۲۰۲۵ اگست

فہرست مضامین

کلامِ اقبالؒ اور پیامِ سیّد مودودیؒ

پروفیسر سعید احمد | ۲۰۲۵ اگست | فکر اسلامی

Responsive image Responsive image

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہےّ 
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات 

ایمان باللہ، انسان کو پستی و ذلّت سے اُٹھا کر خودداری وعزّتِ نفس کے بلند ترین مدارج پر پہنچا دیتا ہے۔ جب تک اس نے خدا کو نہ پہچانا تھا، دُنیا کی ہرطاقت ور چیز، ہرنفع یا ضرر پہنچانے والی چیز ، ہر شان دار اور بزرگ چیز کے سامنے جھکتا تھا، اس سے خوف کھاتا تھا، اس کے آگے ہاتھ پھیلاتا تھا، اس سے اُمیدیں وابستہ کرتا تھا۔ مگر جب اس نے خدا کو پہچانا تو معلوم ہوا کہ جن کے آگے وہ ہاتھ پھیلا رہا تھا وہ خود محتاج ہیں۔ یہ علم حاصل ہونے کے بعد وہ تمام دُنیا کی قوتوں سے بے نیاز اور بے خوف ہوجاتا ہے۔ خدا کے سوا اس کی گردن کسی کے آگے نہیں جھکتی۔ خدا کے سوا اس کا ہاتھ کسی کے آگے نہیں پھیلتا۔ خدا کے سوا کسی کی عظمت اس کے دل میں نہیں رہتی۔ خدا کو چھوڑ کر وہ کسی دوسرے سے اُمیدیں وابستہ نہیں کرتا۔ (اسلامی تہذیب اور اس کے اصول ومبادی، ص ۱۲۶،۱۲۸( 


یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید 
کہ آرہی ہے دما دم صدائے ’کُن فَیَکُون‘ 

قدرتِ الٰہی کم تر درجے کی چیزوں سے تخلیق کی ابتدا کر کے بتدریج بلند تر درجے کی چیزیں پیدا کرتی رہی ہے۔ مثلاً جمادات پہلے پیدا کیے گئے۔ اس کے بعد نباتات، پھر حیوانات اور حیوانات میں بھی کم تر درجے کے حیوانات پہلے پیدا کیے گئے اور پھر بتدریج اعلیٰ قسم کے حیوانات پیدا کیے جاتے رہے۔ یہاں تک کہ بلند ترین نوع یعنی انسان کو پیدا کیا گیا۔ قدرت کا یہی قاعدہ اس عالم پر بہ حیثیت مجموعی بھی جاری ہونا چاہیے، یعنی موجودہ نظامِ عالم بہ حیثیت مجموعی ناقص ہے۔ لہٰذا، اس کے بعد ایک دوسرا نظامِ عالم ہونا چاہیے، جو اس سے کامل تر ہو، اور اسی نظام کا نام عالمِ آخرت ہے۔ گویا موجودہ نظامِ عالم کے بعد عالمِ آخرت کا آنا قدرت کے قانون ارتقا کا ایک لازمی تقاضا ہے۔(رسائل و مسائل، اوّل، ص ۲۹۱، ۲۹۲( 


یہی مقصودِ فطرت ہے ، یہی رمزِ مسلمانی 
اُخوت کی جہانگیری ، محبت کی فراوانی 

خدا کی راہ میں کام کرنے والے لوگوں کو عالی ظرف اور فراخ حوصلہ ہونا چاہیے، ہمدردِ خلائق اور خیرخواہِ انسانیت ہونا چاہیے۔ کریم النفس اور شریف الطبع ہونا چاہیے۔ خوددار اور خُوگر قناعت ہونا چاہیے۔ متواضع اور منکسرمزاج ہونا چاہیے۔ شیریں کلام اور نرم خُو ہونا چاہیے۔ وہ ایسے لوگ ہونے چاہئیں، جن سے کسی کو شر کا اندیشہ نہ ہو اور ہر ایک ان سے خیرخواہی کا متوقع ہو۔ جو اپنے حق سے کم پر راضی ہوں اور دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دینے پر تیار رہیں۔ بُرائی کا جواب بھلائی سے دیں، یا کم از کم بُرائی سے نہ دیں۔ جو اپنے محبوب کے معترف اور دوسروں کی بھلائیوں کے قدردان ہوں، جو اتنا بڑا دل رکھتے ہوں کہ لوگوں کی کمزوریوں سے چشم پوشی کرسکیں، قصوروں کو معاف کرسکیں، زیادتیوں سے درگزر کرسکیں اور اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہ لیں، جو خدمت لے کر نہیں، خدمت کرکے خوش ہوتے ہوں۔ اپنی غرض کے لیے نہیں، بلکہ دوسروں کی بھلائی کے لیے کام کریں۔ ہرتعریف سے بے نیاز اور ہرخدمت سے بے پروا ہوکر اپنا فرض انجام دیں اور خدا کے سوا کسی کے اجر پر نگاہ نہ رکھیں۔ جوطاقت سے دبائے نہ جاسکیں، دولت سے خریدے نہ جاسکیں، مگر حق اور راستی کے آگے بے تامّل سر جھکا دیں۔ جن کے دشمن بھی ان پر بھروسا رکھتے ہوں کہ کسی حال میں ان سے شرافت و دیانت اور انصاف کے خلاف کوئی حرکت سرزد نہیں ہوسکتی۔  

یہ دلوں کو موہ لینے والے اخلاق ہیں۔ ان کی کاٹ تلوار کی کاٹ سے بڑھ کر اور ان کا سرمایہ، سیم و زر کی دولت سے گراں تر ہے۔ کسی فرد کو یہ اخلاق میسر ہوں تو وہ اپنے گردوپیش کی آبادی کو مسخرکرلیتا ہے،لیکن اگر کوئی جماعت کی جماعت ان اوصاف سے متصف ہوجائے، تو پھر دُنیا کی کوئی طاقت اُسے شکست دینے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ (اسلامی تزکیۂ نفس، ص ۲۸-۲۹( 


یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں 
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری 

دورِ ملوکیت کے تغیرات میں سے ایک اہم تغیر یہ تھا کہ مسلمانوں سے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی آزادی سلب کرلی گئی۔ حالانکہ اسلام نے اُسے مسلمانوں کا صرف حق ہی نہیں بلکہ فرض قرار دیا ہے۔ اسلامی معاشرہ و ریاست کا صحیح راستے پر چلنا اس پر منحصر تھا کہ قوم کا ضمیر زندہ اور اس کے افراد کی زبانیں آزاد ہوں۔ ہرغلط کام پر وہ بڑے سے بڑے آدمی کو ٹوک سکیں اور حق بات برملا کہہ سکیں۔ خلافت راشدہؓ میں لوگوں کی یہ آزادی پوری طرح محفوظ تھی۔  

خلفائے راشدینؓ اس کی نہ صرف اجازت دیتے تھے بلکہ اس پر لوگوں کی ہمت افزائی کرتے تھے۔ ان کے زمانے میں حق بات کہنے والے ڈانٹ اور دھمکی سے نہیں، تعریف اور تحسین سے نوازے جاتے تھے۔ اور تنقید کرنے والوں کو دبایا نہیں جاتا تھا بلکہ ان کو معقول جواب دے کر مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ لیکن دورِملوکیت میں ضمیروں پر قفل چڑھا دیئے گئے اور زبانیں بندکردی گئیں۔ اب قاعدہ یہ ہوگیا کہ منہ کھولو تو تعریف کے لیے کھولو، ورنہ چپ رہو، اور اگر تمھارا ضمیر ایسا ہی زوردار ہے کہ تم حق گوئی سے باز نہیں رہ سکتے، تو قید اور قتل اور کوڑوں کی مار کے لیے تیار ہوجائو۔ چنانچہ جو لوگ بھی اس دور میں حق بولنے اور غلط کاریوں پر ٹوکنے سے باز نہ آئے، ان کو بدترین سزائیں دی گئیں، تاکہ پوری قوم دہشت زدہ ہوجائے۔(خلافت و ملوکیت، ص ۱۶۳-۱۶۴( 


یہ ہماری سعی پیہم کی کرامت ہے کہ آج 
صوفی و مُلّا ملوکیت کے ہیں بندے تمام 

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے علمائے کرام کی اکثریت یا تو قلّت ِفہم کے باعث یا کم ہمتی کے سبب سے، یا پھر اپنی نااہلی کے اندرونی احساس کی وجہ سے دین و دُنیا کی اس تقسیم پر راضی ہوچکی ہے، جس کا تخیل اب سے مدتوں پہلے عیسائیوں سے مسلمانوں کے ہاں درآمد ہوا تھا۔ انھوں نے چاہے نظری طور پر اُسے پوری طرح نہ مانا ہو، مگر عملاً وہ اُسے تسلیم کرچکے ہیں کہ سیاسی اقتدار اور دُنیوی ریاست و قیادت غیراہل دین کے ہاتھ میں رہے، چاہے یہ محدود دُنیا بے دین سیاست و قیادت کی مسلسل تاخت سے روز بروز سکڑ کر کتنی ہی محدود ہوتی چلی جائے۔ اس تقسیم کو قبول کرلینے کے بعد یہ حضرات اپنی تمام تر قوت دو باتوں پر صرف کر رہے ہیں: 

  • ایک اپنی محدود مذہبی ریاست کی حفاظت، جس کے مسائل اور معاملات میں کسی کی مداخلت انھیں گوارا نہیں ہے۔ 
  • دوسرے کسی ایسی بے دین قیادت سے گٹھ جوڑ، جو مذہب کے محدود دائرے میں ان کی اجارہ داری کے بقا کی ضمانت دے دے، اور اس دائرے سے باہر کی دُنیا پر جس فسق اور ضلالت کو چاہے فروغ دیتی رہے۔ اس طرح کی ضمانت اگر کسی قیادت سے انھیں مل جائے تو یہ دل کھول کر اس کا ساتھ دیتے ہیں اور خود جان لڑا کر اُسے قائم کرنے میں بھی دریغ نہیں کرتے، خواہ اس کا نتیجہ یہی کیوں نہ ہو کہ کفروالحاد اور فسق و ضلالت تمام سیاسی و معاشی اور تہذیبی قوتوں پر قابض ہوکر پورے دین کی جڑیں ہلا دے اور اس محدود مذہبیت کے پنپنے کے امکانات بھی باقی نہ رہنے دے، جس کی ریاست اپنے لیے محفوظ رکھنے کی خاطر یہ لوگ اس قدر پاپڑ بیل رہے ہیں۔(رسائل و مسائل، دوم، ص ۴۹۹-۵۰۰(