۲۰۲۵ اگست

فہرست مضامین

انسانی تخلیق اور ذات پات کی تفریق

ڈاکٹر سلیم خان | ۲۰۲۵ اگست | اسلامی معاشرت

Responsive image Responsive image

تخلیقِ کائنات کے بارے میں قرآنِ مجید میں ارشادِ ربانی ہے:’’ وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور اُن ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کے بعد عرش پر جلوہ فرما ہوا‘‘(السجدہ۳۲:۴)۔ ربِّ کائنات کی صفتِ خلاقی بیان کرنے کے بعد بنی نوعِ انسان کو آگاہ کیا گیا کہ :’’ اُس کے سوا کوئی تمھارا حامی و مدد گارنہیں ہے ‘‘۔ یعنی اپنی ہرروحانی و مادی ضرورت کے لیے اسی خالقِ کائنات سے رجوع کرو کیونکہ وہی ان کو پورا کرتا ہے ۔ کسی اور کے آگے دستِ تعاون دراز نہ کرو کیونکہ وہی مشکل کشا ہے ۔  

سورئہ سجدہ کی ابتدائی آیت کے تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے اسے دنیا سے اُخروی فلاح تک پھیلا دیا گیا۔ فرمانِ خداوندی ہے:’’اور کوئی(اپنی مرضی سے) اُس کے آگے سفارش کرنے والا نہیں ہے ‘‘(السجدہ۳۲:۴)۔ اس حقیقت سے آگاہ کرنے کے بعد حضرتِ انسان کو غورو فکر کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا: ’’پھر کیا تم ہوش میں نہ آؤ گے؟‘‘  

اس تمہید کے بعد تخلیقِ انسانی کی بابت فرمایا ہے:’’جو چیز بھی اس نے بنائی خوب ہی بنائی۔ اُس نے انسانی تخلیق کی ابتدا گارے سے کی، پھر اُس کی نسل ایک ایسے ست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح کا ہے، پھر اس کو نِک سُک سے درست کیا اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی‘‘ (السجدہ۳۲:۷-۹)۔ یہاں نسلِ آدم کی مادی و روحانی تخلیق کی بابت فرمایا کہ اس کی ابتدا گارے سے کی گئی جو تمام انسانوں کی اجزائے ترکیبی ہے اور پھر اس جسدِ خاکی میں خالقِ کائنات نے اپنی روح پھونک کر اسے زندہ کردیا ۔ اس لحاظ سے تمام بندوں کے تخلیقی عمل میں کوئی تفریق و امتیاز نہیں رکھا گیا ۔ تمام انسانوں کا ہارڈ وئیر اور سافٹ ویئر (روح) کا مرجع اور منبع یکساں ہے۔ 

اللہ تبارک و تعالیٰ بندوں پر اپنے احسانات کا ذکرکرتے ہوئے آگے انھیں خطاب کرکے فرماتے ہیں :’’ اور تم کو کان دیے، آنکھیں دیں اور دل دیے ‘‘ (السجدہ۳۲:۹)۔ ان بیش بہا نعمتوں سےبھی خالق ِ کائنات نے بلا امتیاز تما م لوگوں کو یکساں طور پر نواز دیا۔ اس بابت گورے یا کالے ، عربی یا عجمی، ملک ، علاقہ اور زبان وغیرہ کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں رکھا گیا لیکن ’’تم لوگ کم ہی شکرگزار ہوتے ہو‘‘۔ پھر بندوں نے اَز خود اپنے درمیان اونچ نیچ بنالی۔انسان دو حصوں میں بٹ گئے۔ ایک تو شکرگزار ہوکر مطیع و فرماںبردار بن جانے والے اور دوسرے کفر و انکار کی روش اختیار کرکےربّ کی نافرمانی کرنے والے یا شیطان لعین کی گمراہی کا شکار ہوجانے والے۔ ابتدائے آفرینش میں تخلیقِ انسانی کااعلان ہوا تو اس وقت فرشتوں کے ساتھ جنوں کا سردار ابلیس بھی موجود تھا ۔ارشادِ ربانی ہے :’’ہم نے انسان کو سٹری ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے بنایا اور اُس سے پہلے جنوں کو ہم آگ کی لپٹ سے پیدا کر چکے تھے‘‘۔ (الحجر ۱۵: ۲۶-۲۷) 

 کتابِ ہدایت میں اس منظرکو یوں بیان کیا گیاہے کہ:’’ پھر یاد کرو اُس موقع کو جب تمھارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ’’میں سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے ایک بشر پیدا کر رہا ہوں۔جب میں اُسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا‘‘۔ چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ اُس نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا‘‘ (الحجر۱۵:۲۸-۳۱)۔قرآن کریم کا یہ اعجاز ہے کہ انکارِ ابلیس کا سبب خود اسی کی زبانی بیان کر دیا گیا۔ فرمایا:’’رب نے پوچھا:’’اے ابلیس، تجھے کیا ہوا کہ تو نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ نہ دیا؟‘‘ اس نے کہا:’’میرا یہ کام نہیں ہے کہ میں اِس بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے پیدا کیا ہے‘‘۔ (الحجر ۱۵:۳۲-۳۳) 

ابلیس کے تکبراور آدم کی تحقیر کاسبب تقویٰ ، عبودیت یا صلاحیت نہیں بلکہ تخلیق کے اجزائے ترکیبی کا فرق تھا ۔ آگ کےگھمنڈ میں مبتلا ہو کر مٹی سے بنے آدم کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے انکار کرنے والا ابلیس بھول گیا کہ وہ اس خالقِ کائنات کی نافرمانی کررہا ہے جس نے اپنی مرضی سے ان کے اجزائے ترکیبی طے کیے۔ اس میں دونوں کا کوئی عمل دخل نہیں تھا،لہٰذا فخروتحقیر بے معنٰی تھی مگر کبرو استکبار سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کردیتا ہے ۔ اس لیے وہ اپنے خالق و مالک سے بغاوت کرکے یوں راندۂ درگاہ ہوگیا۔ ربّ تعالیٰ نے فرمایا:’’اچھا تو نکل جا یہاں سے کیونکہ تُو مردود ہے، اور اب روزِ جزا تک تجھ پر لعنت ہے‘‘ (الحجر۱۵:۳۴)۔ اس وعید کے بعد بھی اپنی غلطی سے رجوع کرنے کے بجائے وہ اڑ گیا اورپلٹنے کے بجائے بغاوت کی مہلت طلب کرتے ہوئےعرض کیا :’’میرے رب، یہ بات ہے تو پھر مجھے اُس روز تک کے لیے مہلت دے، جب کہ سب انسان دوبارہ اٹھائے جائیں گے‘‘ ۔(الحجر۱۵:۳۶) 

ربِّ کائنات نے جواب دیا:’’اچھا، تجھے اُس دن تک مہلت ہے جو ہمیں معلوم ہے‘‘ (الحجر۱۵:۳۷-۳۸)۔ ابلیس اپنی اس کامیابی پر ربِّ کائنات کو الزام دیتے ہوئے بولا:’’اے پروردگار! اس سبب سے جو تو نے مجھے گمراہ کیا میں (بھی) یقیناً ان کے لیے زمین میں (گناہوں اور نافرمانیوں کو) خوب آراستہ و خوش نما بنا دوں گا اور ان سب کو ضرور گمراہ کر کے رہوں گا، سوائے تیرے ان برگزیدہ بندوں کے جو (میرے اور نفس کے فریبوں سے) خلاصی پا چکے ہیں‘‘ (الحجر۱۵:۳۹-۴۰)۔ خود پسند شیطانِ لعین کو جہاں یہ گمان تھا کہ وہ بنی نوع آدم کی ایک بڑی تعداد کو اپنے ساتھ جہنم کا ایندھن بنانے میں کامیاب ہوجائے گا وہیں یہ اعتراف بھی موجود ہے کہ اللہ کی بندگی کے لیے اپنی زندگی وقف کردینے والے مخلص بندے اس سے محفوظ و مامون رہیں گے۔  

اس کی تصدیق میں ارشاد ربانی ہے:’’ (اخلاص ہی) وہ راستہ ہے جو سیدھا میرے دَر پر آتا ہے، بے شک میرے (مخلص) بندوں پر تیرا کوئی زور نہیں چلے گا سوائے ان بھٹکے ہوؤں کے جنھوں نے تیری راہ اختیار کی، اور بے شک ان سب کے لیے جہنم کی وعید ہے ‘‘۔(الحجر۱۵:۴۱-۴۳) 

  • نسلی تفاخر اور امتیاز کا فریب : انسانوں کو بہکانے کے لیے تراشے گئے شیطانی نظریات میں نسلی تفاخر کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے مالا مال قوموں کو وہ گھمنڈ میں مبتلا کرکے کمزوروں پر ظلم اور استحصال کے لیے اُکساتا ہے۔ کسی کو رنگ و نسل کی بڑائی کا شکار کردیتا ہے تو کسی کو مال و دولت کے نشے میں دھُت کرکے اپنے جھانسے میں لے آتا ہے۔ مغرب و مشرق میں یہی کھیل چل رہا ہے۔ہٹلر نے جرمن نسل کی برتری کے نام پر جنگ عظیم چھیڑ کر کروڑوں لوگوں کو ہلاک کرا دیا۔ آج بھی عظیم ترین جمہوریت کے دعوے دار ترقی یافتہ ملک امریکا میں ’بلیک لائف میٹر‘ کے عنوان سے تحریک چلائی جاتی ہے۔ ظہران ممدانی کے میئر کی دوڑ میں شامل ہونے کو سفید فام صدر سمیت اس کے نسل پرست حامی اپنی توہین گردانتے ہیں۔ یورپ اور امریکا میں صدیوں سے جاری سماجی و سیاسی اصلاحات اس فتنے کو جڑ سے اکھاڑنے میں ناکام ہوگئیں اور ایران و فلسطین کے معاملے میں کئی بار ان کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہوچکا۔ 

یقینا یہ شیطان ساختہ عقیدہ ہی ہے کہ مختلف ذات و نسل کی تخلیق معبود حقیقی نے اپنے مختلف اعضا سے کی ہے نعوذ باللہ ۔ برہمن سر سے بنائے گئے اس لیے رُشدو ہدایت اور پوجا پاٹ کی ذمہ داری پر مامور ہیں ۔اس منصب میں کوئی اور ذات کا فرد داخل نہیں ہوسکتا۔ وہ مذہبی اشلوک نہ پڑھ سکتا ہے اور نہ اسے سنانے کا حقدار ہے ۔ کشتریوں کو بازوؤں سے بنایا گیا تاکہ اقتدار کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں ر ہے ا ور جنگ و جدل بھی وہی کریں۔ کھیتی باڑی اور تجارت کے لیے ویش سماج کو پیٹ سے پیدا کیا گیا۔ اس لیے وہ پیٹ پوجا کی سہولت فراہم کرتے ہیں اور بیچارے شودر چونکہ پیروں سے بنائے گئے، اس لیے ان کا کام مذکورہ بالا تینوں ذات کے لوگوں کی بلا چوں چرا غلاموں کی مانند خدمت بجالانا ہے۔ وہ خود ساختہ اونچی ذاتوں کی خدمت کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کرسکتے۔ ان میں سے کوئی اگر ایسا کرتا ہے توگویا وہ مذہبی تعلیمات کے انحراف کی سزا کا مستحق ہے۔  

انڈیا کی آزادی کے ۷۸ برس بعد بھی وہاں چھوت چھات عقیدے کے سبب صدرِ مملکت دروپدی مرمو کو جگن ناتھ مندر کےگربھ گرہ میں جانے سے روک دیا جاتا ہے، بلکہ ان کے پیش رو رام ناتھ کوند کی واپسی کے بعد مندر کو پاک بھی کیا جاتا ہے۔ ’سناتن دھرم‘ کا یہ بنیادی عقیدہ ہندو عوام کے قلب و ذہن میں اس قدر راسخ ہے کہ جب یادو سماج کا مکٹ منی بھاگوت کتھا سناتا ہے تو اس کو رُسوا کرنے کی خاطر اس کی چوٹی کاٹنے کے بعد سر بھی منڈوا دیا جاتا ہے۔ ۲۵ہزار روپے ہرجانہ وصول کرکے اسے پیشاب سے پاک کیا جاتا ہے۔ اس اہانت آمیز سلوک پر شرم کرنے کے بجائے بیش تر دھرم گرو اسے مذہبی صحیفوں کی بنیاد پرجائز ٹھیراتے ہیں ۔ ہندوستانی سماج کی اس برائی کو دُور کرنے میں دس سال کے لیے نافذ کیا جانے والا ریزرویشن ۷۰برس بعد بھی ناکام رہا۔  

انڈیا میں ذات پات کے مسئلہ کو عملی اصلاحات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ظاہری طور پر کچھ نمائشی تبدیلیاں تو ہوجاتی ہیں مگر اندر کی خرابی باقی رہتی ہے کیونکہ اس کی بنیاد میں کارفرما عقائد کو نہیں چھیڑا جاتا۔ یہی معاملہ دوسری شکلوں میں خود بہت سے مسلم معاشروں میں بھی کسی نہ کسی بدنُما صورت میں سر اُٹھاتا دیکھا جاسکتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ صلاحیت ، مواقع، معاشی لحاظ سے لوگوں کے درمیان فرق ہے اور مصنوعی طور پر اسے مٹانے کی کوشش میں سوویت یونین خود ختم ہوگیا مگر خودروس کے اندر بھی وہ خلیج مزید وسیع ہوگئی ہے۔ وہاں اس فرق کا بنیادی سبب جاننے کی زحمت کرنے کے بجائے ریاست کی طاقت کے زور سے مصنوعی طور پر مساوات قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اشتراکی نظریے کی ناکامی کا بنیادی سبب ایک غیر حقیقی ہدف تھا جو اسے لے ڈوبا ۔  

اس بارے میں قرآنِ مجید یہ کہتا ہے: ’’دنیا کی زندگی میں اِن کی گزر بسر کے ذرائع تو ہم نے اِن کے درمیان تقسیم کیے ہیں، اور اِن میں سے کچھ لوگوں کو کچھ دوسرے لوگوں پر ہم نے بدرجہا فوقیت دی ہے تاکہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لیں اور تیرے ربّ کی رحمت (یعنی نبوت)اُس دولت سے زیادہ قیمتی ہے جو وہ (اِن کے رئیس) سمیٹ رہے ہیں‘‘ (الزخرف ۴۳:۳۲)۔ اس آیت میں معاشی فرق کی حکمت اور دیگر نعمتوں کی اہمیت کا احساس دلایا گیا ہے۔ یہاں یہ حقیقت اُجاگر کی گئی ہے کہ ان مادی نعمتوں سے افضل رحمت ِالٰہی اس دنیا میں عزت و وقار کے ساتھ اطمینان و سکون کی زندگی اور آخرت کی ابدی کامیابی ہے ۔ اسی آیت میں معاشی فرق کی یہ حکمت بھی بتائی گئی ہے کہ اس کے سبب لوگ ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ خدمت کرنے والا ہی نہیں بلکہ خدمت لینے والا بھی اپنے خادم کا محتاج ہوتا ہے، بلکہ روزمرہ کے کاموں میں خدمت کرنے والے کی دوسروں پر احتیاج نسبتاً کم ہوتی ہے۔ 

معاشی ناہمواری کو کم سے کم کرنے کی خاطر دین اسلام نہ صرف زکٰوۃ و انفاق کو رواج دیتا ہے بلکہ یہ اہلِ ثروت کی فکر میں وہ انقلاب برپا کرتا ہے جو ازخود انھیں انفاق فی سبیل اللہ پر آمادہ کردیتا ہے۔ دنیوی وسائل کے حامل لوگوں کو قرآن حکیم میں اس حقیقت سے آگاہ کیا گیا ہے کہ: ’’وہی ہے جس نے تم کو زمین میں نائب بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض پر درجات میں بلند کیا، تاکہ وہ ان (چیزوں) میں تمھیں آزمائے جو اس نے تمھیں (امانتاً) عطا کر رکھی ہیں‘‘ (الانعام۶:۱۶۵)۔ اسلامی عقیدے کے مطابق یہ مادی وسائل امانت و آزمائش ہیں اور اس میں خیانت کرنے والوں کو خبردار کیا گیا کہ : ’’بے شک آپ کا رب جلد سزا دینے والا ہے ‘‘، نیز فرماں برداروں کو بشارت دی گئی ہے کہ :’’ بے شک وہ بڑا بخشنے والا اور بے حد رحم فرمانے والا بھی ہے‘‘ (الانعام۶:۱۶۵)۔ انسانی معاشرے میں معاشی تفاوت کے مقابلے میں سماجی تفریق و امتیاز زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے ۔ اس بارے میں قرآن کی رہنمائی یہ ہے کہ :’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑا پیدا فرمایا، پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا۔ اور ڈرو اس اللہ سے جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتوں (میں بھی تقویٰ اختیار کرو)، بے شک اللہ تم پر نگہبان ہے‘‘۔(النساء۴:۱) 

انسانی مساوات کے اس عالمی پیغام نے دنیا کے سارے انسانوں کو اولادِ آدم کی حیثیت سے ایک خاندان کا فرد بنا دیا ۔ ان کے درمیان پائے جانے والے ظاہری فرق کی بابت بتایا گیا: ’’اے لوگو! ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمھیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم)کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو‘‘ (الحجرات ۴۹:۱۳)۔ گویا یہ فرق تذلیل و تحقیر کے لیے نہیں بلکہ شناخت کے لیے ہے۔ اس کے لیے فضیلت کی یہ کسوٹی فراہم کی گئی کہ :’’ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزّت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔ بے شک اللہ خوب جاننے والااور خبر رکھنے والا ہے‘‘ (الحجرات ۴۹:۱۳)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلمنے بھی حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے خطبے میں فرمایا:’’اے لوگو! تمھارا رب ایک ہے، تمھارا باپ ایک ہے۔ سنو کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی گورے کو کسی کالے پر اور نہ کسی کالے کو کسی گورے پر سوائے تقویٰ کے‘‘(مسنداحمد:حدیث ۲۳۵۳۶)۔ پرہیزگاری و خداخوفی دل کی ایسی کیفیت ہے کہ جسے ناپا اور تولا نہیں جاسکتا ۔ اس کا علم صرف خدا کو ہے کہ کون کتنا متقی ہے؟اس لیے پرہیزگاری کے معاملے میں مسابقت کی سعی تو ہونی چاہیے مگر تقویٰ میں تکبر کی کوئی گنجائش نہیں۔  

معاشرے میں تفریق و امتیاز کا سبب ایک دوسرے کی تذلیل ہے مگر دین اسلام میں تضحیک و تذلیل تو کیا، معمولی تمسخر کی بھی گنجائش نہیں ہے۔ فرمانِ خداوندی ہے:’’اے ایمان والو! نہ تو مرد دُوسرے مردوں کامذاق اُڑائیں، کیا عجب ہے کہ جو لوگ مذاق اُڑارہے ہیں اُن سے وہ لوگ بہتر ہوں جن کا مذاق اُڑایا جارہا ہے۔ اور نہ عورتوں کو عورتوں پر ہنسنا چاہیے، ممکن ہے کہ جو عورتیں ہنسی اُڑانے والی ہیں، اُن سے وہ عورتیں بہتر ہوں جن کی ہنسی اُڑائی جارہی ہے۔آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد کرو۔ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بُرا ہے اور جو توبہ نہ کریں گے تو وہی لوگ ظلم کرنے والے ہوں گے‘‘(الحجرات ۴۹:۱۱)۔ اس طرح دیگر قوموں کی تذلیل و تحقیر کا سدّباب کردیا گیا ہے۔  

آج کے ہندوستان میں ذات پات کی لڑائی کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ دین اسلام میں اس کی سخت ممانعت ہے بلکہ افراد یا گروہوں کے درمیان اختلاف اور جھگڑے کی صورت میں دونوں فریقوں کے درمیان صلح کرانے کاحکم دیا گیاہے۔ ارشادِ خداوندی ہے : ’’ایمان والے آپس میں بھائی بھائی ہیں، تم اپنے بھائیوں میں صلح کرادیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘ (الحجرات ۴۹:۹)۔ یہ معاملہ صرف اہل ایمان تک محدود نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے قبل ’حلف الفضول‘ نامی معاہدے میں شرکت کرکے غیر مسلم قبائل کے درمیان صلح صفائی کرائی، تاکہ قبائلی دشمنی کا خاتمہ کرکے قتل و غارتگری پر روک لگائی جاسکے۔ مدینہ منورہ کے اندر بھی آپؐ نے مختلف قبائل کے ساتھ امن و آشتی کا معاہدہ کیا ۔ اس سے مختلف قبائل کے بیچ بھائی چارہ بڑھا اور باہمی اعتماد پیدا ہوا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح صفائی کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا :کیامیں تمھیں روزہ، نماز اور صدقہ سے افضل عمل نہ بتاؤں؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کی: یا رسولؐ اللہ! ضرور بتائیے۔ارشاد فرمایا: وہ عمل آپس میں ناراض لوگوں کے درمیان صلح کرا دینا ہے کیونکہ روٹھنے والوں میں ہونے والا فساد صفائی کرکے رکھ دینے والا ہے۔ بالوں کی صفائی نہیں، بلکہ دین کی صفائی۔ (ابوداؤد: ۴۹۱۹، ترمذی: ۲۵۰۹) 

ذات پات کی تفریق کے علاوہ سماج میں جنس کی بنیاد پر بھی معاملات ہوتے ہیں۔ اس کو ختم کرنے کی خاطر قرآن مجید کی ایک بنیادی تعلیم یہ ہے کہ : ’’جو کوئی نیک عمل کرے (خواہ) مرد ہو یا عورت،جب کہ وہ مومن ہو، تو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے، اور انھیں ضرور ان کا اجر (بھی) عطا فرمائیں گے ان اچھے اعمال کے عوض جو وہ انجام دیتے تھے‘‘ (النحل۱۶:۹۷)، یعنی اُخروی فلاح کے معاملے میں مردو عورت کے اجر و ثواب میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس حقیقت کو نہایت تفصیل کے ساتھ یوں بیان کیا گیا کہ:’’ بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، اور مومن مَرد اور مومن عورتیں، اور فرماں بردار مرد اور فرماں بردار عورتیں، اور راست باز مرد اور عورتیں، اور صبر والے مرد اور صبر والی عورتیں، اور عاجزی والے مرد اور عاجزی والی عورتیں، اور صدقہ و خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ و خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، اللہ نے اِن سب کے لیے بخشش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہے‘‘۔ (الاحزاب  ۳۳:۳۵) 

 ذات پات کی بنیاد پرغیر انسانی اعمال کا جواز فراہم کرنے کی خاطر توحید کے بجائے شرک کو فروغ دے کر برہمنوں کو پرستش کے قابل بنادیا گیا ۔ اس باطل عقیدے کو مضبوط تر کرنے کی خاطر تناسخ کا عقیدہ گھڑا گیا جس کے مطابق اس جنم میں شودر اپنے پچھلے جنم کے گناہوں کی سزا بھگت رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں اس کی مدد کرنا تو دُور ہمدردی کرنا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اس عقیدے کے مطابق ایک مظلوم کے لیے سماج میں اپنی حیثیت بحال کرنے کی خاطر اس جنم میں نام نہاد اعلیٰ ذات کےلوگوں کی خدمت کرکے اسے اپنا اگلا جنم سنوارنے کے سوا کوئی اور سبیل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مرنے سے قبل کوئی ذات پات کے جنجال سے نکل ہی نہیں سکتا۔ اسی لیے یہ محاورہ بن گیا کہ ’ذات نہیں جاتی‘ یہاں تک کہ انسان اس جہانِ فانی سے رخصت ہوجاتا ہے۔ عقیدۂ آخرت ہی اس بیماری کا علاج ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:’’اور یہ لوگ کہتے ہیں: ’’جب ہم مٹی میں رَل مِل چکے ہوں گے تو کیا ہم پھر نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے؟‘‘۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں ۔ اِن سے کہو:’’موت کا وہ فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تم کو پورا کا پورا اپنے قبضے میں لے لے گا اور پھر تم اپنے رب کی طرف پلٹا لائے جاؤ گے‘‘ (السجدہ ۳۲:۱۰-۱۱)۔ یہ حقیقت ہے کہ توحید و رسالت کے ساتھ آخرت کا عقیدہ اپنائے بغیرکوئی بھی معاشرہ تفریق و امتیاز کے ناسور سے چھٹکارا نہیں پاسکتا  ؎  

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں 
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں