۲۰۲۵ اگست

فہرست مضامین

قحط اور انسانیت کشی کا دوسرا نام غزہ

ڈاکٹر اسامہ شفیق | ۲۰۲۵ اگست | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

غزہ میں انسانی تاریخ کے ایک المیہ، بدترین صورتِ حال میں ڈھل چکا ہے۔ ہم یہاں برطانیہ کے اخبارات کی رپورٹنگ سے کچھ حصے پیش کر رہے ہیں۔ 

غزہ میں اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کی ایجنسی کے سربراہ نے گذشتہ دنوں کہا: ’’ہمارے فرنٹ لائن عملے کے ارکان بھوک سے بے ہوش ہو رہے ہیں، کیونکہ غزہ میں بھوک سے مرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے‘‘۔ 

اقوام متحدہ کی ’ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی‘ (UNRWA: ’انروا‘) کے سربراہ فلپ لازارینی نے کہا: ’’یہ سنگین ہوتی صورت حال ہر کسی کو متاثر کر رہی ہے، یہاں تک کہ ان لوگوں کو بھی جو جنگ زدہ علاقے میں زندگیاں بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب دیکھ بھال کرنے والے خود کھانے کو ترس رہے ہوں تو پورا انسانی امدادی نظام تباہ ہو جاتا ہے‘‘۔ 

لازارینی کے بقول: ’’میرے ایک ساتھی نے بتایا ہے کہ ’’غزہ کے لوگ نہ زندہ ہیں، نہ مُردہ، وہ چلتی پھرتی لاشیں ہیں‘‘۔ 

مزید یہ کہ: ’انروا‘ کے پاس اردن اور مصر میں خوراک اور طبی امداد سے لدے تقریباً ۶ہزار ٹرک موجود ہیں، مگر اسرائیلی حکام امداد غزہ پہنچنے نہیں دے رہے!‘‘ 

صحافیوں اور خدمتی سرگرمیوں سے وابستہ افراد کے ذریعے ایسی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ لوگ بھوک سے زمین پر گر کر مر رہے ہیں۔ سول ڈیفنس کے کارکنوں نے ایسے کمزور جسموں کی تصاویر بنائی ہیں، جن پر محض کھال باقی ہے۔ طبّی ذرائع کے مطابق گذشتہ روز دو اور افراد بھوک سے مر گئے۔ دونوں بیمار تھے اور کئی دنوں سے کچھ نہیں کھایا تھا‘‘۔ 

بین الاقوامی دباؤ بڑھ رہا ہے کیونکہ بھوک سے مرنے والے فلسطینیوں کی تصاویر اسرائیلی ناکہ بندی پر عالمی سطح پر مذمت کا باعث بن رہی ہیں۔۲۳جولائی کو فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے کہا: ’’میں نے فیصلہ کیا ہے کہ فرانس فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرلے گا‘‘۔ 

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ دہشت گردی کو انعام دینا ہے‘‘۔ اس سے قبل، برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے ایک بیان میں کہا: ’’غزہ میں جو تکلیف اور بھوک کا عالم ہے، وہ ناقابلِ بیان اور ناقابلِ دفاع ہے۔ اگرچہ یہ صورتِ حال کافی عرصے سے سنگین ہے، لیکن اب اس نے ایک نیا اندوہناک موڑ لیا ہے اور بدستور بگڑتی جا رہی ہے۔ ہم ایک انسانی المیے کا مشاہدہ کر رہے ہیں‘‘۔ 

—— سی کے مطابق: ’’غزہ میں اسرائیل کی جانب سے مسلط کردہ قحط اب بدترین شکل اختیار کرچکا ہے۔ عالمی ادارے ہر روز غزہ کی صورتِ حال پر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہیں۔ اب اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی اس صورتِ حال پر عالمی ضمیر سے اپیل کی ہے‘‘۔ 

اخبار گارڈین، لندن (۲۵ جولائی) کے مطابق: ایک طبی امدادی ادارے کا کہنا ہے: ’’غزہ شہر میں ہمارے کلینک میں پانچ سال سے کم عمر بچوں میں شدید غذائی قلت کی شرح پچھلے دو ہفتوں میں تین گنا بڑھ گئی ہے کیونکہ اسرائیلی محاصرے کے باعث فاقہ کشی کی صورتِ حال مزید بگڑ رہی ہے‘‘۔ 

عالمی امدادی ادارے برابر خبردار کر رہے ہیں: غزہ بڑے پیمانے پر قحط کی جانب بڑھ رہا ہے، جہاں روزانہ فاقہ کشی سے اموات ہو رہی ہیں۔ اس کے برعکس اسرائیل صرف معمولی مقدار میں امداد داخل ہونے دے رہا ہے۔ 

مئی سے اب تک غزہ شہر کے مرکز میں غذائی قلت کے مریضوں کی تعداد چار گنا بڑھ چکی ہے۔موجودہ فاقہ کشی کی صورتِ حال کی ذمہ داری اسرائیل کی ’قحط میں مبتلاء کرنے کی پالیسی‘ پر عائد ہوتی ہے، جب کہ ۱۰۰ سے زائد امدادی اداروں کو اسرائیل نے غزہ میں امداد کی فراہمی سے روک رکھا ہے۔اسرائیلی حکام کی جانب سے غزہ میں بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی حکمت عملی انتہائی خطرناک سطح تک پہنچ چکی ہے، بلکہ اب تو طبی عملہ خود اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ 

عالمی ادارہ خوراک (WFP) کے مطابق: ’’غزہ کی ایک تہائی آبادی کئی دنوں سے کچھ نہیں کھا سکی، اور بحران ناقابلِ یقین سطح تک پہنچ چکا ہے۔’’ہر تین میں سے تقریباً ایک شخص کئی دنوں سے بھوکا ہے۔ غذائی قلت میں اضافہ ہو رہا ہے،۹۰ہزار خواتین اور بچے فوری علاج کے محتاج ہیں‘‘۔ 

غزہ میں ایک ماہر امراضِ نسواں ڈاکٹر ناجی القراشلی نے بتایا ہے: ’’دستیاب اعداد و شمار مسئلے کی اصل شدت کو کم ظاہر کر رہے ہیں۔یہ صورتِ حال ناقابل تصور ہے۔ میرے پورے طبی کیریئر میں، میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ انسان ظلم اور حیوانیت کی اس حد تک گر جائے گا۔ مریضوں میں اسقاط حمل کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، کیونکہ مائیں اپنے لیے خوراک تلاش نہیں کر پاتیں۔ جو بچے زندہ پیدا ہوتے ہیں، وہ انتہائی کم وزن کے حامل، قبل از وقت یا بگڑے ہوئے اعضا کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیں‘‘۔ 

ڈاکٹر القراشلی نے بڑے دُکھ اور کرب میں بتایا: ’’ہمارے پاس غذائی قلت کی شکار خواتین کے علاج کے لیے درکار طبی سامان نہیں ہے۔ ہم مجبور ہیں کہ دیگر ڈاکٹروں کے استعمال شدہ گندے دستانے استعمال کریں اور تاریخِ استعمال ختم ہونے والی دوائیں تجویز کرنا ہماری مجبوری ہے۔ بطور ایک بےبس ڈاکٹر یہ انتہائی تکلیف دہ احساس ہے۔ کئی بار میں ہسپتال سے بھاگ کر نکل جاتی ہوں کیونکہ میں یہ حقیقت برداشت نہیں کر سکتی کہ میں ان خواتین کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر سکتی‘‘۔(گارڈین، ۲۶ جولائی ۲۰۲۵ء) 

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیلی پابندیوں کے تحت جہاں ممکن ہو رہا ہے کام کر رہا ہے۔ ان پابندیوں نے امدادی نظام کو پہلے سے موجود ۴۰۰ مراکز کے استعمال سے روک دیا ہے۔ 

اسی دوران برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے رہنماؤں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے: ’’غزہ میں انسانی تباہی کا خاتمہ اب ہونا چاہیے اور اسرائیلی حکومت کو امدادی پابندیاں ختم کرنی چاہئیں‘‘۔ 

اسرائیلی فوج نے ۲۵؍جولائی کو اعلان کیا: ’’ہم نے اردن اور متحدہ عرب امارات کو فضائی طور پر غزہ میں امداد پہنچانے کی اجازت دے دی ہے‘‘۔ یاد رہے ایک پرواز مہنگی پڑتی ہے اور امدادی سامان کی مقدار ٹرکوں کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہے۔ حماس نے اس اقدام کو ایک ’سیاسی ڈراما‘ قرار دیا۔ 

حماس حکومت کے میڈیا دفتر کے ڈائریکٹر، اسماعیل الثوابتہ نے رائٹرز کو بتایا: ’’غزہ کو فضائی امداد کے کرتب نہیں، بلکہ ایک کھلی انسانی راہداری اور روزانہ امدادی ٹرکوں کی مسلسل آمد درکار ہے، تاکہ باقی ماندہ محصور اور بھوکے شہریوں کی زندگی بچائی جا سکے‘‘۔ 

کتنے ہی فلسطینی افراد نے بتایا ہے کہ ’’امدادی مراکز سے نہایت معمولی امداد کے حصول کے لیے ہم گھنٹوں کھڑے رہتے ہیں، مگر امداد کے حصول میں ناکام رہتے ہیں، یا پھر اسرائیلی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں‘‘۔ یہ امر واقعہ ہے کہ ان مراکز سے امداد کے حصول کے لیے کھڑے افراد میں سے ایک ہزار سے زیادہ مستحقین کو اسرائیلیوں نے گولی مار کر شہید کر دیا ہے۔ 

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریش نے عالمی برادری پر تنقید کرتے ہوئے کہا: ’’وہ غزہ میں سسک سسک کر مرنے والے فلسطینیوں کی بھوک پر ریت میں سر چھپائے ہوئے ہے۔ یہ المیہ صرف ایک انسانی بحران نہیں ہے، بلکہ عصرحاضر میں ایک خوفناک اخلاقی بحران بھی ہے، جو عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے، مگر صدافسوس کہ بڑی طاقتیں ٹس سے مَس نہیں ہورہی ہیں‘‘۔