بہت سے والدین اس وقت شدید حیرت اور ندامت محسوس کرتے ہیں، جب ان کے بچّے بڑے ہو کر اپنے بچپن کی تلخ یادوں کا ذکر کرتے ہیں، —خاص طور پر وہ الفاظ جو والدین نے غصے یا مایوسی میں کہے تھے۔ والدین کا حقیقی مقام حاصل کرنا، اور ان ذمہ داریوں کو نہایت درجہ فکرمندی کے ساتھ ادا کرنا ایک مشکل کام ہے۔ لیکن اس راستے پر انسان چل پڑے تو پھر کچھ مشکل بھی نہیں۔ اصل چیز یہ ہے کہ اپنی خامیوں کو قبول کیا جائے اور اپنی محبت اور اپنے خلوص پر توجہ دی جائے۔
بچوں کی پرورش ایک ایسا سفر ہے جس میں خوشی اور آزمائشیں دونوں شامل ہیں۔ بعض اوقات، دباؤ کے لمحات میں والدین کے منہ سے ایسے الفاظ نکل جاتے ہیں، جن پر بعد میں افسوس ہوتا ہے۔ یہ جملے بظاہر معمولی یا بے ضرر لگتے ہیں، لیکن ایک نفسیات دان کی حیثیت سے میں نے دیکھا ہے کہ بچوں کی خود اعتمادی اور جذباتی نشوونما پر ان کا بڑا گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔ آئیے ان سات عام جملوں پر نظر ڈالیں، جو والدین اکثر کہہ دیتے ہیں اور ان کے بچوں پر پڑنے والے اثرات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
مثال: ’’تم اپنے بھائی کی طرح کیوں نہیں ہو سکتے؟‘‘
ایسے موازنے بہن بھائیوں کے درمیان رنجش،رقابت، غیر ضروری مقابلے اور بعض اوقات نفرت تک کو بھی فروغ دیتے ہیں۔ اس سے بچے کو یہ محسوس ہو سکتا ہے کہ اس کی اپنی کوئی انفرادیت اور حیثیت نہیں ہے یا وہ والدین کی نظر میں کم تر ہے، جو خود اعتمادی کو مجروح کر سکتا ہے۔
مثال: ’’تم ہمیشہ میری بات بھول جاتے ہو!‘‘
ایسے جملے بچوں کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ وہ کبھی بدل نہیں سکتے یا بہتری نہیں لا سکتے، جس سے ان کی خود اعتمادی اور سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔ بہتر ہوگا کہ والدین جملے کو یوں کہیں: ’’مجھے لگتا ہے کہ تم بعض اوقات باتیں بھول جاتے ہو، کوئی بات نہیں، آپ اس پر ذرا سی توجہ دیں‘‘۔
مثال: ’’ہمیں امید تھی کہ تم بہتر کرو گے‘‘۔
والدین کا اپنے بچوں سے توقعات رکھنا فطری ہے، لیکن اگر مایوسی کا اظہار رہنمائی یا مدد کے بغیر کیا جائے تو بچے خود کو ناکام محسوس کر سکتے ہیں۔ اس سے ان کے اندر دباؤ اور ناکامی کا خوف پیدا ہو سکتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ والدین حوصلہ افزا الفاظ کا انتخاب کریں جیسے: ’’مجھے معلوم ہے کہ تم محنت کر رہے ہو، چلو دیکھتے ہیں کہ ہم اس میں کیسے بہتری لا سکتے ہیں؟‘‘
مثال: ’’تم حد سے زیادہ ردِعمل دے رہے ہو‘‘۔
بچوں کے جذبات کو نظر انداز کرنا یا انھیں غیر ضروری قرار دینا، ان کی خود اعتمادی کو متاثر کرسکتا ہے۔ اگر بار بار ایسا ہو تو بچہ اپنے احساسات کو دبانے لگتا ہے اور جذباتی طور پر کمزور ہو سکتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ والدین اس کے احساسات کو تسلیم کریں، مثلاً: ’’مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ بات تمھیں تکلیف دے گی، میں آیندہ خیال رکھوں گا‘‘۔
مثال: ’’تم بہت سست ہو‘‘۔
منفی القابات بچوں کے ذہن میں اپنی شخصیت کے بارے میں منفی تصور پیدا کرتے ہیں۔ اگر بچے کو بار بار ’سُست‘، ’بدتمیز‘ یا ’نکمّا‘ کہا جائے، تو وہ واقعی اپنے بارے میں ایسا ہی سوچنے لگتا ہے، جو اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ والدین مسئلے پر بات کریں، نہ کہ شخصیت پر، مثلاً: ’’مجھے لگتا ہے کہ تمھیں تھوڑی مزید محنت کرنی چاہیے، میں تمھاری مدد کر سکتا ہوں‘‘۔
مثال: ’’دیکھو تمھارا دوست کتنا اچھا کر رہا ہے، تم ویسا کیوں نہیں کر سکتے؟‘‘
ایسے موازنے بچوں میں احساسِ کمتری پیدا کرتے ہیں اور انھیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ کبھی ’کافی اچھے‘ نہیں ہیں۔ یوں بچوں میں بے جا مقابلے اور عدم تحفظ (insecurity) کا احساس پیدا ہو سکتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ والدین بچے کی اپنی صلاحیتوں پر توجہ دیں اور کہیں: ’’میں جانتا ہوں کہ تم محنت کر رہے ہو، چلو مل کر دیکھتے ہیں کہ تمھیں کہاں بہتری کی ضرورت ہے؟‘‘
مثال: ’’کاش! تم پیدا ہی نہ ہوتے!‘‘
غصے اور جھنجھلاہٹ میں کہے گئے سخت اور تلخ الفاظ بچے کی شخصیت پر گہرے، اَنمٹ منفی نفسیاتی اثرات ڈال سکتے ہیں۔ ایسے جملے بچے میں یہ احساس پیدا کر سکتے ہیں کہ وہ ناپسندیدہ ہے یا والدین اس سے محبت نہیں کرتے، یا یہ کہ وہ گھر میں ایک فضول اور اضافی وجود ہے۔ اگر والدین کو غصہ آرہا ہو، تو بہتر یہ ہے کہ خاموشی اختیار کریں اور بعد میں ذرا نرمی سے مسئلے پر بات کریں۔ اگر غلطی سے کوئی تکلیف دہ بات کہہ بھی دیں تو ان کا اپنے بچّے سے معذرت کرنا بھی ضروری ہے، مثلاً: ’’مجھے افسوس ہے کہ میں نے ایسا کہا، میں غصے میں تھا، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں تم سے پیار نہیں کرتا‘‘۔
والدین بننا بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ مایوسی یا غصے کے لمحات ہر گھر میں آتے ہیں، مگر ہمارے الفاظ کا بچوں کی ذہنی اور جذباتی صحت پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنی بات چیت میں نرمی، صبر اور محبت کا عنصر شامل کریں، تو ہم اپنے بچوں کی خود اعتمادی کو بڑھا سکتے ہیں اور انھیں ایک مضبوط، مستحکم اور باوقار شخصیت میں ڈھال سکتے ہیں۔ اپنی جگہ پر تو والدین بھی کامل (Perfect) نہیں ہوتے، لیکن وہ اپنے الفاظ اور رویے میں شعوری بہتری لا کر اپنے بچوں کے لیے ایک محفوظ اور محبت بھرا متوازن اور خوش گوار ماحول ضرور بنا سکتے ہیں۔(انگریزی سے ترجمہ: ادارہ)