۲۰۲۵ اگست

فہرست مضامین

پاکستان ناکام یا کامیاب؟

مظفر اعجاز | ۲۰۲۵ اگست | پاکستانیات

Responsive image Responsive image

مختلف حلقوں میں یہ بحث سننے کو ملتی ہے کہ پاکستان میں کچھ نہیں رکھا ،اس ملک سے نکل جاؤ، یہاں تباہی مقدر ہے ، روزگار نہیں ہے، اس ملک میں حلال کمائی کا کوئی امکان نہیں ہے ،وغیرہ وغیرہ۔ لیکن دوسری طرف بھی بہت مضبوط دلائل اور ٹھوس وجوہات ہیں کہ اس ملک میں بہت کچھ ہی نہیں سب کچھ ہے۔یہاں قدرت بھی مہربان ہے اور جغرافیہ بھی محفوظ ہے ،آبادی کی قوت بھی ہے اور جوانوں کی طاقت بھی،غرض ہر طرح کا ٹیلنٹ موجود ہے!! 

گویا یہاں سب کچھ ہے اور سب کے لیے ہے، حتیٰ کہ ’یہاں کچھ نہیں‘ ہے کہنے والے جب بیرون ملک کی پرتعیش زندگی میں شادیاں کرتے ہیں، تو سامان خریدنے پاکستان آتے ہیں ، دانت نکلوانے یا بنوانے ہوں تو پاکستان آتے ہیں ، کوئی آپریشن کرانا ہوتو پاکستان کا رخ کرتے ہیں ،بلکہ مرکر دفن بھی پاکستان میں ہونا چاہتے ہیں، لیکن کہتے یہ ہیں کہ یہاں کچھ نہیں رکھا!! 

ہاں!! ناانصافیاں، ناہمواریاں، نااہلیاں ،کرپشن،طاقت ور کی حکمرانی اور کمزور کے نصیب میں محرومیاں، مصیبتیں اور تکلیفیں ضرور ہیں۔اور یہ سارے ظلم کرنے والے بھی لوٹ مار کے لیے اسی ملک کو منتخب کرتے ہیں ، ذرا امریکا ، کینیڈا ، برطانیہ یا کسی یورپی، حتیٰ کہ عرب ملک میں پاکستان جیسے فراڈ کرکے تو دیکھیں۔ نہ سفارش چلے گی نہ دھونس ، جو قانون کی گرفت میں آیا وہ سزا پاکر رہے گا۔ 

ان دونوں پہلوؤں کے علاوہ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ حکومتی اداروں میں صرف نااہلی نہیں ہے، ان کے اہلکار، افسر اور کل پُرزے سب اپنے کام میں بڑے ماہر ہیں ۔بس ان کا رُخ اس جانب نہیں جس طرف ان کو متعین کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سرکاری اداروں میں سب سے نچلی سطح پر بلدیات ہیں۔بلدیات کا بنیادی کام بنیادی سہولیات پانی وغیرہ کی فراہمی،صفائی ستھرائی وغیرہ ہے لیکن اس کے اہلکار سڑکوں پر تجاوزات کی اجازت دے کر لوگوں سے اس کے عوض رقم اینٹھ لیتے ہیں۔اگر وہ تجاوزات کا موقع ہی نہ دیں اور رشوت نہ لیں تو راستے کشادہ رہ سکتے ہیں۔ یہاں صرف ان کی صلاحیت کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ پوری مشینری بہت باصلاحیت ہے بس رُخ اُلٹ ہے۔ان کا کام یہ ہے کہ تلاش کریں کہ کہاں کہاں رکاوٹ ،تجاوزات اور خرابیاں ہیں ،لیکن وہ اتنی ہی محنت سے بلکہ اس سے زیادہ صلاحیت لگا کر وہ مقامات تلاش کرتے ہیں جہاں تجاوزات قائم کی جاسکتی ہیں۔اسی طرح ٹیکس وصولی کی صلاحیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ناجائز بھتا باقاعدگی سے بروقت وصول کرکے اس کےتمام ’حق داروں‘تک پہنچاتے ہیں۔ 

پھر ان اداروں کی نگرانی پر مامور ادارے ہیں جو اتنی ہی محنت کرتے ہیں جتنی کرنی چاہیے لیکن اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے اور کامیابی سے حصہ وصول کرتے ہیں۔ پھر منتخب نمائندے ہیں: کونسلرز، چیئرمین وغیرہ اور مزید اوپر مئیر، ڈپٹی مئیر وغیرہ ہیں ، اور پھر سرکاری مشینری اشرافیہ، وزرا وغیرہ جتنے بھی نچلے اہلکار ہیں وہ سب بتاتے ہیں کہ ہم تو کارندے ہیں جو کچھ ملتا ہے، یعنی لوگوں سے جو بھتے لیتے ہیں وہ سب اوپر پہنچاتے ہیں۔ بہر حال یہ اہلکار اتنے بھی ایماندار نہیں ہیں کہ سارے پیسے ایمانداری سے اوپر پہنچادیں۔ اتنی محنت کرتے ہیں، کچھ تو ’محنتانہ‘ وصول کرتے ہوںگے۔یقین نہ آئے تو ایم کیو ایم کا چالیس سالہ دور سامنے رکھیں ،پیدل، کروڑ پتی بن گئے، ٹیلی فون آپریٹر، مال دار اور جائیدادوں کے مالک بن گئے۔شادی ہال کا مینیجر بھی مالا مال ہوگیا۔ 

پہلے کہا جاتا تھا کہ مافیا ہرملک میں ہوتی ہے لیکن ہمارے ملک میں مافیا حکومت میں آجاتی ہے، پارلیمان میں آجاتی ہے اور پھر سارے کام ریاستی سطح پر ہوتے ہیں۔ 

پاکستان محض بلدیات کا نام تو ہے نہیں۔ ملک میں امن و امان کی ذمہ دار پولیس ہے۔ لوگ پولیس سے شاکی ہیں لیکن کیا پولیس کام نہیں کرتی ؟ نااہل اور ناکارہ ہے، اسے کچھ معلوم نہیں؟ ایسا بھی نہیں ہے۔ اب تو ہر آنے والے دن یہ لطیفہ حقیقت بن کر سامنے آرہا ہے۔ ہم سے چوبیس گھنٹے قبل معلوم کرلیں کہ کہاں کیا واردات ہونے والی ہے؟کئی جرائم میں پولیس ہی ملوث نکلی اور اب تو کئی پولیس والے سزائیں بھی پاچکے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری پولیس بھی نااہل اور نالائق نہیں۔ گذشتہ برسوں میں سندھ پولیس اور خصوصاً کراچی پولیس، رینجرز اور فوج کی رہنمائی کرتی رہی ہے، اور من پسند مجرموں کو بچانے کے لیے ان اداروں کو غلط معلومات بھی فراہم کرتی رہی ہے۔ یہی پولیس بھتوں کے معاملے میں دونمبری میں بھی ید طولیٰ رکھتی ہے۔ پورے ملک میں رشوت اور ناجائز آمدنی کا سارا کاروبار اسی پولیس کے بل پر چل رہا ہے۔ بڑے بڑے افسروں اور اہم اداروں کو بھی یہی ادارہ معاونت فراہم کرتا ہے۔ دنیا بھر میں پولیس کو دیکھ کر اطمینان اور پاکستان میں خوف محسوس ہوتا ہے، کیوں ؟ اس کا جواب سب جانتے ہیں ۔ جھوٹے مقدمے ، مظلوم کو ظالم ،مقتول کے ورثا کو مجرم بنانا، اس پولیس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ پولیس نااہل یا ناکارہ ہے ؟ اور فوج کے تو کیا کہنے! سرحدوں پر بھی نظر ہے اور سیاست پر بھی، کاروبار پر بھی نظر ہے اور حکومت سازی اور حکومت گرانے پر بھی، ایک ایک ایم این اے اور ایم پی اے پر بھی، سیاسی کارکنوں پربھی۔ اگر اس کثیر الجہتی مصروفیت کی وجہ سے دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوجائے تو اس میں اس کی نالائقی کو دخل نہیں، بلکہ اتنے سارے کام تنہا ایک ادارے کو کرنے پڑتے ہیں۔ بس یہی سوال ادارہ بھی اپنے آپ سے، اپنے ذمہ داران سے پوچھے اور پارلیمنٹ ہر ادارے سے پوچھے کہ اپنے دائرے سے باہر نکلنے کی وجہ کیا ہے؟ علیٰ ہذا القیاس ہر ادارہ، ریاستی مشینری کا ہرکل پُرزہ بہت باصلاحیت اور جو کرنا چاہتا ہے کررہا ہے۔ ہر ایک کا اور خصوصاً چند ایک کے کارناموں کے ساتھ ان کا تو نام بھی لکھنا پیکا ایکٹ کی لپیٹ میں لے آئے گا۔بس اس مشینری کا رُخ غلط ہے، اسے درست کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن لگتا ہے لیکن بہت آسان اور ممکن بھی ہے۔ 

آسان یوں کہ آئین اور قانون پر عمل شروع کردیا جائے ،جو رکاوٹ ڈالے اس کا احتساب کیا جائے، اور جو قانون کی پابندی نہ کرے اسے منصب سے ہٹا دیا جائے۔ایک اہم بات یہ ہے کہ نظریے، قدرتی وسائل،افرادی قوت، نوجوانوں، ایٹمی قوت ، مضبوط فوج، ان سب چیزوں کی موجودگی میں پاکستان ایک کامیاب ریاست ہے۔ اسے کامیابی سے چلانا اور ترقی دینا ہمارا کام ہے۔ اگر ہم یہ نہ کرسکیں تو ناکام کون ہوا ،ہم یا پاکستان ؟