۲۰۲۵ اگست

فہرست مضامین

جماعت کی تاسیس کے بعد

نعیم صدیقی | ۲۰۲۵ اگست | تحریک اسلامی

Responsive image Responsive image

آپ کے سامنے اس زمانے کی بات پیش کرنا چاہتا ہوں کہ مولانا مودودیؒ کی پکار پر جب جماعت کے ساتھ ہم منسلک ہوئے تو کیا پایا؟ مولانا محترم تحریک کے لیے کس قسم کے کارکن تیار کرنا چاہتے تھے؟ جو لوگ تحریک کے دورِ اوّل سے وابستہ ہوئے تھے، وہ گزر گئے۔ اب نئی پود کا زمانہ ہے۔ ضرورت ہے کہ ان دونوں کے درمیان ربط رہے، کوئی خلا نہ پیدا ہو۔ تحریک کی عمارت بلند ہورہی ہے تو اُوپر لگنے والی اینٹیں پہلی اینٹوں کے مطابق رہیں۔ 

اب میں پہلی اینٹ اور پہلے ردّے کی داستان سنانا چاہتا ہوں: 

  • رکنیت:  سب سے پہلی چیز رکنیت ہے اور یہ قدمِ اوّل ہے، جماعت کے ساتھ وابستگی کا۔ اُس زمانے میں جو لوگ بھی جماعت کے قریب آتے تھے، وہ سب سے پہلے جماعت کی دعوت کو سمجھتے تھے، پھر ان کا ایمان ان کو دل جمعی کے ساتھ جماعت میں شامل ہونے پر اُکساتا تو وہ رکنیت کی درخواست دیتے تھے۔ جماعت کا طریقہ یہ تھا کہ جو آدمی رکنیت کا اُمیدوار ہوتا، اس کو انتظار کرنے کے لیے کہا جاتا۔ یہ انتظار ٹالنے کے لیے نہیں، بلکہ جائزہ لینے کے لیے ہوتا تھا کہ وہ صاحب کہیں شدتِ جذبات سے مغلوب ہوکرتو نہیں اس فیصلے پر پہنچے، یا انھوں نے واقعی پورے ہوش اور ٹھنڈے دل کے ساتھ شرکت ِ جماعت کے تقاضوں کو سمجھ لیا ہے؟ ان کے کردار کو دیکھا جاتا، ان کے مزاج کو جانچا جاتا اور یہ جائزہ مہینوں جاری رہتا۔اس دوران میں ان سے جماعت کے ساتھ کام کرنے کے لیے کہا جاتا، جس سے اندازہ کیا جاتا کہ جماعت کے نصب العین کے ساتھ ان کی شیفتگی اور وابستگی کتنی ہے۔ 
  • حلف: اس کے بعد حلف لینے کا وقت آتا۔ موجودہ دور کی کیفیت کو تو نہیں جانتا، لیکن اُس وقت حلف ِ رکنیت ایک اُمیدوار رکنیت کے لیے گویا محشر کا وقت ہوتا تھا۔ وہ دیدہ و دانستہ دین کی ذمہ اریوں کو اُٹھانے اور نبھانے کا عہد کرتا۔ اندازہ کیا جاتا ہے کہ جس شخص نے ان ذمہ داریوں کی گراں باری اور نزاکت کو سمجھ لیا ہو، حلف لیتے وقت اس کی کیا کیفیت ہوتی ہوگی۔ ذمہ د اری کے احساس سے اس پر پہلا اثر یہ ہوتا تھا کہ حلف پڑھتے ہوئے وہ کانپتا اور لرزتا تھا۔ بعض اوقات ہم نے دیکھا کہ ایک شخص کی آواز منہ سے نہیں نکل رہی۔ وہ چند الفاظ بولتا ہے تو اس کی آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگ جاتی۔ اس کو یوں محسوس ہوتا گویا وہ اجتماع ارکان میں نہیں، بلکہ عرصۂ محشر میں کھڑاہے اور اپنی کارکردگی کی جواب دہی کر رہا ہے۔ یہ ایک خاص کیفیت ایک مدت تک جماعت میں رہی اور جماعت کی پہلی صف انھی لوگوں سے بنی۔ 
  • احتساب: تیسرا مرحلہ احتساب کا ہوتا تھا۔ یہ دیکھا جاتا تھا کہ جو صاحب جماعت  میں آئے ہیں وہ مقررہ معیار پر قائم ہیں یا نہیں۔ اگر وہ ذرا بھی نیچے گرتے تو سب کی نگاہیں ہمدردی اور دردمندانہ اپنائیت کےساتھ ان کی جانب اُٹھ جاتیں اور ان کو سنبھالا دینے کے لیے ہاتھ بڑھ جاتے۔ ان کی اصلاح کے لیے سب فکرمند ہوجاتے۔لیکن اگر وہ تمام سہاروں اور تعاون کے باوجود سنبھل نہ پاتے تو پھر اس بات کی پروا نہ کی جاتی کہ ہماری تعداد کم ہوجائے گی، بلکہ صرف اصول اور معیار پر نگاہ رہتی۔ اب اگر بگاڑ جاری رہے اور کوئی پُرسش نہ ہو تو اس مداہنت سے نظم تباہ ہوتا ہے۔ اس لیے اُس وقت جو بھی نظم اور اصول کو توڑتا، اس کا فوری محاسبہ ہوتا۔ ہماری اصل فکر جماعت کو بچانے کی ہوتی تھی۔ 
  • فہم دین: چوتھی چیز یہ کہ جو کوئی جماعت میں داخل ہوتا تھا، اس کو سب سے پہلے حصولِ فہم دین کی فکر ہوتی تھی۔ ایک جذبہ اُبھرتا تھا کہ دین کا صحیح علم حاصل کیا جائے، کیونکہ دین کے درست علم کے بغیر صحیح عمل ممکن نہیں۔ ہم لٹریچر کا خود بھی ذوق و شوق سے مطالعہ کرتے اور دوسروں کو بھی اسی ذوق و شوق سے مطالعے کی ترغیب دیتے۔ کسی مجلس میں بیٹھتے تو ہماری خواہش ہوتی کہ دوسری باتوں کے علاوہ دین کی بات بھی ہوجائے۔ہمیں اہلِ قلم کی صحبت کا شوق ہوگیا تاکہ دعوتِ دین ہمارے دل و دماغ میں راسخ ہو، فہم اور تفقہ میں اضافہ ہو، اوریہ معلوم ہو کہ دعوتِ دین کے کیا تقاضے ہیں؟ وہ کون سی چیزیں ہیں جو ہماری زندگی کو اسلامی بناتی ہیں اور کن چیزوں سے ہمیں اجتناب کرنا چاہیے کہ اُن سے ایک جاہلی زندگی بنتی ہے؟ 

ہم لٹریچر کا اس شغف و انہماک سے مطالعہ کرتے اور دوسروں کو سناتے تھے کہ اس کے بعض پورے کے پورے حصے اَزبرہوجاتے۔ ہروقت یہ احساس دامن گیر رہتا کہ لٹریچر ہماری تحریک کی روح ہے، اس کا دامن اگر چھوڑ دیا تو ہم اپنی روح سے کٹ کر رہ جائیں گے۔ پھر ماضی اور حال میں کوئی ربط باقی نہ رہے گا۔ آج مجھے ڈر ہے کہ اگر ہم نے لٹریچر کے مطالعے میں کوتاہی برتی تو وہ وقت آئے گا کہ ہمارے ذمہ دارانہ مناصب پر ایسے لوگ آجائیں گے، جو ہماری دعوت اور ہمارے لٹریچر سے بے بہرہ ہوں۔ 

  • دو رنگی کا خاتمہ:پانچویں چیز یہ کہ تب اپنی زندگی کا بار بار جائزہ لیا جاتا تھا۔ اس کی فکرمندی ہوتی کہ ہماری زندگی میں کوئی غلط اور ناجائز چیز تو داخل نہیں ہوگئی۔ اگر معلوم ہوتا کہ فلاں چیز ہماری زندگی میں غلط ہے تو اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتے جب تک اس کو اپنے اندر سے نکال نہ پھینکتے۔ میاں طفیل محمدصاحب نے وکالت ترک کی، چودھری علی احمد خاں مرحوم نے پولیس کی ملازمت چھوڑی، غرض جو بھی جماعت کے قریب آتا، یااس کی رکنیت لیتا، سب سے پہلے اپنی زندگی کا جائزہ لے کر غلط، ناجائز اور اللہ کے نزدیک ناپسند چیزوں کو اپنی زندگی سے خارج کرتا۔ میں نے خود اپنی زندگی کا جائزہ لیا اور اپنی ان چیزوں سے چھٹکارا حاصل کیا جو مجھے بے حد پسند لیکن دین میں ناپسندیدہ تھیں۔ ہم نے گنجائش اور رخصت کو کبھی نہیں ڈھونڈا تھا۔جو چیز کتاب و سنت سے ثابت ہوجاتی تو پھر اس کو قبول نہ کرنا ہمارے لیے مشکل ہوجاتا تھا۔ یہ سلف کا جذبہ تھا، جو بعد میں آنے والوں میں منتقل ہونا چاہیے۔ تحریک کا تسلسل اسی سے قائم رہے گا۔ 
  • اخوت و محبت: چھٹی چیز رفقا کے لیے گہری محبت اور خیرخواہی کا جذبہ تھا۔ دارالاسلام میں چند رفقا مقیم تھے، لیکن ان کی حالت ایک دردمند گروہ کی سی تھی، جو اپنے سے زیادہ دوسروں کے لیے سوچتے تھے۔ہم اللہ کے لیے ملتے اور اللہ کے لیے بیٹھتے، اور کوئی غرض سوائے دین کے ہمارے درمیان نہ تھی۔ یہی چیز جماعت کے استحکام کا باعث بنی۔ اس جذبۂ باہمی محبت نےجماعت اسلامی کو سیسہ پلائی دیوار بنادیا۔ کسی کو تکلیف ہوتی تو سب تڑپ اُٹھتے، جماعت اسی جذبے سے پروان چڑھی۔ 
  • بزرگوں کا احترام:ساتویں چیز بزرگوں کا احترام تھا۔ جماعت میں جب ہم شامل ہوئے تھے تو ہمارا بھی عہد ِشباب تھا، لیکن ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ بزرگوں کے سامنے آواز کو بلند کیا جائے۔ ہم سمجھتے تھے کہ ہمیں جو کچھ ملے گا، بزرگوں کے ادب اور ان کے احترام سے ملے گا۔ چنانچہ ہم نے اس عمل سے فیض پایا۔ بڑوں کے لیے احترام کا جذبہ، جماعت کو استحکام دیتا ہے۔ جن لوگوں نے جماعت کے لیے قربانیاں دی تھیں، ان کے سامنے ہمارے سر ہی نہیں، ہمارے دل بھی جھکتے تھے۔ اگر اگلوں نے پچھلوں کی قدر نہ کی، تو زنجیر ٹوٹ جائے گی۔ 
  • داعیانہ تڑپ:آٹھویں چیز ہمارے اندر توسیع دعوت کے جنون کی صورت میں موجزن تھی۔ یہ جذبہ تھا کہ جو حق ہمیں ملا ہے، وہ دوسروں تک بھی پہنچ جائے۔ چلتے پھرتے، دفتر، دکان، سفر، مجلس، ہر جگہ ہم کو حکمت کے ساتھ دعوت پھیلانے کی لگن رہتی تھی۔ گھر میں بیٹھتے تو بچوں کو دین کی تعلیم دیتے۔ اس کی فکر کرتے کہ ہمارا کوئی فعل ایسا نہ ہو کہ جس سے بچوںکو غلط سبق ملے۔ ایک مرتبہ میں نے اور میری بیوی نے عہد کیا کہ ہم گھر میں جھوٹ موٹ کا جھوٹ بھی نہیں بولیں گے، تاکہ بچوں پر نقش ہوجائے کہ زندگی صرف سچ بولنے کا نام ہے۔ ہمارا وتیرہ تھا کہ اجتماع سے گھر آتے تو اجتماع کی رُوداد سب سے پہلے اپنے گھر میں بچوں کے سامنے بیان کرتے۔ اس طرح ہمارا گھریلو ماحول ہمارے لیے سد ِ ّراہ بننے کے بجائے سازگار ہوتا چلاگیا۔ 

پھر گھر سے باہر نکلتے تو دعوت کی کوئی نہ کوئی چیز ہمارے پاس ضرور ہوتی۔ ہم لوگوں کے پاس چل کر جاتے اور یہ توقع نہ رکھتے کہ وہ چل کر ہمارے پاس آئیں گے۔ جماعت اور اجتماعیت کا ہر کام خود کرتے، اس سے ہمارے تحریکی جذبے کو تقویت ملتی۔ اپنے ہاتھوں سے گلیوں میں اور دیواروں پہ پوسٹر لگانے سے جو جذبہ اُبھرتا ہے، وہ کرائےپر لگوانے سے نہیں اُبھرسکتا۔ دارالاسلام کے قریبی دیہات میں ہم دعوت لے کر گھومے پھرے، خود میاں طفیل محمد صاحب دعوتی گشت کرتے رہتے تھے۔ اسی طرح پاکستان پہنچے تو اچھرہ کی ایک ایک گلی چھان ماری۔ ہم کو اس کی پروا نہ تھی کہ کوئی ہماری دعوت قبول کرے گا یا نہیں، ہمارے ذہن میں فقط ایک بات بیٹھی ہوئی تھی کہ ان لوگوں تک ہمیں اپنی بات پہنچانا ہے۔ 

  • نظم کا احترام:نویں چیز یہ کہ ہمارے دلوں میں نظم کا بے حد احترام تھا۔ اُوپر سے کوئی ہدایت آتی تو اس کی بجاآوری کے لیے ہرممکن سعی کرتے۔ سمع و طاعت کی روح کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے۔ اجتماعات میں لازماً شریک ہوتے، اِلا یہ کہ کوئی حقیقی اور واقعی شرعی عُذر ہوتا۔ وقت ِ مقررہ پر اجتماع گاہ میں پہنچتے۔ کوئی لیٹ ہوجاتا تو عُذر تراشنے کے بجائے نہایت ندامت کے ساتھ وجہ بیان کرتا۔ سب شرکاء اجتماع میںخاموشی اور احترام سے بیٹھتے۔ 
  • عہدوں سے گریز:دسویں چیز یہ ہے کہ مناصب اورعہدوں کی طلب کا کوئی تصور تک نہ تھا۔ کوئی ذمہ داری کسی پر ڈالی جاتی تو وہ اس سے جان چھڑانے کی کوشش کرتا، ہزار معذرتیں کرتا کیونکہ نگاہ ذمہ داری کی ادائیگی اور جواب دہی پر ہوتی، منصب اور منصب کے کروفر پر نہ ہوتی تھی۔ عہدوں کے معاملے میں بڑی احتیاط پائی جاتی تھی۔ عہدوں سے گریز کا رجحان عام تھا۔ ذمہ داری کا نام لیا جاتا تو ہرفردکے سامنے اپنی کوتاہیاں اور خامیاں صف در صف کھڑی ہوجاتیں۔ 
  • بیت المال:گیارھویں چیز یہ ہے کہ بیت المال کے بارے میں بڑی احتیاط کی جاتی تھی۔ یہ احساس ہروقت مسلط رہتا کہ بیت المال کا کوئی ایک پیسہ بھی ہمارے ہاتھوں سے ضائع نہ ہونے پائے۔ حضرت عمر فاروقؓ کا قول گویا مجسّم سامنے رہتا کہ ’’بیت المال، مالِ یتیم ہے‘‘۔ اعانتوں کی وصولی میں مستعدی سے کام لیتے۔ اعانت لینے کا مطلب صرف اعانت لینا نہیں ہوتا تھا، بلکہ اعانت دینے والے کو دعوتِ دین سے قریب تر کرنا ہوتا تھا۔ اس لیے اعانت کی وصولی کو معمولی کام نہ سمجھا جائے، یہ افراد کو قریب لاتی ہے۔ اس کے ساتھ دعوت پھیلتی ہے اور اس سے عدم توجہی گویا دعوت سے عدم توجہی ہے۔ 
  • غیبت و نجویٰ:بارھواں پہلو یہ تھا کہ اس زمانے میں غیبت و نجویٰ کی کوئی بات نہ تھی۔ کسی کے بارے میں حتیٰ کہ مخالفین کے بارے میں بھی زبان سے کوئی ناشائستہ بات نہیں نکالی جاتی تھی۔ کنویسنگ سے یوں بچا جاتا تھا جیسے آگ سے بچاجاتا ہے۔ یہ یاد رکھیے کہ جس نظم میں کنویسنگ، غیبت اور نجویٰ داخل ہوجائیں تو یہ اس کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیتے ہیں۔ یہ گھن کی طرح ہوتے ہیں کہ بظاہر لکڑی صحیح وسالم معلوم ہوتی ہے لیکن ایک دن اچانک دھڑام سے نیچے آرہتی ہے۔ 
  • رضاکار کارکن:تیرھویں چیز یہ ہے کہ وہ رضاکار کارکن کا دور تھا جو ہمہ وقتی کارکن کے مقابلے میں زیادہ مؤثر تھا۔ اب تو گویا تمام بار ہمہ وقتی کارکنوں پر ڈالنے کا عمومی رجحان پیدا ہوگیا ہے، لیکن یہ رجحان کام کے جذبے اور لگن کو ختم کر دیتاہے۔ 
  • مشاورت:چودھویں چیز یہ تھی کہ ہراہم مسئلے میں مشورہ کیا جاتا تھا۔ مشورہ گویا نظم کی جان تھی۔ مشورہ طلب کیا جاتا تھا تو پورے اخلاص اور دیانت سے اپنی رائے دی جاتی تھی۔ اس میں مداہنت نہیں ہوتی تھی، لیکن شائستگی ضرور ہوتی تھی۔ پھر جب فیصلہ ہوجاتا تو وہ لوگ بھی اس کو بخوشی قبول کرلیتے، جو بحث کے دوران ہونے والے فیصلے سے مختلف پہلو پر اپنی رائے کا پُرجوش  اظہار کرتے تھے۔ 
  • تنقید واحتساب: پندرھویں چیز یہ ہے کہ تنقید واحتساب میں کمی آجائے تو نظم اپنی خامیوں سے کبھی آگاہی نہیں پاسکتا۔ تنقید کرنے والے اخلاص سے تنقید کرتے تھے اور جن پر تنقید ہوتی ، وہ خندہ پیشانی سے سنتے تھے۔ مولانا مودودی مرحوم نے اس سلسلے میں بہترین نمونہ پیش فرمایا تھا۔ انھوں نے اپنے اُوپر سخت سے سخت تنقید برداشت کی، لیکن کسی کو ٹوکا نہیں۔ تاہم یہ بات یاد رکھیے کہ تنقید اخلاص سے ہونی چاہیے۔ اس میں کوئی ذاتی عنصرشامل نہیں ہونا چاہیے۔ اپنی حقیقی رائے کا صاف صاف اظہار اجتماع میں کیجیے، لیکن اسے اِدھر اُدھر بیان نہ کیجیے۔ پھر تنقید سننے والوں کو بھی وسیع الظرفی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور تنقید کو وہ معنی نہیں پہنانے چاہئیں جو دوراز مطلب ہوں۔ 
  • ذہنی ہم آہنگی:سولھویں چیز یہ ہے کہ ہماری رائے میں مکمل ہم آہنگی ہونی چاہیے۔ اُس زمانے میں ذہن اس طرح ڈھل چکے تھے کہ خیبر سے کراچی تک ہر کارکن کی سوچ الفاظ سمیت ایک ہوتی تھی۔ اجتماعیت کی ذہنی ہم آہنگی، ان کے درخشاں مستقبل کی نشانی ہوتی ہے۔ 
  • ہرلمحہ ڈیوٹی پر! :سترھویں چیز یہ ہے کہ تب چھٹی کا کوئی تصور نہ تھا۔ ہم ہروقت اور ہرلمحہ ڈیوٹی پر ہوتے تھے۔ کام کی کشش ہمیں باندھے رکھتی تھی۔ جہاں بھی جاتے تھے گویا ڈیوٹی پر جاتے تھے۔ داعی کے لیے حقیقت میں کوئی چھٹی نہیں ہوتی، ہم اس کے مصداق تھے   ع 

اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا 

  •  دُنیا کی حقیقت:اٹھارھویں چیز یہ ہے کہ ہم دُنیا کی چمک دمک سے مرعوب نہ ہوتے تھے۔ دُنیا ہمیں قوتِ ایمانی کے سامنے ہیچ معلوم ہوتی تھی۔ یہ حقیقت ہروقت مستحضر رہتی تھی کہ دُنیا ایک بے حقیقت اور فانی چیز ہے۔ اس لیے اس سے کبھی مرعوب نہ ہوتے تھے، نہ اس کے جلال سے اور نہ اس کے جمال سے۔ دُنیا کو ہیچ سمجھنے کا جذبہ توانا رہنا چاہیے۔ یہ چیز ہمیں دعوت کے لیے باہمت بناتی تھی۔ کسی سے خوف نہیں آتا تھا اور نہ کوئی پریشانی ہوتی تھی۔ یہ سوال بھی کبھی نہیں ستاتا تھا کہ مدت گزر گئی ہے، منزل ابھی تک قریب کیوں نہیں آئی؟ ہم نے سمجھ لیا تھا کہ شہداء علی الناس ہونا بجائے خود ایک بلندمقام ہے۔ 

اس بیان سے مقصود یہ ہے کہ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے بناکردہ کام اور تیارکردہ کارکن کا معیار ہمارے سامنے رہے۔ اس سے ایسا آئینہ تیار ہوجائے جس سے ہم اپنے داغ دھبے وقتاًفوقتاً دیکھ لیا کریں۔ ہمیں ہروقت اپنا موازنہ پہلی اینٹ اور پہلے ردّے سے کرتے رہنا چاہیے۔ 

یاد رکھیے انحطاط کبھی اعلان کرکے نہیں آتا، یہ دبے پائوں آتا ہے۔ ایک ایک ذرہ سرکتا ہے اور پھر دیوار گرتی ہے۔ اس کی پہلے خبر نہیں ہوتی، پھر اچانک وقت آتا ہے کہ عملِ انحطاط اپنی خوفناک تصویر پیش کرتا ہے۔ ہم لوگ جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا اور ان کا دامن تھامے ہوئے ہیں، ہمیں ہروقت اپنا احتساب کرتے رہنا چاہیے۔ دُعا کرتے رہنا چاہیے کہ ہم میں جذبۂ اصلاح ہو، اخلاصِ نیت ہو، اپنا اخلاقی معیار اور داعیانہ کردار ہرحال میں برقرار رہے۔آمین!