مقام:مصر کے شہر قاہرہ میں، ’بابِ خُلق‘ کے قریب واقع سب سے قدیم جیل۔ اس جیل سےسزائے موت کے قیدیوں کے لیے سزا کے عمل درآمد تک انتظار گاہ کا کام لیا جاتا تھا۔
دن: اتوار، تاریخ : ۲۸؍اگست ۱۹۶۶ء، وقت: صبح صادق۔
منظر:مصر کے شہر قاہرہ کی ایک قدیم مشہور جیل کی عمارت کے اوپر لگے ہوئے ایک بہت بڑے پول پر ایک سیاہ پرچم لہرا رہا ہے۔
ہر شخص اس بات کو جانتا اور سمجھتا تھا کہ اس کالے جھنڈے کو اِس وقت لہرانےکا صرف اور صرف ایک ہی مطلب ہےاور وہ یہ ہےکہ اس صبح کو،تھوڑی ہی دیر بعد ،کسی شخص کی سزائے موت کے حکم پر عمل درآمد ہونے والا ہے۔مگر شاید کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ اس مرتبہ پھانسی کایہ حکم مصر کی تاریخ کاایک اہم حصہ بن جائے گا، بلکہ وہ اِس دور کے رازوں میں سے ایک اہم ترین راز ہو گا اور اس کے اثرات آنے والے دور کے ہر ماہ و سال پر پڑیں گے۔
سزائے موت کےاس حکم پر عمل درآمدکے نتائج اوراثرات کا چونکہ مصر کے امن و امان کی صورتِ حال پر اثرانداز ہونے کا خدشہ تھا، اِس لیے حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ سزائے موت کے اِس فیصلے پر عمل درآمد بڑی رازداری سے کیا جائے،تاکہ مصر کی گلیوں، بازاروںاور سڑکوں پر خاص طور پر اور عالمِ عرب کی شاہراہوں پر عام طور پر،ہر جگہ عوامی جذبات نہ بھڑک اُٹھیں۔ اس لیے بھی کہ اس کی خبر ملکی اور بین الاقوامی خبررساں ایجنسیوں اور اداروں تک نہ پہنچنے پائے،جو ہر وقت اس طرح کی خبروں کی تلاش اور ٹوہ میں لگی رہتی ہیں، اور ان خبروں کو تفصیل کے ساتھ دوسرے اداروں تک منتقل کرتی رہتی ہیں۔
اس کے علاوہ ایک اور اہم وجہ یہ بھی تھی کہ حکومت میں موجود بعض بااثر اوربااختیار لوگ ایسے بھی تھے،جو پھانسی کے حکم پر عمل درآمد نہیں چاہتے تھے اور ہر صورت میں اور ہر قیمت پر اس کو رُکوانا چاہتے تھے۔ وہ اس معاملے میں مداخلت کرنے کی کوشش کررہے تھے، تاکہ ان کو بھی اس بات کا پتہ نہ چلے۔
حکومت کی طرف سے اس خبر کوباہر نکلنے سے روکنے کےلیے ذرائع ابلاغ کو بڑے سخت اور دو ٹوک احکام جاری کر دیے گئے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ صحافیوں کو اس حکم پر عمل درآمد ہوجانے کے کئی گھنٹے بعد بھی اس بات کا پتہ نہ چل سکا۔
اس سب کے باوجود بعض ’خوش نصیب‘حضرات اس شرط پر اس موقع پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے کہ وہ جیل کی عمارت سے اس طرح باہر آئیں گے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دیں گے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں یا جیسے ان کو کسی بات کا کچھ پتہ نہیں، اورنہ کسی سے کوئی بات کریں گے۔
ان میں سے کوئی تو اس بات سے ڈر رہا تھا کہ ’جلاد‘ اس کے عزیزواقارب کو نہ بتا دے کہ وہاں کیا ہوا،اور کہیں ایسا نہ ہو کہ حکومت ِ وقت کو،اس خبر کو اِفشا کرنے کا جرم کرنے والا ، مجھ صحافی کے علاوہ کوئی اور نہ ملے اور پھر زندگی بھر اسے اِس کی قیمت ادا کرنا پڑے اور اپنے کیے کی سزا بھگتنا پڑے۔ اس لیے وہ اور اس کے علاوہ ہر صحافی یہ چاہتا تھا کہ وہ اس’جلاد‘ کے ساتھ دوستانہ تعلق بنائے،اس کے قریب تر ہو اور وہ’جلاد‘کی رضا اور خوشنودی کا طالب اور خواہش مند تھا۔اس کے ساتھ ہر ملاقات میں وہ اس کو اس بات کی نصیحت کرتا کہ وہ کسی کو اس کے صحافتی پیشہ کے بارے میں کچھ نہ بتائے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ حکومت اس کو بھی پھانسی پر لٹکا دے۔
ہر وہ بات جس سے کہ ہر صحافی ڈرتا تھا ، با لکل اسی بات سے ’جلاد‘ بھی ڈرتا تھا اور چاہتا تھا کہ وہ صحافی جب بھی اپنے کسی دوست یا عزیز سے ملے گا اور وہ ان کو اس بارے میںکچھ نہیں بتائے گا خواہ وہ اسے کچھ بھی کہتےرہیں۔
حکومت کی خفیہ ایجنسیوں نے خوف و ہراس کی ایسی فضا پیدا کردی تھی کہ ہر کوئی دوسرے شخص کو شک کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ بھائی اپنے بھائی کومشکوک نظروں سے دیکھتا تھا اور دوست اپنے دوست پر بھروسا نہیں کرتا تھا۔
نام: سیّد قطب ابراہیم۔ عمر: ۶۰ سال۔ پیشہ: سابق استاداوربہترین اسلامی اسکالروں میں سے ایک ۔ جرم: حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کا الزام۔
ایسا لگ رہا تھا جیسے گھڑی کی سُوئیاں بڑی سُست رفتار سے چل رہی ہوں۔وہ شخص، جس کی سزائے موت کا حکم تھا، خوف اور وحشت کے اس ماحول میں بھی ،سب سے زیادہ بہادر، دلیر اور شجاع دکھائی دے رہا تھا اور اس کی شخصیت کے رُعب اور دبدبےکی وجہ سے، یوں لگ رہاتھا کہ موت، اس سےدُور بھاگ رہی تھی، جب کہ وہ شخص ،شہادت کی آرزو میں، اور اپنے ربّ سے ملاقات کے شوق میں ،اُسی موت کی تلاش اور جستجو میں اس کے پیچھے پیچھے تھا اوراس کو گلے لگانے کے لیے ہر لمحہ آمادہ اورتیار تھا۔
سزائے موت پر عمل درآمد کی تاریخ میں ایسا پہلی بار___ اور شاید آخری بار ہو رہا تھا،کیونکہ ’جلاد‘ جیسا کہ نظر آرہا تھا، اور اس کے سینے میں بھی ایک دھڑکتا ہوا دل تھا، ایسالگ رہا تھا کہ آج اس کو ’پھانسی‘ دینے کے فن اور ہنر کا کچھ پتہ نہیں اور وہ اس پیشے کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا، حالانکہ یہ کام وہ اس سے پہلے کئی بار کر چکا تھا۔یُوں لگتا تھا کےآج اس کادِل اس کام کے کرنے کو،یعنی سزائے موت کے اس حکم پر عمل کرنے کو،نہیں چاہ رہاتھا۔
ایسا پہلی بار ہو رہا تھا کہ وہ جس شخص کی سزائے موت پر عمل درآمدکرنے والا تھا، اسے یوں لگ رہا تھا کہ وہ اس کو پہلے سے جانتا ہے اوربہت قریب سے جانتا ہے،حالانکہ وہ آج سے پہلے اس سےکبھی نہیں ملا تھا۔البتہ اس نےاپنے قریبی لوگوں سے،اپنے جاننے والوں سے،اور دوستوں سے اس کے بارے میں بہت کچھ سُن رکھا تھاجو اس کی یادوں میں محفوظ تھا۔اس کے لیے اب یہ بڑی مشکل اور نا مناسب بات تھی کے وہ اُس شخص کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرے جو اس کے نزدیک انتہائی قابلِ اِحترام ہے۔اِس سے بھی زیادہ نا ممکن اور حیرت ناک بات یہ تھی کہ ’جلاد‘ اس کے گلے میں پھانسی کا پھندہ ڈالے اور وہ سزائے موت پانے والا شخص اس کو مُسکراتے ہوئے، خندہ پیشانی سے دیکھے۔ حقیقت بھی یہی تھی کہ سید قُطبؒ عین ان لمحات میں بھی ’جلاد‘ کو انھی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
سزائے موت کے حکم، اس کے اسباب اور وجوہ کو پڑھے جانے کے بعد اب ایک اور ’اہم بات‘اور ’کارروائی‘بھی بہت ضروری تھی جو کہ وزارتِ اوقاف نے اپنےایک ’واعظ‘ یعنی ایک سرکاری مولوی صاحب کے ذِمہ لگائی ہوتی ہے کہ سزائے موت سے پہلے وہ ملزم کو ’کلمۂ شہادت‘ پڑھائے،لہٰذا’واعظ‘نے سیّد قطب ؒسے کہا کے وہ کلمۂ شہادت پڑھیں:اشھد ان لا الٰہ اِلَّا اللہ واشہد ان محمد رسول اللہ۔
یہ سن کر،سیّد قطبؒ بڑے خوشگوار انداز میں مسکرائے اور’واعظ‘کے کاندھے پر بڑے شفیقانہ انداز میں تھپکی دےکر فرمانےلگے کہ: تیرا کیا خیال ہے کہ میں اس مقام تک اس ’کلمۂ شہادت‘ کے بجائے کسی اور وجہ سے پہنچاہوں؟اس حکمت اور دانائی کی بات سے،اس انتہائی نازک وقت میں بھی سیّد قطبؒ نے ’کلمۂ شہادت‘ کے اصل پیغام اور تقاضے کو اس ’واعظ‘کے ذریعے دوسرے لوگوں تک پہنچا دیا۔
سیّد قطب ؒکے یہ الفاظ سننا تھے کہ ’واعظ‘ان کی شخصیت کے رُعب اوردبدبے کی وجہ سے سہم سا گیا۔ اس کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔ ندامت اور شرمندگی اس کے چہرے پہ نمایاں تھی اور اس کی زبان لڑکھڑا رہی تھی،لیکن سیّد قطبؒ جیسے عظیم اورشفیق انسان کی محبت اور شفقت بھری نگاہوں نے ’وَاعِظ‘ کواس صورتِ حال میں سہارا دیا۔اس ذمہ داری پر مامور ’واعظ‘ صرف ایک اور روایتی جملہ دُہراتا ہے: ’’کیاآپ کے دل میں کوئی خواہش ہے؟‘‘ یعنی آپ کی کوئی آخری خواہش؟۔
لیکن اس کے جواب میں ،اس عظیم انسان نے اپنی کسی خواہش کا اظہار نہیں کیا،کیونکہ ان لمحات میں سیّد قطب ؒ جیسی شخصیت کے لیے،اپنے خالق حقیقی، مالِک اور رَب سے ملاقات کی تمنا اور خواہش سے زیادہ قیمتی اور بڑی کوئی اورشے کیا ہوسکتی تھی کہ اس کی تمنا اور آرزوکی جائے ؟
اس لیے بھی کہ سیّد قطبؒ ، سورۂ فجر کی آخری چار آیات کی روشنی میں، جلد سے جلد،اپنے ربّ کی اس پکار پر لبیک کہنے کے لیے بے تا ب،آمادہ و تیار تھے کہ ’’اے نفس مطمئنہ، تُو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آ کہ تواس سے راضی ہواور وہ تجھ سے راضی ہو، لہٰذا اب تُومیرے پسندیدہ اور محبوب بندوں میں شامل ہوجا اور میری جنت میں داخل ہو جا‘‘۔اور اس موقع پر وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی اور بات، کوئی اور تمنا یا خواہش ان کے اس نصب العین کے راستے میں رکاوٹ بن جائے، اور اس طرح کی کوئی ’سرکاری‘ قسم کی کارروائی ،ان کے لیے تنگ دِلی کا باعث بن رہی تھی۔کیونکہ ایسی کوئی بات ان کے نزدیک،ان کے عظیم ربّ اور سب بادشاہوں کے بادشاہ سے ملاقات کی راہ میں تاخیر کا سبب بن سکتی تھی۔
سیّد قطب ؒ پھراس جگہ کی طرف آگےبڑھے،جہاں پر ان کی موجود ہ عارضی دُنیوی زندگی کی مہلت ختم ہونے والی تھی اوروہ یہ بات اچھی طرح سےجانتے اور سمجھتے تھے کہ جس کوٹھری میں اب وہ جا رہے ہیں، یہ وہ آخری جگہ ہے ،جس کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور پھر اسی کمرے میں سے ان کی رُوح اُن کےاس مادی جِسم سےنکل کر آسمان کی طرف پرواز کر جائے گی اور اس کے بعد اس کمرے سے صرف ان کا بے جان جسم ہی نکلے گا جس میں دِل کی دھڑکن اور سانس نام کی کوئی چیز نہ ہو گی۔
لیکن سیّد قطب ؒ اپنے مقصد کی لگن میں ،بڑےپختہ عزم اورارادے کے حامل تھےاور مضبوط اعصاب کے مالک تھے۔ان کا نصب العین بڑا اعلی اورارفع تھا۔ سب سے پہلےاگرچہ ان کی نظر اُس رسّہ پر پڑی جو پھانسی گھاٹ کی چھت سے نیچے لٹک رہاتھا،لیکن ان کی نظروں کا اصل ہدف یہ رسہ نہ تھا، بلکہ ’کلمۂ شہادت‘کی دھیمی آواز سےادائیگی نےان کوذہنی طور پرکسی اور ہی جہان میں پہنچا دیا تھا جواِس جہان سے بہت زیادہ مختلف ہے۔
یہ سب اخبارات اس صبح کو اس سے زیادہ کچھ نہ کر سکے کہ قاہرہ میں موجود فرانسیسی سفارت خانے پر ہونے والے صومالی طلبہ کے ایک حملے کے جواب میں مزاحمت کے نتیجے میں وفات پانے والے ایک سپاہی کی موت کی خبر اپنے اخبار کے پہلے صفحے پر نمایاں طور پر شائع کرسکیں۔ یوں لگتا تھا کہ سپاہی عبدالمنعم کی موت کی خبر،مصری اخبارات پڑھنے والوں کے لیے ،اس دور کےاسلام کے داعی کی پھانسی کے ذریعے شہادت کی خبر سے زیادہ اہم اور ضروری تھی___ یا شاید یہ بات تھی کہ صومالی طلبہ کے حملے کے جواب میں عسکری عبدالمنعم کی مزاحمتی جدوجہد ، افضلیت اور مرتبے کے لحاظ سےاس دورکےعظیم اور مشہور مفکرِ اسلام کی،اسلام کے دشمنوں کے خلاف جہاد اور ان کی دینِ حنیف کے لیے دعوت سے زیادہ اہم تھی۔
ذرا غور فرمایئے اس بات پر کہ روزنامہ کہتا ہے کہ ’’ سزائے موت ۲۹؍ اگست کےدن فجر کے وقت دی گئی، جب کہ یہ کام اس دن کی فجر سے چوبیس گھنٹے پہلے ہو چکا تھااور اس سے بھی زیادہ حیران کن اور عجیب بات یہ تھی کہ اس روزنامہ نے سیدقطب ؒ کی سزائے موت کی خبر کے سامنے والے کالم میں ایک فلم امراۃ من النار کی خبر شائع کی اور سیّد قطب ؒ شہید اور ان کے دونوں ساتھیوں کی شہادت کی خبر کے نیچے ایک فلم الاصدقاء الثلاثہ یعنی تین دوست ، کے بارے میں ایک خبر لگادی ۔خبروں کی اس طرح کی ترتیب سے روزنامے کا یہ مقصد ہر گز نہیں تھا کہ قارئین کی توجہ کو سیّدقطب ؒ اور ان کے دو ساتھیوں کی شہادت کی طرف مبذول کیا جائے۔
روزنامہ الاخبارکے آخری صفحہ پر ایک کالم ’فکرۃ‘ کے عنوان سے شائع ہوتا تھا ،اس روز یہ اخباراس کالم کے بغیر شائع ہوا ۔ یہ کالم اب ایک بڑے صحافی علی امین ؒ لکھتے تھے کیونکہ حکومت نے فکرۃ کے کالم نگار،عظیم صحافی، مصطفےٰ امین کی اس دن سے کچھ ہی دن پہلے گرفتاری کا حکم دے دیا تھا۔اس وجہ سے علی امین اس بات پرمجبور ہو گئے کہ اپنے لندن کے سفر سے واپس نہ آسکیں۔
پھانسی گھاٹ کی چھت کے ساتھ مضبوطی سے بندھا ہوا ایک رسہ نیچے لٹک رہا تھا،اس کا نچلا حصہ گردن کے گرد ڈالنے کے لیے دائرے کی شکل میں ایک گولائی لیے ہوئے تھا اور اس کے ساتھ وہ رسی بھی تھی جس کو کھینچ کر ’جلاد‘ ایک زندہ انسان کی زندگی کی مہلت کو ختم کر دیتا ہے۔
lتب جان بچانا ممکن تھا، لیکن ___: سیّد قطب ، اگر صدر جمال عبد الناصر سے رحم کی اپیل کرتے تو ان کے لیے اپنی جان بچانا ممکن تھا۔ سیّد قطبؒ کے لیےاس طرح کی درخواست اَخوان کے بہت سے احباب نے پیش بھی کی، اور بعض حضرات نے تو اس سزا کوقید بامشقت میں تبدیل کرنے کی درخواست بھی کی، لیکن سیدقطب نے اپنی زندگی کی بھیک ،صدر جمال عبدالناصر سے مانگنے سے انکار کر دیا ،کیونکہ ان کے نزدیک زندگی کا معنی اور مفہوم اس سے بہت مختلف تھا، زندگی کا جو مفہوم جمال عبدالناصر کے نزدیک تھا۔ سیّد قطب ؒکے ان دو اخوانی بھائیوں نے بھی رحم کی اپیل کرنے سے انکار کردیا،جن کو سیّد قطب ؒ کی شہادت کے صرف پانچ منٹ بعدپھانسی دے دی گئی۔ یہ دونوں حضرات محمد یوسف ھواشؒ اور عبدالفتاح اسما عیلؒ تھے۔
یہ تینوںحضرات یہ بھی جانتے تھے کہ جس عدالت نے ایک شخص ’الدّجوی‘ کی سربراہی میں سزائے موت کا یہ فیصلہ سنایا ہے، وہ مصری تاریخ کی ظالم ترین اور بد ترین عدالت ہے۔ یہ عدالت محض ٹیلی فون کالوں کے ذریعے اپنے آمرانہ اورظالمانہ فیصلے سناتی تھی اور عام اجلاسوں میں ان کا اعلان کر دیتی تھی۔
اخوان کے یہ تینوں رہنما ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی جانتے تھے کہ ’ظلم ،قیامت کے اندھیرے ہیں‘۔ یہ تینوں رہنما،یہ بھی جانتے تھے کہ مصری قوم ان ظالمانہ فیصلوں کی کبھی بھی تائید اور توثیق نہیں کرےگی۔ بلکہ مصری قوم کو اس بات کا احساس اور شعور بھی اچھی طرح سے ہوتا جارہا تھا کہ جن لوگوں کے مقدمات فوجی عدالت میں چلائے گئے ہیں اور ان کو موت جیسی سزا دی جارہی ہے، وہ بالکل بے گناہ ہیں اور مصری معاشرہ کے نیک اور صالح افراد ہیں۔ خاص طور پہ یہ بات کہ یہ وہ فوجی عدالت ہے جس کاسربراہ ’الدّجوی‘ نام کا ایسا شخص ہے کہ جس کے فیصلے اس کے منہ سے نکلنے سے پہلے ہی لوگوں کی زبانوں پر ہوتے تھے، یعنی عوام کو فیصلوں سے پہلے ہی پتہ ہوتا تھا کہ کیا فیصلہ آنے والاہے؟
مصر کے عوام کو کچھ پتہ نہ چلا کہ کیا ہوا ہے؟،اتنا بڑا حادثہ اورایک خوف ناک سانحہ رُو نما ہوا تھا،مگر کسی کو کچھ خبر نہ تھی۔
’سزائے موت‘ کے بعد ، سیّد قطب شہیدؒ کا کمزور،نحیف وضعیف اوربے جان جسم اسی جگہ پر لٹک رہا تھا،اورمصر کی حاکم سیاسی قیادت یہ سمجھ رہی تھی کہ اس نے ایک اسلامی فکر کو ’سزائے موت‘ دے دی ہے اوراسے مزید پھیلنے سے روک دیا ہے یا انھوں نے ’اخوان‘ کی فکر کا گلا دبا دیا ہے، یا ان کی عقل و فہم اورغور و فکر کی صلاحیت کا گلا گھونٹ دیا ہے، جب کہ اصل بات ،صرف اور صرف یہ تھی کہ انھوں نے صرف ’سیّد قطب ؒ، اور ان کے دو ’اخوانی‘ بھائیوں کے جسموں کو پھانسی دی تھی اور صرف ان کا گلا گھونٹا تھا۔ وہ اخوان کی اسلامی فکر ، اسلامی سوچ اوران کی عقل و فہم اور غوروفکر کرنے کی صلاحیت کو سلب نہیں کر سکتے تھے، اس لیے نہ کرسکے ۔
اِنّ بطش ربک لشدید، یعنی تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے۔
۔۔۔اور پھر ایک آسمانی آفت اور مصیبت ٹوٹ پڑتی ہے۔
اب ’مکافات عمل‘ یعنی اس کا قدرتی اور فطری ردِّ عمل شروع ہوتا ہے،اورایک آسمانی آفت اور ایک مصیبت،مصر اوراہلِ مصر پر ٹوٹ پڑی۔ اس کائنات ارض و سما وات کا خالق، مالک اور حاکم جواپنے تین نیک ، صالح اور بے گناہ بندوں کی ناحق سزا کا منظر دیکھ رہا تھا، اوروہ یہ جانتا تھا کہ میرے یہ بندے ،ظالموں کے سامنے بے بس اور لاچار ہیں اور ظالموں کو تنبیہ کرنے اور خبردار کرنے کے سارےسامان اور طریقے اس کے پاس ہیں۔ لہٰذا اس نے اپنے غضب اور ناراضگی کے کچھ آثار فوری طور پر نازل فرما دیئے۔آسمان والا زمین والوں کے اس ظلم پر کس قدر غضب ناک تھا، اس کے غیظ و غضب کااظہار کس طرح سےہوا؟
سیّد قطبؒ کی شہادت کے اگلے روز ، سوموار کے دن ،تمام عالم عرب میں سیّد قطب شہیدؒ اور ان کے دونوں ’اخوانی‘ ساتھیوں کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔اس موقع پر تیونس کے ایک بڑے سیاسی رہنما نے کہا کہ ’’ اللہ تعالیٰ ، اس عظیم عالمِ دین کے خون کا بدلہ مصر کے اس حاکم سے ضرور لے گا‘‘۔
اور پھر ظالم کی ذلّت، رسوائی اور پسپائی کا دور شروع ہوتا ہے۔ سیّد قطبؒ اور ان دونوں ’اخوانی‘ بھائیوں کی شہادت کو ابھی چند ہفتے نہیں گزرے تھے کہ صدر جمال عبد الناصر بیمار پڑ گیا، اس کو کوئی بہت بڑی بیماری لاحق ہو گئی تھی۔اب مصر پر یکے بعد دیگرے بحرانوں اور مصائب کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ادھر مصر کے سیاسی رہنما اور قائدین مصر کے تخت کو ہلارہے تھے، اور لوگوں کو انقلاب اور تبدیلی پر اُکسا رہے تھے، اور گرتی ہوئی دیواروں کو آخری دھکا دے رہے تھے۔وہ عالمی سامراجی قوتوں کو چیلنج کر رہے تھے اور للکار رہے تھے اور اسرائیل کو سمندر میں غرق کرنے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔صدر ناصر علاج کے لیے بڑی خاموشی سے اور خفیہ طور پرروس کی ایک ریاست جارجیامیں واقع، ایک شہر’ تسخالطبو‘چلا گیا۔
مصر کے ذرائع ابلاغ نے صدر ناصر کی بیماری کی حقیقت اور اصلیت کو چھپا کر رکھااور اس بات کو پھیلانےپر زور دیا گیا کہ صدر ناصر کی صحت روز بروز پہلےسے بہتر ہورہی ہے، تاکہ تنقید کرنے والوں کوطعنہ زنی کرنےکا موقع نہ ملے۔قدرتِ خداوندی نے صدر ناصر کو صرف بیماری کا عذاب اور اذیت دینے پر اکتفا نہ کیا بلکہ ۱۹۶۷ءمیں اس کو ایک اورشدید دھچکا لگا۔اسے اقتدار سے الگ ہونے اور روسیوں کے آگے ہتھیار ڈالنے اور سر تسلیم خم کرنےکا اشارہ ملا۔اُسی روز ’علال الفاسی‘ نے،جو کہ مراکش کے ایک مشہور سیاسی راہنما تھے،اپنے ایک پر جوش اورمشہور خطاب میں کہا کہ ’’اللہ سے اس بات کی ہر گز امید نہیں کہ وہ سیّد قطب کے قاتلوں کی مدد کرے گا‘‘۔
مظلوموں کی آہوں اور دعاؤں نے عرشِ الٰہی کو ہلا کےرکھ دیا۔
--- اے اللہ! ان ظالموں کی جمعیت کو پارہ پارہ کردے،اور پھراللہ نے ان کےاس اتحاد کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔
صدر ناصر اپنی ایک بہت بڑی سیاسی رسوائی سے ا بھی نکل نہیں پائے تھے کہ ان پر ایک نئی مصیبت آن پڑی اور ایک نیا بحران آگیا۔اور یہ بحران ان کے عمر بھر کے ایک گہرے دوست عبد الحکیم عامرکے ساتھ ان کے آپس کے تعلقات خراب ہونے سے پیدا ہوا۔ دونوں طرف سے ایک دوسرے پر غداری کے الزامات لگائے گئے یہاں تک کے ان کا دوست قتل ہو گیا یا اس نے خودکشی کر لی۔اب عبد الناصر ان سب ناگوار حالات کا سامنا کرنے کے لیے تنہا اور اکیلا رہ گیا۔ اس کی تنہائی بھی زیادہ طویل عرصہ تک نہ رہ سکی اور سیّد قطب کی شہادت کے صرف تین سال بعد اس کا انتقال ہو گیا اور تنہائی کے اس عرصے میں اس نے بیماری کے درد،ناکامیوں کی ذلت و رُسوائی ، اپنےایک جگری دوست کی جدائی اور زندگی سے مایوسی کے غم کا سامنا کیا۔اس تمام عرصے میں اس نے ایک دن کے لیے بھی کسی خوشی کا مزہ،کسی خوش بختی اور خوش نصیبی کا ذائقہ نہیں چکھا۔