۲۰۲۵ اگست

فہرست مضامین

اہل غزہ سے اسرائیلی امریکی ’مذاق‘

جمال کنج | ۲۰۲۵ اگست | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

غزہ میں نسل کشی اور اسرائیل کی بے لگام نوآبادیاتی اور سامراجی تکبر اس مقام تک پہنچ گئے ہیں، جہاں سے بظاہر نجات ممکن نہیں۔ نیتن یاہو کی لامتناہی جنگیں اب ملک ِشام تک پھیل گئی ہیں، جو دمشق کے مرکزی حصے پر مکمل بے خوفی سے حملے کی صورت میں سامنے آرہی ہیں۔دریں اثنا، امریکا، جو مبینہ طور پر دنیا کی ایک بڑی سپر پاور کہلاتا ہے، بدقسمتی سے لگاتار اسرائیلی حکومتوں کی غلامی میں ڈوبا ہوا ہے، جو اکثر بنیادی انسانی اقدار اور بین الاقوامی قانون کو قربان کر دیتا ہے۔ 

اس صورتِ حال کا سب سے واضح مظہر گذشتہ ۲۱ ماہ سے غزہ میں دیکھا گیا ہے۔ سابق امریکی صدر جوبائیڈن اور ان کے اسرائیل کو ترجیح دینے والے وزیر خارجہ، انٹونی بلنکن نے بارہا نیتن یاہو کے بدترین شدت پسندانہ اور نسل پرستانہ رجحانات کا دفاع کیا۔ اس مضحکہ خیزی کا ایک نمایاں مظہر وہ امریکی اسرائیلی تعلقات ہیں، جن کا ہدف غزہ ہے، ایسا ہدف کہ جس میں تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ دُنیا کی نام نہاد مہذب ریاست امریکا نے اہل غزہ کو بھوک سے مارنے کے لیے ناکہ بندی کو مضبوط تر کیا۔ 

بائیڈن حکومت نے نیتن یاہو کی مدد کرتے ہوئے امریکی ٹیکس دہندگان کے سیکڑوں ملین ڈالر خرچ کیے۔ یہ انسانیت دشمنی پر مبنی منصوبہ تھا: ایک ۳۲۰ ملین ڈالر کا منصوبہ جو امریکی اسرائیلی گٹھ جوڑ سے فوجی ہم آہنگی کے لیے بنایا گیا۔ اس کے ساتھ ایک اور مذاق ’غزہ ہیومنٹیرین فائونڈیشن‘ (GHF) کے نام سے کھیلا گیا جو انسانی قدروں کو بحیرئہ روم میں غرق کرنے کے مترادف ہے۔ 

امریکا کی بائیڈن حکومت ہو یا ٹرمپ کا راج، انھوں نے اسرائیل کو پورا حق دیا کہ وہ بے بس اہل غزہ کو بھوک سے مارنے کے لیے ناکہ بندی جاری رکھیں، اور دوسری جانب عالمی ضمیر کو گونگا ، بہرہ اور اندھا بنا کر رکھ دیا کہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی، کوئی بڑی طاقت بامعنی رکاوٹ پیدا کرتی نظرنہیں آرہی۔ یہ ایک خونیں تھیٹر ہے، جس میں مظلوم بچوں کی لاشیں اور بے بس مائوں کی چیخیں شامل ہیں۔ 

موت کے اس کھیل میں اردن کے بادشاہ نے ایک نمائشی ایئر ڈراپ کا مظاہرہ کیا۔ تباہ کن قیامت کے ساتھ یہ خوراک ایئر ڈراپ کا تماشا، اسرائیل اور بے ہمت عرب شراکت داروں کے درمیان بات چیت بحال کرنے کا پُل بنایا جا رہا ہے، جو اسرائیل کو شیطانی زمینی ناکہ بندی ہٹانے سے بچنے کے لیے ایک اور بہانہ فراہم کرتا ہے۔ دریں اثنا، روزانہ سیکڑوں افراد کی بھوک سے اموات کی تصدیق ہورہی ہے، مگر UNRWA رپورٹ کرتا ہے کہ اس کے پاس غزہ کی پوری آبادی کو تین ماہ تک کھانا کھلانے کے لیے کافی خوراک موجود ہے۔ پھر بھی، امداد کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے، اسرائیل بھوک سے مرنے والے بچوں تک کوئی امداد نہیں پہنچنے دیتا۔ 

قاتلوں کے غیرمقدس اتحاد نے اسرائیلی قیادت میں ’غزہ انسانی امداد فائونڈیشن‘ کا چالاک منصوبہ محض دُنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے بنایا اور اس کے لیے ایک بار پھر امریکا نے ادائیگی کی، جس کا مقصد بھوک ختم کرنا نہیں، بلکہ بین الاقوامی دباؤ کو غیر مؤثر کرنا تھا۔ ٹرمپ نے بھی، بائیڈن کی طرح اس ڈرامے کے ساتھ، اسرائیل کی اسی غلامی کے سامنے سر جھکایا۔ 

یہ امداد فراہم کرنے کا بہانہ ایک اور اسرائیلی مہلک دھوکا ثابت ہوا۔ زندگی کی ڈور کے بجائے، موت کے کھیل میں تبدیل ہوگیا۔ بھوک ان کا انتظار کر رہی ہے، اسرائیلی قاتل گولیاں انھیں تقسیم کے مراکز سے ملتی ہیں۔ وہی فوج جو قحط کی انجینئر ہے، وہی بظاہر نام نہاد نجات دہندہ بن کر دروازوں پر متاثرین کو گولی مار دیتی ہے۔ 

امریکی امداد سے ’غزہ فائونڈیشن‘ (GHF) نے اسرائیل کو خوراک کی امداد پر کنٹرول دے دیا —اور اب، پانی کے جمع کرنے کے مقامات پر چھوٹی چھوٹی بچیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہربنیادی ضرورت، —خوراک، پانی، دوائی —ان مظلوموں کا حق نہیں، بلکہ ایک اسرائیلی ہتھیار ہے۔ بھوک دینے، پانی سے محروم کرنے، اور دوا روکنے کا ہتھیار —جو فلسطینیوں کی نسلی تطہیر کے لیے بنایا گیا ہے۔ 

’غزہ فائونڈیشن‘ کے متضاد نام کو پیچھے چھوڑتے ہوئے، اسرائیل نے ایک ’انسانی امدادی شہر ‘ (Humanitarian City)کے نام سے پیش کیا ہے، جہاں شمالی غزہ سے۶ لاکھ فلسطینیوں کو جنوب میں محصور رکھا جائے گا، —جہاں لوگ داخل تو ہو سکتے ہیں، لیکن باہر نہیں نکل سکتے۔ اسرائیلی نیا حراستی کیمپ، جو غزہ کی ایک چوتھائی سے زیادہ آبادی کو محدود کرنے کا تصور پیش کرتا ہے، دوسری عالمی جنگ کے بہت سے نازی کیمپوں سے بڑا ہے۔ 

حراستی کیمپ کو ’انسانی امدادی شہر‘ کہنا اسرائیل کی شیطانی اور دھوکے باز جنگ کا حصہ ہے۔ اس تناظر میں، اسرائیل نے پراپیگنڈے کو ہتھیار بنانے میں مہارت حاصل کر لی ہے۔ اسرائیل، فلسطینیوں کو بھوکا نہیں مارتا، یہ ’کیلوری پابندیاں‘ عائد کرتا ہے۔ یہ نسلی تطہیر ہی نہیں کرتا بلکہ جبری ہجرت کا شکار کرتا ہے۔ اور اب، یہ بڑے پیمانے پر نقل مکانی نہیں کرتا، یہ ایک ’انسانی امدادی شہر‘ تجویز کرتا ہے۔ 

اسرائیل اس قسم کے ہتھکنڈوں سے صرف اس لیے بچ نکلتا ہے کیونکہ عالمی طاقتیں نسل کشی کا محض ڈھونگ رچاتی ہیں۔ یورپی یونین سیاسی نتائج کی ہلکی پھلکی وارننگ جاری کرتی ہے۔ برطانیہ، ہمیشہ کی طرح دوغلے پن کی منافقانہ روش کا ماہر، صرف اسرائیل کو اپنے ’انسانی حق‘ کے لیے لڑنے اور مغربی کنارے میں آباد ہجوم کو’لگام‘ دینے کا مشورہ دیتا ہے۔ یہ سارے ڈھونگ اسرائیل کو احتساب سے بچاتے ہیں۔ 

عرب دنیا عجیب طور پر خاموش___  شریکِ جرم ہی نہیں، شرمناک طور پر تین غلام کیمپوں میں تقسیم دُنیا۔ مغرب میں مصر، عملاً غزہ کی ناکہ بندی میں فعال شریکِ کار ہے۔ مشرق میں، اردن اور خلیجی ریاستیں کھلے عام تجارت کرتی ہیں اور اسرائیل کی حفاظت کے لیے فوجی ڈھال کا کردار ادا کرتی ہیں۔ اور پھر وہ ہیں جنھوں نے ٹرمپ پر اپنی دولت لٹائی، جب کہ غزہ جل رہا ہے اور مغربی کنارہ یہودیوں کے لیے مخصوص کالونیوں کی زد میں ہے۔ 

یہ اجتماعی خاموشی سفاکانہ ملی بھگت ہے۔ یہ نازی نظریے کی بحالی ہے، جو مختلف جھنڈے اور وردی میں ملبوس ہے۔ ایک فلسطینی کے طور پر، میں غصے میں ہوں۔ لیکن اس سے زیادہ، ایک امریکی شہری اور ایک انسان کے طور پر مجھے حددرجہ صدمہ ہے۔ دنیا میں محض اعتراض کا ڈرامہ پیش کرنا نہایت توہین آمیز فعل ہے، جب کہ ایک حراستی کیمپ کو ’انسانی امدادی شہر‘ کے خوش نما نام کے تحت بنتے دیکھا جا رہا ہے۔ میں سوچنے پر مجبور ہوں کہ دنیا —خاص طور پر یہودی —کیا ردعمل ظاہر کرتے اگر کوئی نازی اپنے ہاں قائم کردہ یہودی باڑے کو ’یہودی تفریح گاہ‘ کہتا!