جماعت اسلامی کی دعوت کے تین بنیادی نکات میں سے تیسرا نکتہ قیادت کی تبدیلی ہے۔
ہماری دعو ت تمام اہل ارض (تمام انسانیت) کو یہ ہے کہ وہ عصر حاضر کے اصولِ حکمرانی میں ایک عمومی انقلاب برپا کریں، جس کی بنیاد پر اللہ کے باغیوں اور سرکشوں نے حکومتوں پر قبضہ جما رکھا ہے اور زمین کو فساد سے بھر رکھا ہے۔ لازم ہے کہ حکومت و سلطنت کی اس عملی و فکری قیادت کو اللہ سے پھرے ہوئے ان ظالموں کے ہاتھوں سے لے کر اللہ ورسولؐ پر حقیقی ایمان رکھنے اور ان کی حقیقی فرماںبرداری کرنے والے اُن لوگوں کے ہاتھوں میں منتقل کردی جائے جو غلط اور باطل نظریات و افکار کو اپنا دین نہیں مانتے، بلکہ اللہ کے نازل کردہ دین حق کو اپنا طریق زندگی قرار دیتے ہیں۔ یہ لوگ زمین پرظلم و ستم اور فتنہ و فساد نہیں چاہتے بلکہ اس کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
کامل بندگی، دین کو اللہ کے لیے خالص کرنے اور اپنی زندگی کو نفاق اور عمل کو تضاد سے پاک کرنے کے مفہوم کا فطری تقاضا یہی ہے۔ یہ بات کسی سمجھ دار سے مخفی نہیں کہ یہ کام موجودہ نظامِ حیات میں تغیر اور انقلاب کے بغیر ممکن نہیں جو کفر و الحاد، فسق و فجور اور ظلم وستم پرمبنی ہے۔ یہ وہ نظام ہے جس کی باگ ڈور ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو اللہ ورسولؐ سے برگشتہ، اللہ کی بندگی سے بے نیاز اور اللہ کی زمین میں ناحق غرور و تکبر میں مبتلا ہیں۔
دنیا کی قیادت و سیادت اور حکومت و سلطنت کی باگیں، علوم و آداب، سائنس اور آرٹ، قانون سازی اور نفاذ قانون، ملی و بین الاقوامی تعلقات اور تجارت و صنعت کے مسائل جب تک ان لوگوں کے اشاروں اور ہدایات سے چلتے رہیں گے، کسی مسلمان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ ایک سچے مسلمان کی طرح ،اسلام کے اصولوں کو اختیار کر کے، شریعت الٰہیہ کے قوانین کے مطابق اپنی عملی زندگی گزار سکے۔ ناممکن ہے کہ کوئی مسلمان ایسے ملک میں رہتا ہو جہاں شریعت کے برعکس قانون رائج ہو، اللہ کا پسندیدہ طریقہ رائج نہ ہو، تو وہ مسلمان کامل دین الٰہی کی کماحقہٗ پیروی کر سکے، جو اس کی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ بلکہ یہ بھی ممکن نظر نہیں آتا کہ وہ اپنی اولاد کو دینِ الٰہی کے اصولوں اور تعلیمات کے مطابق تعلیم وتربیت دے سکے اور اسلامی آدابِ زندگی اور اخلاقِ حسنہ کے مطابق اُن کی پرورش کر سکے ___ اس لیے کہ کفر والحاد کے جس نظام اور ماحول میں وہ جی رہا ہے، وہ اس پر اسلامی تربیت کے دروازے بند کر دیتا ہے۔ یہ نظام تو یہی چاہتا اور اسی کی اجازت دیتا اور ماحول فراہم کرتا ہے کہ مسلمان بھی وہی باطل اخلاق اپنالے اور اپنے دین واخلاق کے تمام اصولوں اور تعلیمات سے رفتہ رفتہ لاتعلق اور بیگانہ ہوجائے۔
یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ایک مسلمان جو اپنے دین (پورے طریق زندگی) کو اللہ کے لیے خالص رکھنا چاہتا ہے، اس کی ذمہ داری اتنی ہی نہیں ہے کہ وہ صرف عبادت کی چند رسوم ادا کرلے، بلکہ ایک مسلمان کی ذمہ داری اور فرض یہ بھی ہے کہ وہ اللہ کی زمین کو فتنہ و فساد اور بغاوت و سرکشی سے پاک کرے، اور اس کی جگہ اصلاح و فلاح پر مبنی عادلانہ نظام قائم کرے___ظاہر ہے کہ یہ اعلیٰ مقصد اور بلند ہدف سرکشوں، باغیوں اور مفسدین کے برسرِاقتدار رہتے حاصل نہیں ہو سکتا۔
تجربے اور مشاہدے سے یہ بات ثابت ہے کہ زمین پر تکبر کا ناحق مظاہرہ کرنے والے اور اپنے قول و فعل میں ظلم و سرکشی دکھانے والے ہی نظام عدل و صلاح کے قیام کی راہ میں اصل رکاوٹ ہیں۔ پھر یقین، دلیل اور مشاہدے سے یہ بھی ثابت ہے کہ جب تک اللہ کے یہ باغی اور سرکش اُمورِ مملکت اپنے ہاتھوں میں لیے رہیں گے، چھوٹے بڑے معاملات حکمرانی پر انھی کا حکم چلتا رہے گا، تو ایسی حکمرانی میں دنیا کی صلاح وفلاح کی اُمید نہیں کی جا سکتی۔ لہٰذا، اسلام اور اللہ کی خالص بندگی کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ ہم ائمہ کفر و ضلال کی سیادت و قیادت اور امامت و حکمرانی اور باطل نظام کو جڑوں سے اکھاڑ دینے کے لیے اپنی صلاحیت کی آخری حد تک مسلسل اور بھرپور جدوجہد کریں۔
حکومت و امامت کی یہ تبدیلی کس طرح ممکن ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ تبدیلی اور انقلاب محض چاہنے، خواہش کرنے اور خواب دیکھنے سے نہیں آئے گی۔ انسانوں پر حکمرانی کے لیے کچھ بنیادی قوانینِ قدرت ہیں، جن میں ایک یہ بھی ہے کہ زندگی کا نظام چلانے کے لیے بہرحال کچھ مردانِ سیاست ضروری ہیںاور اس سیاست و تدبیر کے لیے کچھ صفات و اخلاق درکار ہیں۔ ان اوصاف سے آراستہ ہونا ہر اس فرد اور گروہ کے لیے ناگزیر ہے جو دنیا کے امور کا نظم و انتظام سنبھالنا چاہے۔ یہ بات بھی قوانینِ فطرت میں شامل ہے کہ اگر زمین پر ان صفات و اخلاق سے آراستہ کوئی مومن و صالح گروہ موجود نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اپنی زمین کا انتظام غیر مومن و غیر صالح لوگوں میں سے جن کو چاہے سپرد کردے لیکن جب امور مملکت اور مسائل حیات کو چلانے کے لیے ان لازمی اوصاف و اخلاق سے آراستہ کوئی مومن و صالح گروہ نہ صرف موجود ہو، بلکہ ان ظالموں اور متکبروں سے فائق تر ہو تومشیت ربانی اور قانونِ الٰہی ایسا ظلم پسند نہیں کرتا کہ پھر بھی امور حکمرانی ظالموں اور مفسدوں کے ہاتھ میں رہیں، اور وہ جیسے چاہیں اس کو چلاتے رہیں۔
ہماری یہ دعوت صرف امید، تمنا اور دعا تک محدود نہیں ہے کہ ہم اللہ سے گریہ و زاری کرتے رہیں کہ اللہ ظلم وجور اور فتنہ و فساد کو جڑ بنیاد سے ختم کر کے امور دنیا صالح مومنوں کے ہاتھوں میں دے دے۔ بلکہ ہماری دعوت پوری دنیا اور انسانیت کے لیے ہے کہ ایک اجتماعیت کو منظم کریں جو اللہ ورسولؐ پر ایمان رکھنے والے، اخلاق فاضلہ سے آراستہ ہوں۔ بلند عادات و خصائل سے متصف اوران قابلیتوں اور اہلیتوں سے نہ صرف آراستہ ہوں، بلکہ کفر و ضلال اور اُن کے حمایتیوں اور مددگاروں سے کہیں بڑھ کر اپنے اندر یہ صفات رکھتے ہوں، جو اُمورِ دنیا کو چلانے والوں کے اندر لازمی موجود ہونی چاہییں اور حکومت و سلطنت کی بھاری ذمہ داری کواٹھانے اور ادا کرنے کے لیے ضروری ہیں۔
یہ ہے وہ خالص دینی دعوت جو مائل بہ انحراف و انتہا پسند مسلح قومی تحریک اور انڈین نیشنل کانگریس کے درمیان میں ظہور پذیر ہوئی۔
اس دینی دعوت کا ظہور چودھویں صدی ہجری کے چھٹے عشرے (۱۳۶۰ھ) کے پہلے دوبرس میں ہوا۔ یعنی بیسویں صدی عیسوی کے چوتھے عشرے (۱۹۴۱ء )میں۔ اس کی ابتدا ماہنامہ ترجمان القرآن کے اجرا سے ہوئی، جس کے مدیر ه سیّد ابوالا علیٰ مودودی تھے۔ وہ ایک نوخیز نوجوان تھے جن کی عمر ۳۰ برس سے زیادہ نہ تھی۔ انھوں نے یہ ماہ نامہ اس مقصد کے حصول اور اسلام کے نظریہ و فکر کو میدان عمل میں لانے اور لوگوں کے سامنے واضح اور مستند شکل میں پیش کرنے کی غرض سے جاری کیا۔ افکار و آراء کو تقلید وجمود کی گرد سے صاف کرنا اور الحادواباحیت کی آلائشوں سے پاک صاف کرنا بھی اُن کے پیش نظر تھا۔
اپنی تحریروں اور کتابوں میں صاحبِ ترجمان القرآن نے سب سے پہلے جس چیزپر توجہ مرکوز کی وہ افکار و نظریات کی تنقیح اور پختہ و صحیح آراء کی غذا فراہم کرنا تھا۔ وہ کئی برس تک پوری یکسوئی کے ساتھ اسی طرز پر کام کرتے رہے۔ وہ افکار و نظریات اور حالات و واقعات کے بھرپور مطالعے کے بعد اپنی رائے قائم کرتے اور پھر اپنی معروضات کو شائع کرتے۔
اس مدت میں انھوں نے اپنی پوری توجہ اسلام کے اصلی و صافی مصادر کے مطالعے پر مرکوز رکھی۔ وہ اسلام کی تعلیمات کو ایسے عصری اسلوب میں لوگوں کے سامنے پیش کرتے رہے جو اہل زمانہ کے ذوق اور طبائع سے ہم آہنگ تھا۔ اسی طرح انھوں نے خاص طور پر اُن زندیقوں اور ملحدوں کو بے نقاب کیا،جن کو مغرب کی محبت گھٹی میں ملی تھی اور وہ اسی کے عشق میں پلے بڑھے تھے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی کا متحرک قلم، منکرین حدیث و منحرفین سنت عناصر کے محاکمے کے لیے بھی وقف رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی تحریروں میں جمود کے خوگر علماء، فروع میں اُلجھے فقہاء اور بے سروپا مسائل میں پھنسے جہلاء کی لغزشوں اور کج فہمیوں کے محاکمے سے بھی صرفِ نظر نہ کیا گیا۔
مختصر یہ کہ ماہ نامہ ترجمان القرآن کے ابتدائی چند برس تصورِ دین کی اشاعت اور دعوت کے اصول و مبادی کو ذہن نشین کرانے کا دور تھا۔ صاحبِ تحریر نے اس کے لیے زمین اور راستہ ہموار کیا اور اُس کامل دینی تحریک کے لیے اسباب مہیا کیے جس کو وہ شروع کرنا چاہتے تھے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ ان برسوں میں اُن کی تمام تر جدوجہد اس خالص اسلامی تحریک کا بیج بونے کے مترادف تھیں، جو تحریک ماہ نامہ ترجمان القرآن کے اجرا کے نوبرس بعد ظہور میں آئی۔
عین اسی دوران جب صاحبِ ترجمان القرآن اپنے اصول وافکار کی نشرو اشاعت میں مصروف تھے، اور قرآن و سنت سے ما خوذ ومستنبط آدابِ معاشرت، اصولِ مملکت اور مبادیاتِ معیشت کو کھول کھول کر اور نکھار نکھار کر پیش کررہے تھے، قریب تھا کہ لوگ ان کے گرد جمع ہونے لگتے، اُن کی تحریروں سے متاثر ہو کر ان کی آراء و افکار سے فیض یاب ہوتے کہ، اچانک ۱۹۳۷ء/۱۳۵۶ھ کے سال ہندستان کی سیاست میں ایک نہایت اہم انقلاب رُونما ہو گیا۔ اور صوبوں میں حکومت چلانے کا جزوی اختیار مقامی باشندوں کے پاس چلاگیا اور سات صوبوں میں وزارت و حکومت کے مناصب پر مقامی نمایندے مسند نشین ہوگئے۔ میں اس واقعے کو آتش فشانی کے واقعے کا نام دیتا ہوں، کیونکہ صوبوں میں مقامی باشندوں کو انتقالِ اقتداراور اُن کے نمائندوں اور لیڈروں کا حکومتی مناصب پر فائز ہو جانا حقیقتاً ایک لاوے کا پھٹ جانا تھا۔ یہی چیز قوم پرست اور وطنیت پسند ہندوئوں کے چہروں سے نقاب ہٹانے اور ان کا اصلی چہرہ دکھانے کا باعث بنی۔ اُن کے ناپاک عزائم سامنے آگئے، اور وہ سب طشت اَزبام ہو گیا، جو مسلمانوں کے خلاف وہ اپنے دلوں میں چھپائے پھرتے تھے۔
مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے اسی لمحے اس لاوے کے خطرناک نتائج اور خوں ریز حادثات سے خبردار کیا۔ مسلمانوں کو ان کی تباہ کن غفلت سے بیدار کرنے کے لیے اپنے قلم کو متحرک کیا اور تسلسل کے ساتھ اُس درست راستے کی طرف مسلمانوں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا، جوانھیں اس دنیا میں مہلک حالات سے بچا سکتا تھا اور روزِ قیامت اللہ کے سامنے سرخرو کر سکتا ہے۔
مولانا مودودی نے ایک کے بعد دوسرا مضمون اس موضوع پر لکھا اور مضامین کا ایک طویل سلسلہ اس ضمن میں قلم بند کیا۔ ان مضامین میں ہندستان میں مسلمانوں کے ماضی و حال پر گفتگو کی گئی۔ خالص دین کی دعوت کے لیے جدوجہد اور شہادتِ حق کے فریضے کی ادائیگی میں کوتاہی پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی۔ مسلمانوں کو وطنیت و قومیت دونوں طرح کی غلط سیاست سے بچنے کی تاکید کی گئی۔ ان مضامین کی تحریرواشاعت میں مسلسل تین برس صرف ہوئے۔ اس دوران کوئی دوسری شے انھیں اپنی طرف متوجہ نہ کر سکی، نہ کسی کی مخالفت اور دشمنی اس کام سے روک سکی۔
مولانا مودودی کا یہ علمی کام تین اَدوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
یوں انھوں نے مسلمانوں کو غلط راستے اور بُرے انجام سے بچانے کی سعی کی، جس سے وہ انڈین نیشنل کانگرس کی ٹیڑھی سیاست کو قبول کرنے کی صورت میں دو چار ہو سکتے تھے۔
اس سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اس معاملے میں کیوں لوگ نے اُن کے افکار و نظریات کا رَد نہ کرسکے؟ میں یہ سمجھتا ہوں کہ لوگوں کی یہ خاموشی گویا اُن کا مولانا مودودی کے لہجے کی صداقت، دلیل کی قوت اور منہج کی وضاحت کا کھلا اعتراف تھا۔ اس بات کی شہادت افکارِ مودودی کے معتقدین اور ناقدین سب دیتے ہیں کہ مولانا کے یہ مضامین ہی تھے، جنھوں نے ہندی قومیت کے تصور کی کمرتوڑی اور اُس کے اوپر تمام دروازے اور راستے بند کر دیے، جہاں سے وہ لوگوں کے دل و دماغ میں داخل ہو سکتا تھا۔ اگر مولانا کا یہ قلمی و فکری جہاد نہ ہوتا تو مسلم قومی تنظیموں کے بس کی بات نہیں تھی کہ وہ ہندی قومیت کے اس سیلاب کو روک سکتے یا اس دیو کو قابو کر سکتے۔ تحریرِ مضامین کے اس دورثانی میں انڈین نیشنل کانگرس کے فریب میں آنے والے وطنیت پرست مسلمانوں اور مولانا مودودی کے درمیان معرکہ جاری تھا کہ دوسری طرف مسلم رابطہ عوام تحریک نے مسلم قومیت اور جغرافیائی اسلام کے پرچار کا راستہ اپنا لیا۔
مولانا مودودی نے جب دیکھا کہ دین کے نام پر نسلی قومیت کو بطورِ متبادل پیش کیا جارہا ہے تو ان کا محاکمہ کرتے ہوئے خبردار کیا اور محض نعروں سے حصولِ منزل کے دھندلے نقوش واضح کیے۔
یہ سلسلۂ مضامین تین برسوں (۱۳۵۶ھ- ۱۳۵۹ھ) میں لکھا گیا اور ترجمان القرآن میں شائع ہوا۔ بعد ازاں مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش اور مسئلہ قومیت کے عنوان سے چار جلدوں میں ہزاروں کی تعداد میں مسلسل شائع ہوتا رہا۔ اس کتاب کے مشمولات روزنامہ اخبارات اور ہفت روزہ رسائل میں بھی طبع مکرر کی صورت میں شائع ہوتے رہے۔ ہندستان میں کوئی پڑھا لکھا گھرانہ ایسا نہ تھا، جہاں اس سلسلۂ مضامین کا کوئی نہ کوئی حصہ پہنچا اور پڑھا نہ گیا ہو۔
ان مضامین اور اس فکری انقلاب کا جو بیج نوجوان طلبہ اور تعلیم یافتہ لوگوں کے دل ودماغ میں ڈال دیا گیا تھا، اس کا نتیجہ یہی ہو سکتا تھا کہ لوگ اس مصنف کے گرد جمع ہونے لگتے اوراس کی فکر سے مستفید ہوتے۔ لہٰذا انھوں نے مصنف سے کہنا شروع کر دیا اور اصرار کرنے لگے کہ وہ اس دعوت کے لیے اپنے آپ کو فارغ کر لیں اور اس راستے کی جدوجہد میں ان کی قیادت کریں۔
تاہم، مولانا مودودی نے کسی جلد بازی سے کام نہ لیا بلکہ پہلے تو مسلمان جماعتوں اور تنظیموں کو دعوت دی کہ وہ اس دعوت پر لبیک کہیں، اس کو قبول کریں اور باطل نظریات کے مقابل اس کو پیش کریں۔ نسلی و علاقائی نعروں کے بجائے اقامت دین اور شہادت حق کی جدوجہد اور کوشش میں اپنی طاقتوں اور صلاحیتوں کو صرف کریں۔ سید مودودی نے ملک کے طول و عرض میں ایسے تمام لوگوں کو اس طرف بلایا اور انھیں دعوت دی کہ وہ ہر قسم کی عصبیت کو چھوڑ کر اللہ بزرگ وبرتر کے سامنے جھک جائیں اور اپنی تمام قوتوں اور صلاحیتوں کو اسلام کی دعوت اور اس کو اَزسرنو زندہ کرنےمیں صرف کردیں۔
اس طرح سیّد مودودی نے مسلمان زعماء، تنظیموں اور جماعتوں کے سربراہوں اور سیاسی تحریکوں کے لیڈروں کو اس دعوت سے صرفِ نظر کرتے اور فریضہ اقامت دین اور شہادتِ حق کی ادائیگی سے غافل دیکھا، تو اس ذمہ داری کو نبھانے کا عزم کیا۔ اس دعوت کو قائم کرنے کی ٹھان لی اور اس کی راہ میں جان لڑا دینے کا عہد کر لیا۔
پھر سیّد مودودی نے اس بنیادی نکتے سے اتفاق کرنے والوں اور اپنے دل و دماغ میں اس کی استعداد وقدرت رکھنے والوں کو اس اہم ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے اور اس کی راہ میں جدوجہد کرنے کی دعوت دی۔ انھیں اس راہ میں پیش آنے والے خطرات اور تکلیفوں سے آگاہ کیا۔ اس طرح کی دعوتی تحریکیں شخصیت پرستی سے انکار اور طاغوت و سرکش لوگوں کو نہ ماننے کی بنیاد پر قائم ہوتی ہیں، لہٰذا تکلیفوں، مصیبتوں اور آزمائشوں کا سامنا ناگزیر ہے۔ ایسی تحریکیں طاقت و اختیار اور جبروجبروت کے حقیقی حق دار خدائے واحد اور معبودِ مطلق اللہ کی کامل اطاعت و بندگی اور اس کے احکام و قوانین کے سامنے سر جھکانے کی بنیاد پر وجود میں آتی اور قائم ہوتی ہیں۔
سیّد مودودی کی اس دعوت پر یکم شعبان ۱۳۶۰ھ/۲۵؍اگست۱۹۴۱ء کو ۴۲کروڑ آبادی پر مشتمل ہندستان کے طول و عرض سے صرف ۷۵آدمی لاہور میں جمع ہوئے، جنھوں نے اس معاملے پر باہمی غوروخوض اور صلاح مشورہ کیا۔ گہرے غوروخوض اور ہر پہلو سے بحث و تمحیص کے بعد شرکاء اس رائے پر متفق ہوئے کہ ایک جماعت قائم کی جائے، جو اس دعوت کی انجام دہی کا فریضہ ادا کرے ___ یعنی اقامتِ دین کی دعوت اور اس کے لوازمات و تقاضوں میں سے زمین پر قانونِ الٰہی کی تنفیذ، حکومت و معاشرت اور اقتصادیات و اجتماعیت کا نظام، عدلِ اجتماعی اور خوفِ خدا کی بنیادوں پر استوار کرنے کی جدوجہد اور اس کی دعوت ___یعنی وہ نظام جو اسلام نے پیش کیا اور پوری دنیا کو اس کی پیروی کی دعوت دی۔ یوں ۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء کو ’جماعت اسلامی‘ کا قیام عمل میں آیا اور اس روز تک اس دعوت کے تنہا داعی سیّدمودودی اس جماعت کے متفقہ طور پر امیر منتخب کیے گئے۔
حاضرین نے دستور جماعت کی منظوری دی، جس میں یہ بنیادی شرائط درج کیں کہ جماعت اپنا پروگرام، قواعد و ضوابط، اپنا طریق کار اور سرگرمیاں خالص اسلام کی بنیادوں کے مطابق تشکیل دے گی اور اسی کے مطابق چلائے گی۔ موجودہ جمہوریت یا آمریت، یا موروثی و شخصی مسلمان بادشاہتوں کا شائبہ تک اس میں نہ تھا۔ جماعت کے تاسیسی حاضرین اجتماع کا مقصد یہ تھا کہ اسلامی نظام کے قیام اور خالص اسلامی قانون کے نفاذ کی داعی جماعت اپنے داخلی ڈھانچے اور سرگرمیوں میں پہلے ہی دن سے خالص اسلامی طریق کار پر چل پڑے۔
جماعت نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز شعبان ۱۳۶۰ھ ہی میں کر دیا اور اسلام کی دعوت اور اس کے خالص اور شفاف اصولوں کی نشرو تبلیغ مسلمانوں اور غیر مسلموں میں شروع کر دی۔ جماعت دین کو اللہ کے لیے خالص کرنے اور حق کی شہادت قولی و فعلی طور پر ادا کرنے کی عام لوگوں کو دعوت دیتی۔ دین کے احکام کو زندگی کے تمام شعبوں میں اپنانے اور لازم کرنے کی تلقین کرتی۔ اس دعوت کولے کر غیرت و حمیت سے سرشار مخلص مسلمانوں کی جو جماعت اٹھی تھی، ان لوگوں نے اپنے ضمیروں کو نفاق اور اعمال و افعال کو تناقض سے پاک صاف کر لیا۔ انھوں نے مکمل طور پر اسلام میں داخل ہونے اور رہنے کے عزم کا اعلان کیا۔ جونہی یہ دعوت، دین کے ساتھ مخلص نوجوانوں میں پھیلی تو وہ کافر حکومت کے مناصب و ملازمتوں سے مستعفی ہونے لگے۔ انھوں نے ظلم و زیادتی کی بنیادوں پر قائم عدالتوں میں کام کرنے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے غلط اور ظالمانہ کاروباری معاہدوں کو ختم کر دیا۔ سودی معاملات سے ہاتھ کھینچ لیے۔
اس میں سب سے بڑا فیصلہ تو اقامت دین کی راہ میں پیش آنے والے خطرات اور سختیوں کو خوش دلی سے برداشت کرنے کا عزم تھا۔ اس دعوت کے ظہور پذیر ہوتے ہی ان لوگوں نے اپنے قیمتی کاروباروں، مناصب و ملازمتوں اور مالی مفادات کی عظیم قربانی پیش کی۔ پھر ہر جگہ دعوت کا بول بالا ہونے لگا، تو وطنیت و قومیت پسند مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ اپنے حجروں اور گوشوں میں بیٹھے مشائخ بھڑک اٹھے۔ دینی مدارس اور عصری جامعات میں تدریس و تصنیف پر اکتفا کرنے والے علماء کے اندر ایک بھونچال آگیا۔ انھوں نے اس دعوت کو لے کر اٹھنے والوں اور ان کی آواز پر لبیک کہنے والوں پر ہلاکت و نفرت سے لتھڑے فتوے لگانے شروع کر دیے اور بعض نے ان کو خارجی تک کہنے سے بھی گریز نہ کیا۔
اُن ناقدین کے خیال میں اسلام بہت نرم اور سادہ ہے۔ وہ اپنے پیروکاروں کو بے دین اور ظالم حکمرانوں کے سامنے سرجھکانے سے منع نہیں کرتا۔ بعض نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ سیدنا یوسفؑ نے بھی تو کافر حکومت کا منصبِ وزارت قبول کیا تھا___ تاہم ادھر کچھ ایسے بھی تھے، جنھوں نے اس دعوت کی صداقت کا اعتراف کیا۔ البتہ اُن کا یہ کہنا تھا کہ اب وقت بدل چکا ہے، لہٰذا اس بات کا امکان و اُمید نہیں ہے کہ خلافتِ راشدہ کی روح کا حامل دور واپس آ سکے۔کچھ ایسے بھی تھے جو کافرانہ عدالتوں، سرکاری ملازمتوں، اور نظام باطل میں بڑے بڑے عہدوں سے استعفا دینے والے مخلص نوجوانوں کے معاشی مستقبل پر رو رہے تھے کہ فقروفاقہ اور تنگ دستی سے ان کا بُرا حال ہو جائے گا۔
یہاں تک کہ ایسے بعض نوجوانوں کے والدین نے بیٹوں پر سختی شروع کر دی کہ انھوں نے اللہ و رسولؐ کی اس دعوت پر لبیک کیوں کہا ہے اور جماعت میں شامل کیوں ہو گئے ہیں؟ ان کو گھروں سے نکال دیا گیا، تاکہ وہ کلمۂ حق کہنے اور اس کی دعوت دینے سے باز آجائیں اور اسی جاہلانہ اور غفلت بھری زندگی کی طرف واپس لوٹ جائیں جو وہ پہلے گزار رہے تھے۔
کئی سال تک صورت حال اسی طرح رہی، لیکن دعوت روز بروز نشوونما پاتی رہی۔ ارکانِ جماعت اپنے دین کے باعث آزمائے جاتے رہے۔ اس دعوت سے وابستہ افراد کو ابتلا و آزمائش سے گزارا جاتا رہا۔ انھیں مختلف طرح کی تکلیفوں اور مصیبتوں سے دوچار کیا جاتا رہا___ لیکن یہ آزمائش و ابتلا اور آلام و مصائب توان کارکنانِ دعوت کے لیے اللہ کی رحمت تھے۔ اس کے ذریعے ان کے دلوں کا آئینہ شفاف تر ہوتا جا رہا تھا اور ان کے قلب و ضمیر میں ایمان کی چنگاری شعلہ بنتی جا رہی تھی۔
مختصر یہ کہ جماعت نے اپنی تاریخ کے ابتدائی برسوں میں دعوت کی نشرواشاعت اور اپنی آواز کوملک کے کونے کونے میں پھیلایا اور شہادت حق کو قولی طور پر احسن طریقے سے انجام دیا۔ اسی طرح جماعت نے اس بات کا خاص طور پر اہتمام کیا کہ شہادتِ حق عملی طور پر بھی ادا ہو۔ جماعت نے اپنے ارکان کے لیے لازم کیا کہ وہ اپنے اخلاق و معاملات اور تمام اعمال وافعال میں باوقار اور روشن کردار کا مظاہرہ کریں، جو لوگوں کے سامنے اسلام کی بولتی دلیل قرار پائے۔ انھیں جب ان کی دکانوںاور بازاروں میں دیکھا جائے، ان سے کوئی معاملہ کیا جائے، یا مدارس و مجالس میں ان کو آزمایا اور پرکھا جائے، تو ان کا کردار نکھر کر سامنے آجائے۔ انھیں دیکھنے والے کہہ اٹھیں کہ دین جب اپنا پھل دیتا ہے تو اپنے معاملات میں ان جیسے صادقین و صالحین وجود میں آتے ہیں۔ یقینا اس طرح کے کردار پیدا کرنے والا اور ہر دور میں اس طرح کا معاشرہ قائم کرنے والا اللہ کا دین ہی ہو سکتا ہے۔
اسی لیے جماعت نے اپنے ارکان کی تربیت اور اسلامی آداب و اخلاق فاضلہ پر ان کو تیار کرنے کا بہت زیادہ اہتمام کیا۔ اس کے لیے مختلف اور مفید طریقے اور سرگرمیاں اختیار کی گئیں۔ ان میں سے ایک سرگرمی یہ تھی کہ جماعت نے انسانی آبادی اور شہری ہنگامے سے دُور ایک مقام پٹھان کوٹ، مشرقی پنجاب میں اپنا مرکز قائم کیا۔ جماعت نے یہاں ایک چھوٹی سی بستی بھی بسائی جہاں اس کے دفتری ارکان و کارکنان اور قائدین و ذمہ داران قیام پذیر تھے۔ اس بستی کا نام ’دارالاسلام‘ رکھا گیا۔
ارکان جماعت، اس کے معاونین اور اس دعوت کے متاثرین ملک کے ہر کونے گوشے سے آتے اور ایک عرصہ یہاں گزارتے۔ وہ یہاں امیر جماعت اوران کے دیگر ساتھیوں سے علم و عمل کا درس لیتے، دعوت و ارشاد کے طریقوں کی تربیت پاتے۔ یہاں تک کہ جب اپنے اپنے علاقوں میں واپس جاتے تو علم و تقویٰ کی دولت سے لیس ہوتے، علم و فکر سے سرشار ہوتے اور اللہ کی راہ میں دعوت و جہاد کی راہوں کے متلاشی رہتے۔
یوں جماعت اپنے اس طریق کار پر گامزن رہی، جو اس نے اپنے لیے طے کیا تھا۔ تسلسل کے ساتھ اس پر قائم رہی، نہایت وقار کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھی کہ کوئی روکنے والا اس کو روک سکتا تھا، اور نہ یہ اظہارِ حق میں کسی ملامت کی پروا کرتے تھے ___ دعوت و تحریک کے اُمور ومسائل اسی طرح جاری و ساری تھے کہ اگست ۱۹۴۷ء میں ملک تقسیم ہو گیا اور مشرقی پنجاب میں مذہبی تقسیم کی بنیاد پر بڑا قتل عام شروع ہو گیا۔ جماعت کا مرکز چونکہ مشرقی پنجاب میں تھا،لہٰذا اس کے ارکان بھی یہاں بُری طرح اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے تھے۔ ہر جگہ سے آکر لوگ ان کے پاس پناہ لے رہے تھے۔ لیکن یہاں کے ارکان جماعت سچے مجاہدین کی طرح کھڑے رہے۔ انھوں نے کوئی کمزوری دکھائی اور نہ اپنی جگہ سے ہلے۔ اللہ تعالیٰ نے حالات کو پلٹا اور امن وسلامتی کے ساتھ لاہور پہنچنے کے لیے سبیل پیدا کی۔
یہ تھی قیامِ پاکستان تک جماعت اسلامی کی مختصر تاریخ ___ اسلام کی خالص، کامل اور جامع دعوت لے کر اُٹھنے والی جماعت کی تاریخ۔ (جاری(