کتاب نما


شہیدوں کے سردار (سیّد الشہداء سیدّنا حضرت حمزہؓ ) ،مرتبہ: محمد متین خالد۔ ناشر: علم وعرفان پبلشرز، الحمد مارکیٹ ، ۴۰ - اُردو بازار لاہور۔ صفحات : ۳۹۷۔ قیمت : ۸۰۰ روپے۔

زیر نظر کتاب میں جناب متین خالد نے تحفظ ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے اوّلین مجاہد حضرت حمزہ ؓکی داستان حیات کو عام فہم اور دل نشین اسلوب میں پیش کیا ہے۔ یوں تو تاریخ اسلام اَن گنت شہدا کی قربانیوں سے عبارت ہے مگر حضرت حمزہؓ کی شہادت ان سب میں منفرد ہے۔  حضرت حمزہ ؓ کے مشرف بہ اسلام ہونے کا واقعہ بھی دل چسپ ہے کہ کس طرح ابو جہل نے آںحضور ؐ کے ساتھ گستاخی کی تو حضرت حمزہؓ نے نہ صرف اس کا بدلہ لیا بلکہ ابو جہل کی گستاخی ان کے اسلام لانے کا فوری سبب بن گئی۔ اسی طرح جنگ اُحد میں آپ کی شہادت کے واقعے کو بڑی جامعیت اور زیادہ تفصیل سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

 کتاب کے آخری حصے میں عرب وعجم کے شعرا (حضرت حسان بن ثابتؓ، مولانا روم،   حفیظ جالندھری )کے علاوہ زمانۂ حال کے بیسیوں شعرا نے حضرت حمزہؓ کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔

اوریا مقبول جان کے بقول: ’’[فاضل مرتب] کی خوبی ہے کہ وہ اپنی کتابوں میں تحقیق کا رنگ بھرتے ہوئے اُسے اِس قدر دل چسپ بنا دیتے ہیں کہ پڑھتے ہوئے کتاب ہاتھ سے چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا بلکہ قاری خود کو اَنوار ِ رحمت کے ایک ہالے میں محسوس کرتا ہے‘‘۔ اللہ پاک اس مقدس کام کو شرف قبولیت عطا فرمائے، آمین۔ (ادارہ) 


Shariah، [ربّانی ضابطۂ حیات] عبدالرشید صدیقی۔ ناشر: دی اسلامک فائونڈیشن، مارک فیلڈ، رٹبی لین، لسٹرشائر، 9SY, LE-67، برطانیہ۔ صفحات:۱۴۳۔ قیمت: ۱۴ء۹۵ ڈالر۔ ای میل: publication@islamic-foundation.com 

دینِ اسلام کے دشمنوں نے کم و بیش تمام ہی اسلامی اصطلاحات، ماخذِ دین اور شعائرِ اسلام کو بدنما اور نفرت انگیز علامات کے طور پر پیش کرنے کا طریقہ اختیار کر رکھا ہے، جیسے جہاد، قرآن، حدیث، شریعت، عورت کا مقام، دینی مدرسہ، نکاح و طلاق، وراثت و ترکہ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اصل ہدف یہ اصطلاحات نہیں ہیں، بلکہ خود اسلام اور مسلمان ہیں۔ موجودہ زمانے میں جہاد کے علاوہ جس چیز کو مغربی دُنیا میں ایک ’خوفناک‘ حوالہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے، وہ ہے: ’اسلامی شریعت‘۔ گذشتہ چندبرسوں سے امریکا کے طول و عرض میں شریعت کے خلاف مہم زوروں پر ہے۔ یہی معاملہ متعدد یورپی ممالک میں دیکھا جاسکتا ہے اور دبے دبے لفظوں میں خود مسلم ممالک میں بھی مخصوص طرزِ فکر کے حاملین اس سمت قدم بڑھاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

عبدالرشید صدیقی صاحب نے ’اسلامی شریعت‘ کے نہایت اہم موضوع پر اختصار، جامعیت، اعلیٰ اسلوب اور پوری جرأت کے ساتھ یہ مختصر اور مؤثر دستاویزی نثرپارہ تحریر کیا ہے۔ اتنے پھیلے ہوئے اور اس قدر شدید ہدفِ تنقید موضوع کو جس خوب صورتی سے اس کتاب میں   پیش کیا گیا ہے، اس پر فاضل مؤلف اور اسلامک فائونڈیشن مبارک باد کے مستحق ہیں۔

اس کتاب کی خوب صورتی یہ ہے کہ قاری محض دو نشستوں میں اسلام کا تعارف اور الزامی مہم کا مثبت جواب حاصل کرلیتا ہے۔ یہ چھے ابواب پر مشتمل ہے، جس میں: شریعت کی ماہیت، مطلب اور ماخذ، شریعت کے بنیادی مقاصد، شریعت کا مقصود ایک عادل معاشرے کا قیام، شریعت پر وارد کر دہ اعتراضات کی حقیقت، شریعت کے نفاذ کی حکمت عملی اور اقلیتوں کے حقوق وغیرہ کو زیربحث لایا گیا ہے۔

ضخامت میں مختصر مگر مقصد و موضوع کے اعتبار سے وزنی و قیمتی اس کتاب کو مختلف زبانوں میں منتقل کرنا، تعلیم اور مقصدیت کے لحاظ سے مفید تر ہوگا۔ (سلیم منصور خالد)


دید اُمید کا موسم (سفر نامۂ حج ) ، میاں محمد آصف۔ ناشر: باب حرم پبلی کیشنز، سٹریٹ ۱۸،بلاک ایکس، نیو سٹیلائٹ ٹائون ، سرگودھا۔فون:۲۲۲۶۶۶ ۳-۰۴۸ ۔ صفحات:۳۱۰۔ قیمت : ۵۰۰ روپے۔

زیر نظر سفر نامۂ حج کے بارے میں مولانا عبدالمالک نے فرمایا ہے : ’’کتاب ہر لحاظ سے موضوع کا حق ادا کرتی ہے اور حج کے موضوع پر لٹریچر میںبہترین اضافہ ہے ‘‘۔ مولانا کی یہ راے نہایت جامع ہے کیوںکہ ’’اس کتاب میں مقاماتِ مقدّس کی تاریخ بھی ملے گی اور احکاماتِ حج کی تفصیل بھی___ حج کے حوالے سے بعض غلطیوں اور غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حج کے احکامات قرآن وحدیث سے لیے گئے ہیں۔ مشاہدات اور تبصرے زائر کے اپنے ہیں۔ اس طرح یہ سفر نامہ احکامات ، مشاہدات،تاَثرات اور توجہات پر مشتمل ہے‘‘۔

مصنف محکمہ پولیس کے اعلیٰ منصب سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ ان کا اسلوب ایک پختہ فکر اہل قلم کا سا ہے۔ مشاہدات، تاَثرات اور احکامات وغیرہ کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے: خیال ، جلال، جمال ،کمال اور استقلال ___ سفر نامے کی ندرت کے کچھ اور پہلو بھی ہیں۔ مثلاً :’مقاماتِ مقد سہ  و مناسک حج‘ کے ’البم ‘میں ۳۳ تصاویر اور دیگر ممالک کے حجاج سے ملاقاتوں کے تذکرے کے ساتھ ان کے تحریری تاثرات کے عکس ، شریکِ سفر احباب کی فہرست، اور آخر میں حج اور عمرے کے ۲۵۰ سفر ناموں کی فہرست بھی شامل ہے۔ اُردو میں حج کے سفرناموں کی تعداد سیکڑوں تک پہنچتی ہے، مگر متعلقات و لوازماتِ حج کی ایسی یک جائی اور ایسا اہتمام، شاید ہی کسی سفرنامے میں ملے___ بلاشبہہ یہ ایک منفرد اور بہترین سفرنامۂ حج ہے۔ طباعت واشاعت معیاری ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی) 


جنگ ِستمبر کی یادیں، الطاف حسن قریشی۔ ناشر: جمہوری پبلی کیشنز، ایوانِ تجارت روڈ، لاہور۔ فون: ۳۶۳۱۴۱۴۶-۰۴۲۳۔ صفحات (بڑا سائز، مجلد): ۳۷۴ ۔ قیمت: ۱۰۰۰ روپے۔

پاکستان کا قیام ان حالات میں عمل میں آیا کہ اس نئی مملکت کے پاس نہ مالی وسائل تھے، نہ ریاستی ہیکل اساسی اور نہ افرادی قوت کی تربیت کا بنیادی ڈھانچا ہی میسر تھا۔ دوسرا یہ کہ کانگریس کے گہرے اثرات کے باعث مشرقی پاکستان [موجودہ بنگلہ دیش] اور صوبہ سرحد (خیبرپختونخوا) میں مقامی سطح پر ایسی سیاسی قیادت موجود تھی، جو قیامِ پاکستان کے خلاف تھی ، جس نے پہلے ہی چھے ماہ میں پاکستان کی بنیادوں پر ضربیں لگانا شروع کر دی تھیں۔ کانگریس کو توقع تھی کہ پاکستان محض گنتی کے چند برسوں میں ناکام ہوجائے گا۔ اسی طرح انگریز ہندو گٹھ جوڑ نے غیرمنصفانہ تقسیم ہند کے علاوہ جموں و کشمیر کے الحاقِ پاکستان کو روک کر بارود، خون اور جنگ کی فصل بو دی۔ ستمبر ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ کے پس منظر میں یہی مسئلہ کشمیر کارفرما تھا۔

یہ کتاب بنیادی طور پر پاکستانی صحافت کی زندہ تاریخ الطاف حسن قریشی کی ان تحریروں پر مشتمل ہے، جو انھوں نے جنگ ِ ستمبر کی مناسبت سے ذاتی مشاہدات اور جنگ میں حصہ لینے والے سرفروشوں سے تفصیلات معلوم کرکے ۱۹۶۵ء سے ۱۹۶۶ءکے زمانے میں ماہ نامہ اُردو ڈائجسٹ کے لیے لکھی تھیں۔ستمبر ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ، پاکستانی نیشنل ازم کی بازیافت کا ذریعہ بنی۔ اس جنگ نے پاکستان کی اسلامی شناخت کو پختہ کیا اور خود پاکستانی ادب کے خدوخال کو گہرے نقوش کے ساتھ واضح کیا۔ اس طرح یہ جنگ پاکستان کی تاریخ کا ایک یادگار سنگ میل ثابت ہوئی۔

الطاف صاحب نے درست لکھا ہے: ’’ان تحریروں میں وہ فضا پائی جاتی ہے، جو آج بھی ہمارے اندر ایک اُمنگ اور عزم پیدا کرتی ہے۔ وہ فضا تین روح پرور کیفیتوں کا مرقع تھی: ہماری مسلح افواج کا عظیم جذبۂ جہاد ، فوج اور عوام کے مابین اعتماد کے گہرے رشتے ،اور قومی یک جہتی کے ناقابلِ فراموش مناظر‘‘ (ص۷)۔ان مناظر کو مصنف نے۲۱مضامین (رپورتاژوں اور مصاحبوں وغیرہ) میں بھرپور انداز سے پیش کیا ہے۔ محاذ جنگ پر موجود اور اگلے مورچوں پر ڈٹے پاکستانی فوجی جوانوں کے جذبات و کیفیات کو دم بخود کرنے والے اسلوب میں اس خوب صورتی اور تفصیل سے پیش کیا ہے کہ قاری اپنے آپ کو منظر کا ایک حصہ سمجھنے لگتا ہے۔ ہرمضمو ن کا پلاٹ الگ ہے، مگر بنیادی روح ایک ہے اور وہ ہے پاکستانی مسلح افواج کا جذبۂ جہاد اور جذبہ دفاعِ پاکستان، جس میں پاکستانی عوام، دانش ور اور ادیب، تمام گروہی تفریقوں سے بالاتر ہوکر یک جان و یک جہت ہوکر، دشمن کے مقابلے میں ڈٹے دکھائی دیتے ہیں۔

کتاب کے آغاز میں الطاف صاحب نے ’تصادم کے بنیادی محرکات‘ (ص ۱۵-۶۵) کے عنوان سے ایک تحقیقی و تجزیاتی مقالہ تحریر کیا ہے، جو نہ صرف اُس زمانے میں بھارتی توسیع پسندانہ سامراجی عزائم کی تاریخ پر مشتمل ہے، بلکہ آج بھی بھارت کی وہی ذہنیت پاکستان کو ہدف بنائے ہوئے ہے۔ روحِ جہاد اور مسلم اُمت کی روح وجود کو نئی نسلوں تک منتقل کرنے کے لیے یہ کتاب امتیازی اہمیت رکھتی ہے۔ خوب صورت پیش کش کے لیے ناشر فرخ سہیل گویندی مبارک باد کے مستحق ہیں۔ (س  م   خ)


تین علمی مجلّات (تعارف و اشاریہ)، مرتبہ: محمد شاہد حنیف۔ ناشر: اوراقِ پارینہ پبلشرز، لاہور۔ فون: ۴۱۲۸۷۴۳-۰۳۳۳۔ صفحات: [مجلاتی سائز]: ۱۱۲۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

اخبارات و جرائد میں عام طور پر جن موضوعات پر مضامین لکھے جاتے ہیں، یونی ورسٹیوں کے علمی مجلّات، ان سے قدرے مختلف موضوعات کو زیربحث لاتے ہیں۔ پیش کش کے اعتبار سے ان مجلوں کا اسلوب زیادہ تر تحقیقی اور تجزیاتی ہوتا ہے، اسی لیے یونی ورسٹی مجلّے اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں۔ زیرنظر اشاریہ سندھ یونی ورسٹی، جام شورو کے شعبۂ اُردو کے تین مجلوں: (صریرخامہ ۱۹۶۱ء تا ۱۹۷۸ء ، پرکھ ۱۹۷۸ء، تحقیق ۱۹۸۷ء تا ۲۰۱۶ء)کے مندرجات کے حوالوں پر مشتمل ہے، جس میں چھے سو سے زیادہ قلمی معاونین کی ۱۲۰۰ نگارشات کی مہ و سال کے ساتھ نشان دہی کی گئی ہے۔

رسائل و جرائد کی اشاریہ سازی کے ماہر محمد شاہد حنیف نے اُردو خواں طبقے کو سندھ یونی ورسٹی کی علمی و ادبی خدمات سے آگاہ کرنے کے لیے یہ مفید خدمت انجام دی ہے، جسے وابستگانِ تحقیق قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ (ادارہ)


تعارف کتب

  • اسلامی تصورِ جہاں اور جدید سائنس ، پروفیسر سیّد محمد حسین نصر۔ مترجم: انجینیراطہر وقار عظیم۔ ناشر: ادارہ مطبوعات طلبہ، ۱-اے ذیلدار پارک، اچھرہ، لاہور- فون: ۳۷۹۲۸۳۰۷-۰۴۲۔ صفحات: ۲۶۴۔ قیمت:۴۰۰ روپے۔[سیّد حسین نصر مسلم دنیا کے ایک معروف اسکالر ہیں، جو فلسفے اور تصوف کے میدان میں گہری دسترس رکھتے ہیں۔ زیر نظر کتا ب جدید سائنس اور اس کے انسانی فکروخیال اور کردار و مستقبل پر اثرات کو زیربحث لاتی ہے۔ سیّد حسین نصر نے ایمان اور اسلامی عقیدے کی بنیاد پر اس موضوع پر سیرحاصل بحث کی ہے۔ جزوی اختلاف کو نظرانداز کرتے ہوئے مجموعی طور پر یہ ایک مفید مطالعہ ہے۔ اطہروقار عظیم نے اُردو ترجمہ کرکے ایک خدمت انجام دی ہے۔]
  • خطاباتِ سیّد مودودی ،مرتبہ: نور ور جان۔ ناشر: ادارہ معارفِ اسلامی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۲۴۷۶-۰۴۲۔ صفحات: ۴۸۰۔ قیمت:۵۲۵ روپے۔ [اس کتاب میں مولانا مودودی کی ان تقریروں کو جمع کرکے شائع کیا گیا ہے، جو انھوں نے مختلف اوقات میں طالب علموں کے اجتماعات میں کی تھیں۔ ]
  • علما کی تنخواہیں سب سے کم کیوں ہیں؟ ، سیّد خالد جامعی۔ ناشر: کتاب محل ، دربار مارکیٹ، لاہور۔ فون:۸۸۳۶۹۳۲- ۰۳۲۱۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: ۱۶۰ روپے۔[اس کتاب میں فاضل مصنف نے خادمانِ دین کی معاشی و معاشرتی زندگی پر نظر ڈالی ہے اور ہمارے معاشرے کی سنگ دلی اور نفاق کو موضوعِ سخن بنایا ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر لبرلزم، سیکولرزم اور ہمارے مداہنت پسند بیانیہ سازوں کی بھی خبر لی ہے۔ اور یہ پہلو کتاب کے زیادہ حصے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس طرح ایک کتاب میں مختلف اور مفید موضوعات پر بحث موجود ہے۔]

وقائع سیرت نبویؐ عیسوی ماہ و سال کی روشنی میں، اخلاق احمد قادری۔ ناشر: بک فورٹ ریسرچ اینڈ پبلی کیشنز، مکان ۹، سٹریٹ۳۲، غنی محلّہ، سنت نگر، لاہور۔ فون:۴۹۳۱۳۲۰-۰۳۰۰۔ صفحات: ۳۷۶۔ قیمت: ۸۰۰روپے۔

سرورق کی حسب ذیل عبارت: ’پیدایشِ حضرت عبداللہؓ سے وصالِ نبویؐ تک کے تمام اہم وقائعِ سیرت نبویؐ، عیسوی تقویم و ترتیب کے ساتھ‘ سے زیرتبصرہ کتاب کی نوعیت کا اندازہ ہوتا ہے۔۲۴صفحات پر پھیلی ہوئی فہرست کے عنوانات سے ’سیرت النبیؐ‘ کے کسی بھی واقعے کا پتا چلایا جاسکتا ہے۔ سیرت کے وقائع کے ساتھ آں حضوؐر کے خدام، اُمہات المومنینؓ، آپؐ کے صحابہؓ،  آپؐ کی خادمائیں، کاتبینِ وحی، آپؐ کے سُفرا اور قاصد، بارگاہِ رسالتؐ کے خطیب اور شعرا اور آپؐ کے آلاتِ حرب، ڈھالوں، گھوڑوں، اُونٹنیوں اور بکریوں وغیرہ کا مختصر تعارف بھی شاملِ کتاب ہے۔

یہ کتاب سیرتِ پاکؐ کی توقیت (کروتولوجی)ہے، جس سے واقعاتِ سیرت کا پتا چلتا ہے کہ کون سا واقعہ کب، کس دن رُونما ہوا اور اس کا پس منظر کیا تھا۔ بقول سیّد ارشد سعید کاظمی: ’’محترم قادری صاحب نے ایک نئے انداز پر سیرتِ نبویؐ کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے‘‘ (ص۲۹)۔ (رفیع الدین ہاشمی)


رسولِؐ رحمت مکّہ کی وادیوں میں (جلداوّل)، حافظ محمد ادریس۔ ناشر: مکتبہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۲۵۲۴۱۹-۰۴۲۔ صفحات: ۴۰۸۔ قیمت: ۳۷۵ روپے

زیرنظر کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے:پہلے حصے میں تمہیدی مباحث، دوسرے حصے میں بعثت سے قبل کے اہم واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے، جب کہ تیسرے حصے میں بعثت کے بعد قریش کی مخالفت اور کفّار کی عصبیت ِ جاہلیہ کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ ’پیش لفظ‘ میں لکھا ہے: ’’آپؐ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ مستند حوالوں کے ساتھ تاریخ اور حدیث کی کتابوں میں پوری جُزرسی کے ساتھ محفوظ [ہے] (ص۲۷)۔کوشش کی گئی ہے کہ رسولِ اکرمؐ کی زندگی کا لمحہ لمحہ تاریخ اور حدیث کی کتابوں سے جمع کیا جائے۔ ہرحصے کے ضمنی عنوانات کے تحت ہرہرجُز اور پیراگراف پر سرخیاں قائم کی ہیں، اور تقریباً ہرپیراگراف مستند حوالہ جات سے مزین ہے۔ یہ چیز مؤلف کی محنت اور احتیاط کی دلیل ہے۔ واقعات کے لیے حافظ صاحب نے تفہیم القرآن، مفتی محمد شفیع کی تفسیر معارف القرآن، مولانا شبلی کی سیرت النبیؐ اور دیگر کتابوں سے طویل اقتباسات لیے ہیں۔

یہ عمدہ شعری ذوق ہی کا نتیجہ ہے کہ حافظ صاحب نے جہاں عربی شاعری کے نمونے (مع تراجم) دیے ہیں، وہیں اُردو شعرا سے بھی خوب استفادہ کیا ہے اور علّامہ اقبال کے ساتھ مولانا حالی، ماہرالقادری اور مولانا ظفرعلی خان کے اشعار بھی برمحل استعمال کیے ہیں۔ یہ ایک  دل چسپ اور عمل پر اُبھارنے والی کتاب ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


اقبال اور مسلم اندلس، ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر۔ ناشر: قرطاس، فلیٹ نمبر۱۵-اے، گلشنِ امین ٹاور، گلستانِ جوہر، بلاک ۱۵، کراچی۔ صفحات:۹۸۔قیمت: ۱۰۰روپے۔

علّامہ اقبال کو، عالمِ اسلام کے دیار و امصارمیں مدینۃ النبیؐ کے بعد غالباً اندلس اور قرطبہ سے خاص تعلقِ خاطر تھا۔ بالِ جبریل کی منظومات (مسجد قرطبہ، ہسپانیہ، طارق کی دُعا، عبدالرحمٰن اوّل کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت وغیرہ) سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرطبہ، مسجد قرطبہ اور اندلس سے انھیں شدید جذباتی لگائو تھا۔یورپ کے تیسرے سفر سے لوٹتے ہوئے وہ بطورِ خاص ہسپانیہ گئے اور تین ہفتوں تک وہاں کے شہروں، تعلیمی اور علمی اداروں اور مسلمانوں کے آثار کا مطالعہ و مشاہدہ کیا۔

زیرنظر کتاب میں اندلس سے علّامہ اقبال کے تعلق اور ہمہ پہلو لگائو کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ کتاب اگرچہ مختصر ہے، لیکن اس کے مباحث، تنوع اور جامعیت کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر نگار نے جو اسلامی تاریخ پر گہری نظر کے باعث موضوع کے جملہ پہلوئوں کو ۱۰؍ابواب میں سمیٹ لیا ہے۔ آسان زبان میں یہ مختصر کتاب انھوں نے نوجوانوں کے لیے لکھی ہے کہ ’’ہماری نوجوان نسل اقبال اور فکر ِ اقبال سے دُور ہوتی جارہی ہے‘‘___ عام قارئین کے لیے بھی یہ عبرت آموز اور معلومات افزا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


تعارف کتب

o سیّدنا محمد رسول اللہ a ، ترتیب: شیخ عمر فاروق۔ ناشر: ۱۵-بی ، وحدت کالونی، لاہور۔ فون: ۳۷۸۱۰۸۴۵-۰۴۲۔ صفحات: جلداوّل: ۶۶۶، جلد دوم: ۶۸۸ (مجلد اور مجلاتی سائز)۔[رابطہ کرکے دستی طور پر حاصل کی جاسکتی ہے]۔[زیرنظر کتاب سیرت پاکؐ کے ذخیرئہ کتب میں ایک منفرد اضافہ ہے، جسے مطالعۂ سیرت کا ذوق و شوق پیدا کرنے کی غرض سے ترتیب دیا گیا ہے۔ جلداوّل میں سیرت کے مختلف واقعات دیے گئے ہیں اور جلد دوم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور مطلوب اسلامی طرزِ زندگی کے بارے میں قرآن و سنت سے ہدایات کو مرتب کیا گیا ہے۔ ]

o اُصولِ حدیث ، از ڈاکٹر اقبال احمد اسحاق۔ ناشر: ملک اینڈ کمپنی، رحمان مارکیٹ، غزنی، سٹریٹ، اُردوبازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۳۱۱۱۹-۰۴۲۔صفحات:۹۵۔ قیمت: درج نہیں۔ [یہ کتاب آسان انداز سے علم حدیث کی اصطلاحات کو سمجھانے کے لیے لکھی گئی ہے۔ فہمِ حدیث کے ساتھ درجات و اقسامِ حدیث کا جاننا بھی ضروری ہے ، جس کے لیے یہ کتاب ایک مفید ذریعہ ہے۔]

o  الفاظِ طلاق کے اُصول ، از مفتی شعیب عالم۔ ناشر: اسلامی کتب خانہ، بنوری ٹائون، کراچی۔ فون: ۳۴۷۲۷۱۵۹-۰۲۱۔ صفحات: ۱۷۶: قیمت: درج نہیں۔[کتاب میں ’طلاق‘ سے متعلق اُمور اور مباحث کو، اعلیٰ فنی و تدریسی اصولوں کے مطابق مرتب کیا گیا ہے۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ ایک قیمتی کتاب ہے، جسے بالخصوص علما اور اساتذہ کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ ]

oلمحۂ موجود اور تعلیماتِ اقبال ، از پروفیسر رشید احمد انگوی۔ ناشر: ۱۶-جی، مرغزار کالونی، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۴۷۲۳۵۱۴-۰۳۰۰۔صفحات:۶۴۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔[مصنف نے علامہ اقبال کے ۷۵؍اشعار کا آسان زبان میں ترجمہ و تشریح پیش کی ہے، تاکہ نئی نسل کلامِ اقبال کو سمجھنے میں آسانی محسوس کریں اور پیغام کی لذت کے فکروخیال کو معطر کریں۔  ]

oعلّامہ محمد اقبال اور مرزا غلام احمد قادیانی ،از پروفیسر محمد مسعود احمد۔ ناشر: ادارہ مظہراسلام ، ۳/۶۴، نئی آبادی، مجاہد آباد، مغل پورہ، لاہور۔ فون: ۸۱۰۳۷۵۵-۰۳۰۰ ۔ صفحات:۱۸۔ قیمت:۱۰ روپے۔ [اس پمفلٹ میں قادیانیت کے حوالے سے علامہ اقبال کے خیالات کو مرتب کیا گیا ہے۔]

oاُمت مسلمہ کے مستقبل کی تشکیلِ نو ،از مختار فاروقی۔ ناشر: قرآن اکیڈمی، لالہ زار کالونی، فیز۲، ٹوبہ روڈ، جھنگ۔ فون: ۷۶۳۰۸۶۱-۰۴۷۔[مصنف نے دراصل اہلِ قلم سے اپیل کی ہے کہ وہ عصرِحاضر کے چیلنج کو علمی سطح پر سمجھیں اور اعلیٰ فکروعلمی اسلوب میں ان چیلنجوں کا جواب دے کر، اپنی ذمہ اداری ادا کریں۔]

امینِ کعبہ ، پروفیسر محمد عبداللہ قاضی۔ ناشر: مکتبہ اسلامیہ،ہادیہ حلیمہ سنٹر، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔  فون: ۳۷۲۴۴۹۷۳- ۰۴۲۔صفحات:۵۹۶۔قیمت:۱۱۰۰ روپے۔

کتاب کا بنیادی موضوع سیرت النبیؐ ہے اور یہ بنیادی موضوع تیسرے باب سے شروع ہوتا ہے۔ باب اوّل: ’مقام مصطفیٰ ؐاہلِ کتاب کی نظر میں‘ اور باب دوم: ’رسولؐ اللہ غیرمسلموں کی  نظر میں‘۔ یہ دونوں موضوع سے براہِ راست متعلق نہیں ہیں، یہ ان موضوعات کا محل بھی نہیں تھا۔

واقعاتِ سیرت کی ترتیب زمانی ہے۔ مؤلف نے حسب ِ موقع قرآنِ حکیم ، احادیث ِ مبارکہ اور کتب ِ سیرت کے حوالے بھی دیے ہیں لیکن کئی جگہ صرف کتاب کا نام لکھ دیا ہے، حوالے نامکمل ہیں۔

واقعاتِ سیرت بیان کرتے ہوئے کہیں کہیں معاشرت اور معاملات کے اصول بھی اخذ کیے ہیں۔ مباحث ضمنی عنوانات میں تقسیم ہیں۔ مصنف نے بطورِ استناد قرآنی آیات بکثرت استعمال کی ہیں اور ان کا ترجمہ بھی دیا ہے۔ چوں کہ بعض قرآنی اقتباسات مع ترجمہ طویل تر ہیں، اس لیے ہمارے خیال میں پہلے دو ابواب سمیت کچھ حصے اور اقتباسات مع ترجمہ نکال کر کم و بیش ایک سو صفحہ کم ہوسکتا تھا۔ یہ ایک بابرکت اور مفید کام ہے جسے زیادہ بہتر انداز سے انجام دیا جاتا تو مفید تر ہوتا۔ (رفیع الدین ہاشمی)


سرسیّد احمد خان، تحقیقی و مطالعاتی مآخذ،مؤلّفہ: ڈاکٹر نسیم فاطمہ۔ ناشر: لائبریری پروموشن بیورو، ۹/۱۲۳۹، دستگیر سوسائٹی، ایف بی ایریا، کراچی- ۷۵۹۵۰۔ صفحات:۲۰۰۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

ہندستان میں اٹھارھویں صدی کے مسلم اکابرمیں سرسیّداحمد خاں ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ انھوں نے تباہ حال مسلمان قوم کو سنبھالنے اور اُٹھانے میں اپنی تمام توانائیاںصرف کر دیں۔ لیکن نیک نیتی کے باوجود، ان کی کاوشوں سے مسلمانوں کو نقصان بھی پہنچا۔ سب سے بڑا نقصان تو یہ ہوا کہ جدید تعلیم کے واسطے سے مسلمان انگریزوں کی غلامی میں رضامند رہنا سیکھ گئے۔

سرسیّد کی شخصیت اور ان کے علمی ،تعلیمی اور ادبی کارناموں پر مثبت اور منفی دونوں پہلوئوں سے بہت کچھ لکھا گیا۔ زیر نظر کتاب یہ بتاتی ہے کہ سرسیّد پر لکھی جانے والی کتابیں کراچی کے کن کتب خانوں میں موجود ہیں اور اِن میں کون کون سے ایسے رسالے ہیں جن میں سرسیّد پر مضامین شامل ہیں۔

ڈاکٹر نسیم فاطمہ نے ابتدا میں موضوع کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے سرسیّد پر منتخب کتابیات کا تعارف کرایا، زیرنظر اشاریے کی نوعیت بتائی اور سرسیّد پر ایک ’مکمل کیٹلاگ‘ مرتب کرنے کی ضرورت کا احساس دلایا اور اس ضمن میں تجاویز بھی پیش کی ہیں۔ مختصر یہ کہ کراچی کے مختلف جامعاتی کتب خانوں (کراچی یونی ورسٹی، سرسیّد یونی ورسٹی آف انجینیرنگ اینڈ ٹکنالوجی، ہمدرد یونی ورسٹی،    وفاقی اُردو یونی ورسٹی)، بعض نجی کتب خانوں (جمیل جالبی، مشفق خواجہ، معین الدین عقیل) اور دیگر لائبریریوں (اسٹیٹ بنک، ادارہ یادگار غالب ، انجمن ترقی اُردو، ڈاکٹر محمود حسین لائبریری اور لیاقت میموریل لائبریری وغیرہ) میں سرسیّد پر جو بھی اور جس نوعیت کا لوازمہ ملتا ہے، اس کی نشان دہی کردی گئی ہے۔ اسی طرح مذکورہ کتب خانوں میں موجود رسائل میں شائع شدہ مضامین کا مصنف وار اشاریہ بھی مرتب کر کے شامل کیا ہے۔

سرسیّد پر کام کرنے والوں کے لیے یہ ایک مفید کتاب ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


مختار مسعود، مکاتیب کے آئینے میں، مرتب: پروفیسرمحمد اقبال جاوید۔ ملنے کا پتا: سجاد کمپوزنگ سنٹر، دین پلازا، جی ٹی روڈ، گوجرانوالہ۔ فون: ۳۰۷۵۹۶۹۰-۰۵۵۔ صفحات: ۱۱۹۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

مختار مسعود(۱۹۲۶ء-۲۰۱۷ء) اُن گنے چُنے لوگوں میں سے تھے جنھیں بیوروکریٹ ہونے کے باوجود اپنے بلندپایہ قلمی سرمایے کی وجہ سے قبولِ عام حاصل ہوا۔ مختارمسعود نے زیادہ نہیں، کم لکھا مگر اس کا ایک خاص معیار اور اپنا مخصوص اسلوب برقرار رکھا۔ اُن کی پہلی کتاب (آوازِ دوست) ہی نے اُنھیں شہرت عطا کی۔ پھر سفر  نصیب اور لوحِ ایام کی اشاعت سے اُنھیں مزید قبولِ عام حاصل ہوا۔ آخری کتاب (حرفِ  شوق) اُن کی وفات کے بعد منظرعام پر آئی۔

زیرنظر کتاب میں مختارمسعود کے ایک مدّاح اقبال جاوید صاحب نے اپنے نام مرحوم کے خطوط جمع کیے ہیں اورہمراہ کچھ متعلقات بھی شامل ہیں، مثلاً مرحوم کے نام اپنے خطوط یا ابوالکلام آزاد سے منسوب تقریر یا بشیر ناصر کا مضمون (جنھیں، ممکن ہے بعض قارئین غیرمتعلقات خیال کریں)۔

مختارمسعود کے عکسِ تحریر بھی شامل ہیں۔ مراسلت کا یہ سلسلہ ۱۹۹۶ء سے ۲۰۱۱ء تک جاری رہا۔ بہرحال یہ مجموعہ خاصی حد تک مختارمسعود کی شخصیت اور اُن کے اندازِ فکرونظر کی ایک جھلک پیش کرتا ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


اقبال نامہ (نسلِ نو کے لیے)، مستقیم خان۔ یونی ورسٹی پبلشرز، افغان مارکیٹ، قصہ خوانی بازار، پشاور۔ صفحات: ۱۴۴۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔

جناب مصنّف نے بے شک علّامہ اقبال کا زمانہ نہیں پایا، مگر علّامہ کے کلام اور اقوال نے انھیں شاعرمشرق کا نادیدہ عاشق اور ارادت مند بنا دیا۔ زیرنظر کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اقبال کے افکارو نظریات کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور وہ اقبالیات پر اچھی دسترس رکھتے ہیں۔ انھوں نے اگرچہ یہ کتاب نسلِ نو کے لیے لکھی ہے مگر اس میں نسلِ قدیم کے لیے بھی بہت کچھ  موجود ہے۔ حیاتِ اقبال کے اہم واقعات، اقبال کے والدین ، ان کی تصانیف، سیاسی زندگی، تصوراتِ خودی، مردِ مومن، محبت ِ رسولؐ ،عقل و عشق، نوجوانوں اور بچوں کے لیےمنظومات کا متن اور اُن کی تشریح، اقبال کے بارے میں مشاہیر عالم کی آرا اور اقبالیات کی منتخب کتابوں کی فہرست شامل ہے۔ اس طرح گویا انھوں نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


مجلہ تحصیل، (شمارہ ۱، جولائی تا دسمبر ۲۰۱۷ء)، مدیر: معین الدین عقیل۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، ڈی ۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی- ۷۵۹۵۰۔ فون: ۳۶۳۴۹۸۴۰-۰۲۱۔ صفحات: ۲۳۲+ انگریزی حصہ: ۱۵۰۔ قیمت: درج نہیں۔

ادارہ معارف اسلامی کراچی کے اس نئے مجلے تحصیل پر اُردو اور فارسی زبان و ادب سے متعلق مقالات کا غلبہ ہے، جنھیں حسب ذیل عنوانات کے تحت شامل کیا گیا ہے: تحقیقی مقالات، گوشۂ اقبال، مآخذ تحقیق، تراجم، گوشۂ نوادر، وفیات، تبصراتی مقالہ۔ اسی طرح گیارہ تحریریں حصۂ انگریزی میں شامل ہیں۔ زیادہ تر مضامین ادبی، علمی اور تاریخی نوعیت کے ہیں، جیسے بھارت میں اُردو کا المیہ (از مرکنڈے کاٹجو)، میاں جمیل احمد شرق پوری کی علم پروری، کتاب دوستی اور کتب خانہ داری (نسیم فاطمہ)، ریاض الاسلام: عہدِوسطیٰ کی ہند اور اسلامی اور ہند ایرانی، تاریخ کا ایک مؤرخ۔ ہمارے خیال میں حوالہ جاتی قسم کے مضامین زیادہ اہم ہیں، مثلاً: امتیاز علی خاں عرشی کے تحقیقی و علمی کام کا اشاریہ (سیّد مسعود حسن)، اشاریہ منظوماتِ اقبال (خالد ندیم)، عہد ِ کتب شاہی کے مخطوطات (عطا خورشید)۔

عبدالرحمٰن بجنوری (۱۸۸۵ء-۱۹۱۸ء) نے برطانیہ اور جرمنی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ بھوپال کے مشیر تعلیمات رہے۔ کم عمری میں خالق حقیقی سے جاملے۔ ایک بار جب وہ یورپ جارہے تھے،انھوں نے مسلمانوں کے حالات سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے سربیا اور بلغاریہ کا سفر کیا اور ’سربیا میں اسلام‘ اور ’بلغاریہ میں اسلام‘ کے عنوان سے دو مضامین مولانا محمدعلی جوہر کے رسالے ہمدرد میں شائع کروائے۔ جنابِ افضل حق قرشی نے بجنوری کے یہ مضامین بطور نوادر، حواشی کے ساتھ مرتب کیے ہیں۔ جاوید احمد خورشید نے امینہ جمال کی کتاب Jamaat-e-Islami Women in Pakistan  پر تفصیل سے تبصرہ کیا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


سہ ماہی استعارہ، مدیران: ڈاکٹر امجد طفیل، ریاض احمد۔ ناشر: رانا چیمبرز، چوک پرانی انارکلی، لیک روڈ، لاہور- فون: ۱۳۲۱۰۴۷-۰۳۳۳۔ صفحات: ۲۸۸۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

ادبی کتاب سلسلے کا یہ پہلا شمارہ ہی معیاری تحریروں پر مشتمل ہے۔ اس کی ترتیب، تدوین، تنوع اور معیارِ اشاعت سے اس کے روشن مستقبل کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔ ڈاکٹر امجد طفیل ادب اور نفسیات کے سنجیدہ استاد ہیں۔ حلقہ اربابِ ذوق کو انھوں نے بڑی قابلیت اور مہارت سے چلایا۔ یہ شمارہ ان کی صلاحیتوں کا ایک اور رُخ پیش کرتا ہے۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کے تفصیلی انٹرویو (۳۲صفحات) کے ساتھ ان کی حیات و تصانیف کا کوائف نامہ (۱۰ صفحات) بھی شامل ہے۔ رسالے میں تخلیقی ادب کی مختلف اصناف اور تنقیدی مضامین اور تبصرے بھی شامل ہیں۔ رسالہ معروف اور نسبتاً نئے لکھنے والوں کی تحریروں سے مزین ہے۔ یہ ۲۰۱۷ء کی آخری سہ ماہی کا شمارہ ہے۔ اگر مجلسِ ادارت نئے سال (۲۰۱۸ء) میں چار شمارے بروقت اور کم از کم اسی معیار پر شائع کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ اس کی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔(رفیع الدین ہاشمی)

تعارف کتب

  • نعت رنگ ، مرتب: سیّد صبیح الدین رحمانی۔ ناشر:نعت ریسرچ سینٹر، بی ۳۰۶، بلاک ۱۴، گلستانِ جوہر، کراچی۔ فون: ۵۵۶۷۹۴۱- ۰۳۳۳۔ صفحات:۵۳۲۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔[سرورق: ’نعتیہ ادب کا علمی ، تحقیقی و تنقیدی کتابی سلسلہ‘   ___  یہ اس سلسلے کا ۲۷واں شمارہ ہے (دسمبر ۲۰۱۷ء)۔ تقریباً تین درجن مضامین، ایک مذاکرہ، سحرانصاری کا انٹرویو، منتخب نعتیں اور قارئین کے خطوط جملہ تحریروں کا مرکزی موضوع صنف ِ ’نعت‘ ہے۔ رحمانی صاحب کا ہمہ وقتی مشغلہ اور مصروفیت یہی ہے۔ اس یکسوئی کی بدولت وہ مختصر وقت میں درجنوں نئے مضامین پر مبنی کتابی سلسلہ شائع کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ سرورق پر قرآنی خطاطی ترک خطاط محمداوزجان کی ہے۔]
  • انوکھے جہاں کی انوکھی سیر، قاضی مظہرالدین طارق۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، ڈی-۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ فون: ۳۶۳۴۹۸۴۰-۰۲۱۔ صفحات: ۱۳۲۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔[ مصنّف نے زیرنظر کتاب میں انسانی وجود کا مطالعہ ایک منفرد انداز میں پیش کیا ہے۔ سائنس فکشن کے اسلوب میں مصنّف ایک استاد اور ان کے شاگردوں کو ایک ننھے سے جہاز کے ذریعے انسانی جسم کے اندر لے جاتا ہے اور مختلف انسانی عضویات اور اعصابی نظام کی سیر کرواتے ہوئے اس طرح ان کی ساخت اور کارکردگی کو بیان کرتا ہے کہ جیسے یہ سب آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہو۔یہ کتاب انسان کی تخلیق اور کائنات پر غوروفکر اور تدبر کے لیے مفید مطالعہ ہے۔ مصنف نے انسانی اعضا کی انگریزی اصطلاحات کے ساتھ ساتھ اُردو اصطلاحات کا خصوصی اہتمام کیا ہے ۔

امام الانبیاؐ کا سفرِ حج، تالیف: انجینیرمحمد ارشد۔ ناشر: مکتبہ اسلامیہ،ہادیہ حلیمہ سنٹر، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۴۴۹۷۳- ۰۴۲۔صفحات:۲۰۰۔قیمت:۳۰۰ روپے۔

بقول مؤلّف: ’’اس کتاب کا مقصد امام الانبیاؐ کے حج و عمرے کے طریقے (سنّت)، واقعات کو ایک مسلمان تک پہنچانا ہے تاکہ وہ اس عظیم عبادت اور فرض کی ادایگی میں امام الانبیاؐ کی اِتباع کو حرزِ جاں بنائیں‘‘۔ بلاشبہہ مؤلف اس مقصد میں کامیاب رہے ہیں۔ اس کا بڑا سبب احادیث نبویؐ پر مصنف کی گہری نظر ہے۔

پہلے باب میں انھوں نے قرآنِ حکیم کی وہ آیات (مع ترجمہ) یک جا کی ہیں، جن میں کسی بھی پہلو سے حج اور عمرے کا ذکر آتا ہے۔بعدازاں رسولؐ اللہ کےعمروں کا تذکرہ ہے اور عمروں کے مسائل و احکامات، احادیث کی روشنی میں بتائے ہیں۔ مابعد ابواب میں آپؐ کے سفرِحجۃ الوداع،مکہ میں آمد اور مسجدالحرام میں مناسکِ حج کی ادایگی کا ذکر ہے۔ پھر قیامِ مکّہ، عرفات میں قیام و وقوف، مزدلفہ میں قیام و وقوف، منیٰ میں قربانی، حلق، طوافِ زیارت، ایام تشریق، طوافِ وِداع اور مکہ سے واپس مدینہ سفر کےواقعات اور حیاتِ طیبہ کے آخری ایام کی رُوداد۔ اسی طرح اُم المومنین حضرت عائشہؓ سے خواتین کے لیے عمرے کی راہ نمائی ملتی ہے۔جملہ واقعات، حدیث کے الفاظ (اُردو ترجمہ) میں بیان کیے گئے ہیں۔ مصنف نے اپنی طرف سے کہیں کہیں مختصراً وضاحت بھی کی ہے۔ ہرہرمرحلے کی تاریخ، دن اور کہیں کہیں وقت کی وضاحت بھی کی گئی ہے۔ مؤلف نے ’پیش لفظ‘ میں بطورِ مآخذ کتب ِ احادیث اور ویب لنکس کے نام بھی دے دیے ہیں۔ معیارِ طباعت و اشاعت اطمینان بخش ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)

انگلستان میں اسلام، ڈاکٹر صہیب حسن ۔ناشر : دعوۃ اکیڈمی ،فیصل مسجد، اسلام آباد۔ صفحات:۲۰۹۔ قیمت :۳۳۰ روپے ۔

آں حضوؐر مبعوث ہوئے توکم وبیش نصف صدی کے اندر مسلمان ایشیا اور افریقا کے دُور دراز گوشوں تک پہنچ گئے۔ آج دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو گا جہاں کوئی مسلمان موجود نہ ہو۔  انگلستان میں مسلمانوں کی زیادہ تر آمد ہندستان پر انگریزوں کے قبضے کے بعد شروع ہوئی لیکن ماقبل زمانے سے متعلق زیر نظر کتاب کے مصنف نے چند دل چسپ انکشافات کیے ہیں، مثلاً: آٹھویں صدی عیسوی میں انگلستان کا باد شاہ اوفا مسلمان تھا اور اس کے جاری کردہ سونے کے سکّوں پر عربی رسم الخط میں یہ الفاظ مرقوم ہیں: لَا اِلٰہَ  اِلَّا اللہ  لَا شَرِیکَ لَہٗ۔

گیارھویں اور بارھویں صدی میں صلیبی جنگوں میں مسلمانوں سے میل جول کے نتیجے میں متعدد انگریز مسلمان ہو گئے۔ سولھویں اور سترھویں صدی میں عثمانی ترکوں کی بحریہ وقتاً فوقتاً انگریزی جہازوں پر حملہ کر کے انگریزوں کو قیدی بنا لیا کرتی تھی۔ ان قیدیوں کی اکثریت مسلمانوں کے حُسنِ سلوک سے مسلمان ہو جاتی اور اپنی خوشی سے سلطنت عثمانیہ ہی میں سکونت اختیار کر لیتی تھی۔ انیسویں صدی میں انگلستان میں مساجد کا قیام شروع ہوا ۔ آج برطانیہ کی سوا چھے کروڑ کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد ۲۷ لاکھ کے قریب ہے اور مساجد کی تعدا د پندرہ سو کے لگ بھگ ہے۔

زیر نظر کتاب میں مصنّف نے برطانیہ میں مسلمانوں کی آمد اور نشوونما کی تاریخ کے ساتھ تقریباً تین سو مساجد کا مختصر تعارف کرایا ہے۔ مزید برآں برطانیہ میں مسلمانوں کے شب وروز خصوصاً دعوتی، تبلیغی اور تعلیمی جماعتوں اور اداروں کی سرگرمیوں ،مسلم صحافت کی صورتِ حال بھی بیان کی ہے۔ انگلستانی مسلمانوں کے بارے میں بعض باتیں خوش آیند ہیں، مثلاً یہ کہ کاروباری حضرات میں ۱۰ ہزار کے قریب لکھ پتی ہیں، یا دارالعوام میں آٹھ مسلمان ایم پی ہیںاور ہائوس آف لارڈ ز میں ۱۲لارڈز ہیں۔ لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ مسلمان ، تعلیم میں ہندوئوں اور سکھوں سے پیچھے ہیں۔ راقم کا مشاہد ہ یہ ہے کہ پونڈ کمانے کی مصروفیت میںمسلمانوں کی اکثریت یہ بھو ل چکی ہے کہ ہم سب سے پہلے ’مسلمان ‘ ہیں۔کتاب کے مقدمہ نگار کے بقول: ــ’’برطانیہ میں مسلمانوں کی سرگرمیوں کو سمجھنے کے لیے یہ کتاب کلید کی حیثیت رکھتی ہے‘‘۔ (رفیع الدین ہاشمی )

بلوچستان: تاریخ ، معاشرت ، ڈاکٹر محمد اشرف شاہین۔ ناشر: یونی ورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹکنالوجی، لاہور۔ ضخامت: ۳۸۰ مجلد، قیمت: ۸۰۰ روپے۔

صوبہ بلوچستان رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا اور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔ دوسرے صوبوں کے مقابلے میں یہ عدم تناسب کوئی عجیب بات نہیں ہے، کیوں کہ بلوچستان کی طبعی اور موسمیاتی صورتِ حال ایسی نہیں کہ وہاں پر آبادی کا ارتکاز ہوسکے۔ لیکن اس کے بالمقابل بہرحال یہ چیز بہت عجیب ہے کہ پاکستان کے بیش تر لوگ اپنے اس صوبے کے حالات، تاریخ، معاشرت وغیرہ سے افسوس ناک حد تک بے خبر ہیں۔ اس بے خبری کا نقصان جہاں صوبہ بلوچستان میں بسنے والے ہم وطنوں کو پہنچ رہا ہے، وہیں خود پاکستان کے دیگر صوبہ جات کے شہری بھی مسائل و مشکلات سے گھرے اس صوبے کے حقائق کے بارے میں اندھیرے میں ہیں اور انھیں اس صوبے کے وجود کے بارے میں اس وقت خبر ہوتی ہے جب کبھی وہاں پر کوئی افسوس ناک حادثہ رُونما ہوتا ہے۔

زیرنظر کتاب اگرچہ موجودہ دور میں، بلوچستان کے سیاسی مسائل اور مناقشات پر کوئی مفصل احوال پیش نہیں کرتی، لیکن بلوچستان کی قدیم اور حالیہ سماجی تاریخ، اور وہاں کے قبائل و مذاہب، ثقافت اور روایات کے بارے میں بہت سی مفید معلومات مہیا کرتی ہے۔ بلاشبہہ بلوچستان پر بہت لکھا گیا ہے، مگر اس کا زیادہ حصہ انگریزی میں ہے۔ اس کے برعکس اُردو میں عام فہم انداز اور رطب و یابس سے محفوظ یہ ایک مختصر اور جامع کتاب ہے۔

ڈاکٹر محمد اشرف شاہین قیصرانی اس خدمت پر شکریے کے مستحق ہیں۔ یو ایم ٹی پریس نے یہ کتاب شائع کر کے ایک خدمت انجام دی ہے۔ (سلیم منصورخالد)

تعارف کتب

$ باتیں سیاست دانوں کی ، ضیاشاہد۔ ناشر: قلم فائونڈیشن، یثرب کالونی، بنک اسٹاپ، والٹن روڈ، لاہوکینٹ۔ فون: ۰۵۱۵۱۰۱- ۰۳۰۰۔ صفحات: ۴۲۰۔ قیمت: ۱۲۰۰ روپے۔[اس کتاب میں پاکستان کے معروف صحافی ضیا شاہد نے ۲۲مختلف سیاسی و علمی شخصیات کے بارے میں اپنے مشاہدات و تاثرات قلم بند کیے ہیں۔ مجموعی طور پر کتاب دل چسپ ہے۔ اگر یہ کتاب مہنگے چکنے کاغذ کے بجاے اچھے سفید کاغذ پر بھی شائع کی جاتی تو اس سے آدھی قیمت پر دستیاب ہوتی۔]

روح الامین کی معیت میں کاروانِ نبوتؐ، ڈاکٹر تسنیم احمد۔ جلد اوّل تا جلد پنجم۔ ناشر: دعوت الحق، ۹۳-اے، اُٹاوا سوسائٹی، احسن آباد، کراچی- ۷۵۳۴۰۔ فون: ۲۱۲۰۸۶۸- ۰۳۱۴۔ صفحات: (علی الترتیب): ۱۷۵، ۲۵۶، ۲۸۸، ۲۸۸،۳۰۴۔ قیمت: (علی الترتیب):۲۵۰ روپے، ۲۵۰ روپے، ۳۰۰ روپے، ۳۵۰ روپے، ۳۵۰ روپے۔

زیرنظر سیرت النبیؐ، سیرت کی عمومی کتابوں سے خاصی مختلف اور منفرد ہے۔ مصنف نے کتاب کے دو کلیدی موضوعات بتائے ہیں: نزولِ قرآن اور سیرت النبیؐ۔ ان کی وضاحت کے لیے انھوں نے متعدد تصاویر، نقشے، جدولیں اور اشاریے شامل کیے ہیں۔

باب اوّل کا عنوان ہے: ’محمدؐ کے جدِّ اعلیٰ ابراہیمؑ،۔ اس میں حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ مکہ اور یثرب کی مختصر تاریخ کا ذکر ہے۔ دوسرے باب میں بعثت ِ محمدی سے قبل اہلِ ایمان کی آزمایش (اصحابِ کہف ، اصحاب الاخدود وغیرہ)۔ آیندہ ابواب میں آں حضوؐر کا خاندان، ولادت، پرورش، آغازِ نبوت، دعوت کا آغاز، کاروانِ نبوت میں شامل ہونے والی اوّلین اور مابعد شخصیات کا تذکرہ، واقعات کےمتوازی زمانوں میں اُترنے والی آیات، ان کے مطالب اور قرآن کے انھی حصوں سے صحابہؓ کی تربیت کا ذکر۔ جلد دوم میں واقعات کے حوالے سے کاروانِ نبوت آگے بڑھتا ہے۔ راہِ حق میں آں حضوؐر اور صحابہ کرامؓ کی مشکلات اور آزمایشوں پر علمی بحثیں بھی ہیں اور تفصیلی واقعات بھی۔ ساری پانچوں جلدیں پاورق حوالوں اور تعلیقات سے مزین ہیں۔

مختصر یہ کہ کاروانِ نبوتؐ  سیرت النبیؐ پر (مکی زندگی تک محدود) ایک مستند اور مفصل کتاب ہے۔ اسے آپ قافلۂ دعوتِ حق کی تاریخ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ضمناً اس میں بہت سے تبصرے اور بہت سی معلومات آگئی ہیں۔ مصنف لکھتے ہیں: ’’مؤلف کو رسولؐ اللہ اور آپؐ کے لائے ہوئے دین اسلام سے جو محبت ہے اس کی خاطر یہ کتاب صرف اللہ کی رضا کے حصول کے لیے لکھی اور شائع کی گئی ہے‘‘ (جلد۲، ص۹)۔ بلاشبہہ یہ پانچ جلدیں مصنف کے خلوص، لگن، تحقیق ، محنت اور عزمِ صمیم کا حاصل ہیں۔

مصنف کا اسلوب سادہ اور آسان ہے۔ کتاب خوب صورت اور طباعت و اشاعت معیاری ہے۔ درحقیقت یہ ایک مستقل زیرمطالعہ رکھنے والی کتاب ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


 حیاتِ انبیا ؑ، تالیف: محمد اقبال مرزا۔ ملنے کا پتا: دارِحمزہ، CB-18/1 سرسیّد کالونی،نیو گدوال،  واہ کینٹ۔ فون: ۴۹۰۹۲۳۸-۰۵۱۔ صفحات: ۲۲۴۔ قیمت: ۲۵۰ روپے ۔

مؤلف کو اپنی ملازمت کے دوران لندن میں کچھ عرصہ قیام کا موقع ملا۔ وہاں عیسائیوں سے بحث مباحثے کے دوران انھیں محسوس ہوا کہ عیسائیت کے بارے میں اِن کا علم محدود ہے،  جب کہ عیسائی بھی اسلام کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے قرآن، بائبل اور جدید سائنس کی روشنی میں مطالعہ و تحقیق کے بعد مذکورہ کتاب مرتب کرنے کا فیصلہ کیا۔یہ کتاب حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت اسماعیلؑ و حضرت اسحاق ؑ تک کے تذکرے پر مبنی ہے۔ قرآن اور بائبل کے حوالوں اور تقابلی مطالعے کے ساتھ ساتھ جدید سائنس اور آثارِ قدیمہ کے شواہد بھی پیش کیے گئے ہیں۔ اس طرح یہ جہاں اسلام اور عیسائیت کے حوالے سے تقابل ادیان کے لیے مفید مطالعہ ہے، وہاں جدید معلومات نے اس کتاب کو مزید دل چسپی کا باعث بنا دیا ہے۔ تقابل ادیان کے ساتھ ساتھ دعوتی مقاصد کے لیے مفید کتاب۔(امجد عباسی)


فکرِ سیاسی کی تشکیلِ جدید، ڈاکٹر معین الدین عقیل۔ ناشر: مکتبہ تعمیر انسانیت، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار ، لاہور۔فون: ۳۷۲۳۷۵۰۰- ۰۴۲ ۔صفحات : ۹۳۔ قیمت (مجلد): ۱۸۰ روپے۔

قوموں کی تعمیر و تخریب تخت نشینوں کے ہاتھوں ہوتی ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ ہربرسرِاقتدار گروہ نے راج تو کیا سیاست کی بساط پر، مگر جو تخت کی بارہ دری سے باہر ہے اسے کہا: ’’سیاست گندا کھیل ہے‘‘ یا ’’تمھارا کیا کام سیاست سے؟‘‘

ڈاکٹر معین الدین عقیل نے اس مختصر سی کتاب میں، ہماری قومی زندگی کے حوالے سے  اہم فکری، سیاسی اور تہذیبی لوازمہ فراہم کیا ہے۔ انھوں نے اس مطالعے کو سرسیّداحمد خاں اور     علّامہ اقبال کے افکار سے منسوب کیا ہے، جو اس حد تک درست ہے کہ سرسیّد کا خطبہ (ص ۴۱-۴۹) اور اقبال کا خطبہ (۵۶-۷۲) شامل ہے۔ یہ دونوں خطبات کسی تشریح کے محتاج نہیں کہ یہ اپنی جگہ فکرودانش کی دستاویزات ہیں۔ معین صاحب کے حواشی نے ان کی افادیت دوچند کردی ہے۔  تاہم، اس قیمتی فکری اثاثے کی روح وہ مقالہ ہے، جو ڈاکٹرمعین الدین نے ’سیّد احمد خاں اور اقبال‘ (ص۱۰-۳۵) تحریر کیاہے۔ ہند میں مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ روایت کے فکری، عملی، سیاسی اور مذہبی اُتارچڑھائو، بلکہ تضادات و امکانات کے دَر وَا کرتا ایسا جان دار بہی کھاتہ، اس انداز سے کبھی پہلے نظر سے نہیں گزرا۔ اس تخلیقی مضمون اور تاریخ و تہذیب پر نقد کے حوالے سے معین صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں۔ البتہ اتنی عام فہم کتاب کا عنوان اتنے تکلف کی نذر کرنا ضروری نہیں  تھا۔ (سلیم منصور خالد)


ڈاکٹر ابن فرید، علمی و ادبی خدمات، ڈاکٹر زبیدہ جبیں۔ ناشر: ادارہ ثقافت اسلامیہ، ۲-کلب روڈ، لاہور۔ فون:۳۶۳۰۵۹۲۰-۰۴۲۔ صفحات(مجلد): ۳۴۶۔ قیمت: ۶۰۰ روپے۔

ادب و تحقیق اور تاریخ و صحافت کے میدان میں لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ لیکن ذہن اور قلم کو اعلیٰ قدروں اور اخلاقی ضابطوں کی ترویج کے لیے استعمال کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے، اور اس چھوٹی سی تعداد میں بھی مؤثر ابلاغ کرنے والے تو مزید کم ہیں۔ ڈاکٹر ابن فرید (۱۹۲۵ء- ۲۰۰۳ء) اسی کم یاب تعداد سے تعلق رکھتے تھے۔ انھوں نے اسلامی ادبی تحریک کے خدوخال نمایاں کرنے اور تنقیدی اصولوں کو مرتب کرنے میں قابلِ لحاظ کردار ادا کیا۔

ڈاکٹر ابن فریدایک نام وَر نقّاد، بلندپایہ افسانہ نگار اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں سماجیات کے معلّم تھے۔ انھوں نے ادب کے عمومی موضوعات کے علاوہ بچوں اور خواتین کے سماجی مسائل پر بھی بطور ایک سماجی مصلح کے قلم اُٹھایا ہے۔ انھوں نے افسانوی ادب کا قابلِ قدر قلمی اثاثہ چھوڑا ہے۔ ان کی اسی خوبی نے زیرنظر کتاب کی مصنفہ کو اس چیز پر آمادہ کیا کہ وہ ان کے علمی و قلمی آثار کا تحقیقی مطالعہ کریں۔ اس کوشش میں وہ کامیاب بھی رہی ہیں۔ علی گڑھ کے پروفیسر اصغر عباس کے بقول: وہ اُردو کے معتبر ادیبوں میں سے تھے لیکن ان کی ادبی عظمت کا ابھی تک اعتراف نہیں ہوا تھا۔ ڈاکٹر زبیدہ جبیں نے پہلی بار بڑی کاوش سے ابن فرید کی بڑی مربوط تصویر پیش کی ہے… اس لیے یہ [پی ایچ ڈی کے] روایتی تحقیقی مقالوں میں منفرد ہے‘‘۔

اگرچہ، ابن فریدمرحوم کی کئی تحریریں ہمارے زیرمطالعہ رہی رہیں، لیکن اس کتاب نے مرحوم کی علمی وفکری قدرومنزلت کے باب اس مہارت اور محنت سے کھولے ہیں کہ انھیں دوبارہ پڑھنے اور دوسروں تک پہنچانے کی اُمنگ پیدا ہوئی ہے۔(س م خ )


نارمل زندگی، ترجمہ: خالد لطیف، تدوین ڈاکٹر شائستہ خالد: ناشر: اعزاز کامران پبلی کیشنز، لاہور۔ فون: ۶۲۳۹۳۲۹- ۰۳۰۰۔ صفحات: ۲۵۶۔ قیمت (مجلد): ۳۰۰ روپے۔

سواے چند مستثنیات کے، اللہ تعالیٰ انسانوں کی عظیم اکثریت کو نارمل زندگی عطا فرماتا ہے۔ لیکن کہیں پر خانگی اور سماجی ماحول، یا پھر خود فرد کے غیرمعتدل رویے اس کی زندگی کو ناہنجار اور ابنارمل بنا دیتے ہیں۔ اس طرح وہ فرد اپنی ذات اور معاشرے کے لیے بھی آزمایش کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

زیرنظر کتاب میں محنت سے دنیا کے معروف ماہرین نفسیات کے مشاہدات و تجربات کو یک جا کیا گیا ہے۔ اس طرح ارادی اور غیرارادی محرکات کا سراغ لگاکر، ان نفسیاتی صدمات اور نقصانات سے بچنے کی تدابیر بیان کی ہیں۔ ایک سائنسی موضوع ہونے کے باوجود زبان عام فہم اور پُراثر ہے۔ (س م خ )


شوگر کو شکست دیجیے، مرتبہ: محمد متین خالد۔ ناشر: علم و عرفان ، الحمدمارکیٹ، ۴۰-اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۲۳۵۸۴- ۰۴۲۔ صفحات : ۳۱۸۔ قیمت (مجلد): ۶۰۰ روپے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو صحت ، صلاحیت اور ذہن کی اَنمول نعمت عطا فرمائی ہے۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ صحت اور صلاحیت ِ کار میں ضُعف و اضمحلال پیدا ہوتا چلا جاتا ہے۔ عصرِحاضر کے بہت سے مفاسد میں چند بیماریاں اتنی عام اور مہلک ہیں کہ مریض ان کا نام سن کر ہی ہمت چھوڑ دیتا ہے۔ ایسی ہی ایک عام بیماری شوگر یا ذیابیطس ہے۔

محمد متین خالد نے زیرنظر کتاب میں ایسے اکیاون مضامین مرتب کرکے پیش کیے ہیں، جو اس بیماری کے خوف سے آزادی، پنجہ آزمائی اور زندگی کو کارآمد بنا کر گزارنے کے گُر سکھاتے ہیں۔ یہ کتاب دل چسپ بھی ہے اور معلومات افزا بھی۔ (س م خ )

قرآنِ مجید بحیثیت ماخذ ِ سیرت، مولانا محمد عمراسلم اصلاحی۔ ناشر: مکتبہ قاسم العلوم، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۴۸۲۰۹- ۰۴۲۔ صفحات:۳۳۵۔قیمت: ۴۶۰ روپے۔

سیرتِ طیبہؐ کے مختلف پہلوئوں اور گوشوں پر بیسیوں بلکہ سیکڑوں کتابیں اور مقالات لکھے جاچکے ہیں لیکن قرآنِ حکیم کی روشنی میں سیرتِ پاکؐ پر کم ہی قلم اُٹھایاگیا ہے۔ ایک صدی پہلے   مولانا ابوالکلام آزاد نے لکھا تھا: ’’آج تک کبھی اس کی کوشش نہیں کی گئی کہ صرف قرآنِ حکیم میں دائرہ استناد و اخذ محدود رکھ کر ایک کتاب سیرت میں مرتب کی جائے‘‘۔ مولانا آزاد نے مولانا شبلی  کو بھی اس طرف متوجہ کیا تھا۔ ۲۰۱۰ء میں دارالمصنّفین اعظم گڑھ میں منعقدہ سیمی نار بہ عنوان  ’مصادرِ سیرت‘ میں مولانا محمد عمر اسلم اصلاحی نے اپنے لیے موضوع ’’سیرتِ رسولؐ کا اہم ترین ماخذ قرآنِ مجید‘‘ منتخب کیا۔ زیرنظر کتاب اسی مقالے کی توسیع ہے۔

فاضل مصنّف کہتے ہیں کہ قرآنِ حکیم سیرتِ رسولؐ کا سب سے اہم، بنیادی، معتبر اور مستند ماخذ ہے۔ کتاب کے پہلے حصے میں ۲۴ عنوانات کے تحت سیرتِ پاکؐ کے مختلف پہلو نمایاں کیے گئے ہیں۔ ہر عنوان میں اوّلاً ایک مختصر سی ’تمہید‘ ہے۔ بعدہٗ قرآنِ حکیم کی متعلقہ آیات اور ان کا  اُردو ترجمہ، پھر اس کی وضاحت۔ اسی طرح دوسرے حصے میں دعوت کے ۱۸ پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

ہمارے ہاں محبت ِ رسولؐ اور عشقِ رسولؐ کے اظہار کے لیے بہت کچھ کیا جاتا ہے۔ اگر اس کتاب کی مدد سے قرآنِ حکیم کی روشنی میں دیکھا جائے کہ محبت ِ رسولؐ کے اصل تقاضے کیا ہیں، تو شاید ہماری عملی زندگیوں میں کچھ تبدیلی آجائے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


   تذکرہ ساداتِ مودود چشتیہ، مرتب: سیّد محمود حسین نقوی مودودی۔ ناشر: مکتبہ علومِ افکارِ اسلامیہ، مکان نمبر۳۰، سٹریٹ نمبر ۱، اے بلاک، سوان گارڈن، اسلام آباد۔ صفحات: ۲۵۶۔ قیمت: ۳۰۰روپے۔

سیّد محمود حسین نقوی مودودی (وفات: ۳۰ نومبر ۱۹۸۷ء) نے خاندانِ مودود چشتیہ کا تذکرہ تیار کیا تھا جو ۳۵ شخصیات (از سیّدنا امام علی زین العابدین تا سیّدابوالاعلیٰ مودودی) پر مشتمل ہے۔اس فہرست میں چودھویں بزرگ کا نام قطب الاقطاب خواجہ سیّد مودود چشتی تھا۔   انھی کی پیڑھی کے تمام بزرگ مودودی چشتی کہلاتے تھے۔

دیباچہ نگار سیّدخالد محمود نقوی مودودی (مقیم لندن) لکھتے ہیں: صوفیہ کے چودہ سلاسل ائمۂ اہلِ بیت، سادات کے توسط سے حضرت علیؓ ابن ابی طالب تک پہنچتے ہیں۔ ان میں سے ایک سلسلہ ساداتِ مودود چشتیہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس خاندان کے بزرگوں نے تیرہ سو برس تک ارشادو ہدایت اور فقرو درویشی کو جاری رکھا۔یہ تاریخ انھی بزرگوں کے تذکرے پر مشتمل ہے۔ ہربزرگ کے حالات متعدد ضمنی عنوانات (نام، نسب، ولادت، تعلیم و تربیت، اخلاق و اوصاف، عبادات، وفات وغیرہ) کے تحت دیے گئے ہیں۔ مزید عنوانات، متعلقہ شخصیت کے امتیازی پہلوئوں کے مطابق قائم کیے گئے ہیں۔ بعض بزرگوں کے حالات مختصر اور بعض کے حالات نسبتاً طویل ہیں۔ ایسے تذکروں میں تذکرہ نگار، عموماً بزرگوں کے کشف و کرامات کے قصّے بہ کثرت بیان کرتے ہیں لیکن جیسا کہ سیّد محمود حسین نے لکھا ہے: مصنف مرحوم نے اِس تذکرے میں کرامات کے بیان سے کافی حد تک اجتناب کیا ہے۔ اِس اعتبار سے اِس کتاب کی نوعیت تربیتی ہے۔

یہ سارے بزرگ عوام کو شعائر اسلامی کی پابندی کی تلقین کرتے اور امرا اور سلاطین کو  عدل و انصاف، مظلوم کی داد رسی، رعایا پرور ی اور شریعت کی پیروی کی نصیحتیں کرتے تھے۔ ہمیں دیباچہ نگار کی اِس راے سے اتفاق ہے کہ اگر ہندستان کو فتح کرنے میں محمد بن قاسم، محمود غزنوی اور شہاب الدین غوری اور بابر کا ہاتھ ہے تو یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ ہندستان کی روح کو مودود چشتی درویشوں نے فتح کیا۔ یہ درویش صفت انسان کی باطنی زندگی اور ظاہری زندگی کے نبض شناس تھے۔ حالات و واقعات کا پیرایۂ بیان دل چسپ ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


عزیمت کے راہی (حصہ ششم)، حافظ محمد ادریس۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۲۵۲۴۱۹- ۰۴۲۔ صفحات: ۳۵۲۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔

رفتگاں کی یاد اور ان کے کارناموں کو تازہ رکھنے کے لیے فاضل مصنّف کی نئی کتاب ہے۔ سلسلۂ رفتگاں کا یہ چھٹا حصہ ہے، جس میں ۲۱ شخصیات کا تذکرہ شامل ہے۔ اس تذکرے میں عزیمت کے بلند منصب پر فائز شہداے بنگلہ دیش (مولانا مطیع الرحمٰن نظامی، علی احسن محمدمجاہد، میرقاسم علی) کے مفصل حالات شامل ہیں۔ اسی طرح تحریکِ اسلامی کے وابستگان (ملک محمداسلم،  گل انداز عباسی، معراج الدین خان، ظفرجمال بلوچ، حکیم عبدالرحمٰن عزیز،مولانا عبدالوکیل علوی وغیرہ) کے علاوہ کچھ ایسے رفتگان کا ذکر بھی ہے، جو براہِ راست تحریک سے وابستہ نہیں تھے،    مگر مقصد ِ زندگی کی یکسانیت کی بنا پر تحریک سے ان کے ذہنی اور قلبی روابط استوار تھے۔

اس کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلامی تحریک نے کیسے کیسے صاحبانِ کردار پیدا کیے،  جو ہمارے معاشرے کے لیے بہترین انسانوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دنیا میں انھوں نے خواہ کیسی ہی تنگی و ترشی میں زندگی گزاری ہو، آخرت میں وہ بامراد ہوں گے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


فکرونظر کے دریچے، مولانا ڈاکٹر غلام زرقانی۔ ناشر: دارالاسلام، ۸-سی، پہلی منزل، محی الدین بلڈنگ، داتا دربار مارکیٹ، گنج بخش روڈ، لاہور۔فون: ۳۷۱۱۵۱۶۵- ۰۴۲۔صفحات:۲۴۰۔ قیمت:درج نہیں۔

انقلاب(بمبئی) بھارت کی اُردو دنیا کا مقبول روزنامہ ہے۔ زیرنظر کتاب انقلاب میں گذشتہ پانچ چھے برسوں کے دوران میں شائع ہونے والے ڈاکٹر زرقانی کے کالموں کا مجموعہ ہے۔ زرقانی عالمِ دین ہیں۔ لیبیا اور دیگر عرب ممالک میں زیرتعلیم رہے۔ ہیوسٹن (امریکا) کی ایک مسجد کے خطیب اور وہاں کے لون اسٹار کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ انھوں نے اسی زاویے سے مشرق (مسلم) اور مغرب کے مسلم حکمرانوں پر اور اُن کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کی ہے جو زیادہ تر بجا ہے۔

انڈونیشیا سے انھیں بڑی اُمیدیں وابستہ ہیں۔ ۳۹ممالک میں کروائے گئے ایک سروے کے مطابق انڈونیشیا کے تقریباً ۹۸ فی صد لوگ پابندی سے زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح مسجد جانے والوں کا تناسب سب سے زیادہ انڈونیشیا ہی میں ہے۔ فی کس آمدنی کے لحاظ سے انڈونیشیا ۱۲۶ویں نمبر پر ہے، مگر دین داری کے اعتبار سے بہت اُوپر ہے۔

مصنّف نے سعودی عرب میں غیرملکیوں کے لیے نظامِ کفالیٰ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ عصرِحاضر میں نظامِ کفالیٰ دراصل رواجِ غلامی کی ترقی یافتہ شکل ہے (ص ۷۱)۔ بعض کفیل صرف دستخط کرنے کے عوض غیرملکیوں سے بھاری رقم وصول کرتے ہیں۔ غیرملکی مزدوروں کے ساتھ زیادتی کے متعدد واقعات کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔

مجموعی حیثیت سے یہ تبصرے تعمیری ہیں۔ وہ مسلم معاشروں کی حالت پر افسردہ خاطر ہیں اور مسلمانوں کو اتحاد کا درس دیتے ہیں۔ یہ مجموعہ پہلے دہلی سے چھپا تھا۔ پاکستانی ناشر نے اِس نوٹ کے ساتھ شائع کیا ہے کہ ’’پبلشر کا مصنّف سے کامل اتفاق ضروری نہیں‘‘۔ (رفیع الدین ہاشمی)


تعارف کتب

o امام الانبیاؐ کا سفرِ حج ، انجینیرمحمد ارشد۔ ناشر: مثال پبلشرز، رحیم سنٹر، پریس مارکیٹ، امین پوربازار، فیصل آباد۔ فون:۶۶۶۸۲۸۴- ۰۳۰۰۔ صفحات: ۲۴۰۔ قیمت: ۵۰۰ روپے ۔[اس کتاب کا مقصد رسولؐ اللہ کے حج و عمرے کے طریقے (سنت) و واقعات کو ایک مسلمان تک پہنچانا ہے‘‘ تاکہ وہ ان عبادات میں آپ کا اتباع اختیار کرسکے (مصنّف)۔ ۳۱عنوانات کے تحت آپؐ کے حج اور عمرے کے اَسفار کا ذکر احادیث کے حوالے سے کیا گیا ہے، مثلاً یہ کہ مسجدالحرام میں آپؐ کب اور کس طرح داخل ہوئے، اور آپؐ نے وہاں کیا فرمایا، یا مثلاً مزدلفہ کے قیام میں آپؐ نے کیا کچھ کیا اور فرمایا، وغیرہ۔ حج اور عمرے کے عازمین کے لیے یہ ایک مفید کتاب ہے۔]

o حرف حرف روشنی  ،ترتیب و تالیف: احمد علی محمودی۔ ملنے کا پتا: ندائے ملت پبلی کیشنز، دارالسلام ، عزیزآباد کالونی، وہاڑی روڈ، حاصل پور (ضلع بہاول پور)۔ فون: ۶۳۴۷۵۷۲- ۰۳۳۳۔ صفحات:۴۹۔ قیمت: ۶۰ روپے۔ [اقوالِ زریں اور حکمت و دانش پر مبنی مختصر اور جامع نصائح۔ علمی و ادبی ورثے سے عمدہ انتخاب، نیز بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے رہنمائی۔ تزکیہ و تربیت اور سوشل میڈیا پر مختصر پیغامات اور دعوت کے لیے مفیدکتابچہ۔]

 

دربرگِ لالہ وگُل (جلد اوّل)۔ افضل رضوی، ناشر : بقائی یونی ورسٹی کراچی۔ تقسیم کنندہ: کتاب سرائے، الحمد مارکیٹ ،اردو بازار لاہور۔ صفحات :۴۲۷۔ قیمت :۶۵۰۔

اس کتاب کا ضمنی عنوان ہے :’کلام اقبال میں مطالعۂ نباتات ‘(سرورق )۔

کلامِ اقبال میں تقریبا ً ایک سو نباتات (درختوں،پودوں، پھلوں وغیرہ ) اور تقریباً ۶۰(پرندوں، درندوں، جانوروں ) کا ذکر ملتا ہے۔ مگر یہ ذکر فقط تذکرے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس تذکرے کے عقب میں کوئی مقصد اور معنویت ہے، جیسے ’شاہین‘ کا ذکر فقط ایک پرندے کے طور پر نہیں ،بلکہ قوت، بلند پروازی،سخت کوشی اور فقر ودرویشی کی علامت یا استعارے کے طور پر ہے۔

زیر نظر کتاب کے مصنف بنیادی طور پر سائنس دان ہیں اور آج کل آسٹریلیا میں مقیم ہیں۔ اقبالیات کا ایک منفرد اور اچھوتا موضوع تلاش کر کے، رضوی صاحب اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں : [اقبال ] نے شاعری کو احیاے ملت کے ابلاغ کا ذریعہ بنایا ، قوم کو اُمید وارتقاکا پیغام دیا اور جہدِ مسلسل کی ترغیب دلائی۔ نیا آہنگ ، نیا لہجہ ، نئے موضوعات اور نیا فلسفہ دیا.... انوکھی تراکیب سے جدت اور ندرت پیدا کی....  ان سب کے لیے وہ عناصر فطرت (پانی، ہوا، آگ ) کو کبھی مشکَّل، کبھی مجسّم، کبھی مرئی ، کبھی غیرمرئی اور کبھی طبّی خواص کے حوالے سے کام میں لاتے ہیں۔ وہ زمین اور زیر زمین جمادات (موتی ، گوہر، الماس، زمرد، یاقوت، لعل اور دیگر قیمتی پتھر ) کی چمک دھمک ، آب وتاب، رنگ وروپ، خوب صورتی،کمیابی،اور مضبوطی کو کبھی استعاراتی صورت میں ، کبھی علامتی انداز میں، کبھی تلمیحات کے طور پر ، کبھی محاوراتی طرز پر اور کبھی تراکیب کے نئے انداز میں بیان کرتے ہیں۔ (ص ۲)

افضل رضوی صاحب کے تحقیقی کام کی زیر نظر جلد اول، میں انھوں نے ۱۸ نباتات (ارغوان، انگور، افیون، انار، انجیر، ببول، باغ، لالہ، گل، بید،برگ، بوستاں، چمن، چنار، دانا، گندم، گھاس، گلِ رعنا ) پر اپنے مختصر مضامین جمع کیے ہیں۔ ہر عنوان کے تحت پہلے وہ اس کی بناتاتی یا تخلیقی نوعیت کا تعارف کرواتے ہیں۔ پھر وہ پھل یا پودا کلام اقبال میں جہاں جہاں آیا ، متعلقہ اشعار درج کرتے ہیں اور پھر ان کی تشریح کرتے ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے کلام اقبال کی نثر اور بطورِ خاص ان کے خطوط سے بھی متعلقہ حوالے یا اقبال کے جملے شاملِ تحقیق کیے ہیں۔

یہ کتاب اقبالیات کے ایک نادر موضوع کے ساتھ اقبال کے منتخب کلام کی تشریح بھی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی )


صحیفہ ،مکاتیب نمبر حصہ اول، مدیر: افضل حق قرشی ۔ناشر : مجلس ترقی ادب ،۲ کلب روڈ لاہور۔ ۵۴۰۰۰۔شمارہ جولائی ۲۰۱۶تا دسمبر ۲۰۱۶ء۔صفحات :۴۱۲۔قیمت ۴۰۰ روپے ۔

مشاہیر کے خطوط نہ صرف ان کی شخصیت بلکہ افکاروتصورات اور ذہنی وفکری ارتقا کی تفصیل بھی پیش کرتے ہیں، غالباً اسی اہمیت کے پیشِ نظر گذشتہ چند برسوں میں یکے بعد دیگر مکاتیب کے متعدد مجموعے شائع ہوئے ہیں، اور بعض جرائد (مجلہ تحقیق سندھ یونی ورسٹی ،مجلہ تعبیر علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی وغیرہ ) نے مکتوبات نمبر شائع کیے ہیں۔ زیر نظر صحیفہ کا مکاتیب نمبر حصہ اول اسی سلسلے کی تازہ کڑی ہے جو اردو عربی اور فارسی تحقیق وتنقید کی نام ور شخصیات کے مکاتیب پر مشتمل ہے۔

اس نمبر میں مولانا عبدالماجد دریا بادی کے ۷۷،مشفق خواجہ کے ۵۳ + ۲۹ ،غلام بھیک  نیرنگ کے ۳۲، ڈاکٹر شوکت سبزواری کے ۲۲ ،غلام رسول مہر کے ۲۰ ، اور رشید احمد صدیقی کے ۹خطوط شامل ہیں۔ مزید دسیوں مشاہیر کے ایک ایک ،دو دو اور چار چار خط شامل ہیں۔ بعض اصحاب (محمد راشد شیخ ،ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا مظہر محمود شیرانی ،ڈاکٹر تحسین فراقی ،محبوب عالم ،زاہد منیر عامر) نے خطوط کم وبیش حواشی وتعلیقات کے ساتھ مرتب کیے ہیں،اور بعض خطوط حواشی وتعلیقات کے بغیر شائع کیے گئے ہیں۔

بحیثیت مجموعی سارے خطوط بہت علمی ، دل چسپ اور معلومات کا خزانہ ہیں۔ مجلس ادارت نے بڑے سلیقے اور کاوش سے یہ خاص نمبر مرتب کیا ہے ۔ امید ہے حصہ دوم اس سے بھی بہتر معیار پر شائع ہوگا۔ (رفیع الدین ہاشمی )

رہبرِ کاملؐ

 مولانا حکیم عبدالمجید سوہدروی۔ مسلم پبلی کیشنز، ۲۵-ہادیہ حلیمہ سنٹر ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات:۳۳۸۔ قیمت: درج نہیں۔

سیرتِ النبیؐ کے بحرِ ناپیدا کنار موضوع پر لکھنا ایک مسلمان کے لیے سعادت اور خوش بختی کا باعث ہے۔ بعض سیرت نگار، بجا طور پر اِسے آخرت میں نجات کا ذریعہ بھی کہتے ہیں۔ مولانا حکیم عبدالمجید سوہدروی نے رہبرِکامل کے عنوان سے سیرت پر جو کتاب لکھی، اُسے اُن کے فرزند مولانا محمد حکیم محمد ادریس فاروقی نے حواشی اور تخریج کے ساتھ شائع کیا۔ اب ان کے بیٹے (اور مصنّف کے پوتے) جناب نعمان فاروقی اسے مزید اضافوں کے ساتھ منصہ شہود پر لائے ہیں۔

مصنّف ِعلّام نے دیباچے میں ایک جگہ لکھا ہے: ’’یسوع مسیح، مہاتما گوتم بدھ، کرشن جی، گروگوبندسنگھ، بابا نانک صاحب، رام چندر جی انسانی زندگی کا مکمل نمونہ ہیں۔وہ بے شک بزرگ ہیں، قابلِ احترام ہیں مگر ضروریاتِ زندگی اور دنیوی معراج و ترقی کے متعلق اپنی زندگی میں کوئی سبق نہیں رکھتے‘‘(ص۳۳)۔ دیگر اکابر کے بارے میں تو ممکن ہے، یہ بات صحیح ہو مگر حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ ’’انسانی زندگی کا مکمل نمونہ نہیں تھے، یا ضروریاتِ زندگی اور دنیوی معراج و ترقی کے متعلق اپنی زندگی میں کوئی سبق نہیں رکھتے‘‘، درست نہیں ہے۔

زیرنظر کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اِس میں واقعاتِ سیرت کے ساتھ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ۱۹مختلف حیثیات (شوہر، باپ، مبلّغ، تاجر، فاتح، حکمران، زاہد، عابد، منصف، طبیب، سخی، شہری، پیرومُرشد، معلّم، خوش مذاق، مصلح) پر ایک ایک باب باندھا گیا ہے اور ان حیثیات سے آپ کی انفرادیت کو نمایاں کیا گیا ہے۔ کتاب اہتمام سے شائع کی گئی ہے۔تقریظ پروفیسر عبدالجبار شاکر مرحوم نے لکھی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)

محمدؐ، رحمت ِ عظمیٰ

 محمد انور حیات محمد۔ ناشر: بلیسنگ پبلشرز، لالہ زار، لاہور۔ فون: ۴۲۱۷۹۲۵-۰۳۲۱۔ صفحات: ۲۱۶۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

مصنف نے یہ کتاب اپنے تئیں ’کالجوں اور یونی ورسٹیوں کے تعلیم یافتہ افراد کے لیے جدید اسلوب‘ میں لکھی ہے کیوں کہ ’ایک ایسی کتاب کی ضرورت تھی‘ جو ’کئی کتابوں سے بے نیاز کردے‘(ص ۱۳-۱۴)۔ مگر ہماری راے میں اگر اسے سیرت کی ایک مربوط اور مکمل کتاب سمجھ کر پڑھا جائے گا تو مایوسی ہوگی۔

ولادت سے وفات تک آں حضوؐر کی زندگی کے اہم واقعات کو صرف گیارہ صفحات میں سمیٹ دیا گیا ہے۔ آں حضوؐر پر فقط ایک سوانحی مضمون ہے، جب کہ باقی پوری کتاب متفرقات و متعلقاتِ سیرت پر مشتمل ہے، مثلاً چند عنوانات : lقرآن میں آپؐ کا مقام l ختمِ نبوت پر دلائل lعلامہ اقبال کا خراجِ تحسین l نپولین اور دیگر نام وَر غیرمسلم اکابرین کا خراجِ تحسین۔ (اِسی ضمن میں یوسف ایسٹس کا ۱۶ صفحات کا انگریزی مضمون ۔اُردو کتاب میں اس کی شمولیت کا کوئی محل نہیں ہے)۔ آخر میں قرآنِ مجید کے ’خالص اسلامی موضوعات اور مضامین‘ اور مضامینِ قرآنِ حکیم (ایک اشاریہ) جس سے پتا چلتا ہے کہ قرآن میں کہاں کہاں اسلام کی مطلوبہ خوبیوں (سچائی، صبروتحمل، درگزر، رحم، مہربانی، شکرگزاری، مسائل کا حل، اسلامی حکومت وغیرہ) کا ذکر ملتا ہے۔

اُردو قارئین کے لیے انگریزی عنوانات بلاضرورت ہیں۔ کتاب کے نام کے ساتھ اندرونی اور بیرونی سرورق پر Supreme Blessing لکھنے کی وجہ ؟ اس طرح عنوانات: Supreme Authority اور Supreme Classic کی ضرورت نہ تھی۔ اشاعتی اور طباعتی معیار اطمینانِ بخش ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)

مناظرِ قیامت ،سیّد قطب شہید

(ترجمہ : محمد نصراللہ خاں خازن ) ۔ ناشر : مکتبہ تعمیر انسانیت،  غزنی سٹریٹ، اُردو بازار ،لاہور۔ فون:۳۷۳۱۰۵۳۰-۰۴۲۔ صفحات : ۳۹۲۔ قیمت : ۴۸۰ روپے۔

مسلم دنیا میں بیداری کی موجودہ لہر میں ،اقبال ،حسن البنا ،مولانا مودودی اور سید قطب شہید کا شمار قائدین کی حیثیت سے ہوتا ہے۔

سیّد قطب بنیادی طور پر ادیب تھے، لیکن ۴۰سال کی عمر میں جب انھوں نے ایمان کی تازگی اور شیفتگی سے قرآن کریم کا مطالعہ کیا تو ان کی زندگی کا رُخ تبدیل ہو گیا۔ پھر ۲۹ اگست ۱۹۶۶ء کو پھانسی کی سزا پانے تک ان کا قلم، ان کا تخیل اور اظہار وبیان کا ہر پیرایا ، اسلام اور صرف اسلام کے پیغام کو عام کرنے کے لیے وقف رہا۔ زیر نظر کتاب میں سید قطب شہید نے قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں فکر آخرت کو بیدار کرنے اور تازہ رکھنے کے لیے اِس دنیا میں ایمان اور اُس دنیا میں جواب دہی کی ہیبت اور ذمہ دارانہ سوچ کو اس انداز سے مربوط کر کے پیش کیا ہے کہ قرآن کا منشا قرآنی و ادبی پیرایے میں قاری کو جھنجوڑ تا ہے۔

نصراللہ خاں خازن مرحوم نے مصنف کے اسلوب نگارش کو اردو میں منتقل کرنے کے لیے خاصی محنت سے خدمت انجام دی ہے۔ پہلے پہل اس ترجمے کی اقساط ماہ نامہ چراغِ راہ کراچی میں شائع ہوتی رہیں،بعد میں انھیں یک جا کتابی شکل میں ڈھالا گیا۔ کتاب کا پیش لفظ استاد الاساتذہ ڈاکٹر سیّد محمد عبداللہ نے تحریر کیا ہے: ’’سیّد صاحب مرحوم، مصر جدید ( اور بالواسطہ عالم اسلام ) میں اسلامی انقلاب کے عظیم داعی اور زندگی میں دین کی اہمیت کے فلسفے کے نامور مفکر اور تحریک اسلامی کے بطل جلیل تھے۔ سید صاحب عظیم مجاہد ہونے کے علاوہ بے نظیر و بے عدیل مصنف بھی تھے۔ افسوس کہ الحادی استبداد نے یہ چراغ گل کر دیا۔ لیکن غور کیجیے تو ایسے چراغ درحقیقت گل نہیں ہوا کرتے ، فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ خون شہادت اس کی ضیا کی افزونی کا سامان بن جاتا ہے ، اور یہ ضیا پہلے سے زیادہ نُور افگن اور شعاع ریز ہو جاتی ہے‘‘۔ (ص ۱۳-۱۴)

دعوت و تربیت، اور تذکیر کے لیے یہ کتاب ایک قیمتی مآخذ ہے۔ (سلیم     منصور خالد )

علامہ اقبال کی اردو نثر

مرتبہ : پروفیسر عبدالجبار شاکر (ترتیبِ نو : ڈاکٹر خالد ندیم )۔ ناشر : نشریات ، الحمد مارکیٹ ، اُردو بازار، لاہور۔ فون : ۴۵۸۹۴۱۹-۰۳۲۱۔صفحات : ۳۲۷۔ قیمت : درج نہیں ۔

علامہ اقبال نے اسلامی فکر کی اشاعت وترویج کے لیے معروف معنوں میں شعر وسخن کو اظہار کا وسیلہ بنایا۔ اس ضمن میں فارسی اور اردو شاعری نے عوام الناس میں ایمان کی جوت جگائی اور بیداری کا پیغام عام کیا۔ جس طرح ان کی شاعری کو قبول عام حاصل ہوا، اس طرح نثرِ اقبال کی اشاعت پر زیادہ توجہ نہ دی جاسکی۔ حالاں کہ اقبال کی انگریزی اور اردو نثر میں فکرو رہنمائی کا خزانہ موجود ہے، خصوصاً اُردو میں ان کے مکاتیب، نثراقبال کا نہایت وقیع ذخیرہ ہے۔

زیر نظر کتاب کے سرورق سے قاری یہ تاثر لیتا ہے کہ اقبال کے انتقال کے ۷۹ سال بعد نثرِ اقبال پر شائع ہونے والی یہ کتاب (مکاتیب اقبال کو منہا کر کے) ان کی نثر اُردو کی جامع ہوگی، مگر یہ کتاب ان کی کُل ۱۲ تحریروں پر مشتمل ہے۔ جن میں سے پانچ تو ان کے دیباچے ہیں اور باقی سات چھوٹے بڑے نثرپارے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی اردو میں اقبال کا اتنا ہی نثری ذخیرہ ہے؟

شاکر صاحب نے ہر تحریر کا پس منظر واضح کیا ہے اور بڑی محنت سے ہر تحریر کی مختلف اشاعتوں کے گوشوارے مرتب کر کے اختلافاتِ متن کی نشان دہی بھی کی ہے، مگر یہ نہیں بتایا کہ  کون سا متن قابلِ ترجیح ہے؟ اور کسے نسبتاً صحیح سمجھا جائے۔

کتاب کی تدوین اور حواشی تعلیقات کے لیے ڈاکٹر خالد ندیم نے خاصی محنت کر کے کتاب کو وقیع بنا دیا ہے ۔ فکر اقبال کی تفہیم میں یہ کتاب معاونت کر سکتی ہے ۔ (سلیم     منصور خالد )

جہد ِ مسلسل

 حصہ اوّل، تالیف: محمود عالم صدیقی۔ ناشر: زیک بُکس، دکان نمبر۳-۴، مدینہ اپارٹمنٹ، پلاٹ نمبر۱۳-بی، بلاک۲، بی، ناظم آباد۲، کراچی۔ فون: ۳۶۶۰۴۰۵۲- ۰۲۱۔ صفحات: ۶۴۸، قیمت: ۹۰۰ روپے۔

زیرنظر کتاب کا موضوع جماعت اسلامی پاکستان کی تاریخ ہے اور یہ مجموعہ اس سلسلے کے پہلے حصے پر مشتمل ہے، جس میں مولانا مودودی کے دورِ امارت کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔

تاریخ نگاری کے کئی درجے اور متعدد پیمانے ہیں۔ کوئی فرد اپنے مشاہدات کی بنیاد پر وقائع لکھ کر تبصرہ کرتا ہے۔ کوئی محض واقعات کو اپنے ذوق کی مناسبت سے مرتب کردیتا ہے۔ کوئی فرد اُس زمانے کے سیاسی و سماجی احوال کی روشنی میں واقعات و حوادث کو درج کر کے انھیں امتزاج اور تجزیے کی سان پر پرکھتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔

زیرنظر کتاب تاریخ نگاری کی دوسری قسم پر مشتمل ہے۔ ۱۹۴۷ء تک کی تاریخ جماعتِ اسلامی  کو اسعد گیلانی، آباد شاہ پوری اور چودھری غلام محمد مرحوم نے بخوبی موضوعِ سخن بنایا ہے، جب کہ اس کتاب میں ۱۹۴۷ء سے ۱۹۷۲ء تک کے واقعات اور معاملات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ چیدہ چیدہ واقعات کو گردوپیش کی صورتِ حال کے پس منظر کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ہرچند کہ معلومات کو یک جا کرنے میں محنت کی گئی ہے لیکن تجزیاتی مطالعے اور امتزاج کی تشنگی محسوس ہوتی ہے۔

پیش کش کو زیادہ بہتر بنانے کی گنجایش موجود ہے۔ تاہم، جماعت اسلامی کراچی مبارک باد کی مستحق ہے کہ متعدد تحقیقی اداروں کی موجودگی کے باوجود اس کی سرپرستی سے یہ منصوبہ رُوبۂ عمل آیا ہے۔کتاب کا پیش لفظ جناب سیّد منورحسن نے تحریر فرمایا ہے۔(سلیم      منصور   خالد)

دارالعلوم حقانیہ اور ردِ قادیانیّت

 مرتبہ : انعام الرحمٰن شانگلوی، محمد اسرار مدنی۔ ناشر : مکتبہ حقانیہ، جی ٹی روڈ، اکوڑہ خٹک (کے پی کے) ۔برقی پتا: editor_alhaq@yahoo.com۔ صفحات:۶۱۰۔قیمت :۳۰۰ روپے۔

برطانوی سامراج نے غلام ہندستان میں جہاں بہت سے فتنو ں کو ہوا دی، وہیں ایک بڑا فتنہ قادیانیت کی صورت میں کاشت کیا۔ علماے حق نے ابتدا ہی میں اسے پہچان لیا اور علمی ومکالماتی سطح پر مقدور بھر اس کا رد بھی کیا۔ تحفظ ختم نبوت کے اس شعور نے علما کے ساتھ جدید تعلیم یافتہ دانش وروں کی غیرت دینی کو بھی بیدار کیا۔ جن میں نمایاں ترین نام علامہ محمداقبال کا ہے، جنھوں نے فیصلہ کن انداز میں جعلی نبوت کی تردید فرمائی ۔

زیر نظر کتاب اس اعتبار سے ایک مبارک کاوش ہے کہ جس میں شمالی پاکستان (خیبر پختونخوا) کے معروف دارالعلوم کی ان علمی ،تحقیقی ،مجلسی اور صحافتی سرگرمیوں کو یک جا پیش کر دیا گیا ہے، جن میں ختم نبوت کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے ہر اہم لمحے کے دوران بروقت گواہی دی گئی۔

کتاب کے سات ابواب میں قادیانیت کی مذہبی، سیاسی اور سازشی حرکات کی مدلل طریقے سے تردید کی گئی ہے اور مثبت انداز سے قوم کی رہنمائی کی گئی ہے کہ وہ اس حساس مسئلے کو کن پہلوئوں سے سمجھیں اور بیدار رہیں۔

زیر نظر کتاب میں بعض ایسی معلومات افزا تفصیلات درج ہیں جن سے آج کے بیش تر قاری ناواقف ہیں۔ ایک مثال ملاحظہ کیجیے: عوامی نیشنل پارٹی کے لیڈر عبدالولی خاں نے ۱۹۸۵ء میں کہنا شروع کیا کہ ’’ہم قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے حامی نہیں تھے‘‘۔ حالاںکہ ان کا     یہ دعویٰ غلط بیانی ہے، کیوںکہ قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے سے متعلق جو ترمیمی بل ستمبر ۱۹۷۴ء میں پاکستانی پارلیمنٹ میں پاس ہوا، اس پر عبدالولی خاں پارٹی کے نمایندے غلام فاروق خاں صاحب نے پارٹی کی نمایندگی کرتے ہوئے دستخط کیے تھے۔ انگریز حکومت، قادیانیت کی سرپرستی اس نسبت سے کرنے میں سرگرم تھی کہ اس کے ہاتھوں جہاد کو منسوخ کرنے کا جھوٹ گھڑ کر برطانوی سامراج کو مذہبی حوالے سے قابلِ قبول بنانے میں رول ادا کرے۔ ہندستان ٹائمز (یکم جنوری ۱۹۸۶ء) نے لکھا تھا کہ خان عبدالغفار خاں (باچاخان) کے والد بہرام خاں نے ۱۸۵۷ ء کی جنگ آزادی میں حُریت پسندوں کے مقابلے میں انگریزوں کا ساتھ دیا اور اس کے بدلے میں بھاری جاگیر حاصل کی (ص ۵۷۸) ۔ انھی کے پڑپوتے اسفندیار آج خیبر پختونخوا میں پشتون قوم پرستی اور سیکولرزم کے نعروں کے ساتھ سرگرمِ کار ہیں۔(سلیم     منصور خالد )

کلیاتِ لالہ صحرائی

 مصنف: لالہ صحرائی۔ ناشر:لالہ صحرائی فائونڈیشن، ملتان بہ اشتراک نعت ریسرچ سنٹر، کراچی۔ ملنے کا پتا: کتاب سراے، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۱۰۷۶۔ قیمت: ۱۵۰۰ روپے۔

لالہ صحرائی دورِحاضر کے معروف نثرنگار تھے۔ افسانوی اور غیرافسانوی ادب کی مختلف اصناف میں بیسیوں نگارشات ان کے قلم سے نکلی ہیں۔ آخری عمر میں ان کی بڑی آرزو تھی کہ وہ نعت کے ذریعے آں حضوؐر کو ہدیۂ عقیدت پیش کرسکیں۔ کرنا خدا کا  یہ ہوا کہ ۱۹۹۵ء میں جب وہ عمر کے ۷۰ویں سال میں تھے، اُن پر نعتوں کا نزول ہوا اور پھر انھوں نے اتنی تیزی کے ساتھ نعتیں اور نعتیہ غزلیں، اور نعتیہ مثنویاں اور حمدیں لکھیں کہ تقریباً ہرسال اُن کا ایک مجموعہ تخلیق ہوجاتا تھا۔

جناب لالہ صحرائی اِس اعتبار سے خوش قسمت انسان تھے کہ انھیں ستّر برس کی عمر میں  نعت گوئی کی توفیق ارزانی ہوئی۔ پھر وہ خوش بخت ہیں کہ اُن کے لائق بیٹے ڈاکٹر نویداحمد صادق اور جاوید احمد صادق اپنے والد کی شاعری کو کتابی شکل میں شائع کرنے کا اہتمام کرتے رہے۔ اب اس جملہ شعری ذخیرے کو کلیاتِ  لالہ  صحرائی کے عنوان سے مرتب کر کے انھوں نے شائع کر دیا ہے۔

چند برس پہلے لالہ صحرائی کی شخصیت اور ان کے فکروفن پر مضامین کے دو مجموعے یادنامۂ لالہ   صحرائی ، تذکرۂ  لالہ  صحرائی شائع ہوچکے ہیں۔ زیرنظر کلیات میں پندرہ کتابیں شامل ہیں۔ لالہ صحرائی کا ایک مجموعہ نعت و ہُلارے پنجابی میں ہے۔ انھوں نے بچوں کے لیے بھی شاعری کی۔ گل ہاے حدیث، ایک سو سے زائد منتخب اور مختصر احادیث کا منظوم ترجمہ ہے۔ یہ سب چیزیں زیرنظر کلیات میں شامل ہیں۔ اِس طرح یہ کلیات بقول ’’پیش گفتار نویس (ڈاکٹر خورشیدرضوی) لالۂ صحرائی کی شعری متاع کی بھرپور نمایندگی کرتی ہے‘‘۔معروف نعت گو اور نقاد ڈاکٹر ریاض مجید نے دیباچے میں لکھا ہے: ’’زیرنظر کلیات میں بیک کتاب، ان کی ساری مساعی اور کارِ نعت کا حجم دیکھ کر ان کی شعری قدوقامت کا صحیح اندازہ ہوتا ہے۔ کلیات سے اُن کی نعت کے فکری اور فنی محاسن کے مطالعات کے نئے نئے زاویے سامنے آئیں گے‘‘۔

اہم بات تو یہ ہے کہ لالہ صحرائی مرحوم و مغفور کی ذاتی زندگی اسلام کی سربلندی کے لیے تگ و دو کرنے والے ایک پُرخلوص مسلمان کی زندگی تھی۔ اِسی لیے اُن کی نعت میں آں حضوؐر کی محبت میں ایک والہانہ پن نمایاں ہے۔ اُردو نعت گوئی کے ذخیرے میں یہ مجموعہ ایک قابلِ لحاظ اضافے کا موجب ہوگا۔ کلیات بڑے اہتمام سے شائع کی گئی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)

نوکِ قلم سے

 ڈاکٹر امیرفیاض پیرخیل۔ ناشر: شعیب سنزپبلشرز اینڈ بک سیلرز، مینگورہ، سوات۔ صفحات: ۲۳۲۔ قیمت: ۲۳۰ روپے۔

سوات کے ڈاکٹر امیرفیاض پیرخیل قبل ازیں قلم   ہے تلوار نہیں  کے عنوان سے کالموں کا مجموعہ شائع کرچکے ہیں۔ زیرنظر دوسرا مجموعہ ہے۔ مقدمے میں کہتے ہیں: ’’میں کتاب لکھوں یا کالم، میرا مقصد صرف رضاے الٰہی ہوتا ہے۔میں اپنا قلم نیک نیتی سے استعمال کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ میری رہنمائی فرمائے‘‘۔

قارئین اندازہ کرسکتے ہیں کہ امیرفیاض صاحب نے کتنی ذمہ داری، خلوصِ نیت اور احتیاط سے یہ کالم لکھے ہیں۔ ان کا زاویۂ نظر مثبت اور اسلامی ہے۔ کالموں کے موضوعات وہی ہیں جن پر معاصر صحافت میں لکھا جارہا ہے، مثلاً چند عنوانات: امریکا پاکستان کا دوست اور اسلام دشمن، اسرائیل سے خوف زدہ عرب حکمران اور ان کا علاج، ملکی ہیروز: زیرو، جہانزیب کالج کا المیہ، جماعت اسلامی کا قصور کیا ہے؟ملالہ نے سواتیوں کو ملال کیا، عابدشیر کو لگام دی جائے، وغیرہ۔     یہ کتاب صحافتی ادب میں اس لیے بھی ایک قابلِ توجہ اضافہ ہے کہ لکھنے والے کا تعلق سیاست و صحافت کے مراکز سے نہیں بلکہ ایک دُورافتادہ خطے سے ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)

تعارف کتب

  • مسلم دنیا میں زوال کے اسباب

 عبدالکریم عابد۔ ناشر : ادارہ معارف اسلامی منصورہ ،لاہور۔    فون: ۳۵۲۵۲۴۱۹-۰۴۲۔ صفحات : ۱۲۰۔ قیمت : ۱۶۰ روپے ۔[مصنّف نے اُمت مسلمہ کے زوال وانحطاط کے اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے مسلم اہل دانش کی آرا اور مغربی دانش وروں کا نقطۂ نظر بیان کیا ہے۔ عام طور پر زوال پر غور کرتے ہوئے مرض اور نتائج مرض کو آپس میں خلط ملط کر دیا جاتا ہے۔ اصل چیز مرض کی صحیح تشخیص ہے۔ اسی غرض کے پیش نظر مفکرین ملت کے افکار کا نچوڑ پیش کیا گیا ہے اور غوروفکر کی دعوت دی گئی ہے۔]

  •  اسلام میں جہیز اور بارات کی حقیقت

 محمد عبدالغفور۔ ناشر : پاک پبلی کیشنز، آفس نمبر ۵، فلور نمبر ۴، لیگیسی ٹاور، کوہِ نور سٹی ، جڑانوالہ روڈ فیصل آباد ۔ فون: ۸۵۵۷۱۱۷-۰۴۱۔صفحات : ۱۵۶۔ قیمت: بلامعاوضہ۔[اسلام میں نکاح آسان ہے۔ جہیز بارات مہندی، بری وغیرہ محض مقامی رسوم ہیں۔ گھریلو ضروریات کا سامان فراہم کرنا مرد کی ذمہ داری ہے ، نہ کہ دلہن کے گھر والوں کی۔ نبی کریم ؐ نے خود اپنی تمام ازواج مطہرات کو گھر کا سامان فراہم کیا۔ حضرت فاطمہ ؓ کو جہیز دینے کی حقیقت یہ ہے کہ وہ سامان حضرت علیؓ کے پیسوں سے خریدا گیا تھا ۔ بارات کا تصور ہندوانہ ہے۔ ۵۶ سے زائد مسلمان ممالک میں، سواے ہندستان اور پاکستان کے، کہیں بھی بارات کا تصور نہیں پایا جاتا۔ قرآن میں بھی جہیز کا تذکرہ نہیں ہے۔ان نکات پر مشتمل یہ کتاب سنتِ رسولؐ کے مطابق نکاح کو عام کرنے اور اصلاحِ معاشرہ کی غرض سے مرتب کی گئی ہے۔ ]

  •  The Art of Public Speaking

 محمداکرم طاہر۔ ناشر: علم و عرفان پبلشرز، ۴۰-اُردو بازار، الحمدمارکیٹ، لاہور۔ فون: ۳۷۳۵۲۳۳۲۔صفحات: ۲۴۰۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔[تقریر اور خطابت ایک خدادادفن ہے لیکن کوشش اور محنت سے، ہر ایک کے لیے اس فن میں کامیابی ممکن ہے۔ محنتی مقررین کے لیے پروفیسر محمد اکرم طاہر نے مخصوص موضوعات پر دو درجن سے زائد انگریزی تقاریر کا مجموعہ شائع کیا ہے۔ایک حصے میں مشرق و مغرب کی معروف شخصیات (نبی کریمؐ، حضرت موسٰی ، حضرت یوسفؑ، شیکسپیئر، برک، محمد علی جوہر، سیّد مودودی، ذوالفقار علی بھٹو، جارج بش، ٹونی بلیئر، ہیوگو شاویز، احمدی نژاد) کی تقاریر کے تراجم بھی شامل ہیں۔ اُردو تقریروں کے مجموعے تو بہت ہیں، انگریزی تقاریر کا شاید یہ پہلا مجموعہ ہے۔ تقریری مقابلوں میں حصہ لینے والے طلبہ و طالبات کے لیے یہ کتاب بہت اچھی معاونت کرے گی۔]

  •  شیرازئہ حیات 

سیّدانجم جعفری: حیات و ادبی خدمات، مرتب: سیّد وقاص جعفری۔ ملنے کا پتا: مکان ۲۴-بی، پی سی ایس آئی آر سوسائٹی، فیز I، کینال روڈ، لاہور۔ فون: ۴۲۳۷۰۲۱-۰۳۰۰۔ صفحات:۱۹۸۔ قیمت: درج نہیں۔ [سیّد انجم جعفری معروف شاعر اور نعت گو تھے۔ تعلیم و تعلّم اور درس و تدریس کے ساتھ عمربھر تحریکِ اسلامی سے وابستہ رہے۔ بہت پختہ فکر شاعر اور عمدہ نعت گوتھے۔ سیّدوقاص جعفری نے اپنے والد کی شخصیت اور ادبی خدمات پر مضامین کا مجموعہ شائع کیا ہے۔ یہ خوب صورت مجموعہ یادآوری کی ایک اچھی مثال ہے۔ ]

Pondering Over the Quran [تدبّر قرآن ] : امین احسن اصلاحی ، مترجم : محمدسلیم کیانی ۔ ناشر : الکتاب پبلی کیشنز، ۶۸ ۔ٹالپوٹ کریسنٹ ہینڈن ، لندنNW4 4HP۔  صفحات : ۸۳۔قیمت: درج نہیں۔

تدبر قرآن ، قرآن حکیم کی اُردو تفاسیر میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔ یہ مولانا امین احسن اصلاحی کا حاصل حیات ہے۔ اس کی پہلی جلد ۱۹۶۷ء میں شائع ہوئی ۔ مکمل تفسیر ۸ جلدوں میں ہے۔ اس تفسیر کی سب سے بڑی خوبی نظمِ قرآن کی وضاحت ہے۔ زیر نظر کتاب، تدبر قرآن  کے دیباچے،   بسم اللہ اور سورئہ فاتحہ کے انگریزی ترجمے پر مشتمل ہے۔ آخر میں مترجم محمد سلیم کیانی (م: نومبر ۲۰۱۶ء) نے مولانا حمیدالدین فراہی اور مولانا امین احسن اصلاحی کا تعارف اور ان کی تصانیف کی فہرست دی ہے۔ اسی طرح مترجم نے کتاب کے تعارف میں نظم قرآن کے سلسلے میں مولانا فراہی اور مولانا اصلاحی سے ماقبل مفسرین کی کوششوں کا ذکر بھی کیا ہے۔

ترجمہ بہت عمدہ اور عام فہم ہے ۔انگریزی قارئین کے لیے فہم قرآن کے سلسلے میں یہ تمہیدی حصہ اپنے اندر افادیت رکھتا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


معیارِ حق کون ہے؟ ترتیب: مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف [ترتیبِ نو: ڈاکٹر عبدالحی ابڑو، شکیل عثمانی، خلیل الرحمٰن چشتی]۔ناشر: الاحسان، ۴؍۱۱-E، اسلام آباد۔ فون: ۵۵۶۰۹۰۰-۰۳۰۰۔ صفحات:۲۶۵۔ قیمت(مجلد): ۳۶۰  روپے۔

حق کی راہ پر چلنے والوں کو، خود حق پر چلنے کی پہچان رکھنے والے بھی کس کس طرح ناحق تنگ کرتے ہیں؟ اس ’کارِخیر‘ کی ایک جھلک اس کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے۔

ویسے تو جماعت اسلامی کو تشکیل کے روز (۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء) ہی سے تنقید ی نگاہ سے پرکھا جانے لگا تھا، اور اس کام میں دین دار اور بے دین، دونوں طرح کے حلقوں سے ، بعض حضرات اپنے اپنے ظرف کے مطابق کھینچ تان کر رہے تھے۔ تاہم، ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء میں قیامِ پاکستان کے بعد، ۱۹۵۴ء میں بھارت سے اچانک غلغلہ بلند ہوا کہ: ’’جماعت اسلامی کے دستور میں   بیان کردہ عقیدے سے متعلق عبارت کی روشنی میں یہ جماعت اہلِ سنت سے خارج اور گمراہ ہے‘‘۔ اس ناگہانی افتاد یا ’کرم فرمائوں‘ کی مشقِ ناز کا جائزہ لینے کے لیے مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف صاحب نے پہل قدمی کی۔ انھوں نے ایک خاص مکتب ِ فکر کے مذکورہ فتوئوں اور سوقیانہ مہم کا جائزہ لینے کے لیے عرب و عجم اور ہند و پاکستان سے تحریری سطح پر رابطہ قائم کیا، پھر اسلامی تاریخ اور مآخذ تک رسائی حاصل کی۔ اس کاوش سے جو نتیجہ نکلا اسے اس کتاب میں ڈھال دیا۔

نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزرا کہ یہ کتاب ناپید تھی۔ ڈاکٹر عبدالحی ابڑو، شکیل عثمانی اور خلیل الرحمٰن چشتی نے اس کتاب کی ترتیبِ نو کے دوران متعدد قیمتی اضافے کرتے ہوئے سوانحی و توضیحی نوٹس سے معنویت کو دوچند کر دیا۔

پرانی بحثوں کو تازہ کرنا اس کتاب کی اشاعت ِ نو کا مقصد نہیں ہے بلکہ سفر کی ایک کٹھن  گھاٹی کو عبور کرنے کا منظر بیان کرنا مطلوب ہے۔ پھر دستور میں بیان کردہ عقیدے کے تقاضوں کو خاص طور پر دینی تحریکوں میں تازہ کرنے کا پیغام دینا بھی پیش نظر ہے۔ یہ قیمتی دستاویز علم ، تاریخ اور عمل کو ایک جہت عطا کرتی ہے۔ (سلیم منصور خالد)


مخزنِ حکمت و دانش، ملک احمد سرور۔ناشر: طٰہٰ پبلی کیشنز، ۱۹- ملک جلال الدین (وقف) بلڈنگ، چوک اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۴۴۷۰۵۰۹-۰۳۳۳۔ صفحات: ۵۹۲۔ قیمت: ۶۰۰ روپے۔

مصنّف کا شکوہ بجا ہے کہ ایک زمانے میں قرآن و حدیث کے بعد رومی و سعدی کی حکایات کو حکمت و دانش کا خزانہ سمجھ کر انھیں پڑھا اور سنا جاتا تھا، مگر پروپیگنڈے اور ’ترقی‘ کے  اس دور میں جو شخص زیادہ چیختا ہے اور دھڑلّے سے جھوٹ بولتا ہے، وہی حکیم اور دانش ور ہے۔ ہمارے خیال میں اس ’حکمت و دانش‘ کے نمونے آج کل کے اخباری کالموں میں بھی مل جاتے ہیں۔

زیرنظر کتاب مصنف کا ’حاصلِ مطالعہ‘ ہے جو ماہ نامہ بیدار میں ’حکمت و دانش‘ کے عنوان سے شائع ہوتا رہا، اِسے اضافوں کے ساتھ عنوان وار مرتب کیا گیا ہے۔ قرآن و حدیث اور صدیوں کے انسانی تجربات کی روشنی میں زندگی کے نشیب و فراز سے عہدہ برآ ہونے کی تدابیر، بعض ابواب کے موضوعات ان کے عنوانات سے واضح ہیں (افضل و احسن اعمال، علم، جہاد، انفاق، دُعا، قرآنِ حکیم، ذہانت و حاضرجوابی، عدل و انصاف کے چند قابلِ رشک مناظر، ادبی شگوفے وغیرہ)،جب کہ بعض عنوانات عمومی نوعیت کے ہیں (اقوالِ حکمت و دانش، متفرق شہ پارے، بکھرے موتی وغیرہ)۔  ان کے تحت فہرست کی ضمنی سرخیوں سے حکایات وا قوال کے تنوع کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ غوروفکر اور تفکّر و تدبر کے ساتھ، کتاب میں رونے اور ہنسنے اور حصولِ عبرت کا لوازمہ بھی یکجا ہے۔ ایک مختصر نمونہ:’’ایک دفعہ ایک شخص نے سرسیّد کو خط لکھا کہ اگر نماز میں بجاے عربی عبارتوں کے، ان کا اُردوترجمہ پڑھ لیا جائے تو کوئی حرج اور نقصان تو نہیں؟ سرسیّد نے جواب دیا: ہرگز کوئی ہرج اور نقصان نہیں، صرف اتنی سی بات ہے کہ نماز نہیں ہوگی‘‘ (ص ۱۸۷)۔ ایک اور: شاہِ ہندستان سلطان ناصرالدین محمود بغیر وضو کبھی اسمِ مبارک ’محمدؐ، زبان پر نہ لاتا تھا۔ (ص ۴۰۸)

کتاب مجلّد اور طباعت و پیش کش اطمینان بخش ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


تعارف کتب

oمغربی زبانوں کے ماہر علما ( علی گڑھ کالج کے قیام سے پہلے )، پروفیسر سید محمد سلیم ۔ ناشر : مجلس ترقی ادب ۲- کلب روڈ لاہور ۔ صفحات : ۵۲۔ قیمت : ۲۰۰روپے۔ [اس نہایت معلومات افزا کتاب کی طبع دوم کا اہتمام ڈاکٹر تحسین فراقی نے ایک مختصر دیباچے کے ساتھ کیا ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ انگریزوں کی آمد سے پہلے برعظیم پاک و ہند کے مدرسوں میں ایسے اصحاب علم ودانش کی کثیر تعداد موجود تھی جو مغربی زبانیں جانتے تھے۔ کتاب میں ان فاضلین کے تعارف کے ساتھ ، ان کی ترجمہ شدہ کتابوں کی تفصیل بھی دی گئی ہے۔ گویا یہ کتاب آبا کے قابل فخر کارناموں سے آگاہ کرتی ہے۔ ]

oگردشِ ایام ، محمد فاروق چوہان۔ ناشر : قلم فائونڈیشن انٹر نیشنل، یثرب کالونی ، بنک سٹاپ ، والٹن روڈ، لاہور کینٹ۔ صفحات : ۵۹۲۔ قیمت: ۱۵۰۰روپے۔[یہ کتا ب مصنف کے ان کالموں پر مشتمل ہے ، جو مختلف قومی، ملّی ، سیاسی موضوعات پر روزنامہ جنگ  میں شائع ہوتے رہے۔ ہر موضوع کو فوری طور پر زیر بحث لاکر نقطۂ نظر پیش کیا گیا۔ اس طرح یہ کتاب ایک طرح سے مختلف مسائل کی تاریخ بھی بیان کرتی ہے۔ ]

A Documentary History of Islamic Education In Pakistan (پاکستان میں اسلامی تعلیم کی دستاویزی تاریخ ) مرتبین : ڈاکٹر ممتاز احمد،حسن الامین۔ ناشر :ایمل پبلی کیشنز ، ۱۲- سیکنڈ فلور، مجاہد پلازہ ، بلیو ایریا، اسلام آباد ۔ فون : ۲۸۰۳۰۹۶۔۰۵۱۔ صفحات : ۳۳۲،قیمت : ۴۹۰ روپے۔

اس کتاب کے مرتبین نے تعارف میں لکھا ہے: ہمیں یہ کتاب ترتیب دینے کا خیال اسلامک فاونڈیشن بنگلہ دیش کی شائع کردہ : Reports on Islamic Education And Madarssa Education in Bengal (1861-1997)  دیکھ کر آیا۔ چنانچہ مرتبین نے ۱۹۴۷ء سے تاحال اسلامی تعلیم پر پالیسی دستاویزات کو مرتب کیا گیا ہے۔ زیر نظر کتاب میں ۱۹۴۷ء سے ۱۹۷۰ء تک حسبِ ذیل رپورٹیں اور دستاویزات یک جا کی گئی ہیں:l پاکستان ایجوکیشن کانفرنس ، ۱۹۵۹ء lقومی تعلیم پر شریف کمیشن کی رپورٹ ۱۹۵۹ء lسید معظم حسین کمیٹی رپورٹ: اسلامی عربی یونیورسٹی کمیشن ، ۱۹۶۴ء- ۳ ۱۹۶ء lمشرقی پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ، ۱۹۶۶ء lمدرسہ ایجوکیشن پر ۶۷-۱۹۶۶ء کے سیمی نار کی رُوداد l نور خان کمیشن کی رپورٹ ۱۹۶۹ء lنئی تعلیمی پالیسی ۱۹۷۰ء ۔

مرتبین نے مغربی مصنّفین کی اس غلط فہمی کا ازالہ کرنے کی کوشش کی ہے، پاکستان میں اسلامی تعلیم کا دائرہ صرف دینی مدارس تک محدود ہے۔ اسکولوں ، کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں جو مذہبی تعلیم دی جاتی ہے، وہ بھی اسلامی تعلیم کے زمرے میں شمار ہوتی ہے۔

 مرتبین نے دوسری جلد بھی جلد شائع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اقبال انٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ براے تحقیق ومکالمہ (IRD ) کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ممتاز احمد ( م: ۳۰ مارچ ۲۰۱۶ء )     نے کتاب کا انتساب پروفیسر ظفر اسحاق انصاری کے نام کیا تھا، مگر وہ ممتاز صاحب کے ۲۶ روز بعد (۲۴؍اپریل ۲۰۱۶ء ) انتقال کر گئے۔ یہ کتاب ان دونوں محترم اور ممتاز محققین کی یاد تازہ کرتی رہے گی۔ (رفیع الدین ہاشمی)


اسفار اقبال ، عنایت علی ۔ ناشر :قرطاس پبلشرز پوسٹ بکس نمبر ۲۵، فیصل آباد ۔ ملنے کا پتا: مکتبہ معارف اسلامی منصورہ لاہور۔ صفحات : ۳۱۲۔ قیمت : ۴۸۰ روپے۔

علامہ اقبال جیسی مختلف الحیثیات شخصیت کے سوانح اور فکر وفلسفے پر ہزارسے اوپر کتابوں کے باوجود ، نئی کتابوں کی تالیف واشاعت کا سلسلہ جاری ہے۔ زیر نظر کتاب میں علامہ اقبال کے ملکی اور غیر ملکی اسفار کی تفصیلات جمع کی گئی ہیں۔ اقبال کا پہلا قابلِ ذکر سفر انگلستان کا تھا، جس سے تین سال بعد وہ تین ڈگریاں لے کر واپس آئے ۔ بعد ازاں انھوں نے حیدر آباد دکن ، کشمیر ، مدراس ، میسور، الٰہ آباد ، شملہ ، افغانستان، سرہند شریف ، بھوپال، دہلی اور پانی پت کے سفر کیے۔ درمیان میں دوبار یورپ گئے اور ان دوروں میں انھوں نے انگلستان کے علاوہ ہسپانیہ ، اٹلی ، مصر ،فلسطین کے مختلف علاقوں اور شہروں کے علاوہ بیت المقدس کی زیارت کی۔

مؤلف پیشے کے اعتبار سے انجینیر ہیں ۔ برسوں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے وابستہ رہے۔ اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کی ساتھ ساتھ انھوں نے فروغِ اقبالیات کو بھی مقاصد زندگی میں شامل کیے رکھا۔ جس کا حاصل زیرِ نظر کتاب، یعنی اسفارِ اقبال کا ایک بہترین موقع ہے۔ سلیقے سے مرتب کی گئی یہ کتاب اقبالیات کی دل چسپ کتابوں میں شمار ہوتی ہے۔ طباعت اور اشاعتی معیار اطمینان بخش ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


تعارف کتب

oسیرت سید الابرار ؐ ، منیر احمد خلیلی ۔ ناشر : ادبیات ، غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور۔ صفحات : ۴۹۴۔ قیمت : ۸۵۰ روپے۔[سیرتِ پاکؐ پر اس کتاب کے پہلے حصے میں ولادت سے وفات تک کے واقعات کا تذکرہ ہے، دوسرے حصے میں سیرت وسنّت کے قرآنی گوشوں ، تزکیہ وتربیت ، دعوت وتبلیغ ، امربالمعروف ونہی عن المنکر اور حقوق النبیؐ پر بات کی گئی ہے۔ مؤلف نے جو لکھا ، سیرت پر ماقبل اردو کتابوں اور عربی مآخذ کو سامنے رکھ کر چھان پھٹک کر ذمّہ داری سے لکھا ۔ یہ کتاب اردو کے ذخیرہ سیرت النبی ؐ میں اچھا اضافہ ہے۔ ]

محدّ ثین اندلس ، ایک تعارف ، ڈاکٹر جمیلہ شوکت :یو ایم ٹی پریس ، ۱۱۔C ، جوہر ٹائون ،لاہور۔ صفحات : ۵۲۳۔ قیمت :۸۰۰ روپے ۔

شعبۂ علوم اسلامیہ پنجاب یونی ورسٹی کی سابق صدر نشین ڈاکٹر جمیلہ شوکت (حال: پروفیسر ایمے ریطس)، مولوی محمد شفیع ( اوکسفرڈ سے پی ایچ ڈی اور پرنسپل اورینٹل کالج لاہور ) اور ڈاکٹر رانا احسان الٰہی ( استاذ عربی اورینٹل کالج لاہور ) جیسے اجل فاضلین کی شاگرد ہیں، پنجاب یونی ورسٹی سے وظیفہ یابی کے بعد وہ متعدد علمی منصوبوں ارمغان علامہ علاء الدین صدیقی، ارمغان پروفیسر محمد اسلم ، ارمغانِ پروفیسر حافظ احمد دار کو بروے کار لا چکی ہیں ۔ زیر نظر محدّ ثین اندلس، ایک تعارف ان کی تازہ کاوش ہے ۔

چند برس پہلے محمد احمد زبیری کی قابل قدر کاوش اندلس کے محدثین کے عنوان سے سامنے آئی تھی۔ مگر وہ جو صرف ۲۰،۲۲محدثین کے تذکرے پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر جمیلہ شوکت صاحبہ نے زیرنظر کتاب میں سیکڑوں محدثین کے کوائف حیات اور ان کی تصانیف کی تفصیل جمع کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ: ’’اندلس کے محدثین وعلما کی تعداد ہزاروں میں ہے ، یہاں ان میں سے منتخب کے حالات پیش کیے جا رہے ہیں‘‘۔ پھر یہ وضاحت بھی کی ہے کہ: ’’ایک معتدبہ تعداد ان صاحبانِ علم کی بھی ہے جو علوم حدیث کے علاوہ، علوم قرآن میں بھی مرجع خلائق تھے‘‘۔ یہ حضرات بالعموم    حافظ قرآن ہوتے بلکہ قرآن حکیم کے مفاہیم ومطالب اور اسرارورُموز سے بھی واقف ہوتے۔ بہتوں نے کتابیں بھی لکھیں۔ اسی طرح بعض محدثین نے فقہ میں شہرت حاصل کی۔ بعضوں کو شعر وادب کا عمدہ ذوق تھا۔ آخری حصے میں تقریباً دو درجن خواتین محدّثات کا بھی ذکر کیا ہے۔

مقدمے میں نہایت اختصار کے ساتھ اندلس کے ماضی، وہاں مسلمانوں کی آمد اور فتوحات (جن کا آغاز ۹۲ہجری میں ہوا) وہاں کے مدارس ،مساجد اور مکاتب کے قیام کا تذکرہ کیا گیا   ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ اندلس میں مسلم دورِ حکمرانی کے تحت اندلس ’’۵۰سال کے اندر اندر  تہذیب وتمدّن کے اس نقطے پر پہنچ گیا جہاں تک اٹلی کو پہنچنے میں ہزار سال لگے ‘‘(ص ۳۲) ۔  اس دور میں قرآن، علومِ قرآن ، علم سیرت ، فقہ وعلوم فقہ اور حدیث وعلومِ حدیث، میں اندلسی مسلمانوں نے جو کاوشیں کیں اور مذکورہ علوم میں جو بیش بہا کتابیں تصنیف و تالیف کیں ، ان کا تعارف بھی کرایا ہے۔ (ص ۲۹) پر طارق بن زیادکے مقابلے میں شکست کھا کر لا پتا ہونے والے شاہِ اسپین Rodrik کو تین بار ’زریق ‘ لکھا گیا ہے۔ ہم نے تو تاریخ کی کتابوں میں ’لزریق‘ پڑھا ہے۔یو ایم ٹی پریس نے کتاب سلیقے سے شائع کی ہے۔ سرورق سادہ مگر جاذب ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی )    


مسلکی اور فقہی اختلافات [ماہ نامہ تعمیرافکار، کراچی]، مرتبین: حافظ حقانی میاں قادری، سیّد عزیزالرحمٰن۔ ناشر: زوّار اکیڈمی، اے،۴؍۱۸، ناظم آباد نمبر۴، کراچی-۷۴۶۰۰۔ فون: ۳۶۶۸۴۷۹۰-۰۲۱۔ صفحات:۵۷۶۔ قیمت: ۶۹۰روپے۔

ماہ نامہ تعمیرافکار،ایک روایتی جریدہ ہونے کے باوجود انفرادی شان رکھتا ہے۔ ادارتی سنجیدگی نے اسے ایک ادارے کی شکل عطا کی ہے۔ مختلف اوقات میں پرچے کی خصوصی اشاعتیں اس کا امتیاز ہیں۔ زیرنظر شمارہ بھی ایک زندہ موضوع پر مباحث سمیٹے ہوئے ہے۔

اس خصوصی اشاعت میں علماے کرام اور مسلم دانش وروں کے ۳۴ مضامین، مسلم معاشروں میں مسلکی اختلافات کی نوعیت اور انھیں حل کرنے یا انھیں اعتدال کی شاہراہ پر لانے کا لائحہ عمل دیتے ہیں۔ اگرچہ یہ تمام مضامین خاص طور پر اس پرچے کے لیے نہیں لکھے گئے، مگر مجلس ادارت نے بڑی محنت سے اس انتخاب کو ترتیب دیتے ہوئے اُردو قارئین کو تعلیم،تربیت اورتوازن کی میزان فراہم کی ہے۔

خصوصی اشاعت کی ان خوبیوں کے باوجود، ایک پہلو توجہ کا تقاضا کرتا ہے اور وہ یہ کہ آج کی مسلم دنیا اور مسلم معاشروں میں مسلکی اعتبار سے سُنّی مکتبِ فکر میں کوئی بڑا مناقشہ دکھائی نہیں دیتا، البتہ سُنّی اور شیعہ کا معاملہ بعض منطقوں میں بین الاقوامی، سیاسی اور مسلکی تصادم کے مناظر پیش کرتا ہے۔ اسی تصادم کو آج مسلمانوں میں فرقہ وارانہ ٹکرائو سے منسوب کیا جاتا ہے، جسے حدِاعتدال میں لانے کی اشد ضرورت ہے۔ مگر اس اشاعت میں ایک دو شیعہ علما کی سرسری تحریروں کے سوا کوئی مضمون نہیں اور پھر اس تضاد کو آج کے تناظر میں زیربحث نہیں لایا گیا۔ اُمید ہے کہ اس کمی کو کسی  نئی اشاعت میں دُور کیا جائے گا۔ مجموعی طور پر یہ اشاعت ایک قابلِ قدر دستاویز ہے۔ (س م خ)


میں سیکولر کیوں نہیں ہوں؟ اطہروقار عظیم۔ ناشر:ادارہ مطبوعات طلبہ، ۱-اے، ذیلدار پارک، اچھرہ، لاہور۔ صفحات:  ۱۶۰۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

مسلم معاشروں میں ’سیکولرزم‘ بعض اوقات براہِ راست اور اکثر صورتوں میں مذہبی اصطلاحوں یا حوالوں تک کو استعمال کرتے ہوئے رنگ جماتا ہے۔ ’دین اور دنیا الگ الگ‘ کا نعرہ اس کا سب سے مؤثر ہتھیار ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں سیکولرزم کا سب سے بڑا پشتی بان: الیکٹرانک میڈیا اور پھر مادر پدر آزاد سوشل میڈیا ہے۔

زیرنظر کتاب میں وقارعظیم نے اس حوالے سے ملایشیا کے ممتاز اسلامی اسکالر پروفیسر ڈاکٹر سیّد محمد نقیب العطاس [پ: ۵ستمبر ۱۹۳۱ء]کی کتاب Islam and Secularism کے منتخب مقالات کا اُردو میں ملخص ترجمہ پیش کیا ہے۔ ابتدا میں دو مضامین خود مترجم نے تحریر کیے ہیں۔

مقالات کے عنوانات کتاب کا تعارف کرانے میں مددگار ہیں۔ مترجم کے مضامین میں: مَیں سیکولر کیوں نہیں ہوں؟ اور سیکولرنواز دانش وروں کے ۱۰۰رجحانات۔ جناب نقیب کے مفصل اور فکری مقالات کے عنوان ہیں: lسیکولر، سیکولرائزیشن، سیکولرزم l مسلمانوں کا دوطرفہ اُلجھائو  lعلم کو مغربیت سے آزاد کرانے کا چیلنج، وغیرہ۔یہ کتاب سیکولر فکر کی فلسفیانہ اور عملی صورتوں کے سمجھنے اور اسلام کے ایمانی، فکری اور فلسفیانہ اپروچ سے واقفیت میں معاون ہے۔ (س م خ)


  عصری اجتہادی مسائل، سیّد مودودی کا موقف و منہج، پروفیسر ڈاکٹر قلب بشیرخاور بٹ۔ ناشر: الفیصل ناشرانِ کتب، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۳۰۷۷۷-۰۴۲۔ صفحات: ۴۰۸۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔

اسلام کے ساتھ کچھ اصطلاحیں بھی بڑی ’مظلوم‘ ہیں جن میں ایک نمایاں اصطلاح ’اجتہاد‘ ہے۔ عصرحاضر میں یہ لفظ متجددین اور مداہنت پسندوں کی دنیا میں بڑا من پسند ہے کہ اس کے پردے میں وہ اسلام کو اپنی خواہشات کے تابع لانے کے لیے بطور آلہ استعمال کرنے کا بھونڈا کھیل کھیلتے ہیں، حالانکہ اسلامی شریعت اور تفقہ فی الدین کے اعتبار سے یہ بڑی ہی محترم اور بنیادی اہمیت کی حامل اصطلاح ہے۔ الحمدللہ، دین کے خادموں نے تجدّد کی بہت سی یلغاریں بڑی پامردی سے روکیں اور درپیش فقہی چیلنجوں کا محتاط اور بھرپور جواب دینے کی انفرادی اور اجتماعی کاوشیں کی ہیں۔ جن میں مزید بہتری لانے اور غوروفکر کو اداراتی سطح پر منظم کرنے کی ضرورت اور گنجایش موجود ہے۔

زیرنظر کتاب میں جناب قلب بشیر خاور بٹ نے مولانا مودودی مرحوم کے حالاتِ زندگی پر معروف کتابوں سے حصے پیش کرنے کے بعد، بنیادی طور پر مولانا کی کتاب رسائل و مسائل   (پانچ حصوں) سے جدید نوعیت کے مسائل پر جوابات درج کیے ہیں۔ چند مقامات پر تفہیم القرآن اور تفہیمات سے اقتباس بھی لیے ہیں اور ساتھ ہی متعدد اہلِ علم کی آرا کو نقل کیا ہے۔ بہرحال، رسائل و مسائل سے ان مسائل کو سمجھنا آسان تر ہوگا کیونکہ وہاں جواب کے ساتھ براہِ راست سوال بھی موجود ہے۔

ضرورت ہے کہ زیرنظر موضوع پر علمی اور فنی نوعیت کی سیرحاصل بحث کی جائے اور ’اصول‘ کی روشنی میں متعین کیا جائے کہ ان میں کون سے اُمور اجتہادی نوعیت کے حامل ہیں۔(س  م خ )


ماہنامہ محدث، افتاء نمبر، مدیر :مولانا محمد ابوالقاسم فاروقی، ناشر: دارالتالیف والترجمۃ ، بنارس،    B  -۱۸/ ۱۔G ، ریوری طالب ، وارنسی۲۲۱۰۱۰ - www.mohaddis.org ۔ صفحات: ۲۱۲۔ قیمت: بھارتی :۱۰۰ روپے۔

ماہنامہ محدث بنارس گذشتہ ۳۳ برس سے اشاعتِ دین کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔ اس کا ہر شمارہ دینی معلومات میں گراں قدر اضافہ کرتا ہے۔ زیر نظر اشاعت متعدد حوالوں سے   قیمتی دستاویز ہے، جس کے ۲۴ مضامین میں ان موضوعات پر کلام کیا گیا ہے، جن میں ’فتویٰ‘ کی صورت سائلین کو رہنمائی دی جاتی ہے یا مخصوص صورت حال میں دین کا منشا سمجھایا جاتا ہے۔

محدث  ،بنارس کے فاضل قلمی معاونین نے اجتہاد، اجماع، عرف، فتویٰ نویسی، استحسان وغیرہ موضوعات پر مؤثر الفاظ میں روشنی ڈالی ہے۔ اہل حدیث علما کی علمی روایت سے واقفیت بہم پہنچائی ہے اور فتویٰ نویسی کی روایت کو دورِ رسالت سے عصر حاضر تک پیش کیا ہے۔ مضامین کی وسعت اور موقف میں توسع ،اور تاریخ کے اوراق کی پیش کاری سے اشاعت کی افادیت دو چند کر دی ہے۔

چونکہ مجلے کا تعلق سلفیہ سے ہے ، اس لیے جہاں مجموعی طور پر موضوعات پر کلام کیا گیا ہے، وہیں خاص طور پر سلفی اسلوبِ تحقیق وتجزیہ کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔ یہ ایک معلومات افزا، دل چسپ اور علمی دستاویز ہے۔ (س م خ )

اسلام میں غلامی کا تصور ، از ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر، ناشر: قرطاس ، فلیٹ ،۱۵۔اے، گلشن امین ٹاور، گلستان جوہر، بلاک ۱۵، کراچی۔ فون : ۳۸۹۹۹۰۹۔۰۳۲۱۔ صفحات: ۱۹۲۔ قیمت :۲۰۰روپے۔

اسلام کے مدِ مقابل وہ تمام قوتیں ، چاہے مذہبی ہوں یا فکری وسیاسی ، نئے نئے عنوانوں سے اسلام کو نشانہ بناتی ہیں۔ ان کے سو فہم کا چاہے کتنے ہی مدلل اور مسکت اسلوب میں جواب دیا گیا ہو، وہ اپنے کینہ پرور مزاج کے بل پر ان دلائل کو اس طرح نظر انداز کر کے ، الزامی حملے کرتی ہیں گویا کوئی جواب دیا ہی نہیں دیا گیا۔ایسی الزام تراشی کے ترکش کا ایک تیر ’ اسلام میں غلامی‘ ہے۔

اسلامی تاریخ کی ممتاز استاد ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر نے زیر نظر کتاب میں مغرب اور اس کے زیر اثر ’دانش‘ کی اسی الزامی مہم کا تجزیہ کیاہے۔ عصرِ حاضر کی مغربی دانش قدیم یونانی تہذیب کو   اپنا سرچشمۂ ہدایت سمجھتی ہے، اور ’’یونانی دانش ور غلامی کو انسانی المیہ سمجھنے کے بجاے قانون فطرت سمجھتے تھے ‘‘ (ص۲۹) ۔مصنفہ نے قدیم (یونانی ، رومی، برہمنی ،عربی ) معاشروں میں غلامی کی روایت اور اس کے انسانیت سوز چہرے کا جائزہ (ص۱۳۔ ۷۸) لیتے ہوئے بتایا ہے کہ اسلام نے کس طرح انسانوں کی غلامی کے اس باب کو بند کرنے کی حکمتِ عملی متعارف اور نافذ کرائی۔

انھوں نے نوآبادیاتی دور میں لکھی گئی معذرت خواہانہ کتب کے استدلال کو دہرانے کے بجاے، حملہ آور بیانیے کا ٹھوس حقائق کی روشنی میں تجزیہ کیا ہے اور اسلام کا موقف دلائل ونظائر کے ساتھ بخوبی بیان کیا ہے۔ اگرچہ عمومی سطح پر یہ موضوع زیر بحث نہیں لایا جاتا، مگر جدید تعلیمی اداروں میں اسلام اور غلامی کو ایک من پسند ہتھیار کی حیثیت سے استعمال کرنے کاطرزِ عمل دیکھنے میں آتا ہے۔ یہ کتاب ایسی فریب خوردگی اور فریب دہی کا ایک مؤثر جواب ہے۔ (سلیم منصور خالد ) 


تعلیم ،امن اور اسلام، ترتیب : مجلس تحقیقات اسلامی۔ ناشر: المصباح ،۱۶- اُردو بازار لاہور۔ صفحات:۱۶۸۔قیمت: درج نہیں۔

اسلام کے لفظ ہی میں سلامتی، امن ،اور عدل کا پیغام موجود ہے۔ لیکن مغرب، اس کی حلیف قوتوں اور مسلم اقوام میں غلامانہ ذہنیت کے حامل نام نہاد دانش وروں نے بے وجہ، اسلام پر یلغار کا ماحول پیدا کر رکھا ہے۔

’مجلس تحقیقات اسلامی‘ نے رضا کارانہ طور پر علمِ حدیث ،فقہ ،تاریخ، اسلام و مغرب کی کش مکش اور استشراق کے موضوعات کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ حکمت عملی طے کی ہے کہ مناظرانہ یا مبارزت پر مبنی اسلوب میں اُلجھنے کے بجاے ، مثبت طور پر دین اسلام کی منشاء ومرضی کو نئی نسل کے سامنے پیش کیا جائے۔ اس مجلس میں تمام مکاتب ِفکر کے جید علما اور جدید علوم کا فہم رکھنے والے سماجی علوم کے ماہرین شامل ہیں جو مولانا سمیع الحق ،مفتی منیب الرحمن ،مولانا محمد حنیف جالندھری، مولانا عبدالمالک ،مولانا راغب حسین نعیمی، مجتہد سید نیاز حسین نقوی، ڈاکٹر سفیر اختروغیرہ پر مشتمل ۲۶ رکنی ٹیم ہے۔

مذکورہ مجلس نے اعلیٰ ثانوی(انٹر میڈیٹ ) درجے کے طالب علموں کے لیے یہ مجموعہ بطور درسی کتاب مرتب کیا ہے۔ جو پیش کش میں دیدہ زیب ، اور موضوعات ومباحث میں مؤثر ابلاغی لوازمے پر مشتمل ہے۔ اس کے ۱۴؍ ابواب میں: اختلاف راے، تنازع، تشدد ،حقوق العباد،  آئینِ پاکستان، فرقہ واریت کا سدباب وغیرہ موضوعات شامل ہیں۔ ہر باب میں معلومات کی فراہمی کے بعد نئے الفاظ کے ذخیرے، مشق اور سوالات کو شامل کیا گیا ہے، تا کہ طالب علم پڑھے جانے والے سبق کو نہ صرف سمجھ سکے، بلکہ خود اختیاری جانچ سے اپنی معلومات کو پرکھ بھی سکے۔  درسی سطح پر یہ ایک کامیاب کوشش ہے، جس کا استقبال کیا جانا چاہیے۔ (س م خ)


سیکولرزم ایک تعارف، ڈاکٹر شاہد فرہاد۔ناشر: کتاب محل، دربار مارکیٹ، لاہور، فون: ۸۸۳۶۹۳۲۔۰۳۲۱۔ صفحات :۲۱۴۔قیمت درج نہیں۔

ہر دور کے فتنے اپنی حشر سامانیاں لیے ،چراغِ مصطفویؐ سے اُلجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور آخر فنا کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ عصر حاضر کے ایسے ہی ایک فتنے کا نام سیکولرزم ہے۔ اس فتنے کو نظریہ کہنا ، خود لفظ نظریہ کی توہین ہے۔ وجہ یہ کہ سیکولرزم کا عملی زندگی میں مطلب یہ ہے کہ : ’’تم آزاد ہو، جو چاہو سو کرو۔ ان مادی وسائل اختیارات کو جس طرح چاہوسو برتو، کوئی روک رکاوٹ نہیں‘‘۔

ڈاکٹر شاہد فرہاد نے اس کتاب میں ،دین اور اخلاق ،انسانی تہذیب اور تمدن کو چیلنج کرنے والے اس وحشی نظریے کو سمجھنے ،پرکھنے اور عام فہم زبان میں پیش کرنے کی مؤثر اور کامیاب کوشش کی ہے۔

موضوعات کے پھیلائو اور نظائر کے انبار سے اَٹے اس موضوع کو اختصار اور صحت کے ساتھ پیش کرنا ایک مشکل کام تھا جسے بڑی خوبی سے انجام دیا گیا ہے، اور سیکولرزم کا حقیقی چہرہ اور اس کے طریقِ واردات کو وضاحت سے پیش کیا گیا ہے۔ (س م خ )


تعارف کتب

o شہید پاکستان ، تذکرہ مطیع الرحمٰن نظامی ، مرتبہ : عباس اختر اعوان، ناشر :اذان سحر پبلی کیشنز،   منصورہ ملتان روڈ لاہور۔ فون: ۴۷۰۸۰۲۴-۰۳۲۱۔صفحات: ۴۱۶۔قیمت: ۴۵۰روپے۔بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے امیر جناب مطیع الرحمٰن نظامی کو جھوٹے مقدمے ،جعلی عدالت اور انصاف کے قتل کے ذریعے پھانسی دی گئی۔ جناب نظامی کی شہادت کے بعد پاکستان کے مختلف اخبارات میں جو کالم شائع ہوئے ،انھیں اس مجموعے میں شامل کیاگیا ہے۔ ان کالموں میں دردِ دل کی کسک اور قومی بے حسی کا ماتم ہے۔

o کیا موت اصل زندگی کا آغاز ہے،ڈاکٹر امیر فیاض پیر خیل ، ناشر:گائوں قمبر ،تحصیل سیدوشریف،   ضلع سوات۔ فون:۹۲۷۹۲۳۹-۰۳۴۶۔صفحات: ۳۲۲۔قیمت درج نہیں۔ مصنف کا تعلق سوات کے ایک علمی اور تصوف سے وابستہ خاندان سے ہے۔ جنھوں نے اقامت ِ دین کے قافلے سے وابستگی اختیار کرتے ہوئے اپنے علم وفکر اور تعلقات کی پوری دنیا کو خدمت ِ دین سے منسوب کر دیا ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے کتاب کے موضوع سے متعلق اپنے حامل مطالعہ کو واقعات اور مباحث کی شکل میں پیش کیا ہے۔

oمجلہ الصراط،سوات: مدیراعلیٰ:مولانا صاحب احمد میدانی ،مدیر: محمد صدیق سواتی، ناشر: جامعہ صراط الجنتہ بلوگرام، سوات ۔فون : ۸۳۰۴۵۰۰۔۰۳۰۶ ۔[خیبر پختونخوا اور متصل علاقوں پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایت ہے کہ یہاں دینی تعلیم کی طلب اور دینی تعلیم کے مواقع پاکستان کے دوسرے علاقوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ پھر یہ کہ درس وتربیت سے ایک قدم آگے بڑھ کر دینی صحافت اور تحریر وتحقیق کا ذوق بھی پایا جاتا ہے۔ جس کی ایک تازہ مثال مجلہ الصراط    کا یہ پہلا شمارہ ہے ، جو حُسنِ ترتیب کے ساتھ شُستہ اُردو میں شائع ہوا۔  اللہ کرے یہ باقاعدگی سے شائع ہو اور نوجوان اہلِ قلم کی تربیت کا گہوارہ ثابت ہو۔]