۲۰۲۵ اگست

فہرست مضامین

سیّد قطبؒ کے آخری لمحات!

محمد رجب مصری | ۲۰۲۵ اگست | تاریخ و سوانح

Responsive image Responsive image

مقام:مصر کے شہر قاہرہ میں، ’بابِ خُلق‘ کے قریب واقع سب سے قدیم جیل۔ اس جیل سےسزائے موت کے قیدیوں کے لیے سزا کے عمل درآمد تک انتظار گاہ کا کام لیا جاتا تھا۔ 

دن: اتوار، تاریخ : ۲۸؍اگست ۱۹۶۶ء، وقت: صبح صادق۔ 

 منظر:مصر کے شہر قاہرہ کی ایک قدیم مشہور جیل کی عمارت کے اوپر لگے ہوئے ایک بہت بڑے پول پر ایک سیاہ پرچم لہرا رہا ہے۔ 

ہر شخص اس بات کو جانتا اور سمجھتا تھا کہ اس کالے جھنڈے کو اِس وقت لہرانےکا صرف اور صرف ایک ہی مطلب ہےاور وہ یہ ہےکہ اس صبح کو،تھوڑی ہی دیر بعد ،کسی شخص کی سزائے موت کے حکم پر عمل درآمد ہونے والا ہے۔مگر شاید کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ اس مرتبہ پھانسی کایہ حکم مصر کی تاریخ کاایک اہم حصہ بن جائے گا، بلکہ وہ اِس دور کے رازوں میں سے ایک اہم ترین راز ہو گا اور اس کے اثرات آنے والے دور کے ہر ماہ و سال پر پڑیں گے۔ 

سزائے موت کےاس حکم پر عمل درآمدکے نتائج اوراثرات کا چونکہ مصر کے امن و امان کی صورتِ حال پر اثرانداز ہونے کا خدشہ تھا، اِس لیے حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ سزائے موت کے اِس فیصلے پر عمل درآمد بڑی رازداری سے کیا جائے،تاکہ مصر کی گلیوں، بازاروںاور سڑکوں پر خاص طور پر اور عالمِ عرب کی شاہراہوں پر عام طور پر،ہر جگہ عوامی جذبات نہ بھڑک اُٹھیں۔ اس لیے بھی کہ اس کی خبر ملکی اور بین الاقوامی خبررساں ایجنسیوں اور اداروں تک نہ پہنچنے پائے،جو ہر وقت اس طرح کی خبروں کی تلاش اور ٹوہ میں لگی رہتی ہیں، اور ان خبروں کو تفصیل کے ساتھ دوسرے اداروں تک منتقل کرتی رہتی ہیں۔ 

اس کے علاوہ ایک اور اہم وجہ یہ بھی تھی کہ حکومت میں موجود بعض بااثر اوربااختیار لوگ ایسے بھی تھے،جو پھانسی کے حکم پر عمل درآمد نہیں چاہتے تھے اور ہر صورت میں اور ہر قیمت پر اس کو رُکوانا چاہتے تھے۔ وہ اس معاملے میں مداخلت کرنے کی کوشش کررہے تھے، تاکہ ان کو بھی اس بات کا پتہ نہ چلے۔ 

حکومت کی طرف سے اس خبر کوباہر نکلنے سے روکنے کےلیے ذرائع ابلاغ کو بڑے سخت اور دو ٹوک احکام جاری کر دیے گئے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ صحافیوں کو اس حکم پر عمل درآمد ہوجانے کے کئی گھنٹے بعد بھی اس بات کا پتہ نہ چل سکا۔ 

اس سب کے باوجود بعض ’خوش نصیب‘حضرات اس شرط پر اس موقع پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے کہ وہ جیل کی عمارت سے اس طرح باہر آئیں گے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دیں گے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں یا جیسے ان کو کسی بات کا کچھ پتہ نہیں، اورنہ کسی سے کوئی بات کریں گے۔ 

ان میں سے کوئی تو اس بات سے ڈر رہا تھا کہ ’جلاد‘ اس کے عزیزواقارب کو نہ بتا دے کہ وہاں کیا ہوا،اور کہیں ایسا نہ ہو کہ حکومت ِ وقت کو،اس خبر کو اِفشا کرنے کا جرم کرنے والا ، مجھ صحافی کے علاوہ کوئی اور نہ ملے اور پھر زندگی بھر اسے اِس کی قیمت ادا کرنا پڑے اور اپنے کیے کی سزا بھگتنا پڑے۔ اس لیے وہ اور اس کے علاوہ ہر صحافی یہ چاہتا تھا کہ وہ اس’جلاد‘ کے ساتھ دوستانہ تعلق بنائے،اس کے قریب تر ہو اور وہ’جلاد‘کی رضا اور خوشنودی کا طالب اور خواہش مند تھا۔اس کے ساتھ ہر ملاقات میں وہ اس کو اس بات کی نصیحت کرتا کہ وہ کسی کو اس کے صحافتی پیشہ کے بارے میں کچھ نہ بتائے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ حکومت اس کو بھی پھانسی پر لٹکا دے۔ 

 ہر وہ بات جس سے کہ ہر صحافی ڈرتا تھا ، با لکل اسی بات سے ’جلاد‘ بھی ڈرتا تھا اور چاہتا تھا کہ وہ صحافی جب بھی اپنے کسی دوست یا عزیز سے ملے گا اور وہ ان کو اس بارے میںکچھ نہیں بتائے گا خواہ وہ اسے کچھ بھی کہتےرہیں۔ 

 حکومت کی خفیہ ایجنسیوں نے خوف و ہراس کی ایسی فضا پیدا کردی تھی کہ ہر کوئی دوسرے شخص کو شک کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ بھائی اپنے بھائی کومشکوک نظروں سے دیکھتا تھا اور دوست اپنے دوست پر بھروسا نہیں کرتا تھا۔  

  • آخری لمحات: اب پھانسی کی کوٹھری کے سامنے با لکل آخری لمحات تھے،اور پھر ’ملزم‘ کا نام پکارا گیا:  

نام: سیّد قطب ابراہیم۔ عمر: ۶۰ سال۔ پیشہ: سابق استاداوربہترین اسلامی اسکالروں میں سے ایک ۔ جرم: حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کا الزام۔ 

ایسا لگ رہا تھا جیسے گھڑی کی سُوئیاں بڑی سُست رفتار سے چل رہی ہوں۔وہ شخص، جس کی سزائے موت کا حکم تھا، خوف اور وحشت کے اس ماحول میں بھی ،سب سے زیادہ بہادر، دلیر اور شجاع دکھائی دے رہا تھا اور اس کی شخصیت کے رُعب اور دبدبےکی وجہ سے، یوں لگ رہاتھا کہ موت، اس سےدُور بھاگ رہی تھی، جب کہ وہ شخص ،شہادت کی آرزو میں، اور اپنے ربّ سے ملاقات کے شوق میں ،اُسی موت کی تلاش اور جستجو میں اس کے پیچھے پیچھے تھا اوراس کو گلے لگانے کے لیے ہر لمحہ آمادہ اورتیار تھا۔ 

سزائے موت پر عمل درآمد کی تاریخ میں ایسا پہلی بار___ اور شاید آخری بار ہو رہا تھا،کیونکہ ’جلاد‘ جیسا کہ نظر آرہا تھا، اور اس کے سینے میں بھی ایک دھڑکتا ہوا دل تھا، ایسالگ رہا تھا کہ آج اس کو ’پھانسی‘ دینے کے فن اور ہنر کا کچھ پتہ نہیں اور وہ اس پیشے کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا، حالانکہ یہ کام وہ اس سے پہلے کئی بار کر چکا تھا۔یُوں لگتا تھا کےآج اس کادِل اس کام کے کرنے کو،یعنی سزائے موت کے اس حکم پر عمل کرنے کو،نہیں چاہ رہاتھا۔ 

ایسا پہلی بار ہو رہا تھا کہ وہ جس شخص کی سزائے موت پر عمل درآمدکرنے والا تھا، اسے یوں لگ رہا تھا کہ وہ اس کو پہلے سے جانتا ہے اوربہت قریب سے جانتا ہے،حالانکہ وہ آج سے پہلے اس سےکبھی نہیں ملا تھا۔البتہ اس نےاپنے قریبی لوگوں سے،اپنے جاننے والوں سے،اور دوستوں سے اس کے بارے میں بہت کچھ سُن رکھا تھاجو اس کی یادوں میں محفوظ تھا۔اس کے لیے اب یہ بڑی مشکل اور نا مناسب بات تھی کے وہ اُس شخص کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرے جو اس کے نزدیک انتہائی قابلِ اِحترام ہے۔اِس سے بھی زیادہ نا ممکن اور حیرت ناک بات یہ تھی کہ ’جلاد‘ اس کے گلے میں پھانسی کا پھندہ ڈالے اور وہ سزائے موت پانے والا شخص اس کو مُسکراتے ہوئے، خندہ پیشانی سے دیکھے۔ حقیقت بھی یہی تھی کہ سید قُطبؒ عین ان لمحات میں بھی ’جلاد‘ کو انھی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ 

سزائے موت کے حکم، اس کے اسباب اور وجوہ کو پڑھے جانے کے بعد اب ایک اور ’اہم بات‘اور ’کارروائی‘بھی بہت ضروری تھی جو کہ وزارتِ اوقاف نے اپنےایک ’واعظ‘ یعنی ایک سرکاری مولوی صاحب کے ذِمہ لگائی ہوتی ہے کہ سزائے موت سے پہلے وہ ملزم کو ’کلمۂ شہادت‘ پڑھائے،لہٰذا’واعظ‘نے سیّد قطب ؒسے کہا کے وہ کلمۂ شہادت پڑھیں:اشھد ان لا الٰہ اِلَّا اللہ واشہد ان محمد رسول اللہ۔ 

یہ سن کر،سیّد قطبؒ بڑے خوشگوار انداز میں مسکرائے اور’واعظ‘کے کاندھے پر بڑے شفیقانہ انداز میں تھپکی دےکر فرمانےلگے کہ: تیرا کیا خیال ہے کہ میں اس مقام تک اس ’کلمۂ شہادت‘ کے بجائے کسی اور وجہ سے پہنچاہوں؟اس حکمت اور دانائی کی بات سے،اس انتہائی نازک وقت میں بھی سیّد قطبؒ نے ’کلمۂ شہادت‘ کے اصل پیغام اور تقاضے کو اس ’واعظ‘کے ذریعے دوسرے لوگوں تک پہنچا دیا۔ 

 سیّد قطب ؒکے یہ الفاظ سننا تھے کہ ’واعظ‘ان کی شخصیت کے رُعب اوردبدبے کی وجہ سے سہم سا گیا۔ اس کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔ ندامت اور شرمندگی اس کے چہرے پہ نمایاں تھی اور اس کی زبان لڑکھڑا رہی تھی،لیکن سیّد قطبؒ جیسے عظیم اورشفیق انسان کی محبت اور شفقت بھری نگاہوں نے ’وَاعِظ‘ کواس صورتِ حال میں سہارا دیا۔اس ذمہ داری پر مامور ’واعظ‘ صرف ایک اور روایتی جملہ دُہراتا ہے: ’’کیاآپ کے دل میں کوئی خواہش ہے؟‘‘ یعنی آپ کی کوئی آخری خواہش؟۔  

لیکن اس کے جواب میں ،اس عظیم انسان نے اپنی کسی خواہش کا اظہار نہیں کیا،کیونکہ ان لمحات میں سیّد قطب ؒ جیسی شخصیت کے لیے،اپنے خالق حقیقی، مالِک اور رَب سے ملاقات کی تمنا اور خواہش سے زیادہ قیمتی اور بڑی کوئی اورشے کیا ہوسکتی تھی کہ اس کی تمنا اور آرزوکی جائے ؟ 

اس لیے بھی کہ سیّد قطبؒ ، سورۂ فجر کی آخری چار آیات کی روشنی میں، جلد سے جلد،اپنے ربّ کی اس پکار پر لبیک کہنے کے لیے بے تا ب،آمادہ و تیار تھے کہ ’’اے نفس مطمئنہ، تُو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آ کہ تواس سے راضی ہواور وہ تجھ سے راضی ہو، لہٰذا اب تُومیرے پسندیدہ اور محبوب بندوں میں شامل ہوجا اور میری جنت میں داخل ہو جا‘‘۔اور اس موقع پر وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی اور بات، کوئی اور تمنا یا خواہش ان کے اس نصب العین کے راستے میں رکاوٹ بن جائے، اور اس طرح کی کوئی ’سرکاری‘ قسم کی کارروائی ،ان کے لیے تنگ دِلی کا باعث بن رہی تھی۔کیونکہ ایسی کوئی بات ان کے نزدیک،ان کے عظیم ربّ اور سب بادشاہوں کے بادشاہ سے ملاقات کی راہ میں تاخیر کا سبب بن سکتی تھی۔ 

سیّد قطب ؒ پھراس جگہ کی طرف آگےبڑھے،جہاں پر ان کی موجود ہ عارضی دُنیوی زندگی کی مہلت ختم ہونے والی تھی اوروہ یہ بات اچھی طرح سےجانتے اور سمجھتے تھے کہ جس کوٹھری میں اب وہ جا رہے ہیں، یہ وہ آخری جگہ ہے ،جس کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور پھر اسی کمرے میں سے ان کی رُوح اُن کےاس مادی جِسم سےنکل کر آسمان کی طرف پرواز کر جائے گی اور اس کے بعد اس کمرے سے صرف ان کا بے جان جسم ہی نکلے گا جس میں دِل کی دھڑکن اور سانس نام کی کوئی چیز نہ ہو گی۔ 

لیکن سیّد قطب ؒ اپنے مقصد کی لگن میں ،بڑےپختہ عزم اورارادے کے حامل تھےاور مضبوط اعصاب کے مالک تھے۔ان کا نصب العین بڑا اعلی اورارفع تھا۔ سب سے پہلےاگرچہ ان کی نظر اُس رسّہ پر پڑی جو پھانسی گھاٹ کی چھت سے نیچے لٹک رہاتھا،لیکن ان کی نظروں کا اصل ہدف یہ رسہ نہ تھا، بلکہ ’کلمۂ شہادت‘کی دھیمی آواز سےادائیگی نےان کوذہنی طور پرکسی اور ہی جہان میں پہنچا دیا تھا جواِس جہان سے بہت زیادہ مختلف ہے۔ 

  • مصری قوم کی بـے خبری:مصر اور اہلِ مصر کو کسی بات کی کچھ خبر نہ تھی۔ اس صبح (۲۹؍ اگست۱۹۶۶ء) کو چھپنے والے اخبارات بین الاقوامی تیراکی کے مقابلوں کی خبروں اور اس دور کی سیاسی قیادت ، یعنی صدر جمال عبد الناصر کی ملاقاتوں اور میٹنگوں کی خبروں سے بھرے پڑے تھے۔ سب سے بڑی عجیب بات ایک خبر تھی جس کو مصر کے تمام روزناموں اور مجلوں نے اس صبح کو شائع کیا تھا، جب کہ اس خبر کا مصر کی صحافت کی حقیقی تاریخ اور ریکارڈ سے قریب تو کیا دُور کا بھی کوئی تعلق اور واسطہ نہیں تھا، جب کہ اس کے مقابلے میں سیّد قطبؒ کی شہادت کی خبر ہر لحاظ سے اپنی تاریخی حیثیت اور اہمیت رکھتی تھی۔اس سب کے باوجود مصر کے اخبارات اور روزنامے اس خبر سے بے خبر تھے۔ 

یہ سب اخبارات اس صبح کو اس سے زیادہ کچھ نہ کر سکے کہ قاہرہ میں موجود فرانسیسی سفارت خانے پر ہونے والے صومالی طلبہ کے ایک حملے کے جواب میں مزاحمت کے نتیجے میں وفات پانے والے ایک سپاہی کی موت کی خبر اپنے اخبار کے پہلے صفحے پر نمایاں طور پر شائع کرسکیں۔ یوں لگتا تھا کہ سپاہی عبدالمنعم کی موت کی خبر،مصری اخبارات پڑھنے والوں کے لیے ،اس دور کےاسلام کے داعی کی پھانسی کے ذریعے شہادت کی خبر سے زیادہ اہم اور ضروری تھی___ یا شاید یہ بات تھی کہ صومالی طلبہ کے حملے کے جواب میں عسکری عبدالمنعم کی مزاحمتی جدوجہد ، افضلیت اور مرتبے کے لحاظ سےاس دورکےعظیم اور مشہور مفکرِ اسلام کی،اسلام کے دشمنوں کے خلاف جہاد اور ان کی دینِ حنیف کے لیے دعوت سے زیادہ اہم تھی۔ 

  • اور سیّد قطبؒ کی شہادت کی خبر…! : ۲۹؍اگست ، ۱۹۶۶ء کی صبح کو چھپنے والے روزنامہ الاخبار کی بڑی بڑی خبریں اسی طرح سے شائع ہوئی تھیں ،جب کہ سیّد قطبؒ کی شہادت کی خبر چھٹے صفحے کے انتہائی بائیں جانب ، ایک کالمی خبر بالکل غیر نمایاں جگہ پر لگائی گئی ،اور صرف چار سطروں میں۔خبر کا عنوان اس طرح سے باندھا گیا کہ :’’سزائے موت کے حکم پر عمل درآمد ہوگیا‘‘ اور پھرخبر کی بڑے مبہم انداز میں تفصیل کے لیے صرف تین سطروں پر اکتفا کیاگیا، اور بقایا خبر اس طریقے سے لگائی گئی : ’’آج صبح فجر کے وقت، سیدقطب ،محمد یوسف ھواش اور عبدالفتاح اسماعیل، تینوں افراد کی سزائے موت کے حکم پر عمل درآمد ہو گیا‘‘۔ 

ذرا غور فرمایئے اس بات پر کہ روزنامہ کہتا ہے کہ ’’ سزائے موت ۲۹؍ اگست کےدن فجر کے وقت دی گئی، جب کہ یہ کام اس دن کی فجر سے چوبیس گھنٹے پہلے ہو چکا تھااور اس سے بھی زیادہ حیران کن اور عجیب بات یہ تھی کہ اس روزنامہ نے سیدقطب ؒ کی سزائے موت کی خبر کے سامنے والے کالم میں ایک فلم امراۃ من النار کی خبر شائع کی اور سیّد قطب ؒ شہید اور ان کے دونوں ساتھیوں کی شہادت کی خبر کے نیچے ایک فلم الاصدقاء الثلاثہ یعنی تین دوست ، کے بارے میں ایک خبر لگادی ۔خبروں کی اس طرح کی ترتیب سے روزنامے کا یہ مقصد ہر گز نہیں تھا کہ قارئین کی توجہ کو سیّدقطب ؒ اور ان کے دو ساتھیوں کی شہادت کی طرف مبذول کیا جائے۔ 

 روزنامہ الاخبارکے آخری صفحہ پر ایک کالم ’فکرۃ‘ کے عنوان سے شائع ہوتا تھا ،اس روز یہ اخباراس کالم کے بغیر شائع ہوا ۔ یہ کالم اب ایک بڑے صحافی علی امین ؒ لکھتے تھے کیونکہ حکومت نے فکرۃ کے کالم نگار،عظیم صحافی، مصطفےٰ امین کی اس دن سے کچھ ہی دن پہلے گرفتاری کا حکم دے دیا تھا۔اس وجہ سے علی امین اس بات پرمجبور ہو گئے کہ اپنے لندن کے سفر سے واپس نہ آسکیں۔ 

  • مصری صحافت کی حالتِ زار: یہ حال صرف ایک روزنامہ الاخبار  کا نہیں تھا،بلکہ دوسرے اخبارات بہت زیادہ برے حالات میں تھے، جب کہ روزنامہ الاخبار ان کے مقابلے میں کہیں بہتر حال میں تھا۔ ذرائع ابلاغ کی بے خبری کی یہ حالت یونہی نہ تھی۔اصل بات یہ تھی کہ سیاسی قیادت نے اس بات کا فیصلہ کررکھا تھا کہ ذرائع ابلاغ کو بات کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ 
  • مصری قوم بـے خبر رہی : لوگ اپنی معمول کی زندگی گزار رہے تھے۔مصر کے لوگوں میں آپس میں بات کرتے ہوئے،احتیاط کا پہلو بہت غالب تھا، خوف وہراس کی فضا تھی، کوئی بھی سیاست کے کسی موضوع پر ڈرتا ،بات نہ کرتا تھا۔ بھائی کو بھائی پر بھروسا نہ تھا۔ دوست اپنے دوست کو شک کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔اس وقت مصر کی کسی شاہراہ پر، اور کسی گلی میں دو افراد کے درمیان کوئی بات کرنا ایک سیاسی مذاق تھا۔ یہ سیاسی مذاق اس وقت کے صدر جمہوریہ مصر کے سیاسی نکتوں میں سے ایک اہم نکتہ تھا۔ اور اس کے انتہائی قابلِ اعتماد لوگوں کا بھی پسندیدہ یہی ایک نکتہ تھا، جو صدر جمال ناصر کوذاتی طور پر بہت اچھا لگتا تھا۔ وہ یہ تھا کہ’’ ساری مصری قوم ،یہ نعرہ لگاتے ہوئے صبح کرتی ہے کہ ’’اے بھائی،تو جب تک چاہے، اپنی آواز کو اونچا رکھ،اپنی صدا کو بلند کر، لیکن یہ کام تجھےبڑی رازداری سے کرنا ہے___  ( کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ حکومت کو پتہ چل جائے)___  اگر مصری قوم کو اس دن یہ پتا چل جاتا کہ سیّد قطبؒ کی سزائے موت کے حکم پرعمل درآمد ہو چکا ہے،تو وہ اپنے پورے جوش و جذبہ کے ساتھ صحافیوں کے ان مضامین اور مقالوں سے زیادہ ،اپنے شدیدغم و غصے کا اظہارکرتی۔ 
  • اخلاص کے پیکر: سیّد قطبؒ ہرگز نہیں چاہتے تھے کی ان کی ’سزائے موت‘ کی کسی کو خبر ہو۔اُن کا اِس بات پر پختہ ایمان تھا کہ ان کی زندگی اور موت صرف اُس ایک مالک کے ہاتھ اور قبضۂ قُدرت میں ہے جو ساری دُنیا کے حالات اور واقعات کو بڑی باریک بینی سے دیکھ رہا ہے۔ سیّد قطبؒ کی صرف اور صرف ایک تمنّا تھی اور وہ یہ تھی کہ وہ جلد سے جلد ،اپنے عظمتوں والے ربّ سے ملاقات کریں___ اور ان کا اس بات پر پختہ اور راسخ ایمان تھا کہ وہ بڑی بلند اور عظمت والی ملاقات ہے،اس لیے کہ یہ ملاقات ’عظیم‘ صرف اسی صورت میں بن سکتی کہ اللہ کی زمین سے آنے والے مہمان کاحشر ،انبیا ورُسُل، صدیقین،شہداء اور صالحین کے ساتھ ہو۔(النساء۴:۶۹) 
  • اور پھر وہ لمحہ قریب آگیا …! : اور پھر___ سزائے موت کا لمحہ قریب آگیا، سب تیاریاں مکمل تھیں اور ہر چیز تیار تھی۔ایک وحشت ناک خاموشی پھانسی گھاٹ کی کوٹھری پہ چھائی ہوئی تھی اور لمحہ بہ لمحہ اس وحشت اور سناٹے میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔یہ کوٹھری اپنی زبانِ حال سے یہ کہہ رہی تھی کہ رعب اور ہیبت کے لحاظ سے کوئی تاریخی لمحہ آنے والا ہے۔ 

 پھانسی گھاٹ کی چھت کے ساتھ مضبوطی سے بندھا ہوا ایک رسہ نیچے لٹک رہا تھا،اس کا نچلا حصہ گردن کے گرد ڈالنے کے لیے دائرے کی شکل میں ایک گولائی لیے ہوئے تھا اور اس کے ساتھ وہ رسی بھی تھی جس کو کھینچ کر ’جلاد‘ ایک زندہ انسان کی زندگی کی مہلت کو ختم کر دیتا ہے۔ 

  •  صبر و استقامت کا پہاڑ: سیّد قطبؒ، اپنا سر بلند کیے، عزم اور ہمت کی ایک چٹان کی طرح، پورے اعتماد کے ساتھ، گردن اونچی کیےاس کمرے میں داخل ہوئے۔اس وقت وہ جلاد کےہر حکم اور اس کی ہرہدایت پر عمل کرنے کے لیے بالکل آمادہ اور تیار تھے۔وہ اُس ٹوپی نُما ’نقاب‘کو اپنے چہرے پر ڈالنے کے لیے آگے بڑھے جو پھانسی دیئے جانے والے شخص کے چہرے کو ،اس کی جان کےنکل جانے تک ڈھانپ کر اورچھپا کررکھتا ہے۔سزائے موت کی کاروائی کی نگرانی کرنے والے لوگوں کا یہی خیال ہے۔ اس لیے انھوں نے تختۂ دار کو بنانے میں اس بات کا خیال رکھا تھا۔         
  • آخری لمحات ___ آخری کلمات: سیّد قطبؒ شہید نے اس ٹوپی کو پہننے سے پہلے سر گوشی کے انداز میں دُعائیہ کلمات سے ملتے جلتے کچھ الفاظ ادا کیے۔قریب تھا کہ ’جلاد‘ سیّد قطب شہیدؒ کی زبان سے یکے بعد دیگرے نکلنے والے ان الفاظ کی ہیبت سے ڈر جاتا،حالانکہ وہ اس طرح کے الفاظ اس سے پہلےبھی کئی مرتبہ سن چکا تھا لیکن اسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ یہ الفاظ پہلی بار سن رہا ہے  اور اس بار اس کا معنٰی اور مفہوم بھی پہلے سے بہت مختلف ہے۔ایک بہت بڑے صحافی نے اس بارے میں ’جلاد‘سے بڑا زور دے کر پوچھا کہ وہ کیاالفاظ تھے جو سیّد قطبؒ شہید نے اپنی زندگی کے ان آخری لمحوں میں کہے تھے؟ اس صحافی نے اس پر خوامخواہ یہ بھی زور دیا کہ وہ یہاں سےواپس نہیں جائے گا ،جب تک وہ یہ معلوم نہ کر لے کہ سیّد قطبؒ شہید نے پھانسی کی رسی اپنے گلے میں ڈالنے کے بعدآخری الفاظ کیا کہے تھے؟___ اور بڑی تگ ودو کے بعد اس بڑے صحافی نے وہ سات آخری الفاظ معلوم کیے جواسلام کے اس عظیم داعی نے آخری وقت میں کہے، اوروہ الفاظ یہ تھےکہ اللہم اجعل دمی لعنۃ فی عنق عبدالناصر۔ جس کا مطلب یہ تھاکہ: ’’اے اللہ!میرے اس خون کو صدر جمال عبدالناصر کے لیے ہلاکت بنا دے‘‘، لیکن وہ بڑا صحافی اگرچہ سیدقطب شہیدؒ کے ان الفاظ کو اب تک ہمیشہ بار بار دُہراتا رہا ،لیکن صحافت پر پابندیوں کے اس سیاہ دور میں ،وہ ان لفظوں میں سے ایک لفظ بھی اپنے اخبار میں چھاپ نہ سکا۔وہ بڑا صحافی ،سزائے موت کے حکم پر عمل درآمد کےدو گھنٹے بعد اپنے ایک دوست، ایک معروف صحافی کے ساتھ ایک ملاقات کرتا ہے اور یہ ملاقات ایک صحافتی کلب میں ہوئی۔جب اس بڑے صحافی نے اپنے دوست صحافی کو سیّدقطب شہیدؒ کی طاقت ور اور رُعب دارشخصیت،اور ایمانی عظمت اور وقارکے بارے میں بتایا کہ جب ان کو تختۂ دار پر لٹکا یا جا رہا تھا تو ان کے صبرو استقامت اور ایمان کی کیفیت مثالی تھی، تو ان کے دوست صحافی نے کہا کہ ’’ سیّد قطب ؒ جیسی شخصیت کے بارے میں یہی توقع کی جا سکتی ہے‘‘۔ جب اس بڑے صحافی نے ان آخری الفاظ کےبارے میں بتایا جو انھوں نے کلمۂ شہادت کی زبان سے ادائیگی سے پہلے کہےتھے:سترک یارب …… اللہم الطف بعبادک ،’’اے اللہ، حفاظت صرف تیری طرف سے ہے،تُو اپنے بندوں پر رحم فرما‘‘۔ 

lتب جان بچانا ممکن تھا، لیکن ___: سیّد قطب ، اگر صدر جمال عبد الناصر سے رحم کی اپیل کرتے تو ان کے لیے اپنی جان بچانا ممکن تھا۔ سیّد قطبؒ کے لیےاس طرح کی درخواست اَخوان کے بہت سے احباب نے پیش بھی کی، اور بعض حضرات نے تو اس سزا کوقید بامشقت میں تبدیل کرنے کی درخواست بھی کی، لیکن سیدقطب نے اپنی زندگی کی بھیک ،صدر جمال عبدالناصر سے مانگنے سے انکار کر دیا ،کیونکہ ان کے نزدیک زندگی کا معنی اور مفہوم اس سے بہت مختلف تھا، زندگی کا جو مفہوم جمال عبدالناصر کے نزدیک تھا۔ سیّد قطب ؒکے ان دو اخوانی بھائیوں نے بھی رحم کی اپیل کرنے سے انکار کردیا،جن کو سیّد قطب ؒ کی شہادت کے صرف پانچ منٹ بعدپھانسی دے دی گئی۔ یہ دونوں حضرات محمد یوسف ھواشؒ اور عبدالفتاح اسما عیلؒ تھے۔ 

  • مصری تاریخ کی ظالم اور بدترین عدالت: سیّد قطب ؒ سمیت ،ان تینوں حضرات نے اس بات سے انکار کردیا کہ وہ اپنی اس دنیا کی زندگی کو بچانےکی خاطر ظالموں کے آگے ذلیل اور شرمندہ ہوں، جس دنیا کی حیثیت اس کے خالِق اور مالک، اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے نزدیک ایک مچھر کے پَر کے برابر بھی نہیں ہے۔ 

 یہ تینوںحضرات یہ بھی جانتے تھے کہ جس عدالت نے ایک شخص ’الدّجوی‘ کی سربراہی میں سزائے موت کا یہ فیصلہ سنایا ہے، وہ مصری تاریخ کی ظالم ترین اور بد ترین عدالت ہے۔ یہ عدالت محض ٹیلی فون کالوں کے ذریعے اپنے آمرانہ اورظالمانہ فیصلے سناتی تھی اور عام اجلاسوں میں ان کا اعلان کر دیتی تھی۔ 

  اخوان کے یہ تینوں رہنما ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی جانتے تھے کہ ’ظلم ،قیامت کے اندھیرے ہیں‘۔ یہ تینوں رہنما،یہ بھی جانتے تھے کہ مصری قوم ان ظالمانہ فیصلوں کی کبھی بھی تائید اور توثیق نہیں کرےگی۔ بلکہ مصری قوم کو اس بات کا احساس اور شعور بھی اچھی طرح سے ہوتا جارہا تھا کہ جن لوگوں کے مقدمات فوجی عدالت میں چلائے گئے ہیں اور ان کو موت جیسی سزا دی جارہی ہے، وہ بالکل بے گناہ ہیں اور مصری معاشرہ کے نیک اور صالح افراد ہیں۔ خاص طور پہ یہ بات کہ یہ وہ فوجی عدالت ہے جس کاسربراہ ’الدّجوی‘ نام کا ایسا شخص ہے کہ جس کے فیصلے اس کے منہ سے نکلنے سے پہلے ہی لوگوں کی زبانوں پر ہوتے تھے، یعنی عوام کو فیصلوں سے پہلے ہی پتہ ہوتا تھا کہ کیا فیصلہ آنے والاہے؟ 

  مصر کے عوام کو کچھ پتہ نہ چلا کہ کیا ہوا ہے؟،اتنا بڑا حادثہ اورایک خوف ناک سانحہ رُو نما ہوا تھا،مگر کسی کو کچھ خبر نہ تھی۔ 

 ’سزائے موت‘ کے بعد ، سیّد قطب شہیدؒ کا کمزور،نحیف وضعیف اوربے جان جسم اسی جگہ پر لٹک رہا تھا،اورمصر کی حاکم سیاسی قیادت یہ سمجھ رہی تھی کہ اس نے ایک اسلامی فکر کو ’سزائے موت‘ دے دی ہے اوراسے مزید پھیلنے سے روک دیا ہے یا انھوں نے ’اخوان‘ کی فکر کا گلا دبا دیا ہے، یا ان کی عقل و فہم اورغور و فکر کی صلاحیت کا گلا گھونٹ دیا ہے، جب کہ اصل بات ،صرف اور صرف یہ تھی کہ انھوں نے صرف ’سیّد قطب ؒ، اور ان کے دو ’اخوانی‘ بھائیوں کے جسموں کو پھانسی دی تھی اور صرف ان کا گلا گھونٹا تھا۔ وہ اخوان کی اسلامی فکر ، اسلامی سوچ اوران کی عقل و فہم اور غوروفکر کرنے کی صلاحیت کو سلب نہیں کر سکتے تھے، اس لیے نہ کرسکے ۔ 

  • ان الباطل کان زھوقا : ایک آمرِ مطلق ،ظالم اورجابر حاکم ، جب چاہے اور جہاں چاہے ،انسانوں کے جسموں کواذِیّت تودے سکتا ہےاور تکلیف پہنچاسکتا ہے، لیکن وہ ایک ’فکر‘ اور ’نظریہ‘ کا مقابلہ کرنے اور اس کا راستہ روکنے کی طاقت اور صلاحیت نہیں رکھتا۔ فکر اور نظریہ، ایک ڈکٹیٹر حاکم کے مقابلے میں طاقت ور اور مضبوط ہوتا ہےاور ہمیشہ غالب اور کامیاب رہتا ہے، جب کہ حکمران ہمیشہ زوال کا شکار ہوتے ہیں اور ایک ’صحیح فکر‘ اور ایک ’صحیح عقیدہ‘ وقت اور زمانے کے بدلنے کے ساتھ بھی، ترقی کرتا رہتا ہے اورزندہ و جاوداں رہتا ہے۔ 

اِنّ بطش ربک لشدید، یعنی تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے۔ 
۔۔۔اور پھر ایک آسمانی آفت اور مصیبت ٹوٹ پڑتی ہے۔ 

 اب ’مکافات عمل‘ یعنی اس کا قدرتی اور فطری ردِّ عمل شروع ہوتا ہے،اورایک آسمانی آفت اور ایک مصیبت،مصر اوراہلِ مصر پر ٹوٹ پڑی۔ اس کائنات ارض و سما وات کا خالق، مالک اور حاکم جواپنے تین نیک ، صالح اور بے گناہ بندوں کی ناحق سزا کا منظر دیکھ رہا تھا، اوروہ یہ جانتا تھا کہ میرے یہ بندے ،ظالموں کے سامنے بے بس اور لاچار ہیں اور ظالموں کو تنبیہ کرنے اور خبردار کرنے کے سارےسامان اور طریقے اس کے پاس ہیں۔ لہٰذا اس نے اپنے غضب اور ناراضگی کے کچھ آثار فوری طور پر نازل فرما دیئے۔آسمان والا زمین والوں کے اس ظلم پر کس قدر غضب ناک تھا، اس کے غیظ و غضب کااظہار کس طرح سےہوا؟ 

  • اور پھر مصر پر آفت ٹوٹ پڑتی ہـے:  ہوا یوں کہ،اِن تینوں شہداء کی ’سزائے موت‘کے حکم پہ عمل درآمد پرابھی چند گھڑیاں بھی نہ گزری تھیں کہ آسمان والے کی طرف سے اس کا رد عمل ظاہر ہونا شروع ہوا۔ آسمان پھٹ پڑا، شدید بارشیں برسنے لگیں،اور انتہائی گرم موسم میں بھی ژالہ باری ہونے لگی۔ حالانکہ موسم اور فضا ایسی تھی کی اگست کے مہینے کی پہلی تاریخ سے لے کر سیّد قطب ؒ کی شہادت تک مصر ایک جہنم کا منظر پیش کر رہا تھا۔ آسمان سے بھی آگ برس رہی تھی اور زمین بھی اپنی بھڑاس نکال رہی تھی اور اپنے اندر سےجیسے آگ اُگل رہی تھی۔ لوگوں کے چہرے اپنےپسینےمیں شرابور اور ڈوبے ہوئے تھے، جسموں میں گویا آگ بھڑک رہی تھی۔ اچانک برف کے ٹکڑے آسمان سے برسنے لگے۔ یوں لگتا تھا کہ برف کے ان ٹکڑوں کے ذریعے انھیں ’رجم‘اور’سنگسار‘ کیا جا رہاہے، اور سیّد قطب شہیدؒ سے محبت،ان کی ثقاہت،اور ان کی بے گناہی کی وجہ سے ان کی حمایت اور ان کے دفاع میں ،اہل مصر پرپتھروں کی بجائے برف کے ٹکڑوں کی بارش کی جا رہی ہے۔ وہ بڑے صحافی اپنے اندر بہت زیادہ گھبراہٹ محسوس کررہے تھے۔سات لفظوں کی وہ دعا جو سید شہید ؒ نے اپنی شہادت سے چند لمحے پہلے کی تھی کہ: اللہم اجعل دمی لعنتہ علی عنق عبد الناصر، یعنی ’’اے میرے اللہ! میرے اس خون کو جمال عبد الناصر کی گردن پہ ڈال دے اور اس کی ہلاکت اور بربادی کا ذریعہ بنا دے‘‘۔ 

 سیّد قطبؒ کی شہادت کے اگلے روز ، سوموار کے دن ،تمام عالم عرب میں سیّد قطب شہیدؒ اور ان کے دونوں ’اخوانی‘ ساتھیوں کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔اس موقع پر تیونس کے ایک بڑے سیاسی رہنما نے کہا کہ ’’ اللہ تعالیٰ ، اس عظیم عالمِ دین کے خون کا بدلہ مصر کے اس حاکم سے ضرور لے گا‘‘۔ 

اور پھر ظالم کی ذلّت، رسوائی اور پسپائی کا دور شروع ہوتا ہے۔ سیّد قطبؒ اور ان دونوں ’اخوانی‘ بھائیوں کی شہادت کو ابھی چند ہفتے نہیں گزرے تھے کہ صدر جمال عبد الناصر بیمار پڑ گیا، اس کو کوئی بہت بڑی بیماری لاحق ہو گئی تھی۔اب مصر پر یکے بعد دیگرے بحرانوں اور مصائب کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ادھر مصر کے سیاسی رہنما اور قائدین مصر کے تخت کو ہلارہے تھے، اور لوگوں کو انقلاب اور تبدیلی پر اُکسا رہے تھے، اور گرتی ہوئی دیواروں کو آخری دھکا دے رہے تھے۔وہ عالمی سامراجی قوتوں کو چیلنج کر رہے تھے اور للکار رہے تھے اور اسرائیل کو سمندر میں غرق کرنے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔صدر ناصر علاج کے لیے بڑی خاموشی سے اور خفیہ طور پرروس کی ایک ریاست جارجیامیں واقع، ایک شہر’ تسخالطبو‘چلا گیا۔ 

 مصر کے ذرائع ابلاغ نے صدر ناصر کی بیماری کی حقیقت اور اصلیت کو چھپا کر رکھااور اس بات کو پھیلانےپر زور دیا گیا کہ صدر ناصر کی صحت روز بروز پہلےسے بہتر ہورہی ہے، تاکہ تنقید کرنے والوں کوطعنہ زنی کرنےکا موقع نہ ملے۔قدرتِ خداوندی نے صدر ناصر کو صرف بیماری کا عذاب اور اذیت دینے پر اکتفا نہ کیا بلکہ ۱۹۶۷ءمیں اس کو ایک اورشدید دھچکا لگا۔اسے اقتدار سے الگ ہونے اور روسیوں کے آگے ہتھیار ڈالنے اور سر تسلیم خم کرنےکا اشارہ ملا۔اُسی روز ’علال الفاسی‘ نے،جو کہ مراکش کے ایک مشہور سیاسی راہنما تھے،اپنے ایک پر جوش اورمشہور خطاب میں کہا کہ ’’اللہ سے اس بات کی ہر گز امید نہیں کہ وہ سیّد قطب کے قاتلوں کی مدد کرے گا‘‘۔ 

مظلوموں کی آہوں اور دعاؤں نے عرشِ الٰہی کو ہلا کےرکھ دیا۔ 

--- اے اللہ! ان ظالموں کی جمعیت کو پارہ پارہ کردے،اور پھراللہ نے ان کےاس اتحاد کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ 

 صدر ناصر اپنی ایک بہت بڑی سیاسی رسوائی سے ا بھی نکل نہیں پائے تھے کہ ان پر ایک نئی مصیبت آن پڑی اور ایک نیا بحران آگیا۔اور یہ بحران ان کے عمر بھر کے ایک گہرے دوست عبد الحکیم عامرکے ساتھ ان کے آپس کے تعلقات خراب ہونے سے پیدا ہوا۔ دونوں طرف سے ایک دوسرے پر غداری کے الزامات لگائے گئے یہاں تک کے ان کا دوست قتل ہو گیا یا اس نے خودکشی کر لی۔اب عبد الناصر ان سب ناگوار حالات کا سامنا کرنے کے لیے تنہا اور اکیلا رہ گیا۔ اس کی تنہائی بھی زیادہ طویل عرصہ تک نہ رہ سکی اور سیّد قطب کی شہادت کے صرف تین سال بعد اس کا انتقال ہو گیا اور تنہائی کے اس عرصے میں اس نے بیماری کے درد،ناکامیوں کی ذلت و رُسوائی ، اپنےایک جگری دوست کی جدائی اور زندگی سے مایوسی کے غم کا سامنا کیا۔اس تمام عرصے میں اس نے ایک دن کے لیے بھی کسی خوشی کا مزہ،کسی خوش بختی اور خوش نصیبی کا ذائقہ نہیں چکھا۔ 

  • شہید زندہ ہیں ، تم انھیں مُردہ نہ کہو: اللہ کے فرمان کی رُو سے شہید زندہ ہوتے ہیں اور اس کے ہاں اُن کو رزق دیا جاتا ہے۔ اس لیے سیّد قطبؒ کو موت نہیں آئی ، اوراس لیے بھی کہ مصر ہی نہیں ،عالم عرب اور عالم اسلام کے مکتبے اور لائبریریاں ان کی شہرہ آفاق ،تفسیر قرآن فی ظلال القرآن کے نسخوں اوردوسری بہت سی دینی کتابوں سے بھری پڑی ہیں اورعلم کے پیاسوں کی پیاس بجھا رہی ہیں،جب کہ جمال عبدالناصرکی صورت اور شخصیت کہیں گم ہو کر رہ گئی ہے۔اس کی تقریریں اور تصویریں ،ذہنوں سے محو ہو چکی ہیں۔یہاں تک کہ ،جن لوگوں نے سیّد قطب کی سزائے موت پر خوشی کا اظہارکیا تھااوراس کا خیر مقدم کیا تھا، وہی اب یہ کہہ رہے ہیں کہ عبدالناصر شراب سے بھی زیادہ گندا اور بدتر ہے۔