کتاب نما


Treasures of the Quran[قرآنی جواہرات]، مرتبہ: خرم مراد، عبدالرشید صدیقی۔ ناشر: دی اسلامک فائونڈیشن، لسٹر، برطانیہ۔ publications@islamic-foundation.com صفحات: ۲۰۰۔ قیمت: ۱۴ء۹۵ ؍امریکی ڈالر۔  ۔

قرآن کریم روشنی کا منبع ہے، ایسی روشنی جو انسانی زندگی کو جہالت اور حیوانیت کی ظلمت سے باہر نکلنے میں مدددیتی اور ہدایت کے طالبین کو صراطِ مستقیم دکھاتی ہے۔ قرآنِ کریم کے پیغام کو سمجھنے اور اس کے نُور سے دلوں کی دنیا منور کرنے اور معاشرتی ظلمتوں کو عدل و شائستگی کی راہوں پر استوار کرنے کے لیے ہزاروں اہلِ علم و تقویٰ نے کئی اسالیب اختیار کیے۔ زیرنظر کتاب بھی اسی نوعیت کی منفرد کاوش ہے۔

مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم و مغفور نے سورئہ فاتحہ سے المائدہ تک، قرآنی سورتوں کا ایک گروپ متعین کیا تھا، جس میں خاص نوعیت کے موضوعات اپنی معنویت، استدلال اور پیغام کے ساتھ موجود ہیں۔اس ذیل میں محترم خرم مراد نے (جن کی رحلت کو گذشتہ دسمبر میں ۲۰برس گزر گئے) سورئہ بقرہ کے مرکزی مضامین کو ایک ترتیب کے ساتھ مرتب کیا تھا، جب کہ عبدالرشید صدیقی صاحب نے سورۂ آل عمران، النساء، المائدہ کے نکات کی اسی انداز سے تدوین کی ہے۔ اس مقصد کے لیے فاضل مرتبین نے جید مفسرین کی تحقیقات اور بیانات کو خوب صورتی سے مرتب کیا ہے۔ انھوں نے خاص طور پر مغرب کی غیر مسلم دنیا کو پیش نظر رکھا ہے، تاکہ وہ قرآن کا پیغام سمجھ سکیں۔ واقعہ یہ ہے کہ قرآنی نُور کی یہ کرنیں صرف غیرمسلموں کے لیے نہیں بلکہ خود مسلمانوں کے لیے بھی اتنی ہی ضروری ہیں کہ وہ انھیں پڑھیں، سمجھیں اور عمل میں ڈھالیں۔

آج، رفتہ رفتہ قومی زبانیں بے اثر بنائی جارہی ہیں اور نئی نسل کو انگریزی کی غلامی میں دیا جارہا ہے۔ اس فضا میں زیرتبصرہ کتاب کے ذریعے نسلِ نو کا رشتہ قرآن سے جوڑنے میں مدد مل سکتی ہے۔ فائونڈیشن اس خوب صورت کتاب کی اشاعت پر مبارک باد کی مستحق ہے۔ (سلیم    منصور خالد)


سیرت انسائی کلو پیڈیا ، زیر نگرانی عبد المالک مجاہد، مرتبین : محسن فارانی ، حافظ ابراہیم طاہر کیلانی، مولانا تنویر احمد ، حافظ عبداللہ ، ناصر مدنی، حافظ اقبال صدیق ، حافظ ابو بکر خواجہ۔، ناشر: ریسرچ سنٹر دارالسلام ریاض، ۳۶-لوئر مال لاہور، (گیارہ جلدیں) ۔ قیمت: ۱۸ ؍ہزار ایک سو ۵۰ روپے۔

سیرت خاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسا موضوع ہے ، جس پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہے۔ آپؐ کی حیات مبارکہ کے ہر پہلو کا احاطہ کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔ دارالسلام کے روح رواں عبدالمالک مجاہد صاحب نے سیرت انسائی کلو پیڈیا کے تصور کو اپنی روایات کو قائم رکھتے ہوئے گیارہ مفصل جلدوں میں طبع کیا ہے، جو اعلیٰ طباعتی معیار ، عمدہ پیش کش، پاے دار کاغذ اور رنگا رنگ نقشوں اور تصاویر سے مزین ہے۔ جس پر جناب مجاہد اور ان کی ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔ 

پہلی جلد کا آغاز سیرت نگاری پر ایک مفصل مقدمے سے ہوتا ہے، جسے پروفیسر محمد یحییٰ صاحب نے تحریر کیا ہے۔ یہ جلد چھے ابواب پر مشتمل ہے۔ اس میں جزیرہ نماے عرب کے جغرافیہ، تاریخی پس منظر ، وہاں پائی جانے والی اقوام و قبائل ، ماضی کی حکومتوں ، بیرونی حملوں ، تولیت کعبہ اور عرب جاہلیہ کے مذہب اور شرک ، تجارت و ثقافت اور ہمسایہ سلطنتوں میں پائے جانے والے مذاہب کا تذکرہ ہے ۔

دیگر جلدوں میں جملہ موضوعات کو محنت سے لکھا اور پیش کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر: رسولِ کریمؐ کے خاندان اور ولادت سے لے کر حجۃ الوداع اور آپؐ کے سفر آخرت اور اُمہات المومنینؓ اور آپؐ کی اولاد کے بارے میں معلومات شامل ہیں۔ آخری اور گیارھویں جلد نبی کریمؐ کی حیاتِ مبارکہ ، اخلاق ، خصوصیات، معجزات، ادعیہ اورمناقب ِ نبویؐ پر روشنی ڈالتی ہے۔

ان تمام موضوعات پر عموماً قرآن و حدیث کی روشنی میں گفتگو کی گئی ہے اور کئی مقامات پر  معروف تاریخی کتب سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ ہر موضوع پر ایک باب قائم کیا گیاہے، جس کے بارے میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ مر تبین میں سے کس نے انفرادی یا اجتماعی طور پر تحریر کیاہے ۔ تمام جلدوں میں زبان وبیان میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ اس سے نظر ثانی کرنے والے محققین کی محنت کا پتا چلتا ہے ۔ پہلی جلد میں مقدمہ بہت معلومات افزا ہے، لیکن غیر ضروری طور پر صرف ایک سیرت نگار مولانا شبلی نعمانی پر تنقید (صفحہ ۹۱تا ۱۰۸) مناسب نہیں ہے۔ البتہ اگر اسی طرح دیگر سیرت نگاروں کے کام کا جائزہ بھی لیا جاتا تو مناسب ہوتا ۔

جلد پنجم میں مکہ کے قبائلی نظام کو مکہ کی جمہوریت نما قبائلی حکومت (ص۳۴ ) کہنا جدتِ اظہار تو ہو سکتا ہے لیکن حقیقت نہیں کہا جا سکتا ۔ ایک خالص قبائلی نظام اور مغربی لادینی جمہوری نظام میں کافی بنیادی فرق پایا جاتا ہے۔ اسلامی ریاست اور اس سے متعلقہ اہم موضوعات میں بھی تشنگی پائی جاتی ہے۔ قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں جو موضوعات قائم کیے گئے ہیں ان میں مسلم علما کی تحقیق سے بھی استفادہ کیا جاتا تو مناسب ہوتا۔ دراصل ’انسائی کلوپیڈیا‘ کا لفظ اصطلاح، تاثر اور تقاضا گہرائی اور تحقیق کا مطالبہ کرتا ہے۔ ’دائرۃ المعارف‘(انسائی کلوپیڈیا) کے لیے ایک اعلیٰ تحقیقی منصوبے کے ساتھ عالمی سطح پر محققین کا اپنے تخصص کے دائرے میں مضامین لکھنا بنیادی ضرورت ہے ۔ اس لیے ہماری تجویز ہے کہ اسے بلند معیار بنانے کے لیے ہر موضوع کے ماہرین کو عالمی سطح پر دعوت دی جائے اور پھر ایک اعلیٰ مجلس ان مضامین کے جائزے اور نظرثانی کے بعد مذکورہ دائرۃ المعارف میں طبع کرنے کا مشورہ دے ۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


تکبیر حرم، سعید اکرم۔ ناشر: دارالنوادر، الحمدمارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۱۴۴۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

یہ ۲۰۱۱ء کے سفرِ حج کی دل چسپ اور دل گداز رُوداد ہے۔ جب مصنف کو اپنے دیرینہ خوابوں کی تعبیر ملی۔ سردیوں کی ایک صبح ریڈیو کی ایک خبر نے سعیداکرم کو چونکا دیا: ’’رواں سال کے لیے حج پالیسی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ پہلے آیئے پہلے پایئے کی بنیاد پر ۷؍اپریل تک درخواستیں وصول کی جائیں گی‘‘۔ اس خبر نے انھیں پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا۔

حج اور عمرے کے سفرناموں میں اکثر زائرین مسائل اور رکاوٹوں کا ذکر کرتے ہیں۔ تاہم، سعیداکرم نے یہ سفر صبر، شکر، عاجزی اور انکسار کے ساتھ مکمل کیا، حرفِ شکایت زبان پر لانے سے اجتناب کیا۔ ہرجگہ انھوں نے ایک خاص کیفیت محسوس کی۔ جن دنوں مکہ میں تھے، باپ بیٹا اُن گلیوں اور بازاروں میں نکل جاتے جہاں گمان ہوتا کہ یہاں سے ہمارے پیارے نبیؐ بچپن میں اپنے دادا کی انگلی پکڑے گزرے ہوں گے۔

سفر نامے میں ایسا سوزو گداز ہے کہ پڑھتے پڑھتے کئی مقامات پر قاری کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ کتاب خوب صورت چھپی ہے۔(رفیع   الدین   ہاشمی)


محفل دانش منداں، محمد اسحاق بھٹی۔ ناشر: محمداسحاق بھٹی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، جناح اسٹریٹ، اسلامیہ کالونی، ساندہ، لاہور۔ فون: ۴۷۶۸۹۱۸-۰۳۰۱۔ صفحات: ۳۲۰۔ قیمت: ۶۰۰روپے۔

جناب محمد اسحاق بھٹی، صاحب ِ علم و فضل تھے۔ انھیں برعظیم پاک و ہند کے قدیم علما کے احوال و تذکار میں دسترس حاصل تھی۔ وہ ایک صحافی، محقق، مترجم اور مؤرخ اور خوش گوار طبیعت کے مالک دانش ور تھے۔ ان کی یادداشت مضبوط اور مشاہدہ گہرا تھا۔ ادبی چاشنی کے لیے بسااوقات زیب داستان کا پھول بھی ٹانک لیتے تھے، مگر مجموعی طور پر ایک خوش کلام انسان تھے۔

زیر نظر کتاب میں انھوں نے ۲۴شخصیات کے بارے میں یادوں کے گلدستے سے گلاب چُنے ہیں۔ یہ نثرپارے دل چسپ پیراے میں، سادہ، شُستہ، رواں اور معلومات افزا شخصی احوال پر مبنی ہیں، کہ ایک کے بعد ایک پڑھتے ہوئے قاری کھنچتا ہی چلا جاتا ہے۔ بھٹی صاحب مسلکاً سلفی تھے مگر خوش مزاجی میں بریلوی تھے۔ اس کتاب میں شامل ہر مضمون قاری کی تشنہ لبی کو سیراب کرتا ہے۔ ایم ایم شریف، بشیراحمد ڈار اور اسماعیل ضیا پر مضامین، زندگی کا خوش رنگ تاثر ثبت کرتے ہیں۔ پروفیسر محمد سرور جامعی پر مضمون (۱۴۴-۱۷۲) تہذیب و شائستگی کی تصویر پیش کرتا ہے۔

پروفیسر سرورصاحب، مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے ناقد تھے۔اسحاق بھٹی صاحب نے پاکستان کے بزرگ صحافی کلیم اختر ( سرور صاحب کے بھانجے) کے حوالے سے یہ واقعہ نقل کیا ہے: ’’۱۹۶۴ء میں ایک روز ڈائرکٹر جنرل انٹیلی جینس این اے رضوی، لاہور میں سرور صاحب کے گھر  آئے۔ میں بھی وہاں موجود تھا۔ رضوی صاحب نے ان سے کہا:ایوب خاں کے مقابلے میں  فاطمہ جناح صدارتی اُمیدوار ہیں اور مولانا مودودی، فاطمہ جناح کی حمایت کر رہے ہیں۔ آپ سے  گزارش ہے کہ مولانا مودودی کے خلاف مضمون لکھیے‘‘۔ تب سرور صاحب حکومت کے تحت ادارہ تحقیقاتِ اسلامی سے منسلک تھے۔ یہ بات سن کر سرور صاحب طیش میں آگئے اور بولے: ’’آپ سے کس نے یہ کہا ہے کہ میں مولانا مودودی کی ذات کے خلاف ہوں، اور وہ جو کچھ کہیں یا کریں، اس کی مخالفت کروں۔ دوسری بات یہ کہ میں کسی کے کہنے پر، کسی کی مخالفت یا موافقت میں مضمون لکھتا ہوں۔ پھر یہ کہ آپ کو مجھ سے یہ کہنے کی جرأت کیسے ہوئی کہ میں کسی خاص مسئلے میں جو آپ کے نزدیک پسندیدہ نہیں، مولانا مودودی کے خلاف لکھوں۔ اگر آپ اس لیے کہہ رہے ہیں کہ میں ادارہ تحقیقاتِ اسلامی میں ملازم ہوں تو میں آج ہی اس سے مستعفی ہوتا ہوں‘‘۔ اور انھوں نے اسی وقت ملازمت سے استعفا بھیج دیا اور پھر ادارہ تحقیقاتِ اسلامی کے دفتر اسلام آباد نہیں گئے۔   یوں اچھی خاصی ملازمت چھوڑ دی، مگر اپنے ضمیر اور اصول کی قربانی نہیں دی اور دربار سرکار کی خواہش کے مطابق مولانا مودودی کے خلاف نہیں لکھا‘‘ (ص ۱۵۹-۱۶۰)۔ اس واقعے سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ حکمران طبقہ کس طرح مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے خلاف سرکاری سطح پر پروپیگنڈا کے لیے وسائل اور اختیارات کو استعمال کرتا رہا ہے۔

کتاب میں جن شخصیات کے نام شامل ہیں، ان میں: میاںالحمدللہ، مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاری، شیخ قمرالدین [ناشر تفہیم القرآن]، حاجی محمد اسحاق، مولانا عبیداللہ احرار، حکیم عبدالسلام ہزاروی، مولانا محمد ابراہیم، مفتی عتیق الرحمٰن ، مولانا سعید احمد اکبرآبادی، میرعلی احمد تالپور، سیّد صباح الدین عبدالرحمٰن، عبدالمجید مالواڈا، حکیم عنایت اللہ سوہدروی، محمد رفیق زبیدی، مشفق خواجہ، مولانا مجاہد الحسینی، فاروق الرحمٰن یزدانی، ابوجی، مولانا سیّد محمد دائود غزنوی اور مریم جمیلہ۔

یہ کتاب تاریخ، شخصیت اور اسلامی تہذیب کے مختلف نقوش کو واضح اور تعلیم و تربیت کا عکس نمایاں کرتی ہے۔ اشاعت و پیش کش خوب صورت ہے۔ (س     م   خ )


بلالی دنیا میں شمع اسلام، حافظ محمد ادریس ،۔ناشر: ادارہ معارف اسلامی منصورہ ،لاہور۔ صفحات : ۲۰۸۔ قیمت:۲۲۵۔

تحریکِ اسلامی کے رہنما کی حیثیت سے مصنف نے افریقہ میں ایک مدت تک دینی، تربیتی اور رفاہی خدمات انجام دی ہیں۔ زیرنظر کتاب میں انھوں نے کینیا اور جنوبی افریقہ کے دورے کے تاثرات ، مشاہدات اور معلومات کو رواں دواں پیراے میں بیان کیا ہے۔ ان کے یہ سفر بنیادی طور پر دینی اوردعوتی جہت رکھتے ہیں۔ اس لیے ایک ایسا قاری جو تحریک اسلامی سے باقاعدہ تنظیمی وابستگی نہیں رکھتا،وہ بھی ان امور اور مسائل ومعاملات سے متعارف ہوتا ہے اور رہنمائی کے قیمتی پہلوئوں سے استفادہ کرتا ہے۔

حافظ محمد ادریس صاحب اپنے سفر نامے میں ذاتی مشاہدات وتاثرات کوبیان کرتے ہوئے اپنے مخاطبین اورمیز بانوں سے بھی متعارف کراتے ہیں۔ اس طرح ان کا سفر نامہ ایک فرد کی سیر بینی سے بڑھ کر پڑھنے والوں کا سفر نامہ بن جاتا ہے۔ اس ذیل میں یہ ان کا چوتھا سفر نامہ ہے۔(س م خ)


اسلامی قلم رو میں اِ قرأ اور عَلّم بالقلم کے ثقافتی جلوے (عہد عباسی ) ،جلد اول، جلددوم ، مصنف : مولانا ڈاکٹر محمد عبدالحلیم چشتی۔ ناشر: مکتبہ الکوثر ، بلاک بی ، سیکٹر ۱۱، مکان نمبر ۱۲۱، جامعۃ الرشید ، احسن آباد، کراچی۔ صفحات (علی الترتیب: ۵۸۵، ۴۲۱)۔ قیمت: درج نہیں۔

اس کتاب میں محترم مصنف نے عہدعباسی (۷۵۰ء تا ۱۲۵۸ء ) کے ۱۷ خلفا کے کتب خانوں کا جائزہ لیا ہے۔ اس پانچ سو آٹھ سالہ دورِ حکومت میں علماے اسلام نے مختلف علوم وفنون میں ترقی کے ساتھ ساتھ دیگر زبانوں کی علمی کتابوں کے عربی زبان میں ترجمے بھی کیے۔ زندگی کے مختلف شعبوں کے سرکردہ افراد نے مطابق علوم وفنون کی مختلف شاخوں میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ فاضل مؤلف نے وسیع مطالعے سے ان علمی خدمات کی تفصیلات پیش کی ہیں، اور عباسی دور کے علما، حکما، مفسرین ،محدثین ، امرا اور زندگی کے دوسرے شعبوں سے متعلق افراد اور اداروں کے کتب خانوں کا تعارف کرایا ہے۔ مزید یہ کہ کتاب سازی کے مباحث ، فن کتابیات کی اصطلاحات، کٹیلاگ سازی ، علوم کی درجہ بندی ، اور رموز اِملا کے تاریخی ارتقا، کاغذ سازی، سامانِ کتابت پر مستند معلومات فراہم کی ہیں۔ اس سلسلے میں مصنف نے نقل نویسی ، قلم، دوات، روشنائی اور نقل نویسوں کے لیے فراہم کردہ سہولتوں کی تفصیلات بھی پیش کی ہیں۔

یہ کتاب عہد عباسی میں مسلمانوں کی علمی ، ادبی دینی اور تہذیب وثقافت پر ایک طرح سے انسائی کلو پیڈیا کا سا مقام رکھتی ہے۔ (ظفر حجازی )


تعارف کتب

o نوادراتِ سیّد مودودیؒ، مرتبہ : اختر حجازی۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی ،منصورہ لاہور۔ صفحات: ۳۳۶۔ قیمت: ۳۲۵۔ [اس کتاب کے ص ۸۷ سے ۲۲۸ تک، دو مختلف اداروں سے شائع ہونے والی مولانا مودودی کی کتب کو شامل کرکے چند ایسے مضامین کو ساتھ جمع کر دیا ہے، جو بار بار شائع ہوئے یا حال میں طبع ہوئے ہیں۔ یوں اس کتاب سازی کو ’نوادرات‘ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ مولانا مودودی سے منسوب کتب میں حددرجہ احتیاط اور سنجیدگی کا اہتمام کرنے اور اہتمام کرانے کی ضرورت ہے۔ ]

حدائق الریحان، حسان بن ثابت، منظوم ترجمانی: پروفیسر رئیس احمد نعمانی۔ ناشر: گوشہ مطالعات فارسی، پوسٹ بکس ۱۱۴، علی گڑھ- ۲۰۲۰۰۱، بھارت۔ صفحات: ۶۲۔قیمت: درج نہیں۔

زمانۂ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں جن شعرا کو نعت ِ رسولؐ لکھنے کی سعادت نصیب ہوئی، ان میں نمایاں ترین نام حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا ہے۔

ڈاکٹر رئیس احمد نعمانی، مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کے بلندپایہ اساتذہ میں سے ہیں۔ جو نہ صرف عربی اور فارسی ادبیات کے عالم اور محقق ہیں، بلکہ قادرالکلام شاعر بھی ہیں۔ انھوں نے حضرت حسانؓ کے قصائد سے سیرتِ پاکؐ پر اشعار کا انتخاب کرکے، انھیں اُردو اشعار میں ڈھالتے ہوئے ترجمے کے ساتھ عربی متن بھی پیش کیا ہے۔

یہ مختصر، مگر اپنی قدر کے اعتبار سے بڑے بڑے دیوانوں پر بھاری کتاب،حُسنِ خیال اور حُسنِ بیان کا مرقع ہے کہ رسولؐ اللہ سے محبت و شیفتگی جس کے حرف حرف پھوٹتی ہے۔

جنابِ نعمانی اس عشق و سعادت کی راہ پر چلتے ہوئے، ۱۹۹۹ء میں حضرت کعب بن زہیرؓ کے مشہور قصیدے بانت سعاد اور ۲۰۰۲ء میں محمد بوصیری کے قصیدۂ بردہ کا مکمل اور منظوم ترجمہ بھی کرچکے ہیں۔ (سلیم    منصور  خالد)


مصادرِ سیرتِ نبویؐ، ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی۔ ناشر: دارالنوادر، الحمدمارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۷۰۳۱۸-۰۴۲۔ صفحات: حصہ اوّل: ۶۴۰، حصہ دوم: ۶۶۶۔ قیمت سیٹ: ۲۰۰۰ روپے۔

سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا بنیادی مآخذ قرآن کریم ہے، پھر ازواجِ مطہراتؓ اور  صحابۂ کرامؓ۔ ازاں بعد محدثین اور سیرت نگاروں نے اس مقدس کام کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔

ڈاکٹر محمد یاسین مظہرصدیقی نے گذشتہ ۴۰برس سے سیرت نگاری کو اپنا میدانِ تحقیق بناکر، اُردو میں بہت سا ذخیرہ منتقل کیا ہے۔ اس دوران وہ جن مآخذ سے استفادہ کرتے رہے ، ان میں سے اکثر مصنفین کے احوال و آثار اور خصوصاً سیرت نگاری کے حوالے سے ان کے علمی ورثے پر بطور تعارف مظہرصاحب نے ایک منصوبے کے تحت مضامین لکھے۔ یہ کتاب انھی مفصل اور مختصر مضامین پر مشتمل ہے۔ انھوں نے بجاطور پر لکھا ہے: ’’سیرت نگاری کا ابتدائی رجحان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام و فرامین اور تشریعی نوعیت کے واقعات و کوائف جمع کرنے کے اوّلین کارنامے کی شکل میں اُبھرا، جو حدیث و سنت کا ذخیرہ کہلایا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام ابتدائی مؤلفینِ سیرتؐ اپنی اپنی جگہ ماہرین فنِ حدیث اور محققینِ کتاب و سنت تھے‘‘۔ (ص ۵۱)

انھوں نے قارئین کو امام عروہ بن زبیر (۲۲-۹۴ہجری) سے لے کر مولانا محمد ادریس کاندھلوی (۱۳۱۷-۱۳۹۴ہجری) تک (۲۵+۲۴) ۴۹ اہلِ علم و فن سے روشناس کرانے کی سبیل پیدا کی ہے۔ ان مضامین میں مؤلف نے محض حالات ہی نہیں لکھے، بلکہ جہاں ضروری تھا اختصار کے ساتھ تنقیدو تبصرہ بھی کیا ہے ، تاکہ قاری دوسرے پہلو سے بھی واقف ہوسکے۔

مثال کے طور پر ابنِ اسحاق کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’[انھیں] روایات کثرت سے  جمع کرنے کا شوق تھا…روایت و درایت دونوں لحاظ سے ابن اسحاق کی متعدد مرویات مشتبہ بھی ہیں اور بعض اوقات قابلِ ذکر رد بھی‘‘ (ص ۸۰، ۸۱، اوّل)۔ اسی طرح علّامہ واقدی کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’سیرت و تاریخ میں واقدی کی مہارت ہی نہیں بلکہ امامت مسلّم ہے‘‘ (ص ۱۴۹)، مگر اسی صفحے پر امام بخاری کا یہ قول بھی درج کرتے ہیں: ’’وہ [واقدی] متروک الحدیث تھے۔ ان کو امام احمد بن حنبل نے ترک کر دیا تھا۔ معاویہ بن صالح کا بیان ہے کہ واقدی کذّاب ہیں‘‘ (۱۴۹-۱۵۰)۔ پھر دونوں نقطہ ہاے نظر کاتجزیہ کرنے کے دورا ن بتاتے ہیں کہ دراصل: ’’واقدی کو غیرثقہ، ضعیف اور ناقابلِ اعتماد قرار دینے والے علما و محققین نے ناقدین کے عمومی بیانات پر زیادہ تکیہ کیا ہے۔ ابھی تک واقدی کی روایات و احادیث کا کوئی تجزیاتی مطالعہ نہیں کیا گیا ‘‘ (ص۱۵۰، ۱۵۱)۔ زیرنظر کتاب میں شامل ان مضامین میں ڈاکٹر صدیقی نے شخصیات پر بھی بحث کی ہے۔

جلداوّل کے شروع میں سیرتِ نبویؐ پر تحقیق و تحریر کے آغاز اور ارتقا پر مقدمہ تحریر کیا ہے۔ یہ مجموعہ سیرت نگاری کی روایت کے بارے میں قیمتی معلومات فراہم کرتا ہے اور قارئین کی معلومات میں اضافے کا ذریعہ بنتا ہے۔ (س     م       خ )


جناب غلام احمد پرویز کی فکر کا علمی جائزہ، مرتب: شکیل عثمانی۔ ناشر: نشریات، الحمدمارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۲۰۳۱۸-۰۴۲۔ صفحات: ۱۷۶۔قیمت: ۲۲۰ روپے۔

۲۰ویں صدی میں سنت اور حدیث کے منکرین میں ایک نام غلام احمد پرویز صاحب کا بھی تھا، جنھیں قیامِ پاکستان کے بعد بالخصوص حاکم طبقوں کی سرپرستی بھی حاصل رہی۔ وہ دین کے مآخذ قرآن (حدیث، سنت اور پھر فقہ) پر تیشہ زنی کرتے ہوئے دین بے زار قوتوں کے ہاتھ مضبوط کرنے اور نئی نسل کے اذہان میں شک اور تذبذب کی فصل بونے میں حصہ لیتے رہے۔

اس طرزِ فکر پر معاصر علما اور دانش وروں نے، بڑی مسکت اور مدلل گرفت کی۔ اس نوعیت کی منتخب تحریروں کا ایک مجموعہ شکیل عثمانی نے زیرنظر کتاب کی صورت میں مرتب کیا ہے۔ اگرچہ  اس میں حوالہ تو جناب پرویز کا ہے، مگر میڈیا کی لہروں کے سہارے یہ فکر آج بھی بہ ااندازِ دگر:  تجدد اور روشن خیالی زہرناکی پھیلا رہی ہے۔ ان حوالوں سے پرویز صاحب کو محض تاریخ کا موڑ  سمجھ کر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، بلکہ معاصر جدیدیت اور ’اسلام کی جدید کاری‘ کے شائقین کی حرکتوں کا مفہوم بھی اس آئینے میں پڑھا دیکھا جاسکتا ہے۔

 شکیل عثمانی نے اس مؤثر انتخاب کے لیے جن اہل فکرودانش سے تحریریں مستعار لی ہیں، ان میں شامل ہیں: سیّدابوالاعلیٰ مودودی، امین احسن اصلاحی، قمرعثمانی، ماہرالقادری، پروفیسر خورشیداحمد، ڈاکٹر محمد دین قاسمی، خورشید ندیم، وارث میر۔  (س     م       خ )


اسلامی معاشرے کی تعمیر میں خواتین کا حصہ، مولانا محمد یوسف اصلاحی۔ ناشر: البدر پبلی کیشنز، ۲۳- راحت مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۲۵۰۳۰-۰۴۲۔ صفحات: ۲۴۰۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

مولانا محمد یوسف اصلاحی نے زیرتبصرہ کتاب میں اسلامی معاشرتی زندگی کی اہمیت، اسلامی تہذیب و تمدن کی بنیادوں کا ذکر کیا ہے، جن سے اخلاصِ عمل، فکرِ آخرت اور اسلامی معاشرت اور اجتماعی زندگی پروان چڑھتی ہے۔ اسی طرح قرآن و حدیث کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ اسلامی تاریخ سے صحابہ و تابعین اور دیگر مستند واقعات پیش کیے ہیں، جو اصلاح و تربیت کے لیے عملی نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں۔معاشرے کی تعمیر میں خواتین کے کردار کو نمایاں کرتے ہوئے پُرمسرت، خوش گوار اور پُرسکون گھریلو زندگی کے لیے رہنمائی دی گئی ہے۔ میاں بیوی کے حقوق و فرائض، عورت کے اصل میدانِ عمل اور دیگر معاشرتی مسائل اور فقہی احکامات سے آگہی دی گئی ہے۔ (امجد عباسی)


تعارف کتب

Oتدریب المعلّمین، سیّد ندیم فرحت، سیّد متقین الرحمٰن۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد۔ صفحات: ۳۰۸۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔[یہ کتاب بنیادی طور پر دینی مدارس کے اساتذہ کی رہنمائی کے لیے مرتب کی گئی ہے، جس میں: پروفیسر خورشیداحمد، مولانامحمد رفیق شنواری، مولانا معین الدین قریشی، ڈاکٹر محمد سلیم، مولانا عبدالقدوس محمدی اور سیّد ندیم فرحت کی جانب سے رہنما خطوط پر مشتمل تحریریں ہیں۔ ان تحریروں میں قرآن، حدیث، فقہ اور علمِ کلام کی تدریس کے ساتھ ہم نصابی سرگرمیاں اور عمومی خطبات سے متعلق عملی اُمور بیان کیے گئے ہیں۔]

O سعودی عرب، کل اور آج  ، رضی الدین سیّد۔ ناشر: راحیل پبل کیشنز، کراچی۔ فون: ۲۵۲۴۵۶۱-۰۳۲۱۔ صفحات:۲۲۴۔ قیمت: ۳۳۰ روپے۔ [سعودی عرب کی مختصر تاریخ بیان کی ہے، پھر زائرین عمرہ و حج کے لیے چھوٹے چھوٹے مضامین، جن کی حیثیت مفید ہدایت ناموں کی ہے۔ زائرین پڑھ لیں تو سفر آسان تر ہوگا۔  آخر میں پاکستانی بھائیوں سے گزارش کی گئی ہے کہ اپنے خوابوں اور آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سرزمین کو ایک بار دیکھنے کا جتن وہ ضرور کریں، کیوں کہ جس نے خانہ کعبہ اور روضۂ مبارک نہیں دیکھا، اس نے دنیا میں کچھ بھی نہیں دیکھا۔]

O ارقم ، شمارہ۵،۲۰۱۶ء، مدیر: ڈاکٹر ظفر حسین ظفر۔ ناشر: بزمِ ارقم۔ نزد نادرا آفس، راولاکوٹ، آزاد کشمیر۔ صفحات: ۳۸۴۔ قیمت: ۸۰۰ روپے۔ [اس مجلّے کے پہلے چار شمارے مقامی کالج سے شائع ہوتے رہے، جب کہ یہ شمارہ نجی انتظام میں شائع کیا گیا ہے۔ اس میں مختلف ادبی و تحقیقی تحریروں کے ساتھ سیرتِ پاکؐ پر مولانا مودودی کا ایک مضمون (ص ۱۲-۲۰، اور یہ مضمون موجودہ اشاعت میں شامل ہے) اور کنور اعظم علی خاں خسروی کی  آپ بیتی (ص ۲۶۸-۳۲۲) بھی شائع کی گئی ہے۔ مشاہیر، کشمیریات، سفرنامہ، تحقیق، تبصرۂ کتب کے تحت مختلف حصوں میں دل چسپ تحریروں کو پیش کیا گیا ہے۔ ]

تحریک ختمِ نبوتؐ: آغاز سے کامیابی تک، مرتبہ: سیّد سعود ساحر۔ ناشر: توّکل اکیڈمی، ۳۱-نوشین سینٹر، اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۳۲۲۱۷۴۷۱-۰۲۱۔ صفحات: ۳۵۸۔ قیمت: ۴۵۰ روپے۔

ختمِ نبوت، ایک مسلمان کا بنیادی عقیدہ ہے، اور اس کا انکار یا اس میں کسی نوعیت کی ملاوٹ یا شک، ایمان کی بنیاد ڈھا دیتی ہے۔ ۱۹ویں صدی کے آخری عشروں میں قادیانیت نے بال و پَر نکالے اور ۲۰ویں صدی کے آغاز میں مرزا غلام احمد نے اپنی جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا۔   یہ ’نبوت‘ بنیادی طور پر برطانوی سامراج کی مرضی کے مطابق دینِ اسلام کی نئی تعبیرو تشریح کے بوئے جانے والے جھاڑ جھنکار پر مشتمل تھی۔ مرزا نے اپنی نبوت کے نہ ماننے والوں کو ’کافر‘ ہی نہیں قرار دیا، بلکہ انھیں نہایت غلیظ ناموں سے بھی نوازا۔

اس ضمن میں اُمت مسلمہ کے ضمیر نے یکسو ہوکر مذکورہ فتنے کی نفی کی۔ علامہ اقبال نے تو ایک جملے میں واضح کر دیا کہ: ’’قادیانی اسلام اور ہندستان دونوں کے غدار ہیں‘‘۔ اور یہ بات انھوں نے قادیانیت کے وکیلِ صفائی پنڈت جواہر لال نہرو کو ایک خط میں لکھی۔

علماے کرام کے ہاں تو اس بارے میں کوئی شک نہ تھا: حنفی [بریلوی، دیوبندی]، سلفی، شیعہ علما، قادیانیت کے کفر پر متفق تھے، مگر پاکستان یا ہندستان کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ اپنی کم علمی کی بناپر اسے ’مولویوں کی لڑائی اور کفرسازی کا شاخسانہ‘ تصور کرتا تھا۔ ۲۹مئی ۱۹۷۴ء کو نشتر میڈیکل کالج ملتان میں زیرتعلیم اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں اور حامیوں پر، ربوہ ریلوے اسٹیشن پر قادیانی نوجوانوں نے حملہ کیا، جس نے اس مسئلے کو شعلۂ جوالہ بنادیا۔ قریہ قریہ تحریکِ ختم نبوتؐ شروع ہوئی۔ تب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس مسئلے کو پاکستان کی پارلیمنٹ میں پیش کیا، جس میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبران نے بطور ’عدالت‘ مسئلے کے تمام فریقوں کو سنا، ان پر جرح کی اور آخرکار ۷ستمبر۱۹۷۴ء کو فیصلہ سنایا کہ:’’ قادیانیت کے دونوں گروہ دائرۂ اسلام سے خارج ہیں‘‘۔

زیرنظر کتاب پاکستان کے بزرگ اور باخبر صحافی جناب سعود ساحر نے مرتب کی ہے۔  اس کتاب کا سب سے دل چسپ اور آنکھیں کھول دینے والا حصہ اس بحث پر مشتمل ہے، جو پاکستان کی پارلیمانی عدالت میں سوال و جواب کی صورت میں ہوئی۔ دراصل یہی بحث قادیانیت کی حقیقت کو پاکستان کے دستور سازوں کے سامنے بے نقاب کرنے کا ذریعہ بنی ہے۔

یہ نہایت افسوس ناک بات ہے کہ ۱۹۷۴ء سے اب تک اس بحث کو سرکاری طور پر شائع نہیں کیا گیا۔ اس سے قبل اس بحث کے متعلقہ مکالمات کو مولانا اللہ وسایا صاحب نے تحریک ختمِ نبوت ۱۹۷۴ء (جلد دوم،صفحات: ۴۴۲)کے عنوان سے شائع کیا تھا، جس پر ترجمان القرآن (اپریل ۱۹۹۵ء) میں تبصرہ کیا گیا تھا۔ زیرتبصرہ کتاب کے مرتب نے بھی انھی متذکرہ مکالمات کو اپنے ذرائع سے حاصل کرکے زیرنظر کتاب مرتب کی ہے، لیکن انھوں نے محض مکالمات نہیں بلکہ بحث کی کیفیات، اُتار چڑھائو، تلخی تُرشی کو بھی قلم بند کیا ہے۔ اس سے اس مسئلے کی جزئیات واضح ہوکر سامنے آتی ہیں۔ جناب سعود ساحر کی یہ خدمت قابلِ تحسین ہے، تاہم ہمارا بنیادی مطالبہ یہی ہے کہ اس پوری کارروائی کو سرکاری طور پر اسپیکرآفس کی طرف سے شائع کیا جانا چاہیے۔ جو حیثیت و اہمیت اُس دستاویز کو حاصل ہوگی، وہ کسی دوسرے ذریعے سے حاصل کردہ معلومات کو حاصل نہیں ہوسکتی۔ بلاشبہہ سعود صاحب یا اللہ وسایا صاحب کی کتب میں شائع کردہ مکالمات درست ہیں، مگر ان کی حیثیت پرائیویٹ دستاویز کی ہے۔

گذشتہ دورِ حکومت میں قومی اسمبلی کی اسپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے ۱۰؍اپریل ۲۰۱۱ء کو   اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ اس کارروائی کو ’خفیہ دستاویزات‘ کے سردخانے سے نکال کر شائع کریں گی، اور انھوں نے یہ کارروائی چھپوا بھی لی تھی، مگر وہ اسے عوام الناس کے لیے شائع نہ کرسکیں۔  ایسا کیوں ہے؟ یہ صورتِ حال پاکستان کے عوام کی حق تلفی، قادیانیت کی طرف داری اور دستورِ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی روح سے متصادم رویے کی غماز ہے۔ (سلیم    منصور  خالد)


علامہ اقبال: شخصیت اور فکروفن،ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی۔ ناشر: اقبال اکادمی پاکستان، ایوانِ اقبال،لاہور، فون:۳۶۳۱۴۵۱۰-۰۴۲۔ صفحات:۳۲۴ (مع اشاریہ)۔قیمت: ۶۰۰روپے ۔

 علامہ اقبال کا شمار ان اکابر میں ہوتا ہے جنھوں نے مسلمانانِ برعظیم کو غلامی کی گہری نیند سے بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں:شاعر،مفکر،فلسفی ، سیاست دان، قانون دان وغیرہ ۔ اس سلسلے میں سیکڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں اوریہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔   اکادمی ادبیاتِ پاکستان نے ۱۹۹۰ء میں ’پاکستانی ادب کے معمار‘ کے عنوان سے ممتاز تخلیق کاروں پر ایک ایک کتاب شائع کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ زیرنظر کتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔    اس بارے میں اکادمی ادبیات کے صدرنشین افتخار عارف لکھتے ہیں: ’’یہ کتاب نام وَر اقبال شناس، ممتاز تنقیدنگار اور محقق پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے اکادمی ادبیات پاکستان کے لیے تحریر کی ہے۔ ہم ان کے تہ ِ دل سے شکرگزار ہیں۔ انھوں نے علامہ محمد اقبال کے حوالے سے تحقیقی اور تنقیدی نوعیت کا امتیازی اختصاص کے ساتھ بے حد وقیع کام کیا ہے‘‘۔

زیرنظر کتاب بقول مصنف: ’’اقبال کے عام قاری کے لیے ہے___ جو اقبال کے بارے میںکچھ زیادہ نہیں جانتا‘‘۔فی الحقیقت یہ کتاب اقبال کا تعارف ایک منفرد انداز میں کراتی ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے اقبال اپنی خوبیوں اور کمزوریوں، یعنی پوری شخصیت کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ یہ کتاب قاری کو سوانح اقبال کے بہت سے گوشوں سے شناسا کراتی ہے۔اس میں اقبال کے آباواجداد،اساتذہ، عملی زندگی، سیاسی سرگرمیوں، ملکی اور غیرملکی دوروں اور آخری زمانے کی طویل علالت کے دنوں کے اہم واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے، نیز اس میں اقبال کی فکریات  سمجھنے کے لیے ان کے ملفوظات اور افکار و تصورات کا تذکرہ بھی آگیا ہے۔

مصنف کا اسلوب سادہ ، رواں اور دل کش ہے۔  (فیاض احمد ساجد)


 سیّد مودودیؒ: مفکر، مجدد، مصلح ، علامہ یوسف القرضاوی۔ ترجمہ: ابوالاعلیٰ سیّد سبحانی۔ ناشر: منشورات، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۲۵۲۲۱۱-۰۴۲۔ صفحات: ۱۳۶۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔

علامہ یوسف القرضاوی کا شمار موجودہ زمانے کے چوٹی کے علما میں ہوتا ہے۔ عالمی حالات، اُمتِ مسلمہ کے مسائل اور جدید موضوعات پر ان کی گہری نظر ہے۔ اس طرح وہ فکری اور عملی دونوں میدانوں میں سرگرمِ عمل ہیں۔ علّامہ القرضاوی کو مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی [۱۹۰۳ء-۱۹۷۹ء] سے بہت محبت اور عقیدت ہے (یاد رہے، مولانا مودودی کی نمازِ جنازہ انھی نے پڑھائی تھی)۔

کچھ عرصہ قبل القرضاوی نے ایک مختصر مگر جامع کتاب نظرات فی فکر الامام المودودی شائع فرمائی۔زیرنظر کتاب اسی مجموعے کا اُردو ترجمہ ہے۔ علامہ قرضاوی نے اس کتاب میں  مولانا مودودی کی فکری خصوصیات اور خدمات کا مختصر مگر جامع انداز میں بھرپور جائزہ لیا ہے۔ کتاب کے آخری حصے میں مولانا مودودی پر مولانا سیّدابوالحسن علی ندوی اور مصری دانش ور ڈاکٹر محمد عمارہ کی تنقید کا عمدہ تجزیہ کیا گیا ہے۔

علامہ قرضاوی، مولانا مودودی کے قدردان ہیں۔ انھوں نے مولانا مودودی کی فکرو بصیرت کو خوب صورت پیرایے میں پیش کیا ہے مگر بعض جزئیات میں ان سے اختلاف بھی کیا ہے، اور مختلف فیہ موضوعات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

کتاب کے آغاز میں مولانا ڈاکٹر محمد عنایت اللہ سبحانی کا مبسوط مقدمہ شامل ہے۔     جس میں انھوں نے، علّامہ قرضاوی کے تنقیدی اشارات کا مختصر جواب دیا ہے۔ کتاب کا ترجمہ ابوالاعلیٰ سیّد سبحانی نے کیا ہے، جو نہایت شُستہ اور رواں ہے۔ اس خدمت پر وہ اُردو خواں حلقے کی جانب سے شکریے کے مستحق ہیں۔ (محمد  رضی  الاسلام     ندوی)


اِذنِ سفر دیا تھا کیوں؟ (سفرنامۂ ایران)، ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر۔ ناشر: قرطاس، فلیٹ نمبر ۱۵؍اے، گلشن امین ٹاور، گلستانِ جوہر، بلاک ۱۵، کراچی۔ صفحات: ۱۳۲۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

زیرنظر سفرنامے میں مصنفہ نے سیاحتی رُوداد کے ساتھ ایران کی تاریخ کے مختلف اَدوار کا عبرت انگیز منظرنامہ بھی پیش کیا ہے۔ جس میں تاریخی اور علمی شخصیتوں کا تذکرہ بھی شامل ہے جس سے مصنفہ کی (جو تاریخِ اسلامی کی پروفیسر ہیں) تاریخ پر نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔ انھوں نے ایران کی سرزمین، وہاں کے باشندوں کے طورطریقوں اور ان کی عمومی بودوباش کا بڑی باریک بینی سے مشاہدہ کرکے اپنا نقطۂ نظر بھی بیان کیا ہے۔ انھوں نے ایران کے تمام مقامات اور شخصیات کو تاریخ کے تناظر میں دیکھا ہے۔

 سفرنامے کا اسلوب ایسا شگفتہ اور سلیس ہے کہ قاری ایک ہی نشست میں پورے سفرنامے کا مطالعہ کرلیتا ہے۔ تسامح کئی ایک ہیں، صرف ایک کا ذکر۔ مصنفہ نے لکھا ہے: ’’سعدی، شیخ عبدالقادر جیلانی کے ہاتھ پر بیعت بھی تھے اور آپ ہی کے ہم رکاب ہوکر حج بیت اللہ بھی کیا تھا‘‘ (ص ۶۶)۔ حالاںکہ شیخ عبدالقادر جیلانی کی وفات (۱۴فروری ۱۱۶۶ء) کے ۴۴برس بعد شیخ سعدی ۱۲۱۰ء میں پیدا ہوئے تھے۔(ظفرحجازی)


تعارف کتب

o  1-Guidance of The Holy Quran, 2-Studies of the Quran،

پروفیسر اشرف الزماں خاں۔ ملنے کا پتا: اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۲۵۲۵۰۱-۰۴۲۔ صفحات، مجلد(علی الترتیب): ۷۲، ۱۹۲۔ قیمت:۱۲۰ روپے، ۳۰۰ روپے۔[انگریزی زبان میں اسلام اور قرآن سے ابتدائی تعارف کے لیے نہایت مناسب مختصر کتابیں ہیں۔ پہلی کتاب میں زندگی کے تمام اہم پہلوئوں کے بارے میں بنیادی ہدایات منتخب قرآنی آیات کی صورت میں ترجمے اور مختصر تشریح کے ساتھ دی گئی ہیں۔ عقائد اور تزکیے کے ساتھ ساتھ اچھے معاشرتی تعلقات، نیک عمل، گناہ کے کام، حلال و حرام کے بعد پردہ، دعوتِ اسلامی اور جہاد کے بارے میں مختصر ابواب میں، ۶۶ صفحات کی کتاب میں سب ہی کچھ آگیا ہے۔ دوسری کتاب میں قرآن سے تعارف اور سورئہ فاتحہ کے بعد آخری پارہ عم کی سورتوں (۷۸-۱۱۴) کی مختصر تشریح اور پس منظر کے ساتھ انگریزی ترجمہ دیا گیا ہے۔ ]

oاصطلاحاتِ حدیث، مرتب: عتیق الرحمٰن۔ ناشر: پیما پبلی کیشنز، پیما ہائوس۔ بی/۵۱۶، بلاک K، جوہر ٹائون، لاہور۔ فون: ۳۶۱۳۰۶۰۳-۰۴۲۔صفحات: ۶۴۔ قیمت: ۴۰ روپے۔[اس مختصر کتاب میں حدیث سے متعلق اصطلاحات کی واضح تعریف دی گئی ہے۔ اسی طرح قاری اس کتاب کے ذریعے  علمِ حدیث سے متعلق بنیادی معلومات سے روشناس ہوجاتا ہے۔ پیما (پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن) اپنے ممبران کی دینی تربیت کا انتظام بھی کرتی ہے۔یہ معلوماتی کتاب اسی کے پیش نظر شائع کی گئی ہے۔]

o رسائل و مسائل، سیّدابوالاعلیٰ مودودی ،مرتب: ڈاکٹر نصیر خان، ناشر: اسلامک پبلی کیشنز، منصورہ، لاہور۔  فون:۳۵۲۵۲۵۰۱-۰۴۲۔صفحات: ۱۱۳۱۔ قیمت: ۱۵۰۰ روپے۔[مولانا مودودی کی شہرئہ آفاق کتاب رسائل و مسائل جو پانچ حصوں میں دستیاب تھی، اسے ایک جِلد میں موضوعاتی بنیادوں پر اکٹھا کر کے یہ ضخیم مجموعہ مرتب کیا گیا ہے۔ پانچوں جلدوں میں ذیلی عنوانات کے تحت جو سوال و جواب موجود تھے، انھیں اس کتاب میں متعلقہ فصل کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اگرچہ یہ بھی کتاب سازی کا ایک انداز ہے، لیکن اگر ترتیب ِ نو کے ساتھ اسے دو حصوں میں تقسیم اور متن کی چوڑائی کو قدرے کم کیا جاتا تو یہ عمل قاری کے لیے زیادہ سہولت بخش ہوتا۔ پھر جہاں جہاں مسئلے کی تاریخ اشاعت دی گئی ہے، اس کے ساتھ بنیادی جِلد (جسے ختم کیا گیا ہے) کا شمار اوّل؍ دوم؍ سوم وغیرہ کی نشان دہی کے ساتھ درج کیا جانا ضروری تھا۔ سواے حصہ پنجم کے، باقی جِلدیں مولاناموددویؒ ہی کی مرتب کردہ تھیں۔ اس لیے ان کی مستقل پہچان کو معدوم کرنا مناسب نہیں۔حصہ دوم کا تعارف مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے لکھا تھا، وہ بھی ریکارڈ پر رہنا چاہیے تھا۔ ]

’زندگی‘ کا خزانہ، مرتب: ڈاکٹر محمدرضی الاسلام ندوی۔ ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، ۳۰۷۔ڈی، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی، ۱۱۰۰۲۵۔ صفحات۴۰۷۔ قیمت:۲۰۰روپے (بھارتی)

۲۰ویںصدی کی اردو اسلامی مجلاتی صحافت نے اسلامی فکر کے تشکیلی عمل میں گہرے نقوش مرتب کیے ہیں۔ مئی۱۹۳۳ء سے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی زیرادارت ماہ نامہ ترجمان القرآن، حیدرآباد دکن [۱۹۳۸ء کے بعد سے لاہور] کے نئے آہنگ اور منفرد لہجے نے ایک ہی عشرے میں اہلِ دین و دانش کی توجہ کھینچ لی۔

اگست۱۹۴۷ء کے بعد جب برطانوی ہند دو ممالک، یعنی بھارت اور پاکستان میں تقسیم ہوا، تو سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی پاکستان ہجرت کے باعث اُس وقت سے ترجمان القرآن لاہور سے شائع ہورہا ہے۔ البتہ دعوتِ حق کی یک تخمی بہار کے وہ سفیر جو بھارت میں رہ کر چراغ ہدایت کا   عَلم تھام کر نکلے تھے، انھوںنے نومبر۱۹۴۸ء میں رام پور سے ماہ نامہ زندگی کا اجرا کیا۔ گویا کہ   ماہ نامہ زندگی بھارت کے معروضی حالات میں ماہ نامہ ترجمان القرآن کی صداے بازگشت لیے، علم وفضل کی منفرد علامت بن کر طلوع ہوا۔ اس کے اوّلین مدیر مولانا سید حامد علی تھے۔ بعدازاں مختلف اہل علم اس کی ادارت سے وابستہ رہے، جن میں مولانا سید احمد عروج قادری (م:۱۷مئی۱۹۸۶ئ) سب سے زیادہ عرصے تک مدیر رہے۔

زیرنظر کتاب اسی تاریخی رسالے ماہ نامہ زندگی، رام پور، اور بعد ازاں ماہ نامہ زندگی نو،  نئی دہلی کے نہایت مفصل اور سائنٹی فک اشاریے پر مشتمل ہے۔ ماہ ناموں میں بہت سے قیمتی مباحث و مقالات جگہ پاتے ہیں اور ان میں سے ایک قابلِ لحاظ تعداد کتابی مجموعوں میں جگہ پانے سے محروم رہتی ہے۔ رسائل و جرائد کے اشاریے (Index) ان قیمتی اور بھولی بسری تحریروں کی نشان دہی کرکے، علم کے شیدائیوں کو استفادے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

اشاریہ سازی ایک فنی اور فی نفسہٖ ایک علمی کاوش کا نام ہے۔ یہ محض مضامین کی نمبر شماری کا میکانکی عمل نہیں ہے۔ اس لیے ایک اچھے اشاریے کی تدوین میں اگر کوئی صاحب علم اپنی توجہ مرکوز کرے تو وہ اشاریہ، علم کا قطب نما بن سکتا ہے۔ الحمدللہ، زیر نظر اشاریہ ایک سنجیدہ محقق، صاحب ِ نظر عالم اور متین و شفیق استاد جناب ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کی محنت شاقہ کا نتیجہ ہے۔ جنھوںنے ہمیں ماہ نامہ زندگی/ زندگی نو  کے دامن میں سمٹے خزانے تک پہنچنے میں مدد دی ہے، اور نومبر۱۹۴۸ء سے دسمبر۲۰۱۵ء تک تقریباً ۶۷برس پر پھیلے ہوئے علمی سفر کا شریکِ سفر بنایا ہے۔

اشاریے کے آئینے میں یہ صورت سامنے آتی ہے کہ: اس پورے عرصے میں کل ۵۰۶۳ تحریریں اس ماہ نامے میں شائع ہوئیں اور ۱۲۱۳ کتب رسائل پر تبصرے چھپے۔ (یعنی اوسطاً سالانہ صرف ۱۸ تبصروں کی اشاعت کا مطلب یہ ہے کہ انتخاب ونقد کا ایک معیار رکھا گیا)۔ اسی طرح ۹۲۶ اہل قلم نے پرچے کی قلمی معاونت کی، جب کہ ۱۱۶ مترجمین (عربی، فارسی، ہندی، انگریزی) نے تعاون کیا۔ اہل قلم میں سے ۲۷اصلاحی، ۴۱فلاحی اور ۴۶ندوی پہچان رکھنے والے مضمون نگار ہیں۔ محترم رضی الاسلام نے عرضِ مرتب میں پرچے کا جامع تعارف کرایا ہے۔

بایں ہمہ مؤلف کے اس علمی فیض نے ہمیں ان بیسیوں اصحابِ علم سے واقفیت بہم پہنچائی ہے، جنھوںنے مختلف علمی معرکوں میں حق کی گواہی دی اور اپنا اپنا حصہ ادا کیا۔ اسلامی فکر و دعوت سے روشناسی کے لیے یہ خوب صورت اشاریہ، اصحابِ علم کی ضرورت ہے۔ (سلیم منصورخالد)


صحیح سیرتِ رسولؐ، تالیف: ڈاکٹر محمد صویانی، مترجم: محمد عباس انجم گونداوی۔ ناشر: مکتبہ قدوسیہ ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات:۷۳۴۔ قیمت: درج نہیں۔

زیرنظر کتاب میں مؤلف نے اس امر کا اہتمام کیا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت صرف صحیح احادیث سے مرتب کی جائے۔ صحیح ترین احادیث کی بنیاد پر حضور اکرمؐ کی سیرت کا مطالعہ ایک قابلِ تحسین کارنامہ ہے۔ سیرت النبیؐ پر بعض کتابوں میں ہر طرح کی غلط اور صحیح روایات جمع کردی گئی ہیں۔ سیرت النبیؐ پر ایسی کتاب کی ضرورت تھی جس کا ہرجز پوری صحت کے ساتھ پیش کیا جائے۔ فاضل مؤلف مبارک باد کے مستحق ہیں۔ مسلمانوں کو حضور اکرمؐ کا     صحیح اسوئہ حسنہ ہمیشہ مطالعے میں رکھنا چاہیے تاکہ آپؐ کی صحیح سیرتِ مبارکہ اپنی تمام جزئیات کے ساتھ سامنے رہے۔ قرآنِ مجید نے یہ حکم دیا ہے کہ وَاِِنْ تُطِیعُوْہُ تَہْتَدُوْا (النور ۲۴:۵۴) ’’اس کی اطاعت کرو گے تو خود ہی ہدایت پائو گے‘‘۔

زیرتبصرہ کتاب میں حضور اکرمؐ کی ولادت سے لے کر آپؐ کے وصال تک تمام چھوٹے بڑے واقعات ترتیب سے بیان کیے گئے ہیں۔ غزواتِ نبویؐ، وفود کی آمد، حجۃ الوداع، آپؐ کی بیماری کے حالات اور وفات حسرت آیات کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔(ظفرحجازی)


اقبال اور معارفِ اسلام ، گوہر ملسیانی ۔ ملنے کا پتا: توکل اکیڈمی، دکان نمبر۳۱، نوشین سنٹر، نیو اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۳۲۲۱۷۴۷۱-۰۲۱۔ صفحات: ۴۱۶۔ قیمت:۶۰۰ روپے۔

علامہ اقبال کی شاعری اور افکار و تصورات کی تشریح و توضیح اور تنقید و تجزیہ ایک سدابہار موضوع ہے۔ اس کا سبب علامہ اقبال کی شخصیت اور شاعری کی دل کشی ہے جو ہر لکھنے والے کو اپنی جانب کھینچتی ہے۔ مصنف کی اقبالیات سے وابستگی دیرینہ ہے۔ ایم فل انھوں نے اقبالیات میں کیا تھا مگر اس کے بعد بھی انھوں نے اقبال کا مطالعہ جاری رکھا۔ کئی برس پہلے اس کا نتیجہ کتاب: اقبال، علامہ اقبال کیسے بنے؟ کی صورت میں سامنے آیا۔ زیرنظر، اقبال پر ان کی دوسری کتاب ہے (تیسری کتاب اقبال کی فکری جہتیں عن قریب شائع ہوگی)۔

یہ کتاب ۱۶ مضامین کا مجموعہ ہے۔ عنوانات مختلف ہیں: (شعائر اسلام اور اقبال، علامہ اقبال اور مثالی معاشرہ، اقبال اور ثقافت ِ اسلامیہ، اقبال کا تصورِ تقدیر وغیرہ) مگر سب مضامین اقبال کی بنیادی تعلیمات کو اُجاگر کرتے ہیں اور بقول مصنف: ’’اسلامی روح کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں‘‘۔ آخری پانچ مقالات رسولِ کریمؐ اور بعض انبیا ؑ (حضرت آدم ؑ، حضرت ابراہیم ؑ،  حضرت موسٰی ؑ) کے حوالے سے ہیں۔ آخری مقالے کا عنوان ہے: ’کلامِ اقبال میں انوارِ قرآن کریم‘۔ مصنف نے اشعارِ اقبال اور آیاتِ قرآنی میں مطابقت دکھاتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ’’کلامِ اقبال کا بیش تر حصہ قرآنِ کریم کے نکات کی تصریح و تشریح کا آئینہ دار ہے‘‘۔ اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف اقبال کے ساتھ قرآن و حدیث اور سیرتِ پاکؐ کا بھی بہ خوبی مطالعہ رکھتے ہیں۔ پروفیسر ہارون الرشید تبسم نے دیباچے میں بتایا ہے کہ ’’کتاب کے پہلے نو مضامین ایم فل اقبالیات کے تحقیقی انداز میں تحریر کیے گئے ہیں‘‘ اور یہ ’’آنے والے محققین کے لیے انتہائی مفید ثابت‘‘ ہوں گے۔ جملہ مضامین اصولِ تحقیق کے مطابق حوالوں سے مزین ہیں۔(رفیع الدین ہاشمی)


ریڈیو پاکستان میں ۳۰ سال، انورسعید صدیقی۔ ملنے کا پتا: توکل اکیڈمی، دکان نمبر۳۱، نوشین سنٹر، نیو اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۳۲۲۱۷۴۷۱-۰۲۱۔ صفحات: ۵۴۸۔ قیمت: ۹۹۵ روپے۔

مصنف کہتے ہیں: ’’کوشش یہ رہی کہ ۴۰برسوں [صحافت ۱۰ سال+ریڈیو ۳۰سال]کے ان یادگار لمحات کو صفحۂ قرطاس پر دیانت داری کے ساتھ یک جا کردیا جائے‘‘۔ بلاشبہہ انھوں نے  یہ کام بخوبی انجام دیا ہے۔ کتاب میں ریڈیو پاکستان کے ساتھ خود مصنف کی اپنی کہانی بھی آگئی ہے۔ انورسعید نے ۱۰ برس متعدد اخبارات بشمول مشرق اور جسارت میں کام کیا۔ پھر ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوگئے اور نیوزکنٹرولر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ دیباچہ نگار رفیع الزمان زبیری کا خیال ہے کہ اگر ان کے ساتھ انصاف ہوتا تو وہ ریڈیو کے سب سے بڑے عہدے (ڈائرکٹر نیوز) سے ریٹائر ہوتے۔ جہاں تک [پاکستان میں] انصاف کا تعلق ہے انورسعید نے بتایا ہے کہ ایک مرتبہ ریڈیو سے کسی ایک فرد کی خدمات بی بی سی لندن کو مستعار دینی تھیں۔ میرا نام سرفہرست تھا۔ دوسرے نمبر پر ایک اور ساتھی (انیس صدیقی) اور تیسرے نمبر پر کوئی خاتون تھیں۔ روانگی کا وقت آیا تو خاتونِ محترم تشریف لے گئیں اور ہم دونوں منہ تکتے رہ گئے۔

انورسعید نے بھٹو کے دور کی بے انصافیوں، بے اعتدالیوں، غلط بخشیوں اور قانون شکنیوں کا تذکرہ کیا ہے۔ پھر ضیاء الحق کا دور بھی دیکھا، بطور شخص ان کی تعریف کی ہے مگر وہ ان کے ریفرنڈم کو بناوٹ سمجھتے ہیں۔ یہ کتاب بقولِ مصنف: ’’ صرف میرے مشاہدات، تصورات، تجربات اور واقعات پر مبنی ہے‘‘۔ کرنل اشفاق حسین کے الفاظ میں: ’’یہ کتاب پاکستان کا خوب صورت معلومات سے پُر تعارف بھی ہے اور ۳۰سال کی تاریخ بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، جب کہ جگہ جگہ خوب صورت شعروں کا برمحل استعمال کیا گیا ہے‘‘۔

انورسعید کو بیرونِ ملک جانے کے مواقع بھی ملے۔ ان میں سب سے قیمتی موقع وہ تھا جب وہ صدرمشرف کے ساتھ سعودی عرب گئے۔ سات مرتبہ حجراسود کو بوسہ دیا اور خانہ کعبہ کے اندر نوافل پڑھے۔ بعض شخصیات (جیسے محمد خان جونیجو، حکیم محمد سعید شہید، محمد صلاح الدین شہید، خالداسحاق اور ملک معراج خالد وغیرہ) کی تعریف کی ہے۔ صلاح الدین شہید پر پورا ایک باب ہے۔ کتاب بے حد دل چسپ اور لائقِ مطالعہ ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


مولانا سمیع الحق کی ڈائری اور علمی منتخبات، مرتب: مولانا عرفان الحق حقانی۔ ناشر:موتمرالمصنفین جامعہ دارالعلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک، نوشہرہ۔صفحات:۵۲۶۔ قیمت: درج نہیں۔

زیرنظر کتاب ایک ڈائری ہے جو مولانا سمیع الحق نے ۱۹۵۰ء سے ۱۹۸۳ء تک بعض سنین کے حذف کے ساتھ ۲۸برسوں میں تحریر کی۔ ڈائری میں کُل ۹۲۴؍ اندراجات کے تحت گھر، محلے، اپنے مدرسے، شہر، ملکی اور بین الاقوامی اُمور سے متعلق اپنی دل چسپی کی یادداشتیں قلم بند کی ہیں۔ سیاسی، مذہبی، علمی، ادبی اور درس و تدریس سے متعلق ایسے اُمور بھی زیرتحریر آئے ہیں جو مصنف کی ذہنی او ر فکری شناخت کا مظہر ہیں۔

ڈائری کے اندراجات میں تنوع ہے۔ مصنف علما سے عقیدت مندانہ وابستگی پر اور سیاسی اُمور پر بات کرتے ہیں۔ میرزاہد، صدرا اور قطبی کے بارے میں ریمارکس اور بعض شخصیتوں، (سیّد سلیمان ندویؒ، مناظر احسن گیلانی  ؒ، حضر ت مدنی  ؒ ، حضرت لاہوریؒ )کا ذکر ہے۔اس بات کا بھی تذکرہ ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں یہ بحث بھی ہوتی رہی کہ پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہو یا کچھ اور؟ (ص ۷۸)۔

ڈائری میں علمی و ادبی شہ پاروں کا انتخاب بھی دیا گیا ہے۔ یہ علمی نکات ۳۶۳ عنوانات کے تحت دیے گئے ہیں۔ ان سے مصنف کے علمی و ادبی ذوق کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ انھیں مولانا ابوالکلام آزاد کا اسلوبِ انشا پردازی مقابلتاً زیادہ پسند ہے۔ مولانا آزاد کے مجموعۂ خطوط کا نام نقشِ آزاد ہے جسے کمپوزر نے ’نقشِ آغاز‘ بنا دیا ہے۔ (ظفرحجازی)


عزیمت کے پیکر اور تحریک ِ اسلامی از مہرمحمد بخش نول۔ ناشر: بہاول چناب پبلشرز، ۹-بی سی بغداد، بہاول پور۔ صفحات: ۵۷۶ (مجلاتی سائز)۔ قیمت: ۱۲۰۰ روپے۔

تحریکِ اسلامی کا وہ قافلہ جو جماعت اسلامی کے نام سے معروف ہے، گذشتہ پون صدی سے دعوتِ دین اور تزکیۂ نفوس کے نہایت قابلِ قدر کام میں مشغول ہے۔ جماعت اسلامی یقینا دفاتر اور کتابوں کا نام نہیں بلکہ اُن سعید روحوں سے تشکیل پانے والے قافلے کا نام ہے، جس میں ہرعمر کے شیدائیانِ حق، اپنی زندگی کے بہترین لمحوں اور برسوں کو تحریک کے لیے تج دیتے ہیں اور اس طرح حق شناسی سے حق بیانی کا سفر کرتے ہوئے خالقِ حقیقی کے حضور پیش ہوجاتے ہیں۔

زیرنظر کتاب ایسے ہی متلاشیانِ حق اور پھر علَم بردارانِ حق کی زندگیوں کے مختصر مگر دل چسپ، سبق آموز اور جذبہ انگیز تذکرے پر مشتمل ہے، جس کو تعلیمی انتظامیات کے ایک اعلیٰ آفیسر جناب مہر محمد بخش نول نے ترتیب دیا ہے۔ تقریباً ایک سو افراد کی ایک کہکشاں میں مولانا مودودیؒ سے لے کر بنگلہ دیش میں تختۂ دار کو چومنے والے جاں نثاروں کا تذکرہ ہے۔ (ان میں سے چند افراد ایسے بھی ہیں جو بقید ِ حیات ہیں)۔ اس تذکرے میں ایمان کی چاشنی اور قافلۂ حق کی خوشبو موجود ہے۔ اہم تر بات یہ ہے کہ بہت سے ایسے رفقا کا تذکرہ ہے جو عام طور پر معروف و مشہور لوگوں میں شمار نہیں ہوتے، لیکن ان کی زندگیوں کے تذکرے کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اس قافلے کی روشنی کو دوچند کرنے میں ان پروانوں نے کس لگن سے ایثار اور عزم و ہمت سے کام لیا۔(سلیم منصور خالد)


مریخ سے ایک پیغام، تسنیم جعفری۔ ناشر: اُردو سائنس بورڈ، ۲۹۹-اپرمال، لاہور۔ صفحات: ۲۱۲۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔ فون: ۹۹۲۳۸۰۸۷-۰۴۲

کہانی میں دل چسپی انسانی فطرت کا خاصا ہے ، خصوصاً بچپن او ر کہانی کا تو چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کہنے کو تو کہانی نویسی کی روایت اب بھی ہمارے ادب کا حصہ ہے، لیکن فی زمانہ جہاں بچوں کی تعلیمی ضروریات اور سماجی، نفسیاتی اور اخلاقی تربیت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ادب کی کمی ہے، وہاں سائنسی موضوعات بالخصوص توجہ سے محروم ہیں۔ شاید اسی ضرورت کے پیش نظر مصنفہ نے سائنسی ادب کو اپنا موضوع بنایا ہے۔

زیرنظر کتاب ۱۱ کہانیوں اور افسانوں پر مشتمل ہے۔ یہ کہانیاں اس سے پہلے اُردو سائنس میگزین اور دیگر رسائل میں شائع ہوچکی ہیں۔ سائنسی کہانیوں کا بنیادی مقصد سائنس اور ٹکنالوجی کے بارے میں معلومات دینے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں سائنسی دریافتوں اور ایجادات کے امکانات کے خواب دکھا کر بچوں کے ذوق تجسس کو پروان چڑھانا ہے۔ دیباچے میں درست لکھا گیا ہے کہ ’’جب تک تخیلاتی دنیا میں تسخیر کائنات کو بیان نہیں کیا جائے گا، عملی دنیا میں اس کا ذوق پیدا نہیں کیا جاسکتا‘‘۔ (ص ۷)

مصنفہ نے مفید سائنسی معلومات کو پُرتجسس، عام فہم، رواں دواں اور دل چسپ انداز میں پیش کر کے قابلِ قدر کاوش کی ہے۔ کہانیوں میں ادبی محاسن کے ساتھ ساتھ سماجی اور اَخلاقی اقدار کا بھی بطورِ خاص خیال رکھا گیا ہے۔ تاہم، حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستانی بچوں کے لیے لکھی گئی ان کہانیوں کے کردار اور ماحول، ترقی یافتہ ممالک سے مستعار لیے گئے ہیں اور وہ بھی طبقہ اشرافیہ کے، جس سے یہ تاثر اُبھرتا ہے کہ شاید سائنسی انکشافات ترقی یافتہ ممالک کے متمول خاندانوں کے بچوں کے چونچلے ہیں جن کا پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کا عام بچہ متحمل نہیں ہوسکتا۔ (حمید اللّٰہ خٹک)


انتظار (افسانوں کا مجموعہ)، مصنف: نجمہ ثاقب۔ ناشر: ادبیات، رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردوبازار، لاہور۔فون: ۳۷۲۳۲۷۸۸-۰۴۲۔ صفحات:۱۶۰۔ قیمت: ۲۷۵ روپے۔

ادب، دل و دماغ کو متاثر کرکے نئی طرز پر استوار کرنے کا نام ہے۔ جو ادب دل و دماغ کی اصلاح کا کام کرے، نیکی اور خیر کے جذبات کو فروغ دے اور پروان چڑھائے وہی اعلیٰ اور تعمیری ادب ہے۔ صرف معاش اور جذبات و خیالات کی تسکین، آسودگی اور انگیخت کے لیے تخلیق کیا جانے والا ادب تعمیری اور اعلیٰ ادب قرار نہیں پاسکتا۔

انتظار، نجمہ ثاقب کے ۱۴ افسانوں کا مجموعہ ہے۔ ہرافسانہ اپنی جگہ دل چسپی کا سامان لیے ہوئے ہے۔ بعض افسانے تقسیم برعظیم سے پہلے ہندومسلم فسادات، بعض خالص دیہاتی ماحول و معاشرے  اور بعض سماجی و معاشرتی رہن سہن میں پائی جانے والی خرابیوں کو اُجاگر کرتے نظر آتے ہیں۔

مصنفہ کا اندازِ بیان گرفت میں لے لینے والا، مربوط اور گہرائی پر مبنی ہے۔ افسانوں کے عنوانات، زبان و بیان، اسلوب، محاوروں کا استعمال ، گہرے اور جان دار انداز و مشاہدے کا آئینہ دار ہے۔ آنکھوں سے کیے گئے مشاہدے کو الفاظ کا ایسا جامہ پہنایا گیا ہے کہ دل چسپی اور تجسّس آخر تک برقرار رہتا ہے اور نہ افسانہ چھوڑنے کو جی چاہتا ہے اور نہ کتاب۔ ’گیارھواں کمّی‘ ہو یا ’اُدھوری کہانی‘، ’کنگن‘ ہو یا ’ابابیلیں‘ ، تمام کہانیاں فنی و تکنیکی اعتبار سے عمدہ ہیں جن کے مطالعے سے یہ احساس ہوتا ہے کہ اچھا ادب اور تخلیق، نیکی و خیر کے جذبات کو کیسے پروان چڑھاتا ہے۔ اسلامی ادبی محاذ پر   ان افسانوں کو تازہ اور خوش گوار ہوا کا جھونکا قرار دیا جاسکتا ہے۔(عمران ظہور غازی)


مصر کی بیٹی زینب الغزالی، مرجان عثمانی۔ ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، ڈی-۳۰۷، دعوت نگر ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی-۱۱۰۰۲۵۔ صفحات:۴۰۔ قیمت: ۲۶ بھارتی روپے ۔

اس مختصر کتابچے میں پیش لفظ کے بعد ۳۶ عنوانات کے تحت ۱۹۱۷ء سے ۲۰۰۵ء تک زینب الغزالی کی بھرپور زندگی کا عکس پیش کیا گیا ہے۔ پیش لفظ میں مصنفہ نے لکھا ہے: ان کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ وہ ایک طرف ایک عبادت گزار، پرہیزگار، پابند شریعت خاتون ہیں تو دوسری طرف اسلام کی داعیہ و مبلغہ بھی ہیں۔ وہ ایک جانب بہترین شعلہ بیان خطیبہ و مقررہ ہیں تو دوسری جانب نمایاں سماجی خدمت گار اور یتیم بچیوں اور بے سہارا خواتین کی ہمدرد و غم گسار ہیں۔ وہ خواتین کو مسجد سے جوڑنے والی رہبر ہیں تو دین کی نشرواشاعت کے لیے انھیں آگے بڑھ کر کام کے لیے اُبھارنے والی ہیں۔ وہ اگر میدانِ جہاد میں کھڑی نظر آتی ہیں تو علماے دین سے فیضِ علم حاصل کرتے ہوئے بھی نظر آتی ہیں۔ وہ خواتین کی اصلاح و تربیت کے لیے بے چین رہنے والی ہیں تو ان کے گھروں کو ہمہ گیر، دین کی روشنی سے منور کرنے والی بھی ہیں‘‘۔ کیا اچھا ہو کہ یہ مختصر کتاب یہاں شائع ہو اور بڑی تعداد میں نہ صرف خواتین بلکہ مرد بھی پڑھیں۔(مسلم سجاد)


تعارف کتب

o الاصلاح ، مدیراعلیٰ: عزیرصالح۔ ملنے کا پتا: اصلاح انٹرنیشنل، ۱۸- وحدت روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۱۶۶۹۴-۰۴۲۔

[سیّد مودودی ایجوکیشنل ٹرسٹ کے تحت ادارہ اصلاح انٹرنیشنل (انسٹی ٹیوٹ آف سائنسز لینگویجز اینڈ ہیومینیٹیز) کا یہ ترجمان ڈاکٹر شبیراحمد منصوری کی سرپرستی میں عربی اور انگریزی میں شائع ہوتا ہے۔ آیندہ اسے ادارے کے تحقیقی مجلے کی صورت دے دی جائے گی۔ مدیر مجلہ رشیداحمد اشرفی رقم طراز ہیں کہ ٹرسٹ کے تحت چار ادارے تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں: ۱-سیّد مودودی انٹرنیشنل، انسٹی ٹیوٹ براے علوم اسلامیہ ۲-دارالقرآن الکریم (حفظ، قرأت و تجوید اور فہم قرآن) ۳- منصورہ ڈگری کالج ۴-اصلاح انٹرنیشنل۔ مستقبل کے عزائم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اصلاح انٹرنیشنل میں oکلیۃ الشریعہ والقانون oکلیۃ التعلیم وتدریب المعلمینoکلیۃ الاقتصاد الاسلامی oکلیۃ اللغات (عربی، انگریزی، فارسی، چینی وغیرہ) oکلیۃ التراجم والتصنیفoکلیۃ الدراسات الاسلامیہ کے شعبہ جات کا جلد آغاز کیا جارہا ہے۔ سیّد مودودی کے افکار کی روشنی میں یہ یقینا ڈائرکٹر ڈاکٹر شبیراحمد منصوری اور ان کے رفقا کی مخلصانہ کاوشوں کا مرہونِ منت ہے۔]

رسولِؐ رحمت تلواروں کے سایے میں (جلد پنجم)، حافظ محمد ادریس۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۲۵۲۴۱۹-۰۴۲۔صفحات:۴۰۰ ۔ قیمت (مجلد): ۳۶۵ روپے۔

قدیم و جدید کتب ِ سیرتؐ میں بیش تر مواد مغازیِ رسولؐ (رسولِ کریمؐ کی جہادی زندگی) پر موجود ہے۔ اوّلین سیرت نگار محمد بن اسحاق نے بھی سیرت النبیؐ کے اسی پہلو کو دیگر تفصیلات سے الگ کر کے مرتب کیا۔بعدازاں بہت سے تاریخ نگاروں نے سیرت نگاری کا فریضہ ادا کیا۔ بنیادی حیثیت کی حامل یہ تمام کتب عربی زبان میں ہیں۔ اب سیرت نگاری کا دائرہ کچھ مزید پھیل گیا ہے۔ ماخذ و مراجع تک رسائی کی سہولت نے اسے آسان تر بناد یا ہے۔ البتہ: ایں سعادت بزورِ بازو نیست!

اُردو سیرت نگاروں میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عسکری اور جہادی زندگی کی تفصیلات پر متعدد کتب موجود ہیں۔ رسولِؐ رحمت تلواروں کے سایـے میں، سیرتِ رسولؐ کے اس پہلو پرباقاعدہ طور پر مرتب کی گئی ہے۔ رسولِ کریمؐ کی زندگی کا مدنی دور جہادی سرگرمیوں کا  عہد ہے۔ لہٰذا ہجرتِ مدینہ کے تذکرے سے اس کتاب کا آغاز ہوتا ہے اور چار جلدوں میں غزواتِ رسولؐ اور صحابہؓ کے سرایا کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ چاروں جلدیں ۱۹۹۱ئ، ۱۹۹۴ئ، ۲۰۱۱ء اور ۲۰۱۳ء میں یکے بعد دیگرے شائع ہوئیں۔ سریۂ نجران پر چوتھی جلد کا اختتام ہوتا ہے۔ غزوات و سرایا کی تفصیلات کے علاوہ بھی عہدنبوت کے ان تمام واقعات کو ساتھ ساتھ ذکر کیا گیا ہے جن کا تعلق رسولِ کریمؐ کی عسکری جدوجہد اور دعوتی مساعی سے تھا۔

عنوانِ کتاب کی حدود کے لحاظ سے موضوع کا لوازمہ پورا ہوچکا تھا۔ البتہ سیرتِ نبویؐ کے نہایت اہم دور کی تفصیلات ابھی باقی تھیں۔ لہٰذا پانچویں جلد اسی دور کی کچھ تفصیلات کا احاطہ کرتی ہے۔ چھے ابواب میں سے پہلے تین ابواب کی تفصیلات کا راست تعلق سیرتِ رسولؐ سے ہے، یعنی ۱-عام الوفود ۲-حجۃ الوداع ۳-وصال النبیؐ۔ پہلا باب بارگاہِ رسالت میں ۴۸وفود کی آمد اور حاضری کا حال بیان کرتا ہے۔ دوسرا باب رسولؐ اللہ کے حج مبارک کی تفصیلات پر مشتمل ہے۔ تیسرے باب میں وصالِ رسولؐ کے لمحات، خلیفۂ رسولؐ کی بیعت، وراثت ِ رسولؐ اور خاندانِ نبوتؐ  کی تفصیلات موجود ہیں۔ رسولؐ اللہ کے ۳۷ غلاموں، ۱۷ خادموں، ۲۴کاتبینِ وحی اور تین اُمنا [امین کی جمع] کا تعارف ہے۔ اگلے تین ابواب، یعنی: ۴-لشکر اسامہ بن زیدؓ ۵-مرتدین اور مانعین زکوٰۃ ۶- جھوٹے مدعیانِ نبوت کے بارے میں تفصیل فراہم کرتے ہیں۔ ان سرگرمیوں کا دور عہدِنبوت تو نہیں ہے مگر ان کا آغاز اسی عہد سے تعلق رکھتا ہے۔

واقعات نگاری میں تاریخ و سیرت کی بنیادی کتب سے استفادہ کیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید اور کتب ِ احادیث سے بھی موقع بہ موقع استشہاد کیا گیا ہے۔ اسلوبِ نگارش والہانہ البتہ محققانہ ہے۔ مصنف دُعا اور مبارک باد کے مستحق ہیں کہ اُن کو سیرتِ رسولؐ کے مدنی دور کی تفصیلات قلم بند کرنے کی توفیق مرحمت ہوئی جو الحمدللہ تکمیل کو پہنچ گئی۔ اُمید ہے کہ یہ کتاب اُردو قارئینِ سیرت کو نئے اور  نادر گوشوں سے آشنا کرے گی۔(ارشاد الرحمٰن)


اَلعِقْدُ الْفَرید، احمد بن محمد بن عبدربہ الاندلسی، مترجم: ظہیرالدین بھٹی، نظرثانی: نگارسجاد ظہیر۔ ناشر:قرطاس پبلشرز، فلیٹ نمبر۱۵/اے، گلشن امین ٹاور، گلستان جوہر، بلاک ۱۵، کراچی۔ صفحات:۶۷۸۔ قیمت: ۸۰۰ روپے۔

صدیوں پر محیط مسلمانوں کے عربی ادب نے دنیا بھر کی زبانوں پر اپنے اثرات مرتب کیے۔ زبان و بیان اور تہذیب وثقافت پر پڑنے والے یہ اثرات آج بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ مختلف علوم و فنون میں تحریر کردہ مسلمانوں کی عربی کتابیں ایک طویل عرصے تک مغربی تعلیمی اداروں میں رائج رہیں۔ اَلعِقْدُ الْفَرید انھی کتابوں میں شامل ہے۔

عربی زبان کے شاعر اور انشاپرداز ابن عبدربہ (۸۶۰ئ-۹۴۰ئ) قرطبہ میں پیدا ہوئے اور مدت العمر اندلس ہی میں رہے اور قرطبہ میں دفن ہوئے۔ وہ خلیفہ عبدالرحمن الثالث الناصر (۹۱۲ئ-۹۶۱ئ) سے وابستہ تھے۔ ان کی ۲۵ کتابوں میں اَلعِقْدُ الْفَرید عربی ادب کی بہترین کتاب شمار کی جاتی ہے۔ زیرتبصرہ کتاب اس کے خلاصے پر مبنی کتاب کا اُردو ترجمہ ہے۔ اس کتاب کے ۲۵؍ ابواب ہیں، اور ہر باب کی دو فصلیں ہیں۔ ابواب کے نام جواہرات کے ناموں پر رکھے گئے ہیں، مثلاً: مرجان، زبرجد، یاقوت، زمرد وغیرہ۔

زیرنظر کتاب پندونصائح اور حکمت و دانائی کے جواہرات کا مجموعہ ہے۔ عقل و خرد اور فکرودانش کے یہ اَنمول موتی، مصنف نے عالمِ عرب کے دانائوں اور دیگر ممالک کے اہلِ قلم کی نگارشات سے اخذواکتساب کرکے جمع کیے ہیں تاکہ اہلِ عرب یہ جان لیں کہ مرکز سے دُور، انتہائی مغرب میں رہنے والے مسلمان بھی ان علوم سے بہرہ ور ہیں۔ (ص۴۲)

یہ کتاب تاریخ یا سیرت کی کتاب نہیں لیکن تاریخی واقعات کے ساتھ اس میں سیرت النبیؐ پر بھی قابلِ قدر لوازمہ پیش کیا گیا ہے۔ بادشاہوں کے حالات اور ان کی نفسیات پر ادبی، تمثیلی اور مکالماتی انداز میں بات کی گئی ہے۔حکایات، کہاوتوں، اشعار اور اقوال کی سند کو مصنف نے قصداً چھوڑ دیا ہے (ص۴۱)۔ مصنف چوں کہ خود شاعر ہے، اس لیے اس نے جگہ جگہ اپنے عربی اشعار درج کیے ہیں۔ جعلی نبیوں، بخیلوں، طفیلیوں، طب اور مزاح کے بارے میں لکھتے ہوئے مصنف نے کتاب کی دل چسپی کو برقرار رکھا ہے۔

کتاب نفیس کاغذ پر عمدگی سے شائع کی گئی ہے مگر پروف کی غلطیاں کھٹکتی ہیں۔ ادارہ قرطاس مبارک باد کا مستحق ہے کہ عربی کی نہایت اہم کتابوں کے تراجم شائع کر رہا ہے۔(ظفرحجازی)


تہذیب و سیاست کی اسلامی قدریں، مولانا سیّد جلال الدین عمری۔ ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی۲۵۔ صفحات:۹۶۔ قیمت: ۶۵ بھارتی روپے۔

مولانا سیّد جلال الدین عمری علمی حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ آپ کی معرکہ آرا تصنیفات میں معروف و منکر، تجلیاتِ قرآن، اوراقِ سیرت، غیرمسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق ، نیز صحت و مرض اور اسلامی تعلیمات شامل ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب آپ کے نو مقالات کا مجموعہ ہے جن میں تہذیب و سیاست کی تعمیر میں اسلام کا کردار، اسلام: امن و سلامتی کا پیغام، اسلام اور اصولِ سیاست، اسلام کا شورائی نظام، اسلام اور انسانی حقوق اور اسلام میں انسانی حقوق کی ضمانت شامل ہیں۔

’تہذیب و سیاست کی تعمیر میں اسلام کا کردار‘ ،مولانا کے ایک علمی خطاب پر مشتمل ہے جس میں اسلامی تہذیب کے بعض مظاہر، مثلاً طعام اور معاشرت میں اسلام کی بنا پر طرزِعمل میں تبدیلی سے بحث کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ عصرحاضر کے ایک امریکی دانش ور ہن ٹنگٹن کے تصورِتہذیبی تصادم کا مختصر تذکرہ بھی ہے، نیز اسلامی سیاست کے بعض اصول بھی بیان کیے گئے ہیں۔ دوسرا مقالہ مختصر ہے مگر اسلام اور سلامتی کے تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔ تحائف کی دینی اور سماجی اہمیت اور بعض احکام پر مضمون گو مختصر ہے لیکن تحائف دینے اور قبول کرنے کی اخلاقیات کو واضح کرتا ہے۔ ’اسلام اور اصولِ سیاست‘ ساڑھے پانچ صفحات پر مبنی ایک مختصر نوٹ ہے جس کے بعد ’اسلام     اور سیاست‘ کے زیرعنوان مقالے میں اسلام اور سیاست کے منطقی تعلق سے بحث کی گئی ہے۔    اگلے مقالے کا عنوان ’اسلام کا شورائی نظام‘ ہے۔ اس مقالے میں قرآنِ کریم میں شوریٰ کی فضیلت، احادیث میں اس کی اہمیت، اور اسلام کے مجموعی مزاج میں شوریٰ کے کلیدی کردار کا تفصیلی جائزہ   لیا گیا ہے۔ آخری دو مقالات حقوقِ انسانی کے بارے میں اسلامی موقف کی وضاحت کرتے ہیں۔

یہ مختصر مضامین اس لحاظ سے بہت مفید ہیں کہ کم وقت میں بھی ایک سنجیدہ قاری ان سے استفادہ کرسکتا ہے لیکن اگر ان مقالات کے اندرونی ربط کے پیش نظر انھیں مفصل مقالات کی شکل دے دی جاتی تو یہ ایک نہایت وقیع علمی پیش کش ہوتی۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


تعارف کتب

 حیاتِ طیبہؐ پر گیارہ کہانیاں ، سیّدمحمد اسماعیل۔ ناشر: نیشنل بک فائونڈیشن، ۶-ماؤو ایریا، تعلیمی چوک، سیکٹر۸-G، اسلام آباد۔ فون: ۲۲۵۵۵۷۲-۰۵۱۔ صفحات:۷۶۔قیمت:۷۰ روپے

۔[سیرتِ طیبہؐ پر منفرد انداز میں کہانیاں۔ پرندوں، حیوانات اور دیگر اشیا کی زبانی واقعات کو سرگزشت کے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ چند عنوان: غار کی کبوتری، سیاہ پتھر، حلیمہ کا گدھا، انگور کا گچھا، اَبرہہ کا ہاتھی، البراق، بدر کا کنواں، اسلام کا پرچم۔ تاریخی واقعات کو قرآن و حدیث کی روشنی میں دل چسپ انداز میںا س طرح پیش کیا گیا ہے کہ قاری ایک نئے انداز سے متعارف ہوتا ہے۔ بچوں کی ذہنی و اخلاقی تربیت کے لیے مفید کتاب، اور نیشنل بک فائونڈیشن کی عمدہ کاوش! اس اسلوب میں مزید کام کی ضرورت ہے۔]

 

سیّدابوالاعلیٰ مودودی کے دروسِ قرآن، مرتب: حفیظ الرحمن احسن۔ ناشر: اسلامک پبلی کیشنز، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۲۵۲۵۰۱- ۰۴۲۔صفحات: ۲۸۲۔ قیمت:۲۸۰روپے

رسالہ ترجمان القرآن (مدیر: سیّدابوالاعلیٰ مودودی) کا نام بہت معنی خیز ہے۔ اس لیے کہ سیّدمودودی کی عمربھر کی جدوجہد کا مقصد قرآنِ حکیم کے پیغام کی ترویج تھا اور اس کے لیے انھوں نے مختلف طریقے اختیار کیے۔ تفہیم القرآن کی تالیف، قرآنِ حکیم کی روشنی میں مختلف معاشرتی، اقتصادی اور عمرانی مسائل کی وضاحت اور دروسِ قرآن کے ذریعے سامعین کی تعلیم وتربیت۔ دروس کا یہ سلسلہ حیدرآباد دکن، دارالاسلام (پٹھان کوٹ) اور آخر میں لاہور میں ۷ستمبر ۱۹۶۷ء تک جاری رہا۔ اِن دروس کو بعض اصحاب نے فیتہ بند( ٹیپ )کیا اور اب انھی ٹیپ کردہ بعض دروس کو زیرنظر کتاب میں مرتب کیا گیا ہے۔ اِن میں سے چند ایک ترجمان القرآن کے گذشتہ شماروں میں شائع ہوچکے ہیں۔

دروسِ قرآن کی یہ پہلی کتاب، ۱۵ درسوں پر مشتمل ہے۔ دروس کی ترتیب قرآنی نہیں موضوعاتی ہے۔(تفسیر تعوذ و تسمیہ، دُعا اور جوابِ دُعا، ایمان اور اطاعت، ہارجیت کے فیصلے کا دن، ایمان اور آزمایش، نفاق سے پاک غیرمشتبہ اخلاص، اللہ سے تجارت، بعثت ِ رسولؐ اور حکمت ِ دین، نمازِجمعہ: حکمت اور تربیت، منافقین کا طرزِعمل، اسلامی معاشرت اور طلاق، نبیؐ کی خانگی زندگی، تہجد اور تربیت ِ نفس)

سیّد مودودی کے یہ دروس اِس لیے اہم ہیں کہ تفہیم القرآن کے مقابلے میں مولانا نے یہاں نسبتاً تفصیل سے بات کی ہے، مثلاً :سورئہ فاتحہ کا درس ۲۲صفحات پر مشتمل ہے ، جب کہ تفہیم کے حواشی مختصر ہیں۔ ایک اور اعتبار سے بھی دروس کا مطالعہ دل چسپ ثابت ہوگا، مثلاً: ایک ہی سورہ یا بعض آیات کی تفہیمی تشریحات اور دروسی تقاریر میں ۲۰،۲۰ سال کا وقفہ ہے۔ یقینا اِس عرصے میں سیّدمودودیؒ کے ذہن میں کچھ نئے نکات بھی مرتب ہوتے رہے جن کا اظہار زیرنظر دروس میں ہوا ہوگا۔

قرآنِ حکیم کے درس و تدریس کے لیے بھی یہ دروس نہایت معاون اور مددگار ہیں جیساکہ مرتب نے دیباچے میں بتایا ہے۔ زیرنظر کتاب مجموعۂ دروس کی ’کتابی تشکیل اور تدوین‘ میں مرتب کو سلیم منصور خالد اور امجد عباسی کا خصوصی تعاون حاصل رہا ہے۔ ہدیہ مناسب ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


کعبہ میرے آگے، مولانا عبدالقیوم حقانی۔ ناشر: القاسم اکیڈمی، جامعہ ابوہریرہ، خالق آباد، نوشہرہ، صفحات: ۴۱۶۔ قیمت: درج نہیں۔

اس کتاب میں مصنف کے حج اور عمروں کے اسفار کی رُودادیں جمع کی گئی ہیں۔ مولانا حقانی کے یہ سفرنامے ان کی ڈائریوں اور ماہنامہ قاسم میں محفوظ تھے۔ مصنف نے حرمین شریفین میں بیتے ہوئے لمحات کو ’حاصلِ زندگی‘ قرار دیا ہے۔

زیرتبصرہ کتاب میں جہاں قلب و نظر کی کیفیات بیان کی گئی ہیں وہاں شرع کے اصول و قواعد بھی بیان ہوئے ہیں۔ پردے کے بارے میں مصنف نے نہایت دردمندی سے حکومت ِ سعودیہ سے التماس کی ہے کہ کوئی ایسا ضابطہ بنایا جائے جو حجاج کرام پر قانوناً نافذ ہو۔  بے پردگی گناہِ کبیرہ کا ارتکاب ہے۔ بھرپور اور جرأت مندانہ اقدام ہی سے ایسے منکرات کا خاتمہ ہوسکتا ہے (ص ۲۴۲)۔ ایک اور کبیرہ بلکہ اکبر الکبائر گناہ کا ارتکاب اس طرح ہو رہا ہے گویا یہی کارخیر ہے۔ خواتین، بوڑھوں، نوجوانوں کے ہاتھ میں تختی نما بڑے بڑے موبائل ہیں۔ ریاض الجنۃ میں پوری نماز فوٹو کھنچوانے کے لیے پڑھی جارہی ہے۔ لاکھوں کے مصارف اور سفری صعوبتیں برداشت کر کے حج کے لیے حرمین شریفین پہنچ تو جاتے ہیں مگر مسائل سے ناواقفیت کی بناپر نہ ان کے حج صحیح ہوپاتے ہیں اور نہ عمرے۔ (ص ۳۹۰)

کتاب میں تاریخِ اسلام کے متعدد واقعات، آثارِ قدیمہ کے مشاہدات اور عصرحاضر کے بعض اجتماعی مسائل پر مصنف نے اظہارخیال کیا ہے۔ دسمبر۲۰۱۳ء کے عمرے کے دوران مسجدالحرام کے امام ڈاکٹر سعود الشریم کے جمعۃ المبارک کے خطبے کا خلاصہ بھی دیا گیا ہے جس میں خطیب نے فرمایا: فرزندانِ اسلام آلام و مصائب سے مایوس نہ ہوں، اچھی اُمید رکھیں....

حضور اکرمؐ کی حیاتِ طیبہ خوش گمانی اور پُرامیدی کی خوب صورت علامت ہے۔ انتہائی مایوس کن حالات، جنگوں اور ہر طرف سے ناکہ بندیوں کے عالم میں بھی محبوب آقاؐ نے اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ آپؐ ہی کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ (ص ۳۳۳-۳۳۴)


کتاب علم و عرفان کا خزینہ ہے۔ مصنف کا اسلوبِ بیان بے تکلف، علمی اور شگفتہ ہے۔(ظفرحجازی)

انسائی کلوپیڈیا مدینۃ النبیؐ، تحقیق و تالیف: مولانا محمد اسحاقؒ، ڈاکٹر رانا خالد مدنی۔ ناشر: یو ایم ٹی پریس، یونی ورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹکنالوجی، C-II ، جوہر ٹائون، لاہور۔ فون: ۳۵۲۱۲۸۱۹-۰۴۲۔ صفحات: (بڑی تقطیع): ۴۶۴،رنگین تصاویر آرٹ پیپر:۱۵۰ صفحات۔ قیمت: ۳ہزار روپے۔

کبھی کبھی آپ کے ہاتھوں میں ایسی کتاب آتی ہے کہ آپ سوچتے رہ جاتے ہیں کہ اس کی کتنی تعریف کریں، کس طرح کریں۔ ظاہری لحاظ سے بہترین پیش کش،جِلد، کاغذ و طباعت بے مثال اور لوازمہ دیکھنا شروع کریں تو جیسے موضوع کا ایسا حق ادا کیا گیا ہو کہ اس سے بہتر ممکن نہیں، فللّٰہ الحمد۔

انسائی کلوپیڈیا واقعی انسائی کلوپیڈیا ہے۔ مدینہ منورہ کے بارے میں کون سی بات ہے جو بہترین انداز سے اس کتاب میں موجود نہیں ہے اور پھر ۱۵۰صفحات پر تصاویر چہاررنگی اور ایسی جیسے آپ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں بلکہ اگر آپ مدینہ چلے جائیں تو بھی اتنا کچھ نہیں دیکھ سکتے۔

فہرست سے بھی پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں اس شہر کی قدروبرکات اور رسولؐ اللہ کے نزدیک اس کی عظمت آیات و احادیث کے حوالے سے بیان کی گئی ہے۔

کتاب شروع ہوتے ہی مدینے کے سو (۱۰۰)ناموں کی تفصیل ۲۷صفحات میں بیان کی گئی ہے۔ پھر قرآن میں ذکر کیے جانے والے آپؐ کے نام بیان ہوئے ہیں۔ اس کے بعد قرآن اور حدیث میں بیان کیے گئے صفاتی ناموں کی تفصیل ہے۔ حدودِ حرم کے بارے میں ۱۳ اور  فضائلِ مدینہ کے بارے میں ۳۲ احادیث بیان کی گئی ہیں۔ اس کے بعد ہجرت کی داستان پس منظر سے شروع ہوتی ہے اور غارِ ثور، مسجدقبا اور مدینہ میں آمد کا بیان۔ پھر مسجدنبویؐ کا ذکر ۱۵۰ صفحات تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کی تعمیر کے مراحل اور ہرتفصیل تصویر کے ساتھ درج ہے۔ آخر میں روضۂ رسولؐ کی زیارت کے بارے میں ۳۴؍ احادیث کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔

مدینے کی مساجد، وادیاں، مشہور پہاڑ، ڈیم اور زراعت، حتیٰ کہ مدینے کے زلزلوں کا بھی ذکر ہے۔ مارکیٹوں کے تحت ۱۲ قسم کی معروف مارکیٹوں کا ذکر ہے۔ یہاں کی لائبریریاں، مدینہ یونی ورسٹی، تعلیمی ادارے، خواتین کالج، شادی کے رسوم و رواج، حتیٰ کہ مدینہ کے شادی گھروں کے نام بھی موجود ہیں۔ آخر میں آیات و احادیث اور اشعار کا اشاریہ درج ہے۔ مراجع و مصادر بشمول ویب سائٹس کی فہرست میں ۳۷۵ اندراجات ہیں۔ کتاب کی کمپوزنگ صحت اور اجر کے نقطۂ نظر سے خالد رانا صاحب نے خود کی ہے۔ کتاب تحقیق کے اعلیٰ معیار کے مطابق ہے۔ آیات، احادیث پر اور بڑی حد تک عربی عبارات پر اعراب لگائے گئے ہیں۔

اس کتاب کا خیال سوچنے، مرتب کرنے، پیش کش کے لیے تیار کرنے، طباعت کے مراحل سے گزارنے والوں کے لیے تحسین اور دُعائیں۔ قلب و نظر کے لیے دل کش تحفہ فراہم ہوگیا ہے۔ منشورات سے رعایتی قیمت پر صرف ۲ہزار روپے میں دستیاب ہے۔

مصنف ادارہ اشاعت اسلام کے سربراہ ہیں۔ اس ادارے کی ۷۳ مطبوعات کی فہرست آخر میں درج ہے۔ اس سے ادارے کی غیرمعمولی کارکردگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ مستند احادیث کا انسائی کلوپیڈیا عربی اُردو میں ۱۵۰ جلدوں میں طباعت کے لیے تیار ہے۔ جو تحقیقی ادارے کتابچے چھاپنے لگے ہیں، وہ نوٹ کریں۔(مسلم سجاد)


تجلیاتِ رسالتؐ، تفاخر محمود گوندل۔ ناشر: ماورا پبلشرز، ۶۰- شاہراہ قائداعظم، لاہور۔ فون:۴۰۲۰۹۵۵-۰۳۰۰۔ صفحات: ۴۱۳۔ قیمت: ۸۰۰ روپے

سیرتِ سرور کونینؐ ہر زمانے، علاقے اور زبان میں لکھی گئی اور لکھنے والوں نے اپنی محبت و عقیدت کے پھول نچھاور کیے۔ حضور ختمی مرتبتؐ کے ساتھ ایک مسلمان کا رشتہ و تعلق ایمان و عقیدے، اتباع و اطاعت کا ہے۔ اس رشتے کو نبھانے میں وہ ساری زندگی لگادے تب بھی اس کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ تجلیاتِ رسالتؐ کے نام سے پروفیسر تفاخر محمود گوندل نے عقیدت و محبت کے پھول ایک نئے، اچھوتے اور نرالے انداز میں نچھاور کرنے کے لیے مروجہ طریق سے ہٹ کر نئی طرح ڈالی کی ہے۔ زبان و قلم کی جولانیاں اپنے بانکپن اور عروج پر نظر آتی ہیں۔ انھوں نے ۶۰عنوانات کے تحت ایسے قیمتی موتی اور جواہر جمع کر دیے ہیں۔ ہرعنوان کسی شعر سے ماخوذ ہے اور خوب ہے۔ کتاب کی زبان کوثر و تسنیم سے دھلی ہوئی دل و دماغ کو معطر اور آنکھوں کو نم کردینے والی ہے۔ الفاظ کا چنائو، زبان و بیان کی شیرینی ادبی خوشہ چینی سے معمور اور رنگ لیے ہوئے ہے۔ سیرت کے معتبر، ثقہ اور معروف واقعات کو کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے لیکن لکھنے والے نے تحقیقی انداز اختیار کرنے کے بجاے ایسا انداز اختیار کیا ہے جو قاری کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور ایک عنوان کا لوازمہ ختم کر کے دوسرے عنوان کو شروع کرنے کو جی چاہتا ہے۔ گل دستۂ سیرت میں سجنے والا یہ پھول نہایت عمدہ اور دیدہ زیب ہے جو تفاخر کا تفاخر ہے۔

کتاب کا لوازمہ عمدہ، زبان نہایت خوب صورت ، جملے مرصّع مسجّع، طباعت معیاری، عمدہ کاغذ، سرورق اور نام دونوں پُرکشش اور دیدہ زیب۔سرورِ کونینؐ کے عشق و محبت کے رنگ کو چوکھا کرنے اور دل و دماغ میں بسا لینے پر آمادہ کرنے والی ایک خوب صورت کتاب جسے پڑھ کر حضوؐر کے ’اسوئہ حسنہ‘ سے وابستگی کروٹیں لیتی ہے۔(عمران ظہور غازی)


ارکانِ اسلام، پروفیسر ڈاکٹر علی اصغر چشتی۔ ناشر: نیشنل بک فائونڈیشن، ۴/۸-G، اسلام آباد۔ فون: ۲۲۵۵۵۷۲-۰۵۱۔صفحات [بڑی تقطیع]:۲۲۸۔ قیمت: ۲۲۰ روپے

حدیثِ رسولؐ میں پانچ چیزوں کو عمارتِ اسلام کی بنیادیں قرار دیا گیا ہے۔ یہ بنیادیں دینی اَدب میں ارکانِ اسلام کے نام سے معروف ہیں۔ ہر عہد کے علماے دین نے ان ارکان کی تشریحات قلم بند کی ہیں۔ سیّد ابوالاعلیٰ مودویؒ نے پٹھان کوٹ میں دیے گئے اپنے خطبات میں ان پر بہت مؤثر گفتگو کی ہے۔

زیرنظر کتاب ارکانِ اسلام کا مقصد یہ تھا کہ خالص تحقیقی اور علمی انداز سے صرفِ نظر کرتے ہوئے بالکل عام فہم سادہ زبان اور اُسلوب میں توحید، نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کے بارے میں آگاہی دی جائے۔ پانچ ارکان کو پانچ ابواب میں بیان کیا گیا ہے۔ ۲۳۰ صفحات کی کتاب کا نصف نماز کے مسائل سے متعلق ہے اور دوسرا نصف توحید، روزہ، حج، زکوٰۃ پر مختصر روشنی ڈالتا ہے۔ ’نماز‘ کے عنوان کے تحت آٹھ فصلوں میں نمازی کے لیے ضروری ہدایات، جماعت کے بارے میں ضروری ہدایات، نماز کی اہمیت، نماز پڑھنے کا طریقہ، نمازِ جمعہ کے بارے میں ضروری باتیں، دونوں عیدوں کی نماز کے بارے میں ضروری باتیں، جنازہ کی نماز اور جنازہ کے مسائل پر بہت تفصیل سے رہنمائی دی گئی ہے۔ (ارشاد الرحمٰن)


دعوت الی اللہ ، اہمیت ، امکانات و وسائل، خاص نمبر ماہنامہ راہِ اعتدال، مدیر: حبیب الرحمن اعظمی عمری۔ ناشر: جمعیت ابناے قدیم، جامعہ دارالسلام، عمرآباد- ۶۳۵۸۰۸، جنوبی ہند۔ صفحات: ۲۱۸، قیمت: ۷۰ روپے بھارتی۔ سالانہ زرتعاون: ۲۰۰ روپے بھارتی، فی شمارہ: ۲۰ روپے۔

افتتاحی اور اختتامی نشست کے علاوہ، موضوع کے مختلف پہلوئوں پر ۱۴، ۱۵، ۱۶ نومبر ۲۰۱۵ء کو منعقدہونے والی سات نشستوں کے سیمی نار کے مقالات پر مشتمل ہے۔ ہر نشست میں کلیدی خطاب کے بعد چار مقالات پیش کیے گئے۔ سات موضوعات ہیں: ۱-مزاجِ دعوت اور اُمت مسلمہ ۲- دعوتِ دین اور عربی مدارس ۳-دعوت کے امکانات اور وسائل ۴-دعوت کا ملکی منظرنامہ ۵- دعوت و اصلاح میں توازن ۶- دعوت کے لیے عملی تیاری ۷-نومسلموں کے مسائل۔

خطاب کرنے والے بیش تر ہمارے پاکستانی قارئین کے لیے اجنبی نام ہیں، تاہم مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مسعود عالم قاسمی، ڈاکٹر محمد منظور عالم، محمد سفیان قاسمی، حذیفہ دستانوی،   خلیل الرحمن سجاد نعمانی، ایچ عبدالرقیب، محمد اقبال مُلّا معروف ہیں۔ بعض موضوعات کی نشان دہی کر رہا ہوں، تفصیل کا تبصرہ متحمل نہیں ہوسکتا۔ دعوت کے لیے علاقائی زبان کی اہمیت، دعوت سے غفلت کے اسباب و نتائج، موجودہ دور میں دعوتِ دین کے امکانات، میدانِ دعوت اور حالات کے تقاضے، دعوتِ دین کے لیے افراد سازی، دعوتِ دین کے عملی تقاضے، نومسلموں کی تعلیم و تربیت___ مقالات عموماً مختصر ہیں۔ غالباً مکمل نقل نہیں کیے گئے ہیں۔ ۲۱۸صفحات میں ۵۰ مقالات! سب سے جامع خطاب افتتاحی نشست میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا ۲۰ صفحات پر مشتمل ہے۔

بہت کارگر عملی تدابیر تجویز ہوئی ہیں۔ بہت دل چسپ دعوتی تجربات کا ذکر آیا ہے، مثلاً ’محمدؐ: امن کی تعلیمات‘ پر مضمون نویسی کا مقابلہ کروایا۔ یہ صرف غیرمسلموں کے لیے تھا۔ کالج کی ایک لڑکی اوّل آئی۔ اس نے انعام لینے سے انکار کر دیا کہ یہ غیرمسلموں کے لیے ہے لیکن آج میں الحمدللہ مشرف بہ اسلام ہوں۔ مقابلے میں شریک ہوکر، اسلام کی دولت مل گئی۔ اس سے بڑا انعام کیا ہوسکتا ہے (ص۶۹)۔ ایک مسئلہ سامنے آیا ہے جو ہمارے ناشرین کے لیے بھی قابلِ غور ہے۔ بہت ساری ویب سائٹس معمولی قیمت پر یا مفت کتابیں فراہم کرتی ہیں۔ Newshunt.com کے ذمہ دار نے مضمون نگار کو بتایا کہ سب سے زیادہ مانگ ترجمۂ قرآن اور اسلامی لٹریچر کی ہے۔ اگر انھیں کاپی رائٹ کی قید سے آزاد کر دیا جائے تو اشاعت لاکھوں میں ہوسکتی ہے۔ عیسائی مشنری ادارے سب کچھ بلامعاوضہ فراہم کرتے ہیں لیکن ہمارے ناشرین ہزار دو ہزار چھاپ کر خوش ہوجاتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ دعوتی مقاصد کی خاطر ’جملہ بحق حقوق ناشر‘ کے خول سے باہر نکلا جائے۔ (ص۱۲۵)

آخری بات، ایک تاثر، کاش کوئی پاکستانی اسلامی تحقیقی ادارہ، کوئی تھنک ٹینک، کوئی رسالہ، کوئی دینی تحریک اس نوعیت کا سیمی نار پاکستانی تناظر میں کروائے۔ میدانِ دعوت کے کارکن اور قائد بہت کچھ اس نمبر سے بھی حاصل کر کے اپنی جدوجہد کو مفید اور نتیجہ خیز بناسکتے ہیں۔(مسلم سجاد)


تیرے نام، تیری پہچان، تالیف: ساجدہ ناہید، بشریٰ تسنیم۔ ناشر: مسلم پبلی کیشنز، ۲۵-ہادیہ حلیمہ سنٹر،غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۱۰۰۲۲۔صفحات:۵۵۲۔ قیمت: درج نہیں۔

خالق کائنات ہی سبھی محبتوں کا مرکز ہے اور اسی کو زیبا ہے کہ وہ تمام عقیدتوں اور محبتوں کا مرکز بنے۔ اسی نے ہمیں تخلیق کیا، وہی پالنے والا ہے اور اسی کی طرف لوٹ کے جانا ہے۔

زیرنظر کتاب اسی ابدی محبت کو الفاظ کے پیرایے میں بیان کرنے کی ایک منفرد اور کامیاب کوشش ہے، جسے دو خواتین نے بڑی ذمہ داری، احتیاط اور محنت سے قلم بند کیا ہے۔ اگرچہ اس کتاب کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے اسماء الاحسنیٰ ہیں، مگر ان اسماے پاک کی تفہیم و تشریح، دعوت اِنذار اور محبت و شیفتگی کا انداز بالکل نیا، جدا اور انوکھا ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے فرد اسماء الاحسنیٰ کی لاکھوں پرتوں میں سے چند پرتوں کی جھلک دیکھتا اور بے اختیار سجدے میں گر جاتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ اسلوب نہ افسانوی ہے اور نہ ڈرامائی، بلکہ اس طرزِ بیان کا استشہاد براہِ راست قرآن و سنت اور حدیث پاک سے کیا گیا ہے۔

کتاب کی ترتیب و تدوین میں تو داخلی حسن ہے ہی، مگر ناشر نے بھی اشاعت کی پیش کش میں حُسنِ نظر کا سامان مہیا کردیا ہے۔ یقینا یہ کتاب تعلیم و تربیت کا ایک ماخذ ہے۔ (سلیم منصور خالد)


تعارف کتب

o  القرآن: بحیثیت اسکول نصابی کتاب ، (حصہ دوم)، مرتب: پروفیسر ڈاکٹر محمداسحاق منصوری۔    ناشر: اسلامی نظامت ِ تعلیم پاکستان، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۲۵۲۳۹۱-۰۴۲۔ صفحات:۲۳۶۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔[بقول مرتب: ’’ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے مروجہ تعلیمی اداروں میں قرآن اسکول نصابی کتاب کی حیثیت سے پڑھایا جائے۔ چھٹی تا دسویں جماعت کے طلبہ و طالبات کو مکمل قرآن مجید کا ترجمہ، ہررکوع کے بعد چند آسان سوالوں کے جواب کے ساتھ پڑھایا جائے‘‘۔ یہ کتاب اسی ضرورت کے پیش نظر مرتب کی گئی ہے۔ ساتویں جماعت کے لیے سورئہ مریم تا سورئہ جِنّ کا نصاب مرتب کیا گیا ہے اور ہر رکوع کے آخر میں سوالات اور معروضی مشقیں دی گئی ہیں، تاکہ آیاتِ قرآنی کے اہم مضامین ذہن نشین ہوجائیں۔ سرکاری اور نجی اداروں کو طلبہ و طالبات کی تعلیم و تربیت اور قرآن فہمی کے لیے اس اہم علمی خدمت سے استفادہ کرنا چاہیے ۔]

o  اقبال کے مکالمات اور اقوالِ زریں ، تحسین ادیب۔ناشر: راحیل پبلی کیشنز، توکل اکیڈمی، ۳۱-نوشین سنٹر، نیواُردو بازار ، کراچی۔ صفحات:۱۶۷۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔[’اقبال کے مکالمات‘ میں اقبال کی ۲۷منتخب نظموں کے مطالب نثر میں۔ ’اقوالِ زریں‘ کے تحت ۵۶موضوعات (خدا، انسان، تحریر و تقریر، عقل، نگاہ و دل، حُسن، عشق، مرض، آفتاب، خودی، نماز، سینما وغیرہ) پر اقبال نے جو کچھ شاعری میں کہا، اس (ایک شعر یا ایک مصرع) کی نثران ایک ایک جملوں کو اقبال کے ’اقوال‘ کے طور پر پیش کیا ہے، مگر یہ اقبال کے اقوال نہیں ہیں۔ خیال اقبال کا ہے اور الفاظ مؤلف کے۔]


 

الفرقان سورۃ النسآئ،ترتیب و تہذیب: شیخ عمر فاروق۔ ناشر: جامعہ تدبرالقرآن ۱۵بی، وحدت کالونی،لاہور۔فون:۳۷۸۱۰۸۴۵۔ صفحات ۵۹۲، ہدیہ: وقف للہ تعالیٰ

آخری پارہ، بقرہ اور آل عمران کے بعد، شیخ عمر فاروق کی یہ ضخیم تالیف حسب سابق وقف للہ تعالیٰ ہے۔ قرآن کی تفہیم کے لیے معروف تفاسیر: تفہیم القرآن، تدبر القرآن، معارف القرآن، تیسیر القرآن، فہم القرآن اور کئی دوسری، کہیں کہیں عربی سے ترجمہ بھی انتخاب کرکے پیش کرتے ہیں۔ اس کے بعد تفہیم بالقرآن اور تفہیم بالحدیث کے تحت مفہوم سے متعلق آیات و احادیث عربی متن و ترجمہ پیش کرتے ہیں۔ آخری عنوان آیات مبارکہ کی  حکمت و بصیرت کے تحت ۱،۲،۳کرکے نکات کے تحت آیت کے مزید نکات خصوصاً اخلاقی پہلو اور مسلمانوں کی موجودہ حالت کے حوالے سے بیان ہوتے ہیں۔ جابجا اشعار بھی جیسے جڑ دیے گئے ہیں جو مضمون کی وضاحت کرتے ہیں اور کشش کا باعث ہیں۔ ۱۷۶آیات ۶۰۰صفحات پر بیان ہوئی ہیں۔ اگر کوئی اوسطاً۱۰صفحے روز پڑھنے کا التزام کرے، دو ماہ میں قرآنی معارف کے بحر ذخار سے سیراب ہوگا (کتاب پر ایک پیسہ خرچ کیے بغیر!)۔

سورۂ نساء میں اہم معاشرتی مسائل اور جہاد کا تذکرہ ہے۔ اہل کتاب کے ساتھ کفار، مشرکین، منافقین کی بھی نقشہ کشی کی گئی ہے۔ نیز مخلص اہل ایمان اور رسولؐ اللہ کی اپنی ذات گرامی کا بھی جگہ جگہ تذکرہ ملتا ہے۔

شیخ صاحب نے بڑی دلجمعی، ایمانی حرارت اور علمی وقار کے ساتھ تفسیری افادات کو مرتب کیا ہے۔ انھیں بس یہی فکر ہے کہ اُمت مسلمہ قرآن جیسی گوہرِ نایاب کتاب کو مقصد ِ حیات بناکر  اپنی عظمت رفتہ کو پھر سے پالے۔ اس خدمت کے لیے وہ متلاشیانِ حق کی دعائوں کے حق دار ہیں۔ بیرون لاہور کے احباب ۶۰روپے کے ٹکٹ بھیج کر کتاب منگوا سکتے ہیں۔(مسلم سجاد)


شاہ عبدالقادرؒ کے اردو ترجمۂ قرآن کا تحقیقی ولسانی مطالعہ،ڈاکٹر محمد سلیم خالد۔ ناشر: ادارۂ یادگارِ غالب، پوسٹ بکس ۲۲۶۸، ناظم آباد کراچی۔ فون: ۳۶۶۸۶۹۹۸۔ صفحات: ۲۶۴۔ قیمت(مجلد): ۴۰۰ روپے۔

شاہ عبدالقادر (۱۱۶۷ھ-۱۲۳۰ھ) کا اردو ترجمۂ قرآن مجید ۱۸۲۹ء میں دہلی سے شائع ہوا، جسے بالعموم پہلا اردو ترجمہ قرار دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے اندازے کے مطابق اب تک ۱۶۴ سے زائد مترجمین نے اپنے اپنے انداز میں قرآن مجید کے اردو ترجمے کیے ہیں۔

ترجمہ نویسی ایک مشکل فن ہے۔ کیونکہ ہر زبان ایک مخصوص تہذیبی اور ثقافتی مزاج رکھتی ہے۔ جب ایک زبان کی تخلیق کا دوسری زبان میں ترجمہ کیا جاتا ہے، تو دونوں زبانوں کے مزاج کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ترجمۂ قرآن مجید تو اور بھی نازک اور مشکل کام ہے۔

زیر نظر کتاب کے مصنف نے ترجمۂ قرآن مجید کی ضرورت و اہمیت اجاگر کرنے کے بعد شاہ عبدالقادرؒ کے حالات اوران کی علمی خدمات کا ذکر کیا ہے۔ ترجمے کی خصوصیات کے ساتھ ان کے ترجمۂ قرآن کا لسانی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ لغت اور لسانیات سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ لسانی مطالعہ معلومات افزا ہو گا۔

مصنف نے بتایا ہے کہ مختلف لغات میں کسی ایک لفظ یا محاورے کے کیا کیا معنی ہیں، اورشاہ عبدالقادرؒ نے تمام لغات سے ہٹ کر کوئی نیا معنی اختیار کیا ہے اور اس میں کیا انفرادیت ہے؟ ان کے خیال میں ’’یہ ترجمۂ قرآن مجید محض ترجمہ نہیں بلکہ ادبی و لسانی خوبیوں کا خزانہ ہے اور    شاہ صاحب کی عبقریت اور زبردست لسانی شعور کا زندہ و جاوید ثبو ت ہے‘‘ (ص۲۳۴)۔ بقول ڈاکٹر جمیل جالبی: ’’یہ ترجمہ اردو ہندی لغت کا ایک بڑا خزانہ ہے۔ اس ترجمے کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہ عبدالقادر عام لفظوں کو نئے معنی پہنا کر انھیں نئی زندگی دے رہے ہیں‘‘۔(رفیع الدین ہاشمی)


نماز (کتاب الصلٰوۃ)، تشریح: مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی۔ ناشر: البدر پبلی کیشنز، راحت مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون:۴۱۷۳۰۶۶-۰۳۳۳۔صفحات (بڑا سائز):۳۳۴۔ قیمت:۳۵۰ روپے۔

یہ کتاب سیّد مودودی کے دروسِ حدیث پر مشتمل ہے جو مشکوٰۃ المصابیح کے باب الصلوٰۃ کی تشریح پر مبنی ہے، جن میں نماز سے متعلق جملہ اُمور، تعلیمات، ہدایات اور نکات کو واضح کیا گیا ہے۔

یہ سلسلۂ درسِ قرآن و حدیث ۱۹۶۱ء سے ۱۹۶۳ء تک جاری رہا(کیونکہ جنوری ۱۹۶۴ء میں مولانا مودودی کو گرفتار کرلیا گیا اور پھر ایک عرصے تک وہ اس سلسلے کو جاری نہ رکھ سکے)۔ان دروس میں ہر خاص و عام شرکت کرتا اور علم کے نور سے قلب و ذہن کو منور کرتا۔ یہ قیمتی درس بھی یقینا فضا کے اندر تحلیل ہوجاتے، مگر اللہ تعالیٰ نے میاں خورشیدانورصاحب کو ہمت اور توفیق عطا فرمائی کہ انھوں نے یہ درس ریکارڈ کرلیے، جس کا نتیجہ آج اس کتاب کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔

اس کتاب کے مندرجات، ترتیب، تدوین اور موضوعات کی وسعت کے بارے میں  محترم میاں طفیل محمدرحمۃ اللہ علیہ کی یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ: ’’اس موضوع پر اس قدر معتبر، مستند، مفصل اور عام فہم رہنمائی کرنے والی کوئی اور کتاب اُردو زبان میں موجود نہیں ہے۔ لہٰذا، میرے نزدیک نماز اور اس کے جملہ مسائل کے بارے میں صحیح معلومات اور رہنمائی کے طالب حضرات کے لیے یہ کتاب نعمت ِ خداوندی ہے‘‘(ص۱۸)۔ اسی طرح محترم نعیم صدیقی مرحوم و مغفور نے تحریر فرمایا ہے کہ: ’’ان دروس میں نماز کے ضروری مسائل و احکام کی تشریح کی گئی ہے اور بڑی محبت سے دلوں کے کانٹے چننے کی کوشش کی ہے‘‘ (ص ۲۰)۔واقعہ یہ ہے کہ اس کتاب کو اگر گھروں میں اہلِ خانہ اجتماعی مطالعے کا محور بناکر رمضان کی ساعتوں کو نفع بخش بنائیں تو یہ عمل انھیں بہت سی کتابوں سے بے نیاز اور بے شمار حسنات سے مالا مال کردے گا۔

کتاب کی تدوین کے لیے بدرالدجیٰ صاحب کی محنت قابلِ داد ہے۔ یاد رہے یہ کتاب اس سے قبل افاداتِ مودودی کے نام سے شائع ہوئی تھی، مگر موجودہ پیش کش خوب تر ہے۔(سلیم منصورخالد)


  • سیدنا ابوبکر صدیق، شخصیت اور کارنامے

  •  سیدنا عمر فاروق، شخصیت اور کارنامے،
  • سیدنا عثمان بن عفان، شخصیت اور کارنامے،
  • سیدنا علی ابن ابی طالب، شخصیت اور کارنامے،
  • تالیف: ڈاکٹر علی محمدمحمد الصلابی۔ترجمہ:شمیم احمد خلیل۔ ناشر:  مکتبہ الفرقان،خان گڑھ، مظفر گڑھ۔ فون:۳۷۲۳۲۲۹۴۔ صفحات(علی الترتیب): ۵۶۰، ۸۴۸، ۵۶۰،۱۲۴۰۔ قیمت(علی الترتیب):۹۰۰ روپے، ۱۱۵۰ روپے، ۹۰۰ روپے، ۱۳۰۰ روپے۔

تاریخ نویسی ان چند علوم میں سے ہے، جن پر مسلمان اہل علم نے آغاز ہی سے توجہ دی اور واقعات و کوائف کو علمی تحقیق کے بعد قلم بند کیا۔ کتب مغازی کے ساتھ ساتھ سیرت النبی صلی اللہ  علیہ وسلم پر پہلی صدی ہجری میں کام کا آغاز ہوا، اور بعد کے زمانے میں آنے والے مؤرخین نے  عالمی تاریخ کے تناظر میں مسلم تاریخ کو مختلف زاویوں سے محفوظ کر دیا۔

زیر نظر تحقیق ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی کی کوششوں کی مرہون منت ہے۔ مؤلف نے کتب حدیث، مغازی، سیرت و تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے بہت سے واقعات پر علمی تحقیق کی ہے، جو عرصے سے نقل کیے جاتے رہے ہیں، مثلاً حضرت علیؓ کے بارے میں یہ روایت کہ انھوں نے سیدہ فاطمہ ؓ کے انتقال تک حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی، یا حضرت سعد بن عبادہؓ نے جن کے بارے میں انصارِ مدینہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد قیادت کے لیے سوچ رہے تھے، حضرت ابوبکرؓ کے انتخاب کے بعد اپنے اختلاف کا اظہار سخت الفاظ میں کیا وغیرہ۔ مؤلف نے مستند تاریخی بیان کے ساتھ تجزیہ اور تحلیل کے عمل سے یہ ثابت کیا ہے کہ: جو رویے ان جلیل القدر صحابہؓ اور صحابیاتؓ سے منسوب کیے جاتے ہیں، وہ عقل اور نقل دونوں معیارات پر پورے نہیں اترتے۔ اسی طرح: ’’حضرت علیؓ اورحضرت سعد بن عبادہؓ نے جس طرح سے حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ تعاون اور مشاورت میں شرکت کی، یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ دونوں اصحابؓ کا پورا اعتماد،  حمایت اور وفاداری خلیفہ اولؓ کو حاصل تھی‘‘۔

ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی نے جامعہ اُم درمان سوڈان سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ کتاب حضرت صدیق اکبرؓ ان کے ڈاکٹریٹ کے مقالے کا ایک حصہ ہے۔مؤلف نے دیگر تالیفات میں خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق، خلیفۂ ثالث حضرت عثمان بن عفانؓ اورخلیفۂ رابع حضرت علی بن ابی طالبؓ کے علاوہ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ اور حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ کی سیرت اور کارناموں کا جائزہ لیا ہے۔تالیفات کے اس اہم سلسلے کو مکتبہ الفرقان، مظفرگڑھ نے بہت اہتمام سے طبع کیا ہے۔ عربی سے ترجمہ شمیم احمد خلیل سلفی نے بہت توجہ کے ساتھ سلیس اردو میں کیا ہے۔

یہ سلسلۂ تالیفات ہر تعلیم گاہ کے کتب خانے میں ہونا چاہیے تاکہ ان تاریخی تحریفات کی اصلاح ہو سکے، جن کی بنا پر مغربی مستشرقین اور بعض مسلمان تاریخ نگاروں نے بہت سے شبہات کو تقویت پہنچائی ہے جو باہمی اختلافات اور رنجش کا سبب بنے ہیں۔

مصنف نے تاریخی مواد کو جس محنت سے مرتب کیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ اس قسم کی کتب امت مسلمہ میں اتحاد اور باہمی اعتماد پیدا کرنے میں ممدو معاون ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ میں اتفاق و محبت کے قیام میں ہماری مدد فرمائے، آمین۔(ڈاکٹر انیس احمد)


ارمغانِ پروفیسر حافظ احمد یار،مرتبین: ڈاکٹر جمیلہ شوکت، ڈاکٹر محمد سعد صدیقی۔ ناشر: شعبہ علوم اسلامیہ، پنجاب یونی ورسٹی، لاہور۔ صفحات:۵۶۵، قیمت: ۷۰۰ روپے۔

اساتذہ معاشرے کے وہ محسن ہوتے ہیں، جو علم کے خزانے لٹاتے اور تحقیق و تربیت کی روایت اگلی نسلوں تک منتقل کرتے ہیں لیکن ان میں وہ اساتذہ جو فی الحقیقت علم و فضل میں اونچا مقام رکھتے ہوں، ان کے احسانات کا شمار مشکل ہوتا ہے۔ پروفیسر حافظ احمد یار مرحوم انھی بلند پایہ اساتذہ کی صف میں شمار ہوتے تھے، جنھوں نے زندگی کا بڑا حصہ پنجاب یونی ورسٹی کے شعبۂ علوم اسلامیہ میں تدریسی و تحقیقی خدمات کی انجام دہی میں گزارا۔

زیر نظر مجموعہ ان تحریروں پر مشتمل ہے، جو اعتراف ِ خدمات کے طور پر مرتب کیا گیا ہے۔ شعبۂ ہٰذا کی جانب سے سلسلۂ ارمغان کی سابقہ پیش کشوں کے مقابلے میں یہ زیادہ بہتر معیار پر مبنی ہے۔ اس مجموعے میں ۳۷تحریریں شامل ہیں اور دو حصوں میں تقسیم ہیں:

پہلا حصہ حافظ صاحب کے شخصی محاسن اور ان سے متعلق یادداشتوں کی سبق آموز سے ۱۸تحریروں پر مشتمل ہے، خصوصاً ڈاکٹر ایس ایم زمان (ص۲۱-۳۱)، جناب راشد شیخ (ص۸۹-۱۰۰)، ڈاکٹر محمد عبداللہ (۱۰۱-۱۱۲) اور ڈاکٹر نضرۃ النعیم (۱۱۳-۱۳۲) کے مضامین دلچسپ اور معلومات افزا ہیں۔ دوسرا حصہ حافظ صاحب کی۱۹تحریروں پر مشتمل ہے، جس میں مختلف موضوعات کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ حافظ صاحب کے مطالعے اور تحقیق کا میدان قرآن کریم اور اس سے وابستہ علوم تھے،  اس لیے اس حصے میں زیادہ ترمباحث قرآنیات سے منسوب ہیں۔ علاوہ ازیں حافظ صاحب کے ذخیرۂ مصاحفِ قرآن سے قرآنی خطاطی اور نادر قرآنی نسخوں کے خوب صورت عکس بھی شامل ہیں۔

پروفیسر حافظ احمد یار کی خوش گوار طبیعت اور دل آویز شخصیت سے متعارف اور علمی آفاق سے روشناس کرانے پر اس ارمغان کی مرتّب ڈاکٹر جمیلہ شوکت شکریے کی مستحق ہیں۔ (سلیم منصور خالد)


اسلامی نظریۂ حیات ، اسلامی فلسفۂ حیات، اسلامی نظامِ حیات، مؤلف: پروفیسر خورشیداحمد۔ ناشران: شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ، کراچی یونی ورسٹی اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد۔نظرثانی شدہ ایڈیشن ۲۰۱۶ئ۔ صفحات: حصہ اوّل: ۱۵۴، دوم: ۲۶۶، سوم:۲۵۲۔ قیمت (علی الترتیب): حصہ اوّل: ۱۷۵ روپے، دوم: ۲۶۶روپے، سوم:۲۵۲ روپے۔  کُل قیمت: ۶۲۵ روپے۔۲۰ جون تک منشورات سے ۴۰۰ روپے میں دستیاب۔

تقریباً نصف صدی قبل ۱۹۶۳ء پروفیسر خورشیداحمد نے کراچی یونی ورسٹی کے اس وقت کے شیخ الجامعہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی صاحب کے توجہ دلانے پر اسلامی نظریۂ حیات ترتیب دی تھی اور جامعہ کراچی کے شعبہ تصنیف و تالیف اور ترجمہ کی جانب سے ہی اسے شائع کیا گیا تھا۔ گذشتہ ۵۳سال میں اس کتاب کے ایک لاکھ سے زائد نسخے شائع ہوئے۔

اسلامی نظریۂ حیات کا اوّلین ایڈیشن ایک جلد پر مشتمل تھا، لہٰذا ضخیم تھا لیکن اب یہ مناسب سمجھا گیا کہ اس کتاب کے تینوں حصے الگ الگ کتاب کے طور پر شائع کیے جائیں اور تینوں کا مجموعہ ایک ساتھ بھی دستیاب رکھا جائے۔

اسلامی نظریۂ حیات کے پیش لفظ میں، شیخ الجامعہ کراچی، محترم ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی دُکھ بھرے انداز میں ہمارے نوجوانوں کی اسلام کے حوالے سے کتنی صحیح عکاسی کرتے ہیں: ’’ہماری درس گاہوں میں یہ روح فرسا منظردیکھنے میں آتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کا ایمان متزلزل ہے جس کی وجہ سے نہ ان میں کردار کی بلندی باقی رہی ہے نہ صحیح ترقی کا ولولہ۔ یہی نہیں کہ ان کے عمل سے اسلام کی خوشبو نہیں آتی بلکہ ان کے دل بھی محبت سے خالی ہوتے جاتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ پاکستان سے محبت کا جذبہ بھی کمزورپڑ گیا ہے۔ انھیں اپنے والدین اور بزرگوں کی زندگی میں اسلام نظر نہیں آتا تو وہ اپنے آبائی دین کی عظمت کو کیسے سمجھیں۔

ہماری درس گاہیں جسد بے جان ہیں، جہاں نہ علم ہے نہ کردار۔ نہ دین، نہ جذبہ۔ ان سے تعلیم پاکر نوجوان جوش و ولولہ کہاں سے لائیں؟ ان کے دل پر جب اغیارکی عظمت کے نقوش ثبت ہیں تو وہ اپنی کس چیز پر فخر کریں۔ اگر ان کے کانوں میں مغربی تہذیب کے راگوں کے الاپ ہی پڑے ہیں تو وہ اپنی تہذیب میں کسی خوبی کا نشان کیسے پائیں گے؟ اور ثقافت اور دین کا چوں کہ گہرا تعلق ہے لہٰذا ان کے دل اگر ارتداد کی طرف مائل ہوں تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے‘‘۔ (ص۵-۶)

اس کتاب سے محض نصابی کتاب کے طور پر نہیں، بلکہ اسلامی دعوت کو اس دور کے نوجوانوں کے سامنے پیش کرنے کے حوالے سے ہرطرح استفادہ کیا گیا، خصوصاً مقابلے کے امتحانوں میں حصہ لینے والوں کے لیے ایک MUST کی حیثیت اختیار کیے رہی۔ اس کے بے شمار جعلی ایڈیشن شائع ہوئے اور مقبولیت حاصل کرتے رہے۔

اس کتاب کی تالیف میں بعض انتہائی مشہور و معروف مسلمان اہلِ علم کی نگارشات ان کی اجازت سے شاملِ اشاعت ہیں: مولانا سیّدابوالحسن علی ندوی، لکھنؤ (بھارت)، ڈاکٹر مصطفی زرقا ، دمشق (شام)، مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی، لاہور، مولانا امین احسن اصلاحی، لاہور، ڈاکٹر حمیداللہ، پیرس(فرانس)، مولانا صدرالدین اصلاحی، اعظم گڑھ(بھارت)، جناب نعیم صدیقی، لاہور،  مولانا افتخار احمد بلخی، کراچی۔ اس سے اس کتاب کی افادیت اور کشش بہت بڑھ گئی ہے۔

اسلامی نظریۂ حیات (حصہ اول)، مذہب اور دورِ جدید سے متعلق مباحث پر مشتمل ہے، جب کہ (حصہ دوم) اسلامی فلسفۂ حیات او ر (حصہ سوم) اسلامی نظامِ حیات سے متعلق ہے۔ بحیثیت مجموعی اس کتاب میں زندگی کے اسلامی تصور کے تمام پہلوئوں کو مختصراً اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کے ذہن میں اسلام کے پورے نظامِ فکروعمل کا ایک واضح نقشہ  بن جائے اور اسلام کے تقاضوں کی سمجھ بھی اس میں پیدا ہوجائے۔

مناسب ہوگا اس کتاب کا ایک اچھا انگریزی ترجمہ شائع کیا جائے کہ یہ معاشرے کی ضرورت ہے۔کتاب کی اہمیت کے پیش نظر ضروری ہے کہ اس کی جدید انداز پر معقول تشہیر کروائی جائے۔ اسکول، کالج، جامعات اور دوسرے اداروں کی لائبریری میں فراہم کی جائے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر تشہیر کی جائے اور کتب میلوں میں خاص طور پر رکھوائی جائے۔ (شہزادالحسن چشتی)


ماہنامہ المدینہ، کراچی، خصوصی شمارہ: تحفظ ماحولیات اور طب و صحت، تعلیماتِ نبویؐ کی روشنی میں، مدیر: قاری حامد محمود۔ ملنے کا پتا: ماہنامہ المدینہ، صائمہ ٹاورز کمرہ ۲۰۵-اے، سیکنڈ فلور، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔ فون:۲۲۰۴۲۵۵-۰۳۰۰۔ صفحات:۴۴۸۔ قیمت:۴۰۰ روپے۔

خصوصی شمارے اپنے موضوع سے انصاف کریں تو انھیں پڑھ کر خوشی محسوس ہوتی ہے۔ اس نمبر کے چار ابواب ہیں: تحفظ ماحولیات، مرض اور مریض، صحت و تندرستی، طب ِ نبویؐ، کُل ۳۵مقالات ہیں۔ کچھ لکھنے والوں کے نام سے رسالے کے اعلیٰ معیار کا اندازہ ہوگا: حکیم محمدسعید، ڈاکٹر حمیداللہ، مولانا محمد تقی عثمانی، ڈاکٹر گوہر مشتاق، ڈاکٹر اُمِ کلثوم، ڈاکٹر عبدالحی عارفی، ڈاکٹر عطاء الرحمن، حکیم طارق محمود چغتائی، حکیم راحت نسیم سوہدروی، ڈاکٹر خالد غزنوی، ڈاکٹر سیّدعزیز الرحمن،     مولانا امیرالدین مہر، ارشاد الرحمن۔ بعض موضوعات: ماحولیات، جدید چیلنج اور تعلیماتِ نبویؐ، بیماریاں اور پریشانیاں، نعمت یا زحمت، دل کی صحت اور اس پر عبادت کے اثرات، حفظانِ صحت اور شریعت مطہرہ، روزے کی جسمانی اور نفسیاتی افادیت اور طب نبویؐ۔ زیتون، انجیر، کھجور، کلونجی اور شہد کے فوائد پر علیحدہ علیحدہ مضامین ہیں۔ نمبر کو سلیقے سے ترتیب دیا گیا ہے۔

کچھ ’لطائف‘ بھی ہیں جنھیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ۱۶ویں جلد کے اس شمارہ۶ پر نومبردسمبر ۲۰۱۶ء لکھا گیا ہے۔فہرست میں مختلف حصوں کے صفحات نمبرمیںپہلا تو ۱۱ تا ۸۰ درست ہے، لیکن اس کے بعد ۲۴۰ تا ۸۱، ۲۷۴تا ۳۴۱، ۴۴۴تا ۳۷۵ درج کیے گئے ہیں۔(مسلم سجاد)


فانوس علامہ اقبال نمبر (شمارہ اپریل مئی۲۰۱۶ئ)، مدیر:خالد علیم۔ ناشر: ماہ نامہ فانوس،طفیل ٹاور، ۱۶-بی، لال دین سٹریٹ، ۳۵جیل روڈ، لاہور۔ صفحات:۴۸۰۔ قیمت: ۶۰۰ روپے۔

علامہ اقبال کی شخصیت شاید وہ واحد علمی ہستی ہے جس کی زندگی ہی میں اردو کے معروف ادبی جریدے ماہ نامہ نیرنگ خیال نے ۱۹۳۲ء میں ۳۰۸ صفحات کا ایک ضخیم خاص اقبال نمبر شائع کیا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک سیکڑوں اقبال نمبر چھپے ہیں، اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ زیرنظر خاص شمارہ سات حصوں میں منقسم ہے اور ہر حصے کا سرِ عنوان علامہ اقبال کی کوئی نہ کوئی فارسی ترکیب ہے۔

ڈاکٹر مقبول الٰہی کا مضمون (علامہ اقبال بہ حیثیت مردِ استقبال) نہایت اہم ہے۔ اس کے علاوہ ناصر عباس نیر، غفور شاہ قاسم، رفیع الدین ہاشمی، افضل حق قرشی اور محمد شکور طفیل کے غیرمطبوعہ مضامین شامل ِاشاعت ہیں اور نسبتاً یہ اقبالیاتِ تازہ سے بحث کرتے ہیں۔

ایک حصہ عبدالمجید سالک، مولوی عبدالرزاق حیدرآبادی، چراغ حسن حسرت، مولانا عبدالرزاق کان پوری اور ڈاکٹر تحسین فراقی کے مطبوعہ منتخب مضامین پر مشتمل ہے۔ منظوم حصے میں نئے پرانے شاعروں کی منظومات اور کلام اقبال پر مشتمل تضمینات شامل ہیں۔

فانوس کا یہ نمبر علامہ اقبال پر ایک حوالے کا درجہ رکھتا ہے اور اسے محنت اور کاوش سے مرتب کیا گیا ہے۔ (قاسم محمود احمد)


صحت و مرض اسلام کی نظر میں، محمد اسرار بن مدنی۔ ناشر: تحقیقات پبلشرز، صوابی۔ ملنے کا پتا: نیشنل ای و سی، ڈی بلاک، ای پی آئی بلڈنگ، چک شہزاد، پارک روڈ، ایس آئی ایچ، اسلام آباد۔ صفحات:۱۲۶۔ قیمت:درج نہیں۔

اس مختصر کتاب کا نصف پولیو کے حوالے سے ہے جو اس تیسرے ایڈیشن میں اضافہ ہے۔ غالباً اس لیے کہ اس کی ویکسین کے بارے میں افواہیں مسلم معاشروں کا مسئلہ بنی ہوئی ہیں۔ ہمارے ہاں خواتین ورکرز باقاعدہ محافظوں کے ساتھ جاتی ہیں، پھر بھی حادثات ہوتے رہتے ہیں۔ عالم اسلام کی جامعات و شخصیات کے فتاویٰ کی عکسی نقول پیش کی گئی ہیں (۲۲صفحات)۔ پولیو پر حقائق (۴۱ صفحات) سے آگاہ کیا گیا ہے۔ پہلے چار ابواب میں صحت کے بارے میں عمومی بات کی گئی ہے (۷صفحات)۔ بچے کی صحت کے حوالے سے (۹صفحات) اور ماں کی صحت کے حوالے سے (۹صفحات) دیے گئے ہیں۔ ۱۳وبائی امراض پر ۱۷صفحات دیے گئے ہیں، یعنی مختصر طور پر علامات، اسباب وغیرہ۔ قرآنی آیات اور نبوی روایات کی روشنی میں، جاذب فکرونظر، روح پرور، موضوعات زیربحث لائے گئے ہیں۔ اصولِ صحت، آداب اکل و شرب، طیبات کے فوائد منافع، خبائث کے قبائح، والدہ محترمہ کی توقیر، اولاد کے حقوق، مریض کی عیادت و تیمارداری، علاج اور پرہیز___ ۱۲۰صفحات کے کوزے میں کتنا سمندر بند کیا جاتا۔(مسلم سجاد)


تعارف کتب

oمیرا مطالعہ ،عرفان احمد، عبدالرئوف ۔ ناشر:ایمل مطبوعات، ۱۲سیکنڈ فلور، مجاہد پلازہ، بلیوایریا، اسلام آباد۔ فون:۲۸۰۳۰۹۶۔ صفحات: ۳۰۰(بڑی تقطیع)۔ قیمت:۶۵۰روپے۔[اس کتاب میں متعدد معروف ادیبوں اور دانش وروں نے اپنے مطالعاتی ذوق کی ابتدا، ارتقا، عادات اور مسائل کو رواں دواں انداز میں بیان کیا ہے۔ ان احباب میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں: ڈاکٹر محمود احمد غازی، ڈاکٹر انور سدید، مولانا زاہدالراشدی، ڈاکٹر صفدر محمود، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر مبارک علی، طارق جان، تحسین فراقی، احمدجاوید، ڈاکٹر معین الدین عقیل، زاہدہ حنا، عامرخاکوانی، وغیرہ شامل ہیں۔]

صحیفہ، حالی نمبر، مدیر: افضل حق قرشی۔ ناشر: مجلسِ ترقیِ ادب، ۲-کلب روڈ، لاہور۔ فون: ۹۹۲۰۰۸۵۶۔ صفحات: ۷۲۳۔ قیمت: ۶۵۰ روپے۔

الطاف حسین حالی، قومی اور ملّی درد رکھنے والے بلندپایہ ادیب اور احیاے ملّت کے نقیب تھے۔ ان کی صدسالہ برسی (۲۰۱۴ئ) کی مناسبت سے علمی و ادبی مجلّے صحیفہ نے گذشتہ برس  ’شبلی نمبر‘ شائع کیا تھا (تبصرہ: ترجمان ستمبر ۲۰۱۵ئ) اور اب اس کا ’حالی نمبر‘ سامنے آیا ہے۔

یہ خاص شمارہ اپنے وقیع مقالات اور پیش کش کے بلند معیار کی وجہ سے صدسالہ برسی کی جملہ مطبوعات پر فوقیت رکھتا ہے۔  ابتدا میں مدیر صحیفہ نے بڑی محنت سے حیاتِ حالی کی توقیت، ماہ و سال کے آئینے میں مرتب کی ہے۔ حالی پر ایک صدی میں جتنے تنقیدی، سوانحی اور تجزیاتی مضامین لکھے گئے، اُن کا ایک کڑا انتخاب پیش کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں تقریباً ۱۵نئے اور غیرمطبوعہ مضامین بھی شامل ہیں۔

مضامین کا انتخاب کرتے وقت حالی کی مختلف حیثیتوں (حالی بطور غزل گو، بطور قصیدہ گو، بطور رباعی گو، بطور نقّاد) پر ایک ایک دو دو یا تین چار مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ حالی بطور شاعر بھی ہمہ جہت تھے۔ بطور نثرنگار بھی ان کا ایک منفرد مقام ہے۔ ان کی سوانح عمریاں، مقدمہ شعروشاعری، ان کا ناول مجالس النساء اور ان کے مکاتیب یہ سب کچھ ان کے صاف، سادہ اور صریح اسلوب کی نمایندہ کتابیں ہیں۔ بعض مضامین میں دیگر شخصیات کے ساتھ حالی کا تقابل بھی پیش کیا گیا ہے جیسے ’حالی اور سرسیّد‘ (اصغرعباس) یا ’نظیر اور حالی‘(فیض احمد فیض)۔ حالی کی تصنیف یادگار غالب کا شہاب الدین ثاقب نے اور مقدمہ شعروشاعری کا پروفیسر احتشام حسین اور محمد احسن فاروقی نے تجزیہ کیا ہے۔

یہ نمبر حالی کی شخصیت کا ایک ہمہ جہتی مطالعہ ہے جسے متعدد دستاویزات (تصانیف ِ حالی کی اوّلین اشاعتوں کے سرورق، مکتوبِ حالی کے عکس اور حالی کی چند نادر تصویروں) نے اور زیادہ مستند اور لائقِ مطالعہ بنادیا ہے۔ حالی پر قلم اُٹھانے والے اساتذہ، صحیفہ نگاروں یا تحقیق و تنقید کرنے والے طلبہ کے لیے یہ خاص نمبر ایک ناگزیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


ایک عہد کی سرگذشت، ۱۹۴۷ئ-۲۰۱۵ئ، جمیل اطہر قاضی۔ ناشر:بک ہوم بک سٹریٹ، ۴۶-مزنگ روڈ، لاہور۔ صفحات: ۶۱۶۔ قیمت: ۱۰۰۰ روپے۔

جمیل اطہر قاضی نے ملک کے نام وَر اخبارات میں بطور کالم نگار، سٹاف رپورٹر، سب ایڈیٹر، ایڈیٹر اور بیورو چیف فرائض انجام دیے۔ مجموعی طور پر وہ تمام عمر صحافت کے معیار کو بلند کرنے اور بلند رکھنے کی تگ و دو کرتے رہے۔ وہ ایک نظریاتی پاکستانی ہیں۔ دیباچہ نگار الطاف حسن قریشی لکھتے ہیں: ’’ملّی اور قومی مشاہیر رگِ جاں کی حیثیت رکھتے ہیں کہ ان کے عظیم کارناموں، ان کی تابندہ روایات اور ان کے حیات افروز تذکروں سے قومیں حرارت حاصل کرتی ہیں اور عزیمت و استقامت کے چراغ جلائے رکھتی ہیں‘‘۔

مصنف نے اس کتاب میں مختلف شعبہ ہاے زندگی سے تعلق رکھنے والے ۱۰۰ ملّی اور قومی مشاہیر کا تذکرہ کیا ہے۔ یہ تذکرہ مدیر، صحافی، علما، اساتذہ ، سیاست دان، روحانی شخصیات، کارکن صحافی، احباب، اخبارفروش، بیوروکریٹ اور شعرا جیسے عنوانات کے تحت کیا گیا ہے۔ چھوٹے چھوٹے کالم نما یہ مضامین بھاری بھرکم اور ثقیل تحقیقی نوعیت کے نہیں ہیں، انھیں خاکے قرار دیا جاسکتا ہے۔ تاہم، قاضی صاحب کے خوب صورت اسلوب میں یہ ۱۰۰ شخصیات کی جیتی جاگتی تصویریں ہیں۔ انھوں نے زیادہ تر انھی شخصیات کا ذکر کیا ہے جن کے ساتھ ان کی ذاتی ملاقات رہی اور انھیں قریب سے دیکھا، یعنی ان کے تاثرات کی بنیاد ذاتی تجربات و مشاہدات ہیں۔

مجموعی طور پر کتاب ایسی شخصیات کے تذکرے پر مشتمل ہے جو علم و ادب اور صحافت پر  قطبی ستارے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ قاضی صاحب نے ان شخصیات کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کے اَحوال بھی لکھے ہیں، اس لیے اس کتاب کو ان کی آپ بیتی بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ پاکستان کے ۶۸سالہ عہد کی داستان ہے جو نوجوانوں اور موجودہ دور کے نام نہاد لبرلز، دو قومی نظریے کے مخالف اور اسلام بیزار طبقے کے پڑھنے کی چیز ہے۔(قاسم محمود احمد)


شروحِ کلامِ اقبال، ڈاکٹر اختر النساء ۔ ناشر: بزمِ اقبال ۲۔کلب روڈ ،لاہور۔ فون: ۹۲۰۰۸۵۶۔ صفحات: ۵۶۴، قیمت:۶۵۰روپے۔

علامہ اقبال کی شاعری کی شرح نویسی کا سلسلہ قیام پاکستان کے بعد شروع ہوا۔پروفیسر یوسف سلیم چشتی کلام اقبال کے پہلے معروف شارح تھے۔ ان کے علاوہ مزید شارحین نے بھی شرحیں لکھیں ۔ زیر تبصرہ کتاب کلامِ اقبال کی شرح نویسی کی تاریخ ہے اور اس کا تجزیہ بھی۔ یہ مقالہ پی ایچ ڈی کی سند کے لیے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی زیرِ نگرانی لکھاگیا تھا۔ کتاب کے ۱۲؍ابواب اقبال کے ایک ایک مجموعۂ کلام کی شرحوں کے جائزے کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ مصنفہ نے بڑی تفصیل، باریک بینی اور دقتِ نظر سے ۲۰۰۲ء تک کی شروحِ کلام اقبال کا جائزہ لیا ہے۔

کتاب میں ۱۵شارحین اقبال کے کام کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے ۔باب اول شرح کے مفہوم، شرح نگاری کے اسباب ،اس کی اقسام ،عربی فارسی اور اردو میں شرح نویسی اور کلامِ اقبال کی شرح نویسی کے لیے مختص ہے ۔شرح نویسی کی اہمیت کے بارے میں مصنفہ لکھتی ہیں کہ شرح کے ذریعے کسی متن کی پیچیدگی اور دشواری کو دور کرنے کی سعی کی جاتی ہے ، اور متن کو قابلِ فہم بنایا جاتا ہے، چنانچہ شرح کی ہردور میں ضرورت پیش آتی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ مجموعی تعلیمی معیار گرجانے اور عربی فارسی سے نابلد ہوجانے کی وجہ سے کلام اقبال کی تفہیم کے لیے شرحوں کی ضرورت اور بڑھ گئی ہے۔                                          

مؤلفہ نے اس بات کا بھی جائزہ لیا ہے کہ شرح لکھتے وقت کسی شارح کے پیش نظر کیا مقاصد تھے۔ وہ مثال دیتی ہیں کہ غلام رسول مہر کی مطالب بانگِ درا کسی قدر معاشی مجبوری کے زمانے میں لکھی جانے والی فرمایشی شرح ہے (ص۵۵)۔ ان کا خیال ہے کہ ۱۴شارحین نے   کلامِ اقبال کی جو شرحیں لکھی ہیں، وہ سب اپنی اپنی جگہ قابلِ قدر ہیں۔ تاہم، بعض شرحیں اپنے  مواد ومعیار کے اعتبار سے زیادہ افادیت کی حامل ہیں لیکن بعض اپنے کم تر معیار کی وجہ سے کچھ زیادہ مددگار ثابت نہیں ہوتیں۔(ص ۵۳۷)

یہ کتاب اقبالیا تی ذخیرۂ کتب میں ایک اہم اضافہ ہے اور اقبالیات کی منتخب کتابوں میں شمار ہو گی۔ (فیاض احمد ساجد)


میڈیا، اسلام اور ہم، ڈاکٹر سیّد محمد انور۔ ناشر: ایمل پبلی کیشنز، ۱۲-سیکنڈفلور، مجاہد پلازا، بلیوایریا، اسلام آباد۔فون: ۲۸۰۳۰۹۶-۰۵۱۔ صفحات:۱۳۳۔ قیمت: ۴۲۰ روپے۔

پاکستان میں عام لوگوں کے ذہنوں کو مثبت یا منفی طور پر متاثر کرنے اور کسی خاص رُخ پر ڈھالنے میں میڈیا بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔بتایا گیا ہے کہ میڈیا اسلام اور اس کی تہذیبی اقدار کے خلاف کس کس انداز میں کام کر رہا ہے۔

دورِ رسالتؐ میں اسلام مخالف قوتوں کے انداز بھی ایسے ہی تھے، مثلاً: اسلام کی غلط تشریحات، کھیل تماشوں، میلوں اور نام نہاد تفریحی پروگراموں میں اُلجھانے اور اعتدال پسندی اور برداشت کے نام پر غیراسلامی رویوں کی ترویج وغیرہ ۔موجود میڈیا کے کمالات بھی اسی نوعیت کے ہیں۔

مصنف نے اسلام کے نظریۂ سماع اور ابلاغ پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا ہے کہ اسلام دشمن میڈیا کے غلبے کے دور میں ہمیں کیا کرنا چاہیے۔وہ کہتے ہیں: اپنی شناخت پر قائم رہیں، اپنے مخالف کو پہچانیں، کتاب اللہ سے رہنمائی لے کر اپنی حالت کو خود بدلنے کی کوشش کریں، اور سوشل میڈیا کے ذریعے مخالفین سے باوقار طریقے سے مکالمہ کریں۔ (رفیع الدین ہاشمی)


بچوں کے نظیر، پروفیسر ایم نذیراحمد تشنہ۔ ناشر: قریشی برادرز پبلشرز، ۲-اُردو بازار، لاہور۔ فون:۳۷۲۳۲۲۹۴۔ صفحات:۱۸۴۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

سیّد محمد علی، نظیر اکبر آبادی (۱۷۳۵ئ-۱۸۳۰ئ) کی شاعری اپنے معاصرین (خواجہ میردرد، میرتقی میر وغیرہ) سے یکسر مختلف ہے۔ نظیر، پیشے کے اعتبار سے معلّم تھے۔ مرزا غالب نے ابتدائی دور میں (جب وہ آگرہ میں مقیم تھے) نظیر سے اصلاح لی تھی۔ اپنے دور کے شعرا کے برعکس نظیر کی توجہ غزل کے بجاے نظم پر رہی۔ ان کی شاعری میں اس قدر تنوع ہے کہ ہرشخص کو ان کے ہاں سے اپنی پسند کی نظمیں اور اشعار مل جاتے ہیں۔

مرتب نے ایسی نظمیں جمع کی ہیں جنھیں پڑھتے ہوئے نظیر، اسلامی ادب کے ایک نمایاں شاعر نظر آتے ہیں۔ انھوں نے ان نظموں میں اللہ تعالیٰ کی عظمت، رسولِ اکرمؐ کی محبت، تسلیم و رضا، دنیا کا تماشا اور آخرت جیسے موضوعات پر قلم اُٹھایا ہے۔ ان کے بعض مصرعے (جیسے: ’’سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا‘‘) دنیا کے فانی ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔انھوں نے زیادہ تر مخمس لکھے ہیں جن میں ردیف کی تکرار سے پیدا ہونے والا آہنگ تاثر کو مزید گہرا کردیتا ہے۔

پروفیسر نذیر احمد تشنہ صاحب نے ۲۸ منتخب نظموں کے مشکل الفاظ کے معانی دیے ہیں اور اشعار کی شرح بھی کی ہے۔ تشریح میں انھوں نے ہرنظم کا اخلاقی پہلو اُجاگر کیا ہے۔ نظیر اکبرآبادی کے مطالعے اور تفہیم کے لیے یہ ایک مفید کتاب ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


تعارف کتب

o نور القرآن حکیم ،(پارہ الم، پارہ عم)، مرتبہ: جنید قرنی۔ ناشر: ادارہ تعلیم القرآن، ۱۹-سی، منصورہ،   ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۲۵۲۳۷۶-۰۴۲۔ صفحات (علی الترتیب):۴۰،۴۶۔ہدیہ: درج نہیں۔[تجوید قرآنی کے اصول مع گرامر، یعنی اسم، فعل، حرف اور اسم ضمیر کا اظہار مختلف رنگوں کی مدد سے۔ لفظی اور آسان رواں ترجمہ بھی دیا گیا ہے۔ فہمِ قرآن اور عربی کی استعداد پیدا کرنے کے لیے مفید رہنمائی۔ اپنی نوعیت کا منفرد کام۔]

o  اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ ،مرتبین: ڈاکٹر رخسانہ جبین، افشاں نوید، صائمہ اسما۔ناشر: البدرپبلی کیشنز، ۲۳-راحت مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۴۷۴۵۷۲۹-۰۳۰۰۔ صفحات:۶۴۔ قیمت: ۲۵ روپے۔ [حضرت عائشہ صدیقہؓ کی سیرت اور دینی و علمی خدمات کا اختصار و جامعیت سے تذکرہ اور اُمت کے لیے   مثالی کردار (رول ماڈل)۔ نبی کریم ؐ کی عائلی زندگی اور ایک مثالی بیوی کے اسوہ کے ساتھ ساتھ خاندانی زندگی میں اہلِ ایمان کے رویوں کا جائزہ اور عملی رہنمائی۔ قرآن و حدیث کے علاوہ طب، تاریخ، ادب، خطابت، شاعری اور تعلیم و تدریس کے حوالے سے سیّدہ عائشہؓ کا منفرد کردار، نیز ان کا قائدانہ کردار بھی زیربحث آیا ہے۔]

o دورِ نبوت میں شادی بیاہ کے رسم و رواج اور پاکستانی معاشرہ، گلریز محمود۔ ناشر: الائیڈ بک سنٹر، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۲۵۴۵۱۔ صفحات: ۳۱۵۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔[پاکستانی معاشرے کی بنیاد اسلامی تہذیب پر ہے مگر برعظیم میں صدیوں تک غیرمسلموں کے ساتھ میل جول کی وجہ سے، ہمارے ہاں بہت سی غیراسلامی رسومات در آئی ہیں۔ زیرنظر کتاب میں ان رسوم و رواج کا اسلامی نقطۂ نظر سے جائزہ لیا گیا ہے۔ پس منظر کے طور پر دورِ جاہلیت کے نکاح، عربوں کے ہاں شادی بیاہ کی رسوم ، اسلام کی اصلاحات، نکاح، رخصتی وغیرہ کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ بحیثیت ِ مجموعی کتاب خاصی محنت اور کاوش سے مرتب کی گئی ہے ۔ ]

o  حج و عمرہ ،گھر سے گھر تک ،سیّد عبدالماجد۔ ملنے کا پتا:قرآن آسان تحریک، ۵۰-لوئرمال، نزد ایم اے او کالج، لاہور۔ فون: ۳۷۲۴۲۲۶۵-۰۴۲۔صفحات:۱۵۹۔ قیمت: درج نہیں۔[عازمینِ حج و عمرہ مناسک کے بارے میں پوری طرح باخبر نہیں ہوتے، لہٰذا انھیں عملی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ مذکورہ کتاب میں گھر سے روانگی سے لے کر ادایگی حج و عمرہ اور گھر واپسی تک کے تمام مراحل کے بارے میں قدم بہ قدم رہنمائی دی گئی ہے۔ فضائل حج و عمرہ، آدابِ سفر، اخلاقی اقدار اور عملی مسائل کی نشان دہی بھی کردی گئی ہے۔یہ ایک مفید گائیڈبک ہے۔]

عفیفۂ کائنات: سیّدہ عائشہ صدیقہؓ، مولانا حکیم محمد ادریس فاروقی۔ ناشر: مسلم پبلی کیشنز، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۴۰۴۴۰۱۳-۰۳۲۲۔ صفحات: ۲۳۵۔ قیمت: ۳۲۰ روپے۔

اُم المومنین سیّدہ عائشہؓ بنت ِ ابوبکر صدیقؓ کو اَزواج النبیؐکے درمیان کئی انفرادیتیں اور اُمت کے اندر کئی امتیازات حاصل ہیں۔ سیّدہ عائشہؓ کی روایت کردہ احادیث کی تعداد ۲۲۱۰ ہے۔ صرف پانچ اصحاب کی روایات آپؓ سے زیادہ ہیں۔ قرآنِ مجید، سنت ِ نبویؐ ، فقہ و قیاس، کلام و عقائد، تاریخ و ادب، خطابت و شاعری اور اجتہاد و اِفتا میں علم و مہارت کی بناپر سیّدہ عائشہ ؓ تمام اَزواجِ مطہراتؓ اور صحابہ کرامؓ کے درمیان ممتاز مقام پر فائز تھیں۔

کتب ِ حدیث کی شروح، اسماء الرجال کے تذکروں، سیرتِ نبویؐ کے مصادر اور تاریخ و سیر کی کتب میں سیّدہ عائشہؓ کے علمی و فقہی کمالات اور ذاتی و شخصی اخلاق و عادات اور اوصاف و خصوصیات کے تذکرے موجود ہیں۔ ان بنیادی مآخذ سے مستفاد بعض بلندپایہ کتب سیّدہ عائشہؓ کے سیروسوانح پر اُردو میں بھی تصنیف ہوئی ہیں۔

فاروقی صاحب نے اس سلسلۂ تحقیق و تالیف کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ کتاب محققانہ اسلوب میں تالیف کی ہے۔ اختلافی بحثوں سے اِعراض کرتے ہوئے حقائق کو مرتب کیا ہے۔ سیّدہ عائشہؓ کی زندگی کے علمی و تاریخی پہلوئوں کے ساتھ ذاتی اور شخصی پہلوئوں کو بھی بیان کیا ہے۔ آخر میں روایاتِ سیّدہ عائشہؓ سے ۴۰؍ احادیث کا انتخاب مع مختصر تشریح شامل ہے۔ (ارشاد الرحمٰن)


نگارشاتِ سیرت، سیّد عزیز الرحمن، مرتبین: ڈاکٹر حافظ حقانی میاں قادری و حافظ محمد عارف گھانچی۔ ناشر: کتب خانہ سیرت، کھتری مسجد، لی مارکیٹ، صدرٹائون،کراچی۔ فون: ۲۸۳۴۲۴۹-۰۳۲۱۔ صفحات:۳۶۸۔ قیمت (اشاعت خاص): ۴۵۰ روپے۔

زیرنظر کتاب سیّد عزیز الرحمن (مدیر: مجلہ السیرہ عالمی)کے اداریوں، مختلف کتب سیرت پر تبصروں، تقاریظ، پیش گفتار، تقدیم اور بعض علمی شخصیتوں کی خدماتِ سیرت پر مضامین کا مجموعہ ہے۔

یہ تمام تحریری لوازمہ ۱۹۹۹ء سے لے کر ۲۰۱۵ء تک کے عرصے میں مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوتا رہا ہے جسے چار عنوانات کے تحت زمانی ترتیب سے جمع کر دیا گیا ہے۔ ان نگارشات میں سیرت النبیؐ پر کام کرنے والی معتبر شخصیات کی علمی و تحقیقی کاوشوں کو متعارف کرایا گیا ہے۔ زیرنظر کتاب سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک بھر میں ہزاروں رسائل و جرائد میں محبانِ رسولِ کریمؐ کے کتنے مضامینِ سیرت شائع ہوتے ہیں۔ (ظفرحجازی)


استاد الاساتذہ مولوی محمد شفیع کی علمی و تحقیقی خدمات، مرتب: محمد اکرام چغتائی۔ ناشر: نشریات، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۲۰۳۱۸-۰۴۲۔ صفحات: ۱۸۷۔ قیمت: ۴۵۰ روپے۔

کیمبرج کے تعلیم یافتہ ڈاکٹر مولوی محمد شفیع عربی و انگریزی میں ایم اے اور عربی زبان و ادب کے جیّد عالم اور محقق تھے۔ شعبۂ عربی اورینٹل کالج لاہور (پنجاب یونی ورسٹی) کے صدر، کالج پرنسپل اور بعدازاں اُردو دائرہ معارفِ اسلامیہ کے اوّلین صدر نشین رہے اور یہ پورا منصوبہ انھی کا تیار کردہ ہے۔

مرتب ’پیش لفظ‘ میں لکھتے ہیں: ’’تحقیقی اُمور میں کاملیت پسندی ، اصل تاریخی حقائق تک رسائی کے لیے معتبر مصادر کی چھان پھٹک، محکم روایات کی پیروی، زیرتحقیق مطالعات سے گہری وابستگی، خلوت گزینی، تضیع اوقات سے شدید اجتناب اور عام معمولاتِ زندگی سے ممکن حد تک الگ تھلگ رہنے کا چلن ایسے عوامل ہیں، جن پر مولوی محمد شفیع زندگی بھر سختی سے گامزن رہے‘‘۔

۱۹۵۵ء میں مولوی صاحب کے شاگرد ڈاکٹر سید عبداللہ نے اپنے استاد کی خدمت میں ارمغانِ علمی کا ہدیہ پیش کیا تھا۔ پھر مولوی صاحب کی وفات پر اورینٹل کالج میگزین نے (جس کے وہ بانی مدیر تھے) ان کے لیے ایک گوشہ مرتب کیا۔اب چغتائی صاحب نے مولوی صاحب کی ۵۰ویں برسی کی مناسبت سے زیرنظر مجموعہ تیار کیا ہے، جس میں مذکورہ گوشے کے بعض مضامین کے ساتھ دیگر رسائل میں ان پر شائع ہونے والے مقالات کو یک جا کیا گیا ہے۔

عربی زبان و ادب کے محقق ڈاکٹر مختارالدین احمد (۱۹۲۴ئ-۲۰۱۰ئ) نے ایک بار لکھا تھا: ’’شفیع صاحب جیسا اسکالر متحدہ ہندستان نے پھر کبھی پیدا نہیں کیا۔ افسوس ہے کہ ایسا اسکالرجو علم و ادب کی آبرو تھا، ہم لوگوں نے جلد بھلا دیا۔ پاکستان کی بھی نئی نسل انھیں کیا جانتی ہوگی‘‘۔

یہ مجموعہ مختارالدین احمد کے تاسف کی، ایک حد تک تلافی کرتا ہے۔ مجموعے میں خود  مولوی صاحب کی خودنوشت قسم کی تین تحریریں بھی شامل ہیں۔ مولوی صاحب کے شاگردوں، اُن کے رفقاے کار اور اُن کی معاصر علمی اور ادبی شخصیات میں سے ڈاکٹر وحید مرزا، مولانا فیوض الرحمن،   ڈاکٹر شیخ محمد اقبال، پیر حسام الدین راشدی، عبدالمجید سالک، جسٹس ایس اے رحمن، ڈاکٹر غلام مصطفی خاں، موہن سنگھ دیوانہ، فیض احمد فیض، سعید نفیسی، دائود رہبر اور غلام حسین ذوالفقار نے انھیں    خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


سیرتِ محمدؐ اور عصرِحاضر، میربابرمشتاق۔ ناشر: عثمان پبلی کیشنز، ۱۷-بی، فیض آباد، ماڈل کالونی، کراچی۔ فون: ۲۶۵۹۶۲۵-۰۳۰۵۔صفحات: ۲۷۲۔قیمت: ۳۰۰روپے۔

۴۰عنوانات کے تحت مقامِ مصطفیؐ اور سیرت النبیؐ کی اہمیت سے متعلق چند در چند موضوعات پر قرآن و سنت کی ہدایات کی روشنی میں مختلف تحریریں یک جا کی ہیں۔

کتابوں میں شامل قرآنی آیات اگر بغیر اعراب کے ہوں گی تو تلاوت میں غلطی کا خدشہ ہوتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ قرآنِ مجید کی آیات کا حوالہ دیتے وقت اعراب لگانے کا اہتمام کیا جائے۔ زیرنظر کتاب میں کسی بھی آیت پر اعراب نہیں لگائے گئے اور آیت کا حوالہ بھی نہیں دیا گیا۔ پروف خوانی کی متعدد اغلاط (ص ۲۰۸، ۲۰۹) قاری کے لیے خاصی پریشانی کا باعث بنتی ہیں۔ سب سے زیادہ افسوس ناک صورتِ حال یہ ہے کہ قرآن کی آیات غلط لکھی گئی ہیں (ص ۲۷، ۱۵۵، ۲۵۱، ۲۵۹)۔ یہ سخت تکلیف دہ لاپروائی ہے۔ (ظفرحجازی)


قائدکے نام بچوں کے خطوط (۱۹۳۹ئ-۱۹۴۸ئ)، مرتب: ڈاکٹر ندیم شفیق ملک۔ ناشر: ایمل پبلی کیشنز، ۱۲-سیکنڈفلور، مجاہد پلازا، بلیوایریا، اسلام آباد۔ صفحات:۱۰۴۔ قیمت: ۵۸۰ روپے۔

یہ کتاب ’معصومانہ وارداتِ قلبی‘ کے اظہار کا ایک خوب صورت نمونہ ہے، مثلاً: جماعت چہارم کا طالب علم لکھتا ہے: ’’جناب قائداعظم صاحب زندہ باد، ایک ماہ کا جیب خرچ تین پیسے ارسالِ خدمت ہے۔الیکشن فنڈ میں جمع کر کے مشکور فرمائیں۔ آپ کا تابع دار فضل الرحمن، طالب علم جماعت چہارم، مدرسہ شاخ نمبر۲، محلہ مفتی ریواڑی، ۱۲۱۸۱۴۵‘‘۔ ایک اور خط: ’’قائداعظم کی خدمت میں عرض ہے کہ میں نے اپنے جمع کیے ہوئے سب پیسے جو مجھے میرے ابی جی دیا کرتے ہیں، [آپ کو بھیج دیے ہیں]میں نے سنا ہے کہ آپ ہم کو آزادی لے کر دیں گے۔ میں بڑا ہوکر آپ کے پاس آئوں گا‘‘۔ ضلع کانگڑا سے اورنگ زیب خان نے ۱۱؍اپریل ۱۹۴۶ء کو تقسیم سے متعلق قائداعظم کو کچھ تجاویز بھیجیں جن کے مطابق، اورنگ زیب کے خیال میں کشمیر اور ضلع فیروز پور کو پاکستان میں شامل کیا جاسکتا تھا۔ انھوں نے اپنے خط میں ضلع کانگڑا کے ساتھ ’پاکستان‘ لکھا ہے۔

سبھی خط اس طرح کے جذبات اور ولولوں سے بھرپور ہیں اور اس لیے بہت دل چسپ۔

اگر لیڈر دیانت دار اور مخلص ہو تو بڑے ہی نہیں، بچے بھی ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ ان خطوں میں حکمرانوں کے لیے بہت کچھ سبق موجود ہیں۔ آج کل کے حکمران بھی اپنے آپ کو بااعتماد بناسکتے ہیں بشرطیکہ اُنھیں سبق حاصل کرنے کی توفیق مل جائے۔ ص۴۶ پر فارسی ضرب المثل غلط لکھی گئی ہے۔ صحیح صورت یہ ہے: ’صبر تلخ است و لیکن برِ شیریں دارد‘۔

کتاب کے ہر طاق صفحے پر قائداعظم کے ساتھ بچوں کے گرو پ فوٹو اور جفت صفحے پر بچیوں کے گروپ فوٹو دیے گئے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ بچوں کا گروپ فوٹو اصلی ہے اور بچیوں کا نقلی۔ اگر یہ واقعی اصلی ہے تو تعجب ہے کیوں کہ اُس زمانے میں بچیاں اور لڑکیاں (باجماعت) سر سے دوپٹّا نہیں اُتارتی تھیں۔

کتاب کی پیش کش بہت خوب صورت ہے اور متعدد خطوں کے عکس شامل ہیں اور ۱۰۳صفحات کی مجلّد کتاب کی قیمت (۵۸۰روپے) بھی ’معقول‘ سے زیادہ ’معقول‘ ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


From Jinnah's Pakistan to Naya Pakistan [جناح کے پاکستان سے نیا پاکستان تک]،ڈاکٹر اقبال ایس حسین۔ ناشر: ہومینیٹی انٹرنیشنل، لندن، لاہور۔ صفحات: ۳۴۴۔ قیمت: ۷۰۰ روپے۔

اس کتاب کے سات حصوں میں اہم موضوعات کو زیربحث لایا گیا ہے۔ ابتدا میں بتایا گیا ہے کہ تبدیلی کا آغاز نظامِ تعلیم سے ہوتا ہے، اس کے بعد ہی تعمیروترقی کے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ مصنف قائداعظم کے الفاظ کا تذکرہ کرتے ہیں جو پاکستان کو ’عظیم انقلاب‘ قرار دیتے تھے۔ افسوس،موجودہ پاکستان کی صورت حال قابلِ رحم ہے۔ اسی طرح اُن اسباب پر روشنی ڈالی گئی ہے جو تبدیلی کا پیش خیمہ بنتے ہیں۔ ایسی کتابیں نوجوانوں کی بیداری میں کردارادا کرسکتی ہیں۔ مصنف کے نزدیک تباہی و بربادی کی وجہ قرآن سے دُوری ہے۔ یہ تجویز کیا گیا ہے کہ اسلامی فلاحی ریاست ہی پاکستانی عوام کے لیے بہتر تحفہ ہوسکتی ہے۔ (محمد ایوب منیر)


اشاریہ ماہنامہ برہان دہلی، مرتب: محمد شاہد حنیف۔ ناشر: اوراقِ پارینہ پبلشرز۔ملنے کاپتا: کتاب سراے، اُردو بازار، لاہور فون:۴۱۴۸۵۷۰-۰۳۲۱۔ صفحات:۳۷۲، قیمت (مجلد، بڑا سائز):۸۰۰ روپے۔

علمی مجلات کے مقالات کی اشاریہ سازی ایک فن کی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔ اس اشاریے کے مرتب محمد شاہد حنیف ۵۰ سے زائد علمی، دینی اور تحقیقی مجلات کے اشاریے مرتب کرکے ایک بڑی خدمت انجام دے چکے ہیں۔

زیر نظر اشاریہ ایک ایسے علمی و تحقیقی مجلے کا ہے جس کی شہرت پاک وہند کے ہر صاحب ِ مطالعہ کے علاوہ بیرون ملک بھی دُور دُور پہنچی تھی۔ دہلی کے ادارہ ندوۃ المصنّفین کے تحت مولانا سعید احمد اکبرآبادیؒ اور مولانا عتیق الرحمن عثمانیؒ کے اس علمی، دینی اور تاریخی مجلے کا نام برہان تھا۔ اس میں ۶۳ سالوں میں شائع شدہ بے شمار مقالات سے استفادہ کرنے اور اس تاریخی لوازمے کو    دُنیاے تحقیق کے سامنے لانے کے لیے اشاریے کی ضرورت تھی، جسے مرتب نے احسن انداز سے انجام دیا ہے۔ بُرہان کے اس اشاریے کو بنیادی موضوعات میں تقسیم کرکے ان کے متعلقہ مقالات کی فہرست سازی اس انداز میں کی گئی ہے، کہ اشاریے کی خوبیاں نکھر کر سامنے آگئی ہیں۔ اُمید ہے کہ بُرہان سے استفادے اور تحقیقی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یہ اشاریہ دینی اور تحقیقی اُمور میں دل چسپی رکھنے والوں کے معاون ثابت ہوگا۔ اس محنت کے لیے محمدشاہد حنیف دعائوں کے مستحق ہیں۔ (ارشاد الرحمٰن)


تعارف کتب

o درسِ قرآن کی تیاری کیسے کریں؟ انجینیر مختار فاروقی۔ ناشر: مکتبہ قرآن اکیڈمی، لالہ زار کالونی نمبر۲،  ٹوبہ روڈ، جھنگ صدر۔ فون: ۷۶۳۰۸۶۱-۰۴۷۔ صفحات: ۷۲۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔[درسِ قرآن کی تیاری اور اس کے لوازمات کے لیے رہنمائی دی گئی ہے۔ قرآن کا موضوع، مرکزی مضامین، مدرس کا اسلوب، اندازِ بیان اور مؤثر درس کے اصول بیان کیے گئے ہیں۔ آخر میں قرآن فہمی کے تین منتخب نصاب بھی دیے گئے ہیں۔ ]

oنماز سے کردار سازی کیسے؟ یاسمین حمید۔ ملنے کا پتا: دفتر تحریک ِ اسلامی، اٹاوہ سوسائٹی، نزدگلشن معمار، کراچی۔ فون: ۳۶۳۵۰۱۰۰-۰۲۱۔ صفحات: ۱۰۰۔ قیمت: درج نہیں۔[زیرتبصرہ کتاب میں توجہ دلائی گئی ہے کہ نماز کے الفاظ ہمارے ضمیر کو بیدار کرتے ہیں، ہماری سیرت سازی کرتے ہیں، ایمان و یقین کی دولت سے مالامال کرتے ہیں۔ نماز کیسے بدی کے طوفانوں میں، حق کی راہوں پر ہمارے قدموں کو مضبوط جماتی ہے۔  شرط صرف یہ ہے کہ ہم نماز بے سوچے سمجھے نہ پڑھیں، نماز کے الفاظ کے مدّعا کو ٹھیک ٹھیک سمجھیں اور     اپنے قلب و روح میں انھیں جذب کرتے جائیں۔کتاب میں نماز کا حقیقی مدعا و مقصود ، نماز کا دین میں مقام، خشوع و خضوع، تزکیہ و تربیت، مسلمان کی طاقت کا اصل سرچشمہ، صبر اور صلوٰۃ سے مدد، سیرت و کردار سازی اور قائدانہ صلاحیتوں کا فروغ، نماز ایک بہترین تربیتی نظام جیسے موضوعات زیربحث آئے ہیں۔]

o رُوداد مجلس شوریٰ ، چہارم، مرتبہ: شیخ افتخار احمد۔ناشر: ادارہ معارفِ اسلامی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ ۴-۳۵۴۱۹۵۲۰-۰۴۲۔صفحات:۴۴۰، قیمت:۳۷۵ روپے۔[زیرنظر کتاب جماعت اسلامی پاکستان کی مجالس شوریٰ کے اجلاسوں کی کارروائیوں پر مشتمل ہے، جنھیں تاریخ کے ریکارڈ اور قوم کی رہنمائی کے لیے جماعت اسلامی کے موقف کی وضاحت کے لیے بڑا اہم مقام حاصل ہے۔]

o سہ ماہی جہانِ اعصاب(جنوری تا مارچ ۲۰۱۶ئ)، مدیراعلیٰ: پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع شاکر۔ پتا: ڈیپارٹمنٹ آف میڈیسن، آغا خان ہسپتال، اسٹیڈیم روڈ، کراچی۔صفحات:۲۴۔ قیمت:۴۰ روپے۔ [مغربی دنیا کے مقابلے میں مسلم دنیا میں نفسیاتی امراض کا تناسب آج بھی کم ہے۔ تاہم جیسے جیسے مادیت اور مذہب سے دُوری بڑھ رہی ہے ان امراض کا تناسب بھی بڑھ رہا ہے۔ پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی نے نفسیاتی امراض کی روک تھام کے لیے عوامی آگاہی کے لیے مذکورہ مجلے کا اجرا کیا ہے۔ قارئین کو دماغی، اعصابی اور نفسیاتی امراض سے معلومات اور بچائو کی تدابیر سے جدید تحقیق کی روشنی میں آگاہی دی جائے گی۔ ]

 

شبلی نعمانی ، حیات و تصانیف، پروفیسر محمد سلیم۔ ناشر: مجلس ترقی ادب، ۲-کلب روڈ، لاہور۔ صفحات:۲۶۲۔ قیمت:۳۰۰ روپے۔

پروفیسر محمد سلیم (وفات: یکم جنوری ۲۰۱۶ئ) عالمی شہرت یافتہ ماہر طبیعیات (Physics) تھے۔ پنجاب یونی ورسٹی کے پروفیسر ایمریطس تھے۔ فزکس پر بلندپایہ تصانیف کے علاوہ ان کی زیادہ تقریباً ۱۰ کتب اُردو شعر و ادب اور تاریخ کے موضوعات پر ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد سارے عرصے میں انھوں نے لکھنے پڑھنے کا کام باقاعدگی کے ساتھ جاری رکھا۔ اردو میں ان کی پہلی کتاب داراشکوہ، احوال وافکار تھی اور آخری زیرنظر مولانا شبلی نعمانی پر۔

شبلی صدی کے موقعے پر مولانا شبلی پرجتنی کتابیں چھپیں،یہ ان میں ایک اچھا اضافہ ہے۔ ’ابتدائیہ‘اور،’سوانح‘کے مختصر ابواب کے بعد پروفیسر صاحب نے شبلی کی جملہ تصانیف پر ایک ایک باب باندھا ہے، مثلاً پہلا باب ہے:المامون،جس کی اشاعت (۱۸۸۷ئ) سے بقول پروفیسر موصوف:’’شبلی اردو کے صفِ اوّل کے مصنفین میں شمار ہونے لگے‘‘ (ص۳۷)۔ سلیم صاحب نے پہلے کتاب کا، پھر مامون الرشید کی شخصیت کا تعارف کرایا ہے،بعدہٗ جیسا شبلی نے مامون کی شخصیت کو پیش کیا ہے، اس کی جھلکیاں ہیں، جن سے مامو ن کی ذہانت ،علم و فضل، دریا دلی،فہم شعر وادب کے ساتھ اس کے اسراف و تبذیر،عیش وطرب ،مذہبی جنون،اور علما ے کرام پر اس کے ظلم و ستم کا اندازہ ہوتاہے۔ جہاں شبلی نے مامون الرشید کے ساتھ کچھ رعایت کی ہے یا اس کی کسی بے اعتدالی سے صرفِ نظر کیا ہے یا اس کی تاویل کرنے کی کوشش کی ہے، وہاں پروفیسر محمد سلیم نے شبلی پر گرفت بھی کی ہے،مثلاً: مامون نے اپنے سپہ سالار طاہر سے کسی بات پر ناراض ہو کر اسے زہر دلوا دیا۔    شبلی لکھتے ہیں:’’اگر مامون کی جگہ کوئی اور بادشاہ ہوتا تو کیا کرتا؟‘‘(یعنی وہ بھی یہی کچھ کرتا، اسے مروا دیتا)۔اس پر پروفیسر سلیم لکھتے ہیں: ’’یہ سوچ سراسر غیر اسلامی ہے اور اس کا کوئی جواز نہیں۔ بادشاہوں کے دفاع کی قبا،شبلی کے قدوقامت پر موزوں نہیں آتی‘‘۔اسی طرح مامون کی عیش و طرب کی محفلوں کی سنگینی کو کم کرنے کے لیے (جن میں عیسائی کنیزوں کا رقص وسُرود،ان کی مخمور آنکھیںاور جام و شراب کا دور، بقول شبلی: ’’مامون کو بد مست کردیتا تھا‘‘) مولانا شبلی لکھتے ہیں: ’’مامون کے عیش و طرب کے جلسوںمیں تو عیاشانہ رنگینی پائی جاتی ہے مگر انصاف یہ ہے کہ یہ جلسے علمی مذاق سے بالکل خالی بھی نہ تھے۔اس قسم کے جلسے جو شاعرانہ جذبات کو پورے جوش کے ساتھ اُبھار دیتے ہیں، اگر متانت و تہذیب کے ساتھ ہوں تو لٹریچر پر نہایت وسیع اور عمدہ اثر پیدا کرتے ہیں‘‘۔اس پر پروفیسر سلیم صاحب کا نقد ہے:’’یہ لکھتے وقت مولانا [شبلی]کو غالباً مذہبی نقطۂ نظر سے ایسی محفلوں پر تبصرہ کرنے کا خیال نہ آیا‘‘۔

پروفیسر محمد سلیم مجموعی راے دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ شبلی نے’’المامون لکھ کر اُردو میں سوانح نگاری کی بنیاد رکھی‘‘۔پروفیسر صاحب نے شبلی کی دیگر تصانیف پر بھی ایک ایک باب رقم کیا ہے۔ مزیدبرآں انھوں نے حسبِ ذیل موضوعات پر بھی ایک ایک باب رقم کیا ہے: شبلی کی شاعری، ندوۃ العلمائ، شبلی اور ان کے نقاد،شبلی اور سر سید۔انھوں نے شبلی کی شخصیت، تصانیف اور افکار کا پورا احاطہ کیا ہے، شبلی فہمی کے لیے یہ ایک مفید کتاب ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


ملاقاتیں کیا کیا! الطاف حسن قریشی۔ ناشر: جمہوری پبلی کیشنز، ۲- ایوانِ تجارت روڈ، لاہور۔ فون: ۳۶۳۱۴۱۴۰-۰۴۲۔ صفحات: ۳۸۹ (بڑا سائز)۔ قیمت: ۱۴۹۰ روپے۔

۲۰ویں صدی کا چھٹا عشرہ اُردو صحافت میں کئی تجربات کے حوالے سے یادگار ہے، اور  انھی میں ایک حوالہ ماہ نامہ اُردو ڈائجسٹ کا لاہور سے اجرا تھا۔یہ پرچہ جہاں شائستہ اسلوبِ نگارش، تعمیری ادب، دیدہ زیب پیش کاری اور متنوع موضوعات کا گل دستہ تھا، وہیں الطاف حسن قریشی کے منفرد مصاحبوں (انٹرویوز) کی وجہ سے بھی ایک خاص مقام رکھتا تھا۔ یہ انٹرویو محض شخصی احوال و عادات کی کتھا نہیں ہوتے تھے، بلکہ مہمان سے ہونے والی عالمانہ گفتگو اور ٹھوس موضوعات کو عام فہم انداز میں قارئین تک پہنچانے کا ذریعہ بھی تھے۔

زیرتبصرہ کتاب ایسے ہی مصاحبوں کا ایک قابلِ قدر انتخاب ہے۔ ان مصاحبوں کو سوالات کی خوب صورتی، جوابات کی عالمانہ وسعت اور تخلیقی تحریر نے مکالماتی شہ پارے بنادیا ہے۔ یہ کتاب درحقیقت ۲۰ویں صدی میں مسلم تہذیبی فکر کا مرقع ہے۔دوسرا یہ کہ چند غیرملکی مہمانوں کو چھوڑ کر سبھی شخصیات صبحِ آزادی کی شخصیات میں شمار ہوتی ہیں۔ یہ رجالِ کار اپنی گفتگوئوں میں بتاتے ہیں کہ آزادی کا نور، کس طرح آزادیِ موہوم میں تبدیل ہوا۔

یوں تو ہر مصاحبہ ایک مثال ہے، تاہم یہاں چیف جسٹس اے آر کارنیلیس کی گفتگو سے چند سطور پیش کی جاتی ہیں:’’قانون کی اطاعت کا جذبہ اس وقت اُبھرتا ہے، جب دل میں قانون کے لیے احترام پایا جاتا ہو۔ اگر ہم پاکستان میں قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اسلامی قانون نافذ کرنا چاہیے۔ میرا یقین ہے کہ اسلامی قانون کے نفاذ سے اس ملک کی قانونی زندگی میں خوش گوار انقلاب جنم لے گا۔ اسلامی قانون کسی دور میں بھی زندگی سے کٹا نہیں رہا اور یہ تسلسل کی تمام کڑیاں اپنے اندر رکھتا ہے‘‘۔ (ص ۱۹۱، ۱۹۲)

واقعہ یہ ہے کہ ان مصاحبوں میں اجتہاد کی ضرورت اور اجتہاد کے آداب، تعلیم اور تہذیب، تاریخ اور کلچر، سیاست اور مسئلہ زبان، مستقبل بینی اور خود احتسابی کے ایسے ایسے جواہر پارے ملتے ہیں کہ ہمارے بہت سے مسائل کی نشان دہی اور ان کا شافی حل مل جاتا ہے۔ اس بزمِ دانش میں    مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی ، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق، شاہ فیصل، خان آف قلات، جسٹس اے آر کارنیلیس، اے کے بروہی، چودھری محمد علی، جسٹس حمودالرحمن، ایس ایم ظفر، ظفراحمد انصاری، غلام رسول مہر اور اصغرخان سمیت ۲۳ شخصیات کے مصاحبے شامل ہیں۔

کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم ۲۱ویں صدی میں، ۲۰ویں صدی کی مسلم فکری رہنمائی سے اس طرح مستفید ہوتے ہیں کہ ماضی اور حال ہمارے مستقبل کو تابناک بنانے کا چراغِ راہ بن جاتا ہے۔(سلیم منصور خالد)


عزیمت کے راہی، پنجم ، حافظ محمد ادریس۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ صفحات: ۳۰۴۔ قیمت: ۳۲۵ روپے۔

جماعت اسلامی سے وابستہ لاکھوں افراد نے اپنی پوری زندگیاں دعوتِ دین کی جدوجہد میں لگا دی ہیں۔ مشیت ِ حق کے تحت ہر فرد کی زندگی کا پیمانہ لبریز ہوتا ہے تو وہ انتقال کی منزل طے کرتا ہے۔ حافظ محمد ادریس صاحب اس قافلۂ حق کے ایسے متعدد رفقا کی زندگیوں پر معلومات افزا مضامین پر مشتمل چار کتب تالیف اور شائع کرچکے ہیں، اب اس سلسلے کی یہ پانچویں کتاب چھپی ہے۔

اس کتاب میں پروفیسر غلام اعظم کی مجاہدانہ زندگی پر پانچ مضامین ہیں، دیگر رفقا میں: مولانا ابوالکلام محمد یوسف، عبدالقادر مُلّا شہید، محمد قمرالزمان شہید، ملک غلام یاسین، سردار الطاف حسین، شمیم احمد، مسعود جاوید، خدا بخش خان، حاجی محمد لقمان، احمدقاسم پاریکھ، چودھری ثناء اللہ، عبدالرحمن بن اجمل، خواجہ علاء الدین ، ڈاکٹر سیّدمنصورعلی، مولانا عبدالمالک شہید، محمد یوسف خان، نصراللہ شجیع، ڈاکٹر خان محمد صابری، سیّد رفیق حسین جعفری، ڈاکٹر ظہوراحمد، میاں نذیراحمد، ملک مسعود الحسن، ڈاکٹر سیّد احسان اللہ شاہ، مہرچاکرفتیانہ، مولانا محمد نافع اور حافظ محبوب الٰہی حلیم شامل ہیں۔ یہ تذکرے قارئین کے دل میں عزم و ہمت کی جوت جگا تے اور دنیاے فانی سے   گزر جانے سے قبل کچھ کر جانے کی اُمنگ پیدا کرتے ہیں۔ (س-م-خ)

نورِ سراج، رابطہ: فوزیہ سراج۔ فون: ۲۶۰۴۳۴۸-۰۳۰۰۔ صفحات: ۱۱۰۔

کیپٹن سراج الحق، جماعت اسلامی کراچی کے رکن تھے۔ ان کے انتقال پر ان کے اعزہ نے یہ کتاب یادگار کے طور پر شائع کی ہے، جس میں ۴۶ تحریریں ہیں۔ لکھنے والوں میں ان کی اہلیہ، بیٹے، بہوئیں، داماد، پوتے، بھانجے، نواسے اور مرحوم سراج صاحب کے دوست شامل ہیں۔ ہرایک نے جیسا ان کو پایا،  لکھ دیا۔ سب نے سراج صاحب کی شخصیت پر اپنے اپنے زاویے سے روشنی ڈالی۔عجب ایمان افروز تصویر بنی ہے۔ایک جگمگاتا ہوا تحریکی کردار۔ تحریکِ اسلامی نے ایسے ہیرے تراش کرکے پیش کر دیے۔ (مسلم سجاد)


تعارف کتب

o معارف مجلہ تحقیق، (شمارہ ۱۰،جولائی-دسمبر ۲۰۱۵ئ)، مدیر:پروفیسر ڈاکٹر محمداسحاق منصوری۔ ناشر:ادارہ معارف اسلامی، کراچی۔ ۳۶۸۰۹۲۰۱-۰۲۱۔ فون:۰۲۱۔صفحات:۲۹۸+۱۰۰۔ قیمت: ۴۵۰روپے۔ [زیرنظر شمارے میں عالمِ اسلام، فقہ الاقلیات، دین اور تہذیب، مناصب اور ذرائع کے استعمال کے ساتھ ساتھ پاکستان کی مالیاتی پالیسی، ذرائع ابلاغ میں رپورٹنگ کا معیار، سیرت نبویؐ اور مستشرقین کا اندازِ فکر، قتل رحم خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ مقالہ خصوصی میں اوکسفرڈ یونی ورسٹی، آفاق اور سرکاری نصابی کتب کا تقابلی مطالعہ کیا گیا ہے۔]

 

مطالعہ سیرت عہد بہ عہد ( تلخیص محاضرات سیرت از ڈاکٹر محمود احمد غازی )، مرتب: محمدرضا تیمور۔ ناشر: قرطاس ، عثمان پلازا ،بلاک ۱۳- بی، گلشن اقبال، کراچی۔ صفحات:۱۷۵۔ ہدیہ:۲۵۰روپے۔

۱۲؍مختصر ابواب پر مشتمل یہ کتاب ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم کے خطبات سیر ت کا خلاصہ ہے، جسے مرتب نے بہت محنت کے ساتھ احادیث کی تخریج اور جامع حواشی کے ساتھ ترتیب دیا ہے۔

 مرتب نے مقدمے میں بعض معروف نکات اٹھائے ہیں جن کا تعلق تاریخ کے نفس مضمون اور سیر ت کے عمومی تصور سے ہے ۔ باب اوّل میں مطالعہ سیرت کی ضرورت و واہمیت پر غازی صاحب کے مطالعہ سیرت کے نتیجے میں بیان کردہ خطاب کے اہم پہلو تحریر کیے گئے ہیں ۔ ان کی یہ بات درست ہے کہ مطالعۂ سیرت کی اہمیت مسلمانوں اورغیر مسلموں دونوں کے لیے ہے (ص۲۷)۔   اگلے باب میں سیرت اور علوم سیرت کا تعارف کرایا گیا ہے۔ اس سے وابستہ تیسرا باب ہے جس میں بعض باتیں مکرر اور بعض اضافی بیان کی گئی ہیں ۔اس باب میں تاریخی جائزے میں اہم سیرت نگاروں کا اختصار سے تعارف شامل ہے ۔مستشرقین نے نہ صرف واقدی بلکہ ایسی کتب کو بھی      اپنا ذریعۂ معلومات بنایا ہے جو تاریخی اصول تنقید کی روشنی میں تحریر نہیں کی گئیں، جیسے کتاب الاغانی۔  مصنف نے واقدی کے حوالے سے اس عام تصور کی وضاحت کر دی ہے کہ تمام تر احتیاط کے باوجود اس کی تاریخی معلومات میں تاریخیت پائی جاتی ہے۔(ص ۷۸-۸۰)

 مصنف نے مدینہ کی اسلامی ریاست کی معاشرت و معیشت کے حوالے سے ساتویں باب میں قیمتی معلومات کا خلاصہ پیش کیا ہے ۔ کلامیاتِ سیرت، فقہاتِ سیرت، دو ایسے موضوع بھی اٹھائے گئے ہیں جو عموماً کتب سیرت میں زیر بحث نہیں لائے جاتے۔ پھر برعظیم میں مطالعۂ سیرت کا تاریخی جائزہ پیش کیا گیا ہے جو اسلامی تاریخ اور عام تاریخ کے طلبہ کے لیے بھی مفید ہے ۔ دورِ جدید میں مطالعۂ سیرت کا جائزہ بھی معلومات افزا ہے۔ آخری باب میں تجویز کیا گیا ہے کہ عمرانی علوم کی  علمی و تحقیقی حکمت عملی (Research Methodology) سے مدد لیتے ہوئے سیرت پاک سلسلے کے بعض ایسے پہلو زیر تحقیق آنے چاہییں جن پر ابھی تک زیادہ توجہ نہیں دی گئی ۔ سیرتِ پاکؐ پر  یہ ایک مفید کتاب ہے، جسے عمومی سطح پر زیرمطالعہ لانے کا اہتمام ہونا چاہیے۔(ڈاکٹر انیس احمد)


قرونِ اولیٰ کا ایک مدبر مختار ثقفی، ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر۔ناشر: قرطاس ،فلیٹ نمبرA-15، گلشن امین ٹاور، گلستان جوہر ،بلاک ۱۵،کراچی ۔ صفحات: ۱۵۴۔ قیمت: ۱۴۰روپے ۔

 پاکستان کے علمی اور ادبی حلقوں میں ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر ،پروفیسر شعبۂ اسلامی تاریخ،  جامعہ کراچی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔علمی تحقیق ،شعر و ادب اور خود نوشت، غرض ہر شعبے میں ڈاکٹر صا  حبہ نے اعلیٰ معیاری تصانیف پیش کی ہیں ۔ زیر نظر کتاب ایک ایسی شخصیت سے تعلق رکھتی ہے، جس کے عقائد نے امت مسلمہ کے ایک محدود حصے کو متاثر کیا اور اپنی قدیم یا جدید شکل میں ان میں سے بعض عقائد کے آثار آج تک مشاہدے میں آتے ہیں ۔

 مؤرخ کا قلم غیر جانب دار ،حقائق کا متلاشی اور بے باک نہ ہوتو غیر محسوس طور پر ذاتی وابستگی اور بعض اوقات تعصب کا شکار ہو جاتا ہے۔ ہاں، اگر وہ اپنے تعصبات سے خود آگاہ ہو تو توازن و اعتدال کا دامن نہیں چھوڑتا ۔مغرب زدہ مسلم مؤرخین تاریخ کی تاریخ کے بیان میں جرمن تاریخ دان Rankeکو حقائق پرست ،تاریخ نگاری کا علَم بردار سمجھتے ہیں، جب کہ تصور تاریخ، جدلیاتی فکر سے متاثر ہو یا ما دیت یا سرمایہ دارنہ طرز فکر کاا سیر ہو،حتیٰ کہ نام نہاد سائنٹی فک طریق تحقیق سے وابستہ ہو ، داخلی وابستگی سے آزاد نہیں ہو سکتا۔ مؤرخ حقائق کا مطالعہ اور تجزیہ کرتے وقت یہ بھول جاتا ہے کہ اس نے جو عینک زیب ناک کر رکھی ہے وہ حقائق کی صداقت تک پہنچنے میں اس کی راے پر غیرمحسوس طور پر اثر انداز ہو رہی ہے ۔آج اردو زبان جس مقام پر پہنچ گئی ہے اس میں سلیس اردو کی ہر تحریر پڑھ کر تقویت ہوتی ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


کلیات عنایت، عنایت علی خاں۔ ملنے کے پتے: منشورات، منصورہ، لاہور۔ فون:۳۵۲۵۲۲۱۱-۰۴۲۔ اکیڈمی بک سنٹر، کراچی۔ فون: ۳۶۳۴۹۸۴۰-۰۲۱۔ صفحات :۶۷۲۔ قیمت (مجلد):۵۰۰ روپے۔

جناب عنایت علی خاں کی شہرت تو طنزومزاح کے شاعر کی ہے اور یہ ہے بھی سچ۔ وہ مشاعروں میں اسی مزاحیہ کلام سے دھوم مچاتے ہیں مگر ان کے کسی مجموعے کو دیکھ کر اور بالخصوص کلیات کو دیکھ کر یہ واضح احساس ہوتا ہے کہ ان کو محض طنزومزاح کا شاعر سمجھنا ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا۔ وہ ایک دردمند ، محب ِ وطن اور حالاتِ حاضرہ سے باخبر شاعر ہیں۔

انھیں ہر صنف میں اپنی بات کہنے کا ہنر آتا ہے۔ بحرِبیکراں، افراد ہو یا راج کہانی یا ’ورلڈکپ‘ جو ان کی سب سے زیادہ مشہور نظم ہے، کسی کو بھی دیکھیے آپ کو محسوس ہوگا کہ اُن کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے اور پیش کرنے کا سلیقہ بھی۔ صرف ایک نظم کا ایک بند دیکھیے:

ہم ہیں صاحب، ہم کو ورثے میں ملی یہ صاحبی

ایک پی او ، ایک شوفر ، گیٹ پر دو سنتری

ہے شہنشاہی جسے سمجھا ہے تم نے نوکری

قوم کے افراد سارے ہیں ہمارے خدمتی


عنایت صاحب کے کلام میں نعت اور حمد کا تذکرہ بھی ہے مگر کسی قدر کم کم ہے۔ لیکن یہ کم بھی بہت خوب ہے۔

ان کی شہرت تو ضرور ایک شاعر کی ہے مگر وہ مصنف ہیں، محقق ہیں ،مترجم ہیں اور مذہب پر کامل اعتقاد رکھنے والے عالم باعمل ہیں۔ تمام زندگی پڑھتے پڑھاتے گزری ہے۔ ان کی نظم ’ٹیوٹر‘ پڑھیے تو علم کی ناقدری کا بھرپور احساس ہوتا ہے۔

کلیات کی اشاعت پر ان کو مبار کباد تو دی جاسکتی ہے مگر ابھی ان سے اور بھی بہت سی توقعات ہیںجو ان شاء اللہ پوری ہوں گی۔

۶۷۲ صفحات کی اس کتاب میں ۱۵۰ سے زائد صفحات پر شاعرِ خوش کلام کے بارے میں نامی گرامی شخصیات کا اظہار خیال ہے۔ یہ تحریریں شاعر کی شخصیت ، ان کے مقام، ان کے کلام ، ان کی ذاتی زندگی، اخلاق و کردار، رویوں اور سوچ و فکر سب کے بارے میں گواہی پیش کرتی ہیں۔ جو تحریریں بعد میں لکھی جاتی ہیںعنایت صاحب نے سامنے ہی لکھوا لی ہیں۔

گواہی دینے والوں میں نعیم صدیقی، ضمیرجعفری، مشفق خواجہ، تابش دہلوی، انورمسعود، افتخار عارف، ڈاکٹر طاہر مسعود، ابونثر اور دیگر شامل ہیں۔ عطاء الحق قاسمی نے انھیں شاعروں کا پطرس قرار دیا ہے۔ عنایت صاحب نے خود اپنے حالات بھی لکھ دیے ہیں کہ سند رہے۔ ایک تحریر  ہمزاد خاں کی بھی ہے۔ کلیات، عنایت علی خاں کی یادگار ہے اور اللہ انھیں زندگی اور صحت دے اور سلسلۂ عنایت از راہِ عنایت جاری رہے اور اہلِ ذوق کو کلیات کے دوسرے تیسرا ایڈیشن نصیب ہوں۔(وقار احمد زبیری)


ارمغانِ خورشید، مرتب: ڈاکٹر زاہد منیر عامر۔ ناشر: پنجاب یونی ورسٹی پریس، لاہور۔ صفحات:۵۴۲+۱۸۔ قیمت: ۱۰۰۰ روپے۔

اُردو میں اہلِ علم و ادب اور اکابرِ ملک و ملّت کی خدمات کے اعتراف میں اَرمغان یا یادگاری کتاب پیش کرنے کی ایک روایت برسوں سے چلی آرہی ہے۔ مسلّمہ روایت میں تو ’ارمغانِ علمی‘ متعلقہ شخصیت کی دل چسپی کے موضوعات پر غیرمطبوعہ علمی مضامین پر مبنی ہوتی ہے۔ اُردو میں ایسے ارمغانوں کی تعداد تقریباً دو درجن ہے( ’انگشت شمار‘ نہیں جیساکہ زیرنظر مجموعے   میں بتایا گیا ہے)۔ زیرتبصرہ کتاب ان معنوں میں تو ’ارمغانِ علمی‘ نہیں مگر پروفیسر ڈاکٹر سیّد محمد خورشیدالحسن رضوی (ولادت: ۱۹مئی ۱۹۴۲ئ) کی شخصیت، حالاتِ زندگی، تصانیف و تالیفات، شاعری وغیرہ پر مطبوعہ مضامین اور تبصروں کا ایک خوب صورت مجموعہ ہے جسے ان کے شاگرد    ڈاکٹر زاہد منیر عامرنے (جو خود بھی ایک بڑے نام وَر استاد، محقق، مصنف اور شاعر ہیں) بڑی محنت اور محبت سے تیار کر کے پیش کیا ہے۔

خورشید رضوی اُن ’پراگندا طبع‘ لوگوں میں سے ہیں جن کی تعداد ہمارے معاشرے سے روز بروز گھٹتی جارہی ہے۔ صاحبانِ علمیت و ذہانت تو مل جاتے ہیں مگر بے غرض، بے ریا اور نام و نمود کی خواہش سے بے نیاز (خورشید رضوی ایسے)کم ہی ملتے ہیں۔ اس کتاب میں رضوی صاحب کے بارے میں ان کے بعض اساتذہ کی آرا بھی شامل ہیں، مثلاً: ڈاکٹر سیّد عبداللہ، ان کی ’دانش ورانہ صلاحیتوں‘ کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’خورشید رضوی کے عربی زبان و ادب کے غیرمعمولی علم نے مجھے نمایاں طور پر متاثر کیا‘‘۔ ڈاکٹر ایس ایم زمان فرماتے ہیں: ’’ڈاکٹر خورشیدرضوی کے تحقیقی مضامین پر نظر ڈالیں تو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ ایک سنجیدہ، محتاط، ذہین وطباع، محقق و مفکر ہیں یا صاحب ِ طرز ادیب…؟ وہ یہ سبھی کچھ ہیں‘‘۔ اسی طرح  ڈاکٹر صوفی محمد ضیاء الحق کو ہزاروں طالب علموں میں سے ’’صرف ایک ہونہار نوجوان [خورشید رضوی] میں علماے سلف رحمہم اللہ کے اوصافِ عالیہ کی کچھ جھلک نظر آئی‘‘۔

اساتذہ کی ان آرا کے ساتھ رضوی صاحب پر اُردو کے نام وَر ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور نقادوں کے مختصر اور طویل مضامین بھی شامل ہیں۔یہ مضامین خورشیدصاحب کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں (بطور شاعر، بطور محقق، بطور نقاد، بطور مترجم) کا ا حاطہ کرتے ہیں۔ مؤلّف نے مجموعے کو مزید وقیع اور روشن کرنے کے لیے خود خورشیدصاحب کے تین خطباتِ صدارت، مصاحبے  (انٹرویو) اور مکاتیب بھی (مع چھے انگریزی تحریرات) شامل کردیے ہیں۔

یہ بہت خوش آیند بات ہے کہ ایک ایسے شخص پر، جس کا ادب میں کوئی دھڑا نہیں ہے اور وہ ترقی پسند بھی نہیں ہے اور شہرت کا طلب گار بھی نہیں، اتنی بڑی تعداد میں لکھنے والوں نے ازخود لکھا ہے، لیکن دوسری طرف یہ بات افسوس اور تشویش کی ہے کہ ہماری جامعات اور علمی و تحقیقی اداروں نے خورشید رضوی ایسے نادر ِ روزگار عالم سے فائدہ نہیں اُٹھایا۔ یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے ستایش کی تمنا اور صلے کی پروا کیے بغیر، اپنی دُھن میں عربی ادب پر بے مثال تحقیقی و تنقیدی کام کیا ہے۔

مرتب کا ذوقِ تالیف و ترتیب بھی قابلِ داد ہے۔ انھوں نے مجموعے کو دل چسپ بنانے اور پیش کش کو نہایت خوب صورتی سے سامنے لانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ لیکن اگر وہ زیرنظر نسبتاً آسان کام کے بجاے اصل ’ارمغانِ علمی‘ تیار کرتے تو اور زیادہ مبارک باد کے مستحق اور ’مرداں چنیں کنند‘ کا مصداق ہوتے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


اُردو اِملا کے اصول ، پروفیسر ایم نذیراحمد تشنّہ۔ناشر: قریشی برادر ز پبلشرز۔ ۲-اُردو بازار، لاہور۔ صفحات:۱۲۰۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

زیرنظر کتاب غالباً مصنف کا ایم فل اُردو کا تحقیقی مقالہ ہے۔ اشاعت کے موقعے پر ممکن ہے اس میں ترامیم اور تبدیلیاں کی گئی ہوں۔ مصنف نے ایم فل اُردو کے لیے ’اُردو قاعدہ، تحقیقی و تنقیدی مطالعہ‘ کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھا جس میں اِملا اور رسم الخط کے مسائل بھی زیربحث آئے تھے۔ انھی مسائل کی وضاحت اور حل کے سلسلے میں انھوں نے زیرنظر کتاب تصنیف کی ہے۔ اس میں ان کے تحقیقی مقالے کا ایک حصہ بھی شامل ہے۔

اُردو زبان بالعموم خط ِ نستعلیق میں لکھی جاتی ہے جو ہمارے نزدیک دنیا کا سب سے خوب صورت رسم الخط یہی ہے۔ لیکن جہاں اِملا درست نہ ہو اور اِملا میں یکسانیت کا فقدان ہو، وہاں اُردو کی خوب صورتی ماند پڑ جاتی ہے۔ مصنف کی خواہش بجا ہے کہ اُردو لکھنے والا ہرشخص درست اِملا لکھے۔ اس کے لیے انھوں نے درست اِملا کے اصول بھی بتائے ہیں، مثالیں بھی دی ہیں اور ۲۱صفحات کا ایک لغت بھی شاملِ کتاب کیا ہے۔ اس میں درست اِملا میں ۵۰۰ سے زائد الفاظ دینے کے ساتھ ان کے لغوی معنی بھی دیے گئے ہیں۔

درست اِملا کی اہمیت اپنی جگہ مگر زبان کی خوب صورتی اِملا کے علاوہ الفاظ کی آلودگی سے بھی متاثر ہوتی ہے بلکہ زبان بگڑ جاتی ہے۔ ہمارے اخبارات،ریڈیو، ٹیلی وژن اور مقررین مل جل کر اس بگاڑ میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں، مثلاً: انگریزی الفاظ کا بے جا اور غیرضروری استعمال ۔ اسی طرح اُردو الفاظ کے جمع بنانے میں اُردو کے بجاے انگریزی اصولوں اور قاعدوں کو اپنانا وغیرہ۔ مصنف کو اِملا کے ساتھ ساتھ اس پہلو پر بھی توجہ دینی چاہیے تھی۔

اُردو اِملا کا المیہ یہ ہے کہ نہ صرف افراد (مصنف، خوش نویس، پروف خواں) بلکہ ادارے (علمی و ادبی انجمنیں ، جامعات کے اشاعتی شعبے، ناشر وغیرہ) بھی اِملا کے مسلّمہ اصولوں کی پاس داری نہیں کرتے۔ یوں وہ بھی زبان کی آلودگی بڑھانے میں شامل ہیں۔

زیرنظر کتاب میں لیے کو لئے، دیے کو دیئے، رشید حسن خاں کو رشید حسن خان اور ہیئت کو ہیت لکھا گیا ہے، جو ان الفاظ کا درست اِملا نہیں ہے۔ کتاب میں رُموزِ اوقاف پر بھی بحث ہے مگر مصنف کے اپنے دیباچے میں رُموزِ اوقاف کا اہتمام نہیں ملتا۔ کتابت کی اَغلاط بھی کم نہیں اور پروف ریڈنگ بھی احتیاط سے نہیں کی گئی۔ ان خامیوںکے باوجود مصنف کی کاوش قابلِ قدر ہے۔ اُمید ہے آیندہ ایڈیشن میں وہ کتاب کو بہتر اور مفید تر بنائیں گے۔(رفیع الدین ہاشمی)


علامہ اقبال بنام نذیر نیازی، تحقیق و ترتیب: قاسم محمود احمد۔ ناشر: السدیس پبلی کیشنز، لاہور۔  فون: ۳۰۵۹۸۰۱-۰۳۰۱۔صفحات: ۲۲۴۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔

علامہ اقبال کے افکار جس طرح شاعری میں اپنی ندرت اور تاثیر کے باعث قبولِ خاطر ہیں، اسی طرح نثر میں بھی ان کے نظریات واضح ہیں۔ ان کے خطوط کے ۱۰،۱۲ مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔

زیرنظر مجموعۂ مکاتیب سیّد نذیرنیازی کے نام ۱۷۸ خطوط پر مشتمل ہے۔ دو خطوط نذیر نیازی کے نام نہیں، تاہم وہ بھی اس مجموعے میں شامل ہیں۔ سید نذیر نیازی نے ۱۹۵۷ء میں یہ خطوط مکتوباتِ اقبال کے عنوان سے شائع کیے تھے۔ اب یہ مکاتیب متن کی تصحیح کے بعد شائع کیے گئے ہیں۔ ان خطوط کی عکسی نقول مرتب کو اقبال اکادمی سے حاصل ہوگئی تھیں۔ سیّد نذیرنیازی کے شائع کردہ مکتوباتِ اقبال میں سیکڑوں اغلاط تھیں اور غیرضروری طویل حواشی تھے جو زیرنظر مجموعے میں حذف کردیے گئے ہیں۔ سیّد نذیر نیازی کے نام یہ خطوط ۱۹۲۹ء سے ۱۹۳۷ء تک کے عرصے میں تحر یر کیے گئے۔ علامہ اقبال نے ان خطوط میں اپنی تصنیفات، بعض شخصیات، اپنے اسفار، علمی کانفرنسوں میں شرکت،اور اپنی بیماری وغیرہ کا ذکر کیا ہے اور بعض خطوں میں علمی مسائل پر کلام کیا ہے۔

مرتب نے سیّد نذیر نیازی کی کتاب مکتوباتِ اقبال کی تصحیح کرتے ہوئے اگرچہ بہت سی اغلاط کی درستی کی ہے جس کے باعث زیرنظر مجموعہ پہلے مطبوعہ نسخے مکتوباتِ اقبالکی نسبت بہتر حالت میں ہے۔ تاہم زیرنظر تصحیح کردہ نسخے میں بھی متعدد اغلاط موجود ہیں۔ بعض خطوط کے عکس دے دیے جاتے تو بہتر ہوتا۔ مرتب نے مکاتیب کے متن کی صحت کا خیال رکھنے کی کوشش کی ہے، تاہم پروف عجلت کے بجاے ذمہ دارانہ احساس کے ساتھ احتیاط سے پڑھے جاتے تو یہ اغلاط نہ رہتیں۔ (ظفر حجازی)


تعارف کتب

 o  زندگی اسوئہ رسولؐ کے سنگ ، علامہ محمد علی بِکری صدیقی شافعیؒ، ترجمہ: غلام مصطفی القادری۔ ناشر: ساگرپبلشرز، فرسٹ فلور، ۳۰- الحمدمارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۳۰۴۲۳-۰۴۲۔ صفحات: ۲۰۰۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔ [شمائلِ نبویؐ اور گیارھویں صدی ہجری کے محدث علامہ محمدعلی بن علان  بن ابراہیم بِکری صدیقی شافعی کی عربی تصنیف کا اُردو ترجمہ ہے۔ علامہ علی بِکری نے روایاتِ احادیث کی  صورت میں محسنِ انسانیت ؐ اور ہادیِ عالم ؐ کے شمائل وخصائل، عادات و معمولات، طبع و مزاج گرامی اور رسولِ کریمؐ کے استعمال میں رہنے والی اشیا، سواریوں، لباس و بستر وغیرہ کا تذکرہ مرتب کیا ہے۔ سیرتِ پاکؐ کے یہ پہلو بھی لائقِ اتباع ہیں۔]

o شرح اربعین امام حسینؓ، عبداللہ دانش۔ ناشر: العاصم اسلامک بُکس۔ ۲۸-الفضل مارکیٹ، ۱۷-اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۱۲۲۴۲۳-۰۴۲۔صفحات: ۴۷۵۔ قیمت: درج نہیں۔ [مرتب نے چند برس قبل    امام حسینؓ کے فضائل و مناقب اور شہادت سے متعلق احادیث ِ رسولؐ اور تاریخی روایات کا ایک مجموعہ اربعین امام حسینؓ کے نام سے شائع کیا تھا۔ اب اسی مجموعے کی شرح، تخریج اور کتاب کے نام میں  ایک لفظ کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔ اربعین امام حسینؓ عنوان سے تاثر ملتا ہے کہ یہ امام حسینؓ کی جمع کردہ احادیث ِ رسولؐ کا مجموعہ ہے لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ یہ ان سے متعلق روایات ہیں جن کو مرتب نے صحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ طباعت معیاری ہے۔]

o  ادب: کس کا، کیوں اور کیسے؟ ، مولانا حکیم محمد ادریس فاروقی، محمد نعمان فاروقی۔ ناشر: مسلم پبلی کیشنز، ۲۵-ہادیہ حلیمہ سنٹر، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۱۰۰۲۲-۰۴۲۔ صفحات: ۲۷۲۔ قیمت ( مجلد): ۳۹۰ روپے۔ [اللہ تعالیٰ، رسولؐ اللہ، قرآنِ مجید، احادیث ِ رسولؐ ، صحابہؓ و اہلِ بیتؓ ، حرمین شریفین و دیگر مساجد، ائمہ محدثین و فقہا،  اولیاے کرام، والدین، اساتذہ اور بڑوں کے ادب و احترام پر قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فراہم کی گئی ہے۔ اسلوب عام فہم اور واقعات مستند۔ مصنف کا زاویۂ نظر درست ہے۔]

o  تربیت اولاد میں ماں کا کردار، عائشہ کرامت شیخ۔ ناشر: اسلامک سروسز سوسائٹی، ۱۷۹-اے ، احمدبلاک، نیو گارڈن ٹائون، لاہور۔ فون: ۳۵۸۶۳۱۹۹-۰۴۲۔ صفحات: ۴۷۔ قیمت: درج نہیں۔[معاشرتی بگاڑ کا بنیادی سبب اخلاق اور دین سے دُوری ہے اور نوجوان نسل بالخصوص اس کا ہدف ہے۔ اس انحطاط کو روکنے اور نوجوان نسل کی صحیح خطوط پر تربیت کے لیے ایک ماں کا مطلوبہ کردار اور راہ نمائی کے اصول اس کتابچے میں ایک مختلف اسلوب میں بیان کیے گئے ہیں۔ بچوں کی تربیت کے لیے ایک مختصر اور جامع کتاب۔]

اسلامی اقتصاد کے چند پوشیدہ گوشے، مولانا محمد طاسین۔ ناشر: گوشہ علم و تحقیق، ۲۰۱-اے، کتیانہ سنٹر، کراچی۔ صفحات:۲۰۰۔قیمت: ۱۹۰ روپے۔

مولانا طاسینؒ روایتی دینی مدارس سے فارغ التحصیل، اُن کی اسناد کے حامل اور انھی مدارس میں استاد، لیکن اسلام کے نظامِ اقتصاد پر روایتی فکر سے ہٹ کر اور مضبوط دلائل کی بنا پر اُس سے اختلاف کرنے والے عالم کی حیثیت سے عرصے تک جانے جائیں گے۔ جیساکہ مصنف خود بیان کرتے ہیں: ’’یہ کتاب اسلام کے معاشی نظام سے متعلق کوئی مستقل اور جامع کتاب نہیں، بلکہ چند ایسے معاشی معاملات سے متعلق چند تحقیقی مضامین و مقالات کا مجموعہ ہے، جو مسلمانوں کے اندر جانے پہچانے اور عملی طور پر رائج معاملات ہیں، جیسے مزارعت، مضاربت، شرکت اور اجارہ‘‘۔ اسلامی معاشیات پر لکھنے والے اور اسلامی اقتصاد پر مبنی مالیاتی ادارے قائم کرنے اور چلانے والے عام طور پر دعویٰ کرتے ہیں کہ شرکت، مضاربت، لیزنگ اور اس طرح کے کاروبار، اسلام کے معاشی اصولوں اور قوانین کی رُو سے درست اور جائز ہیں، اور قرآن و حدیث کی تعلیمات کے منافی نہیں ہیں، جب کہ مولانا کے نزدیک حقیقت اس کے بالکل برخلاف ہے۔


ان مضامین میں جو وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے ہیں، ان معاملات پر تحقیقی اور تفصیلی بحث کرتے ہوئے، اسلامی قانون کے اصل مصادر کی طرف رجوع کرکے اُن کی اصل شرعی حیثیت متعین اور واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

مصنف کہتے ہیں: ہم مسلمان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام کا ایک اپنا مستقل معاشی نظام ہے، جو سرمایہ داری اور اشتراکی معاشی نظاموں سے مختلف ہے۔ لیکن عملی طور پر جو کچھ پیش کیا جاتا ہے، وہ ’’بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ اور بعض ملکوں میں ادھورا اشتراکی [نظامِ معاش] ہے‘‘۔ قرآن و حدیث میں حیاتِ انسانی کے معاشی پہلو سے متعلق جو ہدایات و احکام دیے گئے ہیں، ان کا بغور مطالعہ کرکے آج کی دنیا میں ان کے اطلاق اور ایک نظام کی تخلیق کا کام ابھی تک شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکا۔

پیش نظر کتاب میں مزارعت، مضاربہ اور اجارہ سے متعلق تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ ان میں سے ہرطریق اور شعبۂ معاشی پر متقدمین کے ایک گروہ نے جواز اور کچھ نے عدم جواز کے موقف اختیار کیے ہیں۔مصنف کہتے ہیں کہ دونوں موقف اجتہاد پر مبنی ہیں، اور ان سے اختلاف کی گنجایش ہے۔ کون سا موقف اختیار کیا جائے؟ اس سلسلے میں جواب تحقیق و تنقید کی روشنی ہی میں حاصل کیا جاسکتا ہے۔

مزارعت پر تفصیلی بحث میں فاضل مصنف کا کہنا ہے کہ یہ طریق ’ربوٰ‘ کے مماثل ہے، کیوں کہ اس میں ’اصل سرمایہ‘ جوں کا توں محفوظ رہتا ہے، اور اس کے استعمال کرنے والے کو اس کا ’معاوضہ‘ دینا ہوتا ہے۔ قرآن سے استدلالِ تمثیلی (analogical argument) کے بعد احادیث کے ذخیرے سے اس سلسلے میں تمام روایات کو لے کر ان کا محاکمہ کیا گیا ہے۔مصنف کہتے ہیں: ’’ان روایات کے پورے مجموعے پر خالی الذہن ہوکر نظر ڈالی جائے تو جو حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہے  وہ یہ کہ مدینہ منورہ میں مزارعت، مخابرت، محاقلت اور کراء الارض کی مختلف شکلیں رائج چلی آرہی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب شکلوں سے مسلمانوں کو منع فرمایا‘‘۔(ص۸۱)

قرآن و احادیث سے استدلال کے بعد مصنف نے صحابہ اور تابعین کے عمل، امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کی تحریروں سے بھی مزارعت کی ممانعت ثابت کی ہے۔

مضاربت کے سلسلے میں مصنف کا کہنا ہے کہ پاکستانی (اور دوسرے بنکوں) میں اس عنوان سے جو کاروبار ہوا ہے وہ ربوٰ ہی کی ایک شکل ہے۔ پاکستان بنکنگ کونسل نے بنکوں میں شرکت و مضاربت کے نام سے ایک شعبہ تجویز کیا کہ جو لوگ اس شعبے میں کھاتے کھولیں گے ان کی رقوم قرض کی طرح محفوظ بھی رہیں گی اور سالانہ ساڑھے ۱۲ فی صد نفع بھی ملے گا… پھر غضب یہ کہ اس شعبے کو اسلامی کا نام دیا گیا‘‘۔ (ص۲۴۱)

مصنف کے نزدیک: ’’ایسے معاملات پر مبنی نظامِ بنکاری و سرمایہ کاری کو اسلامی کہنا اسلام پر افترا اور ظلم اور اُسے بدنام کرنے کی بدترین کوشش ہے، کیوں کہ جہاں تک بنیادی ساخت اور  عملی نتائج کا تعلق ہے، اس نظام میں اور صریح ربوٰ پر مبنی نظام میں کوئی خاص فرق نہیں۔ دونوں میں کھاتہ داروں کی اصل رقوم بھی محفوظ رہتی ہیںاور ان کو بغیر کسی محنت و مشقت کے سرمایہ کے فی صد کے حساب سے متعین اضافہ بھی ملتا ہے‘‘۔ (ص ۲۴۱)

مصنف ’مضاربہ‘ کی حقیقی شکل جو جائز اور درست تسلیم کرتے ہیں، اس میں ایک فریق کا مال اور دوسرے کا تجارتی کام یا عمل ہوتا ہے۔ اس تجارت یا معاشی عمل میں اگر نفع ہو، تو دونوں فریق مقررہ تناسب سے شریکِ نفع ہوتے ہیں، اور نقصان کی صورت میں سارا خسارہ ’ربّ المال‘ یعنی سرمایے والے فریق کا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی چند شرائط ہیں، جن کے تحت یہ کاروبار جائز قرار پاتا ہے۔ بدقسمتی سے مروج مالیاتی نظاموں اور بنکوں میں مضاربہ کی شرعی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے جو کاروبار کیا جا رہا ہے، اس میں ان شرائط کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ اس طرح ’’اس معاملے کو ربوٰ کے بجاے شرکت و مضاربت اور اس میں ملنے والے اضافے کو سود کے بجاے نفع کہہ دینے سے حقیقت ِ حال پر کچھ اثر نہیں پڑتا، اور نہ اس کی نوعیت ہی بدلتی ہے‘‘۔ (ص ۲۵۳)

مصنف بجا طور پر یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ جس معاشرے میں سرمایہ دارانہ معاشی نظام قائم ہو، اس میں سرمایہ کاری کے لیے مضاربت، شراکت یا دوسرے نفع بخش معاشی اعمال کی ترویج عملی طور پر ناممکن ہے۔ غالباً اس طرح کا معاملہ کرایے پر مکانات دینے کا ہے، اس کا جواز چند شرائط کے ساتھ ہے، تاہم مکہ مکرمہ کے مکانات میں مسافروں سے کرایہ وصول کرنے کا کوئی جواز نہیں، ہاں خدمات (پانی، بجلی وغیرہ) کا معاوضہ لیا جاسکتا ہے۔

ہمارے ملک ، بلکہ پورے عالمِ اسلام میں جن بہت سی معاشی سرگرمیوں کو عین اسلامی تصور کیا جاتا ہے ، اور بہت سے مستند علما بھی نہ صرف ان کے جواز کے قائل ہیں، بلکہ ان سرگرمیوں میں عملاً شریک بھی ہیں۔ اُن کے بارے میں فاضل مصنف کی تحقیق ہمارے لیے فکر کے کچھ نئے اور پرانے دریچے کھولتی ہے۔ ان معاملات میں دین کے اصل مصادر کی طرف رجوع اور انھیں     اس کاوش اور محنت کے ساتھ سلیقے سے جمع کرکے پیش کرنا اور ان سے اخذ نتائج بلاشبہہ ایک ایسا علمی کارنامہ ہے، جس سے اسلام کے معاشی نظام کے ہرطالب علم اور منتہی کو استفادہ کرنا چاہیے۔ (پروفیسر عبدالقدیر سلیم)


رہنماے تربیت، ڈاکٹر ہشام الطالب، ترجمہ: محی الحق فاروقی۔ ناشر:منشورات، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۲۵۲۲۱۱-۰۴۲۔ صفحات: ۶۷۲۔ قیمت: ۵۶۰ روپے۔

رہنماے تربیت، دعوتِ دین کے کارکنوں کے لیے اپنے موضوع پر ایک غیرمعمولی کتاب ہے۔ڈاکٹر ہشام الطالب کی یہ کتاب انگریزی میں لکھی گئی اور شاہ محی الحق فاروقی نے اس کا اُردو ترجمہ کیا، جسے عالمی ادارہ فکراسلامی (IIIT) نے ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری صاحب کی نگرانی میں شائع کیا۔ یہ کتاب ’خرم جاہ مراد‘ کے نام انتساب کی گئی ہے۔

ڈاکٹر ہشام الطالب شمالی امریکا کی تنظیم مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (MSA) کی داغ بیل ڈالنے والے نمایاں افراد میں سے تھے۔ ان کی زندگی کا بڑا حصہ دعوتی سرگرمیوں میں گزرا ہے۔ انھوں نے اپنے مشاہدے، تجربے اور سوچ بچار کا حاصل اس کتاب میں قلم بند کیا ہے۔

اس کتاب کا مقصد اسلامی دعوت کے ایسے کارکنوں کی تیاری ہے، جو علم اور حکمت و دانش کے زیور سے آراستہ اور ذہن رسا کی دولت سے مالا مال ہوں، دنیا کے ثقافتی اور معاشرتی مسائل کو سمجھتے ہوں، اور فہم و فراست اور مؤثر ابلاغ کے ذریعے اسلام کی خاطرخواہ خدمت کرسکیں۔ اس مقصد کے لیے اس کتاب میں تربیت کا ایک ایسا لائحہ عمل تجویز کیا گیا ہے، جس سے زیرتربیت افراد کی لگن میں اضافہ،ان کے علم میں ترقی اور ابلاغ، انتظامی اُمور اور منصوبہ بندی کے شعبوں میں ان کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہوسکتا ہے۔

کتاب کے مندرجات کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ نظری سے زیادہ عملی پہلوئوں پر مرکوز ہیں۔ ایک فرد کی شخصی تعمیرسے لے کر دعوتِ اسلامی کی توسیع تک، اور اس سلسلے میں مؤثر انداز کے اجتماعات منعقد کرنے سے لے کر دعوت اسلامی کی منصوبہ بندی تک، اور دعوت و تبلیغ کے معروف طریقوں کے استعمال سے لے کر عصرِحاضر کی بہترین سہولتوں پر غوروفکر جیسے بے شمار مسائل اس میں زیربحث آئے ہیں۔

سرورق پر تعارفی جملہ: ’کارکنان دعوت و تبلیغ کے لیے لائحہ عمل‘ کتاب کی مناسب نمایندگی کرتا ہے۔ اس کتاب میں ۳۷؍ابواب ہیں جو پانچ حصوں میں تقسیم ہیں۔ حصہ اوّل: تربیت کے مناظر، دوم: قیادت کی ذمہ داریاں، سوم: مہارت میں اضافہ اور ذاتی ترقی، چہارم: تربیت دینے والوں کی تربیت، پنجم: نوجوانوں کے کیمپ، نظریاتی عملی حیثیت سے۔

 یہ ضخیم کتاب لائبریری کی زینت بنانے کے لیے نہیں ہے، بلکہ اسے مسلسل استعمال میں رکھنا چاہیے۔ اس کا انفرادی اور اجتماعی مطالعہ کرنا چاہیے، اور رُوبہ عمل لاکر نتائج و اثرات اور تحریکی کام کی رفتار کا جائزہ لینا چاہیے۔(مسلم سجاد)


مجلّہ تعبیر، مدیر: عبدالعزیز ساحر۔ ناشر: شعبہ اُردو، علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی، اسلام آباد۔ صفحات:۱۵۶+۴۵۔ قیمت: درج نہیں۔

خالص تحقیق، کبھی عام قاری کی دل چسپی کی نہیں ہوتی، پھر بھی علم و ادب سے تھوڑا بہت علاقہ رکھنے والے قارئین، علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کے اُردو شعبے کے مجلے تعبیر کے بعض مضامین کو شوق سے پڑھیں گے، مثلاً رؤف پاریکھ کا مضمون، جس میں انھوں نے ’’اُردو کی چند نادر و کم یاب خصوصی لغات کا تعارف‘‘ کرایا ہے، یا انیس نعیم کا مضمون جس میں انھوں نے ’مغربی بنگال میں اُردو کے ایک اہم مرکز: مرشدآباد‘‘ کے شعرا و ادبا کی کاوشوں کی جھلک دکھائی ہے، یا میرا جی کی محبت میں ڈوبا ہوا طارق حبیب کا مضمون۔ اسی طرح عامر رشید نے دیوان زادہ کے مختلف نسخوں کے مطالعے میں خاص دیدہ ریزی کی ہے۔ لسانی تحقیق پر ظفراحمد اور رشید حسن خاں کے تدوینی امتیازات پر محمد توقیراحمد نے اختصار اور سلیقے سے بات کی ہے۔ ابرار عبدالسلام نے مومن کے حالات میں پہلا مضمون، افتخار شفیع نے مولانا حالی کا ایک غیرمطبوعہ مضمون (اس کے عنوان میں ’ایک نادر اور‘ کے الفاظ زائد ہیں) اور شفیع انجم نے ایک کم یاب مثنوی یوسف زلیخا کا تعارف کرایا ہے۔ ارشد محمود ناشاد نے گارسین دتاسی کی تاریخ ادبیات اُردو (مرتبہ: معین الدین عقیل) اور ظفر حسین ظفر نے رشیدحسن خاں کے خطوط دوم (مرتبہ: ٹی آر رینا) کا تنقیدی تجزیہ کیا ہے۔

رُموزِ اوقاف اور اِملا وغیرہ کے سلسلے میں انگریزی حصے میں تو معروف و مسلّمہ اصولوں کا خیال رکھا گیا ہے، مگر اُردو حصے میں ایسا نہیں، مثلاً انگریزی کتابوں کے نام کہیں سیدھے (نارمل) اور کہیں ترچھے (italics)، مضامین کے خلاصوں اور اصولِ اَمالہ میں بھی دوعملی___ زیادہ اُلجھن اقتباسات میں ہوتی ہے۔ یہ ایک بالکل نیا اسلوب ہے۔ بعض اوقات اقتباس کے آغاز و انجام کا  پتا ہی نہیں چلتا۔ مجلے نے پہلے ہی شمارے (جنوری-جون ۲۰۱۵ئ) میں اپنا ایک تشخص اور معیار قائم کرلیا ہے، امید ہے آیندہ اور بہتر ہوگا۔ (رفیع الدین ہاشمی)


Midnight Tears [نالۂ نیم شب]، مرتبہ: خرم مراد۔ناشر: منشورات، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۲۵۲۲۱۱-۰۴۲۔صفحات:۲۰۔ قیمت: ۴۵ روپے

نالۂ نیم شب ۲۱ دعائوں کا ایسا مجموعہ ہے جو تعلق باللہ استوار کرنے اور نشوونما دینے میں بڑا مؤثر ہے۔ عمرہ اور حج پر جانے والوں کے مطابق خانہ کعبہ کے سامنے بیٹھ کر یہ دعائیں کرنے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ ان کی تاثیر ناقابلِ بیان ہے۔ رات کی تنہائی میں اپنے رب سے یہ مناجات کریں اور آنکھیں نم نہ ہوں ممکن نہیں۔اُردو نہ جاننے والوں کے لیے بنت ِنور اور بنت ِ حنیف نے انگریزی ترجمہ کرکے یہ ضرورت پوری کی ہے۔ تاہم ابوسلیمان صاحب نے ترجمے پر نظرثانی کر کے اور زیادہ بہتر بنادیا ہے۔(مسلم سجاد)


تعارف کتب

o  ہفت روزہ نداے خلافت ، (حُرمت سود نمبر)، مدیر: ایوب بیگ مرزا۔ پتا: ۳۶-کے، ماڈل ٹائون، لاہور۔ فون: ۳۵۸۶۹۵۰۱-۰۴۲۔ صفحات: ۲۷۔ قیمت: ۱۲ روپے۔[انسدادِ سود کے ضمن میں اس خصوصی اشاعت کا اداراتی مضمون ’ڈوب مرنے کا مقام‘ حافظ عاکف سعید کے قلم سے اس اہم فریضے سے غفلت پر احساسِ ندامت کو اُجاگر کرتا ہے۔ lاسلامی بنک کاری: کتنی اسلامی؟ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی lپاکستان میں انسدادِ سود کی کوششیں: ایک جائزہ lمعیشت پر سود کے اثرات، محمد عمرعباسی l  Allah's War، محمد فہیم، مسئلے کے مختلف پہلوئوں کو اُجاگر کرتے اور مختلف تقاضوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔]

o  فحاشی کا سیلاب اور اس کا سدباب ، محمد نعمان فاروقی۔ ناشر: مسلم پبلی کیشنز، ۲۵-ہادیہ حلیمہ سینٹر،    غزنی سٹریٹ، اُردو بازار،لاہور۔ فون: ۳۷۳۱۰۰۲۲-۰۴۲۔صفحات:۴۸۔ قیمت:۵۰ روپے۔[۴۸صفحے کے چھوٹے سائز کے اس مختصر کتابچے میں اتنے وسیع موضوع کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کیا گیا ہے جو نصف قیمت پر دستیاب ہے۔ جو اس کاروبار میں کسی طرح شریک ہیں انھیں ضرور ڈاک سے بھیج دیجیے۔]