کتاب نما


اُردو صحافت ‘انیسویں صدی میں‘ ڈاکٹر طاہر مسعود۔ ناشر: فضلی سنز‘ اُردو بازار‘ کراچی۔ صفحات: ۱۲۳۱+] ۵۳[ = ۱۲۸۴۔ قیمت: ۸۰۰ روپے۔

کتاب کے عنوان سے موضوع کی جامعیت و وسعت اور اس کی گہرائی کا اندازہ نہیں ہوتا لیکن کتاب کو پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ مصنف نے اپنی سندی تحقیق (پی ایچ ڈی) کے لیے ایک بحرذخار جیسا موضوع انتخاب کیا ہے۔ ایک صدی کے طویل دورانیے کا یہ جائزہ مختلف عنوانات کے تحت لیا گیا ہے: فارسی صحافت۔ اُردو صحافت کا آغاز۔ پہلا دور‘ ۱۸۳۷ء سے ۱۸۵۷ء تک۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی اور اُردو صحافت۔ سرسیداحمد خاں اور مقصدی صحافت۔ سیاسی و سماجی صحافت۔ مذہبی صحافت۔ ذولسانی صحافت۔ طنزیہ و مزاحیہ صحافت۔ روزنامہ صحافت۔ تخصیصی (تعلیمی‘ قانونی‘ تجارتی‘ طبّی‘ ادبی اور خواتینی) صحافت۔

برعظیم میں خبرنویسی کے آغازو ارتقا کی کہانی دل چسپ ہے اور معلومات افزا بھی۔ زمانۂ قدیم سے تیز رفتار گھوڑے اور کبوترنظامِ برید (خبررسانی) کا اہم ذریعہ تھے۔ سلاطینِ دہلی نے اس نظام کو بہتر بنایا اور خبررسانی کے لیے خوب دیکھ بھال کر کے نہایت معتبر نمایندوں کو مقرر کیا۔ ان کے نظامِ سلطنت کی فعالیت اور کامیابی کا انحصار خاصی حد تک اسی نظامِ برید پر تھا۔ بعض سخت گیر اور نسبتاً زیادہ ہوش مند حکمران (غیاث الدین بلبن‘ علاء الدین خلجی‘ شیرشاہ سوری‘ اکبر اور اورنگ زیب) نظامِ برید کو مختلف تدبیروں سے بہتر بناتے رہے۔

ڈاکٹر طاہرمسعود (استاد‘ شعبہ صحافت‘ کراچی یونی ورسٹی) کی تحقیق یہ ہے کہ برعظیم میں اخبار نویسی کے آغاز کو انگریزوں کی آمد سے وابستہ کرنا غلط ہے۔ وقائع نگاری کا ایک موثر اور جدید نظام یہاں صدیوں سے موجود تھا۔ انگریزوںکی آمد کے بعد اس قلمی اخبار نویسی نے مطبوعہ صحافت کی شکل اختیار کرلی۔ اوائل میں بعض اخبارات نے انگریزوں کی لوٹ کھسوٹ اور بدعنوانیوں کا کچاچٹھا بھی خوب کھولا۔ اس وجہ سے ایسٹ انڈیا کمپنی نے وقتاً فوقتاً صحافت کا    گلا گھونٹنے کی کوشش بھی کی۔ سب سے پہلے لارڈ ولزلی نے صحافت کو پابند زنجیرکرنا چاہا اور  ’’راہِ راست‘‘ پر نہ آنے والے کئی برطانوی صحافیوں کو واپس انگلستان بھیج دیا گیا۔

ابتدا میں زیادہ تر اخبارات فارسی میںچھپتے تھے۔ کلکتہ سے شائع ہونے والا  جام جہاں نما اُردو کا پہلا اخبار تھا۔ مصنف نے اخبارات کے بارے میں تفصیل فراہم کرتے ہوئے اس دور کی صحافت کے مختلف رجحانات اور ان کی مشکلات و مسائل کا بھی ذکر کیا ہے۔ رپورٹنگ کے انداز و اسلوب اور تبصروں کے نمونے بھی دیے ہیں‘ اور یہ سب کچھ مصنف کی برسوں کی تحقیق کے بعد ممکن ہوا۔ اس سلسلے میں انھوں نے پاکستان کے معروف کتب خانوں کے علاوہ بھارت جاکردہلی‘ پٹنہ‘ کلکتہ‘ علی گڑھ اور لکھنؤ کے کتب خانوں میں بڑی محنت سے چھان بین کی اور ایسی اطلاعات فراہم کی ہیں جن میں سے بعض کا آیندہ ماخذشاید ان کی یہی کتاب ہوگی‘ کیونکہ بوسیدہ اخبارات کا زیادہ دیر تک محفوظ رہنا ممکن نہ ہوگا۔

ڈاکٹر طاہر مسعود کی یہ تحقیق صحافت کے ساتھ ساتھ‘ اُردو زبان و ادب‘ تاریخ‘ تہذیب‘ معاشیات‘ سیاسیات اورعمرانیات کے طلبہ اور اساتذہ کے لیے بھی بہت اچھا اور قابل مطالعہ لوازمہ مہیا کرتی ہے۔ اس سے ہمیں انگریزوں کی بدعنوانیوں‘ رشوت ستانیوں‘ہوس زر اور  فریب کاریوں کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ انیسویں صدی میں حاکم و محکوم کے رشتوں اور فاصلوں ‘ اسی طرح ہندو مسلم تعلقات کی استواری اور باہم کشیدگی وخرابی‘ نیز زمانۂ محکومی میں ہندستانی معاشرے میں رونما ہونے والی سماجی تبدیلیوں کی نوعیت معلوم ہوتی ہے اور پتا چلتا ہے کہ غلامی میں دل و دماغ اور ذہنیتیں کیسے بدلتی ہیں اور حکمِ حاکم‘ مرگِ مفاجات بن جاتا ہے۔ مزیدبرآں اُردو نظم و نثرکے مختلف اسالیب بیان‘ بلکہ قدیم املا کے نمونوں تک کا علم بھی ہوتا ہے۔ ۱۸۶۱ء کی ایک دل چسپ خبر دیکھیے: ’’بڑودہ سے بمبئی ریل گاڑی جاری ہوئی۔ ہزارہا آدمی اس کو دیکھنے کے واسطے جمع ہوئے۔ مدت سے اس طرف کے تمام آدمیوں کو اس کے دیکھنے کا انتظار تھا۔ سات بجے صبح کی گاڑی چلنے کے وقت ریلوے کے جنرل مینیجرنے اپنے ہاتھ سے بہ طور شگون کے‘ گاڑیوں کے پہیوں پر شراب کی بھری ہوئی ایک بوتل چھڑکی‘۵۰۰ گاڑیوں کی قطار تھی اور ۴۰۰ آدمی سوار تھے‘‘ (ص ۵۱۷)۔

مصنف نے آخر میں نہایت عرق ریزی سے ۴۰ صفحات کا ایک گوشوارہ مرتب کیا ہے جس سے ایک نظر میں ہر اخبار کے ضروری کوائف سامنے آتے ہیں۔ قدیم اخبارات کے عکس اور اشاریے نے‘ قابلِ ستایش عمدہ معیارِ تحقیق کی اس علمی کتاب کو اور بھی وقیع بنا دیا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


خاندانی منصوبہ بندی ‘الزبتھ لیاگن ‘ترجمہ: محب الحق صاحب زادہ۔ ناشر: بک ٹریڈرز‘ بہ اہتمام انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘ مرکز ایف سیون‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۲۱۹۔قیمت: ۱۵۰ روپے۔

خاندانی منصوبہ بندی کے موضوع پر الزبتھ لیاگن کے مضامین امپیکٹ‘لندن میں پڑھنے کو ملتے تھے جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ مغرب کی یہ دختر تیسری دنیا میں آبادی کے اضافے کو روکنے کی امریکی اور عالمی ایجنسیوں کی امداد اور تعاون کے پس پردہ اصل کھیل سے ہمیں آگاہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس نے افریقہ کے حوالے سے اس موضوع پر امریکہ کی قومی سلامتی کونسل‘ سی آئی اے‘ ورلڈ بنک اور دوسرے اداروں کی رپورٹوں اور دستاویزوں کا مطالعہ کیا اور سارا کھیل اس کتاب میں کھول کر رکھ دیا۔

مرکزی خیال یہ ہے کہ مغربی دنیا میں گذشتہ صدیوں میں جو ترقی ہوئی‘ وہ ان کے علاقوں میں آبادی میں اضافے کا دور تھا۔ ۱۷۹۰ء میں امریکہ کی آبادی ۴ ملین تھی‘ جو ۱۹ویں صدی کے آخر تک بڑھ کر ۷۶ ملین ہو گئی۔ ۲۰ ویں صدی کے نصف اوّل میں اضافے کی شرح ۳فی صد تھی۔ (ص ۱۶۰)

الزبتھ لیاگن کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ مغربی ملک خاصے عرصے سے اس پریشانی میں مبتلا ہیں کہ اگر ترقی پذیر دنیا میں آبادی کا اضافہ اسی رفتار سے جاری رہا تو یہ اپنے اندر اتنی بڑی طاقت رکھتا ہے کہ محض اضافۂ آبادی کی بنا پر ہی مغرب کو مغلوب کرلے گا اور اس کی ٹکنالوجی دھری کی دھری رہ جائے گی۔ ان کی سلامتی کی رپورٹیں اور منصوبے سب اس کے عکاس ہیں۔ وہ اسے صحت کی بہتری اور غربت کو دُور کرنے کے پردے میں چھپاتے ہیں۔ خود سامنے آنے کے بجاے ورلڈ بنک کو سامنے کرتے ہیں۔ جو ممالک یا لیڈر اس پروگرام کو نہ لینا چاہیں‘ ان پر بھی ٹھونستے ہیں‘ اقتصادی قرض اور امداد کو اس سے مشروط کر دیتے ہیں۔ تیسری دنیا کے حکمرانوں کو اپنا آلۂ کار بنا کر‘ ان کے عوام کی مرضی کے خلاف زبردستی مدد دیتے ہیں اور اس طرح اپنے  منصوبے روبہ عمل لاتے ہیں۔ غرض ایک بڑی وحشت ناک تصویر اُبھر کر سامنے آتی ہے کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور ہم سے خود ہی کروایا جا رہا ہے۔

افریقہ کے اس مطالعے میں کچھ حوالہ انڈونیشیا اور بنگلہ دیش کا بھی آیا ہے۔ اسلامی ممالک اور تہذیبوں کے تصادم کا بھی ذکر ہے۔

انسٹی ٹیوٹ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انھوں نے آنکھیں کھولنے والی یہ کتاب شائع کی۔ اچھا ہو اگر آئی پی ایس ‘پاکستان کے حوالے سے بھی اس موضوع پر اسی انداز کا تفصیلی مطالعہ تیار کر کے شائع کروائے تاکہ امداد دینے والے اداروں اور ملکوں کے اپنے شواہد ہمارے سامنے آئیں کہ یہ سب کچھ کیوں کیا جا رہا ہے؟ اور ہماری خواتین کی صحت اور معاشرے کی غربت کی اتنی فکر عالمی ایجنسیوں کو کیوں ہو گئی ہے؟ (مسلم سجاد)


مولانا سید ابوالحسن علی ندوی‘ حیات و افکار کے چند پہلو‘ ترتیب و تدوین: سفیراختر۔ ناشر: ادارہ تحقیقات اسلامی‘ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۳۳۳۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

بیسویں صدی کے دوران مسلم دنیا کے نمایاں ترین اہل قلم میں ایک بڑا نام مولانا سیدابوالحسن علی ندویؒ کا ہے۔ دنیاے فانی سے رخصت ہونے پر ان کی یاد میں دنیا کے مختلف حصوں میں مختلف سطحوں پر تذکرہ و تجزیہ اور داد و تحسین کی سرگرمی کا ہونا ایک فطری چیز تھی۔ اس حوالے سے ادارہ تحقیقات اسلامی کے فاضل ڈائرکٹر جنرل ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری نے ۲۱فروری ۲۰۰۰ء کو علی میاں کی یاد میں دو روزہ سیمی نار کا انعقاد کیا۔ زیرنظر کتاب کا محرکِ ترتیب وہی سیمی نار بنا۔ ڈاکٹر انصاری لکھتے ہیں: ’’سیمی نار میں پیش کردہ مقالات اہل نظر کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے ادارہ خوشی محسوس کر رہا ہے‘‘ (ص ۱۰)۔ مگر یہ کتاب تمام تر سیمی نار کے مقالات پر مشتمل نہیں ہے۔ فاضل مرتب نے بتایا ہے کہ اس کتاب کی تدوین میں تاخیر کی وجہ سے سیمی نار کے چند مقالات دوسری جگہ چھپ گئے‘ اس لیے انھیں اس مجموعے میں شامل نہیں کیا گیا (ص ۱۱‘ ۱۲)۔ لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ مرتب نے زیرتبصرہ کتاب میں خاصی تعداد میں پرانی اور چھپی ہوئی تحریریں بھی شامل کردی ہیں‘ مگر ان کی نشان دہی نہیں کی۔ چنانچہ نہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیمی نار میں کیا پیش ہوا اور نہ یہ کہ مدتوں پہلے کی چھپی ہوئی چیزیں کون سی ہیں اور کہاںسے اور کس معیار یا جواز کی بنیاد پر شاملِ اشاعت کی گئی ہیں؟ اگر صرف سیمی نار کی چیزوں کو معیار بنایا جاتا تو یہ ایک معقول بات ہوتی اور مطبوعہ غیرمطبوعہ کی اس ’’کراہت اورمرتبانہ پرہیز‘‘ سے بھی  بچا جاسکتا تھا‘جو ڈاکٹر انصاری اور فاضل مرتب کے بیانات کے باہم ٹکرائو سے پیدا ہوتا ہے۔

لیکن اس سے قطع نظر‘ یہ اپنے موضوع پر نئی پرانی تحریروں کا ایک معلومات افزا اور عمدہ مجموعہ ہے‘ جو مولانا علی میاں کی شخصیت اور کارناموں کو سمجھنے کے لیے نہایت مفید ہے۔ جن اہل قلم کی تحریریں شامل ہیں ان میں جلیل احسن ندوی‘ ملک نصراللہ خاں عزیز‘ رضوان علی ندوی‘ پروفیسر خورشیداحمد‘ ڈاکٹر خالد علوی‘ ڈاکٹر خورشید رضوی‘ محمد الغزالی‘ سہیل حسن اور خود فاضل مرتب شامل ہیں۔

ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ : ’’دینی حلقے میں ابوالحسن علی ندوی پہلے بلندپایہ عالم ہیں‘ جو اقبال سے متاثر ]ہوئے… اُن کی[ اس کتاب میں فکراقبال کے تمام اہم مباحث آگئے ہیں‘‘ (ص ۱۵۲-۱۵۳)۔ یہ بیان مبالغہ آمیز اور فقط جوشِ عقیدت کا مظہر ہے۔ ایک اور مضمون: ’’برصغیرکی تاریخ اصلاح و جہاد‘‘ باہم ربط و امتزاج سے خالی ہے۔ علی میاں کے فکری ارتقا اور اس باب میں ناہمواری کی متعددمثالوں کے تجزیے سے یہ مضمون خصوصی مطالعے کی بنیاد بن سکتا تھا۔

علی میاں کے جو (زیادہ تر مطبوعہ) مکتوبات کتاب میں شامل کیے گئے ہیں‘ معلوم نہیں ان کے انتخاب میں کیا معیار مدنظر رہا؟ ایک مکتوب میں یہ ذکر آتا ہے کہ دمشق کی ایک کانفرنس میں مولانا مودودی اور علی میاں دونوں شریک تھے۔ علی میاں لکھتے ہیں:’’مودودی صاحب… یونی ورسٹی ہال… میں سٹیج پر آئے تاکہ… مسئلہ فلسطین کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کریں تو انھوں نے منتظمین جلسہ سے خواہش ظاہر کی کہ ان کی اُردو تقریر کا میں ترجمہ کروں۔ میں بعض وجوہ سے اس کو اچھا نہیں سمجھتا تھا لیکن انھوں نے کئی بار اس کا تقاضا کیا… مجبوراً طبیعت کے انقباض کے ساتھ یہ خدمت انجام دینی پڑی اگرچہ تقریر کا تعلق صرف مسئلہ فلسطین سے تھا اور اس میں کوئی ایسی بات نہ تھی جو میرے لیے موجب ِ انقباض ہوتی ] پھر بھی[ مجھے اس میں تردد تھا… بس طبیعت پر ایک انقباض طاری ہوگیا ---اور کئی روز اس کا اثررہا‘‘ (ص ۲۹۷-۲۹۸)۔ معلوم نہیں یہ خط کس کی تحسین یا کس کی تنقیص کے لیے‘ خصوصاً اس  یادگاری مجموعے میں شامل کیا گیا ہے۔

اس کتاب میں پرانے رسائل سے علی میاں کی کتب پر مطبوعہ تبصرے‘ مکتوبات اور خود ان کی خودنوشت ۵۰ صفحوں پر مشتمل بھی شامل کی گئی ہے‘ لیکن مطبوعہ چیزوں کے ماخذ کا حوالہ دینے سے پہلوتہی کی گئی ہے۔ (سلیم منصورخالد)


مسلمان عورت  ‘شیخ وہبی سلیمان عاوجی الالبانی‘ ترجمہ: مولانا عبدالصبور بن مولانا عبدالغفور‘ ناشر: مکتبہ غفوریہ‘ مکان ۱‘ گلی ۴۸‘ جمیل ٹائون‘سبزہ زار سکیم‘ ملتان روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۱۹۷۔ قیمت: درج نہیں۔

زیرنظر کتاب میں: اسلام میں عورت کی حیثیت‘ بعض دائروں میں مرد و زن کے مساوی حقوق‘ مگر بعض (حیاتیاتی‘ نفسیاتی اور دینی) پہلوئوں سے مرد اور عورت کی نوعیت و حیثیت میں تفاوت و تفریق‘ مردوزن کے تعلق کے معاشرتی پہلو‘ ازدواجی زندگی اور حقوق و فرائض‘ پردہ‘ عورت بطور خاتون خانہ‘ اور عورتوں کی گمراہی کا ذمہ دار کون؟ اور مسلمان عورت کیسی ہو؟ --- جیسے امور پر قرآن و حدیث کی روشنی میں بحث کی گئی ہے۔ بعض مصنفین کے مشاہداتِ مغرب کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔

اپنے موضوع پر اچھی کتاب ہے لیکن‘ اوّل: مترجم نے یہ بتانے کی زحمت نہیں کی کہ مصنف کون ہے؟ ممکن ہے طبقۂ علما میں وہ محتاجِ تعارف نہ ہوں مگر ان کے مختصر تعارف کے لیے‘ قاری کی خواہش فطری ہے۔ دوم: فاضل مصنف نے یہ کتاب اپنے مخصوص ماحول اور (کسی عرب خطے) کے حالات کو سامنے رکھ کر لکھی مگر طبقۂ نسواں کے حوالے سے‘ پاکستانی معاشرہ کن مسائل سے دوچار ہے؟ صورتِ حالات کیا ہے؟ اور جدید ذرائع ابلاغ‘ میڈیا اور اباحیت زدہ سیکولر طبقہ‘ ہمارے خاندانی نظام کو تلپٹ کرنے اور عائلی زندگیوں میں زہرگھولنے اور اسے فتنوں سے دوچار کرنے میں جس غیرمعمولی مستعدی سے سرگرمِ عمل ہے‘ اُس کا دفاع کرنے کی کیا صورت ہے؟--- یہ کتاب اس بارے میں خاموش ہے--- خیال رہے کہ نہ تو محض وعظ و تبلیغ سے فتنوں کا سدِّباب ہوسکتا ہے‘ اور نہ کافروں اور یہودیوں کو برا بھلا کہہ کر‘ اور حکومتی اداروں کی مذمت کر کے اصلاح احوال کی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔

یہ خوش آیند امرہے کہ مشینی کتابت کے نتیجے میں دینی اور مذہبی حلقوں کی اشاعتی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں مگر تصنیف و تالیف کے جدید اسالیب‘ اصولِ تدوین اور کتاب کے رنگ ڈھنگ (فارمیٹ) کے حوالے سے‘ ابھی بہت کچھ جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ حد تو یہ ہے کہ تقریظ کا دوسرا کتابت شدہ صفحہ‘ پیسٹنگ میں کہیں غتربود ہوگیا‘ اور کتاب اِسی طرح چھاپ کر جاری کر دی گئی ہے۔ (ر-ہ)


شعورِ حیات ‘مولانا محمد یوسف اصلاحی۔ ناشر: البدر پبلی کیشنز‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۵۱۶۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

۹۸ مضامین کا یہ مجموعہ دراصل مجلہ ذکرٰی ‘ رام پور کے اداریوں پر مشتمل ہے۔ یہ مضامین قبل ازیں مختلف مجموعوں کی صورت میں چھپ چکے ہیں۔ اب انھیں یکجا کر کے پیش کیا گیا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کل اُمت مسلمہ گوناگوں مصائب و آلام کا شکار ہے۔ ہر چوراہے پر مسلمان ٹکٹی سے بندھے نظر آتے ہیں اور ظلم و جبر اور استحصال کی چکی میں پس رہے ہیں۔ مولانا اصلاحی کے نزدیک اس کا سبب یہ ہے کہ ’’اُمت نے اپنا ]وہ[ فرض بھلا دیا ہے جس کے لیے خدا نے اس کو پیدا کیا تھا‘‘۔ وہ فرض قرآنی اصطلاح میں امربالمعروف ونھی عن المنکرہے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ دورِحاضر میں جب انسان اپنے مقاصدِ تخلیق سے ناواقف ہو چکا ہے‘ یہ کتاب اُسے وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون کا مفہوم سمجھاتی ہے۔

مصنف نے زندگی کے مختلف اور متنوع پہلوئوں پر قلم اٹھایا ہے۔ خیر کا اصل چشمہ‘ سماجی اصلاح کا گر‘ اسوۂ حسینؓ کا پیغام‘ عیدقربان‘ تلاوتِ قرآن‘ موت کے دروازے پر‘ روزہ کس لیے؟ چند لمحے رسولؐ کی مجلس میں‘ جب آپ کی بیٹی کا پیغام آئے‘فقروفاقہ‘ ایک آزمایش وغیرہ--- زندگی ہی کی طرح اس کتاب کا دائرہ‘ عبادات سے اعمال تک اور معاشرت سے معیشت تک وسیع ہے۔ مصنف کا مقصد یہ ہے کہ قاری کو حقیقی معنوں میں شعورِ حیات حاصل ہو۔

زبان عام فہم اور سادہ ہے۔ انداز و اسلوب‘ تحریر سے زیادہ تقریر کا ہے۔ انفرادی تربیت و تزکیے کے لیے یہ ایک مفید کتاب ہے۔ (قاسم محمود وینس)


تعارف کتب

  • فکر امروز‘ صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی۔ ناشر: خورشید گیلانی ٹرسٹ ۲۲‘ ایچ مرغزار آفیسرز کالونی‘ ملتان روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۲۱۱۔قیمت: ۱۲۰ روپے۔]یہ اس کتاب کی دوسری اشاعت ہے۔ (طبع اول ۱۹۹۵ئ) اہم دینی‘ ملّی‘ ملکی اور بین الاقوامی مسائل پر فکرانگیز تبصرے اور تجزیے‘ جیسے: عالمی قیادت کا امریکی خواب‘ بنیاد پرستی‘ اسلامک ورلڈ آرڈر‘ ارباب اقتدار کی نفسیات‘ اسلام کیسے نافذ ہوا اور کون نافذ کرے؟ وغیرہ۔[
  • اُردو سرکاری زبان‘ چودھری احمد خاں۔ ناشر:ادارہ منشورات اسلامی‘ بالمقابل منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۴۶۰۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔] ’’پاکستان کی سرکاری زبان اُردو ہوگی‘‘ (قائداعظم)۔ مگر یہ کیوں نہ ہو سکا؟ یہ کتاب اس کی دل خراش داستان ہے۔ طبع اوّل (اکتوبر ۱۹۹۶ئ) پر تبصرہ دیکھیے: ترجمان‘ جنوری ۱۹۹۶ئ۔ یہ دوسرا ایڈیشن ہے۔[
  • شرح شمائل ترمذی‘ اوّل‘ مولانا عبدالقیوم حقانی۔ ناشر: القاسم اکیڈمی‘ جامعہ ابوہریرہ‘ خالق آباد‘ نوشہرہ۔ صفحات: ۶۴۰۔ قیمت: درج نہیں۔] شمائل ترمذیکی شرحوں پر ایک اضافہ۔ احادیث کا متن اعراب کے ساتھ مع اسناد‘ تحت اللفظ اُردو ترجمہ اور تشریحات بہ شمول: راویان حدیث کا تذکرہ۔[
  • انفاق فی سبیل اللہ‘ منیراحمدخلیلی۔ ناشر: ادارہ مطبوعات سلیمانی‘ رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۴۸۔ قیمت:۱۶۵ روپے۔ ] ۱۸‘ ۲۰ سال قبل‘ یہ کتاب پہلی بار چھپی تھی۔ اب مؤلف نے نظرثانی کی اور متعدد اضافے کرکے‘ اسے جامع تر بنانے کی کوشش کی ہے۔ ایک اخوانی رہنما عبدالبدیع السید صقر کی  نظر میں یہ ’’حقیقی علمی و نظری مباحث سے مالا مال‘‘ ہے اور ’’عام مسلمانوں کے لیے اور خاص طور پر زکوٰۃ و صدقات کے امور سے بحث و شغف رکھنے والے حضرات کے لیے بڑی مفید ثابت ہوگی‘‘۔[

آزاد ہندوستان میں مسلم تنظیمیں‘ ایک جائزہ ‘ڈاکٹر سید عبدالباری۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف آبجکیٹواسٹڈیز‘ نئی دہلی۔ صفحات: ۳۶۸۔قیمت: ۲۵۰ روپے۔

تقسیمِ ہند کے بعد بھارت کے مسلمان ایک ایسی انوکھی صورتِ حال سے دوچار ہوئے جو انھیں تاریخ میں اس سے پہلے کبھی پیش نہیں آئی تھی۔ ۱۵اگست ۱۹۴۷ء کو بظاہر ’’جمہوریت کی نئی صبح‘‘ طلوع ہوئی تھی اور آزادی و مساوات کی بشارت دی گئی مگر حقیقت میں ہندو اکثریت کے غصّہ و انتقام کے ایک نئے دَور کا آغاز ہوچکا تھا۔

نئے حالات کے پیش نظر اور گوناگوں مسائل سے عہدہ برآ ہونے کے لیے گذشتہ ۵۰برسوں میں بھارت کے مسلمانوں اور مسلم جماعتوں اور تنظیموں نے طرح طرح کی حکمت عملیاں اختیار کیں۔ اس ضمن میں زیرنظر کتاب میں حسب ذیل مسلم تنظیموں کی کاوشوں اور کوششوں کا جائزہ لیا گیا ہے: جمعیت العلماے ہند‘ امارتِ شرعیہ بہار و اڑیسا‘ تبلیغی جماعت‘ جمعیت اہل حدیث‘ جماعت اسلامی‘ مسلم لیگ‘ کل ہند تعمیرملّت‘ مجلس اتحادالمسلمین‘ مسلم مجلس مشاورت‘ مسلم مجلس‘ آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ‘ اسٹوڈنٹ اسلامک موومنٹ آف انڈیا‘ انسٹی ٹیوٹ آف آبجکیٹواسٹڈیز‘ آل انڈیا ملّی کونسل۔

یہ کتاب ایک طرح سے مذکورہ بالا تنظیموں کا تعارف ہے‘ (مختصر تاریخ‘ طریق کار اور حکمت عملی کا تجزیہ)۔ مصنف نے صدر یار جنگ‘ سلیمان ندوی‘ مناظراحسن گیلانی‘ مولانا مدنی‘ مولانا لاہوری‘ ابوالکلام اور مولانا تھانوی کے نام لے کر‘ یہ سوال اٹھایا ہے کہ اتنے بڑے ذہن و دماغ کے انسان رکھنے والی اُمت آخر کیوں اپنے پیروں پر کھڑی نہ ہو سکی؟ ڈاکٹر سید عبدالباری کے نزدیک اس کا ایک سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارے بیشتر علما نے مغرب کے اقتدار اور جبروت کے اسباب پر کبھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا اور اس کی ترقی کے اسباب کا تجزیہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور صرف انگریز دشمنی کو اپنا مذہب و مسلک بنا لیا۔ مزیدبرآں مغرب کے اُن فلسفوں کا توڑ کرنے کے لیے انھوں نے کوئی بڑا تحقیقی ادارہ قائم نہیں کیا جو پوری دنیا میں اتھل پتھل مچائے ہوئے تھے اور بعض عالی مرتبت علما ذہنی طور پر اشتراکیت سے مرعوب تھے اور مدارس کا ماحول عام طور پر دیگر مسالک کی تغلیط و تردید کا ہی رہا (ص ۵۰-۵۱)۔

مصنف نے جماعتوں اور تنظیموں کے انفرادی کردار‘ خدمات اور ان کے کارناموں کے ساتھ ان کی خامیوں‘ ناکامیوں اور کمزور پہلوئوں کی بھی نشان دہی کی ہے۔ مگر مصنف کی تنقید بہت معتدل اور محتاط ہے۔ تبصروں اور تجزیوں میں انھوں نے بہت کچھ سنبھل سنبھلا کر‘ اور پھونک پھونک کر قدم اٹھایا ہے‘ اور بالعموم اختلافی پہلوئوں کے ذکر سے گریز کیا ہے۔ مثلاً تبلیغی جماعت کا (مولانا محمد الیاس اور مولانا محمد یوسف کے دَور تک) فقط تعارف کرا دیا ہے مگر اب کیا صورتِ حال ہے؟ اس پر‘ ماسوا دو تین جملوں کے (ص ۱۴۳) کچھ کلام کرنے سے گریز کیا ہے--- جماعت اسلامی کی کمزوریوں کی طرف ہمدردانہ اشارے بھی کیے ہیں (ص ۱۹۹-۲۰۰)۔

ڈاکٹر سید عبدالباری ایک تجربہ کار معلّم اور اُردو کے معروف ادیب و شاعر اور نقاد ہیں۔ انھیں یہ علمی منصوبہ ‘ دہلی کے انسٹی ٹیوٹ آف آبجکیٹو اسٹڈیز کی طرف سے سونپا گیا تھا۔ ان کا کام بہت اہم مگر اتنا ہی نازک تھا۔ کتاب میں (’’اگرچہ‘‘…’’پھر بھی‘‘ کے اسلوب کے ذریعے) ترازو کے دونوں پلڑے برابر رکھنے کی سعی نظر آتی ہے۔ مجموعی طور پر ان کے ہاں اُمیدافزا پہلو غالب ہے۔ اس طویل تجزیے کا اختتام بھی ان سطور پر ہوتا ہے کہ ۵۰ سال کی طویل سیاہ رات کے بعد آفتابِ تازہ کا طلوع زیادہ دُور نہیں اور راقم کو اس صبحِ روشن کے قدموں کی آہٹ صاف طور پر سنائی پڑ رہی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


تصویر حیات ‘پروفیسرڈاکٹر سعیداللہ قاضی۔ ناشر: تنظیم اساتذہ پاکستان‘ ۳-بہاول شیر روڈ‘ مزنگ‘ لاہور۔ صفحات: ۴۱۶۔ قیمت: ۱۰۲ روپے۔

یہ ایک ایسے معلّم اور مصنف کی آپ بیتی ہے جو ریاست دیر جیسے دُورافتادہ اور پس ماندہ علاقے میں پیدا ہوا۔ ریاست میں ایک بھی اسکول نہ تھا۔ لوگ چھپ چھپ کر یا باہر جاکر تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔ نواب دیر اپنی رعیت کو تعلیم دینے کے خلاف تھا۔ کسی کو اسکول کھولنے کی اجازت نہ تھی مگر ان کے اپنے بیٹے بیرونِ ملک جاکر تعلیم حاصل کرتے تھے۔ ریاست میں کتوں کے لیے تو شفاخانہ موجود تھا مگر انسانوں کے لیے کوئی ہسپتال نہیں تھا (ص ۳‘۴)۔

مصنف نے غربت اور تنگ دستی کے عالم میں تکلیفیں برداشت کر کے اور محنت و مشقت کی زندگی گزارتے ہوئے‘ نہایت عزم و ہمت اور حوصلے کے ساتھ ریاست سے باہر جاکر تعلیم حاصل کی۔ کیمبرج یونی ورسٹی سے ایم‘لٹ اور پشاور یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ پشاور یونی ورسٹی میں لیکچرر ہوئے اور ترقی کرتے ہوئے ڈین کے عہدے تک پہنچ کر سبکدوش ہوئے۔

مصنف کی اس بات پر تو رشک ہی کیا جا سکتا ہے کہ دنیا میں بلامبالغہ کوئی ایسی نعمت نہیں جو اللہ نے مجھے نہیں دی اور کوئی ایسی آرزو نہیں کی جو اللہ نے پوری نہیںکی (ص ۳۰۷)۔ لیکن آپ بیتی پڑھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ نہایت غریب گھرانے اور انتہائی پس ماندہ علاقے کے ایک شخص نے جو کچھ بھی ترقی کی ‘اس کے پسِ پردہ توفیقِ الٰہی کے ساتھ مصنف کی نیک نیتی‘ خلوص‘ عزم و ہمت اور دوسروں سے ہمدردانہ رویہ‘ اپنے فرائض کی دیانت دارانہ بجاآوری‘ وقت کی سختی سے پابندی‘ سخت کوشی‘ سحرخیزی اور رزق حلال جیسے عادات و معمولات اور عوامل و عناصر کارفرما رہے۔ کہتے ہیں کہ میں اسکول کے زمانے میں کبھی کبھی سارا سارا دن بھوکا رہتا تھا لیکن واپسی پر (دوسرے ہم جماعتوں کی طرح) بلااجازت کسی کھیت سے گنا نہیں توڑا (ص ۲۹)۔ ہمیشہ پہلا پیریڈ لیا اور صبح جاگنے کے لیے کبھی الارم کلاک کا استعمال نہیں کیا (ص ۱۵۳)۔

مصنف کے بیرونِ ملک اسفار کے تجربات دل چسپ ہیں ‘مثلاً: اوّل‘ کیمبرج کے ایک پروفیسرنے قادیانی سمجھ کر ان کی خوب حوصلہ افزائی کی لیکن جب پتا چلا کہ ’’میں قادیانی نہیں تو اس نے مجھ میں دل چسپی لینی چھوڑ دی‘‘ (ص ۷۳)۔ ہم کیمبرج کے پروفیسروں کی مہارتِ علمی اور رہنمائی سے بہت مرعوب ہیں مگر مصنف کا تجربہ مختلف ہے۔ ان کے نگرانِ مقالہ نے ان کی صحیح رہنمائی نہ کی اور نہ کوئی خاص مدد کی۔ البتہ مصنف نے پروفیسر آربری کی تعریف کی ہے کہ ان کا طرزِعمل سارے کا سارا ایک مسلمان کا تھا‘ بس کلمہ پڑھنے کی توفیق نہیں ملی۔ دوم: مصنف نے اپنے کچھ دیگر تجربات سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہودی پوری انسانیت کو بداخلاق بنانے پر تلے ہوئے ہیں اور انھوں نے مسلمان ملکوں میں جاسوسی کے جال بچھا رکھے ہیں۔

آخری حصے میں ایک پورا باب تنظیم اساتذہ پاکستان پر ہے۔ قاضی صاحب نے تنظیم کی اہمیت و خدمات کے ساتھ اپنے اُوپر اس کے احسانات کا اعتراف کیا ہے لیکن تنظیم اور افرادِ تنظیم کی کمزوریوں‘ خامیوں اور اصلاح طلب پہلوئوں کا بھی بڑے کھلے اور واشگاف انداز میں ذکر کردیا ہے۔ یہ ایک طرح کا مکتوبِ مفتوح ہے۔

قاضی صاحب کا اسلوب رواں دواں اور آسان ہے۔ اگرچہ فنی اور ادبی اعتبار سے تو یہ خودنوشت کوئی بلندپایہ آپ بیتی قرار نہیں دی جا سکتی‘ لیکن مصنف نے جس خلوص‘ کھلے دل و دماغ‘ صاف گوئی اور بے لاگ انداز میں اسے لکھا ہے اس لحاظ سے یہ ایک دل چسپ‘ معلومات افزا‘ سبق آموز اور قابلِ مطالعہ آپ بیتی ہے۔

اگر اس کی تدوین کی جاتی اور تکرار یا غیر ضروری حصوں کو نکال دیا جاتا اور زبان و بیان میں بھی کچھ اصلاح کر دی جاتی تو یہ کہیں زیادہ خوب صورت اور عمدہ خود نوشت کا درجہ حاصل کرلیتی (ضخامت بھی کم ہو جاتی)‘ تاہم موجودہ صورت میں بھی اس میں ایک اچھی آپ بیتی کی بعض خوبیاں موجود ہیں‘ مثلاً مصنف کا خود احتسابی کا رویہ‘ اپنی غلطیوں اور شخصی کمزوریوں کا اعتراف‘ صاف گوئی اور اپنے شدید مخالفین سے براہِ راست مکالمے کا اہتمام اور ان کی خوبیوں کا اعتراف وغیرہ۔ (ر- ہ )


قرآن اور علمِ جدید ‘ڈاکٹر محمد رفیع الدین (تلخیص: محمد موسٰی بھٹو)۔ناشر: سندھ نیشنل اکیڈیمی ٹرسٹ‘ ۴۰۰ بی‘ یونٹ ۴‘ لطیف آباد‘ حیدرآباد۔ صفحات: ۲۷۲۔قیمت: ۱۰۰ روپے۔

ڈاکٹر محمد رفیع الدین (۱۹۰۴ئ-۱۹۶۹ئ) ایک ممتاز فلسفی‘ اقبال شناس اور جدید علوم کے اسکالر تھے۔ ان کی عالمانہ تصنیف قرآن اور علمِ جدید بقول ڈاکٹر غلام مصطفی خان: ’’جدید نظریات کو اسلام کی کسوٹی پر پرکھنے اور اسلام کے نظریۂ لاشعور‘ نظریۂ جبلت‘ نظریۂ فوقیت اور نظریۂ معاش اور اسلام کے نظریۂ قومیت کی تشریح کے سلسلے میں--- سب سے نمایاںاور منفرد نوعیت کی کتاب ہے‘‘۔ محمد موسٰی بھٹو نے بکثرت ذیلی سرخیوں کے اضافے کے ساتھ اصل کتاب کی تلخیص پیش کی ہے۔ شروع میںایک طویل مضمون میں بھٹو صاحب نے مصنف مرحوم کی فکر کے اہم پہلوئوں کا خلاصہ اور ان کی بعض کتابوں سے اقتباسات دیے ہیں۔ یہ سب مباحث فکری اعتبار سے بہت اہم ہیں۔ مصنف کی علمیت مسلّمہ اور عالمانہ نقدوتبصرہ اورگرفت بہت عمدہ  اور برمحل ہے۔

اصل کتاب کے آخری سو صفحات (مارکسزم کی بحث) کی تلخیص شامل نہیں کی گئی کیونکہ کتاب کی ضخامت زیادہ ہو چلی تھی۔ تدوین شدہ موجودہ صورت میں آسانی سے پتا نہیں چلتا کہ مرتب کا مطالعاتی جائزہ کہاں ختم ہو رہا ہے اور اصل کتاب کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے؟ فہرست بھی رہنمائی نہیں کرتی۔ کاش اس نہایت مفید کتاب کو تدوین و تلخیص اور معیارِ اشاعت کے لحاظ سے بھی شایانِ شان طریقے سے پیش کیا جاتا۔ (ر-ہ)


تبلیغی جماعت کا جائزہ  ‘مولانا عامر عثمانی۔مرتبہ: سید علی مطہر نقوی امروہوی۔ ناشر: مکتبہ الحجاز پاکستان‘ اے ۲۱۹‘ بلاک سی‘الحیدری۔ شمالی ناظم آباد‘ کراچی۔ صفحات: ۲۸۸۔ قیمت: ۱۴۰ روپے۔

مولاناعامر عثمانی مرحوم نے بڑی پتے کی بات کہی ہے: ’’ہم یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے تمام گروہ‘ تمام باضابطہ جماعتیں اپنے اپنے گروہی خیالات و نظریات کو ایک طرف رکھتے ہوئے‘ اس طوفان ہلاکت کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہوں‘ جو ہم سب کو بہا لے جانے کے لیے گرجتا‘اُمڈتا چلا آرہا ہے‘ چلا نہیں آ رہا‘ ]بلکہ[کبھی کا آچکا ہے‘‘۔ (ص ۱۷۶-۱۷۷)

اس اپیل کے ساتھ وہ لکھتے ہیں: ’’تبلیغی جماعت کے اعمالِ خیرپر ہم کبھی معترض نہیں ہوئے‘ بلکہ موقع بہ موقع انھیں سراہا ہے‘‘ (ص ۲۷۰)۔ واقعہ یہ ہے کہ تبلیغی افراد ایثار و اخلاص اور تصوف کے ملے جلے جذبے سے سرشار گھروں سے نکلتے ہیں مگر اساطیری حوالوں اور ضعیف روایتوں کی آمیزش سے ان کے ’’راہبانہ ذہن‘‘ (ص ۱۶۶) تیار کیے جاتے ہیں‘ انھیں ہمدردانہ دعوتِ فکر سے درست کرنے کی سعی کرنا‘ ہر عالم‘ فاضل اور دین کے بہی خواہ پر واجب ہے۔ یہ امر بھی مشاہدے میں آتا ہے کہ ’’جہاں تبلیغی نصاب پڑھا جانے لگا‘ وہاں ایسا التزام کیا جانے لگا کہ کچھ اور پڑھنے کو عملاً ]ممنوع[ کر دیا گیا۔ اسی کا نام ہے غیرواجب کو واجب بنا لینا‘‘ (ص ۲۸۳)۔

تبلیغی جماعت کے اس صدقہ جاریہ میں ایسی افراط و تفریط کا در آنا ایمان‘ جستجو اور حریت کے پیمانوں کو ضعف پہنچانے کا باعث بنتا ہے جس پر نہ صرف جماعت کے بزرگوں کو بلکہ دوسرے راست فکر اہل علم حضرات کو بھی خلوصِ نیت کے ساتھ رہنمائی کرنا چاہیے‘ عامرعثمانی مرحوم نے یہی خدمت انجام دی ہے۔

جیساکہ تبصرے کے آغاز میں ہم نے عامر عثمانی مرحوم کا قول نقل کیا ہے کہ اُمت کی مختلف جماعتوں کو اتفاق و ایمان کے ساتھ تعاون کی شاہراہ پر گامزن ہونا چاہیے۔ اسی جذبے کے تحت عامرعثمانی نے مختلف اوقات میں تبلیغی جماعت کے لٹریچر اور ان کے متعدد بزرگوں کی جانب سے‘ جماعت اسلامی اور مولانا مودودی مرحوم پر ہونے والی تنقید کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا ہے کہ خود: ’’تبلیغی جماعت کے چھے اصولوں میں کسی جماعت کو مطعون کرنا‘ برا بھلا کہنا شامل نہیں ہے‘‘ (ص ۹۷)۔ لیکن مسلموں اور غیرمسلموں کی تمام تحریکوں کو نظرانداز کرتے ہوئے تبلیغی جماعت کے اکابرکے ہاں جماعت اسلامی ] اور مولانا مودودی[ کے خلاف ایک طرح کی ’’ذہنی جارحیت‘‘ نظر آتی ہے‘‘(ص ۱۴۹)۔ حالانکہ ایسے رویے کی بنیاد مولانا محمد الیاس مرحوم نے نہیں رکھی تھی۔

یہ کتاب مولانا شبیراحمدعثمانی ؒکے بھتیجے اور دارالعلوم دیوبند کے فاضل مولانا عامرعثمانی مرحوم کے شذرات پرمشتمل ہے‘ جو انھوں نے خداترسی‘ علمی شان‘ اور جرأت ایمانی کے ساتھ تحریر کیے ہیں۔ سید علی مطہرنقوی نے انھیں مرتب کر کے ایک اہم خدمت انجام دی ہے۔ یہ کتاب بالخصوص تبلیغی جماعت کے اکابر واصاغر اور ان کی جدوجہد میں دل چسپی رکھنے والوں کے لیے قابلِ مطالعہ ہے۔ (سلیم منصورخالد)


انسانیت کی تلاش  ‘ملک شیر علی۔ ناشر: علی ویلفیئر سوسائٹی‘ لاوہ‘ تلہ گنگ(ضلع چکوال)۔ صفحات: ۲۵۳۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

سفرنامہ واحد صنفِ ادب ہے جس میں داستان کا تحیّربھی ہے اور افسانے کی چاشنی بھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ قارئین کی دل چسپی اور پسندیدگی کے پیش نظر گذشتہ ربع صدی میں سفرنامے بکثرت منظرعام پر آئے اور سند قبولیت حاصل کی ہے لیکن نگرنگر گھومنے والے سیاحوں میں بہت کم ایسے لوگ ہوں گے جنھوں نے دنیا کے تین چوتھائی حصے میں سمندروں کے سفر کیے ہوں اور مشاہدات کو منظرعام پر لائے ہوں۔ (حجاج کے بحری اسفار ایک الگ موضوع ہے)۔

اس حوالے سے زیرنظر سفرنامہ بعض کمزوریوں کے باوجود قابلِ توجہ اور خاصا دل چسپ ہے۔ مصنف پاک بحریہ کے ایک سابق ٹیلی گرافسٹ ہیں۔ انھوں نے بعد میں نیوی مرچنٹ میں بطور ریڈیو افسرطویل عرصے تک مختلف جہازوں پر فرائض سرانجام دیے۔مصنف کو دنیابھرکے سمندروں میں سفر کرنے اور تمام اہم ملکوں کی بندرگاہوں پر جانے اور وہاں قیام کرنے کے مواقع ملے۔ کئی بار دیارِ غیر میں اُس کے آپریشن ہوئے اور طرح طرح کے مصائب کا سامنا بھی رہا اور دل کھول کر لطف بھی اٹھایا۔ مصنف نے تجربات و مشاہدات کو سیدھے سادے انداز میں پیش کیا ہے۔

متلاطم سمندروں میں جہازوں کے عملے (crew) کو کن کن مصیبتوں سے واسطہ پڑتا ہے اور ان مصائب سے ان کی صحت اور مزاج پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ڈوبتے جہازوںکی مدد کیسے کی جاتی ہے۔ کلبوں میں تفریح طبع کے کیا سامان میسر آتے ہیں۔ پھر وطن سے دُور پاکستانیوں کے کیا رویّے ہوتے ہیں؟ اسی طرح کے بہت سے پہلو سامنے لائے گئے ہیں۔

مصنف نے اس کتاب کے مرکزی کردار علی کی نجی زندگی کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے۔ محدود ماحول میں رہنے والے کسی فرد کی نجی زندگی عمومی دل چسپی کا باعث نہیں ہوتی۔  مگر یہاں ایک مخلص‘ فراخ دل اور جذباتی انسان کی آپ بیتی میں دل چسپی کے ساتھ عبرت کے کئی پہلو بھی نظر آتے ہیں۔

علمی و ادبی بڑے مراکز سے دُور ایک قصبے کے باسی مصنف کی یہ پہلی کاوش ہے۔ اس لیے پختہ قلم کاری کا عدمِ وجود تعجب خیز نہیں۔ واقعات کی زمانی ترتیب میں جھول ہے۔املا‘ رموزاوقاف‘ فقروں کی بندش اور تحریر کے دیگر کئی پہلونظرثانی کے مستحق اور توجہ طلب ہیں۔ ایک بھرپورنظرثانی کے بعد یہ کتاب ایک منفرد مقام حاصل کرسکتی ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)


تعارف کتب

  • قرآنی عربی کا پہلو‘ پہلا‘دوسرا‘ تیسرا قاعدہ۔ ناشر: ادارہ تعمیرانسانیت‘ کراچی۔ صفحات: ۷۱‘ ۱۱۴‘ ۱۳۰۔ قیمت: ۳۰ روپے‘ ۴۶ روپے‘ ۵۴ روپے۔]قرآنی عربی آسان اور فطری طریقے سے سکھانے کا قاعدہ تین حصوں میں۔ ان قاعدوں کا بیشتر ذخیرئہ الفاظ قرآن و حدیث سے اخذ کردہ ہے۔[
  • گفتگو کا چراغ (اسلم انصاری‘ شخصیت اور فن۔ مصنف: جاوید اصغر‘ ناشر: فکشن ہائوس‘ ۱۸- مزنگ روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۱۹۲۔ قیمت: ۱۲۵روپے۔] ملتان سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر‘ ادیب اور ناقد‘ پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری کی شاعری اور اقبال شناسی کا تجزیہ و تبصرہ۔ ایم اے اُردو کا ایک امتحانی مقالہ۔ بقول خورشید رضوی : ’’ہمارے دَور کی ایک اہم شخصیت کے علمی‘ ادبی اور فکری کمالات کو متعارف کرانے کے لیے یہ محنت قابلِ قدر‘‘ ہے مگر سوانحی حالات کا حصہ مختصر اور تشنہ ہے۔[
  • فقہ حضرت امام حسن بصری‘ ڈاکٹرمحمد روّاس‘ قلعہ جی‘ (ترجمہ: مولانا عبدالقیوم)۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی‘ منصورہ‘ لاہور۔صفحات: ۸۵۰۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔] فقہ انسائی کلوپیڈیاکے سلسلے کی نئی کتاب۔ قبل ازیں خلفاے راشدین ‘ عبداللہ بن مسعودؓ، عبداللہ بن عمرؓ، عبداللہ بن عباسؓ کی کتب فقہ شائع ہوچکی ہیں۔ حسن بصری(م: ۱۱۰ ہجری) اپنے عہد کے ممتاز فقیہ‘ محدث اور مفسر تھے۔ لوگ ان کی محبت سے فیض یاب ہوتے اور زیارت سے روحانی آسودگی پاتے ۔[
  • The Zakat Law ] قانونِ زکوٰۃ[ خالد نذیر‘ ناشر: عمّارپبلی کیشنز‘ اسلام آباد‘ فون: ۲۲۵۶۰۹۶۔ صفحات: ۲۶۱۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔] زکوٰۃ اور عشر کیا ہے؟ ۱۹۸۰ء کا زکوٰۃ و عشر آرڈی ننس‘ اس میں ہونے والی ترامیم۔ مسلم ممالک میں قوانینِ زکوٰۃ۔ نظامِ زکوٰۃ کی اصلاح و بہتری کے لیے تجاویز۔[

ذکر فراہی ‘  ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی ۔ ناشر: دارالتذکیر ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۹۶۸۔ قیمت: ۶۵۰ روپے۔

مولانا حمیدالدین فراہی (۱۸۶۲ئ-۱۹۳۰ئ) قرآنی علوم کے معروف محقق‘ مفسر اور ترتیب و نظم قرآن میں ایک نئے مکتب فکر کے بانی تھے۔ انھوں نے بقول مولانا مودودی ’’مسلسل چالیس برس تک قرآن کی خدمت کی اور معارفِ قرآنی کی تحقیق میں سیاہ بالوں کو سفید کیا۔ ] ان کی [ تفسیروں سے عرب و عجم کے ہزاروں مسلمانوں میں تدبر فی القرآن کا ذوق پیدا ہوا‘‘۔

زیرنظر کتا ب ان کے ’’سوانح حیات اور تصنیفی کام کے تحقیقی مطالعے‘‘ پر مشتمل ہے۔ یہ علمی منصوبہ ربع صدی قبل مصنف کے سپرد کیا گیا تھا۔ اس وقت وہ ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد میں ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ انھوں نے اس تحقیق میں بہت کھکھیڑاٹھائے۔ بارہا بھارت کے مختلف شہروں کا سفر کیا‘ بیسیوں بلکہ سیکڑوں لوگوں سے ملے‘ روایات اور بیانات جمع کیے اور متعلقہ اداروں سے بہت سا ریکارڈ حاصل کیا۔ پھر یہ علمی منصوبہ (جیسا کہ مصنف نے اپنے سیرحاصل مقدمے میں ایک لمبی داستان کی صورت‘ اس کا پس منظر بتایا ہے) ’’سرخ فیتے‘‘ کی رکاوٹوں اور ’’حاسدوں‘ مفسدوں‘ فتنہ پردازوں اور شرپسند عناصر‘‘ کی تخریبی سازشوں کا شکار ہوتا ہوا’’ایک جمبوجیٹ کے ایئرکریش کی طرح تباہ ہو کر رہ گیا۔ اب یہ اس کے ملبے کا کچھ حصہ ہے جو پیش کیا جا رہا ہے‘‘ (ص ۹)۔ اگرچہ مصنف کہتے ہیں کہ ’’میرا یہ کام اپنی نظر میں بے وقعت ہے‘‘ مگر انھوں نے نامساعد حالات کے باوجود جس محنت کے ساتھ مواد اکٹھا کیا اور پھر اسے مرتب کر کے موجودہ قاموسی جلد کی شکل میں شائع کیا ہے‘ وہ قابل داد ہے۔

کتاب میں مولانا فراہیؒ کی زندگی کی چھوٹی سے چھوٹی تفصیل بھی جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ خاندانی پس منظر‘ شجرہ‘ تاریخ اور جاے پیدایش‘ عبدالحمید یا حمیدالدین؟ تعلیم کے مختلف مراحل‘ اساتذہ‘ ملازمتیں‘ اسفار‘ تلامذہ‘ بیماری‘ وفات‘ اولاد اور مطبوعہ و غیرمطبوعہ تصانیف‘ شخصیت کے تابناک پہلو وغیرہ۔ یہ کتاب اپنی جامعیت اور پھیلائو میں حالی کی   حیاتِ جاوید کی یاد دلاتی ہے۔ ہمارا تاثر یہ ہے کہ ذکر فراہی میں  حیات شبلی(سید سلیمان ندوی) اور حیاتِ سلیمان (شاہ معین الدین ندوی) سے کہیں زیادہ کاوش و محنت اور جگرکاوی سے کام لیا گیا ہے۔ اور ممدوح کی زندگی کی معمولی جزئیات تک کو جمع کردیا گیا ہے۔

جناب مصنف نے یہ کام بڑی لگن کے ساتھ انجام دیا ہے۔ مگر کہیں کہیں غیر ضروری تفصیل ملتی ہے اور کہیں وہ غیرمتعلق باتوں کا ذکر کرنے لگتے ہیں۔ اگر کچھ حشووزوائد نکال دیے جاتے تو کتاب اتنی ضخیم نہ ہوتی اور اس کے علمی معیار میں کوئی کمی واقع نہ ہوتی۔

یہ بات کھٹکتی ہے کہ مصنف نے تفصیلی دیباچے میں کئی جگہ تلخ نوائی سے کام لیا ہے اور متن کتاب میں بھی کہیں کہیں اس کی جھلک نظر آتی ہے‘ جیسے انھوں نے مولانا ابوالخیر مودودی کی ’’بے خبری‘ غلط اندیشی اور بدگمانی‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے مولانا فراہی سے ابوالخیر صاحب کے ’’بغض وعناد‘‘پراُنھیں لتاڑا ہے‘ وغیرہ۔ ہماری رائے میں اس طرح کی تلخی کسی عالم یا اسکالر کے شایانِ شان نہیں ہے۔ بایں ہمہ اس علمی کارنامے پر اصلاحی صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں۔

ایسی اہم اور عالمانہ سوانح عمری کے آخر میں اشاریے کی عدم موجودگی بری طرح کھٹکتی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


طریقت کی حقیقت (اول‘ دوم) چودھری غلام علی۔ پتا: مکتبہ جریدۃ الاتحاد‘ منصورہ‘ لاہور۔ صفحات: ۳۴۴‘ ۱۷۱۔ قیمت‘ اول: درج نہیں۔ دوم: ۸۰ روپے۔

پندرہ ابواب پر مشتمل یہ دونوں جلدیں طریقت کے باب میں کسی خوش کن تاثر کا اظہاریہ نہیں بن سکیں۔ اس کتاب میں خیالات اس قدر منتشر اور بے ربط ہیں کہ طریقت کے حقائق تک رسائی کارے دارد ہے۔ مراحلِ تصوف کا بیان ترتیب وار ہے اور نہ مکمل۔ تقدیم و تاخیر کا لحاظ بھی پیشِ نظر نہیں رہا۔ مؤلف کے نزدیک کوئی بھی بات کہیں سے شروع کرکے کہیں پر بھی چھوڑی جا سکتی ہے‘ چاہے حقیقت افسانے کا رُوپ دھار لے یا افسانہ حقیقت بن جائے۔ پھر طریقت کی حقیقت کے ضمن جس علمی اور تحقیقی اندازِ بیان کی ضرورت تھی‘ وہ یہاں مفقود ہے۔ زبان اور انشا کی غلطیاں اس پر مستزاد ہیں--- لگتا ہے کہ مؤلف درست اور صحیح زبان کے قائل ہی نہیں۔ پروف کی اتنی غلطیاں ہیں کہ شاید ہی کوئی صفحہ اس عیب سے داغ دار نہ ہو۔ اصولِ تالیف کا اس کتاب میں کہیں گزر نہیں--- یہ فقط ایک کتاب ہے‘ جس کے پانچ سو پندرہ صفحے ہیں۔ متضاد اور متناقض خیالات کے ترجمان۔ مغالطہ انگیزی قدم قدم پر دامن کشاں ہے۔ ربط اور تلازمے کی شدید کمی ہے۔ کتاب کی دونوںجلدیں پڑھ لینے کے بعد‘ کم از کم میں ذاتی طور پر یہ بتانے سے قاصر ہوں کہ مؤلف طریقت کے مؤید ہیں یا مخالف---!

مؤلف نے علامہ اقبال کے کلام اور افکار سے بھی استدلال کیا ہے‘ مگر یک رُخا اور اکہرا--- معلوم ہوتا ہے کہ وہ افکار اقبالؒ سے براہِ راست فیض یاب نہیں ہوئے‘ محض اقبالیاتی ادب کے توسط سے اقبال تک پہنچنے کی سعی فرمائی۔ اس صورت میں مغالطے کا شکار ہونا بدیہی اور لازمی امر ہے‘ بصورتِ دیگر وہ طریقت اور مسائلِ طریقت کی یک رُخی تعبیر نہ فرماتے۔ مثال کے طور پر وحدت الوجود ہی کو لیں۔ بادی النظر میں یہ نظریہ یونانی فلاسفہ کے افکار کا ترجمان بھی ہے اور ویدانت کا پرتو بھی--- اسی طرح انگریزی اصطلاح Pantheism بھی اس کی مترادف اور ہم معنی ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کیوں کہ اگر اس نظریے کا بغور مطالعہ کیا جائے‘ تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظریہ نہ تو یونانی افکار کا ترجمان ہے اور نہ ہی ویدانت کا۔ اسے پین تھی ازم اور مونوازم سے بھی کچھ علاقہ نہیں۔ یہ ان سب نظریات سے بالکل علاحدہ ہے اور صرف اسلامی تعلیمات سے مستنیر--- مگر اس نتیجے پر پہنچنے کے لیے ٹھوس علمی اور تحقیقی مطالعے کی ضرورت ہے۔ (عبدالعزیز ساحر)


انوارالقرآن‘ مولانا عبدالرحمنؒ، ناشر: سنگت پبلشرز‘ ۲۵ سی لوئرمال‘ لاہور۔ صفحات: ۶۰۸ (بڑی تقطیع)۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔

متعدد اہل علم نے قرآن حکیم کے لغات تیار کیے ہیں۔ بعض تو ڈکشنری کے طرز پر اور بعض حروفِ تہجی کی ترتیب کے مطابق ہیں۔ بعض نے مفردات کو سامنے رکھا ہے۔ مولانا عبدالرحمن مرحوم نے تلاوتِ قرآن حکیم کی ترتیب کے مطابق الفاظ (اسماء ‘ افعال اور تراکیب و کلمات وغیرہ) کے معنی و مفہوم کی وضاحت کی ہے۔ بعض الفاظ اور کلمات پر مفسرین اور اکابر کی رائے بھی دی ہے۔ انھوں نے ہر اہم کلمے کو درج کرنے کے بعد‘ پہلے اس کا مصدر یا مادہ (اگر ہو تو) بیان کیا ہے‘ پھر اس کلمے کی صرفی حیثیت اور نحوی مقام بتایا ہے) پھر اس کے مفہوم میں اہل لغت اور اہل تفسیر سے حوالے نقل کیے ہیں اور جہاں ممکن ہوا ہے وہاں صحیح احادیث سے کلمات کا مفہوم متعین کیا ہے‘‘ (ص ۶۰۷) ۔گویا یہ قرآن حکیم کے الفاظ کا ایسا لغت ہے جس میں کہیں کہیں معنی و مفہوم کی وضاحت اور تعین کے لیے مختلف مفسرین سے بھی مدد لی گئی ہے۔

یہ کام بڑی محنت کا تھا جسے مصنف ِ مرحوم نے اپنے تبحرعلمی کی مدد سے بخوبی مکمل کیا ہے۔ مولانا عبدالرحمن سکول میں مدرس تھے۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد دیوبند سے دورئہ حدیث مکمل کیا اور پھر تصنیف و تالیف میں مصروف ہوئے۔

مطالعۂ قرآن اور فہمِ قرآن کے سلسلے میں عام قاری کے لیے یہ ایک مفید معاون کتاب ہے۔ ۱۹۵۶ء کی پرانی کتابت کا عکس شائع کر دیا گیا ہے۔ اگر ازسرنو مشینی کتابت (کمپوزنگ) کرائی جاتی تو ۶۰۰ صفحات کا یہ لغت چار‘ ساڑھے چار سو صفحات میں بخوبی سما سکتا تھا اور قیمت بھی کم ہوتی۔ (ر-ہ)


خونِ جگر ہونے تک  ‘صاحبزادہ سید خورشید گیلانی‘ ناشر: خورشید گیلانی ٹرسٹ‘ ۲۲-ایچ‘ مرغزار کالونی‘ ملتان روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۳۸۴۔ قیمت: ۱۸۰ روپے۔

صاحب زادہ سید خورشید گیلانی مرحوم ایک ممتاز دانش ور‘ مذہبی مفکر‘ مصلح اور معروف  کالم نگار تھے۔ انھوں نے فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر عمربھر ملّی یک جہتی‘ عالم اسلام کے اتحاد اور ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا۔ اُمت مسلمہ کا ایک فرد ہونا ان کے لیے باعث افتخار تھا خود ان کے بقول ’’راقم ان لوگوں میں شامل ہے جسے کبھی کوئی گروہی سوچ مسحور نہ کرسکی‘‘۔

زیرنظر کتاب سید مرحوم کے ان ۷۸ کالموں کا مجموعہ ہے جو انھوں نے عمرعزیز کے آخری چار ماہ (فروری تا مئی ۲۰۰۰ئ) میں تحریر کیے۔ موضوعات میں تنوع ہے اور عصرِحاضر کے عالمی اور ملکی مسائل پر ان کی جان دار آرا سامنے آئی ہیں۔ زیرنظر تحریروں میں انھوں نے ’’پاکستانی سیاست کے شب و روز‘‘ ، ’’مسئلہ کشمیر‘‘، ’’اکیسویں صدی‘‘،’’نواز مشرف ڈیل‘‘، ’’نواز شریف کی متوقع واپسی‘‘ اور ’’قیادت کا قحط‘‘ اور اسی طرح کے بہت سے عنوانات پر   قلم اٹھایا ہے۔ لیکن موضوعی لحاظ سے غالب عنصر اُمت مسلمہ کے احوال کے بارے میں ہے۔ ’’ایک ضرورت‘ ایک نعمت‘‘ مرحوم کی آخری تحریر ہے۔

خورشید گیلانی نے اپنے منفرد اسلوب اور دل کش اندازِ تحریر کے ذریعے نہ صرف دلوں کو متاثر بلکہ مسخر کیا۔ جرأت اظہار ایک عطیہ خداوندی ہے جو انھیں وافر مقدار میں میسر تھا۔  خونِ جگر ہونے تک کی تحریریں اس لحاظ سے اہم اور منفرد ہیں کہ یہ بسترمرگ پر لکھی گئیں جب وہ کینسر جیسے موذی مرض کے سبب موت کے روبرو تھے۔

یہ تحریریں ملّت اسلامیہ کی فلاح و سربلندی کا شعور اور اتحاد بین المسلمین کے لیے ایک جذبہ و ولولہ پیدا کرتی ہیں اور عالمی تناظر میں اُمت مسلمہ کو درپیش مسائل کے حل کے لیے اذہان کو نیا رُخ دینے میں مفید ہیں۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)


سو ہے ‘ وہ بھی آدمی‘ عبداللطیف ابوشامل۔ ناشر: منشورات‘ منصورہ‘ لاہور-۵۴۵۷۰۔ صفحات: ۳۱۹۔ قیمت: کاغذی جلد (پیپربیک) ۱۰۰ روپے‘ مجلد: ۱۲۵ روپے۔

کیا زندگی ایک المیہ ہے؟ نہیں‘ زندگی تو ایک نعمت ہے۔ مگر پاکستانی معاشرے میں خودکشیوں اور خود سوزیوں کے روز افزوں رجحان کے حوالے سے بلاشبہہ عام آدمی کے لیے زندگی ایک المیہ بن کر رہ گئی ہے۔ گلی کوچوں اور سڑکوں پر اور اخبارات کے صفحات پر بھی ہم ہر روز اُس کا مشاہدہ کرتے ہیں لیکن ہمارا مشاہدہ صرف اُس کے ظاہر اور سطح تک محدود رہتا ہے۔ ابوشامل نے زندگی کے المیوں کی تہ میں اُتر کر اُن کے اسباب کا کھوج لگانے کی کوشش کی ہے۔ ہمارا سماج اس قدر بدہیئت اور غیرمتوازن کیوں ہو گیا ہے؟ اس کا اندازہ ابوشامل کی بنائی ہوئی لفظی تصویروں سے ہوتا ہے۔

مصنف نے ایک عرصے تک ہفت روزہ  فرائیڈے اسپیشل کراچی میں زندگی کے عنوان سے معاشرے کے نچلے غریب ‘ مفلس اور محروم طبقے کے کرداروں سے ملاقاتیں کیں‘ اُن کے انٹرویو لیے‘ اُن کے دلوں کے داغوں کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کیا۔ اُن میں چوکیدار ‘ اخبار فروش‘ نان بائی‘ گٹر صاف کرنے والے‘ اُونٹ والے‘ گدھا گاڑی والے‘ تالا چابی بنانے والے‘ گونگے‘ بہرے اور نابینا کردار شامل ہیں۔ ابوشامل اِن کرداروں کے ہم نوا‘ ہم درد اور غمگسار بن کر اُن کی دل کی باتوں کو سامنے لاتے ہیں‘ اُن کے دکھ درد‘ مصائب‘ پریشانیاں اور اُن کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں اور ساتھ ہی اُن کے آنسو---آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے کے حوالے سے ابوشامل نے حقیقی زندگی کو دریافت کیا ہے۔ معمولی اور چھوٹے آدمیوں کی گفتگو میں پتے کی باتیں بھی ہیں اور حکمت و بصیرت کی کرنیں بھی۔ یہ ایک ایسا سماجی اور عمرانیاتی مطالعہ ہے جو ہم جیسے کتابی لوگوں کے لیے معلومات انگیز اور چشم کشا ہے۔ دفتروں یا قہوہ خانوں اور ٹی ہائوسوں میں بیٹھ کر لفظوں کے طوطے مینا بنانے والوں اور سگریٹ کے مرغولوں کے درمیان جدیدیت‘ مابعد جدیدیت اور وجودیت پر بحثیں چھانٹنے والوں کے لیے بھی ابوشامل کے پیش کردہ کرداروں میں غوروفکر اور بہت کچھ اخذ و اکتساب کا سامان موجود ہے۔

یہ کہانیاں نہایت خوب صورت اور دل کش اسلوب میں پیش کی گئی ہیں۔ انداز تحریر نپاتلا ہے جس میں فکرانگیزی اور دعوتِ غوروفکر ہے۔ جو لوگ ان کو کہانی یا افسانے کے طور پر پڑھیں گے وہ ان سے لطف اُٹھائیں گے اور اس کے ساتھ ایک ذہنی اور فکری غذا بھی حاصل کریں گے۔ (ر-ہ)


تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ ‘ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی۔ ناشر: اقبال اکادمی‘ ایوانِ اقبال‘لاہور۔ ضخامت: ۵۵۶‘ مع اشاریہ و کتابیات (طبع دوم)۔ قیمت: مجلد ۲۵۰ روپے۔

عصرحاضر میں فکرِانسانی کی تشکیل کے مبارک کام میں‘ جن چند نمایاں ترین شخصیات کا نام سامنے آتا ہے۔ اُن میں ایک رجلِ عظیم علامہ محمد اقبال (۱۸۷۷ئ-۱۹۳۸ئ) ہیں۔ اگر مسلم دنیا میں اسلامی فکر کی تعبیروتشریح اور احیاے اسلام کے لیے کوشاں رہنے والے محسنوں کا تذکرہ کیا جائے تو اقبال کا نام نامی صفِ اول میں نظر آئے گا۔

اقبالیات میں علامہ کی تحریرات‘ مکتوبات‘ خطبات اور ملفوظات کی جمع و تدوین کی ضرورت اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے متن کی صحت اور مختلف روایات کی جانچ پرکھ پر غیرمعمولی طور پر زور دیا جاتا ہے۔

مصنف کا ڈاکٹریٹ کا یہ مقالہ اپنے موضوع پر ایک کامیاب کوشش ہے جسے انھوں نے بڑی لگن اور اہتمام سے انجام دیا۔ اقبال کی تصانیف کے ایک ایک لفظ کے مطالعے کے بعد‘ ممکن حد تک متن کے تقابلی جائزے پیش کیے گئے ہیں۔ صحت متن کی اس کاوش میں انھوں نے کس قدر محنت اور جاں کاہی سے کام لیا‘ اس کا اندازہ زیرتبصرہ کتاب پڑھ کر ہو سکتا ہے۔

علم و تحقیق کی دنیا میں یہ تصنیف ایک قابل قدر اور رہنما کتاب کی صورت میں سامنے آتی ہے‘ جس سے طالب علموں کو کار تحقیق میں آگے بڑھنے کی تربیت ملتی ہے اور حسنِ تحقیق اور معیارِ تحقیق کی شاہراہ دیکھنا نصیب ہوتی ہے۔موضوع کی مناسبت اور تحقیق کی مطابقت نے اسے ذخیرۂ اقبالیات میں گنتی کی چند بہترین اور زندہ کتب میں شامل کر دیا ہے۔ (سلیم منصور خالد)


میرا اقبال ‘(پانچ حصے)‘ تالیف: زبیر حسین شیخ‘ ادارت: سلمان آصف صدیقی۔ اہتمام: ایجوکیشنل ریسورس ڈویلپمنٹ سنٹر‘ اے ۷۳۵ ‘ بلاک ایچ‘ شمالی ناظم آباد‘ کراچی۔ ناشر:سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ۔ صفحات:۲۳‘ ۳۲‘ ۳۲‘۴۰‘۵۲۔ قیمت: ۲۵۰ روپے (مکمل سیٹ)۔

ربع صدی پہلے تک‘ بچوں کے لیے اقبال کے تعارف کا اولین اور بڑا ذریعہ ان کی نظم ’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘ تھی مگر اب یہ وطن عزیز کے معدودے چند اسکولوں ہی میں پڑھی اور گائی جاتی ہے۔ ۲۰۰۲ء کو ’’سال اقبال‘‘ قرار دیا گیا لیکن جس انداز میں ہم نے یہ سال ’’منایا‘‘، بلکہ کہنا چاہیے کہ اسے ’’گزارا‘‘ وہ علامہ کے بقول: ’’رہ گئی رسمِ اذاں‘ روح بلالی نہ رہی‘‘کے مترادف تھا۔

اقبالیات پر کتابوں اور رسالوں کے انبار لگائے جا چکے ہیں لیکن اگر یہ سوال کیا جائے کہ اقبال کو بچوں اور لڑکوں میں متعارف کرانے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جائے؟ تو شاید اس کا تشفی بخش جواب نہیں ملے گا۔ ربع صدی پہلے اقبال اکادمی پاکستان نے‘ پروفیسر سید محمد عبدالرشید فاضل سے سلسلہ درسیاتِ اقبال لکھوایا تھا‘ جو اس وقت کے لحاظ سے ایک اچھی چیز تھی--- لیکن  میرا  اقبال کے عنوان سے پانچ کتابوں کا ایک باتصویر اور رنگین خوب صورت سیٹ شائع ہوا ہے‘ اس نے اس باب میں اقبالیات کے ایک بڑے خلا کو نہایت احسن طریق سے پُر کر دیا ہے۔ اقبالیات میں اپنی نوعیت کا یہ ایک مثالی کام ہے۔ تعجب تو یہ ہے کہ اس کا اہتمام سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ نے کیا ہے (اقبالیات سے اپنائیت اور محبت کا دعویٰ تو پنجاب والوں کا زیادہ ہے---!)

بچوں اور طلبہ کے لیے اقبال کی منتخب نظموں‘ غزلوں اور رباعیات کے ساتھ ان کا تعارف‘ پس منظر‘ فرہنگ‘ ہر نظم سے متعلق سوالات اور نظم پر کچھ تبصرہ--- کہیں کہیں چوکھٹے میں ’’کیا آپ جانتے ہیں؟‘‘ عنوان کے تحت علامہ کی زندگی کا کوئی دلچسپ اورسبق آموز واقعہ درج ہے۔

میرا اقبالکی غرض و غایت چوتھی جماعت سے آٹھویں جماعت تک کے بچوں میں ’’اردو شاعری کا ذوق‘‘ پیدا کرنا اور انھیں’’اقبال کے افکار سے روشناس‘‘ کرانا ہے۔ منظومات کے جمالیاتی پہلو (قدرتی مناظر‘ پرندے‘ جانور) تصویروں کے ذریعے نمایاں کیے گئے ہیں۔ آخری دو دو صفحوں کو ’’بیاض‘‘ کا عنوان دے کر طلبہ کو اپنے پسندیدہ اشعار لکھنے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔ کچھ شبہہ نہیں کہ مرتبین نے یہ کام مہارت سے انجام دیا ہے۔ نظرثانی کرنے والی مجلس  میں پہلا نام پروفیسر عنایت علی خاں کا ہے۔

بچوں‘ نوجوان طلبہ و طالبات کے لیے یہ ایک خوب صورت اقبالیاتی تحفہ ہے۔ ماہرین اقبالیات اور اقبالیاتی اداروں پر ایک قرض تھا جسے چکانے اور بہ حسن و خوبی چکانے کا کام ایک غیراقبالیاتی ادارے نے انجام دیا ہے۔ضروری ہے کہ سندھ کے ہی نہیں‘ ملک کے تمام اسکولوں میں خصوصاً نظریاتی نجی اسکولوں میں اسے شامل نصاب کیا جائے۔ (ر -ہ)

اقضیتہ الرسول ﷺ‘ مؤلفہ :محمد بن الفرخ المعروف بابن الطلاع الاندلسی‘ مرتبہ: ڈاکٹر محمد ضیاالرحمن اعظمی‘ مترجم: غلام احمد حریری۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی‘ منصورہ‘ لاہور۔ صفحات: ۷۹۲۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

کتاب و سنت کے ذخیرے میں جن امور پر سب سے زیادہ توجہ دلائی گئی ہے‘ ان میں سے ایک‘ اسلامی ریاست میں انصاف پروری اور عدل گستری کا پہلو ہے۔ اس عادلانہ نظام کے قیام کے لیے جو اولیں ادارہ تشکیل دیا گیا اور اس میں قاضیوں کا تقرر ہوا‘ اس کا تعلق عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ آپؐ کے یہ فیصلے (اقضیہ) اور احکام حدیث کے مجموعوں کے مختلف حصوںمیں منقسم اور منتشر تھے۔ حتیٰ کہ پانچویں صدی ہجری میں اسلامی اندلس کے ایک نامور فقیہ اور محدث نے سب سے پہلے ان احکام و قضایا کو ہزاروں حدیثوں میں سے تلاش کر کے جمع کیا‘ جنھیں ڈاکٹر محمد ضیا الرحمن اعظمی نے ۱۹۷۳ء میں جامعہ ازہر (مصر) کے ایک ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے مرتب کیا اور اس تحقیقی کام پر پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔

ڈاکٹر اعظمی ۱۹۴۳ء میں اعظم گڑھ کے ایک ممتاز ہندو خاندان میں پیدا ہوئے‘ ۱۹۶۰ء میں اسلام قبول کیا۔ طرح طرح کے مصائب و شدائد کا سامنا کرنا پڑا مگر وہ استقامت کے ساتھ راہِ حق پر قائم رہے۔ بھارت کے مختلف دینی اداروں سے فراغت کے بعد جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ اور جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ سے تحصیل علم کرتے رہے۔ بالآخر‘ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ ہی میں استاد الحدیث کے منصب سے ریٹائر ہوئے اور آج کل سعودیہ ہی میں اپنے مختلف علمی اور تحقیقی منصوبوں میں مصروف ہیں۔

اسلام میں عدل و انصاف کی اساس کتاب و سنت کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ کتاب اللہ کے احکام عدل تو احکام القرآن کی صورتوں میں متعدد فقہا نے جمع کیے ہیں ‘ مگر احادیث رسولؐ سے عدالتی نظائر کا یہ پہلا مستند اور معتبر مجموعہ ہے۔ ڈاکٹر اعظمی نے اس میں تمام تر احادیث کی تخریج کر دی ہے۔ جرح و تعدیل کے حوالے سے‘ ہر روایت کی صحت و عدم صحت پر بھی بحث کی ہے۔ مختلف احادیث سے مستنبط ہونے والے احکام اور ان کے بارے میں مختلف فقہی مسالک کے اختلافات اور آرا کو بھی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ آخر میں ’’استدراکات ‘‘کے عنوان سے اصل مخطوطے میں ان اقضیہ کا اضافہ کیا گیا ہے جو فاضل محقق نے دوران تحقیق دریافت کیے۔ تحقیقی مقالے کی نسبت سے مجموعے کے آخر میں عنوانات‘ اعلام اور مراجع و مصادر کی تفصیلات بھی فراہم کی گئی ہیں۔

اس مجموعہ احکام و قضایا میں کتاب الحدود پر ۱۷‘ کتاب الجہاد پر ۱۰‘ کتاب النکاح پر ۱۰‘ کتاب الطلاق پر ۱۰‘ کتاب البیوع پر ۴‘ کتاب الاقضیہ پر ۴‘ اور کتاب الوصایا پر ۲۵ فیصلے جمع کیے گئے ہیں۔ فاضل محقق نے کتاب الحدود والآیات پر مزید ۱۸‘ کتاب الجہاد پر ۴‘ کتاب النکاح والطلاق پر ۱۰‘ کتاب البیوع پر ۷۶‘ کتاب الحسبہ پر ایک‘ کتاب القضا پر ۶ اور کتاب الفرائض والعتق پر ۱۷‘ احکام و قضایا کا اضافہ کر کے اصل کتاب کی قدروقیمت میں اور اضافہ کر دیا ہے۔

اس عظیم کتاب کا ترجمہ مولانا غلام احمد حریری جیسے فاضل مترجم نے کیا ہے۔ یہ کتاب ان تمام طلبہ ‘ اساتذہ‘ علما‘ ماہرین قانون‘ وکلا اور جج حضرات کے لیے مفید اور ناگزیر ہے جو اسلام کے نظام عدل سے دلچسپی اور اس کے نفاذ کے لیے کوشاں ہیں۔ کتاب عمدہ معیار طباعت پر شائع کی گئی ہے۔ (عبدالجبار شاکر)


معجم تراکیب الالفاظ العربیۃ فی اللغۃ الاردیۃ‘ ڈاکٹر سمیرعبد الحمید ابراہیم۔ ناشر:جامعہ امام محمد بن سعود اسلامیہ‘ ریاض‘ سعودی عرب۔ صفحات: ۵۰۹ (بڑی تقطیع)۔ قیمت: درج نہیں۔

لغت نویس نے عربی کے ایسے الفاظ اور تراکیب کو جمع کیا ہے جو اردو میں استعمال ہوئے ہیں۔ یہ بھی بتا دیا ہے کہ کوئی لفظ یا ترکیب مذکر ہے یا مونث‘ اس کا معنیٰ کیا ہے اور کیا اُردو میں بھی اس کا وہی مفہوم لیا جاتا ہے جو عربی میں ہے یا اُس سے کچھ مختلف۔ لغت نویس نے کہیں کہیں یہ بھی بتا دیا ہے کہ اردو والے بعض الفاظ کا تلفظ عربی سے مختلف کرتے ہیں۔

ڈاکٹر سمیر‘ اگرچہ کئی سال اپنے ڈاکٹریٹ کے سلسلے میںلاہور رہے ہیں (ان کا مقالہ ابھی تک چھپا نہیں) مگر تلفظ کے سلسلے میں ان کی رائے محض ذاتی محدود مشاہدے پر مبنی ہے‘ مثلاً ان کے مطابق اردو والوں کا تلفظ اس طرح ہے: ہرفی ندا (حرفِ ندا)‘ ہرفو ہکایت (حرف و حکایت)‘ ہرمین (حرمین)‘ انفرادی سولہ (انفرادی صلح) آساروس سنادید (آثار الصنادید) لہو و لئب (لہو ولعب) لیلۃ ہو القدر (لیلۃ القدر)۔ اس طرح کی مثالوں سے وہ یہ تاثر دیتے ہیں کہ اُردو والے: ح اور ہ‘ ث‘ س اور ص‘ ض‘ ظ اور ذ جیسے الفاظ میں تمیزنہیں کرتے۔ ظاہر ہے یہ تاثر اور رائے ناانصافی اور معلومات کی کمی پر مبنی ہے۔

اُردو میں بعض ایسی تراکیب ہیں جو مخصوص معنی رکھتی ہیں۔ لغت نویس نے ان کی بھی نشان دہی کر دی ہے۔ ’’لسان العصر‘‘اکبر الٰہ آبادی کا اور ’’لسان الغیب‘‘حافظ شیرازی کا لقب ہے۔ ڈاکٹر سمیر نے ’’آثار الصنادید‘‘ کے تحت فقط اس کے لغوی معنی بتائے ہیں۔ لغوی معنوں میں یہ ترکیب اُردو والوں کے ہاں استعمال نہیں ہوتی۔ اس سے زیادہ ضروری تویہ بتانا تھا کہ یہ سرسیداحمد خان کی ایک معروف تصنیف کا نام ہے۔ لغت میں اس طرح کے متعدد مقامات و نکات ہیں جن پر نگاہ اٹکتی ہے اور ان پر بحث کی گنجایش موجود ہے۔

بہرحال مصنف نے خاصی محنت کی ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو نے کتنے بڑے پیمانے پر عربی کے اثرات قبول کیے ہیں۔ (رفیع الدین ہاشمی)


۱۰۰ عہد ساز شخصیات‘ مرتبین: حمیرہاشمی‘ محمد اسلم انصاری‘ ممتاز حسین نعیم۔ ناشر: علم و عرفان پبلشرز‘ ماتھر سٹریٹ‘ لوئر مال‘ لاہور۔ صفحات: ۴۶۰۔ قیمت (مجلد): ۱۸۰ روپے۔

انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو خوشی سے اس کا استقبال کیا جاتا ہے۔ دنیا میں پہلا سانس لیتے ہی وہ زندگی کی دوڑ میں شامل ہو جاتا ہے۔ بلاشبہہ افراد کو سماجی اور خاندانی طور پر حوصلہ افزائی اور تعاون بھی ملتا ہے‘ کم و بیش تمام ہی افراد کو اپنے اپنے دائرے میں یہ سہارے ملتے ہیں‘ مگر اُن کی زندگی پر شخصیت‘ ایسی شخصیت کا گمان نہیں ہوتا کہ جو اپنے ماحول میں کوئی اَنمٹ نقش چھوڑ رہا ہو۔

زیرنظر کتاب کے مرتبین نے گذشتہ ایک ہزار برس کے دوران‘ لاہور شہر کے دامن میں آسودۂ خاک ہونے والے ایک سو افراد کے مختصر تعارف‘ خدمات اور امتیازی حیثیتوں کو اس طرح پیش کیا ہے کہ بلااکتاہٹ‘ قاری کتاب پڑھتا چلا جاتا ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ اختلافی نکات کو نہ اٹھایا جائے اور شخصیت کا مثبت نقش ہی نمایاں ہو۔ ہمارا خیال ہے کہ اس پہلو سے یہ ایک کامیاب کتاب ہے۔ یہ صوفیا‘ علما‘ جرنیلوں‘ سیاست دانوں‘ اساتذہ‘ سماجی افراد‘ دانش وروں‘ مصوروں‘ خطاطوں اور کھلاڑیوں وغیرہ کا ایک مفید تذکرہ ہے۔ (سلیم منصور خالد)


تذکرہ تابعینؒ ‘عبدالرحمن رافت پاشا‘ ترجمہ: ارشاد الرحمن۔ ناشر: منشورات‘ منصورہ‘ لاہور۔ صفحات: ۳۳۷۔ قیمت: ۱۳۰ روپے۔

ایک حدیث نبویؐ کے مطابق صحابہ کرامؓ اُمت محمدیہؐ کے بہترین لوگ ہیں--- اور ان کے بعد تابعین عظام کا درجہ ہے۔ تابعینؒ کے بارے میں رسول اکرمؐ نے یہ بھی فرمایا کہ صحابہ کرامؓ کے ساتھ ان لوگوں کے لیے بھی (کامیابی کی) خوشخبری ہے۔

اس کتاب میں ۲۹ جلیل القدر تابعینؒ کا تذکرہ شامل ہے جن میں سے بعض تو اسلامی علوم و فنون اور تہذیب و تمدن کی تاریخ میں بہت نامور ہوئے ہیں‘ مثلاً عطا بن ابی رواحؒ، عروہ بن زبیرؒ، حسن بصریؒ، قاضی شریح  ؒ،رجا بن حیوہؒ، سعید بن مسیبؒ،عمر بن عبدالعزیزؒ،احنف بن قیسؒ اور امام ابوحنیفہؒ وغیرہ۔

مصنف نے تابعین کی سوانح نہیں لکھی‘ نہ ان کی حیاتِ مستعار کے سنین وار کوائف سے تعرض کیا ہے بلکہ ان کے طرزعمل‘ بعض واقعات یا چند رویوں کی روشنی میں ان کی سیرت کے پُرتاثیرپیکر تراشے ہیں۔ یہی انفرادی خصائص کسی شخصیت کے کردار کو عام انسانوں کے درمیان منفرد‘ تابناک اور زندئہ جاوید بناتے ہیں۔ چنانچہ ان کی حیاتِ جاوداں آج صدیوں بعد بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان ۲۹ کرداروں میں طرح طرح کے نمونے ملتے ہیں۔ کوئی حق گوئی و بے باکی کا نمونہ ہے‘ کوئی مجسم تقویٰ ہے‘ کسی نے کفار کے خلاف جہاد و معرکہ آرائی کو شعار حیات بنا لیا ہے‘ کسی نے علم و تعلم کی دنیا آباد کر رکھی ہے اور کسی نے قرآن و سنت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ کسی کی پوری عمر تفقہ فی الدین میں گزر گئی۔ مگر ایک بات ان سب میں مشترک ہے کہ دنیا انھیں چھو کر بھی نہیں گزری۔ فقیرمنش‘ غیور‘ خوددار‘ بوریا نشین‘ ان کی نظر آخرت پر تھی اور ساری زندگی آخرت کی تیاری ہی میں گزری۔

یہ لوگ‘ اپنے کردار کی کوئی ایک نہ ایک نمایاں جہت رکھنے کے باوجود‘ یک رُخے نہیں تھے بلکہ ان کے اندر دین و دنیا کا حسین امتزاج پایا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی تشریح و تعبیر اور اسلامی کردار کی جو عمدہ روایات صحابہؓ  اور پھر تابعینؒ نے قائم کی ہیں‘ ہم آج تک ان سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔

اصل کتاب کے مصنف ڈاکٹر عبدالرحمن رافت پاشا ہیں لیکن مترجم اور نہ ناشر نے بتایا کہ پاشا مرحوم کون تھے؟ کس ملک یا خطے کے باشندے تھے؟ کس زمانے کے آدمی تھے؟ ان کا علمی مقام و مرتبہ اور کارنامہ کیا ہے؟ غریب مصنف کا تعارف ایک آدھ صفحے میں دینا مناسب تھا۔

ارشاد الرحمن ایک پختہ کار صاحب ِقلم اور منجھے ہوئے مترجم ہیں۔ ان کا ترجمہ بالکل‘ طبع زاد تحریر معلوم ہوتا ہے (مگر اصل کتاب کا نام کیا یہی ہے یا کچھ اور؟)۔ یہ ایک بہت اچھی کتاب ہے۔ سیرت اور تاریخ و رجال کی جامع--- آپ اسے کسی کو سچی‘ اثرانگیز اور دل چسپ کہانیوں کی کتاب کے طور پر تحفے میں دیں تو مضائقہ نہیں۔ (ر - ہ)


خوشبو کا سفر (تذکرئہ شہادت‘ کمانڈر الاستاد لبیب عباد صدیقی )‘ مؤلف:ابوطیب صدیقی۔ ناشر: اراکین صالحہ میموریل ویلفیئر ٹرسٹ رجسٹرڈ‘ شہید ہائوس‘ ۵۶-سویٹ ہومز‘ گلستانِ جوہر‘ بلاک ۱۹‘ کراچی-۷۵۲۹۰۔ صفحات: ۲۶۲۔ قیمت: ۹۰ روپے۔

وہ نوجوان محمد بن قاسم کی سرزمین‘سندھ کے ماتھے کا جھومر ہیں جنھوں نے تعلیمی زندگی کو خیرباد کہہ کر جہاد و شہادت کے راستے کو چنا اور آخرت کی لازوال نعمتوں کے حق دار ٹھہرے۔ ایک ایسے دور میں کہ جب منافقت ہی سب سے مقبول چلن بن چکا ہے‘ اور بڑے بڑے سپہ سالار ’’ایک فون‘‘ پر ادب سے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں وہاں ایسے نوجوان قابلِ تحسین ہیں جو خوب صورت مستقبل کے حسین خوابوں کو فراموش کرکے تلواروں کے سائے میں دادِ شجاعت دینے کے لیے افغانستان اور کشمیر پہنچ جاتے ہیں اور اس طرح اُمت کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ اس قوم کو عروج کے راستے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

لبیب عباد شہید میرپور خاص میں پیدا ہوئے ‘کراچی میں زیرتعلیم رہے‘ ۱۹۸۸ء میں افغان جہاد میں شریک ہوئے اور ۲۷ اپریل ۱۹۹۲ء کو تپہ نادر شاہ میں دوستم ملیشیا سے لڑائی میں شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔

اس کتاب میں‘ لبیب عباد صدیقی کے چچا ابوطیب صدیقی نے اس خاندان کے حالات‘ شہید کے بچپن کے حالات‘ اسلامی جمعیت طلبہ میں شمولیت‘ جہادی تربیت اور مختلف معرکوں کی تفصیلات بیان کی ہیں‘ علاوہ ازیں جہاد میں اُن کے ساتھ شریک اور مختلف معرکوں میں دادِشجاعت دینے والے کمانڈروں اور مجاہدین کے تاثراتی مضامین اور قریبی اعزہ کی تحریریں بھی شامل ہیں۔ اس کتاب میں لبیب عباد شہید کی عزم اور جدوجہد سے بھرپور زندگی کا عکس نظر آتا ہے۔ ضرورت ہے ایسے نوجوانوں کو ’’مثالی نوجوان‘‘ قرار دے کر ان کی زندگی کو قومی تاریخ کا حصہ بنایا جائے۔ طباعت و اشاعت انتہائی معیاری اور دیدہ زیب ہے۔ کاغذ عمدہ استعمال کیا گیا ہے۔ قیمت قابل تعریف حد تک کم ہے۔ جہاد‘ شہادت اور افغانستان جیسے موضوعات سے    دل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ ایک قابل قدر تحفہ ہے۔ (محمد ایوب منیر)


سوز دروں‘حمیرا عبیدالرحمن۔ناشر: مکتبہ الہدیٰ‘ ڈبائی منزل‘ ۵۷۷-اے‘ بلاک جے‘ نارتھ ناظم آباد‘ کراچی۔ صفحات: ۱۴۷۔ قیمت: ۶۶ روپے۔

اس مجموعے میں کئی طرح کی تحریریں شامل ہیں: افسانہ‘ انشائیہ‘ شخصیہ اور معاشرتی و دعوتی مضمون وغیرہ۔ یہ سب تحریریں اخلاقی اور اصلاحی رنگ لیے ہوئے ہیں اور ’’مقصدیت سے معمور‘‘ ہیں۔ تقدیم از ڈاکٹر اسرار ‘احمد جملہ تحریریں ایک تعمیری‘ دینی اور تحریکی ذہن کی تخلیق ہیں‘ اور ان کا اسلوب سادہ اور پُرتاثیر ہے۔

حمیرا عبدالرحمن (بنت قاضی عبدالقادر) وقتاً فوقتاً جو کچھ لکھتی رہی ہیں‘ اُسے ان کے والد محترم نے جمع کرکے چھپوا دیا ہے تاکہ بیٹی کو ’’سرپرائز‘‘ دیا جا سکے۔ کتاب کا دیباچہ عائشہ منور صاحبہ کے قلم سے ہے جنھوں نے بتایا ہے کہ یہ تحریریں حمیرا کے دورِ طالب علمی کی ہیں۔ ان کے بقول ’’حمیرا کو قدرت نے دردمند دل اور شعورکشا ذہن عطا کیا ہے اور مشاہدے اور مطالعے نے ] ان[ تحریروں میں ایک وقار پیدا کیا ہے‘‘۔

کتاب خوب صورت چھپی ہے۔ اہتمام اشاعت نور اسلام اکیڈمی ماڈل ٹائون‘ لاہور نے کیا ہے۔ (ر-ہ)


لغات الخواتین ‘ عورتوں کے محاورے اور روز مرہ ‘ سیدامجد علی اشہری۔ ناشر: دارالتذکیر‘ رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۶۸۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

یہ تقریباً ایک سو سال پرانا لغت ہے‘ جسے ممتاز ماہر لغت جناب محمد احسن خاں کی نظرثانی کے بعد دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔ اس میں عورتوں کے محاورے اور روز مرہ جمع کیے گئے ہیں اور ان کے معانی کے ساتھ جملوں میں ان کا استعمال بھی اس طرح کیا گیا ہے کہ مفہوم پوری طرح واضح ہو جاتا ہے۔

زیرنظر ایڈیشن میں یہ نہیں بتایا گیا کہ نظرثانی میں کچھ اضافہ بھی کیا گیا ہے یا نہیں۔ ابتدا میں ایک مختصر مقدمے کی کمی محسوس ہوتی ہے‘ جس میں اس لغت کے مصنف کا مختصر تعارف دیا جاتا اور اندازہ ہوتا کہ لغت نویس ہندستان کے کس علاقے کے رہنے والے تھے؟ اس سے لغت کی بہتر تفہیم میں مدد ملتی۔ اگر اولین ایڈیشن کا سرورق اور دیباچہ بھی دے دیا جاتا تو اور بہتر تھا۔ بہرحال موجودہ صورتِ حال میں بھی یہ افادیت سے خالی نہیں ہے۔ امید ہے اس سے شائقین اور ضرورت مند استفادہ کریں گے۔

ناشر نے بتایا ہے کہ وہ بعض دوسری قدیم لغات کو بھی چھاپنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ امید ہے وہ ان کی اشاعت میں متذکرہ بالا معروضات کا خیال رکھیں گے۔ (ر- ہ)


تعارف کتب

  • ذوالفقار علی بھٹو‘ قصر صدارت سے تختۂ دار تک۔ ڈاکٹر ایچ بی خاں۔ ناشر: الحمد اکادمی‘ ۲-جے‘ ۱۸ ناظم آباد‘ کراچی ۷۴۶۰۰۔ صفحات: ۳۲۸۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔] یہ کتاب بھٹو اور ان کے عہداقتدار کی ایک وضاحتی توقیت (chronology) ہے۔ واقعات کی نشان دہی تاریخ وار کی گئی ہے۔ آخری حصے میں کچھ تبصرہ و تنقید بھی ہے۔[
  • طوطی کی آواز‘ پروفیسر عبداللہ شاہین۔ پتا: پروفیسر عبداللہ شاہین‘ گلشن کالونی‘ حافظ آباد۔ صفحات: ۱۲۸۔ قیمت: ۱۰۰روپے۔ ] مصنف کی نگارشات نظم و نثر‘ اُردو‘ پنجابی‘ انگریزی میں۔ ملّی اور قومی اچھے اور قابلِ قدر جذبے کے ساتھ لکھے گئے افسانے‘ مضامین‘ نظمیں۔[
  • کرلو تیاری‘ سجاد حمیدخان۔ ناشر: سجاد پبلشرز‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۸۹۔ قیمت: ۶۶ روپے۔ ]چندروزہ زندگی میں عیش و آرام کے بجائے اصلاح عقائد‘ آخرت‘ جہاد فی سبیل اللہ‘ الحادی قوتوں سے بچنے اور بیت المقدس کو آزاد کرانے کی تیاری پر قرآن و حدیث کے حوالے سے زور دیا گیا ہے۔ اصلاح عقائد کے ضمن میں بعض گروہوں کے عقائد پر گرفت کی گئی ہے۔ قابل قدر جذبے سے تحریر کردہ کتاب‘ لکھائی چھپائی وغیرہ۔[
  • نکاح کی اہمیت اور برکات‘ چودھری طالع مند۔ ناشر: اذان سحرپبلی کیشنز‘ چیمبرلین روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۷۲۔قیمت: ۳۰روپے۔] ایک صاحب دل بزرگ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں نکاح کی شرعی ‘ دینی اور اخلاقی ضرورت و اہمیت پر دل چسپ انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ مولانا عبدالمالک صاحب کے بقول انھوں نے جملہ مباحث کو بہترین انداز میں جمع کیا ہے۔ آیات و احادیث‘ آثار صحابہ و تابعین‘ حکایاتِ اولیا اور بزرگانِ دین سب یکجا ہیں۔[
  • ماہ نامہ نونہال (خاص نمبر)‘ مدیراعلیٰ:مسعود احمد برکاتی۔ ناشر: ہمدرد سنٹر‘ کراچی۔ صفحات: ۸۴۔ قیمت: ۲۰ روپے۔ ]بچوں کا معروف رسالہ ہمدرد نونہال ۵۰ سال سے چھپ رہا ہے۔ نومبر میں ہر سال خاص نمبرشائع ہوتا ہے۔ یہ شمارہ بھی معمول سے زیادہ ضخیم ہے۔ ہر طرح کی دل چسپ نگارشات نظم ونثر شامل ہیں۔ علامہ اقبال پر بھی کچھ مضامین موجود ہیں۔[
  • کاروانِ حرم ‘ ابوالامتیاز ع س مسلم۔ ناشر: مقبول اکیڈمی‘ لاہور۔ صفحات: ۳۳۴۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔ ]مثمن (ہربند آٹھ مصرعوں کا) شکل میں ایک طویل نظم۔ سفرحجاز کے جذبات و احساسات۔ ایک خوب صورت اور عمدہ حمدیہ اور نعتیہ مثنوی۔ تقریباً ہر مصرعے یا شعر کے پس منظر یا حوالے کی قرآنی آیات یا احادیث سے وضاحت کی گئی ہے۔ شاعر کے پختہ فکروفن کی تخلیق۔ کہیں کہیں علامہ اقبال کا رنگ جھلکتا ہے۔[
  • ملتان کا عصری ادب ‘ اسدفیض۔ ناشر: ہم عصر پبلی کیشنز‘ ۶۵ سی شاہ رکن عالم ہائوسنگ سکیم‘ ملتان۔ صفحات: ۱۴۴۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔ ] ملتان کے اردو شعروادب پر چند مضامین‘ افسانے‘ شاعری اور اُردو ادب کے اساتذہ سے مصاحبے‘ ان سے اس علاقے کی ادبی پیش رفت کا اندازہ ہوتا ہے۔[
  • تجہیز و تکفین کا سنت طریقہ  ‘عبدالرحمن بن عبداللہ الغیث۔ترجمہ: حافظ مقصود احمد۔ ناشر: مکتبہ دعوت التوحید‘  پوسٹ بکس ۱۲۴‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۹۲۔ قیمت: درج نہیں۔] سنت کے مطابق میت کے غسل‘ کفن‘ نماز جنازہ‘ قبر کی تیاری اور تدفین کا تفصیلی شرعی طریقۂ کار مع تصاویر‘ تعزیت اور عدّت کے مسائل وغیرہ۔ ابتدا میں موت کا تذکرہ قرآن و حدیث میں‘ موت کی علامات وغیرہ۔ طباعت اعلیٰ درجے کے آرٹ پیپر پر۔[

قرآن حکیم ‘ مع ترجمہ اور اخذ و تلخیص تفسیر تدبر قرآن‘ مولاناامین احسن اصلاحیؒ، اخذ و تلخیص: خالد مسعود۔ ناشر: فاران فائونڈیشن‘ ۱۲۲ فیروز پور روڈ‘ لاہور۔۵۴۶۰۰۔ صفحات: ۹۸۹۔ ہدیہ: ۵۵۰ روپے۔

مولانا امین احسن اصلاحیؒ کی تفسیر تدبرقرآن نو جلدوں میں دستیاب ہے۔ چھ ہزار سے زائد صفحات کی اس ضخیم اور مفصل تفسیر کا مطالعہ قاری سے ایک خاصے لمبے عرصے کا تقاضا کرتا ہے‘ نیز: ’’یہ ان لوگوں کو مشکل محسوس ہوتا ہے‘ جو علمی چیزں کا مطالعہ کرنے کے عادی نہیں‘‘۔ چنانچہ مولانا اصلاحیؒ کے شاگردِ خاص‘ خالد مسعود صاحب نے زیرنظریک جلدی نسخہ تیار کیا ہے‘ جس میں متنِ قرآن کے ساتھ‘ ترجمہ اور مختصر حواشی شامل ہیں‘ جو مرتب کے بقول: ’’مولانا کی تفسیر سے ماخوذ اور بیشتر انھی کے الفاظ میں ہیں‘‘۔ ہر سورہ کے حواشی سے پہلے ایک دوسطروںمیں اس سورہ کا مرکزی مضمون بیان کر دیا گیا ہے۔

مرتب نے پیش لفظ میں زیرنظر کتاب کی سکیم کے ساتھ‘ مولانا اصلاحیؒ کے ترجمۂ قرآن حکیم کی بعض خصوصیات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے‘ مثلاً: اصلاحی صاحب سلیس عبارت میں بامحاورہ ترجمہ کرتے ہیں‘ تاہم وہ سلیس زبان میں کسی قدر قدامت بھی باقی رکھتے ہیں۔ ایک ہی مضمون پر مشتمل آیات کے مجموعوں کا لحاظ رکھتے ہوئے‘ ترجمے کو پیروں کی صورت میں مرتب کیا گیا ہے۔ عربی اسلوب بیان میں الفاظ اور جملوں کے حذف کی متعدد شکلیں ہیں مگر اُردو میں ایسا نہیں ہوتا۔ اس لیے قرآن حکیم کے مترجمین محذوف مفہوم کو قوسین میں لکھتے ہیں‘ مگر اصلاحی صاحب ایسا نہیں کرتے‘ وہ حذف کو کلام کا حصہ مانتے ہوئے‘ ترجمے میں اُسے کھول کر لکھ دیتے ہیں--- وغیرہ۔

ترتیب ‘ کتابت ]ہر صفحے پر متن‘ ترجمہ اور پاورق میں حواشی--- چاروں طرف حاشیے میں ہلکے رنگ کی سکرین نما‘ زمین[‘ طباعت‘ کاغذ‘ جلد‘ سب بہت عمدہ اور مناسب۔ اس اہتمام سے تیار کردہ کتاب کو بجا طور پر ’’سٹینڈرڈ ایڈیشن‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ خدا کرے خدمت ِ قرآنی کی اس کاوش کو شرفِ قبول عطا ہو۔ (رفیع الدین ہاشمی)


ترقی پسند تحریک و صحافت: مکالمات‘ میزبان و مرتب: ڈاکٹر احسن اختر ناز۔ ناشر: القمرانٹرپرائزرز‘   رحمن مارکیٹ‘ لاہور۔ صفحات: ۲۵۶۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

پاکستانی صحافت ہمارے معاشرے میں ریاست کا پانچواں ستون ہے؟ یہ بگاڑ کی کتنی ذمہ دار اور بنائو میں کتنی حصے دار ہے؟ منصبی ذمہ داری کو دیانت داری سے ادا کرنے کے لیے کس حد کوشاں ہے یا غیرذمہ دارانہ رویے کے باعث ریاست و سیاست کو بازیچۂ اطفال بنانے کی کتنی علم بردار؟ ---ان     تلخ سوالات کے جوابات کو برملا بیان کرنا آسان نہیں۔ تاہم‘ کمیونسٹ پارٹی کے زیراثر پروان چڑھنے والی ’’ترقی پسند‘‘ ادبی و صحافتی تحریک پر زیرتبصرہ مکالمات سے صحافتی دنیا کے بہت سے مثبت اور منفی پہلو سامنے آتے ہیں۔ اس مختصر کتاب میں ۳۴ افراد کی گفتگووں سے بہت سی پرتیں کھلتی ہیں۔

حقیقت حال توکتاب کو پڑھ کر ہی سامنے آسکتی ہے‘ اس کے باوجود بعض جملے ضرور سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں جیسے--- بقول ڈاکٹر مبشرحسن ’’] ترقی پسند[ تحریک کا ایک بڑا المیہ یہ رہا کہ … انھوں نے اپنی سوچ کا اہتمام ماسکو یا بیجنگ کے سپرد کر دیا‘‘ (ص ۱۹۰)۔ حسین نقی: ’’بھٹو نے اگر کوئی کام کیا تو وہ یہ کہ مغربی پاکستان کے فیوڈل ازم کو بچایا اور اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیا۔ پاکستانی سیاست دانوں نے استعماری رویہ اپنائے رکھا اور بھٹو نے موقع پرستی کی‘‘ (ص ۱۹۷)۔ محمود شام: ’’امیراور غریب ] کی [ جنگ ابھی موجود ہے‘ لیکن پاکستان کے ترقی پسند اب کبھی اکٹھے ہوتے نظر نہیں آتے‘‘ (ص ۲۰۸)۔ عباس اطہر: ’’ان ] ترقی پسندوں[ کے لمبے چوڑے مفادات نہیں تھے۔ زیادہ سے زیادہ کسی کا بیٹا روس میں پڑھ گیا ] یا[ چند بوتلیں شراب کی مل گئیں‘‘ (ص ۲۱۶)۔ شفقت تنویر مرزا: ’’NGO'sکی سیاست کیا ہے؟ یہ لیفٹ کو کرپٹ کرنے کے لیے سوچا گیا تھا‘ لیفٹ کو بڑی حد تک کرپٹ کر دیا گیا‘‘ (ص ۳۲۲)۔ سبط الحسن ضیغم: ’’] پنجابی[ اخبار سجن میں زبان بہت گھٹیا اور غیر معیاری تھی (ص ۲۳۴)… ترقی پسند تحریک کے لیڈر لوگ بظاہر کچھ اور اندر سے کچھ اور ہیں۔ ان تضادات کی وجہ سے کمیونسٹ پارٹی اور ترقی پسند تحریک وغیرہ سبھی ناکام ہو گئیں‘‘ (ص ۲۳۶)۔ محمد حنیف رامے: ’’محدود تنگ نظری ] ترقی پسند[ تحریک کے زوال کا باعث بنی‘‘ (ص۸۱)۔اور بقول ضمیر نیازی: ’’لیفٹ کے لوگ بنے بنائے سانچے سے باہر نہیں نکلنا چاہتے۔ ایسے سانچے بیکری میں تو ہمیشہ کام آسکتے ہیں‘ لیکن عملی زندگی میں یہ سب باتیں چلتی نہیں‘‘۔

کتاب میں احمد ندیم قاسمی سے لے کر غلام نبی آگرو تک اور زیڈ اے سلہری‘ نعیم صدیقی‘ ارشاد احمد حقانی سے لے کر‘ پروفیسر خورشید احمد‘ محمود احمد مدنی‘ الطاف حسن قریشی‘ مجیب الرحمن شامی اور عطاء الرحمن تک کے انٹرویو شامل ہیں۔ اس طرح دونوں نقطۂ ہاے نظر سامنے آجاتے ہیں۔ (سلیم منصور خالد)


حرص و ہوس کا ڈسا پاکستان ‘ ڈاکٹر سہیل احمد۔ پتا: ۲- گرین ٹائون‘ ضلع ساہیوال۔ صفحات: ۴۸۵۔ قیمت:۵۰۰ روپے۔

مملکت خداداد پاکستان میں ایک مستحکم سیاسی و اقتصادی نظام تشکیل نہ پا سکا جس کی بدولت نئے نئے مسائل جنم لیتے رہے۔ ملک دولخت ہوا اور آزادی کے ۵۵ برسوں کا نصف وقت فوجی حکمرانی کی نذر ہوگیا۔ پاکستان مقروض کیوں چلا آ رہا ہے؟ اِس کے اقتصادی زوال نے عوام الناس اور دیگر طبقات پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں اور غیر ملکی مالیاتی ادارے پاکستان کو غریب سے غریب بنانے کے لیے کیا تدابیر اختیار کرتے ہیں؟ اس حوالے سے قومی اخبارات اور رسائل و جرائد میں شائع شدہ چھوٹے بڑے ۱۱۲ طویل و مختصر مضامین اور کالموں کو یکجا کیا گیا ہے۔ لکھنے والوں میں قومی شخصیات (قاضی حسین احمد‘ پروفیسر خورشید احمد‘ ڈاکٹر اسرار احمد‘ الطاف حسن قریشی اور حمید گل) کے ساتھ صحافتی اور سیاسی شعبوں سے متعلق متعدد اہل قلم بھی شامل ہیں۔ چھ مضامین خود مؤلف کے قلم سے ہیں۔

مضامین کے انتخاب اور ترتیب کا محرک وطن عزیز سے مؤلف کی محبت اور ملّت کے بارے میں ان کا احساسِ درد مندی ہے۔ مضامین کے ساتھ کچھ انٹرویو‘ تجزیے‘ ترجمے اور متفرق آرا بھی شامل ہیں مگر ترتیب و تدوین کا انداز یکساں نہیں بلکہ کچھ بے ڈھب سا ہے۔حوالے درج کرنے کے لیے بھی کوئی معروف اسلوب اختیار نہیں کیا گیا ہے۔کہیں مضمون کے شروع میں کہیں آخر میں۔

بہرحال‘ پاکستان کے مختلف شعبہ ہاے حیات کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے یہ ایک اچھی قابلِ مطالعہ کتاب ہے۔ (محمد ایوب منیر)


Milestones to Eternity  ]احوال قیامت[‘ محمد ابومتوکل۔ پتا: ذکی انٹرپرائزز‘ اے/۴۷‘ بلاک۱۱‘ گلشن اقبال‘ کراچی۔ صفحات: تقریباً ۴۰۰ ]صفحوں پر شمار نمبر درج نہیں[۔قیمت: ۴۰۰ روپے۔

یہ کتاب بنیادی طور پر موجودہ حالات کی روشنی میں علاماتِ قیامت کی تشریح پر مبنی ہے۔ اس سلسلے میں ۱۵۰۰ قرآنی آیات اور ۵۰۰ احادیث کے حوالے دیے گئے ہیں‘ اس کے ساتھ توحید‘ رسالت‘ نظامِ صلوٰۃ‘ نظامِ زکوٰۃ‘ جنت‘ دوزخ‘ دجال اور اُمت کے سیاسی و اقتصادی مسائل‘ معیاری دعوت کااسلوب وغیرہ کی وضاحت بھی کردی گئی ہے۔ مصنف کی بھرپور کوشش ہے کہ قرآنی آیات کی جامع تشریح اختیار کی جائے اور صرف متفق علیہ احادیث درج کی جائیں۔

مصنف نے جہاں بھی کسی عالم کی رائے درج کی ہے‘ بالالتزام اُس کا حوالہ دیا ہے جو قابل تحسین ہے۔ ابواب کے عنوانات عربی زبان میں ہیں اور ذیلی عنوانات انگریزی میں ۔ باب اول: لایھدی القوم الظالمون‘ دوم: نصر من اللّٰہ‘ سوم: فتحٌ قریب اور چہارم:  بشرالمومنین‘ آخری باب تبصروں اور آرا پر مشتمل ہے۔

مصنف کا طریق عرب واعظین کا سا ہے جو کسی موضوع پر پہلے تو مسلسل آیاتِ قرآنی اور احادیث نبویہؐ بیان کرتے ہیں‘ پھر طویل تشریح‘ اور اس کے بعد نیا موضوع شروع ہو جاتا ہے۔ مصنف نے اپنے موقف کی وضاحت کے لیے حسب موقع گراف بھی دیے ہیں ۔ اسلامی اصطلاحات کے اصل عربی نام برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ مصنف‘ محمد ابومتوکل کے بارے میں کوئی تعارفی نوٹ نہیں ہے۔ کتاب میں ناموں کے اخفا کا رجحان غالب ہے۔ البتہ نیوجرسی کی مسجد شہدا کے امام ذکی الدین شرفی کا نام اور تعارف مبصرین میں درج ہے۔ کتاب کا فونٹ انتہائی باریک ہے جو طبیعت پر گراں گزرتا ہے۔ (م - ا - م )


سلاطین دہلی اور شریعت ِ اسلامیہ‘ ڈاکٹر ظفرالاسلام اصلاحی۔ تقسیم کار: محمداسلام عمری‘ مکتبہ اسلام‘ پان والی کوٹھی‘دودھ پور‘ علی گڑھ‘ بھارت۔ صفحات: ۱۳۳۔ قیمت: ۷۵ روپے۔

برعظیم کے قلب و مرکز دہلی پر مسلمانوں کو سب سے پہلے (بہ زمانہ: قطب الدین ایبک ۱۲۰۶ء تا ۱۲۱۰ء) تیرھویں صدی شمسی کے آغاز میں جو تصرف و اختیار حاصل ہوا تھا‘ وہ کسی نہ کسی صورت میں چھ صدیوں تک قائم رہا۔ زیرنظر کتاب میں اجمالاً جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے کہ سلاطینِ دہلی کس حد تک شریعت ِ اسلامیہ کا احترام کرتے تھے اور دہلی کی مختلف سلطنتوں کے حکومتی‘ سیاسی‘ عدالتی اور انتظامی امور میں شریعت کی پاسداری کی کیا صورت تھی؟

ڈاکٹر ظفر الاسلام (شعبہ علوم اسلامیہ‘ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی) کی تحقیق یہ ہے کہ بہ حیثیت مجموعی سلاطینِ دہلی اپنی ذاتی زندگیوں میں دین دار تھے اور احکام اسلامی کی بڑی حد تک پابندی کرتے تھے (اگرچہ ان سے بہت سے خلافِ شرع امور بھی سرزد ہوتے اور علما کی تنبیہ پر وہ اپنی غلطی کو تسلیم کر لیتے تھے)۔ سماجی زندگی اور بعض انتظامی امور میں وہ شرعی قوانین نافذ کرنے کی کوششیں بھی کرتے تھے‘ (بے شک وہ جزوی ہوتی تھیں) لیکن سیاسی معاملات میں وہ شرعی احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے من مانی کرجاتے تھے (ص ۴۲‘ ۱۱۹) اور مخالفین اور مجرمین کو غیر شرعی طریقوں سے سزا دیتے تھے۔

فاضل مصنف نے بتایا ہے کہ اپنی تمام تر کوتاہیوں اور کمزوریوں کے باوجود‘ شاہانِ دہلی اپنی مملکت میں عدل و انصاف کے قیام اور مظلوموں کی داد رسی کے سلسلے میں بہت حساس تھے اور مجرموں کو‘ ممکنہ حد تک شریعت کے مطابق سزا ملتی تھی (ص ۱۱۹)۔ بادشاہ علما سے مشورے کا اہتمام کرتے اور قاضیوں اور مفتیوں کی رائے کو اہمیت دی جاتی تھی۔ جرائم و مقدمات کی تفتیش کا ایک مرتب نظام موجود تھا۔ مصنف کے نزدیک یہ امر بھی   لائق تعریف ہے کہ بادشاہ بالعموم‘ خود کو ’’قانون سے بالاتر نہیں سمجھتے تھے--- قاضی کی عدالت میں حاضر ہونے میں کوئی تکلف نہیں محسوس کرتے تھے‘‘ اور ’’عدالت کے فیصلوں کوبلاچون و چرا قبول کرتے‘‘۔ وہ شریعت اسلامیہ کی بالادستی کے ہمیشہ قائل رہے اور یہ اس عہد کا ایک مسلّمہ رویہ تھا۔ بادشاہوں کا عمومی طرزِعمل شریعت کے مقابلے میں انکار یا بغاوت کا نہیں‘ اقرار اور اطاعت کا تھا--- بقول مصنف: ’’آج کے اس جمہوری دور میں مسلم بادشاہوں کا یہ طرزِعمل‘ موجودہ حکمرانوں کے لیے وجہِ عبرت و لائق اتباع ہے‘‘۔ (ص ۱۲۰)

اس اہم اور مفید علمی موضوع کا مطالعہ آسان نہیں تھا کیوں کہ اس پر ایک تو وافر مصادر دستیاب نہیں‘ دوسرے‘ دستیاب و میسر لوازمے اور مورخین کے بیانات میں خاصا تضاد ملتا ہے۔ بہ ایں ہمہ مصنف محترم نے عربی‘ فارسی‘ اُردو اور انگریزی مصادر کی مدد سے سلاطین دہلی کے ہاں حکومت و شریعت کے تعلق کی نوعیت پر ایک عمدہ کتاب تالیف کی ہے‘ جس میں اصول تحقیق اور اسالیب ِ علمی کی پوری طرح پاس داری کی گئی ہے۔ (ر- ہ )


افعال القرآن اول‘ مولانا فقیر حسین حجازی۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی ‘ فیڈرل بی ایریا‘ کراچی۔صفحات: ۴۳۲۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

یہ گراں قدر تالیف نہ جانے کتنے سالوں کی محنت ِ شاقہ کا نتیجہ ہے۔ اس طرح کا کام وہی کر سکتے ہیں جو پِتّا مار کر اپنے کام میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ یہ کتاب ہمزہ سے شین تک کے حروف سے شروع ہونے والے مادوں سے برآمد ہونے والے افعال پر مشتمل ہے (غالباً دوسرا حصہ ص سے ی تک ہوگا)۔ کتاب کے آغاز میں صرف کے بنیادی قواعد بتائے گئے ہیں اور ثلاثی مزید کی خصوصیات بھی۔ افسوس ہے کہ کمپوزر کی حماقت سے صفحے سے صفحہ نہیں ملتا‘ سطر سے سطر نہیں ملتی۔ ایک فعل کی تفصیلات‘ دوسرے فعل کے ساتھ منسوب ہوگئی ہیں‘ نعوذ باللہ۔

یہ کتاب قرآن مجید کو سمجھنے کا جذبہ رکھنے والوں کے لیے ایک عظیم نعمت ہے۔ ہمارے خیال میں اس نہایت اہم دینی خدمت کو تحسین و تجمیل کے ساتھ شایانِ شان طریقے پر پیش کرنا ضروری تھا۔ ایڈیٹنگ بھی نہیں کی گئی۔

ہمیں خوشی ہوگی اگر اگلا ایڈیشن صحت کے ساتھ شائع ہو اور اس کی قیمت کم ہو اور یہ وسیع حلقوں تک پہنچے۔ (خلیل الرحمٰن چشتی)

تعارف کتب

  •  محدث‘ فتنۂ انکار حدیث نمبر‘ مدیراعلیٰ: حافظ عبدالرحمن مدنی۔ ناشر: مجلس التحقیق الاسلامی‘ ۹۹ جے‘ ماڈل ٹائون‘ لاہور۔ صفحات: ۲۸۰۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔] پرویزیت اور فتنۂ انکار حدیث پر نامور علما و مصنفین کے گراں قدر مضامین کے علاوہ‘ اس خصوصی نمبر کی اہم چیز‘ انکارِ حدیث کی تردید اور حجیت حدیث کے موضوع پر ایک وضاحتی کتابیات (از ڈاکٹر خالدظفراللہ رندھاوا) اور دوسرا ۳۶دینی رسائل میں ۶۵۳ شائع شدہ مضامین کا‘ نہایت محنت سے مرتبہ اشاریہ ہے۔ دونوں حوالے کی اہم چیز ہیں اور تحقیق کاروں کے لیے مفید معاون۔[
  •  بچوں کی تربیت کیسے کریں؟ سراج الدین ندوی‘ ترجمہ: محمد طاہر نقاش۔ ناشر: دارالابلاغ پبلشرز (فون: ۷۱۲۰۲۰۷) لاہور۔ صفحات: ۲۷۲۔ قیمت: ۱۱۰ روپے۔ ] قرآن و حدیث‘ طب و حکمت اور جدید سائنس کی روشنی میں‘ اپنے موضوع پر ایک عمدہ کتاب‘ جس میں ہرپہلو سے سادہ اور رواں اسلوب میں مفید معلومات اور ہدایات یکجا کی گئی ہیں۔ اشاعتی معیار بہت عمدہ ہے۔[
  •  ختم نبوت ؐکے محافظ‘ محمد طاہر رزاق۔ ناشر: عالمی مجلس تحفظ ختم نبوتؐ، حضوری باغ روڈ‘ ملتان۔ ملنے کا پتا: مکتبہ علم و عرفان‘ ۳۴- اُردو بازار‘ لاہور۔صفحات: ۲۰۱۔ قیمت: ۹۰ روپے۔ ] تحریک ختم نبوتؐ سے متعلق متفرق لوازمہ‘ یعنی واقعات‘ خبریں‘ تقاریر‘ تبصرے‘ یادیں‘ یادداشتیں‘باتیں‘ کرامات اور کچھ محیرالعقول واقعات۔[
  •  پیامِ محبت‘ محمد موسیٰ بھٹو‘ مرتبین: آزاد سمیجو‘ اشفاق احمدبھٹو۔ ناشر: سندھ نیشنل اکیڈمی ٹرسٹ ۴۰۰-بی‘ یونٹ نمبر۴‘ لطیف آباد‘ حیدرآباد۔ صفحات: ۳۶۸۔ قیمت: ۸۰ روپے۔ ] ’’محمد موسیٰ بھٹوکے علمی اور دعوتی خطوط کا مجموعہ‘‘۔ جی ایم سید‘ شیخ ایاز سے لے کر پروفیسر اسداللہ بھٹو تک ۴۶ شخصیات کے نام خطوط میں لادین اور مذہب بیزار ترقی پسندوں اور کمیونسٹوں کے ذہنی اشکالات پر بحث۔ اسلام کی طرف دعوت میں حکمت عملی کی نشان دہی‘ اصلاحِ نفس کے لیے تجاویز‘ دردمندانہ محبت بھرا انداز۔ جوابی خطوط ساتھ ہی دینا مفید رہتا۔[
  •  آپس کی باتیں‘ ڈاکٹر شان الحق حقی۔ ناشر: ہمدرد فائونڈیشن‘ ہمدرد سنٹر‘ ناظم آباد‘ کراچی۔ صفحات: ۸۸۔ قیمت: ۴۰ روپے۔ ]سرورق: ’’ذہین نونہالوں کے لیے دل چسپ مضامین‘‘ مثلاً: سائنس کیا ہے؟ کیوں ہے؟ پہیلی بوجھنے کا طریقہ۔ پہاڑوں کا شکریہ۔ شعرفہمی۔ نثر اورشعر کا فرق وغیرہ۔ نونہالوں کے ذہنوں کو جگمگانے کے لیے مفید اور معلومات افزا کتاب۔[
  •  مولانا محمد چراغ‘ پروفیسر محمد اسلم اعوان۔ ناشر: مکتبہ المعراج‘ اروپ‘ گوجرانوالہ۔ صفحات: ۵۶۔ قیمت: ۱۵روپے۔ ] مولاناانور شاہ کشمیریؒ کے شاگرد خاص‘ مولانا محمد چراغ  ؒ (۱۸۹۴ء-۱۹۸۹ء) بانی جامعہ عربیہ گوجرانوالہ کے حالات پر یہ مختصر سا کتابچہ بقول مصنف: ’’شاید مولانا مرحوم کے تلامذہ و متوسلین واحباب کے لیے ایک تحریک بن جائے‘‘ اور کوئی ان کی مفصل سوانح عمری لکھ ڈالے۔ ہمارا خیال ہے کہ ۱۳ سال میں کسی نے نہیں لکھی‘ اب کون لکھے گا؟ پروفیسر صاحب خود ہی عزم کریں ۔ یہ ایک بڑی علمی خدمت ہوگی۔[

Tafseer Surah tul Hujraat ]تفسیر سورۃ الحجرات‘بزبان انگریزی[‘ ابو امینہ بلال فلپس۔ ناشر: انٹرنیشنل اسلامک پبلشنگ ہائوس‘ الریاض (سعودی عرب)۔ صفحات: ۲۳۵۔ قیمت: درج نہیں۔

مصنف نے قدیم مفسرین کا طریقہ اختیار کیا ہے کہ اولاً قرآن کی تفسیر قرآن ہی سے کی جائے۔ اس کے بعد رسول اکرمؐ کی صحیح احادیث اور آپؐ کے افعال اور ان متعلقہ واقعات سے آیات کی تشریح کی جائے جو آیات کے نزول کے وقت پیش آئے۔ ان بنیادی ذرائع سے استفادے کے بعد‘ ابوامینہ بلال فلپس نے  صحابہ کرامؓ ،خاص طور پر حضرت ابن عباسؓ کی‘ جن کو خود حضور نبی کریمؐ نے ’’ترجمان القرآن‘‘ کا لقب عطا فرمایا تھا‘ تشریحات اور تعبیرات سے استفادہ کیا ہے۔ انھوں نے بعض قدیم مفسرین کی لغت اور گرامر کی تشریحات سے ممکن حد تک فائدہ بھی اٹھایاہے‘ نیز انھوں نے آیات کا مطلب بیان کرتے ہوئے موجودہ زمانے کے مسائل کے حوالے سے درست طور پر ان کا انطباق کیا ہے۔ انھوں نے کثرت سے صحیح احادیث کا حوالہ دیا ہے۔ کتاب کی ضخامت بڑھ جانے کے خوف سے احادیث کا عربی متن نہیں ‘ صرف ان کا انگریزی ترجمہ دیا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں قریباً اڑھائی سو احادیث کا بہت مفید انڈیکس بھی شامل ہے جس میں حروف ابجد کے لحاظ سے حدیث کے مضمون کا خلاصہ اور کتاب کا وہ صفحہ نمبر دیا ہے جس پر اس حدیث کا حوالہ‘ تفسیر میں دیا گیا ہے۔

آغاز میں فاضل مصنف نے ۳۲ صفحات پر مشتمل معلوماتی مقالے ’’تعارف تفسیر‘‘ (انٹروڈکشن ٹو تفسیر) میں علم تفسیر کی اہمیت وضرورت ‘ اصول التفسیر‘تاریخ علم التفسیر‘ قدیم اور جدید دور کی بعض مفید اور اہم تفاسیر ‘تفسیر اور تاویل کے فرق‘ طریق تفسیر‘ بعض منحرف تفاسیر‘صحیح مفسر کے مقتضیات اور قرأت اور تجوید کے فن پر عمدگی سے روشنی ڈالی ہے۔

بیسویں صدی کی مفید اور اہم تفاسیر کے ضمن میں مولف نے محمد رشید رضا کی تفسیرالمنار‘ سید قطب کی فی ظلال القرآن (غلطی سے مفسر کا نام سید قطب کے بجائے محمد قطب لکھ دیا ہے) اور مولانا مودودی کی تفہیم القرآن کا ذکر بھی کیا ہے۔ منحرف تفاسیر میں قادیانیوں کی سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر ۴۰ کی غلط تفسیر کا ذکر ہے اور محمد علی لاہوری کی کتاب کا حوالہ دیا گیا ہے۔

سورۃ الحجرات کی آیت ۱۵ کے ترجمے میں ‘ لفظ باموالھمکا انگریزی ترجمہ غلطی سے چھوڑ گئے ہیں۔ تفسیرکے متن میں آیت ۱۴ کے عربی متن میں قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا… کی جگہ لم تاء منوا چھپ گیا ہے۔ ان غلطیوں کی اصلاح ہونی چاہیے۔

بحیثیت مجموعی انگریزی دان مسلمانوں کو اہل ایمان کے شایان شان آداب سکھانے‘ اجتماعی زندگی میں فساد برپا کرنے والی برائیوں سے بچانے‘ قومی اور نسلی امتیازات کو ختم کرنے اور اپنی بڑائی قائم کرنے کی خاطردوسروں کو گرانے کے رجحان اور اپنے شرف پر فخر وغرور کی جڑ کاٹ دینے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ بہت مفید ہے۔  (محمد اسلم سلیمی)


اشاریہ کلام اقبال‘ اُردو (مصرع وار)‘ مرتبہ: یاسمین رفیق۔ نظرثانی: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی۔ ناشر: اقبال اکادمی پاکستان‘(ایوانِ اقبال) ایجرٹن روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۴۰۵ (مجلاتی روپ)۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

کلام اقبال اور نثراقبال اتنے خوش رنگ مظاہر پر مشتمل ہے کہ ان کا ایک ایک رنگ ‘نظر کو طراوت اور روح کو بالیدگی عطا کرتا ہے۔ اس قیمتی اثاثے کا پھیلائو اتنا ہے کہ عہدحاضر کی مشینی زندگی میں‘ علم و دانش کے اس سرچشمے تک رسائی پانا اگرچہ ناممکن تو نہیں‘ لیکن ایک مشکل کام ضرور ہے۔

عصرحاضر کی علمی روایت میں ٹھوس پیش رفت ہوئی ہے یا نہیں؟ یہ ایک متنازع سوال ہے‘ لیکن اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ انسانی زندگی کی معلوم تاریخ میں مطالعے کے لیے جتنی سہولتیں‘ اور جتنے سہارے اس عہد نے دیے ہیں‘ ان کا پہلے گمان تک بھی نہ کیا جا سکتا تھا۔ کتب کی اشاریہ سازی اسی سہولت کاری کا ایک معتبرپہلو ہے۔ اہل مغرب کے ہاں یہ فن اپنے کمال کو پہنچا ہوا ہے‘ لیکن ہمارے ہاں یہ روایت پوری طرح جڑ نہیں پکڑ سکی۔ اس فضا میں وہ لوگ غنیمت ہیں جو کتابی اشاریہ سازی کا اہتمام کرتے ہیں۔

کلامِ اقبال کے متعدد اشاریے گذشتہ ۲۰ برسوں کے دوران سامنے آئے ہیں‘ جن میں الفاظ اور شعروں کی بنیاد پر اشاریے بنائے گئے ہیں۔ اسی روایت میں وسعت اور صحت کے ساتھ زیرتبصرہ اشاریہ‘ علمی دنیا اور عام لوگوں کے لیے ایک قیمتی تحفے کا درجہ رکھتا ہے جس میں‘ اقبال کے اردو کلیات کے تمام مصرعوں کو حروف تہجی کے اعتبار سے ترتیب دیا گیا ہے۔ چونکہ اس وقت  کلیاتِ اقبال کو متعدد ناشروں نے چھاپ رکھا ہے‘ اس لیے اشاریہ ساز نے اردو  کلیاتِ اقبال کے تین معروف نسخوں (قدیم ایڈیشن‘ شیخ غلام علی ایڈیشن‘ اقبال اکادمی ایڈیشن) کے صفحات کی‘ ہر مصرعے کے سامنے نشان دہی کر دی ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ پورا مصرع دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کا سبب یہ ہے کہ بعض اوقات ذہن میں مصرع‘ نامکمل یا تحریف شدہ حالت میں ہوتا ہے۔ اشاریے میں ہر شعر کا پہلا اور دوسرا‘ دونوں مصرعے صحت کے ساتھ‘ اپنے اپنے محل (الفبائی ترتیب) پر دیے گئے ہیں۔ اس طرح گویا پوری کلیات اقبال‘ اُردو مصرعوں کی الفبائی ترتیب کے ساتھ‘ اس اشاریے میں موجود ہے۔

یہ کتاب عام قاری کے ساتھ‘ مقرروں‘ مصنفوں اور محققوں کی ضرورتوں کو پورا کرتی ہے(جو اقبال کے اشعار کی صحت کا خیال رکھنا چاہیں) اور اقبال شناسی کی روایت میں وسعت پیدا کرنے کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ اشاریے میں غلطیاں موجود ہیں‘ پروف خوانی ابھی مزید ریاضت اور توجہ چاہتی ہے۔ بہرحال اس نوعیت کی مددگار کتابیں اگر رواج پکڑ لیں تو اشعار‘ جس کثرت سے غلط نقل ہوتے ہیں اور ان کے استعمال میں جو ’’ادبی جھٹکا‘‘ دیکھنے کو ملتا ہے‘ اس سے نجات پانا آسان ہو جائے گا۔ (سلیم منصور خالد)


رینے گینوں‘ بیسویں صدی کے فاضل الٰہیات کے سوانح اور تصانیف کا جائزہ‘رابن واٹر فیلڈ‘مترجم: اشرف بخاری۔ ناشر:دارالتذکیر‘ رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار لاہور۔ صفحات: ۲۰۰۔ قیمت: ۱۳۰ روپے۔

رینے گینوں ایک نومسلم فرانسیسی فلسفی ہے جس نے فلسفے اور لاطینی ‘ یونانی اور عربی زبانوں کی تعلیم حاصل کی۔ اُس نے جوانی کے ایام فرانس اور جرمنی میں اور عمر کا آخری حصہ مصر میں گزارا۔ رینے گینوں نے آخری عمر میں اسلام قبول کر لیا تھا اور الشیخ عبدالواحد یحییٰ کا نام اختیار کیا۔

رابن واٹر فیلڈ نے رینے گینوں کی تصانیف اور افکار کا جائزہ مرتب کیا ہے۔ اس کی ذاتی زندگی کے بارے میں معلومات زیادہ نہیں ہیں کیونکہ وہ انتہا درجے کا تنہائی پسند شخص تھا‘ تاہم اُس نے جو تصانیف مرتب کی ہیں‘ تبصرے تحریر کیے ہیں اور اپنے قریبی دوستوں کو اپنے خیالات کے بارے میں بتایا ہے اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مثالیت (symbolism) پر یقین رکھتا تھا۔ وہ اہل مغرب کی اس علمی و فکری روایت کا زبردست ناقد تھا جس کی رو سے یونانی اور رومی روایتِ علم ہی‘ علم کی آخری حد سمجھی جاتی ہے۔ اُس کی تصانیف میں ایک اہم تصنیف ہندومت پر بھی ہے۔ وحدتِ کائنات کی تلاش میں اُس نے ویدوں کا مطالعہ بھی کیا اور مصر میں قیام کے دوران قدیم مذہبی صحیفوں کے اصل متن کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہا۔

زیرنظر کتاب کے دقیق اور پیچیدہ اندازِ بیان کو پروفیسر اشرف بخاری نے انتہائی کاوش کے ساتھ اُردو میں منتقل کرنے کی سعی کی ہے (اگرچہ کئی مقامات پر ترجمہ اور نامانوس اصطلاحات کھٹکتی ہیں)۔ دراصل ایک زبان کے افکار و تصورات کو دوسری زبان میں منتقل کرنا آسان نہیں ہے۔ فاضل مترجم نے کئی اہم تصورات کے بارے میں کتاب کے آخر میں وضاحتی حاشیے بھی شامل کیے ہیں۔ الٰہیات‘ علم فلسفہ اور مغرب کی تہذیبی اُٹھان کے منطقی پس منظر سے واقفیت کے لیے یہ کتاب مفید ہے۔ (محمد ایوب منیر)


درسی بہشتی زیور (مردوں کے لیے)‘ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ، ترتیب نو: علما ے مدرسہ بیت العلم۔   ناشر: بیت العلم ٹرسٹ‘ کراچی۔ صفحات: ۴۲۵بڑا سائز۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

بہشتی زیور کی شہرت خواتین کے حوالے سے ہے‘ گو اس میں عام زندگی کے عمومی تمام ہی گوشوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ مدرسہ بیت العلم کراچی کے اساتذہ نے اپنے مدرسوں کے طلبہ کی ضرورت کے لحاظ سے اسے نئی ترتیب دی ہے اور زبان و بیان کی قدامت دُور کر دی ہے۔ فقہی کتاب کی طرح عنوانات (طہارت‘ عبادات‘ معاشرت‘ معیشت) بنا دیے ہیں اور مسئلے اور سوال و جواب کا انداز اختیار کیا ہے۔ خواتین سے متعلق مسائل حذف کر دیے ہیں (لڑکیوںکے مدرسے اپنی درسی کتاب مرتب کریں تو مردوں کے مسائل نکال دیں!)۔ اب یہ ایک مفید درسی کتاب ہونے کے ساتھ ساتھ ہر گھر کی ضرورت بن گئی ہے۔ ائمہ مساجد بھی اس کے حوالے سے مسائل بیان کر سکتے ہیں۔ (مسلم سجاد)


پاکستان میں ذہنی پس ماندگی‘ ابوالامتیاز ع س مسلم۔ ناشر: سوسائٹی براے ذہنی پس ماندگان (سائنوسا)۔ الناظرہ‘ ۷ مقبول آباد‘ شارع الفیصل‘ کراچی-۷۵۳۵۰۔ صفحات: ۲۶۴۔ قیمت:  ۲۰۰ روپے۔

ابوالامتیاز مسلم صاحب نے ذہنی طور پر پس ماندہ اور خصوصی توجہ اور نگہداشت کے مستحق افراد کی معذوری کے مختلف پہلوئوں پر نہایت منفرد اور موثرانداز میں روشنی ڈالی ہے اور ذہنی پس ماندگی کی نوعیت‘ علامات‘ نیز فسادِ دماغ کے بارے میں نہایت سلیس اور دل چسپ انداز میں ایک عمومی جائزہ پیش کیا ہے جس سے ذہنی پس ماندگی کے اسباب و علل کی تفہیم‘ اس کی انتہائی اور شدید‘ نیز متوسط اور خفیف کیفیات کا ادراک اور اُن کی تشخیص اور تدارک کے لیے اقدامات کرنا یقینا آسان ہو جاتا ہے۔

مصنف نے ذہنی پس ماندگی کے ضمن میں ایک نہایت اہم موضوع‘ یعنی معاشرتی رویوں کا بھی خصوصی طور پر ذکر کیا ہے۔ انھوں نے فرمایا ہے کہ والدین کا اپنے معذور بچے کے بارے میں مثبت رویہ‘ نگہداشت اور خصوصی تعلیم و تربیت کے لیے انتہائی اہم قدم ہوتا ہے۔ مسلم صاحب نے خالصتاً اسلامی شعائر کے تحت معذوروں کے حقوق کو پیش نظر رکھا ہے۔ انھوں نے خود بھی احکامِ الٰہی کی روشنی میں اپنے معذور بچے کو صبروشکر کرکے سینے سے لگایا ۔ حیاتیاتی اور نفسیاتی اعتبار سے اپنے معذور بیٹے کے لیے بہتر سے بہترماحول ترتیب دیا اور اُس کی خصوصی پرورش اور تربیت کی مثال قائم کی۔ صرف یہی نہیں‘ انھوں نے ذہنی پس ماندگی کے شکار لاکھوں بچوں کی تعلیم و تربیت اور بحالی جیسے امور کا بیڑا بھی اٹھایا اور اسے علمی موضوع بناکر اُس کی تفصیل بھی اس کتاب میں پیش کی ہے۔

کتاب میں ذہنی طور پر معذور بچوں کی صحت اوراُن کی محدود صلاحیتوں کو سامنے رکھتے ہوئے‘   درجہ وار خصوصی تعلیم و تربیت اور بحالی سے متعلق ممکن ذرائع کی نشان دہی بھی کی ہے جس سے یقینا متعلقہ معاشرتی ادارے بھی مستفید ہوسکتے ہیں۔بلکہ یہ کتاب عمومی آگاہی کے علاوہ‘ باقاعدہ تربیت اور تعلیم و تحقیق کے دروازے کھولنے میں بھی ممد و معاون ثابت ہوگی۔ کتاب ہٰذا والدین‘ طلبہ‘ اساتذہ سے لے کر ماہرین نفسیات‘ اطبا اور میڈیکل ڈاکٹر حضرات تک سب کے لیے افادیت کی حامل ہے۔ (ڈاکٹر احسان اللّٰہ خان)


سیرت طیبہ سے رہنمائی‘ اکیسویں صدی میں‘ پروفیسر ڈاکٹر محمد انعام الحق کوثر۔ ناشر: مکتبہ شال۔ ۲۷۲-اے‘ او بلاک III‘ سٹیلائٹ ٹائون ‘کوئٹہ۔ صفحات: ۱۶۷۔قیمت: ۱۲۰ روپے۔

دورِ جدید میں اسلام کے عالم گیر پیغام کو عام کرنے اور رسالت مآبؐ کی سیرت سے دنیا کو روشناس کرانے کی بے حد ضرورت ہے۔ اُمت مسلمہ نہ اپنے کردار سے آگاہ ہے نہ درپیش چیلنج سے۔ قلمی محاذ ہو یا تحقیق کا میدان‘ مسلسل اور تکلیف دہ خاموشی‘ عالم اسلام کی دگرگوں حالت‘ حال و مستقبل کی آئینہ دار ہے۔

زیرنظر کتاب کے سرورق پر عنوان دیکھ کر میرا خیال تھا کہ شاید اس کتاب میں بتایا گیا ہوگا کہ اکیسویں صدی کے نئے عالمی نظام‘ تشدد‘ دہشت گردی‘ سیاست عالم‘ مغرب کے اقتصادی غلبے اور مسلمانوں کی دگرگوں حالت کے پیش منظر میں سیرت طیبہ ہماری کیسے اور کس طرح راہنمائی کر سکتی ہے۔یہ بھی ذہن میں آیا کہ اُمت مسلمہ جن مصائب اور مسائل میں گرفتار ہے (فرقہ بندی‘ جدیدیت‘ لبرلزم‘ ترقی پسندی‘ مادہ پرستی‘ شریعت کی نئی تعبیرات‘ سود‘ بیمہ‘ مخلوط تعلیم‘ رقص و سرود اور ٹی وی کی خرافات) ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے‘ رسالت مآبؐ کی سیرت سے راہنمائی حاصل کی گئی ہوگی‘ لیکن جب کتاب کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ  یہ مصنف کے سیرت‘ قرآن اور چند کتابوں پر لکھے گئے تبصروں کا مجموعہ ہے۔

ڈاکٹر صاحب کی بلندپایہ علمی حیثیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ اُن کی ۳۴ سے زائد کتب شائع ہوچکی ہیں (جن میں سے متعدد کتابوں پر ترجمان میں تبصرے چھپ چکے ہیں)۔ بلاشک و شبہہ بلوچستان میں قرآن مجید کے تراجم و تفاسیر‘ حرمین شریفین کے سفرناموں اور تذکرئہ سیرت‘ نیز فارسی نعت کے مجموعوں کے تعارف والے‘ مصنف کے مضامین بھی سیرت ہی کے حوالے سے ہیں لیکن احقر کی راے میں عنوان کتاب‘ ان تحریروں کے حسب حال نہیں ہے۔ (م - ا - م)


بارگاہ رسالت مآبؐ میں ‘محمد شریف بقا۔ ناشر: البدر پبلی کیشنز‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۹۲۔قیمت: ۱۰۰روپے۔

محمد شریف بقا‘ علامہ اقبال اور ان کے فکر وکلام سے دیرینہ وابستگی رکھتے ہیں۔ برطانیہ میں ذکراقبال کا اہتمام کرنے کے ساتھ ساتھ‘ تشریحاتِ اقبال کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے وہ علامہ کے انگریزی خطبات اور ایک معروف نظم کی شرح شائع کر چکے ہیں (بہ عنوان: خطبات اقبال پر ایک نظر- ابلیس کی مجلس شوریٰ)۔ اب بال جبریل کی نظم ’’ذوق و شوق‘‘ ،  رموز بے خودی کے ایک حصے اور پس چہ باید کرد کے ایک حصے کی تشریح پیش کی ہے۔ انداز شرح یہ ہے: پہلے متن‘ پھر مشکل الفاظ و اصطلاحات کے معانی‘ بعدازاں ’’مطلب‘‘ اور تشریح--- سیاق و سباق اور پس منظر بھی دیا جاتا تو قاری کے لیے تفہیم زیادہ آسان ہوتی۔ (ر-ہ)

تعارف کتب

  •  مسائل حج و عمرہ‘ قرآن و سنت کی روشنی میں‘ مولانا غلام محمد منصوری۔ ملنے کا پتا: مکتبہ برہان‘ اُردو بازار‘ کراچی۔ صفحات: ۴۱۴۔ قیمت: درج نہیں۔] حج کے اغراض و مقاصد‘ اہمیت‘ تیاری‘ اصطلاحاتِ حج‘ اس کی فرضیت‘ فضیلت‘ حج بدل‘ مسائل احرام‘ اسی طرح عمرے کے مسائل‘ طریقہ‘ حج کے ایام و اعمال‘ قربانی‘ سفرمدینہ‘ دعائیں‘تصاویر مقامات مقدسہ وغیرہ--- ایک اچھی رہنما کتاب‘خوب صورت طباعت[
  •  قرآن مجید کی پہلی کتاب‘ مولانا عبدالسلام قدوائی ندوی۔ ناشر: مجلس نشریاتِ اسلام‘ ۱-کے-۳ ناظم آباد مینشن‘ ناظم آبادنمبر۱‘ کراچی۔ ۷۴۶۰۰۔ صفحات: ۱۲۵۔ قیمت: ۵۰ روپے۔ ] سرورق: ’’جسے پڑھ کر عربی زبان کی واقفیت کے ساتھ قرآن مجید کا ترجمہ آسانی سے کیا جا سکتا ہے‘‘۔ اس کی پہلی اشاعت تقریباً ۶۰ سال پہلے عمل میں آئی تھی۔[
  •  القاسم‘ سید ابوالحسن علی ندوی نمبر‘ مدیر: مولانا عبدالقیوم حقانی۔ پتا: جامعہ ابوہریرہ‘ برانچ پوسٹ آفس‘ خالق آباد نوشہرہ (صوبہ سرحد)۔ صفحات: ۵۶۰۔ قیمت: درج نہیں۔ ] مولانا سیدابوالحسن علی ندویؒ کی حیات و سوانح اور علمی و دعوتی کارناموں پر ایک نئی کاوش۔ نئے پرانے مضامین کا عمدہ انتخاب ۔زیادہ تر قلم کار بھارت کے ہیں۔ ایک جامع مجموعہ[
  • یادگل‘ مرتب: محمد عاقل خاں‘ ترتیب نو: ڈاکٹر رضوان ثاقب۔ کائنات پبلشرز‘ ۲۲ اے‘ شاہراہ فاطمہ جناح‘ لاہور۔ صفحات: ۳۰۴۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔] محمد زبیر خاں بابر (متعلم ایم بی بی ایس‘ سال چہارم‘ اور اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن) کو ہوسٹلوں میں بدکاری کے خلاف آواز بلند کرنے کی پاداش میں ۲۸ فروری ۱۹۸۸ء کو شہید کر دیا گیا تھا۔ یہ ایمان افروز کتاب ان کے حالات‘ یادوں‘ باتوں‘ واقعات ‘ خطوط اور تاثرات کا مجموعہ ہے۔ یہ دوسرا نظرثانی شدہ ایڈیشن رضوان ثاقب نے اہتمام کے ساتھ خوب صورت انداز میں چھاپا ہے [

تدبر حدیث‘ شرح موطا امام مالک‘ جلد اول‘ مولانا امین احسن اصلاحیؒ، ترتیب و تدوین: خالد مسعود+ سعیداحمد+سید اسحاق علی۔ ناشر: ادارہ تدبر قرآن و حدیث‘ رحمن سٹریٹ‘ مسلم روڈ‘سمن آباد‘ لاہور۔ صفحات: ۵۴۴۔ ہدیہ:۳۶۰ روپے۔

مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے پیرانہ سالی میں جب ان کی عمر ۸۰ سال سے متجاوز ہو چکی تھی‘ ۸۰کے عشرے میں‘ موطا امام مالک کا درس دیا۔ یہ اب ٹیپ سے اُتار کر تحریر کے اسلوب میں مرتب کرکے   شائع کیے جا رہے ہیں۔ اس جلداول میں کچھ منتخب ابواب‘ مثلاً: زکوٰۃ‘ بیوع‘ حدود‘ دیت اور دیگر شامل کیے گئے ہیں۔

موطا بنیادی طور پر فقہ کی کتاب ہے‘ اس لیے اس کی شرح میں فقہ کے متنوع مسائل زیربحث آئے ہیں اور چونکہ مولانا نے امام مالکؒ کے فتاویٰ اورآرا کا محاکمہ بھی کیا ہے‘ اس لیے فقہی مسالک کا تقابلی مطالعہ بھی ہو گیا ہے۔ اس بات نے اس کتاب کی قدر وقیمت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

مولانا امین احسن اصلاحیؒ کا حدیث کی شرح کرنے کا اپنا ایک انداز ہے۔ وہ سند کو روایت کی تحقیق کا صرف ایک ذریعہ سمجھتے ہیں‘ اسے غیر معمولی اہمیت نہیں دیتے اور متن کو فطرت اور عقل سے پرکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بعض روایات پر وہ صرف یہ کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ ’’یہ میری سمجھ میں نہیں آئی‘‘۔

سیرحاصل تبصرے کا تقاضا تو بہت کچھ ہے‘ مگر اس کی گنجایش نہیں‘ تاہم کچھ اقتباسات:

۱-  جھاڑ پھونک کے حوالے سے سات مرتبہ مسح کرنے کے سلسلے میں اعداد کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: یہ سب بغیر حکمت کے نہیں‘ دین میں ان کا لحاظ ہے۔ اگر کوئی چیز قرآن مجید یا صحیح حدیث سے ثابت ہو تو ہرچند اس کی حکمت معلوم نہ ہو‘ اس کی پیروی کرنی چاہیے۔ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ بلاحکمت بات ہے۔ ہاں اگر کسی ایرے غیرے کی بتائی ہوئی ہو تو اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ (ص ۴۱۹)

۲-  بخارمیں پانی کے چھینٹے ڈالنے کی روایت کے سلسلے میں لکھتے ہیں: ’’بیماریوں کے علاج کی روایتوں کو جمع کر کے لوگوں نے طب نبویؐ کو باقاعدہ مرتب کر کے پیش کر دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے ایک متقی آدمی دوسرا علاج کیوں کروائے گا۔ وہ اسے تقویٰ کے خلاف سمجھے گا۔ لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جسمانی بیماریوں کے نہیں‘ بلکہ روحانی بیماریوں کے معالج ہو کر آئے تھے۔ (ص ۴۲۴)

۳-  داڑھی بڑھانے والی حدیث (اعفاء اللحی) کے حوالے سے: ظاہر مطلب تو یہ ہے کہ داڑھی کو بڑھنے دیا جائے‘ بالکل ہاتھ نہ لگایا جائے۔ لیکن ایک روایت میں آیا ہے کہ کان یاخذ عن یمینہ وشمالہ کہ آپ دائیں اور بائیں سے بال کاٹتے تھے۔ اگر دائیں اور بائیں سے بالوں کو کاٹ دیا جائے اور نیچے کی جانب بڑھنے کے لیے چھوڑ دیا جائے تو خدا جانے آدمی کیا بن جائے۔ لہٰذا روایت کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ داڑھی حسین ہو‘ بال دائیں بائیں اور طول و عرض میں کاٹے جائیں گے۔ اس کو ٹھیک کیا جائے گا… میرے نزدیک اعفا ء کا تقاضا یہ ہے کہ ڈاڑھی چہرے پر نمایاں ہو اور اس کو سنوار کر رکھا جائے ۔ اس کو دیکھ کر یہ تاثر نہیں ملنا چاہیے کہ شیو بڑھی ہوئی ہے ۔ (ص۴۲۸)

۴-  نرد بساط‘ مہروں اور پانسے کے دانے پر مشتمل کھیل ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کھیل کو اللہ اور رسولؐ کی نافرمانی قرار دیا ہے (ص ۴۴۹)۔ اس کی شرح میں لکھتے ہیں: شیطان نے وقت ضائع کرنے کے لیے ان سے زیادہ کارگر نسخے ایجاد نہیں کیے۔ اگر اس سے بھی زیادہ کوئی لغو کام ایجاد کیا ہے تو وہ کرکٹ کا کھیل ہے۔ (ص ۴۵۰)

کتاب کا مکمل مطالعہ یقینا قاری کو تفقہ فی الدین کی لذت سے آشنا کرتا ہے۔ مجلد کتاب بڑے سائز میں ہے اور نفیس کاغذ پر معیاری‘ صاف ‘روشن اور اجلی شائع کی گئی ہے۔ (مسلم سجاد)


۱- دریچۂ نگاہ ‘۲- خدنگ تحریر ‘ ابوالامتیاز ع-مسلم ۔ ناشر: القمر انٹرپرائزز‘ اردو بازار‘ لاہور۔ صفحات۱-:۱۹۰‘ قیمت : ۲۴۰ روپے۔ صفحات ۲-: ۱۹۰‘ قیمت: ۲۴۰ روپے۔

دونوں کتابیں مختصر اخباری مضامین اور ’کالمیات‘ کا مجموعہ ہیں۔ مجلد ہیں‘ دبیز کاغذ پر شائع کی گئی ہیں۔ ہر تحریر دل دردمند کی تڑپ کی تصویر ہے۔ بقول مصنف حالات کا زہر ان میں تلخی گھولتا گیا لیکن یہ تلخی اس سے کہیں کم ہے جو میرے اندر گھل رہی ہے۔ (ص ۲۳‘ خ ت)

خدنگ تحریر‘ تازہ تحریریں ہیں ‘جب کہ دریچہ نگاہ میں ۱۹۵۶ء اور بعد کی تحریریں ہیں لیکن ۴۶ سال قبل بھی حالات مختلف نہ تھے۔ فوجی حکومت کا تجربہ اس دور میں ہو گیا تھا۔ ’’پیچھے مڑ کر دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ۱۹۵۶ء میں ملک و معاشرے کی جو کیفیت تھی اور جس پر ہم اس قدر نالاں تھے‘ تقریباً نصف صدی کی ’ترقی یافتگی‘ اورترقی پذیری کے باوجود آج ہم اس سے بھی زیادہ پستی کی حالت میں نظر آتے ہیں‘ اس اضافے کے ساتھ کہ اس وقت امید‘حوصلے اور ولولے کی جو سوچیں اٹھ رہی ہیں‘ وہ بھی اب کہیں بکھر گئی ہیں۔ (ص ۲۰‘ د  ن)

یہ نہ سمجھیں کہ یہ وعظ ہیں۔ ہلکے پھلکے‘ مزاحیہ‘ حسن ادب کے نمونے‘ اشعار سے مزین (دل چاہتا ہے ہر صاحب ذوق پڑھے اور کچھ حاصل کرے) لیکن موضوعات: فوج کا آئینی کردار‘ آگرہ کی نوراکشتی‘ فی صد شماری کی طلسم کاری وغیرہ۔

مصنف شاعر ہیں۔ ان کے کئی مجموعۂ کلام بھی شائع ہو چکے ہیں۔ ۳۰ سے زائد تصنیفات کی فہرست دی گئی ہے۔ بچوں کے لیے بھی لکھتے ہیں۔ تجارت پیشہ ہیں۔ طویل مدت شارجہ میں رہے۔ایک بیٹے کی ذہنی معذوری کی وجہ سے ‘ اس میدان میں بہت مفید کام کیا۔ سائنوسا تنظیم بنا کر‘ اس کا رسالہ نکالا۔ کراچی میں دیوا اکیڈمی کتنے ہی معذور بچوں کا سہارا اور امیدوں کا مرکز ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں خوب نوازے۔ ان کے جذبے کو عام کرے۔ (م - س)


تاریخ محمدﷺ ،ایم ڈی فاروق ایڈووکیٹ۔ ناشر: ادارہ اشاعت قرآن و تاریخِ اسلام (ہسٹری سنٹر) ۱۱۳-سی‘ ماڈل ٹائون‘ لاہور۔ صفحات: ۵۷۶۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

سیرت‘ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات و شخصیت اور اخلاق حسنہ کا نام ہے‘ جب کہ تاریخ‘  ماہ و سال کی واقعات نگاری ہے۔ فاضل مصنف کے خیال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس‘ پوری تاریخ کی آئینہ دار ہے۔ آپؐ کی تاریخ کا مطالعہ تاریخی تناظر میں کرنا چاہیے۔ مصنف نے اپنے خیال میں زیرنظر تصنیف کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ کے طور پر پیش کیا ہے‘ سیرت کی کتاب کے طور پر نہیں۔ لیکن کتاب کا مجموعی اسلوب‘ ترتیب و مباحث مروجہ سیرت نگاری ہی کے مشابہ ہے۔

کتاب کے مباحث ایک مقدمے اور ۱۵ عنوانات پر مشتمل ہیں‘ جنھیں تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: اول: قبل از نبوت حالات (حضرت آدم ؑ تا آنحضرتؐ)‘ دوم: حضورِ اکرمؐ کے حالات (بہ ترتیب زمانی)‘ سوم: حضوراکرم ؐکا برپا کردہ انقلاب (تعلیمات کی اثرپذیری کے اعتبار سے)۔

مصنف کے خیال میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم کردہ انقلاب کو سمجھنے اور اس کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے تاریخِ عالم کا ادراک ضروری ہے مگر چھٹی اورساتویں صدی عیسوی میں عرب کے حالات کوانھوں نے نہایت اختصار سے بیان کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ کے مآخذ کے ضمن میں تین اہم مآخذ (قرآن کریم‘ کتب احادیث اور کتب مغازی و سیرت) کا ذکر کیا ہے۔ فاضل مصنف نے ائمہ محدثین پر یہ اشکالات اٹھائے ہیں۔ اوّل:  حدیث کی جمع و تدوین کا کام عجمیوں (غیر عربوں) کے ہاتھوں سرانجام پایا اور یہ تمام حضرات تیسری صدی ہجری سے تعلق رکھتے ہیں۔ دوم: انھوں نے لاکھوں حدیثوں میں سے بہت کم کو صحیح قرار دے کر اپنے مجموعوں میں درج کیا۔ سوم: یہ تمام احادیث لوگوں نے انھیں زبانی سنائیں اور ان کا کوئی تحریری ریکارڈ پہلے سے موجود نہ تھا۔ چہارم: محدثین کا انتخاب ان کی ذاتی بصیرت‘ غوروفکر اور فیصلے کا نتیجہ تھا۔ ان احادیث کے صحیح ہونے کے متعلق نہ تو ان کے پاس خدا کی سند تھی اور نہ اس کی سند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمائی تھی۔ اس طرح محض اپنی فہم و فراست اور تحقیق کے مطابق جن احادیث کو صحیح تصور کیا ‘اپنے مجموعوں میں داخل کر دیا ۔(ص ۱۵۷)

احادیث نبویؐ کے بارے میں شکوک و شبہات کا یہ رجحان کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔ ڈاکٹر حمیداللہ کی الوثائق السیاسیۃ‘ ڈاکٹر مصطفی السباعی کی السنۃ ومکانتھا فی التشریع الاسلامی اور مولانا مودودی کی سنت کی آئینی حیثیت کا مطالعہ کر لیا جائے تو یہ شکوک ازخود رفع ہوجاتے ہیں۔

فاضل مصنف نے کتاب میں متعدد مقامات پر معروف سیرت نگاروں مثلاً: ابن اسحاق‘ ابن ہشام‘ ابن سعد‘ امام سہیلی اور علامہ شبلی نعمانی وغیرہم کے برعکس ایک مختلف نقطۂ نظر اختیار کیا ہے‘ مثلاً: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسری عورتوں کے دودھ پلانے اور حلیمہ سعدیہ کے پاس چار سال تک قیام کی روایت مشکوک بلکہ غلط معلوم ہوتی ہے… اور فطرت کے خلاف ہے (ص ۲۰۲)۔ آپؐ پر پہلی وحی خواب کی حالت میں نازل ہوئی  (ص ۲۳۱)۔ مقاطعہ قریش بنی ہاشم اور بنی مطلب کے ساتھ نہ تھا بلکہ یہ محض مسلمانوں کا سماجی بائیکاٹ تھا (ص ۲۵۳)۔ جنگ خندق میں حضرت سلمانؓ فارسی کا مدینہ کے گرد خندق کھودنے کا مشورہ دینا اور آپؐ کا قبول کرنا آپ کی جنگی مہارت اور دفاعی تدابیر کے خلاف ہے (ص ۳۸۴) وغیرہ‘ مگر تعجب ہے کہ فاضل مصنف نے سواے چند مقامات کے‘ کسی جگہ بھی حوالہ جات کی ضرورت نہیں سمجھی اور نہ آخر میں مصادر و مراجع کی فہرست دی ہے۔ اس لیے حوالوں اور دلیل و استدلال کے بغیر متذکرہ بالا آرا کی حیثیت قیاس آرائیوں سے زیادہ کچھ نہیں۔

پوری کتاب میں کہیں آیات قرآنی کا عربی متن نہیں دیا‘ محض تراجم پر اکتفا کیا ہے۔

کتاب میں پروف کی بھی خاصی اغلاط ملتی ہیں۔ مصنف نے محبت اور لگائو کے ساتھ کتاب تصنیف کی ہے اور اس کی اشاعت کا اہتمام بھی ذاتی طور پر کیا ہے۔ امید ہے کہ آیندہ ایڈیشن میں وہ بعض ضروری نکات پر نظرثانی کریں گے۔ (ڈاکٹر محمد عبداللّٰہ)


امریکہ: مسلم دنیا کی بے اطمینانی (۱۱ستمبر سے پہلے اور بعد)‘ پروفیسر خورشید احمد۔ مرتب: سلیم منصور خالد۔ ناشر: منشورات‘ منصورہ‘ لاہور۔ ۵۴۵۷۰۔ صفحات: ۳۰۸۔ قیمت غیر مجلد: ۱۲۵ روپے۔ مجلد: ۲۰۰ روپے۔

۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی اور ۷ اکتوبر کو افغانستان پر امریکی حملے کے نتیجے میں اُمت مسلمہ‘ خصوصاً پاکستان‘ ایک انتہائی تکلیف دہ صورتِ حال سے دوچار ہے۔ محض اسلحے اور قوت کے بل بوتے پر ظالم اور مظلوم کا مفہوم ازسرنو متعین کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ امریکہ کے متکبرانہ رویے پر نہ صرف  عالم اسلام اور دنیا کی دیگر چھوٹی اقوام بلکہ خود امریکہ کے بعض حلیفوں (جرمنی‘ کینیڈا وغیرہ) کی طرف سے بھی ایک ردّعمل سامنے آ رہا ہے۔

ترجمان القرآن میں صورت احوال پر پروفیسر خورشید احمد کے سیرحاصل اور چشم کشا تبصرے شائع ہوتے رہے ہیں۔ زیرنظر کتاب میں انھی اشاراتی تبصروں اور تجزیوں کو نظرثانی اور چند اضافوں کے ساتھ یک جا کیا گیا ہے۔ مذکورہ تجزیے پروفیسر سلیم منصور خالد نے تدوینی مہارت کے ساتھ مرتب کیے ہیں۔ پہلے چار مضامین ۱۱ستمبر سے پہلے کی صورت حال سے متعلق ہیں۔ ان کا زمانہ تحریر ۱۹۹۱ء‘ ۱۹۹۳ء اور ۲۰۰۰ء ہے‘ اور یہ ایک طرح سے موضوع اور کتاب کے پس منظر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ باقی مضامین کا تعلق ۱۱ستمبر کے بعد کے واقعات سے ہے۔ آخری مضمون کا عنوان ہے: ’’امریکہ میں دعوت اسلامی: امکانات‘ اہداف‘ مشکلات‘‘۔ اس طرح یہ کتاب ماضی‘ حال اور مستقبل کا احاطہ کرتی ہے۔

مرتب نے ہر مضمون کے متعدد ضمنی عنوانات قائم کر کے‘ اس کے مباحث کو واضح کر دیا ہے۔ مصنف نے ٹھوس اور وسیع مطالعے کی بنیاد پر اور ایک گہری بصیرت کے ساتھ مغربی استعمار کے عزائم اور اہداف کا تجزیہ کیا ہے۔

ان مقالات کو کتابی صورت میں پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ’’اہل پاکستان اور اُمت مسلمہ میں ان حالات‘ مسائل اور خطرات کا صحیح تصور پیدا ہو سکے‘‘ (ص ۱۵)۔ دشمن کے خطرناک عزائم کا ادراک ضروری ہے مگر اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں سے صرفِ نظر کرنا بھی دانش مندی نہیں۔ بقول مرتب: ’’زیرنظر کتاب کا اصل پیغام یہ ہے کہ حالات کا صحیح شعور ہو‘ مقابلے کے لیے موثر حکمت عملی تیار کی جائے اور حالات کے دھارے کا رخ موڑنے کے لیے جدوجہد کی جائے۔ یہی زندگی‘ ترقی اور کامیابی کا راستہ ہے‘‘۔ (ص ۱۵)

کتاب انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘اسلام آباد کے زیراہتمام تیار اور شائع ہوئی ہے۔ اشاعت و طباعت معیاری ہے۔ اشاریہ بھی شاملِکتاب ہے ۔ (رفیع الدین ہاشمی)


بلاکم و کاست ‘مہدی علی صدیقی۔ ناشر: شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ‘ کراچی یونی ورسٹی‘ کراچی۔ صفحات: ۲۷۳۔ قیمت: اعلیٰ ایڈیشن‘ ۳۵۰ روپے‘ عام ایڈیشن: ۳۰۰ روپے۔

مہدی علی صدیقی ‘ اپنی ذات میں ایک تاریخ ہیں۔ زندگی کے نشیب و فراز سے کماحقہ آگاہ‘ اور  اللہ کے فضل و کرم سے اپنی زندگی کی ’’سینچری‘‘ مکمل کرنے سے صرف چار سال پیچھے ہیں۔ طویل عمری  بذات خود بھی اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے لیکن اگریہ ملک و ملّت کے پردے پر وقوع پذیر ہونے والے  سیاسی‘ تہذیبی‘ معاشرتی اور نظریاتی واقعات اور اس کے اسرار و رموز پر گواہ بن جائے اور وہ بھی  ’’بلاکم و کاست‘‘--- تو کیا کہنا۔

مصنف پیشے کے لحاظ سے مملکت حیدر آباد دکن میں (۱۹۳۲ء تا ۱۹۴۸ء) سول سروس سے بطور سیشن جج وابستہ رہے۔ سقوط حیدر آباد کے بعد پاکستان آگئے اور ایک لمبے عرصے تک انصاف کے پرچم کو بلند کیے رکھا۔ انھوں نے سعادت حسن منٹو کے مشہور زمانہ مقدمے کی سماعت بھی کی۔ بلاکم و کاست پڑھنے والا اندازہ کر سکتا ہے کہ دریا کو کوزے میں بند کرنے کا مفہوم کیا ہے۔ صرف ۲۷۳ صفحات پر اتنی طویل بھرپور زندگی کی تصویر نقش کرنا کوئی مصنف سے سیکھے۔ اس کتاب میں آپ کو علی گڑھ یونی ورسٹی میں طلبا کے روز و شب‘ تحریک خلافت کی جاں فشانیاں‘ جنگ عظیم کی تباہ کاریاں‘ ہندوئوں کی چالیں‘ مسلمانان برعظیم پاک و ہند کی جدوجہد آزادی کی پوشیدہ کہانیاں‘ تقسیم ہند کی خونچکاں داستانیں اور سقوطِ حیدرآباد کے الم ناک واقعات کے ساتھ ساتھ دیہاتی اور شہری زندگی کی کی خوب صورت عکاسی اور چار دیواری کے اندر محبت و اخوت کے موتی بکھرے ہوئے ملیں گے۔

مشاہدات و واقعات پر مبنی یہ سفرنامہ ایوب خان‘ یحییٰ خان‘ ذوالفقار علی بھٹو اور ضیا الحق جیسے حکمرانوں کے تذکرے اور کارگزاریوں کے ساتھ ساتھ‘ تحریک اسلامی کے نامور اکابرین کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات کا احاطہ بھی کرتا ہے۔ مہدی علی صدیقی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اس لیے زندگی کے اس حصے کا احاطہ کرتے ہوئے انھوں نے امریکی معاشرے کی خوبیوں اور خرابیوں کا بھی بلاتکلف جائزہ لیا ہے۔ بلاکم وکاست کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ جو ایک بار پڑھنا شروع کر دے تو آخری صفحے تک پڑھے بغیر رہ نہیں سکتا۔ طباعت و اشاعت کا معیار بھی نہایت اعلیٰ ہے۔ (نوراسلم خاں)


ارمغانِ شیرانی مرتبین: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی + ڈاکٹر زاہد منیر عامر۔ ناشر: شعبۂ اُردو‘ پنجاب یونی ورسٹی‘ اورینٹل کالج‘ علامہ اقبال کیمپس‘ لاہور۔ صفحات : ۳۲۸۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

حافظ محمود خاں شیرانی (۱۸۸۰ء-۱۹۴۶ء) کو اُردو تحقیق کا ’’معلم اول‘‘ مانا گیا ہے۔ انھوں نے  علم و تحقیق کے میدان میں جو کارہاے نمایاں انجام دیے ہیں‘ وہ آج بھی محققین اور علما کے لیے مشعل راہ ہیں۔ وہ ایک لمبے عرصے تک‘ شعبہ اُردو‘ جامعہ پنجاب‘ لاہور سے بطور استاد اور تحقیق کار وابستہ رہے‘ اسی تعلق کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے شعبۂ اُردو نے اُن کی یاد میں ایک علمی ارمغان پیش کیا ہے۔

اس کتاب میں حافظ محمود شیرانی اور ان کی علمی دل چسپی کے موضوعات پر ۱۴ علمی و تحقیقی مضامین شامل ہیں۔ ’’منتخب القوافی‘‘ از عشقی عظیم آبادی، ’’یہاں‘وہاں کا ارتقائی سفر‘ ایک تحقیق‘‘ ، ’’حکیم احسن اللہ خاں‘‘، ’’مصحفی سے منسوب دو تذکرے‘‘، ’’ذخیرۂ شیرانی سے متعلق چند اہم دستاویزات‘‘ ، ’’ولادت و وفات کی تاریخیں‘‘، ’’قدیم تذکروں کی روشنی میں‘‘، ’’والہ داغستانی کے دیوان کا ایک معاصر مخطوطہ اور اس کا اُردو کلام‘‘ اور ’’محمود شیرانی سے میرے استفادات‘‘، اس کتاب کے اہم ترین مضامین ہیں‘ جن کے ذریعے‘ علم و ادب کے حوالے سے ‘ کئی حقائق منظرعام پر آئے ہیں اور مزید تحقیق کی راہیں کھلی ہیں۔ مقالہ نگاروں میں صف اوّل کے مندرجہ ذیل محقق اور عالم شامل ہیں: ڈاکٹر مختارالدین احمد‘ شان الحق حقی‘ رشید حسن خاں‘ حکیم محمود احمد برکاتی‘ ڈاکٹر گیان چند جین‘ ڈاکٹر حنیف نقوی‘ ڈاکٹر محمد انصاراللہ‘ ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی (نبیرۂ حافظ محمود شیرانی)‘ ڈاکٹر فریداحمد برکاتی‘ ڈاکٹر عارف نوشاہی‘ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار‘ ڈاکٹر معین الدین عقیل‘ افضل حق قرشی اور ڈاکٹر تبسم کاشمیری۔ آخر میں مرتبین نے مقالہ نگاروں کا مختصر تعارف نامہ بھی شامل کر دیا ہے جو نہایت مفید اور معلوماتی ہے۔

ارمغان شیرانی اپنے مشمولہ مضامین کے حوالے سے بھی اہم کتاب ہے اور جامعہ پنجاب کی تابندہ علمی روایت کے سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر بھی اہمیت کی حامل ہے۔ کتاب کی ترتیب کے ساتھ ساتھ طباعت و پیش کش عمدہ ہے۔ علمی و ادبی حلقوں میں اس کتاب کی ضرورت کا احساس اور اس سے استفادہ ہونا چاہیے۔ مرتبین اور ناشر اس ارمغان کی تیاری اور اشاعت پر لائق صد مبارک ہیں۔ (رفاقت علی شاہد)


اسلام: ہمارا انتخاب‘ ملک احمد سرور۔پتا: البدر پبلی کیشنز اور ادارہ مطبوعات سلیمانی‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات:۳۵۲۔ قیمت: ۱۵۰  روپے۔

اس میں شبہہ نہیں کہ ’’نومسلموں کا موضوع اپنی نوعیت کے اعتبار سے دینی لٹریچر کا شاید سب سے دل چسپ اور مفید موضوع ہے‘‘ (ص ۱۰)۔ اس لٹریچر کی مقبولیت کا ایک سبب غالباً یہ بھی ہے کہ مسلم قاری نومسلموں کے قبولِ اسلام کی داستانیں پڑھ کر ایک نفسیاتی تسکین محسوس کرتا ہے۔ سبب جو بھی ہو‘ قبولِ اسلام کی ان سچی کہانیوں کی دل چسپی میں کلام نہیں۔ ملک احمد سرور صاحب نے ایک مخلصانہ دعوتی اور تبلیغی جذبے کے تحت تقریباً ۵۰ نومسلموں کی رودادیں‘ انٹرویو اور مضامین مرتب کیے ہیں جن میں سے بہت سے خود اُن کے ترجمہ کردہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے ڈاکٹر عبدالغنی فاروق کی کتابوں:  ہم کیوں مسلمان ہیں؟ہمیں خدا کیسے ملا؟ نے اس راستے پر چلایا۔

دنیا کے مختلف ممالک اور براعظموں سے تعلق رکھنے والے بیشتر مرد و زن‘ قبول اسلام سے پہلے عیسائی تھے‘ کچھ ہندو اور بعض سکھ اور بُدھ۔ ان میں پارلیمنٹ کے رکن‘ فلمی اداکار‘ سفیر‘ صحافی‘ پروفیسر‘  دانش ور‘ ادیب‘ شاعر اور طالب علم شامل ہیں۔ کسی کو اوائل عمر میں ہدایت نصیب ہوئی تو کوئی حیاتِ مستعار کے آخری برسوں میں ایمان لایا۔

یہ رودادیں مؤلف کے بقول: قاری کے اندر بھی اسلام کے مطالعے اور اسلامی احکام پر عمل کرنے کا جذبہ اُبھارتی ہیں--- اصلاح کرتی ہیں--- ضمیر کو جھنجھوڑتی ہیں--- ذہن میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اسلام کے دین حق ہونے کے بارے میں جو سوالات اُبھرتے ہیں‘ ان کے جوابات دیتی ہیں۔ اس طرح یہ ایمان کی مضبوطی کا باعث ہیں۔ (ص ۱۷)

مصنف ایک معروف صحافی اور ادیب ہیں۔ بیش تر رودادیں ان کے ماہانہ جریدے بیدار ڈائجسٹ میں شائع شدہ ہیں۔اب ان رودادوں کو نہایت سلیقے سے ایک عمدہ ترتیب کے ساتھ مدون کیا گیا ہے۔ حسب موقع حوالے بھی دیے گئے ہیں۔ (ر - ہ )

تعارف کتب

  •  آخری صلیبی جنگ حصہ سوم ‘ عبدالرشید ارشد۔ النور ٹرسٹ‘ جوہر پریس بلڈنگ‘ جوہر آباد۔ صفحات: ۲۳۰۔ قیمت: ۱۰۰روپے۔ ] ۱۱ ستمبر کے بعد سے برپا صلیبی جنگ کے حوالے سے ۲۷ اخباری مضامین اور کوفی عنان وغیرہ کو بھیجے گئے خطوط کا مجموعہ جو کچھ اُمت مسلمہ کے ساتھ کیا جا رہا ہے ‘ اس کا بیان اُمت کو بیدار کرنے کے لیے اُس وقت مفید ہے جب سوئے ہوئے لوگوں تک اسے پہنچانے کا انتظام بھی کیا جائے۔ ہمیں یہود سے کچھ منصوبہ بندی وغیرہ سیکھنی چاہیے۔ بیدار لوگ کیا کچھ کر رہے ہیں اور کیا کچھ انھیں کرنا چاہیے‘ اس کی تشنگی باقی ہے۔ بھرا ہوا آدھا گلاس بھی دیکھنا چاہیے۔[
  •  آپا حمیدہ بیگم‘ مرتبہ: پروفیسر فروغ احمد۔ ناشر: حرا پبلی کیشنز‘ فضل الٰہی مارکیٹ ۲/۱۴ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۳۱۱۔ قیمت: ۹۰ روپے۔ ]جماعت اسلامی کے ابتدائی دور کی بے لاگ‘ مخلص اور فعال کارکن اور حلقۂ خواتین کی قیمہ‘ جو تاحیات تحریک سے وابستہ رہیں۔ میاں طفیل محمد صاحب کے بقول: ’’رائے کی پختگی اور مزاج میں‘ فہم و فراست میں‘ اعتدال و توازن میں‘ خواتین میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا عکس تھیں‘‘--- مرحوم پروفیسر فروغ احمد کا مرتبہ یہ مجموعۂ مضامین پہلی بار ۱۹۸۸ء میں اور اب چوتھی مرتبہ چھپا ہے۔[

سفر آدھی صدی کا‘ عبدالکریم عابد۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی‘ ڈی-۳۵‘ بلاک ۵‘ فیڈرل بی ایریا‘ کراچی-۷۵۹۵۰۔ صفحات: ۳۲۰۔قیمت‘ مجلد: ۱۵۰‘ غیرمجلد: ۱۲۰ روپے۔

گزرنے والا ہر لمحہ تاریخ ہے‘ مگر کتنے لوگ ہیں جو لمحوں کو تاریخ سمجھتے ہیں اوران لمحوں کی زنبیل میں تاریخ کے اسباق و حوادث سے رہنمائی لیتے ہیں؟ خال خال--- اگرچہ انیسویں صدی عیسوی بھی بڑی ہنگامہ خیز تھی‘ تاہم بیسویں صدی تو اپنے انقلابات اور کش مکش کے حوالے سے گہرے اثرات کی حامل صدی شمار کی جا سکتی ہے۔

ایک اخبار نویس: محض خبرنگار‘ وقائع نگار یا تجزیہ نگار نہیں ہوتا‘ بلکہ آج کے زمانے میں تو اخبار نویس غالباً بہت سے حکمرانوں سے بھی زیادہ باخبر اور اثرانداز ہونے والی شخصیت شمار ہوتا ہے۔ عبدالکریم عابد‘پاکستان کے ان قابل قدر اخبار نویسوں میں سے ہیں‘ جو گذشتہ نصف صدی سے بھی زائد عرصے میں متعدد حوادث اور اہم واقعات کا حصہ یا ان کے شاہد رہے ہیں۔ استغنا اور قلندری کے خوگر اس بزرگ اخبار نویس پر رب تعالیٰ کاخصوصی احسان ہے کہ عمرگزر گئی‘ مگر اصولی موقف پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔ انھوں نے زمانے کوخبردی اور خبردار بھی کیا۔ کسی مداہنت کے بغیر اپنوں پر بھی تنقید کی‘ مگر حکمت اور توازن کے ساتھ۔

جیسا کہ اُوپر بیان ہوا ہے کہ آج کا اخبار نویس‘ خبرنگار سے بڑھ کر‘ ایک بڑے نازک مقام پر ایستادہ دیدبان (OP)کی طرح ہے‘ جس کا سینہ رازوں کا خزینہ ہے۔ ممکن ہے یہ بات عام لوگوں کے لیے ایک عمومی سی بات ہو لیکن  سفر آدھی صدی کا پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ واقعی بیدار ذہن رکھنے والا اخبار نویس تاریخ اور لمحوں کے ساتھ قدم ملاکر چلتا ہے۔ یہ اعزاز کسی کسی کو نصیب ہوتاہے کہ وہ اس سفر کی کلفتوں اور راحتوں میں دوسروں کو بھی شریک کرے۔

عبدالکریم عابد نے سفر آدھی صدی کا میں مشاہدات اور تجربات کی بنیاد پر حکمت سے بھرپور بیان و استدلال کے ساتھ بڑے اہم لمحوں کا تذکرہ دبیز پردوں سے نکال کر پیش کیا ہے۔ اگرچہ کتاب کا ہر باب ایک مکمل موضوع ہے‘ تاہم اس کے چند مرکزی موضوعات یہ ہیں: سقوط حیدرآباد دکن کا پس منظر اور پیش منظر‘ کمیونسٹ پارٹی کی کھلی اور چھپی سرگرمیاں‘ ترقی پسند صحافیوں کی وارداتیں اور حکمت عملی‘ مہاجر سندھی سیاست کاارتقا اور احوال‘ جماعت اسلامی کو درپیش چیلنج‘ پاکستان کی دستوری تاریخ کے اہم موڑ‘ بھٹو مرحوم کی سیاست کے پیچ و خم‘ وادی صحافت کے نشیب و فراز ‘ہندو سیاست کا شاخسانہ وغیرہ۔

عابد صاحب کے دانش ورانہ نکات و معارف کے حامل‘ چند مختصر اقتباسات: m  پاکستان کی پرانی نسل کو قائد اچھے ملے‘ اور انھوں نے قوم کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے بہت کچھ کیا۔ مگر نئی نسل کا المیہ یہ ہے کہ وہ قیادت سے محروم رہی‘ بلکہ اس کا واسطہ دجالوں سے رہا‘ جو اسے فریب پر فریب دیتے رہے۔ (ص ۱۳) mمولانا ظفراحمد انصاری نے قیام پاکستان کے بعد قائداعظم سے کہا تھا کہ ’’مسلم لیگ صرف پاکستان بنانے کے لیے تھی‘ پاکستان بن گیا‘ اس کا کردار ختم ہو گیاہے ]اب ختم کرنے کا اعلان کر دیجیے [‘‘۔ اگر اس تجویز پر عمل ہوتا تو لیگ کا مردہ خراب ہونے سے بچ جاتا (ص ۱۶۱)۔ m ایوب خان کو راستے سے ہٹانے کا منصوبہ سی آئی اے کا تھا‘وہ پروچائنا ]کمیونسٹ[ گروپ کو استعمال کر رہی تھی۔ (ص ۲۳۴) m  ایک تقریر میں معراج ]محمد خاں[ نے مودودی صاحب پر بدتمیزی کے ساتھ نکتہ چینی کی۔ ]ذوالفقار علی[بھٹو فوراً کھڑے ہوگئے اور کہا’’یہ خیالات معراج کے ہیں میرے نہیں‘ میرے دل میں مولانا مودودی کا بہت احترام ہے‘‘۔ (ص ۲۴۴)

عابد صاحب اختصار ‘ جامعیت اور بلا کی سادگی و پرکاری کے ساتھ بڑے بڑے موضوعات کو ایک ڈیڑھ صفحے میں قلم بند کر دیتے ہیں‘ جس میں مطالعے کی وسعت‘مشاہدے کی گہرائی اور موضوعات کا تنوع‘ قاری کو ان کا گرویدہ بنا لیتا ہے۔ اگرچہ یہ کتاب اُن کے کالموں کا مجموعہ ہے‘ مگر اس میں انھوں نے آپ بیتی سے بڑھ کر جگ بیتی تحریر کی ہے۔ اچھا ہوتا کہ کتاب کی مناسبت سے کچھ تکرار کو ختم کر دیاجاتا۔ پروفیسر شاہد ہاشمی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اس دستاویز کی پیش کاری میں دل چسپی لی‘ اورارزاں قیمت پر ایک    دل چسپ کتاب فراہم کرنے میں کامیاب رہے۔ (سلیم منصور خالد)


متبادل سودی نظام کے دعوے‘ استاد محمد طاسینؒ۔ ناشر: گوشۂ علم و تحقیق‘ کراچی۔ تقسیم کار: فضلی بک ‘ سپرمارکیٹ‘ اُردو بازار‘ کراچی۔ صفحات: ۱۸۰ ۔قیمت: ۱۳۰ روپے۔

استاد محمد طاسین مصنف اور محقق کی حیثیت سے ایک معروف نام ہے۔ مولانا کی درجن بھر کتب اور کتابچے شائع ہوچکے ہیں۔ بعض موضوعات پر ان کی منفرد آرا ان کے دقتِ مطالعہ کی مظہر ہیں۔ مروجہ  زمین داری نظام پر ان کا اپنا ایک نقطۂ نظر ہے‘ اور وہ پاکستان کی جاگیروں کو عشری کے بجاے خراجی زمینیں قرار دیتے ہیں۔

زیرتبصرہ کتاب سود‘ اور غیر سودی بنک کاری وغیرہ کے حوالے سے ان کے مختلف مضامین کامجموعہ ہے۔ اس کتاب میں: بنک کیسے وجود میں آئے‘ بنکوں کاتاریخی پس منظر اورسماجی کردار‘ غیرسودی بنک کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں چلانے کی عملی صورت اور سرمایے کی حیثیت وغیرہ شامل ہیں۔ مزید برآں کتاب میں پاکستان کے حوالے سے غیرسودی (نفع و نقصان کی بنیاد پر) بنک کے قیام کا شرعی  نقطۂ نظر سے جائزہ‘مضاربت کی بنیاد پر بنک کا قیام اور اس کی شرعی حیثیت پر گفتگو کی گئی ہے (ص ۱۷)۔

مولانا طاسین کی راے میں مضاربت کو اسلامی بنک کاری کی اساس نہیں بنایا جاسکتا کیونکہ ’’مضاربت کامعاملہ معاشرے کے بعض مخصوص افراد سے تعلق رکھتا ہے اور انفرادی نوعیت کا معاملہ اجتماعی نوعیت کا معاملہ نہیں جس میں معاشرے کے سب افراد شریک ہو سکتے ہیں‘ لہٰذا بنک جیسے اجتماعی ادارے کی تشکیل مضاربت کی بنیاد پر کرنادرست نہیں قرار پاتا بلکہ غلط ہوتا ہے‘‘ (ص ۲۶)

خلاصہ بحث کے طور پر مولانا طاسین لکھتے ہیں: ’’اگر ہم واقعی صدقِ دل سے یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں سود کی لعنت اور نحوست سے چھٹکارا ملے… تو ہمیں پختہ عزم کے ساتھ اجتماعی طور پر یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ہم نے وطن عزیز پاکستان سے اس سرمایہ دارانہ معاشی نظام کا جڑ و بنیاد سے خاتمہ کرنا اور اکھاڑ پھینکنا ہے‘ جو فی الوقت ہمارے ہاں رائج اور بروے کار ہے‘ اور جس کے لازمی جز کے طور پر موجودہ بنک کاری کا ادارہ قائم ہے‘‘ (ص ۳۲‘ ۳۳)۔ اس کے علاوہ مولانا نے بیمے کی شرعی حیثیت اور دیگر مسائل کی شرعی حیثیت و اہمیت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔

مولانا مرحوم کی بعض آرا سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے ‘ اس کے باوجودتحقیقی حوالے سے مضامین کا یہ مجموعہ بہت سے اہم موضوعات کااحاطہ کرتا ہے اورقرآن و حدیث کے علاوہ فقہ کے حوالوں سے مزین ہے۔ (میاں محمد اکرم)


Milestones to Eternity  ]احوال قیامت[‘ محمد ابومتوکل۔ پتا: ذکی انٹرپرائزز‘ اے/۴۷‘ بلاک۱۱‘ گلشن اقبال‘ کراچی۔ صفحات: تقریباً ۴۰۰ ]صفحوں پر شمار نمبر درج نہیں[۔قیمت: ۴۰۰ روپے۔

یہ کتاب بنیادی طور پر موجودہ حالات کی روشنی میں علاماتِ قیامت کی تشریح پر مبنی ہے۔ اس سلسلے میں ۱۵۰۰ قرآنی آیات اور ۵۰۰ احادیث کے حوالے دیے گئے ہیں‘ اس کے ساتھ توحید‘ رسالت‘ نظامِ صلوٰۃ‘ نظامِ زکوٰۃ‘ جنت‘ دوزخ‘ دجال اور اُمت کے سیاسی و اقتصادی مسائل‘ معیاری دعوت کااسلوب وغیرہ کی وضاحت بھی کردی گئی ہے۔ مصنف کی بھرپور کوشش ہے کہ قرآنی آیات کی جامع تشریح اختیار کی جائے اور صرف متفق علیہ احادیث درج کی جائیں۔

مصنف نے جہاں بھی کسی عالم کی رائے درج کی ہے‘ بالالتزام اُس کا حوالہ دیا ہے جو قابل تحسین ہے۔ ابواب کے عنوانات عربی زبان میں ہیں اور ذیلی عنوانات انگریزی میں ۔ باب اول: لایھدی القوم الظالمون‘ دوم: نصر من اللّٰہ‘ سوم: فتحٌ قریب اور چہارم:  بشرالمومنین‘ آخری باب تبصروں اور آرا پر مشتمل ہے۔

مصنف کا طریق عرب واعظین کا سا ہے جو کسی موضوع پر پہلے تو مسلسل آیاتِ قرآنی اور احادیث نبویہؐ بیان کرتے ہیں‘ پھر طویل تشریح‘ اور اس کے بعد نیا موضوع شروع ہو جاتا ہے۔ مصنف نے اپنے موقف کی وضاحت کے لیے حسب موقع گراف بھی دیے ہیں ۔ اسلامی اصطلاحات کااصل عربی نام برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ مصنف‘ محمد ابومتوکل کے بارے میں کوئی تعارفی نوٹ نہیں ہے۔ کتاب میں ناموں کے اخفا کا رجحان غالب ہے۔ البتہ نیوجرسی کی مسجد شہدا کے امام ذکی الدین شرفی کا نام اور تعارف مبصرین میں درج ہے۔ کتاب کا فونٹ انتہائی باریک ہے جو طبیعت پر گراں گزرتا ہے۔ (محمد ایوب منیر )


اے نیو ماڈل فار ہیلتھ اینڈ ڈزیزز‘ ڈاکٹر جارج وتھالکس‘ ترجمہ: ڈاکٹر ملک محمد مسعود یحییٰ۔ ناشر: ہومیوپیتھک فرٹیلیٹی کلینک‘ مین بازار‘ جوہر آباد ۴۱۲۰۰۔ صفحات: ۲۵۱۔ قیمت: ۱۵۰روپے۔

مصنف ایک تجربہ کار یونانی اور آلڑنیٹو نوبل انعام یافتہ معالج ہیں۔انھوں نے سالہا سال کے عملی تجربے سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ انٹی بیاٹک ادویہ کا غیرمستند اور بکثرت استعمال انسان کے مدافعتی نظام کو بے حد کمزور کر کے جسم پر مہلک اثرات مرتب کرتاہے۔ دور جدید میں ایڈز اور ایسے ہی دوسرے امراض خبیثہ کا سب سے بڑاسبب ایلوپیتھک ادویات کا بے باکانہ استعمال ہے۔ وہ اس خطرناک صورت حال کا  تدارک ہیومیوپیتھک طرزعلاج میں پاتے ہیں۔ مصنف نے اپنی بات آسان زبان میں اعداد وشمار‘ تصویروں‘ ڈایاگراموں اور گرافوں کی مدد سے سمجھائی ہے۔ گوناگوں امراض سے نجات اور صحت مند زندگی آج کا بنیادی مسئلہ ہے‘ اس کے حل میں یہ کتاب مدد دیتی ہے۔ ( رفیع الدین ہاشمی )


خواتین اسلامی انسائیکلوپیڈیا ‘ابوالفضل نوراحمد۔ پتا: بی ۲۵‘ نیشنل آٹوپلازہ‘ مارسٹن روڈ‘ عقب رمپا پلازہ‘ کراچی-۷۴۴۰۰۔ صفحات: ۷۰۳ (بڑی تقطیع)۔ قیمت: ۳۵۰روپے۔] کتاب منشورات‘ منصورہ‘لاہور سے بھی دستیاب ہے[۔

مصنف کہتے ہیں کہ ’’اس وقت اسلامی فکر کی ترویج کے لیے مختلف محاذوں پر کوششیں ہو رہی ہیں‘ اس کتاب کے ذریعے ہم بھی ان کوششوں میں شریک ہو رہے ہیں۔ اس کتاب میں اسلام کے بنیادی ارکان وآثار کی قرآنی فکر کی روشنی میں ایسی تفصیل شامل کی گئی ہے جو عبادات سے لے کر اخلاقیات تک اور سماجیات سے لے کر اقتصادیات تک تمام شعبوں میں مسلمانوں کی عملی طور پر رہنمائی کر سکے‘‘ (ص ۲۷)۔ کتاب کے موضوعات و مباحث کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ نام کی مناسبت سے عورت اور خاندان سے متعلق چھوٹے بڑے امور و مسائل پر اسلامی نقطۂ نظر سے معلومات مہیا کی گئی ہیں۔ پہلا حصہ: ایمانیات‘ آثار اسلام‘ دوسرا: اخلاقیات اور معاشرت‘ تیسرا: ازدواجی زندگی کے شرعی مسائل‘ چوتھا: خواتین کی صحت‘ پانچواں: بچوں کی صحت و تربیت‘ چھٹا: عام صحت‘ احتیاط و علاج‘ ساتواں: متفرقات۔ اس طرح ہر موضوع پر تفصیل سے چھوٹی چھوٹی جزئیات مہیا کی گئی ہیں حتیٰ کہ دیمک کوختم کرنے کا طریقہ‘ تنگ جوتے کوٹھیک کرنے کا طریقہ اور چوہوں کو بھگانے کا طریقہ بھی--- وغیرہ۔

اس کتاب سے ذہن  بہشتی زیورکی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ مصنف معترف ہیں کہ انھوں نے روشن فکر علما کی تحریری خدمات سے، ’’پھولوں کا انتخاب کر کے ایک گلدستہ سجایا ہے‘‘۔ فقہی سوالات کے جواب‘ عرب نیوزمیں شائع ہونے والے عادل صلاحی کے جوابات سے لیے گئے ہیں (جو اسلامی طرز فکر کے عنوان سے کتابی صورت میں بھی شائع ہو چکے ہیں) ۔ بہرحال اس کتاب کی جامعیت میں کلام نہیں‘ اور افادیت بہت وسیع ہے۔یہ بکثرت اور بار بارپڑھی جانے والی کتاب ہے‘ مگر اس کی جلد مضبوط نہیں ہے۔ (ر-ہ)

تعارف کتب

  • Speeches for An Inquiring Mind ]ایک متجسس ذہن کے لیے چند تقریریں[‘ امتیاز احمد۔ الرشید پرنٹرز‘ پوسٹ بکس نمبر۱۱۰۱‘ مدینہ منورہ۔ صفحات: ۱۶۲۔ قیمت: درج نہیں۔ مفت تقسیم کے لیے اسے مصنف کی اجازت کے بغیر بھی طبع کیا جا سکتا ہے۔ ] مولف ۲۶ سال امریکہ میں مقیم رہے۔ تعلیم و تدریس سے وابستگی ‘ مضمون فزکس دعوت اور خطباتِ جمعہ کے سلسلے میں وہاں پیش آمدہ تجربات کی روشنی میں ۲۹ موضوعات پر چھوٹے چھوٹے مضامین‘ جو خطبوں‘ تقریروں اور عمومی مطالعے کے لیے مفید و معاون۔ ہر موضوع پر بات قرآن و حدیث کے حوالے سے۔ چندموضوعات: تقریب نکاح‘ غیر مسلموں سے دوستی‘ قسمت اور تقدیر‘ لیلۃ القدر‘ مرد و زن کے فرائض‘ معراج‘ قبلہ‘ برزخ‘ حیات بعدالممات‘ حلال وحرام‘ گناہ کبیرہ و صغیرہ‘ ماہ شعبان‘ تجسس‘ غیبت‘ بدگمانی‘ مریم‘ حضرت ابراہیم ؑکی آزمایشیں--- طباعت معیاری ۔ اپنے موضوع پر بہت عمدہ چیز۔[
  • ذوقِ بیان‘ صاحبزادہ طارق محمود۔پتا: مکتبہ سید احمد شہید‘اردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۳۸۴۔ قیمت: ۱۷۵ روپے۔]۳۰ دینی موضوعات پر خطباتِ جمعہ کا مجموعہ‘ مثلاً بسم اللہ کی فضیلت‘ نماز‘ فضائل مکّہ ومدینہ‘ اتحاد اُمت‘ آخری عشرہ‘ صلح حدیبیہ‘ والدین کے حقوق‘ زکوٰۃ‘ قربانی‘ ختم نبوت‘ قادیانی غیرمسلم کیوں وغیرہ[
  • ستاروں سے آگے‘ سلطان فریدی۔ناشر: اذانِ سحر پبلی کیشنز‘ ۴۲ چیمبرلین روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۱۱۲۔ قیمت: ۴۵روپے۔] کسی دوسرے کے مصرعے پر اپنا مصرع یا بند لگانا ’’تضمین‘‘ہے۔ سلطان فریدی نے علامہ اقبال کی منتخب نظموں کو متضمن کیا ہے‘ مثلاً:    ؎

ساری زمیں ہماری‘ کل آسماں ہمارا
کوہ و دمن ہمارے‘ ہر گلستاں ہمارا

صحرا یہاں ہمارا‘ دریا وہاں ہمارا
’’چین و عرب ہمارا‘ ہندوستاں ہمارا

مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘

ایک جذبہ اخلاص ومحبت کے ساتھ اورانکسارانہ ‘تضامینِ اقبال کے ذخیرے میں قابلِ قدر اضافہ ہے۔[

  •  عالم گیر اُمت اور فرقہ بندی‘ محمد نواز۔ ناشر: راوی پبلشرز‘ ۱۶- الفضل مارکیٹ‘ ۱۷ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۷۶۔ قیمت: ۳۰ روپے۔ ] اہل حدیث اور احناف میں دین کی بنیادوں میں فروعی مسائل میں تاویل و تعبیر کا اختلاف ہے۔ سقوطِ خلافتِ راشدہ ‘ملوکیت کے غلبے اور معتزلہ کی عقل پرستی نے فرقوں کو فروغ اور فتنوں کو ہوا دی۔ محدثین‘ فقہا اور اہلِ تصوف کی کاوشیں بھی کارگر نہ رہیں۔ آج مسالک تو بہت ہیں مگر اقامت دین‘ فریضۂ شہادتِ حق‘اسلامی حکومت کے قیام اور اُمت مسلمہ کے عالمی منصب ِ اقامت کی بحالی جیسے مقاصد و اہداف کا کہیں نام و نشان نہیں--- قرآن اور سیرتِ طیبہ کی روشنی میں اصولی اور عالمانہ بحث۔[
  •  یادیں‘ نذیر حسین۔ ناشر: کلاسیک ‘۵۴۲ شاہراہ قائداعظم‘ لاہور۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔ ] ایک میڈیکل ڈاکٹر کے بے ساختہ ’’احساسات‘ کیفیات اور جذبات‘‘۔ ’’حقیقت کی تلاش ‘ عشق رسولؐ کی جھلکیاں‘ معاشرتی ناہمواریاں‘ منافقت سے نفرت‘ عہدحاضر کی ناقدری ‘انسانی اقدار و روایات کی ٹوٹ پھوٹ‘ ہجر‘ وصال‘ دکھ‘ درد جیسے موضوعات‘‘ پر سیدھی سادی نظمیں اورغزلیں۔[
  •  سوانح حضرت مولانا مفتی محمود‘ مولانا عبدالقیوم حقانی۔ ناشر: القاسم اکیڈمی‘ جامعہ ابوہریرہ‘ برانچ پوسٹ آفس خالق آباد‘ نوشہرہ (صوبہ سرحد)۔ صفحات: ۳۳۶۔ صفحات: ۱۲۰ روپے۔ ] مولانا مفتی محمودؒ کی شخصیت‘ پاکستان کے دینی اور سیاسی حلقوں میں محتاجِ تعارف نہیں۔ ان کی عمر دینی علوم کی تدریس میں گزری‘ جمعیت العلما اسلام کے ممتاز رہنما اور صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ رہے۔ ۱۹۷۷ء کی بھٹو مخالف تحریک میں‘ تین رکنی وفد کے قائد کی حیثیت سے انھیں بین الاقوامی شہرت ملی۔ زیرنظر سوانح میں ان کے اوصافِ حمیدہ‘ علمی عظمت‘ فقروقناعت اور دیگر گوناگوں شخصی خوبیوں کو اجاگر کیا گیا ہے جو اپنی جگہ بہت خوب ہیں۔ لیکن اس سے ان کی ذہنی نشوونما اور سیاسی زندگی کی تفصیل اور اس کے نشیب و فراز کی پوری عکاسی نہیں ہوتی۔ بہرحال عقیدت مندانہ انداز میں مولانا مفتی مرحوم کی شخصیت کا یہ ایک عمدہ مرقع ہے۔[

 

جماعت اسلامی کی دستوری جدوجہد ‘میاں طفیل محمد(مرتبہ: فیض احمد شہابی)۔ ناشر: ادارئہ معارف اسلامی‘ منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۳۰۳۔ قیمت: ۱۳۵ روپے۔

زیرنظر کتاب میں دستور پاکستان کی تدوین کے سلسلے میں جماعت اسلامی کی جدوجہد کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ ہماری دستور ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد کی منظوری (۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء) سے پارلیمنٹ میں آٹھویں ترمیم کی منظوری (۳۱ اکتوبر ۱۹۸۵ء) تک‘ دستورسازی کے مختلف مراحل اور مختلف دساتیر میں کی جانے والی ترمیمات کا احاطہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ دستورسازی کے ضمن میں ہونے والی ہمہ نوع کوششوں میں جماعت اسلامی سرگرم طریقے سے فعال رہی ہے۔

جماعت کی دستوری جدوجہد کی یہ تاریخ مربوط ہے اور مبسوط بھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مصنف ابتدا ہی سے جماعت سے وابستہ اور جماعت کے اہم عہدے دار رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ سندیافتہ وکیل ہونے کی وجہ سے قانون اور اس کے مضمرات کا بھی بخوبی ادراک رکھتے ہیں۔ دستور کو اسلامی خطوط پر مدون کرانے کے لیے جماعت کی جدوجہد کی پوری تاریخ ان کے سامنے ہے‘ اور اس جدوجہد میں وہ خود بھی عملاً شریک رہے۔ چنانچہ ہم اس کتاب کے مندرجات کی ثقاہت پر بخوبی اعتبار کر سکتے ہیں۔

بتایا گیا ہے کہ دستور پاکستان کو قرآن و سنت کی بنیاد پر مدون کرانے کی جدوجہدکا آغاز جماعت اسلامی نے قیام پاکستان سے تین مہینے پہلے سے ہی کر دیا تھا۔ ابھی تقسیم ہند کے سلسلے میں لارڈ مائونٹ بیٹن کا اعلان نہیں ہوا تھا کہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے‘ قیام پاکستان کے امکان کو اپنی چشم بصیرت سے دیکھا اور ۹مئی ۱۹۴۷ء کو جماعت کے مرکز دارالاسلام پٹھان کوٹ میں جماعت کے ایک اجتماع میں پاکستان کے لیے اپنے اس منصوبے کا اعلان کر دیا کہ ہم کوشش کریں گے کہ اس ریاست کے دستور کی بنیاد ان اصولوں پر رکھیں جسے ہم خدائی دستور کہتے ہیں (ص ۱۶)۔ پھر جب وطن عزیز وجود میں آگیا تو جماعت نے اپریل ۱۹۴۸ء میں چار نکاتی مطالبۂ نظام اسلامی پیش کر دیا۔ یہ کوشش اولاً قرارداد مقاصد کی شکل میں ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء کو بارآور ہوئی۔

جماعت اور اس کی ہم خیال دیگر دینی جماعتوں اور اسلام پسند شخصیات کی مسلسل جدوجہد کی وجہ سے  ۱۹۵۲ء کی دستوری سفارشات میں‘ ۱۹۵۴ء میں دستور ساز اسمبلی کے منظور کیے ہوئے آئین میں‘ ۱۹۵۶ء  اورکسی حد تک ۱۹۶۲ء اور ۱۹۷۳ء کے دساتیر میں‘ اور پھر ۱۹۸۵ء کی آٹھویں ترمیم میں اسلامی دفعات باقی رکھی گئیں جنھیں لادینیت پسند حکمران بھی خارج نہ کر سکے۔ لادینیت پسند حکمرانوں اور لادینی جماعتوں نے آئین کو سیکولر رنگ دینے کی جو سرتوڑ کوششیں کیں ان کا تذکرہ بھی اس میں موجود ہے بالخصوص راجا غضنفرعلی خاں‘ اسکندر مرزا‘ ایوب خاں‘ یحییٰ خاں‘ بھاشانی‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ یا کمیونسٹ و سوشلسٹ پارٹیاں وغیرہ۔ جن دوسری شخصیات نے اسلامی دستور کی تدوین میں جماعت کے علاوہ سرگرم حصہ لیا ان میں اس کتاب کے مطابق مولانا شبیراحمد عثمانی‘ مولانا ظفر احمد انصاری‘ مولوی تمیزالدین خاں‘ سردار عبدالرب نشتر‘ چودھری محمد علی‘ ۲۲ نکاتی سفارشات تیار کرنے والے ۳۱ علما‘ جمعیت علماے  اسلام‘جمعیت علماے پاکستان‘ مرکزی جماعت اہل حدیث اور شیعہ علما بھی شامل تھے۔

مگر اس وقیع کتاب میں یہ بات ناقابل فہم نظر آتی ہے کہ نفاذ اسلام کے لیے صدر ضیا الحق کی کوششوں کو قریب قریب نظرانداز کر دیا گیا ہے حالانکہ انھوں نے ایک دو نہیں بلکہ ۵۰سے زائد اقدامات کیے جن میں سے متعدد اقدامات آج تک باقی ہیں اور جیتی جاگتی حالت میں نظر آتے رہتے ہیں۔

کتاب اشاریے سے محروم ہے۔ امید ہے کہ آیندہ اشاعت میں ان دونوں کمیوں کو دُور کرنے کی طرف توجہ دی جائے گی۔ (ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن صدیقی)


مستشرقین اور قرآن حکیم‘ سہ ماہی مغرب اور اسلام (خصوصی اشاعت ‘جنوری- مارچ ۲۰۰۲ء)۔ مدیر: ڈاکٹر انیس احمد۔ معاون مدیر: سید راشد بخاری۔ ناشر:انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘ مرکز ایف ۷‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۱۰۰۔ قیمت: ۴۰ روپے۔

ماہ و سال بدلتے ہیں‘ مگر زمانہ نہیں بدلتا کہ وہ اللہ کی نشانی اور ایک سچائی ہے۔ زمانۂ قدیم سے لے کر آج تک انسان میں اللہ تعالیٰ کی کبریائی کو ماننے اور اس کی ربوبیت سے انکار کرنے کے رویے باہم برسرپیکار رہے ہیں‘ اور یہ عمل تاابد جاری رہے گا۔

نزول قرآن کے وقت‘ اہل کفارجو اعتراض کیا کرتے تھے‘ آج جیٹ‘ کمپیوٹر اور ایٹم کے زمانے میں بھی انھی اعتراضات کو دہرایا جاتا ہے۔ ان اعتراضات کا قرآن کریم نے اپنے نزول کے وقت جواب دے دیا تھا۔ آج پھر یہود و نصاریٰ اور ان کے ہم خیال دانش ور‘ قرآن کریم کی سچائی اور پیغام کی ابدیت کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس حوالے سے وقتاً فوقتاً مختلف شوشے چھوڑے جاتے اور اعتراضات کا نیا طوفان برپا کیا جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں اہل مغرب نے قرآن کریم کی استنادی حیثیت کو چیلنج کرنے کے لیے اپنی حد تک’’بھرپور حملہ‘‘ کیا۔

سہ ماہی  مغرب اور اسلام نے اس اعتراض کو من و عن پیش کر کے اس کے تضادات اور دلائل کے ہلکے پن کو بڑی وضاحت اور مفصل نظائر کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس ضمن میں ٹوبی لسٹر کے مضمون ’’قرآن کیا ہے‘‘ میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ قرآن کو ہدف بنانے کا مقصد کیا ہے؟ ہدف بنانے کی تاریخ اور طریقہ واردات کیا ہے؟ ڈاکٹر انیس احمد نے اپنے ادارتی مضمون میں‘ اہل ایمان کے لیے غوروفکر کے نکات اُبھارے ہیں‘ اس کے علاوہ ڈاکٹر محمد مصطفیٰ الاعظمی کے نہایت وقیع مقالے کا اُردو ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔ ممتاز ماہر تعلیم اور پنجاب یونی ورسٹی اورینٹل کالج کے پرنسپل پروفیسر محمد اکرم چودھری نے قرآنی قرأت میں اختلاف کے مسئلے کی نوعیت کو بڑی محنت و کاوش سے متعین کیا ہے۔ علاوہ ازیں ڈاکٹرمونٹ گمری واٹ نے اپنے ہم قبیلہ مستشرقین کی وارداتوں کا اعتراف کیا ہے۔

اس وقت اسلام دشمن قوتیں‘ رسالت مآبؐ کی عفت‘ قرآن کریم کی مسلمہ حیثیت اور مسلمان عورت کے مقام و مرتبے کو ہدف بنائے ہوئے ہیں۔ ان موضوعات پر یورپی زبانوں میں تحریروں اور کتابوں کا ایک سیلاب آیا ہوا ہے۔ ہمارا دین دار طبقہ اپنی اپنی خانقاہوں اور آستانوں میں فکر جہاں سے بے نیاز ہوکر اپنی ہی دنیا میں مگن ہے اور اس سیل بلاخیز سے بالکل بے خبر ہے۔ کیا یہ بے خبری اور لاتعلقی آخرت میں نجات کا ذریعہ بن جائے گی؟ اس سوال پر غوروفکر‘ مشائخ عظام اور علماے کرام کے ذمے ہے۔

تاہم‘ جدید درس گاہوں سے نکلنے والے وہ اصحاب ایمان‘ جن کے دلوں میں ایمان اور غیرت دینی کی کچھ رمق باقی ہے‘وہ اپنی قوت مجتمع کر کے اپنی سی قلمی جنگ میں مصروف ہیں‘ اور دیکھنے والے جانتے ہیں کہ ان کا قلم: ایمان‘ غیرت اور حمیت کے اس میزان پر پورا اُترتا ہے۔

مغرب اور اسلام کا یہ تازہ شمارہ ’’مستشرقین اور قرآن‘‘ کے موضوع پر ایک خصوصی اشاعت پر مشتمل ہے‘ جس کے مضامین عام مسلمانوں اور خاص طور پر علماے کرام اور ابلاغیات و اسلامیات سے متعلق اہل دانش کے لیے سرمۂ بصیرت ہیں۔ اس اشاعت پر ڈاکٹر انیس احمد اور معاون مدیر سید راشد بخاری‘ اسلامیانِ عالم کے شکریے کے مستحق ہیں۔ (سلیم منصور خالد)


شوقِ حرم‘ عتیق الرحمن صدیقی۔ ناشر: نور اسلام اکیڈیمی‘ رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات:۱۰۰۔ قیمت: ۴۵ روپے۔

حج کا سفر ہو یا عمرے کا ‘ حرمین شریفین کا ہر زائر ایک خاص کیفیت سے دوچار ہوتا ہے مگر سبھی زائرین کے محسوسات یکساں نہیں ہوتے۔ اپنے اپنے مزاج اور افتاد طبع کے باعث ہر زائر ایک جداگانہ تجربے سے گزرتاہے‘ زیارت حرمین کے سیکڑوں سفرنامے یا رودادِ مشاہدات انھی متنوع تجربات کے مرقع ہیں۔

عتیق الرحمن صدیقی حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے۔ اس مقدس سفر کی روداد لکھتے ہوئے‘ ذاتی محسوسات و تاثرات کے ساتھ‘ وہ حج کے ہر ہر مرحلے کا تاریخی اور دینی پس منظر کا بیان بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ بعض اوقات وہ اپنے جذبات کو علامہ اقبالؒ کے اشعار کی زبان دیتے ہیں‘ کبھی اوراقِ تاریخ کی شہادت پیش کرتے ہیں اور کبھی تاثرات حج لکھنے والوں کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ اس طرح اپنے احساسات کو انھوں نے ’’گفتہ آید در حدیث دیگراں‘‘ کے طریقے سے پیش کیا ہے۔انھوں نے کئی جگہ حجاج کی تربیت اور حج کے انتظامات کو بہتر بنانے کے لیے مفید تجاویز بھی دی ہیں۔ حافظ محمد ادریس صاحب نے مقدمے میں بجاطور پر کہا ہے کہ یہاں ’’جذب دروں بھی ہے‘ شوق زیارت بھی۔ مقاماتِ مقدسہ کے ساتھ عقیدت و محبت بھی ہرسطر سے جھلکی پڑتی ہے۔ اور اس کے ساتھ حدود و آداب و شریعت کو بھی مکمل احتیاط کے ساتھ ملحوظ رکھا گیا ہے۔ مصنف کی عمر معلمی میں گزری‘ سو جہاں افراتفری یا دھکم پیل کا روح فرسا منظر سامنے آتا ہے یا بعض حجاج ترش رو اور سنگ دل بن جاتے ہیں (ص ۲۸‘ ۲۹) صدیقی صاحب رنجیدہ و افسردہ ہو جاتے ہیں۔

اشاعت و طباعت معیاری ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)

]اسلام میں حزب اختلاف کا کردار [

The Role of Opposition in Islam

]آنحضورؐ کے اعلیٰ اخلاق[

Prophet Muhammad's High Manners

Keeping Promises and Repaying Debt in Islam

]اسلام میں ایفاے عہد اور قرض کی واپسی[

]اسلام میں یاوہ گوئی اور غیبت کی ممانعت[

Islam Bans Gossip And Backbiting


مصنف‘ اسدنمر بصول۔ ناشر: دی قرآن سوسائٹی‘ شکاگو۔ صفحات: علی الترتیب‘ ۱۵۷‘ ۱۹۸‘ ۱۰۱‘ ۱۵۹۔ قیمت: درج نہیں۔

یہ چاروں کتابیں ۱۹۹۸ء‘ ۱۹۹۹ء میں شائع ہوئی ہیں۔ ان کے موضوعات تبلیغی اور دعوتی ہیں۔ مصنف فلسطینی ہیں جنھوں نے تل ابیب کی ہبریو یونی ورسٹی سے اسلامی تاریخ اور عربی لٹریچر میں ایم اے کے بعد یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ اس وقت وہ امریکہ کے اسلامک کالج شکاگو میں پروفیسر ہیں۔ ان کی ۲۵ سے زائد کتب شائع ہو چکی ہیں۔

’’آنحضورؐ کے اعلیٰ اخلاق‘‘ میں ۲۱ عنوانات کے تحت آپؐ کی اخلاقی صفات کا تذکرہ ہے۔ مظلوموں کی مدد سے لے کر حس مزاح تک۔ ’’اسلام میں حزب اختلاف کا کردار‘‘ دراصل حضرت عمرؓ کے حالات زندگی کا مطالعہ ہے لیکن تقریباً نصف کتاب (۹۷ صفحات) میں مصنف نے اُمت مسلمہ کو یہ سمجھایا ہے کہ وہ کسی بادشاہ کی مملکت یا رعایا نہیں‘ بلکہ اللہ تعالیٰ کی رعایا ہیں۔ رسولؐ اللہ کے زمانے سے بنواُمیہ کے دور تک کا جائزہ لیا ہے کہ کس طرح صحابہؓ کرام ہر منکر کے خلاف کھڑے ہوتے رہے۔ رسولؐ اور اصحاب کے دور میں سیاسی نظام میں مشورے پر کتنا عمل رہا۔ اسلام میں اس طرح کی حزب اختلاف نہیں کہ لازماً حکومت کی ہر پالیسی کی مخالفت کرے بلکہ انفرادی طور پر ہر غلط بات کے خلاف کھڑے ہونے کا طریقہ رہا ہے۔ پھر حضرت عمرؓ کے دور کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔

آخری دو کتابیں معاملات کے حوالے سے اہم موضوعات پر ہیں‘ یعنی غیبت و بہتان‘ وعدے کا ایفا اور قرض کی ادایگی۔ اس حوالے سے ہمارے معاشرے میں اتنا بگاڑ ہے کہ اس کی جتنی تذکیر کی جائے‘ کم ہے۔ مصنف کا انداز بیان سادہ ہے۔ عام آسان انگریزی ہے۔ آیات‘ احادیث‘ سیرت رسولؐ اور سیرت صحابہؓ سے واقعات لیے گئے ہیں۔ آیات و احادیث کے عربی متن اعراب کے ساتھ حوالوں کے ساتھ دیے گئے ہیں۔ قیمت درج نہیں۔ویسے بھی ڈالروں کے دیس کی ایسی تبلیغی کتاب روپوں میںتو فروخت نہیں کی جا سکتی۔ (مسلم سجاد)


اُردو ڈائجسٹ ‘ سیاحت پاکستان نمبر ‘ ناشر: الطاف حسن قریشی‘ سمن آباد‘ لاہور۔ صفحات: ۴۰۰۔ قیمت: ۵۰روپے۔

سیر وسیاحت اسلام کے آفاقی مزاج سے مناسبت رکھتی ہے۔ اسلام کی تہذیبی اور تمدنی تاریخ میں ہمیں مسلم سیاحوں کی کثیر تعداد ملتی ہے۔ مسلمان‘ دنیا میں جہاں بھی گئے انھوں نے اسی سرزمین کو اپنا وطن بنالیا۔ اطرافِ عالم میںاسلام کے پھیلائو کا ایک اہم سبب مسلمانوں کا یہی ہجرتی رویہ ہے‘ لیکن ہمارے ہاں سیروسیاحت بطور ایک رویے کے یا معمول حیات کے رواج نہیں پا سکی۔ کیا پابہ گل رہنے کا یہ رویہ ہندو تہذیب سے اثرپذیری کا نتیجہ ہے؟

اُردو ڈائجسٹ کا زیرنظر خاص نمبر ہمیں وطن عزیز کی اُن وادیوں‘ صحرائوں اور میدانوں اور مختلف علاقوں کی تاریخ‘ تمدن‘ عمارتوں اور شاہراہوں سے روشناس کراتا ہے جن سے ہم میں سے بیشتر لوگ بے خبر ہیں۔ اس میں بعض چھوٹے بڑے شہروں (لاہور‘ کراچی‘ کوئٹہ‘ ملتان‘ پشاور‘ بہاول پور‘ بھیرہ‘ چنیوٹ) کے ساتھ ساتھ بعض علاقوں (پوٹھوہار‘ تھر‘ آزاد کشمیر) اور بعض قدیم تہذیبوں کے مراکز (موہنجوڈرو ‘ ٹیکسلا‘ ہڑپہ) اور اس کے ساتھ شمالی علاقوں کی حسین و جمیل وادیوں‘ دریائوں‘ جھیلوں‘ پہاڑوں اور ان کی ڈھلانوں پر اُگے جنگلوں کا تذکرہ ہے۔ بعض مضامین تحقیقی اور معلوماتی ہیں۔ چند ایک سفرنامے ہیں اور کچھ تصاویر۔ یوں بڑے متنوع انداز و اسلوب میں کراچی اور گوادر کے ساحلوں سے لے کر اسکردو اور ہنزہ سے آگے برفانی چوٹیوں اور کاغان اور سوات کے دل فریب علاقوں اور وادیٔ کیلاش تک کی سیر کرائی گئی ہے۔

نئے پرانے مختصر اور طویل مضامین کا یہ مجموعہ ہمیں  سیروا فی الارض کی پُرزور دعوت دیتا ہے۔  خیال آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت خاص سے نوازتے ہوئے ہمیں ایک حسین و دل کش خطہء زمین عطا کیا ہے لیکن--- ذرا سوچیے تو--- ہم اس کی ناقدری کے مرتکب تو نہیں ہو رہے؟ (ر-ہ)

تعارف کتب

  •  ماہنامہ الحق‘ خاص اشاعت بہ عنوان: اکیسویں صدی کے چیلنجز اور عالم اسلام‘ مدیر: مولانا سمیع الحق۔ ناشر: جامعہ دارالعلوم اکوڑہ خٹک۔ صفحات: ۲۷۹۔ قیمت: ۸۰ روپے۔]ایک اہم موضوع پر تقریباً ۳۰ اہل قلم‘ علما‘ دانش وروں اور ماہرین تعلیم و سیاست کے مضامین۔ اکیسویں صدی میں پیش آمدہ خطرات اور مسائل کا ذکر اور ان سے عہدہ برا ہونے کے لیے تدابیر۔ اپنے موضوع پر ایک اچھی قابل قدر پیش کش۔[
  •  Reminders for People of Understanding ]سمجھ دار لوگوں کے لیے یاد دہانی[۔ امتیاز احمد: ناشر: الوحید پرنٹرز‘ پوسٹ بکس  ۹۴۲۱‘ مکہ مکرمہ۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: کچھ نہیں(مفت تقسیم کی گئی)۔ ]مختلف موضوعات پر منتخب قرآنی آیات‘ ترجمہ اور توضیحات۔ مسجد نبویؐ کے ادب آداب‘ عمارت کے مختلف حصوںکا ذکر اور تفصیل--- بلااجازت چھاپنے کی اجازت ہے۔[
  •  قائداعظم اور بلوچستان ٭ قائد‘ بلوچستان میں ٭ قائداعظم‘ علی گڑھ تحریک اور بلوچستان ٭قائداعظم‘ تحریک پاکستان اور صحافتی محاذ‘ پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق کوثر‘ ناشر: سیرت اکادمی بلوچستان ‘۲۷۲‘ اے او بلاک III‘ سیٹلائٹ ٹائون‘ کوئٹہ۔ صفحات: (علی الترتیب) ۸۸‘ ۵۵‘ ۹۰‘ ۱۱۱۔ قیمت: ۴۰‘ ۳۰‘ ۴۰‘ ۶۰ روپے۔ ]بلوچستان سے قائداعظم کے ہمہ پہلو تعلق‘ وہاں آمد‘ تقاریر‘ ملاقاتیں‘ علی گڑھ کے تعلیم یافتہ بلوچی حضرات کی یادداشتیں بہ سلسلہ تحریک پاکستان‘ بلوچستان کی صحافت میں ذکر قائد اور تحریک پاکستان کی تفصیل--- دلچسپ‘ لائق مطالعہ اور معلومات افزا کتاب ہے۔ مولف قابل قدر ملّی اور پاکستانی جذبے سے سرشار ہیں۔[
  •  خانوادئہ نبویؐ کے فضائل و مناقب‘ مصنف: ڈاکٹر عبدالمعطی امین قلعہ جی‘ ترجمہ: ڈاکٹر محمود الحسن عارف۔ ناشر: مطبع ادب اسلامی ‘ ۱۷/۲‘ رحمن پارک‘ گلشن راوی‘ لاہور۔ صفحات: ۲۶۴۔ قیمت: ۱۱۰ روپے۔]حضرت علیؓ، حضرت فاطمۃ الزہرا  ؓ‘ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے فضائل و مناقب احادیث نبویؐ کی روشنی میں۔[

Chechnya: Politics and Reality  ]چیچنیا: سیاسیات اور حقائق[ ‘ ذیلم خاں یندربی۔ ناشر: الدعوۃ الاسلامیہ و انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز‘ پشاور۔ صفحات: ۱۶۹۔ قیمت: درج نہیں۔

ذیلم خاں یندربی‘ چیچنیا کی جنگ آزادی کے صف اول کے مجاہد اعظم ہیں۔ روسی اور چیچن زبان کے شاعر و ادیب اور چیچنیا کی پہلی سیاسی پارٹی ’’وائی ناخ‘‘ کے بانی ہیں۔ جمہور اشکیریہ کے نائب صدر اور صدر بھی رہ چکے ہیں۔ عالم اسلام کے مسائل اور بین الاقوامی اداروں کی مسلم دشمنی اور چیچنیا میں روسیوں کے عزائم پر اُن کی گہری نظر ہے۔یہ تصنیف ان کے مختلف مضامین اور نظموں کا مجموعہ ہے جو اُن کی علمی بصیرت اور انسانی درد و جذبات و احساسات کی عکاسی کرتی ہے۔

کتاب کا آغاز چیچنیا کی مختصر تاریخ‘ جغرافیے اور وسائل سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد چیچنیا کے مسلمانوں کی روسی مظالم کے خلاف مزاحمت کے ۴۵۰ سالہ جہاد کا تذکرہ ہے‘ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ جدوجہد آزادی دراصل شیخ منصور‘ امام شامل اور عبدالرحمن ‘کے روسی ظلم و وحشت کے خلاف جہاد کے تسلسل کی ایک کڑی ہے۔ اور یہ کہ چیچن عوام نے کبھی بھی روسی استعمار کو تسلیم نہیں کیا۔ روسیوں نے چیچنیا کی تحریک آزادی کو عارضی طور پر دبایا ہے لیکن اسے کچلنے میں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔

مصنف تفصیل سے تذکرہ کرتے ہیں کہ روسی ایک وحشی قوم ہے جس میں انسانی ہمدردی اور ایفاے عہد کا کوئی تصور نہیں ہے۔ ۱۲ مئی ۱۹۹۷ء کو روسی صدر یالتسن اور جمہوریہ اشکیریہ کے صدر ارسلان مسعودوف کے مابین امن و سلامتی کا معاہدہ ہوا تھا۔ لیکن اس معاہدے پر دستخط کے چند روز بعد ہی روسی افواج نے بلاجواز چیچنیا پر ظالمانہ حملہ کیا اور چنگیز و ہلاکو کے مظالم کی یاد تازہ کی۔ خواتین کی عصمت دری کی‘ بوڑھوں اور بچوں کا قتل عام کیا۔ گائوں کے گائوں صفحہ ہستی سے نیست و نابود کر دیے۔تعلیمی اداروں‘ عجائب گھروں‘ کارخانوں اور پٹرولیم کی تنصیبات کو تباہ و برباد کر دیا۔

روسی افواج کے مقابلے کے لیے خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ جس جواں مردی کا مظاہرہ کیا اور جو قربانیاں دیں ان کی نظیر عہدجدید میں نہیں ملتی۔ مسلمان قیدیوں کو اذیت ناک طریقے سے روسی جیل خانوں اور کیمپوں میں وحشی جانوروں کی طرح رکھا گیا اور بے دردی سے قتل کیا گیا۔ انسانی حقوق کے عالمی ادارے سب کچھ دیکھنے اور جاننے کے باوجود خاموش تماشائی بنے رہے۔ مصنف یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ یہی صورت حال اگر عیسائی اقلیت کے کسی مسلمان ملک میں ہوتی تو یہ ادارے شوروغل اور احتجاج کی قیامت برپا کر دیتے۔ مصنف پروفیسر ہن ٹنگٹن کے ’’تہذیبی ٹکرائو‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے ذکر کرتے ہیں کہ مغربی دُنیا کی سیاست کا محور ’’مسلمانوں کی نفرت‘‘ ہے‘ جب کہ اسلام ’’تہذیبی ٹکرائو‘‘ کے بجائے انسانی اقدار پر مبنی ’’تہذیبوں کے ملاپ‘‘ کا پیغام دیتا ہے۔ مصنف مثالیں دے کر واضح کرتا ہے کہ اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے کس طرح مغربی استعماری قوتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ لہٰذا ان سے امن و سلامتی‘ انصاف اور خیر کی توقع کرنا بے سود ہے۔

کتاب کے آخر میں چیچنیا میں جہاد اور اسلام کے موضوع پر بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب سے انکشاف ہوتا ہے کہ چیچنیا کے عوام ۴۵۰ سال سے مسلسل روسی استعمار کے خلاف مصروفِ جہاد ہیں۔ وہ دلائل کے ساتھ اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ جہاد نہ صرف مسلمانوں کے لیے حصول تقویٰ‘ آزادی اور عزت و آبرو سے رہنے کا ذریعہ ہے بلکہ دُنیا میں امن و سلامتی اور خوش حالی کا بھی واحد حل ہے۔ یہ کتاب چیچنیا میں روسیوں کے خلاف جہاد اور مغربی ممالک کی سازشوں کی بہترین پیراے میں تصویر کشی کرتی ہے جو مصنف کے ذاتی مشاہدات پر مبنی ہے اور ایک قیمتی تاریخی دستاویز ہے۔ ایک نقشہ بھی شامل ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ چیچنیا چاروں اطراف سے غیرمسلم اقوام میں گھرا ہوا ہے۔ کسی مسلم ملک کے ساتھ اس کی کوئی سرحد نہیں ملتی۔ضرورت ہے کہ اس کتاب کا اُردو ترجمہ بھی شائع کیا جائے۔ (ڈاکٹر محمد ساعد)


Economics: An Islamic Approach ‘ ]اقتصادیات: اسلام کا نقطۂ نظر[ ڈاکٹر محمدنجات اللہ صدیقی۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز ‘ اسلام آباد و دی اسلامک فائونڈیشن‘ برطانیہ: ملنے کا پتا: بک ٹریڈرز‘ بلاک ۱۹‘ مرکزF-7 ‘ اسلام آباد۔صفحات: ۹۹۔ قیمت: درج نہیں۔

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کسی تعارف کے محتاج نہیں‘ وہ اسلام اور اسلامی معاشیات پر ۱۲ سے زائد کتب کے مصنف اور مترجم ہیں۔ اسلامی معاشیات پر ان کی تحقیق و تصنیف اس زمانے سے جاری ہے جب اس موضوع پر کام کی روایت عام نہ ہوئی تھی۔ ۱۹۶۶ء میں شرکت و مضاربت کے شرعی اصول‘ ۱۹۶۸ء میں اسلام کا نظریہ ملکیت (اول‘ دوم) ۱۹۶۹ء میںغیر سودی بنک کاری سامنے آئیں اور دوسری بہت سی اہم کتب ہیں۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا یہ کام اسلامی معاشیات پر جدید انداز میں کام کرنے والوں کے لیے چشم کشا ہے اور غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔

زیرتبصرہ کتاب ان کے سات مقالوں پر مشتمل ہے۔ ان میں مصنف نے اسلامی معاشیات کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ پیش کیا ہے۔ مسلم یونی ورسٹیوں میں علم معاشیات کی تدریس‘ اس کے اہداف اور ان میں تبدیلیوں کی ضرورت واضح کر کے تجاویز دی ہیں۔ ایک باب معاشیات کے نصاب میں مطلوب تبدیلیوں پر مشتمل ہے۔ معاشیات پر مختلف نقطہ ہاے نظر اور اسلامی نقطہء نظر کا تقابلی جائزہ بھی پیش کیا گیا ہے۔

کتاب کے پیش لفظ میں پروفیسر خورشید احمد نے اس کتاب کو اسلامی معاشیات کے تعارفی کورس میں شامل کرنے کی تجویز دی ہے۔ (پروفیسر میاں محمد اکرم)


جہاد افغانستان‘ ملک احمد سرور۔ ناشر: البدر پبلی کیشنز‘ ۲۳- راحت مارکیٹ‘ اردو بازار‘ لاہور۔ صفحات:۲۴۸۔ قیمت: ۸۰ روپے۔

ملک احمد سرور کا شمار اُن نوجوان قلم کاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے افغان جہاد (۱۹۷۹ء-۱۹۸۹ء) کے مختلف معرکوں پر اپنی رپورٹوں‘ مضامین اور تجزیوں کے ذریعے روس کے استعماری کردار کو بے نقاب کیا۔

جہاد کے دوران افغان قائدین‘ کمانڈروں اور مجاہد خاندانوں سے ان کا براہ راست رابطہ رہا۔مجاہدین نے جرأتوں کی حیرت انگیز داستانیں رقم کیں‘ اور بعض خاندانوں نے بے مثل قربانیاں پیش کیں۔ مصنف نے اس طرح کے یک صد سے زائد ایسے واقعات کو سادہ الفاظ میں قلم بند کیا ہے۔ ان ایمان افروز واقعات کو پڑھ کر دو باتیں بہت نمایاں ہو کر سامنے آتی ہیں۔ ایک یہ کہ افغان قوم نے اپنی آزادی کے تسلسل کے لیے جو قربانیاں پیش کی ہیں‘ اُس کا موازنہ کسی اور قوم کی جدوجہد سے مشکل ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو لوگ ایمان‘ ہجرت‘ جہاد اور شہادت کے راستے کا انتخاب کرتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ نہ صرف زمین پر‘ بلکہ آسمان سے بھی اُن کی نصرت کرتا ہے اور آنکھوں کے سامنے معجزے رُونما ہوتے ہیں۔

زیرنظر کتاب میں جہاد کشمیر کے سلسلے میں پیش آنے والے واقعات پر بھی اور بعض تحریریں شامل ہیں۔اس کتاب کا مطالعہ نوجوانوں کے قلوب میں ایمان کا نور پیدا کرے گا۔ (محمد ایوب منیر)


مقالات تعلیم‘ پروفیسر عبدالحمیدصدیقی۔ مرتب: پروفیسر زاہداحمد شیخ۔ ناشر: اعلیٰ پبلی کیشنز‘ یوسف مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۱۶۔ قیمت: ۵۰ روپے۔

پروفیسر عبدالحمید صدیقی اہل علم و دانش کے اس کاروان شوق کے نمایاں صاحب قلم تھے جو سیدمودودی کی آغوش تربیت میں پروان چڑھے اور جنھوں نے اسلوب کی خوب صورتی اور استدلال کی قوت کو یک جا کرتے ہوئے ٹھوس علمی موضوعات پر انتہائی وقیع سرمایہ علم تخلیق کیا۔ پروفیسر عبدالحمید صدیقی نے ماہنامہ ترجمان القرآن کے اشارات و مقالات کو ایک نیا رنگ دیتے ہوئے حیات اجتماعی کے گوناگوں مسائل پر اتنا قابل قدر اور معتبر مواد فراہم کیا جو ایک طویل عرصے تک طالبان علم کی رہنمائی کرتا رہے گا۔

’’تعلیم‘‘ پروفیسر صاحب کا خصوصی موضوع ہے۔ انھوں نے اسلامی نظام تعلیم کے بنیادی اجزا کا تعین کرنے اور ان اجزا کی تحقیقی صورت گری کے حوالے سے‘ عہدنو کے مسائل سے ہم آہنگی کو خاص طور پر پیش نظر رکھا ہے۔

علم اورتعلیم کا عمل انسانی زندگی کا وہ بنیادی اور دائمی وظیفہ ہے جو بہرطور قیامت تک جاری رہے گا۔ علم کی ترویج اور تسلسل کے حوالے سے جدید ذرائع‘ نئے میکانکی اور تدریسی عوامل‘ نئے تقاضے اور نئے وسائل سامنے آتے رہیںگے۔ انسانی زندگی کے ارتقا اور سائنس کی پیہم نمو کے باعث نئے علوم بھی متشکل ہوتے رہیں گے لیکن حیات انسانی کے باطنی‘ اخلاقی اور روحانی پہلوئوں کے اعتبار سے علم کی ایک متعین صورت ہمیشہ جوں کی توں موجود رہے گی۔ انسان کچھ بھی بن جائے وہ بنیادی طور پر انسان ہے اور علوم جدید پر اس کی دسترس کے باوجود اس کی انسانیت کا تحفظ‘ دراصل اس جوہر تخلیق کا تحفظ ہے جو خالق کائنات نے اسے تفویض کیا ہے۔ یہ جوہر ہی انسانیت کی بقا اور اس کے حقیقی ارتقا کا ضامن ہے۔ اس حوالے سے ہمیں اسلام کے ان ارفع مبادی کی طرف رخ کرنا پڑتا ہے جو اسلامی ہدایات سے منور ہیں اور جن کو اپنا کر ہی انسان اس کرئہ ارضی میں ایک برتر مخلوق کی حیثیت سے اپنا کردار متعین کر سکتا ہے۔

مقالات تعلیم میں اسلامی نظام تعلیم بالخصوص دینی مدارس کے حوالے سے ایسا مواد شامل ہے جو تعلیم کے میدان میںکام کرنے والوں کی بھرپور رہنمائی کرتا ہے۔ موجودہ حالات میں یہ بحث ایک بار پھر اٹھ کھڑی ہوئی ہے کہ دینی مدارس کا کردار کیا ہونا چاہیے اور جدید علوم کی یلغار میں ان روایتی مدارس کو کس نوع کی تعلیم دینی چاہیے۔ تعلیم کے موضوع پر پروفیسر عبدالحمید صدیقی کی کچھ تحریروں پر مشتمل یہ مجموعہ ارباب اختیار کو غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔ (ڈاکٹر مشتاق الرحمٰن صدیقی)


مولانا مودودی کا سفر سعودی عرب‘ خلیل احمد حامدی‘ مرتب: اختر حجازی۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی‘ منصورہ‘ لاہور۔ صفحات: ۱۵۷۔ قیمت: ۶۰ روپے۔

استاذ خلیل احمد حامدیؒ (م: ۱۹۹۴ء) بڑے باصلاحیت اور ذی علم انسان تھے۔ انھوں نے تحریک اسلامی کے پیغام کو بلادِ عرب و افریقہ میں پھیلانے کے لیے شبانہ روز کام کیا۔ عربی زبان و ادب پر وہ اہل زبان کی سی گرفت رکھتے تھے۔ خطابت و انشا میں کمال درجے کی قدرت کے مالک تھے۔ داعی تحریک اسلامی‘ مولانا مودودیؒ کے دست راست کی حیثیت سے وہ مختلف اسفار میں مولانا مودودیؒ کے ہم رکاب رہے۔

حامدی صاحب ان اسفار کی مختصر رودادیں اشاعت کے لیے دے دیا کرتے تھے۔ یہ ۱۹۸۳ء کی بات ہے‘ تبصرہ نگار نے ایسی تمام سفری رودادیں ایک ترتیب کے ساتھ استاذ مرحوم کی خدمت میں پیش کیں‘ تاکہ وہ اپنی ڈائریوں کی مدد سے مکالمات کو زیادہ تفصیل سے مرتب کر دیں اور اشخاص و واقعات کا مختصر پس منظر بھی واضح کر دیں۔ حامدی صاحب نے اس ضخیم مسودے پر گرم جوشی سے کام شروع کر دیا تھا مگر افسوس کہ وہ مکمل نہ ہو سکا‘ تاہم ایسے ہی اسفار کا ایک حصہ اخترحجازی نے موجودہ کتابی شکل میں پیش کیا ہے۔

استاذ خلیل احمد حامدیؒ نے اپنے وسیع مطالعے کی بنیاد پر: تاریخ‘ ادب‘ مشاہدے اور جذبے کو اس تحریر میں سمود یا ہے‘ مثلاً انھوں نے سعودی سرزمین پر امریکی کمپنیوں کی تلاشِ تیل کی سرگرمیوں کے نقطۂ آغاز کو مختصراً (ص ۵۲-۶۳) بیان کیا ہے۔ ۱۹۶۰ء کی اس تحریر میں یہ بھی بتایا ہے: ’’آرامکو (امریکی تیل کمپنی) کی جس کائنات کا ہم تذکرہ کر رہے ہیں‘ اس کی حیثیت ایک مستقل ریاست کی ہے۔ اگر امریکہ کی ۴۸ ریاستیں امریکہ میں پائی جاتی ہیں تو سعودی عرب کا مشرقی صوبہ امریکہ کی ۴۹ ویں ریاست ہے‘ بلکہ شرق اوسط پر امریکہ کی ۴۸ ریاستیں اس قدر گہرا اثر نہیں ڈال رہی ہیں‘ جس قدرگہرا اثر یہ ۴۹ ویں ریاست ڈال رہی ہے‘‘ (ص ۶۵)۔ اخوان المسلمون کی خدمات کا تذکرہ ان لفظوں میں کیا ہے: ’’اخوان المسلمون نے اپنی کمزوریوں کے باوجود اس دور میں عرب ممالک کے اندر وہ کام کیا ہے جو زہاد و اتقیا سے بن نہ پڑا۔ طریق انبیا کا نام لے لینا تو بہت آسان ہے‘ مگر انبیا کی سنت کے مطابق راہ خدا میں جام شہادت نوش کرنے کے لیے کتنے مدعی تیار ہوں گے؟‘‘ (ص ۴۳)۔ ایک ہم وطن پاکستانی دوست کو وہاں سعودی لباس میں دیکھ کر اپنے احساسات کو اس طرح بیان کیا: ’’اگر پاکستانی لباس‘ اہل نجد کی نگاہ میں کھٹکتا ہے تو ان کے دل سے اس کھٹک کو پوری قوت کے ساتھ دُور کرنا چاہیے۔ کوئی قوم اپنے لباس کو دوسروں کی نگاہ میں معزز بنانا چاہتی ہو تو پہلے اسے خود اس کا احترام کرنا ہوگا‘‘ (ص ۸۰)۔ شاہ سعود نے جب مولانا مودودیؒ سے ملاقات کی تو اس وقت مجلس پر بھرپور شاہی کروفر اور دبدبہ چھایا ہوا تھا۔ حامدی صاحب نے ملاقات کا تاثر معلوم کرنے کے لیے مولانا سے پوچھا تو‘ مولانا مودودی نے فرمایا: ’’میں ظاہری نمود و نمایش کے جال میں کبھی نہیں آ سکتا۔ ]البتہ[ علمی خدمت و تعاون ہر موقع پر کرنے کے لیے تیار ہوں‘‘۔ (ص ۹۰)

کتاب میں اس نوعیت کے دلچسپ مشاہدات‘ مکالمات اور حوالہ جات جگہ جگہ سامنے آتے ہیں۔ یہ کوئی روایتی انداز کا سفرنامہ نہیں ہے بلکہ ایک بڑے انسان کی مقصدیت بھری سرگرمیوں کا عکس ہے۔ اللہ تعالیٰ حامدی صاحب کی علمی خدمات کو قبول فرمائے۔ (سلیم منصور خالد)


واردات و مشاہدات‘ عبدالرشید ارشد۔ ناشر: مکتبہ رشیدیہ‘ ۲۵ لوئرمال بالمقابل ناصرباغ‘ لاہور۔ صفحات: ۸۰۸۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

فاضل گرامی عالم دین عبدالرشید ارشد صاحب گذشتہ کئی عشروں سے بعض رسائل و جرائد میں کالم لکھتے رہے جنھیں زیرنظر کتاب میں یک جا کیا گیا ہے۔ مختلف موضوعات (عیدالاضحیٰ‘ شب خیزی‘ خواب اور ان کی تعبیر‘ گالی بکنا‘ یورپ کی نقالی وغیرہ) بعض اسفار کی روادادیں‘ بعض شخصیات (سید سلیمان ندوی‘ ابوالحسن علی ندوی وغیرہ) سے ملاقاتیں‘ متعدد اکابر بزرگوں اور علماے دین سے عقیدت‘ بیسیوں دینی‘ ملّی‘ صحافتی اور سیاسی شخصیات کے تعزیتی تذکرے اور اس کے علاوہ بہت کچھ۔ چند ایک ذاتی ڈائری کے اوراق اور مضامین (دو قسطوں میں تبلیغی جماعت پر اعتراضات کا دفاع کیا ہے)---

مولانا ارشد اچھا ادبی ذوق رکھتے ہیں۔ ان کا اسلوب سادہ و دل چسپ اور عبارت عام طور پر رواں ہے۔ قرآن و حدیث کے ٹکڑے‘ اقوال اور اردو اور فارسی کے اشعار بھی لاتے ہیں۔ ان کی تحریر ملّت کے بارے میں خیرخواہی اور دردمندی کے جذبات سے مملو ہے۔ وہ موضوع سے ہٹ کر ایک آزادانہ رو میں اِدھر اُدھر کی باتیں بھی کرتے ہیں اور انھیں خود اس کا احساس ہے: ’’یہ وارادات اِدھر اُدھر کی باتوں میں طویل ہوگئی اور واردات کا مطلب یہی ہے بس جو دل میں آتا گیا بغیر کسی ترتیب اور قاعدے کے لکھتا گیا‘‘(ص ۶۲۳)۔ ’’چند تمہیدی سطور لکھتے لکھتے کئی صفحات پرُ ہو گئے لیکن ایک بات رہی جا رہی ہے‘‘۔ (ص ۱۸۶)

وہ پاکستان کی ملّی اور قومی صورت حال پر افسردہ اور رنجیدہ ہوتے ہیں اور قوم کی معاشرتی خرابیوں‘ بے قاعدگی‘ بدنظمی اور بددیانتی پر کڑھتے ہیں۔ بتاتے ہیں کہ ایک دن سید سلیمان ندوی مرحوم آزردہ بیٹھے ہوئے تھے۔ کسی نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ اس قوم کے انجام سے ڈرتا ہوں کہ اس کو آزادی مل گئی لیکن اس کی تربیت نہیں ہوئی۔ (ص ۳۰)

اختصار و اجمال تحریر کی خوبی ہے۔ اگر مصنف مطالب و مفاہیم کو برقرار رکھتے ہوئے بیانات کو مختصر کر دیتے تو کتاب اس سے بھی زیادہ دل چسپ اور باعث ِ افادیت ہوتی۔ بایں ہمہ یہ معلومات کا ایک خزانہ ہے۔ مصنف نے ۳۰‘ ۴۰ سالہ پرانی تحریروں پر نظرثانی بھی کی لیکن سید سلمان ندوی کے بارے میں اس جملے (آج کل کسی غیر ملک میں کسی یونی ورسٹی میں لیکچرار ہیں) پر نظرثانی اور تصحیح نہ کر سکے۔ کتاب اچھے معیار پر طبع کی گئی ہے اور ارزاں ہے۔ اگر اشاریہ بھی شامل کتاب ہوتا تو کیا بات تھی۔ (رفیع الدین ہاشمی)

سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ‘ پروفیسر افتخار احمد۔ ناشر: ٹو دی پوائنٹ پبلشرز‘ غزنی سٹریٹ‘ اردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۰۷۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

یہ توفیق خداوندی ہے کہ وہ اپنے کسی بندے کو دین حق کی خدمت کا راستہ دکھائے۔ خدمت ِدین سے وابستہ تمام ہی افراد‘ اُمت مسلمہ کا نہایت قیمتی سرمایہ ہیں۔ انھی نفوس میں ایک عظیم نام مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ (۱۹۰۳ء-۱۹۷۹ء) کا ہے۔

پروفیسر افتخار احمد نے حیات مودودیؒ کے تشکیلی دور ‘ جدوجہد کے مختلف مرحلوں اور فکر کے مختلف گوشوں اور کارناموں پر روشنی ڈالنے کی کامیاب کوشش کی ہے‘ تاہم خود مؤلف کو یہ احساس ہے کہ: ’’مولانا کی شخصیت اور ان کی علمی اور سیاسی مصروفیات کا نہایت ہی محدود پیمانے پر تحقیقی انداز میں جائزہ لیا گیا ہے۔ مولانا کی ہمہ گیر شخصیت کے بے شمار پہلو ایسے ہیں‘ جو طوالت کے ڈر سے تشنہ چھوڑ دیے گئے ہیں‘ یا انھیں سرے سے چھیڑا ہی نہیں گیا‘‘ (ص ۱۴)۔ یہ مصنف کی کسر نفسی ہے۔ انھوں نے ایک مختصر کتاب میں بنیادی موضوعات کو سمونے کی خاصی کامیاب کوشش کی ہے‘ تاہم کتاب پڑھنے پر ھل من مزید کی کیفیت برقرار رہتی ہے شاید اس لیے کہ حکایت لذید ہے۔

چند امور توجہ طلب ہیں: مصنف کا اسلوب عمدہ اور شستہ ہے مگر جب ذوالفقار علی بھٹو کا ذکر آتا ہے تووہ واحد غائب کا اسلوب اختیار کرلیتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ متعدد مقامات پر مولانا مودودیؒ کی تقریروں اور تحریروں کے طویل اقتباسات پر انحصار کرتے ہیں۔ اسی طرح صحیح نام منظور احمد نعمانی نہیں‘ محمد منظور نعمانی ہے۔

مصنف نے لکھاہے: ’’آرنلڈ کی کتاب Preaching of Islam کا ترجمہ بھی مولانا ]مودودی[ نے قیام دہلی کے دوران کیا تھا‘ اس کا کیا بنا؟ کچھ پتا نہیں‘‘ (ص ۱۲۷)۔ اس ضمن میں عرض ہے کہ مولانا مودودیؒ نے مذکورہ کتاب کے مختلف حصوں کی تلخیص اور حاصل مطالعہ کو متعدد قسطوں میں اخبارالمجعیۃ دہلی میں شائع کیا تھا جسے بعد میں شہیر نیازی اور حفیظ الرحمن احسن نے اسلام کا سرچشمہ قوتکے نام سے کتابی شکل میں طبع کرایا۔ اگرچہ مرتبین نے اس کا ذکر اس انداز میں نہیں کیا‘ تاہم یہ آرنلڈ ہی کی کتاب سے ماخوذ اور اپنے مطالعے کی بنیاد پر لکھے جانے والے مختصر مضامین ہیں۔

زیرنظر کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے تحریر کیا ہے۔ ہماری تجویز ہے کہ مولانا کی ہمہ گیر شخصیت کے جو پہلو خود مصنف کے خیال میں تشنۂ تحقیق رہ گئے ہیں‘ یا بعض مباحث ‘طوالت کے خوف سے انھوں نے چھیڑے ہی نہیں‘آیندہ ایڈیشن میں وہ اُن پر بھی روشنی ڈالیں اور کتاب میں موجود کمیوں کو  حتی الوسع پوراکرنے کی کوشش کریں۔ (س - م - خ)


معارف الحدیث ‘ جلد ہشتم‘ تالیف: مولانا محمد منظور نعمانی  ؒ،تکمیل مولانا محمد زکریا سنبھلی۔ الفرقان بک ڈپو‘ نظرآباد لکھنؤ۔ صفحات: ۶۹۲۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

ص ۶۹۲ پر آخری جملہ : ’’بفضلہ تعالیٰ معارف الحدیث کا مبارک سلسلہ اس جلد پر تمام ہوا‘‘، اس تبصرے کا نقطہء آغاز ہے۔ دینی حلقوں میں معارف الحدیث کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ اس کی پہلی جلد ۱۳۷۵ھ میں شائع ہوئی۔ زیرنظر آخری جلد مولانا منظور نعمانی ؒ کی رحلت کے چار سال بعد شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب کا ایک حصہ ان کا اپنا لکھا ہوا ہے لیکن بعد میں ان کے حکم پر زکریا سنبھلی صاحب نے اسے مکمل کیا۔

تبصرہ نگار کے نزدیک معارف الحدیثکی اصل خوبی یہ ہے کہ حدیث کی صرف ضروری تشریح کی جاتی ہے اور اس میں بھی عملی نقطہء نظر سامنے رکھا جاتا ہے اور اس سے بھی زیادہ یہ کہ حدیث بیان کرنے والا پڑھنے والے کے دین و ایمان ‘ سیرت و کردار اور اخروی فوز و فلاح کے لیے فکرمند محسوس ہوتا ہے۔ میرے نزدیک یہی اس سلسلۂ کتب کی اصل کشش ‘ چاشنی اور مقبولیت کا راز ہے۔ اس جلد میں علم‘ کتاب و سنت کی پابندی‘ امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور علامات قیامت کا بیان ہے۔ اس کے بعد کے ابواب آپؐ کی ازواج ‘اولاد اور صحابہ کرامؓ کے فضائل و مناقب کے بارے میں ہیں۔ (مسلم سجاد)


تعلیمات حکیم الامّت (حصہ اول)‘ مولانا اشرف علی تھانوی ؒ۔ مرتب: محمد موسیٰ بھٹو۔ ناشر: سندھ نیشنل اکیڈمی ٹرسٹ‘ ۴۰۰-بی ‘ لطیف آباد ۴‘ حیدر آباد سندھ۔ صفحات: ۳۱۲۔ قیمت: درج نہیں۔

مولانا اشرف علی تھانویؒ نے سیکڑوں چھوٹی بڑی دینی و علمی تصانیف مرتب فرمائی ہیں۔ مختلف موضوعات پر مولانا کے مواعظ‘ ملفوظات اور مکاتیب کا گراں قدر سرمایہ آج کے حالات میں بھی تہذیب اخلاق اور تزکیۂ نفس کے لیے غیر معمولی افادیت کا حامل ہے۔

مولانا کے ملفوظات کا یہ ذخیرہ ان کی دو کتابوں ملفوظات کمالات اشرفیہ اور الافاضاۃ الیومیہ (۱۰ جلدوں میں) کے خلاصے اور انتخاب پر مشتمل ہے۔ جگہ جگہ فکرانگیز جواہرپارے اور رہنما ہدایات ملتی ہیں۔ مولانا تھانویؒ ارشاد فرماتے ہیں: ’’مسلمانوںکی تباہی و بربادی کا بنیادی سبب بدانتظامی ہے جو بے فکری کی دلیل ہے۔ اسی بے فکری کی بدولت ہزاروں زمین دار‘ رئیس اور نواب بھیک مانگتے پھرتے ہیں حتیٰ کہ اسی وجہ سے سلطنتیں ضائع کر دیں جس سے دنیا کے ساتھ ساتھ دین بھی برباد ہو رہا ہے‘‘ (ص ۲۳۰)۔ ’’اس وقت حالت یہ ہے کہ مسلمان (دشمن سے مقابلے کے سلسلے میں) دوسری تدابیر تو اختیار کرتے ہیں لیکن گناہوں سے باز نہیں آتے اور توبہ نہیں کرتے‘‘ (ص ۲۳۵)۔ ’’انتظام بڑی برکت کی چیز ہے۔ اگر انتظام نہ ہو تو سلطنت بھی باقی نہیں رہ سکتی‘‘ (ص ۲۵۰)۔ موجودہ دور کی درویشی کے متعلق: ’’آج کل درویشی کے لباس میں ہزاروں راہزن اور ڈاکو مخلوق کے دین پر ڈاکا مارتے پھرتے ہیں۔ قسم قسم کے شعبدے اور طلسم دکھا کر لوگوں کو پھنساتے رہتے ہیں۔ ادھر لوگوں میں بھی عقل اور فہم کا اس قدر قحط ہو گیا ہے کہ ایسے ڈاکوئوں کو درویش اور بزرگ سمجھ کر ان کے ہاتھوں اپنے دین و ایمان کو برباد کرتے رہتے ہیں‘‘۔ (ص ۲۹۳)

فرمایا: ’’جو شخص دین کا پابند نہیں‘ دنیاوی معاملات کے سلسلے میں بھی اس کے فہم میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے اور دین دار شخص کو اگرچہ دنیا کا تجربہ نہ ہو لیکن دنیوی امور میں اس کی سمجھ سلیم ہو جاتی ہے۔ حلال روزی میں بھی یہی اثر ہے۔ برخلاف اس کے‘ حرام روزی سے فہم مسخ ہو جاتی ہے‘‘ (ص ۱۳۸)۔ ایک ذاکر شاغل سے فرمایا: ’’تم کمزور ہو۔ ضرب اور جہر چھوڑ دو __ دو چیزوں کا ہمیشہ خیال رکھو: معدے اور دماغ کی تندرستی کا۔ کام کا دارومدار ان دونوں کی حفاظت پر ہے‘‘۔ (ص ۱۵۹)

کتاب کی تدوین و ترتیب کے ذریعے جو علمی و دینی خدمت انجام دی گئی ہے‘ اس سے بیش از بیش استفادہ کیا جانا چاہیے۔ (انیس احمد اعظمی)


تاریخ خط و خطاطین: پروفیسر سید محمد سلیم۔ مرتب: سید عزیز الرحمن۔ ناشر: زوار اکیڈمی پبلی کیشنز‘ اے ۴/۱۷‘ ناظم آباد نمبر ۴‘ کراچی- ۷۴۶۰۰۔ صفحات: ۴۶۴۔ قیمت: ۴۵۰ روپے۔

پروفیسر سید محمد سلیم ؒ کا تعلق سادات جعفری سے تھا۔ علی گڑھ یونی ورسٹی سے ایم اے اور ایل ایل بی کے امتحانات پاس کیے۔ آپ کے اساتذہ میں مولوی امتیاز علی‘ مولانا عبدالعزیز میمن اور مرزا محمود بیگ جیسے مشاہیر اہل علم و فضل شامل ہیں۔ ساری زندگی تعلیم و تدریس تحقیق و تصنیف میں گزری۔ علمی مقام اتنا بلند تھا کہ مشاہیر اہل علم اس سلسلے میں رطب اللسان ہیں۔ جماعت اسلامی کے رکن تھے۔ شاہ ولی اللہ اورینٹل کالج (منصورہ‘ سندھ) کے پرنسپل رہے۔ اس ادارے کی تشکیل اور ترقی میں ان کا خون جگر بھی شامل تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد تنظیم اساتذہ پاکستان کے ادارہ تعلیمی تحقیق کے ڈائریکٹر رہے اور بیش بہا اسلامی تعلیمی کتب تحریر فرمائیں۔ تنظیم کا ماہنامہ افکار معلم بھی ان کی ادارت میں شائع ہوتا رہا۔ ۲۷ اکتوبر ۲۰۰۰ء کو قرطبہ‘ اسلام آباد میں جماعت اسلامی کے کل پاکستان اجتماع میں آپ کی وفات ہوئی۔ لاکھوں افراد نے آپ کی نماز جنازہ ادا کی۔ کراچی کے پاپوش نگر قبرستان میں آسودئہ خاک ہوئے۔

پروفیسر سید محمد سلیم کی دل چسپی کے موضوعات متنوع تھے۔ اسلامی تاریخ و تہذیب کے ایک مظہر خط اور خطاطی سے ان کی گہری وابستگی تھی۔ خطاطی اور خوش نویسی کو مسلمانوں کا خاص فن قرار دیتے تھے۔ اس سلسلے میں انھوں نے تین چار مختصر کتب تحریر فرمائیں لیکن یہ ضخیم کتاب ان کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے جس میں انھوں نے تحریر اور حروف ابجد کی ایجاد‘ آرامی‘ یونانی‘ عبرانی وغیرہ خطوط کی ایجاد‘ عربی خطوط کی درجہ بدرجہ ترقی اور خط کے مشہور دبستانوں کے متعلق تفصیل سے معلومات بہم پہنچائی ہیں۔ ساتھ ہی عالم اسلام کے مشہور خطاط اساتذہ کے مختصر حالات زندگی درج کیے ہیں۔ ایک باب خطاطی کے مشہور مرقعات کے تذکرے پر مشتمل ہے۔ کتاب کے مقدمے میں ڈاکٹر غلام مصطفی خاں پروفیسر امیرے طس سندھ یونی ورسٹی حیدرآباد نے فرمایا ہے: کتاب کے سرسری جائزے سے بھی اندازہ ہو سکتا ہے کہ اُردو میں اپنے موضوع پر یہ ایک منفرد کتاب ہے بلکہ اس قدر جامعیت کے ساتھ نہ صرف اردو بلکہ فارسی‘ عربی اور انگریزی میں بھی کوئی کتاب موجود نہیں۔ (ص ۱۷)

دیباچہ معروف محقق‘ نقاد اور اسکالر ڈاکٹر وحید قریشی صاحب نے لکھا ہے۔ ان کے خیال میں پروفیسر سید محمد سلیم کی یہ کتاب ]خطاطی کے[اس مٹتے ہوئے فن کو زندہ کرنے اور آیندہ نسل تک پرانے علمی سرمائے کو پہنچانے میں بڑی مفید ہے۔ ]انھوں[ نے خطاطی کے موضوع پر یہ مبسوط کتاب لکھ کر اس ضرورت کو کماحقہ پورا کر دیا ہے۔ (ص ۲۲)

سید صاحب نے معلومات کے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ حالانکہ اس کا ایک ایک باب اور بعض جگہ ایک ایک پیراگراف پوری پوری کتاب یا مفصل مقالے کا متقاضی ہے۔ کتاب کے پروف احتیاط سے نہیں پڑھے گئے۔ امید ہے دوسرے ایڈیشن میں اغلاط درست کر دی جائیں گی۔ کتاب مجلد خوب صورت گردپوش سے مزین اور آرٹ پیپر پر چھاپی گئی ہے۔ سید صاحب کو اس کتاب کو مطبوعہ صورت میں دیکھنے کا بڑا ارمان تھا لیکن ان کی زندگی میں مختلف موانع کے باعث چھپ نہ سکی۔ بہرحال اب یہ ان کا ایک صدقہ جاریہ ہے۔ (ملک احمد نواز اعوان)


اصول فقہ‘ حصہ اول و دوم‘ مولانا معین الدین خٹک۔ ترتیب و تدوین: پروفیسر نورورجان۔ ناشر: البدر پبلی کیشنز‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۴۳۵‘ اور ۴۰۴۔ قیمت: ۲۰۰ روپے فی جلد۔

اصول فقہ انتہائی اہم مگر دقیق اور مشکل علم ہے۔ مزید یہ کہ اس موضوع پر قدیم و جدید ذخیرے اور درسی علوم فقہ کو اکثر مشکل بنا کر پیش کیا گیا ہے تاکہ طالب علم مشکل پسندی اور دقائق کو حل کرنے کا عادی ہو جائے۔ اس کے فوائد بھی ہیں مگر نقصان یہ ہے کہ بہت سے طلبہ اس فن کا پورا اور کماحقہ فہم نہیں حاصل کرسکتے۔

علامہ مولانا معین الدین ؒخٹک اپنے دور میں آیۃمن آیات اللّٰہ (اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی) تھے۔ وہ علوم کا بحرذخار تھے‘ تفسیر و حدیث‘ فقہ‘ اصول فقہ اور بہت سے دیگر علوم و فنون کے حافظ تھے۔ انھیں بجا طور پر اپنے دور کا حافظ ابن حجرؒ اور انورشاہ کاشمیریؒ کہا جا سکتا ہے۔ وہ مختلف علوم و فنون پر اس قدر حاوی تھے کہ ان کا بیان کردہ مضمون ہر طالب علم کے دل و دماغ میں اترتا جاتا تھا‘ اور مولانا کے انتہائی مشکل لیکچر میں بھی وہ حلاوت اور ذہنی اطمینان اور قلبی سرور حاصل کرتے تھے۔

زیرنظر مجموعہ ان شاہکار خطبات پر مشتمل ہے جو مولانا ؒنے ۳ اگست تا ۲۵ ستمبر ۱۹۶۶ء ادارہ معارف اسلامی کراچی میں دو ماہ سے بھی کم عرصے میں دیے تھے۔ یہ خطبات پروفیسر نورورجان نے بڑی محنت کے ساتھ ٹیپ سے اخذ کر کے مرتب کر دیے ہیں۔ اصول فقہ کے تمام مباحث کا احاطہ کرتے ہوئے قرآن پاک اور سنت کی زبان و بیان سے متعلق قواعد کو پہلے حصے میں رکھا گیا ہے‘ اور جن مباحث کا تعلق سنت‘ اجماع‘ قیاس اور اجتہاد سے ہے وہ دوسرے حصے میں ہیں۔ یہ درس نظامی کی تمام نصابی کتب (جنھیں دوسرے سال سے لے کر ساتویں سال تک پڑھایا جاتا ہے) پر حاوی ہیں اور اس قدر سلیس اور عام فہم ہیں کہ دینی مدارس کے طلبا کے علاوہ کالج اور یونی ورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ بھی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ یہ اپنے مضامین و موضوعات کی وسعت کے لحاظ سے دینی مدارس کے ہر سطح کے طلبہ اور اساتذہ‘ یونی ورسٹی کے پروفیسروں‘ عدالتوں کے وکلا اور ججوں کے لیے گراں قدر تحفہ ہے۔

مولانا حافظ محمد عارف نے دیباچے میں فقہ اور اصول فقہ کی تاریخ اور اہم کتب کا تعارف کرایا ہے۔ آغاز میں مولانا معین الدینؒ خٹک کا تعارف ہے اور ان کا ایک مقالہ ’’فقہ کیسے وجود میں آئی؟‘‘ بھی شامل ہے۔ پروفیسر نورورجان نے سلسلہ ہاے فقہا ے عظام کا نقشہ پیش کیا ہے اور کتاب کے آخر میں تفسیر‘ حدیث‘ فقہ اور اصول فقہ کی قدیم و جدید کتب کی جامع فہرست بھی دی ہے۔ کتاب کا ایک ایک لفظ قیمتی ہے اور اس کی قدروقیمت کا صحیح اندازہ پوری کتاب کے مطالعے سے ہو سکتا ہے۔

کتب فقہ کی عبارات کے نقل میں بہت سی جگہ غلطیاں راہ پا گئی ہیں۔ آیندہ ایڈیشن میں ان کی اصلاح ضروری ہے۔ اس پیش کش پر ادارہ معارف اسلامی کراچی‘ پروفیسر نورورجان اور ناشر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ میں تمام مدارس کے ذمہ داروں سے عرض کروں گا کہ اس کتاب کو نصاب میںشامل کر کے اس فن کی تعلیم کو معیاری بنانے میں حصہ لیں۔ (مولانا عبدالمالک)

تعارف کتب

  •  سرِآب رواں‘ سید انجم جعفری۔ ناشر: احباب پبلشرز‘ ۴۰ جی شمع پلازا‘ ۷۲ فیروز پور روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۱۷۶۔  قیمت: ۱۵۰ روپے۔]غزلیات اور قومی اور ملی نظموں کا مجموعہ‘ ابتدا میں شاعر کو مختلف اہل قلم کا خراج تحسین[
  •  تبلیغ دین اور اس کی صورت‘ مولانا اشرف علی تھانوی ؒ۔ ناشر: ادارہ تالیفات اشرفیہ‘ جناح ٹائون‘ نزد مسجد فردوس‘ ہارون آباد‘ ضلع بہاول نگر‘ صفحات ۲۱۔ قیمت: چار روپے کے ڈاک ٹکٹ بھیج کر منگوایئے۔]دین کی تبلیغ پر مولاناتھانوی ؒکے افادات‘ مرتبہ: محمد اقبال قریشی[
  •  مسلم خواتین کے لیے تحفۂ نماز‘ مولانا ممتاز احمد شاہ۔ ناشر: دارالقلم‘ ۳۹ علی بلاک‘ اعوان ٹاون‘ ملتان روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۱۵۰۔ قیمت: ۶۰ روپے۔]نماز کا مفصل اور مکمل طریقہ‘ ضروری فقہی مسائل‘ خواتین کے مخصوص اہم مسائل[
  • علاج بالغذا‘ حکیم احتشام الحق قریشی۔ملنے کا پتا: ادارہ مطبوعات خواتین‘ کیمرہ مارکیٹ‘ ۴۲ چیمبرلین روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۴۴۸۔ قیمت: ۱۸۰ روپے۔]قدیم طب میں ’’علاج بالغذا‘‘ ایک مستقل اور اہم نظریہ ہے۔ زکریا رازی کا قول ہے: ’’جب تک غذا سے علاج کیا جا سکتا ہے‘ دوا سے علاج مت کرو‘‘۔ جملہ پھلوں‘ سبزیوں اور مختلف غذائوں کے خواص‘ مزاج‘ فوائد کا بیان۔ مطالب کو آج کے اندازِ بیان اور اسلوب میں پیش کیا جاتا تو افادیت کا دائرہ زیادہ وسیع ہوتا[
  • دعوتی تحریک: ضرورت اور طریقۂ کار‘ سید عامر نجیب۔ ناشر: الصراط پبلی کیشنز‘ پوسٹ بکس نمبر ۲۱۰۶‘ ناظم آباد‘ کراچی۔ صفحات:۸۸۔ قیمت: ۱۵ روپے۔ ]دین کے لیے ہونے والی جدوجہد بعض بنیادی نقائص اور کمزوریوں کے سبب موثر اور نتیجہ خیز نہیں ہو رہی۔ نقائص کی نشان دہی کے ساتھ لائحہ عمل بھی تجویز کیا گیا ہے جس پر عمل کرنے کے لیے ’’تحریک صراط مستقیم پاکستان‘‘ شروع کی گئی ہے[
  • میرے حضرتؒ میرے شیخ  ؒ،مولانا عبدالقیوم حقانی۔ ناشر: القاسم اکیڈمی جامعہ ابوہریرہ ‘ خالق آباد‘ نوشہرہ سرحد۔ صفحات: ۲۶۰۔ قیمت: ۹۰ روپے۔ ]مولانا عبدالحقؒ بانی دارالعلوم حقانیہ کی سوانح۔ مولانا کا علم و عمل‘ سیرت و کردار‘ صفات و کمالات‘ علمی و دینی ‘روحانی و تجدیدی‘ جہادی و اصلاحی اور تعلیمی کارناموں کا تعارف‘ ذاتی کمالات علم و شوق‘ مطالعہ ایمان آفریں مجالس اور روح پرور افادات کا تذکرہ۔ مرحوم کی زندگی کے تقریباً ہر گوشے پر محیط[

تفہیم القرآن پر اعتراضات کی علمی کمزوریاں‘ مولانا عامر عثمانی  ؒ۔مرتبہ: سیدعلی مطہر نقوی امروہوی۔ ناشر: مکتبہ الحجاز پاکستان‘ ۲۱۹۷۱‘ بلاک سی‘ حیدری‘ شمالی ناظم آباد‘ کراچی -۷۵۰۰۰۔ صفحات: ۲۴۰۔ قیمت: ۱۲۵ روپے

گذشتہ صدی عیسوی کے دوران‘ جنوب مشرقی ایشیا میں جس عالم دین کو سب سے زیادہ علما کی منفی اور سوقیانہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا‘ وہ مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ تھے۔اس تنقید یا تنقیص میں دلیل کم‘ اور تعصب کا عنصر زیادہ تھا۔ اس کے باقیات اب بھی کسی نہ کسی شکل میں سامنے آتے رہتے ہیں۔

مولانا عامر عثمانی  ؒ فاضل دیوبند‘ علامہ شبیر احمد عثمانی   ؒکے بھتیجے‘ مولانا حسین احمد مدنی  ؒکے شاگرد اور دیوبند سے شائع ہونے والے ماہ نامہ  تجلّی کے مدیر شہیر تھے۔ انھوں نے اس افسوس ناک صورت حال میں سچائی کا دفاع کرنے اور فاول پلے کو روکنے کے لیے اپنے علم و فضل کے ساتھ ساتھ‘ حیرت انگیز حد تک ثابت قدمی سے کام لیا۔ مولانا مودودی پر حملہ آور قوتوں کے بارے میں انھوں نے پتے کی بات کہی ہے: ’’جس طرح ’’کوکا کولا‘‘ پینا ایک فیشن بن گیا ہے‘ اسی طرح مولانا مودودی کی تحریر و تقریر پر اعتراض بھی کئی حلقوں میں داخل فیشن ہو گیا ہے‘‘ (ص ۱۷۷)۔ ’’بلاشبہہ غلطیاں شبلیؒ ، اور ابوالکلام ؒاور مودودیؒ اور غزالیؒ اور ابوحنیفہؒ سب سے ہو سکتی ہیں‘ مگر ان کی نشان دہی اور اثبات کے لیے تقویٰ اور تبحر اور بیدار مغزی چاہیے اور طنز و تحقیر سے پرہیز ضروری ہے‘‘ (ص ۵۹-۶۰)

وہ کہتے ہیں: ’’میرے نزدیک مودودی کی دوستی اور دشمنی کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ میں مودودی صاحب کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتا کہ وہ اللہ کے ایک بندئہ ناہیچ ہیں‘ وہ قرآن و سنت کے مطابق کہیں توجان و مال سے قبول‘ خلافِ قرآن و سنت کہیں تو ہزار بارردّ۔ یہی طریقہ میرے اسلاف کا رہا ہے۔ تمھیں عقل و انصاف اور دیانت و شرافت کے معیار وں پر توجہ کرنی چاہیے۔ تم جو چُھرا اپنے خیال میں مولانا مودودی کی عظمت و عزت کے سینے میں گھونپتے ہو‘ وہ فی الحقیقت اللہ کے دین اور دعوت حق اور تحریک اسلامی کے سینے میں گھونپتے ہو‘‘۔ (ص ۲۳۳-۲۳۴)

ان احساسات کے ساتھ انھوں نے  تفہیم القرآن پر اعتراضات کا تجزیہ کیا تھا‘ جسے رسالہ تجلّی سے اخذ ومرتب کر کے جناب سید علی مطہر نقوی نے زیرتبصرہ کتاب کی صورت میں پیش کر دیا ہے۔

انوارالباری کے مصنف مولانا سید احمد رضا بجنوری کی جانب سے تفہیم میں نسائھن کے ترجمے پر اعتراض وارد کیا گیا اور پھر عجیب و غریب اسلوب میں کھینچاتانی کی گئی ‘ جس کے طول و عرض کا اندازہ جناب عامر عثمانی کے علمی تجزیے سے ہوتا ہے۔ عثمانی مرحوم نے اس اعتراض کا تجزیہ کرتے ہوئے تقریباً چالیس صفحات میں سلف و خلف سے نظائر پیش کر کے اعتراض کے کھوکھلے پن کو علمی سطح پر بے نقاب کیاہے۔

اسی طرح بجنوری صاحب‘ مولانا مودودی کے ایک پارئہ تشریح کو ہدف تنقید بناتے ہیں جس میں مولانا مودودی نے لکھا ہے: ’’عام طور پر یہ جو مشہور ہو گیا ہے کہ شیطان نے پہلے حضرت حوا کو دامِ فریب میں گرفتار کیا اور پھر انھیں حضرت آدم ؑکو پھانسنے کے لیے آلہ کار بنایا‘قرآن اس کی تردید کرتا ہے…    بہ ظاہر یہ بہت چھوٹی سی بات معلوم ہوتی ہے‘ لیکن جن لوگوں کو معلوم ہے کہ حضرت حوا کے متعلق اس مشہور روایت نے دنیا میں عورت کے اخلاقی‘ قانونی اور معاشرتی مرتبے کو گرانے میں کتنا زبردست حصہ لیا‘ وہی قرآن کے اس بیان کی حقیقی قدروقیمت سمجھ سکتے ہیں‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۲‘ ص ۱۶)

مولانا بجنوری نے اس ٹکڑے کو مولانا مودودی کی ’’تجدد پسندی‘‘ اور ’’مساوات مرد و زن کی علم برداری‘‘ قرار دے کر جو انداز سخن اختیار کیا‘وہ پڑھ کر انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ موصوف نے مولانا مودودی کو ردّ کرنے کے جوش میں عورت کی تذلیل اور ’’فطری گھٹیا پن‘‘ کو ثابت کرنے کے لیے اسرائیلیات کے انبار اور ذخیرۂ حدیث سے مختلف ٹکڑوں کو استعمال کرنے کی ایک افسوس ناک روش اختیار کی جسے عامرعثمانی نے وسیع نظائر اور مضبوط دلائل سے واضح کیا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’پھر ]مولانا بجنوری نے[ عورتوں کو مرد کے مقابلے میں زیادہ مکار‘ کم رتبہ اور گھٹیا ثابت کرنے کے لیے جن روایات کا سہارا لیا ہے… ان کا مطلب وہ ہے ہی نہیں‘ جو ]مولانا بجنوری[ زبردستی نکال رہے ہیں‘‘ (ص ۷۱)۔

کتاب کا دوسرا باب بھی بڑا معرکہ آرا ہے۔ مولانا مودودی نے آدم ؑ کی پسلی سے حضرت حوا کی ولادت والی روایات سے اختلاف کیا ہے۔ بعض علما نے مولانا مودودی کی اس رائے پر جو خاک اڑائی اس کا تجزیہ کرتے ہوئے‘ عامر عثمانی مرحوم نے دلائل و براہین کے ذریعے معترض حضرات کے داخلی تضاد کو نمایاں کیا۔

باب سوم میں‘ تفہیم القرآن کے بعض دوسرے حصوں پر وارد کیے جانے والے اعتراضات و اشکالات پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔ جناب عثمانی ہر اعتراض کو علمی ذخیرے کی میزان پر تولتے اور اعتراض کے داخل و خارج کو موضوع بحث بناتے ہیں۔ ان مباحث میں انھوںنے متعدد احادیث کے متن اور نتائج پر ایسی اعلیٰ درجے کی بحث کی ہے کہ ان کے اسلوب بحث و بیان پر بعض اوقات مولانا امین احسن اصلاحیؒ کے لہجے کا گمان گزرتا ہے۔

یہ مجموعۂ مضامین ‘ایک طرف مولانا مودودی کے معترضین کے فکروکلام کی کج روی کو واضح کرتا ہے‘ دوسری طرف مولانا مودودی کی سلامتِ فکر ‘اور اس کے ساتھ ہی عامر عثمانی مرحوم کے تبحرِ علمی اور قدرتِ بیان کا ایک اَن مٹ نقش بھی مرتب کرتا ہے۔ (سلیم منصور خالد)


روح القرآن‘ سید قاسم محمود۔ ناشر: بک مین‘ الشجربلڈنگ‘ نیلا گنبد‘ لاہور۔ صفحات: ۲۰۸۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔

یہ ’’آیات قرآنی کا موضوع وار جامع اشاریہ‘‘ ہے۔ آیات قرآنی کے اردو تراجم (اقتباسات) کو مع حوالہ سورہ اور آیت‘ مختلف عنوانات کے تحت جمع کیاگیا ہے۔ مضامین یا عنوانات اس قسم کے ہیں: اتحاد‘ اجر‘ احسان‘ اخلاق‘ اذان‘ تاریکی‘ تبلیغ‘ تجارت‘ تخلیق‘ بارش‘ بادل‘ بجلی‘ بدعت‘ چوری‘ چاند‘ جھوٹ‘ جہنم ‘ جہالت وغیرہ--- بعض عنوانات غیر اہم‘ مبہم اور ضمنی ہیں‘ جیسے: ہوا‘ برکت‘ باغ‘ بچپن‘ تاریکی‘ دودھ‘ جوانی‘ سفر--- ایسے موضوعات کی بذات خود کوئی اہمیت نہیں‘ ان کی معنویت کسی دوسرے اہم موضوع کے تحت ہی بنتی ہے۔ اس کے برعکس بعض بنیادی موضوعات کو عنوانات نہیں بنایا گیا‘ جیسے: آخرت‘ انفاق ‘ حشر یا قیامت وغیرہ۔

اصلاً یہ ایک مفید کام ہے لیکن اس کے لیے جو خاطرخواہ توجہ‘ باریک بینی اور محنت و کاوش درکار تھی‘ اس میں کچھ کمی رہ گئی چنانچہ بعض باتیں کھٹکتی ہیں۔بہت سی آیات ‘ صحیح عنوانات کے تحت نہیں ہیں‘ مثلاً: ص ۴۷ پر آیت ’’اور جو لوگ سونا چاندی جمع...‘‘ عنوان: ’’بشارت‘‘ کے تحت نہیں، ’’بخل‘‘ یا ’’کنجوسی‘‘ کے تحت آنی چاہیے تھی۔ ص ۷۹ پر ’’ختم نبوت‘‘ کے تحت پہلی دونوں آیتوں کا‘ عنوان سے کوئی تعلق نہیں‘ ان کا عنوان ’’اسلام‘‘ یا ’’دین‘‘ صحیح ہے۔ ص ۱۰۰ پر ’’سفر‘‘ کے تحت پہلی آیت کا صحیح عنوان ’’روزہ‘‘ ہے۔ ص ۴۶‘ کالم ۲، ’’اور ویسی یہ کتاب...‘‘ کا صحیح عنوان ’’قرآن‘‘ ہے‘ نہ کہ ’’برکت‘‘--- ص ۱۲۶ پر ’’فتح مکہ‘‘ کے تحت دی گئی آیت کا اشارہ اسلام کی فیصلہ کن فتح کی طرف ہے‘ اس کا ’’فتح مکہ‘‘ سے تعلق نہیں‘ کیوں کہ فتح مکہ ۸ ہجری میں ہوئی اور یہ سورہ ۱۰ ہجری میں نازل ہوئی۔ ص ۱۹۰ پر ’’نشہ‘‘ کے تحت ’’لوگو‘ اپنے رب سے ڈرو...‘‘ کا موضوع آخرت اور قیامت ہے،’’نشہ‘‘ سے اس کا دور کا واسطہ بھی نہیں۔ ص ۸۰: طلاق اور خلع دو مختلف موضوع ہیں‘ یہاں ’’خلع‘‘ کے تحت طلاق کی آیت درج ہے۔ بعض جگہ ایک ہی آیت کے دو مختلف ترجمے دیے گئے ہیں‘ مثلاً ص ۱۶‘ کالم ۱: ’’جس روز تم اسے...‘‘ اور ص ۱۹۰‘ کالم ۱: ’’لوگو‘ اپنے رب سے ڈرو...‘‘۔

مرتب نے بلاشبہ محنت کی ہے لیکن یہ کام اور زیادہ تامّل اور توجہ سے کیا جاتا تو یقینا زیادہ مفید اور بہتر ہوتا اور اس میں کم سے کم خامیاں ہوتیں۔ ( ر- ہ)


اعلاے کلمۃ الحق کی روایت‘ اسلام میں  ‘ میاں محمد افضل۔ ناشر: مجاہد اکیڈمی‘ ۴۷۰-اے ‘ کینال ویو ہائوسنگ سوسائٹی‘ ملتان روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۶۷۴۔ قیمت: ۳۷۵ روپے۔

اعلاے کلمۃ الحق کی روایت ہماری تاریخ کا ایک شان دار‘ قابل قدر اور درخشاں باب ہے۔ کلمہ حق کیا ہے؟ بہ قول مصنف: ’’ایک روشنی ہے‘ نور ہے‘ جس میں ہر شے کی حقیقت نظر آجاتی ہے۔ انسان باخبر ہو جاتا ہے کہ جس راستے پر وہ چل رہا ہے‘ وہ آگے کہیں کسی خوف ناک غار میںتو ختم نہیں ہو رہا‘‘۔ سوا اس کے ’’حق گوئی سے انسان کو اپنی ذات کا عرفان بھی حاصل ہوتا ہے‘‘ (ص ۲۳)۔

مؤلف نے‘ حق گوئی کی مفصل تاریخ مرتب کی ہے۔ دورصحابہؓ سے حضرات ابوذرغفاریؓ، امام حسینؓ،ابن زبیرؓ اور سعید بن جبیرؓ کا ذکر ہے۔ دوسرے دور میں اس روایت کو حسن بصریؒ، ابراہیم نخعیؒ،زید بن علیؒ، امام ابوحنیفہؒ، سفیان ثوریؒ اور بہت سے دوسرے اصحاب نے زندہ رکھا__ اس کے بعد امام احمد ابن حنبلؒ، امام ابن تیمیہؒ، مجدد الف ثانیؒ، شاہ اسماعیل شہیدؒ، اور تحریک مجاہدین سے وابستہ بہت سے دوسرے افراد__ اور یہ داستان نسبتاً قریبی زمانے کے محمد علی جوہر‘ حسرت موہانی ‘علی شریعتی‘ امام حسن البناء‘ سید قطب شہید‘ زینب الغزالی‘ بدیع الزمان سعید نورسی اور مولانا مودودی تک پہنچتی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ: ’’جان و مال کی آزمایش کے وقت کلمۂ حق کہنے والے دنیا میں بہت کم ہوئے۔ اتنے قلیل کہ ہر زمانے میں ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے‘‘(ص ۵)۔ اوائل ہی سے بنی اُمیّہ نے لوگوں کو حق گوئی سے باز رکھنے کے لیے دھمکیوں‘ دھونس او رلالچ کے حربے استعمال کرنے شروع کیے جس سے کتمانِ حق اور مصلحت اندیشی کو فروغ ملا اور مسلم معاشرے کو اخلاقی اعتبار سے ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ ضمیر فروشی اور زراندوزی نے بحیثیت مجموعی مسلمانوں کو زوال و اِدبار سے دوچار کیا۔ مصنف لکھتے ہیں: ’’جب مسلمان ڈرپوک اور بزدل ہو گئے‘ جب وہ اپنے ظالم اور جابر حاکموں کے روبرو حق بات کہنے سے ڈرنے لگے تو پھر چنگیز اور ہلاکو   جیسے خونخوار حملہ آوروں کے سامنے کیا پامردی دکھاتے۔ نتیجہ باغ اسلام کی ویرانی کی صورت میں نکلا‘‘(ص۲۴)۔

پاکستان اور افغانستان کے موجودہ حالات کے حوالے سے ایک حدیث نبویؐ قابل غور ہے‘ جس میں آپؐ نے فرمایا: ’’تم اس وقت تک عذابِ الہٰی سے نجات نہ حاصل کر سکو گے جب تک تم ظالموں اور فاسقوں کو نہ روکو۔ خدا کی قسم تم ان (ظالم حکمرانوں) کو اچھی باتوں کے بارے میں کہو اور بری باتوں سے روکو۔ ظالم کے ہاتھ پکڑ لو‘ ان کو حق پر آمادہ کرو ورنہ خدا وند تعالیٰ تم میں سے بعض کے دلوں کو بعض کے دلوں سے وابستہ کر دے گا اور پھر تم پر لعنت کرے گا جیسا کہ بنی اسرائیل پر لعنت کی تھی‘‘(ص ۶)۔ یہاں مصنف بجا طور یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کہیں مسلمان اس حدیث کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کی لعنت کی لپیٹ میں تو نہیں آچکے؟

میاں محمد افضل نے تاریخ کو دقّت ِ نظر سے دیکھا اور گہرائی میں اُتر کر موضوع سے متعلق تفصیلی لوازمہ فراہم کیا ہے۔ ان کی محنت قابل داد ہے۔ ایک اعتبار سے یہ ضخیم کتاب تاریخ اسلام کے ان درخشاں ستاروں کی کہانی ہے جن کی آب و تاب اور چمک دمک سے تاریخ کے اوراق آج بھی جگمگا رہے ہیں اور انھوں نے اپنی جان کے نذرانے پیش کر کے ملت اسلامیہ کو حیات نو بخشی__کلمۂ حق کا سبق یاد دلانے اور تازہ رکھنے کے لیے ہماری رائے میں اس کتاب کا ایک مختصر ایڈیشن بھی چھاپنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کی اشاعت وسیع حلقوں تک ہو سکے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


اسلامیہ کالج لاہور کی صد سالہ تاریخ (جلد دوم) از احمد سعید۔ ادارہ تحقیقات پاکستان‘ دانش گاہ پنجاب‘ لاہور۔ صفحات: ۳۲۷۔ قیمت: ۱۸۰ روپے۔

عہدِغلامی میں مسلمانوں نے جگرلخت لخت کو جمع کرتے ہوئے‘ اپنی فلاح و بہبود اور اشاعت تعلیم کے سلسلے میں جو ادارے قائم کیے ان میں انجمن حمایت اسلام کا نام نمایاں ہے۔ اس کے تحت قائم شدہ اسلامیہ کالج لاہور نے مسلمانوں کی تعلیمی پیش رفت میں مفید کردار ادا کیا۔ پروفیسر احمد سعید نے بڑی محنت اور جانفشانی سے مذکورہ کالج کی تاریخ مرتب کی ہے۔ حصہ اول کئی سال پہلے چھپا تھا اب اس کا دوسرا حصہ (۱۹۱۰ء تا ۱۹۳۵ء) سامنے آیا ہے۔

مصنف نے انجمن کے ریکارڈ اور اس زمانے کے اخبارات و رسائل کی مددسے ایک تجربہ کار مؤرخ کی سی مہارت کے ساتھ ایک ایسی کتاب تیار کی ہے جو حوالوںاور تصاویر سے پوری طرح مزین ہے۔کتابیات و اشاریے کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔

زیرنظر کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا مودودی ۴۰-۱۹۳۹ء کے تعلیمی سال میں کالج مذکورہ میں ناظم دینیات رہے۔ وہ تدریس کا کام اعزازی طور پر انجام دیتے تھے۔ ایک سال کے بعد انجمن سے اختلافات کے سبب انھوں نے تدریس ترک کر دی ___زیرنظرکتاب میں اس کا ذکر بہت تشنہ اور اُدھورا ہے حالانکہ متعدد اصحاب نے اس کی تفاصیل روایت کی ہیں ___ مزیدبرآں بعض امور تحقیق و تصحیح طلب ہیں۔ ( ر - ہ)


اہتمام مشورہ‘ مولانا مسیح اللہ خان۔ ناشر: زم زم پبلشرز‘ اردو بازار‘ کراچی۔ صفحات: ۱۱۲۔قیمت: ۶۰ روپے

’’اہتمام مشورہ‘‘ میں مختلف معاشرتی و سیاسی اداروں کے بگاڑ کا سبب‘ عدم مشورہ کو گردانتے ہوئے‘ کتاب و سنت اور تاریخی حوالوں سے ہر شعبۂ زندگی میں مشورے کی اہمیت کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ یہ مختصر کتاب موضوع کی اہمیت و وسعت کے اعتبار سے بہت جامع ہے۔ مصنف نے اسلام کے اصولِ مشاورت کو انفرادی سطح سے آگے‘ مختلف معاشرتی و سیاسی اور نجی و سرکاری اداروں تک پھیلا دیا ہے اور مشورے کو ہر سطح کی بنیادی تنظیمی ضرورت قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں اسلامی نظام حکومت میں مجلس شوریٰ کی اہمیت و نوعیت‘ ’’اولوالامر‘‘ اور عظمت صحابہؓ کی ضمنی بحثیں بھی کتاب میں شامل ہیں۔ صاحب کتاب کے بعض علمی نکات کی جزئیات سے دیانت دارانہ اختلاف کی گنجایش تو شاید موجود ہو لیکن اُمت مسلمہ کے لیے اس خیرخواہانہ اصلاحی کاوش کی اہمیت و افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ (ڈاکٹرمحمد حماد لکھوی)


مغربی میڈیا اور اس کے اثرات‘ نذرالحفیظ ندوی۔ ناشر: مجلس نشریات اسلام‘ ناظم آباد نمبر۱‘ کراچی- ۷۵۰۰۰۔ صفحات:  ۴۲۰۔ قیمت:  ۱۱۹ روپے۔

ایک نہایت اہم موضوع پر نہایت اہم کتاب جس میںخاصی محنت کے ساتھ بڑی حد تک حق ادا کیا گیا ہے ۔ یہ وہ موضوعات ہیں جن پر‘ اگر مسلم دنیا بیدار ہوتی اور اس کے تحقیقی اداروں میں دن رات کام ہوتا‘ کتابوں کے سلسلے شائع ہوتے تو یقینا اس صورت میں مغربی میڈیا کے لیے مسلم دنیا کو اپنے ساتھ بہا لے جانا اتنا آسان نہ ہوتا۔ آزاد اور بظاہر ممتاز مسلم ممالک کی اتنی بڑی تعداد کے ہوتے ہوئے‘ بھارت کے ایک ادارے کے حصے میں یہ کام آیا‘ یہ خود ہمارے حالات پر ایک تبصرہ ہے۔

کتاب کے مقدمے ]۶۰ صفحے[ میں نئے عالمی نظام کے خدوخال سے آگاہ کیا گیا ہے۔ پہلے باب  کے ۴۵ صفحات میں مغربی میڈیا کا تاریخی پس منظر بیان کیا گیا ہے۔ دوسرے باب میں (۲۰ صفحات) میڈیا کے کردار کے بارے میں صہیونی عزائم پیش کیے گئے ہیں۔ تیسرے باب میں مغربی میڈیا میں مسلمانوں کی جو تصویر پیش کی جا رہی ہے مثلاً شہوت پرست انسان‘ شیطان صفت انسان‘ فتنہ پرور انسان ‘ وغیرہ وغیرہ‘ اسے دکھایا گیا ہے۔ چوتھا باب خصوصی اہمیت رکھتا ہے جس میں مصر‘ سعودی عرب‘ کویت اور دیگر عرب ممالک پر مغربی میڈیا کے اثرات کا مطالعہ کیا گیا ہے۔ ایک باب بھارتی میڈیا پر ہے۔ اسی باب میں پاکستانی معاشرے خصوصاً پاکستانی صوبہ پنجاب کی مثال پیش کی گئی ہے۔ ۸واں باب اسلامی میڈیا‘ نظریہ اور عمل کا ہے۔

تبصرہ نگار کی نظر میں ۴۲۰ صفحات کی یہ کتاب اس لائق ہے کہ جو افراد اور ادارے آنے والے دور میں اسلام کو غالب کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں یا کسی جدوجہد میں مصروف ہیں‘ وہ ضرور کتاب کا مطالعہ کریں۔ انسانی ذہن جیتنے کی لڑائی میڈیا کے ذریعے ہی لڑی جا رہی ہے۔ دشمن بہت آگے تک حملہ کر چکا ہے‘ اورہم نے ابھی صف بندی بھی نہیں کی ہے۔ اگر تیاری ہو تو یہ کہتے اچھے لگیں کہ :  ع شب گریزاں ہو گئی آخر جلوۂ خورشید سے___ جو اس کتاب کے آخری باب کا موضوع ہے۔ (م -س)

تعارف کتب

  •  پس چہ باید کرد‘ سید علی گیلانی ۔ ناشر: منشورات‘ منصورہ‘ لاہور۔ صفحات: ۷۲۔ قیمت: ۲۱ روپے۔ ]مباحث: ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء۔ پس چہ باید کرد۔ افغانستان پر امریکی حملہ۔ جموں و کشمیر اسمبلی پر حملہ۔ یہ کتابچہ سری نگر سے بھی چھپ چکا ہے۔[
  •  م صلی اللہ علیہ وسلّم‘ غالب عرفان۔ ناشر: بزم تحقیق ادب پاکستان‘ ڈی ۱۲ منیبہ آرکیڈ‘ گلستانِ جوہر‘ بلاک ۷‘ مین یونی ورسٹی روڈ‘ کراچی ۷۵۲۹۰۔ صفحات:  ۹۳۔ قیمت: ۶۰ روپے۔ ]ایک حمد اور ۳۳ نعتوں کا مجموعہ۔ تقاریظ و تقدیمات از پروفیسر حسنین کاظمی‘ ڈاکٹر عاصی کرنالی‘ سید معراج جامی۔[

نجم جعفری۔ ناشر: احباب پبلشرز‘ ۴۰ جی شمع پلازا‘ ۷۲ فیروز پور روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۱۷۶۔  قیمت: ۱۵۰ روپے۔]غزلیات اور قومی اور ملی نظموں کا مجموعہ‘ ابتدا میں شاعر کو مختلف اہل قلم کا خراج تحسین۔[

  •  سراغِ زندگی ‘ مولانا عبدالقیوم حقانی۔ ناشر: القاسم اکیڈیمی‘ جامعہ ابوہریرہ‘ برانچ پوسٹ آفس ‘ خالق آباد‘ نوشہرہ۔ صفحات: ۱۵۸۔ قیمت: ۶۰ روپے۔ ]ایسے دل چسپ اقتباسات کا مجموعہ‘ جو مولف نے اپنے زمانۂ طالب علمی اور پھر تصنیفی مراحل میں‘ زیرمطالعہ کتابوں اور رسالوں سے اخذ کر کے‘ اپنی ذاتی ڈائری میں جمع کر لیے۔ زیادہ تر تحریریں اکابر اور علما کی ہیں‘ خصوصاً شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی‘ محمد علی جوہر‘ ابوالکلام آزاد وغیرہ کے واقعات‘ ملفوظات __کام کی باتیں۔[
  •  سفر صدیوں کا‘ سعید اکرم۔ ناشر: کمال پبلی کیشنز‘ ۱۶‘ مال پلازا‘ راولپنڈی کینٹ۔ صفحات: ۱۵۹۔قیمت: ۱۲۰ روپے۔ ]ایک پختہ گو‘ قادر الکلام اور مثبت طرزِ فکر شاعر کا خوب صورت مجموعہ شعر۔ سرِآغاز : خَلَقَ الْاِنْسَانَ عَلَّمَہُ البیان۔ اشاعت میں خاص اہتمام۔[
  •  سیارہ‘ اشاعت  خاص ۴۸‘ سالنامہ ۲۰۰۱ء۔ نگرانِ اعلیٰ: نعیم صدیقی‘ رابطہ: ایوانِ ادب‘ چوک اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۴۰۔ قیمت: ۶۸ روپے ۔ ] نئی ادبی تحریریں‘ حمد‘ نعت‘ غزلیات‘ افسانے‘ مقالات‘ تبصرے ___ ایک گوشہ خاص: سیدمودودی بطور ادیب اور بطور مفکر و داعی۔ ایک حصے میں حادثہ ۱۱ ستمبر اور عالم اسلام پر نظم و نثر۔[