مئی ۲۰۲۵

فہرست مضامین

یادیں اور ایک ملاقات!

افتخار گیلانی | مئی ۲۰۲۵ | گوشۂ خورشیداحمد ؒ

Responsive image Responsive image

نوّے کی دہائی کے اوائل میں، جب میں دہلی میں صحافت کے ابتدائی مراحل سے گزر رہا تھا، مجھے دو ایسی شخصیات سے فیض حاصل ہوا جنھوں نے میرے فکری سفر کی بنیاد رکھی۔ ایک سے براہِ راست ملاقاتیں ہوئیں، جب کہ دوسرے سے محض فون پر رابطہ رہا اور زندگی میں صرف ایک مرتبہ ان سے شرفِ ملاقات نصیب ہوا۔

یہ غالباً ۱۹۹۲ء کا سال تھا۔ کشمیری قائدین جب ایک طویل اسیری کے بعد دہلی آتے، تو وہاں مقیم چند کشمیری طلبہ اور ملازمت پیشہ افراد باری باری ان کی میزبانی کا فریضہ انجام دیتے۔ ایک سینئر ساتھی باقاعدہ شیڈول بناتے، اور جس دن کسی کی خدمتی ذمہ داری ہوتی، وہ دفتر یا کلاس سے چھٹی لے کر ان قائدین کی خدمت پر مامور ہوتا۔ وہ ان کے لیے ٹیکسی کی فراہمی یا کسی مقام پر پہنچنے میں مدد کرتا۔ میرواعظ عمر فاروق اور شبیراحمد شاہ تو ایک ٹیم کے ساتھ سری نگر سے دہلی آتے، مگر دیگر قائدین جیسے عبدالغنی لون، پروفیسر عبدالغنی بٹ، اور عباس انصاری وغیرہ کو مقامی معاونت درکار ہوتی۔ محمد یاسین ملک اُن دنوں انڈرگرائونڈ (روپوش) تھے، مگر ۱۹۹۴ء کے بعد جب انھوں نے دہلی آنا شروع کیا تو اُن کے لیے بھی اسی طرح کا انتظام کیا جاتا تھا۔

ایک بار سیّد علی گیلانی صاحب دہلی آ کر چانکیہ پوری کے جموں و کشمیر ہاؤس میں قیام پذیر ہوئے، تو میری اور ایک اور ساتھی کی ’ڈیوٹی‘ ان کے ساتھ لگائی گئی۔ تب تک ان سے محض اتنا تعلق تھا کہ وہ سوپور سے ایم ایل اے اور معروف رہنما تھے، اور ہمارا خاندان بھی سوپور کا رہائشی تھا۔

اسی دوران ان کے نجی سیکریٹری، غالباً ڈاکٹر محمد سلطان نے، گیلانی صاحب کو یاد دلایا کہ معروف کالم نگار اور ماہر قانون اے جی نورانی ان سے ملاقات کے لیے آ رہے ہیں۔ جب نورانی صاحب کمرے میں داخل ہوئے، تو رسمی سلام دعا کے بعد انھوں نے سبھی، حتیٰ کہ ڈاکٹر سلطان کو بھی، باہر جانے کے لیے کہا۔ چونکہ میں اور میرا ساتھی چائے وغیرہ پیش کر رہے تھے، اس لیے ہمیں جانے کو نہیں کہا۔ چائے دینے کے بعد ہم ایک کونے میں بیٹھ گئے۔

تقریباً ایک گھنٹے بعد، رخصت ہوتے ہوئے نورانی صاحب نے گیلانی صاحب سے کہا کہ : ’’مجھے ایک ایسے شخص کی تلاش ہے جو کشمیر پر کالم لکھنے میں میری معاونت کرے اور مواد فراہم کرے‘‘۔ گیلانی صاحب نے فوراً مجھے آواز دی اور میرا تعارف کرایا۔ بطور کالم نگار میں پہلے ہی ان کا مداح تھا۔ ان دنوں ان کا کالم مشہور اخبار Stateman میں چھپتا تھا اور میں صرف ان کے کالم کی خاطر وہ اخبار خریدا کرتا تھا۔

نورانی صاحب نے مجھ سے فون نمبر مانگا، میرے پاس فون نہ تھا۔ انھوں نے اپنا نمبر دیا اور کہا کہ ہر اتوار کو صبح گیارہ بجے سے سوا گیارہ بجے تک وہ میری کال کا انتظار کریں گے۔ بعد ازاں ہمارا ایسا تعلق بن گیا کہ میں نے ان کی پانچ کتابوں کے لیے بطور ریسرچر کام کیا۔ جب انڈین وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اور پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف کے کشمیر فارمولے پر ان کی گیلانی صاحب سے ناراضی ہوئی، تو وہ کہتے تھے کہ ’’میں گیلانی صاحب سے خفا ہوں، مگر یہ احسان کبھی نہیں بھول سکتا کہ انھوں نے افتخار سے میرا تعارف کرایا‘‘۔

اسی دورے کے دوران ایک اور واقعہ بھی پیش آیا۔ میں گیلانی صاحب کے کمرے کے باہر ان کے سیکریٹری کا کوئی کام کر رہا تھا کہ اچانک اندر سے بلایا گیا۔ گیلانی صاحب کسی سے فون پر بات کر رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ پاکستان سے پروفیسر خورشید احمد کال پر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ ریسیور ایک برخوردار، افتخار گیلانی، کو دے رہے ہیں جو صحافت کے طالب علم ہیں اور ان کا مسئلہ حل کرسکتے ہیں۔ جب میں نے کال سنبھالی، تو میرے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ پروفیسر صاحب کی کئی کتابیں اور مقالات پہلے ہی میرے مطالعے میں آ چکے تھے۔ انھوں نے بھی یہی کہا کہ انھیں کشمیر پر مسلسل مواد درکار ہے۔

پھر پرو فیسر صاحب نے رہنمائی کی کہ ’’ہر ہفتے کشمیر پر اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹس اور مضامین کی تلخیص تیار کر کے مجھے بھیجی جائے‘‘۔ دہلی میں کشمیر ٹائمز  کا دفتر شاہجہان روڈ پر واقع تھا اور کشمیر پر اطلاعات کا واحد ذریعہ تھا۔ ایس کے ڈھنگرہ صاحب، جن کے تحت مَیں نے بعد میں کام کیا، اس کے انچارج تھے۔ وہ اسی دفتر میں رہائش پذیر تھے۔ چونکہ ان کا گھر گراؤنڈ فلور پر تھا، وہ اخبار کی کاپیاں کھڑکی کی سلاخوں کے پاس رکھ دیتے تھے۔ میں وہیں کھڑے کھڑے اخبارات پڑھ کر اہم نکات ڈائری میں نوٹ کرتا، کیونکہ دفتر کے اندر وہ داخل ہونے نہیں دیتے تھے۔

چند ہفتوں بعد، پروفیسر صاحب نے مشورہ دیا کہ ’تلخیص ٹائپ کر کے بھیجی جائے‘۔ مجھے یاد ہے کہ انھوں نے دہلی میں اپنے ایک رفیق کو میرے لیے چھوٹا سا ٹائپ رائٹر لانے کا کہا۔ کافی عرصے تک یہ ٹائپ رائٹر میرا ساتھی رہا۔ کمپیوٹر آنے کے بعد بھی میں نے اسے بطور تبرک سنبھالے رکھا۔

اس تمام سلسلے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اے جی نورانی صاحب اور پروفیسر خورشید صاحب کے مضامین پڑھ کر مجھے اندازہ ہونے لگا کہ معلومات کا کس طرح استعمال اور تجزیہ کیا جاتا ہے۔ میں تو محض ابتدائی معلومات فراہم کرتا تھا۔

پروفیسر خورشید احمد صاحب سے یہ تعلق اُس وقت تک برقرار رہا جب تک ۱۹۹۵ء میں دہلی میں حریت کا دفتر قائم نہ ہوا۔ پھر میں خود بھی مصروف ہو گیا اور یہ کمٹمنٹ نبھانا ممکن نہ رہا۔

فروری ۲۰۰۱ء کے دوران، اسلام آباد میں میرے ایک کزن ذوالقرنین کی شادی تھی۔ میں کچھ دنوں کی تاخیر سے پہنچا۔ ارشاد محمود صاحب نے پروفیسر صاحب سے ملاقات کا بندوبست کرایا۔ اپنے دفتر میں مجھ جیسے نو آموز صحافی کا انھوں نے جس محبت سے استقبال کیا، وہ انھی کا خاصہ تھا۔

میں ان دنوں پاکستانی اخبارات دی نیشن  اور نوائے وقت  کے لیے دہلی سے رپورٹنگ کرتا تھا۔ انھوں نے میری رپورٹس کی ایک باقاعدہ فائل بنا رکھی تھی۔ ملاقات سے قبل میرا ارادہ تھا کہ ان کا انٹرویو لے کر کشمیر ٹائمز  میں شائع کروں، جہاں میں بیورو میں کام کرتا تھا، مگر انھوں نے خود میرا انٹرویو لیا۔ دو گھنٹے تک وہ بھارت کی سیاست، صحافت، کشمیر اور میری رپورٹس پر سوالات کرتے رہے۔ دہلی شہر کو وہ بہت یاد کرتے تھے: قرول باغ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، جامع مسجد، گلی قاسم جان، ترکمان گیٹ، —سب کا ذکر چھیڑا۔

اسی طرح ۱۹۹۳ء میں سیّد علی گیلانی صاحب کی جیل ڈائری رُودادِ قفس  کے نام سے شائع ہونی تھی۔ مرحوم الطاف احمد شاہ اس کا مسودہ دہلی لائے اور اگلے روز اسے پریس میں دینا تھا۔ ایک ساتھی، جو اَب معروف ٹی وی پروڈیوسر ہیں، نے جب مسودہ دیکھا تو کہا کہ اس پر کسی بڑی شخصیت کا مقدمہ ہونا چاہیے۔ طے پایا کہ پروفیسر خورشید احمد سے رابطہ کیا جائے۔ پروفیسر صاحب سے جب الطاف شاہ نے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ مکمل مسودہ پہنچنے میں وقت لگے گا، لہٰذا اس کی ایک تلخیص بھیج دی جائے۔ ہم نے پوری رات جاگ کر تلخیص تیار کی اور اگلے دن انھیں فیکس کر دی۔ انھوں نے مکمل کتاب بعد میں پڑھی، مگر مقدمہ انھوں نے پہلے ہی تلخیص کی بنیاد پر تحریر کیا تھا۔

اس مقدمے میں انھوں نے لکھا:’’جب میں سیّد علی گیلانی کی پُرآشوب اور ہنگاموں سے بھری زندگی پر نظر ڈالتا ہوں، اور ان کی شخصیت کے وہ نقوش ذہن میں لاتا ہوں، جو دل و دماغ پر نقش ہو چکے ہیں، تو میرے سامنے اقبال کا مردِ مومن اُبھر آتا ہے۔ وہ خود بھی اسی مرد مومن کی عملی تفسیر تھے‘‘۔

یہاں پر اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ انڈین وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ اور پاکستانی فوجی حاکم صدر جنرل پرویز مشرف کے کشمیر فارمولے پر کشمیر میں سیّد علی گیلانی کے علاوہ دوسرے سیاسی طبقوں میں اتفاق رائے تھا۔ انڈین حکومت اس وقت کسی طرح گیلانی صاحب کو بھی اس کشتی میں سوار کرانا چاہتی تھی۔ اس مقصد کے لیے وہ ایسے افراد کی تلاش میں تھی، جو بزرگ حُریت لیڈر پر اثرورسوخ استعمال کرنے کی پوزیشن میں ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ قرعہ فال پروفیسر خورشیداحمد صاحب کے نام نکلا۔ وزیراعظم من موہن سنگھ کے ایما پر سینئر سفارت کار ایس کے لامبا (م:۲۰۲۲ء) اور اے جی نورانی نے ان سے ملاقات کرکے، انھیں علی گیلانی صاحب کو ’مشرف فارمولا‘ قبول کرنے پر آمادگی کے لیے گزارش کی۔ مگر پروفیسر صاحب نے حُریت کے اندرونی معاملات اور ان کی فیصلہ سازی میں مداخلت کرنے سے انکار کر دیا، اور ایسی معاونت سے معذرت کرلی۔ اسی طرح حکومت پاکستان کی طرف سے بھی پروفیسر صاحب کو اس سمت میں خاصے دبائو کا سامنا کرنا پڑا مگر وہ کشمیری قیادت پر اثرانداز نہیں ہوئے۔