یہ معاہدات کا ایک سلسلہ ہے ، جس کا مقصد اسرائیل اور عرب ملکوں کے درمیان تعلقات کو امریکا و اسرائیل کے تصور کے تحت ’معمول پر لانا‘ اور عرب ملکوں کی طرف سے اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کرانا ہے۔ جن عرب ملکوں نے یہ معاہدے کیے ہیں ان میں متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش، اور سوڈان شامل ہیں۔ ابراہیمی معاہدے ۲۰۲۰ء کے دوسرے نصف میں طے پائے۔ انھیں ۲۱ویں صدی میں عرب-اسرائیل تعلقات کی بحالی کی طرف پہلا علانیہ قدم مانا جاتا ہے۔
ان معاہدات کو’ابراہیمی معاہدات‘ کا نام دینے سے یہ تاثر دینا پیش نظر ہے کہ یہودیوں اور عربوں کے درمیان تاریخی و مذہبی طور پر گہرا تعلق ہے کیونکہ دونوں اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا جدِ امجد مانتے ہیں۔نیز تینوں الہامی مذاہب: —اسلام، عیسائیت اور یہودیت — حضرت ابراہیمؑ کو اپنا روحانی پیشوا بھی مانتے ہیں۔
متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بات چیت کا آغاز کیا اور ۱۳؍ اگست ۲۰۲۰ء کو دونوں ملکوں کے مابین معاہدہ طے پانے کا اعلان ہوگیا۔ اس کے بعد ۱۱ ستمبر ۲۰۲۰ء کو بحرین نے بھی اسی نوعیت کے معاہدے پر رضامندی ظاہر کی اور ۱۵ستمبر ۲۰۲۰ء کو وائٹ ہاؤس میں، امریکی پشت پناہی سے امارات، اسرائیل اور امریکا کے نمائندوں کی موجودگی میں ابراہیمی معاہدے پر دستخط کردیے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے فلسطین کی تقسیم کے فیصلے اور ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کے قیام کے اعلان کے بعد،احتجاجاً عرب حکومتوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھااور اگلے چند عشروں میں عرب،اسرائیل جنگوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔۱۹۶۷ء کی ’چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ‘ اور۱۹۷۳ء کی اکتوبر کی جنگیں مشہور ہیں۔ تاہم، ۱۹۷۹ء میں انور سادات کی صدارت میں مصرنے اسرائیل کے ساتھ ایک امن معاہدہ کرلیا، جسے ’کیمپ ڈیوڈ معاہدہ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یوں مصر وہ پہلا عرب ملک بن گیا جس نے اسرائیل کے وجود کوباقاعدہ تسلیم کرلیا۔
۱۹۹۴ء میں اردن نے بھی ’وادی عربہ معاہدہ‘ کے نام سے اسرائیل کےساتھ امن کی پینگ بڑھالی۔اردن نے یہ اقدام ۱۹۹۳ء میں اسرائیل اور تنظیم آزادیِ فلسطین (PLO) کے درمیان ’دوریاستی حل معاہدہ‘ کی منظوری کے بعد اٹھایا تھا ۔حالیہ ابراہیمی معاہدے بھی گویا مصر اور اُردن کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے والے معاہدوں ہی کے سلسلے کی کڑی ہیں ۔
اس معاہدے پر دستخط کرنے والا پہلا خلیجی ملک ،متحدہ عرب امارات ہے۔امریکا نے معاہدے پر دستخط کے اعلان سے پہلے ایف-۳۵ طرز کے ۵۰ جدید ترین جنگی طیارے امارات کو فروخت کرنے کی پیش کش کی۔ حالانکہ امریکا اپنے نیٹو حلیف ترکی کو یہ طیارے دینے سے ابھی تک انکاری ہے ، جب کہ اسرائیل کے لیے وہ پہلے سے میسر ہیں۔
۲۳؍اکتوبر ۲۰۲۰ءکو وائٹ ہاؤس کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا کہ سوڈان نے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو استوار کرنے اورمعمول پر لانے پر اتفاق کرلیا ہے۔ اس اعلان سے کچھ دن قبل، امریکی صدر ٹرمپ نے سوڈان کا نام دہشت گردی کے حامی ممالک کی فہرست سے نکالنے کا اعلان کیا تھا ۔ انھی دنوں فروری ۲۰۲۰ء کے آغاز میں یوگنڈا میں ہونے والی ایک ملاقات بہت اہم تھی،جو اپنے اقتدار کے استحکام کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے والے سوڈانی مقتدرہ کونسل کے سربراہ برہان نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ کی۔ اس ملاقات کے بعد ہی سوڈان کی غیر منتخب اور کمزور ترین حکومت نے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور ابراہیمی معاہدات کی گاڑی پر سوار ہونےکا اعلان کیا۔
۱۰ دسمبر ۲۰۲۰ء کو امریکی تائید و حمایت سے مراکش اور اسرائیل کے درمیان بھی ایک ابراہیمی معاہدہ طے پایا۔مراکش کی طرف سے یہ اقدام اس وقت سامنے آیا جب واشنگٹن نے باضابطہ طور پر مغربی صحارا پر مراکش کی سیادت کو تسلیم کر لیا۔ مراکش کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے ابراہیمی معاہدے پر دستخط کا اعلان ہوتے ہی امریکا نے اسے بڑے پیمانے پر اسلحے کی فروخت اور بھاری سرمایہ کاری کی یقین دہانی کرائی۔
• اسرائیل نے ابراہیمی معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش، اور سوڈان میں اپنے سفارت خانے قائم کرلیے ہیں ۔
• تل ابیب کو ابوظبی، دبئی، منامہ، دارالبیضاء مراکش سے براہِ راست پروازوں کے ذریعے جوڑ دیا گیا ہے۔
• معاہدے کے شریک ملکوں اور اسرائیل کے مابین سیاست، معیشت، دفاع اور انتظامی اُمور میں باہمی تعاون کے اُمور طے پائے ہیں اور ان ملکوں کے وزرا، افسران، اور کاروباری شخصیات کے باہم دورے جاری ہیں ۔
• ان معاہدوں پر دستخط کرنے والے ملکوں نے عبرانی زبان سیکھنی اور سکھانی شروع کردی ہے ۔کئی اماراتی و مراکشی طلبہ نے اسرائیل کی یونی ورسٹیوں اور تحقیقی اداروں میں داخلہ لے لیا ہے اور تعلیمی و تربیتی کورسز کا آغاز کیاہے۔ثقافتی تبادلے کے طور پر اسرائیلی سیاح بڑی تعداد میں امارات اور مراکش کا رُخ کر رہے ہیں۔
• اسرائیل اور امارات کے درمیان تجارتی تبادلے کی مالیت پہلے ہی سال ۵۰۰ ملین ڈالر سے تجاوز کر گئی۔
• دونوں ملکوں کے مابین سکیورٹی اور دفاع کے شعبے میں تعاون شروع ہوگیا ہے، خصوصاً سائبر سکیورٹی، انٹیلی جنس، اور تکنیکی شراکت داری کے شعبوں میں تعاون روزافزوں ہے۔
• دو سال کے اندر، اماراتی وفد نے پہلی مرتبہ اسرائیل کا سرکاری دورہ کیا، اور معیشت، سرمایہ کاری، ہوا بازی، ویزا سے استثنا جیسے شعبہ جات میں کئی معاہدے طے پائے۔
• دسمبر ۲۰۲۱ء میں اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے ابو ظبی کا علانیہ سرکاری دورہ کیا تھا، یہ کسی اسرائیلی وزیرِ اعظم کی طرف سےامارات کا پہلا دورہ تھا۔
• فروری ۲۰۲۲ء میں اسرائیلی وزیرِ دفاع بینی گینٹز نے بحرین کا غیر علانیہ دورہ کیا۔ اسی وقت دونوں ملکوں کے مابین ایک اہم دفاعی معاہدے پر دستخط کی خبر بھی سامنے آئی۔
۹ فروری ۲۰۲۲ء کو’اسرائیل ڈیفنس‘ ویب سائٹ نے انکشاف کیا کہ بحرین نے اسرائیلی کمپنی سے ڈرون مخالف ریڈار نظام خریداہے۔
یہ تمام پیش رفت نہ صرف سیاسی بلکہ دفاعی، اقتصادی اور ثقافتی شعبوں میں بھی دونوں جانب گہرے روابط کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
• ۲۲ مارچ ۲۰۲۲ء کو مصر کے شہر شرم الشیخ میں اسرائیل، مصر، اور متحدہ عرب امارات کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں ایران کے اثر و نفوذ پر قدغن لگانے پرغور کیا گیا۔
• l ۲۸مارچ ۲۰۲۲ء کو جنوبی اسرائیل میں واقع صحرائے نقب میں ہونے والے اجلاس میں مصر، امارات، مراکش، بحرین، اور امریکا کے وزرائے خارجہ شریک ہوئے۔ یہ اجلاس مذکورہ معاہدات کے تناظر میں مشترکہ علاقائی تعاون کا گویامظہر تھا۔
• مراکش نے اسرائیل کے ساتھ متعدد شعبوں میں معاہدے کیے جس میں معیشت، تعلیم، سیاحت، اور دفاع کے شعبے شامل ہیں۔
• اسرائیلی وزیرِ دفاع بینی گینٹز اور وزیر صنعت اورنا باربیفائی نے مراکش کے شہر رباط کا دورہ کیا۔
• مراکش کے وزیر صنعت حفیظ علمی اور اسرائیلی ہم منصب عمیر پیریٹس کے درمیان صنعتی تعاون پر مذاکرات ہوئے۔
• وزرائے تعلیم —سعید امزازی (مراکش) اور یوآف گالانت (اسرائیل)نے طلبہ کے تبادلے اور دونوں ملکوں کے ثانوی اسکولوں کی یکجہتی کے ’باہم تعاون منصوبے‘ پر پیش رفت کی۔
• مراکش اور اسرائیل نے سکیورٹی اور دفاعی شعبے میں تعاون کے لیے ایک مفاہمتی یادداشت پر بھی دستخط کیے، جو وزیر دفاع گینٹز کی سرکاری طور پر رباط آمد کے موقع پر ہوئے۔
عرب ملکوں کی طرف سے اپنے عوام کے سامنے شرمندگی سے بچنےکے لیے ابراہیمی معاہدات پر دستخط کرتے ہوئے یہ دلیل دی گئی تھی کہ ہم اسرائیل سے ابراہیمی معاہدے اس شرط پر کررہے ہیں کہ اسرائیل فلسطین کے مغربی کنارے میں نوآبادکاری کی اپنی سرگرمیاں یکسر ترک کردے گا ۔
ان معاہدوں پر دستخطوں کے بعد، اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے باضابطہ طور پر اسرائیلی آباد کاروں کی کونسل کی قیادت کو ایک پیغام بھیجا، جس میں یہ واضح کیا گیا کہ ’’اعلیٰ منصوبہ بندی کونسل برائے مغربی کنارے کی تعمیرات‘،۱۱؍ اکتوبر ۲۰۲۰ء، یعنی(یہود کی ) ’عید العرش‘ کی تعطیلات کے بعد، ایک اجلاس منعقد کرے گی تاکہ مغربی کنارے میں ۵۴۰۰ نئے رہائشی یونٹوں کی تعمیر کی منظوری دی جا سکے۔اس کے علاوہ، اسرائیل نے’بیتر علیت‘ نامی پہلے سے قائم یہودیوں کی نوآباد بڑی بستی کو وسعت دینے اور وہاں ۳ہزار نئے رہائشی یونٹس بنانے کا ارادہ بھی ظاہر کیا۔ اب یہ توسیعی منصوبہ مغربی کنارے میں اور گرین لائن کے قرب و جوار میں واقع کئی متنازع بستیوں تک پھیل چکا ہے اور مغربی کنارے کے فلسطینی علاقے میں غیرقانونی تعمیرات کا یہ سلسلہ پورے زور و شور سے جاری ہے۔