عالمی منظرنامے پر امریکا کی جانب سے ایک بار پھر نام نہاد جنگ بندی ایک بے فیض سرگرمی دکھائی جارہی ہے۔ یاد رہے پہلی جنگ بندی بھی دراصل اسرائیل کے قیدی رہا کرانے کے لیے تھی اور موجودہ نام نہاد جنگ بندی کا بھی یہی مقصد ہے۔اسرائیلی قیادت کھلے عام کہہ رہی ہے کہ مزاحمت کے مکمل خاتمے تک وہ غزہ پر حملے جاری رکھیں گے۔ گویا عارضی جنگ بندی کا اب بھی مقصد صرف اپنے قیدیوں کی رہائی ہے۔ غزہ سے فلسطینیوں کے انخلا پر امریکی صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم میں مکمل اتفاق ہے۔ دوسری جانب حماس کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کا معاہدہ 'معقولیت ' کی بنیاد پر ہوگا۔
اسرائیلی قیدیوں کے لواحقین کے سخت دباؤ کے باعث نیتن یاہو کچھ لچک دکھا رہے ہیں، لیکن یہ بھی محض وقت گزاری نظر آتی ہے۔ قطر میں جاری مذاکرات کے دوران ۱۰ جولائی کو اسرائیل نے جو نقشہ پیش کیا اس کے مطابق مصر کی سرحد پر واقع رفح اسرائیل کے قبضے میں دکھایا گیا ہے۔ علاقے پر گرفت مضبوط رکھنے کے لیے رفح سے خان یونس کو علیحدہ کرنے والے موراغ راستے (Morag Corridor) تک اسرائیلی فوج تعینات رہے گی۔ اسی نقشے میں غزہ کی تمام جانب تین سے چارکلومیٹر کی پٹی پر بفر زون دکھایا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ شمالی غزہ کے شہر بیت لاہیا اور بیت حانون میں بھی اسرائیلی فوج موجود رہے گی۔ غزہ شہر کے محلوں التفاح، الشجاعیہ، الزیتون، دیر البلح اور القرارۃ سمیت ۶۰ فی صد غزہ اسرائیلی عسکری شکنجے میں رہے گا اور یہاں کے بے گھر فلسطینیوں کو رفح میں قائم کیے گئے عارضی کیمپوں میں ٹھونس دیا جائے گا تاکہ موقع ملتے ہی انھیں رفح پھاٹک کے ذریعے مصر کی جانب دھکیل دیا جائے۔
امن بات چیت کے ساتھ غزہ میں امدادی مراکز پر موت کی تقسیم جاری ہے۔ بہت سے فلسطینی امداد تک رسائی کی کوشش میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔ فلسطینی انھی امدادی قافلوں کے راستے میں اسرائیلی فائرنگ اور ڈرون حملوں کا نشانہ بنے جنھیں اقوامِ متحدہ اور دیگر ادارے چلا رہے ہیں۔ گذشتہ ہفتے ایک اسرائیلی ریزرو فوجی نے بتایا کہ غزہ میں تعینات فوجیوں کو حکم ہے کہ جو بھی ’نو-گو زون‘ میں داخل ہو، چاہے وہ نہتا شہری ہی کیوں نہ ہو، اسے فوراً گولی مار دی جائے۔ ’جو بھی ہمارے علاقے میں داخل ہو، اسے مرنا چاہیے، چاہے وہ سائیکل چلاتا کوئی نوجوان ہی کیوں نہ ہو‘۔ اس سے پہلے اسرائیلی جریدے ھآریٹز کو دسمبر اور جنوری میں کئی سپاہیوں نے بتایا تھا کہ سویلین فلسطینیوں پر بلاجواز فائرنگ کے احکامات ڈویژن کمانڈر بریگیڈیئر جنرل یہودا واش نے خود دئیے تھے۔
نسل کشی کے خلاف اٹھنے والی آواز کو دبانے کے لیے امریکا بدستور پُرعزم ہے۔ غزہ میں اسرائیلی مظالم کو ’نسل کشی‘ کہنے اور بڑی امریکی کمپنیوں کو اس میں شریک ٹھیرانے کے 'جرم میں اقوامِ متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانچیسکا البانیز پر امریکی حکومت نے پابندیاں عائد کر دیں۔ امریکی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ 'اسرائیل اور امریکا، دونوں، البانیز کے الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔ ' البانیز نے عالمی عدالتِ انصاف (ICC)کے اسرائیلی رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری کی حمایت کرتے ہوئے عالمی برادری سے اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
البانیز کی رپورٹ میں گوگل، مائیکروسوفٹ اور ایمیزون پر اسرائیل کے غزہ آپریشن کو کلاؤڈ اور مصنوعی ذہانت کی خدمات فراہم کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس کے جواب میں گوگل کے شریک بانی، سرگئی برن (Sergey Brin) نے رپورٹ کو ’کھلی اور فاش یہود دشمنی‘ قرار دے کر سخت تنقید کی۔
دوسری طرف نسل کشی کےخلاف عوامی جذبات میں بھی شدت آرہی ہے۔ جون کے آخری ہفتے میں ہونے والا انگلستان کا کلاسٹونبری موسیقی میلہ، ’اسرائیلی فوج مُردہ باد‘ کے نعروں سے گونج اُٹھا تھا۔ اسی طرح گذشتہ ہفتے ہسپانوی شہر فالنسیا کے موسیقی میلے میں اس وقت ایسی ہی صورتِ حال پیدا ہوئی جب لاطینی گلوکار ریزیڈینتے فلسطین کا پرچم تھامےاسٹیج پر آئے۔ میلے کے ہزاروں شائقین نے فلسطینی پرچم لہراتے ہوئے ’فری فری فلسطین‘ کی دُھن پر ناچنا شروع کردیا بلکہ یوں کہیے کہ سازوں کی دُھن کو اہل غزہ کے حق میں تبدیل کر دیا۔
دنیا کے انصاف پسند لوگ اہل غزہ کو تنہا چھوڑنے پر راضی نہیں اور ۱۳ جولائی کو اٹلی کے شہر سیراکوس کی بندرگاہ سے انسانی امداد سے لدی ایک اور کشتی غزہ کے لیے روانہ ہوگئی۔ اس مشن کا مقصد اسرائیلی ناکہ بندی کو چیلنج کرنا اور محصور فلسطینیوں تک امداد پہنچانا ہے۔’حنظلہ‘ نامی یہ کشتی، ماضی میں روانہ کی جانے والی ’فریڈم فلوٹیلا‘ جیسی عالمی کاوشوں کی طرز پر نکالی گئی ہے، جس کا مقصد دنیا کی توجہ غزہ کی ظالمانہ ناکہ بندی کی طرف مبذول کروانا اور اسرائیلی پابندیوں کو توڑنا ہے۔
غرب اُردن میں اسرائیلی قبضہ گردوں کی وحشیانہ کارروائی جاری ہے۔ ۱۱ جولائی کو رام اللہ کے شمال میں امریکی شہریت کے حامل ۲۳ سالہ فلسطینی نوجوان سیف الدین مسلت کو درجنوں اسرائیلی آبادکاروں نے بہیمانہ تشدد کرکے شہید کر دیا۔ فلسطینی شہری غرب اردن میں خربت التل کی طرف پُرامن احتجاج کے لیے جا رہے تھے، جہاں ایک نئی غیرقانونی اسرائیلی چوکی تعمیر کی گئی ہے۔ راستے میں یہودی دہشت گردوں نے انھیں روک کر حملہ کر دیا۔ کم از کم ۱۰ فلسطینیوں کو گاڑیوں تلے کچل دیا اور دہشت گردوں نے زیتون کے باغ کو بھی آگ لگا دی۔ جب اس واقعے کی رپورٹنگ کرنے CNNکے سینئر صحافی جیرمی ڈائمنڈ وہاں پہنچے تو یہودی قبضہ گردوں نے ان پر حملہ کردیا۔ان کی گاڑی کے شیشے توڑ دیئے گئے۔ اسرائیل کے پرجوش حامی ڈائمنڈ نے بلبلاتے ہوئے کہا: ’’یہ صرف ایک جھلک ہے اس حقیقت، یعنی قبضہ گردوں کی جارحیت کی، جس کا سامنا مغربی کنارے پر آباد فلسطینیوں کو ہر روز کرنا پڑتا ہے‘‘۔
غرب اُردن میں قابضین نے جہاں فلسطینیوں کا جینا حرام کر رکھا ہے، وہیں اب مسلمانوں کی قبریں بھی محفوظ نہیں رہیں۔ یروشلم کے یوسفیہ قبرستان میں کئی قبروں کی لوحِ مزار اکھاڑ دی گئی ہیں۔معاملہ مسلمانوں تک محدود نہیں۔ دہشت گردوں نے اسی دن یروشلم کے مضافاتی علاقے طیبہ کے قدیم کلیسائے سینٹ جارج قبرستان کے ایک حصے کو آگ لگادی۔پانچویں صدی کا یہ کلیسا ایک تاریخی ورثہ ہے، اس قبرستان میں حضرت مسیح کے خلفا اور بہت سے بزرگ مدفون ہیں۔
اس صورتِ حال پر فیلیپ لازارینی کا ٹویٹ پڑھیے:’’غزہ فاقہ کشی کا قبرستان بن چکا ہے۔ خاموشی اور بے عملی درحقیقت شراکتِ جرم ہے۔ اہلِ غزہ کے پاس یا تو بھوک سے مرنے یا گولی کھانے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ یہ بے رحم اور شیطانی منصوبہ ہے، قتل کا ایک ایسا نظام جس پر کوئی گرفت نہیں۔ اصول، اقدار اور انسانیت کو دفن کیا جا رہا ہے۔ جو لوگ خاموش ہیں، وہ مزید تباہی کا راستہ ہموار کر رہے ہیں۔ عمل کا وقت گزر چکا، اب بھی نہ جاگے تو ہم سب اس المیے کے شریکِ جرم ہوں گے!‘‘