گزرے زمانے میں معلومات کے تبادلے اور پیغام رسانی کےلیے قاصد روانہ کیے جاتے تھے جو پیدل سفر کرتے تھے۔ اس کے بعد یہی قاصد خچروں اور گھوڑوں پر سفر کرکے پہنچنے لگے۔ بعدازاں پھرکبوتروں کو تربیت دے کر اُن سے یہ کام لیا جانے لگا (بھارت میں یہ کام ۲۰۰۲ء تک لیا جاتا رہا ہے جہاں باقاعدہ ایک کبوتر کورئیر کمپنی موجود تھی جس کے پاس تقریباً ۸۰۰ تربیت یافتہ کبوتر موجود تھے)۔ اس کے بعد کچھ ترقی ہوئی اور ان کاموں کےلیے ڈاک کا باقاعدہ نظام متعارف ہوا۔ پھر اخبارات، ٹیلی فون، ٹیلی گرام، ٹیلیکس، ریڈیو، ٹیپ ریکارڈر، ٹیلی ویژن، وی سی آر، موبائل فون، برقی ڈاک (Email)، سے ہوتے ہوئے ہم واٹس ایپ، انسٹا گرام، فیس بک، ایکس (ٹوئٹر)، اسنیپ چاٹ، ٹک ٹاک اور نہ جانے کہاں کہاں تک پہنچ گئے جسے عصر حاضر میں سوشل میڈیا کا نام دیا گیا ہے۔
دُنیا واقعی ایک بین الاقوامی گاؤں (Globel Village) بن گئی ہے۔ دُنیا کے کسی کونے میں پیش آنے والا واقعہ لمحے بھر میں پوری دُنیا میں رپورٹ ہوجاتا ہے۔ یہاں تک تو بات درست ہے کہ صحیح خبریں اور معلومات فوری طور پر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو رہی ہیں ، لیکن ہر نئے مواصلاتی رابطے کی طرح بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر سوشل میڈیا پر حقائق سے ہٹ کر جھوٹ پر مبنی مواد، ویڈیوز، مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence)کی کارگزاریاں اور افواہیں تیزی سے گردش کررہی ہیں ۔ گزرے وقتوں میں انھیں پھیلانے میں وقت لگتا تھا،جب کہ آج من گھڑت اطلاعات چند ہی لمحوں میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیلانا بہت آسان ہے۔ اُردو میں ضرب المثل مشہور ہے کہ’جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے‘ مگر اب سوشل میڈیا کے ذریعے تو اس جھوٹ کے نہ صرف پاؤں ہیں بلکہ جھوٹ کے ایسے ’پَر‘ نکل آئے ہیں، جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ گویا جھوٹ کا سیلِ رواں (سیلاب) ہے جو سب کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔
بچّے، بوڑھے، جوان، مزدور، کسان، افسر، سیاستدان، سماجی کارکن، فوجی ادارے، غرض ہرکوئی سوشل میڈیا کے سحر میں گرفتار ہے۔ جو ویڈیو یا پوسٹ بھی نظر سے گزرے اور وہ من بھاتی ہو تو اسے بغیر کسی تحقیق کے من و عن قبول کر لیا جاتا ہے ۔ سوشل میڈیا بے لگام ہے، جہاں خبروں کے نام پر بعض معلومات تو عمومی اخلاقیات کی حدود و قیود سے بھی آزاد ہوتی ہیں۔ ایک خاص ایجنڈے کے تحت ایک من مانی خبر گھڑی جاتی ہے، اور پہلے اسے ایک اکاؤنٹ سے شیئر کیا جاتا ہے، جس کے بعد بہت سے مخصوص اکاؤنٹس اسے مزید شیئر کر دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ پھیلتے پھیلتے یہ خبر عام صارفین تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ تب وہ اسے محض اپنی انگلی کی کھجلی مٹانے کے لیے بغیر کسی تصدیق کے شیئر کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح ایس ایم ایس، واٹس ایپ، فیس بک، ایکس (ٹوئٹر) ، ٹک ٹاک، یوٹیوب اور میٹا میسنجر کے ذریعے جھوٹی خبریں پھیلائی جاتی ہیں۔ کچھ جھوٹی خبریں خوش کن ہوتی ہیں لیکن جب ان کا بھانڈا پھوٹتا ہےتو خوش ہونے والوں کے سارے خواب چکنا چور ہوجاتے ہیں۔ گویا اُسے ایک دھوکے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، جب کہ کچھ خبریں تجسس پیدا کرنے کے لیے تخلیق کی جاتی ہیں۔ ان خبروں سے لوگ نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں ۔ شوگر و بلڈپریشر، دماغی خلفشار، نفسیاتی مسائل اور نہ جانے کون کون سے مرض بڑھ جاتے ہیں۔ بعض جھوٹی خبریں جذباتیت کو ہوا دینے کے لیے پھیلائی جاتی ہیں جن میں مذہبی بھی ہوتی ہیں اور سیاسی بھی۔ بعض اوقات کسی مخصوص ادارے کو یا شخصیت کو نشانہ بنایا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح ارشادموجود ہے:کَفٰی بِالمرءِ کَذِبًا أَنْ یُحدِّثَ بِکُلّ مَا سَمِعَ، ’’انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنی بات ہی کافی ہے کہ وہ ہر ایسی بات دوسروں کو سنانے لگے جو اس نے کہیں سے بھی سن لی ہو۔ ‘‘(ابوداؤد: ۴۹۹۲)
بلا تحقیق افواہوں کی بنیاد پر کسی انسان کی عزت کو مجروح کرنا صرف جھوٹ ہی نہیں، بہتان بھی ہے، اور حقوق العباد میں سے ہونے کی وجہ سے زیادہ خطرناک اور سنگین جرم ہے، لیکن ہمارے موجودہ ماحول میں کسی شخص پر کوئی الزام عائد کرنا ایک کھیل بن گیا ہے، جس میں کسی تحقیق اور ذمہ داری کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی۔ بالخصوص اگر کسی شخص سے ذاتی، جماعتی، مذہبی، مسلکی یا سیاسی اختلاف ہو تو اس کی غیبت کرنا، اس پر بہتان باندھنا اور اسے طرح طرح سے بے آبرو کرنا بالکل جائز اور حلال سمجھ لیا جاتا ہے۔
بہتان لگانے والے کے بارے میں نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح ارشاد موجود ہے کہ ’’جس نے کسی کے بارے میں ایسی بات کہی (الزام لگایا ، تہمت ، یا جھوٹی بات منسوب کی) جو درحقیقت اس میں تھی ہی نہیں ، تو اللہ اسے (الزام لگانے والے، تہمت لگانے والے ، جھوٹی بات منسوب کرنے والے کو) دوزخ کی پیپ میں ڈالے گا۔ (وہ آخرت میں اِسی کا مستحق رہے گا) یہاں تک کہ اگر وہ اپنی اِس حرکت سے (دنیا میں) باز آجائے (رک جائے ، توبہ کر لے تو پھر نجات ممکن ہے)‘‘ ۔ (مسند أحمد : ۷/۴، سنن أبي داؤد : ۳۵۹۷ ، تخريج مشكوٰة المصابيح :۳ /۴۳۶، ۳۵۴۲)
ایک اور بات قابلِ تشویش ہے کہ احادیث، صحابہؓ و اسلاف کے اقوال اور تاریخی واقعات کی تصدیق کیے بغیراُنھیں آگے بڑھانے سے بھی دریغ نہیں کیا جارہا ، جب کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہر مسلمان، معاشرے کا ایک ذمہ دار فرد بن کر زندگی گزارے۔ اس کے منہ سے جو بات نکلے، وہ کھری اور سچی ہو اور وہ اپنے کسی قول و فعل سے غیر ذمہ داری کا ثبوت نہ دے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ ۱۸ (قٓ ۵۰:۱۸) ’’انسان جو بات بھی زبان سے نکالتا ہے، اسے محفوظ رکھنے کے لیے ایک نگہبان ہر وقت تیار ہے‘‘ ۔
اس آیت کی تشریح میں صاحبِ تفہیم القرآن سیّد موودی لکھتے ہیں:
ایک طرف تو اللہ خود براہِ راست انسان کی حرکات و سکنات اور اس کے خیالات کو جانتا ہے، تو دوسری طرف ہرانسان پر دو فرشتے مامور ہیں جو اس کی ایک ایک بات کو نوٹ کررہے ہیں اور اس کا کوئی قول و فعل ان کے ریکارڈ سے نہیں چھوٹتا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس وقت اللہ تعالیٰ کی عدالت میں انسان کی پیشی ہوگی اس وقت اللہ کو خود بھی معلوم ہوگا کہ کون کیا کر کے آیا ہے، اور اس پر شہادت دینے کے لیے دو گواہ بھی موجود ہوں گے جو اس کے اعمال کا دستاویزی ثبوت لاکر سامنے رکھ دیں گے۔ یہ دستاویزی ثبوت کس نوعیت کا ہوگا، اس کا ٹھیک ٹھیک تصور کرنا تو ہمارے لیے مشکل ہے۔مگر جو حقائق آج ہمارے سامنے آ رہے ہیں انھیں دیکھ کر یہ بات بالکل یقینی معلوم ہوتی ہے کہ جس فضا میں انسان رہتا اور کام کرتا ہے، اس میں ہر طرف اس کی آوازیں، اس کی تصویریں اور اس کی حرکات و سکنات کے نقوش ذرّے ذرّے پر ثبت ہو رہے ہیں اور ان میں سے ہر چیز کو بعینہٖ انھی شکلوں اور آوازوں میں دوبارہ اس طرح پیش کیا جاسکتا ہے کہ اصل اور نقل میں ذرّہ برابر فرق نہ ہو۔ انسان یہ کام نہایت ہی محدود پیمانے پر آلات کی مدد سے کر رہا ہے۔ لیکن خدا کے فرشتے نہ ان آلات کے محتاج ہیں نہ ان قیود سے مقیّد۔ انسان کا اپنا جسم اور اس کے گردو پیش کی ہر چیز ان کی ٹیپ اور ان کی فلم ہے جس پر وہ ہر آواز اور ہر تصویر کو اس کی نازک ترین تفصیلات کے ساتھ جوں کی توں ثبت کرسکتے ہیں اور قیامت کے روز آدمی کو اس کے اپنے کانوں سے اس کی اپنی آواز میں اس کی وہ باتیں سنوا سکتے ہیں جو وہ دنیا میں کرتا تھا، اور اس کی اپنی آنکھوں سے اس کے اپنے تمام کرتوتوں کی چلتی پھرتی تصویریں دکھا سکتے ہیں جن کی صحت سے انکار کرنا اس کے لیے ممکن نہ رہے۔
اس مقام پر یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ آخرت کی عدالت میں کسی شخص کو محض اپنے ذاتی علم کی بنا پر سزا نہ دے گا بلکہ عدل کی تمام شرائط پوری کر کے اس کو سزا دے گا۔ اسی لیے دنیا میں ہر شخص کے اقوال و افعال کا مکمل ریکارڈ تیار کرایا جا رہا ہے تاکہ اس کی کار گزاریوں کا پورا ثبوت ناقابلِ انکار شہادتوں سے فراہم ہوجائے۔(تفہیم القرآن، پنجم،سورۃ قٓ، حاشیہ ۲۱)
گویا یہ ایسی شہادت ہوگی جس پر انسان پکار اُٹھے گا: مَالِ ہٰذَا الْكِتٰبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيْرَۃً وَّلَا كَبِيْرَۃً اِلَّآ اَحْصٰىہَا۰ۚ (الکہف۱۸:۴۹) ’’یہ کیسی کتاب (ریکارڈ) ہے کہ کوئی چھوٹی بڑی حرکت ایسی نہیں جو اس میں درج (موجود) نہ ہو‘‘۔
سوشل میڈیا پر پھیلتے جھوٹ کی صورت حال میں ایک انتہائی خطرناک بات یہ بھی ہے کہ غلط الزامات کے سیلاب میں حقیقی مجرموں کو پناہ مل گئی ہے، یعنی جو لوگ واقعی خطا کار اور بد عنوان ہیں، انھیں بدنامی کا زیادہ خطرہ نہیں رہا۔ اس لیے وہ یہ سوچتے ہیں کہ اگر کوئی خبر ہماری بد عنوانی کے حوالے سے عام ہوئی بھی تو وہ اسی طرح مشکوک سمجھی جائے گی، جیسے اور بہت سی بلا تحقیق باتوں کو سنجیدہ افراد مشکوک سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں، چنانچہ بد عنوان افراد آرام سے بد عنوانیوں میں ملوث رہتے ہیں اور معاشرے میں بگاڑ عام ہوتا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ غیر محرم لڑکے لڑکیوں کا آوارہ پن، ان کے پوشیدہ رابطے، چوری، ڈاکے، دوسروں کا تمسخر اُڑانا وغیرہ عام ہوگیا ہے۔
لہٰذا مسئلے کی حقیقت معلوم ہوجانے کے بعد محض اس کو بُرا جان لینا یا اس کی مذمت کردینا مسئلے کا حل نہیں ہے، بلکہ ہم میں سے ہر شخص اپنی اپنی جگہ پر اسے تبدیل کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اس بات کا عہد کرے کہ آج کے بعد وہ جھوٹ اور مکرو فریب کے سیلاب میں نہ خود بہے گا اور نہ اپنے گھر، محلے ،دفتر، کاروبار اور سماجی رابطے کے لوگوں کو اس غلط کام کا مرتکب ہونے دے گا۔ وہ یہ کام امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ سمجھتے ہوئے کرے گا۔ بہتر ہوگا کہ اب تک جس جھوٹ، بہتان وغیرہ جیسی پوسٹوں کے بنانے میں، انھیں شیئر کرنے میں جہاں تک ہم ملوث تھے، اُس پر اپنے ربّ سے سچی توبہ کرلیں اور آئندہ ذیل میں دیے گئے نکات پر عمل کی کوشش کریں، تو اُمید ہے کہ بہت سے گناہوں سے بچا جاسکتا ہے: