ربِّ کریم کا فرما ن ہے: كُلُّ مَنْ عَلَيْہَا فَانٍ۲۶ۚۖ وَّيَبْقٰى وَجْہُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ۲۷ (الرحمٰن ۵۵:۲۶-۲۷) ’’ہرچیز جو اس زمین پر ہے فنا ہوجانے والی ہے اور صرف تیرے ربّ کی جلیل و کریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے‘‘۔ ہرمتنفس کو دُنیاوی زندگی سے ایک دوسری زندگی کی طرف سفر کرنا ہے۔ اس لیے یہ ربِّ کریم کا خصوصی فضل ہے کہ وہ اپنے کسی بندے سے اس دُنیاوی زندگی میں وہ کام لے لے، جو اس کی نجات اور کامیابی کے لیے بنیاد فراہم کرسکے۔ پروفیسر خورشیداحمد صاحب نے جب سے شعوری طور پر اسلام کو بطور ایک تحریک اور انقلابی قوت کے سمجھا، اس وقت سے ان کی زندگی کا مشن رضائے الٰہی کا حصول اور اپنی تمام ترجیحات کو تحریکی ترجیحات کے تابع کر دینا قرار پایا۔ دورانِ تعلیم اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستگی اور اس کی دعوت کے فروغ کے لیے جدوجہد اور اسلامی جمعیت طلبہ کی نظامت اعلیٰ سے فارغ ہونے کے ساتھ ہی جماعت اسلامی میں شمولیت ان کی تحریکی وابستگی کی ایک دلیل تھی۔
ترجمان القرآن سے ان کی وابستگی ایک تحریکی فریضے کی حیثیت رکھتی تھی۔ میں نے اُنھیں ہمیشہ یہی کہتے ہوئے سنا کہ:’’آخر دم تک ترجمان کی خدمت کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ کچھ عرصہ سے جب وہ علالت کی بناپر یکسوئی کے ساتھ ’اشارات‘ تحریر نہیں کر پاتے تھے تو اپنے احساسِ فرض کی بناپر مجھے ہدایت کرتے کہ ’’میں یہ بات ’اشارات‘ میں لانا چاہتا ہوں‘‘، اور ان کی تعمیلِ ارشاد میں مجھے نااہلی کے احساس کے باوجود حکم کی تعمیل کرنا ہوتی تھی۔
قارئین پر پروفیسر خورشید صاحب کا حق، اقامت دین کی جدوجہد میں اپنا تمام سرمایۂ حیات لگانے سے ہی ادا ہوسکتا ہے ؎
جان دی ، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
ترجمان القرآن کے اعلیٰ معیار کو مزید بلند کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ اس خلا کو پُر کیا جاسکے جو تحریک اسلامی پاکستان کو ایک علمی قائد سے محروم ہونے کی شکل میں پیدا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ مولانا مودودیؒ کے لگائے ہوئے اس علمی شجر طیبہ کے ذریعے دعوت الی اللہ اور دعوتِ اطاعت ِ رسولؐ کو لوگوں کے دل و دماغ میں پیوستہ کرنے میں کامیابی عطا فرمائے، آمین!
پروفیسر خورشید احمد صاحب نے محترم مولانا مودودی کی فکر کو آگے بڑھانے میں تین اہم محاذوں پر کام کیا:
ان تین بنیادی کاموں کے ساتھ پروفیسر صاحب نے خود مغربی فکر کے تحلیلی جائزے کے ساتھ اسلامی تصورِ حیات کو عصری زبان میں پیش کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
اس بات کی ضرورت ہے کہ تحریک، علمی قیادت کو اوّلین اہمیت دے اور ایسے نوجوان ذہن تیار کرے جو ولولہ اور جوش کے ساتھ تفقہ فی الدین کے ساتھ آنے والے دور کے پیش نظر اسلام کی پوری تعلیمات کو مختلف زبانوں میں پیش کرسکیں۔ یہ کام منصوبہ بندی، مسلسل کوشش اور رہنمائی کا طالب ہے۔