کتاب نما


MUHAMMAD, The Prophet of Islam ] محمدؐ، پیغمبراسلام[‘ ڈاکٹر خالد علوی۔ ناشر: دعوہ اکیڈمی‘ انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی‘ اسلام آباد۔ بہ اشتراک: انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ دعوہ‘ برمنگھم۔ صفحات: ۳۳۶۔ قیمت: ۲۰۰ روپے‘ مجلد: ۲۵۰ روپے۔

ڈاکٹر خالد علوی کی شخصیت علمی حلقوں میں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ علومِ اسلامیہ کی تعلیم و تدریس اور تصنیف و تحقیق کے میدان میں اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک اعلیٰ مقام عنایت فرمایا ہے۔ خاص طور پر سیرت و حدیث کے موضوعات پر ان کی متعدد تصانیف وقیع علمی سرمایہ ہیں۔ قبل ازیں سیرت نبویؐ کے موضوع پر ان کی ایک عمدہ اور منفرد کتاب انسان کامل بین الاقوامی شہرت حاصل کرچکی ہے۔ جس کے لیے‘ ڈاکٹر خالد علوی کے بقول‘ انھوں نے سید سلیمان ندویؒ کی خطبات مدراسسے تحریک حاصل کی تھی۔

زیرنظرکتاب میں انسان کامل کی طرح خیرالبشرؐ کے اوصافِ حمیدہ کو عنوان بنانے کے بجاے‘ روایتی انداز میں سیرت نبویؐ کو تاریخی طور پر بیان کیا گیا ہے۔ مصنف نے قبل از اسلام حالات سے لے کر نبویؐ مشن کی تکمیل کو نو ابواب میں تقسیم کر کے ترتیب زمانی کے ساتھ تحقیقی انداز میں مرتب کیا ہے۔ تبصرے اور حاشیہ آرائی کے بغیر واقعاتِ سیرت سادہ انداز میں بیان ہوئے ہیں۔ عربی عبارات کے اصل متن کے ساتھ ان کا آسان انگریزی ترجمہ دیا گیا ہے۔ تحقیقی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے فٹ نوٹ پاورقی حوالوں کے علاوہ آخر میں مصادر و مراجع کی فہرست اور اعلام و اصطلاحات کا اشاریہ بھی بنایا گیا ہے۔

مستند حوالوں سے مزین یہ محققانہ کاوش اگرچہ سیرت نبویؐ کا انگریزی زبان میں ایک سادہ بیان ہے‘لیکن حیات طیبہؐ کے حوالے سے دورِحاضر میں جدید ذہن کے شبہات کے ازالے کے لیے غیر جانب دارانہ تحقیق کی ایک عمدہ مثال ہے۔ خاص طور پر انگریزی دان طبقے کے لیے سیرت جیسے وسیع موضوع پر مناسب سائز میں ایک نامور محقق کے قلم سے مستند کتاب منظرعام پر آنا یقینا ایک اہم بات ہے۔ کتاب کا اندازِ تحریر علما‘ محققین اور عام قارئین‘ حتیٰ کہ انگریزی اسکولوں کے طلبہ و طالبات کے لیے بھی یکساں مفید ہے۔خاص طورپر مقابلے کے اعلیٰ امتحانوں کے امیدواروں کے لیے یہ کتاب کورس میں شامل کیے جانے کے قابل ہے۔ پیش لفظ میں ڈاکٹر ایس ایم زمان نے کتاب کے علمی و تحقیقی مقام کے پیش نظر اسے دورِحاضرکے لیے اہم اور مفید قرار دیا ہے۔ کتاب کی اہمیت و افادیت اور اعلیٰ علمی پاے کی بدولت سال ہذا کی قومی سیرت کانفرنس میں یہ کتاب پاکستان بھر میں اول انعام اور صدارتی ایوارڈ کی مستحق قرار پائی ہے۔

کتاب کے اندازِ تحریر‘ ابواب کی تعداد‘ عنوانات اور بعض الفاظ تک کو پڑھتے ہوئے پروفیسر عبدالحمید صدیقی کی کتاب The Life of Muhammadذہن میں آجاتی ہے کہ دونوں کتابوں کے عنوانات و مشتملات میں خاصی مشابہت پائی جاتی ہے۔

سیرت طیبہؐ کے موضوع پر وسیع ذخیرئہ کتب میں یہ کتاب ایک عمدہ اور قابلِ قدر اضافہ ہے۔ راقم الحروف کی رائے میں انسان کاملکے انگریزی ترجمے کی ضرورت باقی ہے۔ امید ہے کہ ڈاکٹرصاحب موصوف اس کام کا آغاز کرچکے ہوں گے۔(محمد حمّاد لکھوی)


خلق خیر الخلائقؐ، طالب الہاشمی۔ ناشر: طٰہٰ پبلی کیشنز‘ اُردو بازار‘لاہور۔صفحات: ۴۷۲۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

طالب ہاشمی صاحب کی زیرنظر کتاب سیرتؐ طیبہ پر فرامینِ نبویؐ اور اسلامی تاریخ کے برسوں کے گہرے مطالعے اور متعلقہ موضوعات پر اُن کی دسترس کی آئینہ دار ہے۔

کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے ۔ حصہ اول (ص ۳۳-۳۳۸) میں چھوٹے بڑے ۶۰عنوانات (صدق‘ دیانت و امانت‘ ایثار‘ عفو و درگزر‘ مساوات‘ طبقۂ اناس کے محسنِ اعظم‘ میانہ روی‘ صبرواستقامت‘ اولاد سے محبت‘ تعزیت‘ چھینک اور جمائی وغیرہ) کے تحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و محاسنِ اخلاق کی جھلکیاں پیش کی گئی ہیں۔’’جھلکیاں‘‘ اس لیے کہ بقول مصنف: ’’حضوؐر کی ذاتِ گرامی تمام کمالات و صفات کی جامع ہے اور ہماری قوتِ تحریر محدود ہے جو آپؐ کے اخلاقِ عالیہ کے کسی بھی پہلو کو کماحقہٗ احاطۂ تحریر میں لانے سے قاصر ہے‘‘ (ص ۲۹)۔ حصہ دوم میں اچھے اور بُرے اخلاق کے مختلف پہلوئوں (فضائل: سلام کا رواج‘ مہمان نوازی‘ شکرگزاری‘ انکسار و تواضع‘ خوش کلامی‘ عیب پوشی وغیرہ--- اور رذائل: بدزبانی‘ بُغض و کینہ‘ غیبت‘ حسد‘ خیانت‘ بخل‘ چغل خوری وغیرہ) پر رسول اکرمؐ کے ارشادات بصورتِ احادیث نبویؐ جمع کیے گئے ہیں۔ اس حصے میں احادیث کے متن پر اہتمام کے ساتھ اعراب بھی دیے گئے ہیں اور ہر حدیث کا حوالہ بھی درج ہے۔ کہیں کہیں قرآنی احکام سے بھی تائید لی گئی ہے۔

مصنف ایک تجربہ کار اور کُہنہ مشق ادیب بھی ہیں اس لیے اُن کا اسلوب سادہ ہونے کے باوجود‘ رواں اور ادبی خوبیوں کا حامل ہے۔ کہیں کہیں اردو اور فارسی کے اشعار سے بھی استشہاد کیا گیا ہے۔ کتابت میں اسماء و اعلام کی صحت اور اعراب کا اہتمام قابلِ داد ہے۔ کتاب کا تعارف ڈاکٹر عبدالغنی فاروق کے قلم سے ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


The Secular Threat to Pakistan's Security ] پاکستان کی سالمیت کے خلاف سیکولر خطرہ[ ‘طارق جان۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘ تقسیم کنندہ: کتاب سرائے‘ الحمدمارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اردو بازار‘ لاہور۔ مع اشاریہ‘ صفحات: ۲۵۲۔ قیمت: درج نہیں۔

پاکستان کے منظر کو دیکھیں اور خصوصاً جنرل پرویز مشرف کے فوجی عہدِحکمرانی میں مخصوص عناصر کی کھلی اور چھپی یلغار کا تجزیہ کریں تو سیکولر عناصر کے ہاتھوں تیار کردہ اس طرح کی  تصویر ابھرتی ہے: ’’پاکستان کا نام منافرت کا مظہر ہے‘ یہ ایک ناکام ریاست ہے۔ مسلم تشخص‘ ازمنہ وسطیٰ کی باتیں ہیں۔ پاکستان کی تاریخ نئے سرے سے لکھی جانی چاہیے جس کا ہدف یہ ہو کہ ہم ہندستانی ہیں۔ پاکستان سے کشمیر کا الحاق سودمند نہ ہوگا‘‘ (ص ۲۰)۔ اسی طرح وطن عزیز کے وجود پر حملہ کرنے والوں میں حکومت کے بہت سے کارندے اور ریاست کے سیاہ وسفید پر قابض من موجی بھی اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ پاکستان کے انگریزی ذرائع ابلاغ تو پاکستان کے تشخص‘ وجود اور تصور پر حملہ آوروں کی محفوظ ترین کمین گاہیں ہیں۔ یہی عناصر ہماری قومی پالیسی سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ خرد افروزی کے نام پر قائم کردہ اڈوں‘ سیاست کی وادیوں اور صحافت کے میدانوں میں سیکولر عنصر اور ذاتی ترقی پسندی کے مرض میں مبتلا یہ گروہ‘ بلاجھجک فکری تخریب کاری میں مصروف ہے۔ اس یک طرفہ یلغار کا جواب دینے کے لیے انگریزی پریس میں شاذونادر ہی کوئی تحریر پڑھنے کو ملتی ہے۔ اس صورت حال میں طارق جان کی زیرنظر کتاب ہوا کا ایک خوش گوار جھونکا ہے۔

اظہاروبیان کے سلیقے‘ تنقید و تجزیے کی ثقاہت‘ استدلال کی تروتازگی اور جواب دینے میں شایستگی کو طارق جان نے زیرتبصرہ کتاب میں ہم رکاب کر دیا ہے۔ یہ مباحث درحقیقت  سیکولر گروہوں کی ہر للکار کا شافی و کافی جواب اور ۱۴ ابواب میں تمام قابلِ ذکر کٹ حجتیوں کا پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے‘ مثلاً: کیا قائداعظم سیکولر قوتوں کے آلہ کار تھے؟ قانونِ توہینِ رسالت ؐاور حدود قوانین‘ این جی اوز کے پس پردہ شرانگیزی‘ خارجہ پالیسی کے اُفق‘ سی ٹی بی ٹی کا مسئلہ‘   پاک بھارت تعلقات یا گھٹنے ٹیکنے کا راستہ‘ کشمیر دوراہے پر‘ اقوام متحدہ کا خونیں کردار وغیرہ--- ان موضوعات پر مضبوط استدلال کے ساتھ عام فہم مگر شُستہ زبان میں اظہار خیال کیا گیا ہے‘ جس میں علم کی وسعت‘ ایمان کی خوشبو اور حب الوطنی کا درد اور تڑپ بڑی آسانی سے دیکھی جاسکتی ہے۔

یہ مباحث اہلِ سیاست و صحافت‘ اہل سفارت و حکومت اور معلم و متعلم‘ سبھی کے لیے سُرمۂ بصیرت ہیں۔ پاکستان کے ممتاز دانش ور جناب نسیم انور بیگ کا تجزیاتی تعارف‘ کتاب کے مصنف کے لیے اعزاز کا درجہ رکھتا ہے۔ (سلیم منصور خالد)


شاہکار ، اسلامی انسائیکلوپیڈیا ‘ جلد اول‘ جلد دوم‘ سید قاسم محمود۔ ناشر: الفیصل ناشران و تاجرانِ کتب‘ غزنی سٹریٹ‘ اردو بازار‘ لاہور۔ بڑے سائز کے کل ۲۴۰۰ صفحات۔ قیمت: ۲۴۰۰ روپے۔

مغرب میں ادارے کام کرتے ہیں‘ اور ہمارے ہاں فرد اداروں کا کام کرتا ہے۔ اس کی ایک مثال سید قاسم محمود ہیں۔ انسائیکلوپیڈیا جس میں سیکڑوں لکھنے والے اپنے اپنے میدان کے حوالے سے لکھتے ہیں‘ وہ بھی انھوں نے تن تنہا ہی لکھ ڈالا اور ساتھ ہی سیرت انسائیکلوپیڈیا اور قرآن انسائیکلوپیڈیا کی خوش خبری بھی دی ہے۔

یہ ۱۹۸۳ء میں پہلی دفعہ شائع ہوا۔ چھٹا ایڈیشن مشینی کتابت پر کچھ اضافوں کے ساتھ شائع کیا گیا‘ اب یہ آٹھواں ایڈیشن خاصے اضافوں کے ساتھ دو جلدوں میں شائع کیا گیا ہے۔ اس کی خصوصیات میں ۵۰ صفحات کا اسلامی اٹلس ہے جس میں صحاح ستہ کے عظیم محدثین کے اسفار بھی دکھائے گئے ہیں۔ مزید ۱۰۰ صفحات میں مقدس مقامات‘ خطاطی اور پینٹنگز کی تصاویر دی گئی ہیں۔ اشاریہ بھی پہلی دفعہ شامل کیا گیا ہے۔

باوجود اتنا ضخیم ہونے کے‘ اسے مختصرہی کہا جا سکتا ہے۔ اس لیے کہ اتنی طویل‘ مالا مال تاریخ کے واقعات‘ شخصیات‘ مقامات اور ایمانیات‘ عبادات‘ سیرت اور فقہ سے متعلق موضوعات اگر سیرحاصل انداز سے لکھے جاتے تو دس بارہ جلدیں تیار ہو جاتیں۔ اعداد و شمار اور حالات حسب حال شامل کر لیے گئے ہیں۔ چار ہزار موضوعات کو ڈھائی ہزار صفحات میں سمو دیا گیا ہے۔ ضروری معلومات اور تعارف فراہم ہو جاتا ہے۔ جمیل احمد رانا صاحب نے ’’انتہائی باریک بینی اور دقّتِ نظر سے پورے انسائیکلوپیڈیا کا لفظ بہ لفظ مطالعہ کر کے متن اور پروف کی اغلاط کی نشان دہی کی‘‘، اس پر وہ تبریک کے مستحق ہیں۔

یہ کیسے ہو کہ یہ انسائیکلوپیڈیا ملک کے ہر تعلیمی ادارے کی لائبریری میں اور ہر پڑھنے لکھنے والے فرد کی میز پر پہنچ جائے؟ شاید الفیصل یہ کام کر لے۔(مسلم سجاد)


ڈاکٹرمحمدحمیداللہؒ، مرتب: محمد راشد شیخ۔ ناشر: المیزان پبلشرز‘ ۲۳۴- المعصوم ٹائون‘ گلی نمبر۷‘ ڈاک خانہ فوارہ چوک‘ فیصل آباد۔ صفحات: ۴۹۶۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

محمد راشد شیخ نے عقیدت و محبت کے جذبے کے ساتھ زیرنظرکتاب ترتیب دی ہے۔ کتاب میں ڈاکٹرمحمدحمیداللہ کے خاندانی حالات‘ علمی پس منظر‘ تعلیمی و تدریسی مراحل‘ تحقیق و تصنیف‘ پیرس میں علمی و دعوتی سرگرمیوں‘ پاکستان و ترکی میں علمی سرگرمیوں‘ اخلاق و کردار‘ علمی انہماک‘ فقرواستغنا‘ غرض موصوف کے مختلف شخصی و علمی پہلوئوں سے اعتنا کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر کتاب کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: احوالِ ذاتی‘ آثارِ علمیہ‘ خراجِ عقیدت (درحین حیات)‘ خراج عقیدت (بعد از وفات) اور مکتوبات شامل ہیں۔ ڈاکٹرحمیداللہ کا شجرئہ نسب اور آثارِ علمیہ خود مرتب کے قلم سے ہے‘ دیگر جن اہلِ علم نے خامہ فرسائی کی ہے ان میں ڈاکٹرحمیداللہ کے قریبی عزیز‘ معاصرین‘ شاگردان و فیض یافتگان کے علاوہ بعض قلم کار بھی شامل ہیں۔

مرتب نے اُردو‘ عربی‘ فارسی اور انگریزی زبان میں ڈاکٹرمحمدحمیداللہ کی کتب و مقالات کی تفصیل دی ہے۔ مگر جرمن‘ فرانسیسی اور ترکی زبانوں میں کتب و مقالات کا تذکرہ ناپید ہے۔ ڈاکٹرمحمدحمیداللہ نے اپنے ایک مکتوب میں متفرق طور پر ۹۵۰ مقالات اور ۱۷۱ کتب کا تذکرہ کیا ہے (ص ۴۰۷)۔ اس علمی ذخیرے کی تلاش و اشاعت بھی اہل علم کی ذمہ داری ہے۔ کتاب میں شامل متعدد مضامین مطبوعہ ہیں۔

خراجِ عقیدت (درحین حیات) میں جن معاصرین نے قلم اٹھایا ہے ان میں ڈاکٹر سیدرضوان علی ندوی‘ حکیم محمدسعید‘ شاہ بلیغ الدین کا ہر مضمون ڈاکٹرحمیداللہ کی شخصیت اور علمی پہلو کی نقاب کشائی کرتا ہے۔ شیخ حیدرایڈووکیٹ نے بطورِ استاد آپ کا رویہ‘ طریقہ تدریس‘ طلبہ سے مشفقانہ سلوک جیسے پہلوئوں پر قلم اٹھا کر بتایا ہے کہ وہ اپنے طلبہ میں کس طرح علمی لگن اور تحقیق کا ذوق پیدا کرتے تھے۔ آپ کی پوتی محترمہ سدیدہ عطاء اللہ نے ڈاکٹر حمیداللہ کے آخری لمحات کی تصویرکشی کی ہے۔ اسرائیل احمد مینائی نے جامعہ عثمانیہ میں گزرے لمحات کا تذکرہ کیا ہے۔ ڈاکٹر احمد عبدالقدیر نے پیرس میں آپ کی بودوباش پر روشنی ڈالی ہے۔ ڈاکٹر محموداحمد غازی اور مظہرممتاز قریشی نے آپ کے علمی و تصنیفی کارناموں کا جامع تذکرہ پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر حمیداللہ کی علمی سرگرمیوں اور ان کی وفات پر ترکی پریس نے جو کچھ لکھا‘ ڈاکٹر محمد صابر‘ احسان اوغلو اور ڈاکٹر نثار احمد اسرار نے اپنے مضامین میں اس کا نہایت عمدہ جائزہ پیش کیا ہے۔

زیرنظر کتاب میں مرحوم کے ۱۶۰ خطوط بھی شامل ہیں۔ بیش تر خطوط مطبوعہ ہیں لیکن بعض پہلی مرتبہ منصہ شہود پر آئے ہیں۔ کتاب میں شامل زیادہ تر مضامین ملک کے رسائل و جرائد میں طبع ہوچکے ہیں جن کا حوالہ مرتب نے دیا ہے‘ تاہم بعض مضامین فاضل مرتب نے خصوصی طور پر محنت و کاوش سے تیار کروائے ہیں۔ مضامین زیادہ تر تاثراتی نوعیت کے ہیں جن میں یکسانیت و تکرار فطری بات ہے۔ کہیں کہیں معلومات میں سطحیت بھی دَر آئی ہے۔

بہرحال یہ کتاب ڈاکٹرمحمدحمیداللہ کے مطالعات میں ایک اچھا اضافہ ہے اور فاضل مرتب کی محنت و کاوش لائق تحسین ہے۔ سرورق سادہ مگر پُروقار ہے۔ (ڈاکٹرمحمد عبداللّٰہ)


سفر اندر سفر‘ ابوالامتیاز ع س مسلم۔ ناشر: القمر انٹرپرائزز‘ اردو بازار‘ لاہور۔ صفحات:۲۱۰۔ قیمت: ۲۴۰ روپے۔

ہزاروں لاکھوں لوگ سفر کرتے ہیں۔ سیاحت کے باقاعدہ محکمے وجود میں آچکے ہیں مگر مسافروں میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے مشاہدات و تجربات کو ایک نکھری ہوئی صورت میں لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ ع س مسلم کا شمار ایسے تخلیق کاروں میں ہوتا ہے جو مشاہدے‘ احساس‘ وجدان اور جذبات کی آمیزش سے اپنے تجربات کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

عام طور پر سفر نامہ نگارفرضی قصے کہانیوں اور خودساختہ افسانوں کے ذریعے قاری کو مسحور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ع س مسلم کے سفرنامے حقیقت نگاری کا نمونہ ہیں۔

زیرنظر کتاب ان کا تیسرا سفرنامہ ہے جس میں انھوں نے مختلف اوقات میںناروے‘ فِن لینڈ‘پیرس‘ ارضِ روما‘ آسٹریا‘ سوئٹزرلینڈ اور سراندیپ کے اسفار کی روداد بیان کی ہے۔ کسی علاقے کا نام سن کر عام طور پر اس کی تاریخ‘ طرز رہن سہن‘ تہذیب و معاشرت اور وہاں کے لوگوں کے مجموعی رویے‘ میلانات یا رجحانات کے متعلق جو سوالات اٹھتے ہیں‘ اس کتاب میں ان کے جوابات ملتے ہیں۔ ایک جگہ انھوں نے لفظ Bohemianکی تاریخ بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ: یہ شاہ بوہیمیا (جو صلیبی عساکر کا سپہ سالار تھا اورHolly Roman Emperor کے نام سے جانا جاتا تھا) کے نام سے مشتق ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف موصوف لغت و لفظ شناسی کا گہرا شعور رکھتے ہیں۔ ان کی تحریر جزئیات نگاری اور منظرنگاری سے بھی مزین ہے۔  خوب صورت تشبیہات واستعارات کا برمحل استعمال کرتے ہیں مثلاً لکھتے ہیں: ہر طرف چاندی کا فرش بچھا ہوا تھا جیسے سرما کے ساون میں دھیمی دھیمی برفانی پھوار پڑ رہی ہو۔ آسمان سے رقائق برف دھرتی کے آنچل میں خراماں خراماں یوں اتر رہے تھے جیسے آسمان پر فرشتے نقرئی چادر چھٹک رہے ہیں۔ مطالعے کے دوران میں ان کا حُسنِ بیان قاری کو مسحور کیے رکھتا ہے۔ یہ سفرنامہ بہت معلومات افزا اور مصنف کی تعمق نظری کا منہ بولتا ثبوت ہے اور مذکورہ علاقوں کے متعلق معلومات کا کوئی بھی پہلو تشنہ نہیں رہا۔

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے اپنے مفصل دیباچے میں ’سفر اندر سفر‘ کی خوبیوں کو اجاگر کیا ہے۔ قارئین اس کتاب کو دل چسپ پائیں گے۔ (قاسم محمود وینس)


سجدہ ہر ہر گام کیا‘ حفیظ الرحمن خاں۔ ناشر: بک ہوم‘ مزنگ روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۱۵۲۔ قیمت: درج نہیں۔

سجدہ ہر ہرگام کیا حج و زیاراتِ مقدسہ کا ایک خوب صورت اور محبت انگیز سفرنامہ ہے۔ اس موضوع پر اُردو زبان میں بے شمار سفرنامے لکھے گئے ہیں اور اب تک لکھے    جا رہے ہیں۔ ایک جیسے مقامات‘ ایک سا طریقۂ عبادت اور عقیدت و محبت کے اظہار میں یکسانیت کے باوجود‘ قاری کے لیے قندِمکرر کی چاشنی حیرت انگیز ہے۔

حرمین کے سفرنامے عام طور پر معلوماتی ہوتے ہیں یا قلبی واردات اور کیفیات کے تاثرات کے بیان سے مزین‘ کچھ ایسے بھی جن میں داستانِ شوق میں ہر دو پہلو موجود ہیں۔ زیرنظر مختصر سفرنامہ ایسا ہی ہے۔ حفیظ صاحب کا اسلوب جذبے کی بے ساختگی اور شعروادب کی چاشنی کے حسین امتزاج سے عبارت ہے۔ ان کی آنکھ ظاہروباطن دونوں رخوں پر کھلی ہے اور داخلی کیفیات خارجی واقعات کے پہلو بہ پہلو نظرآتی ہیں۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کی یہ راے    اس خوب صورت اور مختصر سفرنامے پر حرفِ آخر ہے۔

یہ سفرنامہ عمدہ گٹ اَپ کے ساتھ بک ہوم لاہور نے شائع کیا ہے۔ (عبداللّٰہ ہاشمی)


Tazkiyah, The Islamic Path of Self Development (مجموعہ مضامین) ادارت: عبدالرشید صدیقی۔ناشر: اسلامک فائونڈیشن‘ لسٹر۔ صفحات: ۲۲۰۔ قیمت: درج نہیں۔

تزکیۂ نفس کے اہم موضوع پر یہ حسین کتاب دل کو لبھانے والی ہے۔ ۵ مقالات کا یہ مجموعہ انگریزی میں تزکیۂ نفس جیسے موضوع پر غالباً اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے‘ جس میں قدیم و جدید تصورات اور موجودہ زمانے کے تقاضوں کے حوالوں سے سب ہی نکات زیربحث آگئے ہیں۔ سید مودودی‘ محمد فاروق خان‘ عبدالرشید صدیقی‘ خرم مراد اور مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنے اپنے انداز سے موضوع کے مختلف پہلو بیان کیے ہیں۔ (م - س)


فقہی مسلک کی حقیقت‘ مولانا ابوزکی۔ ناشر:دارالعلم‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات:۲۳۶۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔

اس کتاب کے اہم مباحث یہ ہیں: تبع تابعین تک فقہ کی تاریخ‘ ائمہ اربع کا تعارف‘ اجتہاد کی اہمیت‘ مجتہد کی شرائط‘ مسئلہ تقلید‘ اندھی تقلید کے نقصانات کا تذکرہ شامل ہے۔ ائمہ اربعہ کے فقہی اختلافات‘ فقہی مسائل کا حل کیسے؟

یہ کتاب مسلمانوں کو فقہی اختلافات کے ضمن میں شدت پسندی سے روکنے کی پُرخلوص کوشش ہے کیونکہ ان اختلافات میں بے اعتدالی نے مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے الانصاف لکھ کر یہ فریضہ سرانجام دیا تھا۔ پھر سیدابوالاعلیٰ مودودی نے بھی اس ضمن میں قابلِ قدر کام کیا ہے۔ یہی مشن مولانا ابو زکی کا بھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’فقہ حنفی ہی کو دیکھ لیجیے اس میں دو تہائی سے زیادہ فقہی مسائل میں امام ابوحنیفہؒ کے اقوال کی پیروی نہیں  کی جاتی بلکہ ان کے بجاے امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ (صاحبین) کے فتاویٰ پر عمل کیا جاتا ہے‘‘ (ص ۲۰۲)۔ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں: ’’مجتہدین نے اپنے اپنے امام کی ہر مسئلے میں پیروی اور پابندی کو ضروری نہیں سمجھا… تو کیا دوسروں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ بھی ان کے ائمہ سے اختلاف کرسکیں؟‘‘ (ص ۲۰۲)

فقہی مسائل کا حل کے ضمن میں مصنف کی دو تجاویز اہم ہیں‘ اول: مدارس میں صرف ایک ہی مسلک یا فقہ کی تعلیم نہ دی جائے بلکہ دوسرے مسالک اور فقہیں بھی پڑھائی جائیں… اس سے نہ صرف اختلافات کی شدت کم ہوگی بلکہ باہمی تعصب کی جگہ رواداری اور تحمل و برداشت کے جذبات پیدا ہوں گے۔ (ص ۲۲۱)

دوم: شخصیت پرستی کی حوصلہ شکنی کی جائے‘ ہمارے لیے تمام مسالک کے اکابر یکساں محترم ہیں۔ اپنے مسلک کی بے جا حمایت اور عقیدت میں غلو کرنا ہرگز صحیح نہیں ہے‘ اس لیے ضروری ہے کہ ملکی سطح پر علماے کرام کو مل کر ایک فقہ کونسل بنا لینی چاہیے جیسا کہ بھارت میں بنائی جاچکی ہے اور پھر اس کے اوپر بین الاقوامی فقہ کونسل تشکیل دینی چاہیے جس کا مرکز سعودی عرب کا کوئی شہر ہونا چاہیے(ص ۲۲)۔ ایسی تجاویز سے مذہبی منافرت کم ہو سکتی ہے۔ (ڈاکٹر محمد خلیل)


تعارف کتب

  • علم و ہدایت ‘ ڈاکٹر محمد ایوب خان۔ ناشر: ادارہ اشاعت قرآن‘ ۲۹۴ ایکسٹنشن‘ کیولری گرائونڈ‘ لاہور کینٹ۔ صفحات: ۱۸۴۔ قیمت: ۱۰ روپے۔] ۳۵ موضوعات: کائنات قرآن کی نظر میں‘ محلہ وار تنظیم‘ تکفیرمسلم‘ نپولین کا خط‘ اسلام میں حکومت کا تصور‘ اسلام کا نظریۂ جہاد‘ اسلام اور سیکولرازم‘ ضیاء الحق کی وفات‘ شرعی طلاق‘ نفاذِ شریعت‘ اسلامی نظام وغیرہ پر مصنف کے مختصر مضامین‘ آسان زبان میں مسائل کو سمجھانے کی کامیاب کوشش۔[
  • ماہنامہ بک ڈائجسٹ‘ مدیراعلیٰ: مظہرسلیم مجوکہ۔ناشر: بک مین‘ الشجربلڈنگ‘ نیلاگنبد‘ لاہور۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: ۴۰ روپے۔] روح الحدیث کے عنوان سے صحاح ستّہ سے احادیث نبویؐ کا موضوع وار انتخاب‘ مرتب: سید قاسم محمود۔ یہ ایک نیا ماہ نامہ ہے۔ ہر ماہ ایک مکمل کتاب پیش کرنے کا عزم ہے۔[
  • ماہنامہ نونہال‘ مدیر: مسعود احمد برکاتی۔ ناشر: دفتر ہمدرد نونہال‘ ناظم آباد‘ کراچی-۷۴۶۰۰۔ صفحات: ۲۲۴۔ قیمت (خاص شمارہ): ۲۵ روپے۔ ] سالانہ روایت کے مطابق‘ خاص شمارہ۔ بچوں کے لیے سبق آموز اور معلومات افزا کہانیاں‘ مضامین‘ نظمیں اور لطائف وغیرہ ۔[
  • اسلام کا سفیر‘ مرتب: محمد متین خالد۔ ناشر: علم و عرفان پبلشرز‘ ۳۴-اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۴۳۲۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔] سرورق: ’’قائداعظم کی اسلامی زندگی کے ایمان افروز حقائق و واقعات پر مبنی مستند دستاویز‘‘(مگر کیا ان کی کوئی ’غیر اسلامی زندگی‘ بھی تھی؟)۔ ۳۹ معروف اصحاب کے نئے پرانے مضامین کا مجموعہ۔ بقول دیباچہ نگار مجید نظامی صاحب: ’ایک منفرد‘ اہم اور قابلِ توجہ کتاب‘ قائدکی ایک عمدہ تصویر۔[
  • مادرِ ملّت مِس فاطمہ جناح‘ شازیہ کنول۔ ناشر: اظہار سنز‘ ۱۹- اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۶۳۔ قیمت: ۴۰ روپے(مجلد: ۸۰ روپے)۔] سوال و جواب کے ذریعے محترمہ فاطمہ جناح کی حیات و خدمات کا تذکرہ۔ چند منظومات بھی شامل ہیں۔ ’’سالِ مادرِ ملّت ۲۰۰۳ئ‘‘ کے حوالے سے شائع ہونے والی کوئز کتابوں میں یہ کتاب بہتر ہے۔[

حیات رسول امی ﷺ ‘ خالد مسعود۔ ناشر: دارالتذکیر‘ رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۵۹۷۔ قیمت: ۳۷۵ روپے۔

سیرت پاکؐ پر لکھنا ایک سعادت بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔ یہ موضوع جتنی رفعتوں سے آشنا کرتا ہے‘ اس سے کہیں زیادہ نزاکتوں کے پُل صراط پر چلنے کا تقاضا کرتا ہے۔ خالد مسعود نے اس پیش کش کا آغاز اس دعویٰ سے کیا ہے کہ: ’’] سیرت نگاروں نے سیرت نگاری میں[ اگر  کسی حیثیت کونظرانداز کیا ہے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اللہ کا رسول ہونے کی حیثیت ہے‘‘ (ص ۱۱)۔ جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ خود خالد مسعود نے کم از کم اس کتاب میں اسی کمی کو پورا کرنے کے لیے قلم اٹھایا ہے۔ ہرچند کہ کتاب کے مندرجات‘ موضوعات کی پیش کش‘ زبان و بیان کی سلاست نے اسے انفرادیت تو دی ہے‘ لیکن چند مباحث کے علاوہ‘ یہ کتاب بھی سیرت نگاری کی روایت ہی کا ایک قابلِ قدر تسلسل ہے۔ (کتاب پر مفصل تبصرہ دیکھیے: توقیراحمد ندوی‘ معارف‘ اعظم گڑھ‘ بھارت‘ مئی ۲۰۰۴ئ)

انفرادیت کی ایک وجہ سیرت پاکؐ کے حوالے سے صدیوں سے بیان کی جانے والی بعض معروف روایات کا درایت کی بنیاد پر استرداد ہے‘ جن میں خصوصاً حضرت عائشہؓ کی نکاح کے وقت عمر‘ حضرت عمرؓ کا قبولِ اسلام کا واقعہ‘ تدوین قرآن کی روایت اور بعض دیگر روایات شامل ہیں۔ یہ مباحث تحیرآمیز اور بعض پہلوئوں سے ادھورے دعوے ہونے کے باوجود تقاضا کرتے ہیں کہ اس اختلافِ فکر ونظرکا علمی سطح پر ہی جائزہ لینا چاہیے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ان روایات پر نقدوبحث کو کسی فتوے کی زد میں لاکر رد کر دیا جائے‘ تاہم اس کتاب کا یہ مرکزی پہلو نہیں ہے‘ بلکہ مرکزیت اس اسپرٹ کو حاصل ہے‘ جس کے تحت قاری‘ مطالعے کے دوران‘ محبت‘ جذب‘ تعقل اور والہانہ وابستگی سے دوچار ہوتا ہے۔

حیاتِ رسول امیؐ میں مستشرقین کی یاوہ گوئی کا مسکت اور مدلل جواب بھی خوب ہے لیکن غزوات رسولؐ کے ابواب تو اس کتاب کا جوہر ہیں۔ آج کل ہمارے گاندھی زدہ یا بش گزیدہ دانش ور سیرت کے باب میں جس فکری افلاس سے قلم کاری کر رہے ہیں ‘اس کا ایک ہدف ’میثاق مدینہ‘ بھی ہے۔ اس حوالے سے خالد مسعود لکھتے ہیں: ’’ہمارے اہلِ تحقیق نے اس بات پر بڑا زور دیا ہے کہ ’میثاقِ مدینہ‘ کے تحت مسلمان‘ یہود اور مشرکین‘ جو بھی وادیِ یثرب میں آباد تھے‘ وہ ایک اُمّت قرار دیے گئے‘ اور ان کو مذہبی تحفظ فراہم کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ معاہدے میں یہود کا نام قبیلوں کے تعین کے ساتھ آیا ہے‘ جب کہ مشرکین کا اس میں تذکرہ بھی نہیں ہوا۔ ] یہ[ اہلِ تحقیق بھول جاتے ہیں کہ رسولؐ اللہ کا کارِ رسالت ابھی پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچا تھا‘ نیز آپؐ لوگوں کے  غلط ادیان کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے مبعوث نہیں ہوئے تھے۔ ] ان نام نہاد دانش وروں کی[   یہ غلط فہمی ] صرف[ اس صورت میں رفع ہو ]سکتی[ ہے‘ جب یہ مانا جائے کہ میثاق مدینہ کوئی ابدی دستاویز نہیں تھی‘ بلکہ ذمہ داریوں کا وقتی تعین تھا‘‘ ۔(ص ۲۸۷)

اس صدقہ جاریہ کا فیض بلاشبہہ مولانا امین احسن اصلاحی رحمۃ اللہ علیہ کے نامۂ اعمال کا بھی حصہ بنے گا‘ جن کے تحقیقی نکات اور خرد افروز تفردات اس کتاب کا حصہ ہیں‘ اور جنھوں نے اپنے محبوب شاگرد کی ایسی تربیت کی کہ وہ ان نکات کو حسنِ ترتیب سے پیش کر سکے۔ اس کتاب کو خوب صورتی سے شائع کرنے پر ناشرین بھی مبارک کے مستحق ہیں۔ تاہم‘ آیندہ اشاعت میں اشاریے کا اضافہ اور حوالہ جات کا درست اندراج کرنا ضروری ہے۔ (سلیم منصور خالد)


مسلم دنیا ‘فیض احمد شہابی۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی‘ منصورہ‘ لاہور۔ صفحات: ۸۲۴۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

فاضل مرتب نے مختلف اردو‘ انگریزی اور عربی روزناموں‘ ہفت روزوں اور ماہناموں سے مسلم ممالک کے بارے میں ضروری معلومات جمع کی ہیں۔ یہ کام انتہائی محنت‘ جستجو اور   عرق ریزی سے کیا گیا ہے۔ اس سلسلے کی پہلی جلد ۱۹۹۰ء میں منظرعام پر آئی تھی۔ ۱۹۹۲ء اور ۱۹۹۷ء میں مزید دو جلدیں شائع ہوئیں ۔ تازہ جلد جنوری ۱۹۹۷ء سے دسمبر ۲۰۰۲ء تک کے حالات و واقعات پر مشتمل ہے۔

کتاب کے شروع میں مسلم ممالک کی آبادی اور غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کے تناسب آبادی کے اعداد و شمار کے علاوہ بعض مسلم ملکوں اور شہروں کے ناموں کے صحیح تلفظ و املا کی تصریح بھی کی گئی ہے۔

کتاب تین ابواب میں منقسم ہے۔ پہلے باب میں ۴۷ مسلم ممالک کے حالات و کوائف جمع کیے گئے ہیں۔ دوسرے باب (مسلم اقلیتیں) میں ایشیا‘افریقہ‘ یورپ اور شمالی و جنوبی امریکا سمیت ۳۲ غیر مسلم ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کے حالات و واقعات‘ درپیش مسائل‘ امکانات اور چیلنجوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ باب سوم (متفرقات) میں دنیا بھر میں منعقد ہونے والی اسلامی کانفرنسوں کا احوال‘ مختلف ممالک کے باہمی معاہدوں اور قدرتی آفات و حادثات کا ذکر کیا گیا ہے۔

اس کتاب کے حوالے سے یہ کہنا غلط نہیں کہ ادارہ معارف اسلامی انتہائی اہم کام انجام دے رہا ہے۔ لیکن دسمبر ۲۰۰۲ء تک کے کوائف کا احاطہ کرنے والی یہ کتاب تاخیر سے منظرعام پر آئی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ہر نئے سال کے ابتدائی ہفتوں یا مہینوں میں پچھلے سال کی ایئربک مارکیٹ میں آجایا کرے۔

کتاب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم ممالک بے پناہ قدرتی وسائل اور طرح طرح کی دیگر نعمتوں سے مالا مال ہیں مگر عسکری و افرادی قوت رکھنے کے باوجود‘ استعمار اور ان کے مسلط کردہ گماشتوں کے شکنجۂ استبداد میں کراہ رہے ہیں۔ اس کا ایک ہی سبب ہے کہ مسلمان ملکی معاملات میں دل چسپی لینے اور حکمرانوں کا احتساب کرنے کے بجاے ذاتی مفادات کی فصل کاٹنے اور لسانی‘ علاقائی اور مذہبی فرقہ پرستی میں مبتلا ہیں۔

بہرحال یہ کتاب معلومات کا ایک خزانہ ہے۔ اچھی طباعت‘ خوب صورت سرِورق اور جلد کے ساتھ قیمت انتہائی مناسب ہے۔ (عبدالجبار بھٹی)


دشت امکاں، ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر۔ ناشر: قرطاس‘ پوسٹ بکس ۸۴۵۳‘ کراچی یونی ورسٹی‘ کراچی۔صفحات: ۲۷۷۔ قیمت: ۲۵۰ روپے

پروفیسر ڈاکٹر نگار کی نصف درجن سے زائد کتب منصہ شہود پر آچکی ہیں جن میں شاعری اور افسانوں کے مجموعے بھی شامل ہیں لیکن ان کا اصل میدانِ تحقیق‘ اسلامی تاریخ خصوصاً پہلی صدی ہجری کی تاریخ ہے۔ سرزمینِ نجد وحجاز کے اس سفرنامے میں بھی تاریخی حقائق کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔

اردو ادب میں سفرنامہ ایک دل چسپ اور اہم تخلیقی صنفِ نثر کی حیثیت حاصل کر چکا ہے۔ مختلف ممالک کے سفرناموں کے ساتھ ساتھ‘ سرزمین حجاز کے سفرناموں میں بھی ایک تسلسل سے اضافہ ہو رہا ہے لیکن ان میں سے اکثر‘ مقاماتِ مقدسہ کی تفاصیل اور قلبی واردات وکیفیات اور تاثرات کے بیان پر مشتمل ہیں۔ یہ سفرنامہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ مصنفہ نے نجد و حجاز کے سفر بار بار کیے اور دیگر سفرناموں کا گہری نظر سے مطالعہ کیا اور تقابلی جائزے سے نجدوحجاز کی بدلتی ہوئی صورت حال کو نمایاں کیا ہے۔ تاریخی واقعات کی تحقیق میں بنیادی ماخذ کے طور پر قرآن پاک کو مدنظر رکھا ہے۔ اس کے بعد مستند تاریخی کتب سے مدد لی ہے۔

مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ دشتِ امکاں نجدوحجاز کے سفرناموں میں ایک منفرد اور عمدہ اضافہ ہے۔ کتاب میں تاریخی مقامات کی تصاویر بھی دی گئی ہیں۔ ان میں عبدالوہاب خان سلیم (جن کے پاس حجاز کے اردو سفرناموں کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے) کی مہیا کردہ نادر تصاویر بھی شامل ہیں۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)


تعلیم اور تہذیب و ثقافت کے رشتے ‘منیراحمد خلیلی۔ ناشر: ادارہ مطبوعات سلیمانی‘ غزنی سٹریٹ‘ اردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۷۶۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

زیرنظر کتاب حسب ذیل چھے مضامین پر مشتمل ہے: ا- انسان سازی یا انسانیت سوزی ۲- تعلیم یا تدریس ۳- تعلیم اور تہذیب کا تعلق مولانا مودودی کی نظر میں ۴- تباہی ہے اس قوم کے لیے جس سے اس کی زبان چھن گئی ۵- استاد کمرۂ جماعت میں ۶- تدریس اُردو۔

مصنف نے اکبر الٰہ آبادی‘ علامہ اقبال اور مولانا مودودی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ تینوں شخصیات نے تعلیم کو تہذیب کی حفاظت کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور ان کے نزدیک تعلیمی شعبے کی کوتاہی ثقافتی اور اخلاقی دولت کے زوال کا سبب بنتی ہے۔ بقول مولانا مودودیؒ: ’’عقل مند قومیں اپنی تہذیبی بقا کا ضامن تعلیم کے شعبے ہی کو سمجھتی ہیں۔ ان کی پالیسیوں کی بنیاد یہ ہوتی ہے کہ ایسا نظام تعلیم وضع اور نافذ کیا جائے جس سے ان کی تہذیبی روایات کے پنپنے کے امکانات روشن ہو سکیں‘‘۔

مصنف نے تعلیم کا رشتہ تہذیب و ثقافت سے استوار کرنے کی کوشش کی ہے۔مصنف کا اپنا تعلق بھی تدریس کے شعبے ہی سے ہے‘ اس لیے وہ تعلیم اور تہذیب و ثقافت کے نشیب و فراز سے بخوبی واقف اور جانتے ہیں کہ کسی قوم کی تہذیب صفحۂ ہستی سے ناپید ہوجاتی ہے تو یقینا وہ قوم ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتی ہے۔ مصنف کے نزدیک کسی قوم کی زبان کا بھی اس کی تہذیبی بقا سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ فرانس کے آنجہانی متراں نے ایک مرتبہ کسی کانفرنس میں اپنی زبان کے حوالے سے کہا کہ فرانس کی عظمت اس کی زبان سے قائم ہے۔

کسی ملک کے تعلیمی نظام کی کامیابی کا انحصار بڑی حد تک استاد کی شخصیت پر ہوتا ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہ ایک استاد میں تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے‘ اول: وہ اپنے اخلاق و کردار کے اعتبار سے اتنا بلند ہو کہ طلبا اسے اپنے لیے نمونہ تصور کر سکیں۔ دوم: اپنے پیشے کی اہمیت سے اچھی طرح آگاہ ہو۔ سوم: جو مضمون وہ پڑھانے جا رہا ہو‘ اس پر مکمل عبور رکھتا ہو۔

ہر مضمون کی اپنی جگہ اہمیت ہے۔ یہ کتاب اساتذہ کے لیے رہنما بن سکتی ہے۔ سرورق خوب صورت ‘ طباعت مناسب ہے اور املا کی غلطیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کاغذ کے اعتبار سے قیمت زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ (محمد رمضان راشد)


پاکستان میں ضلعی نظامِ حکومت اور الیکشن ۲۰۰۲ئ‘ رانا منیراحمدخان‘ شاہین اختر۔ ناشر: دارالشعور‘ ۳۲- میک لیگن  روڈ‘ چوک اے جی آفس‘ لاہور۔ صفحات: ۲۷۲۔ قیمت: ۱۸۰ روپے۔

کاروبارِ حکومت میں عوام الناس کی براہِ راست شرکت اور مقامی سطح پر مسائل کے جلد اور بہ سہولت حل کے لیے‘ فوجی حکومت نے ضلعی نظامِ حکومت متعارف کرایا۔ ۲۰۰۲ء میں ضلعی حکومتوں کے انتخابات میں مقامی قیادتوں کا انتخاب عمل میں آیا اور تحصیل اور ضلعی سطح پرمقامی حکومتوں نے کام کا آغاز کیا۔ بظاہر خیال یہ تھا کہ سرخ فائل کا شکار دفتری نظام‘ ایک نیا رُخ اختیار کر کے  بہتر صورت اختیار کرے گا۔

مصنفین کہتے ہیں کہ اس نظام کی خوبیاں بھی ہیں لیکن اس کی پیچیدگی اور طوالت نئے مسائل کو جنم دیتی ہے۔ مصنفین نے یونین کونسل‘ تحصیل کونسل اور ضلعی اسمبلی کے انتخاب کے طریق کار‘ اُن کے اختیارات اور اُن کی حدود و قیود کو واضح کیا ہے۔ علاوہ ازیں مسائل کے حل کے لیے جو طریقے ضلعی نظام میں استعمال کیے جاسکتے ہیں‘ اُن کی وضاحت بھی کی ہے۔

پاکستان میں ہونے والے گذشتہ انتخابات کا مختصر اور ۲۰۰۲ء کے انتخابات کا تفصیلی ذکر اور ریکارڈ اور ریفرنڈم ۲۰۰۲ء کا تذکرہ بھی کتاب میں شامل ہے۔ یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ     اس غریب ملک میں انتخابات میں جیتنے والے لوگ کس طرح پانی کی طرح روپیا بہاتے ہیں۔ ضلعی نظام کو سمجھنے کے لیے یہ ایک مفید اور معلومات افزا کتاب ہے۔ (محمدایوب منیر)


امام ابوحنیفہؒ: حیات‘ فکر اور خدمات‘ ترتیب و تدوین: محمد طاہر منصوری‘ عبدالحی ابڑو۔ ناشر: ادارہ تحقیقات اسلامی‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۲۸۲۔ قیمت: درج نہیں۔

نوآبادیاتی دور کے خاتمے پر اُمت مسلمہ ایک بار پھر اپنے ماضی کی روشن روایت اور دورحاضر کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسلامی معاشرے کی تشکیل و تعمیرمیں مصروف ہے۔ اس مرحلے پر دورِغلامی کے اثرات‘ جدید ٹکنالوجی کی وجہ سے دنیا کے سمٹ جانے‘ مغرب کی معاشی اور ابلاغی بالادستی کی وجہ سے درپیش عملی مسائل ہیں۔ ان میں شریعت کی رہنمائی معلوم کرنے کے لیے اسلاف کے کارناموں سے اکتسابِ نو ناگزیر ہے۔ ۵ تا۸ اکتوبر ۱۹۹۸ء امام ابوحنیفہؒ کی حیات‘ فکر اور خدمات پر اسلام آباد میں ادارہ تحقیقات اسلامی کی بین الاقوامی کانفرنس اس سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ زیرتبصرہ کتاب اس کانفرنس کے ۹منتخب مقالات اور ایک نہایت تاریخی معلومات سے پُر ’حرف اول‘ پر مشتمل ہے۔

اس وقت پاکستان‘ بھارت‘ بنگلہ دیش‘ ترکی‘مصر‘ شام‘ فلسطین‘ اُردن‘عراق‘ افغانستان‘ وسطی ایشیا‘ مشرقی یورپ اور کئی دوسرے ممالک میں مسلمانوں کی اکثریت حنفی المذاہب ہے۔ ماضی میں سلطنت مغلیہ اور سلطنت عثمانیہ کا سرکاری مذہب بھی حنفی فقہ تھا۔ اس فقہ کی مقبولیت کا راز شرعی فرائض میں رفع حرج و مشقت‘ تکلیف بقدر استطاعت اور سہولت و آسانی کے اصولوں کا لحاظ ہے جو دوسرے مسالک میں نہیں ملتا۔ اسی طرح استحسان کے حنفی اصول اسلامی قانون کو ترقی دینے اور معاشرے کی بدلتی ہوئی ضروریات اور تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ فاضل مقالہ نگاروں کی تحریروں سے یہ پہلو اجاگر ہوگئے ہیں۔

تاریخی و نظری لحاظ سے مقالات بہت خوب ہیں‘ لیکن ایک ایسے مقالے کی ضرورت باقی رہ گئی جس میں دورِحاضر کے بعض اہم متعین پانچ سات مسائل کے بارے میں فقہ حنفی کی رہنمائی پر بحث کی جاتی۔

ادارہ تحقیقات اسلامی نے اشاعت ِ کتب کے باب میں اعلیٰ معیار قائم کیا ہے‘ اس پر  وہ مبارک باد کا مستحق ہے۔ وسائل تو تمام سرکاری اداروں کو ملتے ہیں‘ لیکن ان کا بہترین اور دل و نظر کو خوش کر دینے والا مقصدی استعمال ہر کسی کے نصیب میں نہیں۔ (مسلم سجاد)


تذکرہ و سوانح حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ (ماہنامہ القاسم خصوصی نمبر) ‘ مرتب: مولانا عبدالقیوم حقانی۔ ناشر: جامعہ ابوہریرہ‘ خالق آباد نوشہرہ (صوبہ سرحد)۔ صفحات: ۴۵۱۔ قیمت: درج نہیں۔

۲۳ مضامین پر مشتمل یہ ایک اہم مجموعہ ہے۔ ایک ہی موضوع پر لکھے اور لکھوائے گئے مضامین میں عام طور پر تکرار کی صورت پیدا ہوجاتی ہے لیکن یہاں کوشش کی گئی ہے کہ سید سلیمان ندویؒ کے زندگی کے تمام گوشوں کے ساتھ ان کی شخصیت اور ان کی علمی و فکری دل چسپیوں کو بھی سامنے لایا جائے مگر تکرار محسوس نہ ہو۔ سید سلیمان سے جن لوگوں کا ارادت کا رشتہ رہا ‘ان پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ ڈاکٹر غلام محمد‘ ڈاکٹر نثاراحمد فاروقی اور محمدنعیم صدیقی ندوی کے مضامین مولاناؒ کی شخصیت کے مختلف زاویے اجاگر کرتے ہیں۔ ابوالحسن علی ندویؒ کا مضمون سید سلیمان ؒکی درس و تدریس سے دل چسپی اور علمی معاملات میں ان کے تحقیقی اندازِنظر‘نیز ان کی علمی تلاش و جستجو سے رغبت کے کئی پہلو سامنے لاتا ہے۔

سید سلیمانؒ سے روحانی و فکری تعلق کی بنا پر اکثر مضمون نگاروں کے ہاں عقیدت و احترام کا پہلو بطور خاص نمایاں ہے۔ اگر سلمان ندوی صاحب کا قلمی تعاون بھی شامل ہوتا تو اس مجموعے کی اہمیت میں گراں قدر اضافہ ہوجاتا۔ (محمدایوب لِلّٰہ)


تعارف کتب

  • علاماتِ قیامت کا بیان، مصنف: محمد اقبال کیانی۔ ناشر: حدیث پبلی کیشنز‘ ۲ شیش محل روڈ‘ لاہور۔ قیمت: ۹۰ روپے۔ صفحات: ۲۵۶۔] تین طرح کی علامات قیامت کی تفصیل: قیامت کے فتنے‘ علاماتِ صغریٰ‘ علامات کبریٰ‘ قرآن و حدیث (متن مع ترجمہ) کی روشنی میں ہر بات پورے حوالوں سے کی گئی ہے۔ [
  • خالد اسحاق‘ احباب کی نظر میں‘ مرتبین:ابوالامتیاز ع س مسلم نصرت مرزا۔ناشر: خالد اسحاق میموریل سوسائٹی‘ ۷۱۰ یونی شاپنگ سنٹر‘ صدر کراچی۔ صفحات: ۱۷۵۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔] معروف دانش ور اور وکیل خالد اسحاق (م: ۷ فروری ۲۰۰۴ئ) کے بارے میں ان کے احباب اور بعض معروف اہلِ قلم کے تاثراتی مضامین اور مرحوم سے چند مصاحبے۔ شخصیت کا معلومات افزا تعارف۔[
  • آخری صلیبی جنگ (حصہ چہارم) ‘مصنف: عبدالرشید ارشد۔ ناشر: النور ٹرسٹ (رجسٹرڈ) جوہر پریس بلڈنگ‘ جوہرآباد۔ صفحات: ۲۷۲۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔] عراق اور دیگر عالمی مسائل کے تناظر میں مصنف کے ۳۳مضامین کا مجموعہ۔ چند عنوانات: سب سے پہلے پاکستان‘ القاعدہ نیٹ ورک‘ صہیونی میڈیا اور پاکستانی سائنس دانوں کی تذلیل‘ یو این او‘ نادیدہ قوت کی لونڈی‘ friendly fireکا اگلا ٹارگٹ کون؟ وغیرہ۔ اسلامی فکروذہن رکھنے والے ایک صاحبِ قلم کا مفید مجموعہ۔[
  • سیرت کا پیغام، مرتب: ممتاز عمر۔ پتا: ٹی ۴۷۵‘ کورنگی ۲‘ کراچی۔ صفحات: ۶۴۔ قیمت: درج نہیں۔ ] سیرت پاکؐ پر مختلف اصحاب مفتی منیب الرحمن‘ ڈاکٹر محمد یونس حسنی‘ ڈاکٹر محمد سعید‘ قاری بشیراحمد‘ محمد وسیم اکبر شیخ‘ ظفرحجازی‘ خرم مراد‘ عذرا جعفری‘ سید مختار الحسن گوہر اور خود مؤلف کے مضامین کا مجموعہ۔[

الفرقان (سورۃ البقرہ)‘ ترتیب و تہذیب: شیخ عمرفاروق۔ ناشر: تدبرالقرآن ۱۵-بی‘ وحدت کالونی‘ لاہور۔ صفحات: ۷۰۴۔ قیمت: وقف للہ تعالیٰ۔

قرآن پاک کے ترجمے‘ تشریح‘ تفسیر اور توضیح کا سلسلہ دیگر زبانوں کی طرح اُردو میں بھی سیکڑوں برس سے جاری ہے۔ خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُراٰنَ وَعَلَّمَہٗ (تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور اسے سکھائے)۔ زیرنظر کتاب کے مرتب و مؤلف شیخ عمرفاروق صاحب نے بھی اسی جذبے کے تحت چند برس پہلے ہفت روزہ ایشیا میںتشریحِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا تھا جسے بعدازاں خوب صورت انداز میں طبع کرکے تقسیم کیا گیا۔ وہ جلد پارہ اول پر مشتمل تھی‘ زیرنظرجلد سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرہ کو محیط ہے۔

شیخ صاحب نے تفہیم و تشریح میں عربی اور اردو کی قدیم و جدید اور معروف تفسیروں‘ کتب ِ لغت اور عربی قواعد سے مدد لی ہے۔ ہرآیت کا ترجمہ‘ مختلف الفاظ کے معانی‘ افعال کی نوعیت‘ صیغے‘ مادہ اور اجزاے کلام کی وضاحت پھر مختلف مفسرین کی آرا بصورتِ اقتباسات‘ بعدازاں آیاتِ مبارکہ کی حکمت و بصیرت کو واضح کیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ مختلف نکات کی توضیح اور آیاتِ مبارکہ کے مطالب کا حالاتِ حاضرہ خصوصاً عالمِ اسلام اور پاکستان کے حالات سے ربط قائم کرکے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ قرآنی ہدایت سے روگردانی کا نتیجہ عبرت انگیز ہوتا ہے۔

شیخ عمرفاروق ایک گہرے دلی جذبے اور دردمندی کے ساتھ قرآنی دعوت اور پیغام کو عام لوگوں تک پہنچانے کی تدبیر میں لگے ہوئے ہیں۔پارہ اول کا ایڈیشن اُنھوں نے بطورِ تحفہ تقسیم کیا تھا اور زیرنظرجلد بھی بلامعاوضہ ہے جسے ان سے (بذریعہ ڈاک نہیں) دستی وصول کیا جاسکتا ہے۔ فون نمبر ۷۵۸۵۹۶۰-۰۴۲۔

کتابت ‘ طباعت اور اشاعت‘ ہر اعتبار سے حسین و جمیل اور معیاری۔ (رفیع الدین ہاشمی)


فہم القرآن‘ پروفیسر قلب بشیر خاور بٹ۔ ناشر: عظیم اکیڈمی‘ ۲۲-اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۴۹۔ قیمت: ۷۵ روپے۔

فہم القرآن اس لحاظ سے ایک منفرد کتاب ہے کہ اس میں روایتی عربی تدریس اور صرف ونحو سے ہٹ کر علامات کے ذریعے قرآن مجید کا ترجمہ سکھایا گیا ہے۔ مصنف کا دعویٰ ہے کہ یہ عطیۂ خداوندی ہے اور انھیں پہلی بار اس طریقے کو متعارف کروانے کا شرف حاصل ہوا ہے‘ کیسے؟۔ مصنف لکھتے ہیں: جنوری ۱۹۷۹ء کی ایک شام‘ امام سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی نظرعنایت نے فقیر کو مالا مال کر دیا جب انھوں نے فرمایا کہ اب آپ سائنس نہیں بلکہ دین پڑھیں گے۔ میں آپ کو سعودی عرب کی کسی اچھی یونی ورسٹی سے دین کی تعلیم دلوانا چاہتا ہوں… میں اس جواب کی تلاش میں رہا کہ آخر میرا ہی انتخاب کیوں؟ …آخرکار اللہ علیم وخبیر نے اپنی کتاب عظیم اور بقول امام مودودیؒکی ’شاہ کلید‘ کو سمجھانے کے لیے علامات کا علم عنایت فرما کر فقیر کی جھولی بھر دی۔(پیش لفظ)۔

مصنف کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ قرآن مجید کے ۹۸ فی صد الفاظ اردو میں مستعمل ہیں۔ صرف ۵ئ۱ فی صد الفاظ خالص عربی کے ہیں جن کے لیے لغت کی ضرورت پیش آتی ہے‘ جب کہ ۵ئ۰ فی صد الفاظ وہ ہیں جو بار بار دہرائے جاتے ہیں۔ صرف ۴۰ گھنٹے (یعنی ایک دن اور ۱۶ گھنٹے) کی مشق کے بعد ایک شخص خود قرآن مجید کا ترجمہ کر سکتا ہے اور اس کا مفہوم سمجھ سکتا ہے۔ صاحب ِ کتاب سعودی عرب کی چار مایہ ناز جامعات سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ۱۹۹۱ء سے ۴۰ روزہ فہم قرآن کورس کے ذریعے مرد و خواتین اور نوجوانوں کو قرآن کا فہم ایک مشن کے انداز میں پہنچا رہے ہیں۔

زیرتبصرہ کتاب اسی علامتی طریقے اور طریق تدریس پر مبنی ہے۔ بات کو واضح کرنے کے لیے کمپیوٹر کے استعمال سے جدید انداز میں تیر کے نشان اور اسکرین وغیرہ کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔ ایک باب ’’علامات‘ ایک نظر میں‘‘ تمام علامتوں کو جمع کیا گیا ہے اور مثالوں سے وضاحت کی گئی ہے تاکہ سمجھنے میں آسانی رہے۔ مزیدبرآں ان الفاظ کی فہرست کے ساتھ (جو بار بار دہرائے جاتے ہیں) آخر میں ان الفاظ کی فہرست بھی دی گئی ہے جن کا مادہ معلوم کرنے میں عموماً غلطی ہوجاتی ہے۔

خوب صورت سرورق اور سفید کاغذ پر مجموعی طور پر پیش کش عمدہ ہے‘ تاہم پروف ریڈنگ مزید توجہ چاہتی ہے۔ پیرابنانے کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ فونٹ کا استعمال بھی یکساں نہیں۔ قطع نظر اس پہلو کے فہم قرآن کے حوالے سے یہ منفرد کاوش نہایت قابلِ قدر ہے۔ (امجد عباسی)


۱-  Taking The Qur'an As a Guide‘صفحات: ۹۷۔

۲-Some Secrets of the Qur'an‘ صفحات: ۱۵۱۔

۳-Miracles of the Qur'an‘ صفحات:۱۰۰۔

۴- Signs of the Last Day‘ صفحات: ۱۳۶۔

۵-Why Darwinism is Incompatible with The Qur'an‘ صفحات:۱۳۶۔ مصنف: ہارون یحییٰ۔ ناشر: گلوبل پبلشنگ‘ استنبول‘ ترکی۔ ملنے کا پتا: پیراڈائز بک سنٹر‘ پی او بکس ۷۱۴۷‘ صدر ‘ کراچی۔ قیمتیں: درج نہیں۔

نظر کو اپنی گرفت میں لے لینی والی یہ انتہائی دل کش اور خوب صورت پانچ کتابیں ۴۸سالہ ترک مصنف ہارون یحییٰ (یہ قلمی نام ہے) کی بے شمار کتابوں میں سے چند ہیں جو دنیا کی ۱۵سے زائد زبانوں (روسی‘ ترکی‘ فرانسیسی‘ جرمن‘ اُردو‘ عربی‘ انڈونیشی‘ اسپینی‘ اُردو وغیرہ) میں قبول عام حاصل کر رہی ہیں۔ اشاعت کتب کا آغاز ۱۹۸۰ء میں ہوا اور سلیقے اور جذبے سے کام کی بدولت سائنس کے حوالے سے قرآن فہمی کی بنیاد پر تجدید ایمان اور شک و ریب دور کرنے کی یہ دعوت آج بھارت سے امریکہ‘ انگلینڈ سے انڈونیشیا‘ پولینڈ سے بوسنیا اور اسپین سے برازیل تک‘ ہر جگہ پھیل رہی ہے۔ آڈیو ویڈیو کیسٹ اور سی ڈی بھی دستیاب ہیں اور ویب سائٹ (www.harunyahya.com)پر بھی جایا جا سکتا ہے۔

ہارون یحییٰ کا موقف یہ ہے کہ بے عقیدگی غالب نظریہ ہوگیا ہے۔ جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں‘ وہ بھی اس کا شکار ہیں۔ مادی اور بے خدا تہذیب کی بنیاد نظریۂ ارتقا ہے جس کے مطابق انسان کسی پیدا کرنے والے کے بغیر پیدا ہوگیا ہے۔ ان کا اصل سائنسی اور مدلل حملہ نظریۂ ارتقا پر ہے جس پر علاحدہ کتاب بھی ہے‘ لیکن وہ اسے اتنا بنیادی سمجھتے ہیں کہ دوسری کتابوں کے آخر میں بھی اس کی تلخیص ایک باب کے طور پر شامل کرنا ضروری سمجھا ہے۔

ہارون یحییٰ کی تحریروں کا سرچشمہ قرآن کریم کی آیات ہیں۔ جن آیات سے ایک عام قاری گزر جاتا ہے‘ انھوں نے وہاں ٹھیر کر سائنسی حوالے سے غوروفکر کیا ہے اور ہدایت کا راستہ کھول کر بیان کیا ہے۔ تفہیم القرآن کے اُردودان قارئین کے لیے شاید کوئی بہت نئی بات نہ ہو‘ لیکن مختصر مضامین میں‘ ایک خاص ربط کے ساتھ‘ خوب صورت کئی رنگی تصویروں کے ساتھ‘ انسان اور کائنات کے صحیح تصور کو پیش کرنا اور کسی تنظیمی پشت پناہی کے بغیر تجارتی بنیادوں پر پھیلانا یقینا ان کا کارنامہ ہے۔

پانچوں کتابوں کے عنوانات سے ان کے مشمولات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ یومِ قیامت کی نشانیوں میں احادیث سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ دل چاہتا ہے کہ ہمارے کالجوں کے میگزین میں یہ مضامین شائع ہوں اور ہر طالب تک پہنچیں۔ نظریہ ارتقا والی کتاب ان اساتذہ حیوانیات کو ضرور پڑھنی چاہیے جو نصاب کے اتباع میں ارتقا کے ’سائنسی فراڈ‘ کو ایک امرواقعہ کے طور پر بلاتکلف پڑھاتے ہیں۔ پوری پوری کتابیں آرٹ پیپر پر شائع کی گئی ہیں۔ سرورق دیدہ زیب اور فن کا شاہکار ہیں۔ (مسلم سجاد)


معجم اصطلاحات حدیث‘ ڈاکٹر سہیل حسن۔ ناشر: ادارہ تحقیقات اسلامی ‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۴۹۴۔ قیمت: درج نہیں۔

ڈاکٹر سہیل حسن نے علمِ حدیث کی بے لوث خدمت انجام دی ہے اور تدریس و تصنیف کے میدان میں بھی وہ اپنا ایک علمی مقام پیدا کرچکے ہیں۔ زیرنظر معجم اصطلاحات حدیث اردو میں ان کی پہلی مبسوط علمی کاوش ہے۔ اس میں انھوں نے اصطلاحاتِ حدیث کو خوبی اور خوب صورتی کے ساتھ پیش کیا ہے اور اپنے موضوع پر یہ ایک سنجیدہ اور معقول کاوش ہے۔ مرتب کے بقول مصطلحات حدیث کی زیرنظر معجم میں انتہائی کوشش کی گئی ہے کہ اس فن سے متعلق تمام اصطلاحات جمع کر دی جائیں‘ چنانچہ مصنف نے بساط بھر ایسا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس معجم میں بعض ایسے مباحث بھی شامل کیے ہیں جو شاید کسی اور کتاب میں یکجا نہ مل سکیں‘ مثلاً تحویل کی صورت میں اسناد پڑھنے کا طریقہ‘ مختلف صحابہ کرامؓ کی روایت کردہ احادیث کی تعداد‘ محدثین عظام اور ان کی مؤلفات کا تعارف وغیرہ۔ کتاب کی ترتیب حروفِ تہجی کے اعتبار سے کی گئی ہے۔ جو لوگ علمِ حدیث کو اعلیٰ سطح پر سمجھنا چاہتے ہیں‘ ان کے لیے یہ کتاب نہایت مفید اور کارآمد ہے۔ کمپوزنگ اچھی اور جلد عمدہ ہے۔ (عبدالوکیل علوی)


جدید تُرکی‘ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر۔ ناشر: قرطاس‘ کراچی یونی ورسٹی‘ کراچی۔ صفحات: ۲۹۶۔ قیمت مجلد: ۲۸۰ روپے۔ غیرمجلد: ۲۵۰ روپے۔

یہ کتاب جدید ترکی اور جنگِ عظیم اول سے لے کر بیسویں صدی کے اختتام تک ترکی کی سیاسی تاریخ کا ایک خوب صورت مرقع ہے۔ مصنفہ نے خلافتِ عثمانیہ کے بارے میں مغربی مؤرخین کے غیرحقیقت پسندانہ اور متعصبانہ رویے اور جدید ترکی اور مصطفیٰ کمال سے متعلق جانب دارانہ  اندازِ فکر کا پردہ چاک کرتے ہوئے ترکوں کی گذشتہ صدی کی سیاسی تاریخ بیان کرنے کی کوشش     کی ہے۔

مصنفہ نے سلطنت ِعثمانیہ کی مختصر تاریخ‘ ترکی میں مغربی ممالک کے عمل دخل‘ ترکی پر جنگِ عظیم اول کے اثرات‘ ترکوں کی جدوجہدآزادی اور جمہوریہ ترکی کی تشکیل کا تفصیل سے جائزہ پیش کیا ہے۔ پھر عصمت انونو کے دورِ حکومت‘ جنگِ عظیم دوم اور ترکی میں ۱۹۶۰ء کے فوجی انقلاب‘ ترکی میں اسلامی تحریکوں کی تخم کاری اور اسلامی نظریات کی آبیاری کی کوششوں پر نظر ڈالی ہے۔ ترکی میں گذشتہ ربع میںہونے والے انتخابات اور ان میں پارٹی پوزیشن کے گوشوارے بھی دیے گئے ہیں۔ آخر میں جدید ترکی کی فکری زندگی میں اہم کردار ادا کرنے والی چند اہم ادبی شخصیات کے سوانحی خاکے موضوع کی تفہیم میں بڑی مدد کرتے ہیں۔ مصنفہ نے ترکی سے متعلق تاریخی کتابوں کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور وہ موضوع پر پوری گرفت رکھتی ہیں۔ ترکی کے قومی رنگ میں اپنے خوب صورت سرورق کے ساتھ کتاب بہت دلآویز نظرآتی ہے اور اپنے مندرجات کے اعتبار سے تاریخ کے طلبہ کے لیے یہ کتاب ایک اہم دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔(سعید اکرم)


اصلاح تلفظ و املا‘ طالب الہاشمی۔ ناشر: القمر انٹرپرائزز‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار لاہور۔ صفحات: ۱۴۱۔ قیمت: ۸۰ روپے۔

قیامِ پاکستان کے بعد قومی زندگی کے بعض دوسرے شعبوں کی طرح اردو زبان بھی زوال و انحطاط کا شکار ہوئی ہے۔ اس اعتبار سے کہ بظاہر تو اُردو زبان میں مختلف موضوعات پر کتابوں اور رسالوں کا ایک عظیم الشان ذخیرہ وجودمیں آیا ہے لیکن صحت زبان و املا اور تلفظ کا معاملہ ہماری سہل انگاری‘ لاپروائی اور ایک بے نیازانہ روش کی بدولت مسلسل ابتری اور غلط روی کی زد میں رہا ہے۔ ہماری غلامانہ ذہنیت نے ہمارے لسانی احساس یا عصبیت کو تقریباً ختم کر دیا ہے۔ چنانچہ اردو زبان اس وقت املا‘تلفظ اور بیان و انشا کے اعتبار سے ایک افسوس ناک آلودگی اور توڑ پھوڑ کی زد میں ہے۔

جناب طالب الہاشمی ہمارے دور کے ایک معروف فاضل ادیب اور اسکالر ہیں اور بیسیوں کتابوں کے مصنف۔ وہ لغت و زبان سے بھی شغف رکھتے ہیں۔ قومی زبان کی صحت کی طرف سے برتی جانے والی عمومی غفلت نے انھیں زیرنظر کتاب مرتب کرنے پر مجبور کیا ہے۔ اس کے بعض مباحث یہ ہیں: صحت تلفظ‘ املا کے اہم اصول اور قواعد‘ بہت سے ہم شکل الفاظ‘ امالہ‘ اُردو کے بعض مسلّمہ تصرفات‘ بعض تاریخی شخصیتوں کے ناموں کا تلفظ‘ زبان و بیان کی بعض عام غلطیاں (برا منانا‘ براے کرم‘ انکساری تقرری جو‘ ناراضگی‘ بمعہ‘ پرواہ---یہ سب غلط ہیں)۔

مصنف کی زیرنظر کاوش بہت اہم‘ بروقت اور بہ ہراعتبار مستحسن ہے۔ قطع نظر اس کے کہ نقارخانے میں طوطی کی آواز کوئی سنتا ہے یا نہیں‘ صاحبانِ احساس و عرفان کو اپنی بات کہتے رہنا چاہیے۔ کبھی تو اثر ہوگا‘ سب نہیں‘ چند لوگ تو سیکھیں گے‘کچھ تو اصلاح ہوگی۔ ممکن ہے زبان و لغت اور تلفظ سے دل چسپی رکھنے والے بعض اصحاب کہیں کہیں فاضل مؤلف سے اختلاف کریں لیکن اس سے کتاب کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔

ہمارے خیال میں نہ صرف طلبہ بلکہ اساتذہ‘ اہل قلم‘ ابلاغیات اور صحافت سے وابستگان‘ اور عام قارئین کو اس کتاب کا بالاستیعاب مطالعہ کرنا چاہیے بلکہ کتابِ حوالہ کی طرح اسے مستقلاً زیرمطالعہ رکھنا چاہیے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب نے اپنے مختصر مقدمے میں مؤلف کی کاوش کو سراہا ہے۔ اس اہم کتاب کا اشاعتی معیار اور سرورق زیادہ بہتر اور خوب صورت ہونا چاہیے تھا۔(ر-ہ)


شمالی علاقہ جات کی آئینی حیثیت ‘ سردار اعجاز افضل خان۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی‘ منصورہ‘ لاہور۔ صفحات: ۳۰۴۔ قیمت: ۱۷۵ روپے۔

زیرنظر کتاب کا موضوع پاکستان کے انتہائی شمال میں واقع ۲۸ ہزار مربع میل پر مشتمل گلگت اور بلتستان کا وہ علاقہ ہے جسے بالعموم ’شمالی علاقہ جات‘ سے موسوم کیا جاتا ہے۔ مارچ ۱۹۴۹ء میں ایک معاہدے کے تحت یہ علاقہ براہِ راست حکومت پاکستان کے زیرانتظام دے دیا گیا تھا۔ تب سے اس علاقے کے معاملات کی نگرانی وزارت امور کشمیر کے ذمے ہے اور عملی طور پر ایک ریذیڈنٹ وہاں کا حاکم ہے۔

زیرنظر کتاب مصنف کا ایک تحقیقی مقالہ ہے جس میں شمالی علاقہ جات کی تاریخ اور جغرافیے کے ساتھ وہاں کی سیاسی اور معاشرتی صورت حال اور شمالی علاقہ جات کے عوام کے مسائل اور احساسات کا ذکر کیا گیا ہے۔

مصنف کی تحقیق یہ ہے کہ گلگت اور بلتستان قانونی و آئینی طور پر ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے۔ اس لیے اسے آزاد کشمیر میں شامل کرنا ضروری ہے تاکہ یہ آئینِ آزاد کشمیر کے دائرے میں آئے۔ عوام کا بھی یہی مطالبہ ہے۔ موجودہ صورت حال میں یہاں کے لوگوں کو پاکستان یا آزاد کشمیر کے جمہوری اداروں میں کوئی نمایندگی حاصل نہیں ہے۔ نہ یہ علاقے اعلیٰ عدالتوں کے دائرہ کار میں آتے ہیں‘ اور یہ بہت نامناسب اور نامنصفانہ صورت حال ہے۔

شمالی علاقہ جات کو پاکستان کا صوبہ بنانے کی تجویز بھی سامنے آتی رہی ہے‘ مصنف کے خیال میں یہ قطعی عاقبت نااندیشانہ اقدام ہوگا۔ اس سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے مؤقف کو نقصان پہنچے گا اور بھارت اس سے فائدہ اٹھائے گا۔

موضوع سے متعلق بعض اہم دستاویزات اور معاہدوں وغیرہ کا متن بھی شامل کتاب ہے۔ مجموعی طور پر یہ ایک قابلِ قدر علمی کاوش ہے۔ (ر - ہ)


الموسوعۃ القضایۃ  ] رسولؐ اللہ کے فیصلے[ ‘ تدوین: ریسرچ کمیٹی فلاح فائونڈیشن‘     اُردو ترجمہ: ابوبکرصدیق‘نظرثانی: ڈاکٹرسہیل حسن۔ فلاح فائونڈیشن پاکستان۔ ناشر: خالد بک ڈپو۔    تقسیم کنندگان: کتاب سرائے‘پہلی منزل‘ الحمدمارکیٹ‘غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ مجلاتی سائز‘ صفحات: ۵۶۲۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

سیرتِ رسولؐ اور حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک بحرِذخّار ہے۔اس ذخیرے کی وسعتوں سے کماحقہ استفادہ کرنے میں‘ خود انسان کی اپنی کم مایگی رکاوٹ بنتی رہی ہے۔ دو سال قبل مسلم اہل علم و دانش کی ایک عالمی کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی تھی‘ اس قاموسی کام کا محرک وہی کانفرنس بنی۔

سیرت و حدیث کے ذخیرے میں رسولؐ رحمت کے فیصلوں اور ان فیصلوں کی حکمتوں پر بہت سے افراد نے مختلف اوقات میں کام کیا ہے۔ یہ کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ کتاب دیکھیں تو اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اس میں ایک ہی فیصلے سے متعلق مختلف کتب سے ایک ایک ارشاد نبویؐ کو چن کر مربوط پیراگراف بنانے کے لیے مولف نے بہت محنت کی ہے۔ شاید اسی لیے کتاب اس دعوے کے ساتھ پیش کی گئی ہے: ’’اسلامی عدالتوں کے فیصلوں پر مبنی انسائی کلوپیڈیا‘‘ --- کتاب میں سب سے پہلے ایک ایک موضوع پر عدالتی فیصلوں کے بنیادی نکات درج کیے گئے ہیں اور پھر ان نکات کو متعلقہ احادیث (مع حوالہ جات) سے مرصع کیا گیا ہے۔

آیندہ ایڈیشن لانے سے قبل کتاب کے پورے متن‘ خصوصاً بنیادی نکات کو مزید باریک بینی سے مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ کتاب میں ترجمے اور پروف کی غلطیاں وافر تعداد میں موجود ہیں۔ تعجب ہے کہ ترجمہ اور نظرثانی‘ نیز پروف خواں اصحاب نے اس باب میں مطلوبہ احتیاط کیوں نہیں کی؟

بعض جگہ محسوس ہوتا ہے کہ رسولؐ اللہ کے کسی مشورے یا بیان کو بھی ’’عدالتی فیصلہ‘‘بنا دیا گیا ہے‘ لیکن ایسی مثالیں خال خال ہیں۔ بعض احادیث کی استنادی حیثیت پربھی نظر ڈالنا ضروری تھا۔ پھر بھی یہ کتاب کئی حوالوں سے اپنے موضوع پر سابقہ کتب سے اچھی محسوس ہوتی ہے۔

کتاب کے موضوعات کی وسعت اور پیش کاری کا اسلوب خوش آیند ہے جسے طبقہ وکلا اور تمام سطحوں کے جج صاحبان کے زیرمطالعہ آنا چاہیے۔ (سلیم منصور خالد)


مجلہ معارفِ اسلامی (خصوصی اشاعت: بیاد ڈاکٹرمحمدحمیداللہ)‘مدیرمسئول: ڈاکٹر علی اصغرچشتی‘ مدیر: حافظ محمد سجاد۔ ناشر: کلیہ عربی و علوم اسلامیہ‘ علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۵۷۵۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

ڈاکٹر محمدحمیداللہ کی وفات ان کی شخصیت‘ علمی و فکری کارناموں اور قرآنی و دینی خدمات پر مضامین‘ کتابوں اور رسالوں کے خصوصی نمبروں کا سلسلہ جاری ہے۔ معارفِ اسلامی کا یہ شمارہ اسی سلسلے کی تازہ کڑی اور ’’حمیدیات‘‘ میں ایک بڑا قابلِ تحسین اضافہ ہے جسے نام وَر  اہلِ قلم سے بطور خاص مضامین لکھوا کر‘ محنت سے مرتب کیا گیا ہے۔ یہ ضخیم اشاعت مرحوم کی سوانح اور تحقیق کے تقریباً تمام ہی پہلوئوں کو محیط ہے اور خطوط کی بڑی تعداد بھی ذخیرۂ حمیدیات میں اچھا اضافہ ہے۔ پورا شمارہ حوالے کی چیز ہے۔ حافظ محمد سجاد صاحب کی مرتبہ کتابیاتِ حمیداللہ (ص ۵۴۹-۵۷۵) اس موضوع پر تحقیق و مطالعہ کرنے والوں کے لیے ایک کارآمد راہ نما ہے۔(ر - ہ)


Terrorism in Action, Why Blame Islam‘] راج دہشت گردی کا‘ الزام اسلام پر؟[‘ اقبال ایس حسین۔ ناشر: الائیڈ بک کارپوریشن‘ نقی مارکیٹ‘ شارع قائداعظم‘ لاہور۔ صفحات: ۳۸۲۔ قیمت: ۶۵۰ روپے / ۲۸ ڈالر۔

مصنف حالاتِ حاضرہ اور بین الاقوامی امور پر تواتر سے لکھنے والے اہلِ قلم میں شامل ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی کا خاصا حصہ مغربی معاشرے کو سمجھنے سمجھانے میں گزارا ہے۔ چنانچہ ان کا خیال ہے کہ ۱۱ستمبر کے واقعات کی سائنسی بنیادوں پر تحقیقات نہیں کی گئیں۔ کتاب کے ۳۸ابواب میں امریکا اور اتحادی ممالک کی توسیع پسندانہ پالیسیاں‘ دہشت گردی کے مختلف اسلوب اور اس کے اسباب‘ مسلم دنیا کے مصائب اور تضادات وغیرہ جیسے موضوعات تفصیل سے زیربحث آئے ہیں۔ جہاد‘ اسامہ بن لادن‘ بنیاد پرستی‘ ڈینیل پرل قتل کیس‘ نیز اسلامی اور مغربی تہذیبوں کے حوالے سے بھی کتاب میں گفتگو کی گئی ہے۔

مصنف کا خیال ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کی خودساختہ کوششوں میں عالمی استعمار اس قدر زیادتیاں کرچکا ہے کہ نیویارک کے جڑواں میناروں کا سانحہ بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔  مسلم دنیا کو درپیش مشکلات کا احاطہ کرتے ہوئے مصنف نے دلائل سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ غربت‘ تعلیم کا فقدان اور سیاسی اداروں کے عدمِ استحکام نے مسلم دنیا کو اس حالت تک پہنچا دیا ہے کہ اُن کی حیثیت خوف زدہ بھیڑوں کی سی ہوگئی ہے۔ جنگل کا ہر خونخوار اُن کے خون کا پیاسا ہوچکا ہے اور اُن کے لیے کوئی خطہ محفوظ نہیں ہے۔

مصنف نے سید قطبؒ اور سید مودودیؒ کے حوالے سے کہا ہے کہ ان مفکرین نے تشدد کی ہر قسم کی مخالفت کی لیکن اسرائیل ہر قسم کے ظالمانہ ہتھکنڈے روا رکھے ہوئے ہے۔ اقبال حسین کا خیال درست ہے کہ واشنگٹن کے پالیسی ساز ادارے‘ دانش ور اور عوام الناس اپنی حکومت کو سمجھائیں کہ وہ اپنی ہمہ پہلو قوت کے استعمال سے پہلے ہزار بار سوچے ورنہ ردعمل میں ایسے واقعات رونما ہو سکتے ہیں کہ نائن الیون کا سانئحہ گرد میں چھپ جائے گا۔(محمد ایوب منیر)


اسلام میں تصورِ جہاد۔ حافظ مبشرحسین لاہوری۔ ملنے کا پتا: مکھن پورہ‘ مکان نمبر۱۱‘ گلی نمبر۲۱‘ نزد مکہ مسجد‘شادباغ‘ لاہور۔ صفحات: ۴۷۷۔ قیمت: درج نہیں۔

جہاد مسلمانوں کے مذہبی تشخص اور ملّی بقا کا ضامن ہے۔ اس رکن عظیم کی فرضیت و اہمیت کے بارے میں قرآن و سنت میں بدیہی احکامات موجود ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام مخالف قوتوں کے غلبہ واستیلا کے خلاف سب سے بڑی مزاحم قوت مسلمانوں کا جذبۂ جہاد ہی رہا ہے۔

صلیبی اور استعماری قوتیں صدیوں سے جہاد کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کرتی چلی آرہی ہیںخصوصاً ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے بعد مغرب میں ہنود ویہود نے جہاد کے خلاف ایک مسموم فضا تیار کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ ان حالات میں اسلام کے تصور جہاد کو اس کی اصل روح کے ساتھ پیش کرنا عصرِحاضر کا ایک مقدم تقاضا ہے۔ زیرنظرکتاب اسی سلسلے کی ایک اچھی کاوش ہے۔

اس کے مباحث یہ ہیں: قرآن و سنت اور علما و فقہا کے اقوال کی روشنی میں جہاد کا اصطلاحی مفہوم اور احکامات‘ جہاد اور قتال میں فرق اور ان کا باہمی تعلق‘ جہاد کی فرضیت اور فضائل‘ جہاد سیرت النبیؐ کے آئینے میں‘ جہاد کی بنیادی شرائط اور آداب و ضوابط۔ اسلامی تاریخ میں جہاد کی ایک جھلک‘ خلفاے راشدینؓ، اموی اور عباسی ادوار‘ سلطنت عثمانیہ‘ سلاطین دہلی اور مغلیہ سلطنت کے اہم جہادی اقدامات‘ اسلامی دنیا کے عصرِحاضر کے مسائل‘ مسئلہ قومیت‘ مغرب اور اسلام کی کش مکش‘ اقوامِ متحدہ کی جانب داری اور او آئی سی کی عدم کارکردگی‘ موجودہ دور کی نمایاں جہادی تحریکوں کا تعارف وغیرہ۔ جہادی تحریکوں کی خوبیوں اور خامیوں کی نشان دہی مصنف کے ذاتی مشاہدے پر مبنی ہے۔ مصنف کے گہرے مشاہدے اور تحقیق و جستجو سے مرتب کردہ ان مفید تجاویز سے جہادی تحریکات کو استفادہ کرنا چاہیے۔

مصنف نے سید مودودیؒ کی الجہاد فی الاسلام سے اخذ و استفادے کا اعتراف کرتے ہوئے اسے جہاد کے موضوع پر بہترین کتاب قرار دیا ہے۔ تاہم مصنف کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے زیرنظرکتاب میں کچھ نئے اور اچھوتے موضوعات کا احاطہ کیا ہے۔ مصنف نے جہاد کے بارے میں قرآن و سنت کی روشنی میں ایک متوازن اور فکرانگیز مؤقف اختیار کرنے پر زور دیا ہے۔ (سلیم اللّٰہ شاہ)

خواتین اور معاشرتی برائیاں ‘ ڈاکٹرصادقہ سیّد۔ ناشر: قرطاس۔ پوسٹ بکس ۸۴۵۳‘ کراچی یونی ورسٹی۔ صفحات: ۹۰۔ قیمت: ۶۰ روپے۔

انسانی زندگی کو خیروفلاح سے ثمربار کرنے کے لیے انذار و تبشیر سے بڑھ کر کوئی اور موثر طریقہ نہیں ہے۔ اس ضمن میں بھی سب سے زیادہ اکمل‘ متوازن اور انسانی فطرت کا پاس ولحاظ رکھنے کا ذریعہ قرآن و سنت ہی ہیں۔ بے جا قصہ گوئی سے روشنی لینے کے بجاے‘ روشنی اورنور کے قرآنی اور نبویؐ سرچشموں سے رہنمائی لینا ہی دانش مندی ہے۔

زیرتبصرہ کتاب اپنے موضوع‘ مندرجات کی وسعت اور اسلوب بیان کی سادگی کے باعث ایک موثر دستاویز ہے۔ مصنفہ جسمانی امراض کی معالجہ ہیں‘ انھوں نے روحانی امراض کا علاج بھی نہایت خوب صورتی سے تجویز کیا ہے۔ انھوں نے انسانی زندگی اور خاص طور پر مسلمان خواتین میں فکروعمل کی مختلف النوع کوتاہیوں کی نشان دہی کرنے کے ساتھ‘ شافی علاج بھی پیش کیا ہے جسے تجربے میں لاکر دنیا میں فلاح اور آخرت میں کامیابی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ قرآن و سنت کے حوالے اور ذاتی مشاہدے کو‘ توازن اور اختصار کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ (سلیم منصور خالد)

ملاقاتیں‘ ڈاکٹر سید عبدالباری۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف آب جکٹیو اسٹڈیز‘ نئی دہلی۔ صفحات: ۳۱۲۔ قیمت: ۱۴۵ روپے۔

ڈاکٹر سید عبدالباری ]شبنم سبحانی[ بھارت کے معروف اُردو ادیب‘ نقاد اور شاعر ہیں۔ ان کی مرتبہ یہ کتاب بیسویں صدی کی حسب ذیل ممتاز شخصیات سے مصاحبوں کا مجموعہ ہے:

  • ڈاکٹر سید محمود
  •   ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی
  • جناب محمداسماعیل
  • بیرسٹر یٰسین نوری
  • قاری محمد طیب
  • مولانا عبدالماجد دریابادی
  • مفتی عتیق الرحمن
  • محمدمسلم
  • بدرالدین طیب جی
  • مفتی فخرالاسلام 
  • مولانا ابواللیث اصلاحی
  • مولانا صدرالدین اصلاحی
  • الحاج ذوالفقار
  • مولانا سید ابوالحسن علی ندوی۔

بقول مولف: ’’یہ وہ افراد ہیں جنھوں نے گذشتہ صدی میں ملک و ملت کی تعمیروترقی اور اسے تباہی و انتشار سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا اور اس صدی کی برصغیر کی تاریخ ان کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی‘‘۔

ڈاکٹر سید عبدالباری کا انداز‘ روایتی انٹرویو نگاروں سے قدرے مختلف ہے۔ مصاحبے کا آغاز وہ براہِ راست سوال جواب سے نہیں کرتے‘ بلکہ انٹرویو سے پہلے باقاعدہ ایک تمہید باندھتے ہیں اور اس تمہید میں‘ وہ ماحول کا پورا نقشہ کھینچتے اور گردوپیش پر تبصرہ بھی کرتے ہیں۔ بتاتے ہیں کہ کس شخصیت تک وہ کب اور کیسے پہنچے؟ اس سفر کی مختصر روداد بھی بیان کردیتے ہیں۔ اُن کے دل کش اور افسانوی اسلوب کی وجہ سے‘ اس طرح کی تمہیدات کہیں کہیں تو ایک شگفتہ سفرنامے کا ٹکڑا معلوم ہوتی ہیں۔ پھر متعلقہ شخصیت سے قاری کو متعارف کروانے کے لیے اُس کا سراپا بیان کرتے ہیں اور اس کی سیرت و کردار کے تابناک گوشوں کو نمایاں کرتے ہوئے‘ پوری ایک فضا بناتے ہیں۔ سوال و جواب شروع ہوتے ہیں تو ان کے درمیان وہ اپنی سوچ اور اپنے تبصروں کے ذریعے اور ماحول کی نقشہ کشی کرتے ہوئے بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔بسااوقات وہ اپنی سوچ یا محسوسات کو کسی شعر (زیادہ تر علامہ اقبال اور اکبرکے اشعار) کے ذریعے پیش کرتے ہیں۔ لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ اشعار کے نقل میں کئی جگہ انھوں نے (نادانستہ) تصرف کر دیا ہے (یہ حافظے کی کارفرمائی ہے) مثلا: ص ۷۰‘ ۱۱۷‘ ۱۲۹‘ ۱۷۴‘ ۲۳۰ وغیرہ۔

ان مصاحبوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ مذکورہ مسلم رہنما‘ مسلمانوں کے زوال و انحطاط‘ ان کی پس ماندگی خصوصاً ان میں تعلیم کی کمی پر پریشان اور فکرمند ہیں۔ یہ سب حضرات اپنی اپنی سمجھ‘ فہم و بصیرت اور صلاحیتوں کے مطابق تعلیمی‘ علمی‘ سماجی اور سیاسی میدان میں بھارتی مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور اُن کی ترقی اور ان کے مستقبل کے لیے اپنی سی کاوش اور جدوجہد کرتے رہے۔ مایوس کن حالات میں بھی وہ کبھی بددل نہیں ہوئے۔ ان سب حضرات کے نزدیک اسلام کا مستقبل بہت روشن ہے۔

ان مصاحبوں سے بعض اہم اور دل چسپ باتیں سامنے آتی ہیں‘ مثلاً ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی کے والد یوپی میں جج (منصف) تھے۔ گورنر میلکم ہیلے چاہتے تھے کہ وہ ایک مقدمے میں فیصلہ‘ حکومت کی حمایت میں کریں‘ مگر فریدی صاحب نہیں مانے۔ گویا بڑے ذمہ دارانہ مناصب پر فائز نام ور۔ انگریز بھی بددیانتی اور سازش کیا کرتے تھے--- مفتی فخرالاسلام عثمانی اس بات کو یوپی کے مسلمانوں پر ایک ’’بہت بڑا سنگین الزام‘‘ قرار دیتے ہیں کہ یوپی کے مسلمان‘ قیامِ پاکستان کی تائید میں تھے۔

دارالعلوم دیوبندبھارت میں مسلمانوں کا بہت بڑا تعلیمی مرکز ہے۔ سید عبدالباری صاحب نے بتایا ہے کہ وہاں ہر سال صرف ایک طالب علم کو ریسرچ پر لگایا جاتا تھا اور اسے ۵۰ روپے ماہوار وظیفہ ملتا تھا۔ وہاں انگریزی زبان کی تدریس کا انتظام تو تھا مگر اسے تعلیم کا لازمی جزو نہیں بنایا گیا اور نہ انگریزی کو باقاعدہ ایک مضمون ہی قرار دیا گیا (ص ۱۵۸)۔ قاری محمد طیب صاحب نے اس بدقسمتی کا بھی اعتراف کیا کہ ’’ذہنی اعتبار سے پست اور فروترطبقہ ہمارے یہاں آتا ہے‘‘۔ (ص ۱۶۳)

مجموعی طور پر ملاقاتیں ایک دل چسپ‘ معلومات افزا اور ذہن و فکر کو روشن کرنے والی کتاب اور برعظیم کے مسلمانوں کی سبق آموز داستان ہے۔ قاری محمد طیب صاحب نے پتے کی بات کہی ہے کہ قوم وہی زندہ رہ سکتی ہے جو اقدام کرے۔ اگر وہ دفاعی صورت اختیار کرے گی تو ختم ہو جائے گی۔ اسلام جب بھی بڑھا ہے اعلاے کلمۃ الحق اور شہادتِ حق کے راستے سے آگے بڑھا ہے۔ اُسے تو اِس بات پر جم جانا چاہیے کہ چاہے ہم فنا ہو جائیں لیکن خدا کے کلمے کو نیچا نہ ہونے دیں گے۔ (ص ۱۷۱)

کتاب میں شیخ الہند کا نام ہر جگہ ’’محمودالحسن‘‘ لکھا گیا ہے (ص ۶۲‘ ۱۴۴‘ ۱۵۴‘ ۱۷۹ وغیرہ) ’’محمود حسن‘‘صحیح ہے۔ اسی طرح لاپرواہی (ص ۲۰۵) نہیں ’’لاپروائی‘‘ لکھنا چاہیے تھا۔ برعظیم کی سیاست و تاریخ اور بھارتی مسلمانوں کے مستقبل سے دل چسپی رکھنے والے اصحاب کے لیے ملاقاتیں میں قیمتی لوازمہ موجود ہے۔ کتاب کی طباعت و اشاعت معیاری ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


پاکستان میں عربی زبان‘ ڈاکٹرمظہرمعین۔ ناشر: شیخ زاید اسلامک سنٹر‘ پنجاب یونی ورسٹی‘ لاہور۔ صفحات:۲۴۰۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

فاضل مصنف نے پہلے باب بہ عنوان: ’’پاکستان میں عربی زبان ورسم الخط‘‘ میں بتایا ہے کہ ۶۴۴ء سے ۱۹۴۷ء تک برعظیم کے مختلف علاقوں میں سرکاری‘ دفتری اور عمومی زبان کی حیثیت سے عربی کی صورتِ حال کیا رہی ہے۔

مصنف بتاتے ہیں کہ غزنوی خاندان کے زمانۂ آغاز تک علمی اور دینی زبان تو عربی تھی ہی‘ مختلف حکومتوں کی دفتری زبان بھی بالعموم عربی رہی۔ عربوں کی دو ریاستیں‘ منصورہ اور ملتان میں قائم تھیں۔ ان کے چارسو سالہ دورِ حکمرانی میں یہاں عربی کو کافی فروغ حاصل ہوا۔ فاضل مصنف نے ان دونوں ریاستوں کے تذکرے کے بجاے سندھ پر اکتفا کیا ہے۔ انھوں نے صرف سندھی زبان پر عربی کے اثرات کا جائزہ لیا ہے اور اس سلسلے میں چند الفاظ کی فہرست بھی دی ہے۔ عرب دور میں سندھ نے کئی مقامی عرب شعرا پیدا کیے اور بہت سے سندھی علما نے سیرت‘ حدیث‘ فقہ اور علم کلام پر متعدد کتابیں لکھیں۔ ان میں ابوحشرسندھی اور ابوالعطا ملتانی کے نام معروف ہیں‘ مگر دونوں اصحاب کا نام کتاب میں نہیں ملتا۔

درحقیقت بلوچستان‘ سندھ اور جنوبی پنجاب کی زبانوں (بلوچی‘ سندھی اور سرائیکی) پر بھی عربی کے گہرے اثرات ہیں۔ یہاں بعض الفاظ (مثلاً ق اور ض) کا لہجہ خالص عربی کا ہے۔ ان زبانوں میں آج بھی کثیرتعداد میں عربی الفاظ ملتے ہیں جنھیں صرف ایک عربی دان ہی چھانٹ کر سمجھ سکتا ہے۔ علاوہ ازیں ان زبانوں میں فارسی الفاظ بھی کثرت سے ملتے ہیں۔

دوسرے باب میں مصنف نے بتایا ہے کہ ہمارے موجودہ نظامِ تعلیم (قدیم طرز کے دینی مدرسوں اور جدید تعلیم کے اداروں) میں عربی زبان کے نصاب اور تدریس وغیرہ کی کیا صورت ہے۔ باب ۳ میں پاکستان میں عربی زبان کی ترویج اور توسیع و ترقی کے لیے کی گئی کاوشوں کا ذکر ہے۔ اس ضمن میں ضروری دستاویزات اور عربی مجلات کی فہرست بھی شاملِ کتاب ہے۔

پروفیسر مظہرمعین جامعہ پنجاب میں شعبہ عربی کے صدر اور اورینٹل کالج کے پرنسپل ہیں۔جسٹس محبوب احمد کے بقول انھوں نے پاکستان میں عربی زبان کی تنفیذ کا مربوط مقدمہ‘  اہلِ علم اور اربابِ بست و کشاد کی دہلیز انصاف تک پہنچانے کی دل سوز کوشش کی ہے۔ (ص ۱۴)۔

اگرچہ کہیں کہیں کتابت کی غلطیاں نظرآتی ہیں تاہم کتاب کی طباعت و اشاعت کا معیار اطمینان بخش ہے۔ (فیض احمد شھابی)


مشرف حکومت اور عدلیہ‘ عتیق الرحمن۔ناشر:دارالشعور‘ ۳۲-میک لیگن روڈ‘ ایچ کے بی بی سنٹر‘ اے جی آفس چوک‘ لاہور۔ صفحات: ۱۹۷۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔

وطن عزیز کے پائوں میں مارشل لاوں اور فوجی حکومتوں کی زنجیروں کا بدنما داغ نہ ہوتا تو نجانے یہ تعمیروترقی کی کتنی منزلیں طے کرچکا ہوتا۔ دنیا بھر کی عدالتیں فراہمیِ انصاف کا فریضہ انجام دیتی ہیں لیکن ہمارے ملک میں عدالتوں نے بعض اوقات (مجبوراً ہی سہی) فوجی آمریت کو سندِجواز فراہم کی ہے۔ تاریخ میں عدلیہ کے ایسے فیصلوں کو کس نظر سے دیکھا جائے گا؟ یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔

عتیق الرحمن ایڈووکیٹ نے ایک دوسرے انداز سے‘ موجودہ عسکری حکومت اور اس کے احتساب کے وعدوں کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ اُنھوں نے دلائل فراہم کیے ہیں کہ عدلیہ نے ملک‘ قوم اور آنے والی نسلوں کے مفاد کو نظریۂ ضرورت پر قربان کر دیا۔ بے نظیربھٹو اور میاں محمد نواز شریف نے اپنے اپنے دورِ اقتدار میں (دو دو بار) عدلیہ کوجس طرح استعمال کیا۔ اس کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔

موجودہ حکومت احتساب پر مکمل طور پر عمل درآمد کیوں نہ کرسکی؟ کروڑوں روپے لوٹنے والوں کو کیفرکردار تک کیوں نہ پہنچا سکی اور عدلیہ کی مجموعی کارکردگی کیوں نہ بہتر بن سکی؟ یہ تمام مباحث کتاب کے پچیس ابواب میں سمیٹ دیے گئے ہیں بقول مصنف:’’یہ کتاب مشرف دورِ حکومت کے عدالتی فیصلوں کی تاریخ ہے‘‘ (ص ۵)۔

پاکستان‘ قانون اور حالاتِ حاضرہ سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ ایک مفید کتاب ہے۔ (محمد ایوب منیر)


ادراکِ زوال اُمت‘ جلد اول‘ راشد شاز۔ ناشر: ملّی پبلی کیشنز‘ ابوالفضل انکلیو‘ جامعہ نگر‘ نئی دہلی ۱۱۰۰۲۵۔ صفحات: ۵۳۳۔ قیمت: ۳۰۰ بھارتی روپے۔

خوش کن پیش کاری کے ساتھ اس کتاب میں وحی‘ تعبیر‘فقہ‘ تصوف اور خود اہلِ فقہ و تصوف کے مابین پیداکردہ مناقشوں کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ تاہم اس مجموعے کو ایک ایسی سوچ کی صداے بازگشت قراردینا غلط نہ ہوگا جو فی الحقیقت مرعوبیت اور تجدد پسندی ہی کا تسلسل ہے۔ مصنف کی فکرمندی سے انکار نہیں‘ اور محنت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا‘ مگر صحت پانے کی خواہش میں اگر کوئی خودکشی کے راستے پر چل نکلے تو اسے ’روشن خیالی‘ اور ’خردمندی‘ کے برعکس کسی لفظ ہی سے منسوب کیا جائے گا۔

مصنف نے لکھا ہے: ’’اسلام کی ابتدائی صدیوں میں کس طرح رفتہ رفتہ وحی کے بجاے متعلقاتِ وحی کو اس قدر اہمیت ملتی گئی کہ مُسلم حنیف ہونا بڑی حد تک ایک تہذیبی شناخت بن کر   رہ گیا‘‘ (ص ۱۴)۔ کتاب کی بنیادیں اس ’معصومانہ جملے‘ میں پنہاں ہیں۔ اگر صرف حروفِ الٰہی سے ہدایت کا دائرہ مکمل ہونا مطلوب ہوتا تو انبیا و رسل ؑ کے ادارے کی ضرورت ہی نہ تھی۔

آگے چل کر کتاب میں جس طرح حدیث‘ فقہ اور تعامل کو یک رخے پن سے      نشانۂ تنقیص و استہزا بنایا گیا ہے‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن کے دفاع سے زیادہ انہدام سرمایۂ حدیث و فقہ پیش نظر ہے۔ لکھتے ہیں: ’’سنت کے حوالے سے اسوۂ رسولؐ کا ایک ماوراے قرآن ماخذ وجود میں آجانے سے‘ عملاً ہوا یہ کہ مسلمانوں کے یہاں بھی تاریخ‘ اسی تقدیس کی حامل ہوگئی جس کا شکار پچھلی قومیں ہوچکی تھیں‘‘ (ص ۲۱۷)۔ ’’ائمہ اربعہ ایک ایسی جبری تاریخ ]ہے[ جو بجا طور پر مسلمانوں کے عہدِ زوال سے عبارت ہے‘‘(ص ۳۰۵)۔ اسی نوعیت کے ’’استدلال‘‘ سے یہ کتاب عبارت ہے۔ (سلیم منصور خالد)


ہمارا سفر ‘ترتیب: عابدہ چغتائی۔ ناشر: الجمعیۃ پبلی کیشنز‘ مرکز طالبات ‘ منصورہ‘ لاہور۔   صفحات: ۱۹۰۔ قیمت: ۴۰ روپے۔

اسلامی جمعیت طالبات پاکستان‘ معاصر مسلم دنیا میں طالبات کا ایک قابلِ قدر    قافلۂ دعوتِ حق ہے جس نے مغرب اور خود مسلم دنیا کی سیکولر یلغارسے مسلم طالبات کو بچانے کے لیے عظیم جدوجہد کی ہے۔ ستمبر ۱۹۶۹ء میں قائم ہونے والی اس تنظیم نے مسلم خواتین کے مستقبل کو ایسی سعید روحوں سے مربوط کیا ہے کہ آج ہر میدان میں جدید پڑھی لکھی خواتین‘ اسلام کی حقیقی رضا و منشا کے مطابق دعوت‘ تربیت اور تعمیر کی کوششوں میں سرگرمِ عمل ہیں۔

یہ کتاب دراصل‘ اسلامی جمعیت طالبات کی تاریخ پیش کرتی ہے‘ جسے تنظیم کی سابق پانچ ناظماتِ اعلیٰ (ڈاکٹر اخترحیات‘ ڈاکٹر کوثر فردوس‘ ڈاکٹر فوزیہ ناہید‘ نگہت ودود‘ عابدہ فرحین) کے مصاحبوں (انٹرویوز) کی مدد سے ترتیب دیا گیاہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ اُن کے زمانۂ نظامت (۱۹۸۰ئ-۱۹۸۷ئ) میں مختلف النوع تجربات‘ مشکلات‘ واقعات اور اہم معلومات کو اس طرح پیش کیا جائے کہ قافلۂ راہِ حق میں شامل ہونے والی نئی طالبات اس حقیقت کو جان سکیں کہ یہ قافلۂ عزیمت  کن راہوں سے گزر کر آج ہمیں سعادت و عزیمت کی شمعیں عطا کر رہا ہے۔ (س- م- خ )


جنات کا پوسٹ مارٹم‘ الشیخ حافظ مبشرحسین۔ ناشر: نعمانی کتب خانہ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۴۵۴۔ قیمت: درج نہیں۔

مستقبل میں قسمت کا حال جاننے کی آرزو اور تجسس ہمیشہ سے انسانی زندگی کا ایک اہم پہلو رہا ہے۔ انسان بہتر زندگی کے لیے منصوبہ بندی اور تگ و دو کرتا ہے لیکن خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہوئے‘ غیبی اور تخمینی علوم کا سہارا لیتا ہے اور اکثروبیشتر صراطِ مستقیم سے بھٹک جاتا ہے۔ اسی لیے اہلِ علم ایسے لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ ہر دور میں انجام دیتے چلے آرہے ہیں۔ زیرنظرکتاب میں قرآن و سنت کی روشنی میں نام نہاد عاملوں‘ کاہنوں‘ جادوگروں اور ایذا دینے والے جنات کا پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے۔

علمِ وحی نے صحیح سمت میں ہماری رہنمائی کی ہے۔ علم وحی سے ہٹ کر دیگر علوم کی بھی اپنی ایک تاریخ ہے اور وہ سبھی باطل بھی نہیں‘ لیکن ان علوم کی حقیقت کیا ہے؟ شریعت کی روشنی میں اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس کتاب میں فاضل مصنف نے بہت سے حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ علمِ ہیئت اور علمِ نجوم کی حقیقت‘ علمِ کہانت و عرافت کی مختلف صورتوں ‘قیافہ شناسی اور دست شناسی کی شرعی حیثیت‘ فال‘ استخارہ‘ جفر‘ علم الاعداد‘رمل اور جادو ٹونے کی مختلف نوعیتوں پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے لیکن کتاب کا سب سے دل چسپ حصہ جنوں کے بارے میں ہے۔ جنات کی اقسام‘ خوراک و رہایش‘ شادی بیاہ‘ انسانوں سے ان کا تعلق‘ ایذا رسانی اور جن نکالنے کے عام اور ائمہ سلف کے طریقوں کی تفصیل اور لائقِ مطالعہ ہے۔

کتاب میں‘ دم‘ تعویذ اور شیطانی وساوس دُور کرنے کے طریقے اور اس ضمن میں متفرق مباحث شامل ہیں۔ مصنف نے ان امور پر بحث کرتے ہوئے اعتدال سے کام لیا ہے۔ امید ہے کہ یہ کتاب قارئین کے تجسس کے لیے باعث تشفی ہوگی۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)


پھٹا ہوا دودھ‘ اختر عباس۔ ناشر: ادارہ مطبوعات طلبہ‘ ۱-اے ذیلدار پارک‘ اچھرہ‘ لاہور۔ صفحات:۱۶۹۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔

اگر بچوں کو کوئی بہت اہم مسئلہ سمجھانا ہو لیکن سمجھانے والا سمجھانے کی اہلیت ہی نہ رکھتا ہو تو نتیجہ خاطرخواہ نہیں نکلے گا۔ پھٹا ہوا دودھ کے مصنف کو‘ خدا نے اس صلاحیت سے بخوبی نوازا ہے۔ یہ پرتاثیر‘ دل گداز اور ایک خاص کیفیت والی کہانیاں ہیں۔

ہمارا المیہ ہے کہ ہم بچوں کو کھانے پینے ‘اوڑھنے اور تعلیم وغیرہ جیسی تمام ضروریات تو مہیا کر دیتے ہیں‘ مگر ان کی جذباتی دنیا کی دیکھ بھال کرنا بھول جاتے ہیں۔ ان کہانیوں کو پڑھتے ہوئے شدت سے اِس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اگر ہم بچوں کے جذبات و احساسات کی پروا اور قدر کریں اور ان کے مثبت جذبات کو نشوونما دیں تو معاشرہ بہت خوب صورت دکھائی دے گا۔ ’’آلنے سے گری‘‘ کہانی اسی نکتے کو اجاگر کرتی ہے۔

ان کہانیوں میں افسانہ نگار‘ باتوں ہی باتوں میں ایسی بات کہہ جاتے ہیں کہ وہ سیدھی دل میں جا اترتی ہے اور بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔دراصل یہ ہمارے ہی معاشرے کے جیتے جاگتے انسانوں کی کہانیاں ہیں۔ مصنف نے ان کا اصل کردار دکھانے کی کامیاب کوشش کی ہے‘ مثلاً ہم اپنے اردگرد لاکھوں بچوں کو کام کرتا دیکھتے ہیں‘ ’’پھرکی‘‘ اسی طرح کے ایک بچے کی کہانی ہے۔

اختر عباس کو ’’ایڈیٹربھیا‘‘ کے طور پر کہانی لکھنے اور اُسے پُراثر بنانے کا فن آتا ہے۔ چنانچہ ان کے مخصوص اسلوب میں لکھی گئی یہ کہانیاں ایسی ہیں کہ بقول طارق اسماعیل ساگر: ’’آپ ایک بار انھیں پڑھنے بیٹھ گئے تو پھر اُن کے سحر سے بچ نہیں پائیں گے‘‘۔ (قدسیہ بتول)


تعارف کتب

  • ایران کی چند اہم فارسی تفسیریں (دو جلدیں)‘ کبیراحمد جانسی۔ ناشر: قرطاس (ادارہ تصنیف و تالیف وترجمہ) سی ۶۸‘ سٹاف ٹائون‘ کراچی یونیورسٹی ‘کراچی۷۴۲۷۰۔ جلداول‘ صفحات: ۲۰۳‘ قیمت: ۲۰۰ روپے۔ جلد دوم‘صفحات:۲۳۷‘ قیمت: ۱۸۰ روپے۔] چند فارسی تفسیروں کا تعارف اور تجزیہ[ ۔
  • مولانا شبلی بحیثیت سیرت نگار‘ ظفراحمد صدیقی۔ ناشر:مصنف‘ شعبہ اُردو‘ مسلم یونیورسٹی‘ علی گڑھ‘ صفحات:۳۰۴۔ قیمت:۲۵۰ روپے۔] مولانا شبلی کی سیرۃ النبیؐ میں بعض فروگذاشتوں اور لغزشوں کا ایک علمی محاکمہ[ ۔
  • اذان‘ حبیب الرحمن ہاشمی۔ ناشر: مکتبہ قاسمیہ‘ ملتان۔ صفحات: ۱۲۸۔ قیمت: ۶۰ روپے۔]اذان کے احکام‘ مسائل‘ اہمیت و فضیلت‘ فوائد‘ احتیاطیں‘اسلامی تاریخ میں اس کی روایت اور موذن کا مقام و مرتبہ وغیرہ پر ایک مفید کتاب[ ۔
  • جزیرہ کی بازیافت‘ ڈاکٹرمحمدسعودعالم قاسمی۔ ناشر: فاران اکیڈمی‘ اقرا کالونی‘ علی گڑھ‘ یوپی‘بھارت۔ صفحات:۵۶۔ قیمت: ۳۰ روپے۔] بمبئی سے ۱۶۵ کلومیٹر دور واقع ریاست جنجیرہ (جزیرہ کی بگڑی ہوئی شکل) کے سفر کی ایک روداد۔ مصنف کی علمیت‘ شعری ذوق اور دل کش اسلوب نے اس روداد کو بہت دل چسپ بنادیا ہے۔[
  • جمعہ کی چھٹی کی دینی و قومی اہمیت‘ مولاناعامرعثمانی۔ناشر: مکتبہ الحجاز پاکستان۔ ۲۱۹-اے بلاک سی‘ الحیدری‘ شمالی ناظم آباد‘ کراچی-۷۴۷۰۰۔ صفحات: ۱۶۔ قیمت: ۵ روپے۔ ] یومِ جمعہ کی فضیلت و اہمیت اور جمعہ بطور تعطیل پر دل چسپ ‘ مدلل اور اثرآفریں تحریر۔[
  •  سورۃ الفاتحہ کے درس‘ خرم مراد‘ تدوین: امجدعباسی۔ ناشر: منشورات‘ منصورہ‘ لاہور۔ صفحات: ۷۲۔ قیمت: ۲۱ روپے۔] سورۃ الفاتحہ کے چار محفوظ دروس کی تحریری ترتیب و تدوین۔دل نشین انداز اور عام فہم اسلوب میں دین کی بنیادی باتوں کا بیان۔ عنوانات: خلاصۂ مضامین‘ شانِ نزول‘ اللہ کا تصور‘ شانِ ربوبیت‘ شانِ رحمت‘ شانِ عدل‘ بندگی اور عبادت‘ صراطِ مستقیم‘ ہدایت یافتہ لوگ--- تعلیمی‘ تربیتی اور دعوتی لحاظ سے ایک مفید کتاب۔[

تبصرے کے لیے دو کتابوں کا آنا ضروری ہے۔  (ادارہ)

گلوبلائزیشن اور اسلام  ‘مولانا یاسرندیم۔ ناشر: دارالکتاب‘ دیوبند ‘(بھارت)۔ صفحات: ۴۵۶۔ قیمت: درج نہیں۔

عالم گیریت یا گلوبلائزیشن‘ اکیسویں صدی کا ایک ایسا فتنہ ہے‘ جو اپنی تمام حشرسامانیوں کے ساتھ تدریجاً‘ لیکن نہایت تیزی سے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیتا جا رہا ہے۔ اگرچہ یہ اصطلاح بھی نئی ہے‘ اس کے اطلاقات بھی ‘اور اس کی جڑیں بیسویں صدی کے وسط میں بآسانی تلاش کی جاسکتی ہیں۔ لیکن مغرب سے آنے والی اس یلغار کا تعلق اٹھارھویں‘ انیسویں صدی کے اس دور سے ہے‘ جب اس سمت سے اٹھنے والا طوفان ایشیا‘ افریقہ اور جنوبی امریکہ کے عوام پر  قہر بن کر ٹوٹ پڑا تھا۔ مزاحمت کرنے والے سفاکی کے ساتھ نیست و نابود کیے جا رہے تھے‘ وسائل کا بے پناہ استحصال ہو رہا تھا‘ اور قیادت و حکومت’غیروں‘ کے ہاتھوں میں چلی گئی تھی۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد’نوآبادیات‘ کا یہ دور سمٹتا چلا گیا‘ لیکن اس کی جگہ ایک نئے استعمار نے لے لی‘ جو زیادہ ’نفیس‘ ، بظاہر نرم لیکن اندر سے اسی طرح سفاک اور بے رحم تھا۔

۱۹۴۵ء میں اقوامِ متحدہ (جس میں چار بڑی طاقتوں کو ساری دنیا کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے ویٹو کا اختیار دیا گیا) اور پھر ۱۹۹۰ء میں ’نیا عالمی نظام‘ (New World Order) اور پھر۱۹۹۵ء میں عالمی تجارتی کانفرنس میں ایک نئی عالمی تنظیم براے تجارت (WTO) کے پردے میں عالم گیریت کے عفریت نے جنم لیا‘ جو اپنی ساری حشرسامانیوں کے ساتھ ساری دنیا میں اکھاڑ پچھاڑ میں مصروف ہے۔ پچھلی صدی میں ۹۰ء کی دہائی میں روس کے انہدام کے بعد (جو مغربی استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کے لیے ایک چیلنج تھا)‘ کوئی قابلِ ذکر طاقت نہ رہی جو اس عفریت کو للکارتی۔ ماوزے تنگ کے بعد چین بھی اس ’زلف‘ کا اسیر ہوگیا‘ اور اب یہ ساری دنیا میں کوس’ ’لمن الملک‘‘ بجا رہا ہے۔

عالم گیریت کے حامی اسے جدیدیت کی ایک ایسی لہر قرار دیتے ہیں‘ جس کے ذریعے یورپ اور امریکہ کی ’خوش حالی‘ ساری دنیا کا مقدر بن جائے گی‘ سب کا معیارِ زندگی بڑھے گا‘ تعلیم و ثقافت عام ہوگی‘ صحت و مسرت سے سبھی فیض یاب ہوں گے۔ گویا دنیا سے پس ماندگی‘ تاریکی اور غربت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ مگر یہ ہوگا کس طرح؟ یوں کہ صنعت‘ تجارت (اور سیاست)‘ اور ثقافت کے لیے انسان کی بنائی ہوئی سرحدیں دھندلی پڑ جائیں گی‘ ساری دنیا ایک ایسا قصبہ     بن جائے گی‘ جس کے سارے شہری خوش حالی اور ترقی کے ثمرات سے یکساں مستفید ہوسکیں گے۔ مگر عملاً ہوا کیا؟ ہوا یہ ہے کہ مغربی قوتوں نے‘ جو ساری دنیا کے وسائل کے استحصال‘ سائنس اور فنیات کی ترقی اور سامانِ حرب و ضرب کے نتیجے میں پہلے ہی دنیا کے بیشتر ممالک پر حاوی ہوچکی تھیں۔ یہ مطالبے شروع کیے کہ تجارت‘ صنعت و حرفت اور دولت کی نقل و حرکت پر ساری پابندیاں ختم ہونی چاہییں۔

نتیجتاً پس ماندہ ملکوں میں مزاحمت کمزور پڑتی جا رہی ہے‘ بیشتر حکمران اور پالیسی ساز یا تو خرید لیے گئے ہیں‘ یا انھوں نے یہی مناسب جانا ہے کہ اپنے مفادات کو انھی سے وابستہ کریں۔ کھلی منڈی‘ ملکی تجارت‘ بے روک ٹوک وسائل کی حرکت کے نتیجے میں غریب ملکوں ہی کا نقصان ہو رہا ہے۔ ’کثیرالقومی‘ کمیٹیاں پس ماندہ ملکوں میں ہشت پا کی طرح وسائل کو چُوس رہی ہیں۔ سستی مزدوری اور وسائل سے اپنی مہارت کے نتیجے میں ’قدر افزونی‘ کے ذریعے اپنی دولت میں اضافہ کررہی ہیں۔ ایک کلچر‘ ایک زبان‘ اباحیت‘کرپشن‘ لادینیت کے ذریعے نہ صرف اخلاقی بندشیں ڈھیلی پڑتی جا رہی ہیں‘ بلکہ غربت‘ بے روزگاری اور لاقانونیت میں بھی اضافہ ہوا ہے‘ کیوں کہ عالم گیریت کا ایک اہم اصول ’نج کاری‘ بھی ہے‘ جس کے نتیجے میں حکومتیں اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہوکر عوام کی فلاح و بہبود اور خبرگیری کو اپنے استحصالی اداروں کے سپرد کر رہی ہیں‘ جن کا ایمان ’’کثیر ترین نفع کا حصول‘‘ (maximization of profit) ہے۔

اس نئے رجحان پر انگریزی اور دوسری مغربی زبانوں میں بہت سا لٹریچرآچکا ہے اور   آرہا ہے۔ اس کے حق میں بھی اور اس پر تنقید کرتے ہوئے اس کے خلاف بھی۔ اُردو میں گلوبلائزیشن اور اسلام اس موضوع پر ایک نئی کتاب ہے۔ فاضل مصنف نے جو دیوبند کے ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں‘ اور دینی علوم کے فاضل ہیں‘ عربی‘ انگریزی اور اُردو کے تمام دستیاب مصادر سے استفادہ کر کے اس نئے رجحان کی تاریخ‘ اس کے عواقب و نتائج پر سیرحاصل بحث کی ہے۔

مصنف کا کہنا ہے کہ ’’جدید گلوبلائزیشن جن نظریات کو دعوت دے رہا ہے‘ اور جن افکار وخیالات کو نافذ کرنا چاہتا ہے‘ وہ انھی جاہلی مفاسد کا عکس ہیں‘ جو ]قبل اسلام[ غضب ِ خداوندی کا باعث بنے تھے۔ جاہلیت کی طرح گلوبلائزیشن نے بھی سُود‘ اباحیت‘ اور جنس پرستی کو درست ٹھیرایا اور عالمی استحکام کے نام پر سیاسی انارکی پھیلائی۔ زمانۂ جاہلیت میں جس طرح مال داروں کے مفادات ہی کو محبوب رکھا جاتا تھا اور غُربا کی زندگی کو تنگ سے تنگ کر دیا جاتا تھا‘ عالم گیریت میں بھی چند گنی چُنی کمپنیوں کے مالکان اور ان کے ذاتی مفادات کی رعایت کی جاتی ہے۔ عالمی اقتدار پر چند طاقتوں ہی کا غلبہ ہے‘ جو سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کے ذریعے پوری دنیا کو غلام بنائے ہوئے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا بالکل درست ہے کہ آج کا گلوبلائزیشن زمانۂ جاہلیت کی کھلی تصویر اور اس کا عکاس ہے‘‘۔ (ص ۴۳۲-۴۳۳)

اس کتاب کی ایک بڑی خوبی ہے کہ فاضل مصنف نے اُردو کے قارئین کو اس موضوع پر لکھی جانے والی بہت سی عربی تحریروں سے روشناس کرایا ہے۔ تاہم انگریزی زبان میں موجود اس وسیع ذخیرے سے کماحقہ استفادہ نہیں کیا گیا‘ جو’گھر کے گواہ‘کی حیثیت سے دستیاب ہے‘ اور اس نظام کی تمام ہلاکت سامانیوں کے باوجود اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ بہت عرصہ نہیں گزرے گا کہ یہ طلسم تارِ عنکبوت کی طرح بکھر جائے گا۔ (پروفیسر ڈاکٹر عبدالقدیرسلیم)


حدزنا آرڈی ننس ۱۹۷۹: اعتراضات کی حقیقت‘ مرتبین: ظفرالحسن‘ زیتون حفیظ‘ غزالہ اسلم‘ اکیسراحمد۔ ناشر: ویمن ایڈ ٹرسٹ پاکستان‘ مکان ۳۷‘ گلی ۲‘ سیکٹر جی ٹین تھری‘ اسلام آباد۔ صفحات:۷۴ (ڈائریکٹری سائز)۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔

مظلومیِ نسواں کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ عصرحاضرمیں یہ ظلم مختلف روپ بدل بدل کر عورت کو نشانۂ ستم بنا رہا ہے۔ طرفہ تماشا دیکھیے کہ اس ظلم کی شکار ہستی عورت‘ ستم گر کے دام کو  دانہ سمجھتی نظرآتی ہے۔

قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ’اپوا‘ قسم کی تنظیموں نے مسلم عورت کو گھر کی چاردیواری سے کھینچ کر باہر لانے کا بیڑا اٹھایاتھا۔ وقتاً فوقتاً اس ہدف کی جانب بڑھنے کے مختلف بہانے تراشے گئے اور نئی نئی سبیلیں نکالی گئیں۔ گذشتہ ۲۵ برس سے اسی حلقے نے حدود آرڈی ننس پر تنقید کا بازار گرم کیا ہوا ہے‘ جس میں نام تو عورت کی ہمدردی کا ہے‘ مگر اس مہم کا نشانہ اسلامی تہذیب اور اسلامی قوانین ہیں۔ اس کتاب میں حدود آرڈی ننس ۱۹۷۹ء کے متن کا تعزیرات پاکستان کے سابقہ قوانین سے موازنہ کیا گیا ہے۔ یوں لفظی اور معنوی سطح پر اس پروپیگنڈے کے تاروپود بکھیرنے کی کوشش کی گئی ہے‘ جس کا سلسلہ بڑے تواتر سے جاری ہے۔ پھر حدود آرڈی ننس پر مختلف اعتراضات کا جائزہ لیتے ہوئے دیگر متعلقہ امور کو بھی زیربحث لایا گیا ہے اور آخر میں سفارشات پیش کی گئی ہیں۔

اہلِ علم کی جانب سے ‘ اس جارحانہ الزامی مہم کا ساتھ ہی ساتھ جواب دیا جاتا رہا ہے‘ لیکن زیرنظرکتاب میں اس بحث کو اختصار سے مرتب کیا گیا ہے۔ جتنا بڑا چیلنج درپیش ہے‘ اس میں گنجایش موجود ہے کہ اس موضوع پر مزید گہرائی سے کام کیا جائے۔ حدود آرڈی ننس ہو یا اس کتاب میں پیش کردہ سفارشات‘ سبھی پر بات کی جاسکتی ہے‘ مگر راستہ قرآن وسنت اور     تعامل صحابہؓ کی روشنی میں دیکھا جائے تو عصرِحاضر میں بہترراہیں متعین کی جاسکتی ہیں۔ البتہ اگر معاملات کو مغربی دبائو کے نتیجے میں ’’درست کرنے‘‘ کی کوشش کی گئی تو ان قوانین کی روح اور احکامِ الٰہی کا منشا دونوں متاثر ہوں گے۔

پیش لفظ میں ڈاکٹر محموداحمد غازی نے لکھا ہے: ’’یہ جائزہ ملک کے تمام اہلِ علم‘ خاص طور پر قانون دانوں اور قانون ساز حضرات تک پہنچنا چاہیے‘‘ (ص ۷)۔ بلاشبہہ اپنی موجودہ شکل میں یہ ایک موثر اور قابلِ لحاظ پیش کش ہے۔(سلیم منصورخالد)


محکماتِ عالمِ قرآنی‘ ڈاکٹر محموداحمد غازی۔ ناشر: دعوہ اکیڈمی‘ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی‘ پوسٹ بکس ۱۴۸۵‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۱۳۵۔ قیمت: ۳۰ روپے۔

جاویدنامہ (۱۹۳۲ئ) علامہ اقبال کی شاعرانہ فکر کا شاہکارہے۔ وہ اسے اپنی زندگی کا ماحصل (ان کے اپنے بقول: life work) بنانے کے لیے کوشاں رہے۔ اپنے اس مجموعۂ شعر کووہ ’’ڈوائن کامیڈی کی طرح ایک اسلامی کامیڈی‘‘ سمجھتے تھے‘ جس میں انھوں نے اپنے مرشد مولانا جلال الدین رومی کی معیت و رہنمائی میں مختلف افلاک اور سیاروں کا تصوراتی اور روحانی سفر کیا ہے۔ متعدد اکابر وشخصیات کی ارواح سے ملاقات و گفتگو کی اور اس حوالے سے ’’بہت سے روحانی تجربات‘ دینی حقائق‘ علمی افکار اورشاعرانہ خیالات‘‘ کا اظہار کیا۔ فلک عطارد کے دورے میں جمال الدین افغانی اور سعید حلیم پاشا کے ساتھ مکالمے میں علامہ نے ’’عالمِ قرآنی‘‘ کے عنوان کے تحت چار محکمات کا ذکر کیا ہے۔ زیرنظر کتاب میں اس حوالے سے عالمِ قرآنی کی تشکیلِ نو اور جہانِ قرآنی کی ازسرِنودریافت کو موضوعِ گفتگو بنایا گیا ہے۔ کتاب کا ضمنی عنوان ہے: ’’علامہ اقبال کی نظرمیں قرآنی دنیا کی امتیازی خصوصیات اور اس کی بنیادیں (جاوید نامہ کی روشنی میں)‘‘۔

جاوید نامہ کے مجموعی تنقیدی اور تجزیاتی مطالعے پر مبنی کئی ایک کتابیں اور تحقیقی مقالے ملتے ہیں۔ زیربحث تصنیف‘ اس کے صرف ایک مبحث (محکماتِ عالمِ قرآنی) سے متعلق ہے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب نے عالمِ قرآنی کی ان چار محکمات (خلافتِ آدم‘حکومت ِ الٰہی‘ زمین خدا کی ملکیت ہے‘ حکمت خیرکثیر ہے) پر اقبال کی شعری و فکری توضیحات کے حوالے سے کلام کیا ہے۔ ابتدا میں جاوید نامہ کامختصر تعارف ہے‘ بعدازاں چار ابواب میں چاروں محکمات پر بحث کی گئی ہے۔ آخر میں یہ وضاحت کہ عالمِ قرآنی وجود میں آسکتا ہے‘ بشرطیکہ افرادِ اُمت اہلِ فرنگ کی تقلید سے اجتناب کریں اور اپنی مملکتوں میں سرمایہ داری‘ جاگیرداری اور ملوکیت کے بجاے قرآنی نظام رائج کریں۔ جب وہ اپنے اسلوبِ حیات کو توازن‘ اعتدال اور فقرپر استوار کریں گے تو خودی اور اپنے حقیقی تشخص کو پالیںگے‘ اور یہ اُمت کی سربلندی کا راستہ ہوگا۔

جنابِ مولف کی یہ کاوش جاوید نامہ کے متعلقہ حصے کی ایک عمدہ تشریح ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ علامہ اقبال محض ایک شاعرہی نہ تھے‘ قانون و سیاست اور معاشیات پر بھی گہری نظر رکھتے تھے اور بجاطور پر انھیں شدید احساس تھا کہ دولت کی منصفانہ تقسیم کے بغیر‘  روے زمین پر عدل وانصاف کا قیام ممکن نہیں۔ کتاب کا معیار طباعت و اشاعت اطمینان بخش ہے مگر آغاز میں فہرست کی کمی کھٹکتی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


خیالوں کی مہک‘ عتیق الرحمن صدیقی۔ ناشر: نورِاسلام اکیڈمی‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۲۴۔ قیمت: ۹۶ روپے۔

معلم اگر باعمل بھی ہو تو اس کی ہر بات روح کی گہرائیوں تک اترتی چلی جاتی ہے۔ جناب عتیق الرحمن صدیقی ہمارے اہلِ قلم حضرات کے اُسی قافلے سے تعلق رکھتے ہیں جو گل و بلبل کے قصوں کو خیرباد کہہ کر اپنے زورِ قلم سے اور نورِ علم سے مسلمان معاشرے کی اصلاح میں تندہی سے مصروف ہے۔

زیرِنظر کتاب مختلف موضوعات پر لکھے گئے ایسے مضامین کا مجموعہ ہے جن میں مصنف نے معاشرتی اصلاح کے مقصد اور تعلیم و تلقین کے جذبے کے ہمراہ‘ دین مبین کی ترویج و تبلیغ میں جولانیِ قلم کا خوب خوب مظاہرہ کیا ہے۔ اُن کے یہ مضامین ایک سچے مسلمان اور ایک سچے پاکستانی کے جذبۂ حب الوطنی کے بھی آئینہ دار ہیں۔ حرفِ اول میں لکھتے ہیں: ’’میرے پیشِ نظر مقصد یہ ہے کہ اسلام کے سیاسی‘ معاشرتی‘ تعلیمی اور اخلاقی نقوش کو ابھارا اور اُجاگر کیا جائے تاکہ پاکستان میں فکروعمل کے اعتبار سے ایک صالح اور صحت مند معاشرہ وجود میں آئے‘‘۔

اُن کی یہ کتاب اول تا آخر اُن کے اسی عزم کی ترجمان نظرآتی ہے۔ وہ ارضِ پاکستان میں دین کے بنیادی علوم کے ہمراہ جدید سائنسی اور دیگر معاون علوم کی درس و تدریس سے ایک ایسا ریاستی نظام تشکیل دینے کے متمنی دکھائی دیتے ہیں جو تقویٰ و جہاد‘ عشق رسالتؐ اور عدل و مساوات کی عملداری کے ہم سفر جدید سائنسی ترقی کا بھی مظہر ہو۔

یہ مضامین اپنے متنوع موضوعات کے اعتبار سے ایک خوب صورت گلدستے کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ ان کے بعض سیاسی زاویہ ہاے نظر سے ہٹ کر سوچا جا سکتا ہے لیکن ان کے خلوص سے کسی صورت انکار نہیں کیا جا سکتا۔ (سعید اکرم)


حکایتیں کیا کیا‘ رضی الدین سید۔ نیشنل اکیڈمی آف اسلامک ریسرچ‘ کلفٹن‘ کراچی۔ صفحات: ۱۹۰۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔

ایک زمانہ تھا کہ اخبارات میں کالم صرف فکاہی نوعیت کے شائع ہوتے تھے۔ لیکن اب تو ہر طرح‘ ہر نوعیت اور ہر معیار و انداز کے کالم لکھے جا رہے ہیں‘ بلکہ کالم نگاری ایک الگ صنف بن گئی ہے اور کالم نگار اتنی سیاسی اہمیت اختیارکرگئے ہیں کہ بڑے بڑے سیاست دان‘ کالم نگاروں سے مناسب رابطہ رکھنے میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں--- رضی الدین سید کسی بڑے اخبار کے اس نوعیت کے معروف کالم نگار نہیں۔ ان کے کالم ان کے زخمی اور حساس دل کی پکار ہوتے ہیں اور گاہے بہ گاہے ملک کے مختلف اخبارات اور رسائل میں شائع ہوتے ہیں۔ اپنے ۴۱کالموں کو انھوں نے اس کتاب میں پیش کر دیا ہے۔

کالموں کے موضوعات میں بڑی وسعت اور تنوع ہے۔ خود ہی انھوں نے سیاسی‘ سماجی‘ مذہبی‘ فکری اور متفرق عنوانات میں ان کو تقسیم کیا ہے اور ان میں موجودہ پاکستانی معاشرے کے سب ہی پہلو زیربحث آگئے ہیں۔ معاشرہ آج جن تکلیف دہ مسائل کا شکار ہے‘ تجزیہ کیا جائے تو ان کا ایک سبب توعوام کی اپنی مسلمہ اقدار سے دُوری ہے۔ دوسرے‘ ملک کا اقتدار ایسے عناصر کے ہاتھوں میں ہے جو مسائل کے حل کے بارے میں لاپروا ہیں اور مغرب کی نقالی ہی کو معراج سمجھتے ہیں۔ بعض عنوانات سے کالم کی نوعیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے‘ مثلاً :علامہ اقبال بھی آج القاعدہ کے رکن شمار کیے جاتے--- اگر جاپان کے پڑوس میں ہندستان ہوتا--- اگر حج کی ادایگی پاکستان میں ہوتی--- وغیرہ۔

کتاب دل چسپ ہے اور ایمانی جذبے کی آبیاری کرتی ہے۔ رضی الدین سید انگریزی اور اُردو دونوں میں لکھتے ہیں‘ کئی کتابوں کے ترجمے کیے ہیں۔ ان کی اصل دل چسپی صہیونیت کے بارے میں احادیث نبویؐ کی پیش گوئیوں پر تحقیقات سے ہے۔ (مسلم سجاد)


آئینۂ کردار‘ ڈاکٹر زاہدمنیرعامر۔ ناشر: شیخ زاید اسلامک سنٹر‘ پنجاب یونی ورسٹی‘ لاہور۔ صفحات: ۱۱۲۔ قیمت: ۸۰ روپے۔

کردار اور بنی آدم ساتھ ساتھ چلے آ رہے ہیں۔ انسان تخلیق کیا گیا تو اس کا کردار بھی متعین کر دیا گیا کہ انسان کی اچھائی یا برائی کا انحصار اس کے کردار پر ہوگا۔

آئینۂ کردار میں تاریخی حوالوں کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ مختلف معاشروں میں اخلاق کی اہمیت مسلّم رہی ہے۔ جو قومیں اخلاق کے ضابطوں کو توڑتی ہیں وہ ذلیل و رسوا ہوجاتی ہیں۔ مصنف نے تاریخ کے مختلف ادوار میں اخلاق کے مختلف پیمانوں اور اتار چڑھائو کی وضاحت کی ہے اور موقع محل کی مناسبت سے حوالے اور اقوال بھی درج کیے ہیں۔استقامت‘ صبر‘ پاکیزگی‘ مطابقت‘ تشکر‘ سفارش اور کامیابی اور اسی طرح کے متعدد موضوعات پر اظہارخیال کیا گیا ہے۔

مولف کا دھیما اسلوب ایسا ہے جیسے کوئی سرگوشیاں کر رہا ہے۔ بات دل میں اترتی چلی جاتی ہے۔ الفاظ شناسی اور شگفتگی ان کے اسلوب کا خاصہ ہیں۔ عربی و فارسی اشعار کا حوالہ ان کے وسیع مطالعے کا ثبوت ہے۔ قارئین‘ کتاب کو دل چسپ پائیں گے۔ (قاسم محمود وینس)


تعارف کتب

  • احکامِ الٰہی‘ (کرنل) محمد ایوب خاں۔ ادارہ اشاعت القرآن‘ ۲۹۴‘ ایکس ٹینشن‘ کیولری گرائونڈ‘ لاہور کینٹ۔ صفحات: ۱۱۸۔ قیمت: ۵۰ روپے۔] ۱۸عنوانات: ایمان‘ توحید‘ عبادتِ خدا‘ ذکروصلوٰۃ‘ حج‘ کعبہ‘ روزے‘ سود‘ وصیت و وراثت‘ احکامِ سیاسی‘ ہجرت و جہاد‘ سزائیں وغیرہ کے تحت آیاتِ قرآنی کے تراجم یکجا۔ تاکہ ’’ایک نظر میں معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کن کاموں کو کرنے اور کن کاموں سے رُک جانے کا مطالبہ کرتا ہے‘‘۔[
  • جہت ساز تخلیقی شخصیت‘ ابوالامتیاز ع س مسلم‘ ڈاکٹر طاہر تونسوی۔ ناشر: القمرانٹرپرائزز‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات:۱۴۲۔قیمت: ۱۵۰ روپے۔] ع س مسلم کی شخصیت اور فن کے مختلف پہلوئوں: نعت گوئی‘ انشائیہ نویسی‘ نظم نگاری‘ ادبی نظریات‘ نیز شخصی اوصاف و میلانات وغیرہ کا تذکرہ اور تجزیہ۔ اعترافِ ہنر کی قابلِ قدر کاوش۔[
  • تاریخِ اندلس‘ سید ریاست علی ندوی۔ناشر: مکی دارالکتب‘ چوک اے جی آفس‘ لاہور۔ صفحات: ۴۰۰۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔]اُردو زبان میں اندلس کی یہ طبع زاد تاریخ پہلی بار ۱۹۵۰ء دارالمصنفین اعظم گڑھ سے چھپی تھی‘ یہ اس کی مکرّر اشاعت ہے۔[
  • Iqbal and His Contemporary Literary Movements ]اقبال اور ان کی معاصر ادبی تحریکیں[ : ظفراقبال رائو۔ناشر: اقبال اکادمی‘ ایوانِ اقبال‘ ایجرٹن روڈ‘ لاہور‘ ۲۰۰۳ئ۔] یورپ کی مختلف تحریکوں: سوشلزم‘ میگنیزم‘ فاشزم‘ سمبولزم‘ رومانٹے سیزم‘ مارکسزم وغیرہ کا ذکر اور ان کے باب میں اقبال کا رویہ۔ یہ کتاب‘ ایم فل اقبالیات کا ایک مقالہ ہے۔[

فتنہ انکارِ حدیث کا منظر و پس منظر‘ پروفیسر افتخار احمد بلخی۔ ناشر: کفایت اکیڈمی‘  شاہراہِ لیاقت‘ نزد فریر مارکیٹ‘ کراچی۔ صفحات: حصہ اول: ۲۰۸ ‘ حصہ دوم: ۴۰۳‘حصہ سوم: ۵۸۶ قیمت: اول:۱۲۵ روپے‘  دوم: ۲۱۰ روپے‘سوم: ۲۶۵ روپے۔

فتنہ انکارِ حدیث پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ بظاہر خردمندی کے علم بردار یہ حضرات اپنے باطن میں رسالت ِمحمدی صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے انکار کا ناسور پالے ہوئے ہیں۔

اب سے تقریباً پچاس برس پہلے ‘نوتشکیل شدہ ریاست پاکستان میں منکرین حدیث نے باقاعدہ سرکاری سرپرستی میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا تھا۔ ان کا اصل مقصد تحریک احیاے اسلام کا راستہ روکنا تھا۔اگرچہ اس فتنے کی تاریخ قدیم ہے‘ لیکن عصرِحاضر میں اس کا بڑا سبب مطالبہ نظامِ اسلامی ہی بنا۔ شعبہ معارف اسلامیہ‘ کراچی یونی ورسٹی کے سابق صدر پروفیسر افتخاراحمد بلخی ]م:۱۹۷۴ئ[‘ بلند پایہ عالم دین‘ معروف استاد‘ انفرادیت کے حامل محقق اور علومِ اسلامیہ بالخصوص ذخیرئہ حدیث پر گہری نظر رکھتے تھے۔ انھوں نے منکرین حدیث کا ہر قابلِ ذکر اقدام نوٹ کیا‘ ہرگھات پر نظر رکھی اور ہر اعتراض کو اصل مآخذ کی بنیاد پر مدلل انداز سے رد کیا۔

بلخی مرحوم نے غلام احمد پرویز] م: ۱۹۸۵ئ[ کے ہاں ترجمے کی غلطیوں‘ عربی سے ناواقفیت اور فہم دین و منصب ِ رسالتؐ سے بے خبری کوبے نقاب کرنے کے ساتھ مولانا مودودی کے دفاع کا بھی حق ادا کیا ہے۔ دفاع ان معنوں میں کہ منکرینِ حدیث نے دین اسلام کا حلیہ بگاڑنے کے لیے حدیث کے استہزا اور مولانا مودودی کے رد کے لیے بیک وقت اور بیک زبان جو مہم چلائی تھی‘ یہ کتاب اس دو طرفہ حملے کا بھرپور جواب ہے۔ یہ کتاب نہ صرف حجیتِ حدیث کے استدلالی سرمائے سے مالا مال ہے بلکہ مولانا مودودی کے دفاع کا فریضہ بھی ادا کرتی ہے۔ اس طرح مصنف نے دفاعِ دین کے جذبے سے اور اپنے وسیع مطالعے کی مدد سے انکارِ حدیث کی معاصر سرگرمیوں کا پوسٹ مارٹم کیا ہے۔ (سلیم منصورخالد)


اقبال کی شخصیت پر اعتراضات کا جائزہ ‘ پروفیسر ڈاکٹر محمد ایوب صابر۔ اہتمام: انسٹی ٹیوٹ آف اقبال اسٹڈیز‘ ناشر: کتاب سرائے‘ الحمدمارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور (مجلد مع اشاریہ)۔ صفحات: ۳۸۷۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

بعض افراد اپنے کام اور پیغام کے حوالے سے اپنے شخصی وجود سے نکل کر ایک تحریک‘ عہد یا رویے کی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ تاہم تاریخ میں ایسی شخصیات خال خال ہی ہوتی ہیں۔ علامہ محمد اقبال ایسی ہی ایک باکمال شخصیت تھے۔ شہرت‘ دولت اور قوت کی حامل شخصیات سے بعض اوقات افسانوی حکایتیں منسوب کر دی جاتی ہیں یا پھر اُن کو حاسدانہ اور رقیبانہ الزام تراشی کی آگ میں جلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ افسوس کہ اقبال کے ساتھ بھی بہت سے  ’دانش وروں‘ نے یہی معاملہ کیا۔

اقبال نہ معصوم عن الخطا تھے اور نہ کوئی فوق البشر۔ غلطی اور کوتاہی کا صدور ہر کسی سے ممکن ہے لیکن اقبال شکنی کی گذشتہ ایک سو سالہ روایت میں اُن کے کرم فرمائوں نے اتہام و الزام کی جو گولہ باری ان پر کی‘ اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کے دشمن اور حاسد‘ بڑے ہی چھوٹے لوگ تھے۔ مختلف اوقات میں وضع کیے جانے والے ایسے سترہ الزامات کی فہرست پروفیسرموصوف نے اس کتاب میں پیش کی ہے۔ مثال کے طور پر: طوائف کا قتل‘ شراب نوشی‘ معاشقے‘ سر کا خطاب‘ مسلم سامراجیت‘ بداعمالی‘ تضاد فکر‘ وغیرہ وغیرہ۔

مصنف نے اس نوعیت کے الزامات کا پس منظر پیش کرتے ہوئے داخلی و خارجی شواہد کی بنیاد پر ہر الزام کا جواب پیش کیا ہے اور اپنی اس کاوش کو دستاویزی حوالوں سے مرصع کیا ہے۔ یہ ایک مشکل اور صبرآزما کام تھا‘ جسے پیش کرنے کے لیے صبر ایوب کی صفت سے نسبت ضروری تھی۔ کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے الزامات ’’سنا تھا‘‘، ’’کیا ہوگا‘‘ اور ’’مشہور تھا‘‘ جیسے اسلوبِ بیان کے رہینِ منت ہیں‘ جب کہ بعض چیزوں کو زندگی کے ارتقائی جواز سے یکسر کاٹ کر اقبال کے مجموعی سراپے پر تھوپ دیا گیا ہے۔ مصنف نے ہر الزام کا باریک بینی سے مطالعہ کرکے الزام لگانے والے کا کمال تعاقب کیا ہے اور اس الزامی مہم کا جائزہ لیتے ہوئے اقبال کو ایک انسان‘ ایک شاعر اور ایک مسلمان کی حیثیت سے جانچا اور پرکھا ہے۔

احمد ندیم قاسمی کو اپنے ’’انقلابی‘‘شعور کے باوجود علامہ اقبال کا ’شاہین‘ ناپسند ہے کہ وہ  بے چارے کبوتر کو شکار کرتا ہے۔ اس ’معصومانہ اعتراض‘ کے پس پردہ محرکات پر بھی بحث کی جاتی تو اچھا تھا۔ اس ضمن میں یہ بات قابلِ غور ہے کہ بعض لوگوں نے علامہ سے تمام تر عقیدت کے باوجود‘ بعض پہلوئوں سے اقبال سے علمی اختلاف کیا ہے‘ کیا ایسے حضرات (مثلاً سلیم احمد وغیرہ) کو اقبال مخالفین کے کیمپ میں دھکیل دینا مناسب ہے۔

سہیل عمر نے تقریظ میں بجا طور پر متوجہ کیا ہے کہ ]ایوب صابر[ اقبال دشمنی کے اس  مخفی رویے کا بھی محاکمہ کریں جو علامہ کے چند نادان دوستوں کے ہاں نظرآتا ہے مثلاً:اقبال مجدد مطلق ہیں‘ اقبال تاریخِ انسانی کے عظیم ترین شاعر ہیں‘ اقبال دنیا کے سب سے بڑے مفکر ہیں‘ وغیرہ وغیرہ۔ ایسی تہمتیں زیادہ خطرناک ہیں جو امین زبیری ایسے لوگوں نے اقبال پر لگائی ہیں۔ (ص ۹)۔ مجموعی طور پر یہ کتاب اقبالیاتی ادب میں ایک فکرانگیز اضافہ ہے۔ (س- م- خ)


Our First Book of Science‘ ] سائنس کی پہلی کتاب[ ڈاکٹرعبدالوحید چودھری۔ ناشر: دعوہ اکیڈمی‘ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی‘ اسلام آباد۔ صفحات:۱۰۷۔ قیمت:۵۰روپے۔

سائنسی معلومات پر مبنی اس کتاب کو اسلامی نقطۂ نظر سے ترتیب دینے کی کوشش کی گئی ہے‘ یعنی سائنس کو ‘ جسے ایک لادینی علم سمجھا جاتا ہے‘ اس انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کا وجود اور اس کا خالق و مالکِ کائنات ہونا ثابت ہو۔ اگرچہ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ ایک انتہائی اہم اور ضروری کام ہے‘ لیکن سیکڑوں برس کی غفلت اور علمی تحقیق سے دُوری کے سبب آج ہمیں اسلامی تعلیمات سے جدید علوم کی مطابقت پیدا کرنے کا کام ایک کوہِ گراں معلوم ہوتا ہے۔  تاہم اس مقصد کے لیے ابتدائی سطح پر کوششیں کی جا رہی ہیں۔

زیرِنظرکتاب بھی ایک ایسی ہی کوشش ہے لیکن شاید اتنی کامیاب نہیں ہے۔ کتاب میں اگرچہ آیاتِ قرآنی کے حوالے اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں حمدیہ کلمات جابجا دیے گئے ہیں‘ تاہم مصنف سائنسی معلومات کوایک جامع اور باضابطہ طریقے سے پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ غالباً انھیں سائنس پر مناسب عبور حاصل نہیں ہے جس کے سبب انھوں نے کئی باتیں خلافِ حقیقت بھی لکھ دی ہیں‘ مثلاً: یہ کہ ’’خلا میں (بے وزنی کی کیفیت کے سبب) ہم ایک پورے خلائی جہاز (اور کسی بھی بڑی سے بڑی چیز) کو اپنی انگلی کے ذریعے اٹھا سکتے ہیں‘‘۔ (ص۱۹)۔ اسی طرح سائنس میں power (اردو: طاقت) ایک اصطلاح ہے جس کا ایک مخصوص اور معین مفہوم ہے مگر زیرنظر کتاب کے مصنف نے اس لفظ کو عمومی انداز میں جابجا اس طرح استعمال کیا ہے کہ اس کے معنی بالکل مبہم ہوجاتے ہیں‘ مثلاً:  Power of Gravity‘ Power of Heat ‘ Air Power‘  Power of Water‘اور (water's) Power to Dissolve وغیرہ۔ پھر اسی لفظ کو اللہ تعالیٰ سے منسوب کرنا (He has power over every thing) سائنسی ہی نہیں‘ دینی نقطۂ نظر سے بھی نامناسب ہے‘ کیونکہ سائنسی اصطلاح power کااطلاق محض مادی اجسام پر کیا جا سکتا ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ کی اس صفت سے کوئی نسبت نہیں ہے جس کے لیے ’’قدرت‘‘ (Authority)کا لفظ زیادہ موزوں ہے۔

کتاب میں پروف ریڈنگ کی غلطیاں بکثرت ہیں۔ اس کی پیش کش (layout) میں بھی نہ صرف خوب صورتی اور کشش نہیں ہے بلکہ اس معاملے میں خاصی غفلت اور تساہل سے کام لیا گیا ہے۔ خصوصاً صفحہ ۵۱ پر متن اور لے آئوٹ کی اغلاط کی بھرمارہے۔

اگر یہ کتاب آزمایشی اور تجرباتی بنیادوں پر شائع کی گئی ہے تو ہماری درخواست ہے کہ اسے دوبارہ شائع کرنے سے پہلے اس پر بھرپور اور ہمہ گیر نظرثانی کی جائے اور درج بالا گزارشات کو ملحوظ رکھا جائے۔ (فیضان اللّٰہ خان)


مادرِ ملّت اور بلوچستان‘ ڈاکٹر انعام الحق کوثر۔ناشر: سیرت اکادمی بلوچستان (رجسٹرڈ)‘ سیٹلائٹ ٹائون‘ کوئٹہ۔ صفحات: ۱۲۷۔ قیمت: ۱۸۰ روپے۔

۲۰۰۳ء کو محترمہ فاطمہ جناح کے سال کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا تو ان کی حیات و خدمات کے حوالے سے متعدد کتابیں منظرِعام پر آئیں۔ زیرِنظرکتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ کتاب کا موضوع صوبۂ بلوچستان کے حوالے سے محترمہ فاطمہ جناح کی یادوں اور خدمات کا احاطہ ہے۔ ایک حصے میں محترمہ کی اُن سرگرمیوں (مختلف علاقوں کے دوروں‘ عوامی و سیاسی اجتماعات میں شرکت اور عوام سے خطاب) کی تفصیل فراہم کی گئی ہے جن کا تعلق صوبۂ بلوچستان سے ہے۔ دوسرے حصے میں محترمہ فاطمہ جناح سے متعلق بلوچستان کے اہلِ قلم کے مضامین و منظومات شامل ہیں۔ اس کتاب کے خاص مشمولات درج ذیل ہیں:

۱-  جولائی ۱۹۴۳ء میں کوئٹہ میں خواتینِ بلوچستان مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی روداد اور تقریریں۔ اس اجلاس میں محترمہ فاطمہ جناح بھی شریک تھیں۔ مولف نے یہ تفصیلات ہفتہ وار الاسلام (کوئٹہ‘ خواتین نمبر) بابت ۷؍رجب ۱۱ جولائی ۱۹۴۳ء سے حاصل کی ہیں۔

۲-  ’’مادرِ ملت بلوچستان میں --- قدم بہ قدم‘‘ کی توقیت بھی اہم ہے۔

۳-  بیرسٹر یحییٰ بختیار اور قاضی محمد عیسیٰ سے محترمہ فاطمہ جناح کی مراسلت ۔

کتاب کے مولف کسی تعارف کے محتاج نہیں ہے۔ وہ اس سے قبل کئی علمی و ادبی تصنیفات و تالیفات اُردو دنیا کو دے چکے ہیں۔ تازہ کتاب بھی ان کے معیارِ قلم کی روایت کا حصہ سمجھی جانی چاہیے۔ (رفاقت علی شاہد)


اسلام‘ انٹرنیٹ پر‘ محمد متین خالد۔ناشر: علم و عرفان پبلشرز‘ ۳۴- اُردو بازار لاہور۔ صفحات: ۲۵۶۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔

انٹرنیٹ دورِ جدید کی انتہائی اہم دریافت و ایجاد ہے۔ اس نے فاصلے ختم کر دیے ہیں اور رابطوں کے اخراجات میں بھی غیرمعمولی کمی کر دی ہے۔ مذکورہ کتاب میں انٹرنیٹ کے بارے میں تعارفی مضامین کے علاوہ درجنوں سائٹس کا سرسری تعارف بھی شامل ہے جو اسلام‘ اسلامی تعلیمات‘ قرآن‘ حدیث‘ فقہ‘ تاریخ‘ مسلم دنیا اور مسلمانوں کے وسائل وغیرہ کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہیں۔

ایک طرف تو انٹرنیٹ کے ذریعے انارکی‘ خلفشار اور فحاشی کو پھیلانے کا کام وسیع پیمانے پر ہو رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایسی سائٹس کا قیام خوش آیند ہے جو اسلام کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے قائم ہوئی ہیں‘ متین خالدنے محنت شاقہ کے بعد اہم سائٹس کے کوائف اس کتاب میںجمع کر دیے ہیں۔ ایسی سائٹس بھی موجود ہیں جہاں سے آپ قرآن پاک اٹھارہ زبانوں میں حاصل (ڈائون لوڈ)کر سکتے ہیں‘ اسی طرح اسلامی تاریخ کے تمام واقعات کی تفصیلات جان سکتے ہیں‘ روز مرہ مسائل کا شرعی حل جان سکتے ہیں اور کعبۃ اللہ اور مسجد نبویؐ کی اذان سن سکتے ہیں وغیرہ۔

اس کتاب کا ایک اور قابلِ تعریف پہلو یہ بھی ہے کہ مصنف نے اپنی حد تک قادیانیوں کی اور یہودیوں کی سائٹس کے پتے بھی دیے ہیں تاکہ ایسی اسلام دشمن طاقتوں سے آگاہی ہوسکے۔ موجودہ دور کی ضروریات کے اعتبار سے یہ ایک قابلِ قدر کتاب ہے۔ (محمد ایوب منیر)


ربا کیس: حکومتی وکلا کے دلائل کا جواب‘ سید معروف شاہ شیرازی۔ ناشر: منشورات اسلامی بالمقابل منصورہ‘ لاہور۔صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: ۶۰ روپے۔

آئینِ پاکستان میں متفقہ طور پر قرآن و سنت کو سپریم لا قرار دیا گیا ہے لیکن اقتدار کی راہداریوں میں براجمان بیوروکریسی‘ اس آئین کی جس طرح بے حُرمتی کرتی چلی آ رہی ہے اس کی ایک جھلک فاضل مصنف نے زیرنظر کتاب میں دکھائی ہے۔

جون ۲۰۰۲ء میں سپریم کورٹ نے ربا کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پر سودی نظام کے حق میں حکومتی وکیل کاظم رضا اور یونائٹیڈ بنک کے وکیل راجا اکرم نے دلائل دیے۔ مصنف نے ان دلائل پر بحث کرتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ قرآن وسنت سے متصادم ہیں اور اس معاملے میں حکومتی بدنیتی واضح ہوتی ہے۔ مصنف نے بتایا ہے کہ دنیابھر میں سود سے نجات کے لیے کوشش اور تجربے ہو رہے ہیں‘ مثلاً: جاپان نے سود زیرو کے قریب کر دیا ہے اور دوسرے ممالک کو صنعت کے لیے ایک فی صد یا اعشاریہ ۵ فی صد پر قرض دے رہا ہے (ص ۷۳)۔ سوڈان میں جاری اسلامی بنک کاری‘ پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹوں اور پاکستان کے تجویز کردہ ماڈل پر مبنی ہے (ص ۸۱)۔ اس طرح بعض دیگر اسلامی ممالک (بنگلہ دیش وغیرہ) میں بھی کامیابی کے ساتھ بلاسود بنک کاری ہو رہی ہے۔

مذکورہ کتاب کے باب ششم میں فاضل مصنف نے ترقی پذیر ممالک پر امریکہ‘ ورلڈ بنک‘ آئی ایم ایف‘ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مار دھاڑ اور نام نہاد مسلمان حکمرانوں کی بے حمیتی کے نمونے جمع کیے ہیں۔

مختصر یہ کہ اس موضوع پر یہ ایک عمدہ اور مفید و معاون کتاب ہے۔ البتہ پروف خوانی مزید توجہ سے ہونی چاہیے۔ (عبدالجبار بھٹی)


نیل کا مسافر (ناول) اختر حسین عزمی۔ ناشر: اذانِ سحرپبلی کیشنز‘ ۴۲- چیمبرلین روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۱۵۹۔ قیمت: ۸۰ روپے۔

اخوان المسلمون کے بانی اور مرشدعام سید حسن البناؒشہید کی داستانِ عزیمت کو ناول کے دل چسپ پیرائے میں پیش کیا گیا ہے۔ مصنف نے اپنی اس کاوش میں ادبی اور تحریکی دونوں تقاضوں کو نبھانے کی کوشش کی ہے۔

اس ناول سے سید حسن البناؒ کی ابتدائی زندگی‘ تعلیمی کارناموں‘ سماجی خدمات‘ دعوتی سرگرمیوں‘ اس دور میں مصر کے سیاسی حالات‘ اخوان المسلمون کے قیام‘ اسے درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات اور قیدخانوں میں ڈھائی جانے والی صعوبتوں کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور پتا چلتا ہے کہ حسن البنا شہید کو کس طرح شہید کیا گیا۔اسی طرح اصلاحِ احوال اور غلبۂ دین کے لیے اخوان المسلمون کے قائد کی فکرمندی‘ فرقہ بندی کے خلاف چارہ جوئی‘ تزکیہ نفس پر زور‘ حکیمانہ دعوتی اسلوب‘ لذتِ تقریر اور مدلل اندازِگفتگو سمیت ان کی شخصیت کے کئی پہلوئوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ مصنف کا اصلاحی اسلوب پورے ناول پر محیط ہے۔ ناول سادہ اور بیانیہ نثرمیں لکھا گیا ہے۔ ناول کی فنّی باریکیوں سے قطع نظر‘مصنف نئی نسل کے سامنے حسن البنا شہیدؒ کی شخصیت کو ایک آئیڈیل کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں اور اس میں وہ کامیاب ہیں۔ (سلیم اللّٰہ شاہ)


ڈاکٹر محمد حمیدؒاللہ کی بہترین تحریریں‘ مرتب: سید قاسم محمود۔ ناشر: بیکن بکس‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۹۲۔ قیمت مجلد: ۲۷۵ روپے۔

ڈاکٹر حمیدؒاللہ کے انتقال کے بعد اہلِ علم نے ان کی یاد کا حق ادا کر دیا ہے۔ یقینا یہ معاشرے کی زندگی کی علامت ہے۔ ایک طرف یادگاری مضامین کا سلسلہ شروع ہوا تو دوسری طرف کتب آناشروع ہوگئیں۔ اس سلسلے کی زیرِنظر کتاب حسنِ ترتیب اور حسنِ طباعت کے لحاظ سے بڑی دل کش ہے۔ حسنِ تدوین کے لیے سید قاسم محمود کا نام ضمانت ہے۔ ڈاکٹر حمیداللہ کے چند اہم مضامین سلیقے سے ترتیب دے کر جمع کر دیے گئے۔

کتاب میں ۱۲ خطبات بہاولپور کی تلخیص و تسہیل اور ۴۰ استفسارات کے جواب شامل ہیں۔ پہلے حصے میں حمیداللہ مرحوم کی شخصیت پر چند مطبوعہ مضامین (محمود احمد غازی‘ صلاح الدین شہید‘ شاہ بلیغ الدین) ہیں۔ آخر میں ایک ہی صاحب کے نام ان کے مکتوبات ہیں جن پر وضاحتی نوٹ بھی دیے گئے ہیں۔ ان تین طرح کے آئینوں میں ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی شخصیت چلتی پھرتی دیکھی جاسکتی ہے اور ان کی وسعتِ نظر اور تبحرعلمی کا اندازہ ہوتا ہے۔

غرض یہ کتاب ڈاکٹرمحمد حمیداللہ کے لیے نہایت موزوں اور قرار واقعی خراجِ عقیدت و تحسین ہے جس کا مطالعہ قاری کو ان کی زندگی اور کام کے ہر پہلو سے بلاواسطہ آگاہی دیتا ہے۔ کتاب کے نام میں ’’بہترین‘‘ کے بجاے ’’منتخب‘‘ زیادہ بہتر ہوتا۔ (مسلم سجاد)


تعارفِ کتب

  • نونہال‘ خاص نمبر‘ مدیر: مسعود احمد برکاتی‘ ناشر: دفتر ہمدرد نونہال‘ ڈاک خانہ ناظم آباد‘ کراچی-۷۵۶۰۰۔ صفحات: ۱۸۴۔ قیمت: ۲۰ روپے۔] نونہال‘ پچاس سال سے بچوں کا معیاری ادب پیش کر رہا ہے۔ یہ اس کا خاص نمبر ہے۔ دل چسپ اور سبق آموز مضامین‘ کہانیاں‘ نظمیں وغیرہ۔ بچوں کی ذہنی استعداد بڑھانے اور ان میں مثبت‘ تعمیری جذبات پیدا کرنے کی قابلِ قدر کاوش۔[
  • مسائل حج و عمرہ‘ مولاناغلام محمد منصوری۔ پتا: مکتبہ برہان‘ اُردو بازار‘ کراچی۔ صفحات:۴۱۴۔ قیمت: درج نہیں۔] اپنے موضوع پر مفید کتاب‘ مگر کتابت زیادہ جلی اور صفحات زیادہ ہیں۔ قدرے مختصر‘ کم ضخامت ہو تو افادیت کا دائرہ وسیع ہوگا۔[

امام ابوحنیفہؒ ، حیات‘ فکر اور خدمات۔ ترتیب و تدوین: محمد طاہر منصوری‘ عبدالحی ابڑو۔ ناشر: ادارہ تحقیقاتِ اسلامی‘ پوسٹ بکس ۱۰۳۵‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۲۸۲۔ قیمت: درج نہیں۔

نوآبادیاتی دور کے خاتمے پر اُمت مسلمہ ایک بار پھر اپنے ماضی کی روشن روایت اور دورِحاضر کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسلامی معاشرے کی تشکیل و تعمیر میں مصروف ہے۔ اس مرحلے پر دورِ غلامی کے اثرات اورجدید ٹکنالوجی کی وجہ سے اور دنیا کے سمٹ جانے اور مغرب کی معاشی اور ابلاغی بالادستی کی وجہ سے جو عملی مسائل درپیش ہیں‘ ان میں شریعت کی رہنمائی معلوم کرنے کے لیے اسلاف کے کارناموں سے اکتساب نو ناگزیر ہے۔ ۵-۸ اکتوبر ۱۹۹۸ء کو اسلام آباد میں امام ابوحنیفہؒ کی حیات‘ فکر اور خدمات پر ادارہ تحقیقات اسلامی کی بین الاقوامی کانفرنس اس سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ زیرتبصرہ کتاب اس کانفرنس کے نو منتخب مقالات اور ایک نہایت قیمتی معلومات سے پُرچھ صفحاتی  ’حرف اول‘ پر مشتمل ہے۔

اس وقت پاکستان‘ بھارت‘ بنگلہ دیش‘ ترکی‘ مصر‘ شام‘ فلسطین‘ اُردن‘ عراق‘ افغانستان‘ وسطی ایشیا‘ مشرقی یورپ اور کئی دوسرے ممالک میں مسلمانوں کی اکثریت حنفی المذاہب ہے۔ماضی میں سلطنت مغلیہ اور سلطنت عثمانیہ کا سرکاری مذہب بھی حنفی فقہ تھا۔ اس فقہ کی مقبولیت کا راز شرعی فرائض میں رفع حرج ومشقت‘ تکلیف بقدر استطاعت اور سہولت و آسانی کے اصولوں کا لحاظ ہے جو دوسرے مسالک میں نہیں ملتا۔ اسی طرح‘ عرف و عادت اور استحسان کے حنفی اصول اسلامی قانون کو ترقی دینے اور معاشرے کی بدلتی ہوئی ضروریات اور تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ فاضل مقالہ نگاروں کی تحریروں سے یہ تمام پہلو اُجاگر ہوگئے ہیں۔

تاریخی و نظری لحاظ سے مقالات بہت خوب ہیں‘ لیکن ایک ایسے مقالے کی ضرورت باقی رہ گئی جس میں دورِ حاضر کے بعض اہم متعین پانچ سات مسائل کے بارے میں فقہ حنفی کی رہنمائی پر بحث کی جاتی۔

امام ابوحنیفہؒ کی مجلس فقہ نے کوفہ میں ۱۵۰ھ میں ان کی رحلت تک ۳۰ برس کام کیا۔ یقینا اجتماعی مشاورت نے اس فقہ کو برکت عطا کی۔ امام اعظم نے ۵۵ حج کیے اور اس طرح مدینہ کے اہل علم و فضل سے بھی براہِ راست اکتسابِ فیض کیا۔

ادارہ تحقیقات اسلامی نے اشاعت کتب کے باب میں جو اعلیٰ معیار قائم کیا ہے‘ اس پر مبارک باد کا مستحق ہے۔ وسائل تو تمام سرکاری اداروں کو ملتے ہیں‘ لیکن ان کا بہترین‘ دل و نظر کو خوش کر دینے والا مقصدی استعمال ہر کسی کے نصیب میں نہیں۔ (مسلم سجاد)


مجلہفکرونظر ،خصوصی اشاعت: ڈاکٹرمحمد حمیدؒاللہ۔ مدیر: ڈاکٹر صاحبزادہ ساجدالرحمن صدیقی۔ ناشر: ادارہ تحقیقاتِ اسلامی‘ پوسٹ بکس ۱۰۳۵‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۶۱۳۔ قیمت: ۶۰ روپے

ڈاکٹر محمد حمیدؒاللہ کی رحلت کو ایک سال ہوچلا ہے‘ اس عرصے میں ان کی شخصیت اور کارناموں پر بیسیوں مضامین اور متعدد کتابیں سامنے آئی ہیں۔ زیرنظر مجلے فکرونظر کی ضخیم خصوصی اشاعت ’’مطالعۂ حمیدیات‘‘ کے ضمن میں ان سب پر فائق حیثیت رکھتی ہے۔

مرحوم کو ادارۂ تحقیقات اسلامی سے خاص تعلق تھا۔ ادارے نے ان کی یاد تازہ کرنے کے لیے سب سے پہلے (۲۱ جنوری ۲۰۰۳ء کو) ایک سیمی نار منعقد کیا اور اب اپنے مجلے کا ایک نہایت وقیع اور قابلِ قدر ڈاکٹر محمد حمیداللہ نمبر شائع کیا ہے جو بلاشبہہ مرحوم کے لیے بہترین  خراجِ تحسین کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ نمبر دو درجن سے زائد تقریباً سارے کے سارے نئے مضامین تحقیقی اور تاثراتی پر مشتمل ہے‘ جن میں ڈاکٹرمحمد حمیداللہ کی شخصیت اور ان کی علمی جہات کو‘ ان کے نیاز مندوں کے ذاتی مشاہدات‘ شخصی تعلقات اور مرحوم کے مکاتیب اور تحریروں کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔ ڈاکٹرظفر اسحاق انصاری نے مرحوم کے ساتھ برسوں (۱۹۴۸ء تا وفات) پر محیط یادوں کا احاطہ کیا ہے۔ ڈاکٹر نثاراحمد نے ’’المجلس العلمی‘‘ (سورت‘ گجرات‘ بھارت) کے ساتھ ڈاکٹر محمد حمیداللہ کے علمی تعاون اور رہنمائی کی تفصیل بیان کی ہے۔ عذرا نسیم فاروقی اور محمدعبداللہ نے خطباتِ بہاولپور کے پس منظر اور ان کی علمی حیثیت و اہمیت کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کیا ہے۔ مرحوم کی قرآنی مترجم‘ مفسر اور محقق کی حیثیت پر صلاح الدین ثانی نے‘ خدماتِ حدیث پر نثار احمد فاروقی نے‘ خدمات سیرت پر خالد علوی اور محمد اکرم رانا نے‘ فقہی افکارپر ظفرالاسلام اصلاحی نے‘ قانون بین الممالک اور بین الاقوامی اسلامی قانون پر محمد الیاس الاعظمی‘ محمد ضیاء الحق‘ محمد طاہر منصوری نے روشنی ڈالی ہے۔ خورشید رضوی اور احمد خان نے مرحوم کے خطوط کے حوالے سے ان کی شخصیت کو اور علمی نکات و معارف کو اجاگر کیا ہے۔ قاری محمد طاہرنے مرحوم کے چند تفردات اورمحمد ارشد نے مغرب میں دعوتِ اسلام کے سلسلے میں مرحوم کی خدمات کا دقت ِ نظر سے جائزہ لیا ہے۔ حافظ محمد سجاد نے معارف (اعظم گڑھ) سے مرحوم کی تاحیات وابستگی کی تفصیل پیش کی ہے۔ سارے ہی مضامین ایک علمی لگن سے لکھے گئے ہیں۔تقریباً ایک سو صفحات میں ڈاکٹر محمدحمیداللہ کے منتخب مقالات بھی دیے گئے ہیں۔ آخر میں مرحوم کی تصانیف اور ان کے مقالات کی ایک جامع فہرست (مرتبہ: اظہار اللہ+ طارق مجاہد) شامل ہے۔ ڈاکٹر محموداحمد غازی نے مرحوم کی علمی خدمات کا ایک عمومی لیکن جامع جائزہ لیا ہے۔

یہ خاص اشاعت بڑی محنت و کاوش اور ڈاکٹر محمدحمیداللہ سے محبت کے جذبے سے مرتب کی گئی ہے اور اپنے موضوع پر ایک یادگار دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ ادارئہ تحقیقات پر یہ مرحوم کا حق بھی تھا جسے ادا کرنے کی یہ سعی مستحسن اور قابلِ داد ہے۔ اگر ادارہ خطباتِ بہاولپور کے نمونے پر مرحوم کی دیگر تصانیف کو بھی خاطرخواہ تہذیب اور تحقیق و تدوین کے بعد شائع کرنے کا اہتمام کرے تو یہ ادارے کے لیے نیک نامی بلکہ فخرکا باعث ہوگا۔(رفیع الدین ہاشمی)


اقبال اور مسلم تشخص‘ ڈاکٹر خالد علوی۔ ناشر: دعوۃ اکیڈمی‘ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی‘پوسٹ بکس ۱۴۸۵‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۱۴۸۔ قیمت: ۶۰ روپے۔

علامہ اقبال کی شاعری کا سب سے بڑا موضوع ملتِ اسلامیہ ہے۔ ان کے نزدیک ملّت کی ہیئت ترکیبی تاریخِ عالم میں قطعی منفرد ہے۔ خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی!

اقبال کی عظیم الشان فکر کا بڑا حصہ اسی ’’ترکیب‘‘ کو سمجھنے سمجھانے اور اس کی توضیح و تفسیر بالفاظِ دیگر  اس کے ملّی تشخص کی وضاحت پر مشتمل ہے۔ اس اعتبار سے پروفیسر ڈاکٹرخالد علوی نے اپنی علمی کاوش کے لیے اقبالیات کے ایک بنیادی موضوع کو منتخب کیا ہے۔ اُن کے بقول اُس مختصر کتاب میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ مسلم تشخص کی حفاظت کے اس سفر میں اقبال کی بیش قیمت رہنمائی کو بیان کیا جائے۔

غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اقبال کے بیشتر اہم تصوراتِ فکر (خودی‘ بے خودی‘ عشق‘ فقر‘ تصوف‘ مردِ مومن وغیرہ) ان کے تصورِ ملّت ہی سے مربوط ہیں۔ ملّتِ ختم رسل کا خاص امتیاز یہ ہے کہ وہ غیراسلامی تہذیبوں خصوصاً مغربی تہذیب اور اس سے پھوٹنے والے لادینی نظاموں اور طور طریقوں کو کسی طرح قبول نہیں کرتی۔ چنانچہ ڈاکٹر خالد علوی نے بتایا ہے کہ علامہ اقبال نے مغرب کی الحادی فکر اور نظاموں خصوصاً سرمایہ داری‘ اشتراکیت‘ مغربی جمہوریت اور سب سے بڑھ کر قوم پرستی (نیشنلزم) پر بھرپور تنقید کی ہے اور یوں اقبال کا پیش کردہ مسلم قومیت اور مسلم تشخص کا تصور واضح ہو کر سامنے آتا ہے۔بلاشبہہ علامہ اقبال کو برعظیم میں دو قومی نظریے کے ایک بڑے علمبردار کی حیثیت حاصل ہے۔ یہی دو قومی نظریہ تصورِ پاکستان کی بنیاد ثابت ہوا۔ ڈاکٹر خالد علوی نے اُمت مسلمہ خصوصاً برعظیم کے مسلمانوں کے سیاسی امور و مسائل کو اقبال کے نظریاتی فریم ورک سے مربوط کر کے‘ اُن کی بیش بہا سیاسی خدمات و رہنمائی کو اس طور اُجاگر کیا ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ ان کی سیاسی خدمات‘ روز مرہ کی سیاسی سرگرمیوں تک محدود نہ تھیں بلکہ ان سے آگے بڑھ کر‘ فکری و نظریاتی رہنمائی تک وسیع تھیں۔ دین و سیاست کی ہم آہنگی پر اقبال کے اصرار اور مخلوط انتخاب کی مخالفت نے بالآخر‘ مسلمانوں کے نظریاتی و ملّی تشخص کو پختہ کیا۔ انھیں پاکستان کی صورت میں اپنی منزل کے تعین میں اقبال کی شعری کاوشوں سے بہت مدد ملی بلکہ خطبۂ الٰہ آباد نے ان کی بیش بہا رہنمائی کی۔

فاضل مصنف نے اپنے مباحث و استدلال کی عمارت اقبال کے فارسی اور اُردو شعری کلیات اور ان کی اُردو اور انگریزی نثرکی بنیاد پر استوار کی ہے۔

ڈاکٹر خالد علوی کے بقول: برعظیم کے مسلمانوں پر اقبال کا احسان ہے کہ اس نے انھیں فکری کج روی سے محفوظ کیا‘ تاریخ کی قوتوں سے آگاہ کیا اور انھیں روشن مستقبل کی نوید سنائی‘‘--- زیرنظر کتاب‘ اقبال کے اس احسان کی نوعیت کو مختصرلیکن جامع اور خوب صورت انداز میں سامنے لاتی ہے۔ طباعت و اشاعت عمدہ اور قیمت بہت مناسب ہے۔ (ر-ہ)


کاغذ کے سپاہی ‘از شاہ نواز فاروقی۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی‘ ڈی/۳۵‘بلاک-۵‘ فیڈرل بی ایریا‘ کراچی-۷۵۹۵۰۔ صفحات: ۱۷۶۔ قیمت‘ غیرمجلد:۷۰۔ مجلد:۱۰۰ روپے۔

اس کتاب کا موضوع انسان‘انسانی معاشرت اور خیرو شر کی کش مکش ہے--- شاہ نواز فاروقی اپنے مطالعے کی وسعت‘ مشاہدے کی گہرائی‘ تجزیے کی کاٹ‘ اور فلسفیانہ اپج سے‘ مشکل موضوعات کو رواں دواں مضمون کے پیکر میں ڈھالتے چلے گئے ہیں۔

ایسے موضوعات پر قلم اٹھانے والے عموماًتکلف کی دلدل اور دانش وری کے جھنجھٹ میں اُلجھ کر رہ جاتے ہیں لیکن شاہ نواز انقلابی جذبوں سے فیضیاب قلم کے ساتھ اس طرح اظہار و بیان کی دنیا میں خیال کو اُبھارتے ہیں کہ قاری کو سوالوں کا جواب دے کر عمل کا زادِ راہ فراہم کرتے ہیں۔

دیکھنے میں تو یہ اخبار جسارت میں چھپنے والے کالموں کا انتخاب ہے‘ لیکن پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوتاہے کہ یہ اخباری کالم نہیں‘ بلکہ گہرے غوروفکر کی تصویریں ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’’جھوٹ کی سب سے مکروہ بات یہی ہے کہ وہ سچ کی قیمت پر بولا جاتا ہے‘‘ (ص ۱۳)۔ ’’میں ایسے کئی مومن سرمایہ داروں کو جانتا ہوں جو روزے‘ نماز کے سلسلے میں جس تندہی کا مظاہرہ کرتے ہیں‘ اسی تندہی سے اپنے کارخانوں میں مزدوروں کا خون چوستے اور انکم ٹیکس بچاتے ہیں۔ یہ ایک بدترین منافقت ہے‘‘ (ص ۲۰)۔ ’’بڑے بڑے مذہب پرستوں کے یہاں دولت وجہِ افتخار اور انسانوں کو ناپنے کا پیمانہ بنی ہوئی ہے‘ اور یہ رجحان آج کے اسلامی معاشرے کے لیے ہی نہیں بلکہ کل کے اسلامی معاشرے کے لیے بھی ایک خطرہ ہے… میری راے میں اسلامی انقلاب کے قائدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ مبہم اصطلاحوں کے بجاے صاف لفظوں میں لوگوں سے گفتگو کریں‘‘۔ (ص ۲۱)

شاہ نواز فاروقی اپنے ان مضامین میں الٰہیات‘ فلسفہ‘ نفسیات‘ تاریخ اور سماجیات کے زندہ موضوعات کو یوں پیش کرتے ہیں کہ ابلاغی سطح پر یہ نوجوان دانش ور بہت سوں سے آگے نکلتا نظر آتا ہے۔(سلیم منصورخالد)


اسلامی روایات کا تحفظ‘ ڈاکٹر سید محمد جمیل واسطی۔ ناشر: قرطاس (ادارہ تصنیف و تالیف و ترجمہ) ۶۸-سی‘ اسٹاف ٹائون‘ کراچی یونی ورسٹی‘ کراچی۔-۷۵۲۷۰۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: مجلد: ۱۰۰ روپے۔ غیرمجلد: ۷۰ روپے۔

ڈاکٹر جمیل واسطی کا تعلق لاہور کے ایک علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔ ان کے والد عبدالغنی اوردادا سید عبدالقادر دونوں ہی انگریزی ادب کے استاد تھے۔ خود سیدجمیل واسطی بھی انگریزی پڑھاتے رہے۔ انگریزی اور اُردو میں ان کی متعدد تصانیف ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب ان کے فکرانگیز مقالات کا مجموعہ ہے جو انھوں نے ۱۹۳۴ء سے ۱۹۳۹ء کے درمیان لکھے۔ یہ ان مقالات کا تیسرا ایڈیشن ہے۔ کتاب آٹھ مقالات پر مشتمل ہے۔ مقالہ اوّل عنوانات: علم وعمل‘ مسلمانوں پر مغربی تہذیب کا اثر‘ پردہ‘ تعدد ازدواج‘ خنزیر خوری‘ صنم پرستی‘ نسلی تعصب‘ تہذیب اسلامیہ کے کچھ اور پہلو‘ تین ضمیمے (مغرب میں عورت‘ ادب و فن کا ایک پہلو‘ عربی‘ سائنس اور یورپ کے نام)کتاب کے آخر میں شامل ہیں۔

ڈاکٹر واسطی نے ان تمام موضوعات پر ایک صحیح العقیدہ اور صحیح الفکر مسلمان عالم کی حیثیت سے روشنی ڈالی ہے اور کسی جگہ بھی معذرت خواہانہ اسلوب اختیار نہیں کیا۔ دلائل ایسے قوی اور مضبوط دیے ہیں کہ ایک متشکک انسان کے ذہن کی الجھنیں دُور کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ان تمام مقالات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب وسیع و عمیق اسلامیت کے حامل تھے جس کی نظیر اب شاید ہی دیکھنے کو ملے۔ ہمارا خیال ہے کہ کتاب تحریکِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے ہر اس ذمہ دار کو پڑھنی چاہیے جن کا واسطہ سوال‘ جواب کی فکری مجلسوں سے پڑتا رہتا ہے۔ (ملک نواز احمد اعوان)


حسنِ گفتار ، طالب ہاشمی۔ ناشر: البدر پبلی کیشنز‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۶۳۔ قیمت: ۱۰۰روپے۔

جناب طالب ہاشمی ایک ممتاز اہلِ قلم اور دینی اسکالر ہیں۔ انھوں نے اسلامی نظریۂ حیات اور تہذیب اسلامی کے مختلف عناصر کی تشریح و توضیح‘ نیز نبی اکرمؐ، صحابہ کرامؓ اور بزرگانِ دین کے سوانح پر سیرحاصل مضامین اور نہایت وقیع کتابیں تالیف کی ہیں۔ کم و بیش ان کی ۵۰کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔متعدد کتابوں پر انھیں انعام مل چکا ہے۔ (اگرچہ وہ دنیاوی انعامات سے مستغنی ہیں۔)

زیرنظر کتاب ان کے ۵۴ مختصر مضامین کا مجموعہ ہے۔ ان میں سے بعض ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر ہوئے اور چند ایک رسائل و جرائد میں شائع ہوئے۔ ان کی نوعیت خود مصنف نے بہت عمدگی سے بیان کی ہے۔ لکھتے ہیں: ’’یہ تمام مضامین متفرق دینی و معاشرتی موضوعات پر ہیں۔ ان میں سے بیشتر کا تعلق اخلاق کے مختلف پہلوئوں‘ دین حق ‘ اسلام کے بعض خصائص اور اصلاح معاشرہ سے ہے۔ ان کو پڑھ کر معلوم ہوگا کہ ایک مومن کا مقصدِحیات کیا ہے‘ اسلامی تہذیب و تمدن کے خدوخال کیا ہیں‘ اولاد کی تعلیم و تربیت کے تقاضے کیا ہیں‘ مسرت اور شادمانی کا اسلامی تصور کیا ہے۔ عورتوں‘ پڑوسیوں اور گھریلو ملازموں (یا زیردست افراد) کے حقوق کیا ہیں۔ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر کیا حق ہے‘ اسلام میں عدل‘ اعتدال اور رواداری کی کیا اہمیت ہے وغیرہ وغیرہ… فی الحقیقت ان مضامین کا مقصود و منشا اخلاق کی اصلاح اور اپنے مسلمان بھائیوں کو ]قرآنی[ اوصاف اپنانے کی طرف راغب کرنا ہے‘‘۔

کتاب کے دیباچہ نگار ڈاکٹر خواجہ عابد نظامی نے بہت اچھی تجویز دی ہے کہ اگر ان مضامین کو مخیرحضرات کتابچوں کی شکل میں شائع کر کے تقسیم کریں تو یہ بہت بڑی معاشرتی خدمت ہوگی۔ (ر- ہ )


وحید الدین خاں صاحب کی تعبیر کی غلطی‘ مرتبہ: سید علی مطہرنقوی امروہوی۔ ناشر: مکتبہ الحجاز‘ ۱ے/۲۱۹ ‘بلاک سی‘ الحیدری‘ شمالی ناظم آباد‘ کراچی-۷۴۷۰۰۔ صفحات: ۲۰۸۔ قیمت: ۱۱۰ روپے۔

فاضل مرتب کی یہ بات کئی حوالوں سے غور طلب ہے کہ: ]وحید الدین[ خان صاحب اسلام‘ مسلمانوں اور ملت اسلامیہ کے کھلے مخالفینِ اسلام سے بھی بڑھ کر شدید ترین نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان پر حق کی رسائی کے دروازے کھول دے (ص ۶‘۷)۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ اب موصوف کے لیے دعائوں کا مرکز مساجد نہیں‘ گرجاگھر اور مندر ہوں گے‘ یا پیکران فسق و الحاد کی نشست گاہیں اور اجتماع گاہیں(ص ۵)۔ کتاب کے ابتدائی صفحات میں   یہ کلمات کسی دل جلے کی آہوں کا دھواں نہیں‘ بلکہ اخلاص‘ حقائق‘ منطق اور مشاہدات کے امتزاج سے ترتیب دیا گیا مقدمہ ہے۔

جناب علی مطہرنے‘ کچھ عرصہ پہلے‘ مولانا عامرعثمانی کے علمی آثار کو ترتیب دینے کے بلندپایہ کام کا آغاز کیا تھا۔ وہ بڑے تسلسل کے ساتھ ایک کے بعد دوسری پیش کش سے ذخیرئہ  علم و دانش میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں۔ اسی سلسلہ سعادت میں یہ کتاب بھی منظرعام پر آئی۔ اس کتاب کا ماخذ‘ عامرمرحوم کا رفیع الشان ماہ نامہ تجلّی‘ رام پور ہے۔اس میں مولانا عامرکے پانچ اور دوسرے اہل علم حضرات (مولانا صدرالدین اصلاحی‘ مولانا محمد امام الدین رام نگری‘ مولانا سیف اللہ خالد‘ابواختراعظمی اور محمد نواز وغیرہ) کے سات مضامین شامل ہیں۔

ان مضامین کی بنیاد وحیدالدین خاں کی کتاب تعبیر کی غلطی بنی‘ جس میں انھوں نے فریضۂ اقامت دین کے لیے مولانا مودودی مرحوم کی تشریح اور جدوجہد کا ابطال کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ’فرد قرارداد جرم‘کا جواب فاضل مقالہ نگاروں نے کسی طعن و تشنیع کے بجاے دلائل و براہین سے دیا ہے‘ اور ان کے فکری واہمے کا حدود اربعہ پیش کیا ہے۔

سیف اللہ خالد کا کہنا ہے: ’’وحید الدین کی فکر کا خلاصہ یہ ہے کہ بھارت سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کو‘ آزاد ہوں یا محکوم‘ اقلیت میں ہوں یا اکثریت میں‘ غیرمسلموں کے ہاتھوں مار کھاتے اور ذلیل ہوتے رہنا چاہیے اور]انھیں[ اف تک کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس طرح ان کے سارے مسائل آپ سے آپ حل ہو جائیں گے (ص ۱۳)۔ مسلمانوں کے ساتھ آج جو کچھ ہو رہا ہے اس کے تنہا ذمہ دار مسلمان ہیں‘ غیر مسلموں کا اس میں کوئی حصہ اور قصور نہیں ہے(ص۱۱)۔ خان صاحب کے اس خود ملامتی مرض کے متعدد شاخسانے ان کی تحریروں میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ موصوف کی اپنی: ’’تعبیر کی غلطی اور کج فکری کی داستان بہت لمبی ہے۔ اس کی کچھ جھلکیاں اس کتاب میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ اس فکر کو پاکستان میں بھی درآمد کیا اور فروغ دیا جا رہا ہے‘‘۔ (ص ۱۴)  (س - م - خ)


الصدیق ؓ ، پروفیسر علی محسن صدیقی۔ ناشر: قرطاس (ادارہ تصنیف و تالیف و ترجمہ) پوسٹ بکس نمبر ۸۴۵۳‘ کراچی یونی ورسٹی‘ کراچی-۷۵۲۷۰۔ صفحات: ۴۰۰۔ قیمت‘ مجلد:۳۵۰ روپے‘ غیرمجلد: ۳۰۰ روپے۔

پاکستان کے مشہور مؤرخ پروفیسر علی محسن صدیقی (پ: ۱۹۲۹ئ) کراچی یونی ورسٹی کے شعبہ اسلامی تاریخ سے وابستہ رہے ہیں۔ آپ نے ۱۱کتابوں کے علاوہ ۱۰۰کے قریب تحقیقی مقالات بھی تحریر کیے۔ زیرتبصرہ کتاب اسلامی تاریخ کے بنیادی‘ نہایت اہم اور پیچیدہ بحرانی دور سے تعلق رکھتی ہے۔ گو یہ سیدنا ابوبکرصدیقؓ کی مکمل و مستند سیرت سے متعلق ہے لیکن یہ داستان ایک عظیم بحران کی تاریخ بھی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کے آخری لمحات میں اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔ فتنۂ ارتداد اور انکار زکوٰۃ کی وجہ سے اسلام سمٹ کر دو تین شہروں تک محدود ہوگیا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس بحران پر برہان سے قابو پایا اور دوبارہ اسلام کی حکومت جزیرہ عرب پر قائم کردی جس کے بعد اسلام کی قوتِ بہائو کفر کی سلطنتوں کو بہا لے گئی۔ ان کی حکومت کا یہ مختصر زمانہ ہی ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ وہ واقعی افضل الناس بعدالانبیا اور خلیفۃ الرسول بلافصل کہلانے کے حق دار تھے۔ ان کی فراست ایمانی اور قیادت برہانی نے اسلام کو دوبارہ متمکن کر دیا۔

کتاب جدید انداز میں لکھی گئی ہے جو ۱۳ ابواب پر مشتمل ہے۔ پروفیسر صدیقی صاحب نے سیرت صدیقؓ سے متعلقہ تمام مسائل پر بحث کی ہے اور اپنا تجزیہ اور قول فیصل بیان کیا ہے۔ مستشرقین کے اعتراضات کا بھی جواب دیا ہے۔ (ن-ا-ا)


سربکف‘ سربلند‘ حافظ محمد ادریس۔ ناشر: مکتبہ احیاے دین‘ منصورہ‘ لاہور۔ صفحات: ۱۷۶۔ قیمت: ۱۷۰ روپے۔

حافظ محمد ادریس ایک مصنف ہی نہیں ‘عمدہ مقرر بھی ہیں اور مُربی اور منتظم بھی‘ اور اہم تر بات یہ کہ تحریک اسلامی کے رہنما ہیں۔ وہ دعوتِ اسلامی کے علم بردار ہیں اور مبلغ بھی اور ان کی یہ شناخت ان کی تحریروں اور تقریروں سے نمایاں ہے۔ سرسوں کے پھول اور ناقۂ بے زمام ان کے افسانوں کے مجموعے ہیں۔کشمیریوں کے کرب کو انھوں نے افسانوں کے مجموعے دخترکشمیر کے ذریعے اُجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ سربکف‘سربلند حافظ صاحب کے تازہ افسانوں کا مجموعہ ہے۔ اس میں ۱۱ افسانے شامل ہیں۔ابتدا میں معروف استاد ادب اور ناقد آسی ضیائی کا تحریر کردہ تعارف شامل ہے۔ لکھتے ہیں: حافظ صاحب کے افسانوں میں ایک مسلم تحریکی ادیب کا وقار اور ایک عام افسانہ نگار کی پیدا کردہ دل چسپی یکساں دکھائی دیتی ہے اور قاری ان کا ہر افسانہ پورے شوق اور انہماک کے ساتھ پڑھتا چلا جاتا ہے۔

حافظ محمد ادریس کے کردار ہمارے ہی معاشرے اور ماحول کے کردار ہیں۔ چاہے ’’مامتا کی نعمت‘‘ کا سرفراز ہو،’’ فطرت کی تعزیریں‘‘ کا محمد حسین یا ’’فخرالنساء تیموریہ‘‘ کی منگول رانی ہو۔ اُمت مسلمہ کا درد مصنف کے قلم سے ٹپکا پڑتا ہے۔ یوں ’’بابری مسجد‘‘ اور فلسطین کے پس منظر میں’’غلیل‘‘ افسانے تشکیل پاتے نظر آتے ہیں۔ ’’جنازہ‘‘، ’’کالم نگار‘‘ تو ذہن کو چھونے والے تاثراتی افسانے ہیں اور باقی افسانے بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ افسانہ نگار کے بقول: ’’ان افسانوں میں جتنے کردار بھی آپ کو نظرآئیں گے‘ وہ کسی نہ کسی پہلو سے جدوجہد کررہے ہیں‘ کوئی مقصد حاصل کرنا‘ ان کے پیشِ نظر ہے ‘ اس کے لیے جو بھی وسائل ان کو میسر ہیں‘ انھیں استعمال کرتے ہیں‘ کٹھن اور مشکل حالات میں تھک بھی جاتے ہیں مگر ہمت کر کے پھر اٹھتے ہیں اور اپنے مقصد کی لگن سینے میں سجائے منزل کی طرف رواں دواں رہتے ہیں‘‘۔

حافظ محمد ادریس کے افسانے جان دار‘ پُرمغز‘ بامقصد اور زندگی اور اُمت کے عملی مسائل کے عکاس ہیں۔ ان کا مشاہدہ گہرا اور بیان بہت عمدہ ہے۔ ان کے اسلوب میں جملے چھوٹے مگر پُرمغز اور معنونیت سے بھرپور ہوتے ہیں اور ان کے افسانوں کا اختتام بامعنی ہوتا ہے۔ ہر پڑھے لکھے شخص تک سربکف‘سربلند جیسا شاہکار ضرور پہنچنا چاہیے۔کتاب کا سرورق خوب صورت اور بامعنی ہے۔ طباعت اور قیمت مناسب ہے۔ (محمد ایوب منیر)


شعورِ صحت ، ڈاکٹر سید احسن حسین۔ ادارہ معارف اسلامی‘ ڈی۔۳۵ بلاک ۵‘ فیڈرل بی ایریا‘ کراچی۔ صفحات: ۱۳۴۔ قیمت: ۶۰ روپے۔

اس کتاب میں مختلف امراض کے ۱۷ اسپیشلسٹ ڈاکٹروں اوردیگر ڈاکٹر حضرات کے انٹرویو شامل ہیں جن میں مختلف امراض کے علاج اور ان امراض کے بارے میں ذہنوں میں پیدا ہونے والے سوالات کا جواب دیا گیا ہے۔ ان میں ذیابیطس‘ امراضِ قلب‘ امراضِ اطفال‘ جنرل فزیشن‘ جنرل سرجن‘ پتھالوجسٹ‘ اعصابی و نفسیاتی امراض‘ فیملی فزیشن‘ امراض ہاضمہ‘ کینسر‘ بچوں کے کینسر‘ امراض ناک کان‘ امراضِ چشم‘ امراضِ گردہ و مثانہ‘ امراضِ ہڈی جوڑ اورامراضِ جلد کے اسپیشلسٹ ڈاکٹر شامل ہیں۔ یہ مضامین پہلے ہفت روزہ  فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہوئے تھے‘ جنھیں یکجا کردیا گیا ہے۔اس میں طبی مفروضوں اور وہموں کا تدارک بھی ہے۔ (عبدالکریم عابد)


تعارف کتب

  • ۱۸۵۷ء کے چشم دید حالات (المعروف داستانِ غدر) ‘راقم الدولہ سید ظہیرالدین ظہیر دہلوی۔ ناشر: مکی دارالکتب‘ ۳۲ میکلیگن روڈ‘ چوک اے جی آفس‘ لاہور۔ صفحات: ۲۳۱۔ قیمت: ۱۳۵ روپے۔]ظہیر دہلوی نے ’’۱۸۵۷ء سے ربع صدی پہلے اور نصف صدی بعد کا زمانہ پایا‘‘--- بہادر شاہ ظفر کے دربار سے متعلق رہے۔ یہ ان کی خودنوشت ہے‘ جسے مکرر شائع کیا گیا ہے۔ اپنے دور کی ایک دل چسپ تاریخ[۔
  • متاعِ درد‘ پروفیسر ہارون الرشید۔ ناشر: حلقہ آہنگِ نو‘ ٹی ۷۸‘ ڈی بلاک ۱۸‘ سمن آباد‘ فیڈرل بی ایریا‘ کراچی۔صفحات:۱۲۸۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔] بقولِ مصنف: ’’متاعِ درد میری ان نظموں اور غزلوں کا مجموعہ ہے جو سقوطِ ڈھاکہ سے متاثر ہو کر لکھی گئیں‘‘[ ۔

کارکن اور قیادت سے تحریک کے تقاضے‘ خرم مراد۔ شائع کردہ: منشورات‘ منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور۔ صفحات:  ۲۶۶۔ قیمت: ۶۰ روپے

ہر دفعہ جب خرم مراد مرحوم کی کوئی نئی کتاب‘ کوئی نئی تحریر سامنے آتی ہے‘ محسوس ہوتا ہے کہ وہ ابھی ہمارے درمیان موجود ہیں‘ ہم سے جدا نہیں ہوئے ہیں‘ اور تحریک ہی نہیں بلکہ اسلام سے وابستہ نوجوانوں کے تزکیے‘ ہدایت اور راہ نمائی کے کاموں میں بدستور مصروف و منہمک ہیں۔

ان کی زیرنظر تصنیف (اشاعت: جولائی ۲۰۰۳ئ) ان کی فکری اور تحریکی کاوشوں کی ایک نہایت قیمتی دستاویز ہے‘ جسے ان کے مختلف خطبات سے ان کے ایک رفیقِ کار امجد عباسی نے نہایت محنت اور خوب صورتی سے مدون کیا ہے۔

اگرچہ ’’تحریک‘‘اور ’’اسلامی تحریک‘‘ کے الفاظ عام طور پر ’’جماعت اسلامی‘‘ کے لیے استعمال ہوتے ہیں‘ جس کے بانی اور اولین قائد سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ تھے‘ لیکن خرم مراد مرحوم اس اصطلاح کو وسیع‘ بنیادی اور ہمہ گیر معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ تحریک اسلامی کی اصطلاح تو نئی ہے‘ لیکن یہ اتنی ہی قدیم ہے‘ جتنا خود اسلام۔ حضرت ابراہیم ؑ اس کے پہلے اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے آخری نمونہ ہیں۔ جہاد (اپنے بنیادی مفہوم میں) تحریک کا بنیادی تقاضا ہے‘ اور اللہ کی رضا کا حصول اس کا ہدف اور جنت اس کی منزل اور انعام ہے۔ لیکن تنظیم یا جماعت کو مقصود قرار نہیں دے دینا چاہیے۔ منصوبہ بندی اگرچہ ناگزیر ہے‘ تاہم تنظیم ہلکی پھلکی ہو‘ وقت کی قدر کی جائے اور اجتہاد سے اغماض نہ کیا جائے۔ وہ موثر قیادت کی خصوصیات کی وضاحت کرتے ہیں‘ جس میں احساسِ ذمہ داری ہو‘ جواب دہی کا تصور راسخ ہو‘ اللہ کی تائید اور نصرت پر ایمان ہو اور خود اپنے آپ پر بھی بھروسا ہو‘ اہم اورغیر اہم باتوں میں تمیز کرنے کی صلاحیت ہو اور ترجیحات کا درست تعین کر سکے۔ تربیت سے وابستہ قائدین اور کارکن‘ سبھی کی اوّلین ذمہ داری یہ ہے کہ وہ خود اپنی تربیت کی طرف پہلے توجہ دیں ۔ مگر تربیت محض کسی    کتابِ ہدایت کو پڑھ کر نہیں حاصل ہوتی‘ یہ عملی زندگی میں کود پڑنے اور مسلسل جدوجہد ہی سے حاصل ہوتی ہے‘ اور اہم بات یہ ہے کہ درسِ تربیت‘ تربیتی پروگرام اور کارکنوں اور قائدین کی زندگیوں‘ نیز تحریک کے راستے اور سمت میں مطابقت ہونی چاہیے ۔اگر ان میں ہم آہنگی نہ ہو تو ساری تربیت غیرموثر ہوجائے گی۔ خوداحتسابی‘ رحمت و شفقت‘ دعوت و اخوت‘ گہرے اور موثر رابطے‘ تحریک اور دعوت کو پھیلانے اور اُسے مضبوط بنیادوں پر قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

لیکن کوئی بھی اسلامی تحریک‘ افراد کے انفرادی تزکیۂ نفس کے بغیر موثر نہیں ہوسکتی۔ وہ یاد دلاتے ہیں کہ تزکیے کا مرکز ’’قلب‘‘ہے۔ آخرت میں اللہ تعالیٰ نے جس چیز پر کامیابی اور نجات کا وعدہ فرمایا ہے‘ وہ اعمال سے پہلے ’’قلب‘‘ ہے۔ ’’قلب ِ سلیم‘‘ لیے ہوئے اللہ کے سامنے حاضر ہونے ہی پر مدارِ نجات ہے‘ اور اس کے لیے صفت ’’احسان‘‘ (جس نے مسلمانوں کے سوادِاعظم میں ’’تصوف‘‘ کی صورت اختیار کرلی) ناگزیر ہے۔ اللہ کی بندگی اس طرح کیجیے‘ گویا آپ اُسے دیکھ رہے ہیں‘ورنہ کم از کم یہ تو ضرور ہو‘ گویا اللہ آپ کو دیکھ رہا ہے۔

نصف کے قریب کتاب ’’تزکیۂ نفس‘‘ کے طریقوں‘ ذکر‘نماز‘ تلاوت‘ تعلق باللہ‘ شکر‘استغفار‘ دُعا اور آخرت کے یقینی اجر پر بھروسے اور ایمان اور ان کے تقاضوں پر مشتمل ہے۔ بدقسمتی سے یہی وہ اہم چیز ہے‘ جس سے بہت سی اسلامی تحریکیں اور جماعتیں نابلد ہوتی جا رہی ہیں۔ خرم مرحوم کو اس بات کا احساس تھا ‘ اس لیے انھوں نے اپنی چھوٹی چھوٹی کتابوں میں‘ تقریروں اور تحریروں میں بار بار اس کی طرف متوجہ کیا‘ اور ان کی یہ (اب تک کی) آخری کتاب ان کی اس کوشش کا ایک خوب صورت مرقع ہے۔

منشورات نے اس کتاب کو بھی اپنی روایتی نفاست اور خوب صورتی کے اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے‘ جس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ (پروفیسر عبدالقدیرسلیم)


Quranic Topics ] قرآنی موضوعات[ ‘ محمد شریف بقا۔ علم و عرفان پبلشرز‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۰۲۳۔ قیمت: ۵۰۰ روپے یا ۱۰ پونڈ یا ۵ ڈالر۔

قرآنی موضوعات کو انگریزی زبان میں انگریزی حروفِ تہجی کے لحاظ سے مرتب کیا گیا ہے‘ مثلاً حرف A کے سلسلے میں جتنی آیاتِ قرآنی موجود ہیںان کو فاضل مولف نے مع انگریزی ترجمہ بڑی کاوش سے یکجا کر دیا ہے۔ انگریزی ترجمے کے ساتھ متعلقہ آیت کا مکمل متن (مع سورہ اور آیت کا حوالہ) بھی دیا گیا ہے۔ ایک کمی محسوس ہوتی ہے: یہ نہیں بتایا گیا کہ  انگریزی ترجمے کا ماخذ کیا ہے؟

میں اسے قرآن کا اعجاز سمجھتا ہوں کہ انگریزی حرف A سے پہلا لفظ (Ablution)‘ یعنی وضو بنتا ہے جو اسلامی طہارت اور پاکیزگی کا نقطۂ آغاز ہے اورجس کے بغیر اولین عبادت نماز ادا نہیں ہوسکتی۔

قرآنی موضوعات میں اتنی وسعت‘ ہمہ گیری اور جامعیت ہے کہ وہ خدا‘ انسان‘ حیات و کائنات اور حیات بعدالممات کے تمام علوم و معارف کو اپنے اندر لیے ہوئے ہیں۔ انسان کی پیدایش سے لے کر سفرِآخرت تک اعلیٰ اقدارِ حیات کے لیے زندگی کو امن و آشتی کے ساتھ بسر کرنے کے تمام معاشرتی‘ معاشی‘ سیاسی‘ تمدنی اوراخلاقی احکام موجود ہیں جن سے انحراف خود ہماری فطرت اور قوانینِ قدرت سے کھلی بغاوت ہے اور جس کی وجہ سے دنیا میں ظلم و جبر‘     خوں ریزی اور فساد برپا ہوتا ہے۔ جس دردناک ابتلا اور عذاب سے موجودہ صدی گزر رہی ہے‘ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انسان نے قرآن کے اس مکمل اور آخری پیغام کو فراموش کر دیا ہے جو ذات ختمی مرتبت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پیش رو برگزیدہ پیغمبرتسلسل کے ساتھ اپنی اپنی قوموں کے لیے لے کر آئے تھے۔ اب یہ انسانیت کی اپنی بقا کے لیے ضرور ہوگیاہے کہ اس گلوبل پیغام کو جو تمام انسانوں کے لیے نسل‘ رنگ‘ زبان‘ قومیت اور جغرافیائی حدود سے بلند ہوکر وحدت آدمیت کے لیے پکار رہا ہے‘ عام کیا جائے۔ قرآنی موضوعات اسی سلسلے کی ایک مربوط کڑی ہے۔ انگریزی میں ایسی تالیف کی اس لیے ضرورت تھی کہ اب یہ دنیا کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان بن گئی ہے۔ ایک پڑھے لکھے عام آدمی اور ریسرچ کرنے والے طالب علم کے لیے اس کتاب میں وہ قرآنی موضوع بآسانی مل جائے گا جس کی اسے کسی بھی مسئلہ حیات میں    راہ نمائی کے لیے ضرورت ہو جس کو پڑھنا‘ سمجھنا اور سمجھانا بھی بذاتِ خود ایک عبادت ہے۔

فاضل مولف ماہر اقبالیات اور معروف اسکالر ہیں۔ وہ لندن میں اسلامی تعلیمات کی روشنی سے جاہلیت ِجدید کی تاریکیوں کو دور کرنے کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔ خدا انھیں اپنے اس مشن میں کامیابی عطا فرمائے۔ آمین (محمد اسماعیل قریشی)


ماہنامہ تعمیرافکار‘ کراچی۔ اشاعت خاص: بیادپروفیسر سید محمد سلیمؒ۔زیراہتمام: پروفیسر سید محمد سلیم اکیڈمی‘ کراچی۔ صفحات: ۴۹۶۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

یہ شمارہ ایک ایسی ہستی کے تذکرے پر مشتمل ہے جس کی پوری زندگی تعلیم و تعلم میں گزری۔ آغازِ حیات میں تحریکِ اسلامی سے وابستہ ہوئے اور دمِ آخر جماعت اسلامی کے اجتماع عام (قرطبہ‘۲۰۰۰ئ) میں گزرا۔ تحریکی زعما کے حالات کے بارے میں زیرنظر جیسے مجموعوں کی اچھی روایت قائم ہو رہی ہے۔ ماضی کی بلند قامت شخصیات کے ایسے تذکرے موجود نہیں‘مثلاً: تاج الملوک‘ مولانا عبدالعزیزؒ (مولانا خلیل حامدیؒ کے بارے میں اب اعلان آیا ہے)۔

پروفیسر سید محمدسلیمؒ نے ملازمت سے سبکدوشی کے بعد کا عرصہ تنظیم اساتذہ کے ادارہ  تعلیمی تحقیق سے وابستہ رہ کر گزارا اور اسلامی نظام تعلیم کے نظری و عملی پہلوئوں پر بیش قیمت تالیفات پیش کیں۔ مگر ان کا اصل میدان تاریخ تھا۔ وہ غضب کا حافظہ رکھتے تھے۔ بہت زیادہ پڑھنے والے تھے۔

یہ فرض تو تنظیم اساتذہ کا تھا کہ ان کی حیات و خدمات پر ایک اشاعت خاص مرتب کرتی لیکن یہ سعادت سید سلیم مرحوم کے نواسے عزیزالرحمن (مدیر) اور ان کے ایک دیرینہ رفیق ملک نواز اعوان(مدیراعلیٰ) کے حصے میں آئی‘ جنھوںنے اس طرح کے کام میں درپیش مسائل و مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے یہ قابلِ قدر مجموعہ مرتب کیا ہے۔ اس میں مرحوم کے متعلق بہت کچھ جمع کر دیا گیا ہے۔ ان کی حیات و شخصیت‘ زندگی کے مختلف پہلو (خاندان‘ سوانح‘ بطور مورخ‘ بطور شاعر‘بطور معلم‘ بطور ماہر تعلیم وغیرہ)‘ ان کی علمی و تصنیفی خدمات کا ذکر‘ اعزہ‘ احباب اور شاگردوں کے تاثرات‘ ان کے لیے منظوم خراج تحسین‘ ان کے نام خطوطِ مشاہیر (سید مودودی‘ ڈاکٹر محمد حمیداللہ‘ مسعود عالم ندوی‘ ابوالحسن علی ندوی‘ غلام رسول مہر‘ عبداللہ چغتائی‘ مختارالدین احمد وغیرہ) اور ان کے خطوط بنام مشاہیر وغیرہ۔ ان کی شخصیت کیسی پُرکشش اور علمی اعتبار سے کیسی بلندپایہ تھی کہ ان کے رفقا اور شاگردوں کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر غلام مصطفی خاں‘ میاں طفیل محمد‘حکیم سید محموداحمد برکاتی‘ نعیم صدیقی اور پروفیسر خورشیداحمد ایسے اصحاب نے انھیں خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ مرتبین مبارک باد کے مستحق ہیں۔

سچ یہ ہے کہ اتنی ہمہ پہلو تحریروں کے باوجود سید سلیم کی شخصیت کا مکمل احاطہ نہیں ہو سکا ہے۔ غالباًاسی لیے اکیڈمی نے مزید خاص اشاعتوں کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔(مسلم سجاد)


بیدار دل لوگ‘ شاہ محی الحق فاروقی۔ ناشر: اکادمی بازیافت‘ اُردو سنٹر‘کمرہ نمبر۴‘ پہلی منزل‘اُردو بازار‘ کراچی۔ صفحات: ۲۷۸۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

اکیسویں صدی نے آغاز ہی میں‘ بہت سے ناخوش گوار واقعات کے ذریعے‘ بین الاقوامی سطح پر انسانیت کو حزن و یاس کے تحفے دیے ہیں۔ ایسے میں شاہ محی الحق فاروقی کی یہ تالیف‘ لطافت و انبساط کا ایک گل دستہ نورستہ بن کر سامنے آئی ہے کیونکہ اس کتاب کا مطالعہ ملول انسانوں کی روح کے لیے اُمید اور آس اور بھلائی کی ایک کرن بن کر سامنے آتا ہے۔

چند شخصیات پر زیرنظر مضامین یا خاکے تاثر کے اعتبار سے بھرپور ہیں۔ مصنف نے جن افراد کو اپنا موضوع بنایا ہے‘ وہ ان کے بنیادی مزاج‘ افتادِ طبع‘ انداز فکروعمل اور طور واطوار کی بوقلمونی کو بڑی سادگی لیکن پرکاری سے زینت ِ قرطاس بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کراچی میں تو پرنسپل بشیراحمد صدیقی مرحوم کو جاننے والے کتنے ہی لوگ ہوں گے مگر مجھے اس مطالعے سے وہ اپنے ساتھ ٹہلتے‘ چائے پیتے اور دفتری ذمہ داریاں نبھاتے محسوس ہو رہے ہیں۔ شاید اس کی وجہ‘ معاملاتِ زیست میںکافی حد تک احساس یگانگت بھی ہے۔ مصنف نے خوردبین سے عیوب کی تلاش سے گریز کیا ہے۔ پروفیسر مشیرالحق شہید کی زندگی پر مشتمل خاکہ دیانت تحریر اور اصابت ِ فکر کا عمدہ نمونہ ہے۔ اندازِ تحریر بے تکلفانہ ہے۔ شاہ محی الحق کی بے ساختگی‘ ندرتِ خیال‘ بیان کی شگفتگی اور کہیں کہیں گدگدی کرنے کی جسارت ان کے اسلوب کو نہایت دل چسپ بنا دیتی ہے۔

مصنف‘ ماہرالقادری (یادِرفتگاں) سے متاثر معلوم ہوتے ہیں مگر ماہرصاحب کے ہاں اختصار ہے اورفاروقی نہایت (کہیں غیرمتعلق اور غیرضروری) طوالت سے کام لیتے ہیں۔ چنانچہ ۴۰‘ ۵۰ صفحات کا مضمون پڑھتے ہوئے‘ لگتا ہے فاروقی صاحب نے پوری سوانح عمری  لکھ ڈالی ہے۔ ہر مضمون کی تمہید بہت طولانی ہے۔ بایں ہمہ مصنف نے واقعات کے چمن کو  حسنِ ترتیب‘ مہارتِ فن اور سلیقہ شعاری سے اہل فکرونظرکی ضیافت کے لیے پیش کر دیا ہے۔ انھوں نے انسانوں کو دیوتا بنایا ہے‘ نہ ہیرو‘ بس روز مرہ زندگی میں حالات کی افت و خیزمیں مصروف تگ و تاز دیکھ کر ان کی شرافت و سعادت سے متاثر ہوئے اور مادہ پرستی کی ظلمت آسا فضا میں ان کو مانند جگنو نور افشاں پایا ہے۔ پروفیسر سید محمد جعفر‘ مولانا ابوالجلال ندوی‘ مولانا ابوالقاسم‘ قمراحمد‘اکبر علی وغیرہ ہر شخص کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔

جن پر خاکے لکھے گئے‘ ان میں سے متعدد افراد مصنف کے اعزہ ہیں۔ اس لیے مصنف کے اپنے بہت کچھ حالات بھی ان مضامین میں آگئے ہیں چنانچہ کتاب میں مصنف کی آپ بیتی کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ مؤلف نے بتایا کہ وہ اپنی خود نوشت بھی لکھنا چاہتے ہیں‘ تاثر ہوتا ہے کہ یہ کتاب اس کا ٹریلر ہے۔ (دانش یار)


جوہری توانائی ‘ ایم ایچ مسعود بٹ ۔ ناشر: نیشنل بک فائونڈیشن‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۳۳۵۔ قیمت: ۱۲۵روپے۔

سائنسی موضوعات پر عام فہم لٹریچر کی ہمارے ہاں بہت کمی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ صاحب ِ قلم حضرات بالعموم سائنس داں نہیں ہوتے اور سائنس دانوں کو عموماً لکھنے لکھانے سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ دوسرا سبب سائنس سے ہماری اپنی عدم دل چسپی ہے۔ اسلامی نشات ثانیہ کے لیے آج تمام اسلامی دنیا میں جدوجہد جاری ہے مگر اس سلسلے میں کوئی تبدیلی اس وقت تک رونما نہیں ہوسکتی جب تک مسلمان‘ دنیاوی علوم پر دسترس حاصل کر کے‘ ان میں اپنی فوقیت ثابت نہیں کردیتے۔ ان میں سائنس کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ اگرچہ سائنسی علوم میں دسترس اور دوسروں پر فوقیت حاصل کرنا انھی لوگوں کا کام ہے جو سائنس دان کہلاتے ہیں لیکن کسی قوم میں بھی اعلیٰ درجے کے سائنس دان اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتے جب تک اس قوم میں عمومی طور پر سائنس سے دل چسپی اور سائنسی معلومات کا شوق پیدا نہ ہو جائے۔

زیرنظر کتاب کے فاضل مصنف الیکٹریکل انجینیرہیں اور عرصۂ دراز سے عام لوگوں کے لیے سائنسی موضوعات پر لکھ رہے ہیں۔ آپ کا موقف یہ ہے کہ پاکستانی سائنس دانوں کو  اظہار خیال کا ذریعہ اُردوزبان ہی کو بنانا چاہیے کیوں کہ وہ تہذیب گونگی ہے جو اپنی زبان کے بجاے کسی اجنبی زبان کو ذریعۂ اظہار بناتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عوامی سطح پر سائنسی شعور کو اجاگر کرنے کا بیڑا سائنس دانوں ہی کو اٹھانا ہوگا اور اس مقصد کے لیے سائنس کو نہ صرف سلیس اور عام فہم زبان میں پیش کرنا ہوگا‘ بلکہ ایسا دل چسپ انداز اختیار کرنا ہوگا کہ قاری سائنس کو ایک اجنبی اور مشکل چیز سمجھنے کے بجاے اس کے مطالعے میں محوہوجائے اور اس کے اندر مزید سائنسی مواد کو پڑھنے کی طلب اور لگن پیدا ہو۔ ترقی یافتہ ممالک میں پاپولر سائنس کے نام سے اس شعبے کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ امریکہ میں آئزک ایزیموف اور کارل ساگان نے اس باب میں خاصی شہرت حاصل کی ہے۔

جوہری توانائی کا پہلا ایڈیشن ۱۹۶۶ء میں شائع ہوا تھا اور اس میں ایٹم اور ایٹمی توانائی کے بارے میں تفصیلی معلومات دی گئی ہیں۔ ان میں ایٹم کے متعلق قدیم و جدید نظریات‘ ایٹم کی ساخت اور جسامت کے متعلق جدید معلومات‘ جوہرشکنی‘ جوہرِانشقاق‘ زنجیری تعامل‘ جوہری تابکاری اور جوہری توانائی کا پُرامن استعمال شامل ہیں۔ موجودہ ایڈیشن کے آخر میں ’’پاکستان ایٹمی طاقت کیسے بنا‘‘کے عنوان سے ایک طویل باب کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس باب میں ایٹمی طاقت بننے کے بھارتی عزائم اور تیاریوں کا ۱۹۶۰ء سے اب تک کا جائزہ لیا گیا ہے۔ پھر ۱۹۹۸ء کے بھارتی ایٹمی دھماکوں اور پاکستان کی جوابی کارروائی کے متعلق تفصیلی معلومات دی گئی ہیں اور بتایا گیا ہے کہ پاکستان کا یہ اقدام کسی قدر اہم‘ بروقت اور ضروری تھا اور اس کے نتیجے میں پاکستان کو بھارت پر کیسی سیاسی اور اخلاقی برتری حاصل ہو گئی۔ اس باب میں بھارت کی مختلف قسم کی ایٹمی تنصیبات اور تحقیقی مراکز وغیرہ کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا ہے۔

ایٹم بم اور ایٹمی توانائی میں دل چسپی رکھنے والے حضرات کے لیے اس کتاب میں وسیع معلومات جمع کر دی گئی ہیں۔ (فیضان اللّٰہ خان)


جنات اور جادو کے سربستہ راز‘ عبیداللہ ڈار۔ ناشر: اذانِ سحر پبلی کیشنز‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۶۰۔ قیمت: ۱۶۰ روپے۔

جنات اور جادو دو ایسے موضوعات ہیں جو معاشرے کے ہر طبقے میں اور کسی نہ کسی حوالے سے گھر گھر موضوع سخن بنتے ہیں۔ بدقسمتی سے جہالت اور توہم پرستی کے سبب کئی گھرانے جعلی عاملوں اور نام نہاد پیروں کے ہاتھوں مدتوں استحصال کا شکار رہتے ہیں۔ ایسے مصائب کے تدارک کے لیے عبیداللہ ڈار نے زیرنظرکتاب پیش کی ہے۔

عرصہ ہوا‘ مصنف نے عملیات کے موضوع پر مضامین کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا۔ انھیں بے شمار خواتین و حضرات نے دردناک اور رقت انگیزخطوط لکھے جن میں اپنے مصائب کا ذکر تھا۔ یہی خطوط اس کتاب کا محرک بنے۔ کتاب بنیادی طور پر بعض روحانی عاملین کے مصاحبوں (انٹرویو) پر مشتمل ہے۔ انھوں نے جنات‘ کالے علوم‘ روحانی عملیات‘ جعلی عاملین‘ خواتین کے توہمات جیسے موضوعات کے بہت سے پہلوئوں پر بھرپور روشنی ڈالی ہے اور نہایت خوب صورت پیراے میں قارئین کی راہ نمائی بھی کی ہے۔

کتاب میں عمومی دل چسپی کے کئی پہلوئوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ جنات کو قابو میں لانا‘ جنات اور عامل کے رابطے کے طریقے‘ جادوئی علوم کی حقیقت‘ کاروبار پر جادو کے اثرات‘ آگ باندھنا‘ جنات کہاں رہتے ہیں؟ کیا کھاتے ہیں اور ان کا حلیہ کیا ہوتا ہے؟ تعویزات کے اثرات کیوں کر زائل کیے جاسکتے ہیں؟ دعائوں کی قبولیت کیسے ممکن ہے؟ وغیرہ--- کتاب میں ایسی دعائوں اور قرآنی آیات کے وظائف بھی بتائے گئے ہیں جن کے ذریعے ‘مصنف کا خیال ہے کہ‘ خواتین و حضرات اپنے مسائل خود حل کرسکتے ہیں۔ یہ کتاب شکوک و شبہات اور توہم پرستی کے زہرکا تریاق بھی ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)

تذکار صالحات‘ طالب ہاشمی۔ ناشر: البدر پبلی کیشنز‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۹۶۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

جناب طالب ہاشمی کا شمار معاصر دینی ادب کے معروف مصنفین میں ہوتا ہے--- انھوں نے تاریخ اسلام کے مختلف شعبوں‘ خصوصاً اسلامی اور دینی و مذہبی شخصیات پر ۵۰ سے زائد نہایت وقیع تصانیف و تالیفات شائع کی ہیں۔ وہ تاریخ اسلام پر گہری نظر کے ساتھ‘ بنیادی مصادر سے براہِ راست اخذ و اکتساب کا سلیقہ رکھتے ہیں اور زبان و بیان پر بھی انھیں پوری دسترس اور قدرت حاصل ہے۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں نبی آخرالزماںؐ، خلفاے راشدینؓ، صحابہ کرامؓ، ائمہ عظام، صلحاے اُمت‘ ارباب سیف و قلم اور دیگر مشاہیرِ تاریخِ اسلام کے تذکروں سے ایک خوب صورت کہکشاں مرتب کی ہے۔

زیرنظر کتاب ۱۲ برگزیدہ خواتین (حضرت حواؑ،حضرت سارہؑ،حضرت ہاجرہؑ،حضرت مریمؑ وغیرہ)‘ ۱۰۰ سے زائد صحابیات‘ چند تابعیات اور قریبی زمانے کی چند صالحات (والدہ علامہ اقبال‘ والدہ سید مودودی‘ والدہ میاں طفیل محمد‘ والدہ حکیم محمد سعید وغیرہ) کے تذکرے پر مشتمل ہے۔

مصنف نے یہ تذکرہ نہایت محنت و جاں فشانی اور تحقیق وتدقیق کے ساتھ مرتب کیا ہے۔ مستند مآخذ (زیادہ تر قرآن و حدیث اور مسلّمہ ارباب سیر و مورخین) کو ترجیح دی ہے۔ اس طرح بیسیوں صالحات کے مفصّل حالات‘ صحت و جامعیت کے ساتھ سامنے آگئے ہیں جنھیں پڑھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے خوش بیاں واعظین نے اسرائیلیات کے زیراثر ان نفوسِ قدسیہ کے حالات میں بہت کچھ رطب و یابس شامل کر دیا ہے۔ مصنف ِ محترم نے حسبِ ضرورت مفید ومعلومات افزا حواشی کا اضافہ بھی کیا ہے۔ آخر میں شامل کتابیات‘ مصنف کی علمیت پر دال ہے۔

جناب طالب ہاشمی ‘ اپنے اسلوب میں صحت ِ زبان کا خاص خیال رکھتے ہیں‘ بلکہ املا‘ رموزِ اوقاف اور اعراب وغیرہ کے اہتمام خصوصاً اعلام و اسما کے صحت ِ تلفظ کے لیے ان کے ہاں خاصا تردّد ملتا ہے‘ جس سے دورِحاضر کے اکثر لکھنے والے بے نیاز و تہی دامن نظر آتے ہیں۔ (رفیع الدین ہاشمی)


عورت ‘ قرآن و سنت اور تاریخ کے آئینے میں: ڈاکٹر عابدہ علی۔ تقسیم کنندگان:  کتاب سرائے‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ مجلاتی سائز‘ صفحات: ۱۱۰۸۔ قیمت: ۷۰۰ روپے۔

اس کائنات کا سب سے دل چسپ موضوع انسان ہے ‘مگر انسانوں میں عورت کئی اعتبار سے بحث ‘ سوال اور تحیّرکا موضوع بنا دی گئی ہے‘ حالانکہ ایسا ہونا نہیں چاہیے تھا۔ عورت بنیادی طور پر تخلیق‘ شفقت ‘ توازن‘ محنت اور ایثاروقربانی کا پیکر ہے لیکن اس کے وجود کو بے جا طور پر بحث اور استحصال کا ہدف بنایا گیا۔ مختلف مذاہب اور قبائل نے اپنے روایتی قوانین کے شکنجے میں اسے کسا اور حقیقت یہ ہے کہ انسانیت سے کم تر درجے پر معاملہ کیا۔ اب سے چودہ سوسال قبل اسلام نے عورت کی اس درماندگی و بے چارگی کو دُور کر کے اسے جاہلیت کے قوانین سے آزاد کرایا۔ طرفہ تماشا دیکھیے کہ آج اسی جاہلیت کے طرفدار‘ اسلام پر عورت کے ساتھ امتیازی سلوک کا الزام دھرتے ہیں۔

زیرنظر کتاب‘ اس موضوع پر پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے‘ جس میں تحقیق کار نے عرق ریزی اور جاں کاہی سے ان اعتراضات کا تجزیہ پیش کیا ہے اور موضوع کی مناسبت سے‘ وسیع پیمانے پر ماخذ و مراجع سے ایک ایک چیز کو حسنِ ترتیب سے یکجا بھی کر دیا ہے‘ اس لیے اسے کتاب یامقالہ کہنے کے بجاے ’’اسلام میں عورت کے مقام و مرتبے پر انسائی کلوپیڈیا‘‘ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ یہ کتاب عورت پر اسلام کے احسان اور رحمت کی تفصیل پیش کرتی ہے جس سے مسلمان عورت کے اعتماد کو سہارا اور ایمان کو تقویت ملتی ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ ایک عورت نے‘ عورت کے مقدمے کے جملہ نظائر و دلائل کو خوبی‘  مہارت اور لیاقت کے ساتھ پیش کیا ہے اور اس طرح ایک اہم دینی خدمت انجام دی ہے‘ جس سے یہ کتاب اسلام میں عورت کے امتیازات کا تذکرہ اور اعتراضات کا شافی جواب بن گئی ہے۔ کتاب کا موضوعاتی اشاریہ مطالعے کے لیے خاصا معاون ہے۔ (سلیم منصور خالد)


تاریخِ اسلام کا سفر (حصہ اول)‘ سید علی اکبر رضوی۔ ناشر: جاوداں۔ پیش کش: ادارہ ترویج علومِ اسلامیہ بی-۸۱‘ کے ڈی ا اسکیم نمبر۱-اے‘ کارساز روڈ‘ کراچی۔مجلد‘ بڑا سائز‘ صفحات: ۶۷۰۔ قیمت: ۶۵۰ روپے۔

تاریخِ اسلام کے مطالعے کا آغاز عموماً دورِ رسالتؐ سے ہوتا ہے۔ لفظ اسلام کی زیادہ اصولی تعبیر کرلی جائے تو نبی اول حضرت آدمؑ کی بعثت تک بات جاسکتی ہے۔ لیکن سید علی اکبر رضوی صاحب نے خالق کائنات ‘ خلقت کائنات اور ارتقاے کائنات پر بھی بحث کی ہے اور پہلا عنوان ہی یہ ہے کہ ’خدا کب سے ہے؟‘ اس سے اس سفر کی ’وسعت‘ کا اندازہ کیا جا سکتا ہے جو ابھی آگے بھی جاری رہنا ہے۔

اس کے بعد کتب سماوی اور دیگر مذاہب کے بنیادی تصورات کا تذکرہ ہے جس میں ہندومت کے بارے میں نسبتاً زیادہ تفصیل فراہم کی گئی ہے۔ قرآن میں جن انبیا کا ذکر ہے‘ ان کے مختصر حالات جو بیشتر قرآن کے حوالے سے ہیں‘ بیان کیے گئے ہیں۔ ۶۵۵ صفحات کی کتاب (علاوہ اشاریہ) میں ٹھیک نصف‘ یعنی ۳۲۸ صفحات دورِ رسالتؐ سے قبل تک کے اِن مباحث پر مشتمل ہیں۔

اس حصہء کتاب میں جو مباحث اٹھائے گئے ہیں‘ ان پر گفتگو کا یہ تبصرہ‘ متحمل نہیں ہوسکتا۔ کائنات کی تخلیق اور انسان کی تخلیق بجاے خود نہایت وسیع موضوعات ہیں‘ آسان اور سادہ نہیں۔ صاحب ِ کتاب نے قرآن اور تفاسیر کی بنیاد پر جدید سائنسی بیانات کی روشنی میں کلام کیا ہے۔

کتاب کا نصف آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال کے بیان پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر منظوراحمد نے اپنی تقریظ میں لکھا ہے کہ ’’آگے چل کرغالباً کچھ سخت مقامات آئیں گے‘‘، لیکن تبصرہ نگار کی رائے میں ان مقامات کا آغاز اسی حصے سے ہو گیا ہے۔ صاحب ِ کتاب اہل تشیع سے ہیں۔ بقول سلطان احمد اصطلاحی: ’’وہ اپنے مسلک کے مخلص پیروکار ہیں اور یہ ان کا حق ہے۔ ان کا سراپا جس قدر جدید اور سیکولر نظر آئے لیکن اپنے مسلکی خیالات میں وہ بالکل قدیم اور خالص ہیں۔ تاریخ اسلام میں اس نقطۂ نظر کے مظاہر کا جابجا سامنے آنا فطری ہے۔ چنانچہ حسب ِ موقع اس کے نمونے کتاب میں دیکھے جا سکتے ہیں‘‘۔ (ص ۲۳۰)

صاحب ِ کتاب نے سنی ماخذ سے بھی استناد کیا ہے۔ تفاسیر بھی تمام علما کی سامنے    رہی ہیں۔ ہمارا دامن فکرونظر تنگ نہیں ہونا چاہیے۔ ایک دوسرے کا نقطۂ نظر جان کر ہی       وسعت فکروذہن پیدا ہوسکتی ہے۔

کتاب بہت عمدہ‘ رواں اسلوب میں لکھی گئی ہے۔ علمی‘ تحقیقی امور خشک انداز کے بجاے پُرکشش انداز سے بیان ہوئے ہیں اور خوب صورت اشعار نے لطف دوبالا کر دیا ہے۔ کتاب نقشوں اور تصاویر سے بھی مزین ہے جو قاری کے لیے دل چسپی کا باعث ہیں۔ اعلیٰ معیار کی پیش کش ہے۔(مسلم سجاد)


مسجد سے میخانے تک‘ ابن العرب مکی۔ ناشر: دارالتذکیر‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات:۵۵۶۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

مولانا عامر عثمانی کا ماہنامہ تجلّی تقریباً ربع صدی تک علمی و ادبی اور مذہبی دنیا میں اپنے جلوے بکھیرتا رہا۔ مولانا نہ صرف دین و دنیا کا نہایت گہرا شعور رکھتے تھے بلکہ قدرت نے انھیں حسِّ مزاح بھی نہایت معقول پیمانے پر ودیعت کر رکھی تھی۔  تجلّیکے ایک مستقل کالم ’’مسجد سے میخانے تک‘‘ میں اس کا خوب صورت مظاہرہ نظرآتا ہے۔ وہ ابن العرب مکی کے فرضی نام سے نہایت شگفتہ افسانے رقم کیا کرتے تھے۔ بعضعلماے دین کی بے ذوقی بلکہ کور ذوقی کی بنا پر تبلیغ دین اور مذہبی مباحث نہایت خشک اور یبوست زدہ بیانات بن کر رہ گئے جس کی وجہ سے ہمارا دینی مبلغ (الاماشاء اللہ) واعظ ِ خشک کے مرتبے پر فائزہوگیا۔ ایسے میں مولانا عثمانی کی یہ لطافت و خوش گوئی بہار کے تازہ جھونکے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگرچہ اُردو ادب کے ناقدین نے مولانا کی دینی وابستگی اور مقصدپسندی پر ناک بھوں چڑھایا لیکن وہ ان کے طنزومزاح کے اعلیٰ معیار کے قائل ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

اُردو شاعری میں ملا و مسٹر کی روایتی کش مکش کے حوالے سے کتاب کا عنوان گہری معنویت لیے ہوئے ہے۔ اس مجموعے کی تمام تحریریں خوب صورت اور دل چسپ افسانے معلوم ہوتے ہیں جن میں مزاح اور طنز کا تڑکا نہایت تناسب اور فن کاری کے ساتھ لگایا گیا ہے۔ ہمارے ہاں پیری مریدی کا ’’ادارہ‘‘ اس شدت سے لوگوں کے اذہان و قلوب میں جاگزیں ہوچکا ہے کہ لوگ پیر کی بُری سے بُری حرکت کو بھی معجزے سے تعبیر کرتے ہیں۔ مولانا عثمانی نے ایسے نام نہاد بزرگوں کے ’’کشف‘‘ کا بھانڈا بیچ چوراہے کے پھوڑا ہے۔

یہ تمام کہانیاں کسی نہ کسی اخلاقی درس پر منتج ہوتی ہیں لیکن مصنف کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے اچھوتے کہانی پن‘ رنگا رنگ کرداروں‘ مزے مزے کے مکالموں‘ شگفتہ اسلوب‘ بھرپور تجسس اور سب سے بڑھ کر تجاہلِ عارفانہ سے اسے تبلیغ یا پروپیگنڈا بننے سے صاف بچا لے گئے ہیں۔ ان کہانیوں کی سب سے خاص بات مصنف کی کردار نگاری ہے۔ اس کتاب میں قدم قدم پر ہمارا واسطہ دل چسپ اور زندگی سے بھرپور کرداروں سے پڑتا ہے۔ وہ کردار شیخ اصرار حسین کا ہو یا قاری سماعت علی کا‘ منشی مروارید علی ہوں یا مولوی منقار الدین‘ وہ خواجہ مسکین علی ہوں یا صوفی غمگین‘ وہ حاجی بردبار علی ہوں یا صوفی ھل من مزید‘ صوفی ٹاٹ شاہ بریلوی ہوں یا پیرجنگل شاہ‘ حاجی دلدل ہوں یا خواجہ قالوبلیٰ‘ یہ سب اپنے ناموں ہی کی طرح دل چسپ ہیں‘ بلکہ خود ملا اور ملائن کے کردار بھی قدم قدم پر پھلجھڑیاں چھوڑتے محسوس ہوتے ہیں۔ مولانا عامرعثمانی کے طنز کا تیر عین نشانے پہ لگتا ہے اور ان کا مزاح دل کے غنچوں کے لیے بادِ نسیم کی خبر لاتا ہے۔ مولانا عثمانی نے تہذیبی و دینی افراط و تفریط کا خوب نوٹس لیا ہے۔ یہ کتاب دینی ادب میں فکاہیات کی صنف میں ایک خوب صورت اضافہ ہے۔ (ڈاکٹر اشفاق احمد ورک)


اہل کفر کے ساتھ تعلقات؟ وفاداری یا بیزاری اور اسلامی تعلیمات‘ مولانا مقصودالحسن فیضی۔ ناشر: نوراسلام اکیڈمی‘ پوسٹ بکس نمبر۶۶۔ ۵۱ ماڈل ٹائون‘ لاہور۔صفحات: ۳۳۲۔ قیمت: درج نہیں۔

مولف نے کفار‘ اہل کتاب اور مسلمانوںکے بارے میں ان کے رویے‘ اسلام میں ان کے حقوق‘ اور مسلمانوں کے لیے ان کے طرزِ زندگی سے بچنے کے خدائی احکامات و فرمودات نبویؐ کو محنت اور عرق ریزی سے جمع کیا ہے۔ یہ ایک لائق تحسین کوشش ہے جس سے ان موضوعات پر نئے لکھنے والوں کو سہولت حاصل ہوگی۔

اسلام کے نزدیک مسلم اور کافر کے درمیان فرق انسانی حقوق اور معاشرتی تعلقات میں مزاحم نہیں ہے۔ دورِ نبوت و خلافت میں خصوصاً اور بعد کے ادوار میں بھی‘مسلم معاشروں اور حکومتوں نے غیرمسلموں کے ساتھ حتی الوسع حسنِ سلوک سے کام لیا۔

چند فروعی مسائل (بالوں کی کٹنگ‘ تہہ بند و پاجامے ‘ پینٹ شرٹ‘ داڑھی اور مونچھ اور چمڑے کے موزے وغیرہ) پر بحث کتاب کی قدروقیمت میں اضافہ نہیں کرتی۔ مصنف نے بتایا ہے کہ دوسری قوموں کی زبانیں سیکھنے سے حضرت عمرؓ اور محمد بن سعد بن ابی وقاص نے منع کیا تھا (ص ۳۱۳)۔ یہ اس وقت کی حکمت و مصلحت ہوگی‘موجودہ دور میں غیرمسلم‘ نومسلم اور خود مسلمانوں میں دین کی اشاعت و تبلیغ‘ سفارت کاری ‘ معلومات کے تبادلے و فراہمی اور ترقی یافتہ قوموں کے تعلیمی و اقتصادی اور جدید ٹکنالوجی کے نظاموں سے استفادے اور دشمن کی سازشوں سے باخبر رہنے کے لیے ان کی زبانیں سیکھنا ضروری ہی نہیں بلکہ واجب و فرض ہے۔ اسی طرح دشمن کی زبان پر عبور کیے بغیر زبان کے ذریعے کیسے جہاد ہوگا؟

ہماری راے میں کتاب کی تدوین کو اور بہتر بنانے کی ضرورت تھی۔ کئی مقامات پر الفاظ اور جملے اصلاح طلب ہیں اور ایک ہی موضوع سے متعلق آیات و احادیث کی تکرار سے اچھا تاثر قائم نہیں ہوتا۔ بہرحال مولف کا جذبہ قابلِ قدر اور کوشش بھی اچھی ہے۔ (عبدالجبار بھٹی)


شجرِ صحرا (مجلہ) مدیر: محمد شفیع جان بلوچ۔ ناشر: گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول کلیاروالا‘ ضلع جھنگ۔ صفحات: ۱۱۰+ ۸۲۔ قیمت: درج نہیں۔

کلیار والا‘ جھنگ سے کوئی ۵۰ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک انتہائی پس ماندہ گائوں تھا۔ یہاں کے باشندوں کو شہروں کی کوئی سہولت میسرنہیں تھی۔ اس قصبے کے ایک سپوت حاجی حکیم اللہ بخش کلیار کی ربع صدی کی ان تھک جدوجہد کے نتیجے میں سڑک بن گئی‘ قریبی نہر پر پل تعمیر ہوا اور اب اس گائوں کا رابطہ شہروں سے ہو گیا ہے اور یہاں بچوں اور بچیوں کے لیے کئی تعلیمی ادارے بھی قائم ہوگئے ہیں۔ انھی میں سے ایک ادارے کا یہ پہلا میگزین ہے جس میں گائوں اور علاقے کی پوری تاریخ بیان کی گئی ہے۔ کچھ علمی اور معلوماتی مضامین بھی ہیں اور منظومات بھی۔ بہت سی تصاویر اور اساتذہ و طلبا کی سرگرمیاں وغیرہ۔

اُردو اور انگریزی دونوں حصے بڑی خوب صورتی سے مرتب اور شائع کیے گئے ہیں۔ یہ ادارہ اور اس کے پس منظر میں کی جانے والی کاوش میں پس ماندہ علاقوں کے لوگوں کے لیے ایک مثال ہے‘ سبق آموز اور عبرت انگیز۔ نیت نیک ہو اور حوصلہ بلند ہو تو ہر مشکل اور ہر عقدہ حل ہوسکتا ہے۔ (ر-ہ)


اسلام اور عصرِحاضر کے مسائل و حل‘ پروفیسر عبدالماجد۔ ناشر: ہزارہ انجمن براے سائنس مذہب مکالمہ (HSSRD) ‘مانسہرہ۔ ملنے کا پتا: علم و عرفان پبلشرز‘ ۳۴- اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۷۰۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔

مصنف‘ حیوانیات کے استاد اور ایک مجلے اسلام اور سائنس کے مدیر ہیں۔ انھوں نے اپنے وہ تمام مضامین جمع کر دیے ہیں جو مضمون نویسی کے مختلف مقابلوں کے لیے لکھے گئے تھے۔ عدمِ برداشت کا قومی و بین الاقوامی رُجحان‘عصرِحاضر کے مسائل اور اُن کا حل‘ نیز فلاحی مملکت کے قیام کے لیے عملی تجاویز‘اچھے مضامین ہیں۔ اس کے علاوہ سیرت‘ اسلامی ثقافت اورمثالی نظامِ تعلیم کے موضوع پر بھی تحریریں شامل ہیں۔ ’’وقت: انسان کی سب سے قیمتی متاع‘‘ ایک اہم مضمون ہے۔

جناب قاری محمد طیب‘وحیدالدین خان‘ باوا محی الدین کے مضامین اور مدیر افکارِ معلم کے نام مصنف کا ایک خط بھی شامل ہے۔ اس طرح مضامین میں تنوع تو پیدا ہوگیا ہے لیکن ہمارے خیال میں‘ ’’مسائل کا حل‘‘ مزید محنت کا متلاشی ہے اور اس موضوع پر اُمت کے اہل دانش و بینش ہی کو نہیں بلکہ اداروں اور انجمنوں کو مل جل کر کام کرنا چاہیے۔

افراد اُمت کو دین سے ناواقفیت‘ جہالت‘ پس ماندگی‘ سیاسی و فوجی زیردستی‘ غیریقینی مستقبل اور ذلّت و نکبت کے تاریک دور کا سامنا ہے۔ ضروری ہے کہ اصحابِ علم و دانش ان مسائل پر قارئین کی رہنمائی کریں تاکہ تاریک رات‘ روشن صبح میں تبدیل ہوسکے۔

حالاتِ حاضرہ اور اسلام کو درپیش چیلنج جیسے موضوعات سے دل چسپی رکھنے والے حضرات کے لیے یہ ایک معلوماتی کتاب ہے۔ (محمد ایوب منیر)


تعارف کتب

  • مولانا سعید احمد خان‘محمد عیسیٰ منصوری۔ ناشر: ورلڈ اسلامک فورم‘ لندن۔ملنے کا پتا: ندوۃ المعارف‘ ۱۳-کبیرسٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۳۲۔ قیمت: ۱۵ روپے۔] مولانا محمد الیاسؒ کے خاص تربیت یافتہ اور یکے از اکابر تبلیغی جماعت مولانا سعید احمدخان (۱۹۰۳ئ-۱۹۹۸ئ) کی ’’شخصیت‘ احوال اور دینی خدمات‘‘کا مختصر مگر جامع‘ دل چسپ اور سبق آموز تذکرہ۔[
  • اپنے حبیب سے ملیے‘ مولانا محمد عارف۔ ناشر: شعبہ جہاد کشمیر‘تنظیم اساتذہ پاکستان۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: ۱۵ روپے۔] احادیث کی روشنی میں رسولِ اکرمؐ کی شخصیت کا تذکرہ اور حیاتِ طیبہ کے مختلف پہلوئوں کا بیان--- ابتدائی ۵۰ صفحات کی تمہیدات۳‘۴ صفحات تک محدود و مختصررہتیں توکہیں بہتر تھا۔[
  • اکابر کی شامِ زندگی‘ مرتب عماد الدین محمود۔ ناشر: القاسم اکیڈمی‘ جامعہ ابوہریرہ‘ نوشہرہ‘ صوبہ سرحد۔صفحات: ۶۳۔ قیمت: ۲۴ روپے۔] بعض علماے دیوبند کے آخری ایام و لمحات کی کیفیات کا بیان کہ دنیا سے رخصت ہوتے وقت اُن کی حالت‘ گفتگو یا کیفیت یا کلمات کیا تھے؟ بقول مصنف: ’’شاید ان واقعات کو پڑھ کر ہمارے اندر اعمالِ صالحہ کی انگیخت پیدا ہو جو خاتمہ بالخیر کا باعث بنے‘‘۔[
  • پارہ الم (۱)‘ مرتب: قاری جاوید انور صدیقی۔ ناشر: آسان قرآن و فہم دین تحریک‘ ۵۲۸‘ اے بلاک‘ بٹ چوک‘ تاج پورہ اسکیم‘ مغل پورہ‘ لاہور۔صفحات: ۵۲۔ قیمت: درج نہیں۔] پہلا پارہ‘ متن مع ترجمہ ’’ایک ہی وقت میں لفظی و بامحاورہ آسان ترجمہ‘‘۔ ایک اچھی کوشش۔[
  • ترجمان الائمہ‘مدیراعلیٰ: مصباح الرحمن یوسفی۔ ناشر: دعوہ اکیڈمی‘ فیصل مسجد‘ پوسٹ بکس ۱۴۸۵‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۱۶۔ قیمت: درج نہیں۔] دعوۃ اکیڈمی ائمہ مساجد کے سہ ماہی تربیتی کورس منعقد کرتی ہے۔ یہ نیا سہ ماہی رسالہ (یا خبرنامہ) تربیت ائمہ کورس نمبر۵۲ کے شرکاکے نام‘ پتوں‘ تاثرات‘ دورۂ لاہور کی روداد اور کچھ منتخب اقتبا سات وغیرہ پر مشتمل ہے۔[

اسلامی ریاست‘ مولانا امین احسن اصلاحی۔ ناشر: دارالتذکیر‘ رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۳۳۲۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

اسلام کے اجتماعی نظام کا عملی اظہار اسلامی شریعت پر مبنی اسلامی ریاست ہے‘اور اسی ریاست کے ذریعے اسلامی عدلِ اجتماعی اور اجتماعی سطح پر تقویٰ کی زندگی گزارنا ممکن ہے۔ صدیوں تک ملوکیت ‘ استعمار کی غلامی اور علما کے غالب طبقے کی جانب سے‘ حالت موجودہ پر صبروشکر کربیٹھنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ برعظیم پاک و ہندمیں ایک طویل مدت تک اسلامی ریاست کے قیام اور اسلامی شریعت کے نفاذ کا مسئلہ نظروں سے اوجھل رہا۔ البتہ انیسویں صدی میں سید احمد شہیدؒ (م: ۱۸۳۱ئ) نے اور پھر بیسویں صدی میں سید مودودیؒ (م: ۱۹۷۹ئ) نے اسلامی ریاست کے بھولے سبق کو یاد دلانے کی کوشش کی۔

مولانا امین احسن اصلاحیؒ (م: ۱۹۹۷ئ) ‘ فہم قرآنیات کے حوالے سے ایک عظیم شخصیت اور اپنی مثال آپ اسکالر تھے۔ انھوں نے جماعت اسلامی کے ساتھ اپنے زمانۂ وابستگی میں اسلامی ریاست کے مختلف عناصر ترکیبی پر تحریر و تالیف کا بہت اہم اور عالمانہ کام سرانجام دیا‘ تاہم وہ اس علمی منصوبے کو مکمل نہ کر سکے (ص ۱۳)۔ لیکن اس کے جو حصے انھوں نے لکھے وہ ان کی علمی بصیرت‘ دینی حمیت اور سیاسی دوراندیشی کا ایک قیمتی نمونہ ہیں۔ زیرنظر کتاب میں اس نوعیت کی تحریروں کو یکجا کردیا گیا ہے۔ اسے مولانا مودودیؒ کی کتاب اسلامی ریاست کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو فکری مباحث کا ایک وسیع منظرنامہ سامنے آتا ہے۔

اصلاحی صاحب نے ابتدا میں وضاحت کی ہے کہ ان کی دانست میں: ’اسلامی خلافت‘ کا مطلب ’اسلامی ریاست ہے‘ اور’امامت و امارت‘ کا مطلب ’اسلامی حکومت‘ ہے (ص‘ ۱۶)۔ اس ریاست کی مقننہ اور انتظامیہ کے کردار پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اسلام میں شوریٰ متعین بھی ہے اور امیر اس کی اکثریت کے فیصلوں کا پابند بھی ہے۔ ] موجودہ[ زمانے میں شوریٰ کو متعین کرنے کے‘ بعض ضروری اصلاحات کے ساتھ‘ انتخاب کے جدید طریقوں کو اختیار کیا جا سکتا ہے ‘‘ (ص۴۴)۔ مزید یہ کہ امیریا خلیفہ مجلس شوریٰ کی رائے کو مسترد (ویٹو) نہیں کر سکتا (ص ۳۲-۴۴)۔ رسولؐ اللہ نے جس معاملے میں بھی لوگوں سے مشورہ لیا‘ اس میں اکثریت کے فیصلے کے مطابق ہی عمل کیا (ص ۴۰)۔’’سمع و طاعت… زمین میں خدا کے دین کے نفاذ و قیام کا ذریعہ ہے‘‘۔ اور: ’’اقامت دین… اسلامی ریاست کا اصلی مقصد قیام ہے‘‘ (ص ۱۵۳)… ’’اگر اسلامی ریاست کا وجود نہ ہو تو‘نہ اجتماعی زندگی بِّروتقویٰ سے آشنا ہوسکتی ہے اور نہ انفرادی زندگیوں ہی میں اس کا قائم رکھنا ممکن ہو سکتا ہے ‘‘۔ (ص‘ ۱۵۶)

قومیت کے مسئلے پر بلند درجہ بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’کسی نسلی قومیت کے اندر یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ کسی جہانی ریاست کی بنیاد رکھ سکے‘‘ (ص ۷۰)--- اسلامی ریاست کے غیرمسلم باشندوں کے مقام شہریت پر کہتے ہیں: ’’ذمیوں کو حقوق‘ مسلمانوں یا ان کی حکومت کی طرف سے نہیں بلکہ خدا اور اس کے رسولؐ کی طرف سے ان کی ضمانت پر دیے جاتے ہیں‘ ان کی ادایگی میں دانستہ اور بلاعذر کوتاہی‘ خدا اور رسولؐ سے خیانت اور غداری ہوگی‘‘(ص ۲۰۰‘ ۲۰۱)۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’جس نے کسی معاہد ] ذمی[ پر ظلم کیا یا اس پر اس کی برداشت سے زیادہ بار ڈالا تومیں قیامت کے دن خود اس سے جھگڑنے والا بنوںگا… یہ تمھارے غلام نہیں کہ تم ان کو وہاں سے یہاں اور یہاں سے وہاں پھینکتے پھرو۔ یہ آزاد اہل ذمہ ہیں‘‘۔ (ص ‘ ۱۹۵)

کم و بیش نصف صدی قبل کے یہ علمی مباحث‘ اپنی فکری اہمیت کے باعث آج بھی تروتازہ اور موجودہ حالات میں بامعنی ہیں۔ خصوصاً ’’فکرِاصلاحی‘‘ کے قائلین کو‘ اس نوعیت کے نکات‘ غوروفکر کی دعوت دے رہے ہیں‘ مثلاً: ’’]اسلامی[ ریاست کے تحفظ‘ اور اس کے مقصد جھاد فی سبیل اللّٰہ کی تکمیل کے لیے ہر ذی صلاحیت شہری کا فرض ہے کہ وہ برابر مستعد اور تیار رہے۔ اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے جہاد کے جذبے سے معمور رہنا دلیلِ ایمان ہے اور اس جذبے سے خالی ہونا نفاق کی علامت ہے۔ اگر ریاست کے تحفظ کا سوال سامنے آجائے تو پھر جان کو عزیز رکھنا اور قربانی سے جی چرانا ایمان کی کھلی موت ہے‘‘۔ (ص ۱۵۸)

اسلامی ریاست کے موضوع پر‘ اُردو میں یہ ایک قابلِ قدر عالمانہ کتاب ہے۔ موضوع پر مصنف کی گرفت نے‘ بحثوں کو جان دار اور پُرتاثیر بنا دیا ہے۔ (سلیم منصورخالد)


مصر میں آزادیِ نسواں کی تحریک اور جدید عربی ادب‘ ڈاکٹر سطوت ریحانہ۔ ملنے کا پتا: مکتبہ تحقیق و تصنیف اسلامی‘ پان والی کوٹھی‘ دودھ پور‘ علی گڑھ۔ صفحات: ۳۰۲۔ قیمت: ۱۰۵ روپے۔

عصرحاضر کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ بہت سے الفاظ اپنی پہچان اور حرمت کھو بیٹھے ہیں۔ لفظ نعرے بازی کا استعارہ بن کر رہ گیا ہے۔ جن لفظوں کا سب سے زیادہ استحصال ہوا اُن میں: عوام‘ حقوق‘ آزادی‘ انقلاب‘ جمہوریت‘ قومی مفاد‘ مساوات اور آزادیِ نسواں سرفہرست ہیں۔

یہ کتاب شعبہ عربی علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی ایک معلمہ نے پی ایچ ڈی کے مقالے کے طور پر تحریر کی ہے‘ جس میں آزادیِ نسواں کی تحریک کے ماضی و حال کا جائزہ لینے کے لیے مصر کو موضوع مطالعہ بنایا گیا ہے۔ مصر اور بعض دوسرے مسلم ملکوں میں اہل مغرب نے اپنی فکریات کے ساتھ سب سے زیادہ منظم اور سب سے پہلے حملہ کیا۔ کتاب کے مندرجات چشم کشا ہیں اور ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ سو برسوں کے دوران مصر میںتحریکِ نسواں کن اسالیب میں جدید عربی ادب و فکر پراثرانداز ہوئی۔ اس پھیلے ہوئے موضوع کو تحقیقی شعور اور محنت کے ساتھ یکجا کر کے پیش کرنا ایک اعلیٰ درجے کی دینی اور علمی خدمت ہے‘ جس پر مصنفہ مبارک باد کی مستحق ہیں۔

ڈاکٹر سطوت ریحانہ کا یہ مقالہ پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم اپنے ہی وطن کی کہانی پڑھ رہے ہوں۔ فرانسیسیوں نے اٹھارھویں صدی میں مصر کی مسلم عورت کو ترغیب و تحریص سے کوچہ و بازار میں لانے کی کوشش کی تھی‘ یہی صورت ہمارے گردوپیش بھی موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ پہلے فرانسیسیوں اور پھر انگریزوں کے زیراثر عورت کو معاشی زندگی اور نام نہاد کلچرل میلوں اور تماشوں کا ایک طاقت ور حصہ بنانے کی جو طرزِ رنگ و طرب ایجاد کی گئی تھی‘ اُس نے ڈیڑھ سو سال میں مصر کے معاشرے اور مصری عورت کو کون سا اعلیٰ مقام دیا کہ جس سے وہ باقی مسلم دنیا میں محروم ہے؟ دوسرے یہ کہ اس عمل سے مصر سائنس اور معاشی و عسکری یا تہذیبی ترقی کے کس اوجِ کمال پر پہنچا ہے کہ جس پر پاکستان کا طبقۂ نسواں حسرت اور محرومی میں ڈوبا دکھائی دیتا ہے؟

زیرتبصرہ کتاب کے آغاز میں آزادیِ نسواں کی یورپی تحریک اور مصر میں اس تحریک کے خدوخال کا تحقیقی موازنہ پیش کیا گیا ہے۔ پھر مصر میں تحریکِ نسواں کی ۱۴ مرکزی شخصیات (۱۱ مرد اور ۳ خواتین) کا تذکرہ اُن کے افکار کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اسی طرح تحریکِ نسواں پر اثرانداز ہونے والی ۱۰ کتب کا بھی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

پانچویں باب میں آزادیِ نسواں کے مثبت اور منفی پہلوئوں کے بارے میں چند مصری شعرا کا کلام پیش کیا گیا ہے مگر اس کے اُردو ترجمے کی عدم موجودگی سے غیر عربی دان قاری محرومی کا شکار رہتا ہے۔ آخری باب: ’’حقوق نسواں اور اسلام‘‘ میں تحریکِ نسواں کے موضوع پر اسلام کے حقیقی منشا کو پیش کیا گیا ہے جو متوازن اور مدلل وضاحت کے ساتھ ایک قیمتی دعوت فکرہے۔ اسلامی روایت سے وابستہ علمی دنیا میں فاضل مصفہ کی آمد ایک قابل قدر اضافہ ہے۔ (س - م - خ)


مطالعہ اقبال بلوچستان میں‘ پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق کوثر۔ ناشر: سیرت اکادمی‘ بلوچستان‘ ۲۷۲‘اے او بلاک۳‘ سیٹلائٹ ٹائون‘ کوئٹہ۔ صفحات: ۱۲۱۔ قیمت: ۷۰ روپے۔

مصنف کو بلوچستان کی تاریخ‘علوم و فنون اور شعروادب کے مختلف پہلوئوں پر تخصص کا درجہ حاصل ہے۔ اس سے پہلے وہ علامہ اقبال اور بلوچستان نام کی ایک کتاب شائع کرچکے ہیں (علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی اسلام آباد‘ ۱۹۸۶ئ‘ صفحات ۲۱۶)۔ مذکورہ کتاب زیادہ تر علامہ اقبال کے حوالے سے لکھی گئی تھی‘ مگر زیرنظر کتاب قدرے مختلف نوعیت کی ہے۔

اس کتاب میں سرزمین بلوچستان میں اقبالیات کی روایت کا آغاز اور اقبالیاتی اداروں کی سرگرمیوں‘ فکرِاقبال کی توضیح و تشریح کرنے والے مصنفین‘ کلامِ اقبال کے بلوچی اور براہوی مترجمین‘ اقبال کے مقلّد شعرا‘ بلوچستان کے کالج میگزینوں میں ذخیرئہ اقبالیات‘ بلوچستان میں منعقد ہونے والی اقبالیاتی تقاریب اور متعدد دوسرے پہلوئوں سے اس روایت کا ارتقا اور موجودہ   صورتِ حال کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس تفصیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان کے تعلیمی‘ علمی اور ادبی حلقوں میں علامہ اقبال کی شاعری اور اُن کے فکر کو غیرمعمولی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔

خود مصنف نے فروغِ اقبالیات میں بے حد سرگرمی سے حصہ لیا ہے۔ انھوں نے اقبال کی شاعری اور فکر پر اپنے تنقیدی و توضیحی مضامین کے دو مجموعے (اقبالیات کے چند خوشے۔ مردِ حر) شائع کرنے کے علاوہ مصنفین بلوچستان کے اقبالیاتی مضامین کے کئی مجموعے بھی مرتب کیے ہیں۔ چنانچہ بلوچستان میں فروغِ اقبالیات کے ضمن میں ان کا نام بہت نمایاں ہے۔ ان کی زیرنظر کاوش بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بلوچستان میں اقبالیات کی تاریخ لکھی جائے گی تو ڈاکٹر انعام الحق کوثر کی زیرنظر اور متذکرہ بالا کتابیں اس ضمن میں ایک اہم حوالہ اور ماخذ ہوںگی۔ (رفیع الدین ہاشمی)


حضرت ابراہیم علیہ السلام - حیات دعوت اور عالمی اثرات‘ محمد رضی الاسلام ندوی۔ ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز‘ جامعہ نگر‘ نئی دہلی۔ صفحات: ۲۰۰۔ قیمت: ۴۰ روپے۔

سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام سلسلۂ نبوت و رسالت کی وہ عظیم المرتبت ہستی ہیں جن کو خلیل اللہ (اللہ جل شانہٗ کے دوست) اور حنیف (سب سے کٹ کر ایک اللہ کے ہوجانے والے) کے مہتم بالشان لقب ملے۔ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد اسلام کی عالمگیر دعوت پھیلانے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے انھیں ہی سونپی تھی اور ان کو دنیا کا امام و پیشوا بنایا تھا۔ وہ ابوالانبیا یا جدالانبیا بھی تھے کہ ان کے بعد آنے والے تقریباً سبھی نبی اور رسول (بشمول خاتم الانبیا والمرسلین حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم) انھی کی اولاد سے تھے۔ قرآنِ حکیم کی ۲۵ مختلف سورتوں میں اُن کا ذکر آیا ہے اور چودھویں پارے میں ایک مستقل سورہ (ابراہیم) بھی ان کے نام کے ساتھ موجود ہے۔ قرآنِ حکیم کے علاوہ تفسیر‘ حدیث‘ سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔

زیرنظرکتاب ان کتابوں میں ایک اہم اضافہ ہے۔ فاضل مؤلف نے اس میں جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سوانح حیات بڑی تحقیق و تفحص کے ساتھ قلمبند کیے ہیں وہاں ان سے پہلے تباہ ہونے والی قوموں (قومِ نوح‘ ثمود) کی تباہی کا پس منظر بھی اختصار کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عہد کے سیاسی‘ معاشرتی‘ اخلاقی اور مذہبی حالات کا خاکہ بھی انھوں نے بڑی عمدگی سے کھینچا ہے۔ قرآنِ حکیم میں کئی مقامات پر  ملّت ِ ابراہیم اور اسوئہ ابراہیم کا تذکرہ ہوا ہے۔ فاضل مؤلف نے کتاب کے دو ابواب میں ان کو بھی اپنی گفتگو کا موضوع بنایا ہے اور ملّت ابراہیمی اور اسوئہ ابراہیمی پر نہایت بلیغ انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ ان کا اسلوبِ نگارش بڑا شگفتہ اور سلجھا ہوا ہے۔ بلاشبہہ یہ کتاب لکھ کر انھوں نے ایک قابلِ قدر دینی خدمت انجام دی ہے۔ (طالب الہاشمی)


مفتاح القرآن‘ پروفیسر عبدالرحمن طاہر۔ ناشر: قرآن کلب۔ ۷ عزیز ایونیو‘ کینال بنک روڈ ‘ گلبرگ ۵‘ لاہور۔ صفحات: ۹۶۔ قیمت: ۳۵ روپے۔

قرآن فہمی کی تحریک کو گذشتہ کچھ عرصے سے بہت فروغ حاصل ہوا ہے۔ زیرنظرکتاب اسی سلسلے کی ایک موثر کوشش ہے۔ مولف موصوف مدینہ یونی ورسٹی کے فاضل اور پنجاب     یونی ورسٹی میں استاد ہیں اور ایک عرصے سے قرآن اور زبانِ قرآن کی تدریس میں مصروف ہیں۔ اس کتاب میں عربی زبان کی تفہیم کے لیے آسان ترین انداز اختیار کیا گیا ہے۔ عربی قواعد کے پیچیدہ اصولوں کو مختلف علامات کی صورت میں پیش کر کے اس کا ترجمہ کرنا انتہائی سہل بنا دیا گیا ہے۔ اُردو دان طبقے کے لیے تفہیم زبان قرآن کے اس انداز کو براہِ راست طریق تفہیم (direct method) قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ اس طریقے سے روایتی عربی گرامر سیکھنے کی چنداں ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ البتہ ان علامات کی تفہیم و استعمال میں بھی بعض اصول مدنظر رکھنا ضروری ہیں‘ مثلاً: کسی ایک علامت کا استعمال اگر اسم کے ساتھ ہو تو معنی اور ہوتا ہے‘اور اگر فعل یا حرف کے ساتھ ہو تو ترجمہ مختلف ہوجاتا ہے (ص ۲۵- ۳۰‘ ۳۳‘ ۴۷ وغیرہ)۔ بعض علامتیں الفاظ کے شروع میں آئیں تومعنی اور ہوتا ہے اور لفظ کے آخر میں وہی علامت آنے سے معنی میں فرق پڑجاتا ہے (ص ۲۹)۔ اسی طرح بعض علامتوں کے ایک جیسے استعمال میں بھی مختلف مقامات پر معانی مختلف ہوتے ہیں (ص ۵)۔ اسی طرح علامات کی پہچان اور استعمال میں بھی کہیں کہیں مشکل کا احساس ہوتا ہے۔ مولف نے جابجا نوٹ دے کر وضاحت بھی کی ہے۔

زبان قرآن کی تفہیم کے لیے مذکورہ کتاب سے زیادہ آسان اور مفید کتاب شاید اب تک موجود نہیں تھی۔ جس کے لیے مؤلف اور ناشر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ طباعت معیاری ہے اورقیمت کم ہے۔ اُمید ہے کہ اپنے مقصد کے اعتبار سے یہ کتاب ایک مفید اور پُراثر کوشش ثابت ہوگی۔ (محمد حماد لکھوی)


صوبہ سرحد میں نفاذ شریعت کی عملی تدابیر ‘ سید معروف شاہ شیرازی۔ ظلال القرآن فائونڈیشن‘ ۲۸۸/بی ون‘ مین سہام روڈ‘ پشاور روڈ‘ راولپنڈی۔ صفحات: ۲۱۸۔ قیمت: ۷۵ روپے۔

سید معروف شاہ شیرازی معروف عالم دین اور دینی مصنف ہیں۔ فہم قرآن ان کی دل چسپی کا خاص موضوع ہے۔ سید قطب کی تفسیر فی ظلال القرآن کا اردو ترجمہ عربی زبان و ادب پر ان کی دسترس کا عکاس ہے۔

زیرنظر کتاب صوبہ سرحد میں نفاذِ شریعت کے سلسلے میں ان کی فکرمندی کی آئینہ دار ہے۔ شرعی قوانین کی روشنی میں دورِحاضر کے تقاضوں کا جائزہ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ اس کتاب میں ان مسائل کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے جو صوبہ سرحد کی اسلامی حکومت کو درپیش ہیں۔ بنیادی طور پر یہ کتاب شرعی اصلاحات کے بارے میں ان کی تجاویز پرمشتمل ہے جو مصنف صوبہ سرحد کے ارباب اختیار کے گوش گزار کرنا چاہتے ہیں۔ ان تجاویز میں درس نظامی اور جدید نظام تعلیم کے اشتراک‘ مسجد مکتب اسکول‘ نئے نظام تعلیم کی درجہ بندی اور نئے نصاب کی تشکیل کے بارے میں مشورے دیے گئے ہیں۔ اسی طرح زرعی شعبے میں ممکنہ تبدیلیوں اور محکمہ خزانہ کے حوالے سے امانت گھروں اور شراکتی بنک کے قیام‘ عشروزکوٰۃ‘ مقامی صنعتوں کی ترقی اور واپڈا کے بارے میں تجاویز شامل ہیں۔ اسلام کے تعزیراتی اور عائلی قوانین‘ قانونِ وراثت اور دیوانی قانون کے نفاذ کی بابت بھی چند تدابیر کی نشان دہی کی گئی ہے۔ یہ تجاویز خاصی عرق ریزی سے مرتب کی گئی ہیں۔

پہلے باب میں اسلامی ریاست کے ماڈل‘ اس کے اختیارات‘ بنیادی اداروں‘ جمہوریت اور اسلام کے شورائی نظام پر بحث کی گئی ہے۔ دوسرے باب (نظامِ تعلیم) میں ان خطرات سے آگاہ کیا گیا ہے جو نج کاری کے نام سے تعلیمی میدان میں این جی اوز کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے نتیجے میں ہمارے نظامِ تعلیم کو درپیش ہیں۔ تیسرے باب میں مختلف صوبائی محکموں کے بارے میں مفید تجاویز دی گئی ہیں۔ آخری باب میں انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے مقابلے میں اسلامی قوانین کی افادیت و اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اس موضوع سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ ایک مفید کتاب ہے۔ (سلیم اللّٰہ شاہ)


تعارف کتب

  • سرودِ نعت: مضامین و مکالمات ‘ ابوالامتیاز ع س مسلم‘ ناشر: الحمد پبلی کیشنز‘ رانا چیمبرز‘ سیکنڈ فلور‘ چوک پرانی انارکلی‘ لاہور۔ صفحات: ۱۷۴۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔ ]صنف ِ نعت کے بارے میں مصنف کے مضامین اور مکالمات (انٹرویو) کا مجموعہ‘ یعنی نعت کے موضوع پر ان کے خیالات‘ تصورات‘ محسوسات اور حج و عمرے اور روضۂ رسولؐ پر بارہا حاضری کا تذکرہ۔ کچھ ذکر تاریخ کا‘ کچھ قلبی واردات‘ سیرتِ پاکؐ کی جھلکیاں اور مصنف کا نعتیہ کلام۔ اس مجموعے سے خود مصنف کی شخصیت کو بھی سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔[
  • سیدابوالاعلیٰ مودودی ‘ علی سفیان آفاقی۔ ناشر: اسلامک بک پبلشرز‘ ۲/۱۴‘ فضل الٰہی مارکیٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۳۸۔ قیمت: درج نہیں۔ ]۱۹۵۴ء میں شائع شدہ یہ کتاب‘ اب تیسری بار چھپی ہے۔ رواں اور آساں صحافتی اسلوب میں ’’ایک اعلیٰ‘‘ انسان کے بارے میں ایک عمدہ اور ہلکی پھلکی کتاب: ’’غیرجانب دارانہ مطالعاتی انداز‘‘ (اسعدگیلانی)۔ اس کتاب کے سرورق پر ’’ممتاز اسلامی مفکراور اسکالر‘‘ کے الفاظ کا اضافہ کیا گیا ہے‘ حالانکہ متن کتاب میں یہ تاثر دینے کی کوئی کوشش نظرنہیں آتی‘ بس کتاب پڑھتے ہوئے مولانا مودودیؒ سے تعارف کے ساتھ ان کی شخصیت کا ایک خوب صورت اور دل کش نقش اُبھرتا ہے۔[
  • تذکرہ و سوانح مولانا محمد احمد‘ مولانا عبدالقیوم حقانی۔ ناشر: القاسم اکیڈمی‘ جامعہ ابوہریرہ‘برانچ پوسٹ آفس خالق آباد ضلع نوشہرہ‘ صوبہ سرحد۔صفحات: ۱۷۲۔ قیمت: درج نہیں۔] قرآن پاک کے مفسر‘ مدرس اور عالم دین مولانا محمد احمد (۱۹۰۸ئ-۱۹۹۹ئ) کے حالاتِ زندگی اور ان کے علم و فضل‘ تقویٰ اور علمی و روحانی کمالات کا تذکرہ۔[

 

دینی مدارس میں تعلیم ‘ مرتبہ: سلیم منصور خالد۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘ مرکز ایف سیون‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۴۷۲ مع اشاریہ۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

اس کتاب کے مرتب نے علامہ محمد اقبال کے ملفوظات سے چند جملے نقل کیے ہیں‘ جن میں علامہ‘ دینی مدارس کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے‘ کہتے ہیں کہ ان مکتبوں (مدرسوں) کو اسی حالت میں رہنے دو۔ غریب مسلمانوں کے بچوں کوانھی مکتبوں میں پڑھنے دو۔ اگریہ مُلّا اور درویش نہ رہے‘ تو جانتے ہو کیا ہوگا؟ جو کچھ ہوگا‘ میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں۔ اگر ہندستان کے مسلمان ان مکتبوں سے محروم ہوگئے تو بالکل اسی طرح‘ جس طرح ہسپانیہ میں‘ ۸۰۰برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ وقرطبہ کے کھنڈروں اور الحمرا کے سوا اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا‘ یہاں بھی تاج محل اور دلی کے لال قلعے کے سوا مسلمانوںکی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا (ص ۱۹)۔ یہی وجہ ہے کہ تحریکِ آزادی اور سرخ و سفید استعمار کے خلاف مزاحمت کی جدوجہدمیں‘ انھی مدرسوں کے درویش پیش پیش رہے ہیں۔ اشتراکیوں کو یہ صدمہ نہیں بھولتا کہ ان کی ذلّت آمیز شکست اور روسی سامراجی امپائرکے انہدام میںبنیادی کردار انھی مدرسوں کے ملّائوں کا ہے۔ دوسری طرف سرمایہ دارانہ سامراج کو بھی بخوبی اس حقیقت کا ادراک ہوچکا ہے کہ    ؎

ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اُس اُمت سے ہے

جس کی خاکستر میں ہے‘ اب تک شرارِ آرزو

چنانچہ نائن الیون کی سازش‘ اسامہ کی گرفتاری کے لیے افغانستان پر یلغار اور پھر خطرناک ہتھیاروں کی تلاش کے بہانے عراق پر قبضہ اسی ضمن میں پیش بندیوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔

بدقسمتی سے ہمارے اندر بھی ایک گروہ ایسا ہے جو حقیقت ِحال کا ادراک کیے بغیر یا پھر بدنیتی یا اپنی لادینی افتادِ طبع کی وجہ سے دینی مدرسوں کے خلاف ہنود ویہود اور استعماری طاقتوں کی اس اسلام دشمن سازش میں شامل ہوگیا ہے کہ دینی مدرسوں کو بند کر دیا جائے یا انھیں طرح طرح کی جکڑبندیوں میں کس کر بے موت مرنے کے لیے چھوڑ دو۔

زیرنظر کتاب‘ دینی مدارس اور ان کے تعلیمی نظام پر منتخب مضامین کا ایک عمدہ اور جامع مجموعہ (anthology) ہے۔ کتاب چار حصوں پر مشتمل ہے۔ اوّل: نہایت جید‘ مخلص صاحبان فکرونظرکے علمی خطبات۔ دوم: دینی مدارس میں تعلیمی و تدریسی عمل کے پہلوئوں اور انتظامی عناصرترکیبی پر گزارش۔ سوم: دینی مدارس کی شماریاتی تصاویر اور ارتقا کی کیفیت۔ چہارم: دینی مدارس کے نصابیاتی عمل پر مشتمل ضمیمہ جات (یہ حصہ تقابلی مطالعے کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے)۔

اس زمانے میں دینی مدارس کے موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ سلیم منصورخالد نے رطب و یابس اور مناظرہ و مجادلہ سے قطع نظر کرتے ہوئے‘ موضوع کو علمی سطح پر پیش کیا ہے۔ چنانچہ  اس مطالعے میں دینی تعلیم کی خوبیوں کے ساتھ اس کے کمزور پہلو بھی سامنے آتے ہیں اور   اصلاحِ احوال کی بہت سی بنیادی تجاویز پر بھی بحث کی گئی ہے (ممکن ہے اس پر کچھ اپنے بھی ناخوش ہوں)۔ لیکن ہمیں بقول اقبال: ’’اپنے عمل کا حساب‘‘ کرنے سے گھبرانا نہیں چاہیے۔

اپنے موضوع پر اس جامع دستاویز کے مطالعے سے دینی مدارس میں تعلیم کی نوعیت‘ ماہیت اور مسائل کے بہت سے چھپے ہوئے گوشے بھی سامنے آتے ہیں۔ پروفیسر خورشید احمد کے الفاظ میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ’’دینی نظام تعلیم کی خوبیوں‘ خامیوں اور اصلاح طلب پہلوئوں کا پوری بالغ نظری سے تجزیہ کر کے اصلاح احوال کی سنجیدہ کوششیں کی جائیں‘‘۔ زیرنظرکتاب ایسی کوششوں میں نہایت مفیدومعاون اور مددگار ثابت ہوگی۔

مؤلف نے جس محنت و کاوش‘ تلاش و جستجو اور مہارت و سلیقے کے ساتھ اسے مرتب کیا ہے‘ اس کی داد نہ دینا بے انصافی ہوگی۔ کتاب کی پیش کش خوب صورت اور معیاری ہے اور قیمت نسبتاً کم ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


A Brief Study of the Holy Quran ] قرآن پاک کا ایک مختصر مطالعہ[ ‘ پروفیسر شفیق احمد ملک۔ ناشر: طارق برادرز‘ ۵-پہلی منزل‘ جلال الدین ٹرسٹ بلڈنگ‘ اُردوبازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۹۱۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔

قرآن کے زندہ معجزات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دنیا کے ہر حصے میں اس کے پیغام کو سمجھنے اور اس کے مفہوم کو دوسروں تک پہنچانے کی کوشش برابر جاری ہے۔

پروفیسر شفیق احمد ملک نے رُبع صدی سے زائد عرصہ اسلامیہ کالج لاہور میں انگریزی زبان کی تدریس کی ہے۔ اب انھوں نے انگریزی تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم طلبہ کے لیے مختصر مطالعۂ قرآن کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ سب سے پہلے سورہ کے مرکزی مضامین کا تعارف کرایا گیا ہے‘ پھر ہررکوع کے مضامین کا مختصر مفہوم اور خلاصہ۔ اس کام میں انھوں نے معروف اُردو تفسیروں کے علاوہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی شہرہ آفاق تفسیر تفہیم القرآن کے تازہ ترین انگریزی ترجمے (از ظفراسحاق انصاری) سے بھی استفادہ کیا ہے۔

مصنف‘ دقیق علمی بحثوں اور باریکیوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے‘ ایک رُکوع کے مرکزی موضوع کو تقریباً ایک صفحے میں سمیٹ دیتے ہیں۔ مذکورہ مطالعے کی پہلی جلد میں    سورۂ فاتحہ سے سورۂ یوسف تک ۱۲ سورتیں شامل ہیں۔ ہر سورہ کا تعارف انتہائی باریک خط میں ہے‘ نسبتاً بڑے خط میں ہونا چاہیے تھا۔ مکۃ المکرمہ کے لیے MECCA کی بجاے MAKKAH لکھنا مناسب ہے۔ صلوٰۃ کا اُردو متبادل NAMAZ لکھا گیا ہے۔ مناسب ہوتا کہ SALAT لکھا جاتا۔

مجموعی طور پر کاوش قابلِ تحسین اور وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ انگریزی دان طبقے خصوصاً نوجوان طالب علموں کے لیے یہ ایک مفید اور لائق مطالعہ کتاب ہے۔ (محمدایوب منیر)


یاد نامۂ دائودی‘ مرتبین: تحسین فراقی‘جعفر بلوچ۔ ناشر: دارالتذکیر‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۳۰۶۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

جناب خلیل الرحمن دائودی (۱۹۲۳ئ-۲۰۰۲ئ) ادبی تحقیق اور مخطوطہ شناسی میں ایک ممتاز مقام رکھتے تھے۔ اُردو ‘عربی اور فارسی زبانوں پر اچھی قدرت رکھتے تھے۔ اُن کی عمر کا بیشترحصہ مخطوطات کی تلاش‘ جانچ پرکھ‘ اُن کی ترتیب و تدوین اور خرید و فروخت میں گزارا۔ اُن کی کاوشوں سے متعدد پبلک اور قومی کتب خانوں میں گراں بہا مخطوطات کے ذخائر جمع ہوئے۔ زیرنظرکتاب‘ اُن کے سوانحی خاکے کے ساتھ‘ اُن کی شخصی خوبیوںاور علمی و تحقیقی کارناموں کا ایک عمدہ تعارف پیش کرتی ہے۔

دائودی صاحب کی شخصیت کا قابلِ قدر پہلو یہ تھا کہ وہ علمی کام کرنے والوں سے نہایت محبت و شفقت اور فیاضی کے ساتھ پیش آتے تھے۔ کسی اسکالر کی ضرورت کی کتاب یا مخطوطہ اسے بلاتامل اور بلامعاوضہ دے دیتے۔ اکثر فرماتے: ’’میں ہر کتاب پر اس شخص کا حق سمجھتا ہوں جس کی اسے ضرورت ہو‘‘۔ اُن میں ایک خوبی یہ تھی کہ ہر خط کا جواب فوراً دیتے۔ اگر شب میں یاد آتا کہ فلاںخط کا جواب نہیںگیا تو اپنی اس کوتاہی پر افسوس کرتے۔ وہ ’’نیکی کر دریا میں ڈال‘‘ کے قائل تھے۔ کہا کرتے تھے: ’’دورِحاضر کے ڈپریشن کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے توقعات وابستہ کرلیتے ہیں۔جب توقعات پوری نہیں ہوتیں تو دماغی اور جسمانی امراض لاحق ہو جاتے ہیں۔ اس لیے صلے کی توقع کے بغیر کام کریں اور نیکی کر کے بھول جائیں۔ توقعات وابستہ کرو گے اور وہ پوری نہ ہوںگی تو مایوس اور افسردہ ہوکر بیمار ہوجائو گے۔ اگر لوگ حقوق العباد کا خیال رکھیں تو معاشرے میں بدامنی اور بے چینی نہیں ہوگی۔ (ص ۲۱)

یہ کتاب مرحوم کے دوستوں اور احباب (ڈاکٹر وحید قریشی‘ محمد اکرام چغتائی‘ محمداقبال مجدّدی‘ عارف نوشاہی اور تحسین فراقی وغیرہ) کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ کتاب کے دوسرے حصے میں دائودی مرحوم کی چند منتخب اُردو اور انگریزی تحریریںاور عکسِ تحریر شامل ہے۔ کتاب میں    متعدد تصاویر کے علاوہ دائودی صاحب کی تصانیف کی فہرست‘ ان کے چند خطوط اور ان کے نام خطوطِ مشاہیر شامل ہیں۔ یہ کتاب دائودی صاحب کی شخصیت کا ایک دل کش نقش اور ان کے علمی کارناموں کا عمدہ تعارف پیش کرتی ہے۔ اشاعتی پیش کش اچھی ہے۔ اعترافِ خدمات کی روایت میں مرتبین نے قابلِ تحسین اضافہ کیا ہے۔ ( ر - ہ)


دنیا جن سے روشن ہے‘ مرتب: ڈاکٹر نثار احمد قریشی۔ ناشر: پنجابی ادبی سنگت‘ ۲۶۲-محمدنگر‘ مرزا روڈ‘ اٹک کینٹ۔ صفحات: ۱۴۴۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

برعظیم پاک و ہندکے چند نامور ادیبوں اور ماہرین تعلیم کے ۲۴ مضامین کا مجموعہ‘ جس میں اپنے اپنے اساتذہ کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ نسلِ نو کی تعمیرمیں استاد کا ہمیشہ نہایت اہم کردار رہا ہے اور انسان کی اپنی کاوش سے استاد کی تربیت زیادہ اہم ہوتی ہے۔ مذکورہ مجموعے میں سیدابوالحسن علی ندوی‘ ڈاکٹر محمد باقر اور ڈاکٹر مشتاق الرحمن صدیقی کے علاوہ متعدد دیگر اہل قلم کی تحریریں شامل ہیں۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ اساتذہ کرام کس طرح اپنا علمی ورثہ آنے والی نسلوںتک منتقل کرتے ہیں۔ ہر مضمون سبق آموز ہے اور تاریخ ساز اساتذہ کی زندگی کے کسی نہ کسی پہلو پر روشنی ڈالتا ہے۔

انتساب مؤلف کے استاد ڈاکٹر وحید قریشی کے نام ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ مؤلف کا اپنے کسی استاد کے بارے میں کوئی مضمون اس میں شامل نہیں ہے جو بآسانی وہ لکھ سکتے تھے۔ یقینا وہ کسی نہ کسی یا بعض اساتذہ سے ضرور متاثر ہوئے ہوں گے۔ اساتذہ اور طلبہ کے لیے یہ ایک معلوماتی ‘ دل چسپ اور مفید کتاب ہے مگر قیمت زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ (م - ا -م)


Making Connections ‘مولفین: پروفیسر خواجہ محمد صدیق‘ ڈاکٹر عبدالمجید خان۔ اہتمام و اشاعت: اسلامک ایجوکیشن فائونڈیشن‘ رچمنڈ‘ ورجینیا‘ امریکا۔ صفحات: ۱۷۵۔ قیمت: درج نہیں۔

تعلیم و تربیت وہ بنیادی سانچا ہے جس کے ذریعے نسلوں کی تعمیر یا تخریب کا کام ہوتا ہے۔ اس میدان میں الٰہیات و اخلاقیات سے بغاوت جیسے تخریبی کاموں کے لیے تو دنیا بھر کے خزانوں  کے منہ کھلے ہوئے ہیں‘ لیکن ان کے مقابلے میں تعمیری کاوشوں سے منسلک افراد‘ وسائل کی قلت اور مہارت میں کمی کے ہاتھوں مجبور دکھائی دیتے ہیں‘ تاہم اس قلّت و کمی کے باوجود وہ اسکول قائم کر کے چیلنج کا ایک حد تک جواب دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان اسکولوں میں تربیت یافتہ اساتذہ کی فراہمی کے ساتھ ایک اہم مسئلہ نصابی کتب کی تیاری اور پیش کش کا بھی ہے۔ یہ کام  مشکل‘ نازک اور مہنگا ہے۔ انتخاب‘ معیار اور ابلاغ میں سے کوئی ایک کڑی ٹوٹ جائے تو نصاب کا دامنِ درس تار تار ہو جاتا ہے۔

زیرتبصرہ کتاب‘ دسویں تا بارھویں جماعت (یا ۱۵ سے ۱۷ برس عمر) کے بچوں کے لیے مرتب کی گئی ہے۔ اس کے سرورق پر لفظ connections مرکزیت کا حامل ہے۔ کنکشن یا تعلق کس سے؟ مولفین نے ۱۵ ابواب میںنصف صداحادیث رسولؐ میں پوشیدہ: تربیت‘ حکمت‘تدبر‘ رہنمائی اور عمل کی کرنوں کو حد درجہ خوب صورتی سے بزبان انگریزی پیش کیا ہے۔ مسلمانوں کی وہ  نسلِ نو‘ جو دارالکفرمیں زندگی گزاررہی ہے یا پھر پاکستان جیسے عملاً سیکولر ملک کے انگریزی زدہ اسکولوں میں زیرتعلیم ہے‘ اُس کے لیے یہ کتاب ایک موجِ نور ہے۔

اس کتاب کو ایک شان دار انتخاب‘ پیشہ ورانہ نصابی مہارت کا مظہر اور پراثر پیش کش کا مرقع کہا جا سکتا ہے۔ دل چسپی رکھنے والے افراد ویب سائٹ www.isgr.com پر رابطہ کرکے معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔(سلیم منصورخالد)


ذکرِماں‘ ڈاکٹر کیپٹن غلام سرور شیخ۔ ناشر: سارا سرور پبلشرز‘ ۱۷‘۱۸ گل فشاں کالونی‘ جھنگ روڈ‘ فیصل آباد۔ صفحات: ۲۲۹۔ بلاقیمت۔

ماں جیسی عظیم ہستی کا تصور کرتے ہی انسان (خواہ وہ عمر کے کسی بھی مرحلے میں ہو) خود کو بچہ محسوس کرنے لگتا ہے۔ ماں کی رحمت و شفقت کائنات میں مثالی حیثیت رکھتی ہے۔ یہی وہ عظیم ہستی ہے جو اپنے بچوں کی پرورش کے لیے طرح طرح کی تکالیف اٹھاتی اور مشکل سے مشکل مرحلے کو بھی حوصلے اور صبر کے ساتھ برداشت کرتی ہے۔

زیرتبصرہ کتاب میں اس عظیم المرتبت ہستی کے بارے میں بھرپور معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ ان معلومات کو کل نو ابواب میںتقسیم کیا گیا ہے۔ باب اول (قرآنِ حکیم اور ذکرِماں)میں قرآن مجید کی ان تمام آیات کے تراجم کو سورت کے حوالے کے ساتھ جمع کیا گیا ہے جن میں ماں کا ذکر آیا ہے۔ دوسرا باب (رسولؐ کا فرمان اور ذکرِماں)میں احادیث مبارکہ کو یکجا کیا گیا ہے۔

مابعد ابواب میں پیغمبران اسلام کی جلیل القدر مائوں‘ اُمہات المومنین اور اپنی مائوں کے بارے میں اسلامی تاریخ کے متعدد علما و زعما‘ مثلاً: امام بخاریؒ، امام غزالیؒ، اویس قرنیؒ،امام شافعیؒ، علامہ اقبالؒ، سرسیداحمد خاںؒ، قائداعظمؒ، سیدابوالاعلیٰ مودودی ؒاور مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کے خیالات و احساسات یکجا کیے گئے ہیں۔ ایک حصے میں ماں کے بارے میں مشاہیر عالم کے اقوال شامل ہیں۔ پھر اس موضوع پر اُردو اور پنجابی شعرا کی نظمیں اور اشعار بھی جمع کر دیے گئے ہیں۔

مصنف کو ’’ماں‘‘ کے موضوع سے ایک جذباتی وابستگی ہے اور انھوں نے کتاب محنت اور لگن کے ساتھ مرتب کی ہے مگر یہ پہلو اجاگر نہیں ہوسکا کہ ماں کو اس قدر اُونچا مقام و مرتبہ کیوں دیا گیا ہے؟ (اس لیے کہ نہ صرف ولادت‘ بلکہ رضاعت‘ پرورش اور تربیت کے مراحل میں وہ انتہائی ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ وغیرہ) اسی طرح ص ۸۰ کے آخری پیرا‘ ص ۸۸ کی سطور ۱۲‘ ۱۳--- اور ص ۸۹ کی سطور ۲‘ ۳پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ مجموعی طور پر کتاب دل چسپ اور قابل مطالعہ ہے۔ آخر میں کتابیات بھی شامل ہے۔ سرورق بہت سادہ اور جاذبِ نظر ہے۔ مولف اسے دوسری بار چھاپ کر مفت تقسیم کررہے ہیں۔ (شایستہ ہاشمی)


انسان دوستی اور جمہوریت (مغربی اور اسلامی تناظر میں)۔ مصنف: ڈاکٹر سیدعبدالباری۔ ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز‘ نئی دہلی۔ صفحات: ۷۲۔ قیمت: ۲۵ روپے۔

عہدِحاضر میں جمہوریت (democracy) اور انسان دوستی (humanism) نہایت کثرت کے ساتھ استعمال ہونے والی وہ اصطلاحات ہیں جو ہمارے ہاں مغرب سے آئی ہیں اور ہم نے بلاسوچے سمجھے محض ذہنی مرعوبیت کی بنا پر ان دل کش اصطلاحات کو‘ ان کے مغربی تصورات سمیت اپنا لیا ہے۔ ڈاکٹر سید عبدالباری نے زیرنظرمختصر اور نہایت عالمانہ اور جامع مقالے میں ان پُرفریب اصطلاحات کی اصلیت پر روشنی ڈالی ہے۔ بتایا ہے کہ مغرب میں انسان دوستی کی نشوونما مذہب سے بے زاری اور مذہب سے بغاوت کے ماحول میں ہوئی اور انسان دوستی کو اس لیے تمام مادی اور معاشرتی ترقیات کا ضامن قرار دے دیا گیا کہ مذہب سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔   دل چسپ بات یہ ہے کہ خدا پرستوں اور منکرین خدا دونوں نے یورپ میں انسان دوستی پر اپنا دعویٰ ثابت کیا ہے۔

مصنف نے ہندستانی فکروفلسفے کی روشنی میں انسان دوستی کی روایت پر مختصراً روشنی ڈالی ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ اسلام میں انسان دوستی کا حقیقی تصور کیا ہے؟ دوسرے باب میں جمہوریت کے مغربی تصورات اور جدید ہندستان میں جمہوریت کے تجربے پھر جمہوریت کے اسلامی تصور پر بحث کی ہے۔ آخر میں یہ بتایا ہے کہ مغرب کی بے خدا جمہوریت اور انسان دوستی کے مقابلے میں اسلام میں ان کے کیا امتیازی خصائص ہیں۔ مصنف کے خیال میں دورِحاضر کے مسائل کے حل میں انسان دوستی اور جمہوری تصورات بری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں (اس سلسلے میں ایک مثال انھوں نے بھارت کی بھی دی ہے)۔ چونکہ اسلام میں شورائیت‘ احتساب اور جواب دہی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اس لیے انسان دوستی اور جمہوریت کی وہی صورت انسانیت کو حقیقی معنوں میں تحفظ ِ جان اور تحفظ ِمال و آبرو کی ضمانت فراہم کرسکتی ہے‘ جو اسلام نے پیش کی ہے۔ (ر-ہ)


توبہ کا تصور اور مومنین ‘خواجہ غفور احمد۔ ناشر: ۱۸۹‘ گلشن بلاک‘ علامہ اقبال ٹائون‘ لاہور-۵۴۵۷۰۔ صفحات: ۵۱۔ قیمت: درج نہیں۔

انسان اور حیوان کے درمیان حدِفاصل‘ نیکی اور گناہ کا احساس اور خالق کائنات کے سامنے توبہ کا تصور ہے۔ اسلام کے سوا دیگر مذاہب میں توبہ کا تصور نہ صرف ایک پہیلی ہے‘ بلکہ شاید عقل و عدل کے بھی منافی ہے۔ زیرنظر تحریر اسلام کے تصور توبہ و مغفرت کو پیش کرتی ہے۔ جس کا اسلوب دل چسپ اور توبہ و مغفرت کی طرف رغبت دلاتا ہے۔ مصنف نے قرآن و حدیث سے رہنمائی کے ساتھ دیگر آثار سے بھی کسبِ فیض کیا ہے۔

کتاب کی ہیئت ایک مربوط تحریر سے زیادہ کسی علمی خطبے سے قریب ترہے۔ کیونکہ ایک اچھا خطیب بظاہر تجربات‘ جذبات اور آثار سے اس طرح کام لیتا ہے کہ جس میں سامع کی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ابلاغ کیا جاتا ہے۔ اس تحریر میں اگرچہ لغوی مباحث قیمتی ہیں‘ لیکن ایک اوسط درجے کے قاری کے لیے انھیں سمجھنا قدرے مشکل ہوگا۔ بہرحال یہ مجموعہ فرد کے دل میں رجوع الی اللہ کا جذبہ اور اس سے مغفرت کی طلب کا احساس پیدا کرتا ہے۔(سلیم منصورخالد)

حقوقِ انسانی کی آڑ میں‘ مرتبہ: محمد متین خالد۔ ناشر: علم و عرفان پبلشرز‘ ۳۴- اُردو بازار‘ لاہور۔صفحات ۴۷۳۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

مشہور ہے کہ خود چور، ’’چور چور‘‘ کا شور مچا کر اپنے آپ کو بچا لیتا ہے۔ آج حقوقِ انسانی کی محافظت کی علم بردار مغربی استعماری قوتیں ’’حقوقِ انسانی‘‘ کی خوش نما ترکیب کو استعمال کرکے معاشی اعتبار سے ترقی پذیر ممالک کے عوام کو بے وقوف بنا رہی ہیں۔ ایک طرف  حقوقِ انسانی کا یہ نعرہ ہے اور دوسری جانب فلسطین‘ چیچنیا‘ مشرقی یورپ‘ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں کا قتلِ عام‘ لیکن اس پر زبانیں گنگ۔

اکیسویں صدی کے استعمار نے اپنی سیاسی‘ معاشی‘ عسکری اور تہذیبی بالادستی کے لیے جہاں توپ و تفنگ‘ منڈی کی معیشت ‘ تعلیم گاہوں اور ذرائع ابلاغ کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے‘ وہاں انھوں نے خاص طور پر مسلم ملکوں میں کرائے کے غدار فطرت دانش وروں کو اپنے مقاصد کے حصول کا آلۂ کار بھی بنایا ہے۔ یہ لوگ بالعموم این جی اوز کے لبادے میںکام کرتے ہیں (مستثنیات کے علاوہ)۔ ان این جی اوز کا کام کیا ہے؟ اپنے ملک‘ تہذیب‘ دین اور مفادات کے خلاف استعماری ایجنڈے کو پروان چڑھانے کی تحریری اور پروپیگنڈا مہمات میں حصہ ادا کرنا۔ بنگلہ دیش اور انڈونیشیا مسلم آبادی کے دو سب سے بڑے ملک ہیں۔ ان میں فکری انتشار کی حامل یہ تنظیمات ایک باقاعدہ ان دیکھی حکومت کی صورت میں اقتدار و اختیار پر شب خون مار رہی ہیں۔

پاکستان میں ایسی این جی اوز نے ملک‘ دین‘ تاریخ اور گھر کو ہدف بنانے کے لیے چومکھی یلغار کر رکھی ہے۔ انھیں پاکستانی ’’اتاترک‘‘ کے زمانے میں پالیسی سازی کے ایوانوں میں بڑی آسانی کے ساتھ رسائی حاصل ہو گئی ہے۔ یہ کام انھوں نے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ میں کرلیا ہے۔ پاکستان میں ان تنظیمات میں ریڑھ کی ہڈی قادیانی گروہ کے افراد ہیں (جنھیں حکومت میں شامل طاقت ور افراد کی براہِ راست اعانت حاصل ہے) جن کے مددگاروں میں خاص طورپر عیسائی مشنری اور سابق نام نہاد کمیونسٹ شامل ہیں۔

زیرتبصرہ کتاب میں ان تنظیموں کا حقیقی چہرہ دکھانے کے لیے مختلف افراد نے اپنی مختصر یا مفصل تحریروں کے ذریعے نقاب اُلٹ دینے کی کوشش کی ہے۔ زیادہ تر اخباری و مجلاتی اور کچھ تحقیقی مضامین کا یہ مجموعہ بڑی بڑی کہانیوں کی سرخیوں اور بنیادی معلومات تک قاری کو پہنچا دیتا ہے۔ محمدمتین خالد نے اس آکاس بیل کی نشان دہی کے لیے بکھری تحریروںکی تدوین کرکے   یہ قابلِ قدر مجموعہ پیش کیا اور اس طرح ایک ملّی اور دینی خدمت انجام دی ہے‘ تاہم اس موضوع پر سائنسی بنیادوں پر تحقیق و مطالعے اور تجزیے کی ضرورت باقی ہے۔ فاضل مرتب اگر اس کتاب کو دو مجموعوں میں تقسیم کر کے اس کا اشاریہ بنا دیتے تو افراد‘ تنظیمات اور موضوعات کی نشان دہی کے لیے اس کی افادیت میں مزید اضافہ ہو جاتا۔

دینی‘ سیاسی ‘ انتظامی اور تدریسی رجالِ کار اس کتاب کی مدد سے قوم میں بیداری اور ہوش مندی کی ایک لہر اُٹھا سکتے ہیں‘ اگر وہ اسے پڑھیں اور اپنی غیرتِ دینی میں کوئی اُکساہٹ محسوس کریں تو۔ (سلیم منصور خالد)


کشور کسریٰ تا سونار دیس  ‘ابوالامتیاز ع س مسلم۔ ناشر: القمرانٹرپرائزرز‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۰۰۔قیمت: ۱۸۰ روپے۔

ایک: ۱۹۵۳ء کے کاروباری سفر ایران و عراق اور کویت کا ذکر‘ دوسرے: تیرھویں ایشیائی کانفرنس براے پسماندگان‘‘ (ڈھاکہ ۱۹۹۷ئ) کے سفر کا تذکرہ۔

سفر ’’وسیلۂ ظفر‘‘تو عموماً ہوتا ہی ہے‘ ع س مسلم کے لیے سفرہمیشہ ’’چشم کشا‘‘ بھی رہا۔ چنانچہ ایک بابصیرت سیاح ‘قاری کو بھی اپنے مشاہدے میں یوں شامل کرتا ہے کہ وہ قاری کی انگلی پکڑ کر اسے ساتھ ساتھ لیے چلتا ہے اور حسب موقع مشاہدات پر تبصرہ کرتا ہے اورکہیں کہیںصورتِ احوال کا تجزیہ بھی۔ ان تجزیوں میں مصنف کا ردعمل ہرچند کہ متوازن اور جچا تلا ہے‘ مگر قدرتی طور پر ایک پاکستانی مسلمان کا زاویۂ نظر غالب ہے۔ شاید اسی سبب سے (محض رودادِ سفر سے لطف اندوز ہونے والوں کے علاوہ) ایک سنجیدہ فکر قاری کو بھی اس کتاب میں کشش نظر آتی ہے۔

سفر ایران میں پاکستانی سفارت خانے اور قونصل خانے کی بے حسی اور عدم توجہی‘ اس کے مقابلے میں بھارت کی کامیاب سفارت کاری‘ ایک ترک سفارت کار کی اہلیہ سے پاکستانی سفیر راجا غضنفرعلی خاں کی عشق بازی‘ ایران میں یہ عمومی تاثر کہ پاکستان انگریزوں نے اپنے مفادات کے لیے بنایا اور کویت کے ایک مفلوک الحال ہوٹل کا حال۔ بنگلہ دیش میں بہت سے دوستوں سے ملاقاتوں کے بعد‘ مصنف کا تاثر یہ ہے کہ ہندو ابھی تک بنگلہ دیش کے رگ و پے میں سرطان کی طرح پنجے گاڑے ہوئے ہے اور ہرچند کہ عوام کا شعور بیدار ہے‘ تاہم عوامی لیگ کے خواص اپنی ذہنی اور فکری آبیاری کے لیے سیکولرزم کے نام پر انھی کے گھاٹ سے سیراب ہوتے ہیں (ص ۱۵۹)۔ دوسری طرف (اُردو زبان پرانے رشتوں کی بحالی اور باہمی رابطوں کا ایک موثر ذریعہ بن سکتی ہے‘ مگر)پاکستانی حکومت کا یہ حال ہے کہ ڈھاکہ یونی ورسٹی کے اُردو شعبے اورطلبہ کے لیے نہ تعاون کی کوئی صورت ہے‘ نہ حوصلہ افزائی یا وظائف کی پیش کش اور نہ کسی اُردو چیئر یا اُردو پروفیسر کا انتظام۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس کے برعکس فارسی زبان کے فروغ کے لیے ایرانی سفارت خانے کا تحرک اور فراخ دلانہ امداد قابل ستایش ہے۔ ایرانی‘ یونی ورسٹی اساتذہ سے قریبی اور گہرے روابط رکھتے ہیںاور طلبہ کو کتابیں فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ایران میں اعلیٰ تعلیم کے لیے وظائف بھی دیتے ہیں۔ انھوں نے ایک عمارت تعمیر کر کے شعبۂ فارسی کو عطیہ کر دی ہے۔ نتیجہ یہ کہ اب اکثر طلبہ فارسی میں زیادہ  دل چسپی لینے لگے ہیں۔

یہ ایک پُرخلوص اور خالص سفرنامہ ہے--- ’’پُرخلوص‘‘ اس لیے کہ ملّی اور قومی جذبۂ اخلاص کے ساتھ لکھا گیا ہے اور ’’خالص‘‘ اس لیے کہ مصنف نے اسے رنگ آمیزی‘ مبالغے اور سفرنامے کو افسانہ بنانے سے اجتناب کیا ہے۔

ایک تو بذاتِ خود احوال و واقعات دل چسپ ہیں‘ دوسرے (بصورتِ تبصرہ و تجزیہ) مصنف کے تعمیری اور مثبت جذبات و احساسات‘ اور تیسرے ع س مسلم کا دل کش ادبی اور انشائی اسلوبِ تحریر--- ان دو تین چیزوں نے اسے ایک دل چسپ‘ بامعنی اور قابلِ مطالعہ رودادِ سفربنا دیا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


تحریک اور کارکن ‘ سیدابوالاعلیٰ مودودی‘ مرتبہ: خلیل احمد حامدی۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی‘ منصورہ‘ لاہور۔ اٹھارھویں اشاعت: ۲۰۰۳ئ۔ صفحات: ۲۲۴۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔

یہ انتخاب پہلی مرتبہ ۱۹۷۹ء میں شائع ہوا تھا۔ اس میں خصوصاً جماعت اسلامی کی رودادوں سے مولانا مودودیؒ کے خطبات اور ہدایات کو مدون کیا گیا ہے۔ کتاب کا موضوع خود وضاحت کرتا ہے کہ اس میں تحریک اسلامی کے کارکن کو مقصد‘ تنظیم اور عملی جدوجہد کے بارے میں ہدایات اور رہنمائی دی گئی ہے۔

’اشاعت ِنو‘ اس حوالے سے قابلِ ذکر ہے کہ ادارہ معارف اسلامی نے خصوصی اہتمام سے کتاب کے متن کی صحت کو یقینی بنانے کے لیے‘ اصل ماخذ سے موازنہ کر کے یہ نسخہ تیار کیا ہے۔ اس طرح وہ  بہت سی کمیاں اور کوتاہیاں دُور کر دی گئی ہیں‘ جو اس انتخاب کی اشاعت کے روز ہی سے اس کا حصہ بن چکی تھیں۔ کتاب میں آیات اور احادیث کے ترجمے کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ کتاب میں چند مقامات پر جو لفظی تغیر یا اضافہ کرنا پڑا‘ اسے قلابین میں ظاہر کر دیا گیا ہے۔ بعض تحریروں کو اس مجموعے سے قلم زد کر دیا گیا ہے۔ اس طرح اب یہ کتاب صحت و احتیاط کی ایک معیاری کوشش کے طور پر سامنے آئی ہے۔ زندگی کے آخری برسوں میں خود مولانا محترم اس حوالے سے دل گرفتہ تھے کہ ان کے کم و بیش تمام ناشرین‘ ان کی تحریروں کو شائع کرتے ہوئے نہایت بے احتیاطی اور غیرذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس مجموعے کی یہ اشاعت خاصی احتیاط سے مرتب کی گئی ہے۔

’اشاعت ِنو‘ کی آیندہ طباعت کے وقت چند امورپر توجہ ضروری ہے: قرآن و حدیث کے متن کوکتاب کے عمومی اسلوب کے مطابق ہی پیش کیا جائے۔ یہ نہیں کہ کوئی لائن ایک ترتیب میں اور کوئی درمیان میں۔ احادیث نبویؐ کا حوالہ بھی درج کیا جائے۔ مولانا محترم اس کے اہتمام پر زور دیا کرتے تھے۔ ضمنی سرخیوں میں قلابین کا اہتمام غیرضروری ہے۔ یہ کتاب ایک طرح کی رہنما کتاب ہے اس لیے آخر میں اشاریہ ہونا چاہیے‘ تاکہ مستقبل میں مولانا کی کتب مرتب کرتے وقت یہ نمونہ ایک معیار قرار پائے۔ مزید یہ کہ اتنے رنگوں کے ہجوم سے پیدا شدہ کثافت سے سرورق کو پاک کیا جائے۔ سادگی کی خوب صورتی اور جاذبیت کو موقع دیا جائے۔ ادارہ اس پیش کش پر مبارک باد کا مستحق ہے‘ دیر آید درست آید۔ (س - م -خ )


ہلال و صلیب کا نیا معرکہ  ‘شفیق الاسلام فاروقی۔ ناشر: حرا پبلی کیشنز‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۴۰۰۔قیمت: ۱۸۰ روپے۔

معروف انگریزی رسالے اکانومسٹ کے ایڈیٹر نے اپنے ایک مضمون میں صلیب و ہلال کی طویل جنگوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ مستقبل میں باہمی تصادم سے بچنے کے لیے مغرب اور اسلام کو قریب تر لانے کی ضرورت ہے (۶ اگست‘ ۱۹۹۴ئ)۔ فاروقی صاحب نے محسوس کیا کہ اکانومسٹ کے اداریہ نویس بعض غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں‘ اُن کی معلومات بھی ادھوری اور نادرست ہیں اور اُن کے ہاں اسلام کا تصور بھی بہت محدود ہے۔ چنانچہ انھوں نے غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے مدیر مذکورکو ایک خط لکھا اور پھر کئی خطوں کا تبادلہ ہوا۔ اب اس طویل مراسلت کو زیرنظر کتاب میں مرتب کیا گیا ہے۔ مصنف امریکی جیلوں کے قیدیوں سے بھی مراسلت رکھتے ہیں اور انھیں اسلامی لٹریچر فراہم کرتے ہیں۔ چنانچہ بہت سے امریکی قیدیوں نے بھی یہ لٹریچر پڑھ کر اسلام قبول کیا۔ زیرنظر کتاب میں اس سلسلے میں بھی کئی لوگوں کا تذکرہ شامل ہے۔

کتاب دل چسپ ہے۔ اس کے مباحث میں تنوع ہے۔ اہل مغرب کی غلط فہمیوں‘ غلطیوں اور غلط کاریوں کا تذکرہ ہے اورکچھ اُن کے تعصب اور اسلام کے خلاف دشمنیوں کا ذکر۔ کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف نے بذریعہ قلم و قرطاس‘ دعوت و تبلیغ کو ایک بامقصد مشغلے کے طور پر اپنایا جو بہت مفید اور نتیجہ خیز ثابت ہو رہا ہے۔ (ر-ہ)


امریکہ: اُمت مسلمہ اور پاکستان کے تناظر میں‘ ڈاکٹر محمد فاروق خاں۔ نیشنل ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ فائونڈیشن‘ ۲۵ سیال فلیٹس‘ آبدرہ چوک‘ پشاور۔ صفحات: ۸۲۔ قیمت: درج نہیں۔

امریکہ‘ امریکہ‘ امریکہ--- ان دنوںہر طرف یہی ایک موضوع ہے۔ اخبارات میں اور ٹی وی کے چینلوں پر ماہرین‘ تجزیہ نگاروں اور کالم نگاروں کی لائن لگی ہوئی ہے۔ نئے نئے نام سننے میں اور دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ لیکن وقتی نوعیت کے ان تبصروں کے ریلے میں ایسی کتابیں شاذ ہی سامنے آئی ہیں جن پر نظر ٹھہر جائے اور غوروفکر کیا جائے۔ ۸۲ صفحے کی اس مختصرکتاب نے اپنے موضوع پر سنجیدہ غوروفکر کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کی ہے۔ ۴۱صفحات تک امریکہ جو کچھ ہے‘ اس کے پورے نظام‘ طریق کار اور سوچ کو معروضی طور پر پیش کیا گیا ہے اور بعد کے ۴۱ صفحات میں اُمت مسلمہ اور پاکستان ورکنگ ریلیشن شپ کے لیے جو رویے رکھ سکتی ہے اس کے مختلف پہلوئوں پر گفتگو کی گئی ہے۔ مصنف نے ’’جذباتی نعروں‘ کھوکھلے دعووں‘ غلط الزامات اور فضول جنگوں‘‘ کے علی الرغم غیر جذباتی سات نکاتی راہِ عمل پیش کی ہے۔ آج ہماری حقیقی ضرورت فکری یکسوئی ہے‘ اس لیے کہ مولانا مودودیؒ کے بقول انتشار ذہنی عملی قوتوں پر گرنے والا فالج ہے۔ (مسلم سجاد)


سیرت النبیؐ کے چندگوشے‘ قاضی محمد مطیع الرحمن۔ مطبع: فیض الاسلام پرنٹنگ پریس‘ راولپنڈی‘ صفحات: ۱۹۳۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔

دنیا میں سیرت النبیؐ سے زیادہ‘ شاید کسی موضوع پر نہیں لکھا گیا۔ اس ہمہ گیر و ہمہ جہت‘ تحقیقی و علمی سلسلۂ کاوش کا ایک سبب یہ ہے کہ اہل اسلام کے لیے زندگی کے ہر میدان میں رہنما اصول سیرت پاکؐ ہی سے ملتے ہیں۔ عصرِحاضر میں یہ رجحان تیزی سے ترقی کر رہا ہے کہ دورِحاضر کے مسائل کے بارے میں سیرت مجتبیٰؐ سے رہنمائی کے لیے باقاعدہ تحقیقی مقالات و کتب مرتب کی جائیں۔ اس رجحان کے فروغ میں ایک بنیادی کردار وزارتِ مذہبی امور کی قومی سیرت کانفرنس کا ہے۔

یہ کتاب متذکرہ کانفرنس میں پیش کردہ مصنف کے چند تحقیقی مقالات کا مجموعہ ہے۔ یہ سات مقالات اپنے موضوعات کے اعتبار سے بہت اہم ہیں۔ پہلا مقالہ سیرت طیبہؐ اور اس کے مطالعے کی ضرورت و اہمیت کے حوالے سے ہے۔ علاوہ ازیں ’’انسانی حقوق‘ تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں‘‘،’’عصرِحاضر کے مسائل کا حل سیرت طیبہؐ کی روشنی میں‘‘ اور ’’لسانی و گروہی اختلافات کا خاتمہ‘ سیرت طیبہؐ کی روشنی میں‘‘ بھی اپنی جگہ خوب ہیں۔ مقالات تحقیقی انداز میں تحریر کیے گئے تھے۔ ترتیب ِکتاب کے وقت غالباً استفادۂ عام کی غرض سے تحقیقی رنگ نکال دیا گیا ہے۔ اس طرح تحریر کے بھرپور تاثرمیں کسی قدر کمی کا احساس ہوتا ہے۔ بہرحال آیات و احادیث سے مزین یہ مختصر کتاب سیرت کے موضوع پر ایک اچھا اضافہ ہے۔  (ڈاکٹر محمد حماد لکھوی)


داستانِ اقبال ‘ آمنہ صدیقہ۔ ناشر:القمر انٹرپرائزز‘ لاہور۔ صفحات: ۱۶۸۔ قیمت:۹۰ روپے۔

یہ علامہ اقبالؒ کی ایک مختصر سوانح عمری ہے۔ اس میں علامہ اقبالؒ کے آباواجداد‘ان کے آبائی وطن کشمیر‘ ان کی پیدایش اور تصنیفات سے لے کر ان کی وفات تک کے حالات و واقعات کو گویا ’’دریاکو کوزے میںبند کر دیا ہے‘‘۔

داستانِ اقبال اقبال کی سابقہ سوانح عمریوں کا ایک طرح سے خلاصہ ہے۔ بعض جگہ احتیاط ملحوظ نہیں رکھی گئی‘ مثلاً ابتدائی تعلیم و تربیت کے ضمن میں لکھا ہے کہ اقبال ایک سال تک مولانا غلام حسن کے مدرسے میں زیرتعلیم رہے اور پھر تین سال تک سیدمیرحسن کے مدرسے میں پڑھے۔ اس کے بعد ۱۸۸۲ء میں اسکاچ مشن اسکول میں داخل ہوئے (ص ۲۵ تا ۲۸)‘ تو کیا اقبال نے محض ایک سال کی عمر میں مولوی غلام حسن کے مدرسے میں پڑھنا شروع کر دیا؟ اسی طرح ایک جگہ لکھا ہے کہ’’ اقبال نے ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء کو پانچ بج کر ۱۴ منٹ پر صبح کی اذانوں کی گونج میں اپنی جان خدا کے سپرد کی‘‘ حالانکہ ۲۱ اپریل کو یہ وقت طلوعِ آفتاب سے قریب ہوتا ہے اور صبح کی اذان تو تقریباً ساڑھے چار بجے ہوتی ہے۔ اسی طرح میٹرک میں اقبال کے حاصل کردہ ۴۲۴ نمبروں کا ذکر ہے (ص۳۱)۔ مگر کل نمبر کتنے تھے؟ پتا نہیں چلتا (یہ ۸۵۰ تھے)۔ گویا اقبال کے حاصل کردہ نمبر‘ ۵۰ فی صد سے بھی (ایک نمبر) کم ہیں۔

ان فروگزاشتوں کے باوجود‘ اقبال پر یہ ایک مفید تعارفی کتاب ہے۔ ڈاکٹر صدیق جاوید نے بجا طور پر مصنفہ کی ’’زبان و بیان کی سادگی اور صفاتی‘‘ کو سراہا اور توقع ظاہر کی ہے کہ یہ نوجوانوں کے لیے شوق انگیز ثابت ہوگی۔ (محمد قاسم انیس)


عالمی طاغوتی کھیل میں مکروفریب کا راج‘ طارق مجید کموڈور بحریہ (ریٹائرڈ)۔ ناشر: الفیصل ناشران و تاجران کتب‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات:۱۵۲۔ قیمت: ۷۵ روپے۔

نائن الیون کے واقعے نے جہاں پوری دنیا کو متاثر کیا ہے وہاں عالم اسلام کے لیے اِبتلا کا ایک نیا دور شروع ہوا ہے۔ کئی اہل قلم نے ان حالات کا تجزیہ کیا ہے اور آنے والے دور کی ایک جھلک پیش کی ہے۔ زیرنظر کتاب ایک ایسی ہی کوشش ہے۔ مصنف نے مختلف شواہد کا حوالہ دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس بڑے واقعے میں صہیونی دہشت گردوں کا ہاتھ ہے۔ انھوں نے ڈینیل پرل کیس کا بھی تجزیہ اور صہیونی عزائم کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ مستقبل قریب میں پاک بھارت جنگ ہو کر رہے گی۔ اُمت مسلمہ کو جو خطرات لاحق ہیں ان کا تجزیہ کرتے ہوئے فاضل مصنف نے ملاعمر اور اسامہ بن لادن سمیت بہت سے مجاہدین کے بارے میں یہ تاثر دیا ہے کہ یہ لوگ ایک بین الاقوامی سازش میں شامل ہیں۔ یہ بات محل نظر ہے۔ البتہ اس میں شک نہیں کہ دنیا بھر میں ہر بڑی تبدیلی کے پس پردہ عالمی یہودی تنظیموں کا نادیدہ ہاتھ اب راز نہیں رہا۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)