کتاب نما


The Light of The Qur'an [قرآن کی روشنی میں]، عامرہ احسان۔ ناشر: گوشہ علم و فکر، مکان ۱۹۴، سٹریٹ ۵۲، سیکٹر جی ۱۰/۳، اسلام آباد۔ مجلاتی صفحات:۵۰۸۔ قیمت: درج نہیں۔
یہ سب اللہ تعالیٰ کی توفیق پر منحصر ہے کہ وہ اپنے آخری پیغام کی تعلیم وتدریس کی نعمت کس کو عطا فرماتا ہے۔ پھر کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ، جو اس مقصد کے لیے نئے نئے تجربے کرتے اور والہانہ انداز سے ہردل کو پیغامِ حق کی جانب موڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ زیرنظر کتاب بھی اسی سمت ایک بامعنی اور باوزن کاوش ہے۔ محترمہ عامرہ احسان نے اس سے قبل گذشتہ دس برسوں کے دوران قرآن کی روشنی کے زیرعنوان ایک تدریسی کتاب، قرآن فہمی کے لیے ترتیب دی تھی، جس میں تمام سورتوں کے مرکزی موضوعات کو اس طرح مرتب کیا تھا کہ آج کے قاری تک، اس کے مانوس ذوقِ مطالعہ کے مطابق تفہیم کرسکے۔
اس کامیاب اور مؤثر تدریسی کتاب کو اب بہت سے اضافوں کے ساتھ انگریزی خواں طبقے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ بالخصوص، اس نسل کے لیے مرتب کیا گیا ہے، جو انگریزی میڈیم تعلیم سے نکلنے کے بعد اُردو سے نابلد اور اُردو میں اعلیٰ درجے کے دینی و علمی اثاثے سے محروم ہوگئی ہے۔ یعقوب انور صاحب نے انگریزی ترجمہ بہت عام فہم اور مؤثر انداز سے کیا ہے۔ موضوعات، زندگی کی گرہوں کو کھولتے ہیں اور پیغامِ ربّانی دل اور ذہن میں اُتارتے ہیں۔ (س م خ)


عزیمت کے راہی (ہفتم)، حافظ محمد ادریس۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۲۴۷۶-۰۴۲۔صفحات: ۳۸۴۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔
انسان عمر طبعی گزار کر دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے، مگر اس کی یادیں پس ماندگان کے دلوں میں زندہ و تابندہ رہتی ہیں۔ حافظ محمد ادریس صاحب نے کئی سال پہلے اپنے بزرگوں، عزیزوں اور تحریک ِ اسلامی کے احباب کی یادوں کو قلم بند کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ عزیمت کے راہی کے عنوان سے اس سلسلے کے چھے حصے شائع ہوچکے ہیں، ساتواں حصہ حال ہی میں منظرعام پر آیا ہے۔ اس میں ۲۳مرحومین (خواتین و حضرات) کا ذکر ہے جن میں اخوان المسلمون کے ساتویں مرشدعام الاستاذ محمد مہدی عاکف، مولانا محمد افضل بدر، حسن صہیب مراد، صفدر علی چودھری، مظفراحمد ہاشمی، رانا نذرالرحمان اور مظفروانی شہید جیسے معروف رفتگان کے ساتھ خدابخش کلیار، پروفیسر میاں سعید احمد، ملک محمد شریف، حکیم عبدالوحید سلیمانی، ڈاکٹر ہارون رشیدخان، افتخار فیروز اور عبدالعزیز ہاشمی جیسے نسبتاً کم معروف مرحومین کا تذکرہ بھی شامل ہے۔
اس طرح کا تذکرہ مرتب کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ حافظ صاحب نے بڑی محنت، محبت، توجہ اورخاصی کاوش سے مرحومین کے حالات جمع کیے ہیں۔ لیاقت بلوچ صاحب (نائب امیرجماعت) نے بجا طور پر اس کتاب کو اسلامی تحریک کے کارکنان کے لیے’ تحفہ‘قرار دیا ہے۔ ’دعوت و تربیت اور کردار سازی کے لیے‘ بھی زیرنظر تذکرہ نہایت مفید ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


گلدستۂ تربیت، اہتمام: ادارہ فروغِ علم (مسجد مکتب اسکیم) منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۲۵۹۲-۰۴۲۔ مجلاتی صفحات، مجلد: ۲۵۶۔ قیمت: ۶۰۰ روپے۔ 
اسلام کا تصورِ تعلیم و تربیت سے رچا ہوا ہے۔ محض اعداد و شمار اور نری معلومات ایک اچھے انسان کی تشکیل میں خام رہتی ہیں وہ لوگ جن کے پیش نظر کوئی مقصد ہوتا ہے، وہ اس بات کا ضرور اہتمام کرتے ہیں کہ انسانِ مطلوب کو ایک نقشۂ کار کے مطابق تیار کرسکیں۔
ادارہ فروغِ علم نے معاشرے کی بالکل عام آبادی میں، اور درحقیقت ناخواندہ بالغان کو اسلامی، سماجی، شہری فہم دینے کے لیے یہ ایک ایسی ’ورک بک‘ تیار کی ہے، جس کو سبقاً سبقاً پڑھ کر،  یا سن کر، بنیادی معلومات تک رسائی ہوجاتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسے عام دینی مدرسے، اسکول اور کالج کے طالب علموں کی تربیت کے لیے بھی ایک مفید ماخذ کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔(س م خ)

وفیاتِ مشاہیر خیبرپختون خوا ، ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ۔ناشر: قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل، بنک سٹاپ، والٹن روڈ، لاہور کینٹ۔ فون: ۰۵۱۵۱۰۱- ۰۳۰۰۔ صفحات(بڑی تقطیع:۲۶۸۔ قیمت: ۱۰۰۰ روپے۔
وفیات نگاری علمی و ادبی تحقیق کی ایک اہم شاخ ہے۔ پاکستان میں جہاں وفیات کے ریکارڈ کی بات ہوگی، وہاں پروفیسر محمد اسلم (۱۹۳۲ء-۱۹۹۸ء)کے ساتھ ڈاکٹر منیراحمد سلیچ کا ذکر ضرور ہوگا۔ اس موضوع پر ان کی کتابوں کی تعداد عشرئہ کاملہ تک پہنچ چکی ہے۔ قابلِ تحسین بات ہے کہ  وہ اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے بعد اُردو میں وفیات نگاری کے ذخیرے کو مالا مال کر رہے ہیں___ وہ اب تک اپنے بقول: ’۱۸ہزار اہم پاکستانی شخصیات کی وفیات محفوظ کرنے کا کام‘ کرچکے ہیں۔
زیرنظر تازہ کتاب میں ۲ہزار ایسے ممتاز افراد کے مختصر سوانحی کوائف شامل ہیں جو صوبہ سرحد میں پیدا ہوئے یا اُن کی عمر کا بڑا حصہ اِس صوبے میں گزرا اور وہ ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء سے ۱۴فروری ۲۰۱۹ءکے درمیانی عرصے میں فوت ہوئے۔ وفات یا تدفین دنیا میں جہاں ہوئی ہو، ان کا تذکرہ کتاب میں شامل ہے۔ جملہ مرحوم شخصیات اپنے اپنے شعبے میں نمایاں مقام رکھتی تھیں۔
ممتاز شخصیات میں اکثریت علماے دین کی ہے، جو اس صوبے کا اعزاز شمار ہوگا۔ اگرچہ سلیچ صاحب نے کوائف کی فراہمی کے بعد، صحت کے لیے مقدور بھر چھان پھٹک کی ہے، مگر اس کے باوجود وہ اعتراف کرتے ہیں کہ کتاب میں اغلاط و تسامحات کی موجودگی کو رَد نہیں کیا جاسکتا۔
کتاب میں بیسیوں مشاہیر کی تصاویر بھی شامل ہیں۔’کتابیات‘ تقریباً اڑھائی سو اُردو انگریزی کتابوں، تحقیقی مقالوں اور اخبارات و رسائل پر مشتمل ہے۔ ہم، مقدمہ نگار ڈاکٹر عبداللہ جان عابد کے الفاظ میں پُراُمید ہیں کہ: ’’اہلِ دانش و بینش، ان کی دیدہ ریزی کا والہانہ استقبال کریں گے‘‘۔ (رفیع الدین ہاشمی)


مشاہیر ادب کے خطوط: بنام غازی علم الدین، مرتب: حفیظ الرحمٰن احسن۔ ناشر: مثال پبلشرز، رحیم سنٹر، پریس مارکیٹ، امین پور بازار، فیصل آباد۔صفحات:۴۹۱۔ قیمت: ۸۰۰ روپے۔
چند برس قبل ڈاکٹر آصف حمید کا مرتبہ مجموعہ اہلِ قلم کے مکاتیب بنام غازی علم الدین کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ زیرنظر دوسرا مجموعہ نسبتاً زیادہ اہم اور دل چسپ محسوس ہوتا ہے۔ کُل ۸۱شخصیات کے ۴۵۵ خطوط شامل ہیں۔ اِن خطوں سے مکتوب نگاروں کے علم و فضل، ان کے ادبی نظریاتی کا اندازہ تو ہوتا ہی ہے، مکتوب الیہ کی علمی شخصیت کا بہت اچھا نقش بھی سامنے آتا ہے۔ مکتوب نگاروں نے بحیثیت مجموعی غازی صاحب کی تنقیدات کی تحسین کی ہے، مگر ان کے لسانی نظریات سے کہیں کہیں اختلاف بھی کیا ہے۔گذشتہ برس ان کی کتاب تخلیقی زاویـے شائع ہوئی تھی۔ بھارتی نقاد اور محقق جناب یحییٰ نشیط (پ:۱۹۵۱ء) غازی صاحب (پ:۱۹۵۹ء) کے بزرگ ہیں، انھوں نے تخلیقی زاویـے کو ’مبتدیانہ‘ کام قرار دیا ہے جو غازی صاحب کے ’وقار و معیار کے شایانِ شان نہیں‘  (ص۸۰)۔ غازی صاحب نے ’ہندوئوں کی لسانی تنگ نظری‘ اور اُردو زبان کے لیے ان کے تعصب کا ذکر کیا تھا (جو ایک واضح حقیقت ہے) مگر یہ یحییٰ نشیط صاحب کو پسند نہیں آیا۔ ’ہندستان میں رہتے ہوئے‘ وہ غازی صاحب کی راے سے متفق نہیں اور ایسی باتوں کو اُردو کے لیے بھی ’مضرت رساں‘ سمجھتے ہیں۔
غازی صاحب ہمیں زبان و بیان کے ایسے پہلوئوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں، جو اہلِ قلم کی نظر سے اوجھل رہتے ہیں۔ بعض خطوط تو تحقیقی مقالوں کی صورت اختیار کرگئے ہیں، جیسے پروفیسر ظفرحجازی کے خطوط (ص ۲۴۵-۲۸۵)۔
پروفیسر عبدالرزاق کے طویل خط سے مولوی محمد شفیع (۱۸۸۳ء-۱۹۶۳ء) کے بارے میں ایسی نادر معلومات ملتی ہیں جو کسی اور ذریعے سے قارئین تک نہیں پہنچیں۔ انسائی کلوپیڈیا، اب بھی تالیف ہوتے ہیں مگر مولوی صاحب جیسے محقق نایاب ہیں جن کی گاڑی کو شیخ امتیاز بھی دھکا لگانا، سعادت سمجھتے ہوں (ص ۳۱)___ڈاکٹر مظہرمحمود شیرانی ، ڈاکٹر رؤف پاریکھ اور ڈاکٹر عبدالستار دہلوی کی مفصل تقاریظ، کتاب کی وقعت پر مؤید ہیں۔(رفیع الدین ہاشمی)

مقالاتِ برکاتی، علّامہ حکیم محمود احمد برکاتی، مرتب: ڈاکٹر سہیل احمد برکاتی۔ ناشر: عکس پبلی کیشنز، داتا دربار مارکیٹ ، لاہور۔ فون: ۴۸۲۷۵۰۰-۰۳۰۰۔ صفحات:۵۵۰۔ قیمت: ۱۲۰۰روپے۔
ریاست ٹونک کو نواب امیرخان نے ۱۸۱۷ء میں قائم کیا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد، بھارتی حکومت نے یکم مئی ۱۹۵۰ء کو اسے صوبہ راجستھان میں ضم کرلیا۔ برطانوی عہد میں برعظیم کی مسلم ریاستوں میں ٹونک کو کئی اعتبار سے ممتاز حیثیت حاصل تھی۔ امتیاز کا ایک سبب ٹونک کا خانوادۂ برکاتی ہے۔ علّامہ برکات احمد (م: ۱۹۲۸ء) فاضلِ اجل اورطبیب بے بدل تھے۔ اُن کے اخلاف نے علم و فضل اور طبابت کی روایت کو برقرار رکھا۔ زیرنظر کتاب کے مصنف حکیم محمود احمد برکاتی شہید (۱۹۲۶ء-۲۰۱۳ء) غالباً اِس کی آخری کڑی تھے۔ اُن کے فرزند ِ ارجمند ڈاکٹر سہیل احمد برکاتی نے اپنے والد ِ مرحوم کے نئے پرانے مقالات کا زیرنظر مجموعہ مرتب کر کے شائع کیا ہے۔قبل ازیں برکاتی شہید کی متعدد کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔
زیرنظر کتاب میں سیرت النبیؐکے علاوہ بعض بزرگوں (شاہ ولی اللہ، شاہ محمد اسحاق دہلوی، شاہ محمد محدث دہلوی، مولانا فضل حق خیرآبادی، مولانا عبدالحق خیرآبادی وغیرہ) اور بعض معاصرین (ماہرالقادری ، ظفر احمد انصاری ،ابوالخیر کشفی، پروفیسر سیّدمحمدسلیم اور محمد محسن ٹونکی وغیرہ) پر مصنّف کے مقالات شامل ہیں۔ تقریباً ایک درجن مضامین طب، ادویہ اور امراض پر ہیں۔ مزیدبرآں چند خطبات، ایک انٹرویو اور ایک خودنوشت بھی شاملِ اشاعت ہے۔ تاہم، ایک قیمتی مقالہ (حکیم احسن اللہ خان) شامل ہونے سے رہ گیا۔ یہ مقالہ مشفق خواجہ کے توسط سے ہمیں ملا تھا اور ارمغانِ شیرانی (شعبۂ اُردو اورینٹل کالج، لاہور، ۲۰۱۲ء) میں شامل ہے۔
مضمون: ’ٹونک کا ماضی اور حال‘ ریاست ٹونک کے متعلق ایک کشکول ہے جس میں ٹونک کے حکمرانوں، اکابر اہلِ قلم، ان کی تصانیف، وہاں کے پی ایچ ڈی مردو زن، صحافیوں، ٹونک پر کتب ِ تواریخ اور وہاں کے مطابع وغیرہ کے بارے میں معلومات مل جاتی ہیں۔ وہ ٹونک کی ہمہ پہلو تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ وہ اسے ’دارالاسلام محمدآباد‘ عرف ٹونک کا نام دیتے ہیں ، شاید اس لیے کہ ان کے بقول: ’دین سے اتنا قریب معاشرہ میں نے کہیں نہیں دیکھا‘ (ص ۲۴۹)۔ ان کے خیال میں ٹونک ’غیرت شیراز و بغدادِ صغیر‘ تھا۔
ریاست ٹونک کے پانچویں حکمران نواب سعادت علی خاں (۱۹۳۰ء-۱۹۴۷ء)پر برکاتی مرحوم  کا مضمون، البتہ کم زور ہے۔ بلاشبہہ تعمیراتی کام حکمرانوں کے فرائض میں شامل ہیں۔ یہ عوام پر، ان کی ’عنایات‘ نہیں ہوتیں۔ نواب صاحب شیروں کے شکاری تھے، مصنف نے ۱۱۰؍شیروں کے شکار کو بھی نواب صاحب کے ’کارناموں‘ میں شمار کیا ہے۔
کتاب کے دل چسپ ہونے میں کلام نہیں ، جس کا بڑا سبب موضوعات کا تنوع اور خوب صورت اسلوب ہے۔ بعض مضامین تو بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اُمید ہے کہ مرحوم کے لائق فرزند سہیل برکاتی، اپنے والد کے نام مشاہیر و اکابر کے خطوط بھی مرتب کر کے شائع کریں گے۔(رفیع الدین ہاشمی)


قرآن کی تاثیر ، مرتبہ :حافظ محمد عارف۔ ناشر: جامعہ عربیہ ،جی ٹی روڈ، گوجرانوالہ۔ فون: ۷۴۴۸۰۸۸-۰۳۲۱۔صفحات :۴۴۰۔قیمت: درج نہیں۔
فاضل مرتب نے کتاب کا آغاز اس فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہے:’’ہر نبیؑ کو ایسا معجزہ عطاکیا گیا ہے، جس پر انسان ایمان لائے، اور جو معجزہ مجھے عطا کیا گیا ، وہ یہ وحی [قرآن ] ہے، جو اللہ نے میری طرف نازل کی ہے‘‘۔(بخاری )
اسی فرمانِ نبویؐ کی روشنی میں محترم مرتب نے مختلف دانش وروں ، عالموں اور نو مسلموں کے دلوں کو پھیرنے میں قرآن کریم کی تاثیر پر مبنی تحریروں کو جمع کیا ہے۔ جن میں مقامی بھی ہیں اور غیر ملکی بھی، مرد بھی ہیں اور خواتین بھی۔ بقول مرتب:’’صرف وہ واقعات ومشاہدات جمع کیے ہیں، جو مستند ہیں ،جہاں شک وشبہے کی گنجایش تھی، ان واقعات سے صرف نظر کیا ہے ‘‘۔(ص ۷) 
اس طرح یہ واقعات قاری کو قرآن سے جوڑنے اور اس کی برکتیں حاصل کرنے کے لیے اُبھارتے ہیں۔ (ادارہ)

اہل قرآن کے تاویلاتی افکار اور نماز پنجگانہ کا تحقیقی مطالعہ،ڈاکٹرظفر اقبال خان۔ ناشر:ادارہ اسلامیہ ،حویلی بہادر شاہ جھنگ۔فون: ۶۷۷۱۷۶۸-۰۳۳۲۔ صفحات:۵۳۶۔ قیمت:۷۰۰ روپے۔
انکارِ حدیث کے حاملین اپنے آپ کو ’اہلِ قرآن‘ کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ ان کے عقائد وافکار کا مطالعہ ظفر اقبال خان کا خاص موضوع ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی روایت کردہ معروف حدیث (بُنِيَ الْاِسْلاَمُ عَلٰى خَمْسٍ…)کے مطابق اسلام کی بنیاد جن پانچ باتوں پر رکھی گئی ہے، ان میں سے نماز ایک اعتبار سے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ جو ہمیں یاد دلاتی ہے کہ انسانی زندگی کا اصل مقصد کیا ہے؟ نماز بار بار اپنے رب کی طرف رجوع کرنے کی تلقین کرتی ہے۔ چونکہ اُمت مسلمہ کی اکثریت نماز نہیں پڑھتی یا بے قاعدگی سے اور کبھی کبھار پڑھتی ہے، اس لیے اس کا مسلمان ہونا مشکوک ہے۔ اہلِ قرآن یا پرویزصاحب کے مقلدین نے اسلام کے اسی بنیادی رکن نماز پر تیشہ چلایا ہے۔ 
مصنف نے اس گروہ پر علمی گرفت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انکار نماز کا فتنہ کب اور کہاں سے شروع ہوا اور اس سلسلے میں کیا تاویلات کی گئیں؟ مصنف نے بڑی گہرائی سے موضوع کا تجزیہ کیا ہے۔ نہ صرف نماز کے مسئلے پر منکرین حدیث کے عقائد بلکہ بہ حیثیت مجموعی ان کی گمراہیوں کی نشان دہی کی ہے۔ دیباچہ نگار محمدیعقوب کے بقول ڈاکٹر صاحب موصوف نے اس گروہ اور فکر کی تاویلاتِ رقیقہ وباطلہ کا رد معقولات ومنقولات کے ایسے مسکت دلائلِ قاطعہ سے کر کے اس ضلالت کا بھرکس نکال کر رکھ دیا ہے۔
کتاب کی سطر سطر سے مصنف کی علمیت اور عربی ،انگریزی مآخذ اور قرآن وحدیث پر  ان کی دسترس کا اندازہ ہوتا ہے۔ تاہم، کتاب کا مجموعی اسلوب بہت پیچیدہ محسوس ہوتا ہے۔ یہ اسلوب مطالعہ کتاب کی راہ میں باربار حائل ہو جاتا ہے۔ پھر کچھ مسئلہ ترتیب وتدوین کا بھی ہے۔
یہ کتاب اپنے انداز سے عوام کے بجاے خواص اور علما کے لیے دکھائی دیتی ہے۔ اصطلاحات کی تشریح کے باوجود عام قاری کے لیے اسے سمجھنا قدرے مشکل ہے۔ البتہ کتاب کے آخری حصے میں قرآن وحدیث کے حوالے سے نماز کی اہمیت اور فرضیت کا بیان عام فہم اور آسان ہے اور عام قاری کے لیے اس کا مطالعہ بہت مفید ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی ) 
جیو ٹیکٹانکس ، پروفیسر رئوف نظامی ۔ناشر: اردو سائنس بورڈ، ۲۹۹ ۔ شاہراہ قائد اعظم ، لاہور۔ فون: ۹۹۲۰۵۹۶۹-۰۴۲۔ صفحات :۲۹۵۔ قیمت : ۵۳۰ روپے ۔
جیوٹیکٹانکس جیالوجی (علم ارضیات ) کا ایک ذیلی مگر اہم مضمون ہے۔ اس میں زمین کی ابتدا، ارتقا، اور اس کی بنت وبناوٹ میں ہونے والی تبدیلیوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ ان تبدیلیوں کا انسانی زندگی اور ماحول کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ جیسے زلزلے انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ 
سترہ ابواب پر مشتمل مباحث میں سے بعض تو خالصتاً ٹیکنیکی اور سائنسی ہیں، مگر یہ خشک موضوعات بھی معلومات افزا ہیں۔ بعد کے ابواب میں زلزلوں کے مختلف پہلوئوں ، (پیش گوئی ) سونامی ، پاکستان کو سونامی سے خطرہ، ۲۰۰۸ء کے زلزلے، جاپان کے سونامی زلزلے ، اور زلزلوں سے جوہری بجلی گھروں کو خطرے پر کلام کیا گیاہے۔ مصنف کا خیال ہے کہ توانائی کے لیے جوہری بجلی گھر قائم کرنا خطرناک ہے۔ ا س میں نقصانات کا اندیشہ زیادہ ہے۔ اس کے بجاے پَن بجلی زیادہ سستی، محفوظ اور سود مند ہے۔ توانائی کے مسئلے کے حل کے لیے مصنف نے ایک اہم نکتے کی طرف متوجہ کیا ہے۔ فرماتے ہیں:’’دنیا کے چند لاکھ افراد کے خاص طرزِ زندگی پر ہی بہت سی توانائی صرف ہو جاتی ہے، اس طرح باقی اربوں انسان توانائی کے قحط کا شکار ہو جاتے ہیں۔ [اس لیے] عالمِ انسانیت کی فلاح وبقا کے [لیے ] سب سے پہلے پُر تعیش لائف سٹائل کو خیر باد کہنا ضروری ہے‘‘۔ (ص ۲۷۳) 
یہ کتاب سائنس کے طلبہ واساتذہ بلکہ عام قارئین کی معلومات اور ان کے شعور میں بھی اضافے کا باعث ہو گی ۔ (رفیع الدین ہاشمی ) 

رسولِ اکرم ؐ کی سفارت کاری اور خارجہ پالیسی ،ڈاکٹر حسین بانو۔ ناشر:راحیل پبلی کیشنز،  ۳۱۴ بک مال ، اردو بازار کراچی ۔ فون :۸۷۶۲۲۱۳۔۰۳۲۱۔ صفحات :۴۹۱۔ قیمت :۸۵۰ روپے۔
عالمِ اسلام کے دینی ادب میں سب سے بڑا موضوع سیرت النبی ؐ ہے، اور عربی، اُردو، فارسی، انگریزی ، ترکی ، فرانسیسی اور دیگر متعدد زبانوں میں سیرت النبی ؐ کا ذخیرہ ہزاروں سے متجاوز ہے۔ صدر محمد ضیاء الحق کے دورِ حکومت (۱۹۷۷ء-۱۹۸۸ء) میں وزارتِ مذہبی اُمور نے سال کی بہترین کتاب پر ’سیرت ایوارڈ‘ دینا شروع کیا تھا۔ چنانچہ اس شعبے کی طرف اہل قلم کی توجہ اور بڑھ گئی۔ 
زیر نظر کتاب ایک تحقیقی مقالہ ہے جس پر کراچی یونی ورسٹی نے مصنفہ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی۔ پانچ ابواب اور ان کے تحت متعدد فصلوں پر عنوانات قائم کر کے بات کی گئی ہے۔ ہر باب کے آخر میں خلاصۂ کلام بھی دیا گیا ہے۔ حوالوں کا مقام تو مقالے میں ناگزیر ہوتا ہے، اس اعتبار سے مقالے کی ترتیب وتدوین بہت عمدہ ہے۔ مقالہ جس شکل میں پیش کیا گیا، غالباً اسی طرح شائع کر دیا گیا ہے۔ ہمارے خیال میں باب اوّل کو خصوصاً پہلی تین فصلوں کو مختصر کرلیا جاتا اور پہلے اور دوسرے باب کو ملا لیا جاتا تو بہتر تھا۔
رسولِ اکرم ؐ کی سفارت کاری اور خارجہ پالیسی کے مباحث جامع ہیں۔ مصنفہ نے ریاست ِ مدینہ کی سیاست خارجہ کے اصولوں کو واضح کیا ہے۔ اس کے ساتھ سفارت کاری کے سلسلے میں آںحضور ؐ نے مختلف حکمرانوں کو جو خطوط ارسال کیے، ان کا متن دیا ہے اور اس متن سے کچھ نتائج بھی اخذ کیے ہیں۔ اسی طرح آپ ؐ نے بعض صحابہ ؓ کو سفار ت کاری کے مشن پر بیرونِ حجاز بھیجا ۔ پھر اطرافِ مدینہ سے بلکہ بیرونِ ملکِ حجاز سے بھی چند وفود آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے، مقالے میں ان سب صحابہ ؓ اور وفود کی تفصیل دی گئی ہے۔ خارجہ پالیسی میں معاہدوں کی بہت اہمیت ہے۔ آپؐ نے قریش ، اہلِ مکہّ، یہودیوں اور عیسائیوں سے مختلف مواقع پر جو معاہدے کیے ، ان کا ذکر بھی کتاب میں ملتا ہے۔ آخری حصے میں معروف سیرت نگاروں نے آپ ؐ کی سفارت کاری اور خارجہ پالیسی کو جو خراجِ تحسین پیش کیا ہے، اس کا ذکر کیا گیا ہے۔آپؐ کی سفارتی پالیسی کی وجہ سے عرب اور بیرون عرب کی اقوام ایک دوسرے کے قریب آئیں اور تعلقات کو فروغ ملا۔ اسی کی وجہ سے دنیاے عرب کے ساتھ ساتھ بیرون عرب بھی انسان کو اس کی جائز حیثیت ملی اور طاقت ور اور محکوم کی تفریق ختم ہوئی اور ہر انسان اپنی مرضی کی زندگی گزارنے لگا۔ (رفیع الدین ہاشمی) 

تعارف کتب

$ Islamic Perspective of Adulthood and Family Life ،[بلوغت اور خاندانی زندگی اسلامی تناظر میں] ڈاکٹر محمد آفتاب خاں۔ ناشر: ادبیات، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۷۲۳۲۷۸۸-۰۳۱۳۔ صفحات:۷۹۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔ [گذشتہ صدی کے وسط میں، مغرب میں جنسی تعلیم کا اجرا کیا گیا۔ مغربی فکر سے متاثر ’دانش ور‘ مسلم ممالک میں بھی اس کے اجرا پر زور دے رہے ہیں۔ پنجاب یونی ورسٹی کے تحت انٹرنیشنل کانفرنس میں مصنف نے اس موضوع پر تحقیقی مقالہ پڑھا ۔ جنسی تعلیم کا عمومی جائزہ،قرآن و حدیث کی تعلیمات، فقہا کی آرا اور جنسی تعلیم کے حوالے سے والدین کو درپیش مسائل کا احاطہ کیا اور نصاب سازی کی طرف توجہ دلائی۔]

دیں ہمہ اوست،ڈاکٹر محمد آفتاب خان۔ ناشر: ادبیات، اُردو بازار،لاہور۔ ملنے کا پتا: ادارہ مطبوعاتِ سلیمانی، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۷۲۳۲۷۸۸-۰۳۱۳۔صفحات: ۳۱۸۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔

فاضل مصنف زرعی یونی ورسٹی فیصل آباد میں پروفیسر رہے ہیں اور ان کا شمار زرعی ماہرین میں ہوتا ہے۔ باعث ِ تعجب ہے کہ انھوں نے ایک ایسے علمی اور فکری موضوع پر قلم اُٹھایا ہے جس کا زراعت کے کسی بھی شعبے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ قرآن، حدیث اور دیگر علومِ اسلامیہ کے حوالے سے انھوں نے جس عمدگی سے مباحث سمیٹے ہیں، اس کا سبب خود ان کے خیال میں سیّدابوالاعلیٰ مودودی کا فیضانِ نظر ہے۔ ان کے بقول :’’آپ کی تحریروں سے متاثر ہوکر ایک فرد کے اندر وہ نظرپیدا ہوجاتی ہے جس سے وہ صحیح اور غلط میں تمیز کرسکتا ہے‘‘۔

ڈاکٹر آفتاب صاحب کو اپنے زمانۂ ملازمت ہی سے شدید احساس تھا کہ وطن عزیز کے بعض ادارے اور نام نہاد دانش ور پاکستان کی نظریاتی بنیادوں اور دینی تشخص کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں خاندانی نظام، حقوقِ نسواں، مساواتِ مرد وزن وغیرہ کے حوالے سے بعض احادیث کی آڑ میں دین بیزاری اور اباحیت کے جراثیم پھیلائے جارہے ہیں۔ وہ متعلقہ موضوعات خصوصاً حدیث کا مطالعہ کرتے رہے۔ ملازمت سے وظیفہ یاب ہونے کے بعدلمبی تعطیلات میں سعودی عرب میں قیام کا موقع ملا ۔ انھوں نے اپنے مطالعے کو مکمل کیا پھر قلم اُٹھا کر زیرنظر کتاب تالیف کی۔ اس کے ابواب کے موضوعات (علمِ حدیث اور اس کا ارتقا؛ جنسیت، انسانی زندگی میں اس کی ضرورت و اہمیت؛ اسلام میں عورت کا مقام اور خاندانی نظام؛ مساواتِ مرد و زن کے حامی اور منکرینِ حدیث کے شکوک و شبہات ، ایک تنقیدی جائزہ؛ قرآن اور احادیث پر مستشرقین کے اعتراضات کا جائزہ؛ احادیث میں جنسی موضوعات پر ایک مجموعی نظر) سے کتاب کے مباحث کا بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے۔ درحقیقت مصنف نے بڑے دردمندانہ انداز میں  صحیح  اسلامی نقطۂ نظر کی ترجمانی کی۔ احادیث نبویؐ پر اعتراضات کا بھی بڑی عمدگی سے ردّ کیا ہے۔

کتاب کے آخر میں چار ضمیمے شامل ہیں۔ حدیث کے بارے جسٹس محمد شفیع کے اِشکالات پر مولانا مودودی کے تبصرے سے ڈاکٹر آفتاب صاحب کی توضیحات مزید مضبوط ہوتی ہیں۔ پھر ڈاکٹر محمد رضی الاسلام کے مضمون: ’فرد کی قوامیت، مفہوم اور ذمہ داری‘ اور پروفیسر ڈاکٹر عبدالحی ابڑو کے مضمون ’عورتوں کی باجماعت نماز‘ کی حیثیت تائید ِ مزید کی ہے۔ناشر نے کتاب اچھے معیار پر شائع کی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


سائنس براے سلامتی، فیضان اللہ خان۔ ناشر: اُردو سائنس بورڈ، ۲۹۹- شاہراہ قائداعظم، لاہور۔ فون: ۹۹۲۰۵۹۶۹-۰۴۲۔صفحات: ۱۴۸۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

سائنسی ترقی نے دُور دراز ملکوں اور براعظموں کی طنابیں کھینچ دی ہیں۔ ’پردیس‘ کا تصور ختم ہونے کو ہے۔ ایک طرف انسان سمندروں سے پاتال کی خبریں لارہا ہے اور دوسری طرف وہ ستاروں کی گزرگاہوں کا ہم رکاب ہے، مگر اِس غیرمعمولی ترقی کے باوجود وہ بقولِ اقبال: ’زندگی کی شب ِ تاریک سحر کر نہ سکا‘ کی کیفیت سے دوچار ہے۔ سائنس نے انسان کے لیے آسایش مہیا اور آسانیاں فراہم کی ہیں۔ اِس اعتبار سے وہ انسانیت کے لیے باعث ِ رحمت ہے مگر بعض حریص انسانوں اور قوتوں نے سائنس کو نیوکلیائی ہتھیاروں اور طرح طرح کی زہریلی گیسوں، اور زہریلے جرثوموں والے بموں کے ذریعے دو عظیم جنگوں میں لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ اب بھی یہ سلسلہ افغانستان، شام، عراق اور صومالیہ میں جاری ہے۔

زیرنظر کتاب اسی اجمال کی تفصیل پیش کرتی ہے۔ آٹھ ابواب (سائنس اور ٹکنالوجی ایک تعارف۔ سائنس رحمت بھی زحمت بھی۔ بنی نوعِ انسان کی ہلاکت۔ سیاسی و اقتصادی استحصال۔ انسانوں پر سائنسی تحقیق اور مالی مفادات۔ ماحول کی تباہی۔ سائنس کا ذمہ دارانہ استعمال) کے عنوانات سے موضوع کے ابعاد کا اندازہ ہوتا ہے۔ مصنف نے ایک بہت پھیلے ہوئے موضوع کے سمندر کو ایک کتاب کے کوزے میں بند کر دیا ہے۔

دراصل، سائنس اور ٹکنالوجی توایک ذریعہ ہے۔ آپ چاہیں تو اس کے ذریعے انسان کو بیماریوں سے نجات دلا کر اُسے صحت مند بنا سکتے ہیں۔ چاہیں تو اُسے اعلیٰ تعلیم دلا کر نئی سے نئی ایجادات کے ذریعے سے زندگی کو باسہولت بنا سکتے ہیں، مگر جیساکہ فیضان اللہ خان نے بتایا ہے کہ بڑی طاقتوں نے سائنس اور ٹکنالوجی کو اپنے مخالفین اور چھوٹی قوموں کے استحصال کا ذریعہ بنایا، سائنسی تجربات کے لیے زندہ انسانوں کی چیرپھاڑ کی اور کینسر اور دیگر مہلک بیماریوں کو پھیلایا۔

مصنف نے مستند حوالوں کے ذریعے برطانیہ، امریکا، جاپان،عراق، شام اور جرمنی سے تعلق رکھنے والے اداروں اور مجرمین کی نشان دہی کی ہے۔ بڑی طاقتوں کی منافقت کا یہ عالم ہے کہ انھوں نے اپنے جرائم پر پردہ پوشی کے لیے کیمیائی و حیاتیاتی ہتھیاروں پر پابندی کی بظاہر تو حمایت کی اور معاہدے بھی کیے کہ ہم ان ہتھیاروں کے استعمال سے اجتناب کریں گے مگر جرائم کا ارتکاب بھی جاری رکھا۔ مصنف کہتے ہیں: ’’ٹکنالوجی نے لوگوں کے درمیان فاصلے تو ختم کر دیے، لیکن دلوں کے فاصلوں میں اضافہ ہوگیا۔ کیونکہ انسان سائنسی ترقی کو اپنے اقتدار اور غلبے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ آسمانی ہدایت ہی دینِ اسلام کی جامع ترین شکل میں دنیاوی تعصبات و ترجیحات سے ماورا ہوکر رہنمائی کرتی ہے اور اِس راستے پر چل کر انسان سائنس کو نسلِ انسانی کے لیے کامل راستہ سلامتی کا ذریعہ بنا کر رکھ سکتا ہے‘‘۔

اس وقت، جب کہ ماحولیاتی آلودگی ، گلوبل وارمنگ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی پوری دنیا کے لیے مسئلہ بنے ہوئے ہیں، سائنس بورڈ نے ایک راہ نماکتاب تیار اور شائع کرکے ایک مفید خدمت انجام دی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


جدید مغربی تہذیب کے فکری مباحث، مریم جمیلہ ۔ مرتب: ڈاکٹر خالد امین۔ ناشر: قرطاس ، فلیٹ نمبرA-15، گلشن امین ٹاور، گلستانِ جوہر ،بلاک ۱۵، کراچی۔ فون: ۹۲۴۵۸۵۳-۰۳۰۰۔ صفحات:۲۳۰۔ قیمت:۴۵۰ روپے۔

اُردو کے علمی حلقے مریم جمیلہ کے نام سے بہ خوبی واقف ہیں۔ ان کی درجنوں انگریزی کتابوں میں سے چند ایک کے اُردو تراجم بھی شائع ہوچکے ہیں۔ مغربی تہذیب کے بارے میں ان کے خیالات اس لیے اہمیت رکھتے ہیں کہ وہ نیویارک کے ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئیں اور ان کی تعلیم امریکی اور ایک یہودی اسکول اور بعدازاں یہودی اساتذہ کی شاگردی اور نگرانی میں ہوئی لیکن اللہ نے انھیں ہدایت دی۔ اسلام قبول کرلینے کے بعد وہ پاکستان آگئیں اور پلٹ کر کبھی امریکا نہیں گئیں۔ یہیں پیوند ِ خاک ہوئیں۔

اُردو میں ترجمہ شدہ ان کے ۱۶مضامین اور مصاحبوں (انٹرویو) پر مشتمل زیرنظر کتاب خاصی دل چسپ ہے، حالاں کہ ایسے علمی مباحث کم ہی ذوق و شوق سے پڑھے جاتے ہیں۔ مغربی تہذیب اور مادہ پرستی، تحریکِ آزادیِ نسواں ، ابوالکلام آزاد، سرسیّد احمد خاں، جدید ترقی و تمدن اور مولانا مودودی وغیرہ۔ دو مضامین (میرا مطالعہ - یہودیت سے اسلام تک) کی حیثیت خودنوشت کی ہے۔ اسی طرح آخری مصاحبہ ’مریم جمیلہ کی کہانی خود ان کی زبانی ‘ایک طرح کی خودنوشت کی حیثیت رکھتا ہے۔

بعض باتیں چونکا دینے والی ہیں، مثلاً وہ کہتی ہیں:’’موجودہ صورتِ حال میں احیاے اسلام کی کسی تحریک کی کامیابی کا امکان نظر نہیں آتا‘‘۔ان کے خیال میں اس کی متعدد وجوہ ہیں، مثلاً : ’’ہماری جدید تعلیم یافتہ اشرافیہ، سابقہ فرماں روائوں کی ہوبہو نقل ہیں اور یہ لوگ جوش و جذبے کے ساتھ وطن یا معاشرے کو مغربی ممالک کی روایات میں رنگنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اگرچہ اس اشرافیہ کے لوگ تعداد میں بہت کم ہیں۔دوسری طرف مسلمانوں کی آبادی کا ایک تہائی، یعنی عوام اگرچہ مضبوط عقیدے کے مسلمان ہیں اور کچھ باعمل بھی ہیں، لیکن ان سب کو آسانی سے ورغلایا جاسکتا ہے۔ زیادہ تر مسلمان اسلام کو حساس معاملہ سمجھنے کے بجاے عادت اور رواج کے طور پر اپناتے ہیں۔ تیسری طرف مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے مصنّفین موجودہ زمانے کے مسائل کا قابلِ عمل اور حقیقی حل پیش کرنے کے بجاے ماضی کی کامیابیوں پر فخر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں‘‘۔مریم جمیلہ کے خیال میں ہماری کامیابی کا امکان صرف اس صورت میں ہے کہ مادیت پرستوں سے دنیا کی قیادت چھین لی جائے۔

جملہ مضامین فکرانگیز ہیں، خصوصاً کالجوں کے اساتذہ کے لیے قابلِ مطالعہ___ خالد امین نے قریب قریب نصف مضامین خود ترجمہ کیے یا دوستوں سے کرائے۔ یہ اہتمام لائقِ داد ہے۔کتاب خوب صورت چھپی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


 

میرا سفرِ حج، سید سبحان اللہ عظیم گورکھ پوری۔ ناشر: ادارہ یاد گار ِ غالب ، پوسٹ بکس ۲۲۶۸۔ ناظم آباد کراچی ۴۷۶۰۰۔صفحات :۹۶۔قیمت : ۲۰۰ روپے۔

گورکھ پور کے ایک متموّل شخص سید سبحان اللہ کا زیر نظر سفر نامہ ان کے ۱۹۰۳ء کے سفرِ حج کی رُوداد پر مشتمل ہے، جو ’’تجربات اور مشاہدات اور سفر نامہ نگار کی دل سوزی ودرد مندی سے عبارت ہے۔ مصنف اس بات پر بہت آزُردہ تھے کہ اس مقدّس سرزمین کے بعض معاملات وحالات نا گفتہ بہ ہیں ‘‘۔ (ص۴)

سفر نامے کا آغاز حمدیہ ہے ۔ گورکھ پور سے ممبئی تک کا سفر ریل اور بیل گاڑیوں پر ہوا۔  بحری جہاز میں سوار ہونے کے لیے بھی سمندر میں ۱۲میل کشتیوں پر سفر کیا ۔پھر جہاز میں سوار ہونے کے مراحل بھی سخت تکلیف دہ تھے۔ ’’جہاز کے کپتان کا جو برتائو میرے ساتھ ہوا یقینا    دل خراش تھا۔‘‘ جدہ میں جہاز سے اُتر کر قرنطینہ کے لیے بھاپ گھر میں رکنا پڑا ، جدہ سے مکہ تک  دو روز کا سفر اونٹوں پر، فی اونٹ ۳۵روپے،غرض ہندستانیوں کے لیے مہینوں کا سفرِ حج بہت خطرناک اور مشقّت بھرا ہوتا تھا۔ اس زمانے میں عرب قبائلی، حاجیوں کو لوٹ لیتے تھے،اس لیے مولوی سبحان اللہ مدینہ منورہ نہ جا سکے۔ لکھتے ہیں :جس زمانے میں عثمان پاشا یہاں کے والی تھے،   پانچ اور چھے اونٹوں کا قافلہ مدینہ منورہ بے کھٹکے چلا جاتا تھا۔ کوئی بال بیکا تک نہ کر سکتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سلطانی [غالباً وظیفہ] مقرر ہ وقت پر پورا پورا قبائل کو مل جاتا تھا… راہ میں بھی تین تین کوس پر فوج [کی ] چوکیاں… ایک ایک گارڈ فوج رہتی ہے‘‘ (ص ۷۶-۷۷)۔ عثمان پاشا رخصت ہوئے تو شریف مکہ حسین کی عمل دار ی میں پھر بدنظمی شروع ہوگئی۔کیوں کہ شریف غریب بدؤوں کو کچھ نہیں دیتا تھا۔ اس لیے وہ لوٹ مار کرتے تھے۔ مجموعی طور پر نظم ونسق بہت خراب تھا۔    مولوی سبحان اللہ نے مکہ سے منیٰ اور وہاں سے عرفات تک اونٹوں پر سفر کیا۔ انھوں نے قارئین کو نصیحت کی ہے کہ عرفات سے واپسی میں عجلت نہ کریں۔ جب تک بڑے بڑے لوگ نہ جا چکیں۔ قربانی کے لیے تین سے پانچ روپے تک فی دنبہ مل گئے۔ اس زمانے میں مکے کی مستقل آبادی ۵۰،۶۰ ہزار تھی مگر بدانتظامی کے سبب شہر میں صفائی عنقا تھی اور رات کے وقت روشنی بہت کم ہوتی تھی۔ حرم میں وضو کے لیے کوئی نل نہیں تھا، نہ استنجا خانہ۔ ترکوں کی عمل داری میں انتظام بہت بہتر تھا۔ بہت سی خرابیوں کا سبب جہالت اور تعلیم کی کمی ہے۔

ڈاکٹر اصغر عباس (سابق صدر شعبہ اردو، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی) نے یہ سفر نامہ بڑی محنت سے مرتب کیا۔ ان کے طویل معلومات افزا مقدمے سے مزین ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی )


بوستانِ اقبال ، محمد الیاس کھوکھر ۔ ناشر: مکتبہ فروغِ فکر اقبال لاہور۔ ملنے کے پتے: منشورات، منصورہ لاہور۔فون: ۳۵۲۵۲۲۱۱-۰۴۲۔ کتاب سرائے ، الحمد مارکیٹ ، اردو بازار لاہور۔ فون:۳۷۳۲۰۳۱۸-۰۴۲۔ صفحات: ۴۸۰۔ قیمت : ۵۰۰ روپے۔

فاضل مصنف نے دیباچے میں بتایا ہے: ’’میں تو اقبال سے صرف محبت کرنے والا ہوں، جو یہ بھی نہیں جانتا کہ میں یہ محبت کیوں کر رہا ہوں؟‘‘ (ص ۷) ۔چنانچہ علامہ اقبال سے اسی محبت کے نتیجے میں انھوں نے اقبالیات پر ایک عمدہ کتاب تصنیف کی ہے۔

اقبال کے فکر وفن پر لکھنے والوں نے ان کے فکر وشعر کی گونا گوں تعبیریں کی ہیں  مگر محمد الیاس صاحب نے کہا ہے کہ :’’اسباب ِ زوالِ امّت ِ اسلامیہ نے اقبال کا سینہ داغ داغ کر دیا تھا۔ اور ان کی شاعری سوز ودرد مندی کے انھی داغوں کی بہار ہے‘‘۔ انھوں نے اقبال کی شاعری کا مطالعہ  فہم وشعور سے پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم، قرآن حکیم کے ذہین طالب علم تھے اور اقبال سے بھی محبت رکھتے تھے۔ انھوں نے ایک جگہ کہا ہے کہ ’’اقبال کا فکر جتنا بلند تھا، ان کا عمل اس اعتبار سے بہت ہی نیچے تھا ‘‘۔ محمد الیاس صاحب نے ڈاکٹر صاحب کی اس راے کو قبول نہیں کیا۔ لکھتے ہیں: ’’اگر ڈاکٹراسرار احمد مرحوم ومغفور زندہ ہوتے تو میں ہاتھ باندھ کر، ان سے عرض کرتا کہ اس تبصرے کو واپس لے لیں ‘‘ (ص۵۵۵)۔ دوسری جانب ان کے خیال میں سیدمودودی ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے اقبال کو سمجھنے میں غلطی نہیں کی۔

مختلف عنوانات کے تحت رقم شدہ اس کتاب کے اٹھارہ مضامین مل کر اقبال کی سچی اور کھری تصویر پیش کرتے ہیں۔( رفیع الدین ہاشمی )


تعارف کتب

  •  مطلوبہ تمدّ نی رویے ، شگفتہ عمر۔ ناشر : مکتبہ راحت الاسلام، مکان ۲۶، سٹریٹ ۴۸، ایف ۴/۸ ،  اسلام آباد۔ صفحات :۴۴۔ قیمت : ۱۰۰ روپے۔[یہ مختصر کتابچہ سیرتِ طیبہ کی روشنی میں مطلوبہ تمدنی طرزِ عمل اور رویّوں کی نشان دہی کرتا ہے اور رہنمائی دیتا ہے کہ بحیثیت انسان ہمیں کس قدر شائستگی اور تہذیب سے کام لینا چاہیے۔ تذکیر کے لیے یہ نہایت مفید کتابچہ ہے۔]
  • عشق کی نگری ، شمیم عارف ۔ ناشر : زیڈ ٹو اے پبلشر، وکٹوریہ پارک ، دی مال ، لاہور۔ صفحات :۴۸۔ قیمت : ۱۵۰ روپے۔[حج کا ایک مختصر سفر نامہ جس میں سادگی سے احساسات ، جذبات اور واردات ِ قلب کو بیان کیا گیا ہے۔ بالخصوص ان رویوں کی عکاسی کی گئی ہے جن کے تحت لوگ معمولی معمولی باتوں پر بے صبری اور جذباتی پن کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اس بات کو پیش نظر نہیں رکھتے کہ وہ کتنے اعلیٰ مقاصد اور کس مقدس فریضے کی ادایگی کے لیے آئے ہیں۔ حج پر جانے والوں کے لیے تجربے کی باتیں بھی بیان کی گئی ہیں جو مفید عملی رہنمائی ہے۔ ]
  • لے سانس بھی آہستہ ، تسنیم جعفری ۔ ناشر: اردو سائنس بورڈ ، ۴۹۹ ۔ اپر مال ، لاہور۔ فون : ۹۹۲۰۵۹۶۹ ۔ صفحات :۱۲۵۔ قیمت :۲۸۰ روپے۔[ تسنیم جعفری بچوں کے لیے سائنس فکشن کے حوالے سے معروف ہیں۔ اردو سائنس بورڈ اس حوالے سے ان کی چار کتب شائع کر چکا ہے۔ زیر نظر کتاب     فضائی آلودگی کے موضوع پر ہے۔ مصنفہ نے مستقبل میں فضائی آلودگی کے سلسلے میں درپیش مسائل پر عام فہم ، دل چسپ اور سائنسی انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ کتاب میں جدید سائنسی تحقیقات کے علاوہ یہ قیمتی معلومات بھی دی گئی ہیں : دماغ لکھے گا او ر جِلد سنے گی، چین میں آکسیجن کیفے اور فریش ائیر سٹیشن ، اب ریلیں بھی ہوا سے چلیں گی، ہوا سے پانی بنایا جائے گا، پاکستان میں دنیا کا بڑا سولر پاور پارک وغیرہ ۔]
  •  سہ ماہی الامام ، کراچی۔ نگران: مولانا حبیب احمد، مدیر:سیّد محمد کشف قیصر۔ معاونین:سیّد محمد ارسلان، محمدشہود اکرم۔ پتا: جامعہ الامام نعمان بن ثابت، ایس ٹی ، بلاک ۱۶، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ [یہ جامعہ، بچوں کی دینی اور دُنیاوی تعلیم کا ایک قابلِ قدر ادارہ ہے، جہاں تعلیم و تربیت کے ساتھ بچوں کی تحریری اور تقریری صلاحیتوں پر خاص طور پر توجہ دی جاتی ہے۔ اس سہ ماہی خبرنامے اور رسالے کا اجرا بھی اسی سمت میں ایک مبارک قدم ہے۔ جامعہ کی ترقی میں اساتذہ کی محنت اور طلبہ کی لگن قابلِ تحسین ہے۔]

رسولِ رحمتؐ ، مکہ کی وادیوں میں(جلددوم )، حافظ محمد ادریس ۔ ناشر: مکتبہ معارفِ اسلامی، منصورہ، ملتان روڈ لاہور۔فون: ۳۵۴۳۲۴۷۶-۰۴۲۔ صفحات :۴۶۴۔ قیمت :۴۵۰ روپے۔

جلد اوّل کے تسلسل میں ،زیرِ نظر دوسری جلد سات ابواب پر مشتمل ہے۔ اس جلد میں ہجرتِ حبشہ (اوّل و دوم )، حضرت حمزہ ؓ ، حضرت عمر ؓ ،حضرت ابو ذر غفاری ؓ ،حضرت ضماد بن ثعلبہ ؓ ، حضرت طفیل بن عمرو دوسی ؓ کا قبولِ اسلام ، شعبِ ابی طالب ، عام الحزن ، سفرِ طائف ، سفرِ معراج، بیعتِ عقبہ ( اوّ ل ودوم )، ہجرت مدینہ ، مسجد نبوی کی تعمیر، اصحابِ صفّہ ، اذان اور نماز ، نمازِ جمعہ کی فرضیت اور اہمیت ، رمضان کے روزے اور عیدین ، تحویلِ قبلہ اور اسلامی تقویم کے موضوعات پر تحقیق کے ساتھ بات کی گئی ہے۔ہر باب متعدد ضمنی سرخیوں میں منقسم ہے۔ احادیث اور اشعار کے حوالے بھی دیے گئے ہیں۔ اقبال اور حفیظ جالندھری کا کلام، اسی طرح نقشے اورکہیں کہیں تصاویر بھی شامل ہیں۔ جیسا کہ مؤلف نے بتایا ہے کہ پہلی دو جلدیں مکی زندگی کے چند واقعات پر مشتمل ہیں لیکن بعض موضوعات کی مزید وضاحت کے لیے مدنی زندگی کے چند واقعات بھی شامل کیے گئے ہیں۔

 مکتبہ معارف اسلامی نے کتاب اہتمام سے شائع کی ہے۔ مؤلف کے لیے باعثِ اجر اور کتب سیرت کے اردو ذخیرے میں ایک قابلِ لحاظ اضافہ ہے۔ ( رفیع الدین ہاشمی )


جلووئوں کا نہیں ٹھکانہ ، ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی ۔ ناشر: جہانِ حمد پبلی کیشنز ، نوشین سنٹر ، دوسری منزل ، کمرہ نمبر ۱۹ ، اردو بازار کراچی ۔ صفحات : ۲۹۷۔ قیمت : ۶۰۰ روپے۔

پاکستان ، بھارت اور غیر ممالک میں مقیم دونوں ملکوں کے مسلمانوں پر مشتمل جہانِ اردو سے ہر سال کم وبیش دو تین لاکھ خواتین وحضرات فریضۂ حج ادا کرتے ہوں گے لیکن حج کے سفرنامے سال میں فقط دو یا تین ہی سامنے آتے ہیں۔ اس برس شائع ہونے والے سفر ناموں میں زیرنظر ’ سفرنامہ با تصویر ‘ بہت خوب صورت ہے اور نئی پرانی تصاویر کی شمولیت نے سفرنامے کی خوبیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ ڈاکٹر سلیس سلطانہ نامور قلم کار ہیں۔ انھوں نے آپ بیتی (مشاہدات) کے تاثرات کے ساتھ ساتھ مناسکِ حج وعمرہ کے بارے میں ہر طرح کی معلومات کے ذریعے قارئین کی رہنمائی بھی کی ہے۔

دراصل یہ ان کے عمرے اور حج کے متعدد اسفار (۱۹۹۳ء، ۱۹۹۵ء،۱۹۹۸ء، ۲۰۰۱ء، ۲۰۰۲ء ، ۲۰۰۶ء ، ۲۰۰۷ء ، ۲۰۰۸ء ، ۲۰۰۹ء ، ۲۰۱۰ء ) کے مشاہدات کا مجموعہ ہے۔   حرمین شریفین کے ایک درجن اسفا ر کے نتیجے میں عمرے اور حج کے فوائد اور مسائل ومشکلات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے اور ایسے پہلوئوں سے بھی واقفیت ہو جاتی ہے جو ایک دو بار سفر کرنے والوں کی نگاہ میں نہیں آتے ۔

کتاب میں جناب نعیم صدیقی اور مظفر وارثی کی نعتیں اور سید نفیس الحسینی کی الواداعی نظم بھی شامل ہے۔ ( رفیع الدین ہاشمی )


جنرل محمد ضیاء الحق ، شخصیت اور کارنامے، ضیاء الاسلام انصاری۔ ناشر: مکتبہ راحت الاسلام، مکان نمبر ۲۶، سٹریٹ نمبر ۴۸،ایف ۸/۴، اسلام آباد ۔ صفحات : ۳۶۵۔ قیمت :۱۲۰۰ روپے ۔

جنرل محمد ضیاء الحق (۵ جولائی ۱۹۷۷ء-۱۷ ؍اگست ۱۹۸۸ء ) ایک فوجی آمر تھے مگر اسلام ، پاکستان اور ملتِ اسلامیہ کے لیے درد مندانہ جذبات رکھتے تھے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ افغانستان میں روسی فوجوں کی شکست اور اسی کے نتیجے میں سویت یونین کا خاتمہ ہے۔  گرم پانیوں تک رسائی روسیوں کا پرانا خواب تھا۔ افغانستان میں فوج کشی اسی خواب (منصوبے) کو رُوبۂ عمل لانے کی ایک کاوش تھی۔سوپر پاور ، سویت یونین کے سامراجی کردار کا بت ضیاء الحق نے توڑا۔

زیر نظر کتاب کے مصنف لکھتے ہیں: ’۱۷ ؍اگست ۱۹۸۸ء کو جب طیارے کے حادثے میں جنرل محمد ضیاء الحق صدر پاکستان اپنے ۲۶ فوجی رفقا اور دیگر افراد کے ساتھ جاں بحق ہو گئے تو پوری دنیا میں کس شدت وجذبات کے ساتھ اس سانحے پر رنج وملال اور غم واندوہ کا اظہار ہو ا تھا کہ دنیا بھر میں فوجی پرچم سرنگوں کر دیے گئے تھے۔ کہیں ایک روز ، کہیں تین روز اور کہیں دس روز تک سوگ منایا گیا۔ پورا عالم اسلام سوگوا ر اور غم گسار تھا۔ اور ۲۰ ؍اگست کو جب جنرل ضیاء الحق کو سپردخاک کیا گیا تو دُنیاکے ۷۰ سے زائد ممالک کے سربراہ بشمول وزیر خارجہ ریاست ہاے متحدہ امریکا ، تدفین کی رسوم میں شرکت کے لیے فیصل مسجد کے زیر سایہ موجود تھے‘۔ (ص ۱۲)

مصنف ایک نام وَر صحافی تھے۔ وہ جنرل کے بہت قریب رہے۔ انھیں شکوہ ہے کہ ’عہدساز شخصیت‘ کے کارناموں کا اعتراف نہیں کیاگیا ۔ یہ کتاب مصنف نے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے لکھی ہے۔ زیر نظر، کتاب کا ساتواں نظر ثانی شدہ اڈیشن ہے۔ مصنف کہتے ہیں : ’’میں نے دیانت داری کے ساتھ کوشش کی ہے کہ کوئی خلافِ واقعہ بات شامل نہ ہو، نہ کسی معاملے میں مبالغہ آرائی کی جائے ‘‘ (ص ۲۱)۔ ان کا خیال ہے کہ’’ ضیاء الحق کا چیف آف دی آرمی سٹاف کے عہدے پر مقرر ہونا مشیتِ ایزدی کا ایک خصوصی اعجاز تھا ‘‘ (ص ۲۴۵)۔ اپنے موضوع پر معلومات افزا اور دل چسپ کتاب ہے۔

 بہت سی تصاویر اور دستاویزات بھی شامل ہیں۔ (رفیع الدین ہاشمی )


مولانا عبدالرحیم اشرف ، حیات وخدمات (جلد اوّل)، مرتب : ڈاکٹر زاہد اشرف ۔ ناشر:مکتبہ المنبر، فیصل آباد ۔ ملنے کا پتا:ـ کتاب سرائے اردو بازار لاہور ۔ فون:  ۳۷۳۲۰۳۱۸-۰۴۲۔ صفحات : ۴۳۲۔ قیمت :درج نہیں ۔

مولانا عبدالرحیم اشرف (م: ۱۹۹۶ء ) غالباً ماچھی گوٹھ کے بعد جماعت اسلامی سے الگ ہو گئے تھے ۔ ان کی بقیہ زندگی تبلیغی ودعوتی ، تعلیمی وتربیتی ، اور طبی سرگرمیوں میں گزری ۔ ان کے لائق فرزند ڈاکٹر زاہد اشرف نے مرحوم کے متعلق مختلف اہل قلم کے طویل ومختصر مضامین ، تاثرات ، پیغامات اور منظومات پر مشتمل زیر نظر مجموعہ شائع کیا ہے جس سے مرحوم کی شخصیت اور خدمات کا بخوبی اندازہ ہو تا ہے ۔ مرتب نے بتایا ہے کہ اس سلسلے کی تین مزید جلدیں شائع ہو ں گی۔

دوسری جلد مولانا عبدالغفار حسن ، مصطفیٰ صادق ، محمد افضل چیمہ ، راجا محمد ظفر الحق وغیرہ کے گیارہ مصاحبوں (انٹرویو) پر مشتمل ہو گی۔ تیسری جلد میں شعبہ ٔ طب سے منسلک حضرات کے مضامین شامل ہوں گے۔ اور چوتھی جلد مرحوم کے اہل خانہ کے تاثرات ومشاہدات پر مبنی تحریروں کا مجموعہ ہو گی۔

کتاب کی طباعت واشاعت سے مرتب کی خوش ذوقی کا اندازہ ہوتا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی )


مولانا عبیدا للہ سندھی ودیگر مشاہیر ، علامہ غلام مصطفیٰ قاسمی ، مرتب :محمد شاہد حنیف ۔ ناشر: علامہ غلام مصطفیٰ چیئر، سندھ یونی ورسٹی، جام شورو (سندھ )۔ صفحا ت : ۳۰۲۔ قیمت : ۴۰۰ روپے۔

 علامہ غلام مصطفی قاسمی سند ھ کے نامور عالم تھے۔ حضرت شاہ ولی اللہ کے مدّاح تھے اور عبید اللہ سندھی کو اپنا ’شیخ‘مانتے تھے۔ عبیداللہ سندھی کئی برس روس اور پھر استنبول میں مقیم رہے۔ وہ روس کے اشتراکی اور ترکی کے کمالی انقلاب سے بہت متاثر تھے۔مصنف نے مولانا عبیداللہ سندھی کی ’انقلابی جدوجہد‘ کو اُجاگر کیا ہے۔ ان کے بقول ’’مرحوم کی ساری زندگی سراپا انقلاب تھی‘‘۔(ص۲۹)

قاسمی صاحب کے خیال میں عبیداللہ سندھی کے افکار غلام رسول مہر کے توسّط سے علامہ اقبال تک پہنچے تھے۔ چنانچہ خطبۂ الٰہ آباد میں علامہ نے مفکر علامہ عبیداللہ سندھی کے پروگرام کی بعض اہم باتوں کا بھی ذکر کیا‘‘ (ص۳۰)۔درحقیقت عبیداللہ سندھی کی آنکھیں روسی اشتراکی انقلاب اور ترکی کے کمالی انقلاب سے چند ھیا گئی تھیں۔مولانا مسعود عالم ندوی نے اپنی کتاب مولانا عبیداللہ سندھی کے افکار وکمالات پر ایک نظر میں بتایا ہے کہ ان کے فلسفے کی معجون میں کچھ زہریلے اجزا بھی موجود ہیں‘‘ مثلاً :اکبر کے دینِ الٰہی کی مدح سرائی، عربی رسم الخط کے بجاے رومن رسم الخط کی ترویج ، نیشلزم پر فخر اور انگریزی لباس پہننے کی تلقین وغیرہ۔

زیر نظر کتاب کے حصہ اوّل میں ان کی شخصیت اور کارناموں پرمصنف کے ۱۵مضامین اور شذرے شامل ہیں۔ دوسرا حصہ ۵۰سے زیادہ قدیم وجدید علما ومشاہیر پر مضامین وشذروں پر مشتمل ہے اور تیسرے حصے میں قاسمی صاحب کی ایک خود نوشت اور چار سفر ناموں کو جمع کیا گیا ہے۔ مرتب نے ایک مفصل اشاریہ بھی ترتیب دیا ہے ۔ زیر نظر کتاب کی ترتیب وتدوین ایک بڑی اہم علمی خدمت ہے۔(رفیع الدین ہاشمی  )

ناموسِ رسالت ؐ، مغرب اور آزادیِ اظہار،مرتبہ: متین خالد۔ناشر: علم وعرفان پبلشرز، الحمدمارکیٹ، ۴۰ -اُردو بازار ،لاہور۔ صفحات :۳۹۷۔قیمت : ۸۸۰ روپے ۔

قادیانیت (کے موضوع ) کے حوالے سے محمد متین خالد کا نام اس قدر معروف ہے کہ   ان کے تعارف کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔ انھوں نے مسئلہ ختم نبوت اور فتنۂ قادیانیت پر  مختلف زاویوں سے معرکہ آرا تصانیف وتالیفات پیش کی ہیں۔ زیر نظر کتاب اگرچہ اپنے مندرجات اور مباحث کے اعتبار سے بہت متنوع اور وسعت کی حامل ہے، اس کے باوجود انھوں نے بیسیوں موضوعات کو ناموسِ رسالتؐ سے منسلک کر کے پیش کیا ہے۔ سرورق پر موضوعِ کتاب کی توضیح   ان الفاظ میں دی گئی ہے: ’اسلام اور ناموس ِرسالتؐ کے خلاف مغرب کے تعصّب، دُہرے معیار اور بھیانک سازشوں پر مبنی تحقیقی دستاویز___ ناقابلِ تردید حقائق، تہلکہ خیز واقعات ، ہوش ربا انکشافات‘‘۔

مؤلف نے بڑی محنت کے ساتھ مختلف کتابوں ، رسالوں اور اخبارات (کی خبروں اور کالموں) سے ایسے واقعات، تبصرے اور لکھنے والوں کے مشاہدات اور بعض اداروں کی رپورٹیں جمع کر دی ہیں جن سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مغرب کی تنگ نظری ، تاریک خیالی، اندھے تعصّب اور دُہرے معیار کا اندازہ ہوتا ہے اور اس کی نام نہاد روشن خیالی، روا داری اور عدم برداشت کے دعوئوں کی حقیقت بھی ظاہر ہوتی ہے۔ مصنف نے یہودیوں اور انتہا پسند ہندوئوں کی مسلم دشمنی کو بھی تذکرۂ مغرب سے منسلک کیا ہے۔ مغربیوں کی دیگر خرابیوں (کرپشن ، بددیانتی ، فریب کاری ، بدعہدی، نام نہاد آزادیِ اظہار ، ہم جنسیت ، اور قتل وغارت گری ) کا تذکرہ بھی کتاب میں شامل ہے۔

کتاب ایک مسلسل مضمون کی شکل میں ہے۔زمانی ترتیب کے بغیر ،مصنف کو جو مواد میسر آتا گیا ، وہ کتاب میں جمع کرتے گئے۔ اپنے موضوع پر یہ ایک مفید کتاب ہے ۔(رفیع الدین ہاشمی)  


  دستک، مصرف، شاہ نواز فاروقی۔ ناشر: اسلامک پبلی کیشنز ، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ صفحات: (علی الترتیب): ۲۳۲،۲۳۲۔ قیمت (علی الترتیب) : ۲۶۰، ۲۶۰ روپے ۔

پاکستان کی اردو صحا فت میں کالم نگاری کو گذشتہ ایک دو عشروں میں بہت فروغ ملا ہے مگر بیش تر کالم نگاروں کی تحریریں پڑھتے ہوئے مرزا غالب کا یہ مصرع ذہن میں گونجتا ہے  ع

ہر بُل ہوس نے حسن ِ پرستی شعار کی

اگر آپ بُل ہوسی سے بالاتر کالم نگاروں کو تلاش کریں تو بہ مشکل وہ انگلیوں پر گنے جا سکیں گے۔ شاہ نواز فاروقی انھی منفرد اور صاحب ِاسلوب کالم نگاروں میں شامل ہیں۔ زیر نظر دونوں کتابوں میں جون ۱۹۹۹ء سے اکتوبر ۱۹۹۹ء تک کے کالم شامل ہیں۔ شاہ نواز فاروقی، ایک صاحبِ ایمان، بامطالعہ اور تجربہ کار صحافی ہیں۔ سلیقے سے بات کرنے کا ڈھنگ جانتے ہیں۔ وہ نہ صرف یہ کہ اسلام اور پاکستان بلکہ اسلامی نشاتِ ثانیہ کے مجاہدین (ٹیپو سلطان، اورنگ زیب عالم گیر، حضرت شاہ ولی اللہ، سیّد احمد شہید، شاہ اسماعیل شہید ، علامہ اقبال ، قائد اعظم ، سید ابوالاعلیٰ مودودی ) پر تنقیدکرنے والوں کی خبر لیتے ہیں، بلکہ سیکولر اور لبرل نظریات کے علَم بر دار نام نہاد دانش وَروں کی تضادبیانی کو بھی بے نقاب کرتے ہیں۔ سیاست دان ہویا دانش ور یا کوئی بڑا منصب دار گروہ ،جب کوئی کمزور بات کرے گا، فاروقی صاحب کی گرفت سے بچ نہیں سکے گا۔

تقریباً ۲۰سال پیش تر انھوں نے نواز شریف کی شخصیت کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا تھا: ’’اور ہم نے انھی کالموں میں عرض کیا تھا کہ میاں صاحب ایک بڑے امریکی ایجنڈے کے ساتھ اقتدار میں لائے گئے ہیں اور فوج کو ہدف بنانا اس ایجنڈے کا اہم حصہ ہے‘‘۔ (۳۰ ؍اکتوبر ۱۹۹۹ء)

مذہب ، ایمان اور تقویٰ کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ: ’’یہ شکایت عام ہے کہ حاجیوں اور نمازیوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ مبلغین اسلام کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے لیکن ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی پر اس کا کوئی اثر نظر نہیں آتا ۔ کیو ں؟ اس لیے کہ دین کی کلیت کا تصور لوگوں کے ذہنوں سے محو ہو گیا ہے‘‘ (ص ۳۸)۔ اور اس لیے بھی کہ مذہبی مسلمان بھی ’اپنی پوری زندگی کو دین کے حوالے ‘نہیں کرتے۔

فاروقی صاحب کے کالم بہت متنوع ہیں: پاکستان ، بھارت ،چین، امریکا، افغانستان : باہمی قربت اور فاصلے، عالمی سیاست ، ہماری مذہبیت، جماعت اسلامی کی ’امن دشمنی‘، ذرائع ابلاغ ، کھیل اور ہم، دوستووسکی، خود کشیوں کی لہر وغیرہ ۔ شاہ نواز فاروقی کے کالم قاری کے ذہن کو ایک اطمینان، سرخوشی اور یقین سے سرشار کرتے ہیں۔ ان کا استدلال اور اسلوب قاری کو ان کے موقف کا قائل کر کے ہی چھوڑتا ہے۔

شاہ نواز فاروقی کی تحریریں ہمارے رویوں پر تنقید کے ساتھ سلامتی کا راستہ بھی سجھاتی ہیں اور یوں موجودہ اجتماعی بحران سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے ہماری رہنمائی بھی کرتی ہیں۔ طباعت واشاعت عمدہ اور قیمت بہت مناسب ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی )


An Ordinary Man's Guide to Radicalism: Growing up Muslim in India ، [ریڈیکلزم پر ایک عمومی گائیڈ: بھارت میں آج بڑھتے ہوئے مسلمان]، نیازفاروقی۔ ناشر: کونٹیکسٹ بکس، ویسٹ لینڈ پبلی کیشنز، نئی دہلی، ۲۰۱۸ء۔ صفحات: ۳۰۷۔ قیمت: ۴۹۹  بھارتی روپے ۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی کے اطراف (اوکھلا اور جامعہ ملّیہ) کی مسلم آبادی کو بھارت کے اکثریتی ہندو طبقے نے ایک ’خطرہ‘ بنا رکھا ہے، جس کا بے جا اظہار گاہے گاہے بھارتی سیاسی رہنما، میڈیا اور بے جا طور پر عام ہندو بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں کی بیش تر مسلم آبادی کو روزانہ ہی ایسی ذہنیت سے ملے جلے غصے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پھر آٹو رکشہ ، بنک بلکہ پیزا کمپنی کے کارندے بھی ان کی درخواستوں کو کئی مرتبہ نفرت سے مسترد کر دیتے ہیں ۔ اسی ذہنیت کے تابع اَن کہی اور من گھڑت کہانیاں بھی اس علاقے کو ایک ’دیو‘ اور ’عفریت‘ کی شکل میں پیش کرتی ہیں۔ علاقے میں ہر وقت پولیس فورس کی تعیناتی ڈر اور خوف کے ماحول کو مزید خوف ناک اور دہشت زدہ کرتی ہے۔

نیاز فاروقی کی یاد داشتوں پر مشتمل یہ کتاب دراصل اسی مسلم اکثریتی علاقے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر (۱۹ستمبر ۲۰۰۸ء) کے بعد علاقے میں رہنے والے مسلم نوجوانوں اور طالب علموں کو درپیش چیلنجوں اور ان کی ذہنی کیفیت کا اظہار ہے۔ کتاب کی تمہید میں اس بات کا ذکر ہے کہ اندرون بھارت دُور دراز دیہات و قصبات اور چھوٹے شہروں سے مسلم نوجوان جو اپنی تعلیم یا روزگار کی غرض سے دہلی آتے ہیں، ان میں سے کثیر تعداد جامعہ نگرکے علاقے کو اپنا مسکن بناتے ہیں۔ مصنف کا آبائی وطن بیرام، گوپال گنج، بہار ہے اور حصولِ تعلیم کی غرض سے جامعہ نگر میں بہت ہی کم عمری سے سکونت پذیر ہیں۔نیاز فاروقی نے بتایا ہے کہ میرے دادا نے علّامہ اقبال کی نظم ’بچے کی دُعا‘ کے ساتھ ساتھ کبیر کی شاعری کے بارے میں بھی بچپن میں بتایا تھا۔مصنف نے اپنی کہانی کے ذریعے  مسلم نوجوانوں کے دکھ درد ،غم و غصے، تجربات اور مشاہدات کو بہت ہی سادہ اور مؤثر انداز تحریر میں پیش کیا ہے۔

سیاست اور میڈیا کی ملی بھگت نے اپنی چالاکی اور منصوبہ بندی سے بٹلہ ہائوس کے ایک مشکوک انکاؤنٹر کو عام ہندوئوں کے ذہنی خوف کا مستقل حصہ بنا دیا ہے۔ کتاب نے پولیس اور میڈیا کی گمراہ کن کہانی پر بڑے ماہرانہ انداز میں پیشہ ورانہ سوالات اُٹھا کر بتایا ہے کہ: ’’بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر پر میڈیا کی متعصبانہ اور جانب دارانہ رپورٹنگ دیکھ کر مَیں نے بایو سائنس کے کیریئر کو ترک کرکے خارزارِ صحافت کارُخ کیا، تاکہ ان باشندگان کی آواز بنوں، جن کی آوازوں کو میڈیا شوروغوغا میں دباکر منفی انداز میں پیش کرتا ہے‘‘۔ مصنف ہندستان ٹائمز کے اسٹاف ایڈیٹر رہے، پھر نیویارک ٹائمز اور الجزیرہ کے لیے بھی رپورٹنگ کی۔

 زیر نظر کتاب کے کچھ بہت ذاتی اور غیرمتعلق حصوں کو نظرانداز کر دیا جائے تو یہ ہر اس مسلم نوجوان کی آپ بیتی ہے، جس نے اس خوف ناک اور دہشت زدہ ماحول کا تجربہ اور مشاہدہ کیا ہے۔ یوں اس کتاب نے آپ بیتی کو جگ بیتی بنانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ مصنف کی یہ تخلیقی اور تحقیقی خدمت آج بھارت میں بسنے والے ہر مسلمان نوجوان کے کرب ، بے چینی اور گھٹن کی زندہ تصویر ہے کہ صفحۂ قرطاس پر لفظوں کی صورت گری سے فاروقی نے پوری دُنیا کو یہ بتایا ہے کہ: ’دیکھو میری اصلی تصویر یہ ہے، نہ کہ وہ تصویر جسے متعصب بھارتی میڈیا نے تخلیق کیا ہے جسے فرقہ وارایت اور نسل پرستی کے رسیا تنگ نظر و تنگ دل دانش وروں اور سیاست دانوں نے ہمارے رہایشی علاقوں، کھانے پینے کی عادات اور پہناووں کی بنیاد پر، دوسرے شہریوں کے سامنے بھیانک انداز سے پیش کیا ہے‘۔

 یہ کتاب بھارتی مسلم نوجوانوں کو اپنی صداے بازگشت کی طرح محسوس ہوگی اور بھارت کے عام لوگوں کو بھی۔ اسی طرح مسلمانوں کے دُکھ اور کرب کو سمجھنے میں معاون ثابت گی۔(ادارہ)

سفرِ سعادت، مہر محمد بخش نول۔ناشر :بہاول چناب پبلشرز، ۹بی سی بغداد، بہاول پور۔ صفحات :۱۵۲۔ قیمت :۶۰۰ روپے ۔

 مؤ لف نے اپنے حرمین شریفین کے دو اسفار کی اس رُوداد ( ’عقیدت ومحبت کا سفر ‘)کو    غیر معمولی اہتمام اور کاوش کے ساتھ نہایت خوب صورت انداز میں شائع کیا ہے۔

سرکاری ملازمت سے سبک دوشی(۲۰۰۵ء ) کے بعد سفر عمرہ (۲۰۱۱ء) اور سفر حج وعمرہ (۲۰۱۳ء) کی یہ رُوداد ،بہاول پور سے شروع ہوتی ہے ۔ لکھتے ہیںـ: ’’حج کے لیے رقم نہیں تھی زادِ راہ تو ایک طرف، درخواست جمع کرانے کے لیے لاکھوں روپے کہاں سے آئیں گے، لیکن انسان جب نیت کر لے تو اللہ رحمان ہے، رحیم ہے، وہی اسباب اور راستے کھول دیتا ہے‘‘۔ (ص۱۱)

 مؤلف کا اسلوب رُوداد نویسی عام سفر ناموں سے خاصا مختلف ہے۔ مثلاً: مکہ مکرمہ پہنچ کر عمرے کی رُوداد مختصراً بیان کرنے کے بعد، وہ حال سے ماضی کی طرف پلٹتے ہیں ۔وادی بے آب وگیاہ میں حضرت ہاجرہ ؓ کی آمد ، آب زم زم ، بیت اللہ پر اَبرہہ کے حملے، مختلف زمانوں میں خانہ کعبہ کی تخریب وتعمیر ، اس کے ساتھ خانہ کعبہ کا مفصل تعارف (حطیم، میزاب ِ رحمت، اندرونی منظر اور چھت، رکنِ یمانی ، ملتزم، غلافِ کعبہ، حجرِ اسود ) میقات، دارِارقم ، نہر زبیدہ، دارالندوہ، جنت المعلّٰی ___ ان سب کی تفصیل بیان کرنے کے بعد، وہ مختلف ممالک کے حجاج کرام سے ملاقاتوں اور تبادلۂ خیال کی رُوداد بیان کرتے ہیں۔ یہ تاثرات بھی بہت دل چسپ ہیں۔ مدینہ منورہ پہنچ کر پھر اسی طرح حرم نبویؐ، مدینہ کے قابلِ ذکر مقامات ومساجد کی رُوداد ِ زیارت۔

سفر نامے میں نئی پرانی نادرونایاب تصاویر دی گئی ہیں اور مختلف مواقع اور مقامات کی دعائیں بھی۔ آیاتِ قرآنی اور ان کے ترجمے کا بھی اہتمام ہے۔ یہ ایک اچھی رہنما کتاب بھی ہے ۔ مؤلف کا ذوق جمال قابلِ داد ہے ۔ اسلوب سیدھا سادہ اور دل نشین ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


تحصیل، مجلہ ۲، مدیر: معین الدین عقیل۔ ناشر : ادارہ معارف اسلامی، ڈی ۳۵، بلاک۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی- ۷۵۹۵۰۔ فون: ۳۶۳۴۹۸۴۰-۰۲۱۔ (مجلاتی سائز) صفحات: اُردو ۱۹۸+ انگریزی۱۱۶ ۔

زیرتبصرہ مجلے پر کوئی راے دینے سے پہلے ایک اقتباس پیش خدمت ہے، جو ادارہ معارف اسلامی کراچی کے مؤسس سیّدابوالاعلیٰ مودودی کے خطبے سے لیا گیا ہے۔ یہ خطبہ انھوں نے اس ادارے کی تاسیس کے وقت بیان فرمایا تھا:

اس سلسلے میں یہ بات وضاحت طلب ہے کہ علمی تحقیقات کس نوعیت کی ہمیں مطلوب ہیں؟ ایک تو وہ ریسرچ ہے جومغربی محققین ہم کو سکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ ایک بے مقصد اور بے رنگ ریسرچ، محض ریسرچ براے ریسرچ ہے۔ مثلاً کتابوں کو ایڈٹ کرنا، ان کے مختلف نسخوں کا مقابلہ کرکے ان کی عبارتوں کے فرق کو پرکھنا اور مصنّفین کی سنینِ وفات و پیدایش کو جمع کرنا اور اسی قبیل کی جو ریسرچ ہے، وہ بے مقصد اور  بے معنی ریسرچ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ علوم و فنون میں مددگار ہوتی ہے، لیکن بجاے خود یہ وہ ریسرچ نہیں ہے جو کسی قوم کو زندگی کی حرارت عطا کرے، اور حیات کی حرکت پیدا کرے۔ یہ ٹھنڈی اور بے معنی ریسرچ ہے۔ اہلِ مغرب ایک ریسرچ اور کرتے ہیں۔ وہ محرک قسم کی ریسرچ ہے۔ وہ اس مقصد کے لیے ہے کہ اُن کے پاس وہ طاقتیں فراہم ہوں، کہ جوان کو دُنیا پر غالب کرسکیں۔(ماہ نامہ چراغِ راہ، کراچی، جون ۱۹۶۷ء، ص ۹)

اس اقتباس کی روشنی میں، ۳۱۴صفحات پر مشتمل زیرنظر مجلہ تحصیل کو دیکھیں تو کم و بیش مذکورہ ہدایت کے برعکس دکھائی دیتا ہے۔ جو چیز اس ادارے کی جانب سے پیش کرنا تھی، وہ اس مجلّے میں موجود نہیں، اور اگر موجود ہے تو اس کی سطح توقعات سے مناسبت نہیں رکھتی۔

یہ مجلہ ادبیات و سماجیات سے متعلق یونی ورسٹیوں اور کالجوں کے اساتذہ کے ’فارمولا ٹائپ‘ مقالات پر مشتمل ہے۔ مضامین کے عنوانات سے بلاتبصرہ مجلے کا رُخ سمجھنا آسان تر ہے: lگنجینۂ معنی کا طلسم، رنگا رنگ معنویت کی دریافت l سیّد علی رضا نقوی: لائق فارسی تذکرہ شناس اور فائق لُغت نگار lانیسویں صدی میں اُردو تاریخ گوئی l عبدالرحیم خان خاناں، ہندوتوا کا پرچار l گیان چند جین کی اَشک شناسی اور ناول گرتی دیواریں l  یاقوت l  فہرست نویسی نسخہ ہاے خطی فارسی l جامعات میں اُردو تحقیق، کچھ تسامحات، کچھ استدراکات l  انیسویں صدی کا ہندستان ، جدید مؤثر اسلامی تحریکات l تحفۃ الہند___ انگریزی میں: مسلم تہذیب کے زوال کے اسباب l  داؤ رہبر، ترکی میں اُردو کا پہلااستادl شہدا بالقسط l انگریزی اور پاکستانی کلچر lکیٹلاگ ، فارسی، عربی، سنسکرت۔

ادارہ معارف اسلامی، جو عالمِ اسلامی میں اقامت دین کی جدوجہد سے منسوب ادارہ ہے، اس کا ایک وقیع مجلہ اگر ایسے ہی مندرجات پر زورآزمائی کرے گا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ مطلوب اور منسوب موضوعات پر تحقیق و تجزیہ کہاں ہوگا؟

زیرنظر مجلّے میں براہِ راست اسلامی تحریکات سے متعلق واحد مضمون کی سطح کو سمجھنا یا پرکھنا چاہیں تو دو مثالیں، پیمایش کے لیے کافی ہوں گی۔ لکھا ہے:’’جمال الدین [افغانی] کے دانش ور تلامذہ میں سے ایک حسن البنا بھی تھے، جنھوں نے ’اخوان الصفا‘ کی بنیاد رکھی‘‘ (ص ۱۸۳)۔ امرِواقعہ یہ ہے کہ جمال الدین افغانی کا انتقال ۱۸۹۷ء میں ہوا، اور حسن البنا کی پیدایش ۱۹۰۶ء میں۔ سوال   یہ ہے کہ البنا، افغانی کے شاگردوںمیں کیسے شمار ہوئے؟ اسی طرح ’اخوان الصفا‘ جیسی تصوف و فلسفہ سے منسوب جماعت کی تاسیس پانچویں صدی ہجری/۱۰ویں، ۱۱ویں صدی عیسوی میں ہوئی، جب کہ الاخوان المسلمون کا قیام ۱۹۲۸ء میں عمل میں آیا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ حسن البنا ۲۰ویں صدی عیسوی میں ہوش سنبھال کر، ۱۱ویں صدی میں کوئی تحریک قائم کرلیں؟ ظاہر ہے کہ یہ ادارتی تسامح ہے،    مگر مقالہ نگار نے بھی ’دادِ تحقیق‘ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

اگر واقعی ’فارمولا تحقیق‘ کی اشاعت کا فیصلہ کرلیا گیا ہے، تو اعتراض کی گنجایش نہیں۔ بہرحال، مولانا مودودی نے اس ادارے کی تاسیس مختلف کام کے لیے کی تھی۔اور پھر پروفیسر خورشیداحمد نے بھی تاسیس کے وقت وضاحت فرمائی تھی: ’’ادارہ معارفِ اسلامی، علم و فکر کے میدان میں اسلام  کے دفاع اور اس کی ترجمانی کی کوشش کرے گا‘‘۔(ترجمان القرآن، اگست ۱۹۶۳ء، ص۴۷)

مجلے کا کاغذ سفید ، پیش کش خوب صورت اور اشاعت توجہ طلب ہے۔ (سلیم منصور خالد)

فقہ السنّہ (۲حصے)، سیّد سابق۔ ترجمہ: محمد عبدالکبیرمحسن۔ ناشر: مکتبہ اسلامیہ، حلیمہ سنٹر، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۴۴۹۷۳-۰۴۲۔[صفحات: اوّل: ۶۸۸، دوم:۸۴۸]۔ قیمت مکمل سیٹ: ۳۴۰۰روپے۔

آخرت کی جواب دہی کے احساس سے سرشار ہرمسلمان مرد اور خاتون، بڑا اور چھوٹا یہ چاہتا ہے کہ میں اس فانی دُنیا میں اس طرح زندگی گزاروں کہ آنے والے کل میں، اللہ کے پسندیدہ فرد کی حیثیت سے نامۂ اعمال پیش کرسکوں۔ اس مقصد کے لیے ایک مفتی سے لے کر ایک عام مسلمان تک یہ چاہتا ہے کہ وہ اسلامی شریعت کی منشا جانے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے روشنی لے۔ یہ کوشش دینی سوال و جواب اور فتاویٰ کی صورت میں سامنے آتی ہے۔

زیرنظر انسائی کلوپیڈیائی کتاب ۲۰ویں صدی کے دوران عرب اور غیرعرب دُنیا میں رہنمائی کا بڑے پیمانے پر فریضہ انجام دے چکی ہے، جسے پڑھنا اور اپنے پاس رکھنا ایک اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ سیّدسابق جیسے معروف فقیہہ اور مدبّر (جنوری ۱۹۱۵ء- ۲۷فروری ۲۰۰۰ء) الازہر یونی ورسٹی سے فارغ التحصیل تھے۔ وہ دورِ طالب علمی ہی سے الاخوان المسلمون کے جاں نثاروں کے ہم قدم بن گئے۔ اخوان کے ہزاروں پروانوں کی فقہی تربیت کے لیے السیّد سابق نے اس عظیم کتاب کی ترتیب و تدوین کی ذمہ داری سنبھالی اور بڑی خوبی و کامیابی سے اسے مدون کیا۔

سیّد سابق نے اس ذخیرئہ رہنمائی میں مختلف فقہی مکاتب ِ فکر کے علمی افادات کو ہرذہنی تحفظ سے بالاتر رہ کر پڑھا اور کتاب و سنّت کی روشنی میں پرکھا۔ پھراس مطالعہ و تحقیق اور دینِ اسلام کی حکمت کو بڑی آسانی اور عام فہم زبان میں ڈھال دیا۔

زیرنظر کتاب کا یہ بھی اعزاز ہے کہ ۲۰ویں صدی میں علمِ حدیث کے ماہر ناصرالدین البانی ؒ نے اس کتاب پر نظرثانی کرتے ہوئے اسے بہترین کتاب بھی قرار دیا۔ ڈاکٹر حافظ عبدالکبیرمحسن نے بڑی محنت سے اس کا رواں اور شُستہ اُردو ترجمہ کیا ہے، اور محمد سرورعاصم مدیر مکتبہ اسلامیہ لاہور نے بڑی محبت اور خوب صورتی سے اسے زیورِطباعت سے آراستہ کیا ہے۔

یقینی بات ہے کہ ہر صاحب ِ ذوق اس کتا ب کا استقبال کرے گا۔ یہ کتاب اَب تک انگریزی، فارسی، ترکی، ازبکی، روسی، بوسنیائی، تھائی، ملیالم زبانوں کے علاوہ اُردو میں بھی دو تین مختلف مترجمین کی توجہ اور ترجمانی کا مرکز بن چکی ہے۔(س  م   خ)


سچ تو یہ ہے! از چودھری شجاعت حسین۔ ناشر: فیروز سنز، مین بلیوارڈ، گلبرگ III، لاہور۔      ای میل: support@ferozsons.com۔صفحات:۳۲۷، مجلد(بڑاسائز)۔ قیمت: ۹۹۵ روپے۔

یہ کتاب پاکستان کے سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین کی یادداشتوں پر مشتمل دستاویز ہے۔ ایسی دستاویز کہ جو بے ساختگی اور سادہ بیانی کا نمونہ ہے، جو اپنے آپ کو پڑھواتی اور قاری کو ساتھ چھوڑنے نہیں دیتی۔ اس کا تصویری حصہ خود تاریخ ہے۔ یہ ٹھیرا کتاب کا ایک پہلو۔

اس کتاب کا دوسرا پہلو عبرت ناک،سبق آموز اور صدمہ انگیز ہے۔ زیرتبصرہ کتاب میں ہیرو تو کوئی نہیں، البتہ دو’ولن‘ موجود ہیں: پہلے ’ولن‘ محمد نواز شریف وغیرہ ہیں، جنھیں وعدہ خلافی، طوطا چشمی، کینہ پروری اور ضدی پن کا مجسم نمونے کے طور پر مصنف نے ایک چشم دید گواہ کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ دوسرے ’ولن‘ خود صاحب ِ تصنیف ہیں۔ یہی دکھائی دیتا ہے کہ سیاسی میدان میں مصروف چودھری برادران (شجاعت حسین اور پرویز الٰہی) محض پیغام رسانی کا بوجھ اُٹھانے اور بار بار صدمے برداشت کرنے، مگر غالباً جم کر کھڑا نہ ہونے والی شخصیات رہی ہیں (تاہم، چودھری پرویز الٰہی کا صوبۂ پنجاب میں دورِ حکومت (۲۰۰۳ء-۲۰۰۷ء)، رفاہِ عامہ کے متعدد کاموں کے حوالے سے یادگار رہے گا)۔

پھر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ۲۲کروڑ عوام کا انتہائی نازک دوراہے پر کھڑا ملک ِپاکستان، آمریت اور ’جمہوریت‘ کے دونوں اَدوار میں کسی صورت جمہور عوام کے نمایندوں کی منشا و مرضی کے مطابق نہیں چلتا آرہا، بلکہ دو،تین یا محض چار افراد اس قوم کی قسمت اور بدقسمتی کا فیصلہ کرتے اور کاروبارِ ریاست کو من موجی انداز سے چلاتے ہیں، جب کہ حکومت کے نام سے منسوب ٹولے میں باقی سبھی افراد قوال کے ہم نوا سازندے یا پھر ہم آواز صدا کار ہوتے ہیں، اور عوام بے بسی و بے چارگی کی تصویر۔ صد افسوس! (س  م   خ)

صحیفہ(مکاتیب نمبر حصہ دوم)،جنوری ۲۰۱۷ء تا جون ۲۰۱۷ء۔مدیر: افضل حق قرشی ۔ناشر:  مجلس ترقی ادب ،۲- کلب روڈ لاہور۔ ۵۴۰۰۰۔ صفحات:۵۷۹۔قیمت:۵۸۰ روپے۔

’مکتوب ‘ دیگر زبانوں کے ادب کی طرح اردو ادب میں بھی ایک مسلّمہ صنف ِنثر کی حیثیت اختیار کر چکی ہے اور یہ اس لیے کہ اردو میں مکاتیب ِ مشاہیر کا ذخیرہ مطبوعہ صورت میں روز افزوں ہے ۔ مجلس ترقی ادب لاہور نے اپنے مجلے صحیفہ کے مکاتیب نمبر حصہ اوّل کے بعد، دوسرا نسبتاً ضخیم تر مجموعہ شائع کیا ہے۔(حصہ اوّل پر تبصرہ  در ترجمان :اگست ۲۰۱۷ء )

زیر نظر شمارے میں مدیر کے مطابق چار سو سے زائد مکاتیب شامل ہیں۔ یہ سبھی مکتوب نویس ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ امیر مینائی، اصغر گونڈوی، ڈاکٹر حمید اللہ، سیّد سلیمان ندوی، یاس یگانہ چنگیزی، غلام رسول مہر، عبدالعزیز خالد،مولانا محمدمنظور نعمانی، مشفق خواجہ ، نصراللہ خاں عزیز، عنایت اللہ مشرقی، حکیم محمد سعید، نیّر واسطی وغیرہ۔مکاتیب کی نوعیت اور موضوعات میں خاصا تنوع ہے: زبان وبیان ،محاورہ، لُغت الفاظ کی صحت اور ان کا استعمال، تحقیقی نکات، علمی وادبی مسائل، تاریخی وسماجی موضوعات اور ان سے متعلق استفسارات اور ان کے جوابات۔

یہ خطوط مکتوب نویسوں کی شخصی دل چسپیوں اور ان کے مخصوص اسلوب کے آئینہ دارہیں، اور ان سے پتا چلتا ہے کہ اگلے وقتوں کے بزرگوں کا اسلوب کیا تھا۔ عبدالمجید قریشی کے ۱۴۹ خطوط میں سیرت کمیٹی پٹی کی تاریخ کے حوالے سے، ان خطوں کے مرتب (ڈاکٹر محمد ارشد) لکھتے ہیں: سیرت کمیٹی پٹی کا اہم ترین کارنامہ یہی ہے کہ اس نے یوم میلاد النبی ؐ کو ملکی وبین الاقوامی سطح پرمنانے کی طرح ڈالی اور اسے مسلمانوں اور غیرمسلموں میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وتعلیمات کی اشاعت کا ذریعہ بنایا۔ سیرت کمیٹی کے ترجمان اخبار ایمان نے دینی تعلیمات کی اشاعت کے ساتھ مسلمانوں میں سیاسی بیداری کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کیا (ص ۵۳)۔ lحکیم محمد سعید نے ۱۹۸۶ء میں لکھا: میرا دل بڑا دُکھا ہوا ہے ۔ جغرافیائی حدوں کے اندر اور باہر میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں اس کی سنگینی کو صاحبانِ فکرو نظر نہیں دیکھ رہے اور محسوس نہیں کر رہے ہیں (ص۳۱۸) ۔

  • پروفیسر خورشید احمد کے نام ڈاکٹر حمیداللہ کے نو خط شامل ہیں۔ خورشید صاحب نے اقبال ریویو کے لیے ڈاکٹر حمیداللہ سے مضمون کی درخواست کی تھی۔ جواباً انھوں نے اقبال کے بارے میں لکھا: مجھے شخصی طور پر ناصحِ بے عمل سے کچھ زیادہ طبعی لگائو نہیں ہوتا ۔(ص۳۳۹)

ادب کے تاریخ نویسوں کے لیے ان خطوں کی حیثیت قیمتی لوازمے کی ہے اور زمانۂ حال کے محقق طلبہ اور طالبات کے لیے یہ خطوط ایک نصیحت ِ غیر مترقبہ ہیں۔ مجلہ آیندہ شمارے (سر سید نمبر ) کے بعد مکاتیب نمبر جلد سوم بھی شائع کرے گا۔ اس کے لیے غیر مطبوعہ خطوں کی فراہمی کی اپیل کی گئی ہے۔ (ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی )


ماہ نامہ پکارِ ملّت (ذرائع ابلاغ نمبر)، مدیرہ: مناہل ایمن۔ ملنے کا پتا: مرکز طالبات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۱۴۱۶۹۰۳-۰۳۳۲۔ صفحات: ۱۷۸۔ قیمت: (اشاعت ِ خاص) ۹۰ روپے۔

ذرائع ابلاغ کی اہمیت ہمیشہ ہی مسلّمہ رہی ہے ، تاہم الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے مختلف چینلوںکی آمد اور سوشل میڈیا نے اس کی اہمیت کو جہاں دوچند کردیا ہے، وہاں ذہن سازی اور معاشرے پر اس کے اثرات میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی اسی اہمیت کے پیش نظر پکارِ ملّت نے جو اسلامی جمعیت طالبات پاکستان کا ترجمان ہے، اشاعت ِ خاص کا اہتمام کیا ہے۔ میڈیا کی اہمیت و اثرات، آزادیِ اظہار، ثقافتی یلغار کے جائزے کے ساتھ ساتھ جدید ذرائع ابلاغ کے درست استعمال، دعوتِ دین کے تقاضے اور میڈیا پالیسی کو زیربحث لایا گیا ہے۔ میڈیا کی معروف شخصیات، ڈرامے اور فلم سے وابستہ افراد جنھوں نے شوبز کی دُنیا کو خیرباد کہہ دیا ہے،    ان کے تاثرات اور میڈیا کے کردار و اثرات پر قلمی مذاکرہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ افسانوں، دل چسپ مضامین کے علاوہ گوشۂ شعروسخن بھی ہے۔ ایک اہم موضوع پر فکروعمل کی رہنمائی کے ساتھ قابلِ ستایش کاوش ہے۔(ادارہ)