مئی ۲۰۲۵

فہرست مضامین

پروفیسر صاحب!

سلیم منصور خالد | مئی ۲۰۲۵ | گوشۂ خورشیداحمد ؒ

Responsive image Responsive image

؍اپریل کی دوپہر فون موصول ہوا:

’’آپ سے کہا تھا، ’جب وہ ناظم اعلٰی تھے‘ کے پہلے تین حصے بھجوا دیں، اس کا کیا کیا ہے؟‘‘

’’عرض کیا: فائونڈیشن آنے والے ایک صاحب کو دے دیئے ہیں، ۲۰؍اپریل تک ان شاء اللہ وہ پہنچا دیں گے‘‘۔

پھر دریافت فرمایا: ’’اچھا، تو مئی کے شمارے کے لیے کون کون سے موضوعات پیش نظر ہیں؟‘‘

عرض کیا:’’غزہ کی تازہ ترین صورتِ حال اور انڈیا میں مسلم وقف کے خلاف پارلیمنٹ کے فیصلے کی نسبت سے اور…‘‘ لفظ ’اور‘ کہا تھا کہ فون کا سگنل کٹ گیا، لیکن پھر فون بحال ہوا تو ’اور‘ سے آگے انھوں نے خود بات مکمل فرمائی:

’’بلو چستان پر ضرور تحریر آنی چاہیے، صورتِ حال بڑی تکلیف دہ ہے۔ معلوم نہیں کیوں پورے ملک میں بے فکری کا مظاہرہ کیا جارہا ہے؟‘‘

یہ آخری فون تھا، جس کے تین دن بعد۱۳؍اپریل ۲۰۲۵ء کی شام ۶بج کر ۱۸ منٹ پر پروفیسر خورشیداحمد صاحب کے بیٹے حارث احمد صاحب کا پیغام فون کی اسکرین پر نمودار ہوا: Abbu has returned back to his Creator    ___  اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ!

یوں انسانی وجود میں وہ چراغِ راہ بجھ گیا۔ انھوں نے شعوری طور پر ۱۹۴۹ء سے کردار، افکار اور پیکار کی دُنیا میں قدم رکھا اور پھر ہرلمحہ اور ہرقدم پڑھتے، لکھتے، معرکوں کا حصہ بنتے اور صف بندی کرتے ہوئے اپنے ربّ کے حضور پیش ہوگئے۔

پروفیسر خورشید صاحب نے یوں شعوری زندگی کے پورے ۷۶ برس، سکون کو ایک طرف جھٹکتے ہوئے اس راہِ شوق پہ چلتے چلتے زندگی گزار دی۔ وہ زندگی جس میں:

  • قسم قسم کے چیلنج تھے
  • علم کا وقار پانے، سنبھالنے اور بانٹنے کا شوق تھا
  • تعلقات کی نرمی سے آسودگی اور گاہے دوستوں کی تیراندازی کے زخم برداشت کرنے اور اس پر آہ تک نہ کرنے کی ادا تھی
  • نظریاتی معرکوں میں ایک پُرعزم مجاہد کی طرح کھڑا رہنے اور جہاں دیدہ سپہ سالار کی طرح راہ نمائی کرنے کا انداز تھا اور راہروانِ منزل کے لیے جم کر مقابلہ کرنے کی حوصلہ افزائی تھی
  • تحریر کو امرت بنانے کی تکنیک، بیان کو کمال بنانے کی دعوت اور قلم کو سائبان میں ڈھالنے کا ہنر تھا
  • ساتھیوں کی دست گیری کے لیے فکرمندی تھی اور اُن کے ذاتی دُکھوں میں آسرا دینے کی شفقت تھی
  • رفقا کو مشورے کی سوغات دینے کے لیے چوبیس گھنٹے برادرانہ محبت کی خوشبو کے جھونکے تھے
  • قدرے محدود پیمانے پر تنظیم ، بڑے پیمانے پر وطن عزیز اور آفاقی درجے میں پورے گلوب پر بسنے والوں کے لیے فکرمندی کے لائٹ ٹاور روشن تھے۔ صاحبو، قوسِ قزح کے جتنے رنگ ہیں، ان سے دگنے رنگوں کو بے دام بانٹنے والی ہستی چلی گئی۔ ہر ایک کو جانا ہے کہ یہی قانونِ الٰہی ہے اور یہی عمل ابد تک جاری رہے گا۔

ذرا پیچھے چلیں تو یہ اپریل ۱۹۹۰ء کی بات ہے کہ میں نے محترم پروفیسر صاحب سے پوچھا: ’’ آپ نے سب سے پہلے مولانا مودودی کو کب دیکھا تھا؟‘‘

فرمایا: ’’یہ غالباً ۱۹۳۸ء سے پہلے کی بات ہے۔ میں اسکول کا طالب علم تھا۔ مولانا مودودی، میرے والد صاحب کی دعوت پر دہلی ہمارے گھر تشریف لائے۔ والد صاحب نے ضمیربھائی اور مجھے اُن سے ملاتے ہوئے کہا: یہ میرے نہایت قابلِ احترام دوست اور بہت بڑے عالم ہیں، ان کو نظم سنایئے۔ میں پہلے ذرا جھجکا اور پھر بڑے جوش سے ہاتھ کے اشاروں کے ساتھ نظم سنائی:

اسلام کا ہم سکّہ دُنیا پہ بٹھا دیں گے
توحید کی دُنیا میں، اِک دھوم مچا دیں گے

گونجیں گی پہاڑوں میں تکبیر کی آوازیں
تکبیر کے نعروں سے، دُنیا کو ہلا دیں گے

اسلام زمانے میں، دبنے کو نہیں آیا
تاریخ میں یہ مضمون ، ہم تم کو دکھا دیں گے

اسلام کے شیروں کو ، مت چھیڑنا تم ورنہ
یہ مٹتے مٹاتے بھی، ظالم کو مٹا دیں گے

اسلام کی فطرت میں، قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ اُبھرے گا، جتنا کہ دبا دیں گے

مولانا مودودی نے شفقت سے پاس بلاکر دُعا دیتے ہوئے چند پیسے بطور انعام دیئے۔ یہ مولانا کو پہلی مرتبہ دیکھنے کا واقعہ ہے اور پھر دسمبر ۱۹۴۷ء میں اچھرہ، لاہور میں مولانا سے ملے‘‘۔

مارچ ۱۹۴۰ء میں قرارداد لاہور منظور ہونے کے بعد دو قومی نظریہ کی بنیاد پر تحریک پاکستان شروع ہوئی۔ جناب خورشیداحمد کے والد گرامی نذیراحمد قریشی ، جو ایک طرف مولانا محمد علی جوہر کے دوست رہے تھے، دوسری طرف قائداعظم محمدعلی جناح اور علامہ اقبال سے محبت کا تعلق تھا، اور تیسری جانب مولانا مودودی سے برادرانہ مراسم تھے۔ اس آسودگی، علم دوستی اور ملّی و قومی درد مندی سے رچی فضا میں پروان چڑھتے نوخیز خورشیداحمد نے دہلی کے رہائشی علاقے قرول باغ میں، ’بچہ مسلم لیگ‘ کا یونٹ قائم کیا، اور بچوں سے مل کر تحریک پاکستان کے نغمے، ترانے اور نعرے بلند کرنا شروع کیے۔

۷ تا ۹ ؍اپریل ۱۹۴۶ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا تاریخی اجلاس اینگلوعریبک کالج ہال، دہلی میں منعقد ہوا، جس میں ’قراردادِ لاہور‘ میں درج مطالبے ’مسلم اسٹیٹس‘ (Muslim States) کو ’مسلم اسٹیٹ ‘ (State) میں تبدیل کرنے کی متفقہ قرارداد منظو ر کی گئی اور اسلام سے وفاداری کے حلف نامے پر قرآن کریم کی آیات پڑھ کر قائداعظمؒ اور مسلم لیگ کی ساری قیادت نے دستخط کیے۔ اس اجلاس میں ۶۹’کل ہند مندوبین‘ کی خدمت پر مامور طالب علموں میں خورشیداحمد بھی شامل تھے۔ انھوں نے بتایا تھا کہ ’’اس دوران میں نے مسلم لیگ کی پوری قیادت کو دیکھا اور خاص طور پر قائداعظم کی شخصیت کے وقار، رُعب اور بزرگی کا گہرا تاثر آج تک دل و دماغ پر نقش ہے‘‘۔

یہی خورشیداحمد اپنے والدین کے ہمراہ ۱۹۴۷ء میں دہلی سے ہجرت کرکے لاہور پہنچے اور مسلم ٹائون میں عارضی رہائش اختیار کی اور کالج میں داخلہ لیا۔یہاں بہار سے ہجرت کرکے آنے والے ان کے ہم جماعت اور دوست اقبال احمد (۹۹- ۱۹۲۳ء) تھے، جو بعدازاں ایک لبرل دانش ور کی حیثیت سے معروف ہوئے۔مئی ۱۹۴۹ء میں خورشیدصاحب کے اہل خانہ لاہور سے کراچی منتقل ہوئے۔ یہاں پر اُنھوں نے نو مبر میں پہلا مضمون لکھا اور پھر زندگی کے آخری حصے تک فکر، قلم اور کاغذ کا یہ تعلق کبھی ٹوٹنے نہ دیا۔ ۱۹۴۹ء ہی میں ان کے بڑے بھائی ضمیراحمد، جو کراچی اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم تھے، ان سے ملنے والے جمعیت کے رفقا نے خورشیدصاحب کو سماجی تعلقات کی دُنیا میں سمولیا اور انھیں تحریک اسلامی کا مجسم و متحرک کارکن، لیڈر ، ترجمان اور مفکر بنادیا۔

پروفیسر صاحب کے علم و فضل اور شخصیت کے حُسنِ کمال پر لکھنے والے بہت کچھ اور بہت مدت تک لکھیں گے۔ ذاتی حوالے سے داستان سرائی سے گریز کے باوجود ایک عرض کرتا ہوں کہ فروری ۱۹۷۰ء میں مجھے انتہائی مخالف کیمپ سے اللہ تعالیٰ نے موڑ کر اسلامی جمعیت طلبہ، وزیرآباد کے دفتر کا رستہ دکھایا۔ میٹرک کا امتحان ہونے میں ابھی ایک ماہ باقی تھا۔ جیسے تیسے امتحان دیا، اور پھر مئی کا مہینہ آیا۔ گائوں کی دوپہر میں جھلساتی لُو، شیشم تلے، رات کو کبھی لالٹین اور کبھی چاند کی روشنی میں اسلامی لٹریچر پڑھنے اور جذب کرنے کی پیاس بجھانے کی کوشش کرتا، تو یہ پیاس اور زیادہ بھڑکتی چلی جاتی۔ جون کا مہینہ آیا میں نے جمعیت سے کیا پایا؟  سے خرم مراد اور خورشید صاحب کے مضامین پڑھے تو دونوں شخصیات سے محبت کے رشتے میں بندھ گیا، اور جب کڑاکے کی گرمی شروع ہوئی تو پروفیسر خورشیداحمد صاحب کی گرفتاری میں گزرے روز و شب کی رُوداد تذکرہ زندان زیرمطالعہ آئی۔ جس نے شگفتہ بیانی، ادب کی تراوت اور اسلامی احیا کی مٹھاس سے یک جان کردیا۔ اگست میں، سالِ اوّل میں داخلہ لیا۔

اس سے اگلے ماہ پروفیسر صاحب کا پتہ معلوم کروا کے وزیرآباد کے مضافات میں اپنے گائوں کٹھوہر سے انھیں انگلینڈ خط لکھا، جس میں درج تھا: ’’میں نے سالِ اوّل داخلے میں انگریزی ایڈوانس کامضمون اس لیے لیا ہے کہ بڑا ہوکر مولانا مودودی کی کتابوں کا انگریزی میں اور سیّد قطب شہید کی انگریزی ترجمہ شدہ کتابوں کا اُردو میں ترجمہ کروں۔ آپ سے راہ نمائی اور دُعا چاہتا ہوں‘‘۔

نومبر ۱۹۷۰ء کا مہینہ قومی انتخابی ہنگامے کے عروج کا مہینہ تھا۔ وہ خط جو انھیں چھے سات بدخط سی سطروں میں لکھ کر ارسال کیا تھا، اس کے جواب میں پروفیسر صاحب کا ایروگرام موصول ہوا جس میں انھوں نے لکھا تھا: ’’عزیزم، آپ کے جذبے کو دیکھ کر مجھے بہت خوشی اور ذاتی طور پر بڑی تقو یت محسوس ہوئی ہے، وہ تقویت جو اقبال نے اس طرح بیان کی ہے:

تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سیکڑوں کارواں اور بھی ہیں

قناعت نہ کر عالم رنگ و بُو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں

گئے دن کے تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب مِرے رازداں اور بھی ہیں

اس کے ساتھ ساتھ ہی مطالعے ، محنت اور یکسوئی کے لیے، تنظیم سے وابستگی اور تربیت کی پیاس بڑھانے کے لیے مشورے دیتے ہوئے لکھا: ’’نصاب پر بھرپور توجہ دینا بہ حیثیت طالب علم آپ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ ایک اچھا طالب علم بن کر ہی اسلام، قوم اور ملّت کی خدمت کرسکتے ہیں۔ پھر گنجائش پیدا کرکے ترتیب اور سلیقے سے قرآن، سیرت، ادب، اقبال، تاریخ اور مولانا مودودی کی کتب کا مطالعہ کریں‘‘۔ پھر یہ بھی لکھا کہ ’’علمی کاموں میں اپنے آپ کو ڈھالنے کے لیے ادب کی اصناف افسانہ اور ناول پڑھنا ضروری ہے کہ ان اصناف میں داخلی اور خارجی کیفیات کا اظہار سادہ اور براہِ راست اسلوب میں ہوتا ہے‘‘___دو تین بار خط پڑھا، تو اس کا متن یاد ہوگیا۔ میرے لیے بڑی حیرانی کی یہ بات تھی کہ ایک عام دیہاتی سے لڑکے کو، جو ابھی سالِ اوّل کا طالب علم ہے۔ اتنے بڑے استاد نے کس طرح دل کے قریب لاکر، اپنے دل میں بٹھا لیا ہے!

اس طرح نومبر ۱۹۷۰ء میں پروفیسر خورشیدصاحب سے قلم کا جو رشتہ قائم ہوا، وہ ۱۹۷۹ء کے بعد روحانی ربط، ذاتی تعلق میں ڈھل گیا۔ ۱۹۷۴ء میں ملاقات بھی ہوئی اور ازاں بعد آپ کی تقریروں اور تحریروں کو مرتب یا ترجمہ کرنے کی سعادت ملی۔

دسمبر ۱۹۹۶ء میں خرم مراد صاحب کے انتقال کے بعد محترم قاضی حسین احمد نے پروفیسر صاحب کو ماہ نامہ ترجمان القرآن کا مدیر مقررکیا۔ ان دنوں سڑک پہ حادثے کے سبب جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کے ساتھ لوہے کے شکنجے میں جکڑا، مَیں گھر میں بستر پر پڑا ہوا تھا۔ پروفیسر صاحب نے رسالے کی ذمہ داری سنبھالتے ہی جنوری ۱۹۹۷ء کو پہلی مشاورتی میٹنگ ہمارے گھر، لاچار مریض کے ’ہوم کیئربیڈ‘ کے قریب بیٹھ کر منعقد کی۔ محبت و اُلفت، بزرگی و سرپرستی کے کس کس ورق کو پلٹا جائے؟ یہ ممکن نہیں۔ حوصلہ افزائی کے لیے انھوں نے کیا کیا جملے کہے یا لکھے، کیوں کر بیان کروں؟ ناممکن!

البتہ ایک واقعہ ترجمان القرآن میں شائع ہوگیا تھا۔ محترم خر م مراد کی یادداشتوں کو لمحات کے زیرعنوان مرتب کرنے کے بعد محترم میاں طفیل محمد صاحب کی یادداشتوں کو مشاہدات کی صورت میں مرتب کیا۔ اس کتاب کی تعارفی تقریب منصورہ میں منعقد ہوئی، جہاں محترم میاں طفیل محمد، محترم قاضی حسین احمد اور محترم پروفیسر صاحب نے خطاب کیا۔ پروفیسر صاحب نے میاں صاحب کی کتاب کے مندرجات کا شاندار الفاظ میں تعارف کرانے کے بعد، ذرا لطیف پیرائے میں فرمایا: ’’مشاہداتکو میں اس پہلو سے بڑی اہمیت دیتا ہوں کہ محترم میاں صاحب نے اس میں ایک پورے دور کو جس سادگی سے مفصل اور مؤثرانداز میں پیش کر دیا ہے، وہ ہماری تحریکی زندگی اور تجربات کا خلاصہ  ایک بڑا ہی قیمتی تحفہ ہے۔ مَیں علامہ اقبال کی طرح شکوہ تو نہیں کرسکتا، لیکن اپنی اس خواہش اور تمنا کا اظہار کرتا ہوں کہ کاش! سلیم منصور خالد دس سال پہلے پیدا ہوئے ہوتے، اور مولانا مودودی سے بھی ان کی باتوں کو اسی طرح جمع کر لیا ہوتا‘‘۔ (اگست ۲۰۰۱ء)

ماہانہ بنیادوں پر ترجمان القرآن  کی تدوین اور اس کے علاوہ تین خصوصی نمبروں کی ترتیب کے دوران صر ف ایک موقعے پر پروفیسر صاحب نے رسالہ دیکھ کر، ایک جملے میں اپنی ناراضی کا اظہار ان الفاظ میں کیا: ’’کیا یہ مضمون دینا ضروری تھا؟‘‘ میں نے وضاحت کی کہ تاریخ کے ایک ریکارڈ کے طور پر دے دیا ہے۔ یہ مضمون ایک ممتاز تاریخ دان اور بزرگ صحافی کا تھا، جس میں انھوں نے اپنے ہم مسلک رسالے کے مدیر کو لکھا تھا:’’مولانا [مودودی]نے جب واضح طور پر کہہ دیا کہ’’جو الفاظ مجھ سے منسوب کیے گئے [ہیں] وہ میں نے نہیں کہے‘‘،تو پھر سمجھ میں نہ آیا کہ آپ نے اس بحث کو اس درجہ طول دینے کی ضرورت کیوں محسوس فرمائی؟ گویا آج آپ کے لیے اس کے علاوہ کوئی [اور] مسئلہ ہے ہی نہیں، جس پر توجہ فرمائی جائے‘‘۔ دراصل پروفیسر صاحب اس بات کو اچھا نہیں سمجھ رہے تھے، دو افراد کی باہمی خط کتابت کو ہم اپنی ضرورت کے لیے درج کریں۔

ہر مہینے ترجمان القرآن جب بھی آپ کو لسٹر ملتا تو ۴ تاریخ کے بعد دو تین بار فون کر کے فرماتے: ’’ابھی تک پرچہ نہیں ملا۔ شدت سے انتظار کر رہا ہوں‘‘۔ اور جب پرچہ مل جاتا تو سب سے پہلے فون پر ’جزاک اللہ‘ کہتے۔ پھر پرچے کے مجموعی تاثر پر دو تین جملے کہتے اور اس کے بعد کم و بیش ہرمضمون پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ تک اعتراف کرتے کہ ’انھوں نے جو یہ بات لکھی ہے مجھے پہلی بار معلوم ہوئی ہے‘، ’ان کی یہ دلیل بہت باکمال ہے‘، ’یہ مضمون ذرا طویل ہے‘، ’اس مضمون پر انھیں میری طرف سے شکریے کا فون کریں یا شکریے کا خط لکھیں‘، ’انھیں کہیے کہ مزید لکھیں‘، ’مضمون میں چند پہلو تشنہ رہ گئے ہیں، کہیے کہ ایک نئے مضمون میں وہ پہلو بھی زیربحث لائیں‘۔ یوں تقریباً دس پندرہ منٹ میں پورے رسالے کا جائزہ بیان کرتے۔

اس کے علاوہ مہینے میں سات آٹھ بار ایسا ہوتا کہ اپنے زیرمطالعہ اخبارات، رسائل اور کتب سے مضامین کی تصویر بنوا کر، ان پر اپنے قلم سے کمنٹ لکھتے اور مختلف مقامات نشان زد کرکے بھیجتے۔ جن پر اس نوعیت کی ہدایت ہوتی: ’بہت اہم مضمون ہے‘، ’اس کا ترجمہ کرکے ترجمان میں دیں‘، ’ا س کا ترجمہ و تلخیص کرلیں‘، ’اسے محفوظ رکھ لیں‘، ’اس کا ترجمہ تو نہ دیں مگر ذاتی طور پر توجہ سے مطالعہ کریں‘، ’بہت مفید معلومات اور تجزیہ ہے،مضمون طویل ہے، اخذ کر کے مضمون مرتب کرلیں‘، ’یہ مضمون امیرجماعت کو مطالعے کے لیے دیں‘ وغیرہ___ وہ برطانیہ، امریکا، پاکستان، انڈیا کے اخبارات و جرائد کے علاوہ الجزیرہ اور مختلف معروف تھنک ٹینکس کے مضامین مطالعے کے لیے ارسال کرتے۔ اتنی مشقت کے بعد پورا اعتبار کرتے کہ ہدایت پر عمل کرلیا ہوگا۔ اسی طرح قائداعظم، تحریک پاکستان اور اقبال کے بارے میں کتب خرید کر تحفہ عطا فرماتے۔

مختلف بزرگوں، جماعت سے باہر کے حلقے کے حضرات، دانش وروں اور صحافت کاروں کی صحت کے بارے میں دریافت کرتے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج صاحب کے سخت سوالات اور تبصرے ٹیلی ویژن اور اخبارات میں دیکھے تو فروری ۲۰۱۸ء میں مجھے ہدایت فرمائی: ’’انھیں جاکر میرا پیغام دیں کہ قانون اور ضابطے کے مطابق انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنے نتیجۂ فکر کو فیصلوں میں ضرور لکھیں، مگر عدالتی کارروائی کے دوران تلخ اور بلند آہنگ تبصروں سے گریز کریں۔ جج کی اصل قوت درست فیصلہ ہے، نا کہ زبانی و قولی تبصرہ‘‘۔انھیں اعلیٰ عدلیہ کی تبصراتی روش پر شدید دُکھ تھا کہ ’’اس سے عدالت کا وقار، فیصلے اور مقام و مرتبہ متاثر ہوگا۔ اس طرزِعمل نے اعلیٰ عدلیہ کو بازیچۂ اطفال بنا دیا ہے، جس سے لاقانونیت اور انتشار میں اضافہ ہوگا‘‘۔

جب کبھی کسی فرد کے انتقال کی خبر ان تک پہنچاتا تو ’انا للہ وانا الیہ راجعون‘ کہہ کر ان کی خوبیوں کے بارے میں ایک دو جملے کہتے اور مغفرت کے دُعائیہ کلمات ادا فرماتے۔ مشرقی پاکستان سے جماعت اسلامی کے راہ نمائوں کی پھانسیوں پر انھیں بڑے کرب کے ساتھ سنا۔ یکم ستمبر ۲۰۲۱ء کی شب سیّد علی گیلانی صاحب کے انتقال کی خبر دی: ’ابھی پندرہ بیس منٹ پہلے گیلانی صاحب انتقال فرما گئے ہیں‘۔ پروفیسر صاحب نے انا للہ وانا الیہ راجعون  تین بار دُہرایا اور کہا: ’’گذشتہ دو گھنٹے سے میری حالت ایسی تھی کہ جیسے جان نکل رہی ہے۔ ذہن مائوف تھا، طبیعت میں سخت اضطراب تھا، اور دماغ چکرا رہا تھا۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ اب معلوم ہوا کہ گیلانی صاحب سفرِآخرت کی سمت روانہ تھے۔ بہت صدمہ ہوا، بہت بڑا نقصان ہوگیا ہے، اللہ مالک ہے‘‘۔

مگر ان سب کیفیات سے ہٹ کر ۲۴؍اپریل ۲۰۱۶ء کو مختلف انداز سے اظہار ہوا، جب فون پہ ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری صاحب کے انتقال کی خبر کا تبادلہ ہوا تو فرمانے لگے: ’’دو گھنٹے پہلے انیس نے بتایا تھا۔ اُس وقت سے اکیلا بیٹھا ہوں اور قرآن میرے سامنے ہے۔ سلیم، سچّی بات ہے کہ راجا [ظفراسحاق]کے جانے سے دل ٹوٹ گیا ہے‘‘ اور فون بند کردیا۔ پھر تقریباً دو گھنٹے بعد ان کا اپنا فون آیا: ’’غم کی اس شدت میں قرآن کی مسلسل تلاوت نے مجھے سہارا دیا ہے۔ یاد رکھیں دُکھ اور درد کی گھڑی میں قرآن کے سوا کوئی چیز سہارا نہیں دے سکتی۔ قرآن ہی ایک مسلمان کو سنبھالتا ہے‘‘۔

پروفیسر صاحب ہر مہینے دو مہینے بعد پاکستان اور انڈیا سے شائع ہونے والی کتابوں کی ایک فہرست لکھواتے کہ ’’یہ بھجوا دیں، میں پیسے بھیج دیتا ہوں‘‘۔ گذشتہ تین برسوں میں سب سے زیادہ کتب قرآن کی تشریح کے بارے میں منگوائیں۔ پھر سیرتِ رسولؐ پر، اس کے بعد قانون اور یادداشتوں پر مشتمل کتب کا تقاضا کیا۔ کتب ملنے پر باقاعدہ شکریے کا فون کرتے۔ ہرعید کو لازماً ظہر کے بعد فون آتا، مبارک اور دُعائیں دیتے۔ جب کبھی انھیں طبیعت کی خرابی کی خبر ملتی تو کہتے: ’’بہترین علاج کرائیں، اس بارے میں تساہل سے کام نہ لیں‘‘۔ چند مواقع پر یہ فون آیا: ’’کام تو کوئی نہیں، بس خیریت معلوم کرنی تھی۔ اگر کبھی کوئی پریشانی ہو تو مجھے ضرور بتائیں، دُعا کے ساتھ دوا کرسکا تو مجھے دلی خوشی ہوگی‘‘۔

پروفیسر صاحب کو جتنا بھی قریب سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ جذبے کی گہری آنچ رکھنے کے باوجود، غصّے اور جذبات سے کوئی کلمہ اُن کی زبان سے نہیں چھلکتا۔ اجتماعی زندگی کے معاملات پر واضح رائے رکھنے کے باوجود وہ کبھی نظم کی حد سے آگے بڑھ کر کوئی بات نہیں کرتے بلکہ نظم اور تحریک کی پالیسی کے دفاع کے لیے بڑٰے توازن سے پوری قوت لگا دیتے ہیں۔ حقیقت میں وہ قائد تھے لیکن ان کے سراپے میں ایک بہترین صابر و شاکر کارکن متحرک تھا۔

مطالعے کے لیے راہ نمائی دیتے ہوئے فرماتے: ’’دینی لٹریچر کا آپ مطالعہ کرتے رہیں لیکن خاص طور پر اقبال کے کلام، خطوط اور نثری اثاثے کا مطالعہ کریں اور قائداعظم کی تقاریر اور خطوط کو بڑی توجہ، باریک بینی اور ترتیب سے پڑھیں۔ ان میں تاریخ اور رہنمائی بھی ہے اور ہمارے سماجی اُمور کو سمجھنے اور سلجھانے اور قانون کے راستے سے حل تلاش کرنے کا لائحہ عمل بھی‘‘۔ ایک روز فرمایا: ’’یاد رکھیں پاکستان کے بدخواہوں میں اتنی ہمت تو نہیں کہ اسلام اور پاکستان پر براہِ راست حملہ کرسکیں، مگر وہ اپنے مذموم مقصد کو پورا کرنے کے لیے اُوچھے اور گھٹیا ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے اقبال، قائداعظم اور مولانا مودودی کو ہدف بناتے ہیں۔ اس لیے درست انداز سے حقائق کو پیش کرتے ہوئے ان کی مدافعت کے لیے ہروقت بیدار، تازہ دم اور متحرک رہیں‘‘۔

ایک روز فرمایا: ’’جولائی ۱۹۴۸ء میں مَیں نے لاہور میں کالج کی لائبریری میں ڈان سے قائداعظم کی تقریر پڑھی، جو انھوں نے اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے افتتاح کے موقعے پر کی تھی۔ چونکہ میرا رجحان معاشیات پڑھنے کی طرف تھا، اس لیے میں نے یہ سمجھا کہ اس تقریر کا مخاطب میں بھی ہوں، اور ساتھ ہی اسلامی معاشیات کے بارے موہوم سے سوالات اُٹھنے لگے۔ سال بھر کے بعد مولانا مودودی کے ہاں معاشیات کی اسلامی تفہیم و تشریح پڑھی تو دل ودماغ  مکمل یکسوئی کے ساتھ اسلامی معاشیات سے وابستہ ہو گئے‘‘۔

یاد رہے قائداعظم نے یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو کراچی میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے افتتاح کے موقعے پر اپنی آخری تقریر میں فرمایا تھا: ’’معاشرتی اور معاشی زندگی کے اسلامی تصورات سے بنکاری کے نظام کو ہم آہنگ کرنے کے سلسلے میں آپ جو کام کریں گے، میں دلچسپی سے اس کا انتظار کروں گا۔ اس وقت مغربی معاشی نظام نے تقریباً ناقابلِ حل مسائل پیدا کر دیئے ہیں، اور شاید کوئی کرشمہ ہی دُنیا کو اس بربادی سے بچاسکے، جس کا اسے اس وقت سامنا ہے۔ یہ نظام افراد کے درمیان انصاف اور قوموں کے درمیان ناچاقی دُور کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔ مغربی دُنیا اس وقت میکانکی اور صنعتی اہلیت کے باوصف جس بدترین ابتری کا شکار ہے، وہ اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔مغربی اقدار، نظریئے اور طریقے، خوش و خرم اور مطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کرسکیں گے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا، اور دُنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگا، جس کی اساس و بنیاد انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچّے اسلامی تصور پر کھڑی ہو۔ اس طرح ہم مسلمان کی حیثیت سے اپنا مقصد پورا کرسکیں گے، اور بنی نوع انسان تک امن کا پیغام پہنچا سکیں گے۔ صرف یہی راستہ انسانیت کو فلاح و بہبود اور مسرت و شادمانی سے ہمکنار کرسکتا ہے‘‘۔

اس طرح انٹرمیڈیٹ کے طالب علم خورشیداحمد نے اپنے قومی اور فکری قائدین سے، اپنے من کی دُنیا میں جو عہد کیا تھا، ساری زندگی اسی عہد کی تکمیل کے لیے تج دی۔ ۱۹۵۸ء میں اکنامکس پر پہلی کتاب Essays on Pakistan Economy لکھی  اور ۱۹۶۱ء کو علی گڑھ یونی ورسٹی میں پروفیسر محمد نجات اللہ صدیقی کے نام خط لکھا: ’’کراچی یونی ورسٹی میں میرا تقرر ہوگیا ہے۔ Economic Planning اور Agricultural Economics پڑھا رہا ہوں۔ ’پلاننگ‘ کا پرچہ فائنل میں اور ’ایگریکلچرل‘ پر یویس میں۔ دُعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ ان نئی ذمہ داریوں کو اُٹھانے کی توفیق دے۔ پہلے بھی کام بہت تھے، اور اب تو بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ دو پرچوں [مراد ہیں اقبال اکادمی کا اُردو/ انگریزی Iqbal Review اور ماہ نامہ چراغِ راہ]کی ادارت، یونی ورسٹی، اجتماعی کام، ذاتی مصروفیات، ترجمہ و تالیف ___ خدا ہی ہمت دے اور ان کاموں کو بخیروخوبی انجام دلائے‘‘۔

سفرِشوق کی کٹھن راہوں پر چلتے ہوئے مسافر تھکا نہیں۔ ملازمت کے گوشے تک محدود رہنے کے بجائے اس طرزِفغآں کو پورے گلشن میں عام کرنے کے لیے مسلسل کوشش جاری رکھی، جس میں نوماہ جیل میں بھی گزارے، مگر نگاہیں منزل پر جمی رہیں۔ ۲۷؍اپریل ۱۹۶۸ء کو نجات اللہ صدیقی صاحب کو خط لکھا: ’’الحمدللہ، ہماری کوششوں سے ایک بہت بڑی کامیابی ہوئی ہے، وہ یہ کہ کراچی اور پنجاب کی یونی ورسٹیوں نے ایم اے [اکنامکس] کی سطح پر Economics of Islam کا ایک پورا پرچہ ۱۰۰ نمبر کا متعارف کردیا ہے۔ آپ کو کراچی اور پنجاب کے سلیبس بھیج رہا ہوں، تاکہ آپ اس پر غور کرسکیں اور ہماری کچھ مدد کرسکیں‘‘۔

بعدازاں قومی اور عالمی سطح پر معاشیاتِ اسلام اور اسلامی بنکاری کے لیے کانفرنسوں، سیمیناروں کے انعقاد اور اداروں کی تشکیل و تعمیر، اور افراد سازی کے لیے مسلسل جدوجہد جاری رکھی۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج مغربی علمی دُنیا انھیں ’فادر آف دی اسلامک اکنامکس‘ کے لقب سے یاد کرتی ہے۔

یہ ان کے لڑکپن کی بات ہے خورشید احمد صاحب، اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کا دستوری مسودہ تیار کرکے ارکان کو پیش کرنے والی سہ رکنی کمیٹی کے رکن تھے (دوسرے ارکان میں خرم مراد اور ظفر اسحاق انصاری شامل تھے)۔ خورشید صاحب نے بتایا: ’’جمعیت کے دستور کی تدوین کے وقت حلفِ رکنیت میں زندگی کے مقصد کے اظہارواعلان کے لیے جس قرآنی آیت کا انتخاب کیا گیا، وہ خرم بھائی اور راجا بھائی [ظفراسحاق]ہی کی تجویز کردہ تھی، اور جب انھوں نے تجویز کی تو اپنی کم علمی کے باوجود میری زبان سے بے ساختہ نکلا: ’میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ آیت مبارکہ ہے: اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۶۲ۙ (الانعام ۶:۱۶۲)’’کہو،میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور مرنا، سب کچھ اللہ ربّ العالمین کے لیے ہے‘‘۔

پروفیسر صاحب نے اپنے دونوں مجوز ساتھیوں کی طرح اس عہد کو لکھا، پڑھا اور آخر دم تک نبھایا۔ اکتوبر ۲۰۱۶ء میں آنکھ کا آپریشن کرایا تو دائیں آنکھ ضائع ہوگئی لیکن اس تکلیف کے باوجود کمزور نظر اور محدب عدسے کی مدد سے مطالعہ کو جاری رکھا اور انتقال سے تین چار روز پہلے تک قلم سے رشتہ قائم رکھا___ دوسری تیسری کلاس کے بچّے نے مولانا مودودی کو جو نظم تحت اللفظ میں اور ہاتھ کے پُرجوش اشاروں کے ساتھ سنائی تھی، اس نظم کو اپنی زندگی کا ساز بنا لیا۔ اور پھر اس مغنی نے دُنیا کے گوشے گوشے میں اس نغمے کی گونج پھیلانے کے لیے تن من دھن لگادیا:

اسلام کا ہم سکّہ دُنیا پہ بٹھا دیں گے
توحید کی دُنیا میں اِک دھوم مچا دیں گے

اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ اُبھرے گا، جتنا کہ دبا دیں گے

نتائج پیدا کرنا اللہ کی مشیت اور حکمت پر منحصر ہے، مگر شعوری طور پر زندگی لگادینا فرد کی ذمہ داری ہے۔ پھر لاہور میں قائداعظم کی آخری تقریر اخبار سے پڑھ کر جو عہد اپنے خالق سے باندھا تھا، پوری زندگی اس عہد کو نبھانے کے لیے وقف کر دی، جس کے روشن نقوش پوری دُنیا کی مالیاتی زندگی میں ایسے فرزانوں کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ آگے بڑھ کر علم کا علَم بلند کریں: مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللہَ عَلَيْہِ ۝۰ۚ فَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَہٗ وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ ۝۰ۡۖ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا۝۲۳ۙ (احزاب ۳۳:۲۳)  ’’اُن میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ اُنھوں نے اپنے رویّے میں کوئی تبدیلی نہیں کی‘‘۔

پروفیسر خورشید احمد تحریک اسلامی کے اس قافلے کا آخری ستون تھے، جس قافلے کے سالار اور مجاہد اپنی اپنی ذمہ داری ادا کرکے اللہ کے حکم پر ابدی دُنیا کو لوٹ گئے۔ وہ قافلہ جو فکر بھی تھا، طریقۂ زندگی بھی، جس نے سماجی اور اجتماعی زندگی کو ایک قرینہ عطا کیا ہے، جس قافلے نے طوفانوں کے سامنے کھڑا ہونے اور ایمانی و علمی اور منطقی اپروچ سے شائستگی و بہادری کے ساتھ مقابلہ کرنے کا انداز سکھایا ہے، جس نے عددی قوت کی کمی کو کبھی نفسیاتی مسئلہ نہیں بننے دیا ہے اور اس کے ایک ایک فرد نے ہزار ہزار انسانوں کی سی عزیمت کو سر کا تاج بنایا۔ تربیت، تنظیم اور جہد ِ مسلسل کو زندگی اور زندگی کی معراج بنایا ہے۔ اس روایت کے آخری فرد تو بلاشبہ خاکی وجود میں خورشید احمد صاحب تھے،مگر الحمدللہ، وہ قافلہ نئے آہنگ اور نئے میدانوں میں ، نسلِ نو کے ساتھ معرکہ زن ہے  ع   

اِک روشنی کے ہاتھ میں ہے روشنی کا ہاتھ

اکثر دن کے تین سے چار بجے کے درمیان پروفیسر صاحب کے فون کا انتظار رہتا تھا۔ اب اس مہربان ہستی کا فون نہیں آئے گا۔دُنیا کی اسکرین سے بھی انسان اسی طرح چلا جاتا ہے، رہ جاتی ہے اس کی یاد اور صدقۂ جاریہ۔ کاش! ہم صدقۂ جاریہ بن سکیں اور مہلت ِ عمر کو اس دُنیا کی باثمر زندگی اور آخرت کی کامیابی زندگی بنا سکیں۔