۲۰۲۵ اگست

فہرست مضامین

جماعت کی تاسیس سے پہلے

مولانا صدرالدین اصلاحی | ۲۰۲۵ اگست | تحریک اسلامی

Responsive image Responsive image

مولانا مودودیؒ سے تعارف ان کی تحریروں کے ذریعے ۱۹۳۴ء میںحاصل ہوا، تب میں  مدرسۃ الاصلاح، سرائے میر (۱۹۲۹ء تا ۱۹۳۷ء) میں تھا۔ ان دنوں مجھے اپینڈکس کا مرض ہوا، اور دورانِ علالت پہلی مرتبہ ماہنامہ ترجمان القرآن دیکھنے کا موقع ملا۔یہ اس زمانے میں حیدرآباد، دکن سے شائع ہوتا تھا۔ مجھے یہ رسالہ بے حد پسند آیا۔ اس سے قبل مجھے لکھنے کا ذوق تھا۔ مدرسۃ الاصلاح کا قلمی پرچہ مَیں لکھا کرتا تھا۔ چنانچہ میں نے ’نکاح کے اسلامی قوانین‘ پر ایک چھوٹا سا مضمون لکھ کر مدیر ترجمان القرآن مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کو بھیج دیا۔ انھوں نے یہ مضمون شائع کردیا۔ اس کے بعد میرا ایک طویل مضمون ’مسلمان اور امامت کبریٰ‘ تین قسطوں میں ۱۹۳۷ء کے پرچوں میں چھپ گیا۔ دراصل یہی مضمون میری تحریکی زندگی کا نقطۂ آغاز تھا۔  

ماہنامہ ترجمان القرآن سے قلمی معاونت قائم ہونے کے بعد ۱۹۳۷ء میں مولانامودودی نے دعوت دی کہ ترجمان القرآن  کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کے لیے ادارہ ترجمان القرآن پہنچ جائوں۔ ساتھ ہی انھوں نے مجھے یہ اطلاع دی کہ ترجمان القرآن  حیدرآباد، دکن سے پنجاب کی بستی جمال پور، ضلع گورداسپور منتقل ہورہا ہے اور یہ علامہ اقبال کی تحریک اور خواہش پر ہورہاہے اور طے پاچکا ہے کہ مارچ ۱۹۳۸ء میں وہاں ایک ’ادارہ‘ قائم کیا جائے، جس کے ذریعے دُنیا میںاسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کا آغاز کیا جائے۔ دراصل وہاں پر ایک زمیندار بزرگ چودھری نیاز علی صاحب نے ایک قطعۂ زمین (۶۰؍ایکڑ) دینی کاموں کے لیے وقف کیا تھا اور وہ اپنی وقف املاک میں ایسا ادارہ قائم کرنا چاہتے تھے، جو مسلمانوں کی علمی،فکری اور عملی اصلاح کے کام میں ممدومعاون ہو۔ چودھری نیاز علی خاں صاحب، علّامہ محمد اقبال سے مشورے حاصل کرتے رہے اور انھی کے مشورے سے ہی ادارے کی تشکیل کا خاکہ حاصل کرنے کے لیے مختلف حضرات سے خط کتابت بھی کرتے رہے۔ مولانا مودودی سے بھی ۳۷- ۱۹۳۶ء کے دوران ان کی مراسلت ہوئی۔  

بلاشبہ مولانا مودودی کی تحریروں سے مجھے تحریک ملی، لیکن یہ فکر دراصل میرے اندر بحمدللہ پہلے ہی سے موجود تھی اور یہ سب علامہ حمیدالدین فراہیؒ کا فیض تھا۔ علامہ مرحوم کی مطبوعہ اور غیرمطبوعہ تمام تحریروں کو پڑھا کرتا تھا، جو سرائے میر کی الماریوں میں محفوظ تھیں۔ ان تحریروں نے میرے ذہن کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے میں بڑا اہم کردارادا کیا۔ مولانا مودودی کہا کرتے تھے کہ ’’علامہ فراہیؒ نے اپنے افکار و خیالات کے ذریعے لوگوں کو انقلاب کے دروازے پر لاکر کھڑا کر دیا ہے۔ اگر ان کو پڑھا جائے تو یقینی طور پر ایک انسان وہی سب کچھ کرتا چلا جائے گا جو جماعت اسلامی کررہی ہے‘‘۔ 

میری رکنیت کہیے یا پھر تحریک سے عملی وابستگی، فی الواقع ’قبل اَز تاریخ‘ تاسیسِ جماعت اسلامی سے شروع ہوتی ہے، یعنی ۱۹۳۹ء کے اوائل میں۔جماعت اسلامی کے قیام سے دو اڑھائی برس پہلے اسی کام کے لیے، جس کی خاطر جماعت اسلامی ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء میں قائم کی گئی، دارالاسلام کے نام سے تحریک کا قیام بمقام جمال پور نزد پٹھان کوٹ پانچ افراد کی تجدیدِ شہادت کے ساتھ عمل میں آیا تھا۔ ان پانچ ارکان میں سے ایک یہ عاجز بھی تھا۔ بعد میں جب اسی تحریک کا نقش ثانی ’جماعت اسلامی‘ کے نام سے قائم ہوا، تو ان دنوں میں رنگون میں تھا، جس کے باعث میں جماعت کے تاسیسی اجتماع میں شرکت نہیں کرسکا تھا۔ لیکن مولانا مودودی مرحوم و مغفور نے مجھے اس کی اطلاع دیتے ہوئے میری اسی رکنیت ِ تحریک دارالاسلام کو جماعت اسلامی کی رکنیت قرار دے دیا۔ 

میں اپنی سوچ پراثرانداز ہونے والی جس واحد چیز کا نام لے سکتا ہوں وہ صرف قرآن کریم ہے۔ دوسری چیزوں کا اگر ذکر کروں تو وہ بالکل ضمنی اور ثانوی درجے ہی میں کرسکتا ہوں۔ ان دوسری چیزوں میں سیّدقطب کا واقعۂ شہادت سرفہرست ہے۔ اس سانحے نے مجھ پر بہت اثر ڈالا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کہیں عرشِ الٰہی نہ تھرا اُٹھا ہو۔ 

ساری زندگی یہی آرزو رہی ہے کہ وہ جس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے، ساتھیوں کو نیتوں کا اخلاص، ارادوں کی مضبوطی، اپنے کیے ہوئے عہد کا پاس اور نصب العین سے گہری شعوری اور عملی وابستگی عطا کرے۔ تحریک کے ساتھیوں کو دُنیا کی شادابی اور شیرینی اپنا گرویدہ نہ بنانے پائے۔ راہ کے کانٹے اور پتھر انھیں سُست گام نہ بناسکیں، مخالفت کی بے معنی غوغاآرائیاں انھیں اُلجھائو میں نہ ڈال سکیں۔ ایک فکر ، فکر ِ آخرت کے سوا اور کوئی چیز ان کی اصل فکر نہ بننے پائے۔ ایک رضائے مولیٰ کی طلب کے سوا اور کسی رضا کی انھیں حقیقی طلب نہ ہونے پائے۔ ان کے ذہنوں کو فہم اور حکمت، ان کی عقلوں کو دُوربینی اور تدبر، ان کے دلوں کو صبر اور استقامت، ان کے بازوئوں کو قوت اور ان کے قدموں کو برابر صراطِ مستقیم پر حرکت عطا ہوتی رہے۔ یہاں تک کہ اس حسین خواب کی تعبیر نظر آجائے۔ وَاللہُ  يُـؤَيِّدُ  بِنَصْرِہٖ  مَنْ   يَّشَاۗءُ۝۰ۭ (اٰل عمرٰن ۳:۱۳)