مئی ۲۰۲۵

فہرست مضامین

دعوت دین میں سماجی رشتوں کی اہمیت

ڈاکٹر اختر حسین عزمی | مئی ۲۰۲۵ | اسوۂ حسنہ

Responsive image Responsive image

انفرادی مزاج، ذاتی ضروریات، نظریاتی اختلافات، گروہی وابستگیوں اور قومی عصبیتوں کے باعث سماجی تعلقات اتنے تہہ در تہہ اور پیچیدہ ہوتے ہیں کہ ایک ہی وقت میں ایک فرد دوسرے فرد سے اور ایک گروہ دوسرے گروہ سے کسی سطح پر کٹا ہوا ہوتا ہے، تو اسی لمحے کسی سطح پر دوسرے افراد اور اقوام سے جڑے ہونا اس کی مجبوری ہوتی ہے۔ ایک داعی ہو یا سیاسی کارکن، اگر وہ سماجی تعلقات کی ان پیچیدگیوں کا فہم نہیں رکھتا تو وہ اجتماعیت سے کٹ کر رہ جاتا ہے اور اس طرح وہ اپنے پیغام اور کام کے لیے معاشرے میں خود ہی گنجائش (space) کم کرتا چلا جاتاہے۔ ایک داعی کے لیے تہہ در تہہ تعلقات سے دعوت کے لیے حمایت اور فوائد اخذ کرنے کی صلاحیت اَزحد ضروری ہے۔

سیرتِ نبویؐ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپؐ نے بدتر سے بدتر حالات اور دشمنوں کے نرغے میں بھی اپنے مقاصد کے لیے حمایت و تائید حاصل کی۔ کسی بھی اصولی و نظریاتی گروہ کے لیے یہ اُمید کا پہلو ہے کہ مخالفین میں بھی ہر آدمی ایک ہی طرح کا مخالف نہیں ہوتا۔ ان میں بھی دُور اندیش، معتدل طبیعت اور ٹھنڈے مزاج کے لوگ ہوتے ہیں جو محض جذباتیت اور اندھی عصبیت کا شکار نہیں ہوتے۔ اس ضمن میں سیرتِ رسولؐ سے کچھ واقعات پیش ہیں۔


حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی پھوپھیوں کو بتایا کہ اللہ نے مجھ پر یہ حکم نازل فرمایا ہے: وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ۝۲۱۴ (الشعراء ۲۶:۲۱۴)’’اور آپؐ اپنے قریبی عزیزوں کو ڈرایئے‘‘، تو میں سوچ رہا ہوں کہ اپنے ربّ کے اس حکم کی تعمیل کیسے کروں؟ آپؐ کی پھوپھی حضرت صفیہؓ نے کہا: ’’تو اس میں دیر کس بات کی۔ عبدالمطلب کی ساری اولاد کو بلائیں اور ان کے سامنے اپنی بات رکھیں۔ البتہ اپنے چچا ابولہب کو نہ بلائیں، وہ تمھاری کوئی بات نہ مانے گا‘‘۔

اگلے دن آپؐ نے بنوہاشم کو کھانے پر بلایا اور اپنی پھوپھی کی رائے کے برخلاف ابولہب کو بھی بلایا۔ خاندان بنوہاشم کے چالیس افراد آئے اور ابولہب نے اس محفل کا ماحول خراب کرنے اور آپؐ کی دعوت سے بنوہاشم کو بدظن کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور بعد کی زندگی میں بھی بنوہاشم کا یہ واحد شخص تھا جس نے آپؐ کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔(الکامل ابن اثیر بحوالہ الرحیق المحتوم، ص ۱۱۲-۱۱۳)

 حضرت صفیہؓ کی رائے درست ہونے کے باوجود اسے کھانے پر بلانا اس لیے ضروری تھا کہ وہ نہ صرف آپؐ کا حقیقی چچا تھا بلکہ آپؐ کا قریب ترین ہمسایہ ہونے کے ساتھ ساتھ آپؐ کا سمدھی بھی تھا۔ آپؐ کی دو بیٹیاں حضرت رقیہؓ اور حضرت اُمِ کلثومؓ ابولہب کے دو بیٹوں عتبہ اور عتیبہ کے نکاح میں تھیں، اگرچہ ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ جب آپؐ خاندان کے دیگر افراد کو دعوت دے رہے تھے تو اسے کیسے نظرانداز کرسکتے تھے؟ اس طرح تو اسے بھتیجے کی مخالفت کا ایک اخلاقی جواز مل جاتا کہ جب محمدؐ بن عبداللہ نے مجھے سارے خاندان میں حقیر سمجھا ہے تو میں بھی اس کی تحقیر کروں گا۔

اب اسی شخص کی خاندانی عصبیت ایک موقع پر مسلمانوں کے کام آگئی۔ واقعہ یہ ہے کہ پہلی ہجرت حبشہ کے بعد جب ایک غلط فہمی کے باعث بعض مسلمان حبشہ سے واپس آگئے تو وہ مکہ میں کسی نہ کسی کی ’امان‘ حاصل کرکے رہنے لگے۔ ان میں قریش کے خاندانِ بنی مخزوم کے ابوسلمہؓ اور ان کی بیوی بھی تھے۔ ان کو ان کے ماموں حضرت ابوطالب نے پناہ دے دی۔بنومخزوم کو یہ گوارا نہ تھا کہ ان کے باغی نوجوان کو کوئی اور پناہ دے۔ وہ اپنے سردار ابوجہل کے ہمراہ حضرت ابوطالب کے پاس آئے اور انھوں نے کہا: ’’تم نے ہمارے خاندان کے آدمی کو کیوں پناہ دی ہے؟‘‘

حضرت ابوطالب نے کہا: ’’ابوسلمہ میرا بھانجا ہے ۔ اگر میں اپنے بھتیجے محمدؐ کو پناہ دے سکتا ہوں تو بھانجے کو کیوں نہیں دے سکتا؟‘‘

اس پر ابوجہل اور حضرت ابوطالب کے درمیان تکرار بڑھ گئی۔ ابولہب نے جب دیکھا کہ بنومخزوم اس کے بھائی ابوطالب سے لڑنا چاہتے ہیں تو اس کی خاندانی عصبیت نے جوش مارا۔اس نے کہا:

’’اے بنومخزوم! تم ابوطالب پر دبائو ڈالتے جارہے ہو۔ اگر تم اپنی حرکت سے باز نہ آئے تو خدا کی قسم! میں ان کی حمایت میں سینہ سپر ہوجائوں گا‘‘۔

ابولہب کے یہ تیور دیکھ کر بنومخزوم اسے کہنے لگے:’’اے ابوعتبہ! ہم تمھیں ناراض نہیں کرنا چاہتے‘‘، یہ کہتے ہوئے وہ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ (ضیاء النبی، ۲ /۲۵۸)


خاندان بنوہاشم کی پہلی دعوت میں جب ابولہب نے بنوہاشم کو حضوؐر کی دعوت کے خطرات سے ڈرایا کہ ہم تمام قریش اور عرب کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اس لیے بہتر ہے کہ خاندان ابھی سے محمدؐبن عبداللہ کو اس کام سے روک دے تو حضرت ابوطالب نے معاملے کو سنبھالتے ہوئے کہا:

’’اے بھتیجے! تمھیں شاید اندازہ نہیں کہ ہمیں تمھاری نصیحت کس قدر پسند ہے اور ہم تمھاری بات کو کس قدر سچی جانتے ہیں۔ یہ تمھارا گھرانہ جمع ہے اور میں بھی اسی خاندان کا ایک فرد ہوں۔ اگرچہ میری طبیعت عبدالمطلب کا آبائی دین چھوڑنے پر راضی نہیں ہے لیکن تمھیں جس بات کا حکم دیا گیا ہے، اسے تم انجام دیتے رہو۔ اللہ کی قسم! جب تک میرے جسم میں جان ہے، تمھاری حفاظت سے ہاتھ نہیں کھینچوں گا‘‘۔ (ابن اثیر: الکامل، بحوالہ الرحیق المختوم، ص ۱۱۳، ضیاء النبی، ۲/ ۲۷۰)

جب قریش کے لیے دعوت کا پھیلائو ناقابلِ برداشت ہوگیا تو بنوہاشم کے سردار حضرت ابوطالب کو پیغمبرؐ اسلام کی حمایت سے روکنے کے لیے معززین قریش کا ایک وفد لے کر ان کے گھر پہنچ گئے اور مطالبہ کیا کہ یا تو اپنے بھتیجے کو قوم کے معبودوں میں عیب چھانٹنے اور ہمارے آبائواجداد کو گمراہ کہنے سے روک دیں یا درمیان سے ہٹ جائیں، تاکہ ہم اس سے خود نمٹ لیں۔ سردارانِ قریش باہمی خانہ جنگی سے بچنے کے لیے حضرت ابوطالب پر دبائو ڈال رہے تھے۔ انھوں نے بڑا نرم اور رازدارانہ لہجہ اختیار کرکے انھیں خوب صورتی سے ٹال دیا۔(سیرۃ ابن ہشام بحوالہ ضیاء النبی، ۲/ ۲۷۰، الرحیق المختوم، ص ۱۱۶)

کچھ عرصے بعد ان کا دوسرا وفد آگیا اور یہ دھمکی دے کر چلا گیا کہ اگر آپ اپنے بھتیجے کو نہیں روکیں گے تو ہماری آپ سے لڑائی ہوگی۔ بنوہاشم کی تعداد اتنی نہ تھی کہ پورے قبیلہ قریش سے ٹکر لے سکے۔ اس لیے حضرت ابوطالب نے چاہا کہ بھتیجے کو اس بات سے آگاہ کریں۔ انھوں نے پیغمبرؐ اسلام سے کہا:

’’بھتیجے! مجھ پر اتنا بوجھ نہ ڈالو جس کا سہارنا میرے بس میں نہ ہو‘‘۔ لیکن جب بھتیجے نے اس عزم کا اظہار کیا کہ اگر یہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند بھی لاکر رکھ دیں تو بھی میں اس دعوت سے باز نہ آئوں گا تو حضرت ابوطالب نے کہا:

’’بھتیجے جائو اور وہ بات کہتے رہو جو تمھیں پسند ہے۔ میں تمھیں کبھی دشمن کے رحم و کرم پر نہ چھوڑوں گا‘‘۔ (سیرۃ ابن ہشام ۱/ ۳۷۸، سیرۃ ابن کثیر۱/ ۲۷۴ بحوالہ ضیاء النبیؐ، ۲/ ۲۷۶)

تیسری مرتبہ قریشی وفد نے حضرت ابوطالب سے یہ سودے بازی کرنا چاہی۔ انھوں نے حضرت ابوطالب سے کہا:

’’ولید بن مغیرہ کے بیٹے عمارہ کو اپنا فرزند بنا کر رکھ لیں تاکہ وہ تمھارا دست و بازو بنے اور محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو ہمارے حوالے کر دیں‘‘۔ اس پر حضرت ابوطالب نے کہا: ’’واللہ! تم میرے ساتھ انصاف کا معاملہ نہیں کر رہے۔ مجھے اپنا بیٹا دے رہے ہو کہ میں اسے پالوں، پوسوں اور موٹا تازہ کروں اور تم میرے بیٹے کو لے جا کر تلوار کے نیچے سے گزار دو۔ اللہ کی قسم! ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا‘‘۔(الرحیق المختوم، ص ۱۴۰)

 بھتیجے کی حفاظت کے لیے حضرت ابوطالب اس قدر فکر مند رہتے کہ رات کو بھتیجے کے لیے ایک جگہ بستر لگواتے اور جب سب سو جاتے تو بھتیجے کو کسی اور بستر پر لٹا دیتے اور ان کے بستر پر اپنے بیٹوں میں سے کسی کو سلا دیتے۔وہ بھتیجے کی جان کے لیے اپنے بیٹوں کی جان کو خطرے میں ڈالنے کے لیے تیار تھے۔ ( سیرۃ ابن کثیر۲/ ۴۴ بحوالہ ضیاء النبیؐ، ۲/ ۳۸۳)

جب قریش حضرت ابوطالب سے مایوس ہوگئے تو انھوں نے نہ صرف قریش بلکہ اپنے حلیف بنوکنانہ کے ساتھ مل کر بنوہاشم کے معاشرتی و معاشی مقاطعے (بائیکاٹ) کا فیصلہ کیا تو اس میں بھی حضرت ابوطالب اور بنوہاشم کی آپ کو پشت پناہی حاصل رہی حالانکہ اس وقت تک حضرت ابوطالب اور بنوہاشم کی ۱۰فی صد تعداد بھی مسلمان نہ ہوئی تھی۔


ابولہب کے بنوہاشم کا سردار بننے کے باعث خاندان کی وہ سرگرم حمایت تو حضوؐر کو حاصل نہ رہی لیکن آپؐ کے ایک چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب جو کہ ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے لیکن درپردہ آپؐ کے حمایتی رہے۔ جب ۱۳نبوی میں آپؐ نے رات کی تاریکی میں اہل مدینہ سے بیعت عقبہ ثانیہ لی تو اس وقت حضرت عباسؓ آپؐ کے ساتھ تھے۔ انھوں نے اہل مدینہ کو مخاطب کر کے کہا:

’’خزرج کے لوگو! ہمارے اندر محمدؐ کی جو حیثیت ہے تمھیں معلوم ہے۔ اپنے قبیلہ قریش کے ساتھ ہم عقیدہ ہونے کے باوجود ہم نے قریش کے مقابلے میں ان کا دفاع کیا ہے۔ اب وہ تمھارے ہاں منتقل ہونے کے بارے میں یکسو ہیں۔ اگر تم ان کے دشمنوں سے ان کا دفاع کرلو گے، تب تو ٹھیک ہے لیکن اگر تم بعد میں ان کو بے یارومددگار چھوڑ دو تو بہتر ہے کہ اس پیش کش سے آج ہی دستبردار ہوجائو، کیونکہ وہ اپنے شہر میں اپنے خاندان کے تحفظ میں تو ہیں‘‘۔(سیرۃ ابن ہشام ۱/ ۴۴۱-۴۴۲، بحوالہ الرحیق المختوم ، ص۲۱۱-۲۱۲)


مطعم بن عدی جو کہ حضورؐ کے دادا ہاشم کے ایک بھائی نوفل کا پوتا تھا، آخر دم تک کفر پر قائم رہا اور جنگ ِ بدر میں قتل ہوا۔ بعثت ِ نبویؐ کے پانچویں سال جب قریش کے تمام خاندانوں نے بنوہاشم کے معاشرتی مقاطعہ (بائیکاٹ) کا باہمی طور پر معاہدہ کیا جس کی رُو سے قریش کی دوسری شاخوں کا بنوہاشم سے میل جول اور لین دین ممنوع ہوگیا۔ حضوؐر کی حفاظت اور دفاع کے لیے بنوہاشم شعب ابی طالب میں محصور ہوگئے۔ قریش کے سخت پہرے کے باعث باہر سے کوئی چیز بھی وہاں نہیں پہنچ پاتی تھی۔ قریش کی سنگدلی کے اس زمانہ میں چند نرم دل کافر چوری چھپے غلّہ و اناج پہنچاتے رہے۔ بالآخر تین سال بعد قریش ہی کے بعض منصف مزاج لوگوں نے ابوجہل کے اس فیصلہ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی اور اس ظالمانہ معاہدے کو چاک کیا۔ ان پانچ چھ افراد میں مطعم بن عدی بھی شامل تھا۔ (سیرۃ ابن ہشام، ص۳۲۵ ، الرحیق المختوم،ص ۱۶۰)


حضرت ابوطالب کی وفات کے بعد ابولہب بنوہاشم کا سردار بنا تو اس نے آپؐ کو خاندانِ بنوہاشم سے ’طرد‘ (کنبہ بدر) کردیا۔ قریش کے تمام خاندان تو آپؐ کے مخالف تھے ہی اب خاندان بنوہاشم بھی آپ ؐ کی حمایت سے دست کش ہوگیا تو اب کوئی بھی آپؐ پر ہاتھ اُٹھاتا یا قتل کردیتا تو کسی کو آپؐ کے خاندان سے لڑائی کا کوئی خطرہ نہ رہا۔ ان خونخوار حالات میں آپ دیگر قبائل کی حمایت کے لیے سفرطائف پر روانہ ہوئے۔ راستے کے قبائل نے بھی آپؐ کی بات قبول نہ کی اور طائف کے سرداروں نے تو اُلٹا آپؐ کے پیچھے اوباش لڑکوں کو لگا دیا جنھوں نے سنگ باری کر کے آپؐ کو لہولہان کردیا۔ حالات کی خونخواری اتنی بڑھ گئی تھی کہ جب آپؐ مکہ کے قریب پہنچے تو آپؐ کے رفیقِ سفر حضرت زیدؓبن حارثہ نے کہا:

’’یارسولؐ اللہ! آپؐ کس طرح مکہ میں داخل ہوں گے، جب کہ وہاں کے لوگ تو آپؐ کے خون کے پیاسے ہوچکے ہیں؟ حضرت زیدؓ کو خدشہ تھا کہ اہل طائف کی بدسلوکی کے بعد تو اہل مکہ کی جسارتیں اور بڑھ جائیں گی۔جب آپؐ حرا کے مقام پر پہنچے تو آپؐ نے بنوخزاعہ کے ایک صحرائی گائیڈ عبداللہ بن اریقط کو کہا:

’’اخنس بن شریق ثقفی کے پاس جائو اور اس سے پوچھو کہ کیا وہ مجھے اپنی جوار (پناہ) میں لے سکتاہے تاکہ میں لوگوں تک ان کے ربّ کا پیغام پہنچا سکوں؟ حقِ جوار یا امان لینا عرب کی روایت تھی۔ جوار دینے والا قبیلہ اسے اپنی عزّت سمجھتا تھا اور پناہ میں آنے والے کی حفاظت کو اپنی عزّت کی حفاظت تصوّر کرتا تھا۔

جب اخنس کی معذرت آگئی تو آپؐ نے عبداللہ کو اسی پیغام کے ساتھ سہیل بن عمر کی طرف بھیجا۔ اس کی معذرت آئی تو آپؐ نے عبداللہ کو مطعم بن عدی کی طرف بھیجا۔ مطعم نے پیغام سن کر کہا: ’’اگر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) مجھ سے حقِ جوار چاہتے ہیں تو میں انھیں اپنے جوار (پناہ) میں لینے کے لیے تیار ہوں۔ تم انھیں کہو کہ وہ حرم میں آجائیں‘‘۔ اب اس نے اپنے بیٹوں اور بھتیجوں کو حکم دیا: ’’تم سب مسلح ہوکر حرم کے گوشوں پر کھڑے ہو جائو کیونکہ میں نے محمدؐ بن عبداللہ کو حقِ جوار دے دیا ہے‘‘۔

پیغام ملنے کے بعد حضوؐر حضرت زیدؓ بن حارثہ کے ہمراہ جب مسجد حرام میں داخل ہوئے تو حرم کے چاروں کونوں پر مطعم کے بیٹے گلے میں تلواریں حمائل کیے اور خود مطعم اپنے باقی افراد کے ساتھ مطاف میں اُونٹنی پر سوار کھڑا تھا۔ اس نے بآوازِ بلند اعلان کیا:

 ’’یامعشرالقریش! میں نے محمدؐ کو پناہ دی ہے، لہٰذا کوئی ان سے چھیڑ چھاڑ نہ کرے‘‘۔

حضورؐ نے طو افِ کعبہ کیا اور گھر چلے گئے۔ ابوجہل اس ساری صورتِ حال پر پیچ و تاب کھا رہا تھا۔ وہ تو خیال کیے بیٹھا تھا کہ اب تو محمدؐ بن عبداللہ کے خاتمے کی راہ صاف ہوگئی ہے لیکن مطعم بن عدی کی پناہ نے اس کا سارا منصوبہ تہس نہس کردیا۔عرب روایت کے مطابق کسی کی جوار ملنے کے بعد اس سے لڑائی گویا جوار دینے والے سے لڑائی بن جاتی تھی۔ ابوجہل مطعم کے پاس آیا اور اُس سے پوچھا: ’’اے مطعم! اسے پناہ دی ہے یا اس کی اطاعت قبول کرلی ہے؟‘‘

’’میں نے اسے پناہ دی ہے‘‘۔ یہ جواب سن کر ابوجہل نے کہا: ’’تو پھر کوئی ڈر والی بات نہیں، جسے تُو نے پناہ دی، اسے ہم نے بھی پناہ دی‘‘۔ ( سیرۃ ابن ہشام۱/ ۴۱۹ بحوالہ الرحیق المختوم ، ص ۱۸۵-۱۸۷)

اب یہی مطعم بن عدی ہے کہ جب حضوؐر نے حرم میں بیٹھے لوگوں کو بتایا کہ میں آج رات بیت المقدس گیا اور واپس بھی آگیا ہوں تو مطعم بن عدی بول اُٹھا: ’’اے محمدؐ! آج جو بات آپؐ نے کہی ہے اس نے تو ہمیں ہلا کر ہی رکھ دیا ہے۔ ہم یہ کیسے مان لیں کہ جس مسافت کے طے کرنے میں ہمیں جاتے ہوئے ایک مہینہ، واپس آتے ہوئے ایک مہینہ لگتاہے، تم نے اسے رات کے قلیل حصے میں طے کرلیا۔لات و عزیٰ کی قسم! ہم آپؐ کی یہ بات ماننے کے لیے ہرگز تیار نہیں‘‘۔

مطعم کی یہ بات سن کر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کہا: ’’اے مطعم!تم نے اپنے بھتیجے کے ساتھ جو گفتگو کی، وہ اَزخود ناپسندیدہ ہے۔ تو نے اُس شخص کو جھٹلایا، جس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا‘‘۔ (شیخ عبداللہ بن محمد بن عبدالوہاب، مختصر سیرۃ الرسولؐ، ص ۲۵۹، ضیاء النبیؐ، ۲/ ۴۸۴)


قریش کا ایک سردار عتبہ بن ربیعہ اسلام کے اتنا مخالف تھا کہ ایک بار جب حضرت ابوبکرؓ صحنِ حرم میں دعوتِ توحید دینے لگے تو قریش نے ان پر حملہ کردیا، حتیٰ کہ ابوبکر گرپڑے۔ اس دوران عتبہ بن ربیعہ نے اپنا جوتا نکال کر حضرت ابوبکرؓ کے چہرے پر جوتے سے پے درپے ضربیں لگائیں۔ ان کے پیٹ پر چڑھ کر کر کُودتا رہا۔ بعد میں جب رسولؐ اللہ نے ان کا حال پوچھا تو حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! مجھے کوئی تکلیف نہیں سوائے جوتوں کی ان ضربوں کے جو عتبہ بن ربیعہ نے میرے چہرے پر لگائی تھیں۔( سیرۃ ابن کثیر۱/ ۴۴۱ بحوالہ ضیاء النبیؐ، ۲/ ۲۴۰)

اسلام کی مخالفت میں جنگ بدر میں آیا تو سب سے پہلے یہ اپنے بھائی شیبہ اور بیٹے ولید کے ساتھ آگے آیا اور مسلمانوں سے مبارز طلبی کی اور ابتدائے جنگ میں حضرت علیؓ اور حضرت  حمزہؓ کے ہاتھوں قتل ہوا۔ ( سیرۃ ابن کثیر۲/ ۴۱۳ ،  الرحیق المختوم  ،ص ۲۹۵)

البتہ وادیٔ طائف میں جب ہجوم نے پیغمبر ؐ اسلام کو لہولہان کردیا تو ان کی سنگ باری سے بچنے کے لیے آپؐ عتبہ بن ربیعہ کے باغ میں داخل ہوئے اور دیوار سے ٹیک لگا کر سستانے لگے تو قریش کی روایتی وضع داری کے مطابق عتبہ نے اپنے غلام عداس کے ذریعے حضورؐ کی انگوروں سے تواضع کرائی۔ ( سیرۃ ابن کثیر۲/ ۱۵۳ ،  الرحیق المختوم  ،ص ۱۸۳)

جنگ ِ بدر کی صبح حکیم بن حزام اور عتبہ بن ربیعہ نے ابوجہل کو اس جنگ سے روکنے کی آخری حد تک کوشش کی۔ جنگ سے کچھ عرصہ پہلے مسلمانوں کے ہاتھوں ایک کافر سردار عمرو بن حضرمی قتل ہوا تھا۔ ابوجہل اس کے بھائیوں کو انتقام کے لیے بھڑکا رہا تھا۔ عتبہ نے انھیں ٹھنڈا کرنے کے لیے عمرو کے قتل کی دیت اور دیگر نقصان کی تلافی بھی اپنے ذمے لے لی۔

اس نے اپنی قوم سے کہا: ’’قریش کے لوگو! تم محمدؐ اور اُن کے ساتھیوں سے لڑ کر کوئی کارنامہ انجام نہیں دے لو گے۔ خدا کی قسم! تم نے انھیں اگر مار لیا تو اپنے چچازاد یا خالہ زاد یا کنبے کے کسی آدمی کو ہی قتل کیا ہوگا‘‘۔ لیکن ابوجہل نے عمرو بن حضرمی کے بھائیوں کو مشتعل کرکے اتنی زیادہ انتقامی فضابنادی کہ عتبہ بن ربیعہ کی جنگ ٹالنے کی تدبیر ناکام ہوگئی ، حتیٰ کہ وہ اپنی قوم پرستی کے ثبوت کے لیے میدانِ جنگ میں سب سے آگے مبارز طلب ہوا۔  ( الرحیق المختوم  ،ص ۲۹۱)


حضرت ابوبکرؓ پر حرم میں تشدد کی خبر جب ان کے خاندانِ بنوتیم کو معلوم ہوئی تو وہ دوڑتے ہوئے آئے اور مارنے والوں کو دھکے دے کر حضرت ابوبکرؓ سے ہٹایا۔ انھیں ایک کپڑے میں ڈال کے ان کے گھر لے گئے۔ خاندان بنوتیم کو ان کی زندگی کی کوئی اُمید نہ تھی۔ انھیں گھر چھوڑ کر وہ سب پلٹ کر صحن حرم میں آئے اور للکار کر کہا: ’’اللہ کی قسم! اگر ابوبکر کو کچھ ہوگیا تو عتبہ بن ربیعہ کو زندہ نہیں چھوڑیں گے‘‘۔

 وہ واپس حضرت ابوبکرؓ کے پاس آئے۔ سارے دن کی بے ہوشی کے بعد مغرب کے وقت انھیں ہوش آیا تو سب سے پہلے انھوں نے اللہ کے رسولؐ کا حال پوچھا تو خاندان کے لوگ ناگواری کے ساتھ ان کے ہاں سے چلے گئے۔ ( سیرۃ ابن کثیر۱/ ۴۴۱ بحوالہ ضیاء النبیؐ، ۲/ ۲۳۹)


قریش کا ایک سردار ابوالبختری بھی اسلام مخالف تھا۔ وہ جنگ ِ بدر میں قتل ہوا، جب کہ حکیمؓ بن حزام فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے۔شعب ابی طالب کے دنوں میں جب بنوہاشم قریش کے معاشرتی و معاشی بائیکاٹ کے باعث اناج کی قلت کے شکار تھے۔ حکیم بن حزام چوری چھپے بنوہاشم کو غلّہ پہنچانے کے لیے اپنے غلام کے ہمراہ نکلے تو ابوجہل مزاحم ہوگیا کہ معاہدے کے مطابق بنوہاشم کو قریش کچھ نہ دیں گے۔ حکیمؓ بن حزام نے کہا کہ وہ یہ گندم بنوہاشم کے لیے نہیں اپنی پھوپھی خدیجہؓ کے لیے لے جارہے ہیں جو کہ بنواسد کی بیٹی ہے۔ ابوجہل نے کہا کہ خدیجہؓ تو قوم کی مخالفت میں بنوہاشم کے ساتھ ہے۔ حکیم بن حزام نے ابوجہل کی بات ماننے سے انکار کیا۔ اسی توتکار میں ابوالبختری بھی آگیا اور اس نے ابوجہل کو کہا کہ اس کی پھوپھی نے اس کے پاس رکھی ہوئی اپنی گندم منگوائی ہے تو تمھیں اسے روکنے کا کیا حق ہے؟ اس بات پر ابوجہل اور ابوالبختری آپس میں دست و گریبان ہوگئے۔ ابوالبختری نے قریب پڑی ہوئی اُونٹ کی ایک ہڈی پکڑ کر ابوجہل کے سر میں دے ماری جس سے ابوجہل کا خون بہنے لگا۔ پھر اس نے ابوجہل کو اُٹھا کر زمین پر  پٹخ دیا اور اس کے سینے پر چڑھ بیٹھا۔ اس دوران حضرت حمزہؓ ان کے پاس پہنچ گئے۔ یہ دیکھ کر وہ دونوں ایک دوسرے سے علیحدہ ہوگئے۔ ( البدایہ ۳/ ۱۰۹ بحوالہ ضیاء النبیؐ، ۲/ ۳۸۶)


ہشام بن عمرو عامری کافر تھا۔ اس نے رات کی تاریکی میں سامانِ خوراک سے لدے تین اُونٹ شعب ابی طالب میں بھجوائے۔ صبح جب ابوجہل کو مخبری ہوئی تو وہ سردارانِ قریش کے ایک وفد کو لے کر ہشام کے گھر پہنچ گیا اور اسے کہا کہ اس نے قریش کے ضابطے کی خلاف ورزی کی ہے۔ ہشام نے اسے کہا کہ بھوکوں کو کھلانا کب سے جرم بن گیا ہے؟ سردارانِ قریش نے اُس پر اتنا دبائو ڈالا کہ اُس نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ ایسا نہیں کر ے گا۔ اگلی رات ہشام پھر اناج کے دو اُونٹ لے کر شعب ابی طالب میں پہنچ گیا۔ قریش کو پھر معلوم ہوگیا۔ تکرار اتنی بڑھی کہ تلواریں میانوں سے باہر آگئیں۔ آخر ابوسفیان نے مداخلت کرکے ہشام کی جان چھڑائی۔ لیکن ہشام اپنے حساس دل کے ہاتھوں مجبور اپنے محصور رشتہ داروں کو بھوک سے نڈھال نہ دیکھ سکتا تھا۔ وہ گاہے بگاہے رات کے اندھیرے میں سامان سے لدے اُونٹ شعب ابی طالب کے دھانے پر لے آتا اور پھر اُونٹ کو اپنی لاٹھی سے اندر ہانک دیتا۔ گھاٹی میں مقیم لوگ سامان اُتار کر اُونٹ کو واپس ہانک دیتے۔(دلائل النبوۃ لابی نعیم بحوالہ  ضیاء النبیؐ، ۲/ ۳۸۶)


بنوہاشم کی شعب ابی طالب میں محصوری کو جب تین سال ہوگئے تو ہشام بن عمرو عامری نے پہلے زہیر بن ابی اُمیہ مخزومی کو قریش کے اس ظلم کے خلاف احتجاج کے لیے تیار کیا۔ زہیر کی ماں عاتکہ حضرت ابوطالب کی بہن تھیں اور دوسری طرف زہیر ابوجہل کا چچازاد تھا۔ اس کے بعد اس نے بنی نوفل کے سردار مطعم بن عدی کو ابوجہل کے فیصلے کے خلاف اپنا ہم خیال بنایا۔ اسی طرح ابوالبختری، زمعہ بن الاسود اور عدی بن قیس کو تیار کیا اور پھر قریش کی ایک مجلس میں باری باری ہر ایک نے معاشرتی مقاطعے کی اس دستاویز سے اپنی برأت کا اظہار کیا۔ ابوجہل بہت سٹپٹایا لیکن قریش میں سے کوئی بھی اس کی حمایت میں نہ بولا۔خانہ کعبہ میں آویزاں اس معاہدے کو یہ پھاڑنے کے لیے گئے تو اسے دیمک چاٹ چکی تھی۔ پھر زہیر اور ہشام عامری اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ ہتھیار بند ہوکر شعب ابی طالب میں پہنچے اور بنوہاشم کو اپنے ہمراہ مکہ میں لے آئے۔ ( سیرۃ ابن کثیر، ابن ہشام،  زاد المعاد بحوالہ الرحیق المختوم، ص ۱۵۹-۱۶۱)


حضرت عثمان بن مظعون حبشہ سے واپس آئے تو بنومخزوم کے سردار اور ابوجہل کے چچا ولیدبن مغیرہ کی پناہ میں مکہ میں داخل ہوئے۔ جب انھوں نے دیکھا کہ کفّار اصحابِ رسولؐ پر تشدد کر رہے ہیں اور وہ ایک کافر کی پناہ میں آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں تو ان کی ایمانی غیرت یہ گوارا  نہ کرسکی۔ انھوں نے ولید بن مغیرہ کو اس کی امان اسے لوٹا دی تو ولید نے کہا: ’’کیوں بھتیجے! کیا میری قوم کے کسی آدمی نے تجھ سے کوئی زیادتی کی ہے؟‘‘۔ عثمان بن مظعون نے کہا کہ میں صرف اللہ کی امان میں رہنا چاہتا ہوں۔ اس کے بعد جب کافروں کے تشدد کے نتیجے میں ان کی ایک آنکھ پھوٹ گئی تو ولید نے عثمان بن مظعون کو اپنی امان کی دوبارہ پیش کش کی۔(طبرانی، البدایہ، ۳/ ۹۳، بحوالہ حیاۃ الصحابہ، ۱/ ۳۸۹-۳۹۰)

زینب بنت ِ رسولؐ کے خاوند ابوالعاص بن ربیع جنگ ِ بدر کے قیدی تھے۔ ان کی رہائی کے وقت حضورؐ نے اُن سے وعدہ لیا کہ وہ مکہ پہنچ کر زینب کو مدینہ بھیج دیں گے۔ ابوالعاص کے مکہ پہنچنے پر زینب مدینہ جانے کی تیاری کرنے لگیں۔ ایک دن قریش کے سردار ابوسفیان کی بیوی ہند بنت عتبہ زینب کے پاس آئی اور کہنے لگی: ’’اے میرے چچا کی بیٹی! اگر تجھے زادِ سفر کے طور پر کسی چیز کی ضرورت ہو تو بلاتکلف مجھے کہو‘‘۔ ہند اپنی پیش کش میں مخلص تھی۔ جب زینب کا دیور کنانہ بن ربیع مسلح ہوکر انھیں لے کر نکلا تو قریش کے چند نوجوانوں نے تعاقب کرکے مقامِ ذی طویٰ پر انھیں گھیر لیا۔ یہ دیکھ کر کنانہ نے انھیں للکار کر کہا: واللہ! تم میں سے جو شخص بھی ہمارے قریب آنے کی جسارت کرے گا تو میں اپنے تیروں سے اس کے سینے کو چھلنی کردوں گا‘‘۔

اسی دوران ابوسفیان دیگر سردارانِ قریش کے ہمراہ وہاں پہنچ گیا۔ اس نے کنانہ کو کہا: ’’جب تک ہم تم سے بات نہ کرلیں، تیر نہ چلانا‘‘۔کنانہ کے رُکنے پر وہ اس کے قریب آیا اور رازداری سے کہنے لگا: ’’تم نے یہ سمجھ داری نہیں کی کہ دن کے اُجالے میں لوگوں کے سامنے اس خاتون کو لے کر نکل پڑے جس کے باپ کی وجہ سے ہم مصیبت میں مبتلا ہیں۔ ان حالات میں اگر تم محمدؐ کی بیٹی کو علانیہ لے کر جائو گے تو جو لوگ یہ بات سنیں گے وہ یہی تو کہیں گے کہ اب قریش بالکل عاجز و ناکارہ ہوگئے ہیں اور یہ بات ہمارے زخموں پر نمک پاشی کا باعث بنے گی۔ واللہ! مجھے زینب بنت محمدؐ کو یہاں روکنے سے کوئی دلچسپی نہیں اور نہ اسے روکنے سے ہماری آتشِ انتقام ٹھنڈی ہوسکتی ہے۔ سردست تم انھیں لے کر واپس اپنے گھر چلے جائو۔ چند روز تک یہ ہنگامہ ٹھنڈا پڑ جائے گا۔ لوگ اس واقعہ کو بھول جائیں گے۔ اس وقت کسی رات کو اندھیرے میں انھیں لے کر چلے جانا۔ لوگ یہ دیکھ کر مطمئن ہوجائیں گے کہ ہم نے اُنھیں لوٹا دیا ہے‘‘۔

مخالفت کے باوجود ابوسفیان نے قریش کی اس وضع داری کا مظاہرہ کیا جو قبیلے کی بیٹیوں کے حق میں ان کی روایت تھی۔ چنانچہ کنانہ کو اس کی بات معقول لگی اور وہ زینبؓ کو لے کر گھر واپس آگیا۔ چند روز گزرنے کے بعد جب ماحول پُرسکون ہوگیا تو کنانہ رات کی تاریکی میں حضرت زینب کو لے کر مدینہ کی طرف روانہ ہوگیا۔( سیرۃ ابن ہشام ، ص ۵۸۷-۵۸۸)


فتح مکہ کے موقع پر مشہور دشمنِ اسلام اُمیہ بن خلف کے بیٹے صفوان کو اس کے چچازاد عمیر بن وہب کی سفارش پر حضورؐ نے امان دے دی۔ اس نے قبولِ اسلام کے بارے میں غوروفکر کے لیے دو ماہ کی مہلت مانگی۔ آپؐ نے اسے چار ماہ کی مہلت دے دی۔ فتح مکہ کے بعد جب قریش کی اکثریت مسلمان ہوگئی تو قریش کا پرانا حریف قبیلہ بنو ہوازن آبائی مذہب کا علَم بردار بن کر کھڑا ہوگیا کیونکہ وہ مسلمانوں کی کامیابی کو قریش ہی کی بالادستی تصور کر رہے تھے۔ انھوں نے وادیٔ حنین میں ۲۰ ہزار کا لشکر جمع کرلیا۔

حضورؐ ۱۲ ہزار کے لشکر کے ساتھ جب وادیٔ حُنین میں داخل ہوئے تو گھات میں بیٹھے بنوہوازن نے اچانک اُن پر تیروں کی بارش کردی۔ اس خلافِ توقع حملے سے مسلمانوں میں شدید بھگدڑ مچ گئی۔ قرآن کے مطابق زمین اپنی کشادگی کے باوجود مسلمانوں پر تنگ پڑگئی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ (التوبہ ۹:۵۲)

ابوسفیان جو فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے تھے، وہ بھی موقع پر موجود تھے۔ انھوں نے کہا: ’’اب ان کی بھگدڑ بحیرئہ احمر سے پہلے رُکنے والی نہیں‘‘۔ یہ بات سن کر صفوان بن اُمیہ کا سوتیلا بھائی جبلہ بن حنبل خوشی سے چلّا اُٹھا:’’آج محمدؐ کا جادو ٹوٹ گیا‘‘۔

اپنے ماں جائے کے اس جملے پر صفوان بن اُمیہ نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا: ’’اللہ تیرے دانت توڑے، چپ رہ۔ خدا کی قسم! مجھے قریش کے آدمی کی حکومت بنوہوازن کے آدمی کی حکومت سے زیادہ محبوب ہے‘‘۔

صفوان بن اُمیہ مسلمان تو نہیں ہوا تھا لیکن قریشی عصبیت کے باعث وہ کسی اور قبیلے کی بالادستی قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ اللہ کے رسولؐ جانتے تھے کہ قریش کے ساتھ ان کی صلہ رحمی بالآخر قریشی عصبیت کو اسلامی عصبیت میں ڈھال دے گی۔ ( سیرۃ ابن ہشام ، ص ۸۳۷،  الرحیق المختوم ، ص ۵۶۴)


عاص بن وایل سہمی بھی اسلام دشمن قریشی سردار تھا اور حضرت عمرؓ کے خاندان بنی عدی کا حلیف تھا۔ جب عمرفاروقؓ نے اسلام قبول کیا اور اس کا کھل کر اظہار کیا تو قریش نے حضرت عمرؓ کے گھر کا گھیرائو کرلیا۔ عمرفاروقؓ اہل خانہ کے ساتھ گھر میں بیٹھے تھے اور باہر لوگوں کا شوروغوغا برپا تھا۔ عبداللہ بن عمرؓ جو اُس وقت ۱۰، ۱۲ برس کے لڑکے تھے، بیان کرتے ہیں کہ ایک باوجاہت آدمی ریشمی گوٹے سے آراستہ کُرتہ زیب تن کیے اور دھاری دار یمنی چادر کا حُلّہ پہنے ہمارے گھر میں داخل ہوا۔ یہ خاندان بنوسہم کا سردار عاص بن وایل تھا۔

اس نے حضرت عمرؓ سے پوچھا:’’خطاب کے بیٹے! یہ کیا معاملہ ہے؟‘‘

’’میں مسلمان ہوگیا ہوں، اس لیے تمھاری قوم مجھے قتل کرنا چاہتی ہے‘‘۔

’’یہ نہیں ہوسکتا‘‘۔ یہ کہتے ہوئے عاص باہر گیا۔ لوگوں کی بھیڑ سے گلی کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ عاص نے لوگوں میں پہنچ کر ان سے پوچھا:’’تم کس ارادے سے یہاں آئے ہو؟‘‘

’’خطاب کا بیٹا مطلوب ہے جو بے دین ہوگیا ہے ‘‘۔لوگوں کے اس جواب پر عاص نے کہا: ’’اگر ایسا ہے تو کیا ہوا؟ ایک شخص نے اپنی ذات کے لیے ایک راستہ اختیار کیا تو تمھیں کیا اعتراض ہے؟ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ بنی عدی اپنے آدمی کو یونہی تمھارے حوالے کردیں گے۔ اس شخص کا خیال چھوڑ دو‘‘۔

عاص بن وایل کی یہ بات ایسی تھی کہ اس کو سنتے ہی لوگ ایسے چھٹ گئے جیسے کپڑا پہن کر پھینک دیا گیا ہو۔ ( سیرۃ ابن ہشام ، ص ۳۰۵، فتح الباری، ۷/۱۷۶)