مئی ۲۰۲۵

فہرست مضامین

چند روشن یادیں!

ارشاد محمود | مئی ۲۰۲۵ | گوشۂ خورشیداحمد ؒ

Responsive image Responsive image

پروفیسر خورشید احمد صاحب کو دیکھنے اور سننے سے پہلے اُن کے علم، فہم، تدبر اور کردار کا بہت چرچا سن رکھا تھا۔ ان کا نام علمی، فکری اور دینی حلقوں میں احترام سے لیاجاتا تھا۔ تاہم، ۱۹۹۲ء میں جب مجھے اُن کے قائم کردہ ادارے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس)سے وابستہ ہونے کا موقع ملا، تو اُنھیں قریب سے دیکھنے، سننے اور ان سے استفادہ کرنے کے کئی مواقع میسر آئے۔

پروفیسر صاحب عشروں سے برطانیہ میں مقیم تھے، لیکن جب بھی سینیٹ کے اجلاسوں میں شرکت کے لیے پاکستان آتے، تو بڑی تیاری اور جامع منصوبہ بندی کے ساتھ آتے۔ پاکستان میں ان کے قیام کے دوران انسٹی ٹیوٹ میں متعدد علمی نشستیں، سیمینار اور کتابوں کی تعارفی تقاریب کا انعقاد ہوتا، جن کی ترتیب و تنظیم میں مجھے بھی شریک رہنے کا موقع ملتا۔ ان تقریبات کے انتظام و انصرام کے دوران نہ صرف ادارے کے سربراہ جناب خالد رحمٰن کی راہ نمائی میسر آتی،بلکہ  پروفیسر خورشید احمد صاحب سے بھی براہِ راست تبادلہ خیال کا موقع ملتا، جس سے ان کی شخصیت کو سمجھنے اور استفادے کے کئی نئے دریچے کھلتے۔

پروفیسر خورشید صاحب کی دلچسپیاں بے حد وسیع اور متنوع تھیں: —اسلامی معیشت، تعلیم، اسلامی تحریکیں، پاکستان کی سیاست، عالمی امور اور مسلم امہ کے مسائل۔ —گویا ہر موضوع ان کے فکری کینوس پر نمایاں تھا۔ تاہم، کم لوگوں کو معلوم ہے کہ نوّے کے عشرے کے بعد سے انھوں نے اپنے قیمتی وقت کا ایک بڑا حصہ کشمیر کاز کے لیے وقف کر رکھا تھا۔

ان سے میری قربت اور ملاقاتوں کی بنیاد بھی کشمیر ہی بنا۔ وہ سال میں تین سے چار مرتبہ برطانیہ سے اسلام آباد آتے تو ان کے معتمدِ خاص، راؤ محمد اختر، اُن کی مصروفیات کا جائزہ لینے کے بعد مجھے اطلاع دیتے: ’’میاں، ملاقات کی تیاری کر لو‘‘۔ اس کا مطلب ہوتا کہ پروفیسر صاحب کو میں نے گذشتہ چند ماہ کے دوران کشمیر اور پاک انڈیا تعلقات کے پس منظر میں رُونما ہونے والے اہم واقعات کی جامع بریفنگ دینی ہے۔ —ایسی بریفنگ جو نہ صرف حالات کا خلاصہ ہو بلکہ اس کے تحریکِ آزادی پر اثرات کی جامع تصویر بھی پیش کرے۔

ابتداء میں یہ بریفنگ محض سات سے دس منٹ پر مشتمل ہوتی، مگر رفتہ رفتہ اس کا دورانیہ بڑھتا گیا۔ چونکہ اُن کے پاس وقت نہایت محدود ہوتا اور مصروفیات کا ایک انبار ہوتا، اس لیے مجھے ہمیشہ ’دریا کو کوزے میں بند‘ کرنے کا ہنر آزمانا پڑتا۔اس بریفنگ کے دوران وہ اکثر اہم سوالات کرتے، میری آراء لیتے اور کئی مرتبہ حکومتی اہلکاروں، سفارت کاروں یا سیاست دانوں سے ہونے والی گفتگو کے اہم نکات بھی میرے ساتھ شیئر کرتے۔ یوں کشمیر اور پاک-بھارت تعلقات کی پیچیدہ اور باریک بین جہتوں کو سمجھنے میں مجھے گراںقدر رہنمائی حاصل ہوتی۔

کشمیر کے ہر پہلو سے ان کی دلچسپی تھی۔ تحریکِ مزاحمت کی بدلتی صورتِ حال سے وہ ہمیشہ باخبر رہتے، لیکن ان کی توجہ صرف سیاسی سرگرمیوں تک محدود نہیں تھی۔ وہ کشمیر پر ہونے والے علمی کاموں کو بھی دل سے سراہتے اور ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتے۔ نوّے کے عشرے میں ڈاکٹر طاہر امین نے Mass Resistance in Kashmir کے عنوان سے ایک اہم کتاب لکھی۔ اس کی تعارفی تقریب آئی پی ایس میں ہوئی۔ اس موقعے پر بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی کے صدر، ڈاکٹر ممتاز احمد نے انکشاف کیا کہ انھوں نے ستّر کی دہائی میں کشمیر پر جو کتاب لکھی تھی، اس کے پسِ پردہ بھی پروفیسر خورشید صاحب ہی کی تحریک اور حوصلہ افزائی کارفرما تھی۔

پروفیسر صاحب کی سرپرستی میں آئی پی ایس نے کشمیر پر درجنوں کتابیں شائع کیں اور سیکڑوں علمی سیمینار اور فکری نشستوں کا انعقاد کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ مسئلہ کشمیر صرف سیاسی نعروں یا سفارتی بیانات تک محدود نہ رہے بلکہ فکری اور علمی میدان میں بھی اس پر سنجیدہ بات ہو۔

یہ ان کی کشادہ ظرفی اور فکری وسعت تھی کہ آئی پی ایس کا پلیٹ فارم ہر مکتبِ فکر کے لوگوں کے لیے کھلا تھا۔ شاید ہی کوئی اہم کشمیری رہنما ایسا ہو جسے یہاں بات کرنے کا موقع نہ ملا ہو۔ جو بھی کشمیری لیڈر پاکستان تشریف لاتا، آئی پی ایس میں اس کے ساتھ تبادلہ خیال کی ایک محفل ضرور برپاہوتی۔ جناب عبدالغنی لون، شیخ عبدالعزیز، سردار محمد ابراہیم خان، سردار عبدالقیوم خان، یاسین ملک، امان اللہ خان اور وید بھیسین جیسے کئی بڑے نام اس فورم پر آ کر پاکستانی دانش وروں کے ساتھ مکالمے میں شریک ہوئے۔

کشمیر کے حوالے سے پروفیسر خورشید صاحب کی سوچ محض عوامی یا غیر رسمی دائرے تک محدود نہ تھی۔ وہ حکومت اور سرکاری اداروں کے ساتھ رابطے کو بھی ضروری سمجھتے تھے، اور اس بات کے قائل تھے کہ ریاستی سطح پر بھی راہ نمائی کی جائے۔ جب تک وہ سینیٹر رہے، ہر دورِ حکومت میں انھوں نے مسئلہ کشمیر پر مدلل، متوازن اور مؤثر تجاویز پیش کیں۔ سینیٹ میں ان کی تقاریر قومی، فکری اور ملّی سوچ کی بھرپور عکاس ہیں۔

پروفیسر خورشید صاحب کا فکری خمیر تحریکِ پاکستان کے ماحول میں پروان چڑھا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی تحریروں اور تقریروں میں قائداعظم محمد علی جناح ؒکے فرمودات اور تقاریر کے برمحل حوالے کثرت سے ملتے ہیں۔ وہ ان حوالوں کو صرف تاریخی تناظر میں نہیں بلکہ موجودہ حالات کی روشنی میں نئے مفاہیم کے ساتھ پیش کرتے، اور یوں تاریخ اور حال میں ایک فکری ربط قائم کرتے تھے۔

ایک بار میں نے انڈیا کے ممتاز قانون دان اے جی نورانی [۱۶ستمبر ۱۹۳۰ء- ۲۹؍اگست ۲۰۲۴ء] کو میریٹ ہوٹل، اسلام آباد سے لے جا کر پروفیسر خورشید صاحب سے ملاقات کرائی۔ نورانی صاحب بڑے محقق اور دانشور تھے، ان کا دل کشمیریوں کے لیے دھڑکتا تھا۔ اپنی کتابوں اور مضامین میں انھوں نے کشمیر کے مختلف پہلوؤں کو مدلل انداز میں اُجاگر کیا ہے۔ صدر جنرل پرویز مشرف [۱۹۴۳ء- ۲۰۲۳ء]کے دور میں وہ ’ٹریک ٹو‘ ڈپلومیسی میں بھی کافی سرگرم رہے۔ انھی دنوں انھوں نے جنرل مشرف کا ایک دھماکا خیز انٹرویو کیا تھا جو پندرہ روزہ Frontline میں شائع ہوا۔ نورانی صاحب، سیّد علی گیلانی [۲۹ستمبر ۱۹۲۹ء- یکم ستمبر ۲۰۲۱ء]کے بھی بہت قریب تھے، اور انھوں نے گیلانی صاحب کو مشرف کے چار نکاتی فارمولے کی حمایت پر آمادہ کرنے کی بڑی کوشش کی، لیکن وہ نہ مانے۔

نورانی صاحب جانتے تھے کہ سیّد علی گیلانی، پروفیسر خورشید صاحب کا بے حد احترام کرتے ہیں اور ان کی رائے کو نظرانداز نہیں کرتے۔ اس لیے انھوں نے پروفیسر خورشید صاحب سے کہا کہ آپ گیلانی صاحب کو آمادہ کرنے کی کوشش کریں کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کوئی راہ نکالی جاسکے، خاص طور پر مشرف فارمولے کے تحت‘‘۔ مگر گیلانی صاحب کا موقف واضح اور غیر متزلزل تھا۔دونوں بزرگوں کے درمیان خاصی طویل ملاقات رہی، مگر بات بنی نہیں، کیونکہ پروفیسر خورشید صاحب، گیلانی صاحب پر دباؤ ڈالنے پر آمادہ نہ تھے۔وہ سیّد علی گیلانی کی شجاعت اور قربانی کے بہت بڑے مداح تھے۔

پروفیسر خورشید احمد محض ایک دانش ور ہی نہیں تھے بلکہ ایک سرگرم سیاسی اور سماجی رہنما بھی تھے۔ وہ صرف علمی میدان میں ہی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں بھرپور طریقے سے شریک رہتے تھے۔ کشمیر کے حوالے سے ان کی وابستگی محض جذباتی اور قومی بنیادوں پر نہیں تھی، بلکہ انھوں نے اخلاقی، اصولی، قانونی اور تنظیمی سطح پر بھی گراں قدر کردار ادا کیا۔ برطانیہ میں تحریکِ آزادیٔ کشمیر کو منظم کرنے میں ان کا کردار کلیدی تھا۔ اسلامک مشن کے پلیٹ فارم سے ابتدا کی، اور پھر اسی کے بطن سے ’تحریکِ کشمیر‘ کے نام سے ایک باقاعدہ فورم تشکیل دیا۔

برسوں تک تحریکِ کشمیر کی قیادت مردِ درویش منور حسین مشہدی مرحوم کے ہاتھ میں رہی، اور اس پلیٹ فارم نے برطانیہ میں کشمیر کاز کے لیے نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ برطانیہ میں مقیم کشمیری، پاکستانی اور دیگر مسلمانوں کو منظم کرنا، ان کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو سیاسی اور فکری میدان میں اُجاگر کرنا ان کا ہدف تھا۔

اسّی کے عشرے میں جب مسئلہ کشمیر نئے پس منظر میں انگڑائی لے رہاتھا ۔پروفیسر خورشید صاحب نے پیر حسام الدین ایڈووکیٹ، جو مقبوضہ کشمیر کے ایک مایہ ناز قانون دان اور تحریکی رہنما تھے، انھیں برطانیہ مدعو کیا جہاں وہ کافی عرصے تک مقیم رہے، اور برطانیہ اور یورپ میں مسئلہ کشمیر کو اُجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ بعد میں پیرحسام الدین واپس مقبوضہ کشمیر چلے گئے کیونکہ حج کے دوران بھارتی حکام نے ان کا پاسپوٹ ضبط کرلیا تھا، جہاں ۲۰۰۴ء میں ’نامعلوم افراد‘ کے ہاتھوں شہید کر دیے گئے۔

ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کے حوالے سے کشمیری حلقوں میں متعدد پہلوئوں پر اختلافِ رائے پایا گیا ہے۔ اگرچہ ایک بڑی اکثریت پاکستان سے محبت کرتی ہے، لیکن ایک نمایاں طبقہ ایسا بھی ہے جو کشمیر کو ایک ’خودمختار ریاست‘ کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ کوئی نیا خیال نہیں، بلکہ اس کی جڑیں بیسیویں صدی میں چالیس کے عشرے تک جاتی ہیں۔۱۹۹۰ء میں جب تحریکِ مزاحمت نے ایک ہمہ گیر عوامی تحریک کی شکل اختیار کی، تو اس مسئلے پر خاصی تلخیاں بھی پیدا ہوئیں۔ کشمیر کے مستقبل کے سوال پر کئی محاذ کھل گئے، اور افسوس کہ اس کش مکش میں دونوں طرف کا جانی اور سیاسی نقصان ہوا۔

مجھے پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں مقبوضہ کشمیر اور دہلی جانے کا موقع ملا۔ ان دوروں نے نہ صرف کشمیر کی زمینی حقیقت کو قریب سے دیکھنے کا موقع دیا بلکہ کئی اہم سیاسی رہنماؤں سے دوستانہ تعلقات بھی قائم ہوئے۔ جناب یاسین ملک بھی ان میں سے ایک تھے۔ ان سے پہلی ملاقات رسمی تھی ،لیکن جلد ہی یہ تعلق دوستی میں اور پھر گہری رفاقت میں بدل گیا۔

اسی تعلق کی بنیاد پر راقم نے یاسین ملک کی ملاقات پروفیسر خورشید صاحب  سے کروائی، اور پھر ان دونوں کے درمیان بھی ذاتی سطح پر ایک احترام اور مشاورت کا رشتہ قائم ہوگیا۔ پروفیسر خورشید صاحب نے ان کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ سیّد علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق کے ساتھ مل کر جدوجہد کو مربوط بنائیں۔ کشمیر کے مستقبل کے سوال پر انھوں نے یاسین ملک کو یہی مشورہ دیا کہ فیصلہ کشمیری عوام کی مرضی اور رائے پر چھوڑ دینا چاہیے۔

۲۰۱۱ء میں جب یاسین ملک اسلام آباد میں کچھ وقت گزار کر واپس سری نگر لوٹے، تو ان کی تمام تر توجہ حریت پسند جماعتوں کے درمیان اتحاد پر مرکوز رہی۔ انھوں نے جناب علی گیلانی اور میرواعظ عمر فاروق کو ایک میز پر بٹھایا، جو ایک بڑا قدم تھا۔ لیکن بھارت کی جانب سے اس کوشش کا شدید ردعمل آیا۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ غیر معمولی طور پر مشتعل ہوئی، اور یاسین ملک کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑی، —جو وہ آج تک تہاڑ جیل میں چکا رہے ہیں۔

۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵-اے سے متعلق ایک آئینی ترمیم کے ذریعے ختم کرکے ریاست جموں و کشمیر کی آبادی کے تناسب کو بگاڑنے کی راہ ہموار کردی۔ اس نازک مرحلے پر، پروفیسر خورشید صاحب نے ماہ نامہ ترجمان القرآن میں کشمیری قیادت کو مشورہ دیا کہ وہ تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ریاست جموں و کشمیر کے مسلم تشخص کے تحفظ کے ایک نکاتی ایجنڈے پر وسیع البنیاد اتفاق رائے پیدا کریں۔حالانکہ وہ جانتے تھے کہ بھارت نواز اور آزادی پسند کشمیری سیاستدانوں میں اختلافات محض سیاسی نوعیت کےنہیںہیں، بلکہ یہ خلیج ناقابلِ عبور ہے۔ اس کے باوجود انھوں نے تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو متحدہو کر مسلم تشخص کے تحفظ اور آبادی کا تناسب بگاڑنے کے بھارتی حربوں کا مقابلہ کرنےکی دعوت دی اور عملی اقدام کی اپیل کی۔

اسی طرح، حالیہ چند ماہ کے دوران آزاد جموں و کشمیر میں گورننس کی ناکامی اور سیاسی عدمِ استحکام کے باعث شدید عوامی بےچینی نے جنم لیا، جو بالآخر ایک ہمہ گیر تحریک کی صورت اختیار کرگئی۔ اس موقعے پر بھی، پروفیسر خورشید صاحب نے ترجمان القرآن [فروری ۲۰۲۵ء]کے ایک اداریے میں توجہ دلائی کہ اس تحریک کو ہرگز پاکستان مخالف رنگ نہ اختیار کرنے دیا جائے، بلکہ آزاد کشمیر کے عوام کو درپیش بنیادی مسائل کا سنجیدگی سے حل نکالا جائے۔ ساتھ ہی، کشمیری عوام کو مشورہ دیا کہ وہ قومی دھارے سے جڑے رہیں اور پاکستان مخالف جذبات کو آزاد کشمیر کی فضا میں جڑ نہ پکڑنے دیں۔ غالباً مسئلہ کشمیر پر پروفیسر خورشید احمد صاحب کی یہی آخری تحریر تھی — ایک فکر انگیز اور بصیرت افروز وصیت کی صورت میں۔

پروفیسر صاحب نہ صرف حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھتے تھے بلکہ اپنے نظریاتی مخالفوں اور اپنے ساتھیوں کی تحریروں کا بھی بڑی توجہ سے مطالعہ کرتے تھے۔ ۲۰۰۴ء میں جب جنرل پرویز مشرف نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے چار نکاتی فارمولا پیش کیا، تو میں نے عمومی طور پر اس خیال کی حمایت کی۔ میری نظر میں یہ ایک جمود توڑنے والا قدم تھا، جو مسئلہ کشمیر کو ایک نئی سمت دے سکتا تھا۔ میں نے اخبار دی نیوز میں اس پر ایک مضمون لکھا، جس میں مشرف کی سوچ کو پیش رفت کی ایک صورت کے طور پر بیان کیا۔ مضمون چھپنے کے چند گھنٹوں بعد پروفیسر صاحب کا فون آیا۔ کہنے لگے: ’’اگر آپ یہ لکھتے کہ یہ حل کی طرف پہلا قدم ہو سکتا ہے، تو بات زیادہ مدلل اور مؤثر ہوتی‘‘۔ایک بار انھوں نے روزنامہ جنگ میں میرا ایک مضمون پڑھا تو بلا کر ستائش کی اور ساتھ مشورہ دیتے ہوئے کہا:’’برٹرینڈ رسل کی کتابیں پڑھو، دیکھو وہ کیسے دلیل قائم کرتے ہیں، ان کی تحریریں مختصر لیکن پر اثر ہوتی ہیں‘‘۔

لگ بھگ سولہ برس پہلے میں نے آئی پی ایس سے علیحدگی اختیار کر لی اور دیگر اداروں سے وابستہ ہو گیا، مگر اس کے باوجود پروفیسر خورشیداحمد صاحب کی شفقت اور توجہ قائم رہی۔ دو برس قبل پروفیسرصاحب کے معاون ترجمان القرآن نے بتایا کہ ’’پروفیسر صاحب چاہتے ہیں کہ خرم پرویز، جو انسانی حقوق کے نمایاں علَم بردار ہیں اور جنھیں بھارت میں جھوٹے مقدمات میں جیل میں ڈال دیا گیا ہے، ان پر آپ کے انگریزی مضمون کا اردو ترجمہ ترجمان القرآن میں شائع ہو‘‘۔ میرے لیے یہ بات باعثِ مسرت تو تھی لیکن حیرت کا باعث بھی کہ اس قدر علیل ہونے کے باوجود ان کا دل کشمیر میں اَٹکا ہواہے۔

مطالعے کا ذوق بھی وہ دوسروں میں منتقل کرنا چاہتے تھے۔ اسلام آباد کی مشہور دکان ’مسٹر بکس‘ سے اگر کوئی اچھی کتاب انڈیا، پاکستان یا کشمیر پر دیکھتے تو خرید کر راؤ اختر صاحب کے ذریعے مجھے بھی بھیج دیتے۔ ایک دو بار اپنی تقریروں اور تحریروں میں میری تحریر کا حوالہ بھی دیا۔ شاید یہ ان کی طرف سے حوصلہ افزائی کا ایک خاص انداز تھا، جو آج بھی یاد آتا ہے۔

اگرچہ پروفیسر خورشید احمد آسودۂ خاک ہو چکے، مگر ان کی درجنوں کتابیں، بے شمار شاگرد، قائم کردہ ادارے اور فلاحی منصوبے ہمیشہ ان کی یاد کو زندہ رکھیں گے۔ وہ اپنے پیچھے ایک ایسا علمی و فکری سرمایہ چھوڑ گئے ہیں، جو ان کے لیے صدقۂ جاریہ کی صورت میں ان کی قبر کو روشن اور آخرت میں ان کے لیے نجات و کامیابی کا سامان بنے گا، ان شاء اللہ!