میں آیاتِ قرآنی اور متونِ حدیث پر اِعراب کا اہتمام کرنا ضروری ہے۔

ڈاکٹر سہیل شفیق نے ۲۱نئی کتابوں اور رسائل کا تعارف کرایا ہے۔ انھیں مختصر تبصرہ کہہ سکتے ہیں۔’انجامِ گلستان‘ کے عنوان سے مدیرہ نے ڈاکٹر شکیل اوج کے قتل کے حوالے سے نہایت دردمندانہ اداریہ لکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جہاں جہاں ظلم ہو رہا ہے اس کے خلاف احتجاج کرنا اور آواز اُٹھانا ضروری ہے ورنہ خاموشی کا مفہوم یہ ہے کہ ہم ظالم کی حمایت کر رہے ہیں۔(رفیع الدین ہاشمی)


اُونٹ (تخلیق کے اسرار سے جدید طبی فوائد تک)، ڈاکٹرسیّدصلاح الدین قادری۔ ناشر:  فضلی بک، سپرمارکیٹ، نزد ریڈیو پاکستان ، اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۳۲۶۲۹۷۲۴-۰۲۱۔صفحات: ۲۸۸۔ قیمت: درج نہیں۔

 ’’تو کیا یہ اُونٹوں کو نہیں دیکھتے کیسے بنائے گئے؟ (الغاشیہ: ۸۸:۱۷)۔ اس آیت قرآنی نے مصنف کو اس علمی، تحقیقی کتاب لکھنے کی طرف توجہ دلائی۔ ۱۲؍ابواب کی اس کتاب میں اُونٹ سے متعلق تمام ہی پہلو زیرمطالعہ آگئے ہیں۔

’قرآن کریم میں اُونٹ کا تذکرہ ‘ پہلا باب ہے۔ وہ ۲۰ آیات بیان کی گئی ہیں جن میں ۱۳مختلف الفاظ آئے ہیں جو اُونٹ کے لیے بیان ہوئے ہیں۔اُونٹ کو نہ صرف اللہ کی نشانی کے  طور پر بیان کیا گیا ہے بلکہ انسان سے اس پر غور کرنے کا سوال بھی کیا گیا ہے۔ باب کے آخیر میں اُردو اور انگریزی کتب اور مضامین کے حوالے ہیں۔ اس طرح کے حوالے ہر باب کے آخیر میں ہیں۔ بارھویں باب میں تو عربی زبان کے ۱۰۸ الفاظ بیان ہوئے جو مختلف خصوصیات کے حامل اُونٹوں کے لیے مستعمل ہیں۔

’اُونٹ ریگستان کا جہاز‘ کے حوالے سے سب ہی واقف ہیں۔ اس کتاب میں اُونٹ کی مزید افادیت تفصیل سے بیان ہوئی ہے۔ اس کے خون میں مخصوص قسم کی ضد اجسام ہیں جن کو نیٹوباڈیز کہا جاتا ہے۔ مصنف تحریر کرتے ہیں یہ اپنی ساخت اور فعالیت میں حیرت انگیز ہیں، اس لیے دنیابھر کی نگاہیں ان پر مرکوز ہوگئی ہیں اور انھوں نے دنیابھر کے ادویہ ساز اداروں کی فوری توجہ حاصل کرلی ہے۔ اُمید کی جاتی ہے کہ جلد ہی اُونٹ کی ضداجسام کی ادویات عام فروخت کے لیے دستیاب ہوں گی اور سرطان، ایڈز اور کئی لاعلاج بیماریوں سے نجات حاصل کرلی جائے گی۔ اُونٹ کا دودھ ، فضلہ، گوشت اپنی کیمیاوی ساخت میں مختلف ہے اور طبی طور پر استعمال ہوتا رہا ہے اور جدیدتحقیقات کی روشنی میں بعض مہلک امراض میں اب بھی استعمال ہوتا ہے۔

اس حوالے سے مصنف کا یہ جملہ بہت اہم اور دل چسپ ہے کہ لاعلاج بیماریوں کے متوقع علاج کے حوالے سے اُونٹ کے لیے نیا لقب ’ادویاتی باربردار‘ استعمال کیا جا رہا ہے۔پاکستان کے تمام اہم کتب خانوں کے لیے یہ کتاب ایک وقیع اضافہ ہے۔(پروفیسر شہزادالحسن چشتی)


حقیقی ذکرِ الٰہی کیا ہے، ڈاکٹر امیرفیاض پیرخیل۔ ناشر: شعیب سنز پبلشرز اینڈ بک سیلرز، جی ٹی روڈ مینگورہ، سوات۔فون: ۷۲۹۴۴۸-۰۹۴۶۔صفحات: ۶۱۶۔ قیمت: ۶۵۰ روپے۔

مصنف کے مطابق اللہ کی نعمتوں پر شکر کرنا اور پوری زندگی اللہ کے احکامات کے مطابق گزارنا حقیقی ذکرِ الٰہی ہے۔ یہ ضخیم کتاب اسی کا سیرحاصل بیان ہے۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس کی نوعیت کتاب سے زیادہ ایک طویل تقریر کی ہے جس میں کوئی ابواب نہیں ہیں بلکہ تقریباً ۴۵۰عنوانات کے تحت ایک مسلسل بیان ہے۔ جو موضوع بھی آتا ہے خواہ وہ نماز ہو، آخرت ہو یا دنیا ہو یا کوئی اور، اس کے بارے میں قرآن کی آیات، احادیث، و اقعات، ’حکایات‘ اشعار اور کوئی بھی عمل پر اُبھارنے والی بات بیان کی گئی ہے۔ معروف علما کی مختلف کتابوں سے اقتباسات نقل کیے گئے ہیں اور اشعار بھی۔ بعض حکایات سے کوئی ایسا پیغام ملتا ہے جو قابلِ عمل نہیں، مثلاً ایک بزرگ کے بارے میں آیا کہ وہ لقمے چبانے کے بجاے ستُو گھول کر ۴۰سال تک اس لیے پیتے رہے کہ چبانے سے جو وقت بچتا تھا اس میں وہ ۷۰تسبیحات کرسکتے تھے۔ ڈاکٹر امیرفیاض پیرخیل نے اپنے نام سے اس کے آگے نوٹ دیا ہے کہ یہ ہمارے آپ کے لیے نہیں ہے۔

عبادت کا مفہوم اور نماز کے بیان میں سیّدمودودی کی خطبات سے مسلسل ۳۲صفحات نقل کیے گئے ہیں (ص ۲۲۱ تا ۲۵۳)۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ کتاب موجودہ زمانے کی کتاب معلوم ہوتی ہے۔ مسلمانوں پر پاکستان میں اور پوری اُمت مسلمہ پر جو وقت گزر رہا ہے اس کا حوالہ حسب ِ موقع دیا گیا ہے ۔ پوری کتاب میں جگہ جگہ خطاب بھائیو اور بہنو کر کے کیا گیا ہے۔ نظر آتا ہے کہ مصنف کو اپنے پڑھنے والوں کی بڑی فکر ہے اور وہ انھیں حقیقی ذکرِ الٰہی کا راستہ اختیار کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اوّل تا آخر پڑھنے کا حوصلہ نہ کریں تو جہاں سے بھی جتنے صفحے چاہے پڑھ لیں تو علم میں ہی نہیں ایمان میں بھی اضافہ ہوگا اور یقینا کچھ عمل کی اور زندگی کو صحیح راستے پر گزارنے کی توفیق ملے گی۔ پوری کتاب کو ایک بہت اچھی، جامع اور ہر پہلو کا احاطہ کرنے والی تذکیر کہا جاسکتا ہے۔(مسلم سجاد)


جماعت اسلامی اور تحریکِ پاکستان( چند حقائق)، تحقیق و تصنیف: محمود عالم صدیقی۔ شعبہ تصنیف و تالیف، جماعت اسلامی ، کراچی۔ ملنے کا پتا: دفتر جماعت اسلامی، ۵۰۳-قائدین کالونی، قائدین روڈ، نزد اسلامیہ کالج، کراچی- فون: ۳۴۹۱۵۳۶۱-۰۲۱۔ صفحات: ۴۰۔ قیمت: ۲۵ روپے۔

جماعت اسلامی کے حوالے سے یہ بات پھیلا دی گئی ہے کہ جماعت قیامِ پاکستان کی مخالف تھی۔ اس بات کا حقائق سے دُور کا بھی تعلق نہیں۔ اب محمودعالم صدیقی صاحب نے اس مختصر کتاب میں پانچ عنوانات کے تحت سب حقائق یک جا کرکے بیان کردیے ہیں۔ تقسیم سے قبل، تحریکِ پاکستان کے دوران، فسادات کے موقعے پر اور پاکستان کے حوالے سے جماعت اسلامی کے کردار کے بارے میں ضروری مستند تفصیلات بیان کردی گئی ہیں۔ اگر کوئی حقائق جاننا چاہتا ہو تو وہ سچائی تک  پہنچ سکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی بدنیتی سے حقائق جھٹلائے تو اس کا کوئی علاج نہیں۔ سیّدمنورحسن کے مطابق: مصنف سب باتیں چھان پھٹک کر سامنے لائے ہیں۔ یہ ایک اہم دستاویز ہے جو نوجوان نسل کو تحریک کی سچائی سے آگاہ کرے گی۔ مجموعی طور پر یہ کتاب جماعت اسلامی کے لٹریچر میں ایک گراں قدر اضافہ ہے‘‘(ص۴۰)۔(مسلم سجاد)


اُمت مسلمہ کے متفقہ دینی مسائل، تالیف: مولانا عبیداللہ عبیدحفظہ اللہ۔ ناشر: مکتبہ نعمانیہ، اُردوبازار،گوجرانوالہ۔ فون:۷۴۷۵۰۷۲-۰۳۲۱۔ صفحات:۱۷۴۔ قیمت: درج نہیں۔

قبل ازیں بھی بعض اہلِ علم کی اس جیسی کوششیں ظہور میں آتی رہی ہیں مگر وہ عربی میں تھیں۔ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ یہ سلیس اُردو زبان میں لکھی گئی ہے، نیز یہ براہِ راست عوام کی ضرورت اور ذہنی سطح کے عین مطابق ہے۔ کتاب میں مسائل کو معروف دینی موضوعاتی ترتیب سے بیان کیا گیا ہے۔ عقائد کے بعد عبادات اور پھر معاملات کا ذکرہے۔ کُل ۱۳۸۹ مسائل بیان کیے گئے ہیں۔ کتاب میں مولانا عبدالمالک اور دیگر علما کی تقریظات سے کتاب کے مندرجات کا درجۂ استناد بڑھ گیا ہے۔ کتاب معاشرے کی اہم ضرورت کو پورا کرتی ہے۔

دینی مسائل کے بارے میں عام تاثر ہے کہ ان میں بہت اختلافات ہیں۔ اختلاف اگر حدود کے اندر ہو، قرآن اور اجماعِ اُمت کے خلاف نہ ہو تو اس وسعت سے عمل کر نے والوں کو سہولت فراہم ہوتی ہے، تاہم بیش تر اور بنیادی مسائل متفقہ ہیں۔ یہی واضح کرنے کے لیے یہ کتاب مرتب کی گئی ہے۔(عبدالحق ہاشمی)


غزہ پر کیا گزری؟ میربابر مشتاق۔ ناشر: عثمان پبلی کیشنز، اے-۸، بلاک بی-۱۳، ریلوے ہائوسنگ اسکیم، گلشن اقبال ، کراچی۔ فون: ۴۸۷۴۰۷۴-۰۳۶۴۔ صفحات: ۱۱۲۔ قیمت: ۲۱۰ روپے۔

جولائی اور اگست ۲۰۱۴ء کے مہینوں میں اہلِ غزہ پر قیامت گزری۔ غزہ پر کیا گزری؟ دراصل اسی قیامت کاتذکرہ ہے۔ پانچ ابواب پر مشتمل یہ مختصرسی کتاب جہاں فلسطینیوں کی جدوجہد سے روشناس کرانے کا ذریعہ ہے وہیں اسرائیلی جبر اور اس کے سرپرستوں کا پردہ چاک کرتی ہے اور اُمت مسلمہ کی بے چارگی، بے بسی اور بے حسی کا نوحہ بھی ہے۔ فلسطین کی تاریخ ، محلِ وقوع حضرت عمرؓ کے زمانے میں فتح، صہیونیت کی ابتدا اور اقدامات، برطانوی رویہ، حماس کی تاسیس اور موجودہ صورت، حماس کی لیڈرشپ کا تعارف، مراحل، طریق کار، جدوجہد اور تازہ اسرائیلی واردات پر تفصیل سے روشنی ڈالتی ہے۔ تصاویر کتاب کی افادیت اور کشش میں اضافہ کرتی ہیں۔(عمران ظہور غازی)


تعارف کتب

o رسولؐ اللہ کا نظامِ حکومت اور پاکستان میں اس کا نفاذ ، سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، ڈی-۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی-۷۵۹۵۰۔ فون: ۳۶۳۴۹۸۴۰-۰۲۱۔ صفحات:۲۴۔ قیمت: درج نہیں۔ [تحریکِ نظامِ مصطفیؐ کے بعد جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں ریڈیو پاکستان کے نمایندے جناب ناصرقریشی اور جناب عبدالوحید خان نے مولانا مودودیؒ سے رسولِ کریمؐ کے نظامِ حکومت اور پاکستان میں اس کے نفاذ کے بارے میں ایک طویل تاریخی انٹرویو ۷ اور ۸؍اپریل ۱۹۷۸ء کو لیا تھا، جسے بعد میں مولانامودودی کی نظرثانی کے بعد شائع بھی کیا گیا۔ اسلامک ریسرچ اکیڈمی نے اسے ذیلی عنوانات کے ساتھ دوبارہ شائع کیا ہے۔ اسلامی نظامِ حکومت کے تصور، موجودہ دور میں اس کے نفاذ اور اس بارے میں غلط فہمیوں کے حوالے سے ایک مختصر اور جامع تحریر ہے۔ تاہم پروف کی اغلاط توجہ چاہتی ہیں۔]

o اللہ میرے دل کے اندر ، ملک احمد سرور، ناشر: مکتبہ تعمیر انسانیت ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون:۷۲۳۷۵۰۰-۰۳۳۳۔صفحات:۵۵۲۔ قیمت: ۷۹۵ روپے۔[زیادہ دل چسپی سے پڑھی جانے والی کتابوں میں آج کل ایسی کتابیں زیادہ مقبول ہیں جو قبولِ اسلام کی تفصیل بتاتی ہیں۔ اسی قبیل کی ایک وقیع اور  خوب صورت کتاب بیدار ڈائجسٹ اور خطیب کے مدیر اور نام وَر صحافی ملک احمد سرور صاحب نے مرتب کی ہے جو سرورق کے مطابق: ’’ممتاز غیرمسلم شخصیات کے قبولِ اسلام کی داستانوں‘‘ پر مشتمل ہے۔ جن میں ہندو بھی ہیں، عیسائی بھی، اور لامذہب اور یہودی بھی۔ مرتب نے، جہاں ممکن ہوا، نومسلم کا شخصی تعارف بھی دے دیا ہے۔ بعض خود نوشتیں بھی ہیں، کچھ انٹرویو ہیں اور چند داستانیں مضامین کی شکل میں ہیں۔ ڈاکٹر خالد علوی صاحب نے اس پر مفصل دیباچہ سپردِقلم کیا ہے۔ ان کے الفاظ میں: ’’یہ ایک شان دار مرقع ہے۔ کفر کی یلغار کے ان بے رحم موسموں میں یہ کتاب اعتماد کی ایک کرن ہے‘‘۔]

o علامہ اقبال کا خطبۂ صدارت ، اسلم عزیز درّانی۔ ناشر: بیکن بکس ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۵۶+۴۸۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔ [علامہ اقبال کے تاریخ ساز خطبہ الٰہ آباد ۱۹۳۰ء کا انگرزی متن اور اُردو ترجمہ اور اس پر ۱۵ حواشی و تعلیقات۔ خطبے کا تعارف اُردو اور انگریزی دونوں حصوں میں شامل ہے۔   بیکن بکس نے اسے دوسری بار بہتر معیارِطباعت پر شائع کیا ہے۔]

o اشاریہ جہانِ حمد ، مرتب: ڈاکٹر محمد سہیل شفیق۔ ناشر: جہانِ حمد پبلی کیشنز، حمدونعت ریسرچ سنٹر، نوشین سینٹر، سیکنڈفلور، کمرہ نمبر۱۹،اُردو بازار، کراچی۔ صفحات:۳۵۲۔ قیمت: درج نہیں۔[یہ ایک موضوعاتی رسالے جہانِ حمد کے ۱۹شماروں (جون ۱۹۹۸ء تا ۲۰۱۱ء )کا زیرنظر اشاریہ ہے۔ اس میں رسالے کے متعدد  خاص نمبروں (نعت نمبر، مناجات نمبر، قرآن نمبر یا بہزاد لکھنوی نمبر، صبا اکبر آبادی، علامہ اقبال، امام احمد رضا نمبر وغیرہ) کے مضامین و مقالات، تبصرئہ کتب اور حمدومناجات کے حوالے سے الگ الگ گوشوں میں دیے گئے ہیں۔ مقالات و مضامین کا اشاریہ عنوانات کے لحاظ سے بھی مرتب کیا گیا ہے۔ اگر آپ یہ معلوم کرنا چاہیں کہ کسی خاص شاعر کی کوئی حمد یا نعت جہان حمد میں کب چھپی ہے یا چھپی بھی ہے یا نہیں، تو اس اشاریے سے فی الفور جواب مل جائے گا۔ حمدیہ اور نعتیہ رباعیات، حمدیہ و نعتیہ اشعار، قطعات، منظومات اور حمدومناجات کے عنوانات کے تحت الگ الگ مصنف وار اشاریے مرتب کیے گئے ہیں جو ہمارے خیال میں یک جا ہونے چاہیے۔ ’پیغامات و تاثرات‘ کا اشاریہ بھی بہ اعتبار مصنفین شامل ہے۔ خطوط اور انٹرویو کا اشاریہ الگ ہے، اسی طرح نذرانہ ہاے عقیدت کا الگ۔]

روشنی کا سفر(اوّل، دوم) ،مؤلف: کرنل (ریٹائرڈ) محمد پرویز۔ ناشر: جمہوری پبلی کیشنز، ۲-ایوانِ تجارت روڈ، لاہور۔ فون: ۳۶۳۱۴۱۴۰-۰۴۲۔ صفحات:جلداوّل: ۷۶۲، جلددوم: ۵۰۴۔ قیمت (علی الترتیب): ۱۲۵۰ روپے، ایک ہزار روپے۔

روشنی کا سفر اسلام کی بنیادی تعلیمات کے موضوع پر دو جلدوں پر مشتمل ایک ایسی کتاب ہے جسے مؤلف نے بڑی محنت و محبت سے اس احساس کے ساتھ مرتب کیا ہے کہ مختلف   علما کی تفاسیر اور تحریروں میں ایسے خزینے مدفون ہیں جو اسلام کی حقیقی روح کو سمجھنے کے لیے کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ جامعہ اشرفیہ لاہور کے معروف استاد مولانا محمد اکرم کشمیری صاحب نے اس پر نظرثانی کی ہے۔ دونوں جلدوں کو الگ الگ عنوان دیا گیا ہے۔ جلداوّل کا نام ’الحکمہ‘ ہے اور جلد دوم کا نام ’الاساس‘ ہے۔

جلداوّل میں توحید، تخلیقِ کائنات، انسان اور اس کا مقصد ِتخلیق، حضرت آدم ؑ، حضرت ابراہیم ؑ کے بعد حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ، سیرتِ طیبہ، ختم نبوت اور مقصد ِ بعثت کے بارے میں تفصیلی بیان ہے۔ اسی طرح ازواجِ مطہرات، قرآنِ مجید، صفات المومنین بالخصوص اطاعت ِ رسولؐ، انفاق فی سبیل اللہ، احسان، عدل، آثارِ قیامت اور احوال جنت و جہنم کوبھی موضوع بنایا گیا ہے۔ دوسری جلد میں عقائد ِ اسلام، فریضہ اقامت ِدین، اسلامی حکومت کی ضرورت، اہمیت، فرضیت ، اسلامی حکومت کے ادارے اور اسلام کے معاشی نظام پر قرآن و حدیث کی تعلیمات جمع کی گئی ہیں۔

دونوں کتابوں کا حُسن یہ ہے کہ ان میں معروف مفسرینِ قرآن اور اہلِ علم و دانش کی تحریروں سے استفادہ کرتے ہوئے انھیں خوب صورت پیرایے میں ضبط تحریر میں لایا گیا ہے۔ کتاب کے دائرۂ استفادہ کو بڑھانے کے لیے قرآن کے انگریزی تراجم کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ بحیثیت مجموعی یہ ایک قابلِ قدر کاوش اور قابلِ تعریف تحقیقی کام ہے۔مصنف کا ہدف ایک پڑھا لکھا فرد بالخصوص نوجوان ہے۔ انھوں نے استدلال کا پیرایہ اختیار کیا ہے تاکہ فہم و فراست کی دہلیز پر عقائد کے چراغ روشن ہوسکیں۔ تاہم قیمت زیادہ ہے۔(فریداحمد پراچہ)


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مستشرقین کے اعترافات، تالیف: حمیداللہ خان عزیز۔ ناشر: ادارہ تفہیم الاسلام، احمدپور شرقیہ، ضلع بہاول پور۔ صفحات:۲۳۰۔ قیمت: درج نہیں۔

یورپ میں مستشرقین نے حضور اکرمؐ کی شخصیت پر گذشتہ دو صدیوں میں خصوصی توجہ دی ہے اور ہر پہلو سے آپؐ کی ذات و صفات کو زیربحث لاکر نئے نئے نکات پیدا کیے ہیں۔اُردو زبان میں سرسیداحمدخاں نے سیرت النبیؐ پر مغربی مصنفین کے اعتراضات کے مدلل جواب تحریر کیے۔     شبلی نعمانی اور سیّد سلیمان ندوی نے بھی سیرت النبیؐ پر مستشرقین پر گرفت کی ہے۔

زیرنظر کتاب میں مغربی مصنفین کے اعتراضات کے بجاے ان پہلوئوں کو اُجاگر کیا گیا جس میں انھوں نے حضور اکرمؐ کی تعریف وتحسین کی ہے اور آپؐ کے کمالات کا اعتراف کیا ہے۔ مؤلف نے یہ کتاب رسولؐ اللہ کے تقدس اور ان کی عظمت کی بلندی کے لیے تحریر کی ہے۔

کتاب چھے ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلا باب: سیرتِ محسنِ اعظمؐ اور اہلِ عرب، دوسرا باب: محسنِ اعظمؐ کے بارے میں مغرب کے معاندانہ رویے، تیسرا باب: حضور اکرمؐ کی تعلیمات اور مذہب عیسائیت کا تقابلی مطالعہ، چوتھا باب: اسلام اور عیسائیت میں مذہبی رواداری کا تقابلی جائزہ، پانچواں باب: مغرب کی انکوئزیشن (تعذیب و مظالم)کے ظالمانہ عمل کا فتح مکہ کے حوالے سے حضور اکرمؐ کے عفوودرگزر سے موازنہ۔ چھٹا باب: حضور اکرمؐ کے متعلق مستشرقین کے اعترافات۔

کتاب میں سیرت النبیؐ پر مغربی مصنفین کی کتب سے اقتباسات مع ترجمہ بھی شامل ہیں۔ جارج برنارڈشا کا یہ اعتراف لائقِ مطالعہ ہے کہ ’’میں نے محمدؐ کے دین کے متعلق پیش گوئی کی ہے کہ کل یورپ اسے اسی طرح قبول کرے گا جیسے آج کے یورپ نے اسے (غیرشعوری طور پر) اپنانا شروع کردیا ہے‘‘ (ص ۱۶۷)۔ ان کا یہ قول بھی یورپی طرزِفکر کی نقاب کشائی کرتا ہے: ’’زمانہ وسطیٰ کے پادریوں نے جہالت یا اندھے مذہبی تعصب کی وجہ سے محمدؐ کے لائے ہوئے دین کو انتہائی گھنائونی شکل میں پیش کیا ہے‘‘۔

فلپ ہٹی کا یہ قول اعترافِ حقیقت کا اعلان کرتا ہے: ’’محمدؐ عربی کے سوا اور کسی پیغمبر ؑکو یہ خصوصیت حاصل نہیں ہوئی اور نہ کوئی اُمت کرئہ ارضی پر ایسی موجود ہے، جو اپنے پیغمبر ؑ اور ان کی آل پر شب و روز کے ہر حصے میں تواتر و تسلسل کے ساتھ درود و سلام بھیجتی ہو‘‘ (ص ۲۰۸)۔ آخری باب میں ۶۴ اعترافات دیے گئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضور اکرمؐ کی ذات والاصفات ایسی خصوصیات کی حامل ہے جن کی صداقت کا اعتراف غیرمسلم بھی کرتے ہیں۔(ظفر حجازی)


معروف و منکر، مولانا سیّد جلال الدین عمری۔ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،دعوت نگر، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی، بھارت۔صفحات:۳۱۲۔ قیمت: ۱۸۵ بھارتی روپے۔

عالمی تحریکاتِ اسلامی کی دعوت کی بنیاد امربالمعروف کا فریضہ ہے۔ یہ تحریکات اللہ کے بندوں کو جس چیز کی دعوت دیتی ہیں، اسے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے اُمت مسلمہ کا مقصدِوجود قرار دیا ہے (اٰلِ عمرٰن۳:۱۱۰) ۔گویا اُمت مسلمہ وہ بھلائی والی اُمت ہے جس کا بنیادی کام لوگوں کو بھلائی، سچائی، حق اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی اطاعت کی طرف بلانا اور انسانی معاشرے سے ظلم و استحصال اور برائی کا مٹانا ہے۔

مولانا جلال الدین عمری علمی حلقوں میں ایک ممتاز مقام کے حامل ہیں اور حقیقی معنی میں علماے سلف کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ انھوں نے یہ کتاب ۱۹۶۷ء میں تصنیف فرمائی تھی۔ اب تقریباً ۴۷سال بعد نظرثانی اور اضافوں کے ساتھ اسے کتاب کی جدید ترتیب کے ساتھ طبع کیا گیا ہے۔  کتاب کا ہرہرلفظ انتہائی ذمہ داری کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے اور ۱۰؍ابواب میں ذیلی موضوعات قائم کرکے موضوع کے مختلف پہلوئوں کا تحقیقی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

مولانا نے معروضی طور پر مفسرین، فقہا اور مفکرین کی آرا کو مکمل حوالوں کے ساتھ یک جا کیا ہے اور ان کی روشنی میں راہِ اعتدال اختیار کرتے ہوئے اپنے موقف کو پیش کیا ہے۔ عموماً یہ تصور پایا جاتاہے کہ امر بالمعروف ایک فرضِ کفایہ ہے اور اس راے کے حامل شاطبی اور امام ابن تیمیہ جیسے فقہا ہیں۔ دوسری جانب امام غزالی اسے واجب قرار دیتے ہیں۔ اسی موقف کو شیخ عبداللہ دراز نے اختیار کیا ہے کہ دعوتِ خیر کا کام ہر مسلمان پر واجب ہے کیونکہ اس فرض کو انجام دینا حقیقت میں دین کی ایک عمومی مصلحت کو پورا کرناہے اور اس کے پورا کرنے کا مطالبہ فی الجملہ سب ہی کے لیے ہے۔(ص ۶۶)

ایک اہم پہلو جو محترم مولانا نے وضاحت سے بیان فرمایا ہے ، یہ ہے کہ شہادت علی الناس کے فریضے میں امربالمعروف شامل ہے کیونکہ اس کے بغیر شہادتِ حق کا فرض ادا نہیں ہوسکتا (ص۱۰۰)۔ یہ حکم حالات کی تبدیلی کا پابند نہیں ہے، چنانچہ اس کی فرضیت جس طرح مکہ مکرمہ میں تھی ، اتنی بلکہ اس سے زیادہ مدینہ منورہ میں رہی۔ گویا مسلمان دنیا کے کسی خطے میں ہوں، ان کی تعداد اور ان کا قیام مغرب میں ہو یا مشرق میں، انھیں یہ فرض ادا کرنا ہوگا۔

اس سے آگے بڑھ کر اسلامی ریاست کی ذمہ داریوں میں ایک اہم فریضہ امربالمعروف کا ہے اور اگر غور کیا جائے تو قرآنِ کریم اسے صلوٰۃ اور زکوٰۃ سے متصل بیان کرتا ہے۔ چنانچہ سورئہ حج میں فرمایا گیا کہ اگر اہلِ ایمان کو زمین میں اقتداردیا جائے تو ان کے فرائض میں صلوٰۃ کا نظام قائم کرنا اور زکوٰۃ کا نظام رائج کرنے کے ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فرض ادا کرنا لازم ہے۔

اس آیت پر غور کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ گو امربالمعروف ہر حالت میں کیا جائے گا لیکن اقتدار کے حصول کے بعد اسے اس کے تمام حقوق کی ادایگی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے کیونکہ قوتِ نافذہ کے بغیر اس کے بعض مطالبات پورے نہیں کیے جاسکتے۔ شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے ریاست کے اس فریضے کو وضاحت سے بیان کیا ہے کہ نماز اور زکوٰۃ کے قیام میں اس طرف اشارہ ہے کہ تمام ارکانِ دین کو قائم کرایا جائے، اور معروف کے حکم میں یہ بھی شامل ہے کہ علومِ دین کو زندہ کیا جائے، جہاد کیا جائے، حدود و تعزیرات کونافذ کیا جائے کیونکہ اس کے بغیر نہی عن المنکر کے مطالبات پورے نہیں ہوسکتے۔ (ص ۱۴۰-۱۴۳)

شیخ عبدالقادر عودہؒ شہید بھی اسی راے کے حامل ہیں کہ امربالمعروف میں پوری شریعت شامل ہے لیکن اس فریضے کی ادایگی کرتے ہوئے خوداپنا جائزہ اور اپنے عمل سے ثبوت فراہم کرنا امربالمعروف کی روح ہے۔ قرآن کریم نے اس پہلو کو ایک جملے میں بیان کردیا کہ کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟ (البقرہ۲:۴۴)

امربالمعروف کے فریضے کی ادایگی ہرسطح پر فرض ہے۔ چنانچہ ایک شخص کا دائرۂ اختیار جس حد تک ہوگا، وہ اسی حد تک جواب دہ ہوگا۔ تحریکِ اسلامی کے ہر کارکن اور قائد کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔ قیادت چونکہ دوسروں کے لیے مثال کی حیثیت رکھتی ہے، اس لیے دین کے اس بنیادی مطالبے کو اچھی طرح سمجھے بغیر دعوتِ حق کا کام صحیح طور پر انجام نہیں دیا جاسکتا۔ یہ کتاب بنیادی تحریکی تصورات کو واضح کرنے میں غیرمعمولی مدد فراہم کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ محترم مولانا کو اس کا بہترین اجر دے اور دعوتِ دین کو پیش کرنے کے مزید مواقع سے نوازے۔(ڈاکٹر انیس احمد)


شیئرز بازار میں سرمایہ کاری، موجودہ طریقۂ کار اور اسلامی نقطۂ نظر، ڈاکٹر عبدالعظیم اصلاحی۔ ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی۔ ملنے کا پتا: ڈی ۳۰۷، دعوت نگر، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی، بھارت۔ فون: ۲۶۹۵۴۳۴۱۔ صفحات: ۱۵۲۔ قیمت: ۸۰بھارتی روپے۔

دورِ جدید میں اسٹاک مارکیٹ یا شیئرز بازار کو کسی بھی ملک معیشت کا درجۂ حرارت کہا جاتا ہے۔ کاروبار ترقی کر رہے ہوں تو شیئرز بازار میں اچھے حالات دیکھے جاتے ہیں اور کاروباری حالات کی خرابی کا اثر شیئرز بازار پر مرتب ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ملکی سیاسی حالات اور بین الاقوامی مالیاتی و سیاسی تبدیلیاں بھی اس بازار پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ اس کاروبار سے ہر ملک میں لاکھوں افراد وابستہ ہوتے ہیں۔ مزیدبرآں دورِ جدید کی بہت سی خرابیاں اور غیرشرعی معاملات اس بازار میں پائے جاتے ہیں۔ لیکن اُردو زبان میں اس موضوع پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ اس حوالے سے ایک مختصر رسالہ مولانا تقی عثمانی نے۱۹۹۴ء میں لکھا۔ اس کے بعد ایک تفصیلی کتاب جناب عبدالعظیم اصلاحی نے ۱۹۹۹ء میں لکھی اور دہلی (بھارت) سے شائع ہوئی۔ اس کتاب میں شیئرز بازار کی تعریف سے لے کر اس کے عملی پہلوئوں اور خرابیوں کا تذکرہ کرنے کے بعد مصنف نے اس موضوع پر اسلامی نقطۂ نظر کو بھی پیش کیا، جس میں مختلف علما کی آرا بھی شامل کی گئیں۔

اس کتاب کی خوبی یہ تھی کہ اسلامی معاشیات کے حوالے سے وقیع ترین شخصیت جناب ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے دیکھا اور پسند فرمایا اور یہ تبصرہ کیا کہ ’’اصلاحی صاحب نے اس کتاب میں شیئرز کی ماہیت اور شیئرز بازار کا عمل سمجھانے کی بھی کوشش کی ہے اور اس سے متعلق علما کی رائیں بھی نقل کردی ہیں جس سے ایک بڑی کمی پوری ہوگئی ہے۔ مگر ان کا اصل کام ان کی اپنی رائیں اور دوسروں کی رائیں کا تنقیدی جائزہ ہے، جسے مَیں نے متوازن اور معقول پایا ہے‘‘۔

زیرتبصرہ کتاب کا نظرثانی شدہ اڈیشن جنوری ۲۰۱۴ء میں شائع ہوا ہے جس میں    صکوک کے موضوع پر ایک باب کا اضافہ بھی کیا گیا ہے اور کچھ فصلوں کا اضافہ شیئرز بازار میں روزمرہ ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں کیا گیا ہے۔ اس طرح گذشتہ ۱۵برسوں میں شیئرز بازار میں ہونے والی تبدیلیوں کے مطابق آرا کا اضافہ بھی کردیا گیا ہے، جس سے اس کتب کی وقعت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس لحاظ سے اس میدان میں کام کرنے والے افراد کے لیے ایک اچھی گائیڈ مارکیٹ میں مہیا ہوگئی ہے، اور محققین کے لیے بھی ایک راہ متعین ہوگئی ہے۔ (ڈاکٹر میاں محمد اکرم)


پاکستان کی روحانی اساس، پروفیسر محمد یوسف عرفان۔ ناشر: سنگت پبلشرز، ۲۵-سی، لوئر مال، لاہور۔فون: ۳۷۳۵۸۷۴۱-۰۴۲۔ صفحات:۲۳۶۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

پروفیسر محمد منور (م: ۲۰۰۰) معروف ادیب، شاعر، مترجم اور خطیب تھے اور علامہ اقبال، قائداعظم، دو قومی نظریہ اور نظریۂ پاکستان کے متخصص تھے۔ ان کی جملہ تصانیف انھی موضوعات کی تشریح و تعبیر پر مبنی ہیں۔پروفیسر محمد یوسف عرفان (استاد شعبۂ انگریزی، اسلامیہ کالج سول لائنز، لاہور) ان کے تربیت یافتہ اور خاص شاگرد ہیں۔ ان کی زیرنظر کتاب کے مضامین بھی انھی موضوعات کے گرد گھومتے ہیں (پاکستان کی روحانی اساس، پاکستان اور ریاست مدینہ، علامہ اقبال ایک کامل صوفی، اقبال، جہاد اور یہودیت وغیرہ)۔ پاکستان کے قیام میں علامہ اقبال کی فکری رہنمائی اور قائداعظم کی عملی جدوجہد شامل ہے۔ پاکستان کی بقا اور استحکام کے لیے جنرل محمد ضیاء الحق اور ڈاکٹرنذیراحمد قریشی مستعد اور کوشاں رہے۔

کتاب کا ایک ایک حصہ مؤخرالذکر دو صاحبوں کی خدمات اُجاگر کرنے کے لیے وقف کیا گیا ہے۔ یوسف عرفان بھی اپنے استاد پروفیسر محمد منور کی طرح جنرل محمد ضیاء الحق کو ’عالمِ اسلام کا عظیم ہیرو‘ سمجھتے ہیں جو ’’بیرونی اور اندرونی سازش کا شکار ہوگیا‘‘۔ ان پر پانچ مضمون شامل ہیں (جن میں سے ایک پروفیسر محمد منور کے قلم سے ہے)۔ نذیر احمد قریشی، ایک صاحب ِدل اور    ’اللہ والے بزرگ‘ تھے۔ مرزا صاحب سے ان کی صحبت رہتی تھی اور دونوں اکثر شام اکٹھے گزارتے تھے۔ کبھی کبھی یوسف عرفان بھی ساتھ ہوتے۔ مستقبل کے بارے میں ان کی باتیں او ر پیش گوئیاں (جیسے جارج بش صدر بنیں گے، افغانستان میں جہاد کے بعد فساد ہوگا، پاکستان میں مارشل لا لگے گا) بالعموم درست ثابت ہوتی تھیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس کتاب کو ’اَنمول دستاویز‘ قرار دیا ہے۔ جنرل حمید گل، راجا ظفرالحق، مفتی لطف اللہ، مجیب الرحمن شامی اور جسٹس (ر) نذیراحمد غازی ایسے ثقہ بزرگوں اور اہلِ قلم نے کتاب کی تعریف و تحسین کی ہے۔ مصنف کے اپنے بقول: ’’ان کی دیگر بہت سی کتب کا مواد تیار ہے‘‘۔ درخواست ہے کہ انھیں بھی (کاہلی برطرف کرتے ہوئے) شائع کرا دیجیے۔(رفیع الدین ہاشمی)


تنقیدی افکار، شمس الرحمن فاروقی۔ ناشر: یکن بکس، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون:۳۷۳۲۰۰۳۰-۰۴۲   + گلگشت کالونی ، ملتان: فون: ۶۵۲۰۷۹۱-۰۶۱۔ صفحات: ۳۶۰۔ قیمت: ۵۴۰ روپے

جناب شمس الرحمن فاروقی دورِحاضر کی معروف اور نام وَر ادبی و علمی شخصیت ہیں۔ بنیادی طور پر وہ نقاد ہیں لیکن تحقیق، لغت، شرح، افسانہ نویسی اور ناول نگاری میں بھی ان کی بلندپایہ نگارشات اور عالمانہ تحقیقی کاموں کونظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت میں سول سروس کے اُونچے عہدے سے  کئی برس پہلے وظیفہ یاب ہوکر الٰہ آباد میں مقیم ہیں۔ طویل عرصے تک ادبی رسالہ شب خون نکالتے رہے۔ ان کی مختلف النوع تصانیف و تالیفات کی تعداد صحیح تو معلوم نہیں مگر ۳۰، ۴۰ سے کم   نہ ہوں گی۔زیرتبصرہ کتاب کا یہ تیسرا اڈیشن کُل ۱۳ مضامین پر مشتمل ہے۔

دیباچے میں فاروقی صاحب نے اسے ادب کے ’نظری مباحث‘ پر مشتمل ’نظری تنقید‘ کی کتاب قرار دیا ہے۔ پہلے مضمون کا عنوان ہے : ’کیا نظریاتی تنقید ممکن ہے؟‘ فاروقی صاحب کا خیال ہے کہ پچھلی نسل کے تمام نقاد بشمول حالی کسی نہ کسی حد تک موضوعی اور موضوعاتی دھوکے میں گرفتارتھے۔ موضوع کی اچھائی یا بُرائی سے ادب کا معیار متعین نہیں ہوتا اور کسی مخصوص فلسفے یا نظریے کا اظہار فن پارے میں کرنا تضیع اوقات ہے۔ اس پیمانے سے فاروقی صاحب نظریاتی تنقید کو رد کرتے ہوئے ترقی پسند نقادوں پر گرفت کرتے ہیں۔

ایک تفصیلی مضمون مسعود حسن رضوی ادیب کی کتاب ہماری شاعری پر ہے۔ ان کے خیال میں یہ کتاب نظریہ سازی اور کلیہ تراشی کی ایک غیرمعمولی کوشش ہے۔ دیگر مضامین کے عنوانات اس طرح ہیں:’ارسطو کا نظریہ ادب‘، ’نثری نظم یا نثر میں شاعری‘، ’نظم کیا ہے؟‘، ’داستان اور ناول: بعض بنیادی مباحث‘۔ ۵۷صفحات پر مشتمل طویل مضمون ’اصنافِ سخن اُردو لغات اور لغت نگاری میں‘ انھوں نے اُردو لغت نگاروں اور اُردو لغات کی خامیوں کی کوتاہیوں کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لیا ہے اور نتیجہ یہ نکالا ہے کہ اس وقت تک تمام لغات نقصِ فکر اور نقصِ عمل کا نمونہ ہیں، اس لیے ہمیں اس مردِ غیب کا انتظار کرنا چاہیے جو ایک اطمینان بخش لغت تیار کرے گا۔

شمس الرحمن فاروقی کی تحریر ہمیشہ ایک تازگی اور ندرت کا احساس دلاتی ہے۔ وہ نہ صرف اُردو ادب (بشمول کلاسکی ادب) کا بلکہ فارسی اور انگریزی ادبوں کا بھی وسیع مطالعہ رکھتے ہیں۔ ’اواخرصدی میں تنقید پر غوروخوض‘‘ میں انھوں نے مغرب کی اہم فکری اور ادبی کتابوں اور جدید ادبی نظریات کا ذکر کیا ہے۔ فوکو اور دریدہ کے خیالات و نظریات پر بھی بحث کی ہے۔ آخر میں بڑی خوب صورت بات کہی ہے کہ ’’آج ہمارے لیے ایک بڑا کام یہ ہے کہ اپنی تہذیبی میراث کی قدروقیمت کو پھر سے قائم کریں اور اس سلسلے میں کلاسکی شعریات کو اسٹیج کے مرکز پر لانا ناگزیر ہے‘‘۔

تنقید خصوصاً نظری تنقید ایک خشک موضوع ہے جیسے پڑھنا پڑھانا آسان نہیں ہوتا مگر فاروقی صاحب کے یہ مضامین اتنے دل چسپ پیرایے میں لکھے گئے ہیں کہ ادب کے باذوق قاری کو پڑھتے ہی بنتی ہے۔ بیکن بکس نے کتاب اچھے معیار پر شائع کی ہے۔ کتاب میں اشاریہ بھی شامل ہے جو اس کی اضافی خوبی ہے۔ آخری صفحے پر فاروقی صاحب نے ترقیمہ لکھ کر کلاسکی ادب اور مخطوطات سے اپنی دل بستگی کا اظہار کیا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


مشاہیرِ ترک، ڈاکٹر دُرمش بلگر۔ ناشر: رومی چیر براے ترکی زبان و ثقافت، پنجاب یونی ورسٹی، علامہ اقبال (اولڈ) کیمپس، لاہور۔ صفحات: ۲۰۰۔ قیمت:۵۰۰ روپے۔

اگر سوال کیا جائے کہ کس اسلامی ملک سے پاکستان کے سب سے زیادہ قریبی، دلی اور ذہنی تعلقات چلے آرہے ہیں؟ تو جواب ایک ہی صحیح ہوگا:ترکی__ وجوہ بہت سی ہیں مگر بنیادی   اور اہم ترین وجہ تحریکِ خلافت میں ہندی مسلمانوں کا ترکوں سے اظہارِ یک جہتی ہے۔ پھر   سقوطِ خلافت ِ عثمانی پر ہندی مسلمانوں کا شدید رنج و غم کا اظہار بھی ایک اہم وجہ تھی۔ چنانچہ ہمارے تمام تر زوال و اِدبار کے باوجود، ترک عوام پاکستان سے غیرمعمولی محبت رکھتے ہیں۔ سلطنت ِ عثمانیہ (اور ماقبل دور) میں ترکی کی بعض شخصیات نے اپنے اپنے شعبوں میں ناقابلِ فراموش خدمات انجام دی ہیں۔ پروفیسر دُرمش بلگر تین سال سے پنجاب یونی ورسٹی میں قائم مسند رومی پرفائز ہیں۔ ان کی زیرنظر کتاب ۳۰ ترک شخصیات کے تعارف اور کارناموں پر مشتمل ہے۔ ان میں علماے دین ہیں، مصلحین اُمت اور صوفیاے کرام کے ساتھ دانش ور اور سائنس دان بھی ہیں مگر سب باکمال لوگ ہیں، مثلاً ریاضی دان اور ماہرفلکیات الغ بیگ (۱۳۹۳ئ-۱۴۴۹ئ) جو تیمور کی نسل سے تھے، ۳۸سال تک سمرقند کے حاکم رہے۔ حکمرانی کے ساتھ علم دوست ایسے کہ علمی موضوعات پر اہلِ علم کے ساتھ مناظرہ کیا کرتے۔ ایک رصدگاہ قائم کی، اس کے سائنسی تجربات اور مشاہدات پر مبنی کتاب زیجِ گورکانی بہت معروف ہے۔ ان کے دور میں علمِ فلکیات میں بہت ترقی ہوئی اور فلکیات کے جدید آلات ایجاد ہوئے۔ الغ بیگ کا حافظہ اتنا تیز تھا کہ جس کتاب کو ایک بار پڑھ لیتے، وہ انھیں حرف بہ حرف یاد ہوجاتی۔

اسی طرح اولیاچلبی (۱۶۱۱ئ-۱۶۸۲ئ) تاریخ کو نیا رُخ دینے والے ترک سیاح تھے۔ انھوں نے مجموعی طور پر ۵۰سال تک سیروسیاحت میں گزارے۔ شرقِ اوسط، یورپ اور افریقہ کے بیش تر ممالک کی سیر کی اور باریک بینی سے کیے گئے مشاہدات اپنی کتاب سفرنامہ میں قلم بند کیے جو ۱۰جلدوں پر محیط ہے۔ پہلی جلد ۱۸۹۶ء میں اور آخری جلد ۱۹۳۸ء میں منظرعام پر آئی۔ مشاہیر ترک میں معروف دینی شخصیات بدیع الزماں نورسی (۱۸۷۸ئ-۱۹۶۰ئ) کا ذکر ہے اور زمانۂ حاضر کے ایک استاد، محقق، ادیب اور اقبال شناس عبدالقادر کراخان (۱۹۱۳ئ-۲۰۰۰ئ) کے حالات بھی شامل کتاب ہیں جو کلاسیکی ترکی ادب کے ساتھ ’’لوک ادب، تاریخ، حدیث اور دیگر اسلام علوم کے علاوہ ایرانی علوم میں بھی یکتا تھے‘‘(ص ۹۱)۔ اسی طرح سلطنت ِ عثمانیہ کے سب سے بڑے ماہر تعمیرات سنان (۱۴۹۰ئ-۱۵۸۸ئ) کے تعمیری کارناموں کا تذکرہ ہے۔ انھوں نے بیسوں جامع مساجد، مدرسے، دارالقرا، مقبرے، حمام، نہریں، ہسپتال، پُل اور مہمان سرائیں تعمیر کرائیں۔ کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ ہم دنیاے اسلام کے مشاہیر ہی سے نہیں، مسلم تاریخ سے بھی ناواقف ہیں۔ کیونکہ ہمارے ہاں رجال کے تذکروں اور مشاہیر پر کتابوں میں ان مایہ ناز ہستیوں کا ذکر نہیں ملتا۔ طلبا کے لیے خاص طور پر اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔ مشاہیر کی تصاویر بھی شاملِ کتاب ہیں۔ (رفیع الدین ہاشمی)