مئی ۲۰۲۵

فہرست مضامین

اُردن میں اخوان پر پابندی

سلیم منصور خالد | مئی ۲۰۲۵ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

یہ سوال پیدا ہوتا ہے: ’’امریکا کی نام نہاد ’وار آن ٹیرر‘ کیا ختم ہو گئی ہے ؟ یہ امریکی کھیل کب تک جاری رہے گا ؟ اس جنگ کی نوعیت اور شکل کیا ہے ؟‘‘

اُردن کی حکومت نے ۲۳؍ اپریل کی سہ پہر ملک کی سب سے مؤثر جماعت ’اخوان المسلمون‘ پر مکمل پابندی عائد کرنے سے ایک ہفتہ پہلے اس کے خلاف ایک نفرت انگیز مہم چلا رکھی تھی، اور پھر پابندی عائد کرتے ہی اس کے تمام دفاتر کو بند کرکے اس کے اثاثے ضبط کر لیے۔ وزیرِ داخلہ مازن فرایہ نے اعلان کیا: ’’یہ فیصلہ جماعت کے ایک رہنما کے بیٹے کے ہمراہ پندرہ افراد کی گرفتاری کے بعد کیا گیا ہے۔ اخوان المسلمون کی تمام سرگرمیوں کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہے اور جو کوئی بھی اس کے نظریات اور کتب کو پھیلائے گا، اسے قانون کے مطابق سخت سزا دی جائے گی۔ اس پابندی میں جماعت کے دفاتر اور املاک کی بندش اور ضبطی شامل ہے۔ اخوان نے غیرقانونی طور پر اپنا دفتری ریکارڈ تلف کیا ہے‘‘۔ حکومت نے سوشل میڈیا پر اخوان کی حمایت یا اس کی کسی سرگرمی کو پھیلانے پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔

پابندی کے اعلان سے چند گھنٹے پہلے ہی پولیس نے اخوان المسلمون کے مرکزی دفتر کا محاصرہ کرکے تلاشی شروع کردی تھی۔ اخوان کئی عشروں سے اُردن میں قانونی طور پر سرگرم ہے اور تمام بڑے شہروں میں اسے وسیع پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہے۔

  • اسلامی عمل محاذ کا موقف:’اسلامی عمل محاذ‘ (Islamic Action Front :IAF)، اخوان المسلمون کی حلیف ایک سیاسی جماعت ہے، جس نے گذشتہ سال پارلیمانی انتخابات میں ۱۳۸ میں سے کُل استعمال شدہ ووٹوں کا ایک تہائی حاصل کیا اور۳۱ نشستیں جیت کر سب سے بڑی سیاسی قوت کی حیثیت حاصل کی تھی۔ اخوان پر پابندی کے ساتھ ’اسلامی عمل محاذ‘ کے ہیڈ کوارٹر پر چھاپا مارا گیا، جو اس تنظیم پر بھی پابندی کا پیشگی عمل نظر آتا ہے۔ اسلامی محاذ کے سیکرٹری جنرل وائل السقہ نے کہا :’’ہماری جماعت قوم اور شہریوں کے مفادات کے دفاع، اُردن کی سلامتی و استحکام کے تحفظ کے لیے کام جاری رکھے گی‘‘۔
  • الزامات اور حکومتی موقف:گذشتہ ہفتے اُردنی حکومت نے ایک اخباری بیان میں کہا تھا کہ ’’۱۶؍ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جن پر دھماکا خیز مواد اور خودکار ہتھیار رکھنے، اور غیرقانونی بھرتی کے الزامات عائد کیے گئے تھے‘‘۔ اخوان المسلمون نے ان تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا: ’’وہ اُردن کی سلامتی سے وابستہ ہے اور کسی بھی تخریبی سرگرمی میں ملوث نہیں۔ یہ تمام الزامات قطعی طور پر بے بنیاد اور من گھڑت افسانے سے زیادہ کچھ وقعت نہیں رکھتے۔ اگر حکومت کے پاس کوئی ثبوت ہیں تو وہ قانون کے مطابق عدالت میں پیش کر کے مقدمہ چلائے، اور کردار کشی سے اجتناب کرے‘‘۔ 

اُردن، طویل عرصے سے مشرق وسطیٰ میں استحکام کی علامت سمجھا جارہا ہے۔ اُردن نے ۱۹۹۴ء میں اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کیا تھا۔ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی فلسطینی نژاد ہے۔  غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف عوامی غم و غصے کی لہر موجود ہے، جس کا فائدہ اخوان المسلمون اور اس سے وابستہ جماعتوں کو عوامی حمایت کی صورت میں ملا ہے۔ تھنک ٹینک ’مڈل ایسٹ آئی‘  (MEE) کی ۲۷؍اپریل کی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق: ’’اُردن میں اخوان کے خلاف یہ مہم سعودیہ، امارات اور اسرائیل کے مربوط دبائو کے تحت چلائی جارہی ہے۔ یاد رہے گذشتہ ۱۸ ماہ سے اُردن میں اسرائیل کے خلاف تقریباً روزانہ عوامی مظاہرے ہورہے ہیں‘‘۔

  • عالمی سطح پر مذمت:اُردن کے اس اقدام پر عالمی سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ انسانی حقوق کے کئی اداروں نے اخوان المسلمون پر پابندی کو جمہوریت اور سیاسی آزادیوں کے لیے ایک سنگین دھچکا قرار دیا ہے، اور اُردن پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے اقدامات کو واپس لے اور سیاسی جماعتوں کو آزادی اور اظہارِ رائے کی مکمل اجازت دے۔

اسی طرح مشرق وسطیٰ کے کئی عوامی اور سیاسی و علمی حلقوں نے اخوان المسلمون کے خلاف ان اقدامات کی مذمت کی ہے۔ مغربی ممالک کی انجمنوں نے بھی اس اقدام کو سیاسی دباؤ اور آزادیوں کی خلاف ورزی قرار دیا ہے کہ ایسی کارروائیاں معاشی، سماجی اور سیاسی زندگی کو نقصان پہنچاتی ہیں اور علاقے میں مزید تناؤ کو جنم دیتی ہیں۔

درحقیقت یہ سب ایک پرانا کھیل دُہرایا جا رہا ہے، جیسا کہ ۲۰۰۳ء میں برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر اور امریکی صدر بش نے عراق کو صریحاً جھوٹے اور بے بنیاد الزامات عائد کرکے لاکھوں انسانوں کے قتل و غارت کا کھیل کھیلا تھا۔اب وہی عالمی سامراجی عناصر مسلم دُنیا میں جگہ جگہ اسلامی قوتوں کو نشانہ بنانے کے لیے من گھڑت الزامات عائد کر کے اور کمزور مسلم حکمرانوں کو ڈرا کر، انھیں اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف ایسے اقدامات پر اُبھارتے ہیں۔

۲۳؍اپریل کی شام تل ابیب سے انٹرنیٹ پر شائع شدہ اخباری اطلاع میں یروشلم پوسٹ نے اخوان پر پابندی کو اطمینان کی نظر سے دیکھتے ہوئے لکھا :’’اخوان المسلمون نے اُردن کی رائے عامہ کو اسرائیل کے خلاف کھڑا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور بڑے پیمانے پر جلسے جلوس منعقد کیے تھے۔ یہ چیز اسرائیل کے لیے خطرہ بڑھا رہی تھی‘‘۔اسی طرح اُردن کی سیاسی اشرافیہ، اخوان کو خارجہ اور داخلہ سطح پر ایک بوجھ سمجھتی ہے اور علاقے کے طاقت ور ملکوں کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے اس سے چھٹکارا پانے اور اسرائیل سے تعلقات بڑھانے میں اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے امکانات دیکھتی ہے۔

ابتدا میں جو سوال اُٹھایا گیا تھا،وہی سوال سب اہل دل کے لیے غور طلب ہے کہ مسلم دُنیا کے تمام دینی اور قومی حلقے اس نام نہاد جنگ کے علَم برداروں کی اوچھی حرکتوں کو غور سے دیکھیں اور ان کی گھاتوں،وارداتوں کو سمجھیں۔ اظہارِ رائے اور انعقادِ اجتماع اور انجمن سازی پر بڑھتی ہوئی پابندیوں کے بارے میں بیدار رہیں۔