سادگی اس فطری ذوق کا عنوان ہے، جس کے نتیجے میں انسان کسی قدر اطمینان اور اعتماد کے ساتھ وہ دکھائی دیتا ہے جو وہ واقعتاً ہوتا ہے۔ سادگی کسی انسان کی شخصیت کا وہ پہلو ہے جو کبر، حرص اور نمائش سے خود کو بچانے کی جدوجہد سے حاصل ہوتا ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ ’سادگی ایمان کی دلیل ہے‘۔ اس کی برکت سے انسان تصنع، بناوٹ اور تکلفات سے خود کو پاک رکھتے ہوئے اپنے احساسِ جمال کی بہ آسانی تسکین کرتا ہے۔
سادگی بامعنی زندگی کی بہت اہم قدر ہے، جس کا مقصد اس مستقل ذمہ داری کو نبھاتے رہنا ہے کہ اپنی ضروریات کو مختصر اور محدود رکھا جائے اور خواہشات کی اندھی تقلید کے بجائے ان کو پرکھتے رہا جائے۔ سادگی کا تعلق انسان کے مزاج سے بھی ہے اور اس کے طرزِ زندگی سے بھی۔ جب انسان سادگی اختیار کرتا ہے تو وہ نہ تو اپنے نام کے ساتھ القابات سننا چاہتا ہے، اور نہ اپنی تعریف ہی قبول کرتا ہے۔ ایسا انسان نہ تو کسی سے مرعوب ہوتا ہے اور نہ کسی کو مرعوب کرنا چاہتا ہے۔ کسی انسان کی نفاست اور وقار جب مادی سہاروں کے محتاج نہ رہیں تو سادگی جنم لیتی ہے۔ سادگی زندگی کا ایک ایسا خوب صورت رکھائو اور رچائو ہے، جو انسان میں انکسار اور وضع داری کو فروغ دیتا ہے۔
سادگی کے راستے کی دیواریں اسراف، نمود، تصنع اور تکلّف ہیں:
اس وقت مسلم معاشرے میں اسراف، نمود، تصنع اور تکلف سے مساجد اور مذہبی اداروں سے لے کر تعلیم یافتہ گھرانوں تک کوئی محفوظ نہیں ہے۔ اگر کوئی مسلمان ان میں سے کسی ایک بھی خرابی کا شکار ہوجائے تو وہ آہستہ آہستہ باقی خرابیوں میں بھی مبتلا ہوجاتا ہے۔ پھر ایک ایسا وقت آجاتا ہے کہ اسے اپنا یہ خراب عمل بھی اچھا لگنے لگتا ہے اور وہ اس کے حق میں جواز بھی ڈھونڈ لیتا ہے۔ اسراف میں مبتلا لوگوں کے بارے میں قرآن نے خبردار کر دیا کہ جو لوگ حد سے گزر جاتے ہیں، انھیں اپنے کرتُوت اسی طرح خوش نما معلوم ہوتے ہیں۔(یونس۱۰:۱۲)
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ مال کے حوالے سے مسلمان کی ذمہ داری صرف جائز کمانا ہی نہیں بلکہ اسے جائز خرچ کرنا بھی ہے۔ غور کیجیے کہ ربّ کریم نے اپنے کلامِ پاک میں انسانوں کو ان کا حق دینے اور فضول خرچی سے بچنے کا حکم ایک ساتھ دیا ہے۔ ان قرآنی آیات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ہم اپنا مال درست جگہ اور درست مقصد میں خرچ کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو معاشرے میں دوسروں کی حق تلفی ہوتی ہے:
وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّہٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا۲۶ اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّيٰطِيْنِ۰ۭ وَكَانَ الشَّيْطٰنُ لِرَبِّہٖ كَفُوْرًا۲۷ (بنی اسرائیل ۱۷: ۲۶-۲۷) رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین او ر مسافر کو اس کا حق۔ فضول خرچی نہ کرو۔ فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے ربّ کا ناشکرا ہے۔
’اسراف‘ کی ایک شکل یہ ہے کہ انسان کی زندگی میں آرام اور سہولت اپنی جائز حد سے تجاوز کرجائے اور زندگی پُرتعیش ہوجائے۔ قرآن نے اس حوالے سے واضح احکام دیے ہیں کہ حرام کیا ہے اور اس کی حد کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ لیکن ’اسراف‘ سے بچنے کا معاملہ انسان کے شعور پر چھوڑا گیا ہے کہ وہ سیرتِ رسولؐ سے اصول اخذ کرتا رہے اور اپنے معاملات کا خود ہی جائزہ لیتے ہوئے خود کو حد کے اندر رکھنے کے لیے ان اصولوں کا انطباق کرے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن بھیجا تو فرمایا: ’نازونعم کی زندگی سے بچنا، کیونکہ اللہ کے بندے نازونعم کی زندگی نہیں گزارا کرتے‘ (مسنداحمد، رقم:۲۲۱۰۵)۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ حضرت معاذؓ، رسول ؐ اللہ کے تربیت یافتہ اور قریبی صحابی تھے اور ایک اہم سرکاری منصب پروہاں تعینات کیے گئے تھے۔ تعیشات جس طرح کسی عام انسان کو بگاڑنے کا باعث بن سکتی ہیں، توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ایسے جلیل القدر صحابی پراثرانداز نہیں ہوسکتی تھیں۔ پھر اعلیٰ منصب کے شایانِ شان وسائلِ تعیش کا مہیا ہوجانا اور ان سے تمتع معاشرے کے لیے کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی۔ بلکہ بہت سے عام لوگوں کے لیے بلاشبہ توقع کے عین مطابق ہوتی۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ چاہتے تھے کہ تعیش اگر حرام نہ بھی ہو تو بھی روحِ بندگی کو محفوظ رکھنے کے لیے اس سے خود کو بچانے کی کوشش کی جائے۔ اس حدیث کی شرح میں مُلّا علی قاریؒ فرماتے ہیں: خواہشات کی تکمیل میں حد سے بڑھ کر کوشش کرنے اور لذتوں کا حریص و مشتاق رہنے سے منع کیا گیا ہے‘۔(مرقاۃ المفاتیح، ج۸، ص ۳۲۹۵)
شیخ زین الدین مناویؒ فرماتے ہیں: ’’عیش و عشرت اگرچہ مباح چیزوں میں جائز ہے، لیکن یہ صفت، تعیش کے ساتھ انسان میں انسیت پیدا کرتی اور غفلت کی طرف مائل کردیتی ہے۔ اسی طرح ایک دفعہ رسولؐ اللہ کو ایک قیمتی لباس تحفے میں پیش کیا گیا، جو ۳۳؍اُونٹ اور ایک اُونٹنی کے عوض خریدا گیا تھا، اور آپؐ نے اسے ایک بار پہنا۔ لیکن رسول ؐ اللہ چونکہ معصوم ہیں اور مباح کی حدود سے بخوبی واقف ہیں، اس لیے آپؐ پر ایسی چیزیں اثرانداز نہ ہوتی تھیں جن کے نتیجے میں غرور، تکبر، خوشامد یا ناپسندیدہ چیزوں کی طرف تجاوز کا احتمال ہو، جب کہ عام انسان اس قسم کے خطرات سے محفوظ نہیں رہ سکتا‘‘۔
اس واقعے میں غور کرنے کے کئی پہلو ہیں: پہلا یہ کہ اتنا بیش قیمت لباس آپؐ نے خود نہیں خریدا تھا بلکہ آپؐ کو تحفے میں پیش کیا گیا تھا۔ دوسرا یہ کہ رسول ؐ اللہ لوگوں کی دل جوئی کی خاطر تحفہ قبول فرما لیا کرتے تھے، لہٰذا ایسا قیمتی لباس بھی قبول کرلیا۔ تیسرا یہ کہ رسولؐ اللہ نے اپنے عمل سے یہ واضح کردیا کہ قیمتی لباس پہننا حرام نہیں ہے۔ چوتھا یہ کہ آپؐ نے اس لباس کو دوبارہ پہننا گوارا نہیں کیا۔
جب انسان دوسروں سے اپنے تعلق کو خوب صورت بنانے کے بجائے ان پر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے بے چین رہے، تو اسراف اور نمود کا رجحان پروان چڑھتا ہے۔ اسی طرح جب انسان اپنے اندر اخلاص کو زندہ رکھنے کے بجائے دوسروں پر اپنی ساکھ قائم کرنے کے لیے متفکر ہوجائے تو تصنع اور تکلف پیدا ہوتا ہے۔ ساکھ بہت اہم اور قیمتی چیز ہے، لیکن اسے ہمارے طرزِزندگی کا مقصود نہیں بننا چاہیے۔ حقیقی ساکھ ظاہری اور مادی سازوسامان سے نہیں بلکہ انسان کے ایمان، اخلاق اور کھرے معاملات کے نتیجے میں خود بخود قائم ہوتی ہے۔
خود کو حد سے اندر رکھنے یعنی ’اسراف‘ سے بچنے اور سادگی اختیار کرنے کی ذمہ داری مسلمان پر زندگی کے ہرمعاملے میں ہے۔ ’اسراف‘ صرف خرچ کرنے کے معاملے میں نہیں ہوتا بلکہ کھانے، سونے اور بولنے کے معاملے میں بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی انسان کھانے کے معاملے میں اس سے زیادہ کھاتا (یا بناتا) رہے جتنی کہ اس کی ضرورت ہے۔ سونے کے معاملے میں اپنی نیند کی جائز ضرورت سے تجاوز کرے۔ بولنے میں غیرضروری طور پر اپنی بات کو طول دے یا ہرمسئلے پر ہرگھڑی کچھ نہ کچھ بولنے کی ضرور کوشش میں رہے، اور کسی مجلس میں بلاوجہ بولنے اور ہربات پر رائے زنی کی کوشش کرے تو یہ سب اسراف ہی کی صورتیں ہیں۔
مسلم معاشرے میں پائے جانے والے ’اسراف‘ کے دو عمومی اسباب ہیں:
صحابہ کرامؓ ’اسراف‘ کے حوالے سے کس قدر حساس اور محتاط تھے، اس کا اندازہ اس واقعے سے ہوتا ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ ایک دفعہ اپنے بیٹے کے پاس آئے۔ ان کے سامنے پکا ہوا گوشت سجا ہوا تھا۔ انھوں نے یہ دیکھ کر سوال کیا: ’یہ کیا ہے؟‘ بیٹے نے جواب دیا: ’’مجھے گوشت کھانے کی خواہش تھی تو میں نے خرید لیا‘‘۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ’’تمھارا جس چیز کو دل چاہے گا تو کیا تم اسے ضرور کھائو گے؟ انسان کے اسراف کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ ہروہ چیز کھائے جس کی اس کو چاہت ہو‘‘۔(کنزالعمال، رقم: ۳۵۹۱۹)
’اسراف‘ نمود، تصنع اور تکلف کا شکار ہونے کے باعث سادگی لوگوں کے لیے ایک ناگوار معاملہ بن گیا ہے۔ ’انفاق فی سبیل اللہ‘ کا جذبہ اور روح پامال ہورہی ہے۔ انسانی تعلق کی پاکیزگی متاثر ہورہی ہے اور اپنائیت کا احساس دشوار تر ہوتاجارہا ہے۔ مسلمانوں کی توانائیاں، وقت، مال اور صلاحیتیں، اسراف، نمود، تصنع اور تکلف میں ضائع ہورہی ہیں اور زندگی پیچیدہ اور بے معنی بنتی چلی جارہی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ معاملات ریاکاری، حرص، طمع اور حسد کو فروغ دینے کا باعث بنے ہیں اور جس کا نتیجہ مسلمانوں کی اخلاقی، نفسیاتی اور ایمانی صحت کی خرابی کی شکل میں قدم قدم پر ظاہر ہورہا ہے۔ حالانکہ قرآن کریم میں اس حوالے سے مسلمانوں کو بہت واضح تنبیہ کی گئی ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰى۰ۙ كَالَّذِيْ يُنْفِقُ مَا لَہٗ رِئَاۗءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْيَـوْمِ الْاٰخِرِ۰ۭ فَمَثَلُہٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْہِ تُرَابٌ فَاَصَابَہٗ وَابِلٌ فَتَرَكَہٗ صَلْدًا۰ۭ لَا يَـقْدِرُوْنَ عَلٰي شَيْءٍ مِّـمَّاكَسَبُوْا۰ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ۲۶۴ (البقرہ ۲:۲۶۴)اے ایمان لانے والو! اپنے صدقات کو احسان جتاکر اور دُکھ دے کر اُس شخص کی طرح خاک میں نہ ملادو، جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے، نہ آخرت پر۔ اُس کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک چٹان تھی، جس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی۔ اس پر جب زور کا مینہ برسا، تو ساری مٹی بہہ گئی اور صاف چٹان کی چٹان رہ گئی۔ ایسے لوگ اپنے نزدیک خیرات کرکے جو نیکی کماتے ہیں، اس سے کچھ بھی اُن کے ہاتھ نہیں آتا، اور کافروں کو سیدھی راہ دکھانا اللہ کا دستور نہیں ہے۔
’اسراف‘ کا شکار ہونے والے انسان کو حُب ِ مال ، حُب ِ جاہ ، ریاکاری میں مبتلا ہونے اور اخلاص سے محروم ہوجانے کا بھی خطرہ لاحق رہتا ہے اور پھر اسے اپنے ’اَسراف‘ پر دوسروں سے تعریفیں سننے کا شوق پیدا ہوجاتا ہے۔ ریاکاری سے مراد وہ نیکی ہے، جو لوگوں کو دکھانے کے لیے کی جائے۔ حُب ِ مال اور ریاکاری کوئی چھوٹے مسئلے نہیں ہیں۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق:’’مومن کے ایمان کو برباد کرنے اور اس کی تمام نیکیوں کو کھا جانے والے مسائل ہیں‘‘۔ (سنن ترمذی، رقم: ۲۳۷۶، صحیح مسلم، رقم: ۴۹۷۲)
’اسراف‘ کے نتیجے میں اخلاص سے محرومی کیا نقصان کرسکتی ہے، اس کا اندازہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمانِ مبارک سے ہوتا ہے جس کا مفہوم ہے: جو شخص اس علم کو، جس کے ذریعے اللہ کی رضا حاصل کی جاتی ہے، اس لیے سیکھتا ہے کہ اس سے دُنیا کا سازوسامان حاصل کرے، تو وہ قیامت کے دن جنّت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا (سنن ابی داؤد، رقم: ۳۶۶۴، صحیح بخاری، رقم: ۶۴۹۹)
ایک اور موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص دکھلاوے کے لیے کوئی عمل کرتا ہے، تو اللہ قیامت کے دن اسے رُسوا کر دے گا اور جو کوئی نیک عمل لوگوں کی نظروں میں بڑا بننے کے لیے کرتا ہے تو اللہ اس کے چھپے عیبوں کو لوگوں کے سامنے ظاہر کردے گا‘‘۔
وَالَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ رِئَاۗءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَا بِالْيَـوْمِ الْاٰخِرِ۰ۭ وَمَنْ يَّكُنِ الشَّيْطٰنُ لَہٗ قَرِيْنًا فَسَاۗءَ قَرِيْنًا۳۸ (النساء۴:۳۸) اور (وہ لوگ بھی اللہ کو ناپسند ہیں) جو اپنے مال محض لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور درحقیقت نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ روزِ آخر پر۔ سچ یہ ہے کہ شیطان جس کا رفیق ہوا اُسے بہت ہی بُری رفاقت میسر آئی۔
سادگی بے بسی اور مجبوری کا سودا یا سمجھوتہ نہیں ہے بلکہ یہ اپنی رضا اور شعور کے ساتھ اختیار کی جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی اصحابؓ ایسے تھے، جنھیں اللہ نے بہت مال و دولت سے نوازا تھا، لیکن مال دار ہونے کے باوجود ان کا طرزِ زندگی پُرتعیش نہیں تھا۔ ان کا رہن سہن، خوراک اور لباس وغیرہ بہت سادہ تھے۔ صحابہ کرامؓ نے اپنے مال کے ذریعے آسائشوں کا حصول نہیں کیا بلکہ اس کے ذریعے اپنی زندگی میں انفاق فی سبیل اللہ کو بڑھایا۔ ان کے مال کا ایک قلیل حصہ ان کی جائز ضروریات پر صرف ہوا،اور بڑا حصہ خیر کے کاموں میں لگا۔
سادگی چونکہ انسان کا ایک فطری وصف ہے، لہٰذا اس کو اختیار کرنے کی صلاحیت صرف اللہ کے ماننے والوں تک موقوف نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سادگی کی یہ جھلک ہمیں بعض فطرت پسند غیرمسلموں میں نظر آتی ہے۔ البتہ ایمان کے نتیجے میں جو سادگی کا حُسن و معیار قائم ہوسکتا ہے، وہ کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ عہد ِ حاضر کے معاشرے اس وقت اپنے طرزِ زندگی سے سادگی کا مظاہرہ کرنے سے نہ صرف قاصر ہیں بلکہ اختیاری سادگی کا کوئی تصور بھی نہیں رکھتے۔
ایک مسلمان جو کچھ بھی اپناتا اور اپنے لیے پسند کرتا ہے، اس کے لیے اس کے پاس کوئی ایسی توجیہ ہونی چاہیے کہ وہ خدا کے لیے قابلِ قبول ہو۔ اگر مسلمانوں میں اپنے عمل کی جواب دہی کا یہ احساس پیدا ہوجائے تو سادگی اس کے فطری نتیجے کے طور پر رواج پائے گی۔ جواب دہی کے احساس سے عاری ہوجانے کا نتیجہ نفاق کی صورت میں نکلتا ہے اور انسان کو اللہ کی یاد سے غافل کردیتا ہے۔ اس کے طرزِ زندگی سے لے کر مراسمِ عبودیت تک سب کچھ دکھاوے کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں:
اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ يُخٰدِعُوْنَ اللہَ وَھُوَخَادِعُھُمْ۰ۚ وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوۃِ قَامُوْا كُسَالٰى۰ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللہَ اِلَّا قَلِيْلًا۱۴۲ۡۙ (النساء۴:۱۴۲) یہ منافق اللہ کے ساتھ دھوکا بازی کر رہے ہیں، حالانکہ درحقیقت اللہ ہی نے انھیں دھوکا میں ڈال رکھا ہے۔ جب نماز کے لیے اُٹھتے ہیں تو کسمساتے ہوئے محض لوگوں کو دکھانے کی خاطر اُٹھتے ہیں اور خدا کو کم ہی یاد کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے احکام اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ نمائی پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!